امامت و رہبری

امامت و رہبری25%

امامت و رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امامت و رہبری
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11935 / ڈاؤنلوڈ: 4290
سائز سائز سائز
امامت و رہبری

امامت و رہبری

مؤلف:
اردو

دوسری بحث

امامت اور تبلیغ دین:

گزشتہ بحث میں امامت کے مختلف پہلوؤں کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ان مختلف پہلوؤں کو کامل طور پر مشخص ہونا چاہءے ۔ جب تک امامت کے تمام پہلو مشخص و معین نہ ہونگے ، ہم اس مسئلہ پر بخوبی بحث نہیں کرسکتے ۔ہم عرض کرچکے ہیں کہ امامت میں ایک مسئلہ حکومت بھی ہے ۔ یعنی پیغمبر اسلام کے بعد حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت کی تعیین خود مسلمانوں کے ذنمہ ہے اور عوام کا فریضہ ہے کہ اپنے درمیا ن کسی کو اپنا حاکم معین کریں یا پیغمبر نے اپنے بعد کے لئے اپنا نائب اور حاکم معین کردیا ہے ؟ ان دونوں اس مسئلہ کو کچھ اس ڈھنگ سے پیش کیا جانے لگا ہے کہ قہری طور سے ذہن پہلے اہل سنت کے نظریہ کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور انسان سوچنے لگتا کہ ان کا نظریہ فطرت سے زیادہ فریب ہے ۔

غلط روش

یہ مطلب کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اصل میں ہمیں ایک حکومت کا مسئلہ در پیش ہے ، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی نقطہ مظر سے حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت موروثی اور تعیینی ہے کہ ہر حاکم اپنے بعد کے لئے ایک حاکم معین کردے اور عوام کو حکومت کے معاملات میں کسی طرح کی دخل اندازی کا حق حاصل نہ ہو ؟ پیغمبر نے ایک شخص کو معین فرمایا پھر اس شخص نے اپنے بعد کے لئے کسی تیسرے کو معین کیا ۔ اور صبح قیامت تک اور حکومت کی یہی صورت رہی کہ ہمیشہ نص وتعین کا سلسلہ چلتا رہا ۔ اب قہری طور پر یہ عمر صرف ائمہ تک مخصوص و محدود نہیں رہ سکتا ۔ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) صرف بارہ ہیں اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ تعداد نہ کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ ۔ اس فکر کے مطابق حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ مظر سے قانون کلی یہ ہوگا کہ پیغمبر جو خود حاکم ہے اپنے بعد اپنا نائب معین کرے اور وہ اپنے بعد کسی دوسرے کو حاکم معین کرسے اور یوں ہی یہ سلسلہ صبح قیامت تک چلتارہا ۔ چنانچہ اگر اسلام پوری دنیا پر حاکم ہوجائے ( جیسا کہ آج تقریبا ً آدھی دنیا اس کے زیر نگی ہے تو تقریباًایک عرب مسلمان پرچم ۔ اسلام کے سائے میں زندگی گزاررہے ہیں ) اور ی ہطے پائے کہ دنیا کے کونے کونے میں اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں ، چاہے ایک عالمی حکومت کی شکل میں یا چند چھوٹی بڑی حکومتوں کی صورت میں قانون یہی نصی و تعیینی ہے ، پس یہ جو ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو معین فرمایا تو تعیین بھی اسی کلی قانون کے تحت تھی کہ حکومت تعیینی و تنصیصی ہونی چا ہئے ۔"اور اس فلسفہ کے تحت اس کی ضرورت بھی نہیں رہ جاتی کہ پیغمبر نے علی کو خدا کی جانب سے معین فرمایا ہو۔ کیونکہ پیغمبر تو وحی کے ذریعہ، احکام خدا بیان کرسکتے تھے اور ائمہ معصومین پر بھی ایک تو ایسا الہام ہوتا ہے دوسرے انھوں نے خود پیغمبر سے علوم اخذ کئے ہیں ، لیکن ان کے بعد تو ایسا نہیں ہے ! بس اگر حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر سے بنیادی قانون ( کہ حکومت تنصیصی تعیینی ہونی چاہئے) تو اس کی ضرورت نہیں کہ پیغمبر نے علی کو وحی کے ذریعہ معین فرمایا ہو بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت نے خود اپنی صوا بدید پر معین فرمایا ہے ۔ اسی طرح ائمہ نے اپنے مصالح کے مطابق اپنے جانشین معین فرمائے ہیں ۔ بنابر ایں پیغمبر کی نظر میں خلافت کے لئے علی کی تعیین ویسی ہی ہے جیسے آپ نے کسی کو مکہ کا حاکم یا حاجیوں کے لئے امیر الحاج معین فرمایا ہو، جس طرح وہاں یہ کوئی نہیں کہتا کہ اگر پیغمبر نے فلاں شخص کو مکہ کا حاکم بنایا ۔ یا معاذ بن جبل کو تبلیغ کے لئے یمن بھیجا ، تویہ سب وحی کے حکم سے تھا ، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے لوگوں پر حاکم و سر پرست ہیں لہٰذا جن مسا ئل میں ان پر وحی نہیں نازل ہوتی ،ان میں ذاتی تدبر و فرات سے اقدام فرماتے ہیں ( یوں ہی یہاں بھی کہا جائے گا کہ پیغمبر نے خود اپنی ذاتی تشخیص و تدبر سے علی کو خلافت و نیا بت کے لئے معین فرمایا )

اگر ہم مسئلہ امامت کو اتنی ہی سادگی سے ہیش کریں کہ یہ دنیا وی حکومت کا مسئلہ بن جائے تواسکے علاوہ ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس امامت سے الگ ہے جس پر بحث کی جاری ہے کیونکہ اگر مسئلہ اسی شکل میں ہوتا تو میں عرض کرچکا ہوں کہ اس میں وحی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی 'زیادہ سے زیادہ اس میں وحی کو اسی قدر دخل ہوتا کہ اے پیغمبر !تمہارا فرض ہے کہ اپنی مصلحت کے مطابق جسے چاہواپنا جانشین معین کردو اور وہ جسے بہتر سمجھے اپنا جانشین بنآئے تا صبح قیامت اگر ہم امامت کو اتنے ہی سادہ طور سے حکومت کی سطح پر پیش کریں اور کہیں کہ امامت کا مطلب حکومت ہے تو ایسی صورت میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیعی نقطۂ نظر کے مقابل میں اہل سنت کا نظریہ زیادہ پر کشش نظر آتا ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک حاکم کو اپنے بعد حاکم معین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ یہ حق امت اور ارباب مل و عقد کو حاصل ہے ۔ عوام اس کے حقدار ہیں ، حاکم کا انتخاب ڈیمو کریسی کے اصول پر ہونا چاہئے ۔ یہ حق عوام کا ہے لہٰذا عوام ہی حاکم منتخب کریں گے ۔ لیکن حقیقتاًمسئلہ اتنا سادہ اور ہلکا پھلکا نہیں ۃے ۔ مجموعی طور سے شیعوں کے یہاں علی اور تمام ائمہ معصومین کی خلافت کا مسئلہ تنصیصی تعیینی ہے ۔ اس کا مدارا ایک دوسرے مسئلہ پر ہےاور وہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی تعداد فقط بارہ افراد پر مشتمل ہے ، پھر ان ائمہ کے بعد حکومت کی صورت کیا ہوگی ؟ ہم فرض کرلیں کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے علی کو معین فرمایا ، آپ کے بعد امام حسن (ع) پھر امام حسین (ع) حاکم ہوئےاور یہ سلسلہ حضرت حجت تک جاری رہتا ہے ۔ ایسی صورت میں قہری طور پر اس نقظۂ نظر کے مطابق جو ہم شیعہ اس سلسلہ میں رکھتے ہیں ۔ امام زمانہ کی غیبت کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔ حضرت بھی اپنے آبائے کرام کی طرح ایک مختصر سی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخست ہوجاتے ۔ اس کے بعد کیا ہوتا؟ کیا ائمہ کی تعداد بارہ سے بڑھ جاتی ؟ نہیں لہٰذا کوئی دوسری صوعرت عوام کے سامنے ہونی چاہئے ، ایک عادی صورت بالکل ویسی ہی جیسے آج بھی موجود ہے ۔ حضرت حجت غیبت کے زمانہ میں تو مسلمانوں کے حاکم ہو نہیں سکتے ۔ لہٰذا دنیاوی حکومت کا مسئلہ اپنی جگہ پھر باقوی رہ جاتا ہے !

حکومت ، امامت کی ایک فرع:

ہمیں ہر گز اس اشتباہ اور معالطہ میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جہاں کہیں شیعوووں کے نزدیک امامت کا مسئلہ در پیش ہو، اسے حکومت کا مسئلہ قراردیں ۔نتیجہ میں یہ مسئلہ بہت ہی معمولی صورت اختیار کر لے اور صرف ایک فرعی حیثیت رہ جئے اور یہ کہا جائے کہ اب جبکہ حکو مت اور حاکم کا مسئلہ در پیش ہے تو کیا حاکم کو سب سے افضل ہء ہونا چاہئے ؟ ممکن ہے جو شخص حاکم ہو وہ نسبی طور سے تو افضل ہو واقعی افضل نہ ہو؟ یعنی سیاست اور نظم و تتدبر میں تو دوسروں سے بہتر ہو لیکن دوسرے اعتبارات سے بہت ہی پست ہو ۔ ایک اچھا سیاست داں اور منتظم ہو خائن بھی نہ ہو لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ معصوم بھی ہو؟ کیا ضروری ہے کہ نماز شب پڑھتا ہے یا نہیں ؟فقہی مسائل جاتا ہے یا نہیں ؟ کیا ضروری ہے کہ جانے ؟ ان مسائل میں وہ دوسروں سے معلومات حاصل کر لیتا ہے ، فقط ایک نسبی و اعتباری افضلیت ا س کے لئے کافی ہے ۔ یہ تمام باتیں اس کانتیجہ ہیں کہ ہم نے مسئلہ امامت کو فقط حکومت کی سطح پر دیکھا اور معمولی قرار دے دیا یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور ایسا مغالطہ ہے جس میں بعض قدیم ( علماء علم کلام ) بھی مبتلا ہوچکے ہیں ۔ آج اسی مغالطہ کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور ہوادی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب بھی امامت کا ذکر آتا ہے اس سے حکوعمت مرادلی جاتی ہے ۔ جبکہ حکومت مسئلہ امامت کی ایک چجوٹی سء شاخ اور معمولی فرع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان دونوں کو آپس میں مخلوط نہیں کرنا چاہئے ۔ پھر امامت کیا ہے ؟

امامت دین بیان کرنے میں پیغمبر کا جانشین:

امامت کے سلسلہ میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ امام دین کی تشریح اور اسے باین کرنے میں پیغمبر کا جانشین ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ امام پر وحی نہیں نازل ہوتی ۔ بلا شبہ وحی صرف پیغمبر کارم پر نازل ہوتی تھی اور ان کی رحلت کے بعد و رسالت کا سلسلہ قطعی طور ہر بند ہوگیا ۔ امت کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا پیغمبر اسلام کے بعد وہ تمام آسمانی تعلیمات جس میں نہ اجتہاد کو دخل ہے نہ شخصی رائے کو ، ان کا بیان یا تشریح و تبلیغ کسی ایک ہی فرد تک محدود ہے ؟ اور اس طرح جسے پیغمبر کی شان تھی کہ جب لوگ ان سے دینی مسائل دریافت کرتے تھے وہ یہ جانتے تھے کہ ان کا قول حق در حقیقت پر مبنی ہے ۔ اس میں شخص فکر یا رائے کو دخل نہیں ہے جس میں اشتبا ہ یا غلطی کا امکان ہواور دوسرے روز وہ اپنی بات کی تصحیح فرمائیں ۔ ہم پیغمبر کے بارے میں ہر گز یہ بات نہیں کہتے اور نہ یہ کہ سکتے ہیں ہماری نطر میں ان کا فلاں جواب درست نہیں ہے اور یہاں پر آپ جان بوجھ کو خواہشات نفسانی سے متا ثر ہوگئے ہیں کیو نکہ یہ باتیں عقیدہ ٔنبوت کے خلاف ہیں ۔ اگر قطعی دلائل سے ثابت ہوجائے کہ یہ جملہ پیغمبراسلام کا ارشاد ہے ، تو ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر نے فرمایا تو ہے لیکن اس میں ان سے اشتباہ ہوگیا ہے ۔ ایک مرجع تقلید

کے لئے تو یہ کہنا ممکن ہے اس نے فلاں سوال کے جواب میں اشتباہ اور غفلت کی یا جیسا کہ اور سب کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ حالات سے متاثر ہوگئے ۔ لیکن پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں نہین کہی جاسکتیں ۔ یوں سمجھئے کہ جس طرح ہم قرآن کی آیت کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں وحی نے اشتباہ کیا ہے یا نفسانی خواہشات اور بے انصافی سے کام لیا ہے ، وحی کے اشتباہ کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت وحی نہیں ہے ( اسی طرح پیغمبر کے اقوال کے لئے بھی یہ سب نہیں کہہ سکتے ) اب یہ سوال یہ ہے کہ کیا پیغمبر کے بعد بھی کو ئی ایسا شخص موجود تھا جو احکام دین کی تشریح و تفسیر کے لئے پیغمبر کے مونند مرکزی حیثیت کا ھامل ہو ؟ ایک انسان کامل ان خصوصیات کا حامل موجود تھا یا نہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص موجود تھا ( اور وہ علی اور ان کے بعد ائمہ معصومین تھے ) بس فرق یہ ہے کہ پیغمبر براہ راست وحی کے ذریعہ دینی احکام بیان فرماتے ہیں اور ائمہ جو کچھ فرماتے ہیں پیغمبر سے اخذ کرکے فرماتے ہیں پیغمبر اسلام نے میرے لئے علم کا ایک باب کھولا ۔ اس باب کے ذریعہ مجھ پر علم کے ہزار باب کھل گئے ۔ ہم اس کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ ایسا کیسے ہو ا ۔ جس طرح وحی کے لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر اسلام خدا کی طرف سے کیسے علم حاصل کرتے تھے ۔ یوں ہی ہم اس کی وضاحت بھی نہیں کر سکتے کہ پیغمبر اکرم اور حضرت علی کے درمیان کس نوعیت کا معنوی و روحانی رابطہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے تمام حقائق و معارف کما ھو حقہ و بتمامہ ، جو اس کا حق تھا کامل طور پر حضرت علی کو تقسیم فرمادئے اور آپ کے علاوہ کسی سے بیان نہ فرمائے ۔ حضرت علی خود نہج البلاغہ میں ( اس طرح کی عبارتیں دوسری جگہوں پر بھی بہت ہیں ) فرماتے ہیں کہ : میں پیغمبر اکرم کے ہمراہ غار حرا میں تھا ، ( اس وقت آپ کمسن تھے ) کہ میں نے ایک درد ناک گریہ کی آواز سنی ، عرض کیا یا رسول اللہ ، جب آپ پر وحی نازل ہورہی تھی میں نے شیطان کے رونے کی آواز سنی ہے ۔ آپ نے فرمایا :یا علی ! انک تسمع ما اسمع و تریٰ ما اریٰ وٰ لکنّک لست بنبیّ ( ۱) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۹۲ ،، اے علی ! جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہوں ، بس فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو) اگر وہیں حضرت علی کے پاس کوئی دوسرا شخص بھی موجود ہوتا تو وہ آواز نہیں سن سکتا تھا ۔ کیونکہ یہ سماعت فضا میں گردش کرنے والی عام آواز کے سننے والی سماعت نہیں تھی جسے ہر صاحب گوش سن سکتے بلکہ ، یہ سماعت ، بصارت اور احساس کچھ اور ہی ہے ۔

حدیث ثقلین اور عصمت ائمہ علیہم السلام:

مسئلہ امامت کی بنیاد اس کا وہی معنوی پہلو ہے ۔ ائمہ یعنی پیغمبر کے بعد ایسے معنوی انسان ، جو انہیں معنوی طریقوں سے اسلام کی معرفت رکھتے ہیں اور اسے پہچانتے ہیں اور پیغمبر ہی کے مانند خطاؤں ، لغزچوں اور گناہوں سے محفوظ و معصوم ہیں ۔ امام ایک ایسے قطعی و یقینی مرجع و مرکزی کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر اس سے کوئی بات سنی جا ئے تو اس میں نہ کسی خطا یا لغزش کا احتمال دیا جاسکتا ہے ۔ نہ ہی اس سے جان بوجھ کر انحراف ہوسکتا ہے ۔ اور اس کو دوسرے الفاظ میں عصمت کہتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں شیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر گرامی کا ارشاد : "الی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی "(۷) میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسرے میری عترت ) مسئلہ عصمت میں نص کی حیثیت رکھتی ہے ۔

اور جہاں تک یہ سوال ہے کیا آیا پیغمبر نے یہ بات کہی یا نہی ؟ کوئی شخص پیغمبر کی اس حدیث سے انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ یہ ایسی حدیث نہیں ہے جسے صرف شیعوں نے نقل کیا ۔ بلکہ شیعوں سے زیادہ اہل سنت نے اپنے مقالہ میں اس حدیث کو یوں نقل کیا تھا انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ وسنتی ۔ مرحوم آیۃ اللہ بروجردی جو واقعاً تمام معنی میں عالم روحانی تھے اور ان مسائل میں عاقلانہ فکر اور گہری بصیرت رکھتے تھے ۔ آ پ نے ایک فاضل طالب علم آقای شیخ قوام الدین وشنو ہ ای کی رہنمائی اس امر کی طرح فرمائی کہ مذکورہ حدیث کو اہل سنت کی کتابوں سے نقل کریں ۔ یہ بزرگ بھی کتابوں پر گہری نظر رکھتے تھے انھوں نے اہل سنت کی تقریباً دو سو سے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد کتابوں سے اس حدیث کو انہیں لفظوں میں نقل فرمایا ۔انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی "یہ حدیث متعدد مقامات پر نقل ہوئی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر نے اسے مختلف موقعوں اور متعدد جگہوں پر انہیں الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البتہ کہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ پیغمبر نے ایک مرتبہ بھی یہ نہ فرمایا ہوگا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں "کتاب و سنت " کیونکہ قرآن وعترت " اور" کتاب و سنت " میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ عترت ہی سنت کو بیان کرنے والی اور اس کی وضاحت کرنے والی ہے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ ہم سنت و عترت میں سے کسی کی طرف رجوع کریں ۔ ایک طرف پیغمبر کی ایک سنت ( حدیث ) ہو اور ایک طرف عترت کی ایک فرد موجود ہو تو اس صورت میں کسے انتخاب کرے !بلکہ بات یہ ہے کہ عترت کی سنت پیغمبر کی صحیح اور واقعی وضاحت کرنے والی ہے اور پیغمبر کی تمام سنتیں انہیں کے پاس محفوظ ہیں ۔" کتاب اللہ وعترتی " کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سنت کو ہماری عترت سے حاصل کرو اس کے علاوہ خود یہحدیث " انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی " سنت ہے یعنی حدیث پیغمبر ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے پھر بھی اگر کسی ایک جگہ وہ غیر قطعی طور پر ۔ پیغمبر نے " کتا ب اللہ وسنتی " فرمایا ہوتو بہت سی جگہوں پر قطعی طور سے " کتاب اللہ و عترتی " فرمایا ہے ۔ اگر کسی ایک کتاب میں حدیث اس شکل میں ذکر ہوئی ہے ، تو کم ازکم دو سوکتابوں میں یہ حدیث کتاب اللہ وعترتی " کے ساتھ ذکر ہوئی ہے

بھر حال شیخ قوام الدین وشنوہای نے وہ تمام حوالے ایک رسالے کی شکل میں تحریر فرمایا اور اسے " دارلتقریب مصر " بھیجا ہے ۔ ادارہ دارالتقریب نے بھی اسے کم و کاست چھاپ دیا کیونکہ اسیے کسی طرح رد نہیں کیا جاسکتا تھا اب اسے مرھوم آیۃ اللی بروجردی بھی دوسروں کی طرح صرف شروغوغا اور فریاد بلند کرتے اور فرماتے یہ غلط اور بکواس کرتے ہیں ۔ حق اہل بیت سے کھیلنا چاہتے ہیں ، ہمیشہ بد نیتی سے کام لیتے ہیں ؟ اب دیکھیں کہ امامت کی اصل روح کیا ہے ، اسلام جو ایک جامع ، وسیع و ہمہ گیر اور کلی دین ہے ، کیا اسی قدر ہے جتنا قرآن میں اصول و کلیات کے طور پر بیان ہوا ہے یا پیغمبر اکرم کے کلمات میں جنہیں خود اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے ، اس کی توضیح و تفسیر بیان ہوئی ہے ؟ کیا جو کچھ تھ ایہی اسلام تھا ؟ یقیناً اسلام کا نزول پیغمبر پر تمام ہوچکا لیکن جو کچھ بیان ہوا کیا یہی کامل اسلام تھا ؟ ( یعنی تمام نازل شدہ اسلام بیان بھی ہوچکا ؟) یا آنحضرت کے بعد بھی پیغمبر پرنازل شدہ اسلام کی بہت سی باتیں ابھی اس لئے بیان سے باقی رہ گئی تھیں کہ ابھی ان کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی اور زمانہ کےساتھ رفتہ رفتہ جب حالات و مسائل پیش آتے تو بیان نپہ شدہ مسائل بیام کئے جاتے ۔ چنانچہ یہ ساری دینی امنتیں حضرت علی کے پاس محفوظ تھیں اور ان کے اوپر انہیں عوام کے سامنے بیان کرنے کی ذمہ داری تھی ۔ یہی مامت کی روح اور اصل حقیقت ہے ۔ ایسی صورت میں یہی حدیث "کتاب اللہ وعترتی " ائمہ کی عصمت کو بھی بیان کرتی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : " دین ان ہی دونوں سے حاصل کرو ۔ جس طرح قرآن معصوم ہے اور اس میں کسی خطا کا امکان نہیں ہے یوں ہی عترت بھی معصوم ہے ۔ اور یہ محال ہے کہ پیغمبر پوری قاطعیت اور یقین کے ساتھ فرمائیں کہ دین فلاں شخص سے حاصل کرو ، جبکہ وہ شخص جس کے لئے آنحضرت فرمائیں ، بعض مواقع پر اشتباہ و غلطیاں بھی کرتا ہو!

یہی وہ نقطہ ہے جہاں دین کے اخز اور بیان کرنے میں شیعہ اور سنی نظریات میں بنیادی فرق نظر آتا ہے ۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ : جہاں پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوا وہیں دین کے واقعی اور حقیقی بیان کا وہ عصمتی سلسلہ بھی جس مین کسی قسم کی خطا یا اشتباہ کا امکان نہ تھا ، تام ہوگیا ۔ اب جو کچھ ہم تک قرآن و احادیث پیغمبر اسلام کی شکل میں پہنچا اور ہم نے اس سے استنباط کیا ۔ وہی سب کچھ ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

حدیثیں نہ لکھی جائیں

ان لوگوں نے خود ایسے حالات پیدا کردئے جنھوں نے ان کے نظریہ کو کمزور بنادیا ۔ اور وہ یہ ہے کہ عمر نے پیغمبر کی حدیثیں لکھنے پر روک لگادی اور حکم دیا کہ حدیثیں نہ لکھی جائیں ۔ اور یہ یاک تاریخی وا قعیت ہے ۔ اگر ہم بد بینی کے الزام سے بچنے کی غرض سے ایک شیعہ کی حیثیت سے بات نہ کریں اور اپنی جگہ ایک یورپی مشترق کا خیال کریں ۔ تو وہ بھی اگر بہت زیادہ خوش بینی سے کام لے گا تو یہی کہے گا کہ عمر نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ وہ صرف قرآن کو دینی احکام کا واحد منبع و مرجع بنانے پر بے انتہا زور دیتے تھے اور اگر لوگ حدیثوں کی طرف زیادہ مائل ہوجاتے تو قرآن سے ان کا رابطہ کم ہوجاتا ۔ اسی لئے انہوں نے حدیثیں لکھنے سے منع کردیا ۔ یہ واقعہ تاریخ کے قطعیات میں سے ہے ، صرف شیعوں کی کہی ہوئی بات نہیں ۔ عمر کے زمانہ میں لوگ نہ حدیث پیغمبر لکھنے کی جرأت کرتے تھے اور نہ یہ کہتے تھے کہ یہ پیغمبر کی حدیث ہے ۔ حتیٰ یہ کہ پیغمبر سے حدیث کی روایت بھی نہیں کرسکتے تھے ( البتہ حدیث باین کرنا منع نہ تھا ) یہاں تک کہ عمرابن عبد العزیز ( ۹۹ ہجری تا ۱۰۱ ئیسوی)نے یہ جمود توڑا اور حکم دیا کہ حدیثیں لکھی جائیں ۔ اب جبکہ عمرابن عبد العزیز نے عمر ابن خطاب کی سیرت پر خچ نسخ کھینچ دیا اور کہا کہ پیغمبر کی حدیثیں ضرور لکھی جائیں تو وہ افراد جنھوں نے سینہ بہ سینہ احادیث پیغمبر سےکچھ محفوظ کر رکھا تھا ، آئے ،روایت لہ اور انھیں نو شتوں کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ۔ بہر حال احادیث رقم کرنے سے لوگوں کو مدت تک روک دیئے جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ایک بڑا حصہ تلف ہوگیا ۔

سب جانتے ہیں کہ قرآن میں جو احکام بیان ہوئے ہیں بہت ہی مجمل ، مختصر اور جزئی ہیں ۔

قرآن سراسر کلی احکام کا مجموعہ ہے ۔ مثلاً قرآن جو نماز پر اس قدر زور دیتا ہے ، اس میں اس عبادت کے لئے " اقیموا الصلا ۃ " اور " اسجدو ا وارکعوا " یعنی نماز قائم کرو یا سجدہ کرو اور رکوع کرو ، سے زیادہ کچھ اور نہیں آتا ہے ۔ حتیٰ اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ نماز کس انداز میں پڑھی جائے گی ۔ اسی طرح حج جس کے بارے میں اتنے سارے احکام بیان کئے ہیں ۔ اور پیغمبر خود بھی ان احکام کے پابند تھے لیکن قرآن میں ان سے متعلق کوئی چیز بیان نہیں کی گئے ہے ۔ دوسری طرف سنت پیغمبر یعنی حدیثوں کا جو ہول ہوا ہم اسے باین کر چکے ہیں ۔ اور فرض کریں اگر یہ صورت حال پیدا نہ بھی ہو ئی تھی ، پھر بھی پیغمبر کو اتنا موقع کہا ں ملا کہ تمام حلال و حرام کو باین فرمادیتے ۔ مکہ کی وہ تیرہ سالہ زندگی ۔ جس میں لوگ شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود مسلامن ہوئے تھے شاید ان کی تعداد چار سو افراد تک بھی نہیں پہونچی ۔ ایسے سخت حالات میں آنحضرت سے ملاقات بھی ڈھکے چھپے ہوا کرتی تھی ۔ ان میں سے بھی ستر خانوادوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک گروہ جو مسلمانوں کی نصف جمعیت یا اس سے بھی زیادہ تھے ، حبشہ ہجرت کرگیا ۔ ہاں مدینہ اس حیثیت سے امن کی جگہ تھی لیکن وہاں بھی پیغمبر کی مصروفیت بہت زیادہ تھیں اگر رسول اکرم اس پورے تیئیس سال کے عرصہ میں ایک معلم کی حیثیت سے لوگوں کو مدرسہ کی صورت میں جمع کرکے سرف احکام بیان کرنے کے لئے وقت کافی نہ ہوتا ۔ چہ جائیکہ ان حالات میں خصوصاً جبکہ اسلام انسانی زندگی کے ہر موڑ اور ہر پہلو پر ایک حکم رکھتا ہے ۔

قیاس کی پناہ میں:

نتیجہ یہ ھواکہ اہل سنت اپنے مفروضہ کے مطابق عملی طور پر احکام اسلام کی تنگ دستی کا احساس کرنے لگے۔ جب مسئلہ پیش آتا، اور دیکھتے تھے کہ قرآن میں اس سے متعلق کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے ، تو (باقی ماندہ محفوظ)حدیثوں میں حل تلاش کرتے تھے، جب وہاں بھی مایوسی ہوتی تھی تو ظاہر ہے مسئلہ بغیر کسی حکم کے چھوڑ ا نہیں جا سکتا ، لہٰذا کسی نہ کسی طرح مسئلہ کا حکم تلاش کرنے کے لئےقیاس کا سہار ا لیتے تھے، قیاس ، یعنی جن مسائل کا حکم قرآن یا حدیث میں یہ حکم بیان ہوا ہے اور چونکہ یہ مسئلہ بھی اس سے ملتا جلتا ہےلہذاس کا حکم بھی وہی ہوگا۔خلاصہ یہ کی احکام دین کی بنیاد،،شاید،،پرکھڑی کی گیء۔ایسےمقاماتایک دونہیی تھےجہاںحدیث ناکافی ثابت ہوئی ۔ دنیائے اسلام میں خاص طور سے عباسیوں کے زمانہ میں زیادہ وسعت پیدا ہوائی مختلف ممالک فتح ہوئے اور صرورتیں نت نئے مسائل کی شکل میں سر اٹھانے لگیں اور جب لوگ قرآن و احادیث میں ان کا حل نہین پاتے تو دھڑ ادھڑ قیاس آرائیوں سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو گروہ بن گئے ایک فرقہ قیاس کا منکر ہوگیا جس میں احمد بن حنبل اور مالک بن انس شامل تھے ( مالک بن انس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی میں صرف دو مسئلہ مین قیاس کیا ) دوسرا گروہ تھا جس نے قیاس کے رہوار کو بے لگام چھو ڑدیا اور وہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ۔ اس کے علم بردار ابوحنیفہ تھے ۔ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیغمبر سے ہم تک پہنچی ہیں بالکل قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ نہیں معلوم کہ واقعی پیغمبر نے یہ باتیں ارشاد فرمائی ہیں ؟ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے : میرے نزدیک تو آنحضرت کی صرف پندرہ حدیثیں ثابت ہیں جن کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہیں پیغمبر نے فرمایا ہے اور بس ۔ بقیہ مسائل میں ابو حنیفہ قیاس کرتے تھے ۔ شافعی نے میانہ روی اختیار کر رکھی تھی یعنی بعض مسائل میں احادیث پر اعتقاد کرتے تھے اور بعض مواقع پر قیاس سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ فقہ ایک عجیب و غریب کھچڑی کی شکل می ناختیار کر گئی ۔ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ چونکہ نسلی طور پر ایرانی تھے اور ایرانیوں کی توجہ عقلی مسائل کی طرف زیادہ ہوا کرتی ہے مزید یہ کہ وہ مرکز حدیث یعنی مدینہ سے دور عراق میں زندگی بسر کرتے تھے لہٰذا بہت زیادہ قیاس واقع ہوئے تھے ۔ بیٹھے قیاس کے تانے بانے بناکر تے تھے ۔ خود اہل سنت نے لکھا ہے کہ ایک روز آپ حجام کے یہاں گئے ، آپ کی داڑھی کے بال کھچڑی تھے ، ابھی سفید بال زیادہ نہیں تھے ، حجام سے کہا ، سارے سفید بال اکھا ڑدو ۔ خیال یہ تھا کہ اگر تمام سفید بال جڑ سے اکھڑ جائیں گے تو انکا وجود ہی ختم ہوجا ئے گا ۔ حجام نے کہا ، اتفاق سے سفید بالوں کی خاصیت یہ ہے کہ اکر اکھا ڑدئے گئے تو اور زیادہ نکل آئیں گے ۔ آپ نے فوراً قیاس کرکے فرمایا ، تو سیاہ بالوں کو اکھاڑڈالو ، یہ قیاس ہے ۔ آپ نے قیاس یہ کیا کہ واگر سفید بال اکھاڑنے سے زیادہ اگتے ہیں تو جب سیاہ بال اکھاڑے جائیں گے وہ بھی زیادہ اگیں گے ۔ !جبکہ اگر یہ قاعدہ ہو بھی تو صرف سفید بالوں کے لئے جاری کیا جائے گا ۔ کالے بالوں کے لئے نہیں ۔ چنانچہ آپ فقہ میں بھی طریقہ عمل میں لاتے تھے ۔

قیاس اور شیعوں کا نظریہ:

جب ہم شیعوں کی روایات کو دیکھتے ہیں تو نظرآتا ہے کہ قیاس کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے بلکہ بنیادی طور سے اس فکر ہی کو غلط اور اشتباہ سمجھتے ہیں کہ کتاب خدا اور احادیث پیغمبر کافی و وافی نہیں ہیں ۔ قیاس کا سوال تو واہاں پیدا ہوتا ہے جب یہ کہا جائے کہ کتاب و سنت تمام احکام دین بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور چونکہ وہ ناکافی ہیں اس لئے قیاس سے کام لیا جا ۴ ے ۔ جبکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ خود پیغمبر اسلام سے براہ راست بالواسطہ طور پر ان کے اوصیاء کرام کے ذریعہ احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے کہ ان حدیثوں کے کلیات کی طرف رجوع کرنے کے بعد قیاس کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ دینی نقطۂ نظر سے امامت کی روح یہی ہے کہ اس کے ذریعہ احادیث اکیہ ذخیرہ ہم تک پہنچا ۔ اسلام صرف ایک مسلک نہیں ہے ، جس کا بانی اپنے افکار و نظریات کا اجراء کرنے کے لئے حکومت کا محتاج ہوتا ہے ۔ حکومت کا اس میں کیا دخل اسلام ایک دین ہے ایک دین کی وضع اور وہ بھی اسلام جیسے دین کی اہمیت و ہمہ گیری کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔

معصوم کی موجودگی میں انتخاب کی گنجائش ہی نہیں

امت کی قیادت رہبری کی رو سے امامت کا مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ پیغمبر کے بعد ان ہی کے زمانہ کی طرح ایک معصوم موجود ہےا ور پیغمبر نے خود ایسے شخص کو اپنا نائب و وصی معین فرمادیا ہے جو عام افراد کی سطح کا نہیں ہے بلکہ اس مٰں پیغمبر جیسی ہی استثنائی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ چنانچہ ایسے شخص کی موجودگی میں کسی بھی انتخاب یا شوریٰ وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، جس طرح پیغمبر کے زمانہ میں یہ سوال نہیں اٹھتا تھا کہ پیغمبر تو صرف پیغام لانے والے ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی ہےاب حکومت کا مسئلہ طے کرنا شوریٰ یا عوام کی ذمہ داری ہے ، عوام آئیں اور رائے دیں کہ خود پیغمبر کو حاکم قرار دیا جائے یا کسی دوسرے کو حاکم بنایا جائے بلکہ سب کا یہی خیال تھا کہ پیغمبر اسلام کےایسے بارہ جانشین موجود ہیں ، جو دو تین صدیوں کے عرصہ میں اسلام کی بنیادوں کو پورے طور سے مستحکم کردیں اور اسلام صاف و شفاف سر چشمہ اور معصوم افراد کے ہوتے ہو ئے کسی انتخاب یا شوری کی گنجائش بہر حال نہیں ہر جاتی ۔ کیا یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ ہما رے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہو جو معصوم ہونے کے ساتھ ایسا عالم بھی ہو جس سے کسی خطا یا اشتباہ کا امکان بھی نہ پایا جاتا ہو اس کے باوجود اس کی جگہ پر ہم کسی دوسرے کا انتخاب کریں ؟!

اس کے علاوہ جب علی پیغمبر کی جانب سے ایک ایسی امامت و جانشین پر فائز ہوئے تو قہری طور پر دنیاوی حا کمیت و رہبری بھی ان ہی کے شایان شان ہوگی ۔ پیغمبر نے بھی علی کے لئے اس منصب کی صراحت کردی ہے ۔ لیکن آنحضرت نے منصب امامت کی سراحت و وضاحت اس لئے فرمائی ہے کہ وہ اس دوسرے منصب کے حقدار بھی ہیں ۔ بنا بر این غیبت امام زمانۂ کے دوران جبکہ ویسے ہی وسیع اختیار کا حامل کوئی معصوم امام موجود نہیں ہے یو اگر فرض کرلیں کہ اگر صدر اسلام میں ہو حالات پیش نہ آتے اور حضرت علی ہی خلیفہ و جانشین ہوتے ، ان کے بعد امام حسن (ع) ، پھرامام حسین اور یہ سلسلہ حضرت ولی عصر تک قائم رہتا اور وہ صورت رونما ہوتی جو امام کی غیبت کا سبب بنی اور ان کے بعد جب کوئی امام معصوم ہمارے درمیان موجود نہ ہوتا تب حکومت کا مسئلہ دوسرا ہوجاتا۔ اور اس وقت یہ سوال اٹھتے کہ یہ حکومت کس کا حق ہے ؟ کیا حاکم ، فقیہ جامع الشرائط ہی ہوسکتا ہے ؟ یایہ چیز حکومت کے لئے لازم نہیں ہے ۔ کیا عوام کو حاکم کے انتخاب کا حق ہے ؟ یا ؟!

بنابر ایں ہمیں مسئلہ امامت کو ابتدائ سے ہی حکومت جیسا سادہ اور دنیاوی مسئلہ نہیں بنا دینا چاہئے ، تاکہ پھر اس کی روشنی میں یہ سوال اٹھایا جا ئے کہ اسلام کی نظر میں حکومت زبر دستی کی تنصیص و تعیینی ہے یا انتخابی ؟اور پھر یہ سوال پیدا ہوکہ آخر شیعہ اس طرح کی حکومت پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ اصل میں مسئلہ یوں نہیں ہے بلکہ شیعوں کے یہاں تو امامت کا مسئلہ ہے اور امام کی ایک شان حکومت بھی ہے ۔ اور یہ طے ہے کہ امام معصوم کے ہوتے ہوئے کسی اور کوحکومت کا حق نہیں ہے ۔ اور پیغمبر اکرم نے علی کو منصب امامت پر معین فرمایا ہے ، جس کالازمہ حکومت بھی ہے اس کے علاوہ بعض مواقع پر لفظ حکومت سے بھی علی کی حکامیت کی صراحت فرمائی ہے لیکن اس کی بنیاد بھی امامت ہی کو قرار دیا ہے ۔

روحانی و معنوی ولایت:

میں اس موضوع پرگزشتہ ث کے دوران ایک بات کرچکا ہوں ۔ البتہ میں خود ذاتی طور پر اس کا اعتقاد رکھتا ہوں اور اس کو ایک بنیادی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن وہ بات شاید شیعیت کے ارکان میں شمار نہیں ہوتی ۔ اور وہ یہ کہ کیا پیغمبر اکرم کی حیثیت اتنی تھی کہ آپ پر خدا کی طرف سے الٰہی احکام اوراسلام کے اصول و فروع وحی ہوتے تھے ۔ اور وہ صرف اسلام ظاہری وواقعی سے ہی متعلق معلومات رکھتے تھے ، کیا آپ کی شان یہ نہیں تھی کہ خداکی جانب سے اس کے علاوہ اور بھی کچھ جانتے اور کیا منزل عمل و تقوائے پر وردگار میں بھی وہ (صرف ) خطاؤں سے محفوظ و معصوم تھے اوربس ؟ یوں ہی کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کا مرتبہ بھی فقط اتنا ہی ہے کہ اگر چہ ان پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی ۔ انہوں نے اسلام کے اصول و فروع اور کلیات و جزئیات ، پیغمبر سے حاصل کئے ہیں او ر جس طرح پیغمبر سے علم و عمل میں کوئی غلطی یا اشتباہ نہیں ہوتا یوں ہی وہ بھی خطاؤں سے محفوظ و معصوم ہیں اور بس ؟یا پیغمبر اسلام اور ائمہ علیہم السلام کے مراتب اس سے بڑھ کر بھی کچھ اور ہیں ؟ یہ حضرات دین و معارف سے مظبوط اسلامی مسائل کے علاوہ اور کن علوم سے آگاہ تھے ؟ کیا یہ سچ ہے کہ انسانوں کے اعمال پیغمبر کی مبعث میں پیث کئے جاتے ہیں ؟ حتیٰ ہر امام کے زمانہ میں اس عہد کے لوگوں کے اعمال کی خدمت میں بھی پیش ہوتے ہیں ؟ مثال کے طور پر آج امام زمانہ نہ صرف شیعوں بلکہ تمام انسانوں پر حاضر و ناظر ہیں ان کے اعمال سے واقف ہیں اور کسی سے بھی غافل نہیں ہیں ؟ حد یہ ہے کہ امام کے لئے حیات اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یعنی جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ، جب آپ امام رضا (ع) کی زیارت کو جاتے ہیں اور کہتے ہیں " السلام علیک " تو اس کامطلب یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں ایک زندہ انسانوں کے روبرو کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں :"السلام علیک " اور وہ بھی یوں ہی آپ کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔ یہی ولایت معنوی ہے ۔

یہ بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس نقطہ پر عرفان اور تشیع میں مشابہت اور یک رنگی پائی جاتی ہے ، یعنی دونوں کے افکار ایک دوسرے سے کافی نزدیک ہیں ۔ اہل عرفان کا اعتقاد ہے کہ ہر دور میں ایک نہ ایک قطب اور انسان کامل ضرور ہونا چاہئے ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ ہر دور میں روئے زمین پر ایک امام و حجت ضرور رہتا ہے اور وہی انسان کامل ہے اورہم فی الحال اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتے کیونکہ اس مسئلہ میں ہم میں اور اہل سنت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ شیعہ اور اہل سنت میں اختلاف ان دو مسئلوں میں ہے جن کا ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔ ایک یہ کہ امامت ، احکام دین بیان کرنے کی ذمہ دار ہے اور دوسرے امامت یعنی مسلمانوں کی قیادت و رہبری ۔

حدیث ثقلین کی اہمیت:

امامت کے مسئلہ میں " حدیث ثقلین " کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ ار آپ کسی عام اہل سنت یا ایک عام سنی سے ہی ملاقات کریں تو اس سے پوچھیں کہ آیا کوئی جملہ پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ نہیں ؟ اگر وہ انکار کرے تو اس کے جواب میں ان ہی کی متعدد کتابیں ان کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ علماء اہل سنت کسی طرح بھی اس حدیث کے وجود یا اس کی صحت سے انکار نہی ںکرسکتے اور حقیقتاً انکار کرتے بھی نہیں ۔(۸)

اس کے بعد آپ ان سے پوچھیں کہ یہ جو پیغمبر نے قرآن اور عترت و اہل بیت کو دین کے حصوں کے لئے الگ الگ مرجع قراردیا ہے ، آخر یہ اہل بیت (ع)کون سے افراد ہیں ؟ اصل میں یہ حضرات پیغمبر(ص) کی عترت اور غیر عترت میں کسی فرق و امتیاز کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ صحابہ سے روایتیں بھی نقل کرتے ہیں تو علی سے کہیں زیادہ دوسروں سے نقل کرتے ہیں اور علی سے اگر کبھی کوئی روایت نقل کی بھی ہے تو صرف ایک راوی کے عنوان سے ، نہ کہ ایک مرجع ومصدر کی حیثیت سے۔

حدیث غدیر:

ہم عرض کرچکے ہیں کہ جو دین کے منبع و مرجع کی حیثیت رکھتا ہے ، وہی دین کا رہبر بھی ہوگا ۔ پیغمبر نے علی (ع) کی رہبری کے سلسلہ میں بھی صراحت سے ذکر کیا ہے ۔ اس کا ایک نمونہ حدیث غدیر ہے ، جسے پیغمبر اکرم(ص) نے حجۃ الوداع کے دوران غدیر خم کے مقام پر ارشاد فرمایا تھا ۔ حجۃ الوداع پیغمبراسلام (ص) کا آخری حج ہے ۔ شاید آپ (ص) نے فتح مکہ کے بعد ایک سے زیادہ حج نہیں فرمایا ۔ البتہ حجۃ الوداع سے پہلے حج عمرہ ادا کیا تھا ۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے عام اعلان فرمایا اور لوگوں کو خصوصیت سے اس حج میں شرکت کی دعوت دی۔ گویا مسلمانوں کے کثیر مجمع کو اپنے ہمراہ لیا اور مختلف مقامات یعنی مسجد الحرام میں، عرفات میں، منیٰ میں اور منیٰ سے باہر نیز غدیر خم وغیرہ میں تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے متعدد خطبے ارشاد فرمائے ۔ منجملہ غدیرخم میں جبکہ آپ جگہ سیگہ پر مغز مطالب بیان فرماچکے تھے، ایک مسئلہ کو آخری مطلب کے طور پر بڑے شدو مدکے ساتھ بیان فرمایا( یاایهالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته ) (۹) (اے رسول ! آپ وہ امر لوگوں تک پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا ہے ۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی ۔"اگر پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے قبل عرفات، منیٰ اور مسجدالحرام میں اپنے خطبوں کے درمیان اصول و فروع کے تمام اسلامی کلیات بیان کردیئے تھے ۔ اور وہ بیانات آپ کے اہم ترین خطبات میں ہیں۔ پھر اچانک غدیر خم میں فرماتے ہیں کہ اب میں وہ بات بیان کررہاہوں کہ اگر اسے ذکر نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی "( فمابلغت رسالته ) " یعنی مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ اگر اسے نہ بیان کیا تو کچھ بھی بیان نہ کیا یعنی پوری رسالت کی محنت بے کار ہوکر رہ جائے گی ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : الست اولیٰ بکم من انفسکم ؟( کیا میں تمہارے نفسوں ( یا تم سے زیادہ حاکم نہیں ہوں ) یہ قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ "( النبی اولیٰ بالمومنین من انفسهم ) (۱۰) ( نبی مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حاکم و ولی ہے ) چنانچہ جب آپ نے فرمایا : کیا تم پر میرا حق تسلط اور ولایت خود تم سے زیادہ نہیں ہے ؟ سب نے ایک ساتھ کہا : بلیٰ (ہاں ) یا رسول اللہ تو حضرت (ص) نے فرمایا :"من کنت مولاه فهٰذا علی مولاه " یہ حدیث بھی حدیث ثقلین کی طرح بہت سے اسناد رکھتی ہے

حدیث غدیر جو متواتر ہے اگر ہم اس کے مدارک واسناد کی تحقیق کے میدان میں قدم رکھیں یایوں ہی حدیث ثقلین جس کے اسناد و مدارک میر حامد حسین طاب ثراہ نے "عبقات الانوار " میں جمع کئے ہیں جو بڑی سائز کے چار سو صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اگر ان حدیثوں کی تحقیق کی جائے تو بحث بہت طویل ہوجائے گی ۔ ممکن ہے اس سلسلہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہو پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ مسئلہ امامت کے تحت بحث کا ایک خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کردوں ۔ ساتھ ہی ان ثبوت و مدارک کابھی ایک اجمالی جائزہ پیش کردوں جنھیں شیعہ امامت کے سلسلہ میں سند کے طور پر بیان کرتے ہیں

____________________

(۷) صحیح مسلم جزء ہفتم صفحہ ۲۲

(۸) بعض اہل منبر اور مجلسیں پڑھنے والے افراد نےاس حدیث کی عظمت و اہمیت کو کم کرڈالا ہے ، اور اسے یوں پیش کرنے لگے کہ مفہوم حدیث بدل کر رہ گیا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ اکثر و بیشتر اس حدیث کو مصائب بیان کرنے کے لئے گریز کے طور پر پڑھنے لگے لہٰذا انسان یہ سوچتے لگا کہ اس حدیث سے پیغمبر کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھو رے جا رہاہوں یعنی قرآن و عترت ۔ ان دونوں کا احترام تم پر لازم و واجب ہے ۔ دیکھو ان کی توہین واہانت نہ کران ۔ جبکہ حدیث کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایک قرآن ہے جس سے تمسک اختیار کرو اور اسکے احکام پر عمل کرو اور دوسرے اہل سنت ہیں جن کی طرف رجوع کرو اور ان کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کروکیونکہ آنحضرت اسی حدیث میں آگے فرماتے ہیں :"لن تضلوا ما ان تمسکتم بهما ابداً " جب تک ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ۔ معلوم ہوا یہاں دونوں کی طرف رجوع کرنے اور تمسک اختیار کرنے کی بات کہی جارہی ہے ۔ پیغمبر نے تمسک و رجوع کی منزل میں عترت کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے کہ ان سے قرآ ن ہی کے مانند تمسک اختیار کیا جائے ۔ خود پیغمبر نے فرمایا ہے کہ قرآن ثقل اکبر ہے اور عترت ثقل اصغر ہے ۔

(۹) مائدہ ۶۷

(۱۰) سورہ احزاب ۶

پہلی بحث:

امامت کے معانی و مراتب

ھماری بحث مسئلہ امامت سے متعلق ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ مسئلہ امامت کو ہم شیعوں کے یہاں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ جبکہ دوسرے اسلامی فرقوں میں اسے اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ راز یہ ہے کہ شیعوں کے یہاں امامت کا جو مفہوم ہے وہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں سے مختلف ہے ۔ اگر چہ بعض مشترک پہوبھی پائے جاتے ہیں ، لیکن شیعی عقاعد میں امامت کا ایک مخصوص پہلو بھی ہے اور یہی پہلو امامت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب ہم شیعہ اصول دین کو شیعی نقطہ نظر کے مطابق بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصول دین ، توحید ، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کاو مجموعہ ہے ۔ یعنی امامت کو اصول دین کا جز و شمار کرتے ہیں ۔ اہل تسنن بھی ایک طرح جو امامت کے قایل ہیں ۔ بنیادی طور سے امامت کے منکر نہیں ہیں وہ اسے دوسری شکل سے تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن وہ جس نوعیت سے تسلیم کرتے ہیں، اس میں امامت اصول دین کا جز ونہیں ہے بلکہ فروع دین کا جو ہے بہر حال ہم دونوں امامت کے مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہیں وہ ایک اعتبار سے امامت کےقائل ہےیں اور ہم دوسرے اعتبار سے امامت کو تسلیم کرتے ہیں آخر یہ کیسے ہوا کہ شیعہ امامت کو اصول دین کا جزو انتے ہیں او اہل سنت اسے فروغ دین کا جزو سمجھتے ہیں ؟ اس کا سبب وہی ہے جو عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ اور ایہل سنت کے یہاں امامت کے مفہوم میں فرق ہے ۔

امام کے معنی :

امام کے معنی ہیں پیشوا یا رہبر ۔ لفظ امام، پیشوا یا رہبر بذات خود کوئی مقدس مفہوم نہیں رکھتے پیشوا یارہبر سے مراد ہے،آگے آگے چلنے والا، جس کا اتباع یا پیروی کی جائے ۔ چاہے وہ پیشوا عادی، ہدایت یافتہ اور صحیح راہ پر چلنے والاہو یا باطل اور گمراہ ہو۔ قرآن نے بھی لفظ امام کو دونوں معنی میں استعمال کیا ہے۔ایک جگہ فرماتا ہے :۔

"( وجعلنا هم أئمةیهدون بامرنا ) "(انبیاء / ۷۳ )

ہم نے ان کو امام قرار دیا ہے جو ہمارے حکم سے ہدایت و رہبری کرتے ہیں ۔

دوسری جگہ فرماتا ہے :۔

( ائمه یدعون الی النار ) (قصص / ۷۱)

وہ امام جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں ۔

یا مثلاًفرعون کے لئےبھی امام سے ملتے جلتے مفہوم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے :یقدم قومه یوم لاقیامة (۱)

"وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلے گا ۔" معلوم ہوا کہ لفظاامام سے مراد پیشوا یا رہبر ہے ۔ ہمیں اس وقت باطل پیشوا یا رہبر سے سروکار نہیں ہے، یہاں صرف پیشوا یا رہبر کا مفہوم عرض کرنا مقصود ہے۔

پیشوائی یا امامت کے چند مقامات ہیں جن میں سے بعض مفاہیم ہیں وہ سرے سے اس طرح کی مامت کے منکر ہیں۔نہ یہ کہ وہ امامت کو توقائل ہوں مگر مصداق میں ہم سے اختلاف رکھتے ہوں ۔ جس امامت کے وہ قائل ہیں لیکن اس کی کیفیت و شکل اور افراد میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں اس سے مراد معاشرہ کی رہبری و سر پرستی ہے۔ چنانچہ یہی یا اس سے ملتی جلتی تعبیر زمانۂ قدیم سے متکلمین کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے ۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب "تجرید الاعتقاد" میں امامت کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے "ریاسۃ عامۃ "یعنی "عمومی ریاست و حاکمیت" (یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے )

رسول اکرم(ص) کی حیثیت

پیغمبر اکرم، دین اسلام کی خصوصیت و جامعیت کی بنا پر قرآن اور خود اپنی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے زمانہ میں کئی حیثیتوں اور ذمہ داریوں کے حامل تھے، یعنی ایک ہی وقت میں کئی امور آپ کے ذمہ تھے اور آپ کئی منصبوں پر کام کررہے تھے چنانچہ پہلا منصب جو خداوند عالم کی جانب سے آپ کو عطاہوا تھا اور جس پر آپ عملی طور سے کاربند تھے، پیغمبری و رسالت تھی ۔ یعنی آپ الٰہی احکام و قوانین کو بیان فرماتے تھے ۔ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے :"( ماآتاکم الرسول فخذوه وما نهیٰکم عنه فانتهوا ) (۲) "یعنی جو کچھ پیغمبر تمہارے لئےلایاہے اسے اختیار کرلواور جن چیزوں سے تمہیں منع کرتا ھے انھیں چھو ڑدو ۔ یعنی پیغمبر احکام و قوانین سے متعلق جو بھی کہتا ہے خدا کی جانب سے کہتا ہے ۔ اس اعتبار سے پیغمبر صرف ان چیزوں کا بیان کرنے والا ہے جو اس پر وحی کی شکل میں نازل ہوئی ہے ۔ دوسرا منصب جس پر پیغمبر اسلام فائز تھے قضاوت کا منصب تھا یعنی وہ تمام مسلمانوں کے درمیان قاضی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کیونکہ اسلام کی نظر میں منصب قضاوت بھی کوئی یوں ہی سا بے معنی منصب نہیں ہے کہ جہاں کہیں دو آدمی آپس میں اختلاف کریں ایک تیسرا آدمی قاضی بن کر فیصلہ کر دے ۔ قضاوت اسلامی نقطہ ٔنظر سے ایک الٰہی منصب ہے کیونکہ یہاں عدل کا مسئلہ در پیش ہے ، قاضی وہ ہے جو نزع و اختلاف کے درمیان عادلانہ فیصلہ کرے ۔ یہ منصب بھی قرآن کے مطابق خداوند عالم کی جانب سے پیغمبر اکرم کو تفوین ہوا اور آپ خدا کی جانب سے حق رکھتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ فرمائیں :( فلا و ربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینهم ثم لا یجدو ا فی انفسهم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما ) (۳) "

معلوم ہوا یہ بھی ایک الٰہی منصب ہے کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے اور پیغمبر عملی طور پر قاضی بھی تھے ۔ تیسرا منصب جس پر پیغمبر قانونی طور سے فائز تھے یعنی قرآن کی رو سے آپ کو عطا کیا گیا تھا اور آپ اس پر عمل پیرابھی تھے ، یہی ریاست عامہ ہے یعنی وہ مسلمان معاشرہ کے حاکم و رہبر تھے ۔ دوسرے لفظوں میں آپ مسلمانوں کے نگرا ں اور اسلامی معاشرہ کے سر پرست تھے ۔ کہتے ہیں کہ : "( اطیعو الله و اطیعو االرسول و اولی الامر منکم ) "کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر تمہارے معاشرے کا حاکم و رہبر ہے ۔ وہ تمہیں جو حکم دے اسے تسلیم کر و ۔ لہٰذا یہ تینوں صرف ظاہری اور دکھاوے کے نہیں ہیں بلکہ بنیادی طور پر پیغمبر سے ہم تک جو کچھ پہنچا ہے اس کی تین حیثیتیں ہیں ۔ ایک پیغمبر کا وہ کلام جو فقط وحی الٰہی ہے ۔ یہاں پیغمبر بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتے جو حکم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ پیغمبر اسے پہنچانے کا صرف ایک ذریعہ ہیں ۔ مثال کے طور پر جہاں وہ دینی قوانین بیان کرتے ہیں کہ نمازیوں پڑھو ، روزہ ایسے رکھو وغیرہ ۔ وہاں رسول کا ارشاد حکم خدا اور وحی ہے ۔ لیکن جب لوگوں کے درمیان قضاوت کرتے ہیں اس وقت ان کے فیصلے وحی نہیں ہوتے ۔ یعنی دو آدمی آپس میں جھگڑتے ہیں، پیغمبر اسلامی قوانین کے مطابق دونوں کے درمیا ن فیصلہ فرمادیتے ہیں کہ حق مثلا اس شخص کے ساتھ ہے یا اس شخص کے ۔ اب یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ جبرءیل پیغمبر پر نازل ہوں اور وحی کے ذریعہ بتائیں کہ اے رسول آپ کہءے کہ حق اس شخص کے ساتھ ہے یا نہٰں ہے ۔ ہا ں اگر کوئی استثنائی موقع ہوتو دوسری بات ہے ورنہ کلی طور پر پیغمبر کے فیصلہ انہیں ظاہری بنیادوں پر ہوتے ہیں جن پر دوسرے فیصلے کرتے ہیں فرق یہ ہے پیغمبر کے فیصلے بہت ہی دقیق اور اعلیٰ سطح کے ہوتے ہیں آپ نے خود ہی فرمایا ہے کہ میں ظاہر پر حکم کرنے کے لئےمامور کیا گیا ہوں یعنی مثلامدعی اور مدعیٰ الیہ اکٹھا ہوں اور مدعی کے ساتھ دو عادل گواہ بھی ہوں تو پیغمبر اسی ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ صادر فرماتے ہیں یہ وہ فیصلہ ہے جو خود پیغمبر نے فرمایا ہے۔ آپ پر وہی نہیں نازل ہوئی ہے ۔

تیسری حیثیت بھی جس کے بموجب پیغمبر معاشرہ کے نگراں اور رہبر ہیں اگر اس کے تحت وہ کوئی حکم دے یہ حکم بھی اس فرمان سے مختلف ہوگا جس میں پیغمبر وحی خدا کو پہچانتے ہیں ۔

خدا نے آپ کو ایسی ہی حاکمیت و رہبری کا اختیار دیا ہے اور ایک حق کی صورت میں آ پ کو منصب عطا فرمایا ہے اور وہ بھی رہبر ہونے کی حیثیت سے اپنے فراءض انجام دیتے ہیں لہٰذا اکثرآپ بعض امور میں لوگوں سے مشورہ بھی فرماتے ہیں ۔ چنانچہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے بدر اور احد کی جنگوں میں ۔ نیز بہت سے دوسرے مقامات پر اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا ۔ جب کہ حکم خدا میں تو مشورہ کی گنجاءش ہی نہیں ہوتی کیا کبھی پیغمبر نے اپنے اصحاب سے یہ مشورہ بھی لیا کہ مغرب کی نماز ایسے پڑھی جائے یا ویسے ؟ بلکہ اکثر ایسے مسائل پیش آتے تھے کہ جب آپ سے ان مو ضوعات کے متعلق پو چھا جاتا تھا تو صاف فر مادیا کرتے تھے کہ مسائل کا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی جانب سے ہی ایسا ہے اور اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا لیکن (احکام خدا کے علاوہ) دوسرے مسائل میں پیغمبر اکثر مشورہ فرماتے تھے اور دوسروں کی رآئے دریافت کیا کرتے تھے اب اگر کسی موقع پر پیغمبر کوئی حکم دے کہ ایسا کرو تو یہ اس اختیار کے تحت ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا ہے ۔ ہاں اگر کسی سلسلہ میں مخصوص طور پر وحی بھینازل ہوجائے تو ایک استثنائی بات ہوگی ۔

اس کو عام مسائل سے الگ سمجھا جائے گا نہ یہ کہ تمام امور اور جزئیات میں معاشرہ کا حاکم اور رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرہ کے لئےپیغمبر جو کام بھی انجام دیتے تھے ۔ خدا ان کے لئےان پر وحی نازل فرماتا تھا کہ یہاں یہ کرو وہاں یہ کرو اور اس طرح کے مسائل میں بھی پیغمبر صرف اک پیغام رساں کی حیثیت رکھتا رہا ہولہٰذا پیغمبر اسلام یقینی طور پر بیک وقت ان متعدد منصبو ں پر فائز رہے ہیں ۔

امامت معاشرہ کی حاکمیت کے معنیٰ میں

جیسا کہ عرض کر چکا ہوں امامت کا مطلب اپنے پہلے معنی کے مطابق ریاست عامہ ہے ۔ یعنی پیغمبر کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کا وہ عہدہ جسے معاشرہ کی رہبری کہتے ہیں، خالی ہوجاتا ہے ۔ اور اس سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی معاشرہ ایک رہبر کا محتاج ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد معاشرہ کا حاکم و رہبر کو ن ہے ؟ یہ وہ مسئلہ ہے جسے بنیادی لو۔ پر شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور سنّی بھی ۔ شیعہ بھی کہتے ہیں کہ معاشرہ کو ایک اعلیٰ رہبر و قاعد اور حاکم کی ضرورت ہے اور سنّی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں خلافت کا مسئلہ اس شکل میں سامنے آتا ہے ۔ سیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اپنے بعد ایک حاکم و رہبر معین کردیا اور فرمایا کہ میرے بعد مسلمانوں کے امور کے امام علی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے اور اہل سنت اس منطق سے اختلاف کرتےہوئےکم از کم اس شکل میں جس شکل میں شیعہ مانتے ہیں یہ بات قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں پیغمبر نے کسی خاص شخص کو معین نہیں فرمایا تھا ۔ بلکہ یہ خود مسلمانوں کا فرض تھا کہ پیغمبر کے بعد اپنا ایک حاکم ورہبر منتخب کرلیں چنانچہ وہ بھی بنیادی طور پر امامت و پیشوائیکو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حاکم و رہبر ضرور ہونا چاہءے بس اختلاف یہ ہے کہ ان کے نزدیک رہبر انتخاب کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور شیعہ کہتے ہیں کہ حاکم و رہبر کو خود پیغمبر نے وحی کے ذریعہ معین فرمادیا ہے ۔

اگر مسئلہ امامت یہیں تک محدود رہتا اور بات صرف پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے سیاسی رہبر کی ہوتی تو انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم شیعہ بھی امامت کو اصول دین کے بجائے فروع دین کا جزو قرار دیتےاور سمجھتے ہیں کہ یہ بھی نماز کی طرح ایک فرعی مسئلہ ہے لیکن شیعہ جس امامت کےقائل ہیں وہ اس قدر محدود نہیں ہے کہ چونکہ علی بھی دیگر اصحاب مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان اور سیکڑوں اصحاب یہاں تک کہ سلمان و ابوذر کی طرح پیغمبر کے ایک صحابی تھے لیکن ان سب سے بر تر و افضل، سب سے زیادہ عالم، سب سے زیادہ متقی اور باصلاحیت تھے اور پیغمبر نے بھی انہیں معین فرمادیا تھا ۔ نہیں، شیعہ صرف اسی حد پر نہیں ٹھہرتے بلکہ امامت کے سلسلہ میں دو اور پہلووں کےقائل ہیں ۔ جن میں سے کسی ایک کو بھی اہل تسنن سرے سے نہیں مانتے ایسا نہیں ہے کہ امامت کی ان دوحیثیتوں کو تو مانتے ہوں لیکن علی کی امامت سے انکار کرتے ہوں، نہیں !ان میں سے یاک مسئلہ یہ ہے کہ امامت دینی مر جعیت کا عنوان رکھتی ہے ۔

امامت دینی مرجعیت کے معنی میں

ہم عرض کرچکے ہیں کہ پیغمبر وحی الٰہی کی تبلیغ کرنے والے اور اس کا پیغام پہونچانے والے تھے ۔ لوگ جب متن اسلامی کے بارے میں جاننا چاہتے تھے یا قرآن میں مطلب نہ پاتے تھے پیغمبر سے سوال کرتے تھے مسئلہ یہ ہے کہ اسلام جو کچھ معارف احکام اور قوانین بیان کرنا چاہتا تھا کیا وہ سب کے سب وہی ہے جو قرآن میں آگئے ہیں اور پیغمبر نے عام طور سے لوگوں کے سامنے بیان کردیا ہے ؟ یانہیں بلکہ قہری طور سے زمانہ اس کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ پیغمبر تمام قوانینوں احکام عام طور سے لوگوں میں بیان کردیں علی پیغمبر کے وصی و جانشین تھے اور پیغمبر اسلام نے اسلام کی تمام چھوٹی بڑی باتیں یا کم از کم اسلام کے تمام کلیات علی سے بیان کردئےاور انہیں ایک بے مثال عالم غیر معلم اپنے اصحاب میں سے سب سے ممتاز انہیں کی طرح اپنء باتوں میں خطا و لغزش سے میری اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والی تمام باتوں سے واقف شخصیت کے عنوان سے لوگوں کےسامنے پیش کیا ار فرمایا اے لوگوں میرے بعد دینی مسائل میں جو کچھ پوچھنا ہو میرے اس وصی و جانشین اور اس کے بعد تما م آنے والے اوصیاء سے سوال کرنا در حقیقت یہاں امامت ایک کامل اسلام شناس کی حیثیت سے سامنے آتی ہے لیکن یہ اسلام شناس ایک مجتہد کی حد سے کہیں بالا تر ہے اس کی اسلام شناسی منجانب اللہ ہے اور اءمہ علیہ السلام یعنی واقعی اسلام شناس البتہ یہ وہ افراد نہیں ہے جنھوں نے اپنی عقل اور فکر کے ذریعے اسلام کو پہچانا ہوجن کے یہاں قہری طور پر خطا اور اشتباہ کا امکان بھی پایا جاتا ہو بلکہ انھوں نے ان غیبی اور مرموز ذرائع سے اسلامی علوم پیغمبر سے حاصل کئے ہیں جو ہم پر پوشیدہ پے او ر یہ علم پیغمبر سے علی علیہ السلام تک اور علی سے بعد کے اءمہ تک پہونچا ہے اور اءمہ علیہ السلام کے پورے دور میں یہ علم خطاوں سے بری معصوم علم کی صورت میں ایک امام سے دوسرے امام تک پہونچتا رہا ہے ۔

اہل سنت کسی شخص کے لئےاس منزلت و مقام کےقائلنہیں ہیں لہٰذا وہ سرے سے اس طرح کی امامت کے حامل کسی بھی امام کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یعنی وہ امامت کے ہی قائل نہیں ہیں، نہ یہ کہ امامت کے توقائل ہوں اور کہیں کہ علی امام نہیں ہیں، ابوبکر اس کے اہل ہیں، نہیں بلکہ وہ لوگ ابوبکر، عمر عثمان بلکہ کلی طور پر کسی ایک صحابی کے لئےبھی اس منصب یا مقام کو تسلیم نہیں کرتے ۔یہی سبب ہےکہ خود اپنی کتابوں میں ابوبکرعمر سے دینی مسائل میں ھزاروں اشتباہات اورغلطیاں نقل کرتے ہیں لیکن شیعہ اپنے اماموں کوخطائوں سے معصوم جانتے ہیں اور امام سے کسی خطا کےسرزدہ ونےکو محال سمجھتے ہیں (مثال کے طور پر اہل سنت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ) ابوبکرنے فلاں مقام پراشتباہ کیا اوربعد میں خود ہی کہا کہ "ان لی شیطاناً نعترینی" بلاشبہ ایک شیطان ہےجو اکثر میرے اوپر مسلط ہوجاتا ہےاور میں غلطیاں کربیٹھتا ہوں،یا عمر نےفلاں مقام پرخطااورغلطی کی اوربعدمیں کہاکہ:یہ عورتیں بھی عمر سےزیادہ عالم وفاضل ہیں۔ کہتے ہیں کی جب ابوبکر کاانتقال ہواتو ان کےاہل خاندان منجملہ ابوبکرکی صاحبزادی اورزوجہء رسول عائشہ بھی گریہ وآہ زاری کرنےلگیں۔یہ صداے گریاجب ابوبکر کے گھرسے بلند ہوئی توعمر نے پیغام کہلوایا کی جاکر عورتوںسے کہ دوکہ خاموش رہیں۔وہ خاموش نہ ہوئیںدوسری مرتبہ کہلایاکہ اگرخاموش نہ ہوئیں تو میں تازیانہ لیکرآتا ہوں یوں ہی پیغام کے بعد پیغام جاتے رہےلوگوں نے عائشہ سے کہاکہ عمرگریا کرنے پربگڑرہےہیںدھمکیاںدے رہےہیںاوررونےسےمنع کرتےہیںآپ نے کہاابن خطاب کو بلاءو،دیکھیںوہ کیا کہ رہا ہے۔عمرعائشہ کے احترام میں خودآئے،عائشہ نےپوچھاکیا بات ہےیہ باربارپیغام کییوں کہلارہےتھے؟کہنےلگےمیںنےپیغمبرص سے سناہےکہ اگر کوئی شخص مرجائےاورلوگ اس پرروءیںتو جس قدر وہ گریہ کریں گے اتنا ہی مرنے والا عذاب میں گرفتار ہوتا جائے گا، لوگوں کا گریہ اس کےلئےعذاب ہے ۔ عائشہ نے کہا : تم سمجھتے نہیں، تمہیں اشتباہ ہوا ہے ۔ مسئلہ کچھ اور ہے، میں جانتی ہوں اصل قصہ کیا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک خبیث یہودی مر گیا تھا، اس کے اعزا اس پر رورہے تھے ۔ پیغمبر نے فرمایا :یہ لوگ رورہے ہیں، جبکہ اس پر عذاب ہوریا ہے ۔ یہ نہیں فرمایا تھا کہ ان لوگوں کو رونا عذاب کا سبب بن رہاہے ۔ بلکہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ اس پر رورہے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس پر عذاب کیا جارہا ہے ۔ آخر اس واقعہ کا اس مسئلہ سے تعلق ہے ؟!اس کے علاوہ اگر میت پر رونا حرام ہے تو ہم گناہ کررہے ہیں خدا ایک بے گناہ پر عذاب کیوں کر رہا ہے ؟!اس کا اس میں کیا گناہ ہے کہ گریہ ہم کریں اور عذاب میں وہ مبتلا کیا جائے ؟! اگر عورتیں نہ ہوتیں تو عمر ہلاک ہو گیا ہوتا ۔

خود اہل سنت کہتے ہیں کہ عمر نے ستر جگہوں پر (یعنی ستر مقاما ت پر اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ایسے موارد بہت زیادہ ہے کہا لولا علی لہلک عمر اور امیر المومنین علیہ السلام ان کی غلطیوں کو درست کرتے تھے اور خود بھی اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے تھے

مختصر یہ کہ اہل سنت اس نوعیت کی امامت کےقاءل نہیں ہے اب بحث کا رخ اس مسئلہ کی طرف پلٹتا ہے بلا شبہ وحی فقط پیغمبر پر نازل ہوتی تھی ہم یہ نہیں کہتے کہ اءمہ پر نازل ہوتی ہے اسلام صرف پیغمبر نے عالم بشریت تک پہونچایا خدا نے بھی اسلام سے متعلق جو کچھ کہنا تھا پیغمبر سے فرمادیا ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اسلام کے بعض قوانین پیغمبر سے نہ کہے گئے ہوں پیغمبر سے سب کچھ کہ دیا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے تمام احکام و قوانین عام لوگوں تک پہونچادیے گئے یا نہیں ؟ اہل سنت کہتے ہیں کہ اسلام کے جتنے احکام و قوانین تھے پیغمبر نے اپنے اصحاب تک پہونچا دءے لیکن بعد میں جب صحابہ سے کسی مسئلہ میں کوئی روایت نہیں ملتی تو الجھ جاتے ہیں کے کیا کریں ؟ اور یہیں سے دین میں قیاس کا مسئلہ داخل ہوجاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ان مسائل کو قانون قیاس کے ذریعہ مکمل کرلیتے ہیں جس کے متعلق امیر المومنین علیہ السلام نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں گویا خدا نے ناقص دین بھیجا ہے کہ تم اسے مکمل کرو گے ؟ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہ خدانے ناقص اسلامی قوانین پیغمبر پر نازل کیے اور نہ پیغمبر نے انہیں ناقص صورت میں لوگوں تک پہونچایا پیغمبر نے کامل طور پر سب کچھ بیان کردیا لیکن جو کچھ کامل شکل مین پیغمبر نے بیان کیا سب کچھ وہی نہیں ہے جو پیغمبر نے عوام کے سامنے بیان کیا ہے کتنے ہی احکام ایسے تھے جن کی ضرورت پیغمبر کے زمانے میں پیش ہی نہیں آءی اور بعد میں ان سے متعلق سوال ا ٹھا بلکہ آپ نے خدا کی جانب سے نازل ہونے والے تمام احکام اپنے شاگرد خاص کو تعلیم کیے اور ان سے فرمادیا کہ تم بعد میں ضرورت کے مطابق لوگوں سے بیان کرنا

یہیں سے عصمت کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے شیعہ کہتے ہیں کہ جس طرح پیغمبر اپنے بیان و گفتگو میں عمداً یا سھوا غلطی یا اشتباہ سے دو چار نہیں ہوتے یوں ہی ان کا شاگرد خاص بھی خطا یا اشتباہ سے دوچار نہیں ہوسکتا کیوں کہ جس طرح پیغمبر کو ایک نوعیت سے تائید الٰہی حاصل تھی یوں ہی ان کے خصوصی شاگرد کو بھی غیبی و الٰہی تائید حاصل تھی اور یہ گویا امامت کا ایک اور فضل و شرف ہے ۔

امامت، ولایت کے معنی

اس تیسرے مرتبہ میں اپنے امامت اپنے اوج کمال کو پہونچتی ہے ۔ اور شیعہ کتابیں اس مفہوم سے بھری پڑی ہے ۔ مزید یہ ہے کہ امامت کی یہی حیثیت تشیع اور تصّوف کے درمیان مشترک پہلو رکھتی ہے ۔ البتہ اس وجہ اشتراک کی تعبیر سے کوئی غلط مفہوم نہ لینا چاہئے ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس سلسلہ میں مستشرقین کی باتیں آپ کے سامنے آئیں جو مسئلہ کو اسی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ یہ مسئلہ عرفا کے یہاں بڑے شد و مد کےساتھ پایا جاتا ہے اور شیعوں میں بھی صدر اسلام سے ہی موجود تھا ۔ مجھے یا د ہے کہ آج سے دس سال پہلے ہنری کار بن نے علامہ طباطبائی سے ایک انٹرویوکے دوران یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اس مسئہ کو شیعوں نے متصوفہ کے یہاں سے لیا ہے یا متصوفہ نے شیعوں سے اپنا یا ہے؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے حاصل کیا ہے،علامہ طباطبائی نے جواب دیا تھا کہ صوفیوں نے اسے شیعوں سے لیا ہے، اس لئے کہ یہ مسئلہ شیعوں کے یہاں اس وقت سے موجود ہے جب نہ تصوفد کو یہ شکل حاصل ہوئی تھی اور نہ یہ مسائل ان کے یہاں پیدا ہوئے تھے ۔ بعد میں صوفیا کے یہاں بھی یہ تصور پیدا ہوگیا ۔ چنانچہ اگر سوال یہ اٹھے کہ ایک نے دوسرے سے اپنا یا تو یہی کیا جائے گا کہ تصور شیعوں سے صوفیوں کے یہاں پہنچا ہے ۔ یہ مسئلہ ایک انسان کا مل یا دوسرے الفاظ میں حجت زمانہ کا مسئلہ ہے ۔ عرفااور صوفیا اس مسئلہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ مولانا روم کہتے ہیں

پس یہ ہر دوری و لیتی قائم است

یعنی ہو دور میں ایک ایسا انسان کامل موجود ہے جو اپنے اندر انسانیت کے تمام معنویات و کمالات رکھتا ہو ۔ کوئی عہد اور کوئی زمانہ ایسے ولی کامل سے خالی نہیں ہے، جسے وہ اکثر لفظ قطب سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ اور ایسے ولی کامل کے لئے جس میں انسانیت کامل طور پر جلوہ گر ہو یہ لوگ ایسے مدارج و مراتب کے قائل ہیں جو ہمارے افکار سے بہت بعید ہیں ۔ منجملہ اس کی ایک منزلت یہ بھی ہے کہ ولی لوگوں کے ضمیروں یونی دلوں پر تسلط رکھتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی روح کلی ہے جوتمام ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یہاں بھی مولانا روم ابراہیم ادہم کی داستان میں، جو ایک افسانہ سےزیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اس سلسلہ میں اشارہ کرتے ہیں ۔ اصل میں وہ ان افسانوں کا ذکر اپنے مطلب کی وضاحت کےلئے کرتے ہیں ان کا مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں : ابراہیم ادہم دریا کےکنا رہ گئے اور ایک سوئی دریا میں ڈال دی اور پھر آپ نے اس سوئی کو واپس طلب کیا ۔ مجھلیوں نے پانی سے منھ نکا لا توع سب کےدہن میں ایک ایک سوئی موجود تھی ۔ یہاں مولانا روم کہتے ہیں

دل نگہ دار پدای بی حاصلان

در حضور حضرت صاحبدلان

یہاں تک کہ فرماتے ہیں شیخ یعنی ان پیر صاحب نے ان کے افکار سے حقیقت و واقعیت معلوم کرلی

شیخ واقف گشت از اندیشہ اش

شیخ چون شیراست و دلھا بیشہ اش

ہم شیعوں کے یہاں ولایت کا مسئلہ اس عامیانہ تصور کے مقابلہ میں بڑا دقیق اور عمیق مفہوم رکھتا ہے ۔ ولایت کا مطلب ہے حجت ِ زمان یعنی کوئی زمانہ اور کوئی عہد اس حجت سے خالی نہیں ہے :ولولا الحجة لساخت الارض باهلها مطلب یہ ہے کہ نہ کوئی ایسا زمانہ گزرا اور نہ کوئی ایسا زمانہ ہوگا جب زمین کسی انسان کا مل یا حجت خدا سے خالی رہے ( ورنہ زمین اپنی تمام موجودات کے ساتھ ہی ختم ہوجوئے گی ) شیعہ اس انسان کامل کے لئے عظیم درجات و مراتب کے قائل ہیں ۔ ہم اپنی اکثر و بیشتر زیارتوں میں اس طرح کی ولایت و امامت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام ایسی روح کلی رکھتا ہے جوتما ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (ہم ان کلمات کو نہ صرف ہمیشہ پڑھتے ہیں بلکہ یہ ہمارے شیعی مسلمات و اصول کا جزو ہے ۔ : اشھد انک تشھد مقامی و تسمع کلامی وترد سلامی ( مزید کہ ہم یہ کلمات ان کے لئے کہتے ہیں جو مر چکے ہیں ۔ البتہ ہماری نظروں میں ان کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کمال پر فائز نہ تھے، مرنے کے بعد ایسے ہوگئے ہیں ) میں گوہی دیتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے وجود کویہاں محسوس اور درک کررہے ہیں ۔ میں گوا ہی دیتا ہوں کہ اس وقت جو کچھ میں کہہ رہا ہوں السلام علیک یا علی بن موسی الرضا اسے آپ سن رہے ہیں ۔ میں اعتراف کرتا ہوں اور گوہی دیتا ہوں کہ میں آپ کو جوسلام کررہا ہوں اسلام علیک آپ اس کا جواب دیتے ہیں ۔ یہ وہ مراتب ہیں جن کاہمارے سوا کوئی کسی کے لئے قائل نہیں ہے ۔ اہل سنت ( وہابیوں کے علاوہ) صرف پیغمبر اکرم کے لئے اس مرتبہ کے قائل ہیں پیغمبر کے علاوہ دنیا میں کسی اور کے لئے اس روحی کمال اور روحانی مرتبہ کے قائل نہیں ہیں ۔ جبکہ یہ بات ہم شیعوں کو اصول مذہب میں داخل ہے اور ہم ہمیشہ اس کا اقرار کرتے ہیں ۔

بنابر این مسئلہ امامت کے تین درجے ہیں ۔ اگر ہم ان تینوں درجوں کو ایک دوسرے سے جدانہ کریں تو امامت سے متعلق دلا ئل میں ہمیشہ شبہات سے دوچار ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ شیعوں میں بھی الگ الگ درجے ہیں ۔ بعض شیعہ امامت کامطلب وہی انسان معاشرہ کی رہبری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو اپنے بعد رہبری کے لئے معین فرمادیا تھا ۔ ابوبکرو عمر وعثمان ان کی جگہ پر غلط آئے ۔ یہ لوگ اسی حد تک شیعہ ہیں اوراممت کے بقیہ دونوں مرتبوں کا یا عقیدہ نہیں رکھتے یا اس سلسلہ میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔ بعض لوگ دوسرے مرحلے کے بھی قائل تر ہیں ( یعنی امام دینی مرجع ہوتا ہے ) لیکن تیسرے مرحلہ کو تسلیم نہیں کرتے کہتے ہیں کہ مرحوم آقا سید محمد باقر در چہ ای جو آقائے بروجردی کے استاد تھے، امامت کےاس تیسرے مرحلہ کے منکر تھے ۔ لیکن شیعہ اور علمائے شیعہ کی اکثریت اس تیسرے مرحلہ کا بھی عقیدہ رکھتی ہے ۔

ہمیں در اصل امامت کے موضوع پر تین مرحلوں میں بحث کرنی چاہئے :۔

۱ ۔ امامت قرآن کی روشنی میں ۔

۲ ۔ امامت احادیث کی روشنی میں ۔

۳ ۔ امامت عقل کی روشنی میں ۔

پہلے مرحلہ میں دیکھنا چاہئے کہ قرآنی آیات پر جسے شیعہ تسلیم کرتے ہیں دلالت کرتی ہیں یا نہیں ؟ اور اگر دلالت کرتی ہیں تو کیا امام و صرف معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی رہبر کے معنی میں پیش کرتی ہیں یا اس کی دینی مرجعیت حتیٰ کہ معنوی و روحانی ولایت کو بھی بیان کرتی ہیں ؟ اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم احادیث پیغمبر کا جائزہ لیں کہپ حضور نے امامت کےسلسلہ میں کیا بیان فرمایا ہے ۔ اس کے بعدعقل کی روشنی میں اس مسئلہ کا تجزیہ کریں کہ عقل ان تینوں مرحلوں میں امامت کو کس حیثیت سے تسلیم کرتی ہے؟کیا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرہ کا رہبر ہونے کی حیثیت سے حق اہل سنت کے ساتھ ہے، اور جانشین پیغمبر کو شوریٰ کے ذریعہ منتخب ہونا چاہئے، یا پیغمبر نے خود اپنا جانشین معین فرمادیا ہے ؟اس طرح امامت کی بقیہ دونوں حیثیتوں کے سلسلہ میں عقل کیا کہتی ہے ۔

امامت کے بارہ میں ایک حدیث:

امامت کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے ذکر سے پہلے ایک مشہور و معروف حدیث پیش کرتا ہوں ۔ اس حدیث کی روایت شیعوں نے بھی کی ہے اور اہل سنت نے بھی۔ اور جس حدیث پر شیعہ و سنی متفق ہوں، اسے معمولی نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ جب دو فریق دو الگ الگ طریقوں سے اس کی روایت کرتے ہیں تو ایک بات تقریباًیقینی ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اکرم یا امام نے یہ بات بہر حال فرمائی ہے ۔ البتہ اگر چہ عبارتوں میں تھوڑا سا فرق ہے لیکن مضمون تقریباًایک ہی ہے۔ ہم شیعہ اس حدیث کو زیادہ تر ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة (۴) یعنی جو شخص اپنے زمانہ کے امام یا رہبر کو پہچانے بغیر مرجائے، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ حدیث کی یہ تعبیر بہت شدید ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں مرنے والا نہ توحید پر ایمان رکھتا تھا نہ نبوت پر بلکہ سرے سے مشترک ہوتا تھا۔ یہ حدیث شیعہ کتابوں میں کثرت سے نقل ہوئی ہے اور شیعی اصول و مسلمات سے بھی صد فیصد مطابقت و موافقت رکھتی ہے شیعوں کی معتبر ترین حدیث کی کتاب کافی میں یہ حدیث نقل ہوئی اہل سنت کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے لیکن اسے ایک روایت میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ممات بغیر امام مات میتۃ الجاھلیۃ جو شخص امام کے بغیر مر جائے گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ایک دوسری عبارت میں اس طرح نقل ہے من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی امام کی بیعت کا قلادہ نہ ہو اس کی موت جاھلیت کی موت ہے ایک اور عبارت جو شیعوں کے یہاں بھی ملتی ہے لیکن اہل سنت کے یہاں کثرت سے نقل ہے من مات ولا امام لہ ما ت میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کا کوئی امام نہ وہ وہ جاہلیت کی موت مرا اس طرح کی عبارتیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے مسئلہ امامت کے سلسلہ میں خاصہ اہتمام فرمایا ہے

جو لوگ امامت کا مطلب صرف اجتماع و معاشرے کی رہبری سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھو پیغمبر نے رہبری کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ خود معتقد ہیں اگر امت کا کوئی رہبر پیشوا نہ ہو تو لوگوں کی موت جاہلیت کی موت ہوگی کیونکہ احکام اسلام کی صحیح تشریح اور ان کا صحیح نفا ض اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب امت ایک صالح رہبر موجود ہواور امت اپے رہبر کے ساتھ مضبوط ارتباط قائم رکھے اسلام انفرادی دین نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے میں خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہوں اب مجھے کسی اور کی ضرورت نہیںنہیں بلکہ خدا اور رسول پر ایمان رکھنے کے بعد بھی آ پ کو بہر حال یہ دیکھنا اور سمجھنا پڑے گا کہ زمانے میں رہبر اور مام کون ہے تاکہ بہر حال اسی کی سر پرستی اور رہبری میں عملی زندگی گزاریں اور جو لوگ امامت کو دینی مر جعیت کے معنی میں دیکھتے ہیں۔ وہ( اس حدیث کی روشنی میں)کہتے کہ جسے اپنا دین محفوظ رکھنا ہو اسے اپنے دینی مرجع کی معرفت حاصل کرنا ھوگی ۔ اور یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی دین کہاں سے حاصل کیا جائے۔ اور یہ کہ انسان دین تو رکھتا ہے لیکن وہ اپنا دین خود اس کے مخالف منابع و مراکز سے حاصل کرے تو سراسر جہالت ھوگی۔

اور جو امامت کو ولایت معنوی کی حد تک لے جاتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان کسی ولی کامل کے لطف و کرم اور اس کی توجہ کا مرکز قرار نہ پائے تو گویا اس کی موٹ جاہلیت کی موت ہے ۔ یہ حدیث چونکہ متواترات سے ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ پہلے عرض کردوں تاکہ ذہنوں میں باقی رہے "انشاء اللہ اس پر آئندہ بحث کی جائے گی۔

امامت قرآن کی روشنی میں:

قرآن کریم میں کئی آیتیں مذکور ہیں جن سے شیعہ امامت کے سلسلہ میں استدلال کرتے ہیں اتفاق سے ان تمام آیتوں کے سلسلہ میں اہل سنت کےیہاںبھی ایسی روایتیں موجود ہیں جو شیعہ مطالب کی تائید کرتی ہیں ۔ ان میںسے ایک آیت یہ ہے:( انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنواالذین یقیموں الصلاة ویوتون الزکاة وهم راکعون ) ۔(۵)

"انما" کے معنی ہیں صرف اور صرف (کیونکر یہ اداۃ حصر ہے)"ولی"کے اصل معنی ہیں سر پرست ولایت یعنی تسلط و سرپرستی۔ قرآن کہتا ہے۔ تمہارا سر پرست صرف اور صرف خدا ہے، اس کارسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔"اسلام میں ایساکوئی حکم نہیں ہے کہ انسان ھالت رکوع میں رکوۃ دے۔ تاکہ کہا جائے کہ یہ قانون لی ہے اور تمام افراد اس حکم میں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو خارج میں صرف ایک بار ظہور پذیر ہوا۔ شیعہ اور سنی دونوں نے متفق طور پر اس کی روایت کی ہے، واقعہ کا خلاصہ یوں ہے کہ حضرت علی حالت رکوع میں تھے کہ ایک سائل نے آکر سوال کیا ۔ حضرت نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا ۔ سائل قریب آیا ، اس نے حضرت علی(ع) انگلی سے انگھوٹی اتاردی اور لیکر چلاگیا ۔ یعنی آپ نے اتنا انتظار بھی نہیں کیا کہ نماز تمام ہوجائے اس کے بعد انفاق کریں آپ اس فقیر کے سوال کو جلد از جلد پورا کرنا چاہتے تھے لہٰذا اسی رکوع کی حالت میں اسے اشارہ سے سمجھا دیا کہ انگھوٹی اتار لے جائے اور اسے بیچ کر اپنا خرچ پورا کرے ۔ اس واقعہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، سنی شیعہ سب متفق ہیں کہ حضرت علی نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ دونوں فریق اس بات پربھی متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ جبکہ رکوع کی حالت میں انفاق کرن اسلامی قوانین کا جزو نہیں ہے ۔ نہ واجب ہے نہ مستحب کہ یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کچھ کوگوں نے اس قانون پر عمل کیا ہو۔ لہٰذا آ یت کا یہ انداز "جو لوگ یہ عمل انجام دیتے ہیں "ایک اشارہ و کنایہ ہے ۔ جسے خود قرآن میں اکثر آیا ہے "یقولون " یعنی ( وہ لوگ کہتے ہیں ) جبکہ معلوم ہے کہ ایک شخص نے یہ بات کہی ہے ۔ لہٰذا یہان اس مفہوم سے مراد وہ فرد ہے جس نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ بنا بر ایں اس آیت کے حکم کے مطابق حضرت علی (ع) لوگوں پر ولی حیثیت سے معین کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ شیعہ اس آیت کو استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ البتہ اس پر اس سے کہیں زیادہ بحث و گفتگو ہونی چاہئے جسے ہم آئندہ پیش کریں گے ۔

دوسری آیات واقعۂ غدیر سے متعلق ہیں ۔ اگر چہ خود واقعہ غدیر احادیث کے ذیل میں آتا ہے اور ہم اس پر بعد میں بحث کریں گے لیکن اس واقعہ سے متعلق سورۂمائدہ میں جو آیتیں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں ایک آیت یہ ہے :( یاایها الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته ) (۶) (یہاں لہجہ بہت تند ہو گیا ) اے پیغمبر ! جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی تبلیغ کردو ، اور اگر تم نے اس کی تبلیغ نہیں کی تو گویا تم نے سرے سے رسالت الٰہی کی تبلیغ نہیں کی ۔ اس آیت کا مفہوم اتنا ہی شدید اور تند ہے جتنا حدیث "من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ " کا اجمالی طور سے خود آیت ظاہر کررہی ہے کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر پیغمبر نے اس کی تبلیغ نہ کی تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا ۔

شیعہ و سنی اس پر متفق ہے کہ پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والا آخری سورہ، مائدہ ہے ۔ اور یہ آیتین ان آیتوں کاجز ہے جو سب سے آخر میں پیغمبر پر نازل ہوئی یعنی اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام تیرہ سال مکہ کی زندگی اور دس سال مدینہ کی حیات میں اسلام کے تمام دوسرے قوانین و احکام بیان کر چکے تھے یہ حکم ان احکام کا آخر جز تھا اب ایک شیعہ سوال کرتا ہے کہ یہ حکم جو آخری احکام کا جزہے اور اس قدر اہم ہے کہ اگر پیغمبر اسے نہ پہونچائیں تو ان کی گذشتہ علم محنتوں پر پانی پھر جائے ۔ آخر ہے کون سا حکم ؟ آپ لاکھ تلاش کے بعد کسی ایسے مسئلہ کی نشان دہی نہیں کرسکتے جو پیغمبر کی زندگی کے آخر دنوں سے مربوط ہو اور اس قدر اہم ہو کہ اگر حضور اس کی تبلیغ نہ کریں تو گویا انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ امامت ہے ۔ اگر وہ نہ ہوتا سب کچھ بیکا ر ہے یعنی اسلام کا شیرازہ بکھر کے رہ جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ شیعہ خود اہل سنت کی رواہت سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیرخم میں نازل ہوئی ہے ۔

اسی سورۂ مائدہ میں ایک اور آیت ہے( الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ) (سورہ مائدہ آیت نمبر ۳) آج میں نے دین کو تم لوگوں کےلئے کمال کی منزلوں تک پہونچا دیا ۔ اس پر اپنی نعمتیں آخر حدوں تک تمام کر دی اور آج کے دن میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسندیدہ قرار دیا ، خود آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس دن کوئی واقعہ گزرا ہے جو اتنا اہم ہے کہ دین کے کامل ہونے اور انسانیت پر خدا کی طرف سے اتمام نعمت کا سبب بن گیا ہے ۔ جس کے ظہور پذیر ہونے سے اسلام در حقیقت اسلام ہے اور خدا اس دین کو ویسا ہی پاتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو اسلام ،اسلام ہی نہیں ہے ۔ آ یت کا لب و لہجہ بتا تھا ہے کہ واقعہ کتنا اہم ہے ۔ اسی بنا پر شیعہ اس سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ موضوع جو دین کی تکمیل اور اتمام نعمت کا سبب بنا اور جو اگر واقع نہ ہوتا تو اسلام در اصل اسلام ہی نہ رہتا ۔ وہ کیا تھا ؟ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا موضوع ہے جسے اتنی اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سی روایتیں اس با ت کی تائید کرتی ہے کہ یہ آیت بھی اسی موضوع امامت کے تحت نازل ہوئی ہے ۔

____________________

(۱) سورہ ہود آیت نمبر۹۸

(۲) سورہ حشر آیت نمبر ۷

(۳) سورہ نساء آیت ۶۵پس نہیں اے رسول تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلاف اور دشمنیوں میں تمہیں حاکم نہ بناءیں ۔ اور تم جو کچھ فیصلہ کردو اس سے دل تنگ نہ ہوں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کر لیں ۔

(۴) دلائل الصدوق ص ۶، ۱۳

(۵) سورۂ مائدہ /آیت نمبر۵۵۔

(۶) سورہ مائدہ آیت نمبر ۶۷


3

4

5

6

7

8