قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 269164
ڈاؤنلوڈ: 3649

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 269164 / ڈاؤنلوڈ: 3649
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

جب يہ بات انصار كے سردار ''معد بن معاذ ''كے گوش گذارہوئي توانھوں نے پيغمبراسلام (ص) كى خدمت ميں عرض كيا ''سركا رانہيں اجازت نہ ديجئے ،بخدا آج تك جب بھى كوئي مشكل درپيش آئي تو ان لوگوں نے يہى بہانہ تراشا،يہ جھوٹ بولتے ہيں ''_(۱)

چنانچہ آنحضرت (ص) نے حكم ديا كہ واپس آجائيں _(۲)

قرآن ميں خداوندعالم اس گروہ كے ايمان كى كمزورى كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے: ''وہ اسلام كے اظہار ميں اس قدر ضعيف اور ناتواں ہيں كہ اگر دشمن مدينہ كے اطراف و جوانب سے اس شہر ميں داخل ہوجائيں اور مدينہ كو فوجى كنٹرول ميں لے كر انھيں پيش كش كريں كہ كفر و شرك كى طرف پلٹ جائيں توجلدى سے اس كو قبول كرليں گے اور اس راہ كے انتخاب كرنے ميں ذراسا بھى توقف نہيں كريں گے''_(۳)

ظاہر ہے كہ جو لوگ اس قدرت ضعيف، كمزور اور غير مستقل مزاج ہوں كہ نہ تو دشمن سے جنگ كرنے

____________________

(۱)سورہ احزاب۱۴

(۲)''يثرب ''مدينہ كا قديمى نام ہے ،جناب رسالت مآب (ص) كے اس شہر كى طرف ہجرت كرنے سے پہلے تك اس كا نام ''يثرب''رہا پھر آہستہ آہستہ اس كا نام ''مدينةالرسول''(پيغمبركا شہر )پڑگيا جس كا مخفف''مدينہ ''ہے_ اس شہركے كئي ايك نام او ربھى ہيں _ سيد مرتضى نے ان دو ناموں ( مدينہ او ريثرب)كے علاوہ اس شہر كے گيارہ او رنام بھى ذكركيے ہيں ،منجملہ ان كے ''طيبہ''''طابہ''''سكينہ''''محبوبہ''''مرحومہ '' اور''قاصمہ''ہيں _ (اوربعض لوگ اس شہر كى زمين كو ''يثرب''كا نام ديتے ہيں ) چند ايك روايات ميں آياہے كہ رسالت مآب (ص) نے فرمايا كہ ''اس شہر كو يثرب نہ كہا كرو شايد اسكى وجہ يہ ہو كہ يثرب اصل ميں ''ثرب''(بروزن حرب)كے مادہ سے ملامت كرنے كے معنى ميں ہے اور آپ(ص) اس قسم كے نام كو اس بابركت شہر كے لئے پسند نہيں فرماتے تھے_ بہرحال منافقين نے اہل مدينہ كو ''يااہل يثرب''كے عنوان سے جو خطاب كيا ہے وہ بلاوجہ نہيں ہے او رشايد اس كى وجہ يہ تھى كہ آنحضرت (ص) كو اس نام سے نفرت ہے ،يا چاہتے تھے كہ اسلام او ر''مدينةالرسو(ص) ل''كے نام كو تسليم نہ كرنے كااعلان كريں _يالوگوں كو زمانہ جاہليت كى يادتازہ كرائيں _

(۳) سورہ احزاب آيت ۱۴

۵۶۱

كے لئے تيار ہوں اور نہ ہى راہ خدا ميں شہادت قبول كرنے كے لئے، ايسے لوگ بہت جلد ہتھيار ڈال ديتے ہيں اور اپنى راہ فوراً بدل ديتے ہيں _

پھر قرآن اس منافق ٹولے كو عدالت كے كٹہرے ميں لاكر كہتا ہے: ''انھوں نے پہلے سے خدا كے ساتھ عہد و پيمان باندھا ہوا تھا كہ دشمن كى طرف پشت نہيں كريں گے اور اپنے عہد و پيمان پر قائم رہتے ہوئے توحيد، اسلام اور پيغمبر كے لئے دفاع ميں كھڑے ہوں گے، كيا وہ جانتے نہيں كہ خدا سے كئے گئے عہد و پيمان كے بارے ميں سوال كيا جائے گا''_(۱)

جب خدا نے منافقين كى نيت كو فاش كرديا كہ ان كا مقصد گھروں كى حفاظت كرنا نہيں ، بلكہ ميدان جنگ سے فرار كرنا ہے تو انھيں دود ليلوں كے ساتھ جواب ديتا ہے_

پہلے تو پيغمبر (ص) سے فرماتا ہے: ''كہہ ديجئے كہ اگر موت يا قتل ہونے سے فرار كرتے ہو تو يہ فرار تمہيں كوئي فائدہ نہيں پہونچائے گااور تم دنياوى زندگى كے چند دن سے زيادہ فائدہ نہيں اٹھاپائو گے''_(۲)

دوسرا يہ كہ كيا تم جانتے ہوكہ تمہارا سارا انجام خدا كے ہاتھ ميں ہے اور تم اس كى قدرت و مشيت كے دائرہ اختيار سے ہرگز بھاگ نہيں سكتے_ ''اے پيغمبر (ص) ان سے كہہ ديجئے : كون شخص خدا كے ارادہ كے مقابلہ ميں تمہارى حفاظت كرسكتا ہے، اگر وہ تمہارے لئے مصيبت يا رحمت چاہتا ہے''_(۳)

روكنے والا ٹولہ

اس كے بعد قران مجيد منافقين كے اس گروہ كى طرف اشارہ كرتا ہے جو جنگ احزاب كے ميدان سے خودكنارہ كش ہوا اور دوسروں كو بھى كنار كشى كى دعوت ديتا ہو فرماتا ہے: '' خدا تم ميں سے اس گروہ كو جانتا ہے جو كوشش كرتے تھے كہ لوگوں كو جنگ سے منحرف كرديں ،اور اسى طرح سے ان لوگوں كو بھى جانتا ہے جو

____________________

(۱) سورہ احزاب آيت ۱۵

(۲) سورہ احزاب آيت ۱۶

(۳) سورہ احزاب آيت ۱۷

۵۶۲

اپنے بھائيوں سے كہتے تھے كہ ہمارى طرف آئو'' اور اس خطرناك جنگ سے دستبردار ہوجائو _

وہى لوگ جواہل جنگ نہيں ہيں اور سوائے كم مقدار كے اور وہ بھى بطور جبر واكراہ ياد كھاوے كے; جنگ كے لئے نہيں جاتے_(۱)

ہم ايك روايت ميں پڑھتے ہيں كہ ايك صحابى رسول كسى ضرورت كے تحت ميدان'' احزاب '' سے شہر ميں آيا ہوا تھا اس نے اپنے بھائي كو ديكھا كہ اس نے اپنے سامنے روٹى ، بھنا ہوا گوشت اور شراب ركھے ہوئے تھے ، تو صحابى نے كہا تم تو يہاں عيش وعشرت ميں مشغول ہواور رسول خدا نيزوں اور تلواروں كے درميان مصروف پيكار ہيں اس نے جواب ميں كہا ، اے بے وقوف : تم بھى ہمارے ساتھ بيٹھ جائو اور مزے اڑائو اس نے كہا:اس خدا كى قسم جس كى محمد كھاتا ہے وہ اس ميدان سے ہرگز پلٹ كر واپس نہيں آئے گا اور يہ عظيم لشكر جو جمع ہوچكا ہے اسے اور اس كے ساتھيوں كو زندہ نہيں چھوڑے گا _

يہ سن كر وہ صحابى كہنے لگے :تو بكتا ہے،خدا كى قسم ميں ابھى رسول اللہ كے پاس جاكر تمہارى اس گفتگو سے باخبر كرتا ہوں ، چنانچہ انھوں نے بارگاہ رسالت ميں پہنچ كر تمام ماجرا بيان كيا _

وہ ہرگز ايمان نہيں لائے

قرآن فرماتاہے :'' ان تمام ركاوٹوں كا باعث يہ ہے كہ وہ تمہارى بابت تمام چيزوں ميں بخيل ہيں ''_(۲)

نہ صرف ميدان جنگ ميں جان قربان كرنے ميں بلكہ وسائل جنگ مہيا كرنے كے لئے مالى امداد اور خندق كھودنے كے لئے جسمانى امداد حتى كہ فكرى امداد مہيا كرنے ميں بھى بخل سے كام ليتے ہيں ، ايسا بخل جو حرص كے ساتھ ہوتا ہے اور ايسا حرص جس ميں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے _

ان كے بخل اور ہر قسم كے ايثارسے دريغ كرنے كے بيان كے بعد ان كے ان دوسرے اوصاف كو جو

____________________

(۱)سورہ احزاب ايت۱۸

(۲)سورہ احزاف ايت۱۹

۵۶۳

ہر عہد اور ہر دور كے تمام منافقين كے لئے تقريباً عمو ميت كا درجہ ركھتے ہيں بيان كرتے ہوئے كہتا ہے :'' جس وقت خوفناك اور بحرانى لمحات آتے ہيں تو وہ اس قدر بزدل اور ڈرپوك ہيں كہ آپ ديكھيں گے كہ وہ آپ كو ديكھ رہے ہيں حالانكہ ان كى آنكھوں ميں ڈھيلے بے اختيار گردش كررہے ہيں ، اس شخص كى طرح جو جاں كنى ميں مبتلا ہو ''(۱)

چونكہ وہ صحيح ايمان كے مالك نہيں ہيں اور نہ ہى زندگى ميں ان كا كوئي مستحكم سہارا ہے ، جس وقت كسى سخت حادثہ سے دوچار ہوتے ہيں تو وہ لوگ بالكل اپنا توازن كھوبيٹھتے ہيں جيسے ان كى روح قبض ہى ہوجائے گي_

پھر مزيد كہتا ہے: '' ليكن يہى لوگ جس وقت طوفان رك جاتاہے اور حالات معمول پر آجاتے ہيں تو تمہارے پاس يہ توقع لے كر آتے ہيں كہ گويا جنگ كے اصلى فاتح يہى ہيں اور قرض خواہوں كى طرح پكار پكار كر سخت اور درشت الفاظ كے ساتھ مال غنيمت سے اپنے حصہ كا مطالبہ كرتے ہيں اور اس ميں سخت گير، بخيل اور حريص ہيں ''_(۲)

آخر ميں ان كى آخرى صفت كى طرف جو درحقيقت ميں ان كى تمام بد بختيوں كى جڑ اور بنياد ہے ، اشارہ كرتے ہوئے فرماتاہے '' وہ ہر گز ايمان نہيں لائے_اور اسى بناپر خدانے ان كے اعمال نيست ونابود كرديئےيں كيونكہ ان كے اعمال خدا كے لئے نہيں ہيں اور ان ميں اخلاص نہيں پايا جاتا_(۳)

''وہ اس قدر وحشت زدہ ہو چكے ہيں كہ احزاب اور دشمن كے لشكروں كے پر اگندہ ہوجانے كے بعد بھى يہ تصور كرتے ہيں كہ ابھى وہ نہيں گئے''_(۴)

وحشتناك اور بھيانك تصور نے ان كى فكر پر سايہ كر ركھا ہے گويا كفر كى افواج پے درپے ان كي

____________________

(۱)سورہ احزاب ۱۹

(۲)سورہ احزاب ۱۹

(۳)سورہ احزاب آيت ۱۹

(۴)سورہ احزاب ايت ۲۰

۵۶۴

آنكھوں كے سامنے قطاردر قطار چلى جارہى ہيں ، ننگى تلواريں اور نيزے تانے ان پر حملہ كررہى ہيں _

يہ بزدل جھگڑالو ، ڈرپوك منافق اپنے سائے سے بھى ڈرتے ہيں ، جب كسى گھوڑے كے ہنہنانے يا كسى اونٹ كے بلبلانے كى آواز سنتے ہيں تو مارے خوف كے لرزنے لگتے ہيں كہ شايد احزاب كے لشكر واپس آرہے ہيں _

اس كے بعدكہتا ہے '' اگر احزاب دوبارہ پلٹ كر آجائے تو وہ اس بات پر تيار ہيں كہ بيابان كا رخ كرليں اور باديہ نشين بدوو ں كے درميان منتشر ہو كر پنہاں ہو جائيں ہاں ، ہاں وہ چلے جائيں اور وہاں جاكر رہيں '' اور ہميشہ تمہارى خبروں كے جويا رہيں ''_(۱)

ہر مسافر سے تمہارى ہر ہر پل كى خبر كے جويا رہيں ايسا نہ ہوكہ كہيں احزاب ان كى جگہ قريب آجائيں اور ان كا سايہ ان كے گھر كى ديواروں پر آپڑے اور تم پر يہ احسان جتلائيں كہ وہ ہمشہ تمہارى حالت اور كيفيت كے بارے ميں فكر مند تھے _

اور آخرى جملہ ميں كہتا ہے:

''بالفرض وہ فراربھى نہ كرتے اور تمہارے درميان ہى رہتے ، پھر بھى سوائے تھوڑى سى جنگ كے وہ كچھ نہ كرپاتے''_(۲)

نہ ان كے جانے سے تم پريشان ہونا اور نہ ہى ان كے موجود رہنے سے خوشى منانا، كيونكہ نہ تو ان كى قدر وقيمت ہے اور نہ ہى كوئي خاص حيثيت، بلكہ ان كا نہ ہونا ان كے ہونے سے بہتر ہے _

ان كى يہى تھوڑى سى جنگ بھى خدا كےلئے نہيں بلكہ لوگوں كى سرزنش اور ملامت كے خوف اور ظاہردارى يارياكارى كےلئے ہے كيونكہ اگر خدا كے لئے ہوتى تو اس كى كوئي حدو انتہا نہ ہوتى اور جب تك جان ميں جان ہوتى وہ اس ميدان ميں ڈٹے رہتے _

____________________

(۱)سورہ احزاب ايت ۲۰

(۲) سورہ احزاب ايت۲۰

۵۶۵

جنگ احزاب ميں سچے مومنين كا كردار

اب تك مختلف گر وہوں اور ان كے جنگ احزاب ميں كارناموں كے بارے ميں گفتگو ہورہى تھى جن ميں ضعيف الايمان مسلمان ، منافق، كفر ونفاق كے سرغنے اور جہد سے روكنے والے شامل ہيں _

قرآن مجيد اس گفتگو كے آخر ميں '' سچے مئومنين '' ان كے بلند حوصلوں ، پامرديوں ، جرائتوں اور اس عظيم جہاد ميں ان كى ديگر خصوصيات كے بارے ميں گفتگو كرتا ہے _

اس بحث كى تمہيد كو پيغمبر اسلام (ص) كى ذات سے شروع كرتا ہے جو مسلمانوں كے پيشوا ، سرداراور اسوہ كامل تھے، خدا كہتا ہے: '' تمہارے لئے رسول اللہ (ص) كى زندگى اور (ميدان احزاب ميں ) ان كا كردار ايك اچھا نمونہ اوراسوہ ہے ، ان لوگوں كے لئے جورحمت خدا اور روز قيامت كى اميد ركھتے ہيں اور خدا كو بہت زيادہ ياد كرتے ہيں _''(۱)

تمہارے لئے بہترين اسوہ اور نمونہ ،نہ صرف اس ميدان ميں بلكہ سارى زندگى پيغمبراسلام كى ذات والا صفات ہے آپ كے بلند حوصلے، صبرو استقامت ،پائمردى ،زير كى ، دانائي ، خلوص ، خدا كى طرف تو جہ، حادثات پر كنڑول، مشكلات اور مصائب كے آگے سر تسليم خم نہ كرنا ، غرضكہ ان ميں سے ہر ايك چيز مسلمانوں كے لئے نمونہ كامل اور اسوہ حسنہ ہے

وہ ايسا عظيم نا خدا ہے كہ جب اس كى كشتى سخت ترين طوفانوں ميں گھر جاتى ہے تو ذرہ برابر بھى كمزوري،گھبراہٹ اور سراسيمگى كا مظاہرہ نہيں كرتا وہ كشتى كانا خدا بھى ہے اور اس كا قابل اطمينان لنگر اور چراغ ہدايت بھى وہ اس ميں بيٹھنے والوں كے لئے آرام وسكون كا باعث بھى ہے اور ان كے لئے راحت جان بھى _

وہ دوسرے مئومنين كے ساتھ مل كر كدال ہاتھ ميں ليتا ہے اور خندق كھودتا ہے،بليچے كے ساتھ پتھر اكھاڑكركے خندق سے باہر ڈال آتا ہے اپنے اصحاب كے حوصلے بڑھانے اور ٹھنڈے دل سے سوچنے كے

____________________

(۱)سورہ احزاب آيت ۲۱

۵۶۶

لئے ان سے مزاح بھى كرتا ہے ان كے قلب و روح كو گرمانے كے حربى اور جوش وجذبہ دلانے والے اشعار پڑھ كر انھيں ترغيب بھى دلاتاہے، ذكر خدا كرنے پرمسلسل اصرار كرتا ہے اور انھيں درخشاں مستقبل اور عظيم فتوحات كى خوشخبرى ديتاہے انہيں منافقوں كى سازشوں سے متنبہ كرتا ہے اور ان سے ہميشہ خبردار رہنے كا حكم ديتا ہے _

صحيح حربى طريقوں اور بہترين فوجى چالوں كو انتخاب كرنے سے ايك لمحہ بھى غافل نہيں رہتا اس كے باوجود مختلف طريقوں سے دشمن كى صفوں ميں شگاف ڈالنے سے بھى نہيں چوكتا _

جى ہاں : وہ مو منين كا بہترين مقتدا ہے اور ان كے لئے اسوہ حسنہ ہے اس ميدان ميں بھى اور دوسرے تمام ميدانوں ميں بھي_

مومنين كے صفات

اس مقام پر مومنين كے ايك خاص گروہ كى طرف اشارہ ہے:

'' جو پيغمبر اكرم (ص) كى اقتداء ميں سب سے زيادہ پيش قدمى كرتے تھے وہ خدا سے كئے ہوئے اپنے اس عہدو پيمان پرقائم تھے كہ وہ آخرى سانس اور آخرى قطرہ خون تك فداكارى اور قربانى كے لئے تيار ہيں فرمايا گيا ہے مومنين ميں ايسے بھى ہيں جواس عہدوپيمان پر قائم ہيں جو انھوں نے خدا سے باندھا ہے ان ميں سے كچھ نے تو ميدان جہاد ميں شربت شہادت نوش كرليا ہے اوربعض انتظار ميں ہيں _ور انھوں نے اپنے عہدوپيمان ميں كسى قسم كى كوئي تبديلى نہيں كى '' _(۱)

اور نہ ہى ان كے قدموں ميں لغزش پيدا ہوئي ہے_

مفسرين كے درميان اختلاف ہے كہ يہ آيت كن افراد كے بارے ميں نازل ہوئي ہے _

____________________

(۱)سورہ احزاب آيت ۲۳

۵۶۷

اہل سنت كے مشہور عالم ، حاكم ابوالقاسم جسكانى سند كے ساتھ حضرت على عليہ السلام سے نقل كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا :

آيہ ''رجال صدقوا ما عاھدوا اللّہ عليہ '' ہمارے بارے ميں نازل ہوئي ہے اور بخدا ميں ہى وہ شخص ہوں جو(شہادت كا) انتظار كررہاہوں (اور قبل از ايں ہم ميں حمزہ سيد الشہداء جيسے لوگ شہادت نوش كرچكے ہيں )اور ميں نے ہرگز اپنى روش اور اپنے طريقہ كار ميں تبديلى نہيں كى اور اپنے كيئے ہوے عہدوپيمان پر قائم ہوں _

۵۶۸

جنگ بنى قريظہ

مدينہ ميں يہوديوں كے تين مشہور قبائل رہتے تھے : بنى قريظہ، بنى النضير اور بنى قينقاع_

تينوں گروہوں نے پيغمبر اسلام (ص) سے معاہدہ كر ركھا تھا كہ آپ(ص) كے دشمنوں كا ساتھ نہيں ديں گے، ان كے لئے جاسوسى نہيں كريں گے، اور مسلمانوں كے ساتھ مل جل كر امن و آشتى كى زندگى گزاريں گے، ليكن قبيلہ بنى قينقاع نے ہجرت كے دوسرے سال اور قبيلہ بنى نضير نے ہجرت كے چوتھے سال مختلف حيلوں بہانوں سے اپنا معاہدہ توڑ ڈالا، اور پيغمبر اكرم (ص) سے مقابلہ كے لئے تيار ہوگئے آخر كار ان كى مزاحمت اور مقابلہ كى سكت ختم ہوگئي اور وہ مدينہ سے باہر نكل گئے_

بنى قينقاع'' اذر عات'' شام كى طرف چلے گئے اور بنى نضير كے كچھ لوگ تو خيبر كى طرف اور كچھ شام كى طرف چلے گئے _

اسى بناء پر ہجرت كے پانچويں سال جب كہ جنگ احزاب پيش آئي تو صرف قبيلہ بنى قريظہ مدينہ ميں باقى رہ گيا تھا ، وہ بھى اس ميدان ميں اپنے معاہدہ كو توڑكر مشركين عرب كے ساتھ مل گئے اور مسلمانوں كے مقابلہ ميں تلواريں سونت ليں _

جب جنگ احزا ب ختم ہوگئي اور قريش، بنى غطفان اور ديگر قبائل عرب بھى رسوا كن شكست كے بعد مدينہ سے پلٹ گئے تو اسلامى روايات كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) اپنے گھر لوٹ آئے اور جنگى لباس اتاركر نہانے دھونے ميں مشغول ہوگئے تو اس موقع پر جبرئيل حكم خدا سے آپ پر نازل ہوئے اور كہا : كيوں آپ نے

۵۶۹

ہتھيار اتار ديئے ہيں جبكہ فرشتے ابھى تك آمادہ پيكار ہيں آپ فوراً بنى قريظہ كى طرف جائيں اور ان كا كام تمام كرديں _

واقعاً بنى قريظہ كا حساب چكانے كے لئے اس سے بہتر كوئي اور موقع نہيں تھا مسلمان اپنى كاميابى پر خوش خرم تھے، بنى قريظہ شكست كى شديد وحشت ميں گرفتار تھے اور قبائل عرب ميں سے ان كے دوست اور حليف تھكے ماندے اور بہت ہى پست حوصلوں كے ساتھ شكست خوردہ حالت ميں اپنے اپنے شہروں اور علاقوں ميں جاچكے تھے اور كوئي نہيں تھا جوان كى حمايت كرے _

بہرحال منادى نے پيغمبر اكرم (ص) كى طرف سے ندادى كہ نماز عصر پڑھنے سے پہلے بنى قريظہ كى طرف چل پڑو مسلمان بڑى تيزى كے ساتھ ہى بنى قريظہ كے محكم ومضبوط قلعوں كو مسلمانوں نے اپنے محاصرے ميں لے ليا _

پچيس دن تك محاصرہ جارى رہا چنانچہ لكھتے ہيں كہ مسلمانوں نے بنى قريظہ كے قلعوں پر حملہ كرنے كے لئے اتنى جلدى كى كہ بعض مسلمان نماز عصر سے غافل ہوگئے كہ مجبوراً بعد ميں قضا كي،خداوند عالم نے ان كے دلوں ميں سخت رطب و دبدبہ طارى ہوگيا_

تين تجاويز

''كعب بن اسد'' كا شمار يہوديوں كے سرداروں ميں ہوتا تھا اس نے اپنى قوم سے كہا : مجھے يقين ہے كہ محمد ہميں اس وقت تك نہيں چھوڑيں گے جب تك ہم جنگ نہ كريں لہذا ميرى تين تجاويز ہيں ، ان ميں سے كسى ايك كو قبول كرلو ،پہلى تجويز تويہ ہے كہ اس شخص كے ہاتھ ميں ہاتھ دے كر اس پر ايمان لے او اور اس كى پيروى اختيار كرلو كيونكہ تم پر ثابت ہوچكا ہے كہ وہ خدا كا پيغمبر ہے اوراس كى نشانياں تمہارى كتابوں ميں پائي جاتى ہيں تو اس صورت ميں تمہارے مال ، جان، اولاد اور عورتيں محفوظ ہوجائيں گي_

وہ كہنے لگے كہ ہم ہرگز حكم توريت سے دست بردار نہيں ہوں گے اور نہ ہى اس كا متبادل اختيار كريں گے _

۵۷۰

اس نے كہا : اگر يہ تجويز قبول نہيں كرتے تو پھر آئو اور اپنے بچوں اور عورتوں كو اپنے ہاتھوں سے قتل كرڈالو تاكہ ان كى طرف سے آسودہ خاطر ہوكر ميدان جنگ ميں كود پڑيں اور پھر ديكھيں كہ خدا كيا چاہتا ہے ؟ اگر ہم مارے گئے تو اہل وعيال كى جانب سے ہميں كوئي پريشانى نہيں ہوگى اور اگر كامياب ہوگئے تو پھر عورتيں بھى بہت بچے بھى بہت _

وہ كہنے لگے كہ ہم ان بے چاروں كو اپنے ہى ہاتھوں سے قتل كرديں ؟ان كے بعد ہمارے لئے زندگى كى قدرو قيمت كيارہ جائے گى ؟

كعب بن اسد نے كہا : اگر يہ بھى تم نے قبول نہيں كيا تو آج چونكہ ہفتہ كى رات ہے محمد (ص) اور اس كے ساتھى يہ خيال كريں گے كہ ہم آج رات حملہ نہيں كريں گے انھيں اس غفلت ميں ڈال كر ان پر حملہ كرديں شايد كاميابى حاصل ہوجائے _

وہ كہنے لگے كہ يہ كام بھى ہم نہيں كريں گے كيونكہ ہم كسى بھى صورت ميں ہفتہ كا احترام پامال نہيں كريں گے _

كعب كہنے لگا : پيدائش سے لے كر آج تك تمہارے اندر عقل نہيں آسكى _

اس كے بعد انھوں نے پيغمبر اكرم (ص) سے بات كى كہ'' ابولبابہ'' كو ان كے پاس بھيجا جائے تاكہ وہ ان سے صلاح مشورہ كرليں _

ابولبابہ كى خيانت

جس وقت ابولبابہ ان كے پاس آئے تو يہوديوں كى عورتيں اور بچے ان كے سامنے گريہ وزارى كرنے لگے اس بات كا ان كے دل پر بہت اثر ہوا اس وقت لوگوں نے كہا كہ آپ ہميں مشورہ ديتے ہيں كہ ہم محمد كے آگے ہتھيار ڈال ديں ؟ ابولبابہ نے كہا ہاں اور ساتھ ہى اپنے گلے كى طرف اشارہ كيا يعنى تم سب كو قتل كرديں گے _

۵۷۱

ابولبابہ كہتے ہيں ، جيسے ہى ميں وہاں سے چلا تو مجھے اپنى خيانت كا شديد احساس ہوا پيغمبر اكرم (ص) كے پاس نہ گيا بلكہ سيدھا مسجد كى طرف چلا اور اپنے آپ كو مسجد كے ايك ستون كے ساتھ باندھ ديا اور كہا اپنى جگہ سے اس وقت تك حركت نہيں كروں گا جب تك خدا ميرى توبہ قبول نہ كرلے _

سات دن تك اس نے نہ كھانا كھايا نہ پانى پيا اور يونہى بے ہوش پڑا رہا يہاں تك كہ خدا نے اس كى توبہ قبول كر لي،جب يہ خبر بعض مومنين كے ذريعہ اس تك پہنچى شتو اس ننے قسم كھائي ميں خود رہنے كو اس ستون سے نہيں كھولوں گا يہاں تك كہ پيغمبر(ص) آكر كھوليں _

پيغمبر اكرم (ص) آئے اور اس كو كھولا ابولبابہ نے كہا كہ اونى توبہ كو كامل ہونے كے لئے اپنا سارا مال راہ خدا ميں ديتا ہوں _اس وقت پيغمبر(ص) نے كہا:ايك سوم مال كافى ہے،''آخركار خدانے اس كا يہ گناہ اس كى صداقت كى بنا ء پربخش ديا(۱)

ليكن آخر كار بنى قريظہ كے يہوديوں نے مجبور ہوكر غير مشروط طور پر ہتھيار ڈال ديئے_

جناب پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا سعد بن معاذ تمہارے بارے ميں جو فيصلہ كرديں كيا وہ تمہيں قبول ہے ؟وہ راضى ہوگئے _

سعدبن معاذ نے كہا كہ اب وہ موقع آن پہنچا ہے كہ سعد كسى ملامت كرنے والے كى ملامت كو نظر ميں ركھے بغير حكم خدا بيان كرے _

سعد نے جس وقت يہوديوں سے دوبارہ يہى اقرار لے ليا تو آنكھيں بند كرليں اور جس طرف پيغمبر (ص) كھڑے ہوئے تھے ادھر رخ كركے عرض كيا : آپ بھى ميرا فيصلہ قبول كريں گے ؟ آنحضرت (ص) نے فرمايا ضرور: تو سعد نے كہا : ميں كہتا ہوں كہ جو لوگ مسلمانوں كے ساتھ جنگ كرنے پر آمادہ تھے (بنى قريظہ كے مرد ) انھيں قتل كردينا چاہئے ، ان كى عورتيں اور بچے قيد اور ان كے اموال تقسيم كرديئے جائيں البتہ ان ميں سے ايك

____________________

(۱)سورہ توبہ آيت ۱۰۲

۵۷۲

گروہ اسلام قبول كرنے كے بعد قتل ہونے سے بچ گيا _

قران اس ماجرا كى طرف مختصر اور بليغ اشارہ كرتا ہے اور اس ماجراكا تذكرہ خداكى ايك عظيم نعمت او رعنايت كے طور پر ہوا ہے _

پہلے فرمايا گيا ہے:''خدا نے اہل كتاب ميں سے ايك گروہ كو جنہوں نے مشركين عرب كى حمايت كى تھى ،ان كے محكم و مضبوط قلعوں سے نيچے كھينچا _(۱)

يہاں سے واضح ہو جا تا ہے كہ يہو ديوں نے اپنے قلعے مدينہ كے پاس بلند او راونچى جگہ پربنا ركھے تھے او ران كے بلند برجوں سے اپنا دفاع كرتے تھے ''انزل ''(نيچے لے آيا ) كى تعبير اسى معنى كى طرف اشارہ كرتى ہے _

اس كے بعد مزيد فرمايا گيا ہے : ''خدا نے ان كے دلوں ميں خوف او ررعب ڈال ديا '':

آخر كار ان كا مقابلہ يہاں تك پہنچ گيا كہ ''تم ان ميں سے ايك گروہ كو قتل كررہے تھے او ردوسرے كو اسير بنا رہے تھے _''او ران كى زمينيں گھر اور مال و متاع تمھارے اختيارميں دے ديا ''_(۲)

يہ چند جملے جنگ بنى قريظہ كے عام نتائج كا خلاصہ ہيں _ ان خيانت كاروں ميں سے كچھ مسلمانوں كے ہاتھوں قتل ہو گئے،كچھ قيد ہوگئے اوربہت زيادہ مال غنيمت جس ميں ان كى زمينيں ،گھر ،مكا نات او رمال و متاع شامل تھا ،مسلمانوں كو ملا _

____________________

(۱)سورہ احزاب آيت ۲۶

(۲)سورہ احزاب ايت ۲۶،۲۷

۵۷۳

صلح حديبيہ

چھٹى ہجرى كے ماہ ذى قعدہ ميں پيغمبر اكرم (ص) عمرہ كے قصد سے مكہ كى طرف روانہ ہوئے ،مسلمانوں كو رسول اكرم(ص) كے خواب كى اطلاع مل چكى تھى كہ رسول اكرم(ص) نے اپنے تمام اصحاب كے ساتھ ''مسجد الحرام''ميں وارد ہونے كو خواب ميں ديكھا ہے ،او رتمام مسلمانوں كو اس سفرميں شركت كا شوق دلايا،اگر چہ ايك گروہ كنارہ كش ہو گيا ،مگر مہاجرين و انصار او رباديہ نشين اعراب كى ايك كثير جماعت آپ كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہو گئي _

يہ جمعيت جو تقريباًايك ہزار چار سوافراد پر مشتمل تھى ،سب كے سب نے لباس احرام پہنا ہوا تھا ،او رتلوار كے علاوہ جو مسافروں كا اسلحہ شمار ہو تى تھى ،كوئي جنگى ہتھيار ساتھ نہ ليا تھا _

جب مسلمان ''ذى الحليفہ'' مدينہ كے نزديك پہونچے،اور بہت اونٹوں كو قربانى كے لئے لے ليا_

پيغمبر(ص) (اور آپ (ع) كے اصحاب كا)طرز عمل بتارہا تھا كہ عبادت كے علاوہ كوئي دوسرا قصد نہيں تھا_جب پيغمبر(ص) مكہ كے نزديكى مقام آپ كو اطلاع ملى كہ قريش نے يہ پختہ ارادہ كرليا ہے كہ آپ(ص) كو مكہ ميں داخل نہ ہونے ديں گے ،يہاں تك كہ پيغمبر(ص) مقام'' حديبيہ''ميں پہنچ گئے ( حديبيہ مكہ سے بيس كلو مٹر كے فاصلہ پر ايك بستى ہے ،جو ايك كنويں يا درخت كى مناسبت سے اس نام سے مو سوم تھى )حضرت(ص) نے فرمايا: كہ تم سب اسى جگہ پر رك جائو،لوگوں نے عرض كى كہ يہاں تو كوئي پانى نہيں ہے پيغمبر(ص) نے معجزانہ طور پر اس كنويں سے جو وہاں تھا ،اپنے اصحاب كے لئے پانى فراہم كيا _

۵۷۴

اسى مقام پر قريش او رپيغمبر(ص) كے درميان سفراء آتے جاتے رہے تاكہ كسى طرح سے مشكل حل ہو جائے ، آخركا ر''عروہ ابن مسعودثقفي''جو ايك ہوشيا ر آدمى تھا ،قريش كى طرف سے پيغمبر(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا ،پيغمبر (ص) نے فرمايا ميں جنگ كے ارادے سے نہيں آيا او رميرا مقصد صرف خانہ خدا كى زيارت ہے ،ضمناًعروہ نے اس ملاقات ميں پيغمبر(ص) كے وضو كرنے كا منظربھى ديكھا،كہ صحابہ آپ(ص) كے وضو كے پانى كا ايك قطرہ بھى زمين پرگرنے نہيں ديتے تھے ،جب وہ واپس لوٹا تو اس نے قريش سے كہا :ميں قيصر وكسرى او رنجاشى كے دربارميں گيا ہوں _ميں نے كسى سربراہ مملكت كو اس كى قوم كے درميان اتنا با عظمت نہيں ديكھا ،جتنا محمد(ص) كى عظمت كو ان كے اصحاب كے درميان ديكھا ہے _ اگر تم يہ خيال كرتے ہو كہ محمد(ص) كو چھوڑ جائيں گے تويہ بہت بڑى غلطى ہو گى ،ديكھ لو تمھارا مقابلہ ايسے ايثار كرنے والوں كے ساتھ ہے _يہ تمہارے لئے غور و فكر كا مقام ہے _

بيعت رضوان

اسى دوران پيغمبر(ص) نے عمر سے فرمايا: كہ وہ مكہ جائيں ، او ر اشراف قريش كو اس سفركے مقصد سے آگاہ كريں ،عمر نے كہاقريش مجھ سے شديد دشمنى ركھتے ہيں ،لہذامجھے ان سے خطرہ ہے ، بہتر يہ ہے كہ عثمان كو اس كام كے لئے بھيجا جائے ،عثمان مكہ كى طرف آئے ،تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ مسلمانوں كے ورميان يہ افواہ پھيل گئي كہ ان كو قتل كر دياہے _ اس مو قع پرپيغمبر(ص) نے شدت عمل كا ارادہ كيا او رايك درخت كے نيچے جو وہاں پرموجودتھا ،اپنے اصحاب سے بيعت لى جو ''بيعت رضوان'' كے نام سے مشہو رہوئي ،او ران كے ساتھ عہد وپيمان كيا كہ آخرى سانس تك ڈٹيں گے،ليكن تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ عثمان صحيح و سالم واپس لوٹ آئے او رانكے پيچھے پيچھے قريش نے''سہيل بن عمر''كو مصالحت كے لئے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں بھيجا ،ليكن تاكيد كى كہ اس سال كسى طرح بھى آپ(ص) كا مكہ ميں ورود ممكن نہيں ہے _

بہت زيادہ بحث و گفتگو كے بعد صلح كا عہد و پيمان ہوا،جس كى ايك شق يہ تھى كہ مسلمان اس سال عمرہ سے باز رہيں او ر آئندہ سال مكہ ميں آئيں ،اس شرط كے ساتھ كہ تين دن سے زيادہ مكہ ميں نہ رہيں ،او ر

۵۷۵

مسافرت كے عام ہتھياركے علاوہ او ركوئي اسلحہ اپنے ساتھ نہ لائيں _اورمتعددمواد جن كا دارومداران مسلمانوں كى جان و مال كى امنيت پر تھا،جو مدينہ سے مكہ ميں واردہوں ،او راسى طرح مسلمانوں اورمشركين كے درميان دس سال جنگ نہ كرنے او رمكہ ميں رہنے والے مسلمانوں كے لئے مذہبى فرائض كى انجام دہى بھى شامل كى گئي تھي_

يہ پيمان حقيقت ميں ہر جہت سے ايك عدم تعرض كا عہد و پيمان تھا ،جس نے مسلمانوں او رمشركين كے درميان مسلسل اوربار با ركى جنگوں كو وقتى طور پر ختم كرديا _

صلح نامہ كى تحرير

''صلح كے عہدو پيمان كا متن ''اس طرح تھاكہ پيغمبر (ص) نے على عليہ السلام كوحكم ديا كہ لكھو:

''بسم اللہ الرحمن الرحيم'':سہيل بن عمرنے،جو مشركين كانمائندہ تھا ،كہا :ميں اس قسم كے جملہ سے آشنا نہيں ہو ں ،لہذا''بسمك اللھم'' لكھو:پيغمبر(ص) نے فرمايا لكھو :''بسمك اللھم''

اس كے بعد فرمايا: لكھويہ وہ چيز ہے جس پر محمدرسو ل اللہ (ص) نے سہيل بن عمرو سے مصالحت كى ، سہيل نے كہا : ہم اگر آپ كو رسول اللہ(ص) سمجھتے تو آپ سے جنگ نہ كرتے ،صرف اپنا او راپنے والد كا نام لكھئے،پيغمبر(ص) نے فرمايا كو ئي حرج نہيں لكھو :''يہ وہ چيز ہے جس پرمحمد (ص) بن عبد اللہ نے سہيل بن عمرو سے صلح كى ،كہ دس سال تك دو نو ں طرف سے جنگ مترو ك رہے گى تاكہ لو گوں كو امن و امان كى صورت دوبارہ ميسرآئے_

علاوہ ازايں جو شخص قريش ميں سے اپنے ولى كى اجازت كے بغير محمد(ص) كے پاس آئے (او رمسلمان ہو جائے )اسے واپس كرديں اورجو شخص ان افراد ميں سے جو محمد(ص) كے پاس ہيں ،قريش كى طرف پلٹ جائے تو ان كو واپس لوٹانا ضرورى نہيں ہے _

تمام لوگ آزاد ہيں جو چاہے محمد (ص) كے عہد و پيمان ميں داخل ہو او رجو چاہے قريش كے عہد و پيمان ميں داخل ہو،طرفين اس بات كے پابندہيں كہ ايك دوسرے سے خيانت نہ كرےں ،او رايك دوسرے كى

۵۷۶

جان و مال كو محترم شمار كريں _

اس كے علاوہ محمد(ص) اس سال واپس چلے جائيں او رمكہ ميں داخل نہ ہوں ،ليكن آئندہ سال ہم تين دن كے لئے مكہ سے باہر چلے جائيں گے او ران كے اصحاب آجائيں ،ليكن تين دن سے زيادہ نہ ٹھہريں ، (اور مراسم عمرہ كے انجام دے كر واپس چلے جائيں )اس شرط كے ساتھ كہ سواے مسافركے ہتھيار يعنى تلوار كے،وہ بھى غلاف ميں كو ئي ہتھيار ساتھ نہ لائيں _

اس پيمان پر مسلمانوں او رمشركين كے ايك گروہ نے گواہى دى او راس عہد نامہ كے كاتب على (ع) ابن ابى طالب عليہ السلام تھے _

مرحو م علامہ مجلسى نے بحار الانوارميں كچھ او رامور بھى نقل كئے ہيں ،منجملہ ان كے يہ كہ :

''اسلام مكہ ميں آشكارا ہوگا اوركسى كو كسى مذہب كے انتخاب كرنے پر مجبورنہيں كريں گے ،اورمسلمان كو اذيت و آزارنہيں پہنچائيں گے''_

اس موقع پرپيغمبراسلام (ص) نے حكم ديا كہ قربانى كے وہ اونٹ جووہ اپنے ہمراہ لائے تھے ،اسى جگہ قربان كرديں اور اپنے سروں كو منڈوائيں اور احرام سے باہرنكل آئيں ،ليكن يہ بات كچھ مسلمانوں كو سخت ناگوار معلوم ہوئي ،كيونكہ عمرہ كے مناسك كى انجام دہى كے بغير ان كى نظرميں احرام سے باہر نكل آنا ممكن نہيں تھا ،ليكن پيغمبر (ص) نے ذاتى طور پرخودپيش قدمى كى او رقربانى كے اونٹوں كو نحر كيا او راحرام سے باہرنكل آئے اورمسلمانوں كو سمجھاياكہ يہ احرام اور قربانى كے قانون ميں استثناء ہے جو خداكى طرف سے قرارديا گيا ہے _

مسلمانوں نے جب يہ ديكھا تو سر تسليم خم كرديا ،او رپيغمبر (ص) كا حكم كامل طورسے مان ليا،اوروہيں سے مدينہ كى راہ لي،ليكن غم واندوہ كا ايك پہاڑ ان كے دلوں پر بوجھ ڈال رہا تھا ،كيونكہ ظاہر ميں يہ سارے كا ساراسفرايك نا كامى اور شكست تھى ،ليكن اسى وقت سورہ فتح نازل ہوئي اورپيغمبرگرامى اسلام (ص) كو فتح كى بشارت ملى _

۵۷۷

صلح حديبيہ كے سياسى ،اجتماعى او رمذہبى نتائج

ہجرت كے چھٹے سال (صلح حديبيہ كے وقت )مسلمانوں كى حالت ميں او ردو سال بعد كى حالت ميں فرق نماياں تھا ،جب وہ دس ہزار كے لشكر كے ساتھ فتح مكہ كے لئے چلے تاكہ مشركين كو پيمان شكنى كا دندان شكن جواب ديا جائے،جنانچہ انھوں نے فوجوں كو معمولى سى جھڑپ كے بغيرہى مكہ كوفتح كرليا ،اس وقت قريش اپنے اندر مقابلہ كرنے كى معمولى سى قدرت بھى نہيں ركھتے تھے _ايك اجمالى موازنہ اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ ''صلح حديبيہ'' كا عكس العمل كس قدر وسيع تھا _

خلاصہ كے طور پر مسلمانوں نے ا س صلح سے چند امتياز او راہم كاميابياں حاصل كيں ،جنكى تفصيل حسب ذيل ہے _

۱)عملى طور پر مكہ كہ فريب خوردہ لوگوں كو يہ بتا ديا كہ وہ جنگ و جدال كا ارادہ نہيں ركھتے ،او رمكہ كے مقدس شہر اور خانہ خداكے لئے بہت زيادہ احترام كے قائل ہيں ،يہى بات ايك كثيرجماعت كے دلوں كے لئے اسلام كى طرف كشش كا سبب بن گئي _

۲)قريش نے پہلى مرتبہ اسلام او رمسلمانوں كى رسموں كو تسليم كيا ،يہى وہ چيز تھى جو جزيرةالعرب ميں مسلمانوں كى حيثيت كو ثابت كرنے كى دليل بنى _

۳)صلح حديبيہ كے بعد مسلمان سكون واطمنان سے ہر جگہ آجا سكتے تھے او رانكا جان و مال محفوظ ہوگيا تھا ،او رعملى طورپرمشركين كے ساتھ قريبى تعلق اورميل جول پيدا ہوا،ايسے تعلقات جس كے نتيجہ ميں مشركين كو اسلام كى زيادہ سے زيادہ پہچان كے ساتھ ان كى توجہ اسلام كى طرف مائل ہو ئي _

۴)صلح حديبيہ كے بعد اسلام كى نشر واشاعت كے لئے سارے جزيرةالعرب ميں راستہ كھل گيا ،او رپيغمبر (ص) كى صلح طلبى كى شرط نے مختلف اقوام كو،جو پيغمبر (ص) كى ذات او راسلام كے متعلق غلط نظريہ ركھتے تھے ،تجديد نظر پر آمادہ كيا ،او رتبليغاتى نقطہ نظرسے بہت سے وسيع امكانات ووسائل مسلمانوں كے ہاتھ آئے _

۵۷۸

۵)صلح حديبيہ نے خيبر كو فتح كرنے او ريہوديوں كے اس سرطانى غدہ كو نكال پھينكنے كے لئے،جوبالفعل اوربالقوہ اسلام او رمسلمانوں كے لئے ايك اہم خطرہ تھا ،راستہ ہموار كرديا_

۶)اصولى طو رپر پيغمبر(ص) كى ايك ہزار چار سو افراد كى فوج سے ٹكرلينے سے قريش كى وحشت جن كے پاس كسى قسم كے اہم جنگى ہتھياربھى نہيں تھے، او رشرائط صلح كو قبول كرلينا اسلام كے طرفداروں كے دلوں كى تقويت ،او رمخالفين كى شكست كے لئے ،جنہوں نے مسلمانوں كو ستاياتھا خود ايك اہم عامل تھا_

۷)واقعہ حديبيہ كے بعد پيغمبر(ص) نے بڑے بڑے ملكو ں ،ايران وروم وحبشہ كے سربراہوں ،او ردنيا كے بڑے بڑے بادشاہوں كو متعددخطوط لكھے او رانہيں اسلام كى طرف دعوت دى او ريہ چيزاچھى طرح سے اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ صلح حديبيہ نے مسلمانوں ميں كس قدر خود اعتمادى پيداكردى تھي،كہ نہ صرف جزيرہ عرب ميں بلكہ اس زمانہ كى بڑى دنيا ميں ان كى راہ كو كھول ديا_

اب تك جو كچھ بيان كيا گيا ہے ،اس سے يہ بخوبى معلوم كيا جا سكتا ہے ،كہ واقعاً صلح حديبيہ مسلمانوں كے لئے ايك عظيم فتح او ركاميابى تھى ،اور تعجب كى بات نہيں ہے كہ قرآن مجيدا سے فتح مبين كے عنوان سے ياد كرتا ہے :

صلح حديبيہ يا عظيم الشان فتح

جس و قت پيغمبر (ص) حديبيہ سے واپس لوٹے (او رسورہ فتح نازل ہوئي )تو ايك صحابى نے عرض كيا :''يہ كيا فتح ہے كہ ہميں خانہ خدا كى زيارت سے بھى رو ك ديا ہے او رہمارى قربانى ميں بھى ركاوٹ ڈال دي''؟

پيغمبر (ص) نے فرمايا:''تو نے بہت برى بات كہى ہے ،بلكہ يہ تو ہمارى عظيم ترين فتح ہے كہ مشركين اس بات پر راضى ہوگئے ہيں كہ تمھيں خشونت آميز طريقہ سے ٹكر لئے بغير اپنى سرزمين سے دور كريں ، اور تمہارے سامنے صلح كى پيش كش كريں اوران تمام تكاليف او ررنج وغم كے باو جود جو تمہارى طرف سے انھوں

۵۷۹

نے اٹھائے ہيں ،ترك تعرض كے لئے تمہارى طرف مائل ہوئے ہيں _

اس كے بعد پيغمبر (ص) نے وہ تكاليف جو انھوں نے بدر واحزاب ميں جھيلى تھيں انھيں ياد دلائيں ، تو مسلمانوں نے تصديق كى كہ يہ سب سے بڑى فتح تھى او رانھوں نے لا علمى كى بناء پر يہ فيصلہ كيا تھا _

''زہرى ''جو ايك مشہور تابعى ہے، كہتا ہے:كوئي بھى فتح صلح حديبيہ سے زيادہ عظيم نہيں تھى ،كيونكہ مشركين نے مسلمانوں كے ساتھ ارتباط اور تعلق پيدا كيا او راسلام ان كے دلوں ميں جاں گزيں ہوا ،او رتين ہى سال كے عرصہ ميں ايك عظيم گروہ اسلام لے آيا او رمسلمانوں ميں ان كى وجہ سے اضافہ ہوا''_

پيغمبر (ص) كا سچا خواب

جيسا كہ ہم نے شروع ميں عرض كيا كہ پيغمبر اكرم (ص) نے مدينہ ميں ايك خواب ديكھا كہ آپ اپنے صحابہ كے ساتھ عمرہ كے لئے مناسك ادا كرنے كے لئے مكہ ميں داخل ہورہے ہيں اور اس خواب كو صحابہ كے سامنے بيان كرديا ، وہ سب كے سب شاد و خوش حال ہوئے ليكن چونكہ ايك جماعت يہ خيال كرتى تھى كہ اس خواب كى تعبير اسى سال پورى ہوگي، تو جس وقت قريش نے مكہ ميں ان كے دخيل ہونے كا راستہ حديبيہ ميں ان كے آگے بند كرديا تو وہ شك و ترديد ميں مبتلا ہوگئے، كہ كيا پيغمبر (ص) كا خواب غلط بھى ہوسكتا ہے، كيا اس كا مطلب يہ نہيں تھا كہ ہم خانہ خدا كى زيارت سے مشرف ہوں ؟ پس اس وعدہ كا كيا ہوا؟ اور وہ رحمانى خواب كہاں چلا گيا؟

پيغمبر اكرم (ص) نے اس سوال كے جواب ميں فرمايا:كيا ميں نے تمہيں يہ كہا تھا كہ يہ خواب اسى سال پورا ہوگا؟ اسى بارے ميں مدينہ كى طرف بازگشت كى راہ ميں وحى الہى نازل ہوئي اور تاكيد كى كہ يہ خواب سچا تھا او رايسا مسئلہ حتمى و قطعى اور انجام پانے والا ہے_

ارشاد خدا وندعالم ہوتا ہے:''خد نے اپنے پيغمبر كو جو كچھ دكھلايا تھا وہ سچ اور حق تھا''_(۱)

____________________

(۱)سورہ فتح آيت۲۷

۵۸۰