قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334442 / ڈاؤنلوڈ: 6145
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا کہ انصاریوں کے سلمی بنی سلمہ بن سعد، بنی تزید بن جشم بن خزرج سے ہیں کسی اور قبیلہ سے نہیں ۔

ساتویں صدی ہجری کا نامور نسب شناس ابن قدامہ عبید بن صخر اور اس کی داستان کو مندرجہ ذیل مشہور و معروف کتابوں میں دیکھ کر متثر ہوا ہے ِ:

١۔ سیف ابن عمر کی کتاب ' ' فتوح'' ( ١٢٠ ھ تک با حیات تھا)

٢۔۔ امام المؤرخین طبری کی تاریخ ( وفات ٣١٠ ھ

٣۔ بغوی کی '' معجم الصحابہ'' ( وفات ٣١٧ ھ )

٤۔ ابن قانع کی '' معجم الصحابہ'' (وفات ٣٥١ ھ)

٥۔ اسحاق بن مندہ کی '' اسماء الصحابہ'' ( وفات ٣٩٥ھ)

٦۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ) کی '' معرفة الصحابہ'' ابن اثیر کی روایت کے مطابق '' اسد الغابہ' ' میں ۔

٧۔ ابن عبدا لبر ( وفات ٤٦٣ ھ کی '' استیعاب'' میں

٨۔ ابن مندہ ( وفات ٤٧٠ ھ) کی '' التاریخ المستخرج من الحدیث''

٩۔آخر میں ابن قدامہ ( وفات ٦٢٠ ھ ) کی '' نسب الصحابہ من الانصار '' ۔ابن قدامہ نے مذکورہ کتابوں کے علاوہ ان جیسی دیگر کتابوں میں عبید کا نام دیکھا ہے اور یہ تصور کیا ہے کہ عبید رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا صحابی تھا۔اسی لئے اس کے نام کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔

لیکن اس نے اور مذکورہ دوسرے دانشوروں نے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ ان تمام روایتوں کا ماخذ صرف سیف بن عمر ہے جو کہ دروغ سازی اور زندیقی ہونے کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

عبید بن صخر کو اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالنے والے تمام علماء نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے زمرے میں قرار دیا ہے ۔لیکن ان حجر کے بقول ابن سکن ( وفات ٣٥٣ ھ) کا کہنا ہے: کہ

۱۰۱

لوگ کہتے ہیں : وہ ۔۔ عبید۔۔ اصحاب میں سے ہے ۔ لیکن اس کی حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں ۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ ابن سکن اس صحابی اور اس کی حدیث کے بارے میں مشکوک تھا لیکن اس نے اپنے شک و شبہہ کے سبب کا اظہار نہیں کیا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ ابن حجر بھی اس صحابی کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوا ہے شاید اسی لئے اس نے اپنی بات کے اختتام پر اس کے بارے میں '' ز'' کی علامت لگائی ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر اس رمز سے اس وقت کام لیتا جب اس صحابی کے بارے میں دوسرے تذکرہ نویسوں جیسے ، ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' میں اور ذہبی کی '' تجرید '' میں لکھے گئے مطالب پر کچھ اضافہ کرتا یا ممکن ہے یہ غلطی عبارت نقل کرنے والے کی ہو۔

خلاصہ

ہم نے عبید بن صخر کو جس طرح اسے سیف نے خلق کیا ہے اس کی مذکورہ سات روایتوں میں پایا اور سیف نے اپنی اس تخلیق کو اس طرح پہنچوایا ہے:

١۔ عبید وہ شخص تھا جسے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے بعد اپنے گماشتے کی حیثیت سے یمن بھیجا تھا ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن اپنے کارندوں اور گماشتوں کو یمن کیلئے ممور فرماتے ہوئے تاکید فرمائی ہے کہ اپنے امور میں زیادہ تر قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور

٣۔ تیس گائے کیلئے حد نصاب گائے کے ایک سالہ ایک بچھڑے کو تعیین فرمایا ہے و...

٤۔ اور معاذ بن جبل کو اس کے ہمراہ اہالی یمن اور حضرموت کیلئے معلم معین فرماکر فرمایا: میں نے تحفہ و تحائف تمہارے لئے حلال کردیے ہیں ۔ اور معاذ تیس جانوروں کو لئے مدینہ لوٹا ، جو اسے تحفہ کے طور پر ملے تھے۔

٥۔ یہاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: وہ قیامت کے دن اس حالت میں اٹھے گا کہ اس کا مقام تمام علماء اور محققین سے بلند ہوگا۔

٦۔ جھوٹی پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے '' اسود'' نے پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کو لکھا کہ ہماری جن سرزمینوں پر قابض ہوئے ہو ، انھیں واپس کردو، اس نے ایرانیوں سے جنگ کرکے انھیں شکست دی اور نتیجہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو گماشتے اور گورنر معاذ اور ابو موسی جو یمانی قحطانی تھے ، حضرموت بھاگ گئے اور باقی افراد نے یمانی گورنر طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوکر وہاں پناہ لی۔

۱۰۲

داستان عبید کے ماخذ کی پڑتال

سیف بن عمر نے مذکورہ سات احادیث کو سہل بن یوسف بن سہل سلمی سے اس نے اپنے باپ سے اور اس عبید بن صخر سے کہ سہل ، یوسف اور عبید تینوں سیف کے خیالات کی ہیں ، نقل کرکے بیان کیا ہے

اس بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے روایت کی ہے کہ عبید بن صخر یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ و گماشتہ تھا ، لیکن ہم نے اس کا نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کی فہرست میں سیف کے علاوہ اور وہ بھی افسانۂ طاہر میں ، کہیں اور نہیں دیکھا ۔ سیف نے عبید کی زبانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک حدیث نقل کی ہے جو کہ گائے کی زکات کا نصاب مقرر کرنے ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں کی راہنمائی معاذ کیلئے تحفہ لینے کو حلال قرار دینے سے مربوط ہے اس کے علاوہ اس کی زبان سے مدعی پیغمبر '' اسود'' کی بغاوت ، پیغمبر کے گماشتوں اور کارندوں کے ابو ہالہ مضری کے ہاں پناہ لینے اورارتداد کے دیگر واقعات کے بارے میں بھی ایک روایت نقل کی ہے ہمیں اس قسم کے مطالب رجال اور روات کی تشریح سے مربوط کتابوں میں کہیں بھی نہیں ملے۔

جو کچھ ہم نے سیف کے ہاں عبید بن صخر کے بارے پایا یہی تھا جس کا ہم نے ذکر کیا سیف نے ان روایتوں میں عبید کی شجاعتوں اور دلاوریوں کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اور قصیدوں ، رزمی اشعار اور میدان کارزار میں خودستائیو کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیف شجاعتوں ' پہلوانیوں ، جنگی کارناموں اور رجزخوانیوں کو پہلے مرحلہ میں صرف خاندان تمیم کیلئے اور دوسرے درجے میں مضر اور ان کے ہم پیمانوں کیلئے خلق کرتا ہے اس کے بعد کے درجے کے کردار ان کے حامیوں اور طرفداروں کیلئے مخصوص کرتا ہے تاکہ وہ سیف کے اصلی سورماؤں کیلئے مداحی اور قصیدہ خوانی کریں ، اور گرفتاری و مشکلات میں ان کے ہاں پناہ لیں اور ان کے سائے میں اطمینان اور آرام کا سانس لیں ۔ اور یہ وہی دوسرا کردار ہے جسے سیف نے اس افسانہ میں عیبد بن صخر انصاری سبائی یمانی کیلئے بیان کیا ہے ۔

۱۰۳

یہاں پر بیجا نہیں ہوگا اگر ہم یہ کہیں کہ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت دی گئی جھوٹی حدیث کے مطابق اور اس کے دعوے کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاذ بن جبل سے فرماتے ہیں '' تحفہ و تحائف کو میں نے تم پر حلال کردیا ہے ' ' یہاں تک کہ کہتا ہے : '' معاذ اپنی ماموریت کی جگہ سے تیس حیوانوں کولے کر مدینہ لوٹے ، جو انہیں تحفہ کے طور پر ملے تھے'' یہ سب اسلئے ہے کہ سیف خاندان '' بنی امیہ '' کے حکام کا دفاع کرے اور حکمرانی کے دوران ان کے نامناسب اقدام اور جبری طور پر لوگوں سے مال لینے اور رشوت ستانیوں کی معاذ کے اس افسانہ کے ذریعہ توجیہ کرے

بنی امیہ کے سرداروں کے اجبار، زبردستی اور رشوت ستانی کی توجیہ کرنے کی سیف کی کوشش اس لئے ہے کہ وہ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مقام و منزلت کا تحفظ اور ان کے افتخارات کا دفاع در حقیقت سیف کا اپنا مشن ہے ۔

۱۰۴

اکتیسواں جعلی صحابی صخر بن لوذان انصاری

یہاں تک جو کچھ ہم نے بیان کیا وہ سیف بن عمر کے صرف ایک جعلی اور خیالی صحابی عبید بن صخر کے بارے میں اس کے جھوٹ پر مبنی روایتیں تھیں ۔ لیکن بعض علماء اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور اسی سیف کے ایک جعلی صحابی کو دو شخص تصور کر بیٹھے ہیں اور ہر ایک کے حالات پر الگ الگ تشریحیں لکھی ہیں ، ملاحظہ فرمائیے:

ابو القاسم ، عبد الرحمان بن محمد بن اسحاق بن مندہ ( وفات ٤٧٠ ھ) ١ اپنی کتاب ''التاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث'' کے باب ''صاد'' میں یوں لکھتا ہے :

صخر بن لوذان ، حجاز کا رہنے والا اور عبید کا باپ ہے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے عمار کے ہمراہ مموریت پربھیجا ہے ۔ درج ذیل حدیث اس کے بیٹے عبید نے اس سے روایت کی ہے:

تعاهدو الناس بالتذکرة و الموعظة

اس کے بعد باب '' عین'' میں لکھتا ہے:

عبید بن صخر بن لوذان حجاز کا باشندہ ہے اور یوسف بن سہل انصاری نے اس سے حدیث قرآن اور

____________________

١۔ جیسا کہ کتاب ا'' العبر'' (٣ ٢٧٤) میں آیا ہے کہ ابو القاسم در اصل اصفہانی تھا ، وہ حافظِ حدیث اور بہت سی کتابوں کا مصنف تھا ، اس کے بہت سے مرید تھے اہل سنت ، مکتف خلفاء کی پیروی کرنے میں سخت متعصب انسان تھا اور خدا کے لئے جسم کا قائل تھا ، ابو القاسم نے ٨٩ سال زندگی کی ہے)

۱۰۵

کتاب کی روایت کی ہے ۔

اس طرح ابن مندہ کا پوتا ابو القاسم غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور سیف کے ایک جعلی صحابی کو دو شخص سمجھ کر اس کی ایک من گڑھت حدیث کو دو حدیث تصور کیا ہے اور انہیں اپنی کتاب میں درج کیا ہے !

یہ اس حالت میں ہے کہ سیف کا جعلی صحابی وہی عبید بن صخر لوذان ہے جس کے لئے سیف نے حدیث گڑھی ہے جو ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' اور ابن حجر کی '' اصابہ'' میں درج ہوئی ہے ، حسبِ ذیل ہے:

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتوں اور کارندوں کو یمن میں متعین کرکے فرمایا :

تعاهدوا القرآن بالمذاکرة و اتبعوا الموعظة

لیکن اس جعلی حدیث کا متن ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں تحریف ہو کر یوں ذکر ہوا ہے:

تعاهدوا الناس بالمذاکرة و اتبعوا الموعظة

اور یہی امر ابو القاسم کے غلط فہمی سے دوچار ہونے کا سبب بنا ہے اوروہ اس ایک حدیث کو دو تصور کر بیٹھا ہے ان میں سے ایک '' تعاھدوا الناس بالمذاکرہ'' کو اس کے خیال میں عبید نے اپنے باپ صخر سے نقل کیا ہے اور دوسری '' تعاھدوا القرآن بالمذاکرہ...'' جسے اس کے زعم میں یوسف بن سہل نے عبید سے قرآن و کتاب کے بارے میں نقل کیا ہے۔

یہاں پر ہم تقریباً یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان دو دانشوروں کے سیف کی ایک خیالی حدیث کو دو جاننے کا سبب یہی تھا ۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قا صر ہیں کہ کس طرح عبید کے باپ ، صخر کے بارے میں غلطی فہمی کا شکار ہو اہے اور تصور کیا ہے کہ سیف نے اس سے اس کے بیٹے عبید کے ذریعہ یہ حدیث روایت کی ہے ؟ جبکہ ہم نے گزشتہ تمام مصادر میں کہیں ایسی چیز نہیں دیکھی ۔

ہم یہ بھی کہہ دیں کہ یہدانشور اسی سلسلہ میں چند دیگر غلط فہمیوں کا بھی شکار ہوا ہے جیسے لکھتا ہے : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صخر کو عمار کے ہمراہ یمن بھیجا ، جبکہ اس قسم کا کوئی مطلب سیف کی احادیث میں نہیں آیا ہے۔

بہر حال سیف کی حدیث کو غلط پڑھنا اس امر کا سبب بنا ہے کہ سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں '' صخر بن لوذان'' نامی ایک اور صحابی کا اضافہ ہوجائے اور اس کے جعلی صحابیوں کی تعداد بڑھ جائے۔

۱۰۶

سیف کی احادیث کا نتیجہ

١۔ انصار میں سے دو صحابیوں کی تخلیق جن کے حالات کی تشریح اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط کتابوں میں آئی ہے ۔ ان میں سے ایک کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ اور کارندہ بننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی

٢۔ آداب و احکام کے سلسلے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک حدیث۔

٣۔ ارتداد کی جنگوں کے بارے میں ایک خبر۔

یہ سب چیزیں اس سیف کی احادیث کے وجود کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں جو وہ زندیقی ہونے کا ملزم بھی ہے۔

٤۔ حجاز کے باشندوں میں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے چند راویوں کی تخلیق ، جن کے حالات پر علم رجال کی کتابوں میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

سیف نے کن سے روایت کی؟

گزشتہ روایات کو سیف نے چند خیالی راویوں سے نقل کیا ہے۔

١۔ سہل بن یوسف بن سہل سلمی اور ایسا ظاہر کیا ہے کہ اس سہل نے اپنے باپ یوسف سے روایت کی ہے۔

٢۔ یوسف بن سہل سلمی' کہ اس یوسف نے خود داستان کے کردار عبید سے روایت کی ہے۔

٣۔ عبید بن صخر بن لوذان سلمی' کہ یہ تینوں راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

۱۰۷

اس جھوٹ کو پھیلانے کے منابع:

ہم نے اس بحث کے دوران عبید کی روایت کو سیف سے نقل کرنے و الے آٹھ منابع کا ذکر کیا ہے ۔ باقی مصادر حسبِ ذیل ہیں :

٩۔ ابن سکن ( وفات ٣٥٣ ھ) ابن حجر کی روایت کے مطابق اس نے اپنی کتاب '' حروف الصحابہ'' میں ذکر کیا ہے ۔

١٠۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ ) نے '' اسد الغابہ '' میں ۔

١١۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ) نے اپنی ان کتابوں میں :

الف) '' تجرید اسماء الصحابہ''

ب) '' سیر اعلام النبلائ''

١٢۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ) نے '' اصابہ '' میں ۔

مصادر و مآخذ

عبید بن صخر کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی استیعاب ( ٢ ٤٠٨)

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٣ ٣٥١)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٨٥٢)

٤۔ تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢)

٥۔ ابن قانع کی '' معجم الصحابہ'' اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ حضرت امیر المؤمنین نجف اشرف میں موجود ہے ۔ ورقۂ ١٠٧ ب

٦۔ ابن مندہ کی '' تاریخ مستخرج '' ( ص ١٥٢)

٧۔ ''نسب الصحابہ من الانصار'' از ابن قدامہ (١٨٢ اور ٣٥٠)

۱۰۸

بنی سلمہ کا نسب

١۔ ابن حزم کی'' جمہرة انساب'' ( ٣٥٨۔ ٣٦١)

٢۔ '' اللباب '' لفظ '' سلمی'' ( ١ ٥٥٤)

قبیلۂ اوس میں بنی لوذان کا نسب

١۔ ابن حزم کی '' جمہرہ'' صفحات ( ٣٣٢ ، ٣٣٧، ٧٤٠) اور( ٣٥٣، ٣٦٢، ٣٦٣، ٣٥٦)

اسود عنسی کی داستان اور عبید بن صخر کی بات

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٨٥٣، و ١٨٦٨)

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ'' عبید کے حالات کے ضمن میں ۔

اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ '' عارف افندی ' مدینۂ منورہ میں موجود ہے۔

معاذ بن جبل کے حالات

١۔ بغوی کی ''معجم الصحابہ'' ( ٢١ ١٠٦ ) اس کتاب کا ایک نسخہ کتاب خانۂ آیت اللہ مرعشی نجفی ، قم میں موجود ہے۔

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٣ ٤٠٦)

٣۔ ذہبی کی '' سیر اعلام النبلائ'' ( ١ ٣١٨ ۔ ٣٢٥)

صخر بن لوذان کے حالات :

١۔ تاریخ المستخرج '' تالیف ابو القاسم عبد الرحمان بن اسحاق بن مندہ، ورقہ ١٤٠۔

۱۰۹

بتیسواں جعلی صحابی عکاشہ بن ثور الغوثی

عکاشہ ، یمن میں ایک کارگزار کی حیثیت سے :

طبری ، مدعی پیغمبری '' اسود '' کی داستان اور ١١ھ کے واقعات کے ضمن میں سیف بن عمرسے نقل کرکے لکھتا ہے :

١٠ ھ میں جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فریضہ حج ( وہی حجة الوداع' انجام دیا ، تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ ''باذام '' نے یمن میں وفات پائی ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی مموریت کے علاقہ کو حسبِ ذیل چند اصحاب میں تقسیم فرمایا:

اس کے بعد طبری، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یمن کیلئے مموریت پر بھیجے گئے اشخاص میں طاہر ابو ہالہ جسے سیف نے حضرت خدیجہ کا بیٹا اور رسول اللہ کاپروردہ بتایا ہے کا نام لے کر کہتا ہے:

اور زیاد بن لبید بیاضی کوحضرموت پر اور عکاشہ بن ثور بن اصغرغوثی کو سکاسک و سکون اور بنی معاویہ بن کندہ پر ممور فرمایا.... ( تا آخر)طبری نے ، اس روایت کے بعد ایک دوسری روایت میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ لوٹے اور یمن کی حکومت کو چند سر کردہ اصحاب کے درمیان تقسیم فرمایا اور ان میں سے ہر ایک کی مموریت کے حدود کو معین فرمایا۔

(یہاں تک کہ لکھتا ہے :)

عک اور اشعریین پر طاہر ابو ہالہ کو معین فرمایا اور حضرموت کے اطراف جیسے ، سکاسک و سکون پر عکاشہ بن ثور کو ممور فرمایا اور بنی معاویہ بن کندہ پر عبد اللہ ١ یا مہاجر کونامزد فرمایا۔ لیکن مہاجر بیمار ہوگیا اور مموریت کی جگہ پر نہ جا سکا مگر، صحت یاب ہونے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی رحلت کے بعد ابوبکر نے اسے مموریت پر بھیجا۔ عکاشہ ٢ اور دیگر لوگ اپنی مموریت کی طرف روانہ ہوئے۔

حضرموت پر زیا بن لبید کو ممور فرمایا گیا اور وہ مہاجر کی عدم موجودگی میں اس کی مسئولیت کو بھی نبھاتا رہا۔

یہ لوگ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت تک یمن اور حضرموت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارگزار تھے۔ طبری نے ایک اور روایت میں عبید بن صخر۔ سیف کے افسانہ کے مطابق جو خود بھی یمن میں رسول

___________________

١۔ یہاں پر عبد اللہ سے سیف کی مراد عبد اللہ بن ثور ہے جو اس کا اپنا خلق کردہ ہے ، تعجب کی بات ہے کہ سیف اپنے جھوٹ کو پیش کرنے میں اس طرح احتیاط و تقدس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: مجھے نہیں معلوم یہ عبد اللہ تھا یا مہاجر !! تا کہ اس کا جھوٹ حق کی جگہ لے لے اور دلوں کو آرام ملے۔

٢۔اصل میں '' محصن '' لکھا گیا ہے جو غلط ہے ، کیونکہ عکاشہ بن محصن مدینہ میں تھا اور اس نے خالد کی فوج میں ہر اول دستے کے طور پر طلیحہ سے جنگ میں شرکت کی ہے اور اس کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اس مطلب کو سیف اور دوسروں نے ذکر کیا ہے لیکن جو کچھ یمن میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارگزاروں کے بارے اور حضرموت میں ارتداد کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں میں آیا ہے وہ '' عکاشہ بن ثور'' سے مربوط ہے۔

۱۱۰

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارگزارتھا۔ سے نقل کرکے لکھا ہے :

جب ہم اس علاقہ ۔۔ مموریت کی جگہ۔۔ کو شائستہ طریقے پر چلا رہے تھے ، ہمیں پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے اسود کا ایک خط ملا، اس میں لکھا تھا۔

اے لوگو! جو ناخواستہ ہم پر مسلط ہوئے ہو ! اورہماری ملکیت میں داخل ہوئے ہو جو کچھ ہماری سرزمین سے لوٹ چکے ہو' اسے ایک جگہ ہمارے لئے جمع کردو، ہم تمہاری نسبت اس پر تصرف کرنے کے زیادہ سزاوار ہیں ( یہاں تک لج کہتا ہے:)

ہمیں خبر ملی کہ اسود نے صنعا پر قبضہ کیاکر لیا ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام کارگزار وہاں سے بھاگ گئے ہیں اور باقی امراء اور حاکم طاہر ابو ہالہ کے ہاں جا کر پناہ لے چکے ہیں ۔

طبری حضرموت کے باشندوں کے مرتد ہونے کے بارے میں ١١ ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھتا ہے :

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت حضرموت اور دیگر شہروں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارگزار حسبِ ذیل تھے:

زیاد بن لبید بیاضی، حضرموت پر ، عکاشہ بن ثور سکاسک و سکون پر اور مہاجر کندہ پر ، مہاجر اسی طرح مدینہ میں رہا اور جائے مموریت پر نہ گیا یہاں تک کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائی۔ اس کے بعد ابو بکر نے اسے باغیوں سے نمٹنے کیلئے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ بغاوت کو کچلنے کے بعد اپنی مموریت کی جگہ پر جائے۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد طبری ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجربن ابی امیہ کو کندہ کیلئے ممور فرمایا لیکن مہاجر بیمار ہو گیا اور مموریت کی جگہ پر نہ جا سکا ، لہذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زیاد کے نام ایک خط لکھا تا کہ مہاجر کے فرائض نبھائے ۔

مہاجر کے صحت یاب ہونے کے بعد ، ابو بکر نے اس کی مموریت کی تائید کی اور حکم دیا کہ پہلے نجران کے باغیوں سے نپٹنے کیلئے یمن کے دور دراز علاقوں تک جائے ۔ یہی وجہ تھی کہ زیاد بن ولید اور عکاشہ نے کندہ کی لڑائی میں مہاجر کے آنے تک تاخیر کی۔

۱۱۱

تینتیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن ثور الغوثی

عبد اﷲ ثور ، ابوبکر کا کارگزار

طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے طاہر ابو ہالہ کی داستان میں لکھا ہے :

اس سے پہلے ابو بکر نے '' عبد اللہ بن ثور بن اصغر '' کو فرمان جاری کیا تھا کہ اعراب اور تہامہ کے لوگوں میں سے جوبھی چاہے اس کی فوج میں شامل ہوسکتا ہے ، اور عبداﷲ کو تاکید کی تھی کہ ابو بکر کے حکم کے پہنچنے تک وہیں پر رکا رہے ..

سیف کہتا ہے:

جب مہاجر ابو بکر سے رخصت لے کر مموریت پر روانہ ہوا تو عبدا للہ ثور تمام سپاہیوں سمیت اس سے ملحق ہوا ( اس کے بعد کہتا ہے :)

مہاجر نجران سے '' لحجیہ'' کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں پر اسود کے بھاگے مرتد سپاہیوں نے اس سے پناہ کی درخواست کی ۔ لیکن مہاجر نے ان کی یہ درخواست منظور نہیں کی ۔

طبری اس مطلب کے ضمن میں لکھتا ہے :

مہاجر کے سوار فوجیوں کی کمانڈ عبدا ﷲ بن ثور غوثی کے ہاتھ میں تھی اخابث کے راستہ پر عبدا للہ کی ان فراریوں سے مڈ بھیڑ ہوئی ۔ اس نے ان سب کا قتل عام کیا ۔

طبری نے ان تمام روایتوں کو صراحت کے ساتھ سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اس کے بعد طبری صدقات کے امور میں ابو بکر کے کارگزاروں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :

کہتے ہیں اس کے علاوہ عبد اللہ بن ثور نے ۔۔۔ قبیلۂ غوث کے افراد میں سے ایک شخص ۔۔ کو علاقہ '' جرش'' پر مامور کیا۔

طبری نے اس حدیث کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن ابن حجر عبد اﷲ کے حالات کی تشریح میں صراحت سے کہتا ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہے۔

۱۱۲

عکاشہ اور عبد اللہ کی داستان کے مآخذ کی تحقیق

ہم نے جو روایتیں سیف سے نقل کیں ہیں ، ان میں درج ذیل جعلی راویوں کے نام دکھائی دیتے ہیں :

١۔ سہل بن یوسف، چار روایتوں میں ۔

٢۔ یوسف بن سہل ، دو روایتوں میں ۔

٣۔ اور درج ذیل سیف کے جعلی راوی میں سے ہر ایک نے ایک روایت نقل کی ہے :

٣۔ عبید بن صخر

٤۔ مستنیر بن یزید

٥۔ عرو ہ بن غزیہ

سیف کی روایتوں کا موازنہ

مذکورہ روایت ، داستانِ اخابث ( ناپاک ) اور داستان عبید بن صخر میں طاہر ابو ہالہ کی روایت کی متمم ہے اور ہم نے ان دو صحابیوں کی بحث کے دوران ثابت کیا ہے کہ خود یہ اور ان کی داستانیں جعلی اور سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

ان میں سے بعض روایات پیغمبری کے مدعی ، اسود عنسی کی داستان سے مربوط ہیں ' ہم نے کتاب '' عبد اللہ بن سبا '' کی دوسری جلد میں اس پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور وہاں پر ہم نے بتایا ہے کہ سیف نے کس طرح حقائق کو بدل کر رکھدیا ہے اور کن چیزوں میں تحریف اور تبدیلی کی ہے ۔ یہاں پر اس کی تکرار کی مجال اور گنجائش نہیں ہے ۔

ہاں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کی طرف سے ان کی نمائندگی اور کارندوں کی حیثیت سے مموریت کے بارے میں سیف کی روایت کو ہم نے تحقیق کے دوران خلیفہ بن خیاط اور ذہبی جیسے دانشوروں کے ہاں نہیں پایا اور نہ ہی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے کارگزاروں کے حالات کی تشریح لکھنے والوں کے ہاں ۔ یہ دو جعلی اصحاب کہیں دکھائی دیئے۔

۱۱۳

روایت کا نتیجہ

سیف نے عکاشہ بن ثور غوثی اور اس کے بھائی عبد اللہ بن ثور غوثی کی روایت اپنی کتاب ''فتوح '' میں درج کرکے طبری جیسے دانشور کو ١٠ ۔ ١٢ ھ کے حوادث کے ضمن میں ان ہی مطالب کو نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن خلدون اور میر خواند نے بھی ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے ۔

ابن عبد البر نے سیف کی تحریر پر اعتماد کرکے حسبِ ذیل مطالب کو اپنی کتاب '' استیعاب'' میں نقل کیا ہے :

عکاشہ بن ثور بن اصغر قرشی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے سکاسک ، سکون او ر بنی معاویۂ کندہ پر بعنوان گماشتہ اور کارندہ ممور تھا ۔ ان مطالب کو سیف نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ، اور میں ۔۔ ابن عبد البر ۔۔ اس کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں ۔

ابن اثیر نے ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' سے عین عبارت کو نقل کیا ہے اور ذہبی نے انہی مطالب کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' تجرید '' میں نقل کیا ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں یوں لکھا ہے :

عکاشہ بن ثور بن اصغر کا نام سیف نے داستان ارتداد کی ابتدا ء میں سہل بن یوسف سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبدی بن صخر بن لوذان سے نقل کرکے لکھا ہے کہ وہ سکاسک و سکون پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ تھا ۔ ابو عمر ۔۔ ابن عبد البر ۔۔نے ان مطالب کو نقل کیا ہے۔

اس طرح ان دانشوروں نے سیف کی روایت پر اعتماد کرکے عکاشہ کے حالات سند کے ذکر کے ساتھ اپنی کتابوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے حالات کی فہرست میں درج کیا کئے ہیں ۔

روایات سیف پر اس اعتماد کی بنا پر ، اس کے خیالی بھائی کے حالات کو بھی دیگر اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیا گیا ہے ۔ توجہ فرمائیے کہ ابن حجر اس سلسلے میں کہتا ہے :

۱۱۴

عبدا ﷲ بن ثور ، قبیلۂ بنی غوث کا ایک فرد ہے۔ اس کا نام سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں چندجگہوں پر ذکر کیا ہے ۔ وہ ارتداد کی جنگوں میں سپاہ اسلام کا ایک سپہ سالار تھا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر نے اس کے حق میں ایک فرمان جاری کیا کہ اعراب اور تہامہ کے باشندے اس کی اطاعت کریں اور اسی ۔۔ عبد اللہ ۔۔ کے پرچم تلے جمع ہوجائیں ۔ اور عبد اللہ وہیں پر رکا رہے جب تک اس کیلئے حکم نہ پہنچے ۔ سیف نے یہ بھی روایت کی ہے کہ وہ مہاجر بن ابی امیہ کے ہمراہ '' جرش '' کی گورنری کا عہدہ سنبھالنے کیلئے وہاں گیا اور وہاں سے صوب کی طرف کوچ کیا۔ اور ہم نے ۔۔ ابن حجر ۔۔ چند بار کہا ہے کہ ان دنوں رسم یہ تھی علاقائی حکومت یا فوجی کمانڈ کیلئے صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کو ہی منصوب کرتے تھے (ز)

ابن حجر نے جو تشریح عبد اﷲ کے بارے میں لکھی ہے اس میں یہ مطالب ظاہر ہوتے ہیں :

١۔ سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں چند جگہوں پر عبد اللہ ابن ثور کا نام ذکر کیا ہے ۔

٢۔ عبد اللہ ارتداد کی جنگوں میں سپہ سالار تھا۔

٣۔ ابو بکر نے اس کیلئے فرمان جاری کیا ہے کہ اعراب اور تہامہ میں اس کے حامی اس کے گرد جمع ہوکر حکم پہچنے تک منتظر رہیں ۔

٤۔ عبد اللہ جب '' جرش'' کے گورنر کے طور پر منصوب ہوا تو وہ مہاجر کے ہمراہ روانہ ہوا تھا۔

تمام مطالب کو طبری نے سیف کی سند کے ذکر کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

صرف عبداللہ کی گورنری' جس کی سند طبری نے ذکر نہیں کی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اس حصہ کی سند بھی سیف کے نام کی صراحت کے ساتھ ذکر کی ہے۔

۱۱۵

چونتیسواں جعلی صحابی عبید اللہ بن ثور غوثی

ایسا لگتا ہے کہ ابن حجر جیسا جلیل القدر عالم سیف کی کتاب '' فتوح '' میں عبد اللہ بن ثور کا نام پڑھتے وقت سخت غلطی کا شکا رہوا ہے اور اسے '' عبید اﷲبن ثور '' پڑھا ہے یا یہ کہ اس کے پاس موجود نسخہ میں اس نام میں یہ تبدیلی کتابت کی غلطی کی وجہ سے انجام پائی ہو۔

بہر حال خواہ یہ غلطی کتابت کی ہو یا محترم دانشور نے اسے غلط پڑھا ہو ، اصل میں جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ابن حجر نے عبید اللہ بن ثور کے حالات پر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں الگ سے روشنی ڈالی ہے اور لکھا ہے :

عکاشہ کے بھائی ، عبید اللہ بن ثور بن اصغر عرنی کے بارے میں سیف نے کہا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عکاشہ کو سکاسک اور سکون کیلئے اپنا گماشتہ مقرر فرمایا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ابو بکر نے اس کے بھائی عبید اللہ کو یمن کی حکمرانی پر منصوب کیا ۔

ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ ان دنوں رسم یہ تھیکہ صرف صحابی کو حکومت اور سپہ سالاری پر منصوب کیا جاتا تھا ۔(ز)

ابن حجر کی اس بات '' اس سے پہلے بھی ہم نے کہا ہے کہ اس زمانے میں یہ رسم....'' پر انشاء اللہ ہم اگلی بحثوں میں وضاحت کریں گے ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک کہا وہ ثور کے تین بیٹوں کی داستان تھی جسے ہم نے تاریخ کی عام کتابوں اور رجال اور اصحاب کے حالات پر لکھی گئی کتابوں سے حاصل کیا ہے ۔

لیکن جس چیز کو آپ ذیل میں مشاہدہ کررہے ہیں وہ سیف کے ان تین جعلی اصحاب کے بارے میں انساب کی کتابو ں میں درج ذیل مطالب ہیں :

۱۱۶

مذکورہ تین اصحاب کا نسب

تاریخ طبری میں ، سیف کی روایتوں کے مطابق ان تین '' غوثی '' صحابیوں کا شجرۂ نسب درج ہوا ہے ۔ لیکن '' استیعاب '' میں غلطی سے '' قرشی '' ، ' اسد الغابہ'' اور '' تجرید ' میں '' غرثی '' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں ''' عرنی '' ثبت ہوا ہے ۔

یہ اس حالت میں ہے کہ ہم نے ان نسب شناس علماء کے ہاں '' عکاشہ '' اور '' عبید اللہ '' کا نام نہیں پایا، جنہوں نے بنی غوث بن طے کے بارے میں تفصیلات لکھی ہیں ۔ جیسے ابن حزم نے اپنی کتاب'' جمہرہ '' میں اور ابن درید نے '' اشتقاق '' میں اور اس طرح کی دوسری کتابوں کا بھی ہم نے مطالعہ کیا لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی اس سلسلے میں درج ذیل مطالب کے علاوہ کچھ نہیں پایا:

ابن ماکو لا اپنی کتاب '' اکمال '' میں لفظ ' غوثی'' کے بارے میں لکھتا ہے :

عکاشہ بن ثور بن غوثی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سکاسک ، سکون اور معاویہ بن کندہ کیلئے ممور فرمایا تھا اور ابو بکر صدیق نے اس کے بھائی عبد اللہ بن ثور اصغر کو یمن کا حاکم منصوب کیا تھا۔

سمعانی نے بھی لفظ '' غوثی'' کے بارے میں اپنی کتاب انساب میں لکھا ہے :

'' غوثی '' در حقیقت غوث کی طرف نسبت ہے ۔ اس قبیلہ کے سرکردہ صحابیوں میں عکاشہ بن ثور بن اصغر غوثی ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سکاسک ،سکون اور معاویہ بن کندہ کا حاکم مقرر فرمایا تھا۔

ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے اس کی عبارت کو من عن اپنی کتاب '' لباب الانساب ''۔۔ جو سمعانی کی کتاب '' انساب '' کا خلاصہ ہے ۔۔ میں ثبت کیا ہے اور اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے۔

ا بن حجر بھی اپنی دوسری کتاب '' تحر یر المشتبہ '' میں لکھتا ہے :

عکاشہ بن ثور غوثی اصحاب میں سے تھا

۱۱۷

فیروزآبادی نے اپنی کتاب '' قاموس '' میں لفظ '' عکش '' میں یوں لکھا ہے:

عکاشہ الغوثی ، ابن ثور اور ابن محصن تینوں اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ۔

زبیدی بھی اپنی کتاب شرح '' تاج العروس '' میں لکھتا ہے :

جیسا کہ کہا گیا ہے عکاشہ بن ثوربن اصغر غوثی ، سکاسک میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارگزار تھا۔

مختلف عرب قبائل کے نسب شناس علماء میں سے کسی ایک نے اب تک کسی کو غوثی کے طور پر متعارف نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ بنی غث کے سرکردہ افراد بنی غث بن طی '' طائی'' کے نام سے مشہور ہیں نہ غوثی ۔ جیسے حاتم طائی اور اس کا بیٹا عدی طائی ۔ اسی لئے سمعانی لکھتا ہے ١

____________________

١۔عکاشہ بن ثور ، سمعانی کے زمانے میں '' غوثی'' کے نام سے مشہور تھا کیونکہ اس سے پہلے عکاشہ کا نام اسی انتساب سے سیف کی کتاب '' فتوح'' میں آیا ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے بعد رجال و اصحاب کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں میں ، جنہوں نے اس کے حالات سیف سے نقل کئے ہیں ، غوثی کا نام آیا ہے ، جیسا کہ '' تاریخ طبری '' ، ابن عبد البر کی '' استیعاب '' اور ابن ماکولا کی ''اکمال' ' میں درج ہوا ہے ۔

۱۱۸

'' غوثی '' عکاشہ اس انتساب سے مشہور ہے ۔

ابن اثیر کو اس مطلب کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ملی اس لئے اسی کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' لباب '' میں لکھا ہے ۔

''جو کچھ ذہبی کی '' تحریر المشتبہ '' میں آیا ہے حسب ذیل ہے :

' ' الغوثی ۔ ابو الھیثم ، احمد بن محمد بن غوث ، حافظ ابو نعیم کا مرشد اور استاد تھا''

اور معلوم ہے کہ یہ غوث انساب عرب میں سے ہمارا مورد بحث نسب نہیں ہے۔

خلاصہ :

سیف نے عکاشہ بن ثور بن اصغر غوثی کو بنی غوث سے خلق کیا ہے اور لفظ '' غوثی'' سے '' قرشی'' ، '' غرثی'' ، '' عرنی '' لکھا گیا ہے اور تاریخ طبری کے بعض نسخوں میں ' بنی غوث ' تغیر کرکے '' بنی یغوث'' درج ہوا ہے ۔

سیف ، عکاشہ کے بارے میں کہتا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ حجة الوداع سے واپسی پر اسے سکاسک اور سکون کی مموریت عطا فرمائی تھی اور ابوبکر کی خلافت تک عکاشہ وہیں پر تھا۔

سیف نے عکاشہ کیلئے ایک بھائی خلق کرکے اس کا نام عبدا للہ بن ثور رکھا ہے ۔ اور کہا ہے کہ ارتداد کی جنگوں میں ابو بکر نے اس کے نام ایک فرمان جاری کیا کہ افراد کو اپنی مدد کیلئے آمادہ کرکے حکم کا انتظار کرے۔

جب مہاجربن ابی امیہ ، مرتدوں سے لڑنے کیلئے روانہ ہوتا ہے ، تو اسود کے قتل ہونے کے بعد عبدا للہ ، مہاجر کی فوج کے سواروں کا کمانڈر مقرر ہوتا ہے اور اسود کے تتر بتر ہوئے مرتد فراری فوجیوں سے اس کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے ، اس جنگ میں وہ ان سب کا قتل عام کر تا ہے اس کے بعد ابو بکر ایک فرمان کے ذریعہ '' جرش'' کا حاکم مقر ہوتا ہے ۔

ابن حجر اس عبدا للہ کے نام کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے اور اپنی کتاب میں دو شرحیں لکھتا ہے ، ایک اسی عبدا للہ کیلئے اور دوسری '' عبید اللہ '' کے نام سے۔

۱۱۹

سیف نے ان تین یا دو بھائیوں کو سبائی یمانیوں سے خلق کیا ہے تا کہ دوسرے درجے کا رول یعنی قبیلہ مضر کے سرداروں کی اطاعت اور فرمانبرداری انھیں سونپے ۔

توجہ فرمائیے!

یہ عبد اللہ بن ثور ہے جو قریش کے ایک معروف شخص '' مہاجربن ابی امیہ'' کے پیچھے پڑتا ہے، اسی طرح اس کا بھائی عکاشہ بھی ، پروردۂ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور خاندان تمیم کے ایک نامور شخص یعنی طاہر ابو ہالہ ، کے ہاں پناہ لیتا ہے۔

سیف ، مضر کے سرداروں اور شجاعوں کیلئے حامی اور طرفدار خلق کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ لیکن اس کیلئے ہرگز یہ چیز اہمیت نہیں رکھتی کہ یہ لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کی سعادت حاصل کرکے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے کے طور پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور ہوں یا نہ! بلکہ سیف کی نظر میں سرفرازی اور افتخار اس میں ہے کہ ان کے ہاتھوں دنیا کو تباہ و برباد کرکے زندگیوں کا خاتمہ اور بستیوں کو آگ لگوادے اور ان سب گستاخیوں کے بعد اپنے آتشین قصیدوں میں فخر و مباہات کے نغمے گائے اور دنیا کو جوش و خروش سے بھر دے تا کہ اس طرح اس کے خلق کئے ہوئے یہ مجد و افتخارات تاریخ میں ثبت ہوجائیں اور رہتی دنیا تک باقی رہیں ۔

سیف کی کوشش یہ ہے کہ خاندان مضر کیلئے بیہودہ اور بے بنیاد معجزے اور کرامتیں خلق کرے تا کہ مناقب لکھنے والے قصہ گو و جد میں آئیں اور اسلام کے دشمن مسلمانوں کا مذاق اڑائیں ۔

سیف بن عمر نے جو ذمہ داری عبید بن صخر بن لوذان قحطانی یمانی عکاشہ بن ثور یمانی پر ڈالی ہے یہی چیزیں تھیں ۔ سیف نے ان کیلئے قبیلہ مضر کے سرداروں کی اطاعت اور خدمت گزاری معین کرکے مذکورہ قبیلہ کیلئے بہادریاں اور کرامتیں خلق کی ہیں ۔

اصحابِ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والے علماء نے عکاشہ ، عبدا للہ اور عبید اللہ کا نام سیف کی روایتوں سے لیا ہے اور ان کے نسب اور داستانین بھی اس کی روایتوں سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کی ہیں ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

ہوگيا كہ مسلمانوں كى جمعيت يہى ہے جسے وہ ديكھ رہے ہيں _

دوسرى طرف جيسا كہ ہم نے كہا ہے مسلمانوں كاايك گروہ وحشت وخوف ميں غرق تھا اس كا اصرار تھا كہ اتنى بڑى فوج جس سے مسلمانوں كا كوئي موازنہ نہيں ، خلاف مصلحت ہے، ليكن پيغمبر اسلام (ص) نے خدا كے وعدہ سے انہيں جوش دلايا اور انہيں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمايا :كہ خدا نے مجھ سے وعدہ كيا ہے كہ دوگرو ہوں ميں سے ايك پر تمہيں كا ميابى حاصل ہوگى قريش كے قافلہ پر يا لشكر قريش پراور خداكے وعدہ كے خلاف نہيں ہوسكتا _

خدا كى قسم ابوجہل اور كئي سرداران قريش كے لوگوں كى قتل گاہ كو گويا ميں اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہوں _

اس كے بعد آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ بدر كے كنوئيں كے قريب پڑا ئو ڈاليں _

رسول اللہ (ص) نے پہلے سے خواب ميں اس جنگ كا منظر ديكھا تھا، آپ نے د يكھا كہ دشمن كى ايك قليل سى تعداد مسلمانوں كے مقابلہ ميں آئي ہے، يہ در اصل كاميابى كى ايك بشارت تھى آپ نے بعينہ يہ خواب مسلمانوں كے سامنے بيان كرديا، يہ بات مسلمانوں كے ميدان بدر كى طرف پيش روى كے لئے ان كے جذبہ اور عزم كى تقويت كا باعث بني_

البتہ پيغمبر اكرم (ص) نے يہ خواب صحيح ديكھا تھا كيونكہ دشمن كى قوت اور تعداد اگرچہ ظاہراً بہت زيادہ تھى ليكن باطناً كم، ضعيف اور ناتواں تھي، ہم جانتے ہيں كہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبير كا پہلو ركھتے ہيں ، اور ايك صحيح خواب ميں كسى مسئلے كا باطنى چہرہ آشكار ہوتا ہے_

قريش كا ايك ہزار كا لشكر

اس ہنگامے ميں ابوسفيان اپنا قافلہ خطرے كے علاقے سے نكال لے گيا _اصل راستے سے ہٹ كردريائے احمر كے ساحل كى طرف سے وہ تيزى سے مكہ پہنچ گيا _ اس كے ايك قاصدكے ذريعے لشكر كو پيغام

۵۲۱

بھيجا:

خدانے تمہارا قافلہ بچاليا ہے ميرا خيال ہے كہ ان حالات ميں محمد كامقابلہ كرنا ضرورى نہيں كيونكہ اس كے اتنے دشمن ہيں جو اس كا حساب چكاليں گے _

لشكر كے كمانڈرابوجہل نے اس تجويز كو قبول نہ كيا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزى كى قسم كھائي كہ نہ صرف ان كا مقابلہ كريں گے بلكہ مدينہ كے اندر تك ان كا تعاقب كريں گے يا انہيں قيدكرليں گے اور مكہ ميں لے آئيں گے تاكہ اس كاميابى كا شہرہ تمام قبائل عرب كے كانوں تك پہنچ جائے _ آخر كارلشكر قريش بھى مقام بدر تك آپہنچا، انہوں نے اپنے غلام كوپانى لانے كے لئے كنويں كى طرف بھيجے ،اصحاب پيغمبر نے انہيں پكڑليا اور ان سے حالات معلوم كرنے كے لئے انہيں خدمت پيغمبر (ص) ميں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم كون ہو ؟ انہوں نے كہا : ہم قريش كے غلام ہيں ، فرمايا: لشكر كى تعداد كيا ہے ؟ انہوں نے كہا : ہميں اس كا پتہ نہيں ، فرمايا : ہرروز كتنے اونٹ كھانے كے لئے نحركرتے ہيں ؟ انہوں نے كہا : نو سے دس تك، فرمايا: ان كى تعداد ۹/ سوسے لے كر ايك ہزار تك ہے (ايك اونٹ ايك سو فوجى جوانوں كى خواراك ہے ) _

ماحول پُر ہيبت اور وحشت ناك تھا لشكر قريش كے پاس فراواں جنگى سازوسامان تھا _ يہاں تك كہ حوصلہ بڑھانے كے لئے وہ گانے بجانے والى عورتوں كو بھى ساتھ لائے تھے _ اپنے سامنے ايسے حريف كو ديكھ رہے تھے كہ انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ ان حالات ميں وہ ميدان جنگ ميں قدم ركھے گا_

مسلمانو! فرشتے تمہارى مدد كريں گے

پيغمبر اكرم (ص) ديكھ رہے تھے كہ ممكن ہے آپ كے اصحاب خوف ووحشت كى وجہ سے رات ميں آرام سے سونہ سكيں اور پھر كل دن كو تھكے ہوئے جسم اور روح كے ساتھ دشمن كے مقابل ہوں لہذا خدا كے وعدے كے مطابق ان سے فرمايا:

تمہارى تعداد كم ہوتو اس كا غم نہ كر، آسمانى فرشتوں كى ايك عظيم جماعت تمہارى مدد كے لئے آئے گي، آپ نے انہيں خدائي وعدے كے مطابق اگلے روز فتح كى پورى تسلى دے كر مطمئن كرديا اور وہ رات

۵۲۲

آرام سے سوگئے_

دوسرى مشكل جس سے مجاہدين كو پريشانى تھى وہ ميدان بدر كى كيفيت تھى ،ان كى طرف زمين نرم تھى اور اس ميں پائوں دھنس جاتے تھے اسى رات يہ ہوا كہ خوب بارش ہوئي ،اس كے پانى سے مجاہدين نے وضو كيا ، غسل كيا اور تازہ دم ہوگئے ان كے نيچے كى زمين بھى اس سے سخت ہوگئي ،تعجب كى بات يہ ہے كہ دشمن كى طرف اتنى زيادہ بارش ہوئي كہ وہ پريشان ہوگئے _

دشمن كے لشكر گاہ سے مسلمان جاسوسوں كى طرف سے ايك نئي خبر موصول ہوئي اور جلد ہى مسلمانوں ميں پھيل گئي ، خبريہ تھى كہ فوج قريش اپنے ان تمام وسائل كے باوجود خو فزدہ ہے گويا وحشت كا ايك لشكر خدا نے ان كے دلوں كى سرزمين پر اتار ديا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامى لشكر بڑے ولولے كے ساتھ دشمن كے سامنے صف آراء ہوا، پيغمبر اكرم (ص) نے پہلے انہيں صلح كى تجويز پيش كى تاكہ عذر اور بہانہ باقى نہ رہے، آپ نے ايك نمائندے كے ہاتھ پيغام بھيجا كہ ميں نہيں چاہتا كہ تم وہ پہلا گروہ بن جائو كہ جس پر ہم حملہ آور ہوں ، بعض سردار ان قريش چاہتے تھے يہ صلح كا ہاتھ جوان كى طرف بڑھايا گيا ہے اسے تھام ليں اور صلح كرليں ، ليكن پھر ابوجہل مانع ہوا_

ستر قتل ستر اسير

آخركار جنگ شروع ہوئي ،اس زمانے كے طريقے كے مطابق پہلے ايك كے مقابلے ميں ايك نكلا ،ادھر لشكر اسلام ميں رسول اللہ (ص) كے چچا حمزہ اور حضرت على عليہ السلام جوجو ان ترين افراد تھے ميدان ميں نكلے، مجاہدين اسلام ميں سے چند اور بہادر بھى اس جنگ ميں شريك ہوئے ،ان جوانوں نے اپنے حريفوں كے پيكر پر سخت ضربيں لگائيں اور كارى وار كئے اور ان كے قدم اكھاڑديئے ،دشمن كا جذبہ اور كمزور پڑگيا ،يہ ديكھا تو ابوجہل نے عمومى حملے كا حكم دے ديا _

ابوجہل پہلے ہى حكم دے چكا تھا كہ اصحاب پيغمبر (ص) ميں سے جو اہل مدينہ ميں سے ہيں انہيں قتل

۵۲۳

كردو ، مہاجرين مكہ كو اسير كرلو مقصديہ تھا كہ ايك طرح كے پر وپيگنڈا كے لئے انہيں مكہ لے جائيں _

يہ لمحات بڑے حساس تھے، رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ جمعيت كى كثرت پر نظر نہ كريں اور صرف اپنے مد مقابل پر نگاہ ركھيں دانتوں كو ايك دوسرے پرركھ كر پيسيں ، باتيں كم كريں ، خدا سے مدد طلب كريں ، حكم پيغمبر سے كہيں رتى بھر سرتابى نہ كريں اور مكمل كاميابى كى اميد ركھيں ، رسول اللہ (ص) نے دست دعا آسمان كى طرف بلند كئے اور عرض كيا : ''پالنے والے اگر يہ لوگ قتل ہوگئے تو پھر تيرى عبادت كوئي نہيں كرے گا''_

دشمن كے لشكر كى سمت ميں سخت ہوا چل رہى تھى اور مسلمان ہوا كى طرف پشت كركے ان پر حملے كررہے تھے _ ان كى استقامت ، پامردى اور دلاورى نے قريش كا ناطقہ بندكرديا ابوجہل سميت دشمن كے ستر آدمى قتل ہوگئے ان كى لاشيں خاك وخون ميں غلطاں پڑى تھيں سترا فراد مسلمانوں كے ہاتھوں قيد ہوگئے مسلمانوں كے بہت كم افراد شہيد ہوئے_

اس طرح مسلمانوں كى پہلى مسلح جنگ طاقتور دشمن كے خلاف غير متوقع كاميابى كے ساتھ اختتام پذيزر ہوئي _

جنگ بدر ميں مسلمانوں كى تعداد تين سو تيرہ تھي، ان ميں ۷۷/ مہاجر تھے اور دوسو چھتيس (۲۳۶) انصار، مہاجرين كا پرچم حضرت على عليہ السلام كے ہاتھ ميں تھا، اور انصار كا پرچم بردار'' سعد بن عبادہ'' تھے، اس عظيم معركہ كے لئے ان كے پاس صرف ۷۰ /اونٹ دو گھوڑے، ۶/زرہيں اور آٹھ تلواريں تھيں ، دوسرى طرف دشمن كى فوج ہزار افراد سے متجاوز تھي، اس كے پاس كافى ووافى اسلحہ تھا اور ايك سو گھوڑے تھے، اس جنگ۲۲/ مسلمان شہيد ہوئے ان ميں چودہ مہاجر او ر۸/ انصار تھے، دشمن كے ستر(۷۰) افراد مارے گئے اور ستر ہى قيدى ہوئے، اس طرح مسلمانوں كو فتح نصيب ہوئي اور يوں مكمل كامرانى كے ساتھ وہ مدينہ كى طرف پلٹ گئے_

واقعاً يہ عجيب و غريب بات تھى كہ تواريخ كے مطابق مسلمانوں كے چھوٹے سے لشكر كے مقابلہ ميں

۵۲۴

قريش كى طاقتور فوج نفسياتى طور پر اس قدر شكست خودرہ ہوچكى تھى كہ ان ميں سے ايك گروہ مسلمانوں سے جنگ كرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل ميں سوچتے كہ يہ عام انسان نہيں ہيں ، بعض كہتے ہيں كہ يہ موت كو اپنے اونٹوں پر لادكر مدينہ سے تمہارے لئے سوغات لائے ہيں _

''سعدبن معاذانصارى ''نمائندہ كے طور پر خدمت پيغمبر ميں حاضر ہوئے اور عرض كرنے لگے :

ميرے ماں پاپ آپ پر قربان اے اللہ كے رسول ہم آپ پر ايمان لائے ہيں اور ہم نے آپ كى نبوت كى گواہى دى ہے كہ جو كچھ آپ كہتے ہيں خدا كى طرف سے ہے، آپ جو بھى حكم دينا چاہيں ديجئے اور ہمارے مال ميں سے جو كچھ آپ چاہيں لے ليں ، خدا كى قسم اگر آپ ہميں حكم ديں كہ اس دريا ( دريائے احمر كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ،جووہاں سے قريب تھا ) ميں كود پڑو تو ہم كو د پڑيں گے ہمارى يہ آرزو ہے كہ خدا ہميں توفيق دے كہ ايسى خدمت كريں جو آپ كى آنكھ كى روشنى كا باعث ہو_

روز بدر رسول اللہ (ص) نے حضرت على عليہ السلام سے فرمايا:

زمين سے مٹى اور سنگريزوں كى ايك مٹھى بھر كے مجھے ديدو_

حضرت على عليہ السلام نے ايسا ہى كيا اور رسول خدا (ص) نے اسے مشركين كى طرف پھينك ديا اور فرمايا:

''شاہت الوجوہ''(تمہارے منھ قبيح اور سياہ ہوجائيں )

لكھا ہے كہ معجزانہ طور پر گرد و غبار اور سنگريزے دشمن كى آنكھوں ميں جا پڑے اور سب وحشت زدہ ہوگئے_

مجاہدين كى تشويق

ابن عباس سے منقول ہے كہ رسول اللہ (ص) نے جنگ بدر كے روز مجاہدين اسلام كى تشويق كے لئے كچھ انعامات مقرركيے مثلاً فرمايا كہ جو فلاں دشمن كو قيد كر كے ميرے پاس لائے گا اُسے يہ انعام دوں گا ان

۵۲۵

ميں پہلے ہى روح ايمان وجہاد موجود تھى اوپر سے يہ تشويق بھي، نتيجہ يہ ہو اكہ جوان سپاہى بڑے افتخار سے مقابلہ كے لئے آگے بڑھے اور اپنے مقصد كى طرف لپكے بوڑھے سن رسيدہ افراد جھنڈوں تلے موجودرہے جب جنگ ختم ہوئي تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات كے لئے بارگاہ پيغمبر اكرم (ص) كى طرف بڑھے، بوڑھے ان سے كہنے لگے كہ اس ميں ہمارا بھى حصہ ہے كيونكہ ہم تمہارے لئے پناہ اور سہارے كاكام كررہے تھے اور تمہارے لئے جوش وخروش كا باعث تھے اگر تمہارا معاملہ سخت ہوجاتاہے تو تمہيں پيچھے ہٹنا پڑتا تو يقيناً تم ہمارى طرف آتے اس موقع پر دو انصاريوں ميں تو تو ميں ميں بھى ہوگئي اور انہوں نے جنگى غنائم كے بارے ميں بحث كى _

اس اثناء ميں سورہ انفال كى پہلى آيت نازل ہوئي جس ميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا كہ غنائم كا تعلق پيغمبر (ص) سے ہے وہ جيسے چاہيں انہيں تقسيم فرمائيں ، پيغمبر اكرم (ص) نے بھى مساوى طور پر سب سپاہيوں ميں غنائم تقسيم كرديئے اور برادران دينى ميں صلح ومصالحت كا حكم ديا _

جنگ كا خاتمہ اور اسيروں كا واقعہ

جنگ بدر كے خاتمہ پر جب جنگى قيدى بنالئے گئے اور پيغمبر اكرم (ص) نے يہ حكم دياكہ قيديوں ميں سے دو خطر ناك افراد عقبہ اور نضر كو قتل كردياجائے تو اس پر انصار گھبراگئے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ حكم تمام قيديوں كے متعلق جارى ہوجائے اور وہ فديہ لينے سے محروم ہوجائيں ) لہذا انہوں نے رسول اللہ كى خدمت ميں عرض كيا : ہم نے سترآدميوں كو قتل كيا ہے اور سترہى كو قيدى بنايا ہے اور يہ آپ كے قبيلے ميں سے آپ ہى كے قيدى ہيں ،يہ ہميں بخش ديجئے تاكہ ہم ان كى آزادى كے بدلے فديہ لے سكيں _

(رسول اللہ اس كے لئے وحى آسمانى كے منتظر تھے ) اس موقع پروحى الہى نازل ہوئي اورقيديوں كى آزادى كے بدلے فديہ لينے كى اجازت ديدى گئي _

اسيروں كى ازادى كے لئے زيادہ سے زيادہ چار ہزار درہم اور كم سے كم ايك ہزار درہم معين كى گئي، يہ بات قريش كے كانوں تك پہونچى تو انھوں نے ايك ايك كے بدلے معين شدہ رقم بھيج كرا سيروں كو ازاد

۵۲۶

كراليا_

تعجب كى بات يہ ہے كہ رسول اللہ (ص) كا داماد ابوالعاص بھى ان قيديوں ميں تھا ،رسول (ص) كى بيٹى يعنى زينب جو ابولعاص كى بيوى تھى نے وہ گلو بند جو جناب خديجہ نے ان كى شاد ى كے وقت انہيں ديا تھا فديہ كے طور پررسول اللہ (ص) كے پاس بھيجا،جب پيغمبر اكرم (ص) كى نگاہ گلو بند پر پڑى تو جناب خديجہ جيسى فداكار اور مجاہدہ خاتون كى ياد يں ان كى آنكھوں كے سامنے مجسم ہوگئيں ،آپ(ص) نے فرمايا:خدا كى رحمت ہو خديجہ پر ،يہ وہ گلو بند ہے جو اس نے ميرى بيٹى زينب كو جہيز ميں ديا تھا(اور بعض دوسرى روايات كے مطابق جناب خديجہ كے احترام ميں آپ (ص) نے گلو بند قبول كرنے سے احرازكيا اور حقوق مسلمين كو پيش نظر كرتے ہوئے اس ميں ان كى موافقت حاصل كي)_

اس كے بعد پيغمبر اكرم (ص) نے ابوالعاص كو اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ زينب كو (جو اسلام سے پہلے ابوالعاص كى زوجيت ميں تھيں )مدينہ پيغمبر (ص) كے پاس بھيج دے ، اس نے بھى اس شرط كو قبول كرليا او ربعد ميں اسے پورا بھى كيا_

آنحضرت(ص) كے چچا عباس كا اسلام قبول كرنا

انصار كے كچھ آدميوں نے رسول اللہ (ص) سے اجازت چاہى كہ آپ كے چچا عباس جو قيديوں ميں تھے ان سے آپ(ص) كے احترام ميں فديہ نہ ليا جائے ليكن پيغمبر (ص) نے فرمايا:

''خداكى قسم اس كے ايك درھم سے بھى صرف نظر نہ كرو''( اگر فديہ لينا خدائي قانون ہے تو اسے سب پر جارى ہونا چاہئے ،يہاں تك كہ ميرے چچا پر بھى اس كے اور دوسروں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_)

پيغمبر اكرم (ص) عباس كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا: اپنى طرف سے او راپنے بھتيجے ( عقيل بن ابى طالب) كى طرف سے آپ(ص) كو فديہ ادا كرنا چاہئے_

۵۲۷

عباس ( جو مال سے بڑا لگائو ركھتے تھے ) كہنے لگے: اے محمد(ص) كيا تم چاہتے ہو كہ مجھے ايسا فقير او رمحتاج كردو كہ ميں اہل قريش كے سامنے اپنا ہاتھ پھيلائوں _

رسول اللہ (ص) نے فرمايا: اس مال ميں سے فديہ ادا كريں جو آپ(ص) نے اپنى بيوى ام الفضل كے پاس ركھا تھا اور اس سے كہا تھا كہ اگر ميں ميدان جنگ ميں مارا جائوں تو اس مال كو اپنے اور اپنى اولاد كے مصارف كے لئے سمجھنا_

عباس يہ بات سن كر بہت متعجب ہوئے اور كہنے لگے: آپ(ص) كو يہ بات كس نے بتائي ( حالانكہ يہ تو بالكل محرمانہ تھى )؟

رسول اللہ (ص) نے فرمايا : جبرئيل نے، خدا كى طرف سے_

عباس بولے : اس كى قسم كہ جس كى محمد (ص) قسم كھاتا ہے كہ ميرے اور ميرى بيوى كے علاوہ اس راز سے كوئي آگاہ نہ تھا_

اس كے بعد وہ پكار اٹھے: ''اشھد انك رسول اللہ''

( يعنى ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ(ص) اللہ كے رسول ہيں )

اور يوں وہ مسلمان ہوگئے_

آزادى كے بعد بدر كے تمام قيدى مكہ لوٹ گئے ليكن عباس، عقيل اور نوفل مدينہ ہى ميں رہ گئے كيونكہ انہوں نے اسلام قبول كرليا تھا_

عباس كے اسلام لانے كے بارے ميں بعض تواريخ ميں ہے كہ اسلام قبول كرلينے كے بعد وہ مكہ كى طرف پلٹ گئے تھے اور خط كے ذريعہ رسول اللہ (ص) كو سازش سے باخبر كيا كرتے تھے ، پھر ۸ سے پہلے فتح مكہ كے سال مدينہ كى طرف ہجرت كر آئے_

۵۲۸

جنگ احد(۱)

جنگ احد كا پيش خيمہ جب كفار مكہ جنگ بدر ميں شكست خوردہ ہوئے اور ستر(۷۰) قيدى چھوڑكر مكہ كى طرف پلٹ گئے تو ابو سفيان نے لوگوں كو خبر دار كيا كہ وہ اپنى عورتوں كو مقتولين بدر پر گريہ وزارى نہ كرنے ديں كيونكہ آنسو غم واندوہ كو دور كرديتے ہيں اور اس طرح محمد كى دشمنى اور عداوت ا۶ن كے دلوں سے ختم ہوجائے گى ، ابو سفيان نے خود يہ عہد كرركھا تھا كہ جب تك جنگ بدر كے قاتلوں سے انتقام نہ لے لے اس وقت تك وہ اپنى بيوى سے ہمبسترى نہيں كرے گا ،بہر حال قريش ہر ممكن طريقہ سے لوگوں كوپيغمبر اسلام (ص) كے خلاف اكساتے تھے اور انتقام كى صدا شہر مكہ ميں بلند ہورہى تھى _

ہجرت كے تيسرے سال قريش ہزار سوار اور دوہزار پيدل كے ساتھ بہت سامان جنگ لے كر آپ سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلے اور ميدان جنگ ميں ثابت قدمى سے لڑنے كے لئے اپنے بڑے بڑے بت اور اپنى عورتوں كو بھى ہمراہ لے آئے _

____________________

()جنگ احد كا واقعہ سورہ آل عمران آيت ۱۲۰ كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

۵۲۹

جناب عباس كى بر وقت اطلاع

حضرت رسول خدا (ص) كے چچاحضرت عباس جو ابھى مسلمان نہيں ہوئے تھے اور قريش كے درميان ان كے ہم مشرب و ہم مذہب تھے ليكن اپنے بھتيجے سے فطرى محبت كى بنا پر جب انھوں نے ديكھا كہ قريش كا ايك طاقتور لشكر پيغمبر (ص) سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلا ہے تو فوراً ايك خط لكھا اور قبيلہ بنى غفار كے ايك آدمى كے ہاتھ مدينہ بھيجا ،عباس كا قاصد بڑى تيزى سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا ،جب آپ كو اس كى اطلاع ملى تو آپ نے سعد بن اُبَ كو عباس كا پيغام پہنچايا اور حتى الامكان اس واقعہ كو پردہ راز ميں ركھنے كى كوشش كى _

پيغمبر كا مسلمانوں سے مشورہ

جس دن عباس كا قاصد آپ كو موصول ہوا آپ نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ مكہ ومدينہ كے راستہ پر جائيں اور لشكر كفار كے كوائف معلوم كريں ، آپ كے دو نمائندے ان كے حالات معلوم كركے بہت جلدى واپس آئے اور قريش كى قوت وطاقت سے آنحضرت (ص) كو مطلع كيا اور يہ بھى اطلاع دى كہ طاقتور لشكر خود ابوسفيان كى كمان ميں ہے _

پيغمبراكرم (ص) نے چند روز كے بعد تمام اصحاب اور اہل مدينہ كو بلايا اور ان در پيش حالات كا مقابلہ كرنے كے لئے ميٹنگ كي، اس ميں عباس كے خط كو بھى پيش كيا گيا اور اس كے بعد مقام جنگ كے بارے ميں رائے لى گئي اس ميٹنگ ميں ايك گروہ نے رائے دى كہ جنگ دشمن سے مدينہ كى تنگ گليوں ميں كى جائے كيونكہ اس صورت ميں كمزور مرد ،عورتيں بلكہ كنيزيں بھى مدد گار ثابت ہوسكيں گي_

عبد اللہ بن ابى نے تائيد ا ًكہا يا رسول اللہ (ص) آج تك ايسا نہيں ہوا كہ ہم اپنے قلعوں اور گھروں ميں ہوں اور دشمن ہم پر كامياب ہوگيا ہو _

اس رائے كو آپ بھى اس وقت كى مدينہ كى پوزيشن كے مطابق بنظر تحسين ديكھتے تھے كيونكہ آپ بھى

۵۳۰

مدينہ ہى ميں ٹھہرنا چاہتے تھے ليكن نوجوانوں اورجنگجو و ں كا ايك گروہ اس كا مخالف تھا چنانچہ سعد بن معاذ اور قبيلہ اوس كے چند افراد نے كھڑے ہو كر كہا اے رسول خدا (ص) گذشتہ زمانے ميں عربوں ميں سے كسى كو يہ جرا ت نہ تھى كہ ہمارى طرف نظر كرے جبكہ ہم مشرك اور بت پرست تھے اب جبكہ ہمارے درميان آپ كى ذات والا صفات موجود ہے كس طرح وہ ہميں دبا سكتے ہيں اس لئے شہرسے باہر جنگ كرنى چاہئے اگر ہم ميں سے كوئي مارا گيا تو وہ جام شہادت نوش كرے گا اور اگر كوئي بچ گيا تو اسے جہاد كا اعزازوافتخار نصيب ہوگا اس قسم كى باتوں اور جوش شجاعت نے مدينہ سے باہر جنگ كے حاميوں كى تعدا دكو بڑھا ديا يہاں تك كہ عبد اللہ بن اُبَ كى پيش كش سرد خانہ ميں جاپڑى خود پيغمبر (ص) نے بھى اس مشورے كا احترام كيااور مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كے طرف داروں كى رائے كو قبول فرماليا اور ايك صحابى كے ساتھ مقام جنگ كا انتخاب كرنے كے لئے شہر سے باہر تشريف لے گئے آپ نے كوہ احد كا دامن لشكر گاہ كے لئے منتخب كيا كيونكہ جنگى نقطہ نظر سے يہ مقام زيادہ مناسب تھا_

مسلمانوں كى دفاعى تيارياں

جمعہ كے دن آپ نے يہ مشورہ ليا اور نماز جمعہ كا خطبہ ديتے ہوئے آپ نے حمدو ثناء كے بعد مسلمانوں كو لشكر قريش كى آمد كى اطلاع دى اور فرمايا:

'' تہہ دل سے جنگ كے لئے آمادہ ہوجائو اور پورے جذبہ سے دشمن سے لڑو تو خدا وند قددس تمہيں كاميابى وكامرانى سے ہمكنار كرے گا اور اسى دن آپ ايك ہزار افراد كے ساتھ لشكر گاہ كى طرف روانہ ہوئے آپ خود لشكر كى كمان كررہے تھے مدينہ سے نكلنے سے قبل آپ نے حكم ديا كہ لشكر كے تين علم بنائے جائيں جن ميں ايك مہاجرين اور دو انصار كے ہوں ''_

پيغمبر اكرم (ص) نے مدينہ اور احد كے درميانى فاصلے كو پاپيادہ طے كيا اور سارے راستے لشكر كى ديكھ بھال كرتے رہے خود لشكر كى صفوں كو منظم ومرتب ركھا تاكہ وہ ايك ہى سيدھى صف ميں حركت كريں _

۵۳۱

ان ميں سے كچھ ايسے افراد كو ديكھا جو پہلى وفعہ آپ كو نظر پڑے پوچھا كہ يہ لوگ كون ہيں ؟ بتايا گيا كہ يہ عبداللہ بن ابى كے ساتھى كچھ يہودى ہيں اور اس مناسبت سے مسلمانوں كى مدد كے لئے آئے ہيں آپ نے فرمايا كہ مشركين سے جنگ كرنے ميں مشركين سے مدد نہيں لى جاسكتى مگريہ كہ يہ لوگ اسلام قبول كرليں يہوديوں نے اس شرط كو قبول نہ كيا اور سب مدينہ كى طرف پلٹ آئے يوں ايك ہزار ميں سے تين سو افراد كم ہوگئے _

ليكن مفسرين نے لكھا ہے كہ چونكہ عبداللہ بن اُبَ كى رائے كو رد كيا گيا تھا اس لئے وہ اثنائے راہ ميں تين سوسے زيادہ افراد كو لے كر مدينہ كى طرف پلٹ آيا بہر صورت پيغمبر اكرم (ص) لشكر كى ضرورى چھان بين (يہوديوں يا ابن ابى ابى كے ساتھيوں كے نكالنے) كے بعد سات سو افراد كو ہمراہ لے كر كوہ احد كے دامن ميں پہنچ گئے، اور نماز فجر كے بعد مسلمانوں كى صفوں كو آراستہ كيا_

عبد اللہ بن جبير كو پچاس ماہر تير اندازوں كے ساتھ پہاڑ كے درہ پر تعينات كيا اور انھيں تاكيد كى كہ وہ كسى صورت ميں اپنى جگہ نہ چھوڑيں اور فوج كے پچھلے حصے كى حفاظت كريں اور اس حد تك تاكيد كى كہ اگر ہم دشمن كا مكہ تك پيچھا كريں يا ہم شكست كھاجائيں اور دشمن ہميں مدينہ تك جانے پر مجبور كردے پھر بھى تم اپنا مورچہ نہ چھوڑنا، دوسرى طرف سے ابو سفيان نے خالد بن وليد كو منتخب سپاہيوں كے ساتھ اس درہ كى نگرانى پر مقرر كيا اور انھيں ہر حالت ميں وہيں رہنے كا حكم د يا اور كہا كہ جب اسلامى لشكر اس درہ سے ہٹ جائے تو فوراً لشكر اسلام پر پيچھے سے حملہ كردو_

آغاز جنگ

دونوں لشكر ايك دوسرے كے امنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ ہوگئے اور يہ دونوں لشكر اپنے نوجوانوں كو ايك خاص انداز سے اكسا رہے تھے، ابوسفيان كعبہ كے بتوں كے نام لے كر اور خوبصورت عورتوں كے ذريعے اپنے جنگى جوانوں كى توجہ مبذول كراكے ان كو ذوق وشوق دلاتا تھا_

جب كہ پيغمبر اسلام (ص) خدا كے اسم مبارك اور انعامات اعلى كے حوالے سے مسلمانوں كو جنگ

۵۳۲

كى ترغيب ديتے تھے اچانك مسلمانوں كى صدائے اللہ اكبراللہ اكبر سے ميدان اور دامن كوہ كى فضا گونج اٹھى جب كہ ميدان كى دوسرى طرف قريش كى لڑكيوں نے دف اور سارنگى پر اشعار گا گا كر قريش كے جنگ جو افراد كے احساسات كو ابھارتى تھيں _

جنگ كے شروع ہوتے ہى مسلمانوں نے ايك شديد حملہ سے لشكر قريش كے پرخچے اڑاديئےور وہ حواس باختہ ہوكر بھاگ كھڑے ہوئے اور لشكر اسلام نے ان كا پيچھا كرنا شروع كرديا خالدبن وليد نے جب قريش كى يقينى شكت ديكھى تو اس نے چاہا كہ درہ كے راستے نكل كر مسلمانوں پر پيچھے سے حملہ كرے ليكن تيراندازوں نے اسے پيچھے ہٹنے پر مجبور كرديا قريش كے قدم اكھڑتے ديكھ كر تازہ مسلمانوں كے ايك گروہ نے دشمن كو شكت خوردہ سمجھ كرمال غنيمت جمع كرنے كے لئے اچانك اپنى پوزيشن چھوڑدى ، ان كى ديكھا ديكھى درہ پر تعينات تيراندازوں نے بھى اپنا مورچہ چھوڑديا، ان كے كمانڈرعبد اللہ بن جبيرنے انہيں آ نحضرت(ص) كا حكم ياددلايا مگرسوائے چند (تقريبا ًدس افراد) كے كوئي اس اہم جگہ پر نہ ٹھہرا_

پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت كا نتيجہ يہ ہوا كہ خالدبن وليد نے درہ خالى ديكھ كر بڑى تيزى سے عبد اللہ بن جبير پر حملہ كيا اور اسے اس كے ساتھيوں سميت قتل كرديا، اس كے بعد انہوں نے پيچھے سے مسلمانوں پر حملہ كرديا اچانك مسلمانوں نے ہر طرف چمك دار تلواروں كى تيزدھاروں كو اپنے سروں پر ديكھا تو حواس باختہ ہوگئے اور اپنے آپ كو منظم نہ ركھ سكے قريش كے بھگوڑوں نے جب يہ صورتحال ديكھى تو وہ بھى پلٹ آئے اور مسلمانوں كو چاروں طرف سے گھيرليا_

اسى موقع پر لشكر اسلام كے بہادر افسر سيد الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں كے ساتھ جام شہادت نوش كيا ،سوائے چند شمع رسالت كے پروانوں كے اور بقيہ مسلمانوں نے وحشت زدہ ہوكر ميدان كو دشمن كے حوالے كرديا_

اس خطرناك جنگ ميں جس نے سب سے زيادہ فداكارى كا مظاہرہ كيا اور پيغمبر اكرم (ص) پر ہونے والے دشمن كے ہر حملے كا دفاع كيا وہ حضرت على بن ابى طالب عليہ السلام تھے _

۵۳۳

حضرت على عليہ السلام بڑى جرا ت اور بڑے حوصلہ سے جنگ كررہے تھے يہاں تك كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي، اور پيغمبر اكرم (ص) (ص) نے اپنى تلوار آپ كو عنايت فرمائي جو ذوالفقار كے نام سے مشہور ہے بالآخر آپ ايك مورچہ ميں ٹھہرگئے اور حضرت على عليہ السلام مسلسل آپ كا دفاع كرتے رہے يہاں تك كہ بعض مورخين كى تحقيق كے مطابق حضرت على عليہ السلام كے جسم پر ساٹھ كارى زخم آئے، اور اسى موقع پر قاصد وحى نے پيغمبراكرم (ص) سے عرض كيا :اے محمد يہ ہے مواسات ومعاونت كا حق ،آپ (ص) نے فرمايا ( ايسا كيوں نہ ہو كہ ) على مجھ سے ہے اور ميں على سے ہوں ،تو جبرئيل نے اضافہ كيا : ميں تم دونوں سے ہوں _

امام صادق ارشاد فرماتے ہيں كہ پيغمبر اكرم (ص) نے قاصد وحى كو آسمان ميں يہ كہتے ہوئے ديكھا كہ: ''لاسيف الاذوالفقار ولا فتى الا على '' (ذوالفقار كے علاوہ كوئي تلوار نہيں اور على كے سوا كوئي جوانمرد نہيں )

اس اثناء ميں يہ آواز بلند ہوئي كہ محمد قتل ہوگئے _

يہ آواز فضائے عالم ميں گونج اٹھى اس آواز سے جتنابت پرستوں كے جذبات پر مثبت اثر پيدا ہوا اتناہى مسلمانوں ميں عجيب اضطراب پيدا ہوگيا چنانچہ ايك گروہ كے ہاتھ پائوں جواب دے گئے اور وہ بڑى تيزى سے ميدان جنگ سے نكل گئے يہاں تك كہ ان ميں سے بعض نے سوچا كہ پيغمبر شہيدہو گئے ہيں لہذا اسلام ہى كو خيرباد كہہ ديا جائے اور بت برستوں كے سرداروں سے امان طلب كرلى جائے ليكن ان كے مقابلہ ميں فداكاروں اور جانثاروں كى بھى ايك قليل جماعت تھى جن ميں حضرت على ابود جانہ اور طلحہ جيسے بہادر لوگ موجود تھے جوباقى لوگوں كوپامردى اور استقامت كى دعوت دے رہے تھے ان ميں سے انس بن نضر لوگوں كے درميان آيا اور كہنے لگا :اے لوگو اگر محمد شہيد ہوگئے ہيں تو محمد كا خدا تو قتل نہيں ہوا چلو اور جنگ كرو ،اسى نيك اور مقدس ہدف كے حصول كے لئے درجہ شہادت پر فائز ہو جائو ،يہ گفتگو تمام كرتے ہى انھوں نے دشمن پر حملہ كرديا يہاں تك كہ شہيد ہوگئے ،تاہم جلد معلوم ہوگيا كہ پيغمبر اكرم (ص) سلامت ہيں اور اطلاع ايك شايعہ تھى _

۵۳۴

كون پكارا كہ محمد (ص) قتل ہوگئے ؟

''ابن قمعہ'' نے اسلامى سپاہى مصعب كو پيغمبر سمجھ كر اس پر كارى ضرب لگائي اور باآواز بلند كہا :لات وعزى كى قسم محمد قتل ہوگئے _

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ يہ افواہ چاہے مسلمانوں نے اڑائي يا دشمن نے ليكن مسلمانوں كے لئے فائدہ مند ثابت ہوئي اس لئے كہ جب آواز بلند ہوئي تو دشمن ميدان چھوڑ كر مكہ كى طرف چل پڑے ورنہ قريش كا فاتح لشكر جو حضور (ص) كے لئے دلوں ميں كينہ ركھتا تھا اور انتقام لينے كى نيت سے آيا تھا كبھى ميدان نہ چھوڑتا، قريش كے پانچ ہزار افراد پر مشتمل لشكر نے ميدان جنگ ميں مسلمانوں كى كاميابى كے بعد ايك رات بھى صبح تك وہاں نہ گذارى اور اسى وقت مكہ كى طرف چل پڑے_

پيغمبر (ص) كى شہادت كى خبر نے بعض مسلمانوں ميں اضطراب وپريشانى پيدا كردى ،جو مسلمان اب تك ميدان كارزار ميں موجود تھے ، انھوں نے اس خيال سے كہ دوسرے مسلمان پراكندہ نہ ہوں آنحضرت (ص) كو پہاڑ كے اوپر لے گئے تاكہ مسلمانوں كو پتہ چل جائے كہ آپ بقيد حيات ہيں ، يہ ديكھ كر بھگوڑے واپس آگئے اور آنحضرت كے گرد پروانوں كى طرح جمع ہوگئے ،آپ نے ان كو ملامت وسرزنش كى كہ تم نے ان خطرناك حالات ميں كيوں فرار كيا ،مسلمان شرمندہ تھے انہوں نے معذرت كرتے ہوئے كہا : يا رسول خدا ہم نے آپ كى شہادت كى خبر سنى تو خوف كى شدت سے بھاگ كھڑے ہوے_

مفسر عظيم مرحوم طبرسي، ابو القاسم بلخى سے نقل كرتے ہيں كہ جنگ احد كے دن( پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ)سوائے تيرہ افرادكے تمام بھاگ گئے تھے، اور ان تيرہ ميں سے آٹھ انصار اور پانچ مہاجرتھے، جن ميں سے حضرت على عليہ السلام اور طلحہ كے علاوہ باقى ناموں ميں اختلاف ہے، البتہ دونوں كے بارے ميں تمام مو رخين كا اتفاق ہے كہ انھوں نے فرار نہيں كيا_

يوں مسلمانوں كو جنگ احد ميں بہت زيادہ جانى اورمالى نقصان كا سامنا كرنا،پڑا مسلمانوں كے ستر

۵۳۵

افراد شہيد ہوئے اور بہت سے زخمى ہوگئے ليكن مسلمانوں كو اس شكست سے بڑا درس ملا جو بعد كى جنگوں ميں ان كى كاميابى و كامرانى كا باعث بنا _

جنگ كا خطرناك مرحلہ

جنگ احد كے اختتام پر مشركين كا فتحياب لشكر بڑى تيزى كے ساتھ مكہ پلٹ گيا ليكن راستے ميں انہيں يہ فكر دامن گير ہوئي كہ انہوں نے اپنى كاميابى كو ناقص كيوں چھوڑديا _كيا ہى اچھا ہو كہ مدينہ كى طرف پلٹ جائيں اور اسے غارت و تاراج كرديں اور اگر محمد زندہ ہوں تو انہيں ختم كرديں تاكہ ہميشہ كے لئے اسلام اور مسلمانوں كى فكر ختم ہوجائے ، اور اسى بنا پر انہيں واپس لوٹنے كا حكم ديا گيا اور درحقيقت جنگ احد كا يہ وہ خطر ناك مرحلہ تھا كيونكہ كافى مسلمان شہيد اور زخمى ہوچكے تھے اور فطرى طور پر وہ ازسر نو جنگ كرنے كے لئے آمادہ نہيں تھے _جبكہ اس كے برعكس اس مرتبہ دشمن پورے جذبہ كے ساتھ جنگ كرسكتا تھا_

يہ اطلاع پيغمبر اكرم (ص) كو پہنچى تو آپ نے فوراً حكم ديا كہ جنگ احد ميں شريك ہونے والا لشكر دوسرى جنگ كے لئے تيار ہوجائے ،آپ نے يہ حكم خصوصيت سے ديا كہ جنگ احد كے زخمى بھى لشكر ميں شامل ہوں ،(حضرت على عليہ السلام نے جن كے بدن پر دشمنوں نے ۶۰/زخم لگائے تھے،ليكن اپ پھر دوبارہ دشمنوں كے مقابلہ ميں اگئے) ايك صحابى كہتے ہيں :

ميں بھى زخميوں ميں سے تھا ليكن ميرے بھائي كے زخم مجھ سے زيادہ شديد تھے ، ہم نے ارادہ كرليا كہ جو بھى حالت ہو ہم پيغمبر اسلام كى خدمت ميں پہونچے گے، ميرى حالت چونكہ ميرے بھائي سے كچھ بہتر تھى ، جہاں ميرا بھائي نہ چل پاتا ميں اسے اپنے كندھے پر اٹھاليتا، بڑى تكليف سے ہم لشكر تك جا پہنچے، پيغمبر اكرم (ص) اور لشكر اسلام ''حمراء الاسد'' كے مقام پر پہنچ گئے اور وہاں پر پڑائو ڈالا يہ جگہ مدينہ سے آٹھ ميل كے فاصلے پر تھي_

يہ خبر جب لشكر قريش تك پہنچى خصوصاً جب انھوں نے مقابلہ كے لئے ايسى آمادگى ديكھى كہ زخمى بھى ميدان جنگ ميں پہنچ گئے ہيں تو وہ پريشان ہوگئے اور ساتھ ہى انھيں يہ فكر بھى لاجق ہوئي كہ مدينہ سے تازہ دم

۵۳۶

فوج ان سے آملى ہے_

اس موقع پر ايسا واقعہ پيش آيا جس نے ان كے دلوں كو اور كمزور كرديا اور ان ميں مقابلہ كى ہمت نہ رہى ، واقعہ يہ ہوا كہ ايك مشرك جس كا نام ''معبد خزاعي'' تھا مدينہ سے مكہ كى طرف جارہا تھا اس نے پيغمبر اكرم اور ان كے اصحاب كى كيفيت ديكھى تو انتہائي متاثر ہوا، اس كے انسانى جذبات ميں حركت پيدا ہوئي، اس نے پيغمبر اكرم (ص) سے عرض كيا: آپ كى يہ حالت و كيفيت ہمارے لئے بہت ہى ناگوار ہے آپ آرام كرتے تو ہمارے لئے بہتر ہوتا، يہ كہہ كر وہ وہاں سے چل پڑااور'' روحاء'' كے مقام پر ابو سفيان كے لشكر سے ملا، ابو سفيان نے اس سے پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں سوال كيا تو اس نے جواب ميں كہا: ميں نے محمد (ص) كو ديكھا ہے كہ وہ ايسا عظيم لشكر لئے ہوئے تمہارا تعاقب كرہے ہيں ايسا لشكر ميں نے كبھى نہيں ديكھا او رتيزى سے آگے بڑھ رہے ہيں _

ابوسفيان نے اضطراب اور پريشانى كے عالم ميں كہا : تم كيا كہہ رہے ہو؟ہم نے انہيں قتل كيا زخمى كيا اور منتشر كر كے ر كھ ديا تھا ،معبد خزاعى نے كہا: ميں نہيں جانتا كہ تم نے پايا كيا ہے ،ميں تو صرف يہ جانتا ہوں كہ ايك عظيم اور كثير لشكر اس وقت تمہارا تعاقب كر رہا ہے _

ابو سفيان اور اسكے سا تھيوں نے قطعى فيصلہ كر ليا كہ وہ تيزى سے پيچھے كى طرف ہٹ جا ئيں اور مكہ كى طرف پلٹ جا ئيں اور اس مقصد كے لئے كہ مسلمان ان كا تعاقب نہ كريں اور انہيں پيچھے ہٹ جا نے كا كا فى مو قع مل جا ئے ، انہوں نے قبيلہ عبد القيس كى ايك جما عت سے خواہش كى كہ وہ پيغمبر اسلا م (ص) اور مسلما نوں تك يہ خبر پہنجا ديں كہ ابو سفيان اور قريش كے بت پر ست با قى ماندہ اصحا ب پيغمبر (ص) كے ختم كرنے كے لئے ايك عظيم لشكر كے ساتھ تيزى سے مدينہ كى طرف آ رہے ہيں ، يہ جما عت گندم خريد نے كے لئے مدينہ جا رہى تھى جب يہ اطلاع پيغمبر اسلام (ص) اور مسلما نوں تك پہنچى تو انہوں نے كہا :''حسبنا اللہ و نعم الو كيل'' (خدا ہمارے لئے كافى ہے اور وہ ہمارا بہترين حامى اور مدافع ہے )_

انہوں نے بہت انتظار كيا ليكن دشمن كے لشكر كى كو ئي خبر نہ ہو ئي ، لہذا تين روز توقف كے بعد ،وہ

۵۳۷

مدينہ كى طرف لوٹ گئے_

كھوكھلى باتيں

جنگ بدر ميں بعض مسلمانوں كى پر افتخا ر شہادت كے بعد بعض مسلمان جب باہم مل بيٹھتے تو ہميشہ شہادت كى آرزو كرتے اور كہتے كاش يہ اعزاز ميدان بدر ميں ہميں بھى نصيب ہوجا تا ،يقينا ان ميں كچھ لوگ سچے بھى تھے ليكن ان ميں ايك جھوٹا گروہ بھى تھا جس نے اپنے آپ كو سمجھنے ميں غلطى كى ،بہر حال زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ جنگ احد كا وحشتناك معركہ در پيش ہوا تو ان سچے مجا ہدين نے بہادرى سے جنگ كى اور جام شہادت نوش كيا اور اپنى آرزوكو پا ليا ليكن جھوٹوں كے گروہ نے جب لشكر اسلام ميں شكست كے آثار ديكھے تو وہ قتل ہونے كے ڈر سے بھاگ كھڑے ہوئے تو يہ قران انہيں سرزنش كرتے ہوئے كہتا ہے كہ'' تم ايسے لوگ تھے كہ جو دلوں ميں آرزو اور تمنائے شہادت كے دعويدار تھے، پھرجب تم نے اپنے محبوب كو اپنى آنكھوں كے سامنے ديكھا تو كيوں بھاگ كھڑے ہوئے''_(۱)

حضرت على عليہ السلام كے زخم

امام باقر عليہ السلام سے اس طرح منقول ہے:حضرت على عليہ السلام كو احد كے دن اكسٹھ زخم لگے تھے اور پيغمبر (ص) نے ''ام سليم'' اور ''ام عطيہ'' كو حكم ديا كہ ہ دونوں حضرت على عليہ السلام كے زخموں كا علاج كريں ،تھوڑى ہى دير گذرى تھى كہ وہ حالت پريشانى ميں آنحضرت(ص) كى خدمت ميں عرض كرنے لگے: كہ حضرت على عليہ السلام كے بدن كى كيفيت يہ ہے كہ ہم جب ايك زخم باندھتے ہيں تو دوسرا كھل جا تاہے اور ان كے بدن كے زخم اس قدرزيادہ اور خطرناك ہيں كہ ہم ان كى زندگى كے بارے ميں پريشان ہيں تو حضرت رسول خدا (ص) اور كچھ ديگر مسلمان حضرت على عليہ السلام كى عيادت كے لئے ان كے گھرآئے جب كہ ان

____________________

(۱)سورہ ال عمران ايت ۱۶۳

۵۳۸

كے بدن پر زخم ہى زخم تھے پيغمبراكرم (ص) اپنے دست مبارك ان كے جسم سے مس كرتے تھے اور فرماتے تھے كہ جو شخص راہ خدا ميں اس حالت كو ديكھ لے وہ اپنى ہى ذمہ دارى كے آخرى درجہ كو پہنچ چكا ہے اور جن جن زخموں پرآپ(ص) ہاتھ ركھتے تھے وہ فوراًمل جاتے تھے تواس وقت حضرت على عليہ السلام نے فرمايا: الحمدا للہ كہ ان حالات ميں جنگ سے نہيں بھا گا اوردشمن كو پشت نہيں دكھائي خدا نے ان كى كو شش كى قدر دانى كي_

ہم نے شكست كيوں كھائي ؟

كا فى شہيد دےكر اور بہت نقصان اٹھا كر جب مسلمان مدينہ كى طرف پلٹ آئے تو ايك دوسرے سے كہتے تھے كہ كيا خدانے ہم سے فتح و كاميابى كا وعدہ نہيں كيا تھا،پھر اس جنگ ميں ہميں كيوں شكست ہوئي ؟اسى سے قران ميں انہيں جواب ديا گيا اور شكست كے اسباب كى نشاندہى كى گئي_(۱)

قرآن كہتا ہے كہ كاميابى كہ بارے ميں خدا كا وعدہ درست تھا اور اس كى وجہ ہى سے تم ابتداء جنگ ميں كامياب ہوئے اور حكم خدا سے تم نے دشمن كو تتر بتر كر ديا كاميا بى كا يہ وعدہ اس وقت تك تھا جب تك تم استقامت اور پائيدارى اور فرمان پيغمبرى (ص) كى پيروى سے دست بردار نہيں ہو ئے اور شكست كا دروازہ اس وقت كھلا جب سستى اور نا فرمائي نے تمہيں آگھيرا ،يعنى اگر تم نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ كا ميابى كا وعدہ بلا شرط تھا تو تمہارى بڑ ى غلط فہمى ہے بلكہ كاميابى كے تمام وعدے فرمان خدا كى پيروى كے ساتھ مشروط ہيں _

عمومى معافى كا حكم

جو لوگ واقعہ احد كے دوران جنگ سے فرار ہوگئے تھے وہ پيغمبر اكرم (ص) كے گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے ندامت وپشيمانى كے عالم ميں معافى كى درخواست كى تو خدا ئے تعالى نے پيغمبر اكرم (ص) سے انہيں عام معافى دينے كے لئے فرمايا لہذا حكم الہى نازل ہوتے ہى آپ نے فراخ دلى سے توبہ كرنے والے خطا كاروں كو معاف كرديا _

____________________

(۱)ال عمران ايت ۱۵۲

۵۳۹

قرآن ميں پيغمبر اكرم(ص) (ص) كى ايك بہت بڑى اخلاقى خوبى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے كہ تم پروردگار كے لطف وكرم كے سبب ان پر مہربان ہوگئے اور اگر تم ان كے لئے سنگدل،سخت مزاج اور تند خو ہوتے اور عملا ًان پر لطف وعنايت نہ كرتے تو وہ تمہارے پاس سے بكھر جاتے _ اس كے بعد حكم ديا گيا كہ'' ان كى كوتاہيوں سے درگزر فرمايئےور انہيں اپنے دامن عفو ميں جگہ ديجئے''_(۱)

يعنى اس جنگ ميں انہوں نے جو بے وفائياں آپ سے كى ہيں اور جو تكا ليف اس جنگ ميں آپ كو پہنچائي ہيں ، ان كے لئے ان كى مغفرت طلب كيجئے اور ميں خود ان كے لئے تم سے سفارش كرتا ہوں كہ انہوں نے ميرى جو مخالفتيں كى ہيں ،مجھ سے ان كى مغفرت طلب كرو دوسرے لفظوں ميں جو تم سے مربوط ہے اسے تم معاف كردو اورجو مجھ سے ربط ركھتا ہے اسے ميں بخش ديتا ہوں ، آنحضرت (ص) نے فرمان خدا پر عمل كرتے ہوئے ان تمام خطا كاروں كو عام معافى دےدى _(۲)

پيغمبر اكرم (ص) شہداء سے مخاطب

ابن مسعود پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كرتے ہيں : خدا نے شہداء بدرواحد كى ارواح كو خطاب كرتے ہوئے ان سے پوچھا كہ تمہارى كيا آرزو ہے تو انہوں نے كہا : پروردگارا ہم اس سے زيادہ كيا آرزو كرسكتے ہيں كہ ہم ہميشہ كى نعمتوں ميں غرق ہيں اور تيرے عرش كے سائے ميں رہتے ہيں ، ہمارا تقاضا صرف يہ ہے كہ ہم دوبارہ دنيا كى طرف پلٹ جائيں اور پھر سے تيرى راہ ميں شہيد ہوں ، اس پر خدا نے فرمايا : ميرااٹل فيصلہ ہے كہ كوئي شخص دوبارہ دنيا كى طرف نہيں پلٹے گا _

____________________

(۱) سورہ آل عمران آيت۱۵۹

(۲)واضح رہے كہ عفو ودر گزر كرنے كے لئے يہ ايك اہم اور بہت مناسب موقع تھا اور اگر آپ ايسانہ كرتے تو لوگوں كے بكھرجانے كےلئے فضا ہموار تھى وہ لوگ جو اتنى برى شكست كا سامناكر چكے تھے اور بہت سے مقتول ومجروح پيش گرچكے تھے (اگرچہ يہ سب كچھ ان كى اپنى غلطى سے ہواتا ہم ) ايسے لوگوں كو محبت ، دلجوئي اور تسلى كى ضرورت تھى تاكہ ان كے دل اور جسم كے زخم پر مرہم لگ سكے اور وہ ان سے جانبرہوكر آئندہ كے معركوں كےلئے تيار ہوسكيں

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667