قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 331543 / ڈاؤنلوڈ: 6105
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

ہوگيا كہ مسلمانوں كى جمعيت يہى ہے جسے وہ ديكھ رہے ہيں _

دوسرى طرف جيسا كہ ہم نے كہا ہے مسلمانوں كاايك گروہ وحشت وخوف ميں غرق تھا اس كا اصرار تھا كہ اتنى بڑى فوج جس سے مسلمانوں كا كوئي موازنہ نہيں ، خلاف مصلحت ہے، ليكن پيغمبر اسلام (ص) نے خدا كے وعدہ سے انہيں جوش دلايا اور انہيں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمايا :كہ خدا نے مجھ سے وعدہ كيا ہے كہ دوگرو ہوں ميں سے ايك پر تمہيں كا ميابى حاصل ہوگى قريش كے قافلہ پر يا لشكر قريش پراور خداكے وعدہ كے خلاف نہيں ہوسكتا _

خدا كى قسم ابوجہل اور كئي سرداران قريش كے لوگوں كى قتل گاہ كو گويا ميں اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہوں _

اس كے بعد آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ بدر كے كنوئيں كے قريب پڑا ئو ڈاليں _

رسول اللہ (ص) نے پہلے سے خواب ميں اس جنگ كا منظر ديكھا تھا، آپ نے د يكھا كہ دشمن كى ايك قليل سى تعداد مسلمانوں كے مقابلہ ميں آئي ہے، يہ در اصل كاميابى كى ايك بشارت تھى آپ نے بعينہ يہ خواب مسلمانوں كے سامنے بيان كرديا، يہ بات مسلمانوں كے ميدان بدر كى طرف پيش روى كے لئے ان كے جذبہ اور عزم كى تقويت كا باعث بني_

البتہ پيغمبر اكرم (ص) نے يہ خواب صحيح ديكھا تھا كيونكہ دشمن كى قوت اور تعداد اگرچہ ظاہراً بہت زيادہ تھى ليكن باطناً كم، ضعيف اور ناتواں تھي، ہم جانتے ہيں كہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبير كا پہلو ركھتے ہيں ، اور ايك صحيح خواب ميں كسى مسئلے كا باطنى چہرہ آشكار ہوتا ہے_

قريش كا ايك ہزار كا لشكر

اس ہنگامے ميں ابوسفيان اپنا قافلہ خطرے كے علاقے سے نكال لے گيا _اصل راستے سے ہٹ كردريائے احمر كے ساحل كى طرف سے وہ تيزى سے مكہ پہنچ گيا _ اس كے ايك قاصدكے ذريعے لشكر كو پيغام

۵۲۱

بھيجا:

خدانے تمہارا قافلہ بچاليا ہے ميرا خيال ہے كہ ان حالات ميں محمد كامقابلہ كرنا ضرورى نہيں كيونكہ اس كے اتنے دشمن ہيں جو اس كا حساب چكاليں گے _

لشكر كے كمانڈرابوجہل نے اس تجويز كو قبول نہ كيا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزى كى قسم كھائي كہ نہ صرف ان كا مقابلہ كريں گے بلكہ مدينہ كے اندر تك ان كا تعاقب كريں گے يا انہيں قيدكرليں گے اور مكہ ميں لے آئيں گے تاكہ اس كاميابى كا شہرہ تمام قبائل عرب كے كانوں تك پہنچ جائے _ آخر كارلشكر قريش بھى مقام بدر تك آپہنچا، انہوں نے اپنے غلام كوپانى لانے كے لئے كنويں كى طرف بھيجے ،اصحاب پيغمبر نے انہيں پكڑليا اور ان سے حالات معلوم كرنے كے لئے انہيں خدمت پيغمبر (ص) ميں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم كون ہو ؟ انہوں نے كہا : ہم قريش كے غلام ہيں ، فرمايا: لشكر كى تعداد كيا ہے ؟ انہوں نے كہا : ہميں اس كا پتہ نہيں ، فرمايا : ہرروز كتنے اونٹ كھانے كے لئے نحركرتے ہيں ؟ انہوں نے كہا : نو سے دس تك، فرمايا: ان كى تعداد ۹/ سوسے لے كر ايك ہزار تك ہے (ايك اونٹ ايك سو فوجى جوانوں كى خواراك ہے ) _

ماحول پُر ہيبت اور وحشت ناك تھا لشكر قريش كے پاس فراواں جنگى سازوسامان تھا _ يہاں تك كہ حوصلہ بڑھانے كے لئے وہ گانے بجانے والى عورتوں كو بھى ساتھ لائے تھے _ اپنے سامنے ايسے حريف كو ديكھ رہے تھے كہ انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ ان حالات ميں وہ ميدان جنگ ميں قدم ركھے گا_

مسلمانو! فرشتے تمہارى مدد كريں گے

پيغمبر اكرم (ص) ديكھ رہے تھے كہ ممكن ہے آپ كے اصحاب خوف ووحشت كى وجہ سے رات ميں آرام سے سونہ سكيں اور پھر كل دن كو تھكے ہوئے جسم اور روح كے ساتھ دشمن كے مقابل ہوں لہذا خدا كے وعدے كے مطابق ان سے فرمايا:

تمہارى تعداد كم ہوتو اس كا غم نہ كر، آسمانى فرشتوں كى ايك عظيم جماعت تمہارى مدد كے لئے آئے گي، آپ نے انہيں خدائي وعدے كے مطابق اگلے روز فتح كى پورى تسلى دے كر مطمئن كرديا اور وہ رات

۵۲۲

آرام سے سوگئے_

دوسرى مشكل جس سے مجاہدين كو پريشانى تھى وہ ميدان بدر كى كيفيت تھى ،ان كى طرف زمين نرم تھى اور اس ميں پائوں دھنس جاتے تھے اسى رات يہ ہوا كہ خوب بارش ہوئي ،اس كے پانى سے مجاہدين نے وضو كيا ، غسل كيا اور تازہ دم ہوگئے ان كے نيچے كى زمين بھى اس سے سخت ہوگئي ،تعجب كى بات يہ ہے كہ دشمن كى طرف اتنى زيادہ بارش ہوئي كہ وہ پريشان ہوگئے _

دشمن كے لشكر گاہ سے مسلمان جاسوسوں كى طرف سے ايك نئي خبر موصول ہوئي اور جلد ہى مسلمانوں ميں پھيل گئي ، خبريہ تھى كہ فوج قريش اپنے ان تمام وسائل كے باوجود خو فزدہ ہے گويا وحشت كا ايك لشكر خدا نے ان كے دلوں كى سرزمين پر اتار ديا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامى لشكر بڑے ولولے كے ساتھ دشمن كے سامنے صف آراء ہوا، پيغمبر اكرم (ص) نے پہلے انہيں صلح كى تجويز پيش كى تاكہ عذر اور بہانہ باقى نہ رہے، آپ نے ايك نمائندے كے ہاتھ پيغام بھيجا كہ ميں نہيں چاہتا كہ تم وہ پہلا گروہ بن جائو كہ جس پر ہم حملہ آور ہوں ، بعض سردار ان قريش چاہتے تھے يہ صلح كا ہاتھ جوان كى طرف بڑھايا گيا ہے اسے تھام ليں اور صلح كرليں ، ليكن پھر ابوجہل مانع ہوا_

ستر قتل ستر اسير

آخركار جنگ شروع ہوئي ،اس زمانے كے طريقے كے مطابق پہلے ايك كے مقابلے ميں ايك نكلا ،ادھر لشكر اسلام ميں رسول اللہ (ص) كے چچا حمزہ اور حضرت على عليہ السلام جوجو ان ترين افراد تھے ميدان ميں نكلے، مجاہدين اسلام ميں سے چند اور بہادر بھى اس جنگ ميں شريك ہوئے ،ان جوانوں نے اپنے حريفوں كے پيكر پر سخت ضربيں لگائيں اور كارى وار كئے اور ان كے قدم اكھاڑديئے ،دشمن كا جذبہ اور كمزور پڑگيا ،يہ ديكھا تو ابوجہل نے عمومى حملے كا حكم دے ديا _

ابوجہل پہلے ہى حكم دے چكا تھا كہ اصحاب پيغمبر (ص) ميں سے جو اہل مدينہ ميں سے ہيں انہيں قتل

۵۲۳

كردو ، مہاجرين مكہ كو اسير كرلو مقصديہ تھا كہ ايك طرح كے پر وپيگنڈا كے لئے انہيں مكہ لے جائيں _

يہ لمحات بڑے حساس تھے، رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ جمعيت كى كثرت پر نظر نہ كريں اور صرف اپنے مد مقابل پر نگاہ ركھيں دانتوں كو ايك دوسرے پرركھ كر پيسيں ، باتيں كم كريں ، خدا سے مدد طلب كريں ، حكم پيغمبر سے كہيں رتى بھر سرتابى نہ كريں اور مكمل كاميابى كى اميد ركھيں ، رسول اللہ (ص) نے دست دعا آسمان كى طرف بلند كئے اور عرض كيا : ''پالنے والے اگر يہ لوگ قتل ہوگئے تو پھر تيرى عبادت كوئي نہيں كرے گا''_

دشمن كے لشكر كى سمت ميں سخت ہوا چل رہى تھى اور مسلمان ہوا كى طرف پشت كركے ان پر حملے كررہے تھے _ ان كى استقامت ، پامردى اور دلاورى نے قريش كا ناطقہ بندكرديا ابوجہل سميت دشمن كے ستر آدمى قتل ہوگئے ان كى لاشيں خاك وخون ميں غلطاں پڑى تھيں سترا فراد مسلمانوں كے ہاتھوں قيد ہوگئے مسلمانوں كے بہت كم افراد شہيد ہوئے_

اس طرح مسلمانوں كى پہلى مسلح جنگ طاقتور دشمن كے خلاف غير متوقع كاميابى كے ساتھ اختتام پذيزر ہوئي _

جنگ بدر ميں مسلمانوں كى تعداد تين سو تيرہ تھي، ان ميں ۷۷/ مہاجر تھے اور دوسو چھتيس (۲۳۶) انصار، مہاجرين كا پرچم حضرت على عليہ السلام كے ہاتھ ميں تھا، اور انصار كا پرچم بردار'' سعد بن عبادہ'' تھے، اس عظيم معركہ كے لئے ان كے پاس صرف ۷۰ /اونٹ دو گھوڑے، ۶/زرہيں اور آٹھ تلواريں تھيں ، دوسرى طرف دشمن كى فوج ہزار افراد سے متجاوز تھي، اس كے پاس كافى ووافى اسلحہ تھا اور ايك سو گھوڑے تھے، اس جنگ۲۲/ مسلمان شہيد ہوئے ان ميں چودہ مہاجر او ر۸/ انصار تھے، دشمن كے ستر(۷۰) افراد مارے گئے اور ستر ہى قيدى ہوئے، اس طرح مسلمانوں كو فتح نصيب ہوئي اور يوں مكمل كامرانى كے ساتھ وہ مدينہ كى طرف پلٹ گئے_

واقعاً يہ عجيب و غريب بات تھى كہ تواريخ كے مطابق مسلمانوں كے چھوٹے سے لشكر كے مقابلہ ميں

۵۲۴

قريش كى طاقتور فوج نفسياتى طور پر اس قدر شكست خودرہ ہوچكى تھى كہ ان ميں سے ايك گروہ مسلمانوں سے جنگ كرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل ميں سوچتے كہ يہ عام انسان نہيں ہيں ، بعض كہتے ہيں كہ يہ موت كو اپنے اونٹوں پر لادكر مدينہ سے تمہارے لئے سوغات لائے ہيں _

''سعدبن معاذانصارى ''نمائندہ كے طور پر خدمت پيغمبر ميں حاضر ہوئے اور عرض كرنے لگے :

ميرے ماں پاپ آپ پر قربان اے اللہ كے رسول ہم آپ پر ايمان لائے ہيں اور ہم نے آپ كى نبوت كى گواہى دى ہے كہ جو كچھ آپ كہتے ہيں خدا كى طرف سے ہے، آپ جو بھى حكم دينا چاہيں ديجئے اور ہمارے مال ميں سے جو كچھ آپ چاہيں لے ليں ، خدا كى قسم اگر آپ ہميں حكم ديں كہ اس دريا ( دريائے احمر كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ،جووہاں سے قريب تھا ) ميں كود پڑو تو ہم كو د پڑيں گے ہمارى يہ آرزو ہے كہ خدا ہميں توفيق دے كہ ايسى خدمت كريں جو آپ كى آنكھ كى روشنى كا باعث ہو_

روز بدر رسول اللہ (ص) نے حضرت على عليہ السلام سے فرمايا:

زمين سے مٹى اور سنگريزوں كى ايك مٹھى بھر كے مجھے ديدو_

حضرت على عليہ السلام نے ايسا ہى كيا اور رسول خدا (ص) نے اسے مشركين كى طرف پھينك ديا اور فرمايا:

''شاہت الوجوہ''(تمہارے منھ قبيح اور سياہ ہوجائيں )

لكھا ہے كہ معجزانہ طور پر گرد و غبار اور سنگريزے دشمن كى آنكھوں ميں جا پڑے اور سب وحشت زدہ ہوگئے_

مجاہدين كى تشويق

ابن عباس سے منقول ہے كہ رسول اللہ (ص) نے جنگ بدر كے روز مجاہدين اسلام كى تشويق كے لئے كچھ انعامات مقرركيے مثلاً فرمايا كہ جو فلاں دشمن كو قيد كر كے ميرے پاس لائے گا اُسے يہ انعام دوں گا ان

۵۲۵

ميں پہلے ہى روح ايمان وجہاد موجود تھى اوپر سے يہ تشويق بھي، نتيجہ يہ ہو اكہ جوان سپاہى بڑے افتخار سے مقابلہ كے لئے آگے بڑھے اور اپنے مقصد كى طرف لپكے بوڑھے سن رسيدہ افراد جھنڈوں تلے موجودرہے جب جنگ ختم ہوئي تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات كے لئے بارگاہ پيغمبر اكرم (ص) كى طرف بڑھے، بوڑھے ان سے كہنے لگے كہ اس ميں ہمارا بھى حصہ ہے كيونكہ ہم تمہارے لئے پناہ اور سہارے كاكام كررہے تھے اور تمہارے لئے جوش وخروش كا باعث تھے اگر تمہارا معاملہ سخت ہوجاتاہے تو تمہيں پيچھے ہٹنا پڑتا تو يقيناً تم ہمارى طرف آتے اس موقع پر دو انصاريوں ميں تو تو ميں ميں بھى ہوگئي اور انہوں نے جنگى غنائم كے بارے ميں بحث كى _

اس اثناء ميں سورہ انفال كى پہلى آيت نازل ہوئي جس ميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا كہ غنائم كا تعلق پيغمبر (ص) سے ہے وہ جيسے چاہيں انہيں تقسيم فرمائيں ، پيغمبر اكرم (ص) نے بھى مساوى طور پر سب سپاہيوں ميں غنائم تقسيم كرديئے اور برادران دينى ميں صلح ومصالحت كا حكم ديا _

جنگ كا خاتمہ اور اسيروں كا واقعہ

جنگ بدر كے خاتمہ پر جب جنگى قيدى بنالئے گئے اور پيغمبر اكرم (ص) نے يہ حكم دياكہ قيديوں ميں سے دو خطر ناك افراد عقبہ اور نضر كو قتل كردياجائے تو اس پر انصار گھبراگئے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ حكم تمام قيديوں كے متعلق جارى ہوجائے اور وہ فديہ لينے سے محروم ہوجائيں ) لہذا انہوں نے رسول اللہ كى خدمت ميں عرض كيا : ہم نے سترآدميوں كو قتل كيا ہے اور سترہى كو قيدى بنايا ہے اور يہ آپ كے قبيلے ميں سے آپ ہى كے قيدى ہيں ،يہ ہميں بخش ديجئے تاكہ ہم ان كى آزادى كے بدلے فديہ لے سكيں _

(رسول اللہ اس كے لئے وحى آسمانى كے منتظر تھے ) اس موقع پروحى الہى نازل ہوئي اورقيديوں كى آزادى كے بدلے فديہ لينے كى اجازت ديدى گئي _

اسيروں كى ازادى كے لئے زيادہ سے زيادہ چار ہزار درہم اور كم سے كم ايك ہزار درہم معين كى گئي، يہ بات قريش كے كانوں تك پہونچى تو انھوں نے ايك ايك كے بدلے معين شدہ رقم بھيج كرا سيروں كو ازاد

۵۲۶

كراليا_

تعجب كى بات يہ ہے كہ رسول اللہ (ص) كا داماد ابوالعاص بھى ان قيديوں ميں تھا ،رسول (ص) كى بيٹى يعنى زينب جو ابولعاص كى بيوى تھى نے وہ گلو بند جو جناب خديجہ نے ان كى شاد ى كے وقت انہيں ديا تھا فديہ كے طور پررسول اللہ (ص) كے پاس بھيجا،جب پيغمبر اكرم (ص) كى نگاہ گلو بند پر پڑى تو جناب خديجہ جيسى فداكار اور مجاہدہ خاتون كى ياد يں ان كى آنكھوں كے سامنے مجسم ہوگئيں ،آپ(ص) نے فرمايا:خدا كى رحمت ہو خديجہ پر ،يہ وہ گلو بند ہے جو اس نے ميرى بيٹى زينب كو جہيز ميں ديا تھا(اور بعض دوسرى روايات كے مطابق جناب خديجہ كے احترام ميں آپ (ص) نے گلو بند قبول كرنے سے احرازكيا اور حقوق مسلمين كو پيش نظر كرتے ہوئے اس ميں ان كى موافقت حاصل كي)_

اس كے بعد پيغمبر اكرم (ص) نے ابوالعاص كو اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ زينب كو (جو اسلام سے پہلے ابوالعاص كى زوجيت ميں تھيں )مدينہ پيغمبر (ص) كے پاس بھيج دے ، اس نے بھى اس شرط كو قبول كرليا او ربعد ميں اسے پورا بھى كيا_

آنحضرت(ص) كے چچا عباس كا اسلام قبول كرنا

انصار كے كچھ آدميوں نے رسول اللہ (ص) سے اجازت چاہى كہ آپ كے چچا عباس جو قيديوں ميں تھے ان سے آپ(ص) كے احترام ميں فديہ نہ ليا جائے ليكن پيغمبر (ص) نے فرمايا:

''خداكى قسم اس كے ايك درھم سے بھى صرف نظر نہ كرو''( اگر فديہ لينا خدائي قانون ہے تو اسے سب پر جارى ہونا چاہئے ،يہاں تك كہ ميرے چچا پر بھى اس كے اور دوسروں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_)

پيغمبر اكرم (ص) عباس كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا: اپنى طرف سے او راپنے بھتيجے ( عقيل بن ابى طالب) كى طرف سے آپ(ص) كو فديہ ادا كرنا چاہئے_

۵۲۷

عباس ( جو مال سے بڑا لگائو ركھتے تھے ) كہنے لگے: اے محمد(ص) كيا تم چاہتے ہو كہ مجھے ايسا فقير او رمحتاج كردو كہ ميں اہل قريش كے سامنے اپنا ہاتھ پھيلائوں _

رسول اللہ (ص) نے فرمايا: اس مال ميں سے فديہ ادا كريں جو آپ(ص) نے اپنى بيوى ام الفضل كے پاس ركھا تھا اور اس سے كہا تھا كہ اگر ميں ميدان جنگ ميں مارا جائوں تو اس مال كو اپنے اور اپنى اولاد كے مصارف كے لئے سمجھنا_

عباس يہ بات سن كر بہت متعجب ہوئے اور كہنے لگے: آپ(ص) كو يہ بات كس نے بتائي ( حالانكہ يہ تو بالكل محرمانہ تھى )؟

رسول اللہ (ص) نے فرمايا : جبرئيل نے، خدا كى طرف سے_

عباس بولے : اس كى قسم كہ جس كى محمد (ص) قسم كھاتا ہے كہ ميرے اور ميرى بيوى كے علاوہ اس راز سے كوئي آگاہ نہ تھا_

اس كے بعد وہ پكار اٹھے: ''اشھد انك رسول اللہ''

( يعنى ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ(ص) اللہ كے رسول ہيں )

اور يوں وہ مسلمان ہوگئے_

آزادى كے بعد بدر كے تمام قيدى مكہ لوٹ گئے ليكن عباس، عقيل اور نوفل مدينہ ہى ميں رہ گئے كيونكہ انہوں نے اسلام قبول كرليا تھا_

عباس كے اسلام لانے كے بارے ميں بعض تواريخ ميں ہے كہ اسلام قبول كرلينے كے بعد وہ مكہ كى طرف پلٹ گئے تھے اور خط كے ذريعہ رسول اللہ (ص) كو سازش سے باخبر كيا كرتے تھے ، پھر ۸ سے پہلے فتح مكہ كے سال مدينہ كى طرف ہجرت كر آئے_

۵۲۸

جنگ احد(۱)

جنگ احد كا پيش خيمہ جب كفار مكہ جنگ بدر ميں شكست خوردہ ہوئے اور ستر(۷۰) قيدى چھوڑكر مكہ كى طرف پلٹ گئے تو ابو سفيان نے لوگوں كو خبر دار كيا كہ وہ اپنى عورتوں كو مقتولين بدر پر گريہ وزارى نہ كرنے ديں كيونكہ آنسو غم واندوہ كو دور كرديتے ہيں اور اس طرح محمد كى دشمنى اور عداوت ا۶ن كے دلوں سے ختم ہوجائے گى ، ابو سفيان نے خود يہ عہد كرركھا تھا كہ جب تك جنگ بدر كے قاتلوں سے انتقام نہ لے لے اس وقت تك وہ اپنى بيوى سے ہمبسترى نہيں كرے گا ،بہر حال قريش ہر ممكن طريقہ سے لوگوں كوپيغمبر اسلام (ص) كے خلاف اكساتے تھے اور انتقام كى صدا شہر مكہ ميں بلند ہورہى تھى _

ہجرت كے تيسرے سال قريش ہزار سوار اور دوہزار پيدل كے ساتھ بہت سامان جنگ لے كر آپ سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلے اور ميدان جنگ ميں ثابت قدمى سے لڑنے كے لئے اپنے بڑے بڑے بت اور اپنى عورتوں كو بھى ہمراہ لے آئے _

____________________

()جنگ احد كا واقعہ سورہ آل عمران آيت ۱۲۰ كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

۵۲۹

جناب عباس كى بر وقت اطلاع

حضرت رسول خدا (ص) كے چچاحضرت عباس جو ابھى مسلمان نہيں ہوئے تھے اور قريش كے درميان ان كے ہم مشرب و ہم مذہب تھے ليكن اپنے بھتيجے سے فطرى محبت كى بنا پر جب انھوں نے ديكھا كہ قريش كا ايك طاقتور لشكر پيغمبر (ص) سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلا ہے تو فوراً ايك خط لكھا اور قبيلہ بنى غفار كے ايك آدمى كے ہاتھ مدينہ بھيجا ،عباس كا قاصد بڑى تيزى سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا ،جب آپ كو اس كى اطلاع ملى تو آپ نے سعد بن اُبَ كو عباس كا پيغام پہنچايا اور حتى الامكان اس واقعہ كو پردہ راز ميں ركھنے كى كوشش كى _

پيغمبر كا مسلمانوں سے مشورہ

جس دن عباس كا قاصد آپ كو موصول ہوا آپ نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ مكہ ومدينہ كے راستہ پر جائيں اور لشكر كفار كے كوائف معلوم كريں ، آپ كے دو نمائندے ان كے حالات معلوم كركے بہت جلدى واپس آئے اور قريش كى قوت وطاقت سے آنحضرت (ص) كو مطلع كيا اور يہ بھى اطلاع دى كہ طاقتور لشكر خود ابوسفيان كى كمان ميں ہے _

پيغمبراكرم (ص) نے چند روز كے بعد تمام اصحاب اور اہل مدينہ كو بلايا اور ان در پيش حالات كا مقابلہ كرنے كے لئے ميٹنگ كي، اس ميں عباس كے خط كو بھى پيش كيا گيا اور اس كے بعد مقام جنگ كے بارے ميں رائے لى گئي اس ميٹنگ ميں ايك گروہ نے رائے دى كہ جنگ دشمن سے مدينہ كى تنگ گليوں ميں كى جائے كيونكہ اس صورت ميں كمزور مرد ،عورتيں بلكہ كنيزيں بھى مدد گار ثابت ہوسكيں گي_

عبد اللہ بن ابى نے تائيد ا ًكہا يا رسول اللہ (ص) آج تك ايسا نہيں ہوا كہ ہم اپنے قلعوں اور گھروں ميں ہوں اور دشمن ہم پر كامياب ہوگيا ہو _

اس رائے كو آپ بھى اس وقت كى مدينہ كى پوزيشن كے مطابق بنظر تحسين ديكھتے تھے كيونكہ آپ بھى

۵۳۰

مدينہ ہى ميں ٹھہرنا چاہتے تھے ليكن نوجوانوں اورجنگجو و ں كا ايك گروہ اس كا مخالف تھا چنانچہ سعد بن معاذ اور قبيلہ اوس كے چند افراد نے كھڑے ہو كر كہا اے رسول خدا (ص) گذشتہ زمانے ميں عربوں ميں سے كسى كو يہ جرا ت نہ تھى كہ ہمارى طرف نظر كرے جبكہ ہم مشرك اور بت پرست تھے اب جبكہ ہمارے درميان آپ كى ذات والا صفات موجود ہے كس طرح وہ ہميں دبا سكتے ہيں اس لئے شہرسے باہر جنگ كرنى چاہئے اگر ہم ميں سے كوئي مارا گيا تو وہ جام شہادت نوش كرے گا اور اگر كوئي بچ گيا تو اسے جہاد كا اعزازوافتخار نصيب ہوگا اس قسم كى باتوں اور جوش شجاعت نے مدينہ سے باہر جنگ كے حاميوں كى تعدا دكو بڑھا ديا يہاں تك كہ عبد اللہ بن اُبَ كى پيش كش سرد خانہ ميں جاپڑى خود پيغمبر (ص) نے بھى اس مشورے كا احترام كيااور مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كے طرف داروں كى رائے كو قبول فرماليا اور ايك صحابى كے ساتھ مقام جنگ كا انتخاب كرنے كے لئے شہر سے باہر تشريف لے گئے آپ نے كوہ احد كا دامن لشكر گاہ كے لئے منتخب كيا كيونكہ جنگى نقطہ نظر سے يہ مقام زيادہ مناسب تھا_

مسلمانوں كى دفاعى تيارياں

جمعہ كے دن آپ نے يہ مشورہ ليا اور نماز جمعہ كا خطبہ ديتے ہوئے آپ نے حمدو ثناء كے بعد مسلمانوں كو لشكر قريش كى آمد كى اطلاع دى اور فرمايا:

'' تہہ دل سے جنگ كے لئے آمادہ ہوجائو اور پورے جذبہ سے دشمن سے لڑو تو خدا وند قددس تمہيں كاميابى وكامرانى سے ہمكنار كرے گا اور اسى دن آپ ايك ہزار افراد كے ساتھ لشكر گاہ كى طرف روانہ ہوئے آپ خود لشكر كى كمان كررہے تھے مدينہ سے نكلنے سے قبل آپ نے حكم ديا كہ لشكر كے تين علم بنائے جائيں جن ميں ايك مہاجرين اور دو انصار كے ہوں ''_

پيغمبر اكرم (ص) نے مدينہ اور احد كے درميانى فاصلے كو پاپيادہ طے كيا اور سارے راستے لشكر كى ديكھ بھال كرتے رہے خود لشكر كى صفوں كو منظم ومرتب ركھا تاكہ وہ ايك ہى سيدھى صف ميں حركت كريں _

۵۳۱

ان ميں سے كچھ ايسے افراد كو ديكھا جو پہلى وفعہ آپ كو نظر پڑے پوچھا كہ يہ لوگ كون ہيں ؟ بتايا گيا كہ يہ عبداللہ بن ابى كے ساتھى كچھ يہودى ہيں اور اس مناسبت سے مسلمانوں كى مدد كے لئے آئے ہيں آپ نے فرمايا كہ مشركين سے جنگ كرنے ميں مشركين سے مدد نہيں لى جاسكتى مگريہ كہ يہ لوگ اسلام قبول كرليں يہوديوں نے اس شرط كو قبول نہ كيا اور سب مدينہ كى طرف پلٹ آئے يوں ايك ہزار ميں سے تين سو افراد كم ہوگئے _

ليكن مفسرين نے لكھا ہے كہ چونكہ عبداللہ بن اُبَ كى رائے كو رد كيا گيا تھا اس لئے وہ اثنائے راہ ميں تين سوسے زيادہ افراد كو لے كر مدينہ كى طرف پلٹ آيا بہر صورت پيغمبر اكرم (ص) لشكر كى ضرورى چھان بين (يہوديوں يا ابن ابى ابى كے ساتھيوں كے نكالنے) كے بعد سات سو افراد كو ہمراہ لے كر كوہ احد كے دامن ميں پہنچ گئے، اور نماز فجر كے بعد مسلمانوں كى صفوں كو آراستہ كيا_

عبد اللہ بن جبير كو پچاس ماہر تير اندازوں كے ساتھ پہاڑ كے درہ پر تعينات كيا اور انھيں تاكيد كى كہ وہ كسى صورت ميں اپنى جگہ نہ چھوڑيں اور فوج كے پچھلے حصے كى حفاظت كريں اور اس حد تك تاكيد كى كہ اگر ہم دشمن كا مكہ تك پيچھا كريں يا ہم شكست كھاجائيں اور دشمن ہميں مدينہ تك جانے پر مجبور كردے پھر بھى تم اپنا مورچہ نہ چھوڑنا، دوسرى طرف سے ابو سفيان نے خالد بن وليد كو منتخب سپاہيوں كے ساتھ اس درہ كى نگرانى پر مقرر كيا اور انھيں ہر حالت ميں وہيں رہنے كا حكم د يا اور كہا كہ جب اسلامى لشكر اس درہ سے ہٹ جائے تو فوراً لشكر اسلام پر پيچھے سے حملہ كردو_

آغاز جنگ

دونوں لشكر ايك دوسرے كے امنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ ہوگئے اور يہ دونوں لشكر اپنے نوجوانوں كو ايك خاص انداز سے اكسا رہے تھے، ابوسفيان كعبہ كے بتوں كے نام لے كر اور خوبصورت عورتوں كے ذريعے اپنے جنگى جوانوں كى توجہ مبذول كراكے ان كو ذوق وشوق دلاتا تھا_

جب كہ پيغمبر اسلام (ص) خدا كے اسم مبارك اور انعامات اعلى كے حوالے سے مسلمانوں كو جنگ

۵۳۲

كى ترغيب ديتے تھے اچانك مسلمانوں كى صدائے اللہ اكبراللہ اكبر سے ميدان اور دامن كوہ كى فضا گونج اٹھى جب كہ ميدان كى دوسرى طرف قريش كى لڑكيوں نے دف اور سارنگى پر اشعار گا گا كر قريش كے جنگ جو افراد كے احساسات كو ابھارتى تھيں _

جنگ كے شروع ہوتے ہى مسلمانوں نے ايك شديد حملہ سے لشكر قريش كے پرخچے اڑاديئےور وہ حواس باختہ ہوكر بھاگ كھڑے ہوئے اور لشكر اسلام نے ان كا پيچھا كرنا شروع كرديا خالدبن وليد نے جب قريش كى يقينى شكت ديكھى تو اس نے چاہا كہ درہ كے راستے نكل كر مسلمانوں پر پيچھے سے حملہ كرے ليكن تيراندازوں نے اسے پيچھے ہٹنے پر مجبور كرديا قريش كے قدم اكھڑتے ديكھ كر تازہ مسلمانوں كے ايك گروہ نے دشمن كو شكت خوردہ سمجھ كرمال غنيمت جمع كرنے كے لئے اچانك اپنى پوزيشن چھوڑدى ، ان كى ديكھا ديكھى درہ پر تعينات تيراندازوں نے بھى اپنا مورچہ چھوڑديا، ان كے كمانڈرعبد اللہ بن جبيرنے انہيں آ نحضرت(ص) كا حكم ياددلايا مگرسوائے چند (تقريبا ًدس افراد) كے كوئي اس اہم جگہ پر نہ ٹھہرا_

پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت كا نتيجہ يہ ہوا كہ خالدبن وليد نے درہ خالى ديكھ كر بڑى تيزى سے عبد اللہ بن جبير پر حملہ كيا اور اسے اس كے ساتھيوں سميت قتل كرديا، اس كے بعد انہوں نے پيچھے سے مسلمانوں پر حملہ كرديا اچانك مسلمانوں نے ہر طرف چمك دار تلواروں كى تيزدھاروں كو اپنے سروں پر ديكھا تو حواس باختہ ہوگئے اور اپنے آپ كو منظم نہ ركھ سكے قريش كے بھگوڑوں نے جب يہ صورتحال ديكھى تو وہ بھى پلٹ آئے اور مسلمانوں كو چاروں طرف سے گھيرليا_

اسى موقع پر لشكر اسلام كے بہادر افسر سيد الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں كے ساتھ جام شہادت نوش كيا ،سوائے چند شمع رسالت كے پروانوں كے اور بقيہ مسلمانوں نے وحشت زدہ ہوكر ميدان كو دشمن كے حوالے كرديا_

اس خطرناك جنگ ميں جس نے سب سے زيادہ فداكارى كا مظاہرہ كيا اور پيغمبر اكرم (ص) پر ہونے والے دشمن كے ہر حملے كا دفاع كيا وہ حضرت على بن ابى طالب عليہ السلام تھے _

۵۳۳

حضرت على عليہ السلام بڑى جرا ت اور بڑے حوصلہ سے جنگ كررہے تھے يہاں تك كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي، اور پيغمبر اكرم (ص) (ص) نے اپنى تلوار آپ كو عنايت فرمائي جو ذوالفقار كے نام سے مشہور ہے بالآخر آپ ايك مورچہ ميں ٹھہرگئے اور حضرت على عليہ السلام مسلسل آپ كا دفاع كرتے رہے يہاں تك كہ بعض مورخين كى تحقيق كے مطابق حضرت على عليہ السلام كے جسم پر ساٹھ كارى زخم آئے، اور اسى موقع پر قاصد وحى نے پيغمبراكرم (ص) سے عرض كيا :اے محمد يہ ہے مواسات ومعاونت كا حق ،آپ (ص) نے فرمايا ( ايسا كيوں نہ ہو كہ ) على مجھ سے ہے اور ميں على سے ہوں ،تو جبرئيل نے اضافہ كيا : ميں تم دونوں سے ہوں _

امام صادق ارشاد فرماتے ہيں كہ پيغمبر اكرم (ص) نے قاصد وحى كو آسمان ميں يہ كہتے ہوئے ديكھا كہ: ''لاسيف الاذوالفقار ولا فتى الا على '' (ذوالفقار كے علاوہ كوئي تلوار نہيں اور على كے سوا كوئي جوانمرد نہيں )

اس اثناء ميں يہ آواز بلند ہوئي كہ محمد قتل ہوگئے _

يہ آواز فضائے عالم ميں گونج اٹھى اس آواز سے جتنابت پرستوں كے جذبات پر مثبت اثر پيدا ہوا اتناہى مسلمانوں ميں عجيب اضطراب پيدا ہوگيا چنانچہ ايك گروہ كے ہاتھ پائوں جواب دے گئے اور وہ بڑى تيزى سے ميدان جنگ سے نكل گئے يہاں تك كہ ان ميں سے بعض نے سوچا كہ پيغمبر شہيدہو گئے ہيں لہذا اسلام ہى كو خيرباد كہہ ديا جائے اور بت برستوں كے سرداروں سے امان طلب كرلى جائے ليكن ان كے مقابلہ ميں فداكاروں اور جانثاروں كى بھى ايك قليل جماعت تھى جن ميں حضرت على ابود جانہ اور طلحہ جيسے بہادر لوگ موجود تھے جوباقى لوگوں كوپامردى اور استقامت كى دعوت دے رہے تھے ان ميں سے انس بن نضر لوگوں كے درميان آيا اور كہنے لگا :اے لوگو اگر محمد شہيد ہوگئے ہيں تو محمد كا خدا تو قتل نہيں ہوا چلو اور جنگ كرو ،اسى نيك اور مقدس ہدف كے حصول كے لئے درجہ شہادت پر فائز ہو جائو ،يہ گفتگو تمام كرتے ہى انھوں نے دشمن پر حملہ كرديا يہاں تك كہ شہيد ہوگئے ،تاہم جلد معلوم ہوگيا كہ پيغمبر اكرم (ص) سلامت ہيں اور اطلاع ايك شايعہ تھى _

۵۳۴

كون پكارا كہ محمد (ص) قتل ہوگئے ؟

''ابن قمعہ'' نے اسلامى سپاہى مصعب كو پيغمبر سمجھ كر اس پر كارى ضرب لگائي اور باآواز بلند كہا :لات وعزى كى قسم محمد قتل ہوگئے _

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ يہ افواہ چاہے مسلمانوں نے اڑائي يا دشمن نے ليكن مسلمانوں كے لئے فائدہ مند ثابت ہوئي اس لئے كہ جب آواز بلند ہوئي تو دشمن ميدان چھوڑ كر مكہ كى طرف چل پڑے ورنہ قريش كا فاتح لشكر جو حضور (ص) كے لئے دلوں ميں كينہ ركھتا تھا اور انتقام لينے كى نيت سے آيا تھا كبھى ميدان نہ چھوڑتا، قريش كے پانچ ہزار افراد پر مشتمل لشكر نے ميدان جنگ ميں مسلمانوں كى كاميابى كے بعد ايك رات بھى صبح تك وہاں نہ گذارى اور اسى وقت مكہ كى طرف چل پڑے_

پيغمبر (ص) كى شہادت كى خبر نے بعض مسلمانوں ميں اضطراب وپريشانى پيدا كردى ،جو مسلمان اب تك ميدان كارزار ميں موجود تھے ، انھوں نے اس خيال سے كہ دوسرے مسلمان پراكندہ نہ ہوں آنحضرت (ص) كو پہاڑ كے اوپر لے گئے تاكہ مسلمانوں كو پتہ چل جائے كہ آپ بقيد حيات ہيں ، يہ ديكھ كر بھگوڑے واپس آگئے اور آنحضرت كے گرد پروانوں كى طرح جمع ہوگئے ،آپ نے ان كو ملامت وسرزنش كى كہ تم نے ان خطرناك حالات ميں كيوں فرار كيا ،مسلمان شرمندہ تھے انہوں نے معذرت كرتے ہوئے كہا : يا رسول خدا ہم نے آپ كى شہادت كى خبر سنى تو خوف كى شدت سے بھاگ كھڑے ہوے_

مفسر عظيم مرحوم طبرسي، ابو القاسم بلخى سے نقل كرتے ہيں كہ جنگ احد كے دن( پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ)سوائے تيرہ افرادكے تمام بھاگ گئے تھے، اور ان تيرہ ميں سے آٹھ انصار اور پانچ مہاجرتھے، جن ميں سے حضرت على عليہ السلام اور طلحہ كے علاوہ باقى ناموں ميں اختلاف ہے، البتہ دونوں كے بارے ميں تمام مو رخين كا اتفاق ہے كہ انھوں نے فرار نہيں كيا_

يوں مسلمانوں كو جنگ احد ميں بہت زيادہ جانى اورمالى نقصان كا سامنا كرنا،پڑا مسلمانوں كے ستر

۵۳۵

افراد شہيد ہوئے اور بہت سے زخمى ہوگئے ليكن مسلمانوں كو اس شكست سے بڑا درس ملا جو بعد كى جنگوں ميں ان كى كاميابى و كامرانى كا باعث بنا _

جنگ كا خطرناك مرحلہ

جنگ احد كے اختتام پر مشركين كا فتحياب لشكر بڑى تيزى كے ساتھ مكہ پلٹ گيا ليكن راستے ميں انہيں يہ فكر دامن گير ہوئي كہ انہوں نے اپنى كاميابى كو ناقص كيوں چھوڑديا _كيا ہى اچھا ہو كہ مدينہ كى طرف پلٹ جائيں اور اسے غارت و تاراج كرديں اور اگر محمد زندہ ہوں تو انہيں ختم كرديں تاكہ ہميشہ كے لئے اسلام اور مسلمانوں كى فكر ختم ہوجائے ، اور اسى بنا پر انہيں واپس لوٹنے كا حكم ديا گيا اور درحقيقت جنگ احد كا يہ وہ خطر ناك مرحلہ تھا كيونكہ كافى مسلمان شہيد اور زخمى ہوچكے تھے اور فطرى طور پر وہ ازسر نو جنگ كرنے كے لئے آمادہ نہيں تھے _جبكہ اس كے برعكس اس مرتبہ دشمن پورے جذبہ كے ساتھ جنگ كرسكتا تھا_

يہ اطلاع پيغمبر اكرم (ص) كو پہنچى تو آپ نے فوراً حكم ديا كہ جنگ احد ميں شريك ہونے والا لشكر دوسرى جنگ كے لئے تيار ہوجائے ،آپ نے يہ حكم خصوصيت سے ديا كہ جنگ احد كے زخمى بھى لشكر ميں شامل ہوں ،(حضرت على عليہ السلام نے جن كے بدن پر دشمنوں نے ۶۰/زخم لگائے تھے،ليكن اپ پھر دوبارہ دشمنوں كے مقابلہ ميں اگئے) ايك صحابى كہتے ہيں :

ميں بھى زخميوں ميں سے تھا ليكن ميرے بھائي كے زخم مجھ سے زيادہ شديد تھے ، ہم نے ارادہ كرليا كہ جو بھى حالت ہو ہم پيغمبر اسلام كى خدمت ميں پہونچے گے، ميرى حالت چونكہ ميرے بھائي سے كچھ بہتر تھى ، جہاں ميرا بھائي نہ چل پاتا ميں اسے اپنے كندھے پر اٹھاليتا، بڑى تكليف سے ہم لشكر تك جا پہنچے، پيغمبر اكرم (ص) اور لشكر اسلام ''حمراء الاسد'' كے مقام پر پہنچ گئے اور وہاں پر پڑائو ڈالا يہ جگہ مدينہ سے آٹھ ميل كے فاصلے پر تھي_

يہ خبر جب لشكر قريش تك پہنچى خصوصاً جب انھوں نے مقابلہ كے لئے ايسى آمادگى ديكھى كہ زخمى بھى ميدان جنگ ميں پہنچ گئے ہيں تو وہ پريشان ہوگئے اور ساتھ ہى انھيں يہ فكر بھى لاجق ہوئي كہ مدينہ سے تازہ دم

۵۳۶

فوج ان سے آملى ہے_

اس موقع پر ايسا واقعہ پيش آيا جس نے ان كے دلوں كو اور كمزور كرديا اور ان ميں مقابلہ كى ہمت نہ رہى ، واقعہ يہ ہوا كہ ايك مشرك جس كا نام ''معبد خزاعي'' تھا مدينہ سے مكہ كى طرف جارہا تھا اس نے پيغمبر اكرم اور ان كے اصحاب كى كيفيت ديكھى تو انتہائي متاثر ہوا، اس كے انسانى جذبات ميں حركت پيدا ہوئي، اس نے پيغمبر اكرم (ص) سے عرض كيا: آپ كى يہ حالت و كيفيت ہمارے لئے بہت ہى ناگوار ہے آپ آرام كرتے تو ہمارے لئے بہتر ہوتا، يہ كہہ كر وہ وہاں سے چل پڑااور'' روحاء'' كے مقام پر ابو سفيان كے لشكر سے ملا، ابو سفيان نے اس سے پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں سوال كيا تو اس نے جواب ميں كہا: ميں نے محمد (ص) كو ديكھا ہے كہ وہ ايسا عظيم لشكر لئے ہوئے تمہارا تعاقب كرہے ہيں ايسا لشكر ميں نے كبھى نہيں ديكھا او رتيزى سے آگے بڑھ رہے ہيں _

ابوسفيان نے اضطراب اور پريشانى كے عالم ميں كہا : تم كيا كہہ رہے ہو؟ہم نے انہيں قتل كيا زخمى كيا اور منتشر كر كے ر كھ ديا تھا ،معبد خزاعى نے كہا: ميں نہيں جانتا كہ تم نے پايا كيا ہے ،ميں تو صرف يہ جانتا ہوں كہ ايك عظيم اور كثير لشكر اس وقت تمہارا تعاقب كر رہا ہے _

ابو سفيان اور اسكے سا تھيوں نے قطعى فيصلہ كر ليا كہ وہ تيزى سے پيچھے كى طرف ہٹ جا ئيں اور مكہ كى طرف پلٹ جا ئيں اور اس مقصد كے لئے كہ مسلمان ان كا تعاقب نہ كريں اور انہيں پيچھے ہٹ جا نے كا كا فى مو قع مل جا ئے ، انہوں نے قبيلہ عبد القيس كى ايك جما عت سے خواہش كى كہ وہ پيغمبر اسلا م (ص) اور مسلما نوں تك يہ خبر پہنجا ديں كہ ابو سفيان اور قريش كے بت پر ست با قى ماندہ اصحا ب پيغمبر (ص) كے ختم كرنے كے لئے ايك عظيم لشكر كے ساتھ تيزى سے مدينہ كى طرف آ رہے ہيں ، يہ جما عت گندم خريد نے كے لئے مدينہ جا رہى تھى جب يہ اطلاع پيغمبر اسلام (ص) اور مسلما نوں تك پہنچى تو انہوں نے كہا :''حسبنا اللہ و نعم الو كيل'' (خدا ہمارے لئے كافى ہے اور وہ ہمارا بہترين حامى اور مدافع ہے )_

انہوں نے بہت انتظار كيا ليكن دشمن كے لشكر كى كو ئي خبر نہ ہو ئي ، لہذا تين روز توقف كے بعد ،وہ

۵۳۷

مدينہ كى طرف لوٹ گئے_

كھوكھلى باتيں

جنگ بدر ميں بعض مسلمانوں كى پر افتخا ر شہادت كے بعد بعض مسلمان جب باہم مل بيٹھتے تو ہميشہ شہادت كى آرزو كرتے اور كہتے كاش يہ اعزاز ميدان بدر ميں ہميں بھى نصيب ہوجا تا ،يقينا ان ميں كچھ لوگ سچے بھى تھے ليكن ان ميں ايك جھوٹا گروہ بھى تھا جس نے اپنے آپ كو سمجھنے ميں غلطى كى ،بہر حال زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ جنگ احد كا وحشتناك معركہ در پيش ہوا تو ان سچے مجا ہدين نے بہادرى سے جنگ كى اور جام شہادت نوش كيا اور اپنى آرزوكو پا ليا ليكن جھوٹوں كے گروہ نے جب لشكر اسلام ميں شكست كے آثار ديكھے تو وہ قتل ہونے كے ڈر سے بھاگ كھڑے ہوئے تو يہ قران انہيں سرزنش كرتے ہوئے كہتا ہے كہ'' تم ايسے لوگ تھے كہ جو دلوں ميں آرزو اور تمنائے شہادت كے دعويدار تھے، پھرجب تم نے اپنے محبوب كو اپنى آنكھوں كے سامنے ديكھا تو كيوں بھاگ كھڑے ہوئے''_(۱)

حضرت على عليہ السلام كے زخم

امام باقر عليہ السلام سے اس طرح منقول ہے:حضرت على عليہ السلام كو احد كے دن اكسٹھ زخم لگے تھے اور پيغمبر (ص) نے ''ام سليم'' اور ''ام عطيہ'' كو حكم ديا كہ ہ دونوں حضرت على عليہ السلام كے زخموں كا علاج كريں ،تھوڑى ہى دير گذرى تھى كہ وہ حالت پريشانى ميں آنحضرت(ص) كى خدمت ميں عرض كرنے لگے: كہ حضرت على عليہ السلام كے بدن كى كيفيت يہ ہے كہ ہم جب ايك زخم باندھتے ہيں تو دوسرا كھل جا تاہے اور ان كے بدن كے زخم اس قدرزيادہ اور خطرناك ہيں كہ ہم ان كى زندگى كے بارے ميں پريشان ہيں تو حضرت رسول خدا (ص) اور كچھ ديگر مسلمان حضرت على عليہ السلام كى عيادت كے لئے ان كے گھرآئے جب كہ ان

____________________

(۱)سورہ ال عمران ايت ۱۶۳

۵۳۸

كے بدن پر زخم ہى زخم تھے پيغمبراكرم (ص) اپنے دست مبارك ان كے جسم سے مس كرتے تھے اور فرماتے تھے كہ جو شخص راہ خدا ميں اس حالت كو ديكھ لے وہ اپنى ہى ذمہ دارى كے آخرى درجہ كو پہنچ چكا ہے اور جن جن زخموں پرآپ(ص) ہاتھ ركھتے تھے وہ فوراًمل جاتے تھے تواس وقت حضرت على عليہ السلام نے فرمايا: الحمدا للہ كہ ان حالات ميں جنگ سے نہيں بھا گا اوردشمن كو پشت نہيں دكھائي خدا نے ان كى كو شش كى قدر دانى كي_

ہم نے شكست كيوں كھائي ؟

كا فى شہيد دےكر اور بہت نقصان اٹھا كر جب مسلمان مدينہ كى طرف پلٹ آئے تو ايك دوسرے سے كہتے تھے كہ كيا خدانے ہم سے فتح و كاميابى كا وعدہ نہيں كيا تھا،پھر اس جنگ ميں ہميں كيوں شكست ہوئي ؟اسى سے قران ميں انہيں جواب ديا گيا اور شكست كے اسباب كى نشاندہى كى گئي_(۱)

قرآن كہتا ہے كہ كاميابى كہ بارے ميں خدا كا وعدہ درست تھا اور اس كى وجہ ہى سے تم ابتداء جنگ ميں كامياب ہوئے اور حكم خدا سے تم نے دشمن كو تتر بتر كر ديا كاميا بى كا يہ وعدہ اس وقت تك تھا جب تك تم استقامت اور پائيدارى اور فرمان پيغمبرى (ص) كى پيروى سے دست بردار نہيں ہو ئے اور شكست كا دروازہ اس وقت كھلا جب سستى اور نا فرمائي نے تمہيں آگھيرا ،يعنى اگر تم نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ كا ميابى كا وعدہ بلا شرط تھا تو تمہارى بڑ ى غلط فہمى ہے بلكہ كاميابى كے تمام وعدے فرمان خدا كى پيروى كے ساتھ مشروط ہيں _

عمومى معافى كا حكم

جو لوگ واقعہ احد كے دوران جنگ سے فرار ہوگئے تھے وہ پيغمبر اكرم (ص) كے گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے ندامت وپشيمانى كے عالم ميں معافى كى درخواست كى تو خدا ئے تعالى نے پيغمبر اكرم (ص) سے انہيں عام معافى دينے كے لئے فرمايا لہذا حكم الہى نازل ہوتے ہى آپ نے فراخ دلى سے توبہ كرنے والے خطا كاروں كو معاف كرديا _

____________________

(۱)ال عمران ايت ۱۵۲

۵۳۹

قرآن ميں پيغمبر اكرم(ص) (ص) كى ايك بہت بڑى اخلاقى خوبى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے كہ تم پروردگار كے لطف وكرم كے سبب ان پر مہربان ہوگئے اور اگر تم ان كے لئے سنگدل،سخت مزاج اور تند خو ہوتے اور عملا ًان پر لطف وعنايت نہ كرتے تو وہ تمہارے پاس سے بكھر جاتے _ اس كے بعد حكم ديا گيا كہ'' ان كى كوتاہيوں سے درگزر فرمايئےور انہيں اپنے دامن عفو ميں جگہ ديجئے''_(۱)

يعنى اس جنگ ميں انہوں نے جو بے وفائياں آپ سے كى ہيں اور جو تكا ليف اس جنگ ميں آپ كو پہنچائي ہيں ، ان كے لئے ان كى مغفرت طلب كيجئے اور ميں خود ان كے لئے تم سے سفارش كرتا ہوں كہ انہوں نے ميرى جو مخالفتيں كى ہيں ،مجھ سے ان كى مغفرت طلب كرو دوسرے لفظوں ميں جو تم سے مربوط ہے اسے تم معاف كردو اورجو مجھ سے ربط ركھتا ہے اسے ميں بخش ديتا ہوں ، آنحضرت (ص) نے فرمان خدا پر عمل كرتے ہوئے ان تمام خطا كاروں كو عام معافى دےدى _(۲)

پيغمبر اكرم (ص) شہداء سے مخاطب

ابن مسعود پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كرتے ہيں : خدا نے شہداء بدرواحد كى ارواح كو خطاب كرتے ہوئے ان سے پوچھا كہ تمہارى كيا آرزو ہے تو انہوں نے كہا : پروردگارا ہم اس سے زيادہ كيا آرزو كرسكتے ہيں كہ ہم ہميشہ كى نعمتوں ميں غرق ہيں اور تيرے عرش كے سائے ميں رہتے ہيں ، ہمارا تقاضا صرف يہ ہے كہ ہم دوبارہ دنيا كى طرف پلٹ جائيں اور پھر سے تيرى راہ ميں شہيد ہوں ، اس پر خدا نے فرمايا : ميرااٹل فيصلہ ہے كہ كوئي شخص دوبارہ دنيا كى طرف نہيں پلٹے گا _

____________________

(۱) سورہ آل عمران آيت۱۵۹

(۲)واضح رہے كہ عفو ودر گزر كرنے كے لئے يہ ايك اہم اور بہت مناسب موقع تھا اور اگر آپ ايسانہ كرتے تو لوگوں كے بكھرجانے كےلئے فضا ہموار تھى وہ لوگ جو اتنى برى شكست كا سامناكر چكے تھے اور بہت سے مقتول ومجروح پيش گرچكے تھے (اگرچہ يہ سب كچھ ان كى اپنى غلطى سے ہواتا ہم ) ايسے لوگوں كو محبت ، دلجوئي اور تسلى كى ضرورت تھى تاكہ ان كے دل اور جسم كے زخم پر مرہم لگ سكے اور وہ ان سے جانبرہوكر آئندہ كے معركوں كےلئے تيار ہوسكيں

۵۴۰

انہوں نے عرض كيا : جب ايسا ہى ہے تو ہمارى تمنا ہے كہ ہمارے پيغمبر كو ہماراسلام كو پہنچادے ، ہمارى حالت ہمارے پسما ندگان كوبتادے اور انہيں ہمارى حالت كى بشارت دے تاكہ ہمارے بارے ميں انہيں كسى قسم كى پريشانى نہ ہو_

حنظلہ غسيل الملائلكہ

''حنظلہ بن ابى عياش'' جس رات شادى كرنا چاہتے تھے اس سے اگلے دن جنگ احد برپاہوئي پيغمبر اكرم (ص) اپنے اصحاب سے جنگ كے بارے ميں مشورہ كررہے تھے كہ وہ آپ كے پاس آئے اور عرض كى اگر رسول اللہ (ص) اجازت دےديں تو يہ رات ميں بيوى كے ساتھ گزرالوں ، آنحضرت (ص) نے انہيں اجازت دےدى _

صبح كے وقت انہيں جہاد ميں شركت كرنے كى اتنى جلدى تھى كہ وہ غسل بھى نہ كرسكے اسى حالت ميں معركہ كارزار ميں شريك ہوگئے اور بالآخر جام شہادت نوش كيا ،رسول اللہ (ص) نے ان كے بارے ميں ارشاد فرمايا :ميں نے فرشتوں كو ديكھا ہے كہ وہ آسمان وزمين كے درميان حنظلہ كو غسل دے رہے ہيں _

اسى لئے انہيں حنظلہ كو:'' غسيل الملائكہ'' كے نام سے ياد كيا جاتاہے _

۵۴۱

قبيلہ بنى نضير كى سازش

مدينہ ميں يہوديوں كے تين قبيلے رہتے تھے ، بنى نظير، بنو قريظہ اور بنو قينقاع، كہا جاتاہے كہ وہ اصلاً اہل حجازنہ تھے ليكن چونكہ اپنى مذہبى كتب ميں انہوں نے پڑھا تھا كہ ايك پيغمبر مدينہ ميں ظہور كرے گا لہذا انہوں نے اس سر زمين كى طرف كوچ كيا اور وہ اس عظيم پيغمبر (ص) كے انتظار ميں تھے_

جس وقت رسول خدا نے مدينہ كى طرف ہجرت فرمائي تو آپ نے ان كے ساتھ عدم تعرض كا عہد باندھا ليكن ان كو جب بھى موقع ملا انہوں نے يہ عہد توڑا _

دوسرى عہد شكنيوں كے علاوہ يہ كہ جنگ احد(جنگ احد ہجرت كے تيسرے سال واقع ہوئي ) كعب ابن اشرف چاليس سواروں كے ساتھ مكہ پہنچا وہ اور اس كے ساتھى سب قريش كے پاس اور ان سے عہد كيا كہ سب مل كر محمد (ص) كے خلاف جنگ كريں اس كے بعد ابوسفيان چاليس مكى افراد كے ساتھ اور كعب بن اشرف ان چاليس يہوديوں كے ساتھ مسجد الحرام ميں وارد ہوئے اور انہوں نے خانہ كعبہ كے پاس اپنے عہددپيمان كو مستحكم كيا يہ خبر بذريعہ وحى پيغمبر اسلام (ص) كو مل گئي_

دوسرے يہ كہ ايك روز پيغمبر اسلام (ص) اپنے چند بزرگ اصحاب كے ساتھ قبيلہ بنى نضير كے پاس آئے يہ لوگ مدينہ كے قريب رہتے تھے_

پيغمبر اسلام (ص) اور آپ كے صحابہ كا حقيقى مقصديہ تھا كہ آپ اس طرح بنى نظير كے حالات قريب سے ديكھناچاہتے تھے اس لئے كہ كہيں ايسانہ ہو كہ مسلمان غفلت كا شكار ہوكر دشمنوں كے ہاتھوں مارے

۵۴۲

جائيں _

پيغمبر اسلام (ص) يہود يوں كے قلعہ كے باہر تھے آپ(ص) نے كعب بن اشرف سے اس سلسلہ ميں بات كى اسى دوران يہوديوں كے درميان سازش ہونے لگى وہ ايك دوسرے سے كہنے لگے كہ ايسا عمدہ موقع اس شخض كے سلسلہ ميں دوبارہ ہاتھ نہيں آئے گا، اب جب كہ يہ تمہارى ديوار كے پاس بيٹھا ہے ايك آدمى چھت پر جائے اور ايك بہت بڑا پتھر اس پر پھينك دے اور ہميں اس سے نجات دلادے ايك يہودى ،جس كا نام عمر بن حجاش تھا ،اس نے آمادگى ظاہر كى وہ چھت پر چلا گيا رسول خدا (ص) بذريعہ وحى باخبر ہوگئے اور وہاں سے اٹھ كر مدينہ آگئے آپ نے اپنے اصحاب سے كوئي بات نہيں كى ان كا خيال تھا كہ پيغمبر اكرم (ص) لوٹ كر مدينہ جائيں گے ان كو معلوم ہوا كہ آپ مدينہ پہنچ گئے ہيں چنانچہ وہ بھى مدينہ پلٹ آئے يہ وہ منزل تھى كہ جہاں پيغمبر اسلام (ص) پر يہوديوں كى پيما ن شكنى واضح وثابت ہوگئي تھى آپ نے مسلمانوں كو جنگ كے لئے تيار ہوجانے كا حكم ديا_

بعض روايات ميں يہ بھى آيا ہے كہ بنى نظير كے ايك شاعر نے پيغمبر اسلام (ص) كى ہجوميں كچھ اشعار كہے اور آپ كے بارے ميں بد گوئي بھى كى ان كى پيمان شكنى كى يہ ايك اور دليل تھي_

پيغمبر اسلام (ص) نے اس وجہ سے كہ ان پر پہلے سے ايك كارى ضرب لگائيں ، محمد بن مسلمہ كو جو كعب بن اشرف رئيس يہود سے آشنائي ركھتا تھا ،حكم ديا كہ وہ كعب كو قتل كردے اس نے كعب كو قتل كرديا، كعب بن اشرف كے قتل ہوجانے نے يہوديوں كو متزلزل كرديا،ا س كے ساتھ ہى پيغمبر اكرم (ص) نے حكم ديا كہ ہر مسلمان اس عہد شكن قوم سے جنگ كرنے كے لئے چل پڑے جس وقت وہ اس صورت حال سے باخبر ہوئے تو انہوں نے اپنے مضبوط ومستحكم قلعوں ميں پناہ لے لى اور دروازے بند كرلئے ،پيغمبر اسلام (ص) نے حكم ديا كہ وہ چند كھجوروں كے درخت جو قلعوں كے قريب ہيں ، كاٹ ديے جائيں يا جلادئے جائيں _

يہ كام غالبا ًاس مقصد كے پيش نظر ہوا كہ يہودى اپنے مال واسباب سے بہت محبت ركھتے تھے وہ اس نقصان كى وجہ سے قلعوں سے باہرنكل كر آمنے سامنے جنگ كريں گے مفسرين كى طرف سے يہ احتمال بھى تجويز

۵۴۳

كيا گيا ہے كہ كاٹے جانے والے كھجوروں كے يہ درخت مسلمانوں كى تيز نقل وحركت ميں ركاوٹ ڈالتے تھے لہذا انہيں كاٹ ديا جانا چاہئے تھا بہرحال اس پر يہوديوں نے فرياد كى انہوں نے كہا :''اے محمد ًآپ تو ہميشہ اس قسم كے كاموں سے منع كرتے تھے يہ كيا سلسلہ ہے'' تو اس وقت وحى نازل ہوئي(۱) اور انہيں جواب ديا كہ يہ ايك مخصوص حكم الہى تھا_

محاصرہ نے كچھ دن طول كھينچا اور پيغمبر اسلام (ص) نے خوں ريزى سے پرہيز كرتے ہوئے ان سے كہا كہ وہ مدينہ كو خير باد كہہ ديں اور كہيں دوسرى جگہ چلے جائيں انہوں نے اس بات كو قبول كرليا كچھ سامان اپنا لے ليا اور كچھ چھوڑديا ايك جماعت'' اذرعات '' شام كى طرف اور ايك مختصر سى تعداد خيبر كى طرف چلى گئي ايك گروہ'' حيرہ'' كى طرف چلا گيا ان كے چھوڑے ہوئے اموال،زمينيں ،باغات اور گھر مسلمانوں كے ہاتھ لگے، چلتے وقت جتنا ان سے ہوسكا انہوں نے اپنے گھر توڑپھوڑدئےے يہ واقعہ جنگ احد كے چھ ماہ بعد اور ايك گروہ كى نظركے مطابق جنگ بدر كے چھ ماہ بعد ہوا(۲)

____________________

(۱)سورہ حشر ايت۵

(۲)يہ واقعہ سورہ حشركى ابتدائي آيات ميں بيان ہوا ہے.

۵۴۴

۹ حضرت رسول اكرم (ص)

جنگ احزاب

تاريخ اسلام كے اہم حادثوں ميں سے ايك جنگ احزاب بھى ہے يہ ايك ايسى جنگ جو تاريخ اسلام ميں ايك اہم تاريخى موڑ ثابت ہوئي اور اسلام وكفر كے درميان طاقت كے موازنہ كے پلڑے كو مسلمانوں كے حق ميں جھكاديا اور اس كى كاميابى آئندہ كى عظيم كاميابيوں كے لئے كليدى حيثيت اختياركر گئي اور حقيقت يہ ہے كہ اس جنگ ميں دشمنوں كى كمر ٹوٹ گئي اور اس كے بعد وہ كوئي خاص قابل ذكر كار نامہ انجام دينے كے قابل نہ رہ سكے _

'' يہ جنگ احزاب'' جيسا كہ اس كے نام سے ظاہر ہے تمام اسلام دشمن طاقتوں اور ان مختلف گرو ہوں كى طرف سے ہر طرح كا مقابلہ تھا كہ اس دين كى پيش رفت سے ان لوگوں كے ناجائز مفادات خطرے ميں پڑگئے تھے _ جنگ كى آگ كى چنگاري''نبى نضير'' يہوديوں كے اس گروہ كى طرف سے بھڑكى جو مكہ ميں آئے اور قبيلہ ''قريش'' كو آنحضرت (ص) سے لڑنے پر اكسايا اور ان سے وعدہ كيا كہ آخرى دم تك ان كا ساتھ ديں گے پھر قبيلہ ''غطفان '' كے پاس گئے اور انھيں بھى كارزار كے لئے آمادہ كيا _

ان قبائل نے اپنے ہم پيمان اور حليفوں مثلاً قبيلہ '' بنى اسد '' اور'' بنى سليم '' كو بھى دعوت دى اور چونكہ يہ سب قبائل خطرہ محسوس كئے ہوئے تھے، لہذا اسلام كا كام ہميشہ كے لئے تمام كرنے كے لئے ايك دوسرے كے ہاتھ ميں ہاتھ دےديا تاكہ وہ اس طرح سے پيغمبر كو شہيد ، مسلمانوں كو سر كوب ، مدينہ كو غارت اور اسلام كا چراغ ہميشہ كے لئے گل كرديں _

۵۴۵

كل ايمان كل كفر كے مقابلہ ميں

جنگ احزاب كفر كى آخرى كوشش ،ان كے تركش كا آخرى تيراور شرك كى قوت كا آخرى مظاہرہ تھا اسى بنا پر جب دشمن كا سب سے بڑا پہلو ان عمروبن عبدودعالم اسلام كے دلير مجاہد حضرت على ابن ابى طالب عليہ السلام كے مقابلہ ميں آيا تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :''سارے كا سارا ايمان سارے كے سارے (كفر اور ) شرك كے مقابلہ ميں آگيا ہے ''_

كيونكہ ان ميں سے كسى ايك كى دوسرے پر فتح كفر كى ايمان پر يا ايمان كى كفر پر مكمل كا ميابى تھى دوسرے لفظوں ميں يہ فيصلہ كن معركہ تھا جو اسلام اور كفر كے مستقبل كا تعين كررہا تھا اسى بناء پر دشمن كى اس عظيم جنگ اور كار زار ميں كمر ٹوٹ گئي اور اس كے بعد ہميشہ مسلمانوں كاپلہ بھارى رہا _

دشمن كا ستارہ اقبال غروب ہوگيا اور اس كى طاقت كے ستون ٹوٹ گئے اسى لئے ايك حديث ميں ہے كہ حضرت رسول گرامى (ص) نے جنگ احزاب كے خاتمہ پر فرمايا :

''اب ہم ان سے جنگ كريں گے اور ان ميں ہم سے جنگ كى سكت نہيں ہے'' _

لشكر كى تعداد

بعض مو رخين نے لشكر كفار كى تعداد دس ہزار سے زيادہ لكھى ہے _مقريزى اپنى كتاب ''الا متاع '' ميں لكھتے ہيں :''صرف قريش نے چارہزار جنگ جوئوں ، تين سو گھوڑوں اور پندرہ سواونٹوں كے ساتھ خندق كے كنارے پڑائو ڈالا تھا ،قبيلہ '' بنى سليم ''سات سو افراد كے ساتھ ''مرالظہران '' كے علاقہ ميں ان سے آملا، قبيلہ ''بنى فرازہ'' ہزار افراد كے ساتھ ، ''بنى اشجع'' اور'' بنى مرہ'' كے قبائل ميں سے ہر ايك چار چار سو افراد كے ساتھ پہنچ گيا _ اور دوسرے قبائل نے بھى اپنے آدمى يہ بھيجے جن كى مجموعى تعداد دس ہزار سے بھى زيادہ بنتى ہے ''

جبكہ مسلمانوں كى تعداد تين ہزار سے زيادہ نہ تھى انہوں نے (مدينہ كے قريب )'' سلع '' نامى

۵۴۶

پہاڑى كے دامن كو جو ايك بلند جگہ تھى وہاں پر لشكر كفر نے مسلمانوں كا ہر طرف سے محاصرہ كرليا اور ايك روايت كے مطابق بيس دن دوسرى روايت كے مطابق پچيس دن اور بعض روايات كے مطابق ايك ماہ تك محاصرہ جارى رہا _

باوجوديكہ دشمن مسلمانوں كى نسبت مختلف پہلوئوں سے برترى ركھتا تھا ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں ،آخر كار ناكام ہو كر واپس پلٹ گيا_

خندق كى كھدائي

خندق كے كھودنے كا سلسلہ حضرت سلمان فارسى كے مشورہ سے وقوع پذير ہوا خندق كے اس زمانے ميں ملك ايران ميں دفاع كا موثر ذريعہ تھا اور جزيرة العرب ميں اس وقت تك اس كى مثال نہيں تھى اور عرب ميں اس كا شمار نئي ايجادات ميں ہوتا تھا اطراف مدينہ ميں اس كا كھود نا فوجى لحاظ سے بھى اہميت كا حامل تھا يہ خندق دشمن كے حوصلوں كو پست كرنے اور مسلمانوں كے لئے روحانى تقويت كا بھى ايك موثر ذريعہ تھى _

خندق كے كو ائف اور جزئيات كے بارے ميں صحيح طور پر معلومات تك رسائي تو نہيں ہے البتہ مورخين نے اتنا ضرور لكھا ہے كہ اس كا عرض اتنا تھاكہ دشمن كے سوار جست لگا كر بھى اس كو عبور نہيں كرسكتے تھے اس كى گہرائي يقينا اتنى تھى كہ اگر كو ئي شخص اس ميں داخل ہوجاتاہے تو آسانى كے ساتھ دوسرى طرف باہر نہيں نكل سكتا تھا ،علاوہ ازيں مسلمان تير اندازوں كا خندق والے علاقے پر اتنا تسلط تھا كہ اگر كوئي شخص خندق كو عبور كرنے كا ارداہ كرتا تھا تو ان كے لئے ممكن تھا كہ اسے خندق كے اندرہى تير كا نشانہ بناليتے _

رہى اس كى لمبائي تو مشہور روايت كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ حضرت رسالت ماب (ص) نے دس ،دس افراد كو چاليس ہاتھ (تقريباً ۲۰ ميڑ) خندق كھودنے پر مامور كيا تھا،اور مشہور قول كے پيش نظر لشكر اسلام كى تعداد تين ہزار تھى تو مجموعى طورپر اس كى لمبائي اندازاً بارہ ہزار ہاتھ (چھ ہزار ميڑ) ہوگي_

اس بات كا بھى اعتراف كرنا چاہئے كہ اس زمانے ميں نہايت ہى ابتدائي وسائل كے ساتھ اس قسم كى

۵۴۷

خندق كھودنا بہت ہى طاقت فرسا كام تھا خصوصاً جب كہ مسلمان خوراك اور دوسرے وسائل كے لحاظ سے بھى سخت تنگى ميں تھے _

يقينا خندق كھودى بھى نہايت كم مدت ميں گئي يہ امر اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ لشكر اسلام پورى ہوشيارى كے ساتھ دشمن كے حملہ آور ہونے سے پہلے ضرورى پيش بندى كرچكا تھا اور وہ بھى اس طرح سے كہ لشكر كفر كے مدينہ پہنچنے سے تين دن پہلے خندق كى كھدائي كا كام مكمل ہوچكا تھا _

عمرو بن عبدود دسے حضرت على (ع) كى تاريخى جنگ

اس جنگ كا ايك اہم واقعہ حضرت على عليہ السلام كا دشمن كے لشكر كے نامى گرامى پہلو ان عمروبن عبددد كے ساتھ مقابلہ تھا تاريخ ميں آيا ہے كہ لشكر احزاب نے جن دلاوران عرب ميں سے بہت طاقت ور افراد كو اس جنگ ميں اپنى امداد كے لئے دعوت دے ركھى تھي، ان ميں سے پانچ افراد زيادہ مشہور تھے، عمروبن عبدود ، عكرمہ بن ابى جہل ،ہبيرہ ، نوفل اور ضرار يہ لوگ دوران محاصرہ ايك دن دست بدست لڑائي كے لئے تيار ہوئے ، لباس جنگ بدن پر سجايا اور خندق كے ايك كم چوڑے حصے سے ، جو مجاہدين اسلام كے تيروں كى پہنچ سے كسى قدر دور تھا ، اپنے گھوڑوں كے ساتھ دوسرى طرف جست لگائي اور لشكر اسلام كے سامنے آكھڑے ہوئے ان ميں سے عمروبن عبدود زيادہ مشہور اور نامور تھا اس كي''كوئي ہے بہادر ''كى آواز ميدان احزاب ميں گونجى اور چونكہ مسلمانوں ميں سے كوئي بھى اس كے مقابلہ كے لئے تيار نہ ہوا لہذا وہ زيادہ گستاخ ہوگيا اور مسلمانوں كے عقايد اورنظريات كا مذاق اڑا نے لگا اور كہنے لگا :

''تم تويہ كہتے ہو كہ تمہارے مقتول جنت ميں ہيں اور ہمارے مقتول جہنم ميں توكياتم ميں سے كوئي بھى ايسا نہيں جسے ميں بہشت ميں بھيجوں يا وہ مجھے جہنم كى طرف روانہ كرے ؟''

اس موقع پر پيغمبر اسلام (ص) نے حكم ديا كہ كوئي شخص كھڑا ہواور اس كے شر كو مسلمانوں كے سرسے كم كردے ليكن حضرت على ابن ابى طالب عليہ السلام كے سوا كوئي بھى اس كے ساتھ جنگ كے لئے آمادہ نہ ہوا تو آنحضرت نے على ابن اطالب عليہ السلام سے فرمايا : يہ عمر وبن عبدود ہے '' حضرت على عليہ السلام نے عرض كى

۵۴۸

حضور : ميں بالكل تيار ہوں خواہ عمروہى كيوں نہ ہو، پيغمبر اكرم (ص) نے ان سے فرمايا '' ميرے قريب آئو : چنانچہ على عليہ السلام آپ كے قريب گئے اور آنحضرت (ص) نے ان كے سر پر عمامہ باندھا اور اپنى مخصوص تلوار ذوالفقار انہيں عطا فرمائي اور ان الفاظ ميں انھيں دعا دى :

خدايا ،على كے سامنے سے ، پيچھے سے ، دائيں اور بائيں سے اور اوپر اور نيچے سے حفاظت فرما _

حضرت على عليہ السلام بڑى تيزى سے عمرو كے مقابلہ كےلئے ميدان ميں پہنچ گئے _

يہى وہ موقع تھا كہ پيغمبر اكرم (ص) ختمى المرتبت (ص) نے وہ مشہور جملہ ارشاد فرمايا :

''كل ايمان كل كفر كے مقابلہ ميں جارہا ہے ''_

ضربت على (ع) ثقلين كى عبادت پر بھاري

امير المو منين على عليہ السلام نے پہلے تو اسے اسلام كى دعوت دى جسے اس نے قبول نہ كيا پھر ميدان چھوڑكر چلے جانے كو كہا اس پر بھى اس نے انكار كيا اور اپنے لئے باعث ننگ وعار سمجھا آپ كى تيسرى پيشكش يہ تھى كہ گھوڑے سے اتر آئے اور پيادہ ہوكر دست بدست لڑائي كرے _

عمرو آگ بگولہ ہوگيا اور كہا كہ ميں نے كبھى سوچا بھى نہ تھا كہ عرب ميں سے كوئي بھى شخص مجھے ايسى تجويزدے گا گھوڑے سے اتر آيا اور على عليہ السلام پر اپنى تلوار كا وار كيا ليكن اميرالمومنين على عليہ السلام نے اپنى مخصوص مہارت سے اس وار كو اپنى سپركے ذريعے روكا ،مگر تلوار نے سپر كو كاٹ كرآپ كے سرمبارك كو زخمى كرديا اس كے بعد حضرت على عليہ السلام نے ايك خاص حكمت عملى سے كام ليا عمر وبن عبدود سے فرمايا :تو عرب كا زبردست پہلو ان ہے ، جب كہ ميں تجھ سے تن تنہا لڑرہا ہوں ليكن تو نے اپنے پيچھے كن لوگوں كو جمع كرركھا ہے اس پر عمر ونے جيسے ہى پيچھے مڑكر ديكھا _

حضرت على عليہ السلام نے عمرو كى پنڈلى پر تلوار كا وار كيا ، جس سے وہ سروقد زمين پر لوٹنے لگا شديد گردوغبار نے ميدان كى فضا كو گھيرركھا تھا كچھ منافقين يہ سوچ رہے تھے كہ حضرت على عليہ السلام ، عمرو كے

۵۴۹

ہاتھوں شہيد ہوگئے ہيں ليكن جب انھوں نے تكبير كى آواز سنى تو على كى كاميابى ان پر واضح ہوگئي اچانك لوگوں نے ديكھا كہ آپ كے سرمبارك سے خون بہہ رہا تھا اور لشكر گاہ اسلام كى طرف خراماں خراماں واپس آرہے تھے جبكہ فتح كى مسكراہٹ آپ كے لبوں پر كھيل رہى تھى اور عمر و كا پيكر بے سر ميدان كے كنارے ايك طرف پڑا ہوا تھا _

عرب كے مشہور پہلوان كے مارے جانے سے لشكر احزاب اور ان كى آرزوئوں پر ضرب كارى لگى ان كے حوصلے پست اور دل انتہائي كمزور ہوگئے اس ضرب نے ان كى فتح كى آرزوو ں پر پانى پھيرديا اسى بناء پر آنحضرت (ص) نے اس كاميابى كے بارے ميں حضرت على عليہ السلام سے ارشاد فرمايا :

''اگر تمہارے آج كے عمل كو سارى امت محمد كے اعمال سے موازنہ كريں تو وہ ان پر بھارى ہوگا، كيونكہ عمرو كے مارے جانے سے مشركين كا كوئي ايسا گھر باقى نہيں رہا جس ميں ذلت وخوارى داخل نہ ہوئي ہو اور مسلمانوں كا كوئي بھى گھر ايسا نہيں ہے جس ميں عمرو كے قتل ہوجانے كى وجہ سے عزت داخل نہ ہوئي ہو'' _

اہل سنت كے مشہور عالم ، حاكم نيشاپورى نے اس گفتگو كو نقل كيا ہے البتہ مختلف الفاظ كے ساتھ اور وہ يہ ہے :

'' لمبارزة على بن ابيطالب لعمروبن عبدود يوم الخندق افضل من اعمال امتى الى يوم القيامة ''

'' يعنى على بن ابى طالب كى خندق كے دن عمروبن عبدود سے جنگ ميرى امت كے قيامت تك كے اعمال سے ا فضل ہے ''

آپ كے اس ارشاد كا فلسفہ واضح ہے ، كيونكہ اس دن اسلام اور قرآن ظاہراً نابودى كے كنارے پر پہنچ چكے تھے، ان كے لئے زبردست بحرانى لمحات تھے،جس شخص نے پيغمبر اكرم (ص) كى فداكارى كے بعد اس ميدان ميں سب سے زيادہ ايثار اور قربانى كا ثبوت ديا،اسلام كو خطرے سے محفوظ ركھا، قيامت تك اس كے دوام كى ضمانت دي،اس كى فداكارى سے اسلام كى جڑيں مضبوط ہوگئيں اور پھر اسلام عالمين پر پھيل گيا

۵۵۰

لہذا سب لوگوں كى عبادتيں اسكى مرہون منت قرار پا گئيں _

بعض مورخين نے لكھا ہے كہ مشركين نے كسى آدمى كو پيغمبر (ص) كى خدمت ميں بھيجا تاكہ وہ عمر و بن عبدود كے لاشہ كو دس ہزار درہم ميں خريد لائے (شايد ان كا خيال يہ تھا كہ مسلمان عمرو كے بدن كے ساتھ وہى سلوك كريں گے جو سنگدل ظالموں نے حمزہ(ص) كے بدن كےساتھ جنگ ميں كياتھا)ليكن رسول اكرم(ص) نے فرمايا: اس كا لاشہ تمھا رى ملكيت ہے ہم مردوں كى قيمت نہيں ليا كرتے_

يہ نكتہ بھى قابل توجہ ہے كہ جس وقت عمرو كى بہن اپنے بھائي كے لاشہ پر پہنچى اوراس كى قيمتى زرہ كو ديكھا كہ حضرت على عليہ السلام نے اس كے بدن سے نہيں اتارى تو اس نے كہا:

''ميں اعتراف كرتى ہوں كہ اس كا قاتل كريم اور بزرگوارشخص ہى تھا''

نعيم بن مسعود كى داستان اور دشمن كے لشكر ميں پھوٹ

نعيم جو تازہ مسلمان تھے اور ان كے قبيلہ''غطفان ''كو لشكر اسلام كى خبر نہيں تھي،وہ پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں آئے اور عرض كى كہ آپ(ص) مجھے جو حكم بھى ديں گے ،ميں حتمى كاميابى كے لئے اس پر كار بند رہوں گا_

رسول اللہ (ص) نے فرمايا :

''تمہارے جيسا شخص ہمارے درميان اور كوئي نہيں ہے _اگر تم دشمن كے لشكر كے درميان پھوٹ ڈال سكتے ہو تو ڈ الو _كيونكہ جنگ پوشيدہ تدابير كا مجموعہ ہے ''_

نعيم بن مسعود نے ايك عمدہ تدبير سوچى اور وہ يہ كہ وہ بنى قريظہ كے يہوديوں كے پاس گيا ،جن سے زمانہ جاہليت ميں ان كى دوستى تھى ان سے كہا اے بنى قريظہ تم جانتے ہوكہ مجھے تمہارے ساتھ محبت ہے_

انھوں نے كہا آپ سچ كہتے ہيں :ہم آپ پراس بارے ميں ہر گز كوئي الزام نہيں لگاتے _

نعيم بن مسعود نے كہا :قبيلہ قريش اور عظفان تمہارى طرح نہيں ہيں ، يہ تمہارا اپنا شہر ہے، تمہارا مال

۵۵۱

اولاد اور عورتيں يہاں پر ہيں اور تم ہر گز يہ نہيں كر سكتے كہ يہاں سے كو چ كر جا ئو_

قريش اور قبيلہ عظفان محمد(ص) اور ان كے اصحاب كے ساتھ جنگ كرنے كے لے آئے ہوئے ہيں اور تم نے ان كى حمايت كى ہے جبكہ ان كا شہر كہيں او رہے اور ان كے مال او رعورتيں بھى دوسرى جگہ پر ہيں ، اگر انھيں موقع ملے تو لوٹ مار اور غارت گرى كر كے اپنے ساتھ لے جائيں گے، اگر كوئي مشكل پيش آجا ئے تو اپنے شہر كو لوٹ جائيں گے، ليكن تم كو اور محمد(ص) كو تو اسى شہر ميں رہنا ہے او ريقيناتم اكيلے ان سے مقابلہ كرنے كى طاقت نہيں ركھتے ،تم اس وقت تك اسلحہ نہ اٹھائوجب تك قريش سے كوئي معاہدہ نہ كر لو او رو ہ اس طرح كہ وہ چندسرداروں اور بزرگوں كو تمہارے پاس گروى ركھ ديں تاكہ وہ جنگ ميں كو تاہى نہ كريں _

بنى قريظہ كے يہوديوں نے اس نظريہ كوبہت سراہا_

پھر نعيم مخفى طور پر قريش كے پاس گيا اور ابو سفيان اور قريش كے چندسرداروں سے كہا كہ تم اپنے ساتھ ميرى دوستى كى كيفيت سے اچھى طرح آگاہ ہو، ايك بات ميرے كانوں تك پہنچى ہے، جسے تم تك پہنچا نا ميں اپنا فريضہ سمجھتا ہوں تا كہ خير خواہى كا حق اداكر سكوں ليكن ميرى خواہش يہ ہے كہ يہ بات كسى او ركو معلو م نہ ہونے پائے _

انھوں نے كہا كہ تم بالكل مطمئن رہو _

نعيم كہنے لگے : تمہيں معلوم ہو نا چاہيے كہ يہودى محمد(ص) كے بارے ميں تمھارے طرز عمل سے اپنى برائت كا فيصلہ كر چكے ہيں ،يہوديوں نے محمد(ص) كے پاس قاصد بھيجا ہے او ركہلوايا ہے كہ ہم اپنے كئے پر پشيمان ہيں اور كيا يہ كافى ہو گا كہ ہم قبيلہ قريش او رغطفان كے چندسردار آپ(ص) كے لئے يرغمال بناليں اور ان كو بندھے ہاتھوں آپ كے سپرد كرديں تاكہ آپ ان كى گردن اڑاديں ، اس كے بعد ہم آپ كے ساتھ مل كر ان كى بيخ كنى كريں گے ؟محمد(ص) نے بھى ان كى پيش كش كوقبول كرليا ہے، اس بنا ء پر اگر يہودى تمہارے پاس كسى كو بھيجيں او رگروى ركھنے كا مطالبہ كريں تو ايك آدمى بھى ان كے سپرد نہ كر نا كيونكہ خطرہ يقينى ہے _

پھر وہ اپنے قبيلہ غطفان كے پاس آئے اور كہا :تم ميرے اصل اور نسب كو اچھى طرح جانتے ہو_

۵۵۲

ميں تمھاراعاشق او رفريفتہ ہوں او رميں سوچ بھى نہيں سكتا كہ تمھيں ميرے خلوص نيت ميں تھوڑا سابھى شك اور شبہ ہو _

انھوں نے كہا :تم سچ كہتے ہو ،يقينا ايسا ہى ہے _

نعيم نے كہا : ميں تم سے ايك بات كہنا چاہتا ہوں ليكن ايسا ہو كہ گو يا تم نے مجھ سے بات نہيں سنى _

انھوں نے كہا :مطمئن رہويقينا ايسا ہى ہو گا ،وہ بات كيا ہے ؟

نعيم نے وہى بات جو قريش سے كہى تھى يہوديوں كے پشيمان ہونے او رير غمال بنانے كے ارادے كے بارے ميں حرف بحرف ان سے بھى كہہ ديا او رانھيں اس كام كے انجام سے ڈرايا _

اتفاق سے وہ ( ماہ شوال سن ۵ ہجرى كے ) جمعہ او رہفتہ كى درميانى رات تھى _ ابو سفيان او رغطفان كے سرداروں نے ايك گروہ بنى قريظہ كے يہوديوں كے پاس بھيجا او ركہا : ہمارے جانور يہاں تلف ہو رہے ہيں اور يہاں ہمارے لئے ٹھہر نے كى كو ئي جگہ نہيں _ كل صبح ہميں حملہ شروع كرنا چاہيے تاكہ كام كو كسى نتيجے تك پہنچائيں _

يہوديوں نے جواب ميں كہا :كل ہفتہ كا دن ہے او رہم اس دن كسى كام كو ہاتھ نہيں لگاتے ،علاوہ ازيں ہميں اس بات كا خوف ہے كہ اگر جنگ نے تم پر دبائو ڈالا تو تم اپنے شہروں كى طرف پلٹ جائو گے او رہميں يہاں تنہاچھوڑدوگے _ ہمارے تعاون او رساتھ دينے كى شرط يہ ہے كہ ايك گروہ گروى كے طور پر ہمارے حوالے كردو، جب يہ خبر قبيلہ قريش او رغطفان تك پہنچى تو انھوں نے كہا :خداكى قسم نعيم بن مسعود سچ كہتا تھا،دال ميں كالا ضرو رہے _

لہذا انھوں نے اپنے قاصد يہوديوں كے پاس بھيجے اور كہا : بخدا ہم تو ايك آدمى بھى تمھارے سپرد نہيں كريں گے او راگر جنگ ميں شريك ہو تو ٹھيك ہے شروع كرو _

بنى قريظہ جب اس سے با خبر ہوئے تو انھوں نے كہا :واقعا نعيم بن مسعود نے حق بات كہى تھى يہ جنگ نہيں كرنا چاہتے بلكہ كوئي چكر چلا رہے ہيں ، يہ چا ہتے ہيں كہ لوٹ مار كر كے اپنے شہروں كو لوٹ جائيں او

۵۵۳

رہميں محمد(ص) كے مقابلہ ميں اكيلا چھوڑجا ئيں پھر انہوں نے پيغام بھيجا كہ اصل بات وہى ہے جو ہم كہہ چكے ہيں ،بخدا جب تك كچھ افرادگروى كے طور پر ہمارے سپرد نہيں كروگے ،ہم بھى جنگ نہيں كريں گے ،قريش اورغطفان نے بھى اپنى بات پراصرار كيا، لہذا ان كے درميان بھى اختلاف پڑ گيا _ اور يہ وہى موقع تھا كہ رات كو اس قدر زبردست سرد طوفانى ہوا چلى كہ ان كے خيمے اكھڑگئے اور ديگيں چو لہوں سے زمين پر آپڑيں _

يہ سب عوامل مل ملاكر اس بات كا سبب بن گئے كہ دشمن كو سر پر پائوں ركھ كر بھا گنا پڑا اور فرار كو قرار پر ترجيح دينى پڑى _ يہاں تك كہ ميدان ميں انكا ايك آدمى بھى نہ رہا_

حذيفہ كا واقعہ

بہت سى تواريخ ميں آيا ہے ،كہ حذيفہ يمانى كہتے ہيں كہ ہم جنگ خندق ميں بھوك او رتھكن ،وحشت اوراضطراب اس قدر دو چار تھے كہ خدا ہى بہتر جانتا ہے ،ايك رات (لشكر احزاب ميں اختلاف پڑ جانے كے بعد )پيغمبر (ص) نے فرمايا:كيا تم ميں سے كوئي ايسا شخص ہے جو چھپ چھپا كر دشمن كى لشكر گاہ ميں جائے اور ان كے حالات معلوم كر لائے تا كہ وہ جيت ميں ميرا رفيق اور ساتھى ہو_

حذيفہ كہتے ہيں : خدا كى قسم كوئي شخض بھى شدت وحشت ، تھكن اور بھوك كے مارے اپنى جگہ سے نہ اٹھا _

جس وقت آنحضرت(ص) نے يہ حالت ديكھى تو مجھے آوازدي، ميں آپ كى خدمت ميں حاضر ہوا تو فرماياجائو اور ميرے پاس ان لوگوں كى خبر لے آئو _ ليكن وہاں كوئي اور كام انجام نہ دينا يہاں تك كہ ميرے پاس آجائو _

ميں ايسى حالت ميں وہاں پہنچا جب كہ سخت آندھى چل رہى تھى اور طوفان برپا تھا اور خدا كا يہ لشكر انھيں تہس نہس كررہا تھا _ خيمے تيز آندھى كے سبب ہوا ميں اڑ رہے تھے _ آگ بيابان ميں پھيل چكى تھي_ كھانے كے برتن الٹ پلٹ گئے تھے اچانك ميں نے ابو سفيان كا سايہ محسوس كياكہ وہ اس تاريكى ميں بلند آواز سے كہہ رہا تھا: اے قريش تم ميں سے ہر ايك اپنے پہلو ميں بيٹھے ہوئے كو اچھى طرح سے پہچان لے تا

۵۵۴

كہ يہاں كوئي بے گانہ نہ ہو ، ميں نے پہل كر كے فوراًہى اپنے پاس بيٹھنے والے شخص سے پوچھا كہ تو كون ہے ؟ اس نے كہا ، فلاں ہوں ، ميں نے كہابہت اچھا _

پھر ابو سفيان نے كہا:خدا كى قسم يہ ٹھہرنے كى جگہ نہيں ہے، ہمارے اونٹ گھوڑے ضائع ہو چكے ہيں اور بنى قريظہ نے اپنا پيمان توڑ ڈالا ہے اور اس طوفان نے ہمارے لئے كچھ نہيں چھوڑا _

پھر وہ بڑى تيزى سے اپنے اونٹ كى طرف بڑھا اور سوار ہو نے كے لئے اسے زمين سے اٹھا يا، اور اس قدر جلدى ميں تھا كہ اونٹ كے پائوں ميں بندھى ہوئي رسى كھولنا بھول گيا ،لہذا اونٹ تين پائوں پر كھڑا ہو گيا، ميں نے سوچا ايك ہى تيرسے اسكا كام تمام كردوں ،ابھى تير چلہ كمان ميں جوڑا ہى تھا كہ فوراًآنحضرت(ص) كا فرمان يادآگيا كہ جس ميں آپ (ص) نے فرمايا تھا كچھ كاروائي كے بغير واپس آجا نا،تمہارا كام صرف وہاں كے حالات ہمارے پاس لانا ہے، لہذا ميں واپس پلٹ گيا اور جا كر تمام حا لات عرض كئے _ پيغمبر اكرم (ص) نے بارگاہ ايزدى ميں عرض كيا :

''خداوندا تو كتاب كو نازل كرنے والا او رسريع الحساب ہے ، توخود ہى احزاب كو نيست و نا بو دفرما خدايا انہيں تباہ كردے اور ان كے پائوں نہ جمنے دے ''_

جنگ احزاب قرآن كى روشنى ميں

قرآن اس ماجرا تفصيل بيان كرتے ہوئے كہتا ہے: ''اے وہ لوگ جو ايمان لائے ہو، اپنے اوپر خدا كى عظيم نعمت كو ياد كرو،اس موقع پر جب كہ عظيم لشكر تمہارى طرف آئے ''_(۱)

''ليكن ہم نے ان پر آندھى اور طوفان بھيجے اور ايسے لشكر جنہيں تم نہيں ديكھتے رہے تھے اور اس ذريعہ سے ہم نے ان كى سركوبى كى اور انھيں تتر بتر كرديا ''_(۲)

'' نہ دكھنے والے لشكر '' سے مراد جو رسالت ماب (ص) كى نصرت كے لئے آئے تھے ، وہى فرشتے

____________________

(۱)سورہ احزاب آيت ۹

(۲) سورہ احزاب آيت ۹

۵۵۵

تھے جن كا مومنين كى جنگ بدر ميں مدد كرنا بھى صراحت كے ساتھ قرآن مجيد ميں آيا ہے ليكن جيسا (كہ سورہ انفال كى آيہ ۹ كے ذيل ميں ) ہم بيان كرچكے ہيں ہمارے پاس كوئي دليل نہيں ہے كہ يہ نظر نہ آنے والا فرشتوں كا خدائي لشكر باقاعدہ طور پر ميدان ميں داخل ہوا اور وہ جنگ ميں بھى مصروف ہوا ہو بلكہ ايسے قرائن موجود ہيں جو واضح كرتے ہيں كہ وہ صرف مومنين كے حوصلے بلند كرنے اور ان كا دل بڑھانے كے لئے نازل ہوئے تھے _

بعد والى آيت جو جنگ احزاب كى بحرانى كيفيت ، دشمنوں كى عظيم طاقت اور بہت سے مسلمانوں كى شديد پريشانى كى تصوير كشى كرتے ہوئے يوں كہتى ہے '' اس وقت كو ياد كرو جب وہ تمہارے شہر كے اوپر اور نيچے سے داخل ہوگئے ،اور مدينہ كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا) اور اس وقت كو جب آنكھيں شدت وحشت سے پتھرا گئي تھيں اور جاں بلب ہوگئے تھے اور خدا كے بارے ميں طرح طرح كى بدگمانيان كرتے تھے ''_(۱)

اس كيفيت سے مسلمانوں كى ايك جماعت كے لئے غلط قسم كے گمان پيدا ہوگئے تھے كيونكہ وہ ابھى تك ايمانى قوت كے لحاظ سے كمال كے مرحلہ تك نہيں پہنچ پائے تھے يہ وہى لوگ ہيں جن كے بارے ميں بعد والى آيت ميں كہتا ہے كہ وہ شدت سے متزلزل ہوئے _

شايدان ميں سے كچھ لوگ گمان كرتے تھے كہ آخر كار ہم شكست كھا جائيں گے اور اس قوت و طاقت كے ساتھ دشمن كا لشكر كامياب ہوجائے گا، اسلام كے ز ندگى كے آخر ى دن آپہنچے ہيں اور پيغمبر (ص) كا كا ميابى كا وعدہ بھى پورا ہوتا دكھا ئي نہيں ديتا _

البتہ يہ افكار اور نظريات ايك عقيدہ كى صورت ميں نہيں بلكہ ايك وسوسہ كى شكل ميں بعض لوگوں كے دل كى گہرائيوں ميں پيدا ہو گئے تھے بالكل ويسے ہى جيسے جنگ احد كے سلسلہ ميں قرآن مجيد ان كا ذكر كرتے ہو ئے كہتا ہے :''يعنى تم ميں سے ايك گروہ جنگ كے ان بحرانى لمحات ميں صرف اپنى جان كى فكر ميں تھا اور

____________________

(۱)سورہ احزاب ايت۱۰

۵۵۶

دورجا ہليت كے گمانوں كى مانند خدا كے بارے ميں بدگمانى كررہے تھے ''_

يہى وہ منزل تھى كہ خدائي امتحان كا تنور سخت گرم ہوا جيسا كہ بعد والى آيت كہتى ہے كہ ''وہاں مومنين كو آزمايا گيا اور وہ سخت دہل گئے تھے_(۱)

فطرى امر ہے كہ جب انسان فكرى طوفانوں ميں گھر جاتا ہے تو اس كا جسم بھى ان طوفانوں سے لا تعلق نہيں رہ سكتا ،بلكہ وہ بھى اضطراب اور تزلزل كے سمندر ميں ڈوبنے لگتا ہے ،ہم نے اكثر ديكھا ہے كہ جب لوگ ذہنى طور پر پريشان ہوتے ہيں تو وہ جہاں بھى بيٹھتے ہيں اكثر بے چين رہتے ہيں ، ہاتھ ملتے كاپنتے رہتے ہيں اور اپنے اضطراب اور پريشانيوں كو اپنى حركات سے ظاہر كرتے رہتے ہيں _

اس شديد پريشانى كے شواہد ميں سے ايك يہ بھى تھا جسے مورخين نے بھى نقل كيا ہے كہ عرب كے پانچ مشہور جنگجو پہلوان جن كا سردار عمرو بن عبدود تھا ،جنگ كا لباس پہن كر اورمخصوص غرور اور تكبر كے ساتھ ميدان ميں آئے اور ''ھل من مبارز''( ہے كو ئي مقابلہ كرنے والا )كى آواز لگانے لگے ، خاص كر عمرو بن عبدود رجز پڑھ كر جنت اور آخرت كا مذاق اڑا رہا تھا ،وہ كہہ رہا تھا كہ ''كيا تم يہ نہيں كہتے ہوكہ تمہارے مقتول جنت ميں جائيں گے ؟تو كيا تم ميں سے كوئي بھى جنت كے ديدار كا شوقين نہيں ہے ؟ليكن اس كے ان نعروں كے برخلاف لشكر اسلام پر بُرى طرح كى خاموشى طارى تھى اور كوئي بھى مقابلہ كى جر ائت نہيں ركھتا تھا سوائے على بن ابى طالب عليہ السلام كے جو مقابلہ كے لئے كھڑے ہوئے اور مسلمانوں كو عظيم كاميابى سے ہم كنار كرديا _اس كى تفصيل نكات كى بحث ميں آئےگي_

جى ہاں جس طرح فولاد كو گرم بھٹى ميں ڈالتے ہيں تا كہ وہ نكھر جائے اسى طرح اوائل كے مسلمان بھى جنگ احزاب جيسے معركوں كى بھٹى ميں سے گزريں تا كہ كندن بن كر نكليں او رحوادثات كے مقابل ميں جرا ت اور پا مردى كا مظاہرہ كر سكيں _

____________________

(۱)سورہ احزاب آيت ۱۱

۵۵۷

منافقين او رضعيف الايمان جنگ احزاب ميں

ہم كہہ چكے ہيں كہ امتحان كى بھٹى جنگ احزاب ميں گرم ہوئي او رسب كے سب اس عظيم امتحان ميں گھر گئے_ واضح رہے كہ اس قسم كے بحرانى دور ميں جولوگ عام حالات ميں ظاہراًايك ہى صف ميں قرارپاتے ہيں ،كئي صفوں ميں بٹ جاتے ہيں ،يہاں پربھى مسلمان مختلف گروہوں ميں بٹ گئے تھے، ايك جماعت سچے مومنين كى تھى ،ايك گروہ ہٹ دھرم اور سخت قسم كے منافقين كا تھا اور ايك گروہ اپنے گھر بار ،زندگى اور بھاگ كھڑے ہونے كى فكر ميں تھا ،اور كچھ لوگوں كى يہ كوشش تھى كہ دوسرے لوگوں كو جہاد سے روكيں _ اور ايك گروہ اس كوشش ميں مصروف تھا كہ منافقين كے ساتھ اپنے رشتہ كو محكم كريں _

خلاصہ يہ كہ ہر شخص نے اپنے باطنى اسراراس عجيب ''عرصہ محشر''اور ''يوم البروز''ميں آشكار كرديئے_

ميں نے ايران، روم اور مصركے محلوں كو ديكھا ہے

خندق كھودنے كے دوران ميں جب ہر ايك مسلمان خندق كے ايك حصہ كے كھودنے ميں مصروف تھا تو ايك مرتبہ پتھر كے ايك سخت اوربڑے ٹكڑے سے ان كا سامنا ہوا كہ جس پر كوئي ہتھوڑا كار گر ثابت نہيں ہورہا تھا ،حضرت رسالت مآب (ص) كو خبر دى گئي تو آنحضرت (ص) بنفس نفيس خندق ميں تشريف لے گئے او راس پتھر كے پاس كھڑے ہو كراورہتھوڑا لے كر پہلى مرتبہ ہى اس كے دل پر ايسى مضبوط چوٹ لگائي كہ اس كا كچھ حصہ ريزہ ريزہ ہو گيا اور اس سے ايك چمك نكلى جس پر آپ(ص) نے فتح وكامرانى كى تكبير بلند كي_ آپ(ص) كے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے بھى تكبيركہي_

آپ(ص) نے ايك اورسخت چوٹ لگائي تو اس كا كچھ حصہ او رٹوٹا اوراس سے بھى چمك نكلي_اس پر بھى سروركونين (ص) نے تكبيركہى اور مسلمانوں نے بھى آپ(ص) (ص) (ص) كے ساتھ تكبيركہى آخر كاآپ(ص) نے تيسرى چوٹھى لگائي جس سے بجلى كوند ى اورباقى ماندہ پتھر بھى ٹكڑے ٹكڑے ہو گيا ،حضوراكرم (ص) نے پھر تكبير كہى او ر

۵۵۸

مسلمانوں نے بھى ايسا ہى كيا، اس موقع پر جناب سلمان فارسي نے اس ماجرا كے بارے ميں دريافت كيا تو سركاررسالت مآب (ص) نے فرمايا :''پہلى چمك ميں ميں نے ''حيرہ''كى سرزمين او رايران كے بادشاہوں كے قصر ومحلات ديكھے ہيں او رجبرئيل نے مجھے بشارت دى ہے كہ ميرى امت ان پر كاميابى حاصل كرے گي،دوسرى چمك ميں ''شام او رروم''كے سرخ رنگ كے محلات نماياں ہوئے او رجبرئيل نے پھر بشارت دى كہ ميرى امت ان پرفتح ياب ہوگي، تيسرى چمك ميں مجھے ''صنعا و يمن ''كے قصور ومحلات دكھائي ديئےورجبرئيل نے نويد دى كہ ميرى امت ان پربھى كاميابى حاصل كرے گي، اے مسلمانوتمھيں خوشخبرى ہو

منافقين نے ايك دوسرے كى طرف ديكھا او ركہا: كيسى عجيب و غريب باتيں كر رہے ہيں اور كيا ہى باطل اور بے بنياد پروپيگنڈاہے ؟مدينہ سے حيرہ او رمدائن كسرى كو تو ديكھ كر تمہيں ان كے فتح ہونے كى خبرديتا ہے حالانكہ اس وقت تم چند عربوں كے چنگل ميں گرفتا رہو (او رخو ددفاعى پوزيشن اختيار كئے ہوئے ہو )تم تو'' بيت الحذر''(خوف كى جگہ ) تك نہيں جا سكتے ( كيا ہى خيال خام او رگمان باطل ہے _

الہى وحى نازل ہوئي او ركہا:

''يہ منا فق او ردل كے مريض كہتے ہيں كہ خدا او راس كے رسو ل نے سوائے دھوكہ و فريب كے ہميں كوئي وعدہ نہيں ديا، (وہ پر و ردگاركى بے انتہا قدرت سے بے خبر ہيں ''_)(۱)

اس وقت اس قسم كى بشارت او رخوشخبرى سوائے آگاہ او ربا خبر مو منين كى نظر كے علاوہ ( باقى لوگوں كے لئے )دھوكا او ر فريب سے زيادہ حيثيت نہيں ركھتى تھى ليكن پيغمبر (ص) كى ملكوتى آنكھيں ان آتشيں چنگاريوں كے درميان سے جو كدالوں او رہتھوڑوں كے خندق كھودنے كے لئے زمين پرلگنے سے نكلتى تھيں ، ايران روم او ريمن كے بادشاہوں كے قصرو محلات كے دروازوں كے كھلنے كو ديكھ سكتے تھے او رآئندہ كے اسرارو رموز سے پردے بھى اٹھاسكتے تھے_

____________________

(۱)سورہ احزاب آيت ۱۲

۵۵۹

منافقانہ عذر

جنگ احزاب كے واقعہ كے سلسلے ميں قرآن مجيدمنافقين او ردل كے بيمارلوگوں ميں سے ايك خطرناك گروہ كے حالات تفصيل سے بيان كرتا ہے جو دوسروں كى نسبت زيادہ خبيث او رآلودہ گناہ ہيں ، چنانچہ كہتا ہے: ''او راس وقت كو بھى يا دكرو، جب ان ميں سے ايك گروہ نے كہا: اے يثرب (مدينہ )كے رہنے والويہاں تمہارے رہنے كى جگہ نہيں ہے ،اپنے گھروں كى طرف لوٹ جائو''(۱)

خلاصہ يہ كہ دشمنوں كے اس انبوہ كے مقابلہ ميں كچھ نہيں ہو سكتا، اپنے آپ كو معركہ كار زار سے نكال كرلے جائو او راپنے آپ كو ہلاكت كے اور بيوى بچوں كو قيد كے حوالے نہ كرو_ اس طرح سے وہ چاہتے تھے كہ ايك طرف سے تو وہ انصار كے گروہ كو لشكر اسلام سے جدا كرليں اوردوسرى طرف ''انہيں منافقين كا ٹولہ جن كے گھر مدينہ ميں تھے ،نبى اكرم (ص) سے اجازت مانگ رہے تھے كہ وہ واپس چلے جا ئيں او راپنى اس واپسى كے لئے حيلے بہانے پيش كررہے تھے ، وہ يہ بھى كہتے تھے كہ ہمارے گھردل كے دروديوارٹھيك نہيں ہيں حالانكہ ايسا نہيں تھا ،اس طرح سے وہ ميدان كو خالى چھوڑكر فراركرنا چاہتے تھے''_(۲)

منافقين اس قسم كا عذر پيش كركے يہ چاہتے تھے كہ وہ ميدان جنگ چھوڑكر اپنے گھروں ميں جاكرپناہ ليں _

ايك روايت ميں آيا ہے كہ قبيلہ ''بنى حارثہ ''نے كسى شخص كو حضور رسالت پناہ (ص) كى خدمت ميں بھيجااو ركہا كہ ہمارے گھر غير محفوظ ہيں اور انصار ميں سے كسى كا گھر بھى ہمارے گھروں كى طرح نہيں اور ہمارے او رقبيلہ ''غطفان ''كے درميان كوئي ركا وٹ نہيں ہے جو مدينہ كى مشرقى جانب سے حملہ آور ہو رہے ہيں ، لہذا اجا زت ديجئے تا كہ ہم اپنے گھروں كو پلٹ جا ئيں او راپنے بيوى بچوں كا دفاع كريں تو سركار رسالت (ص) (ص) نے انھيں اجازت عطا فرمادى _

____________________

(۱)سورہ احزاب آيت ۱۲

(۲)سورہ احزاب آيت ۱۳

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667