قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 331870 / ڈاؤنلوڈ: 6112
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

ابوسفيان كى بيوى ہندہ كى بيعت كا ماجرا

فتح مكہ كے واقعہ ميں جن عورتوں نے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوكر بيعت كى ان ميں سے ايك ابو سفيان كى بيوي''ہندہ''تھي، يعنى وہ عورت جس كى طرف سے تاريخ اسلام بہت سے دردناك واقعات محفوظ ركھے ہوئے ہے،ا ن ميں سے ايك ميدان احد ميں حمزہ سيدالشہداء (ع) كى شہادت كا واقعہ ہے كہ جس كى كيفيت بہت ہى غم انگيز ہے _

اگرچہ آخركاروہ مجبور ہوگئي كہ اسلام اور پيغمبر اسلام (ص) كے سامنے گھٹنے ٹيك دے او رظاہراً مسلمان ہو جائے ليكن اسكى بيعت كا ماجرا بتاتا ہے كہ وہ حقيقت ميں اپنے سابقہ عقائد كى اسى طرح وفادار تھى ،لہذا اس ميں تعجب كى كوئي بات نہيں ہے كہ بنى اميہ كا خاندان اور ہندہ كى اولادنے پيغمبر (ص) كے بعد اس قسم كے جرائم كا ارتكاب كيا كہ جن كى سابقہ زمانہ ميں كوئي نظير نہيں ملتى _

بہر حال مفسرين نے اس طرح لكھا ہے كہ ہند ہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا تھا وہ پيغمبر (ص) كى خدمت ميں اس وقت حاضر ہوئي جب آپ كوہ صفا پر تشريف فرما تھے اور عورتوں كى ايك جماعت ہندہ كے ساتھ تھي، جب پيغمبر (ص) نے يہ فرماياكہ ميں تم عورتوں سے اس بات پر بيعت لتيا ہوں كہ تم كسى چيز كو خدا كا شريك قرار نہيں دو گي، تو ہندہ نے اعتراض كيا او ركہا:''آپ ہم سے ايسا عہد لے رہے ہيں جو آپ نے مردوں سے نہيں ليا ، (كيونكہ اس دن مردوں سے صرف ايمان اورجہاد پربيعت لى گئي تھى _)

پيغمبر (ص) نے اس كى بات كى پرواہ كئے بغير اپنى گفتگو كو جارى فرمايا:''كہ تم چورى بھى نہيں كرو گي،''ہند ہ نے كہا: ابو سفيان كنجوس اوربخيل آدمى ہے ميں نے اس كے مال ميں سے كچھ چيزيں لى ہيں ، ميں نہيں جانتى كہ وہ انھيں مجھ پر حلال كرے گا يا نہيں ابو سفيان موجود تھا ،اس نے كہا: جو كچھ تو نے گذشتہ زمانہ ميں ميرے مال ميں سے لے ليا ہے وہ سب ميں نے حلال كيا ،(ليكن آئندہ كے لئے پابندى كرنا _)

اس موقع پر پيغمبر (ص) ہنسے اور ہندہ كو پہچان كر فرمايا:''كيا تو ہندہ ہے''؟ اس نے كہا :جى ہاں ،يا

۶۰۱

رسول اللہ پچھلے امور كو بخش ديجئے خدا آپ كو بخشے ''_

پيغمبر (ص) نے اپنى گفتگو كو جارى ركھا:''او رتم زنا سے آلودہ نہيں ہوگي،''ہندہ نے تعجب كرتے ہوئے كہا:''كيا آزاد عورت اس قسم كا عمل بھى انجام ديتى ہے؟''حاضرين ميں سے بعض لوگ جو زمانہ جاہليت ميں اس كى حالت سے واقف تھے اس كى اس بات پر ہنس پڑے كيونكہ ہندہ كا سابقہ زمانہ كسى سے مخفى نہيں تھا_

پھر پيغمبر (ص) نے اپنى بات كو جارى ركھتے ہوئے فرمايا:

''اور تم اپنى اولاد كو قتل نہيں كروگى ''_

ہند نے كہا:''ہم نے تو انھيں بچپن ميں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے ہوئے تو آپ نے انھيں قتل كرديا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ہيں ''_( اس كى مراد اس كا بيٹا ''حنظلہ''تھا جو بدر كے دن على عليہ السلام كے ہاتھوں ماراگيا تھا_)

پيغمبر (ص) نے اس كى اس بات پر تبسم فرمايا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمايا:

''تم بہتان او رتہمت كو روا نہيں ركھوگى ''_

تو ہندہ نے كہا:''بہتان قبيح ہے او رآپ ہميں صلاح و درستى ،نيكى او رمكارم اخلاق كے سوا او ركسى چيز كى دعوت نہيں ديتے''_

جب آپ نے يہ فرمايا:

''تم تمام اچھے كاموں ميں ميرے حكم كى اطاعت كروگى ''_تو ہندہ نے كہا:''ہم يہاں اس لئے نہيں بيٹھے ہيں كہ ہمارے دل ميں آپ كى نافرمانى كاارادہ ہو''_

(حالانكہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نہيں تھا، ليكن تعليمات اسلامى كے مطابق پيغمبر (ص) اس بات كے پابند تھے كہ ان كے بيانات كو قبول كرليں _

۶۰۲

۱۰ حضرت رسول اكرم (ص)

پيغمبر (ص) كے خطوط دنيا كے بادشاہوں كے نام

تاريخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے كہ جب سرزمين حجاز ميں اسلام كافى نفوذ كرچكا تو پيغمبراكرم(ص) نے اس زمانے كے بڑے بڑے حكمرانوں كے نام كئي خطوط روانہ كيے _ ان ميں بعض خطوط ميں كا سہارا ليا گيا ہے ،جس ميں آسما نى اديان كى قدر مشترك كا تذكرہ ہے_

مقوقس(۱)

كے نام خط مقوقس مصر كا حاكم تھا پيغمبر اسلام (ص) نے دنيا كے بڑے بڑے بادشاہوں او رحكام كو خطوط لكھے او رانہيں اسلام كى طرف دعوت دي،حاطب بن ابى بلتعہ كو حاكم مصر مقوقس كى طرف يہ خط دے كرروانہ كيا_

بسم اللّه الرحمن الرحيم

من: محمد بن عبداللّه

الي: المقوقس عظيم القبط

سلام على من اتبع الهدى ،اما بعد:''فانى ادعوك بدعايةالاسلام

اسلم تسلم،يو تك اللّه اجرك مرتين، فان توليت فانما عليكم اثم

____________________

(۱)''مقوقس''(بہ ضم ميم وبہ فتحہ ہردو ''قاف'')''ہرقل ''بادشاہ روم كى طرف سے مصر كا والى تھا_

۶۰۳

القبط ، . يا اهل الكتب تعالواالى كلمة سواء بيننا و بينكم'' ان لا نعبد الا اللّه ولا نشرك به شيئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّه ،فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون'' _

اللہ كے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے _

از _ _ _ محمد بن عبد اللہ

بطرف_ _ _ قبطيوں كے مقوقس بزرگ _

حق كے پيروكاروں پر سلام ہو_

ميں تجھے اسلام كى دعوت ديتا ہوں _ اسلام لے آئو تاكہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ايك خود تمہارے ايمان لانے پر اوردوسراان لوگوں كى وجہ سے جو تمہارى پيروى كركے ايمان لائيں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى كى تو قبطيوں كے گناہ تيرے ذمہ ہوں گے __اے اہل كتاب ہم تمہيں ايك مشترك بنيادكى طرف دعوت ديتے ہيں او روہ يہ كہ ہم خدائے يگانہ كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں حق سے روگردانى نہ كريں تو ان سے كہو كہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہيں ''_

پيغمبر (ص) كا سفير مصر كى طرف روانہ ہوا، اسے اطلاع ملى كہ حاكم مصر اسكندريہ ميں ہے لہذا وہ اس وقت كے ذرائع آمد ورفت كے ذريعے اسكندريہ پہنچا او رمقوقس كے محل ميں گيا، حضرت كا خط اسے ديا ، مقوقس نے خط كھول كر پڑھا كچھ دير تك سوچتا رہا، پھر كہنے لگا:''اگر واقعاً محمد(ص) خدا كا بھيجا ہوا ہے تو اس كے مخالفين اسے اس كى پيدائش كى جگہ سے باہر نكالنے ميں كيوں كامياب ہوئے او روہ مجبور ہوا كہ مدينہ ميں سكونت اختيار كرے؟ ان پر نفرين او ربد دعا كيوں نہيں كى تاكہ وہ نابود ہو جاتے؟''

پيغمبر (ص) كے قاصد نے جواباً كہا:

''حضرت عيسى عليہ السلام خدا كے رسول تھے اور آپ بھى ان كى حقانيت كى گواہى ديتے ہيں ، بنى اسرائيل نے جب ان كے قتل كى سازش كى توآپ نے ان پر نفرين اور بد دعا كيوں نہيں كى تاكہ خدا انہيں

۶۰۴

ہلاك كرديتا؟

يہ منطق سن كر مقو قس تحسين كرنے لگا اور كہنے لگا :

''احسنت انت حكيم من عند حكيم ''

''افرين ہے ،تم سمجھ دار ہو اور ايك صاحب حكمت كى طرف سے ائے ہو ''

حاطب نے پھر گفتگو شروع كى اور كہا :

''اپ سے پہلے ايك شخص (يعنى فرعون )اس ملك پر حكومت كرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں ميں اپنى خدائي كا سودا بيچتا رہا ،بالاخر اللہ نے اسے نابود كر ديا تاكہ اس كى زندگى اپ كے لئے باعث عبرت ہو ليكن اپ كوشش كريں كہ اپ كى زندگى دوسروں كے لئے نمونہ بن جائے''_

''پيغمبر (ص) نے ہميں ايك پاكيزہ دين كى طرف دعوت دى ہے ، قريش نے ان سے بہت سخت جنگ كى او ران كے مقابل صف آراء ہوئے، يہودى بھى كينہ پرورى سے ان كے مقابلے ميں آكھڑے ہوئے او راسلام سے زيادہ نزديك عيسائي ہيں _ ''

مجھے اپنى جان كى قسم جيسے حضرت موسى عليہ السلام نے حضرت عيسى عليہ السلام كى نبوت كى بشارت دى تھى اس طرح حضرت عيسى عليہ السلام حضرت محمد كے مبشر تھے ، ہم آپ لوگوں نے تو ريت كے ماننے والوں كو انجيل كى دعوت دى تھى ،جوقوم پيغمبرحق كى دعوت كو سنے اسے چاہئے كہ اس كى پيروى كرے ،ميں نے محمد كى دعوت آپ كى سرزمين تك پہنچادى ہے، مناسب يہى ہے كہ آپ او رمصرى قوم يہ دعوت قبول كر لے''_

حاطب كچھ عرصہ اسكندريہ ہى ميں ٹھہرا تاكہ رسول اللہ (ص) كے خط كا جواب حاصل كرے ،چند روز گزر گئے، ايك دن مقوقس نے حاطب كو اپنے محل ميں بلايا او رخواہش كى كہ اسے اسلام كے بارے ميں كچھ مزيد بتايا جائے_

حاطب نے كہا:

''محمد (ص) ہميں خدانے يكتا ئي پرستش كى دعوت ديتے ہيں او رحكم ديتے ہيں كہ لوگ روزوشب

۶۰۵

ميں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قريبى رابطہ پيدا كريں او رنماز پڑھيں ،پيمان پورے كريں ،خون او رمردار كھانے سے اجتناب كريں ''_

علاوہ ازيں حاطب نے پيغمبر اسلام (ص) كى زندگى كى بعض خصوصيات بھى بيان كيں _

مقوقس كہنے لگا:

''يہ تو بڑى اچھى نشانياں ہيں _ ميرا خيال تھا كہ خاتم النبيين سرزمين شام سے ظہور كريں گے جو انبياء عليہم السلام كى سرزمين ہے،اب مجھ پر واضح ہوا كہ وہ سر زمين حجاز سے مبعوث ہوئے ہيں ''_

اس كے بعد اس نے اپنے كاتب كو حكم ديا كہ وہ عربى زبان ميں اس مضمون كا خط تحرير كرے:

بخدمت : محمد بن عبد اللہ _

منجانب: قبطيوں كے بزرگ مقوقس _

''آپ پر سلام ہو،ميں نے آپ كاخط پڑھا ،آپ كے مقصد سے باخبر ہوااو رآپ كى دعوت كى حقيقت كو سمجھ ليا،ميں يہ تو جانتا تھا كہ ايك پيغمبر (ص) ظہور كرے گا ليكن ميرا خيال تھا كہ وہ خطہ شام سے مبعوث ہوگا، ميں آ پ كے قاصد كا احترام كرتا ہوں ''_

پھر خط ميں ان ہديوں اور تحفوں كى طرف اشارہ كيا جواس نے آپ كى خدمت ميں بھيجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام كيا_

''آپ پر سلام ہو''

تاريخ ميں ہے كہ مقوقس نے كوئي گيارہ قسم كے ہديے پيغمبر (ص) كے لئے بھيجے ، تاريخ اسلام ميں ان كى تفصيلات موجود ہيں ،ان ميں سے ايك طبيب تھا تاكہ وہ بيما ر ہونے والے مسلمانوں كا علاج كرے، نبى اكرم (ص) نے ديگر ہديئے قبول فرمايائے ليكن طبيب كو قبول نہ كيا او رفرمايا:''ہم ايسے لوگ ہيں كہ جب تك بھوك نہ لگے كھانا نہيں كھاتے او رسير ہونے سے پہلے كھانے سے ہاتھ روك ليتے ہيں ، يہى چيز ہمارى صحت و سلامتى كے لئے كافى ہے، شايد صحت كے اس عظيم اصول كے علاوہ پيغمبر اسلام (ص) اس طبيب كى وہاں

۶۰۶

موجودگى كو درست نہ سمجھتے ہوں كيونكہ وہ ايك متعصب عيسائي تھا لہذا آپ نہيں چاہتے تھے كہ اپنى او رمسلمانوں كى جان كا معاملہ اس كے سپرد كرديں _

مقوقس نے جو سفير پيغمبر (ص) كا احترام كيا،آپ كے لئے ہديے بھيجے او رخط ميں نام محمد اپنے نام سے مقدم ركھا يہ سب اس بات كى حكايت كرتے ہيں كہ اس نے آپ كى دعوت كو باطن ميں قبول كرليا تھا يا كم از كم اسلام كى طر ف مائل ہوگيا تھا ليكن اس بناء پركہ اس كى حيثيت او روقعت كو نقصان نہ پہنچے ظاہرى طو رپراس نے اسلام كى طرف اپنى رغبت كا اظہار نہ كيا _

قيصر روم كے نام خط

بسم اللّه الرحمن الرحيم

من:محمد بن عبداللّه

الي: هرقل عظيم الرّوم

سلام على من اتبع الهدى

اما بعد:فانى ادعوك بدعايةالاسلام_

اسلم تسلم،يو تك اللّه اجرك مرتين، فان توليت فانما عليكم اثم القبط،___يا اهل الكتب تعالواالى كلمة سواء بيننا و بينكم'' ان لا نعبد الا اللّه ولا نشرك به شيئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّه ،فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون'' _

اللہ كے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے_

منجانب: محمدبن عبد اللہ _

۶۰۷

بطرف: ہرقل بادشاہ روم_

''اس پر سلام ہے جو ہدايت كى پيروى كرے_ميں تجھے اسلام كى دعوت ديتا ہوں _ اسلام لے آئو تاكہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ايك خود تمہارے ايمان لانے پر اوردوسراان لوگوں كى وجہ سے جو تمہارى پيروى كركے ايمان لائيں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى كى تو اريسوں كا گناہ بھى تيرى گردن پر ہوگا_اے اہل كتاب ہم تمہيں ايك مشترك بنيادكى طرف دعوت ديتے ہيں او روہ يہ كہ ہم خدائے يگانہ كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں حق سے روگردانى نہ كريں تو ان سے كہو كہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہيں ''_

قيصر كے پاس نبى اكرم (ص) كا پيغام پہنچانے كے لئے ''دحيہ كلبي'' مامور ہوا سفيرپيغمبر(ص) عازم روم ہوا_

قيصركے دارالحكومت قسطنطنيہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہوا كہ قيصربيت المقدس كى زيارت كے ارادے سے قسطنطنيہ چھوڑ چكا ہے، لہذا اس نے بصرى كے گور نر حادث بن ابى شمر سے رابطہ پيداكيا اور اسے اپنامقصد سفر بتايا ظاہراً پيغمبر اكرم (ص) نے بھى اجازت دے ركھى تھى كہ دحيہ وہ خط حاكم بصرى كو ديدے تاكہ وہ اسے قيصرتك پہنچادے سفير پيغمبر (ص) نے گورنر سے رابطہ كيا تو اس نے عدى بن حاتم كو بلايا اور اسے حكم ديا كہ وہ دحيہ كے ساتھ بيت المقدس كى طرف جائے اور خط قيصر تك پہنچا دے مقام حمص ميں سفير كى قيصر سے ملاقات ہوئي ليكن ملاقات سے قبل شاہى دربار كے كاركنوں نے كہا:

''تمہيں قيصر كے سامنے سجدہ كرنا پڑے گا ورنہ وہ تمہارى پرواہ نہيں كرے گا ''

دحيہ ايك سمجھدار آدمى تھا كہنے لگا :

''ميں ان غير مناسب بدعتوں كوختم كرنے كے لئے اتنا سفر كر كے آيا ہوں _ ميں اس مراسلے كے بھيجنے والے كى طرف سے آيا ہوں تا كہ قيصر كو يہ پيغام دوں كہ بشر پرستى كو ختم ہونا چاہئے او رخدا ئے واحد كے سواكسى كى عبادت نہيں ہونى چاہيے ، اس عقيدے كے باوجود كيسے ممكن ہے كہ ميں غير خدا كے لئے سجدہ

۶۰۸

كروں ''_

پيغمبر (ص) كے قاصد كى قوى منطق سے وہ بہت حيران ہوئے ،درباريوں ميں سے ايك نے كہا:

''تمہيں چاہئے كہ خط بادشاہ كى مخصوص ميز پر ركھ كر چلے جائو، اس ميز پر ركھے ہوئے خط كو قيصر كے علاوہ كوئي نہيں اٹھا سكتا''_

دحيہ نے اس كا شكريہ اداكيا ،خط ميز پر ركھا اورخودواپس چلا گيا،قيصر نے خط كھولا ،خط نے جو''بسم اللہ'' سے شروع ہوتا تھا اسے متوجہ كيا اور كہنے لگا_

''حضرت سليمان عليہ السلام كے خط كے سوا آج تك ميں نے ايسا خط نہيں ديكھا ''

اس نے اپنے مترجم كو بلايا تا كہ وہ خط پڑھے او راس كا ترجمہ كرے ،بادشاہ روم كو خيال ہوا كہ ہو سكتا ہے خط لكھنے والا وہى نبى ہو جس كاوعدہ انجيل او رتوريت ميں كيا گيا ہے، وہ اس جستجو ميں لگ گيا كہ آپ كى زندگى كى خصوصيات معلوم كرے، اس نے حكم ديا كہ شام كے پورے علاقے ميں چھان بين كى جائے،شايد محمد كے رشتہ داروں ميں سے كوئي شخص مل جائے جو ان كے حالات سے واقف ہو ،اتفاق سے ابوسفيان او رقريش كا ايك گروہ تجارت كے لئے شام آيا ہوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم كامشرقى حصہ تھا، قيصر كے آدميوں نے ان سے رابطہ قائم كيا او رانہيں بيت المقدس لے گئے،قيصر نے ان سے سوال كيا :

كيا تم ميں سے كوئي محمد كا نزديكى رشتہ دار ہے ؟

ابو سفيان نے كہا :

ميں اور محمد ايك ہى خاندان سے ہيں او رہم چوتھى پشت ميں ايك درسرے سے مل جاتے ہيں _

پھرقيصر نے اس سے كچھ سوالات كئے دونوں ميں يوں گفتگو ہوئي''

قيصر: اس كے بزرگوں ميں سے كوئي حكمران ہوا ہے؟

ابوسفيان: نہيں _

قيصر: كيا نبوت كے دعوى سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب كرتا تھا؟

۶۰۹

ابوسفيان: ہاں محمد راست گو او رسچا انسان ہے_

قيصر: كونسا طبقہ اس كا مخالف ہے اور كونسا موافق؟

ابوسفيان: اشراف اس كے مخالف ہيں ، عام او رمتوسط درجے كے لوگ اسے چاہتے ہيں _

قيصر: اس كے پيروكاروں ميں سے كوئي اس كے دين سے پھرا بھى ہے؟

ابوسفيان: نہيں _

قيصر: كيا اس كے پيروكار روز بروز بڑھ رہے ہيں ؟

ابوسفيان:ہاں _

اس كے بعد قيصر نے ابوسفيان او راس كے ساتھيوں سے كہا:

''اگر يہ باتيں سچى ہيں تو پھر يقينا وہ پيغمبر موعود ہيں ، مجھے معلوم تھا كہ ايسے پيغمبر كا ظہور ہوگا ليكن مجھے يہ پتہ نہ تھا كہ وہ قريش ميں سے ہوگا، ميں تيار ہوں كہ اس كے لئے خضوع كروں او راحترام كے طور پر اس كے پائوں دھوو ں ،ميں پيش گوئي كرتا ہوں كہ اس كا دين او رحكومت سرزمين روم پر غالب آئے گي''_

پھر قيصر نے دحيہ كو بلايا او راس سے احترام سے پيش آيا، پيغمبر اكرم (ص) كے خط كا جواب لكھا او رآپ كے لئے دحيہ كے ذريعے ہديہ بھيجااورآپ كے نام اپنے خط ميں آپ سے اپنى عقيدت او رتعلق كا اظہار كيا_

يہ بات جاذب نظر ہے كہ جس وقت پيغمبرا كرم (ص) كا قاصد آنحضرت(ص) كا خط لے كر قيصر روم كے پاس پہونچا تو اس نے خصوصيت كے ساتھ آپ كے قاصد كے سامنے اظہار ايمان كيا يہاں تك كہ وہ روميوں كو اس دين توحيد و اسلام كى دعوت دينا چاہتا تھا، اس نے سوچا كہ پہلے ان كى آزمائش كى جائے، جب اس كى فوج نے محسوس كيا كہ وہ عيسائيت كو ترك كردينا چاہتا ہے تو اس نے اس كے قصر كا محاصرہ كرليا، قيصر نے ان سے فوراً كہا كہ ميں تو تمہيں آزمانا چاہتا تھا اپنى جگہ واپس چلے جائو_

۶۱۰

جنگ ذات السلاسل

ہجرت كے آٹھويں سال پيغمبراكرم (ص) كو خبر ملى كہ بارہ ہزار سوار سرزمين ''يابس''ميں جمع ہيں ، اور انہوں نے ايك دوسرے كے ساتھ يہ عہد كيا ہے كہ جب تك پيغمبراكرم (ص) او رعلى عليہ السلام كو قتل نہ كرليں او رمسلمانوں كى جماعت كو منتشر نہ كرديں آرام سے نہيں بيٹھيں گے _ پيغمبر اكرم (ص) نے اپنے اصحاب كى ايك بہت بڑى جماعت كو بعض صحابہ كى سركردگى ميں ان كى جانب روانہ كيا ليكن وہ كافى گفتگو كے بعد بغير كسى نتيجہ كے واپس آئے_

آخر كار پيغمبر اكرم (ص) نے على عليہ السلام كو مہاجرين وانصار كے ايك گروہ كثير كے ساتھ ان سے جنگ كرنے كے لئے بھيجا، وہ بڑى تيزى كے ساتھ دشمن كے علاقہ كى طرف روانہ ہوئے او ررات بھر ميں سارا سفر طے كر كے صبح دم دشمن كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا، پہلے تو ان كے سامنے اسلام كو پيش كيا، جب انہوں نے قبول نہ كيا تو ابھى فضا تاريك ہى تھى كہ ان پر حملہ كرديا اور انہيں درھم برھم كر كے ركھ ديا،ان ميں سے كچھ لوگوں كو قتل كيا ، ان كى عورتوں اور بچوں كو اسير كرليا او ربكثرت مال غنيمت كے طور پر حاصل كيا_

سورہ ''والعاديات''نازل ہوئي حالانكہ ابھى سربازان اسلام مدينہ كى طرف لو ٹ كر نہيں آئے تھے ،پيغمبر خدا (ص) اس دن نماز صبح كے لئے آئے تو اس سورہ كى نماز ميں تلاوت كي،نمازكے بعد صحابہ نے عرض كيا، يہ تو ايسا سورہ ہے جسے ہم نے آج تك سنا نہيں ہے_ آپ نے فرمايا: ہاں على عليہ السلام دشمنوں پر فتح ياب ہوئے ہيں اور جبرئيل نے گزشتہ رات يہ سورہ لاكر مجھے بشارت دى ہے_ كچھ دن كے بعد على عليہ السلام غنائم او رقيديوں كے ساتھ مدينہ ميں وارد ہوئے_(۱)

____________________

(۱)بعض كا نظريہ يہ ہے كہ يہ واقعہ اس سورہ كے واضح مصاديق ميں سے ايك ہے،يہ اس كا شان نزول نہيں ہے_

۶۱۱

جنگ حنين(۱)

اس جنگ كى ابتداء يوں ہوئي كہ جب ''ہوازن'' جو بہت بڑا قبيلہ تھا اسے فتح مكہ كى خبر ہوئي تو اس كے سردار مالك بن عوف نے افراد قبيلہ كو جمع كيا او ران سے كہا كہ ممكن ہے فتح مكہ كے بعد محمد ان سے جنگ كے لئے اٹھ كھڑے ہو، كہنے لگے كہ مصلحت اس ميں ہے كہ اس سے قبل كہ وہ ہم سے جنگ كرے ہميں قدم آگے بڑھا نا چاہئے _

رسول اللہ (ص) كو يہ اطلاع پہونچى تو آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ سر زمين ہوازن كى طرف چلنے كو تيار ہو جائيں _

۱ ہجرى رمضان المبارك كے آخرى دن تھے يا شوال كا مہينہ تھا كہ قبيلہ ہوازن كے افراد سردار ''مالك بن عوف ''كے پاس جمع ہوئے اور اپنا مال ، اولاد او رعورتيں بھى اپنے ساتھ لے آئے تاكہ مسلمانوں سے جنگ كرتے دقت كسى كے دماغ ميں بھاگنے كا خيال نہ آئے،اسى طرح سے وہ سرزمين ''اوطاس'' ميں وارد ہوئے_

پيغمبر اسلام (ص) نے لشكر كا بڑا علم باندھ كر على عليہ السلام كے ہاتھ ميں ديا او روہ تمام افراد جو فتح مكہ كے موقع پر اسلامى فوج كے كسى دستے كے كمانڈر تھے آنحضرت (ص) كے حكم سے اسى پرچم كے نيچے حنين

____________________

(۱)ذيل آيات ۲۵ تا ۲۷ سورہ توبہ

۶۱۲

كے ميدان كى طرف روانہ ہوئے _

رسول اللہ (ص) كو اطلاع ملى كہ ''صفوان بن اميہ'' كے پاس ايك بڑى مقدار ميں زرہيں ہيں آپ نے كسى كو اس كے پاس بھيجا اور اس سے سو زرہيں عاريتاً طلب كي، صفوان نے پوچھا واقعاً عاريتاً يا غصب كے طور پر _ رسول اللہ (ص) نے فرمايا: عاريتاً ہيں اور ہم ان كے ضامن ہيں كہ صحيح و سالم واپس كريں گے _

صفوان نے زرہيں عاريتاً پيغمبر اكرم (ص) كودےديں اورخود بھى آنحضرت (ص) كے ساتھ چلا _

فوج ميں كچھ ايسے افراد تھے جنہوں نے فتح مكہ كے موقع پر اسلام قبول كيا تھا، ان كے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدين اسلام تھے جو پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ فتح مكہ كے لئے آئے تھے ، يہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتى ہے، يہ سب ميدان جنگ كى طرف چل پڑے _

دشمن كے لشكر كا مورچہ

''مالك بن عوف'' ايك مرد جرى او رہمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبيلے كو حكم ديا كہ اپنى تلواروں كے نيام توڑ ڈاليں او رپہاڑ كى غاروں ميں ، دروں كے اطراف ميں او ردرختوں كے درميان لشكر اسلام كے راستے ميں كمين گاہيں بنائيں اور جب اول صبح كى تاريكى ميں مسلمان وہاں پہنچيں تو اچانك اور ايك ہى بار ان پر حملہ كرديں اور اسے فنا كرديں _

اس نے مزيد كہا :محمد كا ابھى تك جنگجو لوگوں سے سامنا نہيں ہوا كہ وہ شكست كا مزہ چكھتا _

رسول اللہ (ص) اپنے اصحاب كے ہمراہ نماز صبح پڑھ چكے تو آپ (ص) نے حكم ديا كہ سر زمين حنين كى طرف چل پڑيں ،اس موقع پر اچانك لشكر'' ہوازن'' نے ہر طرف سے مسلمانوں پرتيروں كى بوچھار كر دي، وہ دستہ جو مقدمہ لشكر ميں تھا (اور جس ميں مكہ كے نئے نئے مسلمان بھى تھے ) بھاگ كھڑا ہوا، اس كے سبب باقى ماندہ لشكر بھى پريشان ہوكر بھاگ كھڑا ہوا _

خداوندمتعال نے اس موقع پر دشمن كے ساتھ انہيں ان كى حالت پر چھوڑ ديا او روقتى طور پر ان كى

۶۱۳

نصرت سے ہاتھ اٹھاليا كيونكہ مسلمان اپنى كثرت تعداد پر مغرور تھے، لہذا ان ميں شكست كے آثار اشكار ہوئے، ليكن حضرت على عليہ السلام جو لشكر اسلام كے علمبردار تھے وہ مٹھى بھر افراد سميت دشمن كے مقابلے ميں ڈٹے رہے او راسى طرح جنگ جارى ركھے رہے _

اس وقت پيغمبر اكرم (ص) قلب لشكر ميں تھے، رسول اللہ كے چچا عباس بنى ہاشم كے چند افراد كے ساتھ آپ (ص) كے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے، يہ كل افراد نو سے زيادہ نہ تھے دسويں ام ايمن كے فرزند ايمن تھے، مقدمہ لشكر كے سپاہى فرار كے موقع پر رسول اللہ (ص) كے پاس سے گزرے تو آنحضرت(ص) نے عباس كو جن كى آواز بلند او رزور دار تھى كو حكم ديا كہ اس ٹيلے پر جو قريب ہے چڑھ جائيں او رمسلمانوں كو پكاريں :

''يا معشر المھاجرين والانصار يا اصحاب سورةالبقرة يا اھل بيعت الشجرة الى اين تفرون ھذا رسول اللہ _ ''

اے مہاجرين وانصار اے سورہ بقرہ كے ساتھيو

اے درخت كے نيچے بيعت كرنے والوكہاں بھاگے جارہے ہو؟ رسول اللہ (ص) تو يہاں ہيں _ مسلمانوں نے جب عباس كى آواز سنى تو پلٹ آئے اور كہنے لگے:لبيك لبيك

خصوصاً لوٹ آنے والوں ميں انصار نے پيش قدمى كى او رفوج دشمن پر ہر طرف سے سخت حملہ كيا اور نصرت الہى سے پيش قدمى جارى ركھى يہاں تك كہ قبيلہ ہوازن وحشت زدہ ہوكر ہر طرف بكھر گيا، مسلمان ان كا تعاقب كررہے تھے، لشكر دشمن ميں سے تقريباً ايك سو افراد مارے گئے ،ان كے اموال غنيمت كے طور پر مسلمانوں كے ہاتھ لگے او ركچھ ان ميں سے قيدى بنا لئے گئے _

لكھا ہے كہ اس تاريخى واقعہ كے آخر ميں قبيلہ ہوازن كے نمائندے رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے او راسلام قبول كرليا،پيغمبر اكرم (ص) نے ان سے بہت محبت و الفت فرمائي، يہاں تك كہ ان كے سر براہ مالك بن عوف نے بھى اسلام قبو كر ليا، آپ (ص) نے اس كا مال او رقيدى اسے واپس كرديئےو راس كے قبيلہ كے مسلمانوں كى سردارى بھى اس كے سپرد كردى _

۶۱۴

درحققت ابتداء ميں مسلمانوں كى شكست كا اہم عامل غرور و تكبر جو كثرت فوج كى وجہ سے ان ميں پيدا ہوگيا تھا، اسكے علاوہ دو ہزا رنئے مسلمانوں كا وجود تھا جن ميں سے بعض فطرى طور پر منافق تھے ، كچھ ان ميں مال غنيمت كے حصول كے لئے شامل ہوگئے تھے او ربعض بغير كسى مقصد كے ان ميں شامل ہوگئے تھے_

نہائي كاميابى كا سبب حضرت رسول اكرم (ص) ، حضرت على عليہ السلام اور بعض اصحاب كا قيام تھا، اور پہلے والوں كا عہد و پيمان اور خدا پر ايمان اور اس كى مدد پر خاص توجہ باعث بنى كہ مسلمانوں كو اس جنگ ميں كاميابى ملي_

بھاگنے والے كون تھے ؟

اس بات پر تقريباً اتفاق ہے كہ ميدان حنين ميں سے اكثريت ابتداء ميں بھاگ گئي تھي، جو باقى رہ گئے تھے ان كى تعداد ايك روايت كے مطابق دس تھى او ربعض نے تو ان كى تعداد چار بيان كى ہے بعض نے زيادہ سے زيادہ سو افراد لكھے ہيں _

بعض مشہور روايات كے مطابق چونكہ پہلے خلفاء بھى بھاگ جانے والوں ميں سے تھے لہذا بعض اہل سنت مفسرين نے كوشش كى ہے كہ اس فرار كو ايك فطرى چيز كے طور پر پيش كيا جائے _ المنار كے مو لف لكھتے ہيں : ''جب دشمن كى طرف سے مسلمانوں پر تيروں كى سخت بوچھارہوئي توجو لوگ مكہ سے مسلمانوں كے ساتھ مل گئے تھے، اورجن ميں منافقين اورضعيف الايمان بھى تھے اور جو مال غنيمت كے لئے آگئے تھے وہ بھاگ كھڑے ہوئے اور انہوں نے ميدان ميں پشت دكھائي تو باقى لشكر بھى فطرى طور پر مضطرب او رپريشان ہوگيا وہ بھى معمول كے مطابق نہ كہ خوف و ہراس سے ،بھاگ كھڑے ہوئے اوريہ ايك فطرى بات ہے كہ اگر ايك گروہ فرار ہو جائے تو باقى بھى بے سوچے سمجھے متزلزل ہو جاتے ہيں ، لہذا ان كا فرار ہونا پيغمبر (ص) كى مدد ترك كرنے او رانہيں دشمن كے ہاتھ ميں چھوڑ جانے كے طور پر نہيں تھا كہ وہ خداكے غضب كے مستحق ہوں ، ہم اس بات كى تشريح نہيں كرتے او راس كا فيصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہيں ''_

۶۱۵

جنگ تبوك

''تبوك''(۱) كا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جہاں پيغمبر (ص) نے اپنى جنگوں ميں پيش قدمى كى _ ''تبوك''اصل ميں ايك محكم اور بلند قلعہ كا نام تھا _ جو حجاز او رشام كى سرحد پر واقع تھا اسى وجہ سے اس علاقے كو سر زمين تبوك كہتے تھے _

جزيرہ نمائے عرب ميں اسلام كے تيز رفتار نفوذ كى وجہ سے رسول اللہ (ص) كى شہرت اطراف كے تمام ممالك ميں گونجنے لگى باوجود يہ كہ وہ اس وقت حجازكى اہميت كے قائل نہيں تھے ليكن طلوع اسلام اور لشكر اسلام كى طاقت كہ جس نے حجاز كو ايك پرچم تلے جمع كرليا، نے انھيں اپنے مستقبل كے بارے ميں تشويش ميں ڈال ديا _

مشرقى روم كى سرحد حجاز سے ملتى تھى اس حكومت كو خيال ہوا كہ كہيں اسلام كى تيز رفتار ترقى كى وہ پہلى قربانى نہ بن جائے لہذا اس نے چاليس ہزار كى زبردست مسلح فوج جو اس وقت كى روم جيسى طاقتور حكومت كے شايان شان تھي' اكھٹى كى اور اسے حجاز كى سرحد پر لاكھڑا كيا يہ خبر مسافروں كے ذريعے پيغمبر اكرم (ص) كے كانوں تك پہنچى رسول اللہ (ص) نے روم اور ديگر ہمسايوں كودرس عبرت دينے كے لئے توقف كئے بغير تيارى كا حكم صادر فرماياآپ كے مناديوں نے مدينہ اور دوسرے علاقوں تك آپ(ص) كا پيغام پہنچايا تھوڑے ہى عرصہ

____________________

(۱) واقعہ جنگ تبوك سورہ توبہ آيت ۱۱۷ كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

۶۱۶

ميں تيس ہزار افراد روميوں سے جنگ كرنے كے لئے تيار ہوگئے ان ميں دس ہزار سوار اور بيس ہزار پيادہ تھے _

موسم بہت گرم تھا، غلے كے گودام خالى تھے اس سال كى فصل ابھى اٹھائي نہيں گئي تھى ان حالات ميں سفر كرنا مسلمانوں كے لئے بہت ہى مشكل تھا ليكن چونكہ خدا اور رسول كافرمان تھا لہذا ہر حالت ميں سفر كرنا تھا اور مدينہ اور تبوك كے درميان پرُ خطر طويل صحرا كو عبور كرنا تھا _

لشكر ى مشكلات

اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ ''جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر ) كے نام سے مشہور ہوا _

تاريخ اسلام نشاندہى كرتى ہے كہ مسلمان كبھى بھى جنگ تبوك كے موقع كى طرح مشكل صورت حال، دبائو اور زحمت ميں مبتلا نہيں ہوئے تھے كيونكہ ايك تو سفر سخت گرمى كے عالم ميں تھا دوسرا خشك سالى نے لوگوں كو تنگ اور ملول كرركھا تھا اور تيسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے كے دن تھے اور اسى پر لوگوں كى سال بھر كى آمدنى كا انحصار تھا_

ان تمام چيزوں كے علاوہ مدينہ اور تبوك كے درميان بہت زيادہ فاصلہ تھا اور مشرقى روم كى سلطنت كا انھيں سامنا تھا جو اس وقت كى سپر پاور تھي_

مزيد برآں سوارياں اور رسد مسلمانوں كے پاس اتنا كم تھا كہ بعض اوقات دوافراد مجبور ہوتے تھے كہ ايك ہى سوارى پربارى بارى سفر كريں بعض پيدل چلنے والوں كے پاس جوتاتك نہيں تھا اور وہ مجبور تھے كہ وہ بيابان كى جلانے والى ريت پرپا برہنہ چليں آب وغذا كى كمى كا يہ عالم تھا كہ بغض اوقات خرمہ كا ايك دانہ چند آدمى يكے بعد ديگرے منہ ميں ركھ كر چوستے تھے يہاں تك كہ اس كى صرف گٹھلى رہ جاتى پانى كا ايك گھونٹ كبھى چند آدميوں كو مل كر پينا پڑتا _

۶۱۷

يہ واقعہ نوہجرى يعنى فتح مكہ سے تقريبا ايك سال بعد رونماہوا _مقابلہ چونكہ اس وقت كى ايك عالمى سوپر طاقت سے تھا نہ كہ عرب كے كسى چھوٹے بڑے گروہ سے لہذا بعض مسلمان اس جنگ ميں شركت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال ميں منافقين كے زہريلے پر وپيگنڈے اور وسوسوں كے لئے ماحول بالكل ساز گار تھا اور وہ بھى مومنين كے دلوں اور جذبات كوكمزور كرنے ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہيں كررہے تھے _

پھل اتارنے اور فصل كاٹنے كا موسم تھا جن لوگوں كى زندگى تھوڑى سى كھيتى باڑى اور كچھ جانور پالنے پر بسر ہوتى تھى يہ ان كى قسمت كے اہم دن شمار ہوتے تھے كيونكہ ان كى سال بھر كى گزر بسر انہيں چيزوں سے وابستہ تھےں _

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں مسافت كى دورى اور موسم كى گرمى بھى روكنے والے عوامل كى مزيد مدد كرتى تھى اس موقع پر آسمانى وحى لوگوں كى مدد كے لئے آپہنچى اور قرآنى آيات يكے بعد ديگر ے نازل ہوئيں اور ان منفى عوامل كے سامنے آكھڑى ہوئيں _

تشويق ، سرزنش، اور دھمكى كى زبان

قرآن جس قدر ہوسكتى ہے اتنى سختى اور شدت سے جہاد كى دعوت دتياہے _ كبھى تشويق كى زبان سے كبھى سرزنش كے لہجے ميں اوركبھى دھمكى كى زبان ميں ان سے بات كرتا ہے،اور انہيں آمادہ كرنے كے لئے ہر ممكن راستہ اختيار كرتا ہے_ پہلے كہتا ہے:'' كہ خدا كى راہ ميں ،ميدان جہاد كى طرف حركت كرو تو تم سستى كا مظاہرہ كرتے ہو اور بوجھل پن دكھاتے ہو ''_(۱)

اس كے بعد ملامت آميز لہجے ميں قرآن كہتا ہے : ''آخرت كى وسيع اور دائمى زندگى كى بجائے اس دنياوى پست اور ناپائيدار زندگى پر راضى ہوگئے ہو حالانكہ دنياوى زندگى كے فوائد اور مال ومتاع آخرت كى زندگى كے مقابلے ميں كوئي حيثيت نہيں ركھتے اور بہت ہى كم ہيں ''_(۲)

____________________

(۱)سورہ توبہ آيت ۳۸

(۲)سورہ توبہ آيت ۳۸

۶۱۸

ايك عقلمند انسان ايسے گھاٹے كے سودے پر كيسے تيار ہوسكتا ہے اور كيونكہ وہ ايك نہايت گراں بہامتاع اور سرمايہ چھوڑكر ايك ناچيز اور بے وقعت متاع كى طرف جاسكتاہے _

اس كے بعد ملامت كے بجائے ايك حقيقى تہديد كا اندازاختيار كرتے ہوئے ارشاد فرمايا گيا ہے :'' اگر تم ميدان جنگ كى طرف حركت نہيں كرو گے تو خدا دردناك عذاب كے ذريعے تمہيں سزادے گا''_(۱)

''اور اگر تم گمان كرتے ہو كہ تمہارے كنارہ كش ہونے اور ميدان جہاد سے پشت پھيرنے سے اسلام كى پيش رفت رك جائے گى اور آئينہ الہى كى چمك ماند پڑجائے گى تو تم سخت اشتباہ ميں ہو ،كيونكہ خدا تمہارے بجائے ايسے صاحبان ايمان كو لے آئے گا جو عزم مصمم ركھتے ہوں گے اور فرمان خدا كے مطيع ہوں گے''_(۲)

وہ لوگ كہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہيں نہ صرف ان كى شخصيت بلكہ انكا ايمان، ارادہ،دليرى اور فرماں بردارى بھى تم سے مختلف ہے لہذا '' اس طرح تم خدا اور اس كے پاكيزہ دين كو كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتے'' _(۳)

تنہاوہ جنگ جس ميں حضرت على نے شركت نہ كي

اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكّڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ'' جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر )كے نام سے مشہور ہوا اس نے تمام سختيوں كو جھيلا اور ماہ شعبان كى ابتداء ميں ہجرت كے نويں سال سرزمين ''تبوك'' ميں پہنچا جب كہ رسول اللہ حضرت على كو اپنى جگہ پر مدينہ ميں چھوڑآئے تھے يہ واحد غزوہ ہے جس ميں حضرت على عليہ السلام شريك نہيں ہوئے _

رسول اللہ كايہ اقدام بہت ہى مناسب اور ضرورى تھا كيونكہ بہت احتمال تھا كہ بعض پيچھے رہنے

____________________

(۱) سورہ توبہ آيت ۳۹

(۲)سورہ توبہ آيت ۳۹

(۳)سور ہ توبہ آيت ۳۹

۶۱۹

والے مشركين يامنا فقين جو حيلوں بہانوں سے ميدان تبوك ميں شريك نہ ہوئے تھے، رسول اللہ اور ان كى فوج كى طويل غيبت سے فائدہ اٹھائيں اور مدينہ پر حملہ كرديں ، عورتوں اور بچوں كو قتل كرديں اور مدينہ كو تاراج كرديں ليكن حضرت على كا مدينہ ميں رہ جانا ان كى سازشوں كے مقابلے ميں ايك طاقتور ركاوٹ تھى _

بہرحال جب رسول اللہ تبوك ميں پہنچے تو وہاں آپ كو رومى فوج كا كوئي نام ونشان نظر نہ آيا عظيم سپاہ اسلام چونكہ كئي جنگوں ميں اپنى عجيب وغريب جرا ت وشجاعت كا مظاہرہ كرچكى تھي، جب ان كے آنے كى كچھ خبر روميوں كے كانوں تك پہنچى تو انھوں نے اسى كو بہتر سمجھا كہ اپنے ملك كے اندرچلے جائيں اور اس طرح سے ظاہر كريں كہ مدينہ پر حملہ كرنے كے لئے لشكر روم كى سرحدوں پر جمع ہونے كى خبر ايك بے بنياد افواہ سے زيادہ كچھ نہ تھى كيونكہ وہ ايك ايسى خطرناك جنگ شروع كرنے سے ڈرتے تھے جس كا جواز بھى ان كے پاس كوئي نہ تھا ليكن لشكر اسلام كے اس طرح سے تيز رفتارى سے ميدان تبوك ميں پہنچنے نے دشمنان اسلام كو كئي درس سكھائے، مثلاً:

۱_يہ بات ثابت ہوگئي كہ مجاہدين اسلام كا جذبہ جہاد اس قدر قوى ہے كہ وہ اس زمانے كى نہايت طاقت ور فوج سے بھى نہيں ڈرتے_

۲_ بہت سے قبائل اور اطراف تبوك كے امراء پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ كرنے كے عہدوپيمان پر دستخط كيے اس طرح مسلمان ان كى طرف سے آسودہ خاطر ہوگئے _

۳_ اسلام كى لہريں سلطنت روم كى سرحدوں كے اندر تك چلى گئيں اور اس وقت كے ايك اہم واقعہ كے طور پر اس كى آواز ہر جگہ گونجى اور روميوں كے اسلام كى طرف متوجہ ہونے كے لئے راستہ ہموار ہوگيا _

۴_ يہ راستہ طے كرنے اور زحمتوں كو برداشت كرنے سے آئندہ شام كا علاقہ فتح كرنے كے لئے راہ ہموار ہوگئي اور معلوم ہوگيا كہ آخركار يہ راستہ طے كرنا ہى ہے _

يہ عظيم فوائد ايسے تھے كہ جن كے لئے لشكر كشى كى زحمت برداشت كى جاسكتى تھى _

۶۲۰

بہرحال پيغمبر اكرم (ص) نے اپنى سنت كے مطابق اپنى فوج سے مشورہ كيا كہ كيا پيش قدمى جارى ركھى جائے ياواپس پلٹ جايا جائے؟

اكثريت كى رائے يہ تھي، كہ پلٹ جانا بہتر ہے اور يہى اسلامى اصولوں كى روح سے زيادہ مناسبت ركھتا تھا خصوصاً جبكہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے كى مشقت وزحمت كے باعث اسلامى فوج كے سپاہى تھكے ہوئے تھے اور ان كى جسمانى قوت مزاحمت كمزور پڑچكى تھي، رسول اللہ نے اس رائے كو صحيح قرار ديا اور لشكر اسلام مدينہ كى طرف لوٹ آيا_

ايك عظيم درس

''ابو حثيمہ ''(۱) اصحاب پيغمبر (ص) ميں سے تھا ،منافقين ميں سے نہ تھا ليكن سستى كى وجہ سے پيغمبراكرم (ص) كے ساتھ ميدان تبوك ميں نہ گيا _

اس واقعہ كو دس دن گذر گئے ،ہوا گرم او رجلانے والى تھي،ايك دن اپنى بيويوں كے پاس آيا انھوں نے ايك سائبان تان ركھا تھا ، ٹھنڈا پانى مہيا كر ركھا تھا او ربہترين كھانا تيار كر ركھا تھا، وہ اچانك غم و فكر ميں ڈوب گيا او راپنے پيشوا رسول اللہ (ص) كى ياد اسے ستانے لگى ،اس نے كہا:رسول اللہ(ص) كہ جنھوں نے كبھى كوئي گناہ نہيں كيا او رخدا ان كے گذشتہ اور آئندہ كا ذمہ دار ہے ،بيابان كى جلا ڈالنے والى ہوائوں ميں كندھے پر ہتھيار اٹھائے اس دشوار گذار سفر كى مشكلات اٹھارہے ہيں او رابو حثيمہ كو ديكھو كہ ٹھنڈے سائے ميں تيار كھانے اور خوبصورت بيويوں كے پاس بيٹھا ہے ،كيا يہ انصاف ہے ؟

اس كے بعد اس نے اپنى بيويوں كى طرف رخ كيا او ركہا:

خدا كى قسم تم ميں سے كسى كے ساتھ ميں بات نہ كروں گا او رسائبان كے نيچے نہيں بيٹھوں گا جب تك

____________________

(۱)يہ شخص انہيں افراد ميں سے تھا جن كے بارے ميں كہا جاتا ہے كہ سورہ توبہ آيت۱۱۷/نازل ہوئي _

۶۲۱

پيغمبر (ص) سے نہ جاملوں _

يہ بات كہہ كر اس نے زادراہ ليا ،اپنے اونٹ پر سوار ہوااور چل كھڑا ہوا ،اس كى بيويوں نے بہت چاہا كہ اس سے بات كريں ليكن اس نے ايك لفظ نہ كہا او راسى طرح چلتا رہا يہاں تك كہ تبوك كے قريب جا پہنچا _

مسلماان ايك دوسرے سے كہنے لگے :يہ كوئي سوار ہے جو سڑك سے گذررہا ہے، ليكن پيغمبر اكرم(ص) نے فرمايا:اے سوار تم ابو حثيمہ ہو تو بہتر ہے_

جب وہ قريب پہنچا او رلوگوں نے اسے پہچان ليا تو كہنے لگے : جى ہاں ; ابو حثيمہ ہے _

اس نے اپنا اونٹ زمين پر بٹھايا او رپيغمبراكرم (ص) كى خدمت ميں سلام عرض كيا او راپنا ماجرابيان كيا _

رسول اللہ (ص) نے اسے خوش آمديد كہا اور اس كے حق ميں دعا فرمائي _

اس طرح وہ ايك ايسا شخص تھا جس كا دل باطل كى طرف مائل ہوگيا تھا ليكن اس كى روحانى آمادگى كى بنا ء پر خدا نے اسے حق كى طرف متوجہ كيا اور ثبات قدم بھى عطا كيا _

جنگ تبوك ميں شركت نہ كرنے والے تين لوگ

مسلمانوں ميں سے تين افراد كعب بن مالك ،مرارہ بن ربيع او ربلال بن اميہ نے جنگ تبوك ميں شركت نہ كى او رانھوں نے پيغمبر خدا (ص) كے ہمراہ سفر نہ كيا وہ منافقين ميں شامل نہيں ہو نا چاہتے تھے بلكہ ايسا انھوں نے سستى اور كاہلى كى بنا پر كيا تھا،تھوڑا ہى عرصہ گذرا تھا كہ وہ اپنے كئے پر نادم اور پشيمان ہوگئے_

جب رسول اللہ (ص) ميدان تبوك سے مدينہ لوٹے تو وہ آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور معذرت كى ليكن رسول اللہ(ص) نے ان سے ايك لفظ تك نہ كہا اور مسلمانوں كو بھى حكم ديا كہ كوئي شخص ان سے بات چيت نہ كرے وہ ايك عجيب معاشرتى دبائو كا شكار ہوگئے يہاں تك كہ ان كے چھوٹے بچے او رعورتيں رسول اللہ (ص) كے پاس آئيں او راجازت چاہى كہ ان سے الگ ہو جائيں ،آپ (ص) نے

۶۲۲

انھيں عليحدگى كى اجازت تو نہ دى ليكن حكم ديا كہ ان كے قريب نہ جائيں ،مدينہ كى فضااپنى وسعت كے باوجود ان پر تنگ ہو گئي ،وہ مجبور ہوگئے كہ اتنى بڑى ذلت اوررسوائي سے نجات حاصل كرنے كے لئے شہر چھوڑديں اوراطراف مدينہ كے پہاڑوں كى چوٹى پر جاكر پناہ ليں _

جن باتوں نے ان كے جذبات پر شديد ضرب لگائي ان ميں سے ايك يہ تھى كہ كعب بن مالك كہتا ہے :ميں ايك دن بازار مدينہ ميں پريشانى كے عالم ميں بيٹھا تھاكہ ايك شامى عيسائي مجھے تلاش كرتا ہوا آيا، جب اس نے مجھے پہچان ليا تو بادشاہ غسان كى طرف سے ايك خط ميرے ہاتھ ميں ديا ، اس ميں لكھاتھا كہ اگر تيرے ساتھى نے تجھے دھتكارديا ہے تو ہمارى طرف چلے آئو، ميرى حالت منقلب اور غير ہوگئي ،اور ميں نے كہا وائے ہو مجھ پر ميرا معاملہ اس حد تك پہنچ گيا ہے كہ دشمن ميرے بارے ميں لالچ كرنے لگے ہيں ، خلاصہ يہ كہ ان كے اعزا ء واقارب ان كے پاس كھانالے آتے مگر ان سے ايك لفظ بھى نہ كہتے ،كچھ مدت اسى صورت ميں گزر گئي او روہ مسلسل انتظار ميں تھے كہ اس كى توبہ قبول ہو اوركوئي آيت نازل ہو جو ان كى توبہ كى دليل بنے ، مگر كوئي خبر نہ تھى _

اس دوران ان ميں سے ايك كے ذہن ميں يہ بات آئي او راس نے دوسروں سے كہا اب جبكہ لوگوں نے ہم سے قطع تعلق كر ليا ہے ،كيا ہى بہتر ہے كہ ہم بھى ايك دوسرے سے قطع تعلق كرليں (يہ ٹھيك ہے كہ ہم گنہ گار ہيں ليكن مناسب ہے كہ دوسرے گنہ گار سے خوش او رراضى نہ ہوں )_

انھوں نے ايسا ہى كيا يہاں تك كہ ايك لفظ بھى ايك دوسرے سے نہيں كہتے تھے اوران ميں سے كوئي ايك دوسرے كے ساتھ نہيں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوں نے توبہ وزارى كى او رآخر كار ان كى توبہ قبول ہوگئي _(۱)

____________________

(۱)سورہ توبہ:آيت ۱۱۸_ اس سلسلے ميں نازل ہوئي ہے

۶۲۳

مسجد ضرار(۱)

كچھ منافقين رسول اللہ (ص) كے پاس آئے او رعرض كيا، ہميں اجازت ديجيئے كہ ہم قبيلہ ''بنى سالم'' كے درميان''مسحد قبا''كے قريب ايك مسجد بناليں تاكہ ناتواں بيمار اور بوڑھے جو كوئي كام نہيں كرسكتے اس ميں نماز پڑھ ليا كريں _ اسى طرح جن راتوں ميں بارش ہوتى ہے ان ميں جو لوگ آپ(ص) كى مسجد ميں نہيں آسكتے اپنے اسلامى فريضہ كو اس ميں انجام دے ليا كريں _

يہ اس وقت كى بات ہے جب پيغمبر خد (ص) جنگ تبوك كا عزم كرچكے تھے آنحضرت(ص) نے انھيں اجازت دےدي_

انھوں نے مزيد كہا: كيا يہ بھى ممكن ہے كہ آپ(ص) خود آكر اس ميں نماز پڑھيں ؟نبى اكرم(ص) نے فرمايا: اس وقت تو ميں سفر كا ارادہ كر چكا ہوں البتہ واپسى پر خدا نے چاہا تو اس مسجد ميں آكر نماز پڑھوں گا_

جب آپ(ص) جنگ تبوك سے لوٹے تو يہ لوگ آپ(ص) كے پاس آئے اور كہنے لگے ہمارى درخواست ہے كہ آپ(ص) ہمارى مسجد ميں آكر اس ميں نماز پڑھائيں اورخدا سے دعا كريں كہ ہميں بركت دے _

يہ اس وقت كى بات ہے جب ابھى آنحضرت(ص) مدينہ كے دروازے ميں داخل نہيں ہوئے تھے اس وقت وحى خدا كا حامل فرشتہ نازل ہوا اور خدا كى طرف سے پيغام لايا او ران كے كرتوت سے پردہ اٹھايا_

____________________

(۱)مسجد ضرار كے سلسلے ميں سورہ توبہ ۱۰۷ تا۱۱۰ ميں بيان ہوا ہے

۶۲۴

اس كے فوراً بعد رسول اللہ (ص) نے حكم ديا كہ مذكورہ مسجد كو جلا ديا جائے او راسكے باقى حصے كو مسماركرديا جائے او راس كى جگہ كوڑاكركٹ ڈالاجايا كرے_

ان لوگوں كے ظاہراًكام كو ديكھا جائے تو ہميں شروع ميں تو اس حكم پر حيرت ہوئي كہ كيا بيماروں اوربوڑھوں كى سہولت كے لئے اوراضطرارى مواقع كے لئے مسجد بنانا برا كام ہے جبكہ يہ ايك دينى او رانسانى خدمت معلوم ہوتى ہے كيا ايسے كام كے بارے ميں يہ حكم صادر ہوا ہے؟ليكن اگر ہم اس معاملہ كى حقيقت پر نظر كريں گے تو معلوم ہوگا كہ يہ حكم كس قدر بر محل اور جچاتلا تھا_

اس كى وضاحت يہ ہے كہ'' ابو عامر''نامى ايك شخص نے عيسائيت قبول كرلى تھى اور راہبوں كے مسلك سے منسلك ہوگيا تھا _ اس كا شمار عابدوں ميں ہوتا تھا ، قبيلہ خزرج ميں اس كا گہرا اثرورسوخ تھا _

رسول اللہ(ص) نے جب مدينہ كى طرف ہجرت كى او رمسلمان آپ(ص) كے گرد جمع ہوگئے تو ابو عامر جو خودبھى پيغمبر(ص) كے ظہور كى خبر دينے والوں ميں سے تھا،اس نے ديكھا كہ اس كے ارد گرد سے لوگ چھٹ گئے ہيں اس پر وہ اسلام كے مقابلے كے لئے اٹھ كھڑا ہوا ،وہ مدينہ سے نكلا اور كفار مكہ كے پاس پہنچا،اس نے ان سے پيغمبر اكرم(ص) كے خلاف جنگ كے لئے مدد چاہى اور قبائل عرب كو بھى تعاون كى دعوت دى ،وہ خود مسلمانوں كے خلاف جنگ احد كى منصوبہ بندى ميں شريك رہا تھا،اور راہنمائي كرنے والوں ميں سے تھا،اس نے حكم ديا كہ لشكر كى دو صفوں كے درميان گڑھے كھوددے جائيں _اتفاقاً پيغمبر اسلام(ص) ايك گڑھے ميں گر پڑے ،آپ(ص) كى پيشانى پر زخم آئے اور دندان مبارك ٹوٹ گئے _

جنگ احد ختم ہوئي،مسلمانوں كو اس ميدان ميں آنے والى مشكلات كے باوجود اسلام كى آواز بلند تر ہوئي او رہر طرف صدا ئے اسلام گونجنے لگي، تو وہ مدينہ سے بھاگ گيا او ربادشاہ روم ہرقل كے پاس پہنچا تاكہ اس سے مددچاہے اور مسلمانوں كى سركوبى كے لئے ايك لشكر مہيا كرے_

اس نكتے كا بھى ذكر ضرورى ہے كہ اس كى ان كارستانيوں كى وجہ سے پيغمبر اسلام(ص) نے اسے ''فاسق''كالقب دے ركھاتھا_

۶۲۵

بعض كہتے ہيں كہ موت نے اسے مہلت نہ دى كہ وہ اپنى آرزو ہرقل سے كہتا ليكن بعض دوسرى كتب ميں ہے كہ وہ ہرقل سے جاكر ملا اور اس كے وعدوں سے مطمئن اورخوش ہوا_

بہر حال اس نے مرنے سے پہلے مدينہ كے منافقين كو ايك خط لكھا اور انھيں خوشخبرى دى كہ روم كے ايك لشكر كے ساتھ وہ ان كى مدد كوآئے گا_اس نے انھيں خصوصى تاكيد كى كہ مدينہ ميں وہ اس كے لئے ايك مركز بنائيں تاكہ اس كى آئندہ كى كارگذاريوں كے لئے وہ كام دے سكے ليكن ايسا مركز چونكہ مدينہ ميں اسلام دشمنوں كى طرف سے اپنے نام پر قائم كرنا عملى طور پر ممكن نہ تھا_ لہذا منافقين نے مناسب يہ سمجھا كہ مسجد كے نام پر بيماروں اور معذوروں كى مدد كى صورت ميں اپنے پروگرام كو عملى شكل ديں _

آخر كار مسجد تعمير ہوگئي يہاں تك كہ مسلمانوں ميں سے ''مجمع بن حارثہ'' (يا مجمع بَن جاريہ)نامى ايك قرآن فہم نوجوان كو مسجد كى امامت كے لئے بھى چن ليا گيا ليكن وحى الہى نے ان كے كام سے پردہ اٹھاديا_

يہ جو پيغمبر اكرم(ص) نے جنگ تبوك كى طرف جانے سے قبل ان كے خلا ف سخت كاروائي كا حكم نہيں ديا اس كى وجہ شايد ايك تو ان كى حقيقت زيادہ واضح ہوجائے او ردوسرا يہ كہ تبوك كے سفر ميں اس طرف سے كوئي او رذہنى پريشانى نہ ہو_ بہر حال جو كچھ بھى تھا رسول اللہ(ص) نے نہ صرف يہ كہ مسجد ميں نماز نہيں پڑھى بلكہ بعض مسلمانوں (مالك بن دخشم،معنى بن عدى اور عامر بن سكر يا عاصم بن عدي)كو حكم ديا كہ مسجدكو جلاديں او رپھر اس كى ديواروں كو مسمار كرواديا_ او رآخر كار اسے كوڑاكركٹ پھيكنے كى جگہ قرار دےديا_

۶۲۶

مسجد قباء

يہ بات قابل توجہ ہے كہ خدا وند عالم اس حيات بخش حكم كى مزيد تاكيد كے لئے خداوند متعال فرماتا ہے كہ اس مسجد ميں ہرگز قيام نہ كرو اور اس ميں نمازنہ پڑھو_(۱)

''بلكہ اس مسجدكے بجائے زيادہ مناسب يہ ہے كہ اس مسجد ميں عبادت قائم كرو جس كى بنياد پہلے دن سے تقوى پر ركھى گئي ہے''(۲)

نہ يہ كہ يہ مسجد جس كى بنياد روز اول ہى سے كفر،نفاق،بے دينى اور تفرقہ پر ركھى گئي ہے_

''مفسرين نے كہا ہے كہ جس مسجد كے بارے ميں مندرجہ بالا جملے ميں كہا گيا ہے كہ زيادہ مناسب يہ ہے كہ پيغمبر(ص) اس ميں نماز پڑھيں اس سے مراد'' مسجد قبا ''ہے كہ جس كے قريب منافقين نے مسجد ضرار بنائي تھي''_

اس كے بعد قرآن مزيد كہتا ہے :''كہ علاوہ اس كے كہ اس مسجد كى بنياد تقوى پر ركھى گئي ہے ،مردوں كا ايك گروہ اس ميں مشغول عباد ت ہے جو پسند كرتا ہے كہ اپنے آپ كو پاك وپاكيزہ ركھے اور خدا پاكباز لوگوں كو دوست ركھتا ہے ''_(۳)

____________________

(۱)سورہ توبہ آيت ۱۰۸

(۲)سورہ توبہ آيت ۱۰۸

(۳)سورہ توبہ آيت ۱۰۸

۶۲۷

سب سے پہلى نماز جمعہ

پہلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ (ص) نے اپنے اصحاب كے ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گيا جب آپ نے مدينہ كى طرف ہجرت فرمائي _ جب آپ(ص) مدينہ ميں وارد ہوئے تو اس دن پير كا دن بارہ ربيع الاول او رظہر كا وقت تھا_ حضرت چار دن تك''قبا ''ميں رہے او رمسجد قبا كى بنياد ركھى ، پھر جمعہ كے دن مدينہ كى طرف روانہ ہوئے(قبااور مدينہ كے درميان فاصلہ بہت ہى كم ہے اور موجودہ وقت ميں قبا مدينہ كا ايك داخلى محلہ ہے)

اور نماز جمعہ كے وقت آپ(ص) محلہ''بنى سالم''ميں پہنچے وہاں نماز جمعہ ادا فرمائي اور يہ اسلام ميں پہلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ (ص) نے اداكيا_ جمعہ كى نماز ميں آپ(ص) نے خطبہ بھى پڑھا_ جو مدينہ ميں آنحضرت(ص) كا پہلا خطبہ تھا_

۶۲۸

واقعہ غدير

پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى كا آخرى سال تھا''حجة الوداع ''كے مراسم جس قدر باوقار و پرشكوہ ہو سكتے تھے اس قدر پيغمبر اكرم(ص) كى ہمراہى ميں اختتام پذير ہوئے_ سب كے دل روحانيت سے سرشار تھے ابھى ان كى روح اس عظيم عبادت كى معنوى لذت كا ذائقہ محسوس كررہى تھى _ اصحاب پيغمبر(ص) جن كى تعداد بہت زيادہ تھى اس عظيم نعمت سے فيض ياب ہوئے او راس سعادت كے حاصل ہونے پر جامے ميں پھولے نہيں سماتے تھے_

نہ صرف مدينہ كے لوگ اس سفر ميں پيغمبر(ص) كے ساتھ تھے بلكہ جزيرہ نمائے عرب كے ديگر مختلف حصوں كے مسلمان بھى يہ عظيم تاريخى اعزازوافتخار حاصل كرنے كے لئے آپ(ص) كے ہمراہ تھے_

سرزمين حجاز كا سورج دروں اور پہاڑوں پر آگ برسارہا تھا ليكن اس سفركى بے نظير روحانى مٹھاس تمام تكليفوں كو آسان بنارہى تھي_ زوال كا وقت نزديك تھا_ آہستہ آہستہ ''حجفہ ''كى سرزمين او راس كے بعد خشك اور جلانے والے''غديرخم'' كے بيابان نظر آنے لگے_

در اصل يہاں پر ايك چوراہا ہے جو حجاز كے لوگوں كوايك دوسرے سے جدا كرتا ہے_ شمالى راستہ مدينہ كى طرف دوسرا مشرقى راستہ عراق كى طرف،تيسرا مغربى ممالك او رمصر كى طرف اور چوتھا جنوبى راستہ سرزمين يمن كو جاتا ہے يہى وہ مقام ہے جہاں پر آخرى مقصد او راس عظيم سفر كااہم ترين كام انجام پذير ہوتا تھا

۶۲۹

تاكہ مسلمان پيغمبر(ص) كى اہم ذمہ داريوں ميں سے ان كا آخرى حكم جان كر ايك دوسرے سے جداہوں _

جمعرات كا دن تھا اورہجرت كا دسواں سال_ آٹھ دن عيد قربان كو گزرے تھے كہ اچانك پيغمبر(ص) كى طرف سے ان كے ہمراہيوں كو ٹھہر جانے كا حكم ديا گيا_ مسلمانوں نے بلندآواز سے ان لوگوں كو جو قافلے كے آگے چل رہے تھے واپس لوٹنے كے لئے پكارا اوراتنى دير كے لئے ٹھہر گئے كہ پيچھے آنے والے لوگ بھى پہنچ جائيں _ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گيا تو پيغمبر(ص) كے مو ذن نے ''اللہ اكبر ''كى صداكے ساتھ لوگوں كونماز ظہر پڑھنے كى دعوت دى _ مسلمان جلدى جلدى نماز پڑھنے كے لئے تيار ہوگئے _ ليكن فضاء اتنى گرم تھى كہ بعض لوگ مجبور تھے كہ وہ اپنى عبا كا كچھ حصہ پائوں كے نيچے اور باقى سر كے اوپر لے ليں ،ورنہ بيابان كى گرم ريت اور سورج كى شعاعيں ان كے سر اور پائوں كو تكليف دے رہى تھيں _

اس صحراء ميں كوئي سائبان نظر نہ آتا تھا اور نہ ہى كوئي سبزہ ياگھاس صرف چند بے برگ وبار بيابانى درخت تھے جو گرمى كا سختى كے ساتھ مقابلہ كر رہے تھے كچھ لوگ انہى چند درختوں كا سہارا لئے ہوئے تھے اور انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ايك كپڑاڈال ركھا تھا اور پيغمبر(ص) كے لئے ايك سائبان سا بنا ركھا تھا ليكن گرم ہوا اس سائبان كے نيچے سے گزرتى ہوئي سورج كى جلانے والى گرمى كو اس سائبان كے نيچے بھى پھيلا رہى تھي_ بہر حال ظہر كى نماز پڑھ لى گئي_

خطبہ غدير

مسلمان ارادہ كررہے تھے كہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خيموں ميں جاكر پناہ ليں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھاركھے تھے ليكن رسول اللہ(ص) نے انہيں آگاہ كيا كہ وہ سب كے سب خداوندتعالى كا ايك نيا پيغام سننے كے لئے تيار ہوں جسے ايك مفصل خطبے كے ساتھ بيان كيا جائے گا_

جو لوگ رسول اللہ (ص) سے دور تھے وہ پيغمبر(ص) كا ملكوتى چہرہ اس عظيم اجتماع ميں دور سے ديكھ نہيں پارہے تھے لہذا اونٹوں كے پالانوں كا منبر بنايا گيا_پيغمبر(ص) اس كے اوپر تشريف لے گئے_پہلے پروردگار عالم كى حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ كرتے ہوئے يوں خطاب فرمايا:ميں عنقرب خداوندمتعال كى دعوت پر لبيك

۶۳۰

كہتے ہوئے تمہارے درميان سے جارہا ہوں ،ميں بھى جوابدہ ہوں اورتم بھى جوابدہ ہو ،تم ميرے بارے ميں كيا گواہى دوگے لوگوں نے بلند آواز ميں كہا :

''ہم گواہى ديں گے كہ آپ(ص) نے فريضہ رسالت انجام ديا اورخير خواہى كى ذمہ دارى كو انجام ديا اور ہمارى ہدايت كى راہ ميں سعى و كوشش كي،خدا آپ(ص) كوجزا ئے خير دے''_

اس كے بعد آپ(ص) نے فرمايا كيا تم لوگ خدا كى وحدانيت،ميرى رسالت اور روز قيامت كى حقانيت اوراس دن مردوں كے قبروں سے مبعوث ہونے كى گواہى نہيں ديتے؟

سب نے كہا:كيوں نہيں ہم سب گواہى ديتے ہيں _

آپ(ص) نے فرمايا: خداوندگواہ رہنا_

آپ(ص) نے مزيد فرمايا:اے لوگو كيا تم ميرى آواز سن رہے ہو؟

انہوں نے كہا: جى ہاں _

اس كے بعد سارے بيابان پر سكوت كا عالم طارى ہوگيا_ سوائے ہوا كى سنسناہٹ كے كوئي چيز سنائي نہيں ديتى تھى _ پيغمبر(ص) نے فرمايا:ديكھو ميں تمہارے درميان دوگرانمايہ اور گرانقدر چيزيں بطور يادگار چھوڑے جارہا ہوں تم ان كے ساتھ كيا سلوك كروگے؟

حاضرين ميں سے ايك شخص نے پكار كر كہا:يا رسول اللہ (ص) وہ دو گرانمايہ چيزيں كونسى ہيں ؟

تو پيغمبراكرم(ص) نے فرمايا: پہلى چيز تو اللہ تعالى كى كتاب ہے جو ثقل اكبر ہے_ اس كا ايك سرا تو پروردگار عالم كے ہاتھ ميں ہے اور دوسرا سراتمہارے ہاتھ ميں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جائوگے_ دوسرى گرانقدر يادگار ميرے اہل بيت ہيں اور مجھے خدائے لطيف وخبير نے خبردى ہے كہ يہ دونوں ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے يہاں تك كہ بہشت ميں مجھ سے آمليں گے_

ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز كرنے) كى كوشش نہ كرنا اور نہ ہى ان سے پيچھے رہنا كہ اس صورت ميں بھى تم ہلاك ہو جائوگے_

۶۳۱

اچانك لوگوں نے ديكھا كہ ر سول اللہ(ص) اپنے ارد گرد نگاہيں دوڑارہے ہيں گويا كسى كو تلاش كر رہے ہيں جو نہى آپ(ص) كى نظر حضرت على عليہ السلام پر پڑى فوراً ان كا ہاتھ پكڑليا اور انہيں اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغلوں كے نيچے كى سفيدى نظر آنے لگى اور سب لوگوں نے انہيں ديكھ كر پہچان لياكہ يہ تو اسلام كا وہى سپہ سالار ہے كہ جس نے كبھى شكست كا منہ نہيں ديكھا_

اس موقع پر پيغمبر(ص) كى آواز زيادہ نماياں اوربلند ہوگئي اور آپ(ص) نے ارشاد فرمايا:

''ايها الناس من اولى الناس بالمو منين من انفسهم''

يعنى اے لوگو بتائو وہ كون ہے جو تمام لوگوں كى نسبت مومنين پر خود ان سے زيادہ اوليت ركھتا ہے ؟ اس پر سب حاضرين نے بہ يك آواز جواب ديا كہ خدا اور اس كا پيغمبر(ص) بہتر جانتے ہيں _

تو پيغمبر(ص) نے فرمايا: خداا ميرا مولا اوررہبر ہے اور ميں مومنين كا مولااوررہبر ہوں اور ان كے اوپر ان كى نسبت خود ان سے زيادہ حق ركھتا ہوں (اور ميرا ارادہ ان كے ارادے سے مقدم ہے)_

اس كے بعد فرمايا:

''فمن كنت مولاه فهذا على مولاه'' .

''يعنى جس جس كا ميں مولاہ ہوں على (ع) بھى اس اس كے مولاہ اوررہبر ہے''_

پيغمبر اكرم(ص) نے اس جملے كى تين مرتبہ تكرار كى او ربعض راويوں كے قول كے مطابق پيغمبر(ص) نے يہ جملہ چار مرتبہ دہرايا اور اس كے بعد آسمان كى طرف سر بلند كر كے بارگاہ خداوندى ميں عرض كي:_

''اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه واحب من احبه و ابغض من ابغضه و انصرمن نصره واخذل من خذله، وادرالحق معه حيث دار.''

يعنى بار الہا جو اس كو دوست ركھے تو اس كو دوست ركھ او رجو اس سے دشمنى كرے تو اس سے دشمنى ركھ_ جو اس سے محبت كرے تو اس سے محبت كر اور جو اس سے بغض ركھے تو اس سے بغض ركھ_ جو اس كى مدد كرے تو اس كى مددكر _ جو اس كى مدد سے كنارہ كشى كرے تو اسے اپنى مددسے محروم ركھ اور حق كو ادھرپھيردے

۶۳۲

جدھر وہ رخ كرے_

اس كے بعد فرمايا:

'' تمام حاضرين آگاہ ہوجائيں اس بات پر كہ يہ ان كى ذمہ دارى ہے كہ وہ اس بات كوان لوگوں تك پہنچائيں جو يہاں پر اور اس وقت موجود نہيں ہيں ''_

روز اكمال دين

پيغمبر(ص) كا خطبہ ختم ہوگيا پيغمبر(ص) پسينے ميں شرابور تھے حضرت على عليہ السلام بھى پسينے ميں نہائے ہوئے تھے_ دوسرے تمام حاضرين كے بھى سر سے پائوں تك پسينہ بہہ رہا تھا_

ابھى اس جمعيت كى صفيں ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوئي تھيں كہ جبرئيل (ع) امين وحى لے كر نازل ہوئے اور تكميل دين كى پيغمبر(ص) كو بايں الفاظ بشارت دي:

''اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتى ''_(۱)

''آج كے دن ميں نے تمہارے لئے تمہارے دين اور آئين كو كامل كرديا اور اپنى نعمت كو تم پر تمام كرديا''_

اتمام نعمت كا پيغام سن كر پيغمبر(ص) نے فرمايا:

''اللّه اكبر اللّه اكبر على اكمال الدين واتمام النعمة ورضى الرب برسالتى والولايةلعلى من بعدي'' .

''ہر طرح كى بزرگى وبڑائي خداہى كے لئے ہے كہ جس نے اپنے دين كو كامل فرمايا اور اپنى نعمت كو ہم پر تمام كيا اور ميرى نبوت ورسالت اور ميرے بعد كے لئے على (ع) كى ولايت كے لئے خوش ہوا_''

____________________

(۱) سورہ مائدہ آيت ۳

۶۳۳

اميرالمو منين على ابن ابى طالب عليہما السلام كى ولايت كا پيغمبر(ص) كى زبان مبارك سے اعلان سن كر حاضرين ميں مبارك باد كا شور برپا ہوا لوگ بڑھ چڑھ كر اس اعزازومنصب پر حضرت على (ع) كو اپنى طرف سے مبارك باد پيش كررہے تھے _ معروف شخصيتوں ميں سے حضرت ابو بكر اور حضرت عمر كى طرف سے مبارك باد كے يہ الفاظ تاريخ كے اوراق ميں محفوظ ہيں كہ انہوں نے كہا:

''بخ: بخ: لك يا بن ابى طالب اصبحت وامسيت مولائي و مولاكل مو من و مو منة:''

''مبارك ہو مبارك ہو اے فرزند ابى طالب كہ آپ(ع) ميرے اور تمام صاحبان ايمان مردوں اورعورتوں كے مولا اور رہبر ہوگئے''_

اس وقت ابن عباس نے كہا :بخدا يہ عہد وپيمان سب كى گردنوں ميں باقى رہے گا''_(۱)

____________________

(۱) اس سلسلے ميں مزيد آگہى كے لئے كتاب الغدير، علامہ اميني ،احقاق الحق ،قاضى نوراللہ شوشتري ،المراجعات شرف الدين اور دلائل الصدق محمدحسين مظفر پر رجوع كريں

۶۳۴

فدك

فدك اطراف مدينہ ميں تقريباً ايك سو چاليس كلو ميٹر كے فاصلہ پر خيبر كے نزديك ايك آباد قصبہ تھا_جب سات ہجرى ميں خيبر كے قلعے يكے بعد ديگر افواج اسلامى نے فتح كرلئے اور يہوديوں كى مركزى قوت ٹوٹ گئي تو فدك كے رہنے والے يہودى صلح كے خيال سے بارگاہ پيغمبر(ص) ميں سرتسليم خم كرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنى آدھى زمينيں اور باغات آنحضرت (ص) كے سپرد كرديئےور آدھے اپنے پاس ركھے _ اس كے علاوہ انہوں نے پيغمبر اسلام(ص) كے حصہ زمينوں كى كاشتكارى بھى اپنے ذمہ لي_ اپنى كاشتكارى كى زحمت كى اجرت وہ پيغمبر اسلام(ص) سے وصول كرتے تھے،(سورہ حشر آيت)كے پيش نظراس كى طرف توجہ كرتے ہوئے يہ زمينيں پيغمبر اسلام(ص) كى ملكيت خاص تھيں _ ان كى آمدنى كو آپ(ص) اپنے مصرف ميں لاتے تھے يا ان مدات ميں خرچ كرتے تھے جن كى طرف اس سورہ كى آيت نمبر۷ ميں اشارہ ہوا ہے _

لہذا پيغمبر(ص) نے يہ سارى زمينيں اپنى بيٹى حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ عليہا كوعنايت فرماديں _ يہ ايسى حقيقت ہے جسے بہت سے شيعہ اور اہل سنت مفسرين نے تصريح كے ساتھ تحرير كيا ہے_منجملہ ديگر مفسرين كے تفسير درالمنثور ميں ابن عباس سے مروى ہے كہ جس وقت آيت( فات ذاالقربى حقه ) (۱) نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كو فدك عنايت فرمايا:

____________________

(۱) سورہ روم ايت ۳۸

۶۳۵

كتاب كنزالعمال جو مسند احمد كے حاشيہ پر لكھى گئي ہے،ميں صلہ رحم كے عنوان كے ماتحت ابو سعيد خدرى سے منقول ہے كہ جس وقت مذكورہ بالاآيت نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے فاطمہ سلام اللہ عليہا كو طلب كيا اور فرمايا:

''يا فاطمة لك فدك'' ''اے فاطمہ(ع) فدك تيرى ملكيت ہے''_

حاكم نيشاپورى نے بھى اپنى تاريخ ميں اس حقيقت كو تحريركيا ہے_

ابن ابى الحديد معتزلى نے بھى نہج البلاغہ كى شرح ميں داستان فدك تفصيل كے ساتھ بيان كى ہے اور اسى طرح بہت سے ديگر مورخين نے بھي،ليكن وہ افراد جو اس اقتصادى قوت كو حضرت على عليہ السلام كى زوجہ محترمہ كے قبضہ ميں رہنے دينا اپنى سياسى قوت كے لئے مضر سمجھتے تھے،انہوں نے مصصم ارادہ كيا كہ حضرت على عليہ السلام كے ياور وانصار كو ہر لحاظ سے كمزور اور گوشہ نشيں كرديں _ حديث مجہول(نحن معاشر الانبياء ولا نورث) كے بہانے انہوں نے اسے اپنے قبضہ ميں لے ليا اور باوجود يكہ حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا قانونى طور پر اس پر متصرف تھيں اور كوئي شخص ''ذواليد''(جس كے قبضہ ميں مال ہو)سے گواہ كا مطالبہ نہيں كرتا،جناب سيدہ سلام اللہ عليہا سے گواہ طلب كيے گئے _ بى بى نے گواہ پيش كيے كہ پيغمبر اسلام (ص) نے خود انہيں فدك عطا فرمايا ہے ليكن انہوں نے ان تمام چيزوں كى كوئي پرواہ نہيں كي_بعد ميں آنے والے خلفاء ميں سے جو كوئي اہلبيت سے محبت كا اظہار كرتا تو وہ فدك انہيں لوٹا ديتا ليكن زيادہ دير نہ گزرتى كہ دوسرا خليفہ اسے چھين ليتا اور دوبارہ اس پر قبضہ كرليتا _ خلفائے بنى اميہ اور خلفائے بنى عباس بارہا يہ اقدام كرتے رہے _

واقعہ فدك اور اس سے تعلق ركھنے والے مختلف النوع حوادث جو صدر اسلام ميں اور بعد كے ادوار ميں پيش آئے،زيادہ دردناك اورغم انگيز ہيں اور وہ تاريخ اسلام كا ايك عبرت انگيز حصہ بھى ہيں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ كا متقاضى ہے تا كہ تاريخ اسلام كے مختلف حوادث نگاہوں كے سامنے آسكيں _

قابل توجہ بات يہ ہے كہ اہل سنت كے نامور محدث مسلم بن حجاج نيشاپورى نے اپنى مشہور و معروف كتاب ''صحيح مسلم'' ميں جناب فاطمہ (سلام اللہ عليہا) كا خليفہ اول سے فدك كے مطالبہ كا واقعہ تفصيل سے

۶۳۶

بيان كيا ہے، اور جناب عائشہ كى زبانى نقل كيا ہے كہ جناب فاطمہ كو جب خليفہ اول نے فدك نہيں ديا تو بى بى ان سے ناراض ہوگئي اور آخر عمر ان سے كوئي گفتگو نہيں كي_(صحيح مسلم،كتاب جہاد ج۳ص۱۳۸۰حديث ۵۲)

''نحن معاشر الانبياء لا نورث''

اہل سنت كى مختلف كتابوں ميں پيغمبراسلام (ص) كى طرف منسوب ايك حديث موجود ہے جو اس طرح كے مضمون پر مشتمل ہے:

''نحن معاشر الانبياء لا نورث ما تركناه صدقة''

''ہم پيغمبر(ص) لوگ اپنى ميراث نہيں چھوڑتے جو ہم سے رہ جائے اسے راہ خدا ميں صدقے كے طور پر خرچ كرديا جائے''_

اور بعض كتابوں ميں ''لا نورث''كا جملہ نہيں ہے بلكہ''ما تركناہ صدقة''كى صورت ميں نقل كيا گيا ہے _

اس روايت كى سند عام طور پر ابوبكر تك جا كر ختم ہوجاتى ہے جنھوں نے آنحضرت (ص) كے بعد مسلمانوں كى زمام امور اپنے قبضے ميں لے لى تھي_ اور جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا يا پيغمبر اكرم (ص) كى بعض بيويوں نے ان سے پيغمبر(ص) كى ميراث كا مطالبہ كيا تو انھوں نے اس حديث كا سہارا لےكر انھيں ميراث سے محروم كرديا_

اس حديث كو مسلم نے اپنى صحيح (جلد ۳ كتاب الجھاد والسير ص۱۳۷۹)ميں ،بخارى نے جزو ہشتم كتاب الفرائض كے صفحہ ۱۸۵پر اور اسى طرح بعض ديگر افراد نے اپنى اپنى كتابوں ميں درج كيا ہے_

يہ بات قابل توجہ ہے كہ مذكورہ كتابوں ميں سے بخارى ميں بى بى عائشہ سے ايك روايت نقل كى گئي ہے:فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا اور جناب عباس بن عبد المطلب (رسول (ص) كى وفات كے بعد )ابو بكر كے پاس آئے اور ان سے اپنى ميراث كا مطالبہ كيا _ اس وقت انھوں نے اپنى فدك كى اراضى اور خيبر سے ملنے والى

۶۳۷

ميراث كا مطالبہ كيا تو ابو بكر نے كہا ميں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا_''ہم ميراث ميں كوئي چيز نہيں چھوڑتے،جو كچھ ہم سے رہ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے''_

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا نے جب يہ سنا تو نا راض ہو كر وہاں سے واپس آگئيں اور مرتے دم تك ان سے بات نہيں كي_

البتہ يہ حديث مختلف لحاظ سے تجزيہ و تحليل كے قابل ہے ليكن اس تفسير ميں ہم چند ايك نكات بيان كريں گے:

۱_يہ حديث،قرآنى متن كے مخالف ہے اور اس اصول اور كليہ قاعدہ كى رو سے نا قابل اعتبار ہے كہ جو بھى حديث كتاب اللہ كے مطابق نہ ہو اس پر اعتبار نہيں كرنا چاہيے اور ايسى حديث كو پيغمبر اسلام (ص) يا ديگر معصومين عليھم السلام كا قول سمجھ كر قبول نہيں كيا جا سكتا_

ہم قرآنى آيات ميں پڑھتے ہيں كہ حضرت سليمان(ع) جناب دائود (ع) كے وارث بنے اورآيت كا ظاہر مطلق ہے كہ جس ميں اموال بھى شامل ہيں _ جناب يحيى (ع) اور زكريا (ع) كے بارے ميں ہے:

''يرثنى ويرث من ال يعقوب''

''خداوندا مجھے ايسا فرزند عطا فرما جو ميرا اور آل يعقوب كا وارث بنے''_(سورہ مريم آيت ۶)

حضرت''زكريا(ع) ''كے بارے ميں تو بہت سے مفسرين نے مالى وراثت پر زور ديا ہے_

اس كے علاوہ قرآن مجيدميں ''وراثت''كى آيات كا ظاہر بھى عمومى ہے كہ جو بلا استثناء سب كے لئے ہے_

شايد يہى وجہ ہے كہ اہل سنت كے مشہور عالم علامہ قرطبى نے مجبور ہوكر اس حديث كو غالب اور اكثر فعل كى حيثيت سے قبول كيا ہے نہ كہ عمومى كليہ كے طور پر اور اس كے لئے يہ مثال دى ہے كہ عرب ايك جملہ كہتے ہيں :

''انا معشرالعرب اقرى الناس للضيف''_

۶۳۸

ہم عرب لوگ دوسرے تمام افراد سے بڑھ كر مہمان نوازہيں (حالانكہ يہ كوئي عمومى حكم نہيں ہے)_

ليكن ظاہر ہے كہ يہ بات اس حديث كى اہميت كى نفى كررہى ہے كيونكہ حضرت سليمان(ع) اور يحيى (ع) كے بارے ميں اس قسم كا عذر قبول كرلئے تو پھر دوسرے كے لئے بھى يہ قطعى نہيں رہ جاتي_

۲_مندرجہ بالا روايت ان كے خلاف ہے جن سے معلوم ہوتا ہو كہ ابو بكر نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كو فدك واپس لوٹا نے كا پختہ ارادہ كر كيا تھا ليكن دوسرے لوگ اس ميں حائل ہوگئے تھے چنانچہ سيرت حلبى ميں ہے:

فاطمہ(ص) بنت رسول(ص) ،ابو بكر كے پاس اس وقت آئيں جب وہ منبر پر تھے _ انھوں نے كہا:

''اے ابو بكر كيا يہ چيز قرآن ميں ہے كہ تمھارى بيٹى تمہارى وراث بنے ليكن ميں اپنے باپ كى ميراث نہ لوں ''؟

يہ سن كر ابو بكر رونے لگے اور ان كى آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر وہ منبر سے نيچے اترے اور فدك كى واپسى كا پروانہ فاطمہ (ص) كو لكھ ديا_ اسى اثناء ميں عمر آگئے _ پوچھا يہ كيا ہے؟انھوں نے كہاكہ ميں نے يہ تحرير لكھ دى ہے تا كہ فاطمہ كو ان كے باپ سے ملنے والى وراثت واپس لوٹا دوں

عمر نے كہا: اگرآپ يہ كام كريں گے تو پھر دشمنوں كے ساتھ جنگى اخراجات كہاں سے پورے كريں گے؟

جبكہ عربوں نے آپ كے خلاف قيام كيا ہوا ہے _ يہ كہا اور تحرير لے كر اسے پارہ پارہ كرديا_(۱)

يہ كيونكر ممكن ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے تو صريحى طور پر ممانعت كى ہو اور ابو بكر اس كى مخالفت كى جرا ت كريں ؟اور پھر عمر نے جنگى اخراجات كا تو سہارا ليا ليكن پيغمبر اكرم(ص) كى حديث پيش نہيں كي_

مندرجہ بالا روايت پر اگر اچھى طرح غور كيا جائے تو معلوم ہوگاكہ يہاں پر پيغمبر اسلام(ص) كى طرف سے

____________________

(۱)سيرہ حلبى ج۳/ص۳۶۱

۶۳۹

ممانعت كا سوال نہيں تھا_ بلكہ سياسى مسائل آڑے تھے اور ايسے موقع پر معتزلى عالم ابن ابى الحديد كى گفتگو يادآجاتى ہے_ وہ كہتے ہيں :

ميں نے اپنے استاد'' على بن فارقي'' سے پوچھا كہ كيا فاطمہ(ص) اپنے دعوى ميں سچى تھيں ؟ تو انھوں نے كہا جى ہاں پھر ميں نے پوچھا تو ابوبكر انھيں سچا اور بر حق بھى سمجھتے تھے _

اس موقع پر ميرے استاد نے معنى خيز تبسم كے ساتھ نہايت ہى لطيف اور پيارا جواب ديا حالانكہ انكى مذاق كى عادت نہيں تھي،انھوں نے كہا:

اگر وہ آج انھيں صرف ان كے دعوى كى بناء پر ہى فدك دےديتے تو پھر نہ تو ان كے لئے كسى عذر كى گنجائش باقى رہتى اور نہ ہى ان سے موافقت كا امكان ''_(۱)

۳_پيغمبر اسلام (ص) كى ايك مشہور حديث ہے جسے شيعہ اور سنى سب نے اپنى اپنى كتابوں ميں درج كيا ہے،حديث يہ ہے: ''العلماء ورثة الانبياء'' _ ''علماء انبياء كے وارث ہوتے ہيں ''_

نيز يہ قول بھى آنحضرت(ص) ہى سے منقول ہے: ''ان الانبياء لم يورثوا ديناراً ولا درھماً''_ ''انبياء اپنى ميراث ميں نہ تودينار چھوڑتے ہيں اور نہ ہى درہم''_

ان دونوں حديثوں كو ملا كر پڑھنے سے يوں معلوم ہوتا ہے كہ آپ(ص) كا اصل مقصد يہ تھا كہ لوگوں كو يہ بات باور كرائيں كہ انبياء كے لئے سرمايہ افتخار ان كا علم ہے اور اہم ترين چيز جو وہ يادگاركے طور پر چھوڑ جاتے ہيں ان كا ہدايت و راہنمائي كا پروگرام ہے اور جو لوگ علم و دانش سے زيادہ بہرہ مند ہوں گے وہى انبياء كے اصلى وارث ہوں گے_ بجائے اس كے كہ ان كى مال پر نگاہ ہو اور اسے يادگار كے طور پر چھوڑجائيں _ اس كے بعد اس حديث كے نقل بہ معنى كرديا گيا اور اس كى غلط تعبيريں كى گئيں اور شايد''ماتركناہ صدقة'' والے جملے كا بعض روايات ميں اس پر اضافہ كرديا گيا_

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ،ابن ابى الحديد جلد_۱۶ص۲۸۴

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667