فطرت

فطرت 0%

فطرت مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

فطرت

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 19676
ڈاؤنلوڈ: 2758

تبصرے:

فطرت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 19676 / ڈاؤنلوڈ: 2758
سائز سائز سائز
فطرت

فطرت

مؤلف:
اردو

باب ششتم

انسانی ”اصالتوں“ کا ارتقاء”انسانی اقدار کا ارتقاء“

ہم جن چیزوں کو انسانی اصالتوں اور انسانی شرف و کرامت کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ انسانی اصالتوں کے منکر حضرات کی نظر میں یہ محض موہوم سی چیزیں ہیں‘ البتہ ان حضرات میں سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض موہومات ایسی بھی ہیں کہ انسانی معاشرے کی مصلحتیں اور منافع تقاضا کرتے ہیں کہ ان کو قبول کر لیا جائے ورنہ ان کی اپنی کوئی حقیقت نہیں‘ مثلاً صداقت کی دھوکے اور فریب کاری کے مقابلے میں کوئی اصالت نہیں ہے۔ وہ انسان جو سوچتا ہے کہ سچا ہو یا دھوکے باز‘ اس کے لئے ان دونوں میں کچھ فرق نہیں‘ اگر تمام لوگ دھوکے باز ہو جائیں تو یہ سب کے ضرر میں ہو گا۔ اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ بہتر اور زیادہ منفعت حاصل کریں اور نقصان کمتر ہو تو ضروری ہے کہ ان موہومات کو قبول کریں‘ لہٰذا فلاسفہ آئے اور انہوں نے لوگوں کو اس بات کی تلقین کی کہ شرف انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سچا ہو نہ کہ دھوکے باز‘ تاکہ لوگوں کے شعور ان موہومات کو قبول کریں۔ منکر گروہ کے نزدیک یہ ایسے موہومات ہیں کہ جو لوگوں کے لئے مفید ہیں‘ لیکن وہ ان کی ترغیب نہیں دیتے‘ بلکہ برعکس ترغیب دیتے ہیں۔ مثلاً نٹشے کا فلسفہ کہ جو کہتا ہے کہ ان موہومات کو ایک خاص گروہ نے اپنے منافع کے لئے گھڑا ہے اور ان کے برعکس عمل کر سکتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ ان کے خلاف ہی عمل کرے۔

نٹشے اور سٹاکسسٹوں کے نظریات کا تقابل

پس دوسرا نظریہ ان تمام چیزوں کو موہوم قرار دیتا ہے‘ چاہے یہ انسانیت کے لئے مفید ثابت ہوں یا اصلاً مفید ہی نہ ہوں۔ اس ضمن میں نٹشے کا ایک قول ہے کہ جو عیناً مارکسسٹوں کے نظریات کے برعکس ہے۔ مارکسسٹ کہتے ہیں کہ ثروت مند طبقے نے اخلاقی قوانین اور خصوصاً اخلاق کے دینی اور مذہبی اصولوں کو محروم اور غریب طبقے کی تسکین کے لئے تخلیق کیا ہے تاکہ ان کی شورش (فتنہ و فساد ”بلوائی“) اور انقلاب کی روک تھام کر سکیں‘ پس دین کو اسی طبقے نے گھڑا ہے۔ نٹشے بالکل اس کے برعکس کہتا ہے‘ اس کے فلسفے کی بنیاد چونکہ انسانی نسل کے ارتقاء اور ایک طاقتور بڑے انسان (فوق البشر) کے ظہور پر ہے (جبکہ اس کمال و ارتقاء کو وہ صرف طاقت و قدرت میں ہی مضمر سمجھتا ہے)‘ لہٰذا کہتا ہے کہ کمزور طبقہ طبیعی طور پر فنا کے قابل ہے‘ چنانچہ اس نے دین‘ اخلاق اور ایسے دیگر مسائل کو گھڑا ہے تاکہ طاقتور طبقے کا راستہ روک سکے۔ " Nature " ”طبیعت“ کے قانون ارتقاء کی رو سے کمزور بنیادی طور پر ختم ہو جانے کے قابل ہے اور اسے ختم ہی ہو جانا چاہئے۔ ضعف و کمزوری سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں‘ قوی کو باقی رہنا چاہئے تاکہ اس سے ایک قوی تر نسل وجود میں آئے اور قوی انسانوں کو طبیعت اور نیچر میں کمال حاصل کرنا چاہئے‘ نہ کہ کمزور انسانوں کو۔ کمزور لوگوں کا وجود نابود ہو جانے کے قابل ہیں اور انہیں نابود ہی ہو جانا چاہئے‘ کمزور کی تقویت کرنا نہایت غلط کام ہے۔ دین‘ مذہب‘ انصاف‘ عدالت‘ فداکاری‘ ایثار اور قربانی وغیرہ جیسے مفاہیم کمزور لوگوں کی اختراع (ایجاد) ہیں‘ کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ وہ زور کے ذریعے طاقتوروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ لہٰذا انہوں نے ایسی باتیں گھڑ لی ہیں اور اس طرح سے وہ طاقتوروں کی ترقی میں حائل ہو گئے ہیں۔ اس کی منطق میں دین کمزوروں کا ساختہ و پرداختہ ہے‘ تاکہ وہ طاقتوروں کا راستہ روک سکیں‘ جبکہ حق ہمیشہ طاقتور کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ”الحکم لمن غلب“ حق اس کے ساتھ ہے کہ جو اس طبیعی تنازعے میں کامیاب ہے‘ لہٰذا نٹشے تمام دینی‘ مذہبی اور اخلاقی معانی اور مفاہیم کی بالکل نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ چیزیں کمال کے راستے میں حائل ہیں‘ بہرحال یہ دوسرا نظریہ ہے۔ البتہ اور نظریات بھی ہیں کہ جو انسانیت کی اصالت کو قبول کرتے ہیں‘ یعنی اسے موہوم نہیں سمجھتے‘ انسانیت کے ایک حقیقت ہونے کے قائل ہیں‘ یہ اور بات ہے کہ وہ اسے فطری بھی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ دو طرح کے ہیں‘ ایک گروہ انہی لوگوں کا ہے جو چاہتے ہیں کہ ان باتوں کو قبول کر لیں اور ان کے فطری ہونے کا بھی انکار کر دیں۔ پھر وہی پہلے والا سوال دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کائنات میں کوئی ثابت اور مستقل حقیقت موجود نہیں ہے‘ کوئی چیز بھی ثابت اور مستقل نہیں ہے‘ پس جب کوئی چیز بھی ثابت اور مستقل نہیں ہے تو انسانیت کیسے ثابت و مستقل ہے؟ انسانیت ”یعنی انسانی اصالتیں“ بھی ایک متغیر۔ حقیقت ہے کہ جو زمانے کے حالات اور تقاضوں کے تابع ہے‘ ہر زمانے میں انسانی اور اخلاقی اصالتیں اس زمانے کے حالات اور تقاضوں کے مطابق ہوتی ہیں۔ ایک زمانے میں ”اخلاقی اقدار واقعاً“ رہی ہوتی ہیں کہ جو مقدس بھی ہیں اور جو انسانیت سے تعبیر کی جاتی ہیں‘ لیکن جب زمانے کے حالات بدل جاتے ہیں تو یہ اقدار اور اصالتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں کہ اس زمانے میں انسانیت یہی نئی چیزیں ہوتی ہیں‘ پس یہ اصالتیں ثابت اور مستقل نہیں ہیں بلکہ متغیر ہیں۔ اس کے علاوہ جس طرح ہم پہلے عرض کر چکے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ اصالتیں مطلق نہیں ہیں‘ بلکہ نسبی ( Relative ) ہیں۔ یہ فقط زمانے کے اعتبار سے متغیر ہیں‘ بلکہ زمانِ واحد میں بھی مختلف ماحول اور مختلف حالات میں مختلف ہیں‘ مثلاً طبقاتی اختلاف اور فرق کو بھی مختلف اور متعدد بنا دیتا ہے۔ ہر انسان کے لئے اس کے اجتماعی اور سماجی حالات کے مطابق اخلاق ایک چیز ہے اور یہ چیز اس سے مختلف ہے کہ جو مختلف حالات میں دوسرے لوگوں کے لئے اخلاق ہے۔ اس بارے میں ہم پہلے بحث کر چکے ہیں‘ لہٰذا تکرار لازم نہیں ہے‘ صرف ایک چیز کا اضافہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے: