توضیح المسائل(آقائے فاضل لنكراني)

توضیح المسائل(آقائے فاضل لنكراني) 0%

توضیح المسائل(آقائے فاضل لنكراني) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

توضیح المسائل(آقائے فاضل لنكراني)

مؤلف: آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27210
ڈاؤنلوڈ: 2539

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے فاضل لنكراني)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27210 / ڈاؤنلوڈ: 2539
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے فاضل لنكراني)

توضیح المسائل(آقائے فاضل لنكراني)

مؤلف:
اردو

خمس کے احکام

مسئلہ ۱۸۱۱ ۔ خمس سات چیزوں پرواجب ہوتاہے :

۱ ۔ کاروبار کے منافع

۲ ۔ معدن (کان) ۔

۳ ۔ گنج (خزانہ)۔

۴ ۔ حلال مال جوحرام مال میں مخلوط ہوجائے۔

۵ ۔ دریامیں غوطہ خوری کے ذریعہ حاصل ہونے والے جواہرات۔

۶ ۔ جنگ کامال غنیمت ۔

۷ ۔ جوزمین مسلمان کافرذمی سے خریدے۔

ان سب کے احکام آئندہ مسائل میں بیان ہوں گے۔

۱ ۔ کاروبار کانفع

مسئلہ ۱۸۱۲ ۔ جب انسان تجارت یاصنعت یاکسی اورکاروبار سے کوئی مال حاصل کرتا ہے اگرچہ کسی میت کی نمازیاروزہ اجرت پرپڑھ کر اس سے کچھ مال حاصل کیاہو چنانچہ اس مال سے خو د اپنے اہل وعیال کے سالانہ اخراجات پرصرف کرنے کے بعدجوبچ جائے اس بچت میں سے خمس، یعنی پانچواں حصہ اس طریقے کے مطابق اداکرے جس کی تفصیل بعدمیں بیان ہوگی۔

مسئلہ ۱۸۱۳ ۔ اگرکسب کے بغیرکوئی مال ہاتھ آجائے، مثلا کوئی مال کسی نے اسے بخش دیاہوتواگرایسے مال سے سالانہ اخراجات نکال کر کوئی چیز بچ جائے تواس کاخمس بنابراحتیاط واجب اداکرے۔

مسئلہ ۱۸۱۴ ۔ عورت کوجومہر ملتاہے اس پرخمس واجب نہیں ہے اسی طرح وہ میراث جوکسی کوپہنچتی ہے لیکن اگرایسے شخص کاترکہ ورثہ مل جائے کہ جس سے بہت دوررکارشتہ تھااوراسے رشتہ کی خبربھی نہ تھی توپھراحتیاط واجب یہ ہے کہ اس ارث کے مال سے سال کے اخراجات کرچکنے کے بعد اگرکوئی چیزبچ جائے اس کاخمس اداکرے۔

مسئلہ ۱۸۱۵ ۔ اگرکوئی مال میراث میں ملے اورمعلوم ہوکہ میت نے اس کاخمس ادانہیں کیاہے تواس مال کاخمس دیناہوگا اسی طرح اگراس مال میں جووارث کوملاہے خمس واجب نہ ہولیکن میراث پانے والاجانتاہوکہ میت کے ذمے خمس واجب الاداء تھا تواس کواس کے مال سے خمس اداکرناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۱۶ ۔ اگرقناعت کی وجہ سے سال کے اخراجات سے کچھ بچ جائے تواس کاخمس دیناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۱۷ ۔ جب کسی کاخرچ کوئی دوسرادیتاہو توخودسے حاصل کردہ پورے مال کاخمس دیناچاہئے اوراگراس مال سے کچھ حصہ زیارات اوراس قسم کی چیزوں پرخرچ کیاہوتوجومال باقی اس کاخمس دیناہوگا۔

مسئلہ ۱۸۱۸ ۔ جب کسی ملک کو معین افراد، مثلا اپنی اولادکے لئے وقف کیاہواوراولاداس ملک میں زراعت کرنے یادرخت لگانے سے کچھ مال حاصل کرے تو جب وہ مال ان کے سالانہ خرچ سے زیادہ ہوتواس کاخمس بھی دیناواجب ہوگا۔

مسئلہ ۱۸۱۹ ۔ مستحق افراد جوخمس وزکات لیتے ہیں چاہے سالانہ اخراجات کے بعد اس سے کچھ بچ جائے پھربھی اس بچت پر خمس نہیں ہے، البتہ اگرخمس وزکات سے حاص کردہ مال سے نفع حاصل ہو، مثلا خمس میں ملے ہوئے درخت میں پھل پیداہوتواس نفع سے سال بھرکا خرچ نکالنے کے بعد بچت ہواس بچت پرخمس واجب ہے، اسی طرح اگر صدقہ مستحبی لے تواس کاخمس احتیاط واجب کی بناپردیناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۲۰ ۔ اگرایسے روپیہ سے کہ جس پرخمس واجب تھا خمس دئیے بغیرکوئی چیزخریدے، یعنی بیچنے والے سے کہے کہ اس مال کواس رقم سے خریدرہاہوں توخمس کی مقدارکے برابرمعاملہ باطل ہے البتہ اگرحاکم شرع اجازت دیدے معاملہ صحیح ہے اوراس خریدی ہوئی چیزکاپانچواں حصہ حاکم شرع کودے اوراگر خریدی ہوئی چیزنہ ہوتواس کی قیمت سے پانچواں حصہ حاکم شرع کودیدے۔

مسئلہ ۱۸۲۱ ۔ اگرکوئی چیزخریدے اورمعاملہ کے بعد اس کی قیمت ایسے روپئے سے اداکرے کہ جس کاخمس ادانہیں کیاتھا توجومعاملہ اس نے کیاہے وہ صحیح ہے لیکن چونکہ قیمت اس رقم سے دی تھی جس کاخمس ادانہیں کیاتھا اس لئے بمقدارخمس رقم کامقروض رہے گا اوراگراتنی رقم بیچنے والے کے پاس موجودہوتوحاکم شرع اس رقم کولے لے گا اوراگروہ رقم باقی نہیں ہے توحاکم شرع خریداریابیچنے والے سے(کسی سے بھی) مطالبہ کرسکتاہے۔

مسئلہ ۱۸۲۲ ۔ اگرکوئی ایسامال خریدے جس کاخمس نہ دیاہوتوخمس کی مقدارکے برابراگرحاکم شرع اجازت نہ دے، معاملہ باطل ہے، البتہ اگرحاکم شرع اجازت دیدے توصحیح ہے اورایسی صورت میں معاملہ والی رقم کاخمس حاکم شرع کودیناہوگا اوراگربیچنے والے کودیاہے تواس سے لے کر حاکم شرع کودے۔

مسئلہ ۱۸۲۳ ۔ جس چیزکاخمس نہ دیاہواگرکسی کوکوئی بخش دے تواس چیزکے خمس کامالک وہ نہیں ہوگا۔

مسئلہ ۱۸۲۴ ۔ کافریاایسے شخص سے جوخمس کاعقیدہ نہیں رکھتاکوئی مال کسی کے پاس آئے تواس کاخمس واجب نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۸۲۵ ۔ تاجراورکاسب اورصنعت گروغیرہ جب کسب شروع کریں اس وقت سے لے کر ایک سال گزرنے تک ان کے سال کے مخارج کے بعد جو چیزبچ جائے تواس کاخمس واجب ہے، لیکن وہ شخص جس کاکام کاسبی کرنانہیں، اگراتفاق سے اسے کسی معاملہ میں کوئی منافع حاصل ہوتوفائدہ حاصل ہونے کے وقت سے جب ایک سال گزرجائے تواس مقدارکاخمس جواس کے سال کی اخراجات سے بچ جائے دیناواجب ہوگا۔

مسئلہ ۱۸۲۶ ۔ انسان کوسال کے درمیان جب نفع حاصل ہوتواس وقت بھی خمس دے سکتاہے اورآخرسال تک مؤجربھی کرسکتاہے اورخمس دینے کے لئے شمس سال معین کرسکتاہے۔

مسئلہ ۱۸۲۷ ۔ جب کوئی تاجر یاکاسب کی طرح خمس نکالنے سال معین کرے اگروہ منفعت حاصل کرنے کے بعد سال ختم ہونے سے پہلے مرجائے توپھراس منفعت سے صرف اس کے مرنے کے وقت تک کے مصارف کم کرلئے جائیں گے اورباقی ماندہ منفعت سے خمس دیناواجب ہوگا۔

مسئلہ ۱۸۲۸ ۔ اگرتجارت کے لئے خریدی ہوئی چیزکی قیمت چڑھ جائے اوروہ تجارتی اورآمدنی کے اعتبارسے اس چیزکونہ بیچے اورپھرسال کے درمیان اسی چیز کی قیمت گرجائے توقیمت کی جومقداربڑھ گئی تھی اس کاخمس دیناواجب نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۸۲۹ ۔ اگرتجارت کے لئے خریدی ہوئی چیزکی قیمت چڑھ جائے لیکن وہ اسے امیدپر فروخت نہ کرے کہ اورزیادہ مہنگی ہوجائے اوریوں ہی سال کے ختم ہونے تک فروخت نہ کرے اورپھراس کی قیمت گرجائے پھرتوجومقداربڑھ گئی تھی اس کاخمس دیناواجب ہے۔

مسئلہ ۱۸۳۰ ۔ اگرمال تجارت کے علاوہ کوئی مال اس کے پاس تھاکہ جس کاخمس دے چکاہے یااس پرخمس ہی نہیں ہے تواگراس کی قیمت بڑھ جائے توجتنی قیمت بڑھ گئی ہے اس پرخمس نہیں ہے لیکن اگراس کوبیچ ڈالے توجتنی قیمت بڑھی تھی اس بڑھی قیمت کا خمس دے، لیکن اگر کوئی درخت خریدے اوربڑاہوجائے یابھیڑ بکری موٹی ہوجائے تواگران کے رکھنے سے اس کاارادہ یہ تھاکہ ان سے کوئی منفعت حاصل کرے توزیادتی کاخمس دیناپڑے گا۔

مسئلہ ۱۸۳۱ ۔ اگراس نیت سے باغ لگائے کہ جب اس کی قیمت چڑھ جائے گی تب بیچوں گا تواگراس کے بیچنے کاوقت آگیاہوتواس کاخمس اداکرے، لیکن اگرنیت یہ رہی ہوکہ اس باغ کے پھل کوکھائیں گے توپھلوں کاخمس دے اوراحتیاط کی بناپر پھلوں کے بڑھنے کی قیمت کاخمس بھی اداکرلے۔

مسئلہ ۱۸۳۲ ۔ اگرکوئی شخص بیداورچنار(وہ درخت جن کی پرورش صرف لکڑی کے لئے ہوتی ہے) وغیرہ کے درخت لگائے توجوسال ان کے بیچنے کاہے اگر چہ نہ بیچے ان کاخمس اداکرے، اسی طرح اگر ان درختوں کی شاخوں سے نفع اٹھائے جوعموما ہرسال کی آمدنی سال کے اخراجات سے بڑھ جائے توضروری ہے کہ ہرسال کے خاتمے پراس زیادہ کاخمس دے۔

مسئلہ ۱۸۳۳ ۔ جس کے کئی کاروبارہیں، مثلاجائیداد کاکرایہ خریدوفروخت اورزراعت بھی کرتاہے توہرکاروبارکے منافع کاحساب ایک ساتھ کرے اوراگر اس میں نفع ہواہے تواس کاخمس دے اوراگرایک کاروبارسے نفع حاصل کرے اوردوسرے سے نقصان اٹھائے تواحتیاط واجب کی بناپر جونفع حاصل کیاہے اس کاخمس اداکرے، لیکن اگراس کے یہاں دوقسم کی تجارت ہوتواس صورت میں ایک تجارت کانقصان کاتدارک دوسری تجارت کے نفع سے کرسکتاہے۔

مسئلہ ۱۸۳۴ ۔ انسان جواخراجات فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرے، مثلا دلالی اورباربرداری وغیرہ کے سلسلے میں جوکچھ خرچ کرے توان مصارف کواخراجات میں شمارکرناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۳۵ ۔ ضروریات زندگی پرخمس نہیں ہے، یعنی انسان اپنے سالانہ اخراجات مثلاکھانا،لباس، مکان، گھریلوسامان، شادی بیاہ، لڑکی کاجہیز، زیارت، بخشش، عطیہ، مہمان داری وغیرہ پرجوآمدنی خرچ کرتاہے اگراس کی شان سے زیادہ نہیں ہے اوروقت حاجت آپہنچاہے اورفضول خرچی بھی نہ کی ہوتوان مصارف کاخمس نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۸۳۶ ۔ جن اموال کوانسان نذراورکفارہ وغیرہ میں خرچ کرتاہے وہ سالانہ اخراجات میں شمارہوتے ہیں، اسی طرح جومال دوسروں کودیتاہے یاانعام دیتاہے اگراس کی شان سے زیادہ نہیں ہے توسالانہ اخراجات میں شمارہوگا۔

مسئلہ ۱۸۳۷ ۔ اگرانسان بیٹی کاجہیز اکھٹاتیارنہ کرسکتاہواورمجبورہوکہ ہرسال تھوڑا تھوڑا کرکے اکھٹاکرے، یاایسے شہرمیں ہوجہاں معمول یہ ہے کہ ہرسال جہیزکے کچھ مقدار تیارکرتے ہیں، اوراس کے مہیاکرنے کی ضرورت ہوتواگردرمیان سال اس سال کے منافع سے جہیزخریدے تواس پرخمس واجب نہیں ہوگالیکن اگراس سال کے منافع سے آئندہ سال جہیزتیارکرے توخمس واجب ہوگا۔

مسئلہ ۱۸۳۹ ۔ جومال حج یادوسری زیارات کے سفرپرخرج کرے اگروہ مال سواری کی طرح ہوکہ جس کی عین باقی رہ جاتی ہے اوراس کی منفعت سے استفادہ کیاجاتاہے تووہ اس سال کے مخارج میں شمارہوگا کہ جس سال میں سفرکی ابتداء کی ہے اگرچہ اس کاسفرآئندہ سال کے کچھ حصہ تک طوالت پکڑجائے، ہاں اگروہ مال خوراک کی طرح ہوکہ استعمال کرنے سے ختم ہوجاتاہے تواس مقدارکاخمس دے جوبعدوالے سال میں واقع ہواہے۔

مسئلہ ۱۸۴۰ ۔ کسب وتجارت سے مال حاصل کرنے والے کے پاس اگرکوئی دوسرا ایسامال بھی ہوجس کاخمس واجب نہیں ہواکرتا، تووہ شخص اپنے سال بھر کے خرچ کاحساب صرف کسب کے منافع سے کرسکتاہے۔

مسئلہ ۱۸۴۱ ۔ اگرمنفعت کسب سے کھانے پینے کی جوچیزیں سال بھر کے لئے خریدی ہیں سال کے آخرمیں بچ جائیں توان کاخمس دے اوراگران کی قیمت اوررقم دینا ہے اگرسال کی قیمت کوحساب کرناہوگا۔

مسئلہ ۱۸۴۲ ۔ اگرکاروباری نفع سے خمس دینے سے پہلے کوئی گھریلوسامان خریدے تواگردوران سال سے اس کی احتیاج برطرف ہوجائے اس پرواجب ہے کہ اس کاخمس دے اوریہی حکم ہے زیورات وغیرہ کااگراثناء سال ان زیورات سے تزین کاوقت گزرجائے

مسئلہ ۱۸۴۳ ۔ اگرکسی سال اسے نفع حاصل نہیں ہواتواس سال کے اخراجات آنے والے سال کے منافع سے کم نہیں کرسکتا۔

مسئلہ ۱۸۴۴ ۔ اگرابتداء سال میں کوئی نفع نہیں ہوااوراصل پونجی سے خرچ کرتارہااورسال پوراہونے سے پہلے نفع حاصل ہواتوجتنی مقدارسرمایہ سے صرف کی ہے اس کومنافع سے پوراکرسکتاہے۔

مسئلہ ۱۸۴۵ ۔ اگرایک کاروبار کے اصل سرمایہ کاکچھ حصہ بغیرکوتاہی کے تلف ہوجائے یانقصان کی وجہ سے کم ہوجائے اوربقیہ سے نفع کمائے جوکہ سال کے خرچ سے بچ جائے توجتنی مقدارسرمایہ سے کم ہوئی ہے وہ منافع سے لے سکتاہے۔

مسئلہ ۱۸۴۶ ۔ اگرسرمایہ کے علاوہ کوئی اورچیزتلف ہوجائے تووہ اس نفع سے وہ چیزنہیں حاصل کرسکتا، البتہ اگراسی سال اس چیزکی ضرورت آپڑے توپھر دوران سال کاروبار کے منافع سے اس کوحاصل کرسکتاہے۔

مسئلہ ۱۸۴۷ ۔ اگرابتداء سال میں اپنے اخراجات کے لئے قرض لے اورسال پوراہونے سے پہلے نفع حاصل کرے توقرض کے مقدارکواس نفع سے کم نہیں کرسکتاہے۔

مسئلہ ۱۸۴۸ ۔ اگرسال بھرنفع نہ ہواوراپنے اخراجات کے لئے قرض لیتارہاتوآئندہ سالوں کے منافع سے اپناقرض ادانہیں کرسکتا، ہاں اس صورت میں اورگزشتہ مسئلہ کی صورت میں وہ اس قرض کوسال کے دوران کے منافع سے اداکرسکتاہے اورمنافع کی اس مقدارسے خمس کاکوئی تعلق نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۸۴۹ ۔ اگرمال میں زیادتی کے لئے یاایسی جائیداد خریدنے کے لئے جس کی ضرورت نہیں ہے قرض کرلے توکاروبارکے نفع سے اس قرض کوادانہیں کرسکتا لیکن اگر قرض پرلیاہوامال اس قرض سے خریدی ہوئی چیزتلف ہوجائے توپھرکاروبار کے نفع سے اس قرض کواداکرسکتاہے جبکہ قرض کواداکرنے پرمجبور ہو۔

مسئلہ ۱۸۵۰ ۔ انسان کے لئے جائزہے کہ ہرچیزکاخمس اسی چیزسے اداکرے یاخمس کے مقدارقیمت اداکرے، لیکن دوسری چیزسے پہلی والی چیزکاخمس دینا حاکم شرع کی اجازت سے ہوناچاہئے ورنہ اس میں اشکال ہے۔

مسئلہ ۱۸۵۱ ۔ جب تک کسی مال کاخمس ادانہ کرے اس مال میں تصرف نہیں کرسکتااگرچہ خمس دینے کاارادہ رکھتاہو۔

مسئلہ ۱۸۵۲ ۔ جس شخص کوخمس دیناہے اس کے لئے جائزنہیں ہے کہ خمس اپنے ذمے لے لے، یعنی اپنے کوخمس لینے والوں کامقروض جان لے اوراس مال میں تصرف کرنا شروع کردے اوراگراس نے تصرف کیااورمال تلف ہوگیاتواسے خمس دیناپڑے گا۔

مسئلہ ۱۸۵۳ ۔ جس کوخمس دیناہے اگرحاکم شرع سے مصالحت کرلے توپھرپورے مال مین تصرف کرسکتاہے ، اورمصالحت کے بعد جونفع حاصل ہووہ اس کا اپناہوگا۔

مسئلہ ۱۸۵۴ ۔ اگردوآدمی آپس میں شریک ہوں اورایک اپنے منافع سے خمس نکالتاہواوردوسرانہ نکالے اورسال بعدمیں اس مال کو جس کاخمس نہیں دیاگیاہے اپنے شریک کے ساتھ کاروبارمیں شرکت کے لئے سرمایہ قراردے توان مین سے کوئی بھی اس مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔

مسئلہ ۱۸۵۵ ۔ اگرکسی چھوٹے بچے کے سرمایہ تھا اوراس سے نفع حاصل ہواتواس کے ولی پرواجب ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے اس کاخمس اداکرے۔

مسئلہ ۱۸۵۶ ۔ جس مال کے بارے میں یقین ہوکہ اس کاخمس نہیں دیاگیااس میں تصرف نہیں کیاجاسکتاہے، لیکن جس مال کے بارے میں شک ہوکہ اس کاخمس دیاگیاہے یانہیں اس میں تصرف کرناجائزہے۔

مسئلہ ۱۸۵۷ ۔ جس شخص نے ابتداء تکلیف سے خمس ادانہیں کیااگروہ کوئی جائیدادخریدے اوراس کی قیمت بڑھ جائے تواگراس نے جائیدادکواس مقصدکے لئے نہ خریداہوکہ اس کی قیمت زیادہ ہوجائے تواسے بیچ ڈالوں گا، مثلا اس نے کوئی زمین زراعت کے لئے خریدی تھی اگربیچنے والے کو وہ رقم دی ہے کہ جس کاخمس ادانہیں کیااوراس سے کہاکہ یہ جائیداداس رقم سے خریدرہاہوں، تواگرحاکم شرع اس معاملہ کی اجازت دے تومعاملہ صحیح ہے اورخریدی جانے والی قیمت کاخمس اداکرناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۵۸ ۔ جس شخص نے ابتداء تکلیف سے خمس ادانہیں کیااگروہ کاروباری نفع سے کوئی ایسے چیزخریدے کہ جس کی اسے ضرورت نہ ہواوراس کے خریدکے بعد ایک سال گزرجائے تواس کاخمس اداکرے اوراگرگھرکاسامان یاکوئی اورچیزخریدے کہ جس کی اسے ضرورت ہے اوراپنی شان کے بھی مطابق ہے خریداہو، تواگراسے معلوم ہے کہ میںنے اس سال کے درمیان کے منافع سے خریداہے تواس کے خمس دینے کی ضرورت نہیں ہے، اوراگر یہ معلوم نہ ہوکہ دوران سال خریداہے یاسال ختم ہونے کے بعدتواحتیاط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع کے ساتھ مصالحت کرے۔

۲ ۔ معدن (کان)

مسئلہ ۱۸۵۹ ۔ اگرسونایاچاندی، پیتل، تانبا، مٹی کاتیل، پھٹکری، کوئلہ، فیروزہ، عقیق ،نمک یااس قسم کی دوسری چیزوں کی کان سے کوئی چیزاس کے ہاتھ آجائے، بشرطیکہ وہ بمقدارنصاب ہوتواس کاخمس دیناپڑے گا۔

مسئلہ ۱۸۶۰ ۔ کان کانصاب احتیاط کی بناپرایک سوپانچ مثقال چاندی یاپندرہ مثقال سوناہے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ اخراجات وغیرہ کم کرنے سے پہلے نصاب کاحساب کیاجائے، البتہ وہ مقدارجس کاخمس اداکرناہے اس سے اخراجات کم کرنے کے بعداداکیاجائے گا۔

مسئلہ ۱۸۶۱ ۔ جوفائدہ کان سے حاصل کیاگیاہے اگراس کی قیمت پندرہ مثقال سونے کے برابرنہ ہوتواس کاخمس اس صورت میں واجب ہے جب صرف یہ مال یادوسرے کاروبار کی منفعت کرنے کامجموعہ اس کے مصارف سال سے بڑھ جائے۔

مسئلہ ۱۸۶۲ ۔ گچ،چونا، نمکین مٹی، اورسرخ مٹی احتیاط واجب کی بناپرمعدنی چیزوں سے شمارہوتے ہیں اوران کاخمس دیناہوگا۔

مسئلہ ۱۸۶۳ ۔ جس کوکان سے کوئی چیزحاصل ہوئی ہواس کاخمس اداکرناچاہئے، چاہے کان زمین کے اوپرہویانیچے، چاہے ایسی زمین میں ہوجوکسی کی ملکیت ہے یاجس کاکوئی مالک نہ ہو۔

مسئلہ ۱۸۶۴ ۔ اگریہ معلوم نہ ہوکہ جوچیزیں میں نے کان سے نکالی ہے نصاب کے برابرہے یانہیں تواحتیاط واجب یہ ہے کہ وزن کرنے سے یاکسی اورطریقہ سے اس کی قیمت معلوم کرلے۔

مسئلہ ۱۸۶۵ ۔ اگرچندآدمی کوئی چیزکان سے نکالیں تووہ اخراجات جواس کوحاصل کرنے کے لئے ہوئے ہیں انہیں نکالنے کے بعداگرہرایک کاحصہ نصاب کے برابرہے توان کواس کاخمس دیناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۶۶ ۔ اگرایسی کان سے کچھ نکالے جوکسی کی ملک میں ہواوراس کی اجازت نہ ہوتوجوکچھ ہاتھ آئے گاوہ مالک زمین کاہے اورچونکہ مالک نے اس کے نکالنے پرکچھ خرچ نہیں کیالہذا تمام اس چیزکاخمس اداکرے جوکہ کان سے نکلی ہے۔

مسئلہ ۱۸۶۷ ۔ اجرت پرکانیں نکلواناجائزہے اوراجرت دینے والااس کامالک ہوگابشرطیکہ اجرت دینے والاخاص طورسے اوراسی مقصدکے لئے مقررکیاگیا ہویاجتنی منافع ہوگی سب اجرت دینے والاکے لئے ہو، لیکن اگراجرت دینے والابطورمطلق اجیرہوتواگروہ اس سے قصدتملک کرے، اس شئی کامالک ہوجائے گا۔

مسئلہ ۱۸۶۸ ۔ اگرکان ایسی آبادزمین سے ہوں جس کومسلمانوں نے اپنی طاقت اورقوت سے حاصل کیاہوجیسے ایران اورعراق کی اکثرزمینیں، تواگر کوئی مسلمان ان زمینوں سے کوئی کان نکالے تووہ اس کامالک ہوگااوراس کاخمس اداکرے لیکن اگرغیرمسلم نکالے اس کامالک نہیں ہوگا، اسی طرح اگرکوئی کافر ایسی زمین سے کان نکالے کہ جومسلمانوں کے فتح کے موقع پربنجرزمین ہوتوبھی اس کامالک نہیں ہوگا۔

۳ ۔ گنج (خزانہ)

مسئلہ ۱۸۶۹ ۔ خزانہ وہ مال ہے جوزمین، پہاڑیادیوارمیں چھپاہواہواورکوئی اسے پالے اوروہ اس طرح ہوکہ اسے گنج (خزانہ) کہاجاسکے۔

مسئلہ ۱۸۷۰ ۔ اگرانسان کسی ایسی زمین میں سے خزانہ حاصل کرے جوکسی کی ملکیت نہیں تووہ اس کااپنامال ہوگا اوراس کاخمس دیناپڑئے گا۔

مسئلہ ۱۸۷۱ ۔ خزانہ کانصاب احتیاط کی بناپرایک سوپانچ مثقال چاندی یاپندرہ مثقال سوناہے، یعنی اگراس چیزکی قیمت جوخزانہ سے ملی ہے ان اخراجات کے بعدجواسے حاصل کرنے میں کئے گئے ہیں پندرہ مثقال ( ۶ تولہ) سونے کے برابرہوتواس کاخمس دے۔

مسئلہ ۱۸۷۲ ۔ اگرایسی زمین میں جوکسی شخص سے خریدی ہے کوئی خزانہ مال جائے اوراسے یہ معلوم ہوکہ ان لوگوں کامال نہیں جومجھ سے پہلے اس کامالک تھے تویہ اس کااپناہی مال ہوگا اوراسے اس کاخمس دیناپڑئے گا لیکن اگریہ احتمال ہوکہ ان میں سے کسی ایک کاہے تواس کااطلاع دے اب اگریہ معلوم ہوجائے کہ اس کامال نہیں تواس سے پہلے والے مالک کواطلاع دے اوراحتیاط واجب کی بناء پراسی ترتیب سے سب لوگوں کومطلع کرے جواس سے پہلے اس زمین کے مالک تھے، اب اگرمعلوم ہوکہ ان میں سے کسی کامال نہیں ہے تواپناہی مال سمجھ کر اس کاخمس اداکرے۔

مسئلہ ۱۸۷۳ ۔ اگرمتعدد برتنوں میں سے جوکہ ایک جگہ دفن ہیں کچھ مال ملے کہ جس کی مجموعی قیمت پندرہ مثقال سوناہوتواس کاخمس اداکرے، البتہ اگر چند جگہوں سے خزانہ حاصل ہوتوا ن میں سے جس کی قیمت اس مقدارکے برابرہوتواس کاخمس دے اورجس کی قیمت اس مقدارکونہ پہنچے اس پرکوئی خمس نہیں۔

مسئلہ ۱۸۷۴ ۔ اگردوآدمیوں کوخزانہ ملے کہ ان میں سے ہرایک کے حصے کی قیمت پندرہ مثقال سوناہوتودونوں کوخمس اداکرناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۷۵ ۔ اگرکوئی شخص ایک جانورخریدے اوراس کے پیٹ سے کوئی مال ملے تواگریہ احتمال ہوکہ یہ بیچنے والے کامال ہے تواسے اطلاع سے اوراگر معلوم ہوجائے کہ اس کی ملکیت نہیں تواحتیاط واجب کی بناپرترتیب واراورپہلے مالکوں کواطلاع دے، اب اگرمعلوم ہوجائے کہ ان میں سے کسی کی ملکیت نہیں تواحتیاط واجب کی بناپراس کاخمس دیناچاہئے اگرچہ نصاب سے کم ہو، لیکن اگرمچھلی خریدے اوراس کے پیٹ سے جواہرات ملیں تووہ اس کااپنامال ہوگا اورکسی کواطلاع دینے کی ضرورت نہیں ہے اوراحتیاط واجب ہے کہ اس کاخمس اداکرے۔

۴ ۔ مال حلال مخلوط بہ حرام

مسئلہ ۱۸۷۶ ۔ اگرحلال مال حرام کے ساتھ اس طرح مال جائے کہ انسان ان میں سے ایک کودوسرے سے تمیزنہ کرسکے ا ورمالک مال حرام اوراس کی مقدار بھی معلوم نہ ہوتوپورے مال کاخمس دیناچاہئے اورخمس دینے کے بعد باقی مال بھی حلال ہوجائے گا، اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ اس خمس کومافی الذمہ کی نیت سے مالک کی طرف سے اداکرے۔

مسئلہ ۱۸۷۷ ۔ اگرحلال مال حرام سے مل جائے اورانسان کوحرام کی مقدارمعلوم ہولیکن اس کے مالک کونہ پہچانتاہوتواتنی مقدارکومالک کی طرف سے بطور صدقہ دیدے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے اس کی اجازت بھی لے۔

اگرحلال مال حرام سے مل جائے اورانسان کوحرام کی مقدارمعلوم نہ ہولیکن مالک کوپہچانتاہوتوایک دوسرے کوراضی کریں، اگرصاحب مال راضی نہ ہوتواگر انسان کومعلوم ہوکہ یہ معین چیزتواس کی ملکیت ہے لیکن اس سے زیادہ بھی اس کی ملکیت ہے کہ نہیں مشکوک ہوتوجس مقدارکایقین ہووہ اس کودیدے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ زیادہ مقدارجس کی متعلق احتمال ہے کہ اس کی ملکیت ہے وہ بھی اس کودیدے۔

مسئلہ ۱۸۷۸ ۔ اگراس حلال مال کاخمس جوحرام سے ملاہواہے دیدے اوربعدمیں اسے معلوم ہوکہ حرام کی مقدارخمس سے زیادہ تھی تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ جتنی مقدارکے متعلق علم ہے کہ یہ خمس سے زیادہ ہے اس کومالک کی طرف سے بطورصدقہ دیدے۔

مسئلہ ۱۸۷۹ ۔ اگرمال حلال جومال حرام سے ملاہواہے اس کاخمس دیدے اس کے بعدمالک مل جائے تواس کاضامن نہیں ہوگا، لیکن اگراس مال کوجس کے مالک کونہیں پہچانتاتھامالک کی طرف سے صدقہ دیدے اس کے بعدمالک مل جائے تواس کاضامن ہے اوراتنی مقداراسے دیناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۸۰ ۔ اگرمال حلال حرام سے مل جائے اورحرام کی مقدارمعلوم ہواورانسان کویہ علم ہوکہ اس کامالک ان چندمعین اشخاص میں سے کوئی ایک ہے لیکن اس کاتعین نہ ہوسکے تواس کوقرعہ اندازی کرنی چاہئے جس کانام نکلامال اسی کودیدے۔

۵ ۔ غوطہ خوری سے حاصل ہونے والے جواہرات

مسئلہ ۱۸۸۱ ۔ غوطہ خوری کے ذریعہ سمندرسے جوموتی، مونگے وغیرہ نکلتے ہیں ان کاخمس دیناواجب ہے، چاہے نکالی ہوئی چیزاگنے والی ہویامعدنی تواگر باہرنکالنے کے اخراجات کم کرنے کے بعداس کی قیمت اٹھارہ نخودچنے کے دانے کے برابرسوناہوتواس کاخمس دیاجائے چاہے ایک ہی دفعہ اسے دریاسے نکالا گیاہویاکئی مرتبہ اورجوکچھ نکالاہے وہ ایک جنس سے ہویامختلف سے، البتہ اگرچندافرادنکالیں توجس کے حصے کی قیمت اٹھارہ نخودسوناہے صرف اس کوخمس دینا پڑے گا۔

مسئلہ ۱۸۸۲ ۔ اگردریامیں غوطہ لگانے کے بغیرکسی اورذریعہ سے جواہرات کوباہرنکالے اوراخراجات کم کرنے کے بعدان کی قیمت اٹھارہ نخودسونے کے برابر ہوتواحتیاط مستحب ہے کہ اس کاخمس دے، لیکن اگردریاکے اوپریاکنارہ سے جواہرات حاصل کرے تواس صورت میں خمس دیناپڑے گاجب کہ یہ کام اس کاشغل ہواورصرف اسی کام سے یادوسری منافع کے ساتھ سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہو۔

مسئلہ ۱۸۸۳ ۔ مچھلی اوراس قسم کے دوسرے حیوانات جن کوبغیرغوطہ خوری کے دریاحاصل کیاجاتاہے ان پرصرف اس صورت میں خمس واجب ہوگا جب ان کوکاروبار کے لئے حاصل کیاجائے اورصرف اس کام کے منافع یادوسرے کسب کے منافع کے ساتھ ملاکرسال بھرکے خرچ سے زیادہ ہو۔

مسئلہ ۱۸۸۴ ۔ اگرانسان بغیراس ارادہ کے کہ وہ دریاسے کوئی چیزنکالے دریامیں غوطہ لگائے اوراتفاق سے کچھ جواہرات اس کے ہاتھ آجائے تواگر ملکیت کا قصدکرے اس کاخمس اداکرے۔

مسئلہ ۱۸۸۵ ۔ اگرانسان دریامیں غوطہ لگائے اورکوئی جانورباہرنکالے اوراس کے پیٹ سے کوئی موتی نکال آئے جس کی قیمت اٹھارہ نخود سونایااس سے زیادہ ہوتواگر وہ جانورصدف جیساہوکہ جس کے شکم میں عموماموتی ہوتی ہے تواس خمس دے اوراگراتفاقااس جانورنے جوہرنکلاہوتواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس کاخمس دیاجائے۔

مسئلہ ۱۸۸۶ ۔ اگردجلہ وفرات جیسے بڑے بڑے دریاؤں میں غوطہ لگاکرجواہرات نکالے تواگروہ دریاایسے ہیں کہ جن میں جواہرات بناکرتے ہیں تب اس کاخمس نکالناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۸۷ ۔ اگرپانی میں غوطہ لگائے اورکچھ عنبرنکالے کہ جس کی قیمت اٹھارہ نخودسوناسے زیادہ ہوتواس کاخمس دے اوراگرپانی کی سطح یاکنارہ سے اس کے ہاتھ آئے توچاہے اس کی قیمت اٹھارہ نخودسونا بھی نہ ہوتوبنابراحتیاط واجب اس کاخمس دے۔

مسئلہ ۱۸۸۸ ۔ جس شخص کاکاروبارغوطہ لگانایاکانیں نکالناہے اگروہ اس کاخمس اداکرے اورپھراس کے سال کے خرچہ سے بھی کچھ بچ جائے توضروری نہیں کہ دوبارہ اس کاخمس اداکرے۔

۶ ۔ مال غنیمت

مسئلہ ۱۸۸۹ ۔ اگرمسلمان بحکم امام علیہ السلام کفارسے جنگ کریں توجوبھی چیزاس جنگ میں ان کے ہاتھ آئے اس کومال غنیمت کہاجاتاہے اورجواخراجات اس غنیمت کے لئے کئے گئے ہیں، جیسے حفاظت، حمل ونقل وغیرہ میں جوصرف ہواہے اوروہ مقدارجسے امام مناسب سمجھتے ہوئے صرف فرمائیں اوروہ چیزیں جوصرف ا مام ہی سے مخصوص ہیں ان سب چیزوں کومال غنیمت سے الک کرکے بقیہ مال کاخمس نکالناچاہئے۔

۷ ۔ کافرذمی جوزمین مسلمان سے خریدے۔

مسئلہ ۱۸۹۰ ۔ اگرکافرذمی کسی مسلمان سے کوئی زمین خریدے تواس کاخمس اسی زمین سے اداکرے یااس کی قیمت دے(اس کے علاوہ اگرکوئی مال دیناچاہے حاکم شرع کی اجازت سے ہوناچاہئے) اوراسی طرح اگرمکان، دوکان اوراس قسم کی کوئی چیزکسی مسلمان سے خریدے تواگرزمین کی قیمت الگ کرکے بیچاگیاہوتواس زمین کاخمس دے اوراگرگھر، دوکان کواکھٹابیچے اورزمین اس کے ضمن میں قصدقربت ضروری نہیں ہے، بلکہ حاکم شرع بھی جب یہ خمس لے رہاہوتواس کے لئے ضروری نہیں کہ قصدقربت کرے۔

مسئلہ ۱۸۹۱ ۔ کافرذمی جوزمین کسی مسلمان سے خریدے چاہے اس کوکسی دوسرے مسلمان ہی کے ہاتھ بیچے پھربھی اس کوزمین کاخمس دیناپڑئے گا، اورکافر ذمی مرجائے اوریہ زمین کسی مسلمان کواس کے ترکہ میں سے ملے تواس کاخمس اسی زمین سے یااس کے اورمال سے اداکرے۔

مسئلہ ۱۸۹۲ ۔ اگرکافرذمی زمین خریدتے وقت شرط کرے کہ اس کاخمس نہیں دے گایایہ شرط کرے کہ اس کاخمس بیچنے والادے گاتواس کی شرط صحیح نہیں اوراس کاخمس اداکرناچاہئے، البتہ اگریہ شرط کرے کہ بیچنے والاخمس کی مقدارکافرذمی کی طرف سے خمس لینے والوں کواداکرے تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۸۹۳ ۔ اگرمسلمان کوئی زمین خریدوفروخت کے بغیرکافرکی ملک قراردے اوراس کاعوض لے لے، مثلااس کے ساتھ مصالحت کرے توکافرذمی کواس کاخمس دیناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۹۴ ۔ اگرکافرذمی بچہ ہواوراس کاولی اس کے لئے زمین خریدے یااس کووراثت میں ملے تواس کے ولی پرلازم ہے کہ اس کاخمس اس زمین سے دے یااس کی قیمت اداکرے۔

خمس کامصرف

مسئلہ ۱۸۹۵ ۔ خمس کودوحصوں میں تقسیم کیاجائے ، ایک حصہ سہم سادات ہے اوراحتیاط واجب کی بناپراس کومجتہدجامع الشرائط کی اجازت سے فقیرسیدیا یتیم سیدیااس سیدکودیاجائے جوسفرمیں بے خرچ ہوجائے، اوردوسرا آدھاحصہ سہم امام علیہ السلام ہے جواس زمانہ میں مجتہدجامع الشرائط کودیاجائے یاایسے مصرف میں صرف کیاجائے کہ جس کی اجازت وہ مجتہددیدے، لیکن اگرانسان سہم امام دوسرے مجتہدکودیناچاہے جس کی تقلید نہیں کرتاتواس صورت میں صرف اجازت ہے کہ دنوں مجتہدسہم امام کوایک ہی طریقہ پرخرچ کرتے ہوں۔

مسئلہ ۱۸۹۶ ۔ جس یتیم سیدکوخمس دیناچاہیں اس کافقیرہوناشرط ہے، البتہ اگرکوئی سیدسفرمیں تنگ دست اورپریشان ہوتواس کوخمس دیاجاسکتاہے چاہے وہ اپنے وطن میں فقیرنہ بھی ہو۔

مسئلہ ۱۸۹۷ ۔ وہ سیدجوسفرمیں بے خرچ ہوگیاہے اگراس کاسفر،سفر معصیت ہوتواس کوخمس نہ دیاجائے۔

مسئلہ ۱۸۹۸ ۔ جوسیدعادل نہیں ہے اسے خمس دیاجاسکتاہے، البتہ وہ سیدجواثناعشری نہ ہواس کوخمس نہیں دیناچاہئے۔

مسئلہ ۱۸۹۹ ۔ اگرگناہ کارسیدکوخمس دینامعصیت میں تقویت کاسبب بنتاہوتواسے خمس نہیں دیاجاسکتا، اسی طرح اس سیدکوجوکھلم کھلاگناہ کرتاہے خمس نہیں دینا چاہئے چاہے اس کی معصیت میں تقویت کاسبب بھی نہ بنتاہو۔

مسئلہ ۱۹۰۰ ۔ اگرکوئی کہتاہے کہ میں سیدہوں تواسے خمس نہیں دیاجاسکتاجب تک دوعادل اس کے سیدہونے کی تصدیق نہ کریں یالوگوں کے درمیان اس طرح معروف ہوکہ انسان کویقین یااطمینان پیداہوجائے کہ سیدہے۔

مسئلہ ۱۹۰۱ ۔ جوشخص اپنے شہرمیں سیدمشہورہے تواگرچہ کسی انسان کواس کے سیدہونے کایقین نہ ہولیکن وثوق اور اطمینان ہوتب بھی اسے خمس دے سکتاہے۔

مسئلہ ۱۹۰۲ ۔ جس کی بیوی سیدانی ہوتواحتیاط واجب یہ ہے کہ وہ اس کواپناخمس نہ دے جب کہ وہ اسے اپنے مصارف میں صرف کرے، البتہ اگرسیدانی کے دوسرے ایسی اخراجات ہوجواس کے شوہرپرواجب نہ ہوں توپھرجائزہے کہ شوہراس عورت کواپناخمس دے تاکہ وہ ان پرصرف کرے۔

مسئلہ ۱۹۰۳ ۔ اگرکسی سیدانی کے اخراجات کسی پرواجب ہوں اوروہ اس کی بیوی نہ ہوتواحتیاط واجب ہے کہ وہ خمس سے اس کی خوراک وپوشاک نہیں دے سکتا، البتہ اگرکچھ خمس کی رقم اس سیدانی کی ملکیت کردے کہ وہ انہیں دوسرے اخراجات میں صرف کرے جوکہ خمس دینے والے پرواجب نہیں ہیں تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۹۰۴ ۔ جس فقیرسیدکے اخراجات کسی دوسرے شخص پرواجب ہیں اوروہ اس سیدکے اخراجات نہیں دے سکتاتواس سیدکوخمس دیاجاسکتاہے۔

مسئلہ ۱۹۰۵ ۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ایک سال کے اخراجات سے زیادہ کسی فقیرسیدکوخمس نہ دیاجائے۔

مسئلہ ۱۹۰۶ ۔ اگرکسی کے شہرمیں کوئی سیدمستحق نہ ہواوریہ احتمال بھی نہیں رکھتاکہ کوئی یہاں مل جائے گایاخمس کی رقم کامحفوظ رکھنامستحق کے ملنے تک ممکن نہ ہو تووہ خمس کسی دوسرے شہرمیں لے جائے اورمستحق تک پہچائے اورخمس کے دوسرے شہرمیں لے جانے کے اخراجات خمس میں سے لے سکتاہے اوراگرخمس تلف ہوجائے تواگراس کے حفاظت میں اس نے کوتاہی کی ہے تواس کاعوض دے اوراگرکوتاہی نہیں کی توپھراس پرکوئی چیزواجب نہیں ہے۔

مسئلہ ۱۹۰۷ ۔ اگراپنے شہرمیں کوئی مستحق نہیں لیکن احتمال دیتاہے کہ شایدکوئی مل جائے تواگرچہ مستحق کے ملنے تک خمس کی حفاظت ممکن ہوتوبھی خمس دوسرے شہرمیں لے جاسکتاہے اب اگرخمس کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کی اوروہ تلف ہوگیاتواس کوکچھ نہیں دیناہوگا، البتہ خمس کے لے جانے کاخرچہ خمس سے نہیں لے سکتا۔

مسئلہ ۱۹۰۸ ۔ اگراپنے شہرمیں مستحق مل جائے توبھی خمس دوسرے شہر میں لے جاسکتاہے اوروہاں کسی مستحق کودے سکتاہے، البتہ لے جانے کاخرچہ خود ادا کرے گا اوراگرخمس تلف ہوجائے تواگرچہ اس کی حفاظت میں کوتاہی بھی نہ کی ہوتب بھی وہ ضامن ہے۔

مسئلہ ۱۹۰۹ ۔ اگرحاکم شرع کی اجازت سے خمس دوسرے شہرلے جائے اوروہ تلف ہوجائے توپھردوبارہ خمس دینے کی ضرورت نہیں، اوریہی حکم ہے اگرکسی ایسے شخص کودے جوحاکم شرع کی طرف سے خمس لینے میں وکیل ہے اوروہ اس شہرسے دوسرے شہرکی طرف لے جائے۔

مسئلہ ۱۹۱۰ ۔ اگرخمس اس مال سے نہ دے، بلکہ حاکم شرع کی اجازت سے کسی دوسری چیزسے اداکرے تواس شئے کی واقعی قیمت کاحساب لگائے، اب اگر قیمت سے زیادہ حساب کیاہے اورمستحق اس قیمت پرراضی ہوجائے تب بھی جتنی مقدارزیادہ حساب کیاہے وہ اس کودیناپڑے گا۔

مسئلہ ۱۹۱۱ ۔ اگرکسی شخص کاکسی سید پرقرض ہوتووہ اپنے قرض کوخمس میں سے حساب کرسکتاہے اوربنابراحتیاط واجب وہ خمس اس مستحق کواداکرے اوراس کے بعد مستحق اس سے قرض کوپلٹادے۔

مسئلہ ۱۹۱۲ ۔ مستحق خمس لے کر مالک کونہیں بخش سکتا، اگرکسی کے ذمہ کافی مقدارمیں خمس باقی ہے اوروہ فقیرہوچکاہواوراسے مالدارہونے کی امیدبھی نہ ہواور وہ یہ چاہے کہ مستحقین کامقروض نہ رہے تواگرمستحق راضی ہوجائے کہ خمس اس سے لے کر اسے بخش دے تواس میں کوئی اشکال نہیں۔

مسئلہ ۱۹۱۳ ۔ اگرخمس کوحاکم شرع یااس کے وکیل یاکسی سید سے دست گردانی کرے (یعنی خمس دے کرواپس لے اورارادہ رکھتاہوکہ آئندہ سال اداکرے) تووہ آئندہ سال کے منافع سے وضع نہیں کرسکتاہے، مثلاکوئی شخص دوہزارروپئے بعنوان خمس مقروض ہے اوردوسرے سال کے اخراجات نکال کر بیس ہزار روپئے بچ جاتے ہیں تووہ بیس ہزارکاخمس اداکرے اوردوہزارروپئے جوبعنوان خمس مقروض ہے اپنی باقی ماندہ رقم سے اداکرے۔

فہرست

تقلیدکے احكام ۴

طهارت كے احكام ۷

پانی كے احكام ۷

۱-كر پانى ۷

۲ ۔قليل پانى ۸

۳- جارى پانى ۹

۵ ۔ کنویں کاپانی : ۱۰

پانی کے احکام : ۱۰

بیت الخلاء كے احكام ۱۲

پيشاب اورپاخانہ كرنا ۱۲

استبراء : ۱۳

بیت الخلاء کے مستحبات ومکروہات۔ ۱۴

نجاسات ۱۶

۱ ۔ ۲ پیشاب وپاخانہ ۔ ۱۶

۳ ۔ منی ۱۶

۴ ۔ مردار ۱۶

۶ ۔ ۷ کتااورسور ۱۸

۸ ۔ کافر ۱۸

۹ ۔ شراب ۱۸