قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 337657 / ڈاؤنلوڈ: 6188
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آنے والوں كے ساتھ اس لئے كيا كوئي ان كے يہاں ٹھہرے نہ ،آہستہ آہستہ ان كى عادت بن گئي لہذا جب حضرت لوط عليہ السلام كو شہر ميں كسى مسافر كے آنے كى خبر ہوتى تو اسے اپنے گھر ميں دعوت ديتے تاكہ وہ كہيں ان كے چنگل ميں نہ پھنس جائے ان لوگوں كو جب اس كا پتہ چلاتو بہت سيخ پاہوئے اور حضرت لوط عليہ السلام سے كھل كر كہنے لگے كہ تمھيں كوئي حق نہيں پہنچتا كہ اب تم كسى مہمان كو اپنے گھرلے جائو _

اے كاش ميں تم سے مقابلہ كرسكتا

بہر حال جب حضرت لوط عليہ السلام نے ان كى يہ جسارت اور كمينہ پن ديكھى تو انھوں نے ايك طريقہ اختيار كيا تاكہ انھيں خواب غفلت اور انحراف وبے حيائي كى مستى سے بيدار كرسكيں _ آپ نے كہا : تم كيوں انحراف كے راستے پر چلتے ہو اگر تمہارا مقصد جنسى تقاضوں كو پورا كرنا ہے تو جائز اور صحيح طريقے سے شادى كركے انھيں پورا كيوں نہيں كرتے ، ،يہ ميرى بيٹياں ہيں (تيار ہوں كہ انھيں تمہارى زوجيت ميں دے دوں ) اگر تم صحيح كام انجام دينا چاہتے ہو تو اس كا راستہ يہ ہے _''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت لوط عليہ السلام كى تو چند بيٹياں تھيں اور ان افراد كى تعداد زيادہ تھى ليكن مقصديہ تھا كہ ان پر اتمام حجت كيا جائے اور كہا جائے كہ ميں اپنے مہمانوں كے احترام اور حفاظت اور تمہيں برائي كى دلدل سے نكالنے كے لئے اس حد تك ايثار كے لئے تيار ہوں _يہ بات واضح ہے كہ جناب لوط يونہى اپنى لڑكيوں كا عقد ان مشركوں اور گمراہوں سے نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ مقصد يہ تھا كہ پہلے ايمان لے او تاكہ بعد ميں اپنے لڑكيوں كى شادى تم سے كردوں _

ليكن افسوس شہوت، انحراف اور ہٹ دھرمى كے اس عالم ميں ان ميں ذرہ بھر بھى انسانى اخلاق اور جذبہ باقى ہوتا تو كم از كم اس امر كے لئے كافى تھا كہ وہ شرمندہ ہوتے اور پلٹ جاتے، مگرنہ صرف يہ كہ وہ شرمندہ نہ ہوئے بلكہ اپنى جسارت ميں اور بڑھ گئے اور چاہا كہ حضرت لوط كے مہمانوں كى طر ف ہاتھ بڑھائيں _

____________________

(۱)سورہ حجر آيت ۷۱

۱۶۱

وہ قوم حرص اور شوق كے عالم ميں اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے بڑى تيزى سے لوط كى طرف آئي_

مگر اس تباہ كار قوم نے نبى خدا حضرت لوط(ع) كو بڑى بے شرمى سے جواب ديا :

''تو خود اچھى طرح سے جانتا ہے كہ ہماراتيرى بيٹيوں ميں كوئي حق نہيں ، اور يقينا تو جانتا ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں _''(۱)

يہ وہ مقام تھا كہ اس بزر گوار پيغمبر نے اپنے آپ كو ايك محاصرے ميں گھراہوا پايا اور انہوں نے ناراحتى وپريشانى كے عالم ميں فرياد كى :اے كاش : مجھ ميں اتنى طاقت ہوتى كہ ميں اپنے مہمانوں كا دفاع كر سكتا اورتم جيسے سر پھروں كى سركوبى كرسكتا ''_(۲)

يا كوئي مستحكم سہارا ہوتا ، كوئي قوم و قبيلہ ميرے پيروكارں ميں سے ہوتا اور ميرے كوئي طاقتور ہم پيمان ہوتے كہ جن كى مدد سے تم منحرف لوگوں كا مقابلہ كرتا_(۳)

اے لوط(ع) آپ پريشان نہ ہويئے

آخر كار پروردگار كے رسولوں نے حضرت لوط كى شديد پريشانى ديكھى اور ديكھا كہ وہ روحانى طور پر كس اضطراب كا شكار ہيں تو انہوں نے اپنے اسرار كار سے پردہ اٹھايا اور ان سے كہا :'' اے لوط(ع) : ہم تيرے پروردگار كے بھيجے ہوئے ہيں ، پريشان نہ ہومطم ن رہو كہ وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہيں كرسكيں گے''_(۴)

قران ميں دوسرى جگہ پر ہے :(۵)

يہ آيت نشاندہى كرتى ہے كہ اس وقت حملہ آورقوم پروردگار كے ارادے سے اپنى بينائي كھوبيٹھى تھي

____________________

(۱)سورہ ہودآيت ۷۹

(۲)سورہ ہود آيت ۸۰

(۳)سورہ ہود آيت۸۰

(۴)سورہ ہود آيت ۸۱

(۵)وہ لوط عليہ السلام كے مہمانوں كے بارے ميں تجاوز كا ارادہ ركھتے تھے ليكن ہم نے ان كى آنكھيں اندھى كرديں _

۱۶۲

اور حملے كى طاقت نہيں ركھتى تھى بعض روايات ميں بھى ہے كہ ايك فرشتے نے مٹھى بھر خاك ان كے چہروں پر پھينكى جس سے وہ نابينا ہوگئے _

بہرحال جب لوط اپنے مہمانوں كے بارے ميں ان كى ماموريت كے بارے ميں آگاہ ہوئے تو يہ بات اس عظيم پيغمبر كے جلتے ہوئے دل كے لئے ٹھنڈك كى مانند تھي، ايك دم انہوں نے محسوس كيا كہ ان كے دل سے غم كا بار گراں ختم ہوگيا ہے اور ان كى آنكھيں خوشى سے چمك اٹھيں ، ايسا ہوا جيسے ايك شديد بيمارى كى نظر مسيحاپر جاپڑے، انہوں نے سكھ كا سانس ليا اور سمجھ گئے كہ غم واندوہ كا زمانہ ختم ہورہاہے اور اس بے شرم حيوان صفت قوم كے چنگل سے نجات پانے كا اور خوشى كا وقت آپہنچا ہے _

مہمانوں نے فوراً لوط عليہ السلام كو حكم ديا : تم تاريكى شب ميں اپنے خاندان كو اپنے ساتھ لے لو اور اس سرزمين سے نكل جائو ليكن يہ پابندى ہے كہ '' تم ميں سے كوئي شخص پس پشت نہ ديكھے_ ''(۱)

اس حكم كى خلاف ورزى فقط تمہارى معصيت كار بيوى كرے گى كہ جو تمہارى گنہگار قوم كو پہنچنے والى مصيبت ميں گرفتار ہوگى _''(۲)

____________________

(۱)''ولا يلتفت منكم احد''_ كى تفسير ميں مفسيرين نے چند احتمال ذكر كيے ہيں :

پہلا يہ كوئي شخص اپنى پس پشت نہ ديكھے _

دوسرا يہ كہ شہر ميں سے مال اور وسائل لے جانے كى فكر نہ كرے بلكہ صرف اپنے آپ كو اس ہلاكت سے نكال لے جائے _

تيسرايہ كہ اس خاندان كے اس چھوٹے سے قافلہ ميں سے كوئي شخص پيچھے نہ رہ جائے_

چوتھا يہ كہ تمہارے نكلنے كے وقت زمين ہلنے لگے كى اور عذاب كے آثار نماياں ہوجائيں گے لہذا اپنے پس پشت نگاہ نہ كرنا اور جلدى سے دور نكل جانا_

البتہ كوئي مانع نہيں ہے كہ يہ سب احتمالات اس آيت كے مفہوم ميں جمع ہوں

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

۱۶۳

كيا صبح قريب نہيں ہے؟

بالآخر انھوں نے لوط سے آخرى بات كہي: ''نزول عذا ب كا لمحہ اور وعدہ كى تكميل كا موقع صبح ہے اور صبح كى پہلى شعاع كے ساتھ ہى اس قوم كى زندگى غروب ہوجائے گى _''(۱)

ابھى اٹھ كھڑے ہو اور جتنا جلدى ممكن ہو شہر سے نكل جائو''كيا صبح نزديك نہيں ہے _''(۲)

بعض روايات ميں ہے كہ جب ملائكہ نے كہا كہ عذاب كے وعدہ پر عمل درآمدصبح كے وقت ہوگا توحضرت لوط عليہ السلام كو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پريشان تھے، وہى قوم كہ جس نے اپنے شرمناك اعمال سے ان كا دل مجروح كرركھا تھا اور ان كى روح كو غم واندوہ سے بھرديا تھا، فرشتوں سے خواہش كى كہ اب جب كہ ان كو نابودہى ہونا ہے تو كيا ہى اچھا ہو كہ جلدى ايسا ہو ليكن انہوں نے حضرت لوط كى دلجوئي اور تسلى كے لئے كہا : كياصبح نزديك نہيں ہے ؟

آخركار عذاب كا لمحہ آن پہنچا اور لوط پيغمبر عليہ السلام كے انتظاركے لمحے ختم ہوئے ، جيسا كہ قرآن كہتا ہے :

''جس وقت ہمارا فرمان آن پہنچا تو ہم نے اس زمين كو زيروزبر كرديا اور ان كے سروں پر مٹيلے پتھروں كى پيہم بارش برسائي _''(۳)

پتھروں كى يہ بارش اس قدر تيز اور پے درپے تھى كہ گويا پتھرايك دوسرے پر سوار تھے _ليكن يہ معمولى پتھرنہ تھے بلكہ تيرے پروردگار كے يہاں معين اور مخصوص تھے ''مسومة عند ربك ''_ البتہ يہ تصور نہ كريں كہ يہ پتھر قوم لوط كے ساتھ ہى مخصوص تھے بلكہ'' يہ كسى ظالم قوم اور جمعيت سے دور نہيں ہيں _ ''(۴)

اس بے راہ روااور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھى ظلم كيا اور اپنے معاشرے پر بھى وہ اپنى قوم كى تقدير

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۸۱

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

(۳)سورہ ہود آيت ۸۲

(۴)سورہ ہود آيت ۸۳

۱۶۴

سے بھى كھيلے اور انسانى ايمان واخلاق كا بھى مذاق اڑايا ،جب ان كے ہمدرد رہبر نے داد وفرياد كى تو انہوں نے كان نہ دھرے اور تمسخركيا اعلى ڈھٹائي ، بے شرمى اور بے حيائي يہاں تك آپہنچى كہ وہ اپنے رہبر كے مہمانوں كى حرمت وعزت پر تجاوز كے لئے بھى اٹھ كھڑے ہوئے _

يہ وہ لوگ تھے كہ جنہوں نے ہر چيز كو الٹ كر ركھ ديا ان كے شہروں كو بھى الٹ جانا چاہئے تھا فقط يہى نہيں كہ ان كے شہرتباہ وبرباد ہوجاتے بلكہ ان پر پتھروں كى بارش بھى ہونا چاہئے تھى تاكہ ان كے آخرى آثار حيات بھى درہم وبرہم ہوجائيں اور وہ ان پتھروں ميں دفن ہوجائيں اس سے كہ ان كا نام ونشان اس سرزمين ميں نظر نہ آئے، صرف وحشت ناك ، تباہ وبرباد بيابان ، خاموش قبرستان اور پتھروں ميں دبے ہو ئے مردوں كے علاوہ ان ميں كچھ باقى نہ رہے _

كيا صرف قوم لوط(ع) كو يہ سزا ملنى چاہئے نہيں ، يقينا ہر گز نہيں بلكہ ہر منحرف گروہ اور ستم پيشہ قوم كے لئے ايسا ہى انجام انتظار ميں ہے كبھى سنگريزوں كى بارش كے نيچے ، كبھى آگ اگلتے بموں كے نيچے اور كبھى معاشرے كے لئے تباہ كن اختلافات كے تحت خلاصہ يہ كہ ہر ستمگر كو كسى نہ كسى صورت ميں ايسے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا _

صبح كے وقت نزول عذاب كيوں ؟

يہاں پر ذہن ميں يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ نزول عذاب كےلئے صبح كا وقت كيوں منتخب كيا گيا رات كے وقت ہى عذاب كيوں نازل نہيں ہوا ؟

ايسا اس لئے تھا كہ جب حضرت لوط(ع) كے گھر پر چڑھ آنے والے افراد اندھے ہوگئے اور قوم كے پاس لوٹ كر گئے اور واقعہ بيان كيا تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے، معاملہ كيا ہے خدانے صبح تك انہيں مہلت دى كہ شايد بيدار ہوجائيں اور اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كريں اور توبہ كريں يا يہ كہ خدا نہيں چاہتا تھا كہ رات كى تاريكى ميں ان پر شب خون مارا جائے اسى بناء پر حكم ديا كہ صبح تك مامور عذاب سے ہاتھ روكے ركھيں _تفاسير ميں اس كے بارے ميں تقريباً كچھ نہيں لكھا گيا ليكن جو كچھ ہم نے اوپر ذكر كيا ہے وہ اس سلسلے

۱۶۵

ميں پند قابل مطالعہ احتمالات ہيں _

زيرو زبركيوں كيا گيا

ہم كہہ چكے ہيں كہ چكے ہيں كہ عذاب كى گناہ سے كچھ نہ كچھ مناسبت ہونا چاہئے، اس قوم نے انحراف جنسى كے ذريعہ چونكہ ہر چيز كوالٹ پلٹ كرديا تھا لہذا خدا نے بھى ان شہروں كو زيرو زبر كرديا اور چونكہ روايات كے مطابق ان كے منہ سے ہميشہ ركيك اور گندى گندگى كى بارش ہوتى تھى لہذا خدانے بھى ان پر پتھروں كى بارش برسائي _

جس نكتے كا ہم آخر ميں ذكر ضرورى سمجھتے ہيں وہ يہ ہے كہ جنسى انحراف كى طرف افراد كے ميلان كے بہت سے علل واسباب ہيں يہاں تك كہ بعض اوقات ماں باپ كا اپنى اولاد سے سلوك يا ہم جنس اولاد كى نگرانى نہ كرنا ، ان كے طرز معاشرت اور ايك ہى جگہ پر سونا وغيرہ بھى ہوسكتا ہے اس آلودگى كا ايك عامل بن جائے _

بعض اوقات ممكن ہے كہ اس انحراف سے ايك اور اخلاقى انحراف جنم لے لے، يہ امر قابل توجہ ہے كہ قوم لوط كے حالات ميں ہے كہ ان كے اس گناہ ميں آلودہ ہونے كا ايك سبب يہ تھا كہ وہ بخيل اور كنجوس لوگ تھے اور چونكہ ان كے شہر شام جانے والے قافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے اور وہ نہيں چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كى پذيرائي كريں لہذا ابتداء ميں وہ اس طرح ظاہر كرتے تھے كہ وہ چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كو اپنے سے دور بھگائيں ليكن تدريجاًيہ عمل ان كى عادت بن گيا اور انحراف جنسى كے ميلانات آہستہ آہستہ ان كے وجود ميں بيدار ہوگئے اور معاملہ يہاں تك جاپہنچا كہ وہ سرسے لے كر پائوں تك اس ميں آلودہ ہوگئے _(۱)

____________________

(۱) يہاں تك كے فضول قسم كا مذاق جو كبھى كبھى لڑكوں كے درميان اپنے ہم جنسوں كے بارے ميں ہوتا ہے بعض اوقات ان انحرافات كى طرف كھينچ لے جانے كا سبب بن جاتاہے _

۱۶۶

قوم لوط(ع) كا اخلاق

اسلامى روايات وتواريخ ميں جنسى انحراف كے ساتھ ساتھ قوم لوط(ع) كے برے اور شرمناك اعمال اور گھٹيا كردار بھى بيان ہواہے _

كہا گيا ہے كہ ان كى مجالس اور بيٹھكيں طرح طرح كے منكرات اور برے اعمال سے آلودہ تھيں وہ آپس ميں ركيك جملوں ، فحش كلامى اور پھبتيوں كا تبادلہ كرتے تھے ايك دوسرے كى پشت پر مكے مارتے تھے قمار بازى كرتے تھے بچوں والے كھيل كھيلتے تھے گزرنے والوں كو كنكرياں مارتے تھے طرح طرح كے آلات موسيقى استعمال كرتے تھے او رلوگوں كے سامنے برہنہ ہو جاتے تھے اور اپنى شرمگاہوں كو ننگاكرديتے تھے _

واضح ہے كہ اس قسم كے گندے ماحول ميں ہر روز انحراف اور بدى نئي شكل ميں رونما ہوتى ہے اور وسيع سے وسيع تر ہوتى چلى جاتى ہے ايسے ماحول ميں اصولى طور پر برائي كا تصور ختم ہوجاتاہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہيں كہ كوئي كام ان كى نظر ميں برا اور قبيح نہيں رہتا ان سے زيادہ بد بخت وہ قوميں ہيں جو علم كى پيش رفت كے زمانے ميں انہى راہوں پر گا مزن ہيں ،بعض اوقات تو ان كے اعمال اس قدر شرمناك اور رسوا كن ہوتے ہيں كہ قوم لوط كے اعمال بھول جاتے ہيں _

حضرت لوط (ع) كى بيوى كافروں كے لئے مثال

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے ''خدا نے كافروں كے لئے ايك مثال بيان كى ہے'' نوح عليہ السلام كى بيوى كى مثال اور لوط عليہ السلام كى بيوى كى مثال ''وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كي، ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا اور ان سے كہا گيا كہ تم بھى آگ ميں داخل ہونے والے لوگوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجائو_ ''(۱)

____________________

(۱) سورہ تحريم آيت ۱۰

۱۶۷

حضرت نوح كى بيوى كا نام ''والھہ'' اور حضرت لوط كى بيوى كا نام ''والعة''تھا ۱ اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ہے يعنى نوح كى بيوى كانام''والعة'' اورلوط كى بيوى كا نام ''والھہ'' يا ''واہلہ'' كہا ہے_

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظيم پيغمبروں كے ساتھ خيانت كى ،البتہ ان كى خيانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگزنہيں تھا كيونكہ كسى پيغمبر كى بيوى ہرگز بے عفتى سے آلودہ نہيں ہوتى جيسا كہ پيغمبر اسلام سے ايك حديث ميں صراحت كے ساتھ بيان ہواہے :

''كسى بھى پيغمبر كى بيوى ہرگز منافى عفت عمل سے آلودہ نہيں ہوئي''_

حضرت لوط كى بيوى كى خيانت يہ تھى كہ وہ اس پيغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتى تھى اور ان كے گھر كے راز انھيں بتاتى تھى اور حضرت نوح (ع) كى بيوى بھى ايسى ہى تھى _

۱۶۸

حضرت يوسف اور يعقوب (عليہماالسلام)

داستان عشق يا پاكيزگى كا بہترين سبق

حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو بيان كرنے سے پہلے چند چيزوں كا بيان كرنا ضرورى ہے:

۱_ بے ہدف داستان پردازوں يا پست اور غليظ مقاصد ركھنے والوں نے اس اصلاح كنندہ واقعہ كو ہوس بازوں كے لئے ايك عاشقانہ داستان بنانے اور حضرت يوسف عليہ السلام او ران كے واقعات كے حقيقى چہرے كو مسخ كرنے كى كوشش كى ہے،يہاں تك كہ انھوں نے اسے ايك رومانى فلم بناكر پردہ سيميں پر پيش كرنا چاہا ہے ،ليكن قرآن مجيد نے كہ جس كى ہر چيز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے كے مختلف مناظرسے پيش كرتے ہوئے اعلى ترين عفت وپاكدامني، خوداري، تقوى ،ايمان اور ضبط نفس كے درس دئے ہيں اس طرح سے كہ ايك شخص اسے جتنى مرتبہ بھى پڑھے ان قوى جذبوں سے متاثر ہوئے بغير نہيں رہ سكتا_

اسى بنا پر قرآن نے اسے ''احسن القصص'' (بہترين داستان) جيسا خوبصورت نام ديا ہے اور اس ميں صاحبان فكرونظر كے لئے متعدد عبرتيں بيان كى ہيں _

قہرمان پاكيزگي

۲_اس واقعہ ميں غوروفكر سے يہ حقيقت واضح ہو تى ہے كہ قرآن تمام پہلو ئوں سے معجزہ ہے اور اپنے واقعات ميں جو ہيرو پيش كرتا ہے وہ حقيقى ہيرو ہو تے ہيں نہ كہ خيا لى _كہ جن ميں سے ہر ايك اپنى نو عيت كے

۱۶۹

اعتبار سے بے نظير ہو تا ہے _

حضرت ابراہيم ،وہ بت شكن ہيرو ،جن كى روح بلند تھى اور جو طاغوتيوں كى كسى سازش ميں نہ آئے _

حضرت نو ح،طويل اور پر بر كت عمرميں _صبر واستقا مت،پا مردى اور دلسوزى كے ہيرو بنے_

حضرت مو سى وہ ہير و كہ جنہوں نے ايك سركش اور عصيان گر طاغوت كے مقابلے كے لئے ايك ہٹ دھرم قوم كو تيار كرليا _

حضرت يوسف ;ايك خوبصورت ،ہو س باز اور حيلہ گر عورت كے مقابلے ميں پاكيز گى ، پارسائي اور تقوى كے ہيرو بنے_

علاوہ ازيں اس واقعے ميں قرآنى وحى كى قدرت بيان اس طرح جھلكتى ہے كہ انسان حيرت زدہ ہو جاتا ہے كيونكہ جيسا كہ ہم جانتے ہيں كئي مواقع پر يہ واقعہ عشق كے بہت ہى باريك مسائل تك جا پہنچتاہے اور قرآن انہيں چھوڑ كر ايك طرف سے گزر ے بغير ان تمام مناظر كو ان كى بار يكيوں كے سا تھ اس طرح سے بيان كرتا ہے كہ سا مع ميں ذرہ بھر منفى اور غير مطلوب احساس پيدا نہيں ہوتا _قرآن تمام واقعات كے تن سے گزر تا ہے ليكن تمام مقامات پر تقوى وپاكيزگى كى قوى شعاعوں نے مباحث كا احا طہ كيا ہوا ہے _

حضرت يوسف(ع) كا واقعہ اسلام سے پہلے اور اسلام كے بعد

۳_ اس ميں شك نہيں كہ قبل از اسلام بھى داستان يوسف لوگوں ميں مشہور تھى كيو نكہ تو ريت ميں سفر پيد ائش كى چو دہ فصلوں (فصل ۳۷تا ۵۰) ميں يہ واقعہ تفصيل سے مذكورہے _البتہ ان چودہ فصلوں كا غور سے مطا لعہ كيا جا ئے تو يہ بات ظاہر ہو تى ہے كہ توريت ميں جو كچھ ہے وہ قرآن سے بہت ہى مختلف ہے _ان اختلافات كے موازنے سے معلوم ہو تا ہے كہ جو كچھ قرآن ميں آيا ہے وہ كس حد تك پيراستہ اور ہر قسم كے خرافات سے پاك ہے_ يہ جو قرآن پيغمبر سے كہتا ہے :''اس سے پہلے آپ كو علم نہيں تھا ،،اس عبرت انگيز داستا ن كى خالص واقعيت سے ان كى عدم آگہى كى طرف اشارہ ہے_ (اگر احسن القصص سے مراد واقعہ يوسف ہو ) _

۱۷۰

موجود ہ توريت سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب نے جب حضرت يوسف كى خون آلود قميص ديكھى تو كہا :''يہ ميرے بيٹے كى قبا ہے جسے جانور نے كھا ليا ہے يقينا يوسف چير پھاڑڈالا گيا ہے _''

پھر يعقوب نے اپنا گريبان چا ك كيا ٹاٹ اپنى كمر سے باند ھا اور مدت دراز تك اپنے بيٹے كے لئے گريہ كرتے رہے، تمام بيٹوں اور بيٹيوں نے انہيں تسلى دينے ميں كسراٹھا نہ ركھى ليكن انہيں قرار نہ آيا اور كہا كہ ميں اپنے بيٹے كے ساتھ اسى طرح غمزدہ قبر ميں جائوں گا _

جبكہ قرآن كہتا ہے كہ حضرت يعقوب عليہ السلام اپنى فراست سے بيٹوں كے جھوٹ كو بھانپ گئے اور انہوں نے اس مصيبت ميں داد وفرياد نہيں كى اور نہ اضطراب دكھا يا بلكہ جيسا كہ انبياء عليہم السلام كى سنت ہے اس مصيبت كا بڑے صبر سے سا منا كيا اگر چہ ان كا دل جل رہا تھا، آنكھيں اشكبار تھيں ، فطر ى طور پر كثرت گريہ سے ان كى بينا ئي جاتى رہى _ليكن قرآن كى تعبير كے مطابق انہوں نے صبر جميل كا مظاہرہ كيا اور اپنے اوپر قابو ركھا (كظيمہ) انہوں نے گريبان چاك كر نے ، دادو فرياد كرنے اور پھٹے پرا نے كپڑے پہنے سے گريز كيا جو كہ عزادارى كى مخصوص علامات تھيں _

بہر حال اسلام كے بعد بھى يہ واقعہ مشرق مغرب كے مو رخين كى تحريروں ميں بعض اوقات حاشيہ آرائي كے ساتھ آيا ہے فارسى اشعار ميں سب سے پہلے ''يوسف زليخا ،،كے قصے كى نسبت فردوسى كى طرف دى جاتى ہے اس كے بعد شہاب الدين عمق اور مسعودى قمى كى ''يوسف زليخا''ہے اور ان كے بعد نويں صدى كے مشہور شاعر عبدالرحمن جامى كي'' يوسف زليخا ''ہے _

احسن القصص

۴_قران ميں داستان يوسف كو شروع كرتے ہوئے خدافرماتا ہے:''ہم اس قران كے ذريعہ (جو اپ پر وحى ہوتى ہے )،كے ذريعہ ''احسن القصص ''بيان كرتے ہيں ''_(۱)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۳

۱۷۱

يہ واقعہ كيسے بہترين نہ ہو جب كہ اس كے ہيجان انگيز پيچ وخم ميں زندگى كے اعلى تر ين دروس كى تصوير كشى كى گئي ہے _اس واقعے ميں ہر چيز پر خدا كے اراد ے كى حاكميت كا ہم اچھى طرح مشاہدہ كرتے ہيں _

حسد كرنے والوں كا منحوس انجام ہم اپنى آنكھوں سے ديكھتے ہيں اوران كى سازشوں كونقش بر آب ہو تے ہو ئے ديكھتے ہيں _

بے عفتى كى عارو ننگ اور پارسا ئي وتقوى كى عظمت وشكوہ اس كى سطور ميں ہم مجسم پاتے ہيں كنويں كى گہرائي ميں ايك ننھے بچے كى تنہائي، زندان كى تاريك كو ٹھرى ميں ايك بے گناہ قيدى كے شب وروز ، ياس ونا اميدى كے سياہ پردوں كے پيچھے نو ر اميد كى تجلى اور آخر كار ايك وسيع حكو مت كى عظمت وشكوہ كہ جو آگاہ ہى وامانت كا نتيجہ ہے يہ تمام چيز يں اس داستان ميں انسان كى آنكھوں كے سامنے سا تھ سا تھ گزر تى ہيں _

وہ لمحے كہ جب ايك معنى خيز خواب سے ايك قوم كى سر نوشت بدل جاتى ہے _

وہ وقت كہ جب ايك قوم كى زندگى ايك بيدا ر خدا ئي زمام دار كے علم وآگہى كے زير سا يہ نابودى سے نجات پاليتى ہے _

اور ايسے ہى دسيوں درس ، جس داستا ن ميں مو جود ہوں وہ كيوں نہ ''احسن القصص''ہو _

البتہ يہى كافى نہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام كى داستان ''احسن القصص'' ہے اہم بات يہ ہے كہ ہم ميں يہ لياقت ہو كہ يہ عظيم درس ہمارى روح ميں اتر جائے_

بہت سے ايسے لوگ ہيں جو حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو ايك اچھے رومانوى واقعہ كے عنوان سے ديكھتے ہيں ، ان جا نو روں كى طرح جنھيں ايك سر سبز وشاداب اور پھل پھو ل سے لدے ہوئے باغ ميں صرف كچھ گھا س نظر پڑتى ہے كہ جو ان كى بھو ك كو زائل كردے _

ابھى تك بہت سے ايسے لوگ ہيں كہ جو اس داستا ن كو جھو ٹے پر وبال دے كر كوشش كرتے ہيں كہ اس سے ايك سيكسى ( sexsi )داستان بنا ليں جب كہ اس واقعہ كے لئے يہ بات نا شائستہ ہے اور اصل داستان ميں تمام اعلى انسا نى قدر يں جمع ہيں آئند ہ صفحات ميں ہم ديكھيں گے كہ اس واقعہ كے جامع خو

۱۷۲

بصورت پيچ وخم كو نظر انداز كر كے نہيں گزرا جاسكتا ايك شاعر شيريں سخن كے بقول :

''كبھى كبھى اس داستان كے پر كشش پہلوئوں كى مہك انسا ن كو اس طرح سر مست كر ديتى ہے كہ وہ بے خود ہو جاتا ہے_''

اميد كى كرن او ر مشكلات كى ابتدا ء

حضرت يوسف عليہ السلام كے واقعے كا آغاز قرآن ان كے عجيب اور معنى خيز خواب سے كرتا ہے كيونكہ يہ خواب دراصل حضرت يوسف كى تلا طم خيز زندگى كا پہلاموڑ شمار ہو تا ہے _

ايك دن صبح سوير ے آپ بڑے شوق اور وار فتگى سے باپ كے پاس آئے اور انہيں ايك نيا واقعہ سنا يا جو ظا ہر اً كو ئي زيادہ اہم نہ تھا ليكن درحقيقت ان كى زندگى ميں ايك تازہ با ب كھلنے كا پتہ دے رہا تھا _

''يو سف نے كہا :ابا جان :

''ميں نے كل رات گيا رہ ستاروں كو ديكھا كہ وہ آسمان سے نيچے اتر ئے سورج اور چاندان كے ہمراہ تھے ' سب كے سب ميرے پاس آئے اور مير ے سامنے سجدہ كيا _''(۱)

حضرت يوسف (ع) نے يہ خواب شب جمعہ ديكھا تھا كہ جو شب قدر بھى تھى (وہ رات جو مقدرات كے تعين كى رات ہے ) _

يہاں پر سوال يہ پيد ا ہوتا ہے كہ حضرت يوسف نے جب يہ خواب ديكھا اس وقت آپ كى عمر كتنے سال تھى 'اس سلسلے ميں بعض نے نو سال' بعض نے بارہ سال اور بعض نے سات سال عمر لكھى ہے جو بات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ اس وقت آپ بہت كم سن تھے _

اس ہيجان انگيز اور معنى خيز خواب پر خدا كے پيغمبر يعقوب فكر ميں ڈوب گئے كہ سورج ،چاند اور آسمان كے گيارہ ستارے ،وہ گيا رہ ستارہ نيچے اترے اور ميرے بيٹے يوسف كے سامنے سجدہ ريز ہو گئے _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۴

۱۷۳

يہ كس قدر معنى آفر يں ہے يقينا سورج اور چاند ميں اور اس كى ماں (يامَيں اور اس كى خالہ ) ہيں اور گيارہ ستارے اس كے بھائي ہيں ميرے بيٹے كى قدر ومنزلت اور مقام اس قدر بلند ہو گا كہ آسمان كے ستارے ، سورج اور چاند اس كے آستا نہ پر جبيں سائي كريں گے يہ بار گاہ الہى ميں اس قدر عزيز اور باوقار ہو گا كہ آسمان والے بھى اس كے سامنے خضوع كريں گے كتنا پر شكوہ اور پر كشش خواب ہے _ لہذا پريشانى اور اضطراب كے انداز ميں كہ جس ميں ايك مسرت بھى تھى ،اپنے بيٹے سے كہنے لگے ''ميرے بيٹے :اپنا يہ خواب بھائيوں كو نہ بتانا،كيو نكہ وہ تيرے خلا ف خطر ناك سازش كريں گے ،ميں جانتا ہوں كہ شيطان انسا ن كا كھلا دشمن ہے _( ۲) وہ مو قع كى تاڑميں ہے تا كہ اپنے وسوسو ں كا آغاز كرے ، كينہ وحسد كى آگ بھڑ كا ئے يہا ں تك كہ بھا ئيوں كو ايك دوسرے كا دشمن بنادے_ ليكن يہ خواب صرف مستقبل ميں يو سف كے مقام كى ظاہرى ومادى عظمت بيان نہيں كرتا تھا بلكہ نشا ندہى كرتا تھا كہ وہ مقام نبوت تك بھى پہچنيں گے كيونكہ آسمان والو ں كا سجدہ كرنا آسمانى مقام كے بلند ى پر پہنچنے كى دليل ہے اسى لئے تو ان كے پدر بزر گوار حضرت يعقوب نے مزيد كہا : اور اس طر ح تير ا پرور دگار تجھے منتخب كرے گا _'' اور تجھے تعبير خواب كا علم دے گا اور اپنى نعمت تجھ پر اور آل يعقوب(ع) پر تمام كرے گا ،جيسے اس نے قبل از يان تيرے باپ ابراہيم عليہ السلام اور اسحاق(ع) پر تمام كى ہاں تيرا پروردگار عالم ہے اور حكمت كےمطابق كام كرتاہے_''(۳)

بھائيوں كى سازش

يہاں سے يوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسف(ع) كے خلاف سازش شروع ہو تى ہے ،قران ميں ان بہت سے اصلا حى دروس كى طرح اشارہ كيا گيا ہے جو اس داستا ن ميں موجود ہيں ،ارشاد ہوتا ہے :''يقينا يوسف اور اس كے بھائيوں كى داستا ن ميں سوال كرنے والوں كے لئے نشانياں تھيں _''(۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵

(۲)سورہ يوسف آيت ۵

(۳)سورہ يوسف آيت ۶

(۴)سورہ يوسف آيت ۷

۱۷۴

اس سے بڑھ كر اوركيا درس ہوگا كہ چند طاقتور افراد ايك سو چے سمجھے منصوبے كے تحت كہ جس كا سر چشمہ حسد تھا'ظاہراً ايك كمزور اور تنہا شخص كو نابود كرنے كے لئے اپنى تمام تر كو شش صرف كرتے ہيں مگر اس كام سے انہيں خبر نہيں ہو تى كہ وہ اسے ايك حكومت كے تخت پر بٹھا رہے ہيں اور ايك وسيع مملكت كا فرماں روا بنا رہے ہيں اور آخر كا وہ سب اس كے سامنے سر تعظيم وتسليم خم كرتے ہيں يہ امر نشاند ہى كرتا ہے كہ جب خدا كسى كام كا ارادہ كرتا ہے تو وہ اتنى طاقت ركھتا ہے كہ اس كا م كو اس كے مخالفين كے ہا تھوں پايہ تكميل تك پہنچا دے تا كہ يہ واضح ہوجائے گا كہ ايك پاك اور صاحب ايمان انسان اكيلا نہيں ہے اور اگر سارا جہان اس كى نا بودى پر كمر باند ھ لے ليكن خدا نہ چاہے تو كوئي اس كا بال بھى بيكا نہيں كرسكتا _

حضرت يعقوب(ع) كے بارہ بيٹے تھے ان ميں يو سف اور بنيا مين ايك ماں سے تھے ان كى والدہ كا نام ''راحيل'' تھا يعقوب (ع) ان دونوں بيٹوں سے خصوصاًيو سف سے زيا دہ محبت كرتے تھے كيونكہ ايك تو يہ ان كے چھوٹے بيٹے تھے لہذا فطرتاً زيادہ تو جہ اور محبت كے محتاج تھے اور دوسرا ان كى والدہ ''راحيل''فوت ہو چكى تھيں اس بنا ء پر بھى انہيں زيادہ تو جہ اور محبت كى ضرورت تھى علاوہ ازيں خصوصيت كے سا تھ حضرت يوسف ميں نا بغہ اور غير معمولى شخصيت ہونے كے آثار نمايا ں تھے؟ مجمو عى طور پر ان سب باتو ں كى بنا ء پر حضرت يعقوب واضح طور پر ان سے زيادہ پيار محبت كا برتائو كرتے تھے _

حاسد بھا ئيوں كى تو جہ ان پہلوئوں كى طرف نہيں تھى اور وہ اس پر بہت نا راحت اور ناراض تھے_ خصوصاًشايد مائوں كے الگ الگ ہونے كى وجہ سے بھى فطر تاً ان ميں رقابت مو جود تھى لہذا وہ اكٹھے ہو ئے اور كہنے لگے : يو سف اور اس كے بھا ئي كو باپ ہم سے زيادہ پيار كرتا ہے حالانكہ ہم طاقتور اور مفيد لوگ ہيں _''(۱)

اور باپ كے امور كو بہتر طور پر چلا سكتے ہيں اس لئے اسے ان چھوٹے بچوں كى نسبت ہم سے زيادہ محبت كرنا چاہئے جب كہ ان سے تو كچھ بھى نہيں ہو سكتا ،اس طرح يك طرفہ فيصلہ كرتے ہو ئے انہوں نے اپنے باپ كے خلاف كہا كہ'' ہمارا باپ واضح گمراہى ميں ہے_''( ۲)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۸

(۲)سورہ يوسف آيت ۸

۱۷۵

حسد اور كينے كى آگ نے انہيں اجازت نہ دى كہ وہ معا ملے كے تمام اطراف پر غور وفكر كرتے اور ان دو بچوں سے اظہار محبت پر باپ كے دلائل معلوم كرتے كيو نكہ ہميشہ ذاتى مفادات ہر شخص كى فكر پر پر دہ ڈال ديتے ہيں اور اسے يك طرفہ فيصلوں پر آمادہ كرديتے ہيں كہ جن كا نتيجہ حق وعدا لت كے راستے سے گمراہى ہے_البتہ ان كى مراد دين ومذہب كے اعتبار سے گمراہى نہ تھى كيو نكہ بعد ميں آنے والى گفتگو نشاندہى كرتى ہيں كہ اپنے باپ كى عظمت او رنبوت پر ان كا عقيدہ تھا اور انہيں صرف ان كے طرز معا شر ت پر اعتراض تھا _

يوسف (ع) كو قتل كر ديا جائے

بغض ،حسد اور كينے كے جذبات نے آخر كار بھا ئيوں كو ايك منصوبہ بنا نے پر آمادہ كيا وہ ايك جگہ جمع ہو ئے اور دو تجاو يزاان كے سامنے تھيں كہنے لگے :''يا يوسف كو قتل كردو يا اسے دور دراز كے كسى علاقے ميں پھينك آئو تا كہ باپ كى محبت كا پورا رخ ہما رى طرف ہو جائے ''_(۱)

يہ ٹھيك ہے كہ اس كا م پر تمہيں احساس گناہ ہو گا اور وجدان كى ندامت ہو گى كيو نكہ اپنے چھو ٹے بھا ئے پر يہ ظلم كرو گے ليكن اس گناہ كى تلافى ممكن ہے ،تو بہ كر لينا'' اور اس كے بعد صالح جمعيت بن جانا ''_(۲)

ليكن بھائيوں ميں سے ايك بہت سمجھدار تھا يا اس كا ضمير نسبتاًزيادہ بيدارتھا اسى لئے اس نے يوسف(ع) كو قتل كرنے كے منصوبے كى مخالفت كى اور اسى طرح كسى دور دراز علاقے ميں پھينك آنے كى تجويز پيش كي،كيونكہ اس منصوبے ميں يوسف(ع) كى ہلاكت كا خطرہ تھا_ اس نے ايك تيسرا منصبوبہ پيش كيا،وہ كہنے لگا:''اگر تمہيں ايسا كا م كرنے پر اصرار ہى ہے تو يوسف(ع) كو قتل نہ كرو بلكہ اسے كسى كنويں ميں پھينك دو(اس طرح سے كہ وہ زندہ رہے)تا كہ راہ گزاروں كے كسى قافلے كے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جائيں اور اس طرح يہ ہمارى اور باپ كى آنكھوں سے دور ہو جائے _(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۹

(۲)سورہ يوسف آيت ۹

(۳)سورہ يوسف آيت۱۰

۱۷۶

منحوس سازش

يوسف (ع) كے بھائيوں نے جب يوسف كو كنويں ميں ڈالنے كى آخرى سازش پر اتفاق كرليا تو يہ سوچنے لگے كہ يوسف كو كس طرح لے كر جائيں لہذا اس مقصد كے لئے انہوں نے ايك اور منصوبہ تيار كيا اس كے لئے وہ باپ كے پاس آئے اور اپنے حق جتا نے كے انداز ميں ، نرم ونازك لہجے ميں محبت بھرے شكو ے كى صورت ميں كہنے لگے :''ابا جان :آپ يو سف كو كيوں كبھى اپنے سے جدا نہيں كرتے اور ہما رے سپر د نہيں كر تے آپ ہميں بھائي كے بارے ميں امين كيوں نہيں سمجھتے حالا نكہ ہم يقينا اس كے خير خوا ہ ہيں ''_(۱)

آيئے :جس كا آپ ہميں متہم سمجھتے ہيں اسے جانے ديجئے ،علا وہ ازيں ہمارا بھائي نو عمر ہے، اس كا بھى حق ہے 'اسے بھى شہر سے باہر كى آزاد فضا ميں گھو منے پھر نے كى ضرورت ہے 'اسے گھر كے اندر قيد كردينا درست نہيں ،كل اسے ہمارے سا تھ بھيجئے تا كہ يہ شہر سے باہر نكلے ،چلے پھر ے، درختوں كے پھل كھا ئے ،كھيلے كو دے اور سير و تفريح كرے ''_(۲)

اور اگر آپ كو اس كى سلامتى كا خيال ہے اور پريشانى ہے ''تو ہم سب اپنے بھائي كے محا فظ ونگہبان ہوں گے ''_(۳)

كيو نكہ آخر يہ ہمارا بھائي ہے اور ہمارى جان كے برابر ہے _اس طرح انہو ں نے بھائي كو باپ سے جدا كرنے كا بڑاماہر انہ منصوبہ تيار كيا ،ہو سكتا ہے انہوں نے يہ باتيں يوسف كے سا منے كى ہوں تا كہ وہ بھى باپ سے تقاضا كريں اور ان سے صحرا كى طرف جا نے كى اجازت لے ليں _

اس منصوبہ ميں ايك طرف باپ كے لئے انہوں نے يہ مشكل پيدا كر دى تھى كہ اگر وہ يوسف كو ہمارے سپر د نہيں كرتے تو يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہميں متہم سمجھتے ہيں اور دوسرى طرف كھيل كو د اور سير وتفريح كے لئے شہر سے باہر جانے كى يوسف كے لئے تحريك تھى _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۱

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۲

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۲

۱۷۷

كنعان كے بھيڑئے

حضرت يعقوب عليہ السلام نے برادران يو سف كى باتوں كے جواب ميں بجائے اس كے كہ انہيں برے ارادے كا الزام ديتے، كہنے لگے كہ ميں جو تمہارے ساتھ يوسف كو بھيجنے پر تيار نہيں ہوں تو اس كى دو وجوہ ہيں :''پہلى يہ كہ يوسف كى جدا ئي مير ے لئے غم انگيز ہے ''_(۱) اور دوسرى يہ كہ ہو سكتا ہے كہ ان كے ارد گرد كے بيابانوں ميں خو نخوار بھيڑئے ہوں ''اور مجھے ڈر ہے كہ مبادا كوئي بھيڑيا ميرے فرزند دلبند كو كھا جائے اور تم اپنے كھيل كود ،سير و تفريح اور دوسرے كامو ں ميں مشغول رہو'' _(۲)

يہ بالكل فطرى امر تھا كہ اس سفر ميں بھائي اپنے آپ ميں مشغول ہوں اور اپنے چھو ٹے بھا ئي سے غافل ہوں اور بھيڑ يوں سے بھرے اس بيابان ميں كوئي بھيڑيا يوسف كو اٹھائے البتہ بھائيوں كے پا س باپ كى پہلى دليل كا كوئي جواب نہ تھا كيو نكہ يو سف كى جدا ئي كا غم ايسى چيز نہ تھى كہ جس كى وہ تلافى كر سكتے بلكہ شايد اس بات نے بھا ئيوں كے دل ميں حسد كى آگ كو اور بھڑكا ديا ہو _

دوسرى طرف بيٹے كو باہر لے جانے كے بارے ميں باپ كى دليل كا جواب تھا كہ جس كے ذكر كى چندا ں ضرورت نہ تھى اور وہ يہ كہ آخر كار بيٹے كو نشوو نما اور تر بيت كے لئے چاہتے يا نہ چاہتے ہوئے باپ سے جدا ہو نا ہے اور اگر وہ ''نورستہ ''كے پودے كى طرح ہميشہ باپ كے زير سايہ رہے تو نشوو نما نہيں پاسكے گا اور بيٹے كے تكا مل وار تقا ء كے لئے باپ مجبور ہے كہ يہ جدا ئي بردا شت كرے آج كھيل كو د ہے كل تحصيل علم و دانش ہے پر سوں زندگى كے لئے كسب وكار اور سعى وكو شش ہے اخر كا ر جدا ئي ضرورى ہے _

لہذا اصلاً انہوں نے اس كا جواب نہيں ديا بلكہ دوسرى دليل كا جواب شروع كيا كہ جو ان كى نگاہ ميں اہم اور بنيا دى تھى اور كہنے لگے : ''كيسے ممكن ہے كہ ہمارے بھائي كو بھيڑ يا كھاجائے حالانكہ ہم طا قتور لوگ ہيں اگر ايسا ہو جائے تو ہم زياں كا روبد بخت ہوں گے ''(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۳

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۳

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۴

۱۷۸

يعنى كيا ہم مردہ ہيں كہ بيٹھ جائيں اور ديكھتے رہيں گے اور بھيڑ يا ہمارے بھائي كو كھا جائےگا ،بھا ئي كو بھائي سے جو تعلق ہو تا ہے اس كے علاوہ جو بات اس كى حفاظت پر ہميں ابھارتى ہے يہ ہے كہ ہمارى لوگوں ميں عزت وآبرو ہے ،لوگ ہمارے متعلق كيا كہيں گے ،يہى نا كہ طاقتور مو ٹى گر دنوں والے بيٹھے رہے اور اپنے بھائي پر بھيڑئے كو حملہ كرتے ديكھتے رہے كيا پھر ہم لوگوں ميں جينے كے قابل رہيں گے _(۱)

انہوں نے ضمناً باپ كى اس بات كا بھى جواب ديا كہ ہو سكتا ہے تم كھيل كود ميں لگ جائو اور يوسف سے غافل ہو جائواور وہ يہ كہ يہ مسئلہ گو يا سارى دولت اور عزت وآبرو كے ضا ئع ہو نے كا ہے ايسا مسئلہ نہيں ہے كہ كھيل كود ہميں غافل كردے كيو نكہ اس صورت ميں ہم لوگ بے وقعت ہوجائيں گے اور ہمارى كوئي قدر وقيمت نہيں ہو گى _

بہر حال انہوں نے بہت حيلے كئے خصو صا ًحضر ت يو سف كے معصوم جذ بات كو تحريك كيااور انہيں شوق دلا يا كہ وہ شہر سے باہر تفر يح كے لئے جائيں اور شايد يہ ان كے لئے پہلا مو قع تھا كہ وہ باپ كو اس كے لئے راضى كريں اور بہر صورت اس كام كے لئے ان كى رضا مندى حاصل كريں _

يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) نے كنائے كى زبان ميں بات كى تھى اور ان كى نظر بھيڑيا صفت انسانوں كى طرف تھى ،جيسے يوسف كے بعض بھائي تھے

____________________

(۱)يہاں يہ سوال سامنے اتا ہے كہ تمام خطرات ميں سے حضرت يعقو ب (ع) نے صرف بھيڑئے كے حملے كے خطرے كى نشاندہى كيوں كى تھى _

بعض كہتے ہيں كہ كنعان كا بيابان بھيڑيوں كا مركز تھا ،اس لئے زيادہ خطرہ اسى طرف سے محسوس ہوتا تھا _

بعض ديگر كہتے ہيں كہ يہ ايك خواب كى وجہ سے تھا كہ جو حضرت يعقوب عليہ السلام نے پہلے ديكھاتھا كہ بھيڑيوں نے ان كے بيٹے يوسف پر حملہ كر ديا ہے _

۱۷۹

روتے ہوئے جناب يوسف(ع) كو وداع كيا

آخركا ربھائي كامياب ہوگئے_انہوں نے باپ كو راضى كرليا كہ وہ يوسف(ع) كو ان كے ساتھ بھيج دے_ وہ رات انہوں نے اس خوش خيالى كے ساتھ گزارى كہ كل يوسف(ع) كے بارے ميں ان كا منصوبہ عملى شكل اختيار كرے گا اور راستے كى ركاوٹ اس بھائي كو ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹاديں گے_پريشانى انہيں صرف يہ تھى كہ باپ پشيمان نہ ہور اور اپنى بات واپس نہ لے لے_

صبح سويرے وہ باپ كے پاس گئے اور يوسف(ع) كى حفاظت كے بارے ميں باپ نے ہدايات دہرائيں _ انہوں نے بھى اظہار اطاعت كيا_ باپ كے سامنے اسے بڑى محبت و احترام سے اٹھايا اور چل پڑے_

كہتے ہيں شہر كے دروازے تك باپ ان كے ساتھ آئے اور آخرى دفعہ يوسف(ع) كو ان سے لے كر اپنے سينے سے لگايا_ آنسو ان كى آنكھوں سے برس رہے تھے_ پھر يوسف(ع) كو ان كے سپرد كركے ان سے جدا ہوگئے ليكن حضرت يعقوب(ع) كى آنكھيں اسى طرح بيٹوں كے پيچھے تھيں _ جہاں تك باپ كى آنكھيں كام كرتى تھيں وہ بھى يوسف(ع) پر نوازش اور محبت كرتے رہے ليكن جب انہيں اطمينان ہوگيا كہ اب باپ انہيں نہيں ديكھ سكتا تو اچانك انہوں نے آنكھيں پھير ليں _ سالہاسال سے حسد كى وجہ سے جو ان كے اندرتہ بہ تہ بغض و كينہ موجود تھا وہ حضرت يوسف(ع) پر نكلنے لگا_ ہر طرف سے اسے مارنے لگے وہ ايك سے بچ كر دوسرے كى پناہ ليتے ليكن كوئي انہيں پناہ نہ ديتا_

يوسف كى ہنسى اور ان كا رونا

ايك روايت ميں ہے كہ اس طوفان بلاء ميں حضرت يوسف آنسوبہار ہے تھے اور جب وہ انہيں كنويں ميں پھينكنے لگے تواچانك حضرت يوسف ہنسنے لگے ،بھا ئيوں كو بہت تعجب ہوا يہ ہنسنے كا كو نسا مقام ہے گو يا يوسف نے اس مسئلے كو مذاق سمجھا ہے اور بات سے بے خبر ہے كہ سياہ وقت اور بدبختى اس كے انتظار ميں ہے

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

ہوگيا كہ مسلمانوں كى جمعيت يہى ہے جسے وہ ديكھ رہے ہيں _

دوسرى طرف جيسا كہ ہم نے كہا ہے مسلمانوں كاايك گروہ وحشت وخوف ميں غرق تھا اس كا اصرار تھا كہ اتنى بڑى فوج جس سے مسلمانوں كا كوئي موازنہ نہيں ، خلاف مصلحت ہے، ليكن پيغمبر اسلام (ص) نے خدا كے وعدہ سے انہيں جوش دلايا اور انہيں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمايا :كہ خدا نے مجھ سے وعدہ كيا ہے كہ دوگرو ہوں ميں سے ايك پر تمہيں كا ميابى حاصل ہوگى قريش كے قافلہ پر يا لشكر قريش پراور خداكے وعدہ كے خلاف نہيں ہوسكتا _

خدا كى قسم ابوجہل اور كئي سرداران قريش كے لوگوں كى قتل گاہ كو گويا ميں اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہوں _

اس كے بعد آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ بدر كے كنوئيں كے قريب پڑا ئو ڈاليں _

رسول اللہ (ص) نے پہلے سے خواب ميں اس جنگ كا منظر ديكھا تھا، آپ نے د يكھا كہ دشمن كى ايك قليل سى تعداد مسلمانوں كے مقابلہ ميں آئي ہے، يہ در اصل كاميابى كى ايك بشارت تھى آپ نے بعينہ يہ خواب مسلمانوں كے سامنے بيان كرديا، يہ بات مسلمانوں كے ميدان بدر كى طرف پيش روى كے لئے ان كے جذبہ اور عزم كى تقويت كا باعث بني_

البتہ پيغمبر اكرم (ص) نے يہ خواب صحيح ديكھا تھا كيونكہ دشمن كى قوت اور تعداد اگرچہ ظاہراً بہت زيادہ تھى ليكن باطناً كم، ضعيف اور ناتواں تھي، ہم جانتے ہيں كہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبير كا پہلو ركھتے ہيں ، اور ايك صحيح خواب ميں كسى مسئلے كا باطنى چہرہ آشكار ہوتا ہے_

قريش كا ايك ہزار كا لشكر

اس ہنگامے ميں ابوسفيان اپنا قافلہ خطرے كے علاقے سے نكال لے گيا _اصل راستے سے ہٹ كردريائے احمر كے ساحل كى طرف سے وہ تيزى سے مكہ پہنچ گيا _ اس كے ايك قاصدكے ذريعے لشكر كو پيغام

۵۲۱

بھيجا:

خدانے تمہارا قافلہ بچاليا ہے ميرا خيال ہے كہ ان حالات ميں محمد كامقابلہ كرنا ضرورى نہيں كيونكہ اس كے اتنے دشمن ہيں جو اس كا حساب چكاليں گے _

لشكر كے كمانڈرابوجہل نے اس تجويز كو قبول نہ كيا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزى كى قسم كھائي كہ نہ صرف ان كا مقابلہ كريں گے بلكہ مدينہ كے اندر تك ان كا تعاقب كريں گے يا انہيں قيدكرليں گے اور مكہ ميں لے آئيں گے تاكہ اس كاميابى كا شہرہ تمام قبائل عرب كے كانوں تك پہنچ جائے _ آخر كارلشكر قريش بھى مقام بدر تك آپہنچا، انہوں نے اپنے غلام كوپانى لانے كے لئے كنويں كى طرف بھيجے ،اصحاب پيغمبر نے انہيں پكڑليا اور ان سے حالات معلوم كرنے كے لئے انہيں خدمت پيغمبر (ص) ميں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم كون ہو ؟ انہوں نے كہا : ہم قريش كے غلام ہيں ، فرمايا: لشكر كى تعداد كيا ہے ؟ انہوں نے كہا : ہميں اس كا پتہ نہيں ، فرمايا : ہرروز كتنے اونٹ كھانے كے لئے نحركرتے ہيں ؟ انہوں نے كہا : نو سے دس تك، فرمايا: ان كى تعداد ۹/ سوسے لے كر ايك ہزار تك ہے (ايك اونٹ ايك سو فوجى جوانوں كى خواراك ہے ) _

ماحول پُر ہيبت اور وحشت ناك تھا لشكر قريش كے پاس فراواں جنگى سازوسامان تھا _ يہاں تك كہ حوصلہ بڑھانے كے لئے وہ گانے بجانے والى عورتوں كو بھى ساتھ لائے تھے _ اپنے سامنے ايسے حريف كو ديكھ رہے تھے كہ انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ ان حالات ميں وہ ميدان جنگ ميں قدم ركھے گا_

مسلمانو! فرشتے تمہارى مدد كريں گے

پيغمبر اكرم (ص) ديكھ رہے تھے كہ ممكن ہے آپ كے اصحاب خوف ووحشت كى وجہ سے رات ميں آرام سے سونہ سكيں اور پھر كل دن كو تھكے ہوئے جسم اور روح كے ساتھ دشمن كے مقابل ہوں لہذا خدا كے وعدے كے مطابق ان سے فرمايا:

تمہارى تعداد كم ہوتو اس كا غم نہ كر، آسمانى فرشتوں كى ايك عظيم جماعت تمہارى مدد كے لئے آئے گي، آپ نے انہيں خدائي وعدے كے مطابق اگلے روز فتح كى پورى تسلى دے كر مطمئن كرديا اور وہ رات

۵۲۲

آرام سے سوگئے_

دوسرى مشكل جس سے مجاہدين كو پريشانى تھى وہ ميدان بدر كى كيفيت تھى ،ان كى طرف زمين نرم تھى اور اس ميں پائوں دھنس جاتے تھے اسى رات يہ ہوا كہ خوب بارش ہوئي ،اس كے پانى سے مجاہدين نے وضو كيا ، غسل كيا اور تازہ دم ہوگئے ان كے نيچے كى زمين بھى اس سے سخت ہوگئي ،تعجب كى بات يہ ہے كہ دشمن كى طرف اتنى زيادہ بارش ہوئي كہ وہ پريشان ہوگئے _

دشمن كے لشكر گاہ سے مسلمان جاسوسوں كى طرف سے ايك نئي خبر موصول ہوئي اور جلد ہى مسلمانوں ميں پھيل گئي ، خبريہ تھى كہ فوج قريش اپنے ان تمام وسائل كے باوجود خو فزدہ ہے گويا وحشت كا ايك لشكر خدا نے ان كے دلوں كى سرزمين پر اتار ديا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامى لشكر بڑے ولولے كے ساتھ دشمن كے سامنے صف آراء ہوا، پيغمبر اكرم (ص) نے پہلے انہيں صلح كى تجويز پيش كى تاكہ عذر اور بہانہ باقى نہ رہے، آپ نے ايك نمائندے كے ہاتھ پيغام بھيجا كہ ميں نہيں چاہتا كہ تم وہ پہلا گروہ بن جائو كہ جس پر ہم حملہ آور ہوں ، بعض سردار ان قريش چاہتے تھے يہ صلح كا ہاتھ جوان كى طرف بڑھايا گيا ہے اسے تھام ليں اور صلح كرليں ، ليكن پھر ابوجہل مانع ہوا_

ستر قتل ستر اسير

آخركار جنگ شروع ہوئي ،اس زمانے كے طريقے كے مطابق پہلے ايك كے مقابلے ميں ايك نكلا ،ادھر لشكر اسلام ميں رسول اللہ (ص) كے چچا حمزہ اور حضرت على عليہ السلام جوجو ان ترين افراد تھے ميدان ميں نكلے، مجاہدين اسلام ميں سے چند اور بہادر بھى اس جنگ ميں شريك ہوئے ،ان جوانوں نے اپنے حريفوں كے پيكر پر سخت ضربيں لگائيں اور كارى وار كئے اور ان كے قدم اكھاڑديئے ،دشمن كا جذبہ اور كمزور پڑگيا ،يہ ديكھا تو ابوجہل نے عمومى حملے كا حكم دے ديا _

ابوجہل پہلے ہى حكم دے چكا تھا كہ اصحاب پيغمبر (ص) ميں سے جو اہل مدينہ ميں سے ہيں انہيں قتل

۵۲۳

كردو ، مہاجرين مكہ كو اسير كرلو مقصديہ تھا كہ ايك طرح كے پر وپيگنڈا كے لئے انہيں مكہ لے جائيں _

يہ لمحات بڑے حساس تھے، رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ جمعيت كى كثرت پر نظر نہ كريں اور صرف اپنے مد مقابل پر نگاہ ركھيں دانتوں كو ايك دوسرے پرركھ كر پيسيں ، باتيں كم كريں ، خدا سے مدد طلب كريں ، حكم پيغمبر سے كہيں رتى بھر سرتابى نہ كريں اور مكمل كاميابى كى اميد ركھيں ، رسول اللہ (ص) نے دست دعا آسمان كى طرف بلند كئے اور عرض كيا : ''پالنے والے اگر يہ لوگ قتل ہوگئے تو پھر تيرى عبادت كوئي نہيں كرے گا''_

دشمن كے لشكر كى سمت ميں سخت ہوا چل رہى تھى اور مسلمان ہوا كى طرف پشت كركے ان پر حملے كررہے تھے _ ان كى استقامت ، پامردى اور دلاورى نے قريش كا ناطقہ بندكرديا ابوجہل سميت دشمن كے ستر آدمى قتل ہوگئے ان كى لاشيں خاك وخون ميں غلطاں پڑى تھيں سترا فراد مسلمانوں كے ہاتھوں قيد ہوگئے مسلمانوں كے بہت كم افراد شہيد ہوئے_

اس طرح مسلمانوں كى پہلى مسلح جنگ طاقتور دشمن كے خلاف غير متوقع كاميابى كے ساتھ اختتام پذيزر ہوئي _

جنگ بدر ميں مسلمانوں كى تعداد تين سو تيرہ تھي، ان ميں ۷۷/ مہاجر تھے اور دوسو چھتيس (۲۳۶) انصار، مہاجرين كا پرچم حضرت على عليہ السلام كے ہاتھ ميں تھا، اور انصار كا پرچم بردار'' سعد بن عبادہ'' تھے، اس عظيم معركہ كے لئے ان كے پاس صرف ۷۰ /اونٹ دو گھوڑے، ۶/زرہيں اور آٹھ تلواريں تھيں ، دوسرى طرف دشمن كى فوج ہزار افراد سے متجاوز تھي، اس كے پاس كافى ووافى اسلحہ تھا اور ايك سو گھوڑے تھے، اس جنگ۲۲/ مسلمان شہيد ہوئے ان ميں چودہ مہاجر او ر۸/ انصار تھے، دشمن كے ستر(۷۰) افراد مارے گئے اور ستر ہى قيدى ہوئے، اس طرح مسلمانوں كو فتح نصيب ہوئي اور يوں مكمل كامرانى كے ساتھ وہ مدينہ كى طرف پلٹ گئے_

واقعاً يہ عجيب و غريب بات تھى كہ تواريخ كے مطابق مسلمانوں كے چھوٹے سے لشكر كے مقابلہ ميں

۵۲۴

قريش كى طاقتور فوج نفسياتى طور پر اس قدر شكست خودرہ ہوچكى تھى كہ ان ميں سے ايك گروہ مسلمانوں سے جنگ كرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل ميں سوچتے كہ يہ عام انسان نہيں ہيں ، بعض كہتے ہيں كہ يہ موت كو اپنے اونٹوں پر لادكر مدينہ سے تمہارے لئے سوغات لائے ہيں _

''سعدبن معاذانصارى ''نمائندہ كے طور پر خدمت پيغمبر ميں حاضر ہوئے اور عرض كرنے لگے :

ميرے ماں پاپ آپ پر قربان اے اللہ كے رسول ہم آپ پر ايمان لائے ہيں اور ہم نے آپ كى نبوت كى گواہى دى ہے كہ جو كچھ آپ كہتے ہيں خدا كى طرف سے ہے، آپ جو بھى حكم دينا چاہيں ديجئے اور ہمارے مال ميں سے جو كچھ آپ چاہيں لے ليں ، خدا كى قسم اگر آپ ہميں حكم ديں كہ اس دريا ( دريائے احمر كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ،جووہاں سے قريب تھا ) ميں كود پڑو تو ہم كو د پڑيں گے ہمارى يہ آرزو ہے كہ خدا ہميں توفيق دے كہ ايسى خدمت كريں جو آپ كى آنكھ كى روشنى كا باعث ہو_

روز بدر رسول اللہ (ص) نے حضرت على عليہ السلام سے فرمايا:

زمين سے مٹى اور سنگريزوں كى ايك مٹھى بھر كے مجھے ديدو_

حضرت على عليہ السلام نے ايسا ہى كيا اور رسول خدا (ص) نے اسے مشركين كى طرف پھينك ديا اور فرمايا:

''شاہت الوجوہ''(تمہارے منھ قبيح اور سياہ ہوجائيں )

لكھا ہے كہ معجزانہ طور پر گرد و غبار اور سنگريزے دشمن كى آنكھوں ميں جا پڑے اور سب وحشت زدہ ہوگئے_

مجاہدين كى تشويق

ابن عباس سے منقول ہے كہ رسول اللہ (ص) نے جنگ بدر كے روز مجاہدين اسلام كى تشويق كے لئے كچھ انعامات مقرركيے مثلاً فرمايا كہ جو فلاں دشمن كو قيد كر كے ميرے پاس لائے گا اُسے يہ انعام دوں گا ان

۵۲۵

ميں پہلے ہى روح ايمان وجہاد موجود تھى اوپر سے يہ تشويق بھي، نتيجہ يہ ہو اكہ جوان سپاہى بڑے افتخار سے مقابلہ كے لئے آگے بڑھے اور اپنے مقصد كى طرف لپكے بوڑھے سن رسيدہ افراد جھنڈوں تلے موجودرہے جب جنگ ختم ہوئي تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات كے لئے بارگاہ پيغمبر اكرم (ص) كى طرف بڑھے، بوڑھے ان سے كہنے لگے كہ اس ميں ہمارا بھى حصہ ہے كيونكہ ہم تمہارے لئے پناہ اور سہارے كاكام كررہے تھے اور تمہارے لئے جوش وخروش كا باعث تھے اگر تمہارا معاملہ سخت ہوجاتاہے تو تمہيں پيچھے ہٹنا پڑتا تو يقيناً تم ہمارى طرف آتے اس موقع پر دو انصاريوں ميں تو تو ميں ميں بھى ہوگئي اور انہوں نے جنگى غنائم كے بارے ميں بحث كى _

اس اثناء ميں سورہ انفال كى پہلى آيت نازل ہوئي جس ميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا كہ غنائم كا تعلق پيغمبر (ص) سے ہے وہ جيسے چاہيں انہيں تقسيم فرمائيں ، پيغمبر اكرم (ص) نے بھى مساوى طور پر سب سپاہيوں ميں غنائم تقسيم كرديئے اور برادران دينى ميں صلح ومصالحت كا حكم ديا _

جنگ كا خاتمہ اور اسيروں كا واقعہ

جنگ بدر كے خاتمہ پر جب جنگى قيدى بنالئے گئے اور پيغمبر اكرم (ص) نے يہ حكم دياكہ قيديوں ميں سے دو خطر ناك افراد عقبہ اور نضر كو قتل كردياجائے تو اس پر انصار گھبراگئے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ حكم تمام قيديوں كے متعلق جارى ہوجائے اور وہ فديہ لينے سے محروم ہوجائيں ) لہذا انہوں نے رسول اللہ كى خدمت ميں عرض كيا : ہم نے سترآدميوں كو قتل كيا ہے اور سترہى كو قيدى بنايا ہے اور يہ آپ كے قبيلے ميں سے آپ ہى كے قيدى ہيں ،يہ ہميں بخش ديجئے تاكہ ہم ان كى آزادى كے بدلے فديہ لے سكيں _

(رسول اللہ اس كے لئے وحى آسمانى كے منتظر تھے ) اس موقع پروحى الہى نازل ہوئي اورقيديوں كى آزادى كے بدلے فديہ لينے كى اجازت ديدى گئي _

اسيروں كى ازادى كے لئے زيادہ سے زيادہ چار ہزار درہم اور كم سے كم ايك ہزار درہم معين كى گئي، يہ بات قريش كے كانوں تك پہونچى تو انھوں نے ايك ايك كے بدلے معين شدہ رقم بھيج كرا سيروں كو ازاد

۵۲۶

كراليا_

تعجب كى بات يہ ہے كہ رسول اللہ (ص) كا داماد ابوالعاص بھى ان قيديوں ميں تھا ،رسول (ص) كى بيٹى يعنى زينب جو ابولعاص كى بيوى تھى نے وہ گلو بند جو جناب خديجہ نے ان كى شاد ى كے وقت انہيں ديا تھا فديہ كے طور پررسول اللہ (ص) كے پاس بھيجا،جب پيغمبر اكرم (ص) كى نگاہ گلو بند پر پڑى تو جناب خديجہ جيسى فداكار اور مجاہدہ خاتون كى ياد يں ان كى آنكھوں كے سامنے مجسم ہوگئيں ،آپ(ص) نے فرمايا:خدا كى رحمت ہو خديجہ پر ،يہ وہ گلو بند ہے جو اس نے ميرى بيٹى زينب كو جہيز ميں ديا تھا(اور بعض دوسرى روايات كے مطابق جناب خديجہ كے احترام ميں آپ (ص) نے گلو بند قبول كرنے سے احرازكيا اور حقوق مسلمين كو پيش نظر كرتے ہوئے اس ميں ان كى موافقت حاصل كي)_

اس كے بعد پيغمبر اكرم (ص) نے ابوالعاص كو اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ زينب كو (جو اسلام سے پہلے ابوالعاص كى زوجيت ميں تھيں )مدينہ پيغمبر (ص) كے پاس بھيج دے ، اس نے بھى اس شرط كو قبول كرليا او ربعد ميں اسے پورا بھى كيا_

آنحضرت(ص) كے چچا عباس كا اسلام قبول كرنا

انصار كے كچھ آدميوں نے رسول اللہ (ص) سے اجازت چاہى كہ آپ كے چچا عباس جو قيديوں ميں تھے ان سے آپ(ص) كے احترام ميں فديہ نہ ليا جائے ليكن پيغمبر (ص) نے فرمايا:

''خداكى قسم اس كے ايك درھم سے بھى صرف نظر نہ كرو''( اگر فديہ لينا خدائي قانون ہے تو اسے سب پر جارى ہونا چاہئے ،يہاں تك كہ ميرے چچا پر بھى اس كے اور دوسروں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_)

پيغمبر اكرم (ص) عباس كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا: اپنى طرف سے او راپنے بھتيجے ( عقيل بن ابى طالب) كى طرف سے آپ(ص) كو فديہ ادا كرنا چاہئے_

۵۲۷

عباس ( جو مال سے بڑا لگائو ركھتے تھے ) كہنے لگے: اے محمد(ص) كيا تم چاہتے ہو كہ مجھے ايسا فقير او رمحتاج كردو كہ ميں اہل قريش كے سامنے اپنا ہاتھ پھيلائوں _

رسول اللہ (ص) نے فرمايا: اس مال ميں سے فديہ ادا كريں جو آپ(ص) نے اپنى بيوى ام الفضل كے پاس ركھا تھا اور اس سے كہا تھا كہ اگر ميں ميدان جنگ ميں مارا جائوں تو اس مال كو اپنے اور اپنى اولاد كے مصارف كے لئے سمجھنا_

عباس يہ بات سن كر بہت متعجب ہوئے اور كہنے لگے: آپ(ص) كو يہ بات كس نے بتائي ( حالانكہ يہ تو بالكل محرمانہ تھى )؟

رسول اللہ (ص) نے فرمايا : جبرئيل نے، خدا كى طرف سے_

عباس بولے : اس كى قسم كہ جس كى محمد (ص) قسم كھاتا ہے كہ ميرے اور ميرى بيوى كے علاوہ اس راز سے كوئي آگاہ نہ تھا_

اس كے بعد وہ پكار اٹھے: ''اشھد انك رسول اللہ''

( يعنى ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ(ص) اللہ كے رسول ہيں )

اور يوں وہ مسلمان ہوگئے_

آزادى كے بعد بدر كے تمام قيدى مكہ لوٹ گئے ليكن عباس، عقيل اور نوفل مدينہ ہى ميں رہ گئے كيونكہ انہوں نے اسلام قبول كرليا تھا_

عباس كے اسلام لانے كے بارے ميں بعض تواريخ ميں ہے كہ اسلام قبول كرلينے كے بعد وہ مكہ كى طرف پلٹ گئے تھے اور خط كے ذريعہ رسول اللہ (ص) كو سازش سے باخبر كيا كرتے تھے ، پھر ۸ سے پہلے فتح مكہ كے سال مدينہ كى طرف ہجرت كر آئے_

۵۲۸

جنگ احد(۱)

جنگ احد كا پيش خيمہ جب كفار مكہ جنگ بدر ميں شكست خوردہ ہوئے اور ستر(۷۰) قيدى چھوڑكر مكہ كى طرف پلٹ گئے تو ابو سفيان نے لوگوں كو خبر دار كيا كہ وہ اپنى عورتوں كو مقتولين بدر پر گريہ وزارى نہ كرنے ديں كيونكہ آنسو غم واندوہ كو دور كرديتے ہيں اور اس طرح محمد كى دشمنى اور عداوت ا۶ن كے دلوں سے ختم ہوجائے گى ، ابو سفيان نے خود يہ عہد كرركھا تھا كہ جب تك جنگ بدر كے قاتلوں سے انتقام نہ لے لے اس وقت تك وہ اپنى بيوى سے ہمبسترى نہيں كرے گا ،بہر حال قريش ہر ممكن طريقہ سے لوگوں كوپيغمبر اسلام (ص) كے خلاف اكساتے تھے اور انتقام كى صدا شہر مكہ ميں بلند ہورہى تھى _

ہجرت كے تيسرے سال قريش ہزار سوار اور دوہزار پيدل كے ساتھ بہت سامان جنگ لے كر آپ سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلے اور ميدان جنگ ميں ثابت قدمى سے لڑنے كے لئے اپنے بڑے بڑے بت اور اپنى عورتوں كو بھى ہمراہ لے آئے _

____________________

()جنگ احد كا واقعہ سورہ آل عمران آيت ۱۲۰ كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

۵۲۹

جناب عباس كى بر وقت اطلاع

حضرت رسول خدا (ص) كے چچاحضرت عباس جو ابھى مسلمان نہيں ہوئے تھے اور قريش كے درميان ان كے ہم مشرب و ہم مذہب تھے ليكن اپنے بھتيجے سے فطرى محبت كى بنا پر جب انھوں نے ديكھا كہ قريش كا ايك طاقتور لشكر پيغمبر (ص) سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلا ہے تو فوراً ايك خط لكھا اور قبيلہ بنى غفار كے ايك آدمى كے ہاتھ مدينہ بھيجا ،عباس كا قاصد بڑى تيزى سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا ،جب آپ كو اس كى اطلاع ملى تو آپ نے سعد بن اُبَ كو عباس كا پيغام پہنچايا اور حتى الامكان اس واقعہ كو پردہ راز ميں ركھنے كى كوشش كى _

پيغمبر كا مسلمانوں سے مشورہ

جس دن عباس كا قاصد آپ كو موصول ہوا آپ نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ مكہ ومدينہ كے راستہ پر جائيں اور لشكر كفار كے كوائف معلوم كريں ، آپ كے دو نمائندے ان كے حالات معلوم كركے بہت جلدى واپس آئے اور قريش كى قوت وطاقت سے آنحضرت (ص) كو مطلع كيا اور يہ بھى اطلاع دى كہ طاقتور لشكر خود ابوسفيان كى كمان ميں ہے _

پيغمبراكرم (ص) نے چند روز كے بعد تمام اصحاب اور اہل مدينہ كو بلايا اور ان در پيش حالات كا مقابلہ كرنے كے لئے ميٹنگ كي، اس ميں عباس كے خط كو بھى پيش كيا گيا اور اس كے بعد مقام جنگ كے بارے ميں رائے لى گئي اس ميٹنگ ميں ايك گروہ نے رائے دى كہ جنگ دشمن سے مدينہ كى تنگ گليوں ميں كى جائے كيونكہ اس صورت ميں كمزور مرد ،عورتيں بلكہ كنيزيں بھى مدد گار ثابت ہوسكيں گي_

عبد اللہ بن ابى نے تائيد ا ًكہا يا رسول اللہ (ص) آج تك ايسا نہيں ہوا كہ ہم اپنے قلعوں اور گھروں ميں ہوں اور دشمن ہم پر كامياب ہوگيا ہو _

اس رائے كو آپ بھى اس وقت كى مدينہ كى پوزيشن كے مطابق بنظر تحسين ديكھتے تھے كيونكہ آپ بھى

۵۳۰

مدينہ ہى ميں ٹھہرنا چاہتے تھے ليكن نوجوانوں اورجنگجو و ں كا ايك گروہ اس كا مخالف تھا چنانچہ سعد بن معاذ اور قبيلہ اوس كے چند افراد نے كھڑے ہو كر كہا اے رسول خدا (ص) گذشتہ زمانے ميں عربوں ميں سے كسى كو يہ جرا ت نہ تھى كہ ہمارى طرف نظر كرے جبكہ ہم مشرك اور بت پرست تھے اب جبكہ ہمارے درميان آپ كى ذات والا صفات موجود ہے كس طرح وہ ہميں دبا سكتے ہيں اس لئے شہرسے باہر جنگ كرنى چاہئے اگر ہم ميں سے كوئي مارا گيا تو وہ جام شہادت نوش كرے گا اور اگر كوئي بچ گيا تو اسے جہاد كا اعزازوافتخار نصيب ہوگا اس قسم كى باتوں اور جوش شجاعت نے مدينہ سے باہر جنگ كے حاميوں كى تعدا دكو بڑھا ديا يہاں تك كہ عبد اللہ بن اُبَ كى پيش كش سرد خانہ ميں جاپڑى خود پيغمبر (ص) نے بھى اس مشورے كا احترام كيااور مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كے طرف داروں كى رائے كو قبول فرماليا اور ايك صحابى كے ساتھ مقام جنگ كا انتخاب كرنے كے لئے شہر سے باہر تشريف لے گئے آپ نے كوہ احد كا دامن لشكر گاہ كے لئے منتخب كيا كيونكہ جنگى نقطہ نظر سے يہ مقام زيادہ مناسب تھا_

مسلمانوں كى دفاعى تيارياں

جمعہ كے دن آپ نے يہ مشورہ ليا اور نماز جمعہ كا خطبہ ديتے ہوئے آپ نے حمدو ثناء كے بعد مسلمانوں كو لشكر قريش كى آمد كى اطلاع دى اور فرمايا:

'' تہہ دل سے جنگ كے لئے آمادہ ہوجائو اور پورے جذبہ سے دشمن سے لڑو تو خدا وند قددس تمہيں كاميابى وكامرانى سے ہمكنار كرے گا اور اسى دن آپ ايك ہزار افراد كے ساتھ لشكر گاہ كى طرف روانہ ہوئے آپ خود لشكر كى كمان كررہے تھے مدينہ سے نكلنے سے قبل آپ نے حكم ديا كہ لشكر كے تين علم بنائے جائيں جن ميں ايك مہاجرين اور دو انصار كے ہوں ''_

پيغمبر اكرم (ص) نے مدينہ اور احد كے درميانى فاصلے كو پاپيادہ طے كيا اور سارے راستے لشكر كى ديكھ بھال كرتے رہے خود لشكر كى صفوں كو منظم ومرتب ركھا تاكہ وہ ايك ہى سيدھى صف ميں حركت كريں _

۵۳۱

ان ميں سے كچھ ايسے افراد كو ديكھا جو پہلى وفعہ آپ كو نظر پڑے پوچھا كہ يہ لوگ كون ہيں ؟ بتايا گيا كہ يہ عبداللہ بن ابى كے ساتھى كچھ يہودى ہيں اور اس مناسبت سے مسلمانوں كى مدد كے لئے آئے ہيں آپ نے فرمايا كہ مشركين سے جنگ كرنے ميں مشركين سے مدد نہيں لى جاسكتى مگريہ كہ يہ لوگ اسلام قبول كرليں يہوديوں نے اس شرط كو قبول نہ كيا اور سب مدينہ كى طرف پلٹ آئے يوں ايك ہزار ميں سے تين سو افراد كم ہوگئے _

ليكن مفسرين نے لكھا ہے كہ چونكہ عبداللہ بن اُبَ كى رائے كو رد كيا گيا تھا اس لئے وہ اثنائے راہ ميں تين سوسے زيادہ افراد كو لے كر مدينہ كى طرف پلٹ آيا بہر صورت پيغمبر اكرم (ص) لشكر كى ضرورى چھان بين (يہوديوں يا ابن ابى ابى كے ساتھيوں كے نكالنے) كے بعد سات سو افراد كو ہمراہ لے كر كوہ احد كے دامن ميں پہنچ گئے، اور نماز فجر كے بعد مسلمانوں كى صفوں كو آراستہ كيا_

عبد اللہ بن جبير كو پچاس ماہر تير اندازوں كے ساتھ پہاڑ كے درہ پر تعينات كيا اور انھيں تاكيد كى كہ وہ كسى صورت ميں اپنى جگہ نہ چھوڑيں اور فوج كے پچھلے حصے كى حفاظت كريں اور اس حد تك تاكيد كى كہ اگر ہم دشمن كا مكہ تك پيچھا كريں يا ہم شكست كھاجائيں اور دشمن ہميں مدينہ تك جانے پر مجبور كردے پھر بھى تم اپنا مورچہ نہ چھوڑنا، دوسرى طرف سے ابو سفيان نے خالد بن وليد كو منتخب سپاہيوں كے ساتھ اس درہ كى نگرانى پر مقرر كيا اور انھيں ہر حالت ميں وہيں رہنے كا حكم د يا اور كہا كہ جب اسلامى لشكر اس درہ سے ہٹ جائے تو فوراً لشكر اسلام پر پيچھے سے حملہ كردو_

آغاز جنگ

دونوں لشكر ايك دوسرے كے امنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ ہوگئے اور يہ دونوں لشكر اپنے نوجوانوں كو ايك خاص انداز سے اكسا رہے تھے، ابوسفيان كعبہ كے بتوں كے نام لے كر اور خوبصورت عورتوں كے ذريعے اپنے جنگى جوانوں كى توجہ مبذول كراكے ان كو ذوق وشوق دلاتا تھا_

جب كہ پيغمبر اسلام (ص) خدا كے اسم مبارك اور انعامات اعلى كے حوالے سے مسلمانوں كو جنگ

۵۳۲

كى ترغيب ديتے تھے اچانك مسلمانوں كى صدائے اللہ اكبراللہ اكبر سے ميدان اور دامن كوہ كى فضا گونج اٹھى جب كہ ميدان كى دوسرى طرف قريش كى لڑكيوں نے دف اور سارنگى پر اشعار گا گا كر قريش كے جنگ جو افراد كے احساسات كو ابھارتى تھيں _

جنگ كے شروع ہوتے ہى مسلمانوں نے ايك شديد حملہ سے لشكر قريش كے پرخچے اڑاديئےور وہ حواس باختہ ہوكر بھاگ كھڑے ہوئے اور لشكر اسلام نے ان كا پيچھا كرنا شروع كرديا خالدبن وليد نے جب قريش كى يقينى شكت ديكھى تو اس نے چاہا كہ درہ كے راستے نكل كر مسلمانوں پر پيچھے سے حملہ كرے ليكن تيراندازوں نے اسے پيچھے ہٹنے پر مجبور كرديا قريش كے قدم اكھڑتے ديكھ كر تازہ مسلمانوں كے ايك گروہ نے دشمن كو شكت خوردہ سمجھ كرمال غنيمت جمع كرنے كے لئے اچانك اپنى پوزيشن چھوڑدى ، ان كى ديكھا ديكھى درہ پر تعينات تيراندازوں نے بھى اپنا مورچہ چھوڑديا، ان كے كمانڈرعبد اللہ بن جبيرنے انہيں آ نحضرت(ص) كا حكم ياددلايا مگرسوائے چند (تقريبا ًدس افراد) كے كوئي اس اہم جگہ پر نہ ٹھہرا_

پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت كا نتيجہ يہ ہوا كہ خالدبن وليد نے درہ خالى ديكھ كر بڑى تيزى سے عبد اللہ بن جبير پر حملہ كيا اور اسے اس كے ساتھيوں سميت قتل كرديا، اس كے بعد انہوں نے پيچھے سے مسلمانوں پر حملہ كرديا اچانك مسلمانوں نے ہر طرف چمك دار تلواروں كى تيزدھاروں كو اپنے سروں پر ديكھا تو حواس باختہ ہوگئے اور اپنے آپ كو منظم نہ ركھ سكے قريش كے بھگوڑوں نے جب يہ صورتحال ديكھى تو وہ بھى پلٹ آئے اور مسلمانوں كو چاروں طرف سے گھيرليا_

اسى موقع پر لشكر اسلام كے بہادر افسر سيد الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں كے ساتھ جام شہادت نوش كيا ،سوائے چند شمع رسالت كے پروانوں كے اور بقيہ مسلمانوں نے وحشت زدہ ہوكر ميدان كو دشمن كے حوالے كرديا_

اس خطرناك جنگ ميں جس نے سب سے زيادہ فداكارى كا مظاہرہ كيا اور پيغمبر اكرم (ص) پر ہونے والے دشمن كے ہر حملے كا دفاع كيا وہ حضرت على بن ابى طالب عليہ السلام تھے _

۵۳۳

حضرت على عليہ السلام بڑى جرا ت اور بڑے حوصلہ سے جنگ كررہے تھے يہاں تك كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي، اور پيغمبر اكرم (ص) (ص) نے اپنى تلوار آپ كو عنايت فرمائي جو ذوالفقار كے نام سے مشہور ہے بالآخر آپ ايك مورچہ ميں ٹھہرگئے اور حضرت على عليہ السلام مسلسل آپ كا دفاع كرتے رہے يہاں تك كہ بعض مورخين كى تحقيق كے مطابق حضرت على عليہ السلام كے جسم پر ساٹھ كارى زخم آئے، اور اسى موقع پر قاصد وحى نے پيغمبراكرم (ص) سے عرض كيا :اے محمد يہ ہے مواسات ومعاونت كا حق ،آپ (ص) نے فرمايا ( ايسا كيوں نہ ہو كہ ) على مجھ سے ہے اور ميں على سے ہوں ،تو جبرئيل نے اضافہ كيا : ميں تم دونوں سے ہوں _

امام صادق ارشاد فرماتے ہيں كہ پيغمبر اكرم (ص) نے قاصد وحى كو آسمان ميں يہ كہتے ہوئے ديكھا كہ: ''لاسيف الاذوالفقار ولا فتى الا على '' (ذوالفقار كے علاوہ كوئي تلوار نہيں اور على كے سوا كوئي جوانمرد نہيں )

اس اثناء ميں يہ آواز بلند ہوئي كہ محمد قتل ہوگئے _

يہ آواز فضائے عالم ميں گونج اٹھى اس آواز سے جتنابت پرستوں كے جذبات پر مثبت اثر پيدا ہوا اتناہى مسلمانوں ميں عجيب اضطراب پيدا ہوگيا چنانچہ ايك گروہ كے ہاتھ پائوں جواب دے گئے اور وہ بڑى تيزى سے ميدان جنگ سے نكل گئے يہاں تك كہ ان ميں سے بعض نے سوچا كہ پيغمبر شہيدہو گئے ہيں لہذا اسلام ہى كو خيرباد كہہ ديا جائے اور بت برستوں كے سرداروں سے امان طلب كرلى جائے ليكن ان كے مقابلہ ميں فداكاروں اور جانثاروں كى بھى ايك قليل جماعت تھى جن ميں حضرت على ابود جانہ اور طلحہ جيسے بہادر لوگ موجود تھے جوباقى لوگوں كوپامردى اور استقامت كى دعوت دے رہے تھے ان ميں سے انس بن نضر لوگوں كے درميان آيا اور كہنے لگا :اے لوگو اگر محمد شہيد ہوگئے ہيں تو محمد كا خدا تو قتل نہيں ہوا چلو اور جنگ كرو ،اسى نيك اور مقدس ہدف كے حصول كے لئے درجہ شہادت پر فائز ہو جائو ،يہ گفتگو تمام كرتے ہى انھوں نے دشمن پر حملہ كرديا يہاں تك كہ شہيد ہوگئے ،تاہم جلد معلوم ہوگيا كہ پيغمبر اكرم (ص) سلامت ہيں اور اطلاع ايك شايعہ تھى _

۵۳۴

كون پكارا كہ محمد (ص) قتل ہوگئے ؟

''ابن قمعہ'' نے اسلامى سپاہى مصعب كو پيغمبر سمجھ كر اس پر كارى ضرب لگائي اور باآواز بلند كہا :لات وعزى كى قسم محمد قتل ہوگئے _

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ يہ افواہ چاہے مسلمانوں نے اڑائي يا دشمن نے ليكن مسلمانوں كے لئے فائدہ مند ثابت ہوئي اس لئے كہ جب آواز بلند ہوئي تو دشمن ميدان چھوڑ كر مكہ كى طرف چل پڑے ورنہ قريش كا فاتح لشكر جو حضور (ص) كے لئے دلوں ميں كينہ ركھتا تھا اور انتقام لينے كى نيت سے آيا تھا كبھى ميدان نہ چھوڑتا، قريش كے پانچ ہزار افراد پر مشتمل لشكر نے ميدان جنگ ميں مسلمانوں كى كاميابى كے بعد ايك رات بھى صبح تك وہاں نہ گذارى اور اسى وقت مكہ كى طرف چل پڑے_

پيغمبر (ص) كى شہادت كى خبر نے بعض مسلمانوں ميں اضطراب وپريشانى پيدا كردى ،جو مسلمان اب تك ميدان كارزار ميں موجود تھے ، انھوں نے اس خيال سے كہ دوسرے مسلمان پراكندہ نہ ہوں آنحضرت (ص) كو پہاڑ كے اوپر لے گئے تاكہ مسلمانوں كو پتہ چل جائے كہ آپ بقيد حيات ہيں ، يہ ديكھ كر بھگوڑے واپس آگئے اور آنحضرت كے گرد پروانوں كى طرح جمع ہوگئے ،آپ نے ان كو ملامت وسرزنش كى كہ تم نے ان خطرناك حالات ميں كيوں فرار كيا ،مسلمان شرمندہ تھے انہوں نے معذرت كرتے ہوئے كہا : يا رسول خدا ہم نے آپ كى شہادت كى خبر سنى تو خوف كى شدت سے بھاگ كھڑے ہوے_

مفسر عظيم مرحوم طبرسي، ابو القاسم بلخى سے نقل كرتے ہيں كہ جنگ احد كے دن( پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ)سوائے تيرہ افرادكے تمام بھاگ گئے تھے، اور ان تيرہ ميں سے آٹھ انصار اور پانچ مہاجرتھے، جن ميں سے حضرت على عليہ السلام اور طلحہ كے علاوہ باقى ناموں ميں اختلاف ہے، البتہ دونوں كے بارے ميں تمام مو رخين كا اتفاق ہے كہ انھوں نے فرار نہيں كيا_

يوں مسلمانوں كو جنگ احد ميں بہت زيادہ جانى اورمالى نقصان كا سامنا كرنا،پڑا مسلمانوں كے ستر

۵۳۵

افراد شہيد ہوئے اور بہت سے زخمى ہوگئے ليكن مسلمانوں كو اس شكست سے بڑا درس ملا جو بعد كى جنگوں ميں ان كى كاميابى و كامرانى كا باعث بنا _

جنگ كا خطرناك مرحلہ

جنگ احد كے اختتام پر مشركين كا فتحياب لشكر بڑى تيزى كے ساتھ مكہ پلٹ گيا ليكن راستے ميں انہيں يہ فكر دامن گير ہوئي كہ انہوں نے اپنى كاميابى كو ناقص كيوں چھوڑديا _كيا ہى اچھا ہو كہ مدينہ كى طرف پلٹ جائيں اور اسے غارت و تاراج كرديں اور اگر محمد زندہ ہوں تو انہيں ختم كرديں تاكہ ہميشہ كے لئے اسلام اور مسلمانوں كى فكر ختم ہوجائے ، اور اسى بنا پر انہيں واپس لوٹنے كا حكم ديا گيا اور درحقيقت جنگ احد كا يہ وہ خطر ناك مرحلہ تھا كيونكہ كافى مسلمان شہيد اور زخمى ہوچكے تھے اور فطرى طور پر وہ ازسر نو جنگ كرنے كے لئے آمادہ نہيں تھے _جبكہ اس كے برعكس اس مرتبہ دشمن پورے جذبہ كے ساتھ جنگ كرسكتا تھا_

يہ اطلاع پيغمبر اكرم (ص) كو پہنچى تو آپ نے فوراً حكم ديا كہ جنگ احد ميں شريك ہونے والا لشكر دوسرى جنگ كے لئے تيار ہوجائے ،آپ نے يہ حكم خصوصيت سے ديا كہ جنگ احد كے زخمى بھى لشكر ميں شامل ہوں ،(حضرت على عليہ السلام نے جن كے بدن پر دشمنوں نے ۶۰/زخم لگائے تھے،ليكن اپ پھر دوبارہ دشمنوں كے مقابلہ ميں اگئے) ايك صحابى كہتے ہيں :

ميں بھى زخميوں ميں سے تھا ليكن ميرے بھائي كے زخم مجھ سے زيادہ شديد تھے ، ہم نے ارادہ كرليا كہ جو بھى حالت ہو ہم پيغمبر اسلام كى خدمت ميں پہونچے گے، ميرى حالت چونكہ ميرے بھائي سے كچھ بہتر تھى ، جہاں ميرا بھائي نہ چل پاتا ميں اسے اپنے كندھے پر اٹھاليتا، بڑى تكليف سے ہم لشكر تك جا پہنچے، پيغمبر اكرم (ص) اور لشكر اسلام ''حمراء الاسد'' كے مقام پر پہنچ گئے اور وہاں پر پڑائو ڈالا يہ جگہ مدينہ سے آٹھ ميل كے فاصلے پر تھي_

يہ خبر جب لشكر قريش تك پہنچى خصوصاً جب انھوں نے مقابلہ كے لئے ايسى آمادگى ديكھى كہ زخمى بھى ميدان جنگ ميں پہنچ گئے ہيں تو وہ پريشان ہوگئے اور ساتھ ہى انھيں يہ فكر بھى لاجق ہوئي كہ مدينہ سے تازہ دم

۵۳۶

فوج ان سے آملى ہے_

اس موقع پر ايسا واقعہ پيش آيا جس نے ان كے دلوں كو اور كمزور كرديا اور ان ميں مقابلہ كى ہمت نہ رہى ، واقعہ يہ ہوا كہ ايك مشرك جس كا نام ''معبد خزاعي'' تھا مدينہ سے مكہ كى طرف جارہا تھا اس نے پيغمبر اكرم اور ان كے اصحاب كى كيفيت ديكھى تو انتہائي متاثر ہوا، اس كے انسانى جذبات ميں حركت پيدا ہوئي، اس نے پيغمبر اكرم (ص) سے عرض كيا: آپ كى يہ حالت و كيفيت ہمارے لئے بہت ہى ناگوار ہے آپ آرام كرتے تو ہمارے لئے بہتر ہوتا، يہ كہہ كر وہ وہاں سے چل پڑااور'' روحاء'' كے مقام پر ابو سفيان كے لشكر سے ملا، ابو سفيان نے اس سے پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں سوال كيا تو اس نے جواب ميں كہا: ميں نے محمد (ص) كو ديكھا ہے كہ وہ ايسا عظيم لشكر لئے ہوئے تمہارا تعاقب كرہے ہيں ايسا لشكر ميں نے كبھى نہيں ديكھا او رتيزى سے آگے بڑھ رہے ہيں _

ابوسفيان نے اضطراب اور پريشانى كے عالم ميں كہا : تم كيا كہہ رہے ہو؟ہم نے انہيں قتل كيا زخمى كيا اور منتشر كر كے ر كھ ديا تھا ،معبد خزاعى نے كہا: ميں نہيں جانتا كہ تم نے پايا كيا ہے ،ميں تو صرف يہ جانتا ہوں كہ ايك عظيم اور كثير لشكر اس وقت تمہارا تعاقب كر رہا ہے _

ابو سفيان اور اسكے سا تھيوں نے قطعى فيصلہ كر ليا كہ وہ تيزى سے پيچھے كى طرف ہٹ جا ئيں اور مكہ كى طرف پلٹ جا ئيں اور اس مقصد كے لئے كہ مسلمان ان كا تعاقب نہ كريں اور انہيں پيچھے ہٹ جا نے كا كا فى مو قع مل جا ئے ، انہوں نے قبيلہ عبد القيس كى ايك جما عت سے خواہش كى كہ وہ پيغمبر اسلا م (ص) اور مسلما نوں تك يہ خبر پہنجا ديں كہ ابو سفيان اور قريش كے بت پر ست با قى ماندہ اصحا ب پيغمبر (ص) كے ختم كرنے كے لئے ايك عظيم لشكر كے ساتھ تيزى سے مدينہ كى طرف آ رہے ہيں ، يہ جما عت گندم خريد نے كے لئے مدينہ جا رہى تھى جب يہ اطلاع پيغمبر اسلام (ص) اور مسلما نوں تك پہنچى تو انہوں نے كہا :''حسبنا اللہ و نعم الو كيل'' (خدا ہمارے لئے كافى ہے اور وہ ہمارا بہترين حامى اور مدافع ہے )_

انہوں نے بہت انتظار كيا ليكن دشمن كے لشكر كى كو ئي خبر نہ ہو ئي ، لہذا تين روز توقف كے بعد ،وہ

۵۳۷

مدينہ كى طرف لوٹ گئے_

كھوكھلى باتيں

جنگ بدر ميں بعض مسلمانوں كى پر افتخا ر شہادت كے بعد بعض مسلمان جب باہم مل بيٹھتے تو ہميشہ شہادت كى آرزو كرتے اور كہتے كاش يہ اعزاز ميدان بدر ميں ہميں بھى نصيب ہوجا تا ،يقينا ان ميں كچھ لوگ سچے بھى تھے ليكن ان ميں ايك جھوٹا گروہ بھى تھا جس نے اپنے آپ كو سمجھنے ميں غلطى كى ،بہر حال زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ جنگ احد كا وحشتناك معركہ در پيش ہوا تو ان سچے مجا ہدين نے بہادرى سے جنگ كى اور جام شہادت نوش كيا اور اپنى آرزوكو پا ليا ليكن جھوٹوں كے گروہ نے جب لشكر اسلام ميں شكست كے آثار ديكھے تو وہ قتل ہونے كے ڈر سے بھاگ كھڑے ہوئے تو يہ قران انہيں سرزنش كرتے ہوئے كہتا ہے كہ'' تم ايسے لوگ تھے كہ جو دلوں ميں آرزو اور تمنائے شہادت كے دعويدار تھے، پھرجب تم نے اپنے محبوب كو اپنى آنكھوں كے سامنے ديكھا تو كيوں بھاگ كھڑے ہوئے''_(۱)

حضرت على عليہ السلام كے زخم

امام باقر عليہ السلام سے اس طرح منقول ہے:حضرت على عليہ السلام كو احد كے دن اكسٹھ زخم لگے تھے اور پيغمبر (ص) نے ''ام سليم'' اور ''ام عطيہ'' كو حكم ديا كہ ہ دونوں حضرت على عليہ السلام كے زخموں كا علاج كريں ،تھوڑى ہى دير گذرى تھى كہ وہ حالت پريشانى ميں آنحضرت(ص) كى خدمت ميں عرض كرنے لگے: كہ حضرت على عليہ السلام كے بدن كى كيفيت يہ ہے كہ ہم جب ايك زخم باندھتے ہيں تو دوسرا كھل جا تاہے اور ان كے بدن كے زخم اس قدرزيادہ اور خطرناك ہيں كہ ہم ان كى زندگى كے بارے ميں پريشان ہيں تو حضرت رسول خدا (ص) اور كچھ ديگر مسلمان حضرت على عليہ السلام كى عيادت كے لئے ان كے گھرآئے جب كہ ان

____________________

(۱)سورہ ال عمران ايت ۱۶۳

۵۳۸

كے بدن پر زخم ہى زخم تھے پيغمبراكرم (ص) اپنے دست مبارك ان كے جسم سے مس كرتے تھے اور فرماتے تھے كہ جو شخص راہ خدا ميں اس حالت كو ديكھ لے وہ اپنى ہى ذمہ دارى كے آخرى درجہ كو پہنچ چكا ہے اور جن جن زخموں پرآپ(ص) ہاتھ ركھتے تھے وہ فوراًمل جاتے تھے تواس وقت حضرت على عليہ السلام نے فرمايا: الحمدا للہ كہ ان حالات ميں جنگ سے نہيں بھا گا اوردشمن كو پشت نہيں دكھائي خدا نے ان كى كو شش كى قدر دانى كي_

ہم نے شكست كيوں كھائي ؟

كا فى شہيد دےكر اور بہت نقصان اٹھا كر جب مسلمان مدينہ كى طرف پلٹ آئے تو ايك دوسرے سے كہتے تھے كہ كيا خدانے ہم سے فتح و كاميابى كا وعدہ نہيں كيا تھا،پھر اس جنگ ميں ہميں كيوں شكست ہوئي ؟اسى سے قران ميں انہيں جواب ديا گيا اور شكست كے اسباب كى نشاندہى كى گئي_(۱)

قرآن كہتا ہے كہ كاميابى كہ بارے ميں خدا كا وعدہ درست تھا اور اس كى وجہ ہى سے تم ابتداء جنگ ميں كامياب ہوئے اور حكم خدا سے تم نے دشمن كو تتر بتر كر ديا كاميا بى كا يہ وعدہ اس وقت تك تھا جب تك تم استقامت اور پائيدارى اور فرمان پيغمبرى (ص) كى پيروى سے دست بردار نہيں ہو ئے اور شكست كا دروازہ اس وقت كھلا جب سستى اور نا فرمائي نے تمہيں آگھيرا ،يعنى اگر تم نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ كا ميابى كا وعدہ بلا شرط تھا تو تمہارى بڑ ى غلط فہمى ہے بلكہ كاميابى كے تمام وعدے فرمان خدا كى پيروى كے ساتھ مشروط ہيں _

عمومى معافى كا حكم

جو لوگ واقعہ احد كے دوران جنگ سے فرار ہوگئے تھے وہ پيغمبر اكرم (ص) كے گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے ندامت وپشيمانى كے عالم ميں معافى كى درخواست كى تو خدا ئے تعالى نے پيغمبر اكرم (ص) سے انہيں عام معافى دينے كے لئے فرمايا لہذا حكم الہى نازل ہوتے ہى آپ نے فراخ دلى سے توبہ كرنے والے خطا كاروں كو معاف كرديا _

____________________

(۱)ال عمران ايت ۱۵۲

۵۳۹

قرآن ميں پيغمبر اكرم(ص) (ص) كى ايك بہت بڑى اخلاقى خوبى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے كہ تم پروردگار كے لطف وكرم كے سبب ان پر مہربان ہوگئے اور اگر تم ان كے لئے سنگدل،سخت مزاج اور تند خو ہوتے اور عملا ًان پر لطف وعنايت نہ كرتے تو وہ تمہارے پاس سے بكھر جاتے _ اس كے بعد حكم ديا گيا كہ'' ان كى كوتاہيوں سے درگزر فرمايئےور انہيں اپنے دامن عفو ميں جگہ ديجئے''_(۱)

يعنى اس جنگ ميں انہوں نے جو بے وفائياں آپ سے كى ہيں اور جو تكا ليف اس جنگ ميں آپ كو پہنچائي ہيں ، ان كے لئے ان كى مغفرت طلب كيجئے اور ميں خود ان كے لئے تم سے سفارش كرتا ہوں كہ انہوں نے ميرى جو مخالفتيں كى ہيں ،مجھ سے ان كى مغفرت طلب كرو دوسرے لفظوں ميں جو تم سے مربوط ہے اسے تم معاف كردو اورجو مجھ سے ربط ركھتا ہے اسے ميں بخش ديتا ہوں ، آنحضرت (ص) نے فرمان خدا پر عمل كرتے ہوئے ان تمام خطا كاروں كو عام معافى دےدى _(۲)

پيغمبر اكرم (ص) شہداء سے مخاطب

ابن مسعود پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كرتے ہيں : خدا نے شہداء بدرواحد كى ارواح كو خطاب كرتے ہوئے ان سے پوچھا كہ تمہارى كيا آرزو ہے تو انہوں نے كہا : پروردگارا ہم اس سے زيادہ كيا آرزو كرسكتے ہيں كہ ہم ہميشہ كى نعمتوں ميں غرق ہيں اور تيرے عرش كے سائے ميں رہتے ہيں ، ہمارا تقاضا صرف يہ ہے كہ ہم دوبارہ دنيا كى طرف پلٹ جائيں اور پھر سے تيرى راہ ميں شہيد ہوں ، اس پر خدا نے فرمايا : ميرااٹل فيصلہ ہے كہ كوئي شخص دوبارہ دنيا كى طرف نہيں پلٹے گا _

____________________

(۱) سورہ آل عمران آيت۱۵۹

(۲)واضح رہے كہ عفو ودر گزر كرنے كے لئے يہ ايك اہم اور بہت مناسب موقع تھا اور اگر آپ ايسانہ كرتے تو لوگوں كے بكھرجانے كےلئے فضا ہموار تھى وہ لوگ جو اتنى برى شكست كا سامناكر چكے تھے اور بہت سے مقتول ومجروح پيش گرچكے تھے (اگرچہ يہ سب كچھ ان كى اپنى غلطى سے ہواتا ہم ) ايسے لوگوں كو محبت ، دلجوئي اور تسلى كى ضرورت تھى تاكہ ان كے دل اور جسم كے زخم پر مرہم لگ سكے اور وہ ان سے جانبرہوكر آئندہ كے معركوں كےلئے تيار ہوسكيں

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667