فطرت

فطرت 0%

فطرت مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

فطرت

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 19729
ڈاؤنلوڈ: 2807

تبصرے:

فطرت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 19729 / ڈاؤنلوڈ: 2807
سائز سائز سائز
فطرت

فطرت

مؤلف:
اردو

باب ہفتم

مذہب کی اساس (نقطہ آغاز)اور سرچشمہ

مذہب کی اساس اور سرچشمہ کے بارے میں مخالفین کے نظریات جاننے کا ایک بنیادی فائدہ یہ ہو گا کہ ہم لامذہب افراد کے تعصب کو جان سکیں گے۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیں مذہبی تعصب کا طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذہبی لوگ اپنے نظریات کو انتہائی تعصب کے ساتھ ہی پیش کرتے ہیں۔ دراصل لامذہب لوگ متعصب ہیں‘ کیونکہ ان کا مفروضہ ہی نفی مذہب پر قائم ہے اور پھر انہوں نے اس نفی کی توجیہہ میں لغو گوئی سے کام لیا ہے۔ ایک غیر جانبدار انسان کا ایسی باتیں کرنا ممکن نہیں اور پھر ان کے نظریات کی پستی کا اندازہ آپ اس سے لگا سکیں گے کہ یہ لوگ مذہب کی توجیہہ کرتے ہوئے اس طرح اس میں پھنسے ہیں کہ انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

یورپ میں ایک علم مذہبی عمرانیات ( Sociology of Religion ) کے نام سے وجود میں آیا ہے۔ جیسے ہر علم کا کوئی بنیادی موضوع ہوتا ہے‘ اسی طرح اس علم کا بھی ایک موضوع مقرر کیا گیا ہے (ایسے موضوع کو ابتداء میں ثابت نہیں کیا جاتا‘ بلکہ مفروضے کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے اور بعدازاں اس موضوع (مفروضہ) کی اساس پر اپنے نظریات کو پیش کیا جاتا ہے)۔ مذہبی عمرانیات ( Sociology of Religion ) میں شروع ہی سے یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ مذہب معاشرتی عمل اور ردعمل کا ایک مظہر ( Phenomena ) اور نتیجہ ہوتا ہے‘ یعنی اس کا خدا یا ماورائی دنیا سے کوئی اصولی تعلق نہیں ہوتا۔ اصلاً مذہب کی الٰہی اساس کے امکان کو مفروضے کے طور پر موضوع میں شامل ہی نہیں کیا گیا‘ مثلاً اگر ہم سے یہ کہا جائے کہ اس بات کی تحقیق کریں کہ لوگوں میں یہ فکر کیسے پیدا ہو گی کہ تیرہ کا عدد نحس ہوتا ہے؟ چونکہ انسان دیکھتا ہے کہ منطقی طور پر تیرہ‘ چودہ یا بارہ کے عدد میں کوئی ایسا فرق نہیں کہ جس کی بنیاد پر انسان کو یہ احتمال (امکان) پیدا ہو کر اس فکر کے پیچھے کوئی عقلی یا تجرباتی دلیل موجود ہے‘ لہٰذا کہا جاتا ہے کہ ضرور اس کی کوئی غیر منطقی بنیاد ہو گی اور غیر منطقی بنیاد کیا ہے؟

ان لوگوں نے دین اور مذہب کے بارے میں پہلی بنیاد ہی اس بات پر رکھی ہے کہ دین کی کوئی منطقی بنیاد ہو ہی نہیں سکتی۔ اب جبکہ اس کی بنیاد غیر منطقی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ غیر منطقی بنیاد کیا ہے؟ لہٰذا ان کا اصل موضوع ہی یہ ہے کہ دین کی کوئی منطقی اور الٰہی بنیاد ہی نہ بتائی جائے۔ (مقالے کے لکھنے والے نویسندہ نے شروع میں ایک مختصر سی تاریخ کا ذکر کیا ہے اور بعد میں کہا ہے) کہ جس کسی نے پہلی مرتبہ اس مسئلے کو منظم و تحلیل کے ساتھ پیش کیا وہ ایک مشہور مادی فلسفی ہے۔ کارل مارکس کے دو فکری منبعوں میں سے ایک وہ جرمن ہے کہ جس کا نام خویرباخ ہے‘ اسے کارل مارکس کے استاد کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے نہیں کہ کارل مارکس نے اس کے پاس جا کر اس سے درس لیا‘ بلکہ اس اعتبار سے کہ کارل مارکس نے اس کے افکار سے بہت استفادہ کیا اور اس کے افکار کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ کارل مارکس کی فکر کے دو رکن ہیں‘ منطق اور طرز تفکر۔ فکر کے لحاظ سے وہ ہیگل کے تابع ہے‘ یعنی منطق جدلیات‘ لیکسن ہیگل میٹریلسٹ ( Materialist ) نہیں تھا‘ اس کی ایک خاص قسم کی فکر تھی کہ جس کی وجہ سے بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ آئیڈیلسٹ ( Idealist ) ہے‘ جبکہ خدا کا بھی قائل نہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ خدا کو مانتا تو ہے‘ مگر اس کا تصور خدا‘ دوسروں کے تصور خدا سے کچھ مختلف ہے۔ فویرباخ کی شہرت انہی مادی افکار کی وجہ سے ہے کہ جن میں مذہب کے بارے میں ایک تحلیل پیش کی گئی ہے۔ اس کے بقول مذہب انسان کی اپنے آپ سے بیگانگی ( Self Alienation ) کی حالت سے جنم لیتا ہے‘ یعنی انسان کو ایسے عوامل پیش آ جاتے ہیں کہ وہ خود اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔

اب یہ اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے کیونکر بیگانہ ہو جاتا ہے؟ کیا اصولی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے؟ کیونکہ بیگانگی کے دو رخ ہیں اور اس کے مقابلہ پر اپنائیت ہے۔ اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے آپ سے بیگانہ ہو جائے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے اور اپنے سے غیر میں فرق نہ کر سکے‘ یعنی انسان ایک حقیقت رکھتا ہے‘ ایک اس کی حقیقی ”میں“ اور ”خود“ یعنی ذات ہے اور دوسرا ”ناخود“، یعنی ”نخود“ کو جو کہ وہ ”خود“ نہیں ہے‘ اشتباہاً ”خود“ سمجھنے لگتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے لئے اور ”خود“ کے لئے کام کرے‘ اس ”ناخود“ کے لئے کرنے لگتا۔ اس مسئلے پر ہم نے اجمالی طور پر کتاب ”سیری در نہج البلاغہ“ میں گفتگو کی ہے۔

خود بیگانگی اور خود فراموشی

مجھے یاد ہے کہ بیس سال پہلے تہران آنے کے دو سال بعد‘ میں ۱۳۳۱ ھ شمسی ۱۹۵۱ ء میں‘ میں تہران میں منتقل ہوا تھا‘ تو ایک تاجر دوست کے گھر میں قرآن کریم کی کچھ منتخب آیات کی روشنی میں واعظ و نصیحت کی محفل ہوا کرتی تھی‘ اس موقع پر پہلی بار مجھ پر یہ مسئلہ روشن ہوا۔ قرآن کریم سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ انسان پر کبھی ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ سے دور ہو جاتا ہے‘ وہاں پر میں اسے ”فاصلہ“ کے لفظ سے تعبیر کرتا تھا‘ اپنے آپ سے دور ہو جانے کی یہ تعبیر قرآن میں متعدد مقامات پر آئی ہے۔ اپنے آپ کو ”ہار جانا“ ہار جانا اسی معنی میں کہ جو جوئے میں استعمال ہوتا ہے یا کسی معاملے میں کہا جائے کہ فلاں شخص ”ہار گیا“ ہے‘ جبکہ انسان کے لئے اس بات کا یقین کرنا بہت مشکل ہے‘ کیونکہ یہ تو ہوا کہ انسان کوئی چیز ہار گیا جو اس کی ملکیت میں تھی‘ لیکن یہ کہ اپنے آپ کو ہار بیٹھے‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ قرآن میں ارشاد ہوتاہے:

قل ان الخارسرین الذین خسروا انفسهم

”کہہ دیجئے! ہار جانے والے تو بس وہ ہیں‘ یعنی حقیقی ہار جانے والے وہ لوگ ہیں‘ جو اپنے آپ کو گنوا بیٹھے ہیں۔“

یعنی جو شخص مال ہار جائے وہ حقیقی ہار جانے والا نہیں ہے‘ یہ تو کوئی اہم چیز نہیں ہے‘ حقیقی زیاں کار تو وہ ہے کہ جو اپنے آپ کو کھو دے۔ ”خود کو بھول جانا“ یعنی خود فراموشی فلسفیانہ نکتہ نظر سے اس بات کا تصور بھی بہت مشکل ہے‘ کیونکہ اپنے بارے میں انسان کا علم‘ علم حضوری ہے اور علم حضوری قابل فراموش نہیں ہے۔ علم حصولی قابل فراموش ہے‘ یعنی اصلاً انسان جو ہر ذات علم ہے اور وہ خود دراصل وہی کچھ ہے جو اس کا اپنے بارے میں علم ہے۔

مولانا روم کا قول

اپنے آپ کو گنوا دینا اپنے تئیں فراموش کر دینا‘ یہ بات اسی زمانہ میں میرے لئے ایک فکر کی بنیاد بن گئی۔ البتہ بعد میں‘ میں نے دیکھا کہ حکماء اور خاص طور پر عرفاء اسلام اس مطلب کا ہم سے سالہا سال پہلے ادراک کر چکے ہیں اور انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے‘ اس حوالہ سے کہ انسان کا حقیقی ”میں“ کیا ہے؟ اور کون ہے؟ بلکہ عرفان کی اس میں حقیقی ”میں“ اور حقیقی ”خود“ کی تلاش پر استوار ہے‘ یعنی خیالی ”خود“ اور خیالی ”میں“ کے پردوں کو ہٹا کر حقیقی ”میں“ تک پہنچنے پر ”اپنے آپ کو کھو دینا“، ”اپنے آپ کو ہار بیٹھنا“، ”اپنے آپ کو گنوا بیٹھنا“، اس بات کا ایک خاص مفہوم ہے کہ جس کو ان لوگوں نے قرآن سے بہت اچھی طرح اخذ کیا ہے اور پھر اس کی شرح اور تفسیر خوب کی ہے‘ وہ مولانا روم نے بیان کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اپنی بات تمثیل کی صورت میں بیان کرتے ہیں‘ اس سلسلے میں اپنی (اپنے) ”دانی خود“ (ادنا پن) کو اپنی (اپنا) ”عالی خود“ (اعلیٰ پن) سمجھ بیٹھتا ہے یا یوں کہئے کہ اپنے نفسانی اور جسمانی پہلو کو روحانی اور معنوی پہلو کی بجائے حقیقی ”خود“ سمجھنے لگتا ہے‘ جبکہ اس کی حقیقی ”خود“ اس کا روحانی پہلو ہی ہے۔ مولوی مثال اس طرح سے بیان کرتے ہیں‘ فرض کریں کہ ایک شخص کے پاس کچھ زمین ہے اور وہ اس زمین پر عمارت بنانا شروع کر دیتا ہے۔ ریت‘ سیمنٹ‘ مٹی‘ لکڑی‘ لوہا اور تعمیر کا سارا سامان لے کر آتا ہے اور پھر ایک انتہائی خوبصورت گھر بناتا ہے‘ پھر اگلے دن اس گھر میں منتقل ہونا چاہتا ہے اور جب اس گھر میں ساز و سامان رکھنے لگتا ہے تو ایک دم متوجہ ہوتا ہے کہ گھر تو اس نے ہمسایہ کی زمین پر بنا دیا ہے‘ بڑی غلطی ہوئی۔ وہ دیکھتا ہے کہ جو زمین اس کی ملکیت ہے‘ وہ خالی پڑی ہے اور جو کچھ بھی اس نے بنایا ہے وہ دوسرے کی زمین پر بنا دیا ہے۔

قانون کے مطابق اسے حق نہیں پہنچتا کہ ہمسایہ سے کچھ لے‘ کیونکہ ہمسایہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تو نہیں کہا تھا کہ اسے بناؤ‘ بلکہ تم نے خود ہی میری اجازت کے بغیر ایسے بنایا ہے‘ تم اپنی عمارت اٹھا کے لے جاؤ۔ اب اگر وہ اس گھر کو گرانا چاہے تو پھر مزید رقم خرچ کرنا پڑے گی‘ لیکن اب وہ مجبور ہے کہ اسے یونہی رہنے دے اور چلا جائے۔ مولوی ایسی لطیف چیزوں کو ایک عجیب روحانی کیفیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۱۱

در زمین دیگران خانہ مکن

کار خود کن کار بیگانہ مکن

کیست بیگانہ تن خاکی تو

کز برائی اوست غمناکی تو

”دوسروں کی زمین پر گھر مت بنا‘ اپنا کام انجام دے‘ غیر کا کام نہ کرتا پھر‘ غیر کون ہے؟ تیرا جسم خاکی کہ جس کے لئے تو پریشان ہے۔“

کہتے ہیں‘ ایک عمر تک تو اپنے جسم اور نفس کے لئے کام کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تو ”خود“ کے لئے کام کر رہا ہے ۱۱

تا تو تن را چرب و شیرین می دھی

گوہر جان را نیابی فر بہی

گرمیان مشک تن را جا شود

وقت مردن گند آن پیدا شود

”جب تک تو اپنے جسم کو مرغن اور میٹھی چیزیں کھلاتا رہے گا‘ اپنے گوہر جاں اور روح کو صحت مند نہیں بنا سکتا۔ اگر جسم کو خوشبوددار رکھا جائے تب بھی مرنے کے بعد اس میں بدبو پیدا ہو جائے گی۔“

مشک را برتن مزن برجان بمال

مشک چہ بود؟ نام پاک ذوالجلال

”اپنے جسم پر خوشبو نہ لگا‘ بلکہ اپنی روح کو خوشبودار کر اور (روح کیلئے) خوشبو کیا ہے؟ (اللہ) ذوالجلال کا پاک نام۔“

جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد (باری تعالیٰ) ہے:

ولا تکونوا کا الذین نسوا الله فانسیهم انفسهم (حشر‘ ۱۹)

”ان لوگوں کی مانند نہ ہو جاؤ کہ جو اللہ کو بھول گئے اور نتیجتاً اللہ نے انہیں خود ان کا اپنا آپ فراموش کروا دیا۔“

قرآن ”خود کو پانے“ اور ”خدا کے پانے“ کو لازم و ملزوم سمجھتا ہے۔ قرآن کے بقول صرف انہی نے اپنے آپ کو پایا ہے کہ جنہوں نے خدا کو پایا ہے اور جنہوں نے خدا کو پایا ہے‘ انہی نے اپنے آپ کو پایا ہے:

من عرف نفسه عرف ربه

اور اسی کے متقابل:

من عرف ربه عرف نفسه

قرآنی منطق کے مطابق ان دونوں میں جدائی ممکن نہیں‘ کیونکہ انسان اگر یہ خیال کرے کہ اس نے اپنے آپ کو پا لیا ہے‘ جبکہ اس نے خدا کو نہ پایا ہو تو اس کا خیال غلط ہے‘ یہ بات معارف قرآن کی بنیادوں میں سے ہے۔

جسے آج کل اپنے سے بیگانگی یا صحیح تر الفاظ میں اپنے ساتھ بیگانگی کہا جاتا ہے‘ معارف اسلامی میں اس مسئلہ پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور بہت کچھ کہا بھی جا چکا ہے۔

یہ کس سلسلہ قرآن سے شروع ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ ہزار سال سے زیادہ کا سابقہ رکھتا ہے اور اس کا ایک اپنا مخصوص سفر ہے۔ یورپ میں یہ بات ہیگل سے شروع ہوتی ہے‘ ہیگل کے بعد دیگر مکاتب نے بھی اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے‘ بغیر اس کے کہ انہوں نے خود کو پہچانا‘ کیونکہ خود بیگانگی کے مسئلہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود کیا ہے‘ جس سے بیگانگی کی بات کی جاتی ہے؟ آخر آپ کہتے ہیں کہ انسان خود سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ پہلے ہمیں اس ”خود“ کی تو پہچان کروائیں کہ وہ خود کیا ہے؟ تاکہ خود بیگانگی ہمارے لئے مشخص ہو سکے‘ جبکہ صورت حال تو یہ ہے کہ بغیر ”خود“ پر گفتگو کئے ہوئے اور بغیر اس ”خود“ کو پہچانے ہوئے‘ بلکہ اس ”خود“ کی نفی کرتے ہوئے خود بیگانگی کا قصہ لے بیٹھتے ہیں۔

ان مادی فلسفوں کی اساس یہ ہے کہ اصلاً ”خود“ ایک امر اعتباری اور فرضی ہے۔ تمام مادی فلسفوں کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کی کوئی ”خود“ نہیں ہے کہ جسے آپ ”خود“ خیال کر سکتے ہیں‘ بلکہ یہ ایک اشتراکی اور ماخوذ مفہوم ہے‘ یہ دائمی تصورات کا ایک سلسلہ ہے‘ یہ تصورات آتے ہیں اور گزرتے چلے جاتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک ”خود“ بھی موجود ہے‘ یعنی کوئی ”خود“ موجود نہیں۔ یہ ہے ان لوگوں کا نظریہ‘ ایک طرف تو ان کے فلسفہ کی بنیاد یہ ہے کہ اصلاً کوئی خود موجود ہی نہیں ہے اور دوسری طرف لوگوں کے لئے خود بیگانگی کا فلسفہ گھڑنے لگے ہیں اور یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔

فویرباخ کی نظر میں دین کا نقطہ آغاز

فویرباخ ایک مادی فلسفی ہے۔ اس نے ایک عجیب بات کی ہے کہ دین اور مذہب کی اسی مذکورہ بنیاد پر ایک نفسیاتی اور عمرانی ( Psychological & Sociological ) استدلال پیش کرتے ہوئے شروع ہی سے یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ مذہب کی کوئی منطقی بنیاد نہیں۔ کہتا ہے کہ انسان کے دو قسم کے وجود ہیں‘ یہ بات بھی خود اس نے مذہب ہی سے لی ہے‘ انسان کا ایک وجود عالی ہے اور دوسرا پست‘ ہم اسے علوی پہلو اور سفلی پہلو کہتے ہیں۔ سفلی پہلو سے مراد انسان کا حیوانی پہلو ہے‘ اس پہلو سے اسے کھانے‘ سونے‘ غصہ کرنے اور خواہشات کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا‘ علوی پہلو سے مراد اس کی انسانیت ہے۔ فویرباخ بھی انسانی وجود کا حصہ سمجھتا ہے اور مجبوراً وہ اس پہلو ”اصالت“ کا قائل ہو گیا ہے‘ یہ وہی پہلو ہے کہ جو فضیلتوں کے ایک طویل سلسلے پر مبنی ہے۔ شرافت‘ کرامت‘ بزرگواری‘ رحمت‘ بھلائی‘ اچھائی‘ ان سب کا ذکر اسی پہلو کے ذیل میں آتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے اور اسے ضرور کہنا ہی چاہئے تھا کہ سب انسان ایسے ہوتے ہیں۔ کہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو پستیوں کے حوالے کر دیتا ہے‘ یعنی اپنے سفلی پہلو کے تابع ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ وہ علوی وجود سے ہم آہنگ نہیں ہے‘ اب چونکہ وہ خود ایک پست اور انحطاط یافتہ حیوان بن چکا ہے‘ جبکہ خود اس کے اندر وہ خوبیاں اور کمالات بھی موجود ہیں تو وہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ مجھ سے ماوراء ہیں‘ پس وہ خود کو اپنے ہی وجود کی بنیاد پر گھڑ لیتا ہے۔ ایک انگریز فلسفی کا کہنا ہے کہ تورات میں آیا ہے:

ان الله خلق آدم علی صورته

”یعنی خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔“

مراد یہ ہے کہ آدم کو اس نے اپنے صفات کمالیہ کا نمونہ قرار دیا ہے۔

اس انگریز فلسفی نے تو یہ کہہ دیا ہے‘ لیکن مسئلہ اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ اللہ نے انسان کو اپنی سیرت کے مطابق بنایا ہے‘ یعنی انسان اپنی ذات میں کمال کے ایک پہلو کا حامل ہے‘ وہ پہلو کہ جس میں تمام تر شرافت‘ کمال اور رحمت موجود ہے۔ اس پہلو کو اس نے اپنے آپ سے جدا کر دیا ہے‘ اس طرح سے انسان اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا اور پھر وہ سوچنے لگا کہ یہ ساری خوبیاں اس وجود کی ہیں‘ جو مجھ سے ماوراء ہے اور اس نے یہ نہ سوچا کہ یہ سب تو اس کے اندر موجود ہے۔

فویرباخ کے بقول یہی وہ مرحلہ ہے کہ جہاں انسان خود اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا‘ یعنی اس کے اندر جو امور موجود تھے‘ ان میں سے کچھ کو اپنے وجود سے جدا کر لیا اور فرض کر لیا کہ یہ سب کچھ اس کے ماوراء وجود میں ہے‘ لیکن کہتا ہے کہ تدریجاً یہی ماوراء نزدیک ہو گیا ہے کہ جو پہلے انسان سے دور ہوا تھا۔ بدوی اور قبائلی دور کے مذاہب میں دیوتاؤں (خداؤں) میں دور تھا‘ بعد میں یہودیوں کا خدا نزدیک ہو گیا‘ یہودیوں کا خدا انسان جیسا ہو گیا۔ اس خدا میں انسانوں جیسے احساسات‘ جذبات‘ غصہ اور رضامندی موجود ہیں۔ مسیحیت میں اس سے بھی نزدیک تر ہو گیا‘ یعنی انسانی شکل میں آ گیا جو مسیح ہے اور مسیح خدا ہو گیا‘ درحقیقت اس نے ایک دائرہ کا سفر طے کیا ہے۔ پہلے انسان نے اپنے آپ سے ان صفات کو جدا کیا اور پھر انہیں دور اور بہت دور فرض کر لیا۔ اس طرح سے دور کے اس موجود میں اور انسان میں کوئی رابطہ ہی نہ تھا اور آہستہ آہستہ وہ موجود انسان کی طرف لوٹ آیا‘ مسیح تک آ پہنچا‘ یعنی بہت نزدیک ہو گیا اور ایک انسان ہی خدا ہو گیا۔

چونکہ مسیحیت میں مسیح ہی خدا ہے‘ یعنی ایک ہی وقت میں انسان بھی ہے اور خدا بھی۔ بس ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے‘ انسان جس قدر اپنے آپ کو پہچانتا جاتا ہے‘ اتنا ہی اپنے آپ کو اس خود بیگانگی سے دور کرتا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کہتا ہے کہ دراصل میں خود ہی ہوں اور یہ سب صفات میری ہی ہیں‘ پھر ایک قدم بھی باقی نہیں رہتا۔ جبکہ اسلام مسیحیت کے بعد آیا ہے اور مسیحیت سے زیادہ تکامل یافتہ (تمام ارتقائی مراحل طے کئے ہونا) اس کے باوجود اس نے خدا کے اس انسانی پہلو کی یا ایک انسان کے خدا ہونے کی کہ جیسے مسیح کو قرار دیا جا رہا تھا‘ یعنی مسیح کی الوہیت اور ابن الہلیت (خدا کا بیٹا سمجھنا) کی شدت سے نفی کی ہے۔ مسٹر فویرباخ کے اس نظریے کے مطابق مذہب جلد ہی نابود اور ختم ہو جائے گا‘ یعنی انسان جس قدر اپنے آپ کو پہچانتا جاتا ہے‘ خدا کی ضرورت اس کے لئے کم ہوتی جاتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو صحیح طور پر پہچان لے تو مذہب کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی‘ پھر بجائے اس کے کہ انسان خدا کی پرستش (عبادت) کرے‘ اپنے آپ کو پوجنے لگتا ہے۔ خدا کی حمد و ثناء کرنے کی بجائے اپنی تعریف و مدح کرنے لگتا ہے۔

نظریہ فویر باخ پر تنقید

یہ نظریہ ایک تو اس حوالے سے رد ہو جاتا ہے کہ فویرباخ سے کہا جائے کہ آپ تو سرے سے خدا کو مانتے ہی نہیں‘ لہٰذا بطریق اولیٰ (بنیادی طور پر) آپ کے نزدیک انسان سو فیصد ایک مادی وجود ہے‘ لہٰذا آپ نے جو وجود انسانی کے دو پہلو بیان کئے ہیں‘ آپ اس دوگانگی کا کیسے استدلال پیش کریں گے؟ ان دو پہلوؤں کو مذاہب ہی بیان کر سکتے ہیں‘ کیونکہ وہی انسان کو ایک حقیقت خاکی اور ایک حقیقت ملکوتی کا مرکب جانتے ہیں۔

فاذا سویته و نفخت فیه من روحی (ص‘ ۷۲)

ایک طرف سے تو ”سویتہ“ یعنی اسے میں نے کامل کر دیا‘ تمام ضروریات کے حوالے سے اس کی تکمیل کی۔ اس کے بعد کچھ اور بھی ہے اور وہ ہے ”و نفخت فیہ من روحی“ ”اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی“۔ اسی طرح ایک تعبیر سورہ ”قد افلح المومنون“ ہے:

و لقد خلقنا الانسان من سلالة من طین (مومنون‘ ۱۲‘ ۱۴)

یہاں تک کہ ارشاد ہوتا ہے:

ثم انشئناه خلقا اخر

”پھر اسے ہم نے ایک اور خلقت عطا کی۔“

یہ ”ایک اور خلقت“ اہل مذاہب تو کہہ سکتے ہیں‘ لیکن تم اسے کیونکر بیان کر سکتے ہو؟ دوسرے یہ کہ اس نظریے کے مطابق ہمیں یہ قبول کرنا پڑے گا کہ کوئی بھی انسان اس دنیا میں اپنی حقیقی منزلت و حیثیت پر باقی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اپنی ذات میں دوگانگی کا حامل ہے‘ بعد میں جب انسان سماجی زندگی میں انحطاط پذیر ہوتا ہے تو اس پست اور حیوانی پہلو کی طرف گر جاتا ہے‘ اپنے بلند و برتر پہلو کو اپنے وجود سے جدا کر دیتا ہے‘ یہیں سے مذہب پر اعتقاد جنم لیتا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم سب انسانوں کو حیوانیت میں گرا ہوا فرض کریں اور پھر ان سب تنزل یافتگان کو مذہبی فرض کریں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے دو طرح کے رہے ہیں اور اسی طرح سے جو انسان حیوانیت میں جا گرے ہیں‘ وہ بھی۔ دوسری طرف ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جن لوگوں کا رجحان مذہب کی طرف ہوتا ہے‘ وہ کس طرح کے ہوتے ہیں؟ دنیا میں مذہب کے خواہشمند ہمیشہ کس طرح کے لوگ رہے ہیں؟ جبکہ یہ بات خود ہمارے دلائل میں سے ایک ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ شریف ہوتے ہیں‘ جن میں انسانی اقدار باقی ہوتی ہیں‘ کیا ان کا مذہب کی طرف رجحان ہوتا ہے یا ان لوگوں کا جو حیوانیت میں جا گرے ہوتے ہیں؟ یہ تو ایسی بات ہے کہ جس کا غیر مذہبی لوگ تک انکار نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کہتے ہیں‘ اگر دیکھیں کہ لوگ مذہبی ہیں تو یہ مذہبی ہونا ان کی ذاتی شرافت کا نتیجہ ہے‘ جس مذہب کی طرف ان کا رجحان ہے‘ یہ اس سے مربوط نہیں ہے‘ بلکہ یہ ان کی شرافت سے مربوط ہے‘ بلکہ مذہب کے خواہشمند ہمیشہ شریف النفس انسانوں میں سے ہوتے ہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ چونکہ انسان اپنی شرافت سے تہی دامن ہو جاتا ہے اور حیوانیت میں جا گرتا ہے‘ یہ امر اللہ پر اعتقاد اور ایمان کی بنیاد بن جاتا ہے۔ جبکہ مسئلہ اس کے برعکس ہے‘ جن لوگوں کے اندر احساس شرافت زندہ ہو اور وہ انسانی اصالتوں پر باقی ہوں‘ وہی اللہ پر اعتقاد اور ایمان رکھتے ہیں اور وہی مذہب کے اصولوں کو مانتے ہیں‘ بہرحال ان صاحب کا نظریہ ایک منسوخ نظریہ ہے۔