فطرت

فطرت 0%

فطرت مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

فطرت

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 19726
ڈاؤنلوڈ: 2802

تبصرے:

فطرت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 19726 / ڈاؤنلوڈ: 2802
سائز سائز سائز
فطرت

فطرت

مؤلف:
اردو

خواہشات سے متعلق انسانی فطرت (فطریات)

بحث کا دوسرا حصہ خواہشات سے متعلق انسانی فطرت کے بارے میں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان خواہشوں کے بارے میں کچھ فطریات رکھتا ہے یا نہیں؟ پہلا حصہ شناخت کے بارے میں تھا اور یہ حصہ خواہش کے بارے میں ہے اس حصے کو پہلے میں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ مجھے یہاں لفظ کے بارے میں بحث کرنا مقصود نہیں ہے یہاں لفظ غریزہ (جبلت) کہنا چاہئے یا فطرت یا کوئی اور لفظ اس بات سے سروکار نہیں ہے۔ بہرحال انسان کی فطری یا جبلی خواہشات دو طرح کی ہیں ایک جسمانی اور دوسری روحانی۔ جسمانی خواہش سے مراد وہ خواہشات ہیں کہ جو سو فیصد جسم سے وابستہ ہوں جیسے بھوک یا پیاس غذا کی خواہش بھوک کے بعد انسان میں غذا کی خواہش کا پیدا ہونا یہ امر بالکل معدی اور جسمانی ہے اور یہ ایسی جبلت ہے کہ جو انسان اور ہر حیوان کے بدن کی ساخت سے مربوط ہے۔ اس کیفیت کے لئے قدماء نے ”بدل مایتحلل“ کی اصطلاح استعمال کی ہے یعنی جب غذا ہضم ہو جاتی ہے تو مزید غذا کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور اس طرح معدے میں ایک خاص قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہ احساس کی صورت میں انسانی شعور میں عکس انداز ہوتی ہے چاہے انسان کو اس کا علم بھی نہ ہو کہ اس کا کوئی معدہ بھی ہے۔ جیسے بچہ ہوتا ہے پھر وہ اس کے بعد اپنے اس احساس کی تسکین کے لئے غذا کھانا شروع کر دیتا ہے جس کے بعد وہ احساس بھی جاتا رہتا ہے بلکہ ایک حالت نفرت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی حالت جنسی جذبے کی ہے جنسی جذبہ جہاں تک شہوت سے مربوط ہے اور جہاں تک جسم کے Hormons اور غدودوں کے ترشحات سے مربوط ہے شک نہیں ہے کہ یہ ایک جبلی (ہم نے متعدد مقامات پر لفظ غریزہ کا ترجمہ جبلت کیا ہے) امر ہے (عشق محملہ کے بارے میں یہ بحث ہے کہ کیا عشق اور شہوت ایک ہی چیز ہیں یا دو مختلف چیزیں ہیں اور دو انسانوں کے درمیان جو عشق ہوتا ہے اسے شہوت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ہم فی الحال ان امور کو آپس میں نہیں ملاتے) خواہ اس کا نام فطری رکھا جائے یا نہ یعنی یہ ایک ایسا امر ہے کہ جو کسبی نہیں ہے اور انسانی جسم کی ساخت سے مربوط ہے۔ اسی طرح ”نیند“ بھی ہے نیند کی ماہیت کچھ بھی ہو چاہے یہ جسم کے خلیوں کی تھکاوٹ اور خستگی یا زیادہ کام کی وجہ سے ان کے مسموم ہو جانے (زہرآلود ہو جانا) یا پھر انسان کی جسمانی توانائی کے صرف ہو جانے کے بعد دوبارہ توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہو اس کی جو بھی تعبیر پیش کی جائے انسانی جسم کی ساخت سے مربوط ہے۔ ان تمام امور کو عموماً جبلی امور کہتے ہیں۔

فی الحال ہماری بحث ان جبلی یا جسمانی و فطری امور کے بارے میں نہیں ہے یہ مسئلہ ہماری بحث سے خارج ہے۔ انسانی خواہشات اور رجحانات کے بارے میں بعض غریزے یا فطری امور ایسے ہیں جنہیں علم نفسیات ”روحانی امور“ کا نام دیتا ہے ان سے پیدا ہونے والی لذتوں کو وہ روحانی لذتیں کہتا ہے۔

جیسے اولاد کے لئے انسان کی خواہش اولاد کی خواہش جنسی جبلت سے مختلف ہے کیونکہ جنسی جبلت تو تسکین شہوت سے مربوط ہے اس خواہش سے ماورا ہر کسی کے اندر اولاد کی خواہش ہوتی ہے۔ اولاد ہونے سے انسان کو جو کیف و مسرت حاصل ہوتی ہے وہ ایک جسمانی لذت نہیں ہے اور انسان کے کسی عضو سے وابستہ نہیں ہے۔ رہا وہ فرق جو ماہرین نفسیات نے روحانی لذتوں اور جسمانی لذتوں میں روا رکھا ہے وہ ایک الگ بحث ہے جو ہماری گفتگو کا موضوع نہیں ہے۔ دوسروں پر بالادستی اور اقتدار و حاکمیت کی خواہش کا جذبہ بھی انسان کے اندر ایک روحانی پہلو رکھتا ہے یہاں تک کہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس کی کوئی انتہا نہیں۔ سعدی کہتا ہے:

نیم تانی گر خورد مرد خدائی

بذل درویشان کند نیم دگر

ہفت اقلیم ارگیرد بادشاہ

ھمچنان در بند اقلیمی دگر

”اگر کوئی عارف باللہ آدھی روٹی کھائے تو باقی آدھی وہ محتاجوں کو دے دیتا ہے جبکہ اگر کوئی بادشاہ سات ملکوں پر قابض ہو جائے تو پھر بھی ایک اور ملک پر قبضہ جمانے کی خواہش رکھتا ہے۔“

اگر کوئی انسان خواہش اقتدار اور بالادستی کے راستے پر چل نکلے تو پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اگر ساری زمین اس کے زیرنگیں ہو جائے تو بھی اگر اسے معلوم ہو جائے کہ کسی اور اقلیم پر بھی انسان آباد ہیں یا کہیں اور بھی کوئی تمدن ہے اور کہیں اور بھی اقتدار کی گنجائش ہے تو وہ اس فکر میں ہو گا کہ وہاں بھی لشکرکشی کرے اور وہاں بھی اپنا اقتدار قائم کرے۔ انسان کے اندر حقیقت خواہی حقیقت تک رسائی علم دانائی کشف حقائق ہنر حسن خلاقیت تخلیق و ایجاد آفرینش اور ان سب سے بڑھ کر وہ کہ جسے ہم عشق و پرستش کہتے ہیں کا جذبہ موجود ہے۔ ہاں حقیقی پرستش وہی ہے جو عشق کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے وہ عبادتیں کہ جو لالچ یا خوف کے سبب ہوتی ہیں اسلام کی نظر میں بھی ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں یعنی ان کی اہمیت صرف مقدماتی اور ابتدائی ہے اور اس لئے ہے کہ بعد میں انسان ایک بالاتر مرحلے پر پہنچ جائے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان چھوٹے بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے یا لالچ دے کر مدرسے یا سکول بھیجتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ سکول یا مدرسے میں جانا کوئی ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی کوئی قیمت طے ہو سکتی ہو اور اس کے لئے بچے کو کوئی مزدوری دی جانا چاہئے۔

درحقیقت ایسا نہیں ہے اس چیز کی ذاتی اہمیت نہیں ہے لیکن اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ بچہ ابھی عقل و شعور کے مرحلے تک نہیں پہنچا ہوتا اس لئے اسے بہلا پھسلا کر اسے کوئی ٹافی یا بسکٹ دے کر یا بچوں والی سائیکل خرید کر دی جائے تاکہ وہ سکول جائے۔

یہ خواہشات و رجحانات کا ایک سلسلہ ہے ان کے بارے میں ہم بعد میں بحث کریں گے کہ آیا یہ خواہشات فطری ہیں یا نہیں! علم و ادراک کے حوالے سے فطریات کا انکار کر کے ہم ایک خطرناک وادی تک آ پہنچتے ہیں۔ یہ خطرناک وادی شکِ مطلق ہے شک بھی وہ جو ہمیں سوفسطائیت تک لے جاتا ہے یعنی مکمل طور پر مسلم اور ادراکِ حقیقت کی نفی تک۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خواہشات میں سے کچھ بھی خواہشات فطری بھی ہیں یا نہیں۔

اس سلسلے میں بھی اسی طریقے سے بحث کریں گے اس سے پہلے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ ہم کچھ فطری خواہشات رکھتے ہیں ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ اگر ہم ایسی خواہشات رکھتے ہوں تو ہم کہاں پہنچیں گے اور ہمارے ہاتھ کیا آئے گا؟ اور اگر ہم ایسی خواہشات کے حامل نہ ہوں تو ہمارے پاس کیا باقی رہتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جیسے بعض لوگ فکر کے اصول اولیہ (بنیادی) کا انکار کرتے ہیں اور اس کے باوجود اس کی شاخوں سے وابستہ ہیں؟ اس مقام پر بھی ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے کہ جو فطریات کا اور ان اصولوں کا انکار کرنے کے باوجود اور جڑوں کو کاٹنے کے باوجود شاخوں سے چمٹے ہوئے ہیں پھر شاخوں سے ان کی وابستگی بھی انتہائی شدید ہے اور خود انہیں بھی خبر نہیں ہے کہ خود انہوں نے اس کی جڑوں کو کاٹ دیا ہے۔ اس امر کا جائزہ لینے کے بعد پھر ہم مابعد کے مرحلے میں داخل ہوں گے یعنی اس مسئلے کو ثابت کرنے کے مرحلے میں۔

اب ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ میں علم فطریات (فطری رجحانات) کا قائل نہیں یعنی میرا نظریہ سوفسطائی اور شک مطلق کا ہی ہے اور پھر وہ یہ بھی کہے کہ خواہشات اور رجحانات میں بھی میں فطریات کا قائل نہیں اور انسانی امتیازات یکسر طور پر مانتا ہی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ہم سے یہ کہے کہ منطق کے ماہرین جسے جدل کہتے ہیں تم اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہو یعنی وہی امور کہ جو وہ لوگ مانتے ہیں انہی سے کام لینا چاہتے ہو جبکہ ہم انہیں ہرگز نہیں مانتے جنہیں وہ قبول کرتے ہیں۔ پھر وہ ہمیں یہ کہے کہ کیا ایسی صورت میں ہمارے لئے ان فطریات کا اثبات پیش کر سکتے ہو یا نہیں؟ تو ہم عرض کریں گے کہ ہاں! ہم ثابت کر سکتے ہیں اور یہ بات ثابت کرنے کے بعد دیگر موضوعات پر گفتگو کریں گے۔