قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 331619 / ڈاؤنلوڈ: 6108
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نواں سبق

کیا خدا غیر مرئی ہے

محمود نقاشی کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کی عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہی نہیں رکھتا؟

لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن اس کی علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہی علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جی ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سی چیزیں

۴۱

ایسی موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھی چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھی درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کی خلقت جو خود اس کی قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

۲)___ کیا اس کی عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟

۳)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟

۴)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکی عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟

۵)___ ہمارے ظاہری حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟

۶)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے

۷)___ کیا خدا کو دوسرے کسی حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟

۸)___ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

۴۲

دسواں سبق

موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)

حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستی کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کی پرستش کی جگہ بت پرستی کرتے تھے یعنی پتھر یا لکڑی سونا یا چاندی کے مجسمے انسانی یا حیوانی شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانی دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کی پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کی پرستش کرتا تھا اور ان کی اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان

۴۳

کے لئے بندگی کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگی کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کی تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستی کے طور طریقے بتلائیں_

حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسی قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کی پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کی عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھی بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے اور ان کے دین پر باقی رہیں گے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھی تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں_

لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کی طرف سے آ زادی اور سعادتمند ی کا پیغام لایا ہوں_ میری بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

۴۴

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کی طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسی کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لی وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کی تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا

خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کی پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_

بیماری سے شفا اور زندگی اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_

میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھی خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_

لوگو ایک خدا کی پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہاری مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسی کی طرف توجہ کرو اور صرف اسی کی پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

۴۵

غور کریں اور جواب دیں

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کی پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کی اطاعت کو ضروری سمجھتے تھے؟

۲)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟

۳)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کی کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟

۴)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کی گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟

۵)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟

۶)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگی کا اظہار کرے؟

۷)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟

۸)___ حضرت ابراہیم (ع) کی توحید پر کیا دلیل تھی کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسی کی پرستش کرتے تھے؟

۹)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟

۱۰)___ کیا جو کسی ظالم کی اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟

۱۱)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمی کی امید کس سے ہوتی ہے؟

۴۶

۱۲)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_

۴۷

حصّہ دوم معاد

۴۸

پہلا سبق

کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں

آپ اچھے اور برے کے معنی سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوی اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھی اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسی لئے اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کی دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں

اب ان سوالوں کے جواب دیں_

۴۹

کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگی اور برے لوگ اپنے اعمال بد کی سزا پائیں گے؟

کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کی پوری اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟

پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟

اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کی دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگی اچھائی اور برائی کے کوئی معنی نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہماری زندگی بے نتیجہ اور ہماری خلقت بھی بے معنی ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنی کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنی کام ہے اور اللہ تعالی بے معنی اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگی گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسری دنیا کی طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''

آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام

۵۰

انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشی کی زندگی بسر کریں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ بھی اپنی اچھی زندگی اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضی ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کی زندگی بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگی ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے

۲)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوی ہیں؟

۳)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کی نزدیک برابر ہیں؟

۴)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟

۵)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کی کامل جزاء پاتے ہیں؟

۶)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟

۷)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنی ہوگا

۸)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ ہوگا؟

۹)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگی گزاریں؟

۵۱

دوسرا سبق

پھول کی تلاش

ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مری کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_

ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحی کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_

میں نے پوچھا کس طرح؟

والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت

۵۲

زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کی جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_

صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہی رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھی یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدی پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_

میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنی بہترین اور خوبصورت جگہ تھی زرد اور سرخ پھولوں سے بھری پڑی تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑی دیکھی تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کی طرف لوٹے دوسرے بچّے بھی لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالی ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے

۵۳

تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستی کی تھی اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھی خوش نہیں ہوئے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کی وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھی کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن

مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کی او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کی جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہماری خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنی اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالی کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستی کرتا ہے ان کی راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے

۵۴

کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد کرتا ہے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے

یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھی خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگی بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھی کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھی کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کی طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھی قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کی طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالی ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_

جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کی سزا پائیں گے_

۵۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ہماری خلقت و کوشش بغیر کسی غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھی لیں گے؟

۲)___ یہ جہان مقابلہ کی جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟

۳)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کی تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟

۴)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟

۵)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟

۶)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟

۷)___ آپ کی رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسی ناپسندیدہ کام کی دعوت دے تو پھر بھی اس سے دوستی رکھتے ہیں؟

۸)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟

۹)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ

۵۶

سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

۵۷

تیسرا سبق

جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت

مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسری دنیا کی طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ

۵۸

میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستی او ردینداری اور با ایمان زندگی گزاری ہوگی وہ آسانی سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشی سے قیامت تک زندگی گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتی نعمتوں کا نمونہ ہوں گی اسے دی جائیگی لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینی ظاہر ہوگی اس قسم کے لوگ برزخ میں سختی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعی ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_

گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کی سزا یہیں سے شروع ہوجائے گی پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقی کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ

۵۹

جو لوگ خچل خوری کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

برزخ میں سوال و جواب

برزخ میں سوال و جواب حقیقی ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کی طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخی زبان اور کان سے، ضروری نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہی لبوں، زبان اور انہی کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کی باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسی کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھی خواب میں کسی ایسی جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھی نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسی کان اور آنکھ سے؟ کیا اسی جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

ابوسفيان كى بيوى ہندہ كى بيعت كا ماجرا

فتح مكہ كے واقعہ ميں جن عورتوں نے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوكر بيعت كى ان ميں سے ايك ابو سفيان كى بيوي''ہندہ''تھي، يعنى وہ عورت جس كى طرف سے تاريخ اسلام بہت سے دردناك واقعات محفوظ ركھے ہوئے ہے،ا ن ميں سے ايك ميدان احد ميں حمزہ سيدالشہداء (ع) كى شہادت كا واقعہ ہے كہ جس كى كيفيت بہت ہى غم انگيز ہے _

اگرچہ آخركاروہ مجبور ہوگئي كہ اسلام اور پيغمبر اسلام (ص) كے سامنے گھٹنے ٹيك دے او رظاہراً مسلمان ہو جائے ليكن اسكى بيعت كا ماجرا بتاتا ہے كہ وہ حقيقت ميں اپنے سابقہ عقائد كى اسى طرح وفادار تھى ،لہذا اس ميں تعجب كى كوئي بات نہيں ہے كہ بنى اميہ كا خاندان اور ہندہ كى اولادنے پيغمبر (ص) كے بعد اس قسم كے جرائم كا ارتكاب كيا كہ جن كى سابقہ زمانہ ميں كوئي نظير نہيں ملتى _

بہر حال مفسرين نے اس طرح لكھا ہے كہ ہند ہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا تھا وہ پيغمبر (ص) كى خدمت ميں اس وقت حاضر ہوئي جب آپ كوہ صفا پر تشريف فرما تھے اور عورتوں كى ايك جماعت ہندہ كے ساتھ تھي، جب پيغمبر (ص) نے يہ فرماياكہ ميں تم عورتوں سے اس بات پر بيعت لتيا ہوں كہ تم كسى چيز كو خدا كا شريك قرار نہيں دو گي، تو ہندہ نے اعتراض كيا او ركہا:''آپ ہم سے ايسا عہد لے رہے ہيں جو آپ نے مردوں سے نہيں ليا ، (كيونكہ اس دن مردوں سے صرف ايمان اورجہاد پربيعت لى گئي تھى _)

پيغمبر (ص) نے اس كى بات كى پرواہ كئے بغير اپنى گفتگو كو جارى فرمايا:''كہ تم چورى بھى نہيں كرو گي،''ہند ہ نے كہا: ابو سفيان كنجوس اوربخيل آدمى ہے ميں نے اس كے مال ميں سے كچھ چيزيں لى ہيں ، ميں نہيں جانتى كہ وہ انھيں مجھ پر حلال كرے گا يا نہيں ابو سفيان موجود تھا ،اس نے كہا: جو كچھ تو نے گذشتہ زمانہ ميں ميرے مال ميں سے لے ليا ہے وہ سب ميں نے حلال كيا ،(ليكن آئندہ كے لئے پابندى كرنا _)

اس موقع پر پيغمبر (ص) ہنسے اور ہندہ كو پہچان كر فرمايا:''كيا تو ہندہ ہے''؟ اس نے كہا :جى ہاں ،يا

۶۰۱

رسول اللہ پچھلے امور كو بخش ديجئے خدا آپ كو بخشے ''_

پيغمبر (ص) نے اپنى گفتگو كو جارى ركھا:''او رتم زنا سے آلودہ نہيں ہوگي،''ہندہ نے تعجب كرتے ہوئے كہا:''كيا آزاد عورت اس قسم كا عمل بھى انجام ديتى ہے؟''حاضرين ميں سے بعض لوگ جو زمانہ جاہليت ميں اس كى حالت سے واقف تھے اس كى اس بات پر ہنس پڑے كيونكہ ہندہ كا سابقہ زمانہ كسى سے مخفى نہيں تھا_

پھر پيغمبر (ص) نے اپنى بات كو جارى ركھتے ہوئے فرمايا:

''اور تم اپنى اولاد كو قتل نہيں كروگى ''_

ہند نے كہا:''ہم نے تو انھيں بچپن ميں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے ہوئے تو آپ نے انھيں قتل كرديا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ہيں ''_( اس كى مراد اس كا بيٹا ''حنظلہ''تھا جو بدر كے دن على عليہ السلام كے ہاتھوں ماراگيا تھا_)

پيغمبر (ص) نے اس كى اس بات پر تبسم فرمايا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمايا:

''تم بہتان او رتہمت كو روا نہيں ركھوگى ''_

تو ہندہ نے كہا:''بہتان قبيح ہے او رآپ ہميں صلاح و درستى ،نيكى او رمكارم اخلاق كے سوا او ركسى چيز كى دعوت نہيں ديتے''_

جب آپ نے يہ فرمايا:

''تم تمام اچھے كاموں ميں ميرے حكم كى اطاعت كروگى ''_تو ہندہ نے كہا:''ہم يہاں اس لئے نہيں بيٹھے ہيں كہ ہمارے دل ميں آپ كى نافرمانى كاارادہ ہو''_

(حالانكہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نہيں تھا، ليكن تعليمات اسلامى كے مطابق پيغمبر (ص) اس بات كے پابند تھے كہ ان كے بيانات كو قبول كرليں _

۶۰۲

۱۰ حضرت رسول اكرم (ص)

پيغمبر (ص) كے خطوط دنيا كے بادشاہوں كے نام

تاريخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے كہ جب سرزمين حجاز ميں اسلام كافى نفوذ كرچكا تو پيغمبراكرم(ص) نے اس زمانے كے بڑے بڑے حكمرانوں كے نام كئي خطوط روانہ كيے _ ان ميں بعض خطوط ميں كا سہارا ليا گيا ہے ،جس ميں آسما نى اديان كى قدر مشترك كا تذكرہ ہے_

مقوقس(۱)

كے نام خط مقوقس مصر كا حاكم تھا پيغمبر اسلام (ص) نے دنيا كے بڑے بڑے بادشاہوں او رحكام كو خطوط لكھے او رانہيں اسلام كى طرف دعوت دي،حاطب بن ابى بلتعہ كو حاكم مصر مقوقس كى طرف يہ خط دے كرروانہ كيا_

بسم اللّه الرحمن الرحيم

من: محمد بن عبداللّه

الي: المقوقس عظيم القبط

سلام على من اتبع الهدى ،اما بعد:''فانى ادعوك بدعايةالاسلام

اسلم تسلم،يو تك اللّه اجرك مرتين، فان توليت فانما عليكم اثم

____________________

(۱)''مقوقس''(بہ ضم ميم وبہ فتحہ ہردو ''قاف'')''ہرقل ''بادشاہ روم كى طرف سے مصر كا والى تھا_

۶۰۳

القبط ، . يا اهل الكتب تعالواالى كلمة سواء بيننا و بينكم'' ان لا نعبد الا اللّه ولا نشرك به شيئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّه ،فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون'' _

اللہ كے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے _

از _ _ _ محمد بن عبد اللہ

بطرف_ _ _ قبطيوں كے مقوقس بزرگ _

حق كے پيروكاروں پر سلام ہو_

ميں تجھے اسلام كى دعوت ديتا ہوں _ اسلام لے آئو تاكہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ايك خود تمہارے ايمان لانے پر اوردوسراان لوگوں كى وجہ سے جو تمہارى پيروى كركے ايمان لائيں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى كى تو قبطيوں كے گناہ تيرے ذمہ ہوں گے __اے اہل كتاب ہم تمہيں ايك مشترك بنيادكى طرف دعوت ديتے ہيں او روہ يہ كہ ہم خدائے يگانہ كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں حق سے روگردانى نہ كريں تو ان سے كہو كہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہيں ''_

پيغمبر (ص) كا سفير مصر كى طرف روانہ ہوا، اسے اطلاع ملى كہ حاكم مصر اسكندريہ ميں ہے لہذا وہ اس وقت كے ذرائع آمد ورفت كے ذريعے اسكندريہ پہنچا او رمقوقس كے محل ميں گيا، حضرت كا خط اسے ديا ، مقوقس نے خط كھول كر پڑھا كچھ دير تك سوچتا رہا، پھر كہنے لگا:''اگر واقعاً محمد(ص) خدا كا بھيجا ہوا ہے تو اس كے مخالفين اسے اس كى پيدائش كى جگہ سے باہر نكالنے ميں كيوں كامياب ہوئے او روہ مجبور ہوا كہ مدينہ ميں سكونت اختيار كرے؟ ان پر نفرين او ربد دعا كيوں نہيں كى تاكہ وہ نابود ہو جاتے؟''

پيغمبر (ص) كے قاصد نے جواباً كہا:

''حضرت عيسى عليہ السلام خدا كے رسول تھے اور آپ بھى ان كى حقانيت كى گواہى ديتے ہيں ، بنى اسرائيل نے جب ان كے قتل كى سازش كى توآپ نے ان پر نفرين اور بد دعا كيوں نہيں كى تاكہ خدا انہيں

۶۰۴

ہلاك كرديتا؟

يہ منطق سن كر مقو قس تحسين كرنے لگا اور كہنے لگا :

''احسنت انت حكيم من عند حكيم ''

''افرين ہے ،تم سمجھ دار ہو اور ايك صاحب حكمت كى طرف سے ائے ہو ''

حاطب نے پھر گفتگو شروع كى اور كہا :

''اپ سے پہلے ايك شخص (يعنى فرعون )اس ملك پر حكومت كرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں ميں اپنى خدائي كا سودا بيچتا رہا ،بالاخر اللہ نے اسے نابود كر ديا تاكہ اس كى زندگى اپ كے لئے باعث عبرت ہو ليكن اپ كوشش كريں كہ اپ كى زندگى دوسروں كے لئے نمونہ بن جائے''_

''پيغمبر (ص) نے ہميں ايك پاكيزہ دين كى طرف دعوت دى ہے ، قريش نے ان سے بہت سخت جنگ كى او ران كے مقابل صف آراء ہوئے، يہودى بھى كينہ پرورى سے ان كے مقابلے ميں آكھڑے ہوئے او راسلام سے زيادہ نزديك عيسائي ہيں _ ''

مجھے اپنى جان كى قسم جيسے حضرت موسى عليہ السلام نے حضرت عيسى عليہ السلام كى نبوت كى بشارت دى تھى اس طرح حضرت عيسى عليہ السلام حضرت محمد كے مبشر تھے ، ہم آپ لوگوں نے تو ريت كے ماننے والوں كو انجيل كى دعوت دى تھى ،جوقوم پيغمبرحق كى دعوت كو سنے اسے چاہئے كہ اس كى پيروى كرے ،ميں نے محمد كى دعوت آپ كى سرزمين تك پہنچادى ہے، مناسب يہى ہے كہ آپ او رمصرى قوم يہ دعوت قبول كر لے''_

حاطب كچھ عرصہ اسكندريہ ہى ميں ٹھہرا تاكہ رسول اللہ (ص) كے خط كا جواب حاصل كرے ،چند روز گزر گئے، ايك دن مقوقس نے حاطب كو اپنے محل ميں بلايا او رخواہش كى كہ اسے اسلام كے بارے ميں كچھ مزيد بتايا جائے_

حاطب نے كہا:

''محمد (ص) ہميں خدانے يكتا ئي پرستش كى دعوت ديتے ہيں او رحكم ديتے ہيں كہ لوگ روزوشب

۶۰۵

ميں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قريبى رابطہ پيدا كريں او رنماز پڑھيں ،پيمان پورے كريں ،خون او رمردار كھانے سے اجتناب كريں ''_

علاوہ ازيں حاطب نے پيغمبر اسلام (ص) كى زندگى كى بعض خصوصيات بھى بيان كيں _

مقوقس كہنے لگا:

''يہ تو بڑى اچھى نشانياں ہيں _ ميرا خيال تھا كہ خاتم النبيين سرزمين شام سے ظہور كريں گے جو انبياء عليہم السلام كى سرزمين ہے،اب مجھ پر واضح ہوا كہ وہ سر زمين حجاز سے مبعوث ہوئے ہيں ''_

اس كے بعد اس نے اپنے كاتب كو حكم ديا كہ وہ عربى زبان ميں اس مضمون كا خط تحرير كرے:

بخدمت : محمد بن عبد اللہ _

منجانب: قبطيوں كے بزرگ مقوقس _

''آپ پر سلام ہو،ميں نے آپ كاخط پڑھا ،آپ كے مقصد سے باخبر ہوااو رآپ كى دعوت كى حقيقت كو سمجھ ليا،ميں يہ تو جانتا تھا كہ ايك پيغمبر (ص) ظہور كرے گا ليكن ميرا خيال تھا كہ وہ خطہ شام سے مبعوث ہوگا، ميں آ پ كے قاصد كا احترام كرتا ہوں ''_

پھر خط ميں ان ہديوں اور تحفوں كى طرف اشارہ كيا جواس نے آپ كى خدمت ميں بھيجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام كيا_

''آپ پر سلام ہو''

تاريخ ميں ہے كہ مقوقس نے كوئي گيارہ قسم كے ہديے پيغمبر (ص) كے لئے بھيجے ، تاريخ اسلام ميں ان كى تفصيلات موجود ہيں ،ان ميں سے ايك طبيب تھا تاكہ وہ بيما ر ہونے والے مسلمانوں كا علاج كرے، نبى اكرم (ص) نے ديگر ہديئے قبول فرمايائے ليكن طبيب كو قبول نہ كيا او رفرمايا:''ہم ايسے لوگ ہيں كہ جب تك بھوك نہ لگے كھانا نہيں كھاتے او رسير ہونے سے پہلے كھانے سے ہاتھ روك ليتے ہيں ، يہى چيز ہمارى صحت و سلامتى كے لئے كافى ہے، شايد صحت كے اس عظيم اصول كے علاوہ پيغمبر اسلام (ص) اس طبيب كى وہاں

۶۰۶

موجودگى كو درست نہ سمجھتے ہوں كيونكہ وہ ايك متعصب عيسائي تھا لہذا آپ نہيں چاہتے تھے كہ اپنى او رمسلمانوں كى جان كا معاملہ اس كے سپرد كرديں _

مقوقس نے جو سفير پيغمبر (ص) كا احترام كيا،آپ كے لئے ہديے بھيجے او رخط ميں نام محمد اپنے نام سے مقدم ركھا يہ سب اس بات كى حكايت كرتے ہيں كہ اس نے آپ كى دعوت كو باطن ميں قبول كرليا تھا يا كم از كم اسلام كى طر ف مائل ہوگيا تھا ليكن اس بناء پركہ اس كى حيثيت او روقعت كو نقصان نہ پہنچے ظاہرى طو رپراس نے اسلام كى طرف اپنى رغبت كا اظہار نہ كيا _

قيصر روم كے نام خط

بسم اللّه الرحمن الرحيم

من:محمد بن عبداللّه

الي: هرقل عظيم الرّوم

سلام على من اتبع الهدى

اما بعد:فانى ادعوك بدعايةالاسلام_

اسلم تسلم،يو تك اللّه اجرك مرتين، فان توليت فانما عليكم اثم القبط،___يا اهل الكتب تعالواالى كلمة سواء بيننا و بينكم'' ان لا نعبد الا اللّه ولا نشرك به شيئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّه ،فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون'' _

اللہ كے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے_

منجانب: محمدبن عبد اللہ _

۶۰۷

بطرف: ہرقل بادشاہ روم_

''اس پر سلام ہے جو ہدايت كى پيروى كرے_ميں تجھے اسلام كى دعوت ديتا ہوں _ اسلام لے آئو تاكہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ايك خود تمہارے ايمان لانے پر اوردوسراان لوگوں كى وجہ سے جو تمہارى پيروى كركے ايمان لائيں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى كى تو اريسوں كا گناہ بھى تيرى گردن پر ہوگا_اے اہل كتاب ہم تمہيں ايك مشترك بنيادكى طرف دعوت ديتے ہيں او روہ يہ كہ ہم خدائے يگانہ كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں حق سے روگردانى نہ كريں تو ان سے كہو كہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہيں ''_

قيصر كے پاس نبى اكرم (ص) كا پيغام پہنچانے كے لئے ''دحيہ كلبي'' مامور ہوا سفيرپيغمبر(ص) عازم روم ہوا_

قيصركے دارالحكومت قسطنطنيہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہوا كہ قيصربيت المقدس كى زيارت كے ارادے سے قسطنطنيہ چھوڑ چكا ہے، لہذا اس نے بصرى كے گور نر حادث بن ابى شمر سے رابطہ پيداكيا اور اسے اپنامقصد سفر بتايا ظاہراً پيغمبر اكرم (ص) نے بھى اجازت دے ركھى تھى كہ دحيہ وہ خط حاكم بصرى كو ديدے تاكہ وہ اسے قيصرتك پہنچادے سفير پيغمبر (ص) نے گورنر سے رابطہ كيا تو اس نے عدى بن حاتم كو بلايا اور اسے حكم ديا كہ وہ دحيہ كے ساتھ بيت المقدس كى طرف جائے اور خط قيصر تك پہنچا دے مقام حمص ميں سفير كى قيصر سے ملاقات ہوئي ليكن ملاقات سے قبل شاہى دربار كے كاركنوں نے كہا:

''تمہيں قيصر كے سامنے سجدہ كرنا پڑے گا ورنہ وہ تمہارى پرواہ نہيں كرے گا ''

دحيہ ايك سمجھدار آدمى تھا كہنے لگا :

''ميں ان غير مناسب بدعتوں كوختم كرنے كے لئے اتنا سفر كر كے آيا ہوں _ ميں اس مراسلے كے بھيجنے والے كى طرف سے آيا ہوں تا كہ قيصر كو يہ پيغام دوں كہ بشر پرستى كو ختم ہونا چاہئے او رخدا ئے واحد كے سواكسى كى عبادت نہيں ہونى چاہيے ، اس عقيدے كے باوجود كيسے ممكن ہے كہ ميں غير خدا كے لئے سجدہ

۶۰۸

كروں ''_

پيغمبر (ص) كے قاصد كى قوى منطق سے وہ بہت حيران ہوئے ،درباريوں ميں سے ايك نے كہا:

''تمہيں چاہئے كہ خط بادشاہ كى مخصوص ميز پر ركھ كر چلے جائو، اس ميز پر ركھے ہوئے خط كو قيصر كے علاوہ كوئي نہيں اٹھا سكتا''_

دحيہ نے اس كا شكريہ اداكيا ،خط ميز پر ركھا اورخودواپس چلا گيا،قيصر نے خط كھولا ،خط نے جو''بسم اللہ'' سے شروع ہوتا تھا اسے متوجہ كيا اور كہنے لگا_

''حضرت سليمان عليہ السلام كے خط كے سوا آج تك ميں نے ايسا خط نہيں ديكھا ''

اس نے اپنے مترجم كو بلايا تا كہ وہ خط پڑھے او راس كا ترجمہ كرے ،بادشاہ روم كو خيال ہوا كہ ہو سكتا ہے خط لكھنے والا وہى نبى ہو جس كاوعدہ انجيل او رتوريت ميں كيا گيا ہے، وہ اس جستجو ميں لگ گيا كہ آپ كى زندگى كى خصوصيات معلوم كرے، اس نے حكم ديا كہ شام كے پورے علاقے ميں چھان بين كى جائے،شايد محمد كے رشتہ داروں ميں سے كوئي شخص مل جائے جو ان كے حالات سے واقف ہو ،اتفاق سے ابوسفيان او رقريش كا ايك گروہ تجارت كے لئے شام آيا ہوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم كامشرقى حصہ تھا، قيصر كے آدميوں نے ان سے رابطہ قائم كيا او رانہيں بيت المقدس لے گئے،قيصر نے ان سے سوال كيا :

كيا تم ميں سے كوئي محمد كا نزديكى رشتہ دار ہے ؟

ابو سفيان نے كہا :

ميں اور محمد ايك ہى خاندان سے ہيں او رہم چوتھى پشت ميں ايك درسرے سے مل جاتے ہيں _

پھرقيصر نے اس سے كچھ سوالات كئے دونوں ميں يوں گفتگو ہوئي''

قيصر: اس كے بزرگوں ميں سے كوئي حكمران ہوا ہے؟

ابوسفيان: نہيں _

قيصر: كيا نبوت كے دعوى سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب كرتا تھا؟

۶۰۹

ابوسفيان: ہاں محمد راست گو او رسچا انسان ہے_

قيصر: كونسا طبقہ اس كا مخالف ہے اور كونسا موافق؟

ابوسفيان: اشراف اس كے مخالف ہيں ، عام او رمتوسط درجے كے لوگ اسے چاہتے ہيں _

قيصر: اس كے پيروكاروں ميں سے كوئي اس كے دين سے پھرا بھى ہے؟

ابوسفيان: نہيں _

قيصر: كيا اس كے پيروكار روز بروز بڑھ رہے ہيں ؟

ابوسفيان:ہاں _

اس كے بعد قيصر نے ابوسفيان او راس كے ساتھيوں سے كہا:

''اگر يہ باتيں سچى ہيں تو پھر يقينا وہ پيغمبر موعود ہيں ، مجھے معلوم تھا كہ ايسے پيغمبر كا ظہور ہوگا ليكن مجھے يہ پتہ نہ تھا كہ وہ قريش ميں سے ہوگا، ميں تيار ہوں كہ اس كے لئے خضوع كروں او راحترام كے طور پر اس كے پائوں دھوو ں ،ميں پيش گوئي كرتا ہوں كہ اس كا دين او رحكومت سرزمين روم پر غالب آئے گي''_

پھر قيصر نے دحيہ كو بلايا او راس سے احترام سے پيش آيا، پيغمبر اكرم (ص) كے خط كا جواب لكھا او رآپ كے لئے دحيہ كے ذريعے ہديہ بھيجااورآپ كے نام اپنے خط ميں آپ سے اپنى عقيدت او رتعلق كا اظہار كيا_

يہ بات جاذب نظر ہے كہ جس وقت پيغمبرا كرم (ص) كا قاصد آنحضرت(ص) كا خط لے كر قيصر روم كے پاس پہونچا تو اس نے خصوصيت كے ساتھ آپ كے قاصد كے سامنے اظہار ايمان كيا يہاں تك كہ وہ روميوں كو اس دين توحيد و اسلام كى دعوت دينا چاہتا تھا، اس نے سوچا كہ پہلے ان كى آزمائش كى جائے، جب اس كى فوج نے محسوس كيا كہ وہ عيسائيت كو ترك كردينا چاہتا ہے تو اس نے اس كے قصر كا محاصرہ كرليا، قيصر نے ان سے فوراً كہا كہ ميں تو تمہيں آزمانا چاہتا تھا اپنى جگہ واپس چلے جائو_

۶۱۰

جنگ ذات السلاسل

ہجرت كے آٹھويں سال پيغمبراكرم (ص) كو خبر ملى كہ بارہ ہزار سوار سرزمين ''يابس''ميں جمع ہيں ، اور انہوں نے ايك دوسرے كے ساتھ يہ عہد كيا ہے كہ جب تك پيغمبراكرم (ص) او رعلى عليہ السلام كو قتل نہ كرليں او رمسلمانوں كى جماعت كو منتشر نہ كرديں آرام سے نہيں بيٹھيں گے _ پيغمبر اكرم (ص) نے اپنے اصحاب كى ايك بہت بڑى جماعت كو بعض صحابہ كى سركردگى ميں ان كى جانب روانہ كيا ليكن وہ كافى گفتگو كے بعد بغير كسى نتيجہ كے واپس آئے_

آخر كار پيغمبر اكرم (ص) نے على عليہ السلام كو مہاجرين وانصار كے ايك گروہ كثير كے ساتھ ان سے جنگ كرنے كے لئے بھيجا، وہ بڑى تيزى كے ساتھ دشمن كے علاقہ كى طرف روانہ ہوئے او ررات بھر ميں سارا سفر طے كر كے صبح دم دشمن كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا، پہلے تو ان كے سامنے اسلام كو پيش كيا، جب انہوں نے قبول نہ كيا تو ابھى فضا تاريك ہى تھى كہ ان پر حملہ كرديا اور انہيں درھم برھم كر كے ركھ ديا،ان ميں سے كچھ لوگوں كو قتل كيا ، ان كى عورتوں اور بچوں كو اسير كرليا او ربكثرت مال غنيمت كے طور پر حاصل كيا_

سورہ ''والعاديات''نازل ہوئي حالانكہ ابھى سربازان اسلام مدينہ كى طرف لو ٹ كر نہيں آئے تھے ،پيغمبر خدا (ص) اس دن نماز صبح كے لئے آئے تو اس سورہ كى نماز ميں تلاوت كي،نمازكے بعد صحابہ نے عرض كيا، يہ تو ايسا سورہ ہے جسے ہم نے آج تك سنا نہيں ہے_ آپ نے فرمايا: ہاں على عليہ السلام دشمنوں پر فتح ياب ہوئے ہيں اور جبرئيل نے گزشتہ رات يہ سورہ لاكر مجھے بشارت دى ہے_ كچھ دن كے بعد على عليہ السلام غنائم او رقيديوں كے ساتھ مدينہ ميں وارد ہوئے_(۱)

____________________

(۱)بعض كا نظريہ يہ ہے كہ يہ واقعہ اس سورہ كے واضح مصاديق ميں سے ايك ہے،يہ اس كا شان نزول نہيں ہے_

۶۱۱

جنگ حنين(۱)

اس جنگ كى ابتداء يوں ہوئي كہ جب ''ہوازن'' جو بہت بڑا قبيلہ تھا اسے فتح مكہ كى خبر ہوئي تو اس كے سردار مالك بن عوف نے افراد قبيلہ كو جمع كيا او ران سے كہا كہ ممكن ہے فتح مكہ كے بعد محمد ان سے جنگ كے لئے اٹھ كھڑے ہو، كہنے لگے كہ مصلحت اس ميں ہے كہ اس سے قبل كہ وہ ہم سے جنگ كرے ہميں قدم آگے بڑھا نا چاہئے _

رسول اللہ (ص) كو يہ اطلاع پہونچى تو آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ سر زمين ہوازن كى طرف چلنے كو تيار ہو جائيں _

۱ ہجرى رمضان المبارك كے آخرى دن تھے يا شوال كا مہينہ تھا كہ قبيلہ ہوازن كے افراد سردار ''مالك بن عوف ''كے پاس جمع ہوئے اور اپنا مال ، اولاد او رعورتيں بھى اپنے ساتھ لے آئے تاكہ مسلمانوں سے جنگ كرتے دقت كسى كے دماغ ميں بھاگنے كا خيال نہ آئے،اسى طرح سے وہ سرزمين ''اوطاس'' ميں وارد ہوئے_

پيغمبر اسلام (ص) نے لشكر كا بڑا علم باندھ كر على عليہ السلام كے ہاتھ ميں ديا او روہ تمام افراد جو فتح مكہ كے موقع پر اسلامى فوج كے كسى دستے كے كمانڈر تھے آنحضرت (ص) كے حكم سے اسى پرچم كے نيچے حنين

____________________

(۱)ذيل آيات ۲۵ تا ۲۷ سورہ توبہ

۶۱۲

كے ميدان كى طرف روانہ ہوئے _

رسول اللہ (ص) كو اطلاع ملى كہ ''صفوان بن اميہ'' كے پاس ايك بڑى مقدار ميں زرہيں ہيں آپ نے كسى كو اس كے پاس بھيجا اور اس سے سو زرہيں عاريتاً طلب كي، صفوان نے پوچھا واقعاً عاريتاً يا غصب كے طور پر _ رسول اللہ (ص) نے فرمايا: عاريتاً ہيں اور ہم ان كے ضامن ہيں كہ صحيح و سالم واپس كريں گے _

صفوان نے زرہيں عاريتاً پيغمبر اكرم (ص) كودےديں اورخود بھى آنحضرت (ص) كے ساتھ چلا _

فوج ميں كچھ ايسے افراد تھے جنہوں نے فتح مكہ كے موقع پر اسلام قبول كيا تھا، ان كے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدين اسلام تھے جو پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ فتح مكہ كے لئے آئے تھے ، يہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتى ہے، يہ سب ميدان جنگ كى طرف چل پڑے _

دشمن كے لشكر كا مورچہ

''مالك بن عوف'' ايك مرد جرى او رہمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبيلے كو حكم ديا كہ اپنى تلواروں كے نيام توڑ ڈاليں او رپہاڑ كى غاروں ميں ، دروں كے اطراف ميں او ردرختوں كے درميان لشكر اسلام كے راستے ميں كمين گاہيں بنائيں اور جب اول صبح كى تاريكى ميں مسلمان وہاں پہنچيں تو اچانك اور ايك ہى بار ان پر حملہ كرديں اور اسے فنا كرديں _

اس نے مزيد كہا :محمد كا ابھى تك جنگجو لوگوں سے سامنا نہيں ہوا كہ وہ شكست كا مزہ چكھتا _

رسول اللہ (ص) اپنے اصحاب كے ہمراہ نماز صبح پڑھ چكے تو آپ (ص) نے حكم ديا كہ سر زمين حنين كى طرف چل پڑيں ،اس موقع پر اچانك لشكر'' ہوازن'' نے ہر طرف سے مسلمانوں پرتيروں كى بوچھار كر دي، وہ دستہ جو مقدمہ لشكر ميں تھا (اور جس ميں مكہ كے نئے نئے مسلمان بھى تھے ) بھاگ كھڑا ہوا، اس كے سبب باقى ماندہ لشكر بھى پريشان ہوكر بھاگ كھڑا ہوا _

خداوندمتعال نے اس موقع پر دشمن كے ساتھ انہيں ان كى حالت پر چھوڑ ديا او روقتى طور پر ان كى

۶۱۳

نصرت سے ہاتھ اٹھاليا كيونكہ مسلمان اپنى كثرت تعداد پر مغرور تھے، لہذا ان ميں شكست كے آثار اشكار ہوئے، ليكن حضرت على عليہ السلام جو لشكر اسلام كے علمبردار تھے وہ مٹھى بھر افراد سميت دشمن كے مقابلے ميں ڈٹے رہے او راسى طرح جنگ جارى ركھے رہے _

اس وقت پيغمبر اكرم (ص) قلب لشكر ميں تھے، رسول اللہ كے چچا عباس بنى ہاشم كے چند افراد كے ساتھ آپ (ص) كے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے، يہ كل افراد نو سے زيادہ نہ تھے دسويں ام ايمن كے فرزند ايمن تھے، مقدمہ لشكر كے سپاہى فرار كے موقع پر رسول اللہ (ص) كے پاس سے گزرے تو آنحضرت(ص) نے عباس كو جن كى آواز بلند او رزور دار تھى كو حكم ديا كہ اس ٹيلے پر جو قريب ہے چڑھ جائيں او رمسلمانوں كو پكاريں :

''يا معشر المھاجرين والانصار يا اصحاب سورةالبقرة يا اھل بيعت الشجرة الى اين تفرون ھذا رسول اللہ _ ''

اے مہاجرين وانصار اے سورہ بقرہ كے ساتھيو

اے درخت كے نيچے بيعت كرنے والوكہاں بھاگے جارہے ہو؟ رسول اللہ (ص) تو يہاں ہيں _ مسلمانوں نے جب عباس كى آواز سنى تو پلٹ آئے اور كہنے لگے:لبيك لبيك

خصوصاً لوٹ آنے والوں ميں انصار نے پيش قدمى كى او رفوج دشمن پر ہر طرف سے سخت حملہ كيا اور نصرت الہى سے پيش قدمى جارى ركھى يہاں تك كہ قبيلہ ہوازن وحشت زدہ ہوكر ہر طرف بكھر گيا، مسلمان ان كا تعاقب كررہے تھے، لشكر دشمن ميں سے تقريباً ايك سو افراد مارے گئے ،ان كے اموال غنيمت كے طور پر مسلمانوں كے ہاتھ لگے او ركچھ ان ميں سے قيدى بنا لئے گئے _

لكھا ہے كہ اس تاريخى واقعہ كے آخر ميں قبيلہ ہوازن كے نمائندے رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے او راسلام قبول كرليا،پيغمبر اكرم (ص) نے ان سے بہت محبت و الفت فرمائي، يہاں تك كہ ان كے سر براہ مالك بن عوف نے بھى اسلام قبو كر ليا، آپ (ص) نے اس كا مال او رقيدى اسے واپس كرديئےو راس كے قبيلہ كے مسلمانوں كى سردارى بھى اس كے سپرد كردى _

۶۱۴

درحققت ابتداء ميں مسلمانوں كى شكست كا اہم عامل غرور و تكبر جو كثرت فوج كى وجہ سے ان ميں پيدا ہوگيا تھا، اسكے علاوہ دو ہزا رنئے مسلمانوں كا وجود تھا جن ميں سے بعض فطرى طور پر منافق تھے ، كچھ ان ميں مال غنيمت كے حصول كے لئے شامل ہوگئے تھے او ربعض بغير كسى مقصد كے ان ميں شامل ہوگئے تھے_

نہائي كاميابى كا سبب حضرت رسول اكرم (ص) ، حضرت على عليہ السلام اور بعض اصحاب كا قيام تھا، اور پہلے والوں كا عہد و پيمان اور خدا پر ايمان اور اس كى مدد پر خاص توجہ باعث بنى كہ مسلمانوں كو اس جنگ ميں كاميابى ملي_

بھاگنے والے كون تھے ؟

اس بات پر تقريباً اتفاق ہے كہ ميدان حنين ميں سے اكثريت ابتداء ميں بھاگ گئي تھي، جو باقى رہ گئے تھے ان كى تعداد ايك روايت كے مطابق دس تھى او ربعض نے تو ان كى تعداد چار بيان كى ہے بعض نے زيادہ سے زيادہ سو افراد لكھے ہيں _

بعض مشہور روايات كے مطابق چونكہ پہلے خلفاء بھى بھاگ جانے والوں ميں سے تھے لہذا بعض اہل سنت مفسرين نے كوشش كى ہے كہ اس فرار كو ايك فطرى چيز كے طور پر پيش كيا جائے _ المنار كے مو لف لكھتے ہيں : ''جب دشمن كى طرف سے مسلمانوں پر تيروں كى سخت بوچھارہوئي توجو لوگ مكہ سے مسلمانوں كے ساتھ مل گئے تھے، اورجن ميں منافقين اورضعيف الايمان بھى تھے اور جو مال غنيمت كے لئے آگئے تھے وہ بھاگ كھڑے ہوئے اور انہوں نے ميدان ميں پشت دكھائي تو باقى لشكر بھى فطرى طور پر مضطرب او رپريشان ہوگيا وہ بھى معمول كے مطابق نہ كہ خوف و ہراس سے ،بھاگ كھڑے ہوئے اوريہ ايك فطرى بات ہے كہ اگر ايك گروہ فرار ہو جائے تو باقى بھى بے سوچے سمجھے متزلزل ہو جاتے ہيں ، لہذا ان كا فرار ہونا پيغمبر (ص) كى مدد ترك كرنے او رانہيں دشمن كے ہاتھ ميں چھوڑ جانے كے طور پر نہيں تھا كہ وہ خداكے غضب كے مستحق ہوں ، ہم اس بات كى تشريح نہيں كرتے او راس كا فيصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہيں ''_

۶۱۵

جنگ تبوك

''تبوك''(۱) كا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جہاں پيغمبر (ص) نے اپنى جنگوں ميں پيش قدمى كى _ ''تبوك''اصل ميں ايك محكم اور بلند قلعہ كا نام تھا _ جو حجاز او رشام كى سرحد پر واقع تھا اسى وجہ سے اس علاقے كو سر زمين تبوك كہتے تھے _

جزيرہ نمائے عرب ميں اسلام كے تيز رفتار نفوذ كى وجہ سے رسول اللہ (ص) كى شہرت اطراف كے تمام ممالك ميں گونجنے لگى باوجود يہ كہ وہ اس وقت حجازكى اہميت كے قائل نہيں تھے ليكن طلوع اسلام اور لشكر اسلام كى طاقت كہ جس نے حجاز كو ايك پرچم تلے جمع كرليا، نے انھيں اپنے مستقبل كے بارے ميں تشويش ميں ڈال ديا _

مشرقى روم كى سرحد حجاز سے ملتى تھى اس حكومت كو خيال ہوا كہ كہيں اسلام كى تيز رفتار ترقى كى وہ پہلى قربانى نہ بن جائے لہذا اس نے چاليس ہزار كى زبردست مسلح فوج جو اس وقت كى روم جيسى طاقتور حكومت كے شايان شان تھي' اكھٹى كى اور اسے حجاز كى سرحد پر لاكھڑا كيا يہ خبر مسافروں كے ذريعے پيغمبر اكرم (ص) كے كانوں تك پہنچى رسول اللہ (ص) نے روم اور ديگر ہمسايوں كودرس عبرت دينے كے لئے توقف كئے بغير تيارى كا حكم صادر فرماياآپ كے مناديوں نے مدينہ اور دوسرے علاقوں تك آپ(ص) كا پيغام پہنچايا تھوڑے ہى عرصہ

____________________

(۱) واقعہ جنگ تبوك سورہ توبہ آيت ۱۱۷ كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

۶۱۶

ميں تيس ہزار افراد روميوں سے جنگ كرنے كے لئے تيار ہوگئے ان ميں دس ہزار سوار اور بيس ہزار پيادہ تھے _

موسم بہت گرم تھا، غلے كے گودام خالى تھے اس سال كى فصل ابھى اٹھائي نہيں گئي تھى ان حالات ميں سفر كرنا مسلمانوں كے لئے بہت ہى مشكل تھا ليكن چونكہ خدا اور رسول كافرمان تھا لہذا ہر حالت ميں سفر كرنا تھا اور مدينہ اور تبوك كے درميان پرُ خطر طويل صحرا كو عبور كرنا تھا _

لشكر ى مشكلات

اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ ''جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر ) كے نام سے مشہور ہوا _

تاريخ اسلام نشاندہى كرتى ہے كہ مسلمان كبھى بھى جنگ تبوك كے موقع كى طرح مشكل صورت حال، دبائو اور زحمت ميں مبتلا نہيں ہوئے تھے كيونكہ ايك تو سفر سخت گرمى كے عالم ميں تھا دوسرا خشك سالى نے لوگوں كو تنگ اور ملول كرركھا تھا اور تيسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے كے دن تھے اور اسى پر لوگوں كى سال بھر كى آمدنى كا انحصار تھا_

ان تمام چيزوں كے علاوہ مدينہ اور تبوك كے درميان بہت زيادہ فاصلہ تھا اور مشرقى روم كى سلطنت كا انھيں سامنا تھا جو اس وقت كى سپر پاور تھي_

مزيد برآں سوارياں اور رسد مسلمانوں كے پاس اتنا كم تھا كہ بعض اوقات دوافراد مجبور ہوتے تھے كہ ايك ہى سوارى پربارى بارى سفر كريں بعض پيدل چلنے والوں كے پاس جوتاتك نہيں تھا اور وہ مجبور تھے كہ وہ بيابان كى جلانے والى ريت پرپا برہنہ چليں آب وغذا كى كمى كا يہ عالم تھا كہ بغض اوقات خرمہ كا ايك دانہ چند آدمى يكے بعد ديگرے منہ ميں ركھ كر چوستے تھے يہاں تك كہ اس كى صرف گٹھلى رہ جاتى پانى كا ايك گھونٹ كبھى چند آدميوں كو مل كر پينا پڑتا _

۶۱۷

يہ واقعہ نوہجرى يعنى فتح مكہ سے تقريبا ايك سال بعد رونماہوا _مقابلہ چونكہ اس وقت كى ايك عالمى سوپر طاقت سے تھا نہ كہ عرب كے كسى چھوٹے بڑے گروہ سے لہذا بعض مسلمان اس جنگ ميں شركت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال ميں منافقين كے زہريلے پر وپيگنڈے اور وسوسوں كے لئے ماحول بالكل ساز گار تھا اور وہ بھى مومنين كے دلوں اور جذبات كوكمزور كرنے ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہيں كررہے تھے _

پھل اتارنے اور فصل كاٹنے كا موسم تھا جن لوگوں كى زندگى تھوڑى سى كھيتى باڑى اور كچھ جانور پالنے پر بسر ہوتى تھى يہ ان كى قسمت كے اہم دن شمار ہوتے تھے كيونكہ ان كى سال بھر كى گزر بسر انہيں چيزوں سے وابستہ تھےں _

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں مسافت كى دورى اور موسم كى گرمى بھى روكنے والے عوامل كى مزيد مدد كرتى تھى اس موقع پر آسمانى وحى لوگوں كى مدد كے لئے آپہنچى اور قرآنى آيات يكے بعد ديگر ے نازل ہوئيں اور ان منفى عوامل كے سامنے آكھڑى ہوئيں _

تشويق ، سرزنش، اور دھمكى كى زبان

قرآن جس قدر ہوسكتى ہے اتنى سختى اور شدت سے جہاد كى دعوت دتياہے _ كبھى تشويق كى زبان سے كبھى سرزنش كے لہجے ميں اوركبھى دھمكى كى زبان ميں ان سے بات كرتا ہے،اور انہيں آمادہ كرنے كے لئے ہر ممكن راستہ اختيار كرتا ہے_ پہلے كہتا ہے:'' كہ خدا كى راہ ميں ،ميدان جہاد كى طرف حركت كرو تو تم سستى كا مظاہرہ كرتے ہو اور بوجھل پن دكھاتے ہو ''_(۱)

اس كے بعد ملامت آميز لہجے ميں قرآن كہتا ہے : ''آخرت كى وسيع اور دائمى زندگى كى بجائے اس دنياوى پست اور ناپائيدار زندگى پر راضى ہوگئے ہو حالانكہ دنياوى زندگى كے فوائد اور مال ومتاع آخرت كى زندگى كے مقابلے ميں كوئي حيثيت نہيں ركھتے اور بہت ہى كم ہيں ''_(۲)

____________________

(۱)سورہ توبہ آيت ۳۸

(۲)سورہ توبہ آيت ۳۸

۶۱۸

ايك عقلمند انسان ايسے گھاٹے كے سودے پر كيسے تيار ہوسكتا ہے اور كيونكہ وہ ايك نہايت گراں بہامتاع اور سرمايہ چھوڑكر ايك ناچيز اور بے وقعت متاع كى طرف جاسكتاہے _

اس كے بعد ملامت كے بجائے ايك حقيقى تہديد كا اندازاختيار كرتے ہوئے ارشاد فرمايا گيا ہے :'' اگر تم ميدان جنگ كى طرف حركت نہيں كرو گے تو خدا دردناك عذاب كے ذريعے تمہيں سزادے گا''_(۱)

''اور اگر تم گمان كرتے ہو كہ تمہارے كنارہ كش ہونے اور ميدان جہاد سے پشت پھيرنے سے اسلام كى پيش رفت رك جائے گى اور آئينہ الہى كى چمك ماند پڑجائے گى تو تم سخت اشتباہ ميں ہو ،كيونكہ خدا تمہارے بجائے ايسے صاحبان ايمان كو لے آئے گا جو عزم مصمم ركھتے ہوں گے اور فرمان خدا كے مطيع ہوں گے''_(۲)

وہ لوگ كہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہيں نہ صرف ان كى شخصيت بلكہ انكا ايمان، ارادہ،دليرى اور فرماں بردارى بھى تم سے مختلف ہے لہذا '' اس طرح تم خدا اور اس كے پاكيزہ دين كو كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتے'' _(۳)

تنہاوہ جنگ جس ميں حضرت على نے شركت نہ كي

اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكّڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ'' جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر )كے نام سے مشہور ہوا اس نے تمام سختيوں كو جھيلا اور ماہ شعبان كى ابتداء ميں ہجرت كے نويں سال سرزمين ''تبوك'' ميں پہنچا جب كہ رسول اللہ حضرت على كو اپنى جگہ پر مدينہ ميں چھوڑآئے تھے يہ واحد غزوہ ہے جس ميں حضرت على عليہ السلام شريك نہيں ہوئے _

رسول اللہ كايہ اقدام بہت ہى مناسب اور ضرورى تھا كيونكہ بہت احتمال تھا كہ بعض پيچھے رہنے

____________________

(۱) سورہ توبہ آيت ۳۹

(۲)سورہ توبہ آيت ۳۹

(۳)سور ہ توبہ آيت ۳۹

۶۱۹

والے مشركين يامنا فقين جو حيلوں بہانوں سے ميدان تبوك ميں شريك نہ ہوئے تھے، رسول اللہ اور ان كى فوج كى طويل غيبت سے فائدہ اٹھائيں اور مدينہ پر حملہ كرديں ، عورتوں اور بچوں كو قتل كرديں اور مدينہ كو تاراج كرديں ليكن حضرت على كا مدينہ ميں رہ جانا ان كى سازشوں كے مقابلے ميں ايك طاقتور ركاوٹ تھى _

بہرحال جب رسول اللہ تبوك ميں پہنچے تو وہاں آپ كو رومى فوج كا كوئي نام ونشان نظر نہ آيا عظيم سپاہ اسلام چونكہ كئي جنگوں ميں اپنى عجيب وغريب جرا ت وشجاعت كا مظاہرہ كرچكى تھي، جب ان كے آنے كى كچھ خبر روميوں كے كانوں تك پہنچى تو انھوں نے اسى كو بہتر سمجھا كہ اپنے ملك كے اندرچلے جائيں اور اس طرح سے ظاہر كريں كہ مدينہ پر حملہ كرنے كے لئے لشكر روم كى سرحدوں پر جمع ہونے كى خبر ايك بے بنياد افواہ سے زيادہ كچھ نہ تھى كيونكہ وہ ايك ايسى خطرناك جنگ شروع كرنے سے ڈرتے تھے جس كا جواز بھى ان كے پاس كوئي نہ تھا ليكن لشكر اسلام كے اس طرح سے تيز رفتارى سے ميدان تبوك ميں پہنچنے نے دشمنان اسلام كو كئي درس سكھائے، مثلاً:

۱_يہ بات ثابت ہوگئي كہ مجاہدين اسلام كا جذبہ جہاد اس قدر قوى ہے كہ وہ اس زمانے كى نہايت طاقت ور فوج سے بھى نہيں ڈرتے_

۲_ بہت سے قبائل اور اطراف تبوك كے امراء پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ كرنے كے عہدوپيمان پر دستخط كيے اس طرح مسلمان ان كى طرف سے آسودہ خاطر ہوگئے _

۳_ اسلام كى لہريں سلطنت روم كى سرحدوں كے اندر تك چلى گئيں اور اس وقت كے ايك اہم واقعہ كے طور پر اس كى آواز ہر جگہ گونجى اور روميوں كے اسلام كى طرف متوجہ ہونے كے لئے راستہ ہموار ہوگيا _

۴_ يہ راستہ طے كرنے اور زحمتوں كو برداشت كرنے سے آئندہ شام كا علاقہ فتح كرنے كے لئے راہ ہموار ہوگئي اور معلوم ہوگيا كہ آخركار يہ راستہ طے كرنا ہى ہے _

يہ عظيم فوائد ايسے تھے كہ جن كے لئے لشكر كشى كى زحمت برداشت كى جاسكتى تھى _

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667