فطرت

فطرت 13%

فطرت مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

فطرت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22547 / ڈاؤنلوڈ: 4520
سائز سائز سائز
فطرت

فطرت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

دین کی پیدائش کا سرچشمہ ڈورکہیم کی نظر میں

ایک اصول ڈورکہیم کی باتوں میں موجود ہے۔ اگرچہ جس انداز سے میں نے بات بیان کی ہے‘ ان حضرات کی کتابوں میں اس طرز پر نہیں ہے۔ ہم نے اپنی مشرقی اصطلاحات کے قالب میں بیان کی ہے‘ لیکن بات یہی ہے اور ڈورکہیم کے کلام سے مجموعی طور پر جو بات کھلتی ہے‘ وہ یہی ہے کہ اس کا انحصار اسی بات پر ہے‘ لیکن ڈورکہیم ان لوگوں میں سے ہے کہ جنہوں نے کچھ اور مسائل کی رو سے اس نظریے کا اظہار کیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس نے اور اس سے پہلے ماہرین نے جو گزشتہ ابتدائی قبائل کا مطالعہ کیا‘ وہ قبائل کہ جو بالکل ابتدائی تھے‘ ویسے ہی قبائل کہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان جیسے قبائل ہمارے زمانے میں اٹھارہویں صدی تک موجود رہے ہیں اور شاید اب بھی موجود ہوں‘ یعنی انہوں نے بزعم خود جو ابتدائی انسانوں کے ادیان کا مطالعہ کیا۔ اس کے مطابق آپ ان کی کتابوں میں دیکھئے کہ وہ لکھتے ہیں اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کے ابتدائی ترین حالات میں بھی ایک طرح کی عبادت موجود رہی ہے۔ مظاہر طبیعت ( Nature ) کی پرستش البتہ انہیں ایک طرح کا تقدس دینے کے ساتھ‘ مثلاً کہتے ہیں کہ بعض غاروں میں ایسے آثار‘ مثلاً ایسے پتھر ہیں اور سجدہ گاہوں اور تسبیحوں کی مانند چیزیں‘ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی انسان ان کے لئے ایک طرح کے تقدس کا قائل رہا ہے‘ انہیں چومتا تھا اور ان کے لئے غیر معمولی احترام کا قائل تھا۔ اس سلسلے میں کہ کیا کوئی دو طرح کا مذہب تھا یا ایک ہی طرح کا؟ اس میں اختلاف ہے‘ بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی چیز ہے اور بعض کہتے ہیں کہ دو چیزیں ہیں۔ ایک اور بات جو انہوں نے ابتدائی اقوام کے بارے میں کہی ہے وہ ”توتم“ ( Totem ) اور توتم پرستی ( Totemism ) ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ گزشتہ ابتدائی اقوام اور بعض ہمارے زمانے کے نزدیک کی اقوام بھی ایک طرح کے حیوان کی پوجا کرتی رہی ہیں‘ کیونکہ ان کا ایک اعتقاد یہ تھا کہ وہ خود اور یہ حیوان ایک ہی نسل سے ہیں۔ حیوان سے انسان کے وجود میں آنے کا عقیدہ کہ جس کی سائنسی صورت ڈارونزم ( Darwanism ) ہے‘ کی غیر سائنسی صورت پہلی قوموں میں رہی ہے۔ مثلاً کسی قوم نے سمجھا کہ وہ گائے کی اولاد یا نسل ہے‘ لہٰذا ان کا نظریہ یہ ہے کہ گائے پرستی کا سرچشمہ اور ہندوستان میں گائے کا تقدس اسی وجہ سے ہے کہ بہت قدیم ہندی اقوام کا توتم گائے ہے‘ البتہ اس میں بعدازاں تبدیلی پیدا ہوئی اور وہ افکار ختم ہو گئے‘ لیکن گائے کا تقدس باقی ہے یا اس طرح بعض نے فلاں پرندہ کو اپنا توتم سمجھا (توتم ازم ( Totemism ) بعض قدیم قبائل اپنی نسل کی بنیاد کسی نہ کسی حیوان یا درخت سے منسوب کرتے تھے اور جس حیوان سے اپنے آپ کو منسوب سمجھتے تھے‘ اس حیوان یا درخت کی پوجا کرتے جس سے اپنے آپ کو منسوب کرتے‘ مثال کے طور پر ہندوؤں میں گاؤ پرستی کی رسم) یا اس طرح بعض نے فلاں پرندے کو اپنا توتم سمجھا۔

یہ فکر لوگوں میں کیسے پیدا ہوتی ہے کہ ہم فلاں حیوان کی نسل سے ہیں‘ پھر وہ اس حیوان کی پوجا شروع کر دیتے ہیں‘ اس حیوان کے تقدس اور غیر معمولی طاقت کے قائل ہو جاتے ہیں‘ اس حیوان کو قوم و قبیلہ کا محافظ سمجھنے لگتے ہیں اور ایسے ہی عقائد اپنا لیتے ہیں؟

اس امر کے استدلال میں کہتے ہیں کہ ڈورکہیم کا نظریہ تھا کہ یہ وہی انسانوں کی روح اجتماعی کا ظہور ہے۔ اس اعتبار سے کہ چونکہ واقعاً ہر انسان اپنے اندر دو ”میں“ محسوس کرتا ہے‘ ایک ”میں“ اس جہت سے کہ میں زید بن عمرو ہوں‘ یہ وہ ”میں“ ہے کہ جس کے مقابلے میں دوسرے فرد کا ”میں“ ہوتا ہے۔ یہ میرا مال ہے نہ کہ تیرا‘ اور دوسری ”میں“ کہ جو اجتماعی ہے (مثلاً ہم کہ جو ایرانی ہیں‘ ہمارے لئے ”ایرانی میں“ ایک مشترک ”میں“ ہے)‘ ہاں چونکہ ایسا ہے‘ یہ قبائل کہ جو اس حیوان کی پوجا کرتے رہے ہیں‘ درحقیقت اجتماع کو پوجتے رہے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہو جاتا ہے کہ اس قبیلے کے سب لوگ اس کی اولاد ہیں‘ بعد میں اگر اس کی پرستش کرتے تھے تو یہ فقط اس اعتبار سے نہ تھا کہ ہمارا نسب اس تک پہنچتا ہے‘ بلکہ اس لئے بھی کہ وہ اس معاشرے کا مظہر ہے‘ یوں درحقیقت وہ اپنے ہی اجتماع ”سماج“ کی پرستش پر عمل پیرا تھے۔

اب وہ شکل کہ جو بلند تر ہے اور زیادہ جدید ( Modern ) ہے‘ جس میں ڈورکہیم کی باتوں ہی کی تقلید کی گئی ہے‘ یہی ہے کہ جو مقالہ نگار نے بیان کی ہے۔ اس نے خود پرستی وغیرہ کی بات نہیں کی‘ اس نے وہی پہلا حصہ بیان کیا ہے کہ جو میں عرض کر چکا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک طرح کی ”خود بیگانگی سے واپسی“ ہے (خود بیگانگی یعنی اپنی ذات کو اجنبی سمجھنا)‘ انسان میں درحقیقت دو ”خود“ موجود ہیں‘ ایک انفرادی ”خود“ اور دوسرا اجتماعی ”خود“۔ انسان اپنے بہت سارے کام اجتماعی ”خود“ اور ”میں“ کے لحاظ سے کرتا ہے‘مثال کے طور پر انسان کسی جگہ ایثار کرتا ہے‘ آپ ایثار کا یہ معنی کرتے ہیں کہ یہ غیر کو اپنے پر ترجیح دینے سے عبارت ہے‘ پھر آپ اس سلسلے میں دلائل پیش کرتے اور تجزیہ کرتے ہیں کہ انسان کو فطرتاً اپنے لئے کام کرنا چاہئے۔ انسان کے اندر کیا احساس ہے کہ دوسرے کو اپنے آپ پر مقدم کرنے لگتا ہے؟ یہ تو ایک ایسا کام ہے کہ جو منطقی محسوس نہیں ہوتا‘ لیکن بہرحال انسان ایسا کرتا ہے اور ایسا کرنے کو اپنی ذات کے لئے کئے جانے والے کام سے برتر بھی سمجھتا ہے اور اسے ایک مقدس کام خیال کرتا ہے۔

کہتا ہے کہ یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ آپ ایثار کو سمجھتے ہیں کہ یہ دوسرے کو اپنے پر ترجیح دینے سے عبارت ہے‘ بلکہ ایثار کرنے والا خود ہی کو خود پر مقدم کر رہا ہوتا ہے‘ چونکہ اس کے دو ”خود“ ہیں‘ ایک اجتماعی اور دوسرا انفرادی۔ اب یہاں دوسرے خود نے ظہور کیا ہے‘ لہٰذا خود ہی نے خود کے لئے کام کیا ہے‘ لیکن انفرادی خود کے لئے نہیں‘ بلکہ اجتماعی خود کیلئے۔ چنانچہ اخلاق کی بھی اس صورت میں توجیہہ ہو جاتی ہے‘ قومیت اور قوم پرستی کا احساس اور قوم و ملت کے لئے ایثار اور معاشرے کے لئے قربانی کی بھی توجیہہ کی جا سکتی ہے۔ اس سے مراد دوسرے کے لئے کچھ کرنا نہیں‘ خود کے لئے کام کرنا ہے کہ جو اجتماعی خود ہے۔ مضمون نگار نے یہ گفتگو ”از خود گزشتگی“، ”ایثار یا جاں نثاری“ کے عنوان کی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ تعبیر خود اپنی ہے (دوست احباب سے خواہش ہے کہ وہ خود وقت نکالیں اور متعلقہ کتب میں جہاں بھی مفصل تر ہو ڈورکہیم کا نظریہ تلاش کریں اور اس مسئلے پر بھی تحقیق ہو تو اچھا ہے‘ اس جگہ سے تقریر کا کچھ حصہ ریکارڈ نہیں ہو سکا)‘ اپنی اجتماعی خود گنوا بیٹھا ہے‘ اسے ”غیر“ سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ سے اسے جدا کر لیتا ہے۔ اپنے آپ میں دو ”خود“ محسوس کرتا ہے‘ انفرادی خود کہ جس میں ”میں“ ہے‘ ”نفس“ ہے‘ ”خود“ ہے‘ انفرادیت ہے اور ایک ”میں“ اور ہے کہ جس میں اجتماع ہے‘ معاشرہ ہے۔ پھر یوں وہ کام بھی دو طرح کا کرتا ہے‘ وہ کام کہ جو اجتماعی ”میں“ انجام دیتا ہے (اور وہ کام کہ جو انفرادی ”میں“ انجام دیتا ہے)‘ رفتہ رفتہ اس اجتماعی ”میں“ کو بھول جاتا ہے۔ بلاتشبیہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسے اللہ کے بارے میں قرآن میں تعبیرات آئی ہیں کہ انسان درحقیقت اللہ کو فراموش کر دیتا ہے اور نتیجتاً وہ خود کو بھی بھلا دیتا ہے‘ پھر خوبیوں کے ایک سلسلے پر اس کی نظر پڑتی ہے‘ خیال کرتا ہے کہ خود تو انفرادی خود ہی میں منحصر ہے۔ بعدازاں جو کام اجتماعی ”میں“ کے ساتھ انجام دیتا ہے‘ ان کے لئے موضوع تلاش کرتا ہے‘ اب اس موضوع کو اپنی ذات سے باہر فرض کر لیتا ہے‘ اسے ”ماوراء طبیعت“۔ ایک معکوسی جہت سے ایسی بہت سی باتیں ایک عرفانی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۱۱#

سالہا دل طلب جام جم ازما می کرد

آنچہ خود داشت زبیگانہ تمنا می کرد

(دل جام جم کا برسوں تقاضا کئے رہا

خود پاس تھا جو‘ اس کی تمنا کئے رہا)

یہ بھی کہتا ہے کہ جناب! یہ وہی آپ کی خود ہے‘ وہی آپ کی اجتماعی خود ہے‘ ہاں البتہ آپ اسے کھو بیٹھتے ہیں‘ کیونکہ آپ اسے کھو بیٹھتے ہیں‘ اس لئے اب اسے اپنے غیر میں اور اپنے آپ سے باہر تلاش کر رہے ہیں اور یہ ہے ”از خود بیگانگی“ (خود کو فراموش کر دینا یا بھلا دینا)‘ یعنی انسان اپنے آپ کو فراموش کر بیٹھتا ہے‘ ”غیر“ کو ”خود“ کی جگہ سمجھتا ہے اور وہ غیر (ماوراء الطبیعہ ہے)۔

اب ان صاحب نے جو مختلف اقوال و آراء نقل کی ہیں‘ جب اس نظریے کو نقل کرتے ہیں تو زیادہ رد نہیں کرتے‘ صرف اتنا کہتے ہیں کہ البتہ یہ نظریہ بھی شکوک و شبہات اور اعتراضات سے خالی نہیں ہے‘ لہٰذا ڈورکہیم کے پیروکاروں نے گویا اس کی اصلاح کر دی ہے (یعنی دورکہیم کے پیروکاروں کا اصلاح شدہ نظریہ غلطیوں سے پاک ہے)۔ تقریباً یہ وہ رائے ہے کہ جو خود ان صاحب نے انتخاب کی ہے اور اس سے انہوں نے نتیجہ بھی اخذ کیا ہے اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ اس نظریے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دین کی پیدائش کا سبب جہالت ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جہالت کے دور ہونے سے دین ختم ہو جاتا ہے‘ کیونکہ علت کے خاتمے سے معلول کا خاتمہ ہو جاتا ہے‘ حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہے‘ لہٰذا ثابت ہو گیا کہ یہ نظریہ باطل ہے۔ وہ نظریہ کہ جو کہتا ہے کہ ”دین کی پیدائش کا سبب طبیعی قوتوں کا خوف ہے“، اس کے مطابق جس دین طبیعی قوتوں سے انسان کا خوف ختم ہو جائے‘ دین کو بھی ختم ہو جانا چاہئے‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً ایسا نہیں ہے اور دین ختم نہیں ہوتا‘ غربت‘ امارت اور طبقاتی اختلاف کی بھی یہی صورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی طبقات ختم ہو گئے ہیں اور مساوات قائم ہو گئی ہے‘ وہاں بھی دین ختم نہیں ہوتا‘ ایسے ممالک میں بھی یہ معرکہ اب بھی موجود ہے‘ جبکہ ان ممالک میں جہاں نام نہاد مساوات قائم ہو گئی ہے‘ پھر بھی وہ پریشان ہیں کہ دین کے خلاف پیکار کیسے کی جائے؟ پھر بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز جوانوں کا دین کی طرف رجحان اور زیادہ ہوتا جا رہا ہے‘ یہاں تک خود روسیوں کے بقول روس میں بھی۔ لیکن اگر اس نظریے کو منتخب کریں تو ایسا نہیں ہے‘ یہ ایک ایسا اصول ہے جو ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے۔ مذہب کی بنیاد یہی ہے اور اسی دلیل کی بناء پر یہ انسانی معاشرے سے ختم نہیں ہوگا‘ لہٰذا یہ وہ واحد نظریہ ہے کہ جو مذہب کے لئے کسی ماورائی و الٰہی بنیاد کا قائل نہیں اور اس کے باوجود اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ مذہب ختم ہونے والی چیز نہیں‘ ایسی بات کی جاتی ہے اور یہ بھی ایک بے بنیاد بات ہے۔

ڈورکہیم کے نظریے کا تنقیدی جائزہ

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ ایک حقیقی اکائی ہے‘ نہ کہ اعتباری۔ ”تفسیرالمیزان“ میں بھی اور مختلف جگہوں پر اس امر پر گفتگو کی گئی ہے کہ معاشرہ ایک وحدت رکھتا ہے اور اپنی ایک مخصوص انداز زندگی کا حامل ہے اور چونکہ اس کی اپنی ایک وحدت اور مخصوص حیات ہے‘ لہٰذا اس کی ایک موت بھی ہے۔ اس میں قوت ہوتی ہے‘ ضعف ہوتا ہے‘ ایک مشترک انجام ہوتا ہے‘ وغیرہ۔ ایک کتابچہ کہ جو حال ہی میں‘ میں نے ”قیام و انقلاب مہدی علیہ السلام از دیدگاہ فلسفہ تاریخ“ (امام زمانہ کے قیام کے بارے میں فلسفہ تاریخ کا نظریہ) کے نام سے شائع کیا ہے‘ میں نے کچھ اس مسئلے کی طرف مختلف مقامات پر اشارہ کیا ہے۔ تفصیل اس لئے نہیں دی‘ چونکہ یہ چھوٹا سا کتابچہ ہے وہاں بھی میں نے حاشیے میں تفسیرالمیزان کی طرف رجوع کرنے کو کہا ہے۔ قرآن میں اس طرح کی تعبیرات ہیں:

لکل امة احل‘ اذا جاء اجلهم فلا یستاخرون ساعة ولا یستقدمون (یونس‘ ۴۹)

”ہر امت کے لئے موت کا ایک وقت مقرر ہے‘ جب وہ وقت آ جاتا ہے تو ایک گھڑی بھی دیر نہیں کر سکتے اور نہ جلدی کر سکتے ہیں۔“

قرآن بنیادی طور پر اپنے کسی حکم کا پوری قوم پر اطلاق کرتا ہے‘ مثلاً بعض اقوام فلاں راستے پر تھیں اور ایسی تھیں اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا‘ قرآنی نکتہ نگاہ سے مختلف اقوام کا اپنے اپنے لحاظ سے کوئی نہ کوئی انجام ہوتا ہے‘ یعنی سب کا انجام ایک جیسا ”مشترک“ نہیں ہوتا‘ لہٰذا اگر کسی قوم کے درمیان کوئی نیک گروہ موجود ہو‘ تو وہ اپنی قوم پر اثرانداز نہیں ہو سکتی اور اس مسئلہ کو اگر معکوس انداز میں لیں‘ اس کا بھی مصداق ایسا ہی ہو گا۔ اب چونکہ قوم اور ملت ایک ہی سمجھی جاتی ہے تو اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ معاشرہ یا سماج ایک حقیقی نہ کہ اعتباری اکائی ہے۔

مذکورہ نظریے کے بارے میں جو کچھ اب تک بیان کیا گیا‘ مکمل طور پر درست ہے‘ لیکن معاشرے کی ساخت و ترکیب کی کیا نوعیت ہے؟ ہم نے اس موضوع پر جو بحث کی تھی‘ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ انسانی معاشرے کی ساخت و ترکیب تیسری نوعیت کی ہے‘ یعنی نہ تو اس کی اعتباری ترکیب ہے‘ کیونکہ واقعاً وہ ایک حقیقی ترکیب ہے اور نہ ہی اس کی کیمیائی یا طبیعی ترکیب ہے‘ کیونکہ ان دونوں ترکیبوں میں اکائیوں کا تشخص کسی صورت میں مستقل نہیں ہوتا اور یہ امر ناممکنات میں ہے‘ جبکہ معاشرے میں افراد کے تشخص کا باقی رہنا‘ اس حد تک ناممکن نہیں ہے‘ جبکہ ڈورکہیم اور وہ لوگ جو اس حد تک اجتماعی اصالت (یعنی معاشرے کو بنیاد سمجھتا نہ کہ فرد کو) کے نظریے کے قائل ہیں‘ کے مطابق ایسی صورت میں فرد کا معاشرے میں کوئی اپنا ذاتی تشخص باقی نہیں رہتا‘ یعنی کہ جب معاشرے کا کوئی فرد کسی بات کو محسوس کرتا ہے یا یہ فرد کوئی ارادہ کرتا ہے‘ درحقیقت اس کا معاشرہ محسوس کرتا ہے اور ارادہ کرتا ہے۔ اس طرح سے فرد کی معاشرے میں کوئی مستقل حیثیت کا حامل نہیں ہوتا‘ جبکہ حقیقت میں معاشرہ اپنے مقام پر ایک حقیقی ترکیب ہونے کے ساتھ ساتھ‘ فرد بھی اپنے استقلال اور تشخص کو اپنے معاشرے میں ایک متعین حد تک محفوظ رکھتا ہے‘ لہٰذا فرد اپنے معاشرے پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور اسے تبدیل کر سکتا ہے (جبکہ ان کے نظریے کے مطابق فرد جو معاشرے میں ایک مجبور محض ہوتا ہے‘ ناممکن تمام معاشرے کو تبدیل کر سکے)۔ کیمیائی یا طبیعی ترکیب میں کوئی ناممکن الوجود حصہ تمام ترکیب کو مکمل طور پر بدل سکے‘ لیکن فرد معاشرے کے دھارے کا رخ بدل سکتا ہے اور معاشرے کے بہاؤ کے مخالف سمت میں بھی حرکت کر سکتا ہے‘ اسی طرح اس کے بہاؤ میں تیزی بھی لا سکتا ہے اور سستی بھی اور ایک بہاؤ کو روک بھی سکتا ہے اور نتیجتاً تاریخ کے دھارے کو بھی بدل سکتا ہے اور یہ وہی مسئلہ ہے کہ انسان آزادی اور اختیارات کا حامل ہے اور معاشرے کے جبر کے مقابلے میں اپنی‘ اس کی آزادی اور استقلال ایک حد تک محفوظ ہوتا ہے۔

انسانی ”انا“، ”خودی“، ”میں“ کے کئی مدارج ہیں

یہ بات واضح رہے کہ اس شخص کے کہنے کے مطابق کہ انسان اپنے اندر دو ”انائیں“ رکھتا ہے‘ درست نہیں ہے‘ یعنی ایک انفرادی اور ایک سماجی ”انا“۔ انسان کی انفرادی انا معاشرے کے مطابق تشکیل پاتی ہے‘ اس کی پرورش ہوتی ہے اور قالب میں ڈھلتی ہے‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا استقلال‘ آزادی اور ذاتی تشخص کسی حد تک محفوظ رہتا ہے‘ لیکن انسان حقیقی طور پر دو ”اناؤں“ کا حامل نہیں ہو سکتا ہے‘ یعنی جب وہ جانثاری اور جانفشانی کرتا ہے‘ وہ کوئی اور ہے اور جب اپنا ذاتی کام کرتا ہے تو کوئی اور ”انا“ ہوتی ہے‘ یعنی یہ کہ اس میں دو ”انائیں“ وجود رکھتی ہوں‘ جب ہم اپنا ذاتی کام کرتے ہیں تو ہم اپنی ذاتی ضرورتیں پوری کر رہے ہوتے ہیں‘ مثلاً برائی کرتے ہیں‘ ظلم کرتے ہیں‘ اپنی ذات کو دوسرے پر مقدم کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں وہ ”انا“ کرتی ہے جو ہمارے اندر موجود ہے اور جب ہم معاشرے کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں‘ جانثاری کرتے ہیں‘ احسان کرتے ہیں‘ اچھے کام کرتے ہیں‘ عبادت کرتے ہیں تو یہ سب کام ایک اور ”انا“ جو ہمارے اندر موجود ہے‘ کرتی ہے۔

یہ کیسی باتیں ہیں! ان مسائل کہ ان لوگوں نے لیبارٹریوں میں ثابت نہیں کیا ہے‘ یہ تمام مسائل استدلالی ہیں۔ انسان جب کوئی برائی کرتا ہے تو تھوڑی دیر بعد جب وہ کوئی اچھا اور نیکی کا کام انجام دیتا ہے‘ درحقیقت یہ دونوں کام ایک ہی انسان انجام دیتا ہے‘ یعنی یہ دونوں فعل ایک ہی انسان سے سرزد ہوتے ہیں‘ لہٰذا یہ ایک ہی شخص کے مختلف درجے ہیں‘ نہ کہ دو اشخاص کے۔ ایک ہی چیز کے کئی درجات ہوتے ہیں‘ مثال کے طور پر ایک درخت میں تنا ہوتا ہے اور اس کی کئی شاخیں اوپر کی جانب اور دائیں بائیں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں‘ لیکن درحقیقت مجموعی طور پر ایک ہی چیز ہے‘ یقیناً ایک ہی کے مختلف درجات اور دو چیزوں کے درجات میں فرق ہے۔ نتیجتاً یہ بات واضح ہے کہ یہ تمام ”انائیں“ ایک ہی چیز کے مختلف درجات ہیں‘ نہ کہ کئی چیزوں کے۔

قرآن کا نظریہ

یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو قرآنی منطق کی گہرائی سمجھ آتی ہے۔ قرآن حکیم ان تمام تر مسائل کو اٹھائے تعبیر کہتا ہے:

”نفس امارہ“، ”نفس لوامہ“، ”نفس مطمئنہ“

فلسفی اس کو وحدت کثرت میں کثرت وحدت میں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس بات کا کوئی وجود نہیں کہ انسان متعدد ”اناؤں“ کا حامل ہو‘ یعنی ایک کام نفس امارہ سے سرزد ہوتا ہو اور دوسرا کام نفس لوامہ انجام دیتی ہو اور تیسرا کام نفس مطمئنہ۔ حقیقت یہ نہیں بلکہ انسان جب اپنی عقل کے خلاف چلتا ہے یا اس کی حکم عدولی کر رہا ہوتا ہے تو ایسے موقع پر وہ انتہائی چھوٹے کام انجام دیتا ہے۔ ایسے موقع پر وہ نفس امارہ کے زیر فرمان ہوتا ہے‘ یہی نفس امارہ جب بلند تر درجے پر ہوتی ہے تو اس کی بصارت تیز ہو جاتی ہے اور زیادہ ہوشمند ہو جاتی ہے‘ یہاں پر وہ نفس لوامہ بن جاتی ہے‘ یعنی وہ خود ہی خود کو ملامت و سرزنش کرنے لگتی ہے۔ اس امر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ان کے دو الگ الگ وجود ہوتے تو ملامت یا سرزنش بے معنی ہو جاتی ہے۔ اسی نفس نے برے فعل کا ارتکاب کیا‘ بعد میں اپنے آپ کو زیرعتاب قرار دیا (انسان جب بھی کسی موضوع پر گفتگو کرتا ہے تو یہ بات اس پر واضح ہو جاتی ہے کہ آخرکار قرآن اس کا حل پیش کر دیتا ہے)۔

اس طرح سے یہ نفس ایک وقت میں منصف‘ انصاف طلب اور ملزم بن جاتا ہے اور اپنے ہی خلاف فیصلے سنا دیتا ہے‘ نفس کا محاسبہ اسے ہی کہتے ہیں:

لا اقسم بیوم القیامة ولا اقسم بالنفس اللو امة (قیامة‘ ۱‘ ۲)

”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔“

یہ آیت روز قیامت کے باب میں آتی ہے‘ جس روز اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب کرے گا۔ اللہ نے انسان کو روح اور ضمیر کا ایک درجہ عطا کیا ہے‘ جس کے ذریعے انسان کا دنیا میں ہی حساب ہوتا رہتا ہے:

یا ایتها النفس المطمئنة ارجعی الی ربک (فجر‘ ۲۷‘ ۲۸)

”اے نفس مطمئنہ! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا۔“

ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے‘ جس انسان کا ایک ہی وجود ہے اور ایک ہی ذات ہے‘ یہ تمام درجات و مراحل طے کرتا ہے۔ ”نفس امارہ“ وہی ”نفس لوامہ“ ہے اور ”نفس لوامہ“ وہی ”نفس مطمئنہ“ ہے‘ لیکن ان سب کے مدارج مختلف ہیں۔ اس کے مدارج میں توجہ‘ آگاہی ”تذکر“، ”یاددہانی“، ”صفای باطن“، حجابوں کا نہ ہونا اور ایمان و یقین کا زیادہ ہونا شامل ہے۔

خلاصہ

ڈورکہیم کا نظریہ جو ایک معاشرہ شناسی یا ”معاشرتی آگاہی“ کا نظریہ ہے‘ ایک نفسیات شناسی کا بھی نظریہ ہونے کے مدعی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے‘ انسان دو جداگانہ اور دو مستقل بالذات شخصیتوں کا حامل نہیں ہے‘ انسان میں ایک ہی ”انا“ ہے جو تمام متضاد کاموں کو بیک وقت انجام دیتی ہے‘ لہٰذا یہ بات کہ انسان میں دو ”انائیں“ ہیں‘ ایک ”انا“ اپنے آپ کو بھول گئی ہے اور وہ ”انا“ جو کام بعد میں انجام دیتی ہے وہ کوئی اور ”انا“ ہے اور جسے ذاتی انا کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے اور جس کا تعلق عالم ماوراء سے ہے‘ درست نہیں ہے۔ کسی بھی لحاظ سے اس شکل میں دو ”اناؤں“ کا وجود نہیں ہے۔

ثانیاً اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو مذہبی لوگوں اور دیندار طبقے کا شمار آپ کے قول کے مطابق زیادہ اپنے آپ سے بیگانہ‘ یعنی جو افراد اجتماعی روح یا جوہر سے غافل ہو چکے ہوں اور ان میں یہ روح مر چکی ہو اور ان میں اجتماعی اور سماجی احساس کم ہو تو‘ میں شمار ہونا چاہئے اور ایسے ہی لوگوں کو زیادہ دیندار اور مذہبی ہونا چاہئے‘ حالانکہ بات اس کے برعکس ہے‘ کیونکہ جو لوگ حقیقت میں مذہبی اور دیندار ہوتے ہیں‘ انہیں معاشرتی یا اجتماعی احساس دوسروں سے بدرجہا زیادہ ہوتا ہے۔ کیا حضرت علی علیہ السلام زیادہ دینی احساس رکھتے تھے یا معاویہ؟ کیا حضرت علی علیہ السلام زیادہ معاشرتی احساس نہیں رکھتے تھے کہ آپ فرماتے تھے‘ اگر میری مملکت کے کسی دور افتادہ حصے میں بھوکا ہو‘ مجھے اس کا رنج اور دکھ ہوتا ہے۔ کیا اس سے بھی زیادہ کوئی معاشرتی اور اجتماعی احساس کا حامل ہو سکتا ہے؟

و حسبک داء ان تبیت ببطنة

وحو لک اکباد تحن الی القد(نهج البلاغه‘ خط ۴۵)

”تمہارے گرد کچھ لوگ شدید بھوک سے دوچار ہوں اور تم سیر ہو کر سو جاؤ!“

کیا امیرالمومنین(علی ) جن کے فرامین ایسے ہوں‘ زیادہ معاشرتی احساس رکھتے تھے یا معاویہ؟

یہی لوگ جن میں معاشرتی احساس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہو‘ مذہبی اور دین دار ہوتے ہیں‘ چنانچہ جو لوگ اپنی سماجی ”انا“ کو بھول چکے ہوں اور صرف اپنی ذاتی انا میں محصور ہو چکے ہوں‘ کس طرح دوسروں پر اپنی فوقیت ظاہر کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے جن لوگوں میں انسانی احساسات زیادہ ہوتے ہیں‘ وہی لوگ زیادہ مذہبی اور دیندار ہوتے ہیں۔ نتیجتاً وہ شخص جو دلیل پیش کر رہا ہے‘ اس کی خواہش دراصل یہ ہے کہ لادین افراد کو مزید مضبوط بنائے اور یہ وہ بات ہے جس کی بناء پر ان لادینی لوگوں نے رٹ لگا رکھی ہے‘ یعنی دین ختم ہوا‘ مذہب رخصت ہوا اور یہ دونوں روبہ زوال ہیں اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے اور دنیا کے حالات سے بھی یہ پتہ چل رہا ہے کہ دین عنقریب رخصت ہو جائے گا‘ علم کی روشنی آنے کے بعد مذہب ختم ہو گیا‘ سماجی انصاف آنے کے بعد مذہب اضمحلال کا شکار ہو گیا لیکن جیسا کہ دین و مذہب کے آثار سے ظاہر ہوتا ہے‘ ان کی باتیں غلط ثابت ہو رہی ہیں‘ ان کے اندازے غلط ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں‘ کیونکہ دین موجود ہے اور یہ لوگ مطمئن رہیں‘ ختم ہونے والی چیز نہیں‘ بلکہ باقی رہے گا۔ اب یہ لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دین باقی ہے اور ختم نہیں ہو سکتا‘ لیکن اس کی بنیادی الٰہی نہیں۔ آخر میں یہ بات کرتے ہیں کہ نظریات عمومی طور پر اور دین یا مذہب بالخصوص سماجی زندگی کے بنیادی مظاہر ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اور علم کی ترقی کے بعد دین و مذہب کا خاتمہ ہو جائے گا‘ درحقیقت انہوں نے تو سماجی ساخت کو اور نہ ہی دینی نظریات کی ماہیت کو سمجھا ہے۔یہ لوگ اس قسم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ کہنا چاہئے کہ اگر آپ کی بات درست ہے تو ڈورکہیم کی معاشرہ شناسی یا معاشرتی آگاہی کی ترقی کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیان کا خاتمہ ہو جانا چاہئے‘ کیونکہ ڈورکہیم کے کہنے کے مطابق مذہب پر اعتقاد ایک قسم کی جہالت ہے اور یہی بات فویرباخ نے بھی کہی تھی‘ لیکن اتنے فرق کے ساتھ کہ وہ انسان کے لئے انفرادیت کا قائل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انسان فطرتاً خوبیوں اور برائیوں کے ایک سلسلے کا حامل ہے اور چونکہ معاشرتی زندگی میں اپنے آپ کو بری سرشت میں زیادہ گرفتار پاتا ہے‘ تو وہ اپنی پاک اور نیک سرشت کو اپنے آپ سے جدا کرتا ہے اور اسے ایک خیالی اور فرضی چیز تصور کرنے لگتا ہے

باب ہفتم

مذہب کی اساس (نقطہ آغاز)اور سرچشمہ

مذہب کی اساس اور سرچشمہ کے بارے میں مخالفین کے نظریات جاننے کا ایک بنیادی فائدہ یہ ہو گا کہ ہم لامذہب افراد کے تعصب کو جان سکیں گے۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیں مذہبی تعصب کا طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذہبی لوگ اپنے نظریات کو انتہائی تعصب کے ساتھ ہی پیش کرتے ہیں۔ دراصل لامذہب لوگ متعصب ہیں‘ کیونکہ ان کا مفروضہ ہی نفی مذہب پر قائم ہے اور پھر انہوں نے اس نفی کی توجیہہ میں لغو گوئی سے کام لیا ہے۔ ایک غیر جانبدار انسان کا ایسی باتیں کرنا ممکن نہیں اور پھر ان کے نظریات کی پستی کا اندازہ آپ اس سے لگا سکیں گے کہ یہ لوگ مذہب کی توجیہہ کرتے ہوئے اس طرح اس میں پھنسے ہیں کہ انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

یورپ میں ایک علم مذہبی عمرانیات ( Sociology of Religion ) کے نام سے وجود میں آیا ہے۔ جیسے ہر علم کا کوئی بنیادی موضوع ہوتا ہے‘ اسی طرح اس علم کا بھی ایک موضوع مقرر کیا گیا ہے (ایسے موضوع کو ابتداء میں ثابت نہیں کیا جاتا‘ بلکہ مفروضے کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے اور بعدازاں اس موضوع (مفروضہ) کی اساس پر اپنے نظریات کو پیش کیا جاتا ہے)۔ مذہبی عمرانیات ( Sociology of Religion ) میں شروع ہی سے یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ مذہب معاشرتی عمل اور ردعمل کا ایک مظہر ( Phenomena ) اور نتیجہ ہوتا ہے‘ یعنی اس کا خدا یا ماورائی دنیا سے کوئی اصولی تعلق نہیں ہوتا۔ اصلاً مذہب کی الٰہی اساس کے امکان کو مفروضے کے طور پر موضوع میں شامل ہی نہیں کیا گیا‘ مثلاً اگر ہم سے یہ کہا جائے کہ اس بات کی تحقیق کریں کہ لوگوں میں یہ فکر کیسے پیدا ہو گی کہ تیرہ کا عدد نحس ہوتا ہے؟ چونکہ انسان دیکھتا ہے کہ منطقی طور پر تیرہ‘ چودہ یا بارہ کے عدد میں کوئی ایسا فرق نہیں کہ جس کی بنیاد پر انسان کو یہ احتمال (امکان) پیدا ہو کر اس فکر کے پیچھے کوئی عقلی یا تجرباتی دلیل موجود ہے‘ لہٰذا کہا جاتا ہے کہ ضرور اس کی کوئی غیر منطقی بنیاد ہو گی اور غیر منطقی بنیاد کیا ہے؟

ان لوگوں نے دین اور مذہب کے بارے میں پہلی بنیاد ہی اس بات پر رکھی ہے کہ دین کی کوئی منطقی بنیاد ہو ہی نہیں سکتی۔ اب جبکہ اس کی بنیاد غیر منطقی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ غیر منطقی بنیاد کیا ہے؟ لہٰذا ان کا اصل موضوع ہی یہ ہے کہ دین کی کوئی منطقی اور الٰہی بنیاد ہی نہ بتائی جائے۔ (مقالے کے لکھنے والے نویسندہ نے شروع میں ایک مختصر سی تاریخ کا ذکر کیا ہے اور بعد میں کہا ہے) کہ جس کسی نے پہلی مرتبہ اس مسئلے کو منظم و تحلیل کے ساتھ پیش کیا وہ ایک مشہور مادی فلسفی ہے۔ کارل مارکس کے دو فکری منبعوں میں سے ایک وہ جرمن ہے کہ جس کا نام خویرباخ ہے‘ اسے کارل مارکس کے استاد کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے نہیں کہ کارل مارکس نے اس کے پاس جا کر اس سے درس لیا‘ بلکہ اس اعتبار سے کہ کارل مارکس نے اس کے افکار سے بہت استفادہ کیا اور اس کے افکار کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ کارل مارکس کی فکر کے دو رکن ہیں‘ منطق اور طرز تفکر۔ فکر کے لحاظ سے وہ ہیگل کے تابع ہے‘ یعنی منطق جدلیات‘ لیکسن ہیگل میٹریلسٹ ( Materialist ) نہیں تھا‘ اس کی ایک خاص قسم کی فکر تھی کہ جس کی وجہ سے بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ آئیڈیلسٹ ( Idealist ) ہے‘ جبکہ خدا کا بھی قائل نہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ خدا کو مانتا تو ہے‘ مگر اس کا تصور خدا‘ دوسروں کے تصور خدا سے کچھ مختلف ہے۔ فویرباخ کی شہرت انہی مادی افکار کی وجہ سے ہے کہ جن میں مذہب کے بارے میں ایک تحلیل پیش کی گئی ہے۔ اس کے بقول مذہب انسان کی اپنے آپ سے بیگانگی ( Self Alienation ) کی حالت سے جنم لیتا ہے‘ یعنی انسان کو ایسے عوامل پیش آ جاتے ہیں کہ وہ خود اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔

اب یہ اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے کیونکر بیگانہ ہو جاتا ہے؟ کیا اصولی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے؟ کیونکہ بیگانگی کے دو رخ ہیں اور اس کے مقابلہ پر اپنائیت ہے۔ اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے آپ سے بیگانہ ہو جائے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے اور اپنے سے غیر میں فرق نہ کر سکے‘ یعنی انسان ایک حقیقت رکھتا ہے‘ ایک اس کی حقیقی ”میں“ اور ”خود“ یعنی ذات ہے اور دوسرا ”ناخود“، یعنی ”نخود“ کو جو کہ وہ ”خود“ نہیں ہے‘ اشتباہاً ”خود“ سمجھنے لگتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے لئے اور ”خود“ کے لئے کام کرے‘ اس ”ناخود“ کے لئے کرنے لگتا۔ اس مسئلے پر ہم نے اجمالی طور پر کتاب ”سیری در نہج البلاغہ“ میں گفتگو کی ہے۔

خود بیگانگی اور خود فراموشی

مجھے یاد ہے کہ بیس سال پہلے تہران آنے کے دو سال بعد‘ میں ۱۳۳۱ ھ شمسی ۱۹۵۱ ء میں‘ میں تہران میں منتقل ہوا تھا‘ تو ایک تاجر دوست کے گھر میں قرآن کریم کی کچھ منتخب آیات کی روشنی میں واعظ و نصیحت کی محفل ہوا کرتی تھی‘ اس موقع پر پہلی بار مجھ پر یہ مسئلہ روشن ہوا۔ قرآن کریم سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ انسان پر کبھی ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ سے دور ہو جاتا ہے‘ وہاں پر میں اسے ”فاصلہ“ کے لفظ سے تعبیر کرتا تھا‘ اپنے آپ سے دور ہو جانے کی یہ تعبیر قرآن میں متعدد مقامات پر آئی ہے۔ اپنے آپ کو ”ہار جانا“ ہار جانا اسی معنی میں کہ جو جوئے میں استعمال ہوتا ہے یا کسی معاملے میں کہا جائے کہ فلاں شخص ”ہار گیا“ ہے‘ جبکہ انسان کے لئے اس بات کا یقین کرنا بہت مشکل ہے‘ کیونکہ یہ تو ہوا کہ انسان کوئی چیز ہار گیا جو اس کی ملکیت میں تھی‘ لیکن یہ کہ اپنے آپ کو ہار بیٹھے‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ قرآن میں ارشاد ہوتاہے:

قل ان الخارسرین الذین خسروا انفسهم

”کہہ دیجئے! ہار جانے والے تو بس وہ ہیں‘ یعنی حقیقی ہار جانے والے وہ لوگ ہیں‘ جو اپنے آپ کو گنوا بیٹھے ہیں۔“

یعنی جو شخص مال ہار جائے وہ حقیقی ہار جانے والا نہیں ہے‘ یہ تو کوئی اہم چیز نہیں ہے‘ حقیقی زیاں کار تو وہ ہے کہ جو اپنے آپ کو کھو دے۔ ”خود کو بھول جانا“ یعنی خود فراموشی فلسفیانہ نکتہ نظر سے اس بات کا تصور بھی بہت مشکل ہے‘ کیونکہ اپنے بارے میں انسان کا علم‘ علم حضوری ہے اور علم حضوری قابل فراموش نہیں ہے۔ علم حصولی قابل فراموش ہے‘ یعنی اصلاً انسان جو ہر ذات علم ہے اور وہ خود دراصل وہی کچھ ہے جو اس کا اپنے بارے میں علم ہے۔

مولانا روم کا قول

اپنے آپ کو گنوا دینا اپنے تئیں فراموش کر دینا‘ یہ بات اسی زمانہ میں میرے لئے ایک فکر کی بنیاد بن گئی۔ البتہ بعد میں‘ میں نے دیکھا کہ حکماء اور خاص طور پر عرفاء اسلام اس مطلب کا ہم سے سالہا سال پہلے ادراک کر چکے ہیں اور انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے‘ اس حوالہ سے کہ انسان کا حقیقی ”میں“ کیا ہے؟ اور کون ہے؟ بلکہ عرفان کی اس میں حقیقی ”میں“ اور حقیقی ”خود“ کی تلاش پر استوار ہے‘ یعنی خیالی ”خود“ اور خیالی ”میں“ کے پردوں کو ہٹا کر حقیقی ”میں“ تک پہنچنے پر ”اپنے آپ کو کھو دینا“، ”اپنے آپ کو ہار بیٹھنا“، ”اپنے آپ کو گنوا بیٹھنا“، اس بات کا ایک خاص مفہوم ہے کہ جس کو ان لوگوں نے قرآن سے بہت اچھی طرح اخذ کیا ہے اور پھر اس کی شرح اور تفسیر خوب کی ہے‘ وہ مولانا روم نے بیان کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اپنی بات تمثیل کی صورت میں بیان کرتے ہیں‘ اس سلسلے میں اپنی (اپنے) ”دانی خود“ (ادنا پن) کو اپنی (اپنا) ”عالی خود“ (اعلیٰ پن) سمجھ بیٹھتا ہے یا یوں کہئے کہ اپنے نفسانی اور جسمانی پہلو کو روحانی اور معنوی پہلو کی بجائے حقیقی ”خود“ سمجھنے لگتا ہے‘ جبکہ اس کی حقیقی ”خود“ اس کا روحانی پہلو ہی ہے۔ مولوی مثال اس طرح سے بیان کرتے ہیں‘ فرض کریں کہ ایک شخص کے پاس کچھ زمین ہے اور وہ اس زمین پر عمارت بنانا شروع کر دیتا ہے۔ ریت‘ سیمنٹ‘ مٹی‘ لکڑی‘ لوہا اور تعمیر کا سارا سامان لے کر آتا ہے اور پھر ایک انتہائی خوبصورت گھر بناتا ہے‘ پھر اگلے دن اس گھر میں منتقل ہونا چاہتا ہے اور جب اس گھر میں ساز و سامان رکھنے لگتا ہے تو ایک دم متوجہ ہوتا ہے کہ گھر تو اس نے ہمسایہ کی زمین پر بنا دیا ہے‘ بڑی غلطی ہوئی۔ وہ دیکھتا ہے کہ جو زمین اس کی ملکیت ہے‘ وہ خالی پڑی ہے اور جو کچھ بھی اس نے بنایا ہے وہ دوسرے کی زمین پر بنا دیا ہے۔

قانون کے مطابق اسے حق نہیں پہنچتا کہ ہمسایہ سے کچھ لے‘ کیونکہ ہمسایہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تو نہیں کہا تھا کہ اسے بناؤ‘ بلکہ تم نے خود ہی میری اجازت کے بغیر ایسے بنایا ہے‘ تم اپنی عمارت اٹھا کے لے جاؤ۔ اب اگر وہ اس گھر کو گرانا چاہے تو پھر مزید رقم خرچ کرنا پڑے گی‘ لیکن اب وہ مجبور ہے کہ اسے یونہی رہنے دے اور چلا جائے۔ مولوی ایسی لطیف چیزوں کو ایک عجیب روحانی کیفیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۱۱

در زمین دیگران خانہ مکن

کار خود کن کار بیگانہ مکن

کیست بیگانہ تن خاکی تو

کز برائی اوست غمناکی تو

”دوسروں کی زمین پر گھر مت بنا‘ اپنا کام انجام دے‘ غیر کا کام نہ کرتا پھر‘ غیر کون ہے؟ تیرا جسم خاکی کہ جس کے لئے تو پریشان ہے۔“

کہتے ہیں‘ ایک عمر تک تو اپنے جسم اور نفس کے لئے کام کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تو ”خود“ کے لئے کام کر رہا ہے ۱۱

تا تو تن را چرب و شیرین می دھی

گوہر جان را نیابی فر بہی

گرمیان مشک تن را جا شود

وقت مردن گند آن پیدا شود

”جب تک تو اپنے جسم کو مرغن اور میٹھی چیزیں کھلاتا رہے گا‘ اپنے گوہر جاں اور روح کو صحت مند نہیں بنا سکتا۔ اگر جسم کو خوشبوددار رکھا جائے تب بھی مرنے کے بعد اس میں بدبو پیدا ہو جائے گی۔“

مشک را برتن مزن برجان بمال

مشک چہ بود؟ نام پاک ذوالجلال

”اپنے جسم پر خوشبو نہ لگا‘ بلکہ اپنی روح کو خوشبودار کر اور (روح کیلئے) خوشبو کیا ہے؟ (اللہ) ذوالجلال کا پاک نام۔“

جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد (باری تعالیٰ) ہے:

ولا تکونوا کا الذین نسوا الله فانسیهم انفسهم (حشر‘ ۱۹)

”ان لوگوں کی مانند نہ ہو جاؤ کہ جو اللہ کو بھول گئے اور نتیجتاً اللہ نے انہیں خود ان کا اپنا آپ فراموش کروا دیا۔“

قرآن ”خود کو پانے“ اور ”خدا کے پانے“ کو لازم و ملزوم سمجھتا ہے۔ قرآن کے بقول صرف انہی نے اپنے آپ کو پایا ہے کہ جنہوں نے خدا کو پایا ہے اور جنہوں نے خدا کو پایا ہے‘ انہی نے اپنے آپ کو پایا ہے:

من عرف نفسه عرف ربه

اور اسی کے متقابل:

من عرف ربه عرف نفسه

قرآنی منطق کے مطابق ان دونوں میں جدائی ممکن نہیں‘ کیونکہ انسان اگر یہ خیال کرے کہ اس نے اپنے آپ کو پا لیا ہے‘ جبکہ اس نے خدا کو نہ پایا ہو تو اس کا خیال غلط ہے‘ یہ بات معارف قرآن کی بنیادوں میں سے ہے۔

جسے آج کل اپنے سے بیگانگی یا صحیح تر الفاظ میں اپنے ساتھ بیگانگی کہا جاتا ہے‘ معارف اسلامی میں اس مسئلہ پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور بہت کچھ کہا بھی جا چکا ہے۔

یہ کس سلسلہ قرآن سے شروع ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ ہزار سال سے زیادہ کا سابقہ رکھتا ہے اور اس کا ایک اپنا مخصوص سفر ہے۔ یورپ میں یہ بات ہیگل سے شروع ہوتی ہے‘ ہیگل کے بعد دیگر مکاتب نے بھی اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے‘ بغیر اس کے کہ انہوں نے خود کو پہچانا‘ کیونکہ خود بیگانگی کے مسئلہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود کیا ہے‘ جس سے بیگانگی کی بات کی جاتی ہے؟ آخر آپ کہتے ہیں کہ انسان خود سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ پہلے ہمیں اس ”خود“ کی تو پہچان کروائیں کہ وہ خود کیا ہے؟ تاکہ خود بیگانگی ہمارے لئے مشخص ہو سکے‘ جبکہ صورت حال تو یہ ہے کہ بغیر ”خود“ پر گفتگو کئے ہوئے اور بغیر اس ”خود“ کو پہچانے ہوئے‘ بلکہ اس ”خود“ کی نفی کرتے ہوئے خود بیگانگی کا قصہ لے بیٹھتے ہیں۔

ان مادی فلسفوں کی اساس یہ ہے کہ اصلاً ”خود“ ایک امر اعتباری اور فرضی ہے۔ تمام مادی فلسفوں کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کی کوئی ”خود“ نہیں ہے کہ جسے آپ ”خود“ خیال کر سکتے ہیں‘ بلکہ یہ ایک اشتراکی اور ماخوذ مفہوم ہے‘ یہ دائمی تصورات کا ایک سلسلہ ہے‘ یہ تصورات آتے ہیں اور گزرتے چلے جاتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک ”خود“ بھی موجود ہے‘ یعنی کوئی ”خود“ موجود نہیں۔ یہ ہے ان لوگوں کا نظریہ‘ ایک طرف تو ان کے فلسفہ کی بنیاد یہ ہے کہ اصلاً کوئی خود موجود ہی نہیں ہے اور دوسری طرف لوگوں کے لئے خود بیگانگی کا فلسفہ گھڑنے لگے ہیں اور یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔

فویرباخ کی نظر میں دین کا نقطہ آغاز

فویرباخ ایک مادی فلسفی ہے۔ اس نے ایک عجیب بات کی ہے کہ دین اور مذہب کی اسی مذکورہ بنیاد پر ایک نفسیاتی اور عمرانی ( Psychological & Sociological ) استدلال پیش کرتے ہوئے شروع ہی سے یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ مذہب کی کوئی منطقی بنیاد نہیں۔ کہتا ہے کہ انسان کے دو قسم کے وجود ہیں‘ یہ بات بھی خود اس نے مذہب ہی سے لی ہے‘ انسان کا ایک وجود عالی ہے اور دوسرا پست‘ ہم اسے علوی پہلو اور سفلی پہلو کہتے ہیں۔ سفلی پہلو سے مراد انسان کا حیوانی پہلو ہے‘ اس پہلو سے اسے کھانے‘ سونے‘ غصہ کرنے اور خواہشات کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا‘ علوی پہلو سے مراد اس کی انسانیت ہے۔ فویرباخ بھی انسانی وجود کا حصہ سمجھتا ہے اور مجبوراً وہ اس پہلو ”اصالت“ کا قائل ہو گیا ہے‘ یہ وہی پہلو ہے کہ جو فضیلتوں کے ایک طویل سلسلے پر مبنی ہے۔ شرافت‘ کرامت‘ بزرگواری‘ رحمت‘ بھلائی‘ اچھائی‘ ان سب کا ذکر اسی پہلو کے ذیل میں آتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے اور اسے ضرور کہنا ہی چاہئے تھا کہ سب انسان ایسے ہوتے ہیں۔ کہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو پستیوں کے حوالے کر دیتا ہے‘ یعنی اپنے سفلی پہلو کے تابع ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ وہ علوی وجود سے ہم آہنگ نہیں ہے‘ اب چونکہ وہ خود ایک پست اور انحطاط یافتہ حیوان بن چکا ہے‘ جبکہ خود اس کے اندر وہ خوبیاں اور کمالات بھی موجود ہیں تو وہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ مجھ سے ماوراء ہیں‘ پس وہ خود کو اپنے ہی وجود کی بنیاد پر گھڑ لیتا ہے۔ ایک انگریز فلسفی کا کہنا ہے کہ تورات میں آیا ہے:

ان الله خلق آدم علی صورته

”یعنی خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔“

مراد یہ ہے کہ آدم کو اس نے اپنے صفات کمالیہ کا نمونہ قرار دیا ہے۔

اس انگریز فلسفی نے تو یہ کہہ دیا ہے‘ لیکن مسئلہ اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ اللہ نے انسان کو اپنی سیرت کے مطابق بنایا ہے‘ یعنی انسان اپنی ذات میں کمال کے ایک پہلو کا حامل ہے‘ وہ پہلو کہ جس میں تمام تر شرافت‘ کمال اور رحمت موجود ہے۔ اس پہلو کو اس نے اپنے آپ سے جدا کر دیا ہے‘ اس طرح سے انسان اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا اور پھر وہ سوچنے لگا کہ یہ ساری خوبیاں اس وجود کی ہیں‘ جو مجھ سے ماوراء ہے اور اس نے یہ نہ سوچا کہ یہ سب تو اس کے اندر موجود ہے۔

فویرباخ کے بقول یہی وہ مرحلہ ہے کہ جہاں انسان خود اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا‘ یعنی اس کے اندر جو امور موجود تھے‘ ان میں سے کچھ کو اپنے وجود سے جدا کر لیا اور فرض کر لیا کہ یہ سب کچھ اس کے ماوراء وجود میں ہے‘ لیکن کہتا ہے کہ تدریجاً یہی ماوراء نزدیک ہو گیا ہے کہ جو پہلے انسان سے دور ہوا تھا۔ بدوی اور قبائلی دور کے مذاہب میں دیوتاؤں (خداؤں) میں دور تھا‘ بعد میں یہودیوں کا خدا نزدیک ہو گیا‘ یہودیوں کا خدا انسان جیسا ہو گیا۔ اس خدا میں انسانوں جیسے احساسات‘ جذبات‘ غصہ اور رضامندی موجود ہیں۔ مسیحیت میں اس سے بھی نزدیک تر ہو گیا‘ یعنی انسانی شکل میں آ گیا جو مسیح ہے اور مسیح خدا ہو گیا‘ درحقیقت اس نے ایک دائرہ کا سفر طے کیا ہے۔ پہلے انسان نے اپنے آپ سے ان صفات کو جدا کیا اور پھر انہیں دور اور بہت دور فرض کر لیا۔ اس طرح سے دور کے اس موجود میں اور انسان میں کوئی رابطہ ہی نہ تھا اور آہستہ آہستہ وہ موجود انسان کی طرف لوٹ آیا‘ مسیح تک آ پہنچا‘ یعنی بہت نزدیک ہو گیا اور ایک انسان ہی خدا ہو گیا۔

چونکہ مسیحیت میں مسیح ہی خدا ہے‘ یعنی ایک ہی وقت میں انسان بھی ہے اور خدا بھی۔ بس ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے‘ انسان جس قدر اپنے آپ کو پہچانتا جاتا ہے‘ اتنا ہی اپنے آپ کو اس خود بیگانگی سے دور کرتا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کہتا ہے کہ دراصل میں خود ہی ہوں اور یہ سب صفات میری ہی ہیں‘ پھر ایک قدم بھی باقی نہیں رہتا۔ جبکہ اسلام مسیحیت کے بعد آیا ہے اور مسیحیت سے زیادہ تکامل یافتہ (تمام ارتقائی مراحل طے کئے ہونا) اس کے باوجود اس نے خدا کے اس انسانی پہلو کی یا ایک انسان کے خدا ہونے کی کہ جیسے مسیح کو قرار دیا جا رہا تھا‘ یعنی مسیح کی الوہیت اور ابن الہلیت (خدا کا بیٹا سمجھنا) کی شدت سے نفی کی ہے۔ مسٹر فویرباخ کے اس نظریے کے مطابق مذہب جلد ہی نابود اور ختم ہو جائے گا‘ یعنی انسان جس قدر اپنے آپ کو پہچانتا جاتا ہے‘ خدا کی ضرورت اس کے لئے کم ہوتی جاتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو صحیح طور پر پہچان لے تو مذہب کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی‘ پھر بجائے اس کے کہ انسان خدا کی پرستش (عبادت) کرے‘ اپنے آپ کو پوجنے لگتا ہے۔ خدا کی حمد و ثناء کرنے کی بجائے اپنی تعریف و مدح کرنے لگتا ہے۔

نظریہ فویر باخ پر تنقید

یہ نظریہ ایک تو اس حوالے سے رد ہو جاتا ہے کہ فویرباخ سے کہا جائے کہ آپ تو سرے سے خدا کو مانتے ہی نہیں‘ لہٰذا بطریق اولیٰ (بنیادی طور پر) آپ کے نزدیک انسان سو فیصد ایک مادی وجود ہے‘ لہٰذا آپ نے جو وجود انسانی کے دو پہلو بیان کئے ہیں‘ آپ اس دوگانگی کا کیسے استدلال پیش کریں گے؟ ان دو پہلوؤں کو مذاہب ہی بیان کر سکتے ہیں‘ کیونکہ وہی انسان کو ایک حقیقت خاکی اور ایک حقیقت ملکوتی کا مرکب جانتے ہیں۔

فاذا سویته و نفخت فیه من روحی (ص‘ ۷۲)

ایک طرف سے تو ”سویتہ“ یعنی اسے میں نے کامل کر دیا‘ تمام ضروریات کے حوالے سے اس کی تکمیل کی۔ اس کے بعد کچھ اور بھی ہے اور وہ ہے ”و نفخت فیہ من روحی“ ”اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی“۔ اسی طرح ایک تعبیر سورہ ”قد افلح المومنون“ ہے:

و لقد خلقنا الانسان من سلالة من طین (مومنون‘ ۱۲‘ ۱۴)

یہاں تک کہ ارشاد ہوتا ہے:

ثم انشئناه خلقا اخر

”پھر اسے ہم نے ایک اور خلقت عطا کی۔“

یہ ”ایک اور خلقت“ اہل مذاہب تو کہہ سکتے ہیں‘ لیکن تم اسے کیونکر بیان کر سکتے ہو؟ دوسرے یہ کہ اس نظریے کے مطابق ہمیں یہ قبول کرنا پڑے گا کہ کوئی بھی انسان اس دنیا میں اپنی حقیقی منزلت و حیثیت پر باقی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اپنی ذات میں دوگانگی کا حامل ہے‘ بعد میں جب انسان سماجی زندگی میں انحطاط پذیر ہوتا ہے تو اس پست اور حیوانی پہلو کی طرف گر جاتا ہے‘ اپنے بلند و برتر پہلو کو اپنے وجود سے جدا کر دیتا ہے‘ یہیں سے مذہب پر اعتقاد جنم لیتا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم سب انسانوں کو حیوانیت میں گرا ہوا فرض کریں اور پھر ان سب تنزل یافتگان کو مذہبی فرض کریں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے دو طرح کے رہے ہیں اور اسی طرح سے جو انسان حیوانیت میں جا گرے ہیں‘ وہ بھی۔ دوسری طرف ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جن لوگوں کا رجحان مذہب کی طرف ہوتا ہے‘ وہ کس طرح کے ہوتے ہیں؟ دنیا میں مذہب کے خواہشمند ہمیشہ کس طرح کے لوگ رہے ہیں؟ جبکہ یہ بات خود ہمارے دلائل میں سے ایک ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ شریف ہوتے ہیں‘ جن میں انسانی اقدار باقی ہوتی ہیں‘ کیا ان کا مذہب کی طرف رجحان ہوتا ہے یا ان لوگوں کا جو حیوانیت میں جا گرے ہوتے ہیں؟ یہ تو ایسی بات ہے کہ جس کا غیر مذہبی لوگ تک انکار نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کہتے ہیں‘ اگر دیکھیں کہ لوگ مذہبی ہیں تو یہ مذہبی ہونا ان کی ذاتی شرافت کا نتیجہ ہے‘ جس مذہب کی طرف ان کا رجحان ہے‘ یہ اس سے مربوط نہیں ہے‘ بلکہ یہ ان کی شرافت سے مربوط ہے‘ بلکہ مذہب کے خواہشمند ہمیشہ شریف النفس انسانوں میں سے ہوتے ہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ چونکہ انسان اپنی شرافت سے تہی دامن ہو جاتا ہے اور حیوانیت میں جا گرتا ہے‘ یہ امر اللہ پر اعتقاد اور ایمان کی بنیاد بن جاتا ہے۔ جبکہ مسئلہ اس کے برعکس ہے‘ جن لوگوں کے اندر احساس شرافت زندہ ہو اور وہ انسانی اصالتوں پر باقی ہوں‘ وہی اللہ پر اعتقاد اور ایمان رکھتے ہیں اور وہی مذہب کے اصولوں کو مانتے ہیں‘ بہرحال ان صاحب کا نظریہ ایک منسوخ نظریہ ہے۔


11

12

13

14

15