فطرت

فطرت 13%

فطرت مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

فطرت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22556 / ڈاؤنلوڈ: 4526
سائز سائز سائز
فطرت

فطرت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

فطرت

مولف : استاد مرتضیٰ مطہری

عرض ناشر

”فطرت“ آیت اللہ مرتضیٰ مطہری کی ایک شہرت یافتہ کتاب ہے‘ اس کتاب کا انداز تحریر دوسری کتابوں سے بالکل مختلف ہے‘ صاف و شفاف جملے‘ رواں دواں عبارت‘ پرکشش لفظوں کا چناؤ پھر مطالب کی ہمہ گیریت اور مقاصد کی جامعیت نے کتاب کے حسن کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ آیة اللہ مطہری نے کائنات کی آفرینش اور انسان اور دیگر مخلوقات کے مقصد تخلیق کو بہت ہی سادہ اور آسان لفظوں میں بیان کیا ہے‘ حالانکہ شہید مطہری ایک بہت بڑے فلسفی‘ فقہ و حدیث کے ماہر عالم دین تھے‘ انہوں نے کتاب لکھتے وقت عام لوگوں بالخصوص طلبہ کی تربیتی سوچ کو بھی اپنے سامنے رکھا ہے۔ علامہ صاحب نے منفی اقدار کو انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں جہالت و ظلم کی سخت الفاظ میں مذمت کی‘ پھر یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنی اپنی جگہ پر درست اور برمحل ہے‘ کسی کا خوبصورت یا بدصورت ہونا فطری حسن پر اثرانداز نہیں ہوتا‘ کیونکہ خلاق لم یزل نے کوئی نہ کوئی خوبی ہر انسان کو عطا کر دی ہے‘ گویا جو جو چیز یا جو جو نعمت جس جس کے حصے میں آئی تھی وہ اس کو پوری امانت و حفاظت کے ساتھ مل گئی۔ کتنا خوبصورت توازن قائم کیا ہے مالک کائنات نے؟ اسلام میں علم و دانائی کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے‘ انہوں نے لکھا ہے کہ انسان علم و دانائی کا طالب صرف اس لئے نہیں ہے کہ وہ اسے فطرت پر غلبہ دیتے ہیں اور اس کی مادی زندگی میں اس کو نفع پہنچاتے ہیں‘ بلکہ اس کے اندر حقیقت اور تحقیق کی فطری جستجو موجود ہے‘ علم بہتر زندگی بسر کرنے اور اپنے فرائض بہتر طریقے سے انجام دینے کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر انسان کو مطلوب ہے۔ پھر کہا ہے کہ انسانی روح کی پائیدار اور قدیم ترین تجلیوں اور اصلی ترین پہلوؤں میں سے ایک دعا اور عبادت کا احساس ہے‘ دوسرے لفظوں میں دعا ایک ایسا زندہ عمل ہے جس کے ذریعے ہماری چھوٹی شخصیت اپنی حیثیت کو زندگی کے ایک بڑے ”کل“ میں پا لیتی ہے۔ اسلام نے خود شناسی پر خصوصی توجہ دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اس عالم وجود میں اپنے مرتبہ کو سمجھے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود شناسی کے ذریعے اپنے آپ کو اس بلند مقام پر پہنچائے جس کا وہ اہل ہے۔ اسلام جسم کی پرورش‘ حفاظت کو ضروری سمجھتا ہے‘ روح کی پرورش اور انسانی کردار کی تعمیر و ترقی بھی حیات انسانی کے لئے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں پیغمبروں کی تشریف آوری اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے انداز تبلیغ پر بہترین انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ دنیا و آخرت کا فلسفہ بھی آسان پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے‘ گویا آیة اللہ مطہری نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے‘ کسی نے سچ کہا ہے کہ خوشبو تو وہ ہے جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرے نہ کہ عطار کو اس کی تعریف کرنی پڑے۔

آیۃ اللہ مطہری شہید کی چند کتب ہم شائع کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں‘ زیر نظر کتاب کی اشاعت ہمارے لئے کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور اسلامی تعلیمات کے فروغ اور دین الٰہی کی نشر و اشاعت کے لئے کام کر رہے ہیں‘ جن احباب نے ٹیلی فون‘ خط و کتابت کے ذریعے ہمارے ساتھ اپنی محبت و ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے‘ ان تمام دوستوں کے لئے بے حد شکریہ اور دعائے خیر!

ہماری دعا ہے رب العزت تمام امت مسلمہ کو عزت و سربلندی عطا فرمائے اور ہم سب کو ہر طرح کی آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔

(آمین ثم آمین)

باب اول

فطرت کے معنی

ہمارا موضوع بحث ”فطرت“ ہے۔ فطرت بحث ایک لحاظ سے فلسفیانہ بحث ہے۔ فلسفے کے اہم موضوعات تین ہیں:

۱ ۔ خدا ۲ ۔ کائنات ۳ ۔ انسان

ہماری یہ بحث انسان سے متعلق ہے ایک لحاظ سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان اور خدا سے متعلق ہے۔ موضوع کے ایک طرف انسان ہے اور دوسری طرف خدا ہے اسلامی مآخذ یعنی قرآن و سنت میں فطرت کا بہت ذکر ملتا ہے۔ اس ضمن میں میں نے پہلے سے کچھ یادداشتیں مرتب کر رکھی ہیں کہ جن کے بارے میں اس نشست میں گفتگو ہو گی کہ کیا قرآن انسان کے لئے فطرت کا قائل ہے؟ انسان کے بارے میں ایک خاص نکتہ نظر ہے۔ لفظ فطرت سے کیا مراد ہے؟ کیا قرآن سے پہلے کسی نے انسان کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا ہے؟ یا پھر یہ ایسے پہلوؤں میں سے ایک ہے جن کا قرآن نے ہی پہلی مرتبہ انسان کے متعلق ذکر کیا ہے؟ بظاہر قرآن سے پہلے اس لفظ کے استعمال کی کوئی مثال موجود نہیں ہے چنانچہ قرآن نے ہی اسے پہلی مرتبہ انسان کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کے قرائن کا بعد میں ذکر ہو گا۔

پہلے ہمیں لفظ فطرت کے لغوی پہلو کا جائزہ لینا چاہئے اور گہری نظر سے دیکھنا چاہئے کہ اس کی لغوی بنیاد کیا ہے۔ دوسرا مسئلہ جس کے بارے میں ہمیں اس مقام پر گفتگو کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ کیا انسان اصولی طور پر فطریات کے ایک سلسلے کا حامل ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ کیا انسان ہر قسم کی فطرت سے عاری ہے؟ البتہ فطریات کی تعریف اس کے بعد بیان کریں گے۔

ہماری تیسری بحث بالخصوص دین کے بارے میں ہو گی کہ کیا دین فطری ہے یا نہیں؟ قرآن نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ دین فطری ہے۔ ہمیں انسان اور دین کے بارے میں ایک علمی بحث کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کیا دین بنیادی طور پر فطری ہے یا نہیں؟ قرآن نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ دین دین فطرت ہے۔ ہمیں انسان اور دین کے بارے میں ایک علمی بحث کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ دین بنیادی طور پر فطری ہے یا نہیں۔

فطرت اور تربیت

البتہ اس مسئلے کے بہت سے پہلو مختلف حوالوں سے وجود میں آتے ہیں ان میں سے ایک تعلیم و تربیت کا پہلو ہے جو ازخود ایک وسیع بحث کا حامل ہے۔ اس حوالے سے گفتگو یہ ہے کہ اگر انسان فطریات کے ایک سلسلے کا حامل ہے تو پھر اس کی تربیت قطعی طور پر انہیں فطریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی جانی چاہئے اور جو لفظ فطرت استعمال کیا جاتا ہے چاہے شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر اس کی بنیاد یہی ہے کیونکہ تربیت کے معنی ہیں پروان چڑھانا اور پرورش کرنا اور یہ اس بنیاد پر ہے کہ انسان کے اندر صلاحیتوں کے ایک سلسلے کو جسے آج کی زبان میں امتیازی خصوصیات کہا جاتا ہے تسلیم کر لیا جائے۔

تربیت اور صنعت میں یہ فرق ہے کہ صنعت میں کسی ”مادی“ چیز کو وجود میں لایا جاتا ہے یعنی انسان کا ابتداء میں ایک مطمع نظر ہوتا ہے اس کے بعد وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مختلف چیزوں سے کام لیتا ہے جبکہ ان چیزوں کی اصل ماہیت سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے مختلف ساز و سامان کی شکل و صورت کو بگاڑنے یا سنوارنے سے کوئی غرض نہیں ہوتی اس کو صرف اور صرف اپنے مقصد کے حصول سے غرض ہوتی ہے۔

ایک بڑھئی یا ایک معمار جس کا کام ایک طرح کی ساخت یا تعمیر ہے جو اس کا کام ہونا چاہئے اسے اس سے مطلب نہیں کہ لکڑی لوہا سیمنٹ وغیرہ اپنی ذات اور ماہیت کے لحاظ سے پروان چڑھتے ہیں اور کمال پاتے ہیں یا ناقص ہو جاتے ہیں بلکہ اصولی طور پر کبھی تو ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس ساز و سامان کو شکل و صورت کو ناقص اور تبدیل کرے تاکہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے۔ لیکن ایک مالی اگرچہ اس کا اپنا ایک مطمع نظر ہدف اور فائدہ ہوتا ہے لیکن اس کے کام کی بنیاد یہ ہے کہ وہ پھول یا پودے کو فطری اور قدرتی تقاضوں کے مطابق پروان چڑھائے اور ایک لحاظ سے وہ پھول اور پودے کے قدرتی تقاضوں کو نظر میں رکھتے ہوئے انہیں پروان چڑھاتا ہے۔

میں نے یہ مثال پہلے بھی دی تھی کہ کبھی انسان کسی مینڈھے کو اس کے ذاتی حوالے سے دیکھتا ہے اور کبھی انسان اسے ایک چیز کے حوالے سے دیکھتا ہے اگر مینڈھے کو اس کے ذاتی حوالے سے دیکھا جائے تو کیا مینڈھے کے مفاد میں ہے کہ اسے جنسی طور پر ناقص کر دیا جائے؟ ہرگز نہیں کیونکہ ہم اس عمل سے ایک طرف اسے اذیت دیتے ہیں اور دوسری طرف ہم اسے جنسی لحاظ سے ناقص کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہم اسے اس کے ایک اہم قدرتی عضو سے جو کہ اس کے کمال اور ارتقاء کا باعث ہے سے محروم کر دیتے ہیں اس لحاظ سے یہاں پر ہم اسے ایک چیز کے طور پر سمجھتے ہیں۔ ہمیں اس سے مطلب نہیں ہوتا کہ اس عمل سے مینڈھا کامل ہوتا ہے یا ناقص۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ فربہ اور موٹا تازہ ہو جائے اور اس کا گوشت زیادہ ہو جائے اس لئے ضروری ہے کہ میں اسے جنسی طور پر ناقص کر دوں تاکہ اس کی توجہ بھیڑ کی طرف نہ جائے اور وہ صرف کھانے اور چرنے کی طرف ہی توجہ رکھے اس طرح وہ زیادہ کھائے گا اور زیادہ فربہ اور موٹا ہو گا نتیجتاً اس کا گوشت بھی زیادہ ہو جائے گا اور جب ہم اس کو ذبح کریں گے تو ہمیں اس کا زیادہ گوشت میسر آ سکے گا۔

انسانوں کا مسئلہ بھی ایسے ہی ہے انسانوں کی تعمیر دو طرح سے کی جا سکتی ہے:

ایک تو یوں کہ جس طرح چیزوں کی تعمیر کی جاتی ہے یعنی جو تعمیر کرنے والا ہے وہ فقط اپنے ہی مقصد کو پیش نظر رکھے اور کسی شے کو ایسا بنا دے کہ اس کا مقصد حاصل ہو جائے چاہے اس کا یہ مقصد چیزوں کو ناقص کرنے سے حاصل ہوتا ہو یا کامل کرنے سے۔

جو لوگ اجتماعیت کے قائل ہیں (یعنی فرد کی نفی کر کے معاشرے ہی کو اصل سمجھنا اور انفرادی کمال کو اہمیت نہ دینا) جیسے اشتراکی نظام کہ جو بذات خود ایک خاص طبقے (حکمران طبقے) کی حاکمیت پر مکمل ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ انسانوں کی تعمیر یوں کریں کہ حکمران طبقے کا مقصد بہتر طور پر حاصل ہو یا ان کے بقول معاشرے کے لئے مفید ہو۔ اس کے بارے میں ہم بعد میں بحث کریں گے کہ آیا فرد کے کمال اور معاشرے کے کمال میں کوئی تضاد ہے یا نہیں؟ اور کیا بہت سے مسائل میں معاشرے کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہم فرد کو ناقص کرنے پر مجبور ہیں یا نہیں؟

کہا جاتا ہے کہ ہمیں معاشرے کے لئے فلاں فلاں افراد کی ضرورت ہے مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ معاشرے کو نظم و ضبط کے سو فیصد پابند سپاہیوں کی ضرورت ہے جو اوپر سے آنے والے حکم کی بلا حیل و حجت تعمیل کریں اور اپنے سالار کے حکم کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں غور و فکر نہ کریں۔ چنانچہ اگر کوئی انسان اپنے ذاتی ارادے اور عقل کو کام میں لاتا ہے یعنی عقل و فکر کے اعتبار سے آزاد ہے اور سوچتا ہے کہ میں فلاں کام کیوں کروں یا وہ انسان جذبات کا حامل ہے تو پھر ایسا فرد ان کے نزدیک کسی کام کا نہیں اور ان کے بقول معاشرے کے لئے بے کار ہے۔ ان کے مطابق معاشرے کے لئے وہی لوگ کارآمد ہیں جو فکر اور جذبہ سے عاری ہوں وہ چاہتے ہیں کہ سپاہی ایسا ہو کہ یہ اسے ایک بم دیں اور کہیں کہ جاؤ فلاں شہر پر گرا آؤ اور وہ یہ نہ سوچے کہ وہاں کے عوام کا کیا قصور ہے؟ اور میں ان پر بم کیوں گراؤں؟ وہ یہ نہ سوچے کہ آخر اس شہر میں جو مرد ہیں عورتیں ہیں بوڑھے ہیں جوان ہیں یا بچے ہیں وہ بے گناہ ہیں یا قصوروار۔ اس بارے میں اسے نہ سوچنا چاہئے نہ ذرہ بھر محسوس کرنا چاہئے بالکل ایسے ہی جیسے مینڈھے کی تناسلی صلاحیت کو ختم کر دیتے ہیں تاکہ وہ خوب چرے اور خوب موٹا تازہ ہو۔ یہ لوگ انسانی جذبوں اور احساسات کو ختم کر دیتے ہیں اور اس میں درندگی کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں اس طرح فکری حریت اور استقلال کو پوری طرح اس سے چھین لیتے ہیں اور اس صورت میں یہ انسان ان کے لئے کارآمد ہو جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ ”تربیت“ کے حقیقی مفہوم کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ تربیت کے معنی انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے اگر وہ عقل و فکر کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے ذہن میں چون و چرا ابھرتے ہیں تو پھر چاہئے کہ ان کی بھی پرورش کی جائے نہ کہ اس کی ان صلاحیتوں کو ختم کر دیا جائے اگر اس کے اندر انسانی جذبہ مثال کے طور پر رحم کا جذبہ موجود ہو تو چاہئے کہ اسے پروان چڑھایا جائے تاہم ان چیزوں کی بھی افراط و تفریط کے حوالے ہی سے حدود مقرر ہیں۔ یہ بات اس لئے بیان کی گئی ہے کہ مسئلہ فطرت کا تربیت سے بہت قریبی رشتہ ہے جس کے بارے میں ہم جداگانہ گفتگو کریں گے۔

دور حاضر کے انسانی فلسفوں میں اور معاشرہ شناسی کے علوم میں تاریخ کے ارتقاء کے مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اگر ہم فطرت کے قائل ہوں تو تاریخ کے ارتقاء کے ایک خاص اعتبار سے توجیہہ کریں گے اور اگر ہم فطرت کے قائل نہ ہوں جیسا کہ دور حاضر میں بہت سے مکاتب فکر انسان کے لئے کسی فطرت کی مجموعی طور پر نفی کرتے ہیں تو اس صورت میں تاریخ کے ارتقاء کی توجیہہ کسی اور طرح سے کریں گے۔ ان تمام امور پر تفصیلی بحثیں ہیں جن کی جانب ہم نے اجمالی طور پر اشارہ کیا ہے۔

لفظ فطرت کا لغوی مفہوم

اب ہم پہلے مسئلے سے بات شروع کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لفظ ”فطرت“کہ جو قرآن میں آیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟

ارشاد خداوندی ہے:

فطرة الله التی فطر الناس علیها (روم ۳۰)

مادہ ”فطر“ (ف۔ ط۔ ر) قرآن میں متعدد بار استعمال ہوا ہے کبھی ”فطر هن “(انبیاء ۵۶)

کبھی ”فاطر السموات و الارض “(انعام ۱۴) اور دیگر پانچ آیات۔

کبھی ”انفطرت “ (انفطار ۱)

اور کبھی ”منفطر به (مزمل ۱۸)

ہر مقام پر اسی لفظ کے معنی ہیں ابداع اور خلق بلکہ خلق بھی ابداع کے معنی میں ہی ہے۔ ابداع کے معنی کسی سابقہ نمونے کو پیش نظر رکھے بغیر پیدا کرنے کے ہیں۔ لفظ ”فطرة“ اس صیغے میں یعنی بروزن ”فعلة“ صرف ایک آیت میں آیا ہے کہ جو انسان اور دین کے بارے میں ہے جس کے مطابق دین ”فطرة اللّہ“ ہے۔

فا قم و جهک للدین حنیفا فطرة الله التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله (روم ۳۰)

اس آیت کی تشریح ہم بعد میں عرض کریں گے۔ جو لوگ عربی زبان سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ ”فعلة“ کا وزن نوعیت اور کیفیت پر دلالت کرتا ہے۔ ”جلسة“ یعنی بیٹھنا اور ”جلسة“ یعنی بیٹھنے کا خاص انداز جیسے ”جلست جلسة زید“ یعنی میں زید کے انداز میں بیٹھا یعنی جیسے زید بیٹھتا ہے میں ایسے بیٹھا۔ ابن مالک نے الفیہ میں کہا ہے:

و فعلة لمرة کجلسة و فعلة لهبیة کجلسة

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ قرآن میں لفظ ”فطرت“ انسان اور دین کے ساتھ اس کے رابطے کے بارے میں آیا ہے۔ ”فطرة الله التی فطر الناس علیها “ یعنی وہ خاص خلقت کہ جو ہم نے انسان کو دی یعنی انسان ایک خاص انداز سے پیدا ہوا ہے۔ یہ جو آج کل کہا جاتا ہے کہ ”انسانی امتیازات“ تو اس سے فطرت کا مفہوم نکلتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب ہم انسان کی اصل خلقت میں کچھ امتیازات اور خصوصیات کے قائل ہوں یعنی فطرت انسان کے معنی ہوئے خلقت و آفرینش کے اعتبار سے انسان کے امتیازات و خصوصیات۔

ابن اثیر کا قول

حدیث کی لغات کے بارے میں لکھی جانے والی معتبر کتب میں ایک کتاب ابن اثیر کی ”النہایہ“( ۱) ہے جو معروف ہے۔ ہم چونکہ معتبر مدارک سے ثبوت پیش کرنا چاہتے ہیں اس لئے اس کتاب کا بھی حوالہ پیش کرتے ہیں جیسے لغات قرآن کے لئے ”راغب“ کی کتاب ”مفردات“ نہایت عمدہ ہے کیونکہ راغب نے قرآنی الفاظ کے بنیادی معانی کا اچھی طرح تجزیہ کیا ہے۔ یہی کام ابن اثیر نے حدیث کی لغات کے لئے انجام دیا ہے۔ ”النہایہ“ میں ابن اثیر نے اس معروف حدیث کو ذکر کیا ہے:

کل مولود یولد علی الفطرة ( ۱)

”ہر مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین (بیرونی عوامل) اسے منحرف کر کے یہودی عیسائی یا آتش پرست بنا دیتے ہیں۔“

اس حدیث کے بارے میں ہم بعد میں بحث کریں گے۔ ابن اثیر نے یہ حدیث نقل کر کے لفظ ”فطرت“ کے معنی یوں بیان کئے ہیں کہالفطر: الابتداء والاختراع (فطر) یعنی ابتداء و اختراع یعنی خلقت ابتدائی کہ جسے ایجاد بھی کہتے ہیں اس سے مراد ایسی خلقت جس میں کسی کی تقلید نہ کی گئی ہو۔ اللہ کا کام فطر ہے اختراع لیکن انسان کا کام عموماً تقلید ہے یہاں تک کہ انسان جو ایجاد بھی کرتا ہے اس میں بھی تقلید کے عناصر موجود ہوتے ہیں۔

انسان عالم طبیعی کی تقلید کرتا ہے یعنی عالم طبیعی پہلے سے موجود ہے اور انسان اسے نمونہ قرار دے کر اس کی بنیاد پر تصویر بناتا ہے صناعی کرتا ہے مجسمہ سازی کرتا ہے انسان کبھی ایجاد و اختراع بھی کرتا ہے اور ایجاد و اختراع کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن انسانی ایجاد و اختراع کا اصل سرچشمہ عالم طبیعی ہی ہے اور اسی سے وہ رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ معارف اسلامی میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے نہج البلاغہ اور دیگر اسلامی کتب میں اس سلسلے میں بہت کچھ موجود ہے اور لازمی طور پر ایسا ہی ہے۔ البتہ اللہ تعالی نے اپنے کام کے لئے کسی کی صناعی کی تقلید نہیں کی کیونکہ جو کچھ ہے اسی کا بنایا ہوا ہے۔ اس کی صناعی سے کوئی چیز مقدم نہیں ہے لہذا لفظ فطر ابتداء اور اختراع کے مساوی ہے یعنی ایسا عمل کہ جس میں کسی اور کی تقلید نہ کی گئی ہو۔ ابن اثیر اس کے بعد لکھتے ہیں:

والفطرة الحاله منه کا لجلسه و الرکبة

فطرت: یعنی خلقت کی ایک خاص حالت اور ایک خاص نوعیت کے معنی ہوتے ہیں۔ (یہ خاص طور پر اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ جب ہم بعد میں وضاحت کریں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ معنی ان کلمات کے لئے ان کے مفہوم کی بناء پر ہیں اور یہ کہ اس صحیح لغوی مفہوم کو نہایت معتبر اہل لغت نے بہت پہلے بیان کیا ہے)۔

وہ مزید لکھتے ہیں:

والمعنی انه یولد علی نوع من الجبله والطبع المتهیی لقبول الدین فلو ترک علیها لا ستمر علی لزومها

”یعنی انسان ایک خاص طرح کی سرشت اور طبیعت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اس طرح سے کہ وہ دین کو قبول کرنے کی قابلیت رکھتا ہے اور اگر اسے اسی کے حال پر اور طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اسی راستے کا انتخاب کرے گا بشرطیکہ بیرونی اور خارجی طور پر متاثر کرنے والے عوامل اسے اس راستے سے نہ بھٹکا دیں۔“

اس کے بعد ابن اثیر کہتے ہیں کہ حدیث میں فطرت کا لفظ کئی بار آیا ہے۔ مثال کے طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کہ جس کا ابتدائی حصہ ابن اثیر نے نہیں لکھا یوں بیان ہوا ہے:

علی غیر فطرة محمد یعنی علی غیر دین محمد

مقصد یہ ہے کہ اس مقام پر لفظ دین کے بجائے ”فطرت“ کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح ابن اثیر نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے:

و جبار القلوب علی فطراتها

(نہج البلاغہ میں اس سے ملتا جلتا جملہ آیا ہے: ”و جابل القلوب علی فطراتها “) اللہ تعالی جس نے دلوں کو پیدا کیا ہے وہ ان دلوں کی فطرتوں کی بنیادوں پر ان کا جبار ہے۔ یعنی تلافی کرنے والا یا تکمیل کرنے والا اس سے مراد اخلاق ہے۔

ابن اثیر کہتے ہیں:

علی فطراتها ای علی خلقها (نہایہ ابن اثیر جلد ۳ ص ۴۵۰)

ابن عباس کا قول

ابن عباس سے ایک عجیب حدیث منقول ہے۔ اس حدیث کو میں اس امر کے لئے قرینہ سمجھتا ہوں کہ فطرت کا لفظ ان الفاظ میں سے ہے جنہیں قرآن نے ہی پہلی مرتبہ استعمال کیا ہے۔ ابن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد تھے قریش تھے اور صاحب علم و فضل انسان تھے وہ کوئی عجمی نہ تھے کہ ہم کہیں کہ عربی زبان سے واقف نہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے قرآن میں آنے والے لفظ فطرت کو پہلی بار اس وقت سمجھا جب ایک مرتبہ میری ایک بادیہ نشین بدو اعرابی سے ملاقات ہوئی۔(”اعرابی“ یعنی بادیہ نشین قرآن میں آنے والا لفظ اعراب اس معنی میں نہیں کہ جس میں آج ہم استعمال کرتے ہیں۔ ہم لفظ اعراب کو عرب کی جمع کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ عرب کی جمع عُرُب ہے۔ اعراب اور اعرابی عام طور پر بادیہ نشینوں کو کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ فارسی زبان میں آج کل لفظ اعراب عرب کی جمع کے لئے بولا جاتا ہے)۔

اور اس نے ایک مسئلہ میں اس لفظ کو استعمال کیا۔ جب اس نے اس مسئلے میں یہ لفظ استعمال کیا تو مجھ پر آیت کا مفہوم واضح ہوا۔

ابن عباس کے الفاظ یوں ہیں:

ما کنت ادری ما فاطر السموات والارض حتی احتکم الی اعرابیان فی بئر

یعنی قرآن میں آنے والے لفظ فاطر کو میں صحیح طور پر نہیں سمجھا تھا یہاں تک کہ دو بادیہ نشین میرے پاس آئے کہ جن کا پانی کے ایک کنوئیں کے مسئلے پر اختلاف تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا ”انا فطرتھا“، وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ کنواں میرا ہے اور اس کی مراد یہ تھی کہ اسے شروع میں میں نے کھودا ہے۔ (آپ جانتے ہیں کہ جب کسی کنویں کو کھودا جاتا ہے تو ایک عرصے کے بعد اس کے پانی کی سطح نیچی ہو جاتی ہے لہذا اسے دوبارہ مزید نیچے گہرا کرنا پڑتا ہے تاکہ پانی دوبارہ حاصل کیا جا سکے)۔

وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ میں اس کا پہلا مالک ہوں یعنی میں نے اسے پہلے کھودا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں اس سے سمجھا کہ قرآن میں ”فطرت“ کے کیا معنی ہیں یعنی انسان کی ایک ایسی سو فیصد ابتدائی خلقت کہ غیر انسان میں جس کی کوئی مثال نہیں دیگر مواقع پر بھی عربی زبان میں جہاں ”فطر“ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بھی یہ ابتدائی ہونے اور سابقہ نہ رکھنے کا مفہوم رکھتا ہے۔ مثلاً عرب کہتے ہیں:

فطر ناب البعیر فطرا اذا شق اللحم و طلع

اونٹ کے دانت جب نکلتے ہیں اور وہ پہلی بار گوشت کو چیر کر نمایاں ہوتے ہیں تو ابتداء ۱ً ان کے نکلنے کو ”فطر“ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اسی طرح سے کسی جانور کے پستان سے جو پہلا دودھ حاصل کیا جاتا ہے اسے اسی اعتبار سے فُطرہ کہتے ہیں (یعنی بولی یا کھیس)۔

راغب اصفہانی نے بھی اس لفظ کا اسی طرح تجزیہ کیا ہے جیسے ”النہایہ“ میں ابن اثیر نے اس کو واضح کیا ہے چونکہ اسے دوبارہ بیان کرنے سے تکرار ہوتی ہے اس لئے اس کی جانب اشارہ کرنا ضروری نہیں ہے۔

شیخ عباس قمی کی گفتگو

شیخ عباس قمی نے اپنی سفینۃالبحار (شیخ عباس قمی کی بہترین مفید ترین اور ایک اہم کتاب یہی ہے کہ حدیث کے بارے میں ہے اور اس کتاب میں انہوں نے مجلسی مرحوم کی کتاب ”بحار“ کی احادیث کو لغوی اعتبار سے واضح کیا ہے۔ درحقیقت یہ مجلسی مرحوم کی ”بحار“ کی احادیث کی ایک فہرست ہے اس کتاب میں انہوں نے کسی حد تک ابن اثیر کی پیروی کی ہے اس فرق کے ساتھ کہ ابن اثیر کی زیادہ توجہ لغت کی طرف ہے اور ان کی احادیث کی طرف) میں ایک اہم ماہر لغت ”مطرزی“ سے نقل کرتے ہیں کہ اس میں اس نے کہا ہے کہ فطرت یعنی خلقت۔ اس کے بعد ”غوالی اللیالی“ سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں:

کل مولود یولد علی الفطرة

”یعنی ہر مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔“

اس کے بعد انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آپ ے ایک مناسبت کے لحاظ سے لفظ ”فطرة“ استعمال کیا ہے لیکن فطرت کے اس استعمال سے ہٹ کر کہ جس میں ہم استعمال کرتے ہیں۔ ابی بصیر کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا اونٹ کا گوشت لایا گیا اور ہم نے کھایا پھر دودھ لایا گیا نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا اور مجھ سے کہا کہ تم بھی پیئو میں نے بھی پیا۔ میں نے پوچھا:

”ایش“ یہ کیا ہے؟

اس میں ایک خاص قسم کا مزہ تھا۔ نے فرمایا ”انها الفطرة “ یہ فُطرة ہے (دودھ دوہتے وقت اس کی جو جھاگ بن جاتی ہے وہ مراد ہے) پھر بھی اس لفظ میں وہی ابتدائیت کا مفہوم ہی موجود ہے۔ اب ہم لفظ فطرت کی لغوی بحث سے آگے بڑھتے ہیں۔

فطرت صبغہ حنیف

قرآن حکیم میں تین الفاظ ایسے استعمال ہوئے ہیں کہ قرآن نے دین کے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے انہیں ہم معنی اور مفہوم کے لحاظ سے انہیں ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا ہے یعنی تین ایسے مختلف مفہوم ہیں کہ ان کا مصداق ایک ہے۔ ان میں سے ایک یہی لفظ ”فطرت“ ہے۔

فطرة الله التی فطر الناس علیها (روم ۳۰)

دوسرا لفظ ”صبغہ“ ہے اور تیسرا ”حنیف“ یعنی دین کے لئے ”فطرة اللہ“ بھی کہا گیا ہے ”صبغة اللہ“ بھی اور ”للدین حنیفا“ بھی۔

اب ہم کچھ ”صبغہ“ اور ”حنیفا“ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

صبغةالله ومن احسن من الله صبغة البقرة ۱۳۸)

”اللہ کا رنگ اور اللہ کے رنگ سے بہتر کیا ہے۔“

”صبغہ“، ”فعلۃ کے وزن پر ہے۔ یہ صبغہ اور صباغ کے مادہ سے ہے۔ ”صبغہ“ کے معنی ہیں رنگ کرنا اور ”صباغ“ یعنی رنگ ریز یا رنگ کرنے والا صبغہ یعنی رنگ کرنے کی ایک خاص کیفیت خاص طرح سے رنگنا ”صبغة اللہ“ یعنی وہ خاص رنگ جو اللہ نے کائنات میں بھرا ہے یعنی الہی رنگ۔ دین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ الہی رنگ ہے یہ وہ رنگ ہے کہ جسے دست قدرت نے کائنات اور خلقت میں بھرا ہے اس نے انسان کو اس رنگ میں ڈھالا ہے۔ مفسرین نے کہ جن میں راغب بھی شامل ہیں کہا ہے کہ قرآن میں یہ تعبیر اس غسل تعمید کی طرف اشارہ ہے کہ جو عیسائی انجام دیا کرتے تھے (کہتے ہیں کہ پانی میں چونکہ وہ لوگ ”عیسائی“ عموداً نہلاتے تھے اس لئے اسے غسل تعمید کہتے ہیں۔ بعض کتابوں میں ہے کہ غسل کے لئے پانی کا کوئی خاص رنگ مثلاً زرد جیسا ہوتا تھا)۔ عیسائی غسل تعمید پر اعتقاد رکھتے تھے اور آج بھی اسے انجام دیتے ہیں جب وہ کسی کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ عیسائیوں کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے عیسائی مذہب میں داخل کرنے کے لئے یہ غسل دیتے ہیں گویا اس طرح سے اس پر عیسائیت کا رنگ چڑھاتے ہیں اور اس نہلانے کو ایک طرح سے مسیحیت کا رنگ دینا سمجھتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

”رنگ تو وہ رنگ ہے کہ اللہ نے جو خلقت کے اندر بھرا ہے۔“

ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

ما کان ابراهیم(ع)یهودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما (آل عمران ۶۷)

”ابراہیم(ع)یہودی اور نصرانی نہیں تھے بلکہ وہ تو حنیف مسلمان تھے۔“

قرآن کہتا ہے کہ انسان ایک فطرت کا حامل ہے اور وہ دین ہے اور دین بھی اسلام۔ اسلام ایک حقیقت ہے آدم(ع)سے خاتم تک قرآن ادبیات کا قائل نہیں ہے ایک دین کا قائل ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں لفظ دین کی جمع استعمال نہیں ہوئی کیونکہ دین فطرت ہے راستہ ہے انسان کی سرشت میں موجود ایک حقیقت ہے۔ انسانوں کو مختلف طرح سے پیدا نہیں کیا گیا ہے جتنے بھی انبیاءآئے ان کے تمام احکام کی بنیاد فطری احساس کو بیدار کرنے زندہ کرنے اور پروان چڑھانے پر تھی۔ جو کچھ وہ پیش کرتے تھے اس فطرت انسانی کا تقاضا ہے فطرت انسانی کے تقاضے مختلف طرح کے اور الگ الگ نہیں ہوتے لہذا قرآن فرماتا ہے کہ جس چیز کے نوح حامل تھے وہ دین تھا اور اس کا نام اسلام تھا اور جس چیز کے ابراہیم(ع)حامل تھے وہ بھی دین ہی تھا کہ جس کا نام اسلام ہے۔ یہ جو نام بعد میں پیدا ہوئے اور وجود میں آئے حقیقی دین اور اس کی فطرت سے انحراف ہے یعنی درحقیقت جس چیز کے نوح موسی عیسی اور ہر نبی حامل تھا وہ دین اسلام ہی تھا۔ (بعض لوگوں نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا شریعتیں بھی فطری ہیں یا نہیں؟ ہم اس سلسلے میں بعد میں بیان کریں گے کہ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ دین فطری ہے تو اس کی کون سی چیز فطری ہے۔ آیا اس کے اصول و معارف فطری ہیں یا احکام بھی فطری ہیں۔ یہ جزئیات ہیں ان پر بعد میں گفتگو کی جائے گی)۔

لہذا قرآن فرماتا ہے:

ما کان ابراهیم(ع)یهودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما

”ابراہیم(ع)یہودی اور نصرانی نہیں تھے بلکہ وہ تو حنیف مسلمان تھے۔“(آل عمران ۶۷)

قرآن یہ نہیں فرمانا چاہتا کہ ابراہیم(ع)رسول اللہ کے زمانے کے مسلمان کی طرح کسی پیغمبر آخرالزمان ۱ کی امت تھے بلکہ فرماتا ہے کہ یہودیت اور عیسائیت حقیقی اسلام سے انحراف ہے اور اسلام درحقیقت ایک ہی ہے۔ وہ آیت مبارکہ جو میں نے پہلے بیان کی ہے اس میں فرمایا گیا ہے کہ اس رنگ چڑھانے کا کیا فائدہ ہے؟ غسل تعمید اور اس جیسے غسلوں کی کیا تاثیر ہے؟ کیا غسل تعمید سے کسی کو وہ کچھ بنایا جا سکتا ہے جو کچھ وہ نہیں ہے؟ رنگ بھرنا تو وہ رنگ بھرتا ہے جو دست قدرت نے خود کائنات میں بھر دیا اور سمو دیا۔ اللہ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ جو کچھ ہمارا نبی کہتا ہے وہی حقیقی اسلام ہے وہی فطرت حقیقی ہے۔ فطرت حقیقی یعنی وہ رنگ کہ جسے اللہ نے خلقت ”مخلوق“ میں بھر کر روح انسانی میں رچا دیا اور چڑھا دیا ہے۔

راغب اصفہانی کہتے ہیں:

صبغةالله اشارة الی ما اوجده الله تعالی فی الناس من العقل المتمیزبه عن البهائم کا لفطرة

(البتہ وہ فطرت کو عقل میں منحصر سمجھتا ہے)۔

و کانت النصاری اذا ولد لهم ولد غمسوه فی الیوم السابع فی ماء عمودیةیزعمون ان ذلک صبغةل تعالی له ذلک من احسن من الله صبغة

یعنی قرآن کریم میں ”صبغۃاللہ“ کی عبارت اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالی نے خصوصاً انسانوں میں پیدا کی ہے یعنی ”عقل“ جو انہیں حیوانوں سے اشرف افضل اور ممتاز کرتی ہے اور یہی فطرت ہے۔ عیسائیوں کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اسے ساتویں دن پانی میں عموداً ڈبوتے ہیں اس سے وہ یہ خیال کرتے کہ بچہ پر عیسائیت کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا:

”اللہ کے رنگ سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟“

حدیث میں ہے:

الدین الحنیف و الفطرة و صبغةالله والتعریف فی المیثاق (معانی الاحبار بحوالہ بحارالانوار چاپ جدید ج ۳ باب ۱۱ ص ۲۷۶)

”دین حنیف اور دین فطرت اور صبغۃاللہ وہی ہے کہ جس سے اللہ نے انسان کو میثاق کے موقع پر آشنا کیا ہے۔(میثاق وہ پیمان یا عہد ہے کہ جو اللہ تعالی نے روح انسانی سے لیا ہے)۔“

یہ میثاق اسی ”چیز“ کی طرف اشارہ ہے کہ جسے عالم ذر سے تعبیر کیا جاتا ہے لہذا ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مقام پر ہم عالم ذر کے مسئلہ پر گفتگو کریں اور دیکھیں کہ اس کا مفہوم اور معنی کیا ہیں۔ کیا انسان قبل ازیں اسی عالم مادہ میں چھوٹے چھوٹے جانداروں کی طرح تھے؟ اور پھر انہوں نے یہ ”موجودہ“ صورت اختیار کر لی ہے یا پھر اس کے کوئی دقیق تر معنی ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ دقیق تر ہے۔

حنیف کا مفہوم

زرارہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا ”حنفاء للّہ“ سے کیا مراد ہے؟

ما الحنیفیة؟ حنیفیت کیا ہے؟ امام(ع)نے فرمایا حنیفیت یعنی فطرت۔ گویا امام(ع)نے بھی اسے ایک تکوینی و طبیعی مسئلہ کی طرف پلٹایا ہے۔ شیخ صدوق اپنی عمدہ کتاب ”توحید“ میں فرماتے ہیں کہ زرارہ نے امام باقر(ع)سے حنفاء للہ غیر مشرکین بہ اور پھر حنیفیت کے بارے میں پوچھا تو امام(ع)نے فرمایا:

هی الفطرة التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله

”یہ ہے وہ فطرت جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی آفرینش تبدیل نہیں ہوتی۔“

امام(ع)نے مزید فرمایا کہ اللہ نے انہیں معرفت پر پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد امام(ع)نے واقعہ ذر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ نے بھی فرمایا ہے:

کل مولود یولد علی الفطرة

یعنی علی المعرفةبان الله عزوجل خالقه

”ہر کسی کی فطرت میں یہ معرفت موجود ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے۔“

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

عروة الله الوثقی التوحید والصبغةالاسلام

”اللہ کی مضبوط رسی توحید اور رنگ اسلام ہے۔“

ابن اثیر نے مادہ ”حنف“ کے وہی معانی بیان کئے ہیں جو ہماری احادیث میں آئے ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ حنفاء کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے انسانوں کو گناہوں سے پاک پیدا کیا ہے اس کے الفاظ یوں ہیں:

خلقت عبادی حنفاء ای طاهری الاعضاء من المعاصی و قیل ارادانه خلقهم حنفاء مومنین لما اخذ علیهم المیثاق: الست بربکم قالوا بلی فلا یوجد احد الا وهو مقر بان له ربا و ان اشرط به وا ختلفوا فیه والحنفاء جمع حنیف و هو المائل الی الاسلام الثابت علیه و الحنیف عند العرب من کان علی دین ابراهیم(ع)(علیه السلام) و اصل الحنف المیل

اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ حنیفیت یعنی حقیقت کی طرف رجحان اور میلان پس اگر ہم لفظ حنیف کی تعریف کرنا چاہیں تو وہ کچھ اس طرح سے ہو گی کہ ”مائل بہ حق“ مائل بہ حقیقت حق اور حقیقت کی جانب جھکاؤ رکھنے والا یا خدا اور توحید کی طرف میلان اور رغبت رکھنے والا۔ انسان کی فطرت میں حنیفیت ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حق و حقیقت کی طرف میلان ”رجحان“ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ یہاں تک ہماری گفتگو لفظ فطرت کے لغوی مفہوم کے بارے میں تھی اور قرآن و حدیث میں اس کے بنیادی معنی کی تلاش کے لئے نیز اجمالاً جاننے کے لئے کہ اس کی بنیاد آیات قرآنی اور احادیث میں موجود ہے اور یہ کہ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے لہذا اس قدر عرض کرنا ضروری تھا۔

طبیعت غریزہ اور فطرت

اب ہم ان تین لفظوں کے مفہوم کے بارے میں کچھ گفتگو کریں گے:

طبیعت

اب ہم انسان کی فطرتیات کے بارے میں بات شروع کرتے ہیں۔ یہ گفتگو دینی مذہبی اور قرآنی حوالے سے نہیں ہو گی بلکہ اس سوال کا جائزہ لیں گے کہ کیا انسان فطریات کا حامل ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب کے لئے لامحالہ یہ دیکھنا ہو گا کہ فطریات سے کیا مراد ہے؟

ہمارے یہاں تین الفاظ استعمال ہوتے ہیں مناسب ہو گا کہ ہم ان کے درمیان تمیز کریں اور ان کا فرق بیان کریں۔ ان میں سے ایک لفظ ”طبیعت“ ہے عموماً غیر جانداروں کے لئے لفظ طبیعت یا طبع استعمال ہوتا ہے اگرچہ جانداروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر جانداروں کے لئے یہ لفظ خاص طور پر استعمال ہوتا ہے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ پانی کی طبیعت ”خاصیت“ ایسی ہے جب ہم بے جان موجود جس کا نام پانی ہے کے خواص میں سے کوئی خاصیت بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پانی کی طبیعت ایسی ہے (ہمارے یہاں اردو میں مادہ کے لئے خواص یا خاصیت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور عالم مادہ کے لئے طبیعت کی اصطلاح بھی مستعمل ہے) یا کہتے ہیں کہ آکسیجن کی طبیعت ”خاصیت“ ایسی ہے کہ سلگنے یا جلنے کے قابل ہے اور اس طرح سے مختلف اشیاء عناصر کے مختلف خواص کے حوالے سے ہم ان کے لئے مختلف ذاتی خصوصیات کے قائل ہوتے ہیں۔ کسی بے جان چیز کی ذاتی خصوصیت کو ہم طبیعت ”طبع“ کہتے ہیں یہ تمام انسانوں ”بنی نوع بشر“ میں موجود ایک فلسفیانہ سوچ و فکر کا نتیجہ ہے یعنی انسان اسی طرح سے سوچتا ہے کہ دو ایک سی چیزوں کے خواص مختلف نہیں ہوتے اگر خواص مختلف ہو گئے تو یہ ان چیزوں کے مختلف ہونے کی دلیل ہو گی یعنی پھر وہ دو چیزیں مختلف ہوں گی کیونکہ انسان نے چیزوں کو بعض پہلوؤں سے ایک سا پایا ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ بعض چیزیں باوجود اس کے کہ وہ جسم رکھتی ہیں اور مادہ ہیں ان کے خواص مختلف ہیں۔ مثلاً انسان دیکھتا ہے کہ پانی جسم رکھتا ہے اور مادہ ہے مٹی بھی جسم رکھتی ہے اور مادہ ہے لیکن ان میں سے ہر ایک کے اپنے ایسے خواص ہیں کہ جو دوسرے میں نہیں ہیں۔ لامحالہ اس نے یہ نتیجہ نکالا اور اخذ کیا کہ اس جسم میں ایک ایسی قوت ایک ایسی توانائی اور ایک ایسی خصوصیت پوشیدہ ہے جو اس کی مخصوص خاصیت کی بنیاد ہے۔ اس طرح ایک اور خاصیت دوسری چیز میں مخفی یعنی ”پوشیدہ“ ہے کہ جو اسی سے مخصوص خواص کا سرچشمہ ہے لہذا ایک ایسی خصوصیت کہ جو کسی خاص تاثیر کی بنیاد بن جائے اس کا نام ”طبیعت“ ہے۔ آج کل ہم بھی اس لفظ کو ایسے ہی موقع کے لئے استعمال کرتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ چیری ( Cherry ) کی طبیعت یہ ہے یا فلاں درخت کی طبیعت یہ ہے کہ موسم سرما میں اس پر تر و تازگی ہوتی ہے اور گرمیوں میں نہیں اور فلاں درخت کی ”طبع“ یعنی طبیعت ایسی ہے کہ وہ گرم علاقوں میں پروان چڑھ سکتا ہے اور زندہ رہ سکتا ہے وغیرہ۔ لیکن لفظ طبیعت کو ہم بے جان کے علاوہ جانداروں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً پودوں حیوانوں اور انسانوں کے لئے بھی تاہم ان پہلوؤں سے کہ جن میں وہ ”غیر جانداروں“ کے ساتھ مشترک ہیں کیونکہ بے جان میں جو خصوصیات ہیں وہ جانداروں میں بھی ہیں لیکن جانداروں کی جو ذاتی خصوصیات ہیں وہ بے جانوں میں نہیں ہیں۔

غریزہ

دوسرا لفظ جس کے بارے میں گفتگو کرنا ہے وہ ”غریزہ“ یعنی ”جبلت“ ہے کہ جو زیادہ تر حیوانات کے لئے مستعمل ہے اور انسان کے لئے کم استعمال ہوتا ہے لیکن جمادات اور نباتات کے لئے ہرگز استعمال نہیں ہوتا۔ ابھی تک غریزہ ”جبلت“کے ماہیت واضح نہیں ہے یعنی ابھی تک کوئی شخص حیوانات میں غریزہ کے مفہوم کی صحیح وضاحت نہیں کر سکا لیکن اتنا ہم جانتے ہیں کہ حیوانات کچھ خاص اندرونی خصوصیات کے حامل ہیں کہ جو ان کی زندگی کی رہنما ہیں اور حیوانوں میں نیم آگاہی ”نیم شعوری“ کی ایک حالت پائی جاتی ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ راستے کو پہچانتے ہیں اور یہ حالت کسبی بھی نہیں ہے بلکہ ایک غیر اکستابی اور جبلی ہے۔ (استاد شہید نے اس موقع پر فارسی کا لفظ ”سرشت“ استعمال کیا ہے)۔ مثال کے طور پر اڑنے والے جانور کا بچہ اپنی پیدائش کے آغاز میں ہی بغیر تعلیم و تربیت اور بغیر کسی غیرے کے ایسے کام کرنے لگتا ہے کہ جو اس کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ گھوڑی کا بچہ انسان کے بچے سے مختلف ہوتا ہے انسان کا بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو پستان اس کے منہ میں ڈالنا پڑتا ہے اگرچہ بچہ بھی کسی حد تک اپنے ہونٹوں کو جنبش دیتا ہے اور چلاتا ہلاتا ہے اور کمزور علامت کے طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی چیز کا متلاشی ہے اور اس کی جستجو میں مصروف ہے جبکہ گھوڑی کا بچہ ”ٹٹو“ پیدا ہوتے ہی کوشش کرتا ہے کہ اٹھ کھڑا ہو چند بار زمین پر گرتا ہے لیکن آخرکار اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بغیر ماں کی رہنمائی کے اپنا سر ٹیڑھا کرتا ہے اور ماں کے شکم کے نیچے کچھ تلاش کرتا ہے یقیناً وہ ماں کے پستان کی تلاش میں ہے چنانچہ چند لمحات میں ماں کا پستان ڈھونڈ لیتا ہے اور دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔ گھوڑی کے بچے کی یہ حالت اس کا اٹھ کھڑا ہونا ماں کے پستان کی جستجو کرنا اور جلدی سے اسے ڈھونڈ لینا اسے کیا کہیں گے؟ کہتے ہیں یہ حیوانی غریزہ ”جبلت“ ہے۔ حیوانوں کے غریزے بہت مختلف ہیں مثلاً چیونٹی اپنی خوراک جمع کرنے کے بارے میں ایک خاص غریزہ ”جبلت“ رکھتی ہے۔

مور گرد آورد بہ تابستان

تا فراغت بود زمستانش

”چیونٹی موسم گرما میں اپنی خوراک ذخیرہ کر لیتی ہے تاکہ سردیوں میں اسے پریشانی نہ ہو۔“

چیونٹی کی حالت تو بہت عجیب ہے یہاں تک کہ اپنی خوراک ذخیرہ کرنے کے لئے ایسے ایسے غیر معمولی اور محیرالعقول کام کرتی ہے کہ معلوم نہیں (معلوم نہیں سے مراد ہے کہ اس سلسلے میں کئی نظریات ہیں)۔ ان کا سرچشمہ اور بنیاد کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ گندم جمع کرتی ہے اور یہ جانتی ہے کہ اگر اس کے دانے سالم رہے تو پھر سے اگ پڑیں گے گویا انہیں بانجھ کر دیتی ہے یعنی دو ٹکڑے کر دیتی ہے یعنی دو ٹکڑے کر دیتی ہے تاکہ وہ پھر اگنے کے قابل نہ رہیں اسی طرح سے اور بھی بہت سے حیران کن کام کرتی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں یہ غریزہ ہے نیم آگاہی ”نیم شعوری“ پر مبنی ایک کام ہے جسے آگاہی ”شعور“ بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آگاہانہ اور شعوری طور پر نہیں ہے ایک بہت ہی مبہم سی حالت ہے۔

ہمچو میل کو دکان بامادران

سر میل خود ندانند در لبان

”جیسے بچوں کا ماؤں کی طرف میلان اور رغبت ہوتی ہے لیکن وہ ماؤں کی طرف بڑھنے والا ہونٹوں کا راز نہیں جانتے۔“

ایک طرف تو اس لحاظ سے کہ یہ ایک داخلی میلان و رغبت ہے آگاہی کی حالت ہے۔ میلان یا رغبت ایک روحانی کیفیت کا نام ہے انسان اس میلان سے متعلق حضوری آگاہی رکھتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ یہ میلان و رغبت کیوں ہے۔ یہ تو اسے خبر ہے کہ اس کے اندر ایک رغبت یا رجحان ہے لیکن خود اس کے بارے میں نہیں جانتا اپنی اس آگاہی کا راز نہیں جانتا۔ اجمال اور ابہام کی بناء پر اس میں یہ رغبت پیدا ہوتی ہے لیکن وہ خود اس رغبت کی طرف متوجہ نہیں ہوتا چونکہ کسی چیز سے آگاہی اور بات ہے اور اس کا حضور اور بات ہے۔

”غریزہ“ کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے ابھی تک کہیں بھی دینی یا غیر دینی اصطلاح اور محاورے میں یہ نہیں دیکھا کہ حیوانات کے لئے لفظ فطرت استعمال ہوا ہو اور اگر کسی نے استعمال کیا بھی ہو تو قصوروار گردانا نہیں جاتا (فطرت کا مفہوم اردو زبان میں موجود ہے اور استعمال کے اعتبار سے وسیع تر ہے یہاں تک کہ یہ انگریزی زبان کے لفظ Nature کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جس کا فارسی مترادف طبیعت ہے اگرچہ انسان کے لئے لفظ فطرت کا استعمال زیادہ موزوں ہے)۔

بہرحال مجھے یاد نہیں کہ حیوانات کے بارے میں جہاں پر ”غریزہ“ جبلت کا لفظ استعمال کیا جانا چاہئے ”فطرت“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہو۔

فطرت

اس لفظ کا انسانوں پر اطلاق ہوتا ہے اور لفظ ”فطرت“، ”طبیعت“ اور ”غریزہ“ کی طرح ایک تکوینی مفہوم رکھتا ہے یعنی انسان کی سرشت کا ایک حصہ ہے۔ تکوینی سے ہماری مراد یہ ہے کہ یہ ایک اکتسابی یا کسبی نہیں ہے یہ ”غریزہ“ سے بالاتر ایک آگاہانہ چیز ہے۔ انسان جو کچھ جانتا ہے وہ اپنے اس علم کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکتا ہے یعنی انسان کچھ ”فطریات“ کا حامل ہے اور یہ جانتا ہے کہ اس میں کچھ فطریات ہیں۔

کیا انسان فطریات رکھتا ہے؟ ”فطری جبلتیں“

”فطریات“ کا ”غریزہ“ سے ایک اور فرق یہ ہے کہ غریزہ کا تعلق حیوان کی مادی زندگی سے ہے جبکہ انسان کی ”فطریات“ ایسے امور سے مربوط ہے جنہیں ہم امور استثنائی کہتے ہیں یعنی حیوانی امور سے ہٹ کر پس درحقیقت ”فطرت“ سے متعلق بحث کہ وہ امور جو خالصتاً انسانی امور ہیں اور حیوانی امور سے ہٹ کر ہیں آیا تمام کسبی ہیں اور ان کی بنیاد خود انسان کے اندر موجود نہیں ہے یا پھر یہ کہ کیا ان تمام مسائل کا سرچشمہ انسان کی ذات ہے اور یہ انسان کے لئے فطری ہیں؟ مثلاً ایک موضوع حقیقت خواہی کے نام سے ہمارے سامنے ہے جس کا اپنا ایک مفہوم ہے اور یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ”حقیقت خواہی“ سے میری مراد یہ ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کے سامنے جو حقیقتیں مخفی ہیں ان کا انکشاف کرے۔ پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا انسان واقعی طالب حقیقت ہے؟ اس بات کا امکان ہے کہ اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے کہ انسان حقیقت کا طالب ہے اور اگر طالب حقیقت ہے بھی تو محض اپنے مفاد کی خاطر۔ یہ بحث علم کے بارے میں ہے چونکہ علم انسان کے لئے حقائق کو واضح کرتا ہے اور یہ بھی سوال ہے کہ آیا انسان خود علم کی ذاتی قدر اور اہمیت کا قائل ہے یا اسے فقط ایک وسیلے کی سی اہمیت دیتا ہے اس میں شک نہیں کہ علم انسان کے لئے ایک ذریعہ ہے۔ کہتے ہیں ”توانا بود ہر کہ دانا بود“ یعنی علم انسان کو طاقت عطا کرتا ہے جب علم اسے طاقت بخشتا ہے تو گویا یہ ایک وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو ترقی دے سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی ہے کہ آیا علم انسان کے لئے خود سے کوئی چیز ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ علم انسان کے لئے ذاتی اہمیت رکھتا ہے یعنی آج کا انسان حقیقت کا طالب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ حقیقت خواہی سماجی ضرورتوں کا نتیجہ ہے یا پھر انسانی سرشت کا حصہ ہے یعنی کیا انسان حقیقت خواہ ہی پیدا ہوا ہے؟

دوسری مثال اخلاق حسنہ کی ہے دور حاضر میں کچھ مفاہیم اور مطالب ایسے ہیں جنہیں ہم اخلاق حسنہ کا نام دیتے ہیں یعنی اخلاقی نکتہ نظر سے انہیں انسانی اخلاق یا اخلاق حسنہ کہتے ہیں اور ان کے برعکس مفاہیم کو اخلاق سیئہ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر احسان مندی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی انسان سے اچھا سلوک کرے تو انسان اس کے جواب میں نیکی کرے اور اس کا شکرگزار ہو یہ احسان فراموشی کے مقابلے میں ایک مفہوم ہے۔ احسان مندی یعنی نیکی کے جواب میں نیکی یہ اخلاقی مسئلہ ہے بہرحال دور حاضر میں یہ بات قبول کر لی گئی ہے:

هل جزاء الاحسان الا الاحسان (الرحمن ۷۰)

اس آیت میں سوالیہ انداز کا مقصد انسانی فطرت سے جواب حاصل کرنا ہے یعنی یہ ایک فطری امر ہے کہ احسان کا صلہ احسان ہی ہو سکتا ہے۔ گویا قرآن پوچھ رہا ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ احسان کی جزاء احسان کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے؟ انسان جواب دیتا ہے نہیں نیکی کی جزاء نیکی ہی ہے۔

یہ اصول انسان نے کہاں سے حاصل کیا ہے؟ کیا یہ پند و نصیحت ہے جسے معاشرتی تقاضوں نے انسان پر ٹھونس دیا ہے؟ اگر یہ بات مان لی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر اجتماعی ”سماجی“ تقاضے بدل گئے تو یہ اصول بھی تبدیل ہو جائے گا اور یہ بات پھر تقابلی اخلاق ”نسبی اخلاق“ تک جا پہنچے گی یا پھر کیا یہ ایک ایسا امر ہے جو انسان کی سرشت میں موجود ہے؟

خود دین اور عبادت کا مسئلہ انہی امور میں سے ہے اور کیا وہ حس جسے حس دینی کے نام سے جانا جاتا ہے جو بہرحال انسانوں کے اندر موجود ہے کا سرچشمہ انسان کی جبلت ہے اور انسان کی سرشت باطن کا تقاضا ہے یا یہ کہ بعض دیگر عوامل کا نتیجہ ہے۔(ایسے عوامل کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے)

لہذا فطریات انسان یا انسانی فطرت کی بحث کو ہم اس طرح سے شروع کرتے ہیں کہ کچھ امور ایسے رہے ہیں اور ہیں کہ جنہیں آج انسانیت کا نام دیا جاتا ہے کوئی ایسا مکتب فکر نہیں ہے جو آج کی اصطلاح میں کچھ نہ کچھ انسانی اقدار کا قائل نہ ہو۔

انسان اپنے مفاد اور فائدوں کی جستجو میں ہوتا ہے یہ ایک منطقی امر ہوتا ہے کیونکہ انسان اپنے جبلی تقاضوں کے پیش نظر حیات و بقاء کو پسند کرتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ہر اس چیز کو پسند کرتا ہے جو اس کی حیات کے تسلسل میں مددگار ہو اور انسان کا اپنے فائدے کی جستجو میں رہنا ایک فطری امر ہے۔

کچھ اور چیزیں بھی ہیں جو فائدے کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں اور مفاد کی منطق سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ فرنگیوں نے غلط طور پر ان کا نام Value رکھا ہے انہیں یہ نام دینے کے باعث بھی بہت سی غلط فہمیاں وجود میں آئی ہیں۔ Values (اقدار) کی اصطلاح انہوں نے اس لحاظ سے استعمال کی ہے کہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ حقائق سے مختلف چیز ہے لیکن انسان نے باہمی سمجھوتے سے انہیں سند عطا کی ہے اور وہ چیز جسے ہم باہمی سمجھوتے اور سند کے ساتھ اہمیت دیں۔ درحقیقت کچھ بھی نہیں ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جسے ہم ایک ہزار کے نوٹ کے لئے باہمی سمجھوتے سے ایک قیمت کے قائل ہیں مثلاً اس نوٹ کو دے کر ہم دو من گندم خرید سکتے ہیں اگر اس نوٹ کی یہ سندیت ختم کر دی جائے تو اس میں اور عام سادہ کاغذ میں کوئی فرق نہ رہے نام اس کا کچھ بھی رکھ دیا جائے۔

جن چیزوں کو آج کل انسانی اقدار کہا جاتا ہے وہ کیا ہیں؟ کیا انسانی سرشت اور جبلت میں ان کی کوئی بنیاد ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ کیا ہے اور کیوں ہے؟ یہ بذات خود ایک اہم موضوع ہے کیونکہ اگر کوئی چیز انسان کی سرشت میں موجود ہو تو پھر وہ کچھ اور مسائل اور حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد کچھ فطری جبلتوں پر مبنی ہیں یعنی وہ تمام چیزیں جنہیں آج امور انسانی اور ماوری حیوانی اور جن کا نام ہم اسلامی اقدار رکھتے ہیں اسلام معارف کی نظر میں ان کا سرچشمہ انسانی سرشت اور جبلت میں موجود ہے۔

ہم بعد میں بیان کریں گے کہ انسان اور انسان کی حقیقی انسانیت کی جڑ فطری جبلتوں کو قبول کرنے کا لازمہ ہے۔ یہ فضول سی بات ہے کہ ہم انسان کے لئے فطری جبلتوں کو نہ مانیں یعنی ان کے لئے انسان کی سرشت میں موجود کسی بنیاد کے قائل نہ ہوں اور Humanism اور انسان خالص کا بھی دم بھریں۔

پس ہماری بعد کی گفتگو انہی انسانی اقدار اور ان کے فطری ہونے کے بارے میں ہے۔ انہی سے ہم نتائج اخذ کریں گے اور پھر ان چیزوں کو شمار کریں گے جو انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور دیکھیں گے کہ یہ اقدار کیا ہیں؟ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ اسلامی تصانیف میں ان کے فطری ہونے کے بارے میں کیا دلائل موجود ہیں؟ ہم اس سوال کا بھی جائزہ لیں گے کہ کیا قرآن اور اسلامی تصانیف میں کوئی ایسی دلیل موجود ہے کہ اخلاق حسنہ ایسے امور کا ایک سلسلہ ہے جو انسان کی سرشت میں موجود ہے ہم جائزہ لیں گے کہ کیا ہم اخلاقی مسائل کے بارے میں زیرنظر آیت سے فطرت کا مفہوم اخذ کرتے ہیں:

و نفس وما سواها فالهمها فجورها و تقویها (الشمس ۸۶)

اس طرح اس آیت سے بھی یہ استفادہ کر سکتے ہیں:

هل جزاء الاحسان الا الاحسان (رحمن ۶)

عموماً جب قرآن سوال کرتا ہے تو وہ یہ چاہتا ہے کہ جواب انسان کی فطرت سے حاصل کرے گویا وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جو لوگوں کی سرشت میں موجود ہیں اور ہر کوئی انہیں جانتا ہے۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15