فطرت

فطرت 0%

فطرت مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

فطرت

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 19723
ڈاؤنلوڈ: 2802

تبصرے:

فطرت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 19723 / ڈاؤنلوڈ: 2802
سائز سائز سائز
فطرت

فطرت

مؤلف:
اردو

باب ہشتم

دین فطری ہے

کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے یہ چاہا ہے کہ یہ ظاہر کریں کہ یہ بیان دین کی مختلف توجیہہ و تعبیر ہے (استاد شہید کے خطاب سے قبل حسب معمول مذکورہ مقالے کے جائزے کا سلسلہ جاری رہا)‘ جبکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں مختلف تعبیریں نہیں ہیں‘ بلکہ ہر ایک نظریے اور مفروضے کے کسی پہلو کا بیان ہے۔ انہوں نے درحقیقت اجتماعی عامل کی طرف توجہ نہیں کی‘ وہ نظریہ اور ان کی توجہ انفرادی عامل کی طرف رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے نفسیاتی توجیہہ کی ہے‘ نہ کہ معاشرتی۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان کا انہی مذکورہ دلائل کی بناء پر یعنی اپنی جہالت یا کسی اور سبب سے دین کی طرف میلان پیدا ہو گیا۔ ان کے حساب سے اس زمانے میں کہ جس کا نام ان کے بقول طبقات اور مالکیت کا کوئی نام و نشان نہ تھا‘ پھر بھی دین موجود ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ان کے اعتبار سے دین کا سرچشمہ ایک شخص کا انفرادی اور نفسیاتی پہلو ہے۔

مارکسزم اور پیدائش دین

مارکسزم کے نظریے کے مطابق یوں نہیں ہے‘ بلکہ ان کے نزدیک حتماً قبول کرنا پڑے گا کہ دور اشتراکِ اولی میں دین ہرگز موجود نہ تھا۔ دین تو اس وقت پیدا ہوا کہ جب مالکیت پیدا ہوئی اور معاشرہ‘ لوٹنے والے اور لٹنے والے دو طبقوں میں تقسیم ہوا‘ جب امیر اور غریب پیدا ہوئے۔ ان کے نظریے کا ایک فرق تو یہ ہے کہ جو ذکر ہوا‘ اس نظریے کے مطابق دین حاکم طبقے نے وضع کیا۔ ان کے نظریے کے مطابق ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ شروع شروع میں دین کو گھڑنے والے خود حکمران طبقے کا حصہ تھے‘ لیکن گزشتہ نظریات میں طبقات کا کوئی ذکر نہ تھا‘ بلکہ وہ حاکم طبقے اور محروم طبقے میں تمیز نہیں کرتے اور ان میں فرق روا نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر تاریخ یہ ثابت کرے کہ ایسا نہیں ہے‘ یعنی اگر تاریخ کہے کہ سارے دین یا اکثر ادیان محکوم طبقات میں ظاہر ہوئے تو ان کا نظریہ لازمی طور پر رد ہو جاتا ہے‘ کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ دین کو حاکم طبقے نے بنایا ہے‘ تاکہ انہیں حاصل مراعات محفوظ رہ سکیں۔ کہتے ہیں کہ اس طبقہ کو کچھ مراعات اور امتیازات حاصل تھے‘ جبکہ دوسرے طبقے کے پاس محرومیاں تھیں۔ ان امتیازات کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کو روحانی اور داخلی عامل کی بھی ضرورت تھی اور وہ عامل لازمی طور پر محکوم طبقے میں ایمان اور اعتقاد کی صورت میں ہونا چاہئے۔ ناگزیر ہے کہ اس طریقے سے حاکم طبقہ خود بے عقیدہ ہو‘ کیونکہ خود ہی تو انہوں نے یہ دین گھڑا ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ محکوم طبقے کو معتقد بناتے ہیں‘ لہٰذا محکوم طبقے ہی کو باایمان‘ بااعتقاد ہونا چاہئے۔ اس اعتبار سے محکوم طبقے کے لئے دین کیا کردار ادا کرتا ہے؟ اولاً ان کے لئے تسلی کا ذریعہ بنتا ہے‘ ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی اس دنیا میں تم سے کھو جائے گا‘ دوسری دنیا میں پا لو گے‘ غم نہ کھاؤ اور یہ سب باتیں اس لئے ہیں تاکہ وہ انقلاب برپا نہ کریں‘ اس لحاظ سے دین کی تمام تر تعلیمات کو تسلی اور تشفی کے لئے ہونا چاہئے۔ قضاء و قدر کا عقیدہ اس لئے ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ قیام کا کیا فائدہ ہے؟ کیا تقدیر سے جنگ کی جا سکتی ہے؟ اگر انہیں احساس ہو کہ ان سے کچھ کھو گیا ہے اور لٹ گیا ہے تو ان سے کہا جائے کہ عالم آخرت میں اس کا ازالہ ہو جائے گا۔

لہٰذا (ان کے مطابق) دین کی تمام تر تعلیمات ان کے دل کی تسکین اور تمکین کے لئے ہیں‘ جبکہ اسلام جیسے ادیان میں موجود تعلیمات ایسی بھی ہیں کہ جو ایسی باتوں کے خلاف ہیں‘ یعنی وہ تعلیمات ہیں کہ جو انقلاب کی دعوت دیتی ہیں۔ نہ فقط یہ کہ دین حاکم طبقے سے ظاہر نہیں ہوا‘ بلکہ اس سے بالاتر حقیقت یہ ہے کہ حاکم طبقے سے ظاہر ہوا ہو یا دوسرے طبقے سے‘ محکوم اور محروم طبقے کے مفاد میں انقلاب اور قیام کی دعوت دیتا ہے۔ یہ بات ان کے نظریے سے ہم آہنگ نہیں ہے‘ کیونکہ ان کے حساب سے تو بات اس کے برخلاف نہیں ہو سکتی‘ ان تعلیمات کے اندر حاکم طبقے کے مفادات کے برخلاف کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ مثلاً جن اجتماعی نظاموں کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں‘ ان میں امکان ہے کہ اخبارات‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن جیسے ذرائع ابلاغ سے انسان ایک لفظ بھی ایسا سن سکے جو عوام کو حکمران طبقے کے خلاف تحریک کرنے والا ہو؟ نہیں‘ حکمران طبقہ جو کچھ کہتا ہے وہ اپنی وکالت میں کہتا ہے اور ممکن نہیں ہے کہ اس کے برخلاف ہو‘ لہٰذا اگر دین کو حاکم طبقہ گھڑے تو اس کی تعلیمات میں قضاء و قدر جیسے مایوس کن اور عالم آخرت کے وعدوں کی صورت میں تسلی و تشفی دینے والے نظریات ہونے چاہئیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم فرض کریں کہ دیندار طبقہ جاہل بھی ہو‘ کیونکہ اگر وہ جاہل نہ ہو تو ایسی تعلیمات کو قبول نہیں کرے گا۔

اس حوالے سے دیکھیں تو پھر ہم یہ اعتراض نہیں کر سکتے کہ انہوں نے اس مسئلے میں مختلف طرح کے نظریات پیش کئے ہیں‘ یعنی یہ کہنا کہ دین حاکم طبقے کا ساختہ و پرداختہ ہے اور ان کا یہ کہنا کہ اس کے لئے عوام کی جہالت سے استفادہ کیا گیا ہے‘ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔ ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ عوام چونکہ جاہل تھے‘ انہوں نے اپنے لئے دین کو اختراع کر لیا اور یہ کہتے ہیں کہ حاکم طبقے نے عوام کی جہالت سے استفادہ کرتے ہوئے دین کو اختراع کیا (ایک نظریے کو جو موجود تو نہیں‘ ہو سکتا ہے‘ کوئی کہے کہ محروم طبقے نے اپنی تسلی کے لئے خود سے دین کو گھڑ لیا ہو‘ مارکسسٹوں نے تسلی کو عامل قرار دیا ہے‘ لیکن کہتے ہیں کہ حاکم طبقے نے ان کے لئے تسلی کا سامان وضع کیا ہے)۔

مارکسزم کے نظریے کا تنقیدی جائزہ

اس نظریے کے کمزور پہلوؤں میں سے ایک تاریخ ادیان سے مربوط ہے‘ یعنی تاریخ ادیان اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ جب سے انسان اس زمین پر ہے‘ ان قدیم ترین ایام سے‘ یعنی اس زمانے میں بھی کہ جسے یہ لوگ اولین دور اشتراک کہتے ہیں‘ پرستش کے آثار موجود ہیں۔ بلکہ ماکس مولر کا نظریہ تو مشہور نظریے کے اس لحاظ سے بھی برخلاف ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ پرستش کا سلسلہ عالم طبیعت کی اشیاء‘ بتوں اور ارباب انواع کی عبادت سے شروع ہوا اور پھر خدائے واحد تک پہنچا‘ جبکہ ماکس مولر کہتا ہے کہ قدیم ایام کی آگاہی نے ثابت کیا ہے اور وہ ثابت بھی کرتا ہے کہ قدیم ترین ایام سے خدائے واحد کی پرستش موجود ہے۔

لہٰذا اس نظریے کے مطابق اولاً دور اشتراک اولی میں ممکن نہیں ہے کہ دین موجود ہو (جبکہ یہ بات تاریخ سے ہم آہنگ نہیں ہے)۔ ثانیاً یہ ادوار کہ جو طبقاتی ہیں‘ مثلاً دور جاگیرداری میں ہمیں یہ لازماً ماننا پڑے گا کہ تمام ادیان کو لانے والے اور ان کے اولین پیروکار حاکم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بات بھی ادیان کی مسلم تاریخ سے قطعی مطابقت نہیں رکھتی‘ یہود اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے اس اعتبار سے ہم آہنگ نہیں ہے‘ کیونکہ اولاً موسیٰ اگرچہ خونی اور نسلی اعتبار سے محروم اور پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے تھے‘ لیکن طبقاتی لحاظ سے ان کا تعلق استعماری طبقے سے تھا‘ کیونکہ وہ فرعون کے بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ فرعون کے گھر میں بہت ناز و نعمت میں پلے تھے‘ انہیں درجہ اول کے شہزادے کی حیثیت حاصل تھی‘ کیونکہ اس کی کوئی اولاد نہ تھی اور یہ ان کے بیٹے کی طرح تھے۔ جبکہ موسیٰ نے فرعون کے گھر میں‘ فرعون ہی کے ہاتھوں پسے ہوئے طبقے کی حمایت میں قیام کیا۔ اس بات کی کوئی اشتراکی توجیہہ نہیں کی جا سکتی یا ہم اس کی اساس قومی‘ نسلی اور خونی قرار دیں‘ جبکہ یہ بھی بہرحال مارکسزم سے مطابقت نہیں رکھتی‘ چونکہ یہ لوگ تاریخ کا اصل محرک طبقات کو سمجھتے ہیں‘ نہ کہ خون کو۔ دوسرے لفظوں میں یا تو ہم اسے موسیٰ کا نسلی تعصب قرار دیں کہ جب وہ بڑے ہوئے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ ان کا اور فرعون کا خون مختلف ہے اور جو اس کے ہم نسل ہیں‘ ان کی حالت ایسی ہے اور ویسی ہے‘ لہٰذا خونی تعصب نے انہیں قیام پر ابھارا کہ جو بہرحال مارکسزم سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اگر یہ نہ ہیں تو پھر جو کچھ بھی کہیں ان کی طرز زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ثانیاً فرعون کے گھر میں واقعاً موسیٰ نے بنی اسرائیل کی حمایت میں قیام کیا‘ چنانچہ یہ قیام محروم طبقے کی طرف سے تھا۔ یہ فرعونیوں کا قیام نہ تھا‘ بلکہ فرعونیوں کے خلاف قیام تھا‘ یعنی بنی اسرائیل کا قیام تھا اور یہ بات سو فیصد ان کی باتوں کے خلاف ہے‘ کیونکہ وہ تو کہتے ہیں کہ دین حاکم طبقے کا گھڑا ہوا ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق تو یہ کہنا چاہئے کہ یہودیوں کا دین فرعونی مشینری نے گھڑا تھا‘ تاکہ بنی اسرائیل میں اطاعت و تسلیم کا احساس ابھارا جائے‘ جبکہ دین یہود تو اس لئے آیا کہ بنی اسرائیل کو قیام پر ابھارے۔

قرآن حکیم کے بقول

و تلک نعمة تمنها علی ان عبدت بنی اسرائیل (شعراء‘ ۲۲)

یہ بنی اسرائیل کی غلامی پر اعتراض ہے:

یا قوم ادخلوا الارض المقدسة التی کتب الله لکم (مائدہ‘ ۲۱) ” اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ کہ جو اللہ نے تمہارے لئے مقرر کی ہے۔“

یہ سب تحریک ہے ڈرو نہیں استقامت اختیار کرو صبر کرو اللہ پر توکل کرو اللہ یہ کرے گا اور وہ کرے گا۔

اسلام بھی ایسا ہی دین ہے:

و نرید ان نمن علی الذین استفعفوا فی الارض و نجعلهم آئمة و نجعلهم الوارثین (قصص‘ ۵)

”ہمارا ارادہ ہے کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں کہ جنہیں زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے اور انہیں پیشوا قرار دیں اور انہیں ہم وارث بنائیں۔“

یہ بھی فرمایا:

وعد الله الذین امنوا منکم و عملوالصلحت لیستخلفنهم فی الارض

”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں‘ ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں زمین میں ضرور جانشین بنائے گا یہ نوید ہے ایسے لوگوں کے لئے کہ جن سے دوسروں نے زمین کی خلافت لے لی ہے۔ نوید اس امر کی ہے کہ ہم تمہیں زمین کی خلافت دیں گے‘ زمین کو تمہاری میراث قرار دیں گے۔“

ان الارض لله یورثها من یشاء (قصص‘ ۵)

”زمین اللہ کی ہے‘ اس کی مرضی جسے وہ اس کا وارث بنائے۔“

نیز فرمایا:

و لقد کتبنا فی الذبور من بعد الذکر ان الارض یرثها عبادی الصالحون (انبیاء‘ ۱۰۵)

”اور البتہ زبور میں ہم نے ذکر کے بعد یہ لکھا کہ زمین کا وارث ہم اپنے صالح بندوں کو بنائیں گے۔“

طہٰ حسین نے ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے‘ جس کا نام ”الوعدالحق“ جناب احمد آرام نے اس کا ترجمہ کیا ہے‘ بنام ”وعدئہ راست“ اس کتاب ”الوعدالحق“ کا عنوان یہی آیت ہے:

وعد الله الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنهم فی الارض

اس کتاب میں غلاموں‘ مستفعضوں‘ محروموں اور زیردستوں سے تعلق رکھنے والے بیس ( ۲۰) منتخب افراد کا ذکر کیا گیا ہے‘ جنہیں اس قرآنی وعدہ نے حیات نو عطا کی‘ مثلاً عمار یاسر ۱‘ ابوذر غفاری اور عبداللہ بن مسعود۔ یہ بہت اچھی اور قابل مطالعہ کتابوں میں سے ہے‘ بچوں اور جوانوں کو اس کے مطالعے کی نصیحت کی جانی چاہئے۔ تاریخ اسلام اصلاً ایسی ہی تاریخ ہے‘ عبداللہ بن مسعود آتے ہیں اور ابوجہل سے لڑتے ہیں‘ اپنے آقاؤں سے لڑتے ہیں‘ یعنی یہ غلاموں کا انقلاب ہے‘ بنیادی طور پر یہ امر اس نظریے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

یہ تعلیمات تو کہتی ہیں:

لا یحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم (نساء‘ ۱۴۸)

نیز یہ بھی کہ

والشعراء یتبعهم الغاوون الم تر انهم فی کل واد یهیمون وانهم یقولون مالا یفعلون الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات… وانتصروا من بعد ما ظلموا (شعرا‘ ۲۲۴-۲۲۷)

”اور یہ جو شعراء ہوتے ہیں‘ ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ یہ ہر وادی میں پھر رہے ہوتے ہیں اور یہ جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں‘ مگر وہ لوگ کہ جو ایمان لائے اور عمل صالح بجا لاتے ہیں۔“

یعنی شعر‘ ہجو اور اس طرح کے پراپیگنڈا کے موقع پر اسلام اجازت دیتا ہے (کہ مظلوم فریاد کرے) یا اسی طرح غیبت کو حرام قرار دیتا ہے‘ مگر ایسے مواقع پر ایسے امور کوئی ایک دو نہیں ہیں‘ یہ تعلیمات اس منطق سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ گویا مارکسزم کا یہ نظریہ ایک ایسی بات ہے کہ جو لکھائی گئی ہے اور ان کے نزدیک اسے قبول کرنا چاہئے‘ اگرچہ یہ کسی حقیقت پر منطبق نہیں ہوتی۔

کیا دین جہالت کی پیداوار ہے؟

اس سے بڑھ کر ان لوگوں کی منطق ہے کہ جو دین کو صرف لوگوں کی جہالت کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اسے ایک نفسیاتی مسئلے کے حوالے سے لیتے ہیں۔ مقالہ لکھنے والے نے بھی یہ اعتراض کیا ہے‘ وہ کہتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر لوگ جو اس قدر عالم ہو گئے ہیں‘ دین کو خود بخود ختم ہو جانا چاہئے۔

آپ موازنہ کریں‘ ہر غیر دینی عقیدہ کہ جو گزشتہ دور میں لوگوں کی جہالت کے نتیجے میں تھا‘ صرف علم کے آنے سے‘ جیسے چراغ کے آنے سے ظلمت چھٹ جاتی ہے‘ خود بخود نابود ہو گیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق علم کی ترقی کے ساتھ دین کو بالکل ناپید ہو جانا چاہئے‘ یعنی علماء میں دینداری کا وجود نہیں ہونا چاہئے‘ جبکہ خود رُسل کے بقول ہم دیکھتے ہیں کہ جہلاء کے طبقے میں لادین بھی ہیں اور دین دار بھی اور علماء کے طبقے میں بھی دیندار بھی ہیں اور لادین بھی۔ (یہی ہمارے ہاں بھی ہے جنہیں جھگڑے کرنے کے سوا کچھ سمجھ نہیں آتا‘ کیا ان کے درمیان دیندار زیادہ ہیں یا بے دین؟ ان میں دیندار بھی ہیں اور لادین بھی)۔

شاید ہر زمانے میں علمائے میں عالم ترین شخص دیندار ہوتا ہے‘ یہاں تک کہ خود ہمارے زمانے میں بھی یہی عالم ہے۔ ان کی منطق کے مطابق تو اصلاً محال ہے کہ آئن سٹائن دین و مذہب پر اعتقاد رکھتا ہو یا ماکس پلانک یا ولیم جیمز یا برکسن یا ڈارون اور ان جیسے اول درجے میں شمار ہونے والے دانشور دین پر اعتقاد رکھتے ہوں۔ ڈارونزم میں بہزاد لکھتا ہے کہ اگرچہ کلیسا نے ڈارون کی شدید تکفیر کی‘ اس کے باوجود آخرِ عمر تک خدائے یگانہ پر اس کا ایمان و اعتقاد باقی رہا۔ جبکہ یہی ڈارونزم مارکسیوں کے ہاتھ میں آج ایک بہت بڑا ہتھیار ہے‘ خود ڈارون کو اس کے علم نے لامذہب نہیں کیا۔ ایک اور جگہ میں نے پڑھا ہے کہ موت کا وقت آیا تو ڈارون نے کتاب مقدس اپنے سینے سے چمٹا رکھی تھی اور اسے چھوڑتا نہ تھا‘ یہ امر ایسی منطقوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

علاوہ ازیں مارکسسٹوں کے نظریے کے مطابق آپ طبقاتی تفاوت کو ختم کر دیں تو دین خود بخود ختم ہو جائے گا‘ یعنی ضرورت نہیں ہے کہ آپ دین کے خلاف جنگ کریں۔ ان کی منطق یہ ہے کہ طبقاتی امتیازات کو ختم کر دیں‘ سوشلسٹ معاشرہ تشکیل دیں‘ دین کا وجود خود بخود ختم ہو جائے گا۔ جبکہ اس کا غلط ہونا خود سوشلسٹ ممالک میں آشکار ہو چکا ہے‘ خود سوشلسٹ ممالک اس کے خلاف بہترین دلیل ہیں۔ یہ جو لوگ ابھی تک سوویت یونین میں دین کے خلاف اس قدر پراپیگنڈا کرتے ہیں‘ کس لئے ہے؟ طبقاتی امتیازات نہیں ہیں‘ لیکن پھر بھی گاہے بگاہے کہتے رہتے ہیں کہ جوانوں میں دین رسوخ پیدا کر رہا ہے‘ اس کے خلاف کچھ کریں‘ جب علت ختم ہو گئی ہے تو معلول کو بھی ختم ہو جانا چاہئے۔ آپ تو کہتے ہیں کہ پیدائش دین کی وجہ طبقاتی امتیازات ہیں‘ اب جبکہ آپ کا معاشرہ طبقاتی نہیں ہے‘ پھر دین کی طرف میلان کیوں پیدا ہوتا ہے؟ لہٰذا ضرور اس کی بنیاد کچھ اور ہونا چاہئے یا دوسرے ممالک میں مثلاً اسلامی ممالک میں‘ ہمیں یوں فرض کرنا چاہئے کہ جونہی کوئی اسلامی ملک سوشلسٹ ہو جائے‘ سب مسجدوں کے دروازے خود بخود بند ہو جانے چاہئیں۔ جبکہ ہم دیکھتے رہے ہیں کہ نہ خود اسلامی ممالک کو اس کی فکر ہے اور نہ ہمیں ان کے بارے میں اندیشہ ہے۔ مختلف ممالک سوشلسٹ ہو رہے ہیں اور ان میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اگر کچھ لامذہب سوشلسٹ ممالک میں موجود ہیں تو طبقاتی ممالک میں زیادہ ہیں۔ اب طبقاتی ممالک میں دیکھیں کہ کیا دین و مذہب کے خلاف جنگ زیادہ تر حاکم طبقہ کر رہا ہے یا محکوم طبقہ؟ (ظاہر ہے کہ حاکم طبقہ زیادہ دین کے خلاف نبرد آزما ہے‘ جبکہ مارکسزم کے مطابق مذہب تو حاکم طبقے کا ساختہ و پرداختہ ہے‘ لہٰذا اسے تو اس کے خلاف برسرپیکار نہیں ہونا چاہئے)۔ یہ اجتماعی حقائق ہیں کہ جن کا ہمیں سامنا ہے‘ ان لوگوں کی منطق سے ان کی کس طرح سے توجیہہ ہو سکتی ہے؟ کیسے ان کی توجیہہ ممکن ہے؟

ویل ڈیورنٹ کی رائے

ویل ڈیورنٹ اگرچہ خود ایک لامذہب شخض ہے‘ اپنی کتاب ”درسہانی تاریخ“ میں ایک بات کہتا ہے کہ جو واضح طور پر ناراضگی و غصہ کی وجہ سے ہے۔ وہ دین کے بارے میں کی جانے والی توجیہات نقل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ درست نہیں ہیں اور آخرکار کہتا ہے:

”دین کی سو ( ۱۰۰) جانیں ہیں‘ اسے آپ جتنا بھی ماریں گے‘ پھر زندہ ہو جائے گا اور یہ ایک حقیقت ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی سو جانیں ہیں؟ اتنا ہی کہہ دیں اور راحت پائیں کہ اس میں جان ہے‘ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سو جانیں ہیں؟ انسانی فطرت کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔“

وہ کہتا ہے کہ

”مختلف جگہوں پر دین کے خلاف اتنی جنگ کی گئی ہے کہ وہ سمجھنے لگے کہ اب انہوں نے اسے بالکل جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے‘ اب ممکن نہیں ہے کہ دوسری نسل میں باقی رہے۔“

کہتا ہے کہ

”اسے جتنا بھی مارا گیا‘ یہ پھر سے زندہ ہو گیا۔“

سامعین میں سے کسی نے اس موقع پر کہا:

”جب تک تیری جان نہ نکل جائے۔“

واقعاً ایسا ہی ہے‘ یہاں تک کہ تیری جان نکل جائے‘ حتیٰ کہ یہی مقالہ لکھنے والا کہ جو ایک مادہ پرست ( Materialist ) شخص ہے‘ اس موقع پر خوب کہتا ہے۔ جب اسی طبقاتی نظریے کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے:

”اس نظریے کے مطابق تو پیداواری اور ترقی پسند طبقے مثلاً مزدور طبقہ‘ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں (یعنی ذاتاً ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘ اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں)‘ چونکہ ان کا تفکر ان کی زندگی کے تقاضوں کے نتیجے میں ترقی پسند اور سائنسی ہے۔ استعماری اور غیر پیداواری طبقات کے برعکس کہ جنہیں اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے مذہب کی ضرورت ہے۔“

اس کے بعد مقالہ نگار جواب دیتا ہے:

”یہ نظریہ بھی حقیقت سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا‘ مشاہدات اور اعداد و شمار اس کے خلاف ثابت کرتے ہیں۔ کسان شاید معاشرے کا پیداواری ترین طبقہ ہے اور اس کے باوجود مذہبی ترین بھی ہے۔ روشن فکروں کے برعکس کہ جو عموماً غیر پیداوار ہوتے ہیں‘ لیکن تمام طبقوں کی نسبت مذہب سے ان کا تعلق کم ہوتا ہے (لہٰذا یہ بات روشن فکر طبقہ وغیرہ سے مربوط نہیں)‘ برسرکار مزدوروں کی نسبت بے کاروں کی مذہب سے وابستگی کم تر ظاہر ہوتی ہے۔ صنعتی ممالک کے مزدوروں میں مذہب کی طرف موجود صدی میں رجحان گزشتہ صدی سے زیادہ ہے اور آخری دہائیوں میں گزشتہ دہائیوں کی نسبت زیادہ ہے۔“

سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین اور عوامی جمہوریاؤں میں مذہب نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہوا‘ بلکہ اس کا نفوذ اور اثر و رسوخ روز افزوں ہے‘ جبکہ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کے ہاں طبقاتی تقسیم ختم ہو چکی ہے‘ ان کے سب لوگ پیداواری ہیں۔ ان کی توجیہ اور استدلال کیا ہے؟ اس کی حیثیت ایک شکست خوردہ نظریے کے علاوہ کچھ نہیں‘ لیکن یہ لوگ ان باتوں کو اسی پیرائے میں دہراتے رہتے ہیں۔ پہلے انہوں نے کچھ خوبصورت عبارتیں بنا لیں ہیں اور اب ان کو دہراتے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انہی باتوں کا بڑی دلنشین عبارتوں میں تکرار کرتے رہتے ہیں۔ کوئی اس پر سوچتا نہیں کہ کیا یہ باتیں درست بھی ہیں یا نہیں؟

ماکس مولر کا یہ خاص نظریہ کہ توحید کا عقیدہ مشرک سے پہلے موجود تھا‘ ایک ایسا نظریہ ہے کہ جو موجود تو ہے‘ لیکن اس کے ماننے والے زیادہ نہیں ہیں۔ اکثریت کا خیال یہی ہے کہ شرک کا عقیدہ توحید سے پہلے تھا‘ البتہ دین اسلام کی منطق کی رو سے توحید کا عقیدہ شرک سے پہلے تھا‘ یعنی شرک ایک منحرف شدہ توحید ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ شرک کا وجود توحید سے قبل تھا‘ لیکن تاریخ حیات تک بھی ہے‘ انسان کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جہاں بھی انسان کا کوئی نام و نشان ملتا ہے‘ وہاں عبادت کے آثار موجود ہیں‘ اشتراک اولی کا مسئلہ علامتوں ہی کے حوالے سے ان لوگوں نے اخذ کیا ہے۔ شروع ہی سے عبادت کی موجودگی کا نظریہ‘ میں دوسروں کے نقطہ نظر کو نقل کرنے کے طور پر بیان نہیں کرتا‘ بلکہ ایک دینی و مذہبی نظریے کے طور پر ذکر کرتا ہوں۔ جہاں جہاں پر بھی انسانی زندگی کا کوئی نشان ہے‘ چاہے وہ اشتراکی صورت میں ہو‘ چاہے غیر اشتراکی اور اختصاصی صورت میں‘ عبادت کے آثار ہیں۔ ابھی تک کسی ایسی انسانی زندگی کا کوئی سراغ نہیں ملا‘ جس میں عبادت کا وجود نہ ہو (اس موقع پر سامعین میں سے کسی نے سوال کیا)۔

بعض کا کہنا ہے کہ آگ سے پہلے کے زمانے میں عبادت کا کوئی نشان نہیں ملتا؟ جواب میں شہید مطہری  نے فرمایا‘ اس بات کو میں ان خصوصیات کے ساتھ نہیں جانتا ہوں کہ یہ بات عمومی نظریے کے برخلاف ہے‘ تاہم آپ کا یہ کہنا بھی اشتراک اولی کے مسئلے سے میل نہیں کھاتا۔ آپ کہتے ہیں کہ جب آگ کا انکشاف ہوا عبادت بھی ظہور پذیر ہوئی‘ جبکہ ہم نے جس بنیاد پر مارکسسٹوں کے نظریے کو رد کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ان نظریے کے مطابق اشتراک اولی کے دور (البتہ اشتراک اولی کے دور سے پہلے بھی کچھ دور تھے‘ کہنا چاہئے کہ قبیلوں کی صورت میں سماجی زندگی کے دور تھے‘ وہی کھیتی باڑی کے دور سے پہلے کہ جو شکار وغیرہ کا دور ہے) میں اور کھیتی باڑی کے دور سے پہلے کہ جس میں ان کے نظریے کے مطابق مالکیت وجود میں آئی‘ امکان نہیں کہ پرستش موجود ہو۔ اب آپ کا یہ کہنا کہ آگ سے پہلے کے دور میں عبادت کا کوئی نشان نہیں ملتا‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ علاوہ ازیں ”کوئی نشان نہ ملنا“ اس کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔

باب نہم

دین کے نقطہ آغاز کے بارے میں ڈورکہیم کے نظریے کا جائزہ

چھٹا نظریہ کہ جو دین اور مذہب کی پیدائش کے سرچشمہ کے بارے میں مذکورہ مثال میں بیان کیا گیا ہے‘ اس کا عنوان ہے ”بازگشت بہ از خود بیگانگی“۔

اس عنوان کے تحت فرانس کے ایک مشہور ماہر عمرانیات ڈورکہیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ پیدائش مذہب کے بارے میں اس وقت ڈورکہیم کا نظریہ دنیا کے مشہور ترین نظریات میں سے ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ مذکورہ مقالہ کے مصنف نے اسے بیان کرنے میں اپنے کچھ خاص نظریات بھی اس میں مخلوط کر دیئے ہیں‘ یعنی یہ ہے کہ ہم ڈورکہیم ( Mr. Emile Dur Kheim ) کے نظریہ کو ایک طرح کی ”بازگشت بہ از خود بیگانگی“ قرار دیں‘ شاید اس مقالے کے مصنف کی اپنی مخصوص اصطلاح ہے‘ میں نے کسی اور جگہ یہ اصطلاح نہیں دیکھی۔ جہاں تک مجھے ڈورکہیم کے نظریات کا علم ہے‘ وہ ”اصالت اجتماعی“ ( Socialism ) کا قائل‘ یعنی معاشرے کے لئے اصالت کا قائل ہے اور درحقیقت فرد کے لئے اصالت کا قائل نہیں ( Individualism )۔ اس معنی میں اس کا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ افراد کی ”ترکیب حقیقی“ کا نام ہے‘ نہ کہ ترکیب اعتباری کا۔

مرکب اعتباری اور مرکب حقیقی

(فزکس اور کیمسٹری کے طلبہ کے لئے آمیز ( Mixture ) اور مرکب ( Compound ) کی اصطلاحوں میں جو فرق ہے‘ وہی فرق مرکب اعتباری اور مرکب حقیقی کے مفہوم میں اپنے مقام پر پایا جاتا ہے)۔

ایک لحاظ سے مرکب کی دو قسمیں ہیں‘ اعتباری اور حقیقی۔ مرکب اعتباری یعنی چیزوں کا ایسا مجموعہ کہ جن کے درمیان ایک طرح کی وابستگی موجود ہوتی ہے‘ البتہ بغیر اس کے کہ کوئی شے اپنی انفرادیت کھو دے اور اپنے تئیں کل میں حل کر دے۔ مثلاً ہم کسی ایک جگہ پر موجود رختوں کے مجموعہ کو باغ کہتے ہیں‘ ایک درخت کو باغ نہیں کہتے‘ ان سب کو ملا کر باغ کہتے ہیں‘ لیکن باغ کا ہر جز اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے‘ یہ درخت بھی اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور دوسرا درخت بھی۔ یہ درخت اگر اس باغ میں نہ ہوتا تو بھی یہی درخت ہوتا اور اگر یہاں تنہا ہوتا تو بھی یہی ہوتا اور اگر باغ میں ہونے سے اس میں کوئی تبدیلی بھی آئی ہے تو بھی بالکل سطحی ہے‘ گہری نہیں ہے۔ مثلاً اس باغ میں خوبانی کے ایک درخت کی ”انفرادیت“ درختوں کے مجموعہ میں شامل نہیں ہے‘ بلکہ علیحدہ ہے‘ اسی طرح سے یہی کیفیت دوسرے درختوں کی بھی ہے۔ ایسے مجموعے اور مرکب کو ہم مرکب اعتباری کہتے ہیں۔

لیکن مرکب حقیقی میں ہر چیز کی انفرادیت کل میں شامل ہو جاتی ہے‘ یعنی اس میں کسی چیز کی سابقہ حالت باقی نہیں رہتی‘ ہر چیز اس میں اپنی ماہیت کھو دیتی ہے اور نئی ماہیت اختیار کر لیتی ہے‘ وہی ماہیت کہ جو کل کی ماہیت ہوتی ہے جیسے (کیمیائی اور طبیعی مرکبات " Chemical & Physical Compounds ") عالم طبیعت ( Nature ) میں موجود ہر مرکب اسی طرح کا ہوتا ہے۔ مثلاً پانی کو اگر ہم مرکب کہتے ہیں تو وہ دو مختلف عناصر ( Elements ) کے باہمی ملاپ سے تعمیرشدہ صورت ہے اور اس میں ان دونوں کی ماہیت تبدیل ہو چکی ہے‘ یعنی نہ اب آکسیجن پانی میں آکسیجن کی صورت میں موجود ہے اور نہ وہ اپنی خاصیت رکھتی ہے‘ اسی طرح اب ہائیڈروجن بھی ہائیڈروجن کی صورت میں موجود نہیں ہے۔ ان دونوں نے آپس میں مل کر ایک مرکب کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور ایک تیسری ماہیت اختیار کر لی ہے اور حقیقت میں ایک نئی ماہیت وجود میں آ گئی ہے کہ جو پانی کی ماہیت ہے۔ ہاں پانی کا پھر سے تجزیہ کر کے اسے انہی ابتدائی عناصر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس وقت یہ وہ نہیں ہے اور یہی حالت دیگر طبیعی مرکبات کی ہے۔

انسانی معاشرے کی ترکیب کی نوعیت

اب ہم انسانی معاشرے کی ترکیب کا جائزہ لیتے ہیں‘ کیا یہ ترکیب حقیقی ہے یا اعتباری؟ اس میں شک نہیں کہ اگر ہمارے نزدیک معیار انسانی بدن اور جسم ہو تو انسانی معاشرہ ایک مرکب اعتباری ہے‘ اس لحاظ سے اس میں اور کسی باغ کے درختوں میں کوئی فرق نہیں۔ یہ فرد جن خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوا تھا‘ آج بھی انہی خصوصیات کے ساتھ موجود ہے‘ وہ فرد بھی بالکل اسی طرح ہے اور یوں ہی سارے افراد ہیں۔ اگر کوئی شخص جیسے ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہو‘ ہم اسے کسی غار میں لے جا کر اس کی پرورش کریں‘ بیالوجیکل ( Biological ) اعتبار سے یہاں اس کی نشوونما میں کوئی فرق نہیں آئے گا‘ کیونکہ معاشرے میں رہتا ہے تو وہاں بھی بیالوجیکل اعتبار سے اس کی نشوونما ایسی ہی ہوتی‘ یہ نہیں ہے کہ ہرگز کسی حوالے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری مراد ہے کہ ماہیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کا بدن کوئی اور بدن ہو جائے گا۔ لیکن حیوانات کے برخلاف انسان کا ایک روحانی پہلو بھی ہے‘ حیوان کی خصوصیت اس کے بدن سے مربوط ہے‘ اس کی نفسیاتی حیثیت بھی تقریباً اس کے بدن کی خصوصیت کی طرح ہے‘ یعنی وہ ان دوسروں کے زیراثر نہیں ہوتا۔ نفسیاتی لحاظ سے اس کی جبلت میں جو چیز پائی جاتی ہے وہ دوسرے حیوانوں میں ہو یا نہ ہو‘ اس سے اس حیوان کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ جبکہ انسان کا ایک معاشرتی پہلو بھی ہوتا ہے یا اگر ہم اپنی زبان میں کہیں تو انسان ایک روحانی پہلو کا بھی حامل ہے اور یہ وہ پہلو ہے جو اس کی شخصیت سے مربوط ہے‘ نہ کہ فرد سے۔ ایسا کس طرح سے ہے؟ پچھلے زمانے کے فلسفی بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حیوانات کے جو آمادہ اور مستعد جبلت کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں‘ انسان ان کے برخلاف مکمل اور تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔ ہم نے جہاں فقرات کے بارے میں گفتگو کی ہے‘ وہاں اس بات کا ذکر کیا ہے۔ وہ لوگ جو انسان کے لئے فطرت کے قائل نہیں ہیں‘ ان کے قول کے مطابق روح انسان اس کی پیدائش کے وقت ایک کورے کاغذ کی سی ہوتی ہے‘ یعنی اس پر کوئی نقش نہیں ہوتا‘ اس پر جو کچھ لکھیں وہی ثبت ہو جائے گا‘ جبکہ اس کے برعکس حیوانات کی کیفیت ایک لکھے لکھائے صفحے کی سی ہوتی ہے۔ اگر ہم فطرت کے بھی قائل ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان صلاحیتوں کا سلسلہ کہ جو مکمل طور پر اور بالقوة انسان میں موجود ہے‘ وہ کسی پھل یا اس کے درخت کے بیج کی استعداد کی مانند ہے۔ جو لوگ فطرت سے انکاری ہیں‘ ان کے مطابق پیدائش کے وقت انسان ایک خالی صفحہ کی مانند ہے کہ جس پر جو بھی لکھا جائے وہی نقش ابھر آئے گا‘ اسے فرق نہیں پڑتا کہ اس پر آپ قرآن کی کوئی آیت لکھ دیں یا کوئی گالی لکھ دیں۔ جو لوگ فطرت کے قائل ہیں‘ ان کے مطابق انسان ایک بیج کی طرح ہے اور جب وہ بیج ہوتا ہے تو عملاً وہ درخت نہیں ہے‘ پتا نہیں ہے‘ شاخ نہیں ہے‘ پھل نہیں ہے‘ لیکن یہ سب کچھ بننے کی صلاحیت اس کی ذات میں موجود ہے۔ اگر ہم اسے جلا کر خاکستر کر دیں تو گویا ہم نے اس کی صلاحیتوں کو عملی صورت اختیار نہیں کرنے دی۔ لہٰذا بات اتنی ہے کہ انسان ایک مکمل اور تمامتر صلاحیتوں اور توانائیوں سے بھرپور موجود ہے‘ جسے معاشرہ سرگرمی بخشتا ہے‘ یعنی معاشرہ ہے کہ جو انسان کو روحانی شخصیت عطا کرتا ہے۔ انسان معاشرے سے زبان سیکھتا ہے‘ اس سے آداب‘ رسوم‘ افکار اور عقائد حاصل کرتا ہے۔ یہ معاشرہ ہے کہ جو اس کے ظرف روحانی کو پر کرتا ہے اور اس کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے‘ اس طرح وہ بھی اپنی باری پر دوسروں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ وہ فقط ایک مستقل اور اثرپذیر وجود نہیں ہے‘ بلکہ تاثیر بخش ہے اور فعال بھی ہے‘ یعنی ایک ہاتھ سے لیتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے دیتا ہے۔ ایک فرد کے لحاظ سے متعلم و طالب علم اور دوسرے کے اعتبار سے معلم و استاد ہے‘ بلکہ جب وہ معلم ہوتا ہے تو اس وقت وہ استاد بھی ہوتا ہے اور شاگرد بھی‘ سکھا بھی رہا ہوتا ہے اور سیکھ بھی رہا ہوتا ہے۔ یہ شخص اپنی فکر سے اپنی روحانی خصوصیتوں سے (اور جو کچھ اس نے سیکھا ہوتا ہے) یا اپنی تخلیقی مہارت سے اسے سکھاتا ہے اور اس سے سیکھتا ہے‘ یعنی انسان ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ معاشرے کے افراد نفسیاتی‘ روحانی اور ثقافتی لحاظ سے پانی کو تشکیل دینے والے عناصر کی مانند ہیں‘ یعنی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے آکسیجن اور ہائیڈروجن ایک دوسرے سے مل کر ایک نئی ترکیب اختیار کر لیتی ہیں‘ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ افراد کے ایک مجموعے کے باہم میل ملاپ سے ایک دوسرے پر اثرانداز ہونے سے ایک مرکب حقیقی وجود میں آتا ہے کہ جسے قوم یا ملت کہتے ہیں‘ لہٰذا ثقافتی اعتبار سے انسان کے دو خود ( Self ) ہیں‘ ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی۔ پانی میں ہائیڈرجن اور آکسیجن بھی ایک خاص حد تک ایک دوسرے سے امتیاز رکھتی ہیں‘ ایک دوسری حد کے لحاظ سے اور ایک سطح پر دونوں پانی ہیں اور پانی ہونے میں انہوں نے آپس میں وحدت ”یکتائی“ پیدا کر لی ہے‘ اگر وہ اپنی ”میں“ کا احساس کرتیں تو ہر کوئی اپنے آپ میں یہ محسوس کرتی کہ میں پانی ہوں۔ پانی کو جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کی مشترک ”میں“ ہے‘ اس اعتبار سے ہر فرد میں دور ”میں“ موجود ہیں‘ ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی یا ”سماجی“۔