قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334474 / ڈاؤنلوڈ: 6146
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

حضرت نوح(ع) باسلامت اترآئے

حضرت نوح(ع) اور ان كى سبق آموزسرگزشت كے بارے ميں يہ آخرى حصہ ہے ہيں ان ميں حضرت نوح(ع) كے كشتى سے اترنے اور نئے سرے سے روئے زمين پر معمول كى زندگى گزارنے كى طرف اشارہ كيا گيا ہے _

قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے :'' نوح(ع) سے كہا گيا كہ سلامتى اور بركت كے ساتھ جو ہمارى طرف سے تم پر اور تمہارے ساتھيوں پر ہے، اترآئو''_(۱)

اس ميں شك نہيں كہ ''طوفان ''نے زندگى كے تمام آثار كو درہم برہم كردےا تھا فطرى طور پر آباد زمينيں ،لہلہاتى چراگا ہيں اور سرسبز باغ سب كے سب ويران ہوچكے تھے اس موقع پر شديد خطرہ تھا كہ حضرت نوح اور ان كے اصحاب اور ساتھى زندگى گزارنے اور غذا كے سلسلے ميں بہت تنگى كا شكار ہوں گے _ليكن خدا نے ان مومنين كو اطمينان دلايا كہ بركات الہى كے دروازے تم پر كھل جائيں گے اور زندگى اور معاش كے حوالے سے تمہيں كوئي پريشانى لاحق نہيں ہوگي_

علاوہ ازيں ممكن تھا كہ حضرت نوح اور ان كے پيروكاروں كو اپنى سلامتى كے حوالے سے يہ پريشانى ہوتى كہ طوفان كے بعد باقى ماندہ ان گندے پانيوں ،جو ہڑوں اور دلدلوں كے ہوتے ہوئے زندگى خطرے سے دوچار ہوگى لہذا خدا تعالى اس سلسلے ميں بھى انہيں اطمنان دلاتا ہے كہ تمہيں كسى قسم كا كوئي خطرہ لاحق نہيں ہوگا اور وہ ذات جس نے ظالموں كى نابودى كے لئے طوفان بھيجا ہے اہل ايمان كى سلامتى اور بركت كے لئے بھى ماحول فراہم كرسكتى ہے _

اس بناء پر جس طرح حضرت نوح اور ان كے ساتھى پروردگار كے لامتناہى لطف وكرم كے سائے ميں طوفان كے بعد ان تمام مشكلات كے باوجود سلامتى وبركت كے ساتھ جيتے رہے ،اسى طرح مختلف

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۴۸

۶۱

قسم كے جانور جو حضرت نوح كے ساتھ كشتى سے اترے تھے خدا كى طرف سے سلامتى وحفا ظت كے ساتھ اور اس كے لطف وكرم كے سائے ميں زندگى بسر كرتے رہے _

كيا طوفان نوح(ع) عالمگير تھا ؟

قرآنى بہت سى آيات كے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے كہ طوفان نوح كسى خاص علاقے كے لئے نہ تھابلكہ پورى زمين پر رونما ہوا تھا كيونكہ لفظ ''ارض ''(زمين)مطلق طور پر آيا ہے :

''خداوندا روئے زمين پر ان كافروں ميں سے كسى كو زندہ نہ رہنے دے كہ جن كے بارے ميں اصلاح كى كوئي اميد نہيں ہے ''_(۱)

اسى طرح سورہ ہود ميں ارشاد ہوتا ہے: ''اے زمين اپنا پانى نگل لے ''_(۲)

بہت سى تواريخ سے بھى طوفان نوح(ع) كے عالمگير ہونے كى خبر ملتى ہے اسى لئے كہا جاتاہے كہ موجودہ تمام نسليں حضرت نوح(ع) كے تين بيٹوں حام،سام اور يافث كى اولاد ميں سے ہيں جو كہ زندہ بچ گئے تھے _

طبيعى تاريخ بھى سيلابى بارشوں كے نام سے ايك دور كا پتہ چلتاہے اس دور كو اگر لازمى طور پرجانداروں كى پيدائش سے قبل سے مربوط نہ سمجھيں تو وہ بھى طوفان نوح پر منطبق ہوسكتا ہے _(۳)(۴)

____________________

(۱) سورہ نوح ايت ۲۶

(۲)سورہ ہود آيت۴۴

(۳)زمين كى طبيعى تاريخ ميں يہ نظر يہ بھى ہے كہ كرہ زمين كا محور تدريجى طور پر تغير پيدا كرتا ہے يعنى قطب شمالى اور قطب جنوبى خطّ استوا ميں تبديل ہوجاتے ہيں اور خط استوا قطب جنوبى كى جگہ لے ليتا ہے، واضح ہے كہ جب قطب شمالى وجنوبى ميں موجود بہت زيادہ برف پگھل پڑے تو دريائوں اور سمندروں كے پانى كى سطح اس قدر اوپر آجائے گى كہ بہت سى خشكيوں كو اپنى لپيٹ ميں لے لے گى اور پانى زمين ميں جہاں جہاں اسے گنجائش ملے گى ابلتے ہوئے چشموں كى صورت ميں نكلے گا، پانى كى يہى وسعت بادلوں كى تخليق كا سبب بنتى ہے اور پھر زيادہ سے زيادہ بارشيں انہى بادلوں سے ہوتى ہيں

يہ امر كہ حضرت نوح نے زمين كے جانوروں كے چند نمونے بھى اپنے ساتھ لئے تھے طوفان كے عالمگير ہونے كا مو يد ہے _

(۴) اس روئے زمين پرسبھى حضرت نوح كى اولاد سے ہيں ؟ رجوع كريں تفسير نمونہ ج۱۰ ص۵۰۳ سورہ صافات آيت ۸۲ كى تفسير ميں

۶۲

طوفان كے ذريعے سزا كيوں دى گئي ؟

يہ صحيح ہے كہ ايك فاسداور برى قوم كو نابود ہونا چاہئے ،چاہے وہ كسى ذريعے سے نابودہو، اس سے فرق نہيں پڑتا ليكن آيات قرآنى ميں غور كرنے سے پتہ چلتا ہے كہ عذاب و سزا اور قوموں كے گناہوں ميں ايك قسم كى مناسبت تھى اور ہے ،فرعون نے عظيم دريائے نيل اور اس كے پر بركت پانى كو اپنى قوت وطاقت كا ذريعہ بناركھا تھا يہ با ت جا ذب نظر ہے كہ وہى اس كى نابودى كا سبب بنا نمرود كو اپنے عظيم ظلم پر بھروسہ تھا اور ہم جانتے ہيں كہ حشرات الارض كے چھوٹے سے لشكر نے اسے اور اس كے ساتھيوں كو شكست دےدي_ قوم نوح زراعت پيشہ تھى ان كى كثير دولت كا دارومدار زراعت پر ہى تھا جيسا كہ بہت سى روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت نوح كوفہ ميں رہتے تھے دوسرى طرف بعض روايات كے مطابق طوفان مكہ اور خانہ كعبہ تك پھيلا ہوا تھا تو يہ صورت بھى اس بات كى مو يد ہے كہ طوفان عالمگير تھا _

ليكن ان تمام چيزوں كے باوجود اس امر كى بھى بالكل نفى نہيں كى جاسكتى كہ طوفان نوح ايك منطقہ كے ساتھ مخصوص تھا كيونكہ لفظ ''ارض ''(زمين ) كا اطلاق قرآن ميں كئي مرتبہ زمين كے ايك وسيع قطعے پر بھى ہوا ہے جيسا كہ بنى اسرائيل كى سرگزشت ميں ہے : ''ہم نے زمين كے مشارق اور مغارب بنى اسرائيل كے مستضعفين كے قبضے ميں ديئے''(سورہ اعراف آيت۱۳۷)

كشتى ميں جانوروں كوشايد اس بناء پر ركھا گيا ہو كہ زمين كے اس حصے ميں جانوروں كى نسل منقطع نہ ہو خصوصاً اس زمانے ميں جانوروں كا دور دراز علاقوں سے منتقل ہونا كوئي آسان كام نہيں تھا_ اسى طرح ديگر مذكورہ قرائن اس بات پر منطبق ہوسكتے ہيں كہ طوفان نوح ايك خاص علاقہ ميں آيا تھا_ يہ نكتہ بھى قابل توجہ ہے كہ طوفان نوح تو اس سركش قوم كى سزا اور عذاب كے طورپر تھا اورہمارے پاس كوئي ايسى دليل نہيں ہے كہ جس كى بنا پر يہ كہا جاسكے كہ حضرت نوح كى دعوت تمام روئے زمين پر پہنچى تھى

اصولى طور پر اس زمانے كے وسائل وذرائع كے ساتھ ايك پيغمبر كى دعوت كا (اس كے اپنے زمانے ميں ) زمين كے تمام خطوں اور علاقوں تك پہنچنا بعيد نظر آتا ہے بہرحال اس عبرت خيز واقعے كو بيان كرنے سے قرآ ن كا مقصد يہ ہے كہ اس ميں چھپے اہم تربيتى نكات بيان كيے جائيں ، اس سے كوئي فرق نہيں پڑنا چاہيے كہ يہ واقعہ عالمى ہو يا كسى ايك علاقے سے تعلق ركھتا ہو _

۶۳

ہم جانتے ہيں كہ ايسے لوگ اپنا سب كچھ بارش كے حيات بخش قطروں كو سمجھتے ہيں ليكن آخر كار بارش ہى نے انہيں تباہ وبر باد كرڈالا _

جناب نوح(ع) كى بيوي

قرآن مجيد دوبے تقوى عورتوں كى سرنوشت جو دو بزرگ پيغمبر وں كے گھر ميں تھيں ،اور دومومن وايثارگر خواتين كى سرنوشت بيان كرتاہے جن ميں سے ايك تاريخ كے جابرترين شخص كے گھر ميں تھى _

پہلے فرماتا ہے ''خدا نے كافروں كے لئے ايك مثال بيان كى ہے نوح كى بيوى كى مثال اور لوط كى بيوى كى مثال '' وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كى ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا ''_(۱)

حضرت نوح كى بيوى كا نام ''والھہ'' اور حضرت لوط كى بيوى كا نام ''والعة''تھا ۱ اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ہے يعنى نوح كى بيوى كانام''والعة'' اورلوط كى بيوى كا نام ''والھہ'' يا ''واہلہ'' كہا ہے_

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظيم پيغمبروں كے ساتھ خيانت كى ،البتہ ان كى خيانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگزنہيں تھا كيونكہ كسى پيغمبر كى بيوى ہرگز بے عفتى سے آلودہ نہيں ہوتى جيسا كہ پيغمبر اسلام سے ايك حديث ميں صراحت كے ساتھ بيان ہواہے : ''كسى بھى پيغمبر كى بيوى ہرگز منافى عفت عمل سے آلودہ نہيں ہوئي''_ حضرت لوط كى بيوى كى خيانت يہ تھى كہ وہ اس پيغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتى تھى اور ان كے گھر كے راز انھيں بتاتى تھى اور حضرت نوح كى بيوى بھى ايسى ہى تھى _

قرآن آخر ميں كہتا ہے: ''اور ان سے كہا گيا كہ تم بھى آگ ميں داخل ہونے والے لوگوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجائو ''(۲)

____________________

(۱)سورہ تحريم آيت ۱۰

(۲)سورہ تحريم آيت ۱۰

۶۴

۲ انبياء عليهم السلام کے واقعات

حضرت ہود عليہ السلام

قرآن مجيد ميں ذكر شدہ انبياء كے ناموں و ميں حضرت ہود بھى ہيں ، جو قوم عاد كى طرف مبعوث ہوئے ،بعض مورخين كا نظريہ ہے كہ عاد كا اطلاق دو قبيلوں پر ہوتا ہے ايك وہ جو بہت پہلے تھا اور قرآن نے اسے عاد الاولى سے تعبير كيا،()وہ غالباً تاريخ سے پہلے موجود تھا، دوسرا قبيلہ جو تاريخ بشر كے دَور ميں اور تقريباً ولادت مسيح سے سات سو سال پہلے تھا اور وہ عاد كے نام سے مشہور تھا_ يہ احقاف يايمن ميں رہائش پزير تھا_

اس قبيلہ كے افراد بلند قامت اور قوى الجثہ تھے اور اسى بنا پر بہت نماياں جنگجو شمار ہوتے تھے_

اس كے علاوہ و ہ متمدن بھى تھے_ان كے شہر آباد اور زمينيں سر سبز و شاداب تھيں _ان كے باغات پر بہار تھے اور انہوں نے بڑے بڑے محل تعمير كيے تھے_

بعض مو رخين كا خيال ہے كہ عاد اس قبيلے كے جد اعلى كا نام تھا اور وہ قبيلے كو اپنے جدّ(دادا) كے نام سے موسوم كر كے پكارتے تھے_

شہر ارم اور شداد كى بہشت

بعض مفسرين نے جزيرة العرب كے بيابانوں اور عدن كے صحرائوں ميں شہر ارم كے بر آمد ہونے كى ايك دلچسپ داستان بيان كى ہے جس ميں وہ اس شہر كى بلند و بالا عمارات اور سامان زينت وغيرہ كى بات كرتے ہيں _ليكن مذكورہ داستان واقعيت كى نسبت خواب يا افسانے سے زيادہ تعلق ركھتى ہے_

۶۵

ليكن اس ميں كوئي شك و شبہ نہيں كہ قوم عاد طاقتور قبائل پر مشتمل تھي،ان كے شہر ترقى يافتہ تھے اور جيسا كہ قرآن اشارہ كرتاہے،ان جيسے شہرپھر آباد نہيں ہوسكے_

بہت سى داستانيں شداد كى جو عاد كا بيٹا تھا،زبان زد عام ہيں اور تاريخ ميں مرقوم ہيں _ يہاں تك كہ شداد كى بہشت اور اس كے باغات ضرب المثل كى شكل اختيار كر گئے ہيں _ليكن ان داستانوں كى حقيقت كچھ نہيں ہے،يہ محض افسانے ہيں _يہ ايسے افسانے ہيں كہ ان كى حقيقت پر بعد ميں حاشيہ آرائي كر لى گئي_

حضرت ہود(ع) برادر قوم عاد

قرآن نبى اللہ كے سلسلہ ميں فرماتاہے :''ہم نے قوم عاد كى طرف ان كے بھائي ہود كو بھيجا''_(۱)

يہاں حضرت ہود كو بھائي كہا گيا تھا يہ تعبير ياتو اس بناء پر ہے كہ عرب اپنے تمام اہل قبيلہ كو بھائي كہتے ہيں كيونكہ نسب كى اصل ميں سب شريك ہوتے ہيں مثلا بنى اسد كے شخص كو ''اخواسدى '' كہتے ہيں اور مذحج قبيلہ كے شخص كو ''اخومذ حج ''كہتے ہيں ،يا ہوسكتا ہے كہ يہ اس طرف اشارہ ہوكہ حضرت ہود كا سلوك اپنى قوم سے ديگر انبياء كى طرح بالكل برادرا نہ تھا نہ كہ ايك حاكم كا سابلكہ ايسا بھى نہيں جو باپ اپنى اولاد سے كرتا ہے بلكہ آپ كا سلوك ايسا تھا جو ايك بھائي دوسرے بھائيوں سے كرتا ہے كہ جس ميں كوئي امتياز اوربر ترى كا اظہار نہ ہو_

حضرت ہود كى بہترين دليل

حضرت ہود نے بھى اپنى دعوت كا آغاز ديگر انبياء كى طرح كيا آپ كى پہلى دعوت توحيد اور ہر قسم كے شرك كى نفى كى دعوت تھي،''ہود نے ان سے كہا :''اے ميرى قوم خدا كى عبادت كرو ،كيونكہ اس كے علاوہ كوئي اللہ اور معبود لائق پرستش نہيں ،بتوں كے بارے ميں تمہارا اعتقاد غلطى اور اشتباہ پرمبنى ہے اور اس ميں تم خدا پر افتراء باندھتے ہو''_(۲)

____________________

(۱) سورہ ہود آيت۵۰

(۲) سورہ ہود آيت ۵۰

۶۶

يہ بت خدا كے شريك نہيں ہيں ، نہ خير وشر كے منشاء ومبدا ء ،ان سے كوئي كام بھى نہيں ہوسكتا اس سے بڑھ كر كيا افتراء اور تہمت ہوگى كہ اس قدر بے وقعت موجودا ت كے لئے تم اتنے بڑے مقام ومنزلت كا اعتقاد ركھتے ہو؟_

اس كے بعد حضرت ہود نے مزيد كہا :''اے ميرى قوم ميں اپنى دعوت كے سلسلے ميں تم سے كوئي توقع نہيں ركھتا تم سے كسى قسم كى اجرت نہيں چاہتا''_(۱)

كہ تم يہ گمان كروكہ ميرى يہ داد وفرياد اور جوش وخروش مال ومقام كے حصول كے ليئے ہے يا تم خيال كرو كہ تمہيں مجھے كو ئي بھارى معاوضہ دينا پڑے گا جس كى وجہ سے تم تسليم كرنے كو تيار نہيں ہو، ميرى اجرت صرف اس ذات پر ہے جس نے مجھے پيدا كيا ہے ،جس نے مجھے روح وجسم بخشے ہيں اور تمام چيزيں جس نے مجھے عطا كى ہيں وہى جو ميرا خالق ورازق ہے ميں اگر تمہارى ہدايت وسعادت كے لئے كوئي قدم اٹھاتا ہوں تو وہ اصولاً اس كے حكم اطاعت ميں ہوتا ہے لہذا اجرو جزا بھى ميں اسى سے چاہتاہوں نہ كہ تم سے، علاوہ ازيں كيا تمہارے پاس اپنى طرف سے كچھ ہے جو تم مجھے دو، جو كچھ تمہارے پاس ہے اسى خدا كى طرف سے ہے، كيا تم سمجھتے نہيں ہو ؟''_(۲)

آخر ميں انہيں شوق دلانے كے لئے اور اس گمراہ قوم ميں حق و حق طلبى كا جذبہ بيدار كرنے كے لئے تمام ممكن وسائل سے استفادہ كرتے ہوئے مشروط طور پر مادى جزائوں كا ذكر كيا گيا ہے كہ جو اس جہان ميں خدا مومنين كو عطافرماتا ہے ارشاد ہوتا ہے :

''اے ميرى قوم اپنے گناہوں پر خدا سے بخشش طلب كرو ،پھر توبہ كرو اور اس كى طرف لوٹ آئو اگر تم ايسا كرلو تو وہ اسمان كو حكم دے گا كہ وہ بارش كے حيات بخش قطرے پيہم تمہارى طرف بھيجے_''(۳)

تاكہ تمہارے كھيت اور باغات كم آبى يا بے آبى كا شكار نہ ہوں اور ہميشہ سرسبز وشاداب رہيں علاوہ

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۵۱

(۲) سورہ ہود آيت ۵۱

(۳)سورہ ہود آيت۵۲

۶۷

ازيں تمہارے ايمان و تقوى ، گناہ سے پرہيز اور خدا كى طرف رجوع اور توبہ كى وجہ سے'' تمہارى قوت ميں مزيد قوت كا اضافہ كرے گا_''(۱)

يہ كبھى گمان نہ كرو كہ ايمان و تقوى سے تمہارى قوتميں كمى واقع ہوگى ايسا ہر گز نہيں بلكہ تمہارى جسمانى وروحانى قوت ميں اضافہ ہوگا _

اس كمك سے تمہارا معاشرہ آباد تر ہوگا ،جمعيت كثير ہوگى ،اقتصادى حالات بہتر ہونگے اور تم طاقتور، آزاداور خود مختار ملت بن جائو گے لہذا راہ حق سے روگردانى نہ كرو اور شاہراہ گناہ پر قدم نہ ركھو _

اے ہود تم ہمارے خدائوں كے غضب سے ديوانہ ہوگئے ہو

اب ديكھتے ہيں كہ اس سركش اور مغرور قوم يعنى قوم عادنے اپنے بھائي ہود ،ان كے پندو نصائح اور ہدايت ورہنمائي كے مقابلے ميں كيا ردّعمل ظاہر كيا _

انہوں نے كہا : ''اے ہود :تو ہمارے لئے كوئي واضح دليل نہيں لايا ، ہم ہرگز تيرى باتوں پر ايمان نہيں لائيں گے ''_(۲) ان تين غير منطقى جملوں كے بعد انہوں نے مزيد كہا :''ہمارا خيال ہے كہ تو ديوانہ ہوگيا ہے اور اس كا سبب يہ ہے كہ تو ہمارے خدائوں كے غضب كا شكار ہوا ہے اور انہوں نے تيرى عقل كو آسيب پہنچا ياہے ''(۳)

اس ميں شك نہيں كہ (جيسے تمام انبياء كا طريقہ كارہوتا ہے اور ان كى ذمہ دارى ہے) حضرت ہود عليہ السلام نے انہيں اپنى حقانيت ثابت كرنے كے لئے كئي ايك معجزے دكھائے ہوں گے ليكن انہوں نے اپنے كبروغرور كى وجہ سے ديگر ہٹ دھرم قوموں كى طرح معجزات كا انكار كيا اور انہيں جادو قرار ديا اور انہيں اتفاقى حوادث گردانا كہ جنہيں كسى معاملے ميں دليل قرار نہيں ديا جاسكتا _

انہوں نے حضرت ہود پر ''جنون ''كى تہمت لگائي اور ''جنون ''بھى وہ جو ان كے زعم ناقص ميں ان

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۵۲

(۲)سورہ ہود آيت ۵۳

(۳)سورہ ہود آيت۵۴

۶۸

كے خدائوں كے غضب كا نتيجہ تھا ،ان كے بےہودہ پن اور خرافات پرستى كى خود ايك بہترين دليل ہے_

بے جان اور بے شعورپتھر اور لكڑياں جو خود اپنے ''بندوں '' كى مدد كى محتاج ہيں وہ ايك عقلمند انسان سے كس طرح اس كا عقل وشعور چھين سكتى ہيں علاوہ ازيں ان كے پاس ہود كے ديوانہ ہونے كو نسى دليل تھى ،اگر يہ ديوانگى كى دليل ہے توپھر تمام مصلحين جہان اور انقلابى لوگ جو غلط روش اور طريقوں كے خلاف قيام كرتے ہيں سب ديوانے ہونے چاہئيں _

كيوں بت مجھے نابود نہيں كرتے

بہرحال حضرت ہود كى ذمہ دارى تھى كہ اس گمراہ اور ہٹ دھرم قوم كو دندان شكن جواب ديتے، ايسا جواب جو منطق كى بنياد پر بھى ہوتا اور طاقت سے بھى ادا ہوتا، قرآن كہتا ہے كہ انہوں نے ان كے جواب ميں چند جملے كہےں :''ميں خدا كو گواہى كے لئے بلاتا ہوں ،اور تم سب بھى گواہ رہو كہ ميں ان بتوں اور تمہارے خدائوں سے بيزار ہوں ''_(۱)

يہ اس طرف اشارہ تھا كہ اگر يہ بت طاقت ركھتے ہيں تو ان سے كہو كہ مجھے ختم كرديں ،ميں جو على الاعلان ان كے خلاف جنگ كے لئے اٹھ كھڑہوا ہوں اور اعلانيہ ان سے بيزارى اورنفرت كا اعلان كررہا ہوں وہ كيوں خاموش اور معطل ہيں ،كس چيز كے منتظر ہيں اور كيوں مجھے نابود اور ختم نہيں كرديتے _

اس كے بعد مزيد فرمايا كہ نہ فقط يہ كہ ان سے كچھ نہيں ہو سكتا بلكہ تم بھى اتنى كثرت كے باوجود كسى چيز پر قدرت نہيں ركھتے ''اگر سچ كہتے ہو تو تم سب مل كر ميرے خلاف جوسازش كرسكتے ہو كرگز رو اور مجھے لمحہ بھر كى بھى مہلت نہ دو'' _(۲)

ميں تمہارى اتنى كثير تعداد كو كيوں كچھ نہيں سمجھتا اور كيوں تمہارى طاقت كى كوئي پرواہ نہيں كرتا ،تم جو كہ ميرے خون كے پياسے ہو اور ہر قسم كى طاقت ركھتے ہو، اس لئے كہ ميرا ركھ و الا اللہ ہے، وہ جس كى قدرت

____________________

(۱) سورہ ہود آيت۵۴

(۲)سورہ ہود آيت۵۰

۶۹

سب طاقتوں سے بالاتر ہے ''ميں نے خدا پر توكل كيا ہے جو ميرا اور تمہارا پروردگار ہے''_(۱)

يہ خود اس بات كى دليل ہے كہ ميں جھوٹ نہيں بول رہا ہوں ،يہ اس امر كى نشانى ہے كہ ميں نے دل كسى اور جگہ نہيں باندھ ركھا اگر صحيح طور پر سوچو تو يہ خود ايك قسم كا معجزہ ہے كہ ايك انسان تن تنہابہت سے لوگوں كے بے ہو دہ عقائد كے خلاف اٹھ كھڑا ہو_

جبكہ وہ طاقت ور اور متعصب بھى ہوں يہاں تك كہ انہيں اپنے خلاف قيام كى تحريك كرے اس كے باوجود اس ميں خوف وخطر كے كوئي آثار نظر نہ آئيں اور پھر نہ اس كے دشمن اس كے خلاف كچھ كرسكتے ہوں _

آخر كار حضرت ہودعليہ السلام ان سے كہتے ہيں :

''اگر تم راہ حق سے روگرانى كروگے تو اس ميں ميرا كوئي نقصان نہيں ہوگا كيونكہ ميں نے اپنا پيغام تم تك پہنچا ديا ہے ''_(۲)

يہ اس طرف اشارہ ہے كہ يہ گمان نہ كرو كہ اگر ميرى دعوت قبول نہ كى جائے تو ميرے لئے كوئي شكست ہے ميں نے اپنا فريضہ انجام دے ديا ہے اور فريضہ كى انجام دہى كاميابى ہے اگر چہ ميرى دعوت قبول نہ كى جائے _

دراصل يہ سچے رہبروں اور راہ حق كے پيشوائوں كے لئے ايك درس ہے كہ انہيں اپنے كام پر كبھى بھى خستگى وپريشانى كا احساس نہيں ہونا چاہئے چاہے لوگ ان كى دعوت كو قبول نہ بھى كريں _

جيسا كہ بت پرستوں نے آپ كودھمكى دى تھى ،اس كے بعد آپ انہيں شديد طريقے پر عذاب الہى كى دھمكى ديتے ہوئے كہتے ہيں :

''اگر تم نے دعوت حق قبول نہ كى تو خدا عنقريب تمہيں نابود كردے گا اور كسى دوسرے گروہ كو تمہارا جانشين بنا دے گا اور تم اسے كسى قسم كا نقصان نہيں پہنچا سكتے_''(۳)

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۵۶

(۲)سورہ ہود ايت ۵۷

(۳)سورہ ہود آيت۵۷

۷۰

''اور يہ بھى جان لو كہ ميرا پروردگار ہر چيز كا محافظ ہے اور ہر حساب وكتاب كى نگہدارى كرتا ہے''_(۱)

نہ موقع اس كے ہاتھ سے جاتا ہے اورنہ وہ موقع كى مناسبت كو فراموش كرتا ہے نہ وہ اپنے انبياء اور دوستوں كو طاق نسياں كرتا ہے اور نہ كسى شخص كا حساب وكتاب اس كے علم سے پوشيدہ ہوتا ہے بلكہ وہ ہر چيز كو جانتا ہے اور ہر چيز پر مسلط ہے_

اس ظالم قوم پر ابدى لعنت

قوم عاد اور ان كے پيغمبر حضرت ہود كى سرگذشت سے مربوط آيات كے آخرى حصے ميں ان سركشوں كى درد ناك سزا اور عذاب كى طرف اشارہ كرتے ہوئے قرآن پہلے كہتا ہے :

'' جب ان كے عذاب كے بارے ميں ہمارا حكم آپہنچا تو ہود اور جو لوگ اس كے ساتھ ايمان لاچكے تھے ہمارى ان پر رحمت اور لطف خاص نے انہيں نجات بخشي''_(۲)

پھر مزيد تاكيد كے لئے فرمايا:''ہم نے اس صاحب ايمان قوم كو شديد عذاب سے رہائي بخشي''_(۳)

يہ امر جاذب نظر ہے كہ بے ايمان ،سركش اور ظالم افراد كے لئے عذاب وسزا معين كرنے سے پہلے صاحب ايمان قوم كى نجات كا ذكر كيا گيا ہے تاكہ يہ خيال پيدا نہ ہو جيسا كہ مشہور ضرب المثل ہے كہ عذاب الہى كے موقع پر خشك وترسب جل جاتے ہيں كيونكہ وہ حكيم اور عادل ہے اور محال ہے كہ وہ ايك بھى صاحب ايمان شخص كو بے ايمان اور گنہگار لوگوں كے درميان عذاب كرے، بلكہ رحمت الہى ايسے افراد كو عذاب وسزاكے نفاذ سے پہلے ہى امن وامان كى جگہ پر منتقل كرديتى ہے جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ اس سے پہلے كہ طوفان آئے،

____________________

(۱) سورہ ہود ايت ۵۷

( ۲،۳)سورہ ہود آيت ۵۸

۷۱

حضرت نوح كى كشتى نجات تيار تھي، اور اس سے پہلے كہ حضرت لوط كے شہر تباہ وبرباد ہوں حضرت لوط اور آپ كے انصار راتوں رات حكم الہى سے وہاں سے نكل آئے_

يہ مناسبت بھى قابل ملا حظہ ہے كہ قوم عاد كے لوگ سخت اور بلند قامت تھے ان كے قدكو كھجور كے درختوں سے تشبيہ دى گئي ہے اسى مناسبت سے ان كى عمارتيں مضبوط ،بڑى اور اونچى تھيں يہاں تك كہ قبل اسلام كى تاريخ ميں ہے كہ عرب بلند اور مضبوط عمارتوں كى نسبت قوم عاد ہى كى طرف ديتے ہوئے انہيں ''عدي'' كہتے تھے، اسى لئے ان پر آنے والا عذاب بھى انہى كى طرح غليظ اور سخت تھا ،نہ صرف اخرت كا عذاب،بلكہ اس دنيا ميں سخت سے سخت عذاب ديا گيا _

عذاب الہى ايك نحس دن ميں

قرآن مجيد قوم عا د پر عذاب الہى كے بارے ميں فرماتا ہے :

''ہم نے ان پروحشت ناك ،سرداور تيز آندھى ، ايك ايسے منحوس دن ميں جو بہت طويل تھا،ان كى طرف بھيجى ''_

اس كے بعد اس تيز آندھى كى كيفيت كے بارے ميں پروردگار عالم فرماتا ہے كہ ''لوگوں كو گھن كھائے ہوئے كھجوركے تنوں كى طرح اكھاڑديا اور وہ ان كو ہرطرف پھينكتى تھي_(۱)

قوم عاد كے لوگ قوى الجثہ تھے، انہوں نے تيز آندھى سے بچنے كے لئے زمين ميں گڑھے كھود ركھے تھے اور زير زمين پناہ گا ہيں بنا ركھى تھيں ليكن اس روز آنے والى آندھى اتنى زور دار اور طاقتور تھى كہ ان كو ان كى پناہ گا ہوں سے باہر نكالتى تھى اور ادھر اُدھر پھينكتى تھى وہ ان كو اس زور سے زمين پر پٹختى تھى كہ ان كے سرتن سے جدا ہوجا تے تھے _اندھى اس قدر تيز تھى كہ پہلے ان كے ہاتھ پيروں اور سروں كو جدا كرتى تھى ،اس كے بعد ان كے اجسام كو بے شاخ و برگ كھجور كى طرح زمين سے اكھاڑتى تھى اور ادھر ادھر لئے پھرتى تھي_

____________________

(۱)سورہ قمر آيت۲۰

۷۲

قرآن كريم اس قوم كے عذاب كے بارے ميں دوسرى جگہ كہتا ہے:

''قوم عاد كى سرگذشت ميں بھى ايك آيت وعبرت ہے ،جبكہ ہم نے ان پر ايك عقيم اور بغير بارش كا طوفان بھيجا ''_(۱)

ہوائوں كا عقيم اور بانجھ ہونااسوقت ہوتا ہے ،جب كہ وہ بارش برسانے والے بادل اپنے ساتھ لے كر نہ چليں ، گياہ ونباتات ميں اپنے عمدہ اثرات نہ چھوڑيں ،ان ميں كوئي فائدہ اور بركت نہ ہو ،ااور ہلاكت ونابودى كے سوا كوئي چيز ہمراہ نہ لائيں _

اس كے بعد اس سخت آندھى كى خصوصيت جو قوم عادپر مسلط ہوئي تھي، بيان كرتے ہوئے مزيد كہتا ہے: '' وہ جس چيز كے پاس سے گزرتى تھى اس كو نابود كئے بغير نہ چھوڑتى تھى ،اور خشك كٹى پھٹى گھاس يا بوسيدہ ہڈيوں كى صورت ميں بدل ديتى تھى ''_(۲)

يہ تعبير اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ قوم عاد كى تيز آندھى ايك عام تيز آندھى نہيں تھى ،بلكہ انہيں تباہ كرنے اور كوٹنے چھٹنے يا پھر پيٹنے كے علاوہ اور اصطلاح كے مطابق فزيكل دبائو سے ،جلانے اور زہريلابنا نے كى خاصيت ركھتى تھى ،جو طرح طرح كى اشيائوں كو بوسيدہ اور كہنہ بناديتى تھى ،جى ہاں ، اس طرح خدا كى قدرت ''نسيم سحر''كو ايك تيز اندھى ميں بدل كر بڑى بڑى طاقتور قوموں كو اس طرح درہم و برہم كر ديتى ہے كہ صرف ان كے بوسيدہ جسم باقى رہ جاتے ہيں _

كيا ان ميں سے كسى كو ديكھتے ہو

قران اس كے بعد اس تيز اور سر كوب كرنے والى آندھى كى ايك دوسرى توصيف كو بيان كرتے ہوئے مزيد كہتا ہے :''خدا نے اس كو اس قوم پر مسلسل سات راتيں اور آٹھ دن ان كى بنياديں اكھاڑنے كے لئے مسلط كئے ركھا ''(۳)

____________________

(۱)سورہ ذاريات ايت ۴۱

(۲)سورہ ذاريات ايت ۳۲

(۳)سورہ حاقہ آيت ۷

۷۳

سات راتوں اور آٹھ دنوں ميں اس عظيم قوم كى وسيع اور بارونق زندگى كوبالكل تباہ وبرباد كيا اور ان كو جڑسے اكھاڑ كر پر اگندہ كرديا _

نتيجہ يہ ہو ا كہ جيسا كہ قرآن كہتا ہے ''اگر تو وہاں ہوتا تو مشاہدہ كرتا كہ وہ سارى قوم منہ كے بل گرى پڑى ہے اور سوكھے اور كھوكھلے درختوں كى طرح ڈھير ہوگئے ہيں ''_(۱)

كتنى عمدہ تشبيہہ ہے،جو ان كے طويل قدوقامت كو بھى مشخص كرتى ہے ،ان كے جڑسے اكھڑجانے كو بھى ظاہر كرتى ہے اور خدا كے عذاب كے مقابلہ ميں ان كے اندر سے خالى ہونے كو بھى بيان كرتى ہے اس طرح كہ وہ تيز آندھى جدھر چاہتى ہے انھيں آسانى كے ساتھ لے جاتى ہے _

قرآن اس واقعہ كے آخر ميں مزيد كہتا ہے '' كيا تم ان سے كسى كو باقى ديكھتے ہو''؟_(۲)

ہاں :آج نہ صرف قوم عاد كا كوئي نام ونشان باقى نہيں بلكہ ان كے آباد شہروں اور پر شكوہ عمارتوں كے كھنڈرات اور ان كے سبز كھيتوں ميں سے كوئي چيز باقى نہيں ہے _

____________________

(۱)سورہ حاقہ آيت ۷

(۲)سورہ حاقہ آيت ۸

۷۴

حضرت صالح عليہ السلام

قوم ثمود اور اس كے پيغمبر جناب صالح(ع) كى جو''وادى القرى '' ميں رہتے تھے جو''مدينہ '' اور'' شام'' كے درميان واقع ہے يہ قوم اس سرزمين ميں خوشحال زندگى بسر كررہى تھى ليكن اپنى سركشى كى بناء پرصفحہ ہستى سے يوں مٹ گئي كہ آج اس كا نام ونشان تك باقى نہيں رہا_

قرآن اس سلسلے ميں فرماتا ہے : ''قوم ثمودنے (خدا كے )رسولوں كو جھٹلايا ''_(۱)

كيونكہ تمام انبياء كى دعوت حق ايك جيسى تھى اور اس قوم كا اپنے پيغمبر جناب صالح كى تكذيب كرنا در حقيقت تمام رسولوں كى تكذيب كے مترادف تھا_

''جبكہ ان كے ہمدرد پيغمبر صالح نے ان لوگوں سے كہاآيا تقوى اختيار نہيں كرتے ہو ؟''(۲)

وہ جو كہ تمہارے بھائي كى طرح تمہاراہادى اورراہبر تھا اس كى نظر ميں نہ برترى جتانا تھا اور نہ ہى مادى مفادات ، اسى لئے قرآن نے جناب صالح(ع) عليہ السلام كو '' اخوہم '' سے تعبير كيا ہے جناب صالح نے بھى دوسرے انبياء كى مانند اپنى دعوت كا آغاز تقوى اور فرض كے احساس سے كيا _

پھر اپنا تعارف كرواتے ہوئے فرماتے ہيں :''ميں تمہارے لئے امين پيغمبر ہوں ''(۳)

ميرا ماضى ميرے اس دعوى كى بين دليل ہے _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۴۱

(۲)سورہ شعراء ايت ۱۴۲

(۳) سورہ شعراء ايت۱۴۳

۷۵

'' اسى لئے تم تقوى اختيار كرو ،خداسے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ''(۱)

كيونكہ ميرے مد نظر رضائے الہي، تمہارى خيرو خوبى اور سعادت كے سوا اور كچھ نہيں _

بنابريں '' اس دعوت كے بدلے ميں تم سے كوئي اجرت نہيں مانگتا_''(۲)

ميں تو كسى اور كے لئے كام كرتاہوں اور ميرا اجر بھى اسى كے پاس ہے '' ہاں تو ميرا اجر صرف عالمين كے پروردگار كے پاس ہے ''(۳)

يہ جناب صالح عليہ السلام كى داستان كا ابتدائي حصہ تھا جو دو جملوں ميں بيان كيا گيا ہے ايك دعوت كا پيش كرنا اوردوسرے رسالت كو بيان كرنا _

پھر دوسرے حصے ميں افراد قوم كى زندگى كے قابل تنقيد اور حساس پہلوئوں كى نشاندہى كرتے ہوئے انھيں ضمير كى عدالت كے كٹہرے ميں لاكھڑاكيا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے: ''آيا تم يہ سمجھتے ہو كہ ہميشہ امن وسكون اور نازونعمت كى زندگى بسركرتے رہوگے ''_(۴)

كيا تم يہ سمجھتے ہو كہ تمہارى يہ مادى اور غفلت كى زندگى ہميشہ كے لئے ہے اور موت ، انتقام اور سزا كا ہاتھ تمہارے گريبانوں تك نہيں پہنچے گا ؟

''كياتم گمان كرتے ہو كہ يہ باغات اور چشمے ميں اور يہ كھيت اور كھجور كے درخت جن كے پھل شيريں وشاداب اور پكے ہوئے ہيں ، ہميشہ ہميشہ كے لئے باقى ر ہيں گے _''(۵)

پھر ان پختہ اور خوشحال گھروں كو پيش نظر ركھتے ہوئے كہتے ہيں : ''تم پہاڑوں كو تراش كر گھر بناتے ہو اور اس ميں عياشى كرتے ہو _''(۶)

جبكہ قوم ثمودشكم كى اسيراور نازو نعمت بھرى خوشحال زندگى سے بہرہ مند تھى _

____________________

(۱)سورہ شعراء ايت۱۴۵ (۲)سورہ شعراء آيت۱۴۵ (۳) سورہ شعراء آيت۵ ۴ ۱

(۴)سورہ شعراء آيت ۱۴۵ (۵)سورہ شعراء آيت۴۷اتا ۱۴۸

(۶)سورہ شعراء آيت ۱۴۹

۷۶

فاسداوراسراف كرنے والوں كى اطاعت نہ كرو

حضرت صالح عليہ السلام اس تنقيد كے بعد انھيں متبنہ كرتے ہو ئے كہتے ہيں : '' حكم خدا كى مخالفت سے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ،اور مسرفين كا حكم نہ مانو، وہى جو زمين ميں فساد كرتے ہيں اور اصلاح نہيں كرتے_''(۱) ''يہ دھيان ميں رہے كہ خدانے قوم ''عاد'' كے بعد تمہيں ان كا جانشين اور خليفہ قرار ديا ہے اور زمين ميں تمہيں جگہ دى ہے ''(۲)

يعنى ايك طرف تو تم كواللہ كى نعمتوں كا خيال رہناچاہيئے، دوسرے يہ بھى ياد رہے كہ تم سے پہلے جو قوم تھى وہ اپنى سركشى اور طغيانى كے باعث عذاب الہى سے تباہ وبرباد ہوچكى ہے_

پھر اس كے بعد انہيں عطا كى گئي كچھ نعمتوں كا ذكر كياگيا ہے ،ارشاد ہوتا ہے: '' تم ايك ايسى سرزمين ميں زندگى بسر كرتے ہو جس ميں ہموار ميدان بھى ہيں جن كے اوپر تم عاليشان قصر اور آرام دہ مكانات بناسكتے ہو ، نيز اس ميں پہاڑى علاقے بھى ہيں جن كے دامن ميں تم مضبوط مكانات تراش سكتے ہو (جو سخت موسم ، اورسرديوں كے زمانے ميں ) تمہارے كام آسكتے ہيں ''_(۳)

اس تعبير سے يہ پتہ چلتاہے كہ وہ لوگ (قوم عاد )سردى اور گرمى ميں اپنى سكونت كى جگہ بدل ديتے تھے فصل بہار اور گرميوں ميں وسيع اور پربركت ميدانوں ميں زراعت كرتے تھے اور پرندے اور چوپائے پالنے ميں مشغول رہا كرتے تھے اس وجہ سے وہ وہاں خوبصورت اور آرام دہ مكانات بناتے تھے جو انہوں نے پہاڑوں پر تراش كربنائے تھے اور يہ مكانات انہيں سيلابوں اور طوفانوں سے محفوظ ركھتے تھے يہاں وہ اطمينان سے سردى كے دن گزار ديتے تھے_ آخر ميں فرمايا گيا ہے :

'' خداوندكريم كى ان سب نعمتوں كو ياد كرو اور زمين ميں فسادنہ كرو اور كفران نعمت نہ كرو''_(۴)

____________________

(۱) سورہ شعراء آيات ۱۵۰ تا ۱۵۲

(۲) سورہ اعراف آيت ۷۴ (۳)سورہ اعراف آيت ۷۴

(۴)سورہ اعراف آيت۷۴

۷۷

قوم صالح كى ہٹ دھرمي

آپ حضرات، گمراہ قوم كے سامنے حضرت صالح عليہ السلام كى منطقى اور خيرخواہى پر مبنى گفتگو ملاحظہ فرماچكے ہيں جناب صالح(ع) كے جواب ميں اس قوم كى گفتگو بھى سينے_

انھوں نے كہا:''اے صالح : تم سحرزدہ ہوكر اپنى عقل كھوچكے ہو، لہذا غير معقول باتيں كرتے ہو ''(۱)

ان كا يہ عقيدہ تھا كہ بسا اوقات جادو گر لوگ جادو كے ذريعے انسان كى عقل و ہوش كو بيكار بناديتے ہيں صرف انھوں نے جناب صالح پر ہى يہ تہمت نہيں لگائي بلكہ اور لوگوں نے بھى دوسرے انبياء پر ايسى تہمتيں لگائي ہيں ،حتى كہ خود پيغمبر اسلام (ص) كى ذات تك كو متہم كيا_

جى ہاں ان كے نزديك عقل مند انسان وہ ہوتا ہے جو ماحول ميں ڈھل جائے ابن الوقت بن جائے اور خود تمام برائيوں پر منطبق ہو جائے اگر كوئي انقلابى مرد خدا فاسد عقائد اور غلط نظام كے بطلان كے لئے قيام كرتا تو وہ اپنى اس منطق كى رو سے اسے ديوانہ ،مجنون اور سحر زدہ كہتے_

اسى طرح قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتاہے'' اس خود پسند طبقے نے اللہ كى وحدانيت كا انكار كيا كہ آخرت كى ملاقات كو جھٹلايا،حالانكہ ہم نے انہيں دنيا كى بہت سى نعمتوں سے مالا مال كرركھا تھا وہ كہنے لگے كہ يہ تمہارى ہى طرح كا انسان ہے جو تم كھاتے ہو يہ بھى كھاتاہے_ اور جو تم پيتے ہو يہ بھى پيتا ہے''_( ۲)

بے شك وہ اشراف كا خوشحال طبقہ جو قرآن مجيد كى اصطلاح ميں صرف ظاہربين تھا اور كور باطن تھا وہ اس عظيم پيغمبر كے مشن كو اپنے مفاد كا مخالف ،ناجائز منافع خوارى ، استحصال اور بے جابالادستى سے متصادم ديكھ رہاتھا ،يہ طبقہ اپنى پر عيش زندگى كى وجہ سے اللہ سے كوسوں دور چلاگيا تھا اور آخرت كا منكرتھا _

انہوں نے اللہ كے نمائندوں كے انسان ہونے اور ديگرانسانوں كى طرح كھانے پينے كو ان كى رسالت كى نفى كى دليل قرارديا حالانكہ يہ بات ان مايہ ناز شخصيتوں كى نبوت ورسالت كى پرزور تائيد تھى كہ وہ

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۳

(۲)سورہ مومنون آيت۳۳

۷۸

عام لوگوں ميں سے ہوں تاكہ انسان كى ضروريات اور مسائل سے اچھى طرح آگاہ ہوں ،مزيد برآں وہ ايك دوسرے سے كہتے تھے:''اگر تم اپنے ہى جيسے آدمى كے مطيع بنوگے تويہ بڑى نقصان دہ بات ہوگى ''_(۱)

يہ كور باطن اتنا نہيں سمجھتے تھے كہ خود تويہ توقع كررہے ہيں كہ لوگ ان كے شيطانى عزائم كى تكميل اور پيغمبر سے مقابلے كے لئے ان كى پيروى كريں ،مگر اس شخصيت كى اطاعت وپيروى كو جومركز وحى سے وابستہ ہے اور جس كا دل نور علم پروردگارعالمين سے منور ہے انسان كے لئے ذلت ،ننگ وعار اور حريت كے منافى بتارہے تھے _

كيا ہم دوبارہ زندہ كئے جائيں گے

اس كے بعد انھوں نے معاد اور قيامت كا انكار كيا ، جس كو ماننا ہميشہ سے خود سراور ہواو ہوس كے رہبر وں كے لئے مشكل رہا ہے اور كہا :

''كيا يہ شخص تم سے يہ وعدہ كرتا ہے كہ مرنے كے بعد مٹى اور بوسيدہ ہڈى ہوجانے كے بعد تم ايك بار پھر قبروں سے نكلوگے اور ايك نئي زندگى پائو گے _''(يہ بہت دور اور بہت دور كى بات ہے وہ و عدے جو تم سے كئے گئے ہيں وہ، بالكل بے بنياد اور كھوكھلے ہيں )(۲)

مجموعى طورپر كيا يہ ممكن ہے كہ ايك آدمى جو مرگيا ہو ،مٹى كے ساتھ مٹى ہوگيا ہو ، اس كے اجزاء ادھر ادھر بكھرگئے ہوں ، وہ دوبارہ زندہ ہوسكتا ہے ؟ نہيں يہ محال ہے ،يہ محال بات ہے _

آخرميں اپنے نبى پر ايك مجموعى الزام لگاتے ہوئے انہوں نے كہا يہ ايك جھوٹا شخص ہے ، جس نے اللہ پر بہتان باندھا ہے اور ہم اس پر ہرگز ايمان نہيں لائيں گے ''(۳)

نہ اس كى رسالت اللہ كى طرف سے ہے نہ قيامت سے متعلق اس كے وعدے سچے ہيں اور نہ ہى دوسرے احكام ايسے ہيں ،كوئي عقلمند آدمى اس پر كيسے ايمان لاسكتا ہے _

____________________

(۱) سورہ مومنون آيت۳۴

(۲) سورہ مومنون ۳۵ تا۳۶

(۳) سورہ مومنون آيت۳۷

۷۹

اے صالح(ع) ہم تم پراميد ركھتے تھے

انہوں نے حضرت صالح كو غير موثر بنانے كے لئے يا كم از كم ان كى باتوں كو بے تاثير كرنے كے لئے ايك نفسياتى حربہ استعمال كيا وہ آپ كو دھوكا دينا چاہتے تھے ، كہنے لگے :''اے صالح اس سے پہلے تو ہمارى اميدوں كا سرمايہ تھا _''(۱)

مشكلات ميں ہم تيرى پناہ ليتے تھے، تجھ سے مشورہ كرتے تھے، تيرے عقل وشعور پر ايمان ركھتے تھے، اور تيرى خير خواہى اور ہمدردى ميں ہميں ہرگز كوئي شك نہ تھا _

ليكن افسوس كہ تم نے ہمارى اميدوں پر پانى پھيرديا ،دين بت پرستى كى اور ہمارے خدائوں كى مخالفت كركے كہ جو ہمارے بزرگوں كا رسم ورواج تھا اور ہمارى قوم كے افتخارات ميں سے تھا تونے ظاہر كرديا كہ تو بزرگوں كے احترام كا قائل نہيں ہے نہ ہمارى عقل پر تمہيں كوئي اعتماد ہے اور نہ ہى تو ہمارے طور طريقوں كا حامى ہے _''كيا سچ مچ تو ہميں ان كى پرستش سے روك ديناچاہتا ہے جن كى عبادت ہمارے آبائو اجداكيا كرتے تھے_''(۲)

تم كتنے نحس قدم ہو

بہرحال اس سركش قوم نے اس عظيم پيغمبر كى ہمدردانہ نصيحتوں كو دل كے كانوں سے سننے اور ان پر عمل درآمد كرنے كى بجائے واہيات اور بے كار باتوں كے ذريعے ان كا مقابلہ كرنے كى ٹھان لي، منجملہ اور باتوں كے انھوں نے كہا:'' ہم تمھيں اور جو لوگ تمہارے ساتھ ہيں سب كو ايك برى فال سمجھتے ہيں ''_(۳)

معلوم ايسا ہوتا ہے كہ وہ سال خشك سالى اور قحط سالى كا تھا اسى لئے وہ صالح عليہ السلام سے كہنے لگے: ''كہ يہ سب كچھ تمہارے اور تمہارے ساتھيوں كے نامبارك قدموں كى بدولت ہوا ہے ''_تم منحوس لوگ

____________________

(۱)سورہ ہودآيت۶۲

(۲) سورہ ہودآيت ۶۲

(۳) سورہ نمل آيت ۴۷

۸۰

ہو، ہمارے معاشرے ميں تم ہى بد بختى اور نحوست لائے ہو ،وہ برى فال كو اس بہانے سے جو درحقيقت بے كار اور شرير لوگوں كا بہانہ ہوتا ہے ،جناب صالح عليہ السلام كے بہترين دلائل كو كمزور كرنا چاہتے تھے _

ليكن جناب صال(ع) ح نے جواب ميں كہا : ''برى فال ( اور تمہارا نصيب )تو خدا كے پاس ہى ہے''_(۱)

اسى نے تمہارے اعمال كى وجہ سے تمہيں ان مصائب ميں ڈال ديا ہے اور تمہارے اعمال ہى تمہارى اس سزا كا سبب بنے ہيں _

در حقيقت تمہارے لئے يہ خدا كى ايك عظيم آزمائش ہے جى ہاں :'' تم ہى ايسے لوگ ہو جن كى آزمائش كى جائے گى ''_(۲)

يہ خدا كى آزمائش ہوتى ہے اور خبردار كرنے والى چيزيں ہوتى ہيں تاكہ جو لوگ سنبھل جانے كى صلاحيت ركھتے ہيں وہ سنبھل جائيں ، خواب غفلت سے بيدار ہوجائيں ، غلط راستے كو چھوڑكر خدائي راستے كو اختيار كرليں _

ناقہ صالح(ع)

اس كے بعد آپ نے اپنى دعوت كى حقانيت كے لئے معجزے اور نشانى كى نشاندہى كى ،ايسى نشانى جو انسانى قدرت سے ماورا ہے اور صرف قدرت الہى كے سہارے پيش كى گئي ہے ان سے كہا :''اے ميرى قوم : يہ ناقہ الہى تمہارے لئے آيت اور نشانى ہے ''اسے چھوڑدو كہ يہ بيابانوں چراگاہوں ميں گھاس پھوس كھائے''، ''اوراسے ہر گز كوئي تكليف نہ پہنچانا اگر ايسا كروگے تو فورا تمہيں درناك عذاب الہى گھيرلے گا ''_(۳)

لغت ميں '' ناقة'' اونٹنى كے معنى ميں ہے _ يہاں قرآن اور ميں يہاں اور قران كى بعض ديگر آيات ميں اس كى اضافت خدا كى طرف سے كى گئي ہے يہ امر نشاندہى كرتاہے كہ يہ اونٹنى كچھ خصوصيات ركھتى تھي

____________________

(۱) سورہ نمل آيت ۴۷

(۲) سورہ نمل آيت۴۷

(۳)سورہ ہود ايت ۶۴

۸۱

اس طرف توجہ كرتے ہوئے كہ يہاں پر اس كا ذكر آيت الہى اور دليل حقانيت كے طور پر آيا ہے، واضح ہوجاتاہے كہ يہ اونٹنى ايك عام اونٹنى نہ تھى اور ايك حوالے سے يا كئي حوالوں سے معجزہ كے طور پر تھى ليكن قرآن ميں يہ مسئلہ تفصيل كے ساتھ نہيں آيا كہ اس ناقہ كى خصوصيات كيا تھيں اس قدر معلوم ہوتا ہے كہ يہ كوئي عام اونٹنى نہ تھى _ بس يہى ايك چيز قرآن ميں دو مواقع پر موجود ہے كہ حضرت صالح(ع) نے اس ناقہ كے بارے ميں اپنى قوم كو بتايا كہ اس علاقے ميں پانى كى تقسيم ہونا چاہئے ايك دن پانى ناقہ كا حصہ ہے اور ايك دن لوگوں كا''_(۱)

ليكن يہ بات پورى طرح مشخص نہيں ہوسكى كہ پانى كى يہ تقسيم كس طرح خارق العادت تھى ايك احتمال يہ ہے كہ وہ اوٹنى بہت زيادہ پانى پيتى تھى اس طرح چشمہ كا تمام پانى اس كے لئے مخصوص ہوجاتا دوسرا احتمال يہ ہے كہ جس وقت وہ پانى پينے كے لئے آتى تو دوسر ے جانورپانى پينے كى جگہ پر آنے كى جرا ت نہ كرتے _

ايك سوال يہ ہے كہ يہ جانور تمام پانى سے كس طرح استفادہ كرتا تھا اس سلسلے ميں يہ احتمال ہے كہ اس بستى كا پانى كم مقدار ميں ہو جيسے بعض بستيوں ميں ايك ہى چھوٹا سا چشمہ ہوتا ہے اور بستى والے مجبور ہوتے ہيں كہ دن بھر كا پانى ايك گڑھے ميں ا كٹھاكريں تاكہ كچھ مقدار جمع ہوجائے اور اسے استعمال كيا جاسكے _

ليكن دوسرى طرف قران كى بعض آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ'' قوم ثمود تھوڑے پانى والے علاقے ميں زندگى بسر نہيں كرتى تھى بلكہ وہ لوگ تو باغوں ، چشموں ،كھيتوں اور نخلستان كے مالك تھے''_(۲)

بہرحال جيسا كہ ہم نے كہا ہے كہ ناقہ صالح كے بارے ميں اس مسئلہ پر قرآن نے اجمالا ذكر كيا

____________________

(۱) (هذه ناقة لها شرب ولكم شرب يوم معلوم ) (سورہء شعراء آيت۱۵۵) نيز سورہ قمر كى آيت ۲۸ ميں ہے: (ونبئهم ان الماء قسمة بينهم كل شرب محتضر _) سورہ شمس ميں بھى اس امر كى طرف اشارہ موجود ہے : (فقال لهم رسول الله ناقة الله وسقياها _) (سورہ شمس آيت ۱۳)

(۲) سورہ شعراء آيت ۱۴۶ تا ۱۴۸

۸۲

ہے ليكن بعض روايات جو شيعہ اور سنى دونوں فريقوں كے يہاں نقل ہوئي ہيں ان ميں بيان ہوا ہے كہ اس ناقہ كے عجائب خلقت ميں سے يہ تھا كہ وہ پہاڑكے اندر سے با ہر نكلي اس كے بارے ميں كچھ اور خصوصيات بھى منقول ہيں _

بہر كيف حضرت صالح جيسے عظيم نبى نے اس ناقہ كے بارے ميں بہت سمجھايا بجھايا مگر انہوں نے آخركار ناقہ كو ختم كردينے كا مصمم ارادہ كرليا كيونكہ اس كى خارق عادت اور غير معمولى خصوصيات كى وجہ سے لوگوں ميں بيدارى پيدا ہورہى تھى اور وہ حضرت صالح كى طرف مائل ہورہے تھے لہذا قوم ثمود كے كچھ سركشوں نے جو حضرت صالح كى دعوت كے اثرات كو اپنے مفادات كے خلاف سمجھتے تھے اور وہ ہرگز لوگوں كى بيدارى نہيں چاہتے تھے كيونكہ خلق خدا كى بيدارى سے ان كے استعمارى مفادات كو نقصان پہنچتا،لہذا انھوں نے ناقہ كو ختم كرنے كى سازش تيار كى كچھ افراد كو اس كام پر مامور كيا گيا آخر كار ان ميں سے ايك نے ناقہ پر حملہ كيا اور اس پر ايك يا كئي وار كئے '' اور اسے مار ڈالا''_(۱)

اگر تم سچے ہو تو عذاب ميں جلدى كرو

انہوں نے صرف اسى پر اكتفانہ كى بلكہ اس كے بعد وہ حضرت '' صالح ''كے پاس آئے اور اعلانيہ ان سے كہنے لگے : ''اگر تم واقعاً خدا كے رسول ہوتو جتنى جلد ہوسكے عذاب الہى لے آئو ''_(۲)

ليكن صالح عليہ السلام نے كہا : اے ميرى قوم : تم نيكيوں كى كوشش اور ان كى تلاش سے پہلے ہى عذاب اور برائيوں كے لئے جلدى كيوں كرتے ہو ؟ ''(۳)

تم اپنى تمام ترفكر عذاب الہى كے نازل ہونے پر ہى كيوں مركوز كرتے ہو ؟ اگر تم پر عذاب نازل ہوگيا توپھر تمہارا خاتمہ ہوجائے گا اور ايمان لانے كا موقع بھى ہاتھ سے چلاجائے گا _ آئو اور خدا كى بركت اور اس كى رحمت كے ساتھ ايمان كے زيرسايہ ميرى سچائي كو آزمائو تم خدا كى بارگاہ سے اپنے گناہوں كى بخشش كا

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت ۷۷

(۲)سورہ اعراف آيت ۷۷

(۳)سورہ نمل آيت۴۶

۸۳

سوال كيوں نہيں كرتے ہو؟ تاكہ اس كى رحمت ميں شامل ہوجائو صرف برائيوں اور عذاب نازل ہونے كا تقاضاكيوں كرتے ہو؟يہ ہٹ دھرمى اور پاگل پن كى باتيں آخر كس لئے ؟ يہ بات واقعاً عجيب ہے كہ انسان دعوائے محبت كى صداقت كو تباہ كن عذاب كے ذريعہ جانچ رہا ہے نہ كہ رحمت كا سوال كركے اور حقيقت يہ ہے كہ وہ قلبى طور پر انبياء كرام عليہم السلام كى صداقت كے معترف تھے ليكن زبان سے اس كا انكار كيا كرتے تھے _

اس كى مثال يوں ہے كہ جيسے كوئي شخص علم طب كا مدعى ہو اور اسے معلوم ہو كہ فلاں دوا سے صحت اور شفا حاصل ہوتى ہے اور فلاں چيزسے انسان كى موت واقع ہوجاتى ہے ليكن وہ ايسى دوا حاصل كرنے كى كوشش كرے جو مہلك ہے نہ كہ جو مفيد اور شفاء بخش _ يہ تو واقعاً جہالت و نادانى كى حد ہے ،كيونكہ يہ سب جہالت ہى كا نتيجہ ہے_

حضرت صالح(ع) نے قوم كى سركشي، نافرمانى اور اس كے ہاتھوں قتل ناقہ كے بعد اسے خطرے سے آگاہ كيا اور كہا:

'' پورے تين دن تك اپنے گھروں ميں جس نعمت سے چاہواستفادہ كرو اور جان لوكہ ان تين دنوں كے بعد عذاب الہى آكے رہے گا '' _(۱)

قوم ثمود كا انجام

قرآن كريم ميں اس سركش قوم (قوم ثمود ) پر تين دن كى مدت ختم ہونے پر نزول عذاب كى كيفيت بيان كى گئي ہے :''اس گروہ پر عذاب كے بارے ميں جب ہمارا حكم آپہنچا تو صالح اور اس پر ايمان لانے والوں كو ہم نے اپنى رحمت كے زير سايہ نجات بخشى ''_(۲)

انہيں نہ صرف جسمانى ومادى عذاب سے نجات بخشى بلكہ ''رسوائي ،خوارى اور بے آبروئي سے بھى انہيں نجات عطا كى كہ جو اس روز اس سركش قوم كو دامنگير تھى '' _(۳)

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۶۵

(۲) سورہ ہود آيت ۶۶

(۳)سورہ ہود آيت ۶۶

۸۴

كيونكہ تمہارا پروردگار ہر چيز پر قادر اور ہر كام پر تسلط ركھتا ہے اس كے لئے كچھ محال نہيں ہے اور اس كے ارادے كے سامنے كوئي طاقت كچھ بھى حيثيت نہيں ركھتي،''لہذا اكثرجمعيت كے عذاب الہى ميں مبتلا ہونے سے صاحب ايمان گروہ كو كسى قسم كى كوئي مشكل اور زحمت پيش نہيں ہوگى يہ رحمت الہى ہے جس كا تقاضا ہے كہ بے گناہ، گنہگاروں كى آگ ميں نہ جليں اور بے ايمان افراد كى وجہ سے مومنين گرفتار بلانہ ہوں _ ''ليكن ظالموں كو صيحہ آسمانى نے گھيرليا اس طرح سے كہ يہ چيخ نہايت سخت اور وحشت ناك تھى اس كے اثر سے وہ سب كے سب گھروں ہى ميں زمين پر گركر مرگئے ،وہ اس طرح مرے اور نابود ہوئے اور ان كے آثار مٹ گئے كہ گويا وہ اس سرزمين ميں كبھى رہتے ہى نہ تھے ''_(۱) جان لوكہ قوم ثمود نے اپنے پروردگار سے كفر كيا تھا اور انہوں نے احكام الہى كو پس پشت ڈال ديا تھا_ ''دور ہو قوم ثمود، اللہ كے لطف ورحمت سے اور ان پر لعنت ہو''_(۲)

''صيحة'' سے كيا مرادہے ؟

''صيحة''لغت ميں ''بہت بلند آواز '' كو كہتے ہيں جو عام طور پر كسى انسان يا جانور كے منہ سے نكلتى ہے ليكن اس كا مفہوم اسى سے مخصوص نہيں ہے بلكہ ہر قسم كى '' نہايت بلند آواز ''اس كے مفہوم ميں شامل ہے _

آيات قرآنى كے مطابق صيحہ آسمانى كے ذريعہ چند ايك گنہگارقوموں كوسزا دى گئي ہے ان ميں سے ايك يہى قوم ثمود تھي، دوسرى قوم لوط ،(۳) اور تيسرى قوم شعيب _(۴)

قرآن كى دوسرى آيات سے قوم ثمود كے بارے ميں معلوم ہوتا ہے كہ اسے صاعقہ كے ذريعہ سزا ہوئي ارشاد الہى ہے : ''اگر وہ منھ پھير ليں تو پھر كہہ دو كہ ميں ايسى بجلى سے ڈراتا ہوں جيسى عاد و ثمود پر گري''_(۵)

____________________

(۱) سورہ ہود ايت ۶۷_۶۸

(۲)سورہ ہود آيت ۸۶

(۳)سورہ حجرآيت ۷۳

(۴)سورہ ہودآيت ۹۴

(۵)سورہ فصلت آيت۱۳

۸۵

يہ چيز نشاندہى كرتى ہے كہ ''صيحہ'' سے مراد '' صاعقہ '' كى وحشتناك آوازہے _(۱)

آيات قرآنى كے مطابق اس دنيا كا اختتام بھى ايك عمومى صيحہ كے ذريعے ہوگا _

حضرت صالح(ع) كے ساتھ نجات پانے والے افراد

بعض مفسرين كہتے ہيں كہ حضرت صالح عليہ السلام كے دوستوں كى تعداد چار ہزار تھي_جوآپ كے ساتھ عذاب سے بچ گئے تھے اور حكم پرردگار كے مطابق فساد و گناہ سے لبريز اس علاقہ سے كوچ كركے ''حضر موت'' جاپہنچے تھے_

وادى القرى ميں نو ۹ مفسدٹولوں كى سازش

يہاں پر حضرت صالح اور ان كى قوم كى داستان كا ايك اور حصہ بيان كيا گيا ہے جو درحقيقت گزشتہ حصے كا تتمہّ ہے اور اسى پر اس داستان كا اختتام ہوتا ہے _اس ميں حضرت صالح عليہ السلام كے قتل كے منصوبے كا ذكر ہے جو نوكا فراورمنافق لوگوں نے تيار كيا تھا اور خدا نے ان كے اس منصوبے كو ناكام بناديا_

____________________

(۱)سوال پيدا ہوتا ہے كہ كيا صاعقہ كى وحشت ناك آواز كسى جمعيت كو نابود كرسكتى ہے ؟ اس كا جواب مسلما ًمثبت ہے_ كيونكہ ہم جانتے ہيں كہ آوازكى لہريں جب ايك معين حدسے گزرجائيں تو وہ شيشے كو توڑديتى ہيں يہاں تك كہ بعض عمارتوں كو تباہ كرديتى ہيں اورا نسانى بدن كے لئے اندر كے آرگا نزم كو بيكار كرديتى ہيں _

ہم نے سنا ہے كہ جب ہوائي جہازصوتى ديوارتوڑديتے ہيں (اور آواز كى لہروں سے تيز رفتار سے چلتے ہيں )توكچھ لوگ بے ہوش ہوكر گرجاتے ہيں يا عورتوں كے حمل ساقط ہوجاتے ہيں يا ان علاقوں ميں موجود عمارتوں كے تمام شيشے ٹوٹ جاتے ہيں _

فطرى اور طبيعى ہے كہ اگر آواز كى لہروں كى شدت اس سے بھى زيادہ ہوجائے تو آسانى سے ممكن ہے كہ اعصاب ميں ،دماغ كى رگوں ميں اور دل كى دھڑكن ميں تباہ كن اختلال پيدا ہوجائے جو انسانوں كى موت كا سبب بن جائے _آيات قرآنى كے مطابق اس دنيا كا اختتام ميں تباہ كن اختلال پيدا ہوجائے جو انسانوں كى موت كا سبب بن جائے گا_

۸۶

فرمايا گيا ہے :''اس شہر ( وادى القرى ) ميں نوٹولے تھے جو زمين ميں فساد برپا كرتے تھے اور اصلاح نہيں كرتے تھے _''(۱)

ان نوميں سے ہرگروہ كا ايك ايك سربراہ بھى تھا اور شايدان ميں سے ہر ايك كسى نہ كسى قبيلے كى طرف منسوب بھى تھا _ ظاہر ہے كہ جب صالح عليہ السلام نے ظہور فرمايا اور اپنا مقدس اور اصلاحى آئين لوگوں كے سامنے پيش كيا تو ان ٹولوں پر عرصہ حيات تنگ ہونے لگا يہى وجہ ہے كہ قرآن كے مطابق انھوں نے كہا :'' آئو خدا كى قسم اٹھا كر عہد كريں كہ صالح(ع) اور ان كے خاندان پر شب خون ماركر انھيں قتل كرديں گے پھر ان كے خون كے وارث سے كہيں گے كہ ہميں اس كے خاندان كے قتل كى كوئي خبر نہيں اور اپنى اس بات ميں ہم بالكل سچے ہيں _''(۲)

پھر لائق غور بات يہ ہے كہ انھوں نے قسم بھى ''اللہ '' كى كھائي تھى جس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ بتوں كو پوجنے كے علاوہ زمين وآسمان كے خالق اللہ پر بھى عقيدہ ركھتے تھے اور اپنے اہم مسائل ميں اسى كے نام كى قسم كھاتے تھے يہ بھى واضح ہوتاہے كہ وہ اتنے مغرور اور بدمست ہوچكے تھے كہ اس قدر ہولناك جرم كے ارتكاب كے لئے بھى انھوں نے خدا ہى كا نام ليا گوياوہ كوئي اہم عبادت يا كوئي ايسا كام انجام دينے لگے ہوں جو اللہ كو بہت منظور ہے خدا سے بے خبر مغروراور گمراہ لوگوں كا وطيرہ ايساہى ہوا كرتا ہے _

وہ صالح(ع) عليہ السلام كے ہمنوائوں اور ان كے قوم وقبيلہ سے خوف كھاتے تھے لہذا انھوں نے ايسا منصوبہ بنايا كہ جس سے وہ اپنے مقصد ميں بھى كامياب ہوجائيں اور صالح(ع) كے طرفداروں كے غيظ وغضب كابھى شكار نہ ہوں _ گويا وہ ايك تير سے دو شكار كرنا چاہتے تھے بنابر اين انھوں نے رات كے وقت حملہ كى تركيب سوچى اور طے كرليا كہ جب بھى كوئي شخص ان سے پوچھ گچھ كرے گا تو سب متفق ہوكر قسم اٹھائيں گے كہ اس منصوبے ميں ان كا كوئي عمل دخل نہيں تھا يہاں تك كہ وہ اس وقت موجود بھى نہيں تھے _ (كيونكہ ان كي

____________________

(۱) سورہ نمل آيت ۴۸

(۲)سورہ نمل آيت ۴۹

۸۷

صالح(ع) كے ساتھ مخالفت پہلے سے دنيا كو معلوم تھى )_

تاريخوں ميں ہے كہ ان كى سازش كچھ يوں تھى كہ شہر كے اطراف ميں ايك پہاڑ تھا اور پہاڑميں ايك غار تھى جس ميں جناب صالح عليہ السلام عبادت كيا كرتے تھے اور كبھى كبھار وہ رات كو بھى اسى غار ميں جاكر اپنے پروردگار كى عبادت كرتے تھے اور اس سے رازونياز كيا كرتے تھے _

انھوں نے طے كرليا كہ وہاں كمين لگا كر بيٹھ جائيں گے جب بھى صالح وہاں آئيں گے انھيں قتل كرديں گے _ان كى شہادت كے بعد ان كے اہل خانہ پر حملہ كركے انھيں بھى راتوں رات موت كے گھاٹ اتارديں گے پھر اپنے اپنے گھروں كو واپس چلے جائيں گے اگر ان سے اس بارے ميں كسى نے پوچھ بھى ليا تو اس سے لاعلمى كا اظہار كرديں گے _

يہ خالى گھران كے ہيں ؟

ليكن خداوندعالم نے ان كى اس سازش كو عجيب وغريب طريقے سے ناكام بناديا اور ان كے اس منصوبے كو نقش برآب كرديا _

جب وہ ايك كونے ميں گھات لگائے بيٹھے تھے تو پہاڑسے پتھر گرنے لگے اور ايك بہت بڑا ٹكڑاپہاڑكى چوٹى سے گرا اور آن كى آن ميں اس نے ان سب كا صفايا كرديا _

پھر قرآن پاك ان كى ہلاكت كى كيفيت اور ان كے انجام كو يوں بيان كرتاہے :''ديكھويہ ان لوگوں ہى كے گھر ہيں كہ جو اب ان كے ظلم وستم كى وجہ سے ويران پڑے ہيں ''_(۱)

نہ وہاں سے كوئي آوازسنائي ديتى ہے _

نہ كسى قسم كا شور شرابہ سننے ميں آتا ہے _

اور نہ ہى وہ زرق برق گناہ بھرى محفليں دكھائي ديتى ہيں _

____________________

(۱)سورہ نمل آيت ۵۲

۸۸

جى ہاں : وہاں پر ظلم وستم كى آگ بھڑكى جس نے سب كو جلاكر راكھ كرديا _

ظالموں كے اس انجام ميں خداوندعالم كى قدرت كى واضح نشانى اور درس عبرت ہے ان لوگوں كے لئے جو علم وآگہى ركھتے ہيں ''_(۱)

ليكن اس بھٹى ميں سب خشك وترنہيں جلے بلكہ بے گناہ افراد، گناہگاروں كى آگ ميں جلنے سے بچ گئے ہم نے ان لوگوں كو بچاليا جو ايمان لاچكے تھے اور تقوى اختيار كرچكے تھے_

بنابريں حضرت صالح كے قتل كى سازش كے بعد ہى عذاب نازل نہيں ہوا بلكہ قوى احتمال يہ ہے كہ خدا كے اس پيغمبر كے قتل كى سازش كے واقعے ميں فقط سازشى ٹولے ہلاك ہوئے اور دوسرے ظالموں كو سنبھل جانے كے لئے مہلت دى گئي ، ليكن ناقہ كے قتل كے بعد تمام ظالم اور بے ايمان گناہگار فناہوگئے جيسا كہ سورہ ہود اور سورہ اعراف كى آيات كے ملانے سے يہى نكلتاہے _

____________________

(۱) سورہ نمل آيت ۵۲

۸۹

حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام)

حضرت ابراہيم عليہ السلام كا نام قرآن مجيد ميں ۶۹/مقامات پر آياہے اور ۶۵/سورتوں ميں ان كے متعلق گفتگو ہوئي ہے، قرآن كريم ميں اس عظيم پيغمبر كى بہت مدح و ثناء كى گئي ہے_ اور ان كے بلند صفات كا تذكرہ كيا گيا ہے،ان كى ذات ہر لحاظ سے راہنما اور اسوہ ہے اور وہ ايك كامل انسان كا نمونہ تھے_

خدا كے بارے ميں ان كى معرفت ،بت پرستوں كے بارے ميں ان كى منطق،جابر و قاہر بادشاہوں كے سامنے ان كا انتھك جہاد،حكم خدا كے سامنے ان كا ايثار اور قربانياں ،طوفان،حوادث اور سخت آزمائش وں ميں ان كى بے نظير استقامت،صبر اور حوصلے اور ان جيسے ديگر امور،ان ميں سے ہر ايك مفصل داستان ہے اور ان ميں مسلمانوں كے لئے نمونہ عمل ہے_قرآنى ارشادات كے مطابق وہ ايك نيك اور صالح،(۱) فروتنى كرنے والے، ( ۲) صديق،(۳) بردبار،(۴) اور ايفائے عہد كرنے والے تھے_(۵) وہ ايك بے مثال شجاع اور بہادر تھے_ نيزبہت زيادہ سخى تھے _

____________________

(۱)سورہ ص آيت۴۴

(۲)سورہ نحل آيت۱۲۲

(۳)سورہ نحل آيت۱۲۰

(۴)سورہ مريم آيت۴۱

(۵)سورہ توبہ آيت ۱۱۴

۹۰

حضرت ابراہيم عليہ السلام كى پر تلاطم زندگي

حضرت ابراہيم عليہ السلام كى زندگى كے تين دور ميں بيان كيا جاسكتا ہے:

۱_قبل بعثت كا دور_

۲_دور نبوت اور بابل كے بت پرستوں سے مقابلہ_

۳_بابل سے ہجرت اور مصر،فلسطين اور مكہ ميں سعى و كوشش كا دور_

حضرت ابراہيم عليہ السلام كى جائے پيدائش

حضرت ابراہيم عليہ السلام بابل ميں پيدا ہوئے_ يہ دنيا كا حيرت انگيز اور عمدہ خطہ تھا_ اس پر ايك ظالم و جابر اور طاقتور حكومت مسلط تھي_(۱)

حضرت ابراہيم عليہ السلام نے آنكھ كھولى تو بابل پر نمرود جيسا جابر و ظالم بادشاہ حكمراں تھا_وہ اپنے آپ كو بابل كا بڑاخدا سمجھتا تھا_البتہ بابل كے لوگوں كے لئے يہى ايك بت نہ تھا بلكہ اس كے ساتھ ساتھ ان كے يہاں مختلف مواد كے بنے ہوئے مختلف شكلوں كے كئي ايك بت تھے_ وہ ان كے سامنے جھكتے اور ان كے عبادت كياكرتے تھے_

حكومت وقت سادہ لوح افراد كو بيوقوف بنانے اور انہيں افيون زدہ ركھنے كے لئے بت پرستى كو ايك مو ثرذريعہ سمجھتى تھى لہذا وہ بت پرستى كى سخت حامى تھي_ وہ كسى بھى بت كى اہانت كو بہت بڑا نا قابل معافى جرم قرار ديتى تھي_

حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ولادت كے سلسلے ميں مو رخين نے عجيب و غريب داستان نقل كى ہے جس كا خلاصہ يوں پيش كيا جاتا ہے:

____________________

(۱)بعض مو رخين نے لكھا ہے كہ آپ(ع) ملك بابل كے شہر آور ميں پيداہوئے

۹۱

بابل كے نجوميوں نے پيشن گوئي كى تھى كہ ايك ايسا بچہ پيدا ہوگا جو نمرود كى غير متنازعہ طاقت سے مقابلہ كرے گا_ لہذا اس نے اپنى تمام قوتيں اس بات پر صرف كرديں كہ وہ بچہ پيدا نہ ہو_ اس كى كوشش تھى كہ ايسا بچہ پيدا ہو بھى جائے تو اسے قتل كرديا جائے_ ليكن اس كى كوئي تدبير كار گر نہ ہوئي اور يہ بچہ آخر كار پيدا ہوگيااس بچے كى جائے ولادت كے قريب ہى ايك غار تھى _ اس كى ماں اس كى حفاظت كے لئے اسے اس ميں لے گئي اور اسكى پرورش ہونے لگي_ يہاں تك كہ اس كى عمر كے تيرہ برس وہيں گزر گئے_

اب بچہ نمرود كے جاسوسوں سے بچ بچ كر نوجوانى ميں قدم ركھ چكا تھا_ اس نے ارادہ كيا كہ اس عالم تنہائي كو چھوڑديا جائے اور لوگوں تك وہ درس توحيد پہنچائے جو اس نے باطنى الہام اور فكرى مطالعے سے حاصل كيا تھا_

دور نبوت

حضرت ابراہيم عليہ السلام كب مبعوث نبوت ہوئے، اس سلسلے ميں ہمارے پاس كوئي واضح دليل موجود نہيں ہے_ البتہ سورہ مريم سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے كہ جب آپ(ع) نے اپنے چچا آزر سے بحث چھيڑى تو آپ (ع) مقام نبوت پر فائز ہوچكے تھے_ آيت كہتى ہے كہ :''اس كتاب ميں ابراہيم عليہ السلام كو ياد كرو،وہ خداكا بہت ہى سچا نبى تھا_جب اس نے اپنے باپ(چچا) سے كہا:''اے بابا تو ايسى چيز كى كيوں عبادت كرتا ہے كہ جو نہ سنتى ہے اور نہ ہى ديكھتى ہے اور تيرى كوئي مشكل بھى حل نہيں كرتي''_(۱)

ہم جانتے ہيں كہ يہ واقعہ بت پرستوں كے ساتھ شديد معركہ آرائي اور آپ كو آگ ميں ڈالے جانے سے پہلے كا ہے_ بعض م ورخين نے لكھا ہے كہ آگ ميں ڈالے جانے كے وقت حضرت ابراہيم عليہ السلام كى عمر ۱۶/سال تھي_ ہم اس كے ساتھ يہ اضافہ كرتے ہيں كہ يہ عظيم كار رسالت آغاز نوجوانى ميں آپ(ع) كے دوش پر آن پڑا تھا_

____________________

(۱)سورہ مريم آيت ۴۱/۴۲

۹۲

حضرت ابراہيم عليہ السلام كے پانچ برجستہ صفات

قرآن مجيد ميں خدا كى شكر گزارى ايك كامل مصداق يعنى مكتب توحيد كے مجاہد اور علمبردار حضرت ابراہيم عليہ السلام كا ذكر ہے ان كا ذكر اس لحاظ سے بھى خصوصيت كاحامل ہے كہ مسلمان با لعموم اور عرب بالخصوص حضرت ابراہيم كو اپنا پہلاپيشوا اور مقتداء سمجھتے ہيں _

اس عظيم اور بہادر انسان كى صفات ميں سے يہاں صرف پانچ صفات كى طرف اشارہ كيا گيا ہے :

پہلے فرمايا گيا ہے :'' ابراہيم اپنى ذات ميں ايك امت تھے''_(۱)

اس سلسلے ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام كو''امت '' كيوں قرار ديا گيا ، مفسرين نے مختلف نكات بيان كيے ہيں ان ميں سے چارقابل ملاحظہ ہيں :

۱_ابراہيم عليہ السلام انسانيت كے عظيم رہبر، مقتداء اور معلم تھے اسى بناء پر انھيں امت كہا گيا ہے كيونكہ '' امت '' اسم مفعول كے معنى ميں اسے كہا جاتاہے جس كى لوگ اقتداء كريں اور جس كى رہبرى لوگ قبول كريں _

۲_ ابراہيم عليہ السلام ايسى شخصيت كے مالك تھے كہ اپنى ذات ميں ايك امت تھے _كيونكہ بعض اوقات كسى انسان كى شخصيت كا نور اتنى وسيع شعاعوں كا حامل ہوتا ہے كہ اس كى حيثيت ايك دويا بہت سے افراد سے زيادہ ہوجاتى ہے اور اس كى شخصيت ايك عظيم امت كے برابر ہوجاتى ہے _

ان دونوں معانى ميں ايك خاص روحانى تعلق ہے كيونكہ جو شخص كسى ملت كاسچا پيشوا ہوتا ہے وہ ان سب كے اعمال ميں شريك اور حصہ دار ہوتا ہے اور گويا وہ خود امت ہوتا ہے _

۳_ وہ ماحول كہ جس ميں كوئي خدا پرست نہ تھا اور جس ميں سب لوگ شرك وبت پرستى كے جوہڑميں غوطہ زن تھے _اس ميں ابراہيم عليہ السلام تن تنہاموحد اور توحيد پرست تھے پس آپ تنہا ايك امت

____________________

(۱)سورہ نمل آيت۱۲۰

۹۳

تھے اور اس دور كے مشركين ايك الگ امت تھے _

۴_ ابراہيم عليہ السلام ايك امت كے وجودكا سرچشمہ تھے اسى لئے آپ كو ''امت '' كہا گيا ہے _ اس ميں كوئي اشكال نہيں كہ يہ چھوٹا سالفظ اپنے دامن ميں يہ تمام وسيع معانى لئے ہوئے ہو _

جى ہاں ، ابراہيم ايك امت تھے_

__وہ ايك عظيم پيشوا تھے _

__وہ ايك امت سازجوانمرد تھے _

__جس ماحول ميں كوئي توحيد كا دم بھر نے والا نہ تھا وہ توحيدكے عظيم علمبردار تھے_

۲_ ان كى دوسرى صفت يہ تھى كہ'' وہ اللہ كے مطيع بندے تھے ''_(۱)

۳_ ''وہ ہميشہ اللہ كے سيدھے راستے اور طريق حق پر چلتے تھے''_(۲)

۴_'' وہ كبھى بھى مشركين ميں سے نہ تھے ''_(۳)

ان كے فكر كے ہر پہلو ميں ، ان كے دل كے ہر گوشے ميں اور ان كى زندگى كے ہر طرف اللہ ہى كانور جلوہ گرتھا _

۵_ان تمام خصوصيات كے علاوہ ''وہ ايسے جواں مرد تھے كہ اللہ كى سب نعمتوں پر شكر گزار تھے''_(۴)

ان پانچ صفات كو بيان كرنے كے بعد ان كے اہم نتائج بيان كيے گئے ہيں :

۱_'' اللہ نے ابراہيم كو نبوت اور دعوت كى تبلغ كے لئے منتخب كيا ''_(۵)

۲_'' اللہ نے انھيں راہ است كى ہدايت كي''_(۶)

____________________

(۱)سورہ نمل آيت ۱۲۰

(۲)سورہ نمل آيت ۱۲۰

(۳)سورہ نمل آيت۱۲۰

(۴)سورہ نمل آيت ۱۲۱

(۵)سورہ نمل آيت ۱۲۱

(۶) سورہ آيت ۱۲۱

۹۴

اور انھيں ہر قسم كى لغزش اور انحراف سے بچايا _

ہم نے بارہا كہا ہے كہ خدائي ہدايت ہميشہ لياقت واہليت كى بنياد پر ہوتى ہے كہ جس كا مظاہرہ خود انسان كى طرف سے ہوتا ہے اس كى طرف سے كسى كو كوئي چيز استعداد اور كسى حساب كتاب كے بغيرنہيں دى جاتى حضرت ابراہيم كو بھى اسى بنياد پر يہ ہدايت نصيب ہوئي _

۳_ ''ہم نے دنيا ميں انھيں ''حسنہ'' سے نوازا ''_ وسيع معنى كے اعتبار سے ''حسنہ '' ميں ہر قسم كى نيكى اور اچھائي كا مفہوم موجود ہے اس ميں مقام نبوت رسالت سے لے كر اچھى اولادوغيرہ تك كا مفہوم موجود ہے_

۴_ اور آخرت ميں وہ صالحين ميں سے ہوں گے ''_(۱)

۵_ ان صفات كے ساتھ ساتھ اللہ نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو ايك ايساا متياز عطا فرمايا ہے كہ ان كا مكتب و مذہب صرف ان كے اہل زمانہ كے لئے نہ تھا بلكہ ہميشہ كے لئے تھا خاص طور پر اسلامى امت كے لئے بھى يہ ايك الہام بخش مكتب قرارپايا ہے _جيساكہ قرآن كہتا ہے :''پھر ہم نے تجھے وحى كى دين ابراہيم كى اتباع كركہ جو خالص توحيد كا دين ہے '' _(۲)

ابراہيم عليہ السلام سب كے لئے نمونہ ہيں

قرآن مجيد بہت سے موارد ميں اپنى تعليمات كى تكميل كے لئے ايسے نمونے جو جہان انسانيت ميں موجود ہيں ،گواہ كے طور پر پيش كرتا ہے_ اس لئے قرآن ميں بھى دشمنان خدا سے دوستى كرنے سے سختى كے ساتھ منع كرنے كے بعد،ابراہيم عليہ السلام اور ان كے طريقہ كارميں ايك ايسے عظيم پيشوا كے عنوان سے جو تمام اقوام كے لئے اور خاص طور پر قوم عرب كے لئے احترام كى نظروں سے ديكھے جاتے تھے،گفتگو كرتے ہوئے فرماتا ہے:''تمھارے لئے ابراہيم عليہ السلام اور ان كے ساتھيوں كى زندگى ميں بہترين نمونہ ہے_''(۳)

____________________

(۱) سورہ نمل آيت۱۲۲

(۲) سورہ نمل آيت ۴

(۳)سورہ ممتحنہ آيت ۴

۹۵

ابراہيم عليہ السلام پيغمبروں كے بزرگ تھے_ ان كى زندگى سرتا سر خدا كى عبوديت،جہاد فى سبيل اللہ اور اس كى پاك ذات كے عشق كے لئے ايك سبق تھي_وہ ابراہيم عليہ السلام كہ امت اسلامى ان كى بابركت دعا كا نتيجہ ہے اور ان كے ركھے ہوئے نام پر فخر كرتى ہے;وہ تمہارے لئے اس سلسلہ ميں ايك اچھا نمونہ بن سكتے ہيں _

''والذين معہ''(جو لوگ ابراہيم عليہ السلام كے ساتھ تھے)كى تعبير سے مراد وہ مو منين ہيں جو اس راہ ميں ان كے پيرو اور ساتھى رہے_اگر چہ وہ قليل تعداد ميں تھے_ باقى رہا يہ احتمال كہ اس سے مراد وہ پيغمبر ہيں جو آپ كے ساتھ ہم آواز تھے يا ان كے زمانے كے پيغمبر،جيسا كہ بعض نے احتمال ديا ہے_تا ہم يہ بہت بعيد نظر آتا ہے_خصوصاًجبكہ مناسب يہ ہے كہ قرآن يہاں پيغمبر اسلام(ص) كو ابراہيم عليہ السلام كے ساتھ اور مسلمانوں كو ان كے اصحاب اور انصار سے تشبيہ دے_

يہ تواريخ ميں بھى آيا ہے كہ بابل ميں ايك گروہ ايسا تھا،جو ابراہيم عليہ السلام كے معجزات ديكھنے كے بعدا ن پر ايمان لے آيا تھااور شام كى طرف ہجرت ميں وہ آپ كے ساتھ تھا،اس سے پتہ چلتا ہے كہ ابراہيم عليہ السلام كے كچھ وفادار ياروانصار بھى تھے_

شائستہ اولاد

قرآن كريم ميں بعض ان نعمات ميں سے ايك كى طرف اشارہ ہوا ہے كہ جو خدا وند تعالى نے حضرت ابراہيم كو عطا كى تھيں ، اور وہ نعمت ہے صالح اور آبرومند اور لائق نسل جو نعمات الہى ميں سے ايك عظيم ترين نعمت ہے _

پہلے ارشاد ہوتا ہے : ''ہم نے ابراہيم (ع) كو اسحاق اور يعقوب (فرزند اسحاق ) عطاكئے''_(۱)

اور اگر يہاں ابراہيم كے دوسرے فرزند اسماعيل كى طرف اشارہ نہيں ہوا بلكہ بحث كے دوران كہيں

____________________

(۱)سورہ انعام آيت ۸۴

۹۶

ذكر آيا ہے شايد اس كا سبب يہ ہے كہ اسحاق كا سارہ جيسى بانجھ ماں سے پيدا ہونا ، وہ بھى بڑھا پے كى عمر ميں ، بہت عجيب وغريب امراور ايك نعمت غيرمترقبہ تھى _

اس كے بعد يہ بتانے كے لئے كہ كہيں يہ تصور نہ ہو كہ ابراہيم سے قبل كے دور ميں كوئي علم بردار توحيد نہيں تھا اور يہ كام بس انہى كے زمانے سے شروع ہوا ہے مزيد كہتاہے :''اس سے پہلے ہم نے نوح كى بھى ہدايت ورہبرى كى تھى ''_(۱)

اور ہم جانتے ہيں كہ نوح پہلے اولوالعزم پيغمبر ہيں جو آئين وشريعت كے حامل تھے اور وہ پيغمبران اولوالعزم كے سلسلے كى پہلى كڑى تھے_

حقيقت ميں حضرت نوح(ع) كى حيثيت اور ان كے مقام كى طرف اشارہ كركے كہ جو حضرت ابراہيم (ع) كے اجدادميں سے ہيں ، اور اسى طرح پيغمبروں كے اس گروہ كے مقام كا تذكرہ كركے كہ جو ابراہيم عليہ السلام كى اولاد اور ذريت ميں سے تھے،حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ممتاز حيثيت كو وراثت، اصل اور ثمرہ كے حوالے سے مشخص كيا گيا ہے _

اوراس كے بعد بہت سے انبياء كے نام گنوائے ہيں جو ذريت ابراہيم (ع) ميں سے تھے پہلے ارشاد ہوتاہے : ''ابراہيم (ع) كى ذريت ميں سے دائود، سليمان ، ايوب ،يوسف ،موسى اور ہارون تھے''_(۲)

اس كے بعد:''زكر(ع) يا ،يحى (ع) ،عيسى (ع) اور الياس (ع) كانام ليا گيا ہے اور مزيد كہاگيا ہے كہ يہ سب صالحين ميں سے تھے _''(۳)

آزرسے گفتگو

اس كے بعد ان كى اپنے باپ آزر كے ساتھ گفتگو بيان كى گئي ہے _(يہاں باپ سے مراد چچاہے اور لفظ '' ابا '' عربى لغت ميں كبھى باپ كے معنى ميں اور كبھى چچاكے معنى ميں آتا ہے )_

____________________

(۱)سورہ انعام آيت ۸۴

(۲) سورہ انعام آيت۸۴

(۳)سورہ انعام آيت ۸۵

۹۷

قرآن كہتا ہے :اس وقت جبكہ اس نے اپنے باپ سے كہا : اے بابا : تو ايسى چيز كى عبادت كيوں كرتا ہے جو نہ تو سنتى ہے اور نہ ہى ديكھتى ہے اور نہ ہى تيرى كوئي مشكل حل كرسكتى ہے ''_(۱)

يہ مختصر اور زور دار بيان شرك اور بت پرستى كى نفى ونقصان كا احتمال ہے اسے علمائے عقائد '' دفع ضرر محتمل '' سے تعبير كرتے ہيں _ابراہيم (ع) كہتے ہيں كہ تو ايسے معبود كى طرف كيوں جاتاہے كہ جو نہ صرف يہ كہ تيرى كسى مشكل كوحل نہيں كرسكتا ،بلكہ وہ تو اصلا ًسننے اور ديكھنے كى قدرت ہى نہيں ركھتا _

دوسرے لفظوں ميں عبادت ايسى ہستى كى كرنى چاہئے كہ جو مشكلات حل كرنے كى قدرت ركھتى ہو، اپنى عبادت كرنے والے كى حاجات وضروريات كو جانتى ،ديكھتى اور سن سكتى ہوں ليكن ان بتوں ميں يہ تمام باتيں مفقود ہيں _

درحقيقت ابراہيم عليہ السلام يہاں اپنى دعوت اپنے چچا سے شروع كرتے ہيں ،كيونكہ قريبى رشتہ داروں ميں اثرو نفوذ پيدا كرنا زيادہ ضرورى ہے پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم بھى اس بات پر مامور ہوئے تھے كہ پہلے اپنے نزديكى رشتہ داروں كو اسلام كى دعوت ديں _

اس كے بعد ابراہيم (ع) واضح منطق كے ساتھ اسے دعوت ديتے ہيں كہ وہ اس امر ميں ان كى پيروى كرتے نظر آتے ہيں :''اے بابا ''مجھے وہ علم ودانش ملى ہے جو تجھے نصيب نہيں ہوئي اس بنا پر تو ميرى پيروى كراور ميرى بات سن ميرى پيروى كرتا كہ ميں تجھے سيدھى راہ كى طرف ہدايت كروں ''_

ميں نے وحى الہى كے ذريعہ سے بہت علم وآگہى حاصل كى ہے اور ميں پورے اطمينان كے ساتھ يہ كہہ سكتا ہوں كہ ميں خطاكے راستے پر نہيں چلوں گا تجھے بھى ہرگز غلط راستے كى دعوت نہيں دوں گا ميں تيرى خوش بختى وسعادت كا خواہاں ہوں تو ميرى بات مان لے تاكہ فلاح ونجات حاصل كرسكے اور اس صراط مستقيم كو طے كركے منزل مقصود تك پہنچ جا_

____________________

(۱) سورہ مريم آيت۴۲

۹۸

اس كے بعد اس اثباتى پہلو كو منفى پہلو اور ان آثاركے ساتھ ملاتے ہوئے ، كہ جو اس دعوت پر مترتب ہوتے ہيں ، كہتے ہيں :

''اے بابا : شيطان كى پرستش نہ كركيونكہ شيطان ہميشہ خدائے رحمن كا نافرمان رہاہے''_(۱)

البتہ ظاہرہے كہ يہاں عبادت سے مراد شيطان كے لئے سجدہ كرنے اور نمازروزہ بجالانے والى عبادت نہيں ہے بلكہ اطاعت اورا س كے علم كى پيروى كرنے كے معنى ميں ہے اور يہ بات خود ايك قسم كى عبادت شمار ہوتى ہے _

ايك مرتبہ پھر اسے شرك اور بت پرستى كے برے نتائج كى طرف متوجہ كرتے ہوئے كہتے ہيں : ''اے بابا : ميں اس بات سے ڈرتاہوں كہ تيرے اختياركردہ شرك وبت پرستى كے سبب خدائے رحمن كى طرف سے تجھ پر عذاب آئے اور تو اوليائے شيطان ميں سے ہوجائے ''_(۲)

اے ابراہيم تم پر پتھر برسائوں گا

حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ان كے چچا كى ہدايت كے سلسلے ميں منطقى باتيں جو خاص لطف ومحبت كى آميزش ركھتى تھيں گزرچكى ہيں اب آزركے جوابات بيان كرنے كى نوبت ہے تاكہ ان دونوں كا آپس ميں موازنہ كرنے سے حقيقت اور واقعيت ظاہر ہوجائے _قرآن كہتاہے كہ نہ صرف ابراہيم كى دل سوزياں اور ان كا مدلل بيان آزر كے دل پر اثرانداز نہ ہوسكا بلكہ وہ ان باتوں كو سنكر سخت برہم ہوا ،اور اس نے كہا :

''اے ابراہيم(ع) كيا تو ميرے خدائوں سے روگردان ہے ،اگر تو اس كام سے باز نہيں آئے گاتو ميں ضرور ضرور تجھے سنگسار كروں گا،اور تو اب مجھ سے دور ہوجاميں پھر تجھے نہ ديكھوں ''_(۳)

قابل توجہ بات يہ ہے كہ اولاًآزر يہ تك كہنے كے لئے تيار نہيں تھا كہ بتوں كے انكار ،يا مخالفت اور ان كے بارے ميں بدگوئي كا ذكر زبان پر لائے،بلكہ بس اتنا كہا:كيا تو بتوں سے روگردان ہے ؟ تاكہ كہيں

____________________

(۱)سورہ مريم آيت ۴۴

(۲)سورہ مريم آيت۴۵

(۳)سورہ مريم ايت ۴۶

۹۹

ايسانہ ہو بتوں كے حق ميں جسارت ہوجائے ثانياًابراہيم (ع) كو تہديد كرتے وقت اسے سنگسار كرنے كى تہديد كى وہ بھى اس تاكيد كے ساتھ كہ جو ''لام'' اور '' نون '' تاكيد ثقيلہ سے جو ''لارجمنك'' ميں واردہے، اور ہم جانتے ہيں كہ سنگسار كرنا قتل كرنے كى ايك بدترين قسم ہے ثالثاً اس مشروط تہديد اور دھمكى پر ہى قناعت نہيں كى بلكہ اس حالت ميں جناب ابراہيم كو ايك ناقابل برداشت وجود شمار كرتے ہوئے ان سے كہا كہ تو ہميشہ كے لئے ميرى نظروں سے دور ہوجا_

يہ تعبير بہت ہى توہين آميزہے،جسے سخت مزاج افراد اپنے مخالفين كے لئے استعمال كرتے ہيں ،اور فارسى زبان ميں اس كى جگہ ''گورت راگم كن''كہتے ہيں ، يعنى نہ صرف اپنے آپ كو مجھ سے ہميشہ كے لئے چھپالے بلكہ كسى ايسى جگہ چلے جائو كہ ميں تمہارى قبرتك كو بھى نہ ديكھوں ليكن ان تمام باتوں كے باوجود حضرت ابراہيم نے تمام پيغمبروں اور آسمانى رہبروں كى مانند اپنے اعصاب پر كنڑول ركھا، اور تندى اور تيزى اور شديد خشونت وسختى كے مقابلے ميں انتہائي بزرگوارى كے ساتھ كہا:'' سلام ہو تجھ پر''_(۱)

ممكن ہے كہ يہ ايسا سلام الوداعى اورخدا حافظى كا سلام ہو، كيونكہ اس كے چند جملوں كے كہنے كے بعد حضرات ابرہيم عليہ السلام نے آزركو چھوڑديا يہ بھى ممكن ہے كہ يہ ايسا سلام ہوكہ جودعوى اور بحث كو ترك كرنے كے لئے كہاجاتاہے جيسا كہ سورہ قصص ميں ہے :

''اب جبكہ تم ہمارى بات قبول نہيں كرتے ہو، ہمارے اعمال ہمارے لئے ہيں اور تمہارے اعمال تمہارے ليے،تم پر سلام ہے ہم جاہلوں كے ہواخواہ نہيں ہيں ''_(۲)

اس كے بعد مزيد كہا :'' ميں عنقريب تيرے لئے اپنے پروردگار سے بخشش كى درخواست كروں گا، كيونكہ وہ ميرے لئے رحيم ولطيف اور مہربان ہے''_(۳)

حقيقت ميں حضرت ابراہيم(ع) نے آزركى خشونت وسختى اور تہديدودھمكى كے مقابلے ميں اسى جيسا

____________________

(۱) سورہ مريم آيت ۴۷

(۲)سورہ قصص ايت ۵۵

(۳)سورہ مريم آيت ۴۷

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667