توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207725 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اور بہتر یہ ہے کہ پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَرْسَلَه بِالْحَقِّ بَشِيْراً وَّ نَذِیْرا بَيْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّارْحَمْ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ کَاَفْضَلِ مَا صَلَّيْتَ وَ بَارَکْتَ وَ تَرَحَّمْتَ عَلیٰ اِبْرَاهِيْمَ وَ آلِ اِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ وَّ صَلِّ عَلیٰ جَمِيْعِ الْاَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِيْنَ و الشُّهَدَاءِ وَالصِّدِّیْقِيْنَ وَ جَمِيْعِ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْن

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ الْاَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَالْاَمْوَاتِ تَابِعْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُم بِالْخَيْرَاتِ إِنَّکَ مُجِيْبُ الدَّعَوَاتِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر

اگر ميّت مرد ہو تو چوتھی تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذَا عَبْدُکَ وَ ابْنُ عَبْدِکَ وَ ابْنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنْتَ خَيْرُ مَنْزُوْلٍ بِه اَللّٰهُمَّ اِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهُ اِلا خَيْراً وَّ ا نَْٔتَ اَعْلَمُ بِه مِنَّا اَللّٰهُمَّ اِنْ کَانَ مُحْسِناً فَزِدْ فِی اِحْسَانِه وَ اِنْ کَانَ مُسِئْياً فَتَجَاوَزْ عَنْهُ وَ اغْفِرْ لَه اَللّٰهُمَّ اجْعَله عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّيِّيْنَ وَ اخْلُفْ عَلٰی اهله فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْهُ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

ليکن اگر ميّت عورت ہو تو چوتھی تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذِه اَمَتُکَ وَ ابْنَةُ عَبْدِکَ وَ ابْنةُ اَمَتِکَ نَزَلَتْ بِکَ وَاَنْتَ خَيْرُ مَنْزُوْلٍ بِه اَللّٰهُمَّ اِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهَا اِلا خَيْراً وَّ ا نَْٔتَ اَعْلَمُ بِهَا مِنَّا اَللّٰهُمَّ اِنْ کَانَتْ مُحْسِنَةً فَزِدْ فِی اِحْسَانِهَا وَ اِنْ کَانَتْ مُسِيْئَةً فَتَجَاوَزْ عَنْهَا وَ اغْفِرْ لَهَا اَللّٰهُم اجْعَلْهَا عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّيِّيْنَ وَ اخْلُفْ عَلٰی اهلها فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْها بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن

مسئلہ ۶ ١ ۵ ضروری ہے کہ تکبيریں اور دعائيں یکے بعد دیگرے اس طرح پڑہيں کہ نماز اپنی شکل نہ کهو دے۔

مسئلہ ۶ ١ ۶ جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو خواہ مقتدی ہی کيوں نہ ہو اس کے لئے تکبيریں اور دعائيں پڑھنا ضروری ہے ۔

۱۰۱

نمازِ ميّت کے مستحبات

مسئلہ ۶ ١٧ چند چيزیں نمازِ ميّت ميں مستحب ہيں :

١) جو شخص نمازِ ميّت پڑھے وہ وضو یا غسل یا تيمم کرے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ تيمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرنا ممکن نہ ہو یا اس بات کا خدشہ ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے گا تو نماز ميں شریک نہ ہو سکے گا۔

٢) اگر ميّت مرد ہو تو امام یا جو شخص اکيلا ميّت پر نماز پڑھ رہا ہو ميّت کے شکم کے سامنے کهڑا ہو اور اگر ميّت عورت ہو تو اس کے سينے کے سامنے کهڑا ہو ۔

٣) نماز ننگے پاؤں پڑھے۔

۴) ہر تکبير ميں ہاتھوں کو بلند کرے۔

۵) ميّت اور نماز ی کے درميا ن فاصلہ اتنا کم ہو کہ اگر ہو ا نماز ی کے لباس کو حرکت دے تو وہ جنازے کو چھو جائے۔

۶) نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھی جائے۔

٧) امام تکبيریں اور دعائيں بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آهستہ پڑہيں ۔

٨) نماز جماعت ميں مقتدی اگر چہ ایک شخص ہی کيوں نہ، ہو امام کے پيچهے کهڑا ہو ۔

٩) نماز پڑھنے والا ميّت اور مومنين کے لئے کثرت سے دعا کرے۔

١٠ ) نماز کو ایسی جگہ پڑہيں جهاں نمازِ ميّت کے لئے لوگ زیا دہ جاتے ہو ں۔

١١ ) اگر حائضہ عورت نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھے تو ایک صف ميں اکيلی کهڑی ہو ۔

مسئلہ ۶ ١٨ مسجدوں ميں نمازِ ميّت پڑھنا مکروہ ہے ليکن مسجد الحرام ميں پڑھنا مکروہ نہيں ہے ۔

دفن کے احکام مسئلہ ۶ ١٩ ميّت کو اس طرح زمين ميں دفن کرنا واجب ہے کہ اس کی بو باہر نہ آئے اور درندے بھی اس کا بدن باہر نہ نکال سکيں اور اگر اس بات کا خوف ہو کہ جانور اس کا بدن باہر نکا ل ليں گے تو قبر کو اینٹوں اور اس جيسی چيزوں سے پختہ کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٠ اگر ميّت کو زمين ميں دفن کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے دفن کرنے کی بجائے کسی ایسی تعمير شدہ جگہ یا تابوت ميں رکھا جائے جس سے دفن کا مقصد حاصل ہو سکے۔

مسئلہ ۶ ٢١ ميّت کو قبر ميں دائيں پهلو اس طرح لٹانا ضروری ہے کہ اس کے بدن کا سامنے والا حصّہ قبلہ رخ ہو۔

۱۰۲

مسئلہ ۶ ٢٢ اگر کوئی شخص کشتی ميں مرجائے اور اس کی ميت کے خراب ہو نے کا امکا ن نہ ہو اور اسے کشتی ميں رکھنے ميں کوئی امر مانع نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کریں تا کہ خشکی تک پهنچ کر اسے زمين ميں دفن کریں، ورنہ ضروری ہے کہ اسے کشتی ميں غسل دیں، حنوط کریں اور کفن پهنائيں اور نمازِ ميّت پڑھنے کے بعد اسے مرتبان ميں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیں اور اسے سمندر ميں ڈال دیں اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ جهاں تک ممکن ہو قبلہ رخ ہو نے کا خيا ل رکہيں ۔

اور اگر ممکن نہ ہو تو کوئی بهاری چيز اس کے پاؤں ميں بانده کر سمندر ميں ڈال دیں اور ممکنہ صورت ميں اسے ایسی جگہ ڈاليں جهاں جانور اسے فوراً لقمہ نہ بناليں۔

مسئلہ ۶ ٢٣ اگر اس بات کا خوف ہو کہ دشمن قبر کهود کر ميّت کو باہر نکا ل لے گا اور کا ن یا ناک یا دوسرے اعضاء کاٹ لے گا، تو اگر ممکن ہو تو سابقہ مسئلے ميں بيا ن کئے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر ميں ڈال دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢ ۴ اگر ميّت کو سمندر ميں ڈالنا یا اس کی قبر پختہ کرنا ضروری ہو تو اس کے اخراجات ميّت کے اصل مال سے لئے جائيں گے۔

مسئلہ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی کا فر عورت مرجائے اور اس کے پيٹ ميں مرا ہو ا بچہ ہو اور اس بچے کا باپ مسلمان ہو تو اس عورت کو قبر ميں بائيں پهلو قبلے کی طرف پيٹھ کر کے لٹانا ضروری ہے تا کہ بچے کا منہ قبلے کی طرف ہو اور اگر پيٹ ميں موجود بچے کے بدن ميں ابهی جان نہ پڑی ہو تب بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢ ۶ مسلمان کو کفار کے قبرستان ميں دفن کرنا اور کا فر کو مسلمانوں کے قبرستان ميں دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٧ مسلمان کو ایسی جگہ جهاں اس کی بے حرمتی ہو تی ہو مثلاً جهاں کوڑا کرکٹ اور گندگی پھينکی جاتی ہو، دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٨ ميّت کو غصبی زمين یا ایسی زمين ميں جو دفن کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کے لئے وقف کی گئی ہو، دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٩ ميّت کو کسی دوسرے مردے کی قبر ميں دفن کرنا، جب کہ اس وجہ سے غير کے حق ميں تصرف ہو رہا ہو یا ایسی قبر کو کهودنا پڑ رہا ہو جس ميں ميّت ابهی باقی ہے یا ميّت کی بے حرمتی ہو رہی ہو، جائز نہيں ہے ۔هاں، اس کے علاوہ صورتو ں ميں مثلاً قبر پر انی ہو گئی ہو اور پهلی ميّت کا نشان باقی نہ رہا ہو یا قبر پهلے ہی کهودی جا چکی ہو، تو دفن کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٣٠ ميّت سے جدا ہو نے والی چيز اگر اس کے بدن کا حصّہ ہو تو ضروری ہے کہ ميّت کے ساته دفن ہو اور اگر بال، ناخن اور دانت ہو ں تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ميّت کے ساته دفن ہو ں اور جو ناخن اور دانت انسان کی زندگی ميں ہی اس سے جدا ہو جائيں انہيں دفن کرنا مستحب ہے ۔

۱۰۳

مسئلہ ۶ ٣١ اگر کوئی شخص کنویں ميں مرجائے اور اسے باہر نکا لنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ کنویں کا منہ بند کر کے اس کنویں کو ہی اس کی قبر قرار دیں۔

مسئلہ ۶ ٣٢ اگر بچہ ماں کے پيٹ ميں مرجائے اور اس کا پيٹ ميں رہنا ماں کی زندگی کے لئے خطرناک ہو تو ضروری ہے کہ اسے آسان ترین طریقے سے باہر نکا ليں اور اگر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر مجبور ہو ں تو ایسا کرنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ۔هاں، یہ ضروری ہے کہ اگر اس عورت کا شوہر اہل فن ہو تو وہ بچے کو باہر نکا لے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی اہل فن عورت کے ذریعے نکا ليں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایسا محرم مرد نکا لے جو اہل فن ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو نامحرم مرد جو اہل فن ہو بچے کو باہر نکا لے اور اگر ایسا شخص بھی موجود نہ ہو تو پھر جو اہل فن نہ ہو، بتائی گئی ترتيب کا خيا ل رکھتے ہو ئے بچے کو باہر نکا ل سکتا ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣٣ اگر ماں مرجائے اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو، تو چاہے اس بچے کے زندہ رہنے کی اميد نہ ہو تب بھی ضروری ہے کہ ان اشخاص کے ذریعے جن کا ذکر سابقہ مسئلے ميں ہو چکا ہے ، ترتيب کا لحاظ رکھتے ہو ئے اس کے پيٹ کی اس جگہ کو چاک کریں جو بچے کی سلامتی کے لئے بہتر ہو اور بچے کو باہر نکا ليں اور ميت کو غسل دینے کے لئے اس جگہ کو دوبارہ ٹانکے لگا دیں۔

دفن کے مستحبات

مسئلہ ۶ ٣ ۴ مستحب ہے کہ قبر کو ایک متو سط انسان کے قد کے لگ بھگ کهودیں اور ميّت کو نزدیکی ترین قبرستان ميں دفن کریں، مگر یہ کہ دور والا قبرستان کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً وہاں نيک لوگ دفن کئے گئے ہو ں یا لوگ وہاں اہل قبور پر فاتحہ پڑھنے زیا دہ جاتے ہو ں۔

یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ کو قبر سے چند گز دور زمين پر رکھ دیں اور تين دفعہ ميں تهوڑا تهوڑا کر کے قبر کے نزدیک لے جائيں اور ہر مرتبہ زمين پر رکہيں اور پھر اٹھ اليں اور چوتھی مرتبہ قبر ميں اتار دیں اور اگر ميّت مرد ہو تو تيسری دفعہ زمين پر اس طرح رکہيں کہ اس کا سر قبر کی نچلی طرف ہو اور چوتھی دفعہ سر کی طرف سے قبر ميں داخل کریں۔ اور اگر ميّت عورت ہو تو تيسری دفعہ اسے قبر کے قبلے کی طرف رکہيں اور پهلو کی طرف سے قبر ميں اتار دیں اور قبر ميں اتارتے وقت ایک کپڑا قبر کے اُوپر تان ليں۔

یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ آرام کے ساته تابوت سے نکا ليں اور قبر ميں داخل کریں۔ اسی طرح وہ دعائيں جنہيں پڑھنے کے لئے کها گيا ہے دفن کرنے سے پهلے اور دفن کرتے وقت پڑہيں ۔ ميّت کو قبر ميں رکھنے کے بعد اس کے کفن کی گرہيں کھول دیں، اس کا رخسار زمين پر رکھ دیں، اس کے سر کے نيچے مٹی کا تکيہ بنا دیں، اس کی پيٹھ کے نيچے کچی اینٹيں یا ڈهيلے رکھ دیں تا کہ ميّت چت نہ ہو جائے اور اس سے پهلے کہ قبر بند کریں، کوئی ایک شخص اپنا دایا ں ہاتھ ميّت کے دائيں کندهے پر مارے، بایا ں ہاتھ زور سے ميّت کے بائيں کندهے پر رکھے، منہ اس کے کا ن کے قریب لے جائے، اسے زور سے حرکت دے اور تين دفعہ کهے:

۱۰۴

إِسْمَعْ إِفْهَمْ یَا فلان ابن فلان اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام لے، مثلاً اگر اس کا اپنا نام محمد اور اس کے باپ کا نام علی ہو تو تين دفعہ کهے:

إِسْمَعْ إِفْهَمْ یَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلی اس کے بعد کهے:

هَلْ ا نَْٔتَ عَلَی الَعَهْدِ الَّذِیْ فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ مِنْ شَهَادَةِ ا نَْٔ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا نََّٔ مُحَمَّدا صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ عَبْدُه وَ رَسُوْلُه وَ سَيِّدُ النَّبِيِّيْنَ وَ خَاتَمُ الْمُرْسَلِيْنَ وَ اَنَّ عَلِياًّ اَمِيْرُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ سَيِّدُ الْوَصِيِّيْن وَ اِمَامٌ افْتَرَضَ اللّٰهُ طَاعَتَه عَلَی الْعَالَمِيْنَ وَاَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ وَ عَلِیَّ بَنَ الْحُسَيْنِ و مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ جَعْفَرَ بْن مُحَمَّدٍ وَّ مُوْسَی بْنَ جَعْفَرٍ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُوْسٰی وَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ وَّالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ وَّالْقَائِمَ الْحُجَّةَ الْمَهْدِیَّ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اَئِمَّةُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ حُجَجُ اللّٰهِ عَلَی الْخَلْقِ اَجْمَعِيْنَ وَاَئِمَّتُکَ اَئِمَّةُ هُدیً ا بَْٔرَارٌ یَا فلان بن فلان اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام لے اور اس کے بعد کهے:

اِذَا اَتَاکَ الْمَلَکَانِ الْمُقَرَّبَانِ رَسُوْلَيْنِ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ وَ سَئَلاَ کَ عَنْ رَبِّکَ وَ عَنْ نَّبِيِّکَ و عَنْ دِیْنِکَ وَ عَنْ کِتَابِکَ وَ عَنْ قِبْلَتِکَ وَ عَنْ اَئِمَّتِکَ فَلاَ تَخَفْ وَلاَ تَحْزَنْ وَ قُلْ فِی جَوَابِهِمَا اَللّٰهُ رَبِّی وَ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ نَبِيِّیْ وَالْاِسْلاَمُ دِیْنِیْ وَالْقُرْآنُ کِتَابِیْ وَالْکَعْبَةُ قِبْلَتِیْ وَ اَمِيْرُالْمُوْمِنِيْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب اِمَامِیْ وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْمُجْتَبیٰ اِمَامِیْ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِیٍّ الشَّهِيْدُ بِکَرْبَلاَ اِمَامِیْ وَ عَلِیٌّ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ اِمَامِیْ و مُحَمَّدٌ الْبَاقِرُ اِمَامِیْ وَ جَعْفَرٌ الصَّادِقُ اِمَامِیْ وَ مُوْسَی الْکَاظِمُ اِمَامِیْ وَ عَلِیٌّ الرِّضَا اِمَامِیْ وَ مُحَمَّدٌ الْجَوَادُ اِمَامِی وَعَلِیٌّ الْهَادِیْ اِمَامِیْ وَ الْحَسَنُ الْعَسْکَرِیْ اِمَامِیْ وَالْحُجَّةُ الْمُنْتَظَرُ اِمَامِیْ هٰؤُلاَءِ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اَئِمَّتِیْ وَ سَادَتِی وَ قَادَتِیْ وَ شُفَعَائِیْ بِهِمْ ا تََٔوَلیّٰ وَ مِنْ اَعْدَائِهِمْ ا تََٔبَرَّءُ فِی الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ثُمَّ اعْلَمْ یَا فلان بن فلان

اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام ليںاور اس کے بعد کهے:

اَنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ نِعْمَ الرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ نِعْمَ الرَّسُوْلُ وَاَنَّ عَلِیَّ بْنَ ا بَِٔی طَالِبٍ وَّ اَوْلاَدَهُ الْمَعْصُوْمِيْنَ الْاَئِمَّةَ الْاِثْنٰی عَشَرَ نِعْمَ الْا ئَِٔمَّةُ وَ اَنَّ مَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ حَقٌّ و اَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَّ سُؤَالَ مُنْکَرٍ وَّ نَکِيْرٍ فِی الْقَبْرِ حَقٌّ وَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَّ النُّشُوْرَ حَقٌّ وَّ الصِّرَاطَ حَقٌّ وَّ الْمِيْزَانَ حَقٌّ و تَطَایُرَ الْکُتُبِ حَقٌّ وَّ اَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لاَّ رَیْبَ فِيْهَا وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْر پھر کهے:

ا فََٔهِمْتَ یَا فلان اور فلان کی جگہ ميّت کا نام لے اور اس کے بعد کهے:

ثَبَّتَکَ اللّٰهُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ وَ هَدَاکَ اللّٰهُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ عَرَّفَ اللّٰهُ بَيْنَکَ وَ بَيْنَ ا ؤَْلِيَائِکَ فِی مُسْتَقَر مِّنْ رَّحَمْتِه

۱۰۵

اس کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ وَاصْعَدْ بِرُوْحِه اِلَيْکَ وَ لَقَّه مِنْکَ بُرها ناً اَللّٰهُمَّ عَفْوَکَ عَفْوَک

مسئلہ ۶ ٣ ۵ مستحب ہے کہ جو شخص ميّت کو قبر ميں اُتارے وہ با طهارت، برہنہ سر اور ننگے پاؤں ہو، ميّت کی پائنتی کی طرف سے قبر سے باہر نکلياور مستحب ہے کہ قبر سے باہر آنے کے بعد کهے:

اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبّ الْعَالَمِيْنَ اَللّٰهُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَه فِی اَعْلٰی عِلِّيِّيْنَ وَاخْلُفْ عَلیٰ عَقِبِه فِی الْغَابِرِیْنَ (وَعِنْدَکَ نَحْتَسِبُه) یَا رَبَّ الْعَالَمِيْن اور مستحب ہے کہ ميّت کے عزیز و اقرباء کے علاوہ جو لوگ موجود ہو ں وہ ہاتھ کی پشت سے قبر پر مٹی ڈاليں۔یہ بھی مستحب ہے کہ اگر ميّت عورت ہو تو اس کا محرم اسے قبر ميں اُتارے اور اگر کوئی محرم نہ ہو تو اس کے عزیز و اقرباء اسے قبر ميں اُتاریں۔

مسئلہ ۶ ٣ ۶ مستحب ہے کہ قبر مربع یا مربع مستطيل بنائی جائے، اسے زمين سے تقریباً چار انگليوں کے برابر اٹھ ایا جائے اور اس پر کوئی نشانی رکھی جائے تاکہ پهنچاننے ميں غلطی نہ ہو ۔ قبر پر پانی چھڑکا جائے اور پانی چھڑکنے کے بعد جو لوگ موجود ہو ں وہ اپنے ہاتھ قبر پر رکہيں ، انگلياں کھول کر قبر کی مٹی ميں گاڑیں اور سات دفعہ سورہ مبارکہ انا انزلناہ پڑہيں ، ميّت کے لئے طلب مغفرت کریں اور وارد شدہ دعائيں پڑہيں ، مثال کے طور پر یہ دعا:

اَللّٰهُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ وَاصْعَدْ (صَعِّدْ) رُوْحَه اِلیٰ اَرْوَاحِ الْمُوْمِنِيْنَ فِی عِلِّيِّيْنَ وَاَلْحِقْهُ بِالصَّالِحِيْن

مسئلہ ۶ ٣٧ مستحب ہے کہ تشييع جنازہ کے لئے آئے ہو ئے لوگوں کے چلے جانے کے بعد ميّت کا ولی یا وہ شخص جسے ولی اجازت دے ميّت کو ان دعاؤں کی تلقين کرے جو بتائی گئی ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٣٨ مستحب ہے کہ دفن کے بعد ميّت کے پسماندگان کو پر سہ دیا جائے، ليکن اگر اتنی مدت گذر چکی ہو کہ پر سہ دینے سے ان کا دکه تازہ ہو جائے تو پر سہ نہ دینا بہتر ہے ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ ميّت کے اہل خانہ کے لئے تين دن تک کھانا بھيجا جائے اور ان کے پاس بيٹھ کر کھانا کھانا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣٩ مستحب ہے کہ انسان عزیز و اقرباء کی موت پر خصوصاً بيٹے کی موت پر صبر کرے، جب بھی ميّت کو یاد کرے( اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيه رَاجِعُوْنَ ) پڑھے، ميّت کے لئے قرآن کی تلاوت کرے، قبر کو پختہ بنائے تا کہ جلدی خراب نہ ہو اور ماں باپ کی قبر پر خداوند متعال سے حاجات طلب کرے۔

مسئلہ ۶۴ ٠ کسی کی موت پر انسان کے لئے اپنے چھرے و بدن کو زخمی کرنا یا اپنے آپ کو نقصان پهنچانا، جب کہ اس کی وجہ سے قابل ذکر نقصان پهنچ رہا ہو، جائز نہيں ہے ۔ اگر چہ ضرر نہ بھی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ترک کرے۔

۱۰۶

مسئلہ ۶۴ ١ احتياط واجب کی بنا پر باپ اور بهائی کے علاوہ کسی اور کی موت پر گریبان چاک کرنا جائز نہيں ہے ليکن باپ اور بهائی کی مصيبت ميں ایسا کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶۴ ٢ اگر عورت ميّت کے سوگ ميں اپنا چہرہ زخمی کر کے خون آلود کرلے یا بال نوچے تو احتياط مستحب کی بنا پر ایک غلام آزاد کرے یا دس فقيروں کو کھانا کهلائے یا انہيں کپڑے پهنائے۔ اسی طرح اگر مرد اپنی بيوی یا فرزند کی موت پر اپنا گریبان چاک کرے یا لباس پهاڑے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶۴ ٣ احتياط مستحب یہ ہے کہ ميّت پر روتے وقت آواز زیا دہ بلند نہ کی جائے۔

نمازِ وحشت

مسئلہ ۶۴۴ مستحب ہے کہ ميّت کے دفن کے بعد پهلی رات کو اس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے۔ اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ حمد کے بعد ایک دفعہ آیت الکرسی اور دوسری رکعت ميں سورہ حمد کے بعد دس دفعہ سورہ انا انزلناہ پڑھا جائے اور نماز کے سلام کے بعد کها جائے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ابْعَثْ ثَوَابَهَا اِلیٰ قَبْرِ فُلان اور لفظ فلان کی بجائے ميّت کا نام ليا جائے۔

مسئلہ ۶۴۵ ميّت کے دفن کے بعد پهلی رات کو کسی بھی وقت نمازِ وحشت پڑھی جاسکتی ہے ، ليکن بہتر یہ ہے کہ اوّل شب ميں نماز عشا کے بعد پڑھی جائے۔

مسئلہ ۶۴۶ اگرميّت کو کسی دور کے شہر لے جانا ہو یا کسی اور وجہ سے اس کے دفن ميں تاخير ہو جائے تو نمازِ وحشت کو دفن کی پهلی رات تک ملتو ی کرنا ضروری ہے ۔

نبشِ قبر

مسئلہ ۶۴ ٧ کسی مسلمان کی قبر نبش کرنا، یعنی اس کی قبر کو کھولنا، خواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کيوں نہ ہو حرام ہے ۔ ہاں، اگر اس کا بدن ختم ہو چکا ہو اور ہڈیا ں مٹی بن چکی ہو ں تو پھر کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶۴ ٨ امام زادگان، شهدا، علما اور اس کے علاوہ ہر اس مقام پر جهاں قبر کھولنا بےحرمتی کا باعث ہو، حرام ہے ، خواہ انہيں فوت ہو ئے سالهاسال گزرچکے ہو ں۔

مسئلہ ۶۴ ٩ چند صورتو ں ميں قبر کا کھولنا حرام نہيں ہے :

١) ميّت کو غصبی زمين ميں دفن کيا گيا ہو اور زمين کا مالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو ۔

٢) کفن یا کوئی اور چيز جوميّت کے ساته دفن کی گئی ہو غصبی ہو اور اس کا مالک اس بات پر رضامند نہ ہو کہ وہ قبر ميں رہے۔

۱۰۷

اور اسی طرح اگر خود ميّت کے مال ميں سے کوئی چيز جو اس کے ورثاء کو ملی ہو اس کے ساته دفن ہو گئی ہو اور وارث اس بات پر راضی نہ ہو ں کہ وہ چيز قبر ميں رہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، مگر یہ کہ اس چيز کی قيمت کم ہو تو اس صورت ميں قبر کا کھولنا محل اشکا ل ہے ۔

٣) قبر کا کھولنا ميّت کی بے حرمتی کا سبب نہ ہو، جب کہ ميّت کو بغير غسل کے یا کفن پهنائے بغير دفن کيا گيا ہو یا معلوم ہو جائے کہ ميّت کا غسل باطل تھا یا اسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہيں دیا گيا تھا یا قبر ميں قبلہ رخ نہيں لٹایا گيا تھا۔

۴) ایسا حق ثابت کرنے کے لئے ميت کا بدن دیکھنا چاہيں جوميت کے احترام سے زیا دہ اہم ہو۔

۵) ميّت کو ایسی جگہ دفن کيا گيا ہو جهاں اس کی بے حرمتی ہو تی ہو مثلاً اسے کا فروں کے قبرستان ميں یا ایسی جگہ دفن کيا گيا ہو جهاں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھينکا جاتا ہو ۔

۶) کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبر کھولی جائے جس کی اہميت قبر کھولنے سے زیا دہ ہو، مثلاً زندہ بچے کو ایسی حاملہ عورت کے پيٹ سے نکا لنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گيا ہو ۔

٧) اس بات کا خوف ہو کہ ميّت کو درندہ چير پهاڑ ڈالے گا یا سيلاب اسے بهالے جائے گا یا اسے دشمن نکا ل لے گا۔

٨) ميّت کے بدن کا کوئی ایسا حصہ دفن کرنا چاہيں جو اس کے ساته دفن نہ ہو سکا ہو، ليکن احتياطِ واجب یہ ہے کہ بدن کے اس حصّے کو قبر ميں اس طرح رکہيں کہ ميّت کا بدن نظر نہ آئے۔

مستحب غسل

مسئلہ ۶۵ ٠ اسلام کی مقدس شریعت ميں بہت سے غسل مستحب ہيں جن ميں سے کچھ یہ ہيں :

١) غسلِ جمعہ: اس کا وقت صبح کی اذان کے بعد سے ظہر تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ ظہر کے قریب بجالایا جائے اور اگر کوئی شخص ظہر تک انجام نہ دے تو بہتر ہے کہ ادا و قضا کی نيت کئے بغير غروب آفتاب تک بجالائے اور اگر جمعہ کے دن غسل نہ کرے تو مستحب ہے کہ ہفتے کے دن صبح سے غروب آفتاب تک اس کی قضا بجالائے اور جو شخص جانتا ہو کہ اسے جمعہ کے دن پانی ميسر نہ ہو گا تو وہ رجاء جمعرات کے دن غسل انجام دے سکتا ہے ۔

مستحب ہے کہ انسان غسل جمعہ کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد وَّاجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّا بِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْن

۱۰۸

٢) ماہ رمضان کی پهلی، سترہو یں، انيسویں، اکيسویں، تيئيسویں اور چوبيسویں رات کا غسل۔

٣) عيدالفطر اور عيد قربان کے دن کا غسل۔ ان کا وقت صبح کی اذان سے غروب آفتاب تک ہے ، اگر چہ احوط یہ ہے کہ ظہر سے غروب کے وقت تک رجاء کی نيت سے بجالائے اور بہتر یہ ہے کہ نماز عيد سے پهلے کيا جائے۔

۴) عيدالفطر کی رات کا غسل ۔ اس کا وقت غروب کے بعد ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ رات کی باقی مدت ميں اذانِ صبح تک رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

۵) ماہ ذی الحجہ کے آٹھ ویں اور نویں دن کا غسل اور احوط یہ ہے کہ نویں دن کا غسل زوال کے وقت کيا جائے۔

۶) اس شخص کا غسل جس نے سورج گرہن کے وقت عمداً نماز آیا ت نہ پڑھی ہو جب کہ سورج کو مکمل گرہن لگا ہو۔

٧) اس شخص کا غسل جس نے اپنے بدن کا کوئی حصہ ایسی ميّت سے مس کيا ہو جسے غسل دیا جاچکا ہو ۔

٨) احرام کا غسل۔

٩) حرم خدا ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١٠ ) مکہ مکرمہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١١ ) خانہ کعبہ کی زیا رت کا غسل۔

١٢ ) کعبہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١٣ )نحر، ذبح اور حلق (بال مونڈنے) کے لئے غسل۔

١ ۴ ) مدینہ منورہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١ ۵ ) حرمِ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں داخل ہو نے کا غسل(اور اس کی حدود، عائراور وعيرنامی دو پهاڑیوں کے درميان ہے )۔

١ ۶ ) پيغمبر اکرم(ص) کی قبر مطہر سے وداع کا غسل۔

١٧ )دشمن کے ساته مباہلہ کرنے کا غسل۔

١٨ )نوزائدہ بچے کو غسل دینا۔

١٩ ) استخارہ کرنے کا غسل۔

٢٠ )طلب باران کا غسل۔

٢١ ) مکمل سورج گرہن کے وقت کا غسل۔

۱۰۹

٢٢ )حضرت سيدالشهداء عليہ السلام کی نزدیک سے زیا رت کا غسل۔

٢٣ )فسق اور کفر سے تو بہ کا غسل۔

مسئلہ ۶۵ ١ فقهاء نے مستحب غسلوں کے باب ميں بہت سے غسلوں کو ذکر فرمایا ہے جن ميں سے چند یہ ہيں :

١) رمضان المبارک کی تمام طاق راتو ں کا غسل اور اس کی آخری دهائی کی تمام راتو ں کا غسل اور اس کی تيئيسویں رات کے آخری حصّے ميں دوسرا غسل۔

٢) ماہ ذی الحجہ کے چوبيسویں دن کا غسل۔

٣) عيد نوروز کے دن، پندرہو یں شعبان، نویں اور سترہو یں ربيع الاوّل اور ذی القعدہ کے پچيسویں دن کا غسل۔

۴) اس عورت کا غسل جس نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے خوشبو استعمال کی ہو ۔

۵) اس شخص کا غسل جو مستی کی حالت ميں سوگيا ہو ۔

۶) اس شخص کا غسل جو کسی سولی چڑھے ہو ئے انسان کو دیکھنے گيا ہو اور اسے دیکھا بھی ہو، ليکن اگر اتفاقاً یا مجبوری کی حالت ميں نظر کی ہو یا مثال کے طور پر گواہی دینے گيا ہو تو غسل مستحب نہيں ہے ۔

٧) مسجد نبوی صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں داخل ہو نے کا غسل

٨) دور یا نزدیک سے معصومين عليهم السلام کی زیا رت کے لئے غسل۔

٩) عيد غدیر کے دن کا غسل۔

ليکن احوط یہ ہے کہ یہ تمام غسل رجاء کی نيت سے بجالائے جائيں۔

مسئلہ ۶۵ ٢ ان مستحب غسلوں کے ساته جن کا ذکر مسئلہ ” ۶۵ ٠ “ ميں کيا گيا ہے انسان ایسے کا م جن کے لئے وضو ضروری ہے مثلاً نماز، انجام دے سکتا ہے ليکن جو غسل رجاء کی نيت سے کئے جائيں وہ وضو کی جگہ کافی نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶۵ ٣ اگر کسی شخص کے ذمے کئی مستحب غسل ہو ں اور وہ سب کی نيت کر کے ایک غسل کرلے تو کافی ہے ۔

تيمم

سات صورتو ں ميں وضواورغسل کے بجائے تيمم کرناضروری ہے :

تيمم کی پهلی صورت

١) یہ کہ وضویا غسل کے لئے ضروری مقدارميں پانی مهيا کرناممکن نہ ہو۔

۱۱۰

مسئلہ ۶۵۴ اگر انسان آبادی ميں ہو تو ضروری ہے کہ وضواورغسل کا پانی مهيا کرنے کے لئے اتنی جستجوکرے کہ اس کے ملنے سے نااميد ہو جائے اوراگر بيا بان ميں ہو تو ناہموار زمين ميں پر انے زمانے ميں کمان سے پھينکے جانے والے ایک تير کی پروازکے برابراور ہموار زمين ميں دوبارپھينکے جانے والے تيرکے فاصلے کے برابر جستجو کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر یہ جستجودائرے کی شکل ميں ہو جس کا مرکز پانی ڈهونڈنے کی ابتدائی جگہ اور درميا نی فاصلہ تيرکی پر واز کے برابرہو ۔

مسئلہ ۶۵۵ اگر چاراطراف ميں سے بعض ہمواراوربعض ناہموارہو ں تو ضرورری ہے کہ جوطرف ہموارہو اس ميں دوتيروں کی پر واز کے برابراورجوطرف ناہموارہو اس ميں ایک تيرکی پر واز کے برابرمذکورہ بالامسئلے ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق جستجوکرے۔

مسئلہ ۶۵۶ جس طرف پانی کے نہ ہو نے کا یقين یا شرعی گواہی موجود ہو اس طرف تلاش کرناضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶۵ ٧ اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ نہ ہو اورپانی مهيا کرنے کے لئے اس کے پاس وقت ہو، اگر یقين یا شرعی گواہی ہو کہ جس فاصلے تک پانی تلاش کرناضروری ہے اس سے دورپانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ پانی حاصل کرنے کے لئے وہاں جائے، بشرطيکہ وہاں جانامشقت وضررکا باعث نہ ہو اوراگر پانی موجودهو نے کا گمان ہو، خواہ اس کا گمان قوی ہی کيوںنہ ہو جب تک اطمينان حاصل نہ ہو، جاناضروری نہيں ہے ، ليکن احوط ہے ۔

مسئلہ ۶۵ ٨ ضروری نہيں کہ انسان خودپانی کی تلاش ميں جائے بلکہ کسی اورایسے شخص کوبھيج سکتاہے جس کے کهنے پر اسے اطمينان ہو ۔ اسی طرح کسی ایسے شخص کو بھی بھيج سکتا ہے جو ثقہ ہو اور اس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو، چاہے اس کے بتانے سے اطمينان بھی حاصل نہ ہو ۔ ان دونوں صورتو ں ميں ایک شخص کا چند اشخاص کی طرف سے جاناکافی ہے ۔

مسئلہ ۶۵ ٩ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے سامان سفر ميں یا پڑاو ڈالنے کی جگہ پر یا قافلے ميں پانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ اس قدر جستجوکرے کے اسے پانی نہ ہو نے کا یقين یا اطمينان ہو جائے یا اس کے حصول سے نااميد ہو جائے۔

مسئلہ ۶۶ ٠ اگرشخص نماز کے وقت سے پهلے، تلاش کرنے کے باوجود پانی حاصل نہ کرپائے اورنماز کے وقت تک وہيں رہے، چنانچہ اسے احتما ل ہو کہ اس جگہ پانی مل جائے گا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پهلے کی جستجوپر اکتفانہ کرے، سوائے اس کے کہ وقت نماز داخل ہو نے سے کچھ پهلے اول وقت کی فضيلت کو پانے کے لئے جستجو کی ہو ۔

مسئلہ ۶۶ ١ اگر نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعدجستجوکے باوجود پانی حاصل نہ کرپائے اوربعدوالی نماز کے وقت تک اسی جگہ رہے، چنانچہ اگر احتما ل دے کہ اب وہاں پانی مل جائے گا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش ميں جائے۔

۱۱۱

مسئلہ ۶۶ ٢ اگر کسی شخص کے پاس نماز کے لئے وقت تنگ ہو یا اسے چور، ڈاکویا درندے سے جان یا اس کی حيثيت کے مطابق خاطر خواہ مال کا خوف ہو یا پانی کی تلاش اتنی کٹھن ہو کہ اس کی سختی کوبرداشت کرنا حرج کا باعث ہو تو جستجو ضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶۶ ٣ اگر کوئی شخص پانی تلاش نہ کرے یهاں تک کہ نماز کا وقت تنگ ہو جائے تو اگر چہ وہ گنهگار ہے ، ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے ، چاہے بعد ميں معلوم ہو جائے کہ اگر پانی تلاش کرتاتو مل جاتا اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ۶۶۴ جس شخص کو یقين ہو کہ پانی نہيں ملے گا، چنانچہ پانی کی تلاش ميں نہ جائے اور تيمم کرکے نماز پڑھ لے اوربعد ميں معلوم ہو کہ اگر پانی تلاش کرتاتو پانی مل جاتا، اگر وقت باقی ہو تو وضوکرکے دوبارہ نماز پڑھناضروری ہے ۔

مسئلہ ۶۶۵ اگر کسی شخص کوپانی تلاش کرنے پر نہ ملے اورتيمم کے ساته نماز پڑھ لے اورنماز پڑھنے کے بعدمعلوم ہو کہ جهاں اس نے پانی تلاش کيا تھا وہاں پانی موجود تھا، تو اگر وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ وضوکرکے دوبارہ نماز پڑھے ورنہ اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ۶۶۶ جس شخص کو یقين ہو کہ نماز کا وقت تنگ ہے اگر وہ پانی تلاش کئے بغير تيمم کے ساته نماز پڑھ لے اور نماز پڑھنے کے بعد اور وقت گزرنے سے پهلے اسے پتہ چلے کہ پانی تلاش کرنے کے لئے اس کے پاس وقت تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے اور اگر وقت گزرنے کے بعد معلوم ہو تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶۶ ٧ اگر نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعد کسی شخص کا وضو باقی ہو اور جانتا ہو یا شرعی دليل مثلاً اطمينان وغيرہ ہو کہ اگر اس نے اپناوضوباطل کردیا تو دوبارہ وضو کرنے کے لئے پانی نہيں ملے گا یا وضو نہيں کر پائے گا تو اس صورت ميں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو اور اس کے لئے کسی حرج و ضرر کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے باطل نہ کرے۔

ليکن ایساشخص یہ جانتے ہو ئے بھی کہ غسل نہ کرپائے گااپنی بيوی سے جماع کرسکتاہے۔

مسئلہ ۶۶ ٨ اگر کوئی شخص نماز کے وقت سے پهلے باوضو ہو اور اسے معلوم ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کردیا تو دوبارہ پانی مهيا کرنا اس کے لئے ممکن نہيں ہو گا تو اس صورت ميں اگر وہ اپنا وضو بغير کسی حرج یا ضرر کے برقرار رکھ سکتا ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنا وضو باطل نہ کرے۔

مسئلہ ۶۶ ٩ جب کسی کے پاس فقط وضویا غسل کی مقدارميں پانی ہو اور وہ جانتا ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ اگر اسے گرادے تو پانی نہيں مل سکے گا تو اگر نماز کا وقت داخل ہو گيا ہو تو یہ پانی گراناجائز نہيں ہے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پهلے بھی نہ گرائے۔

۱۱۲

مسئلہ ۶ ٧٠ اگر کوئی شخص جانتا ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ پانی حاصل نہ کرسکے گا، نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعدکسی ضرروحرج کے بغيراس کے لئے وضو باطل کرنا جائز نہيں یا جوپانی اس کے پاس ہے ، اسے گرانا جائز نہيں ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔

تيمم کی دوسری صورت

مسئلہ ۶ ٧١ اگر کوئی شخص کمزوری یا چور، ڈاکو اور جانور وغيرہ کے خوف سے یا کنویں سے پانی نکا لنے کے وسائل نہ ہو نے کی وجہ سے پانی حاصل نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔ اسی طرح اگر پانی مهيا کرنے یا اسے استعمال کرنے ميں اسے اتنی تکليف اٹھ انی پڑے جو ناقابل برداشت ہو تو اس صورت ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٢ اگر کسی شخص کے لئے، کنویں سے پانی نکا لنے کے لئے ڈول اوررسّی وغيرہ ضروری ہو ں اوروہ مجبور ہو کہ انہيں خریدے یا کرائے پر حاصل کرے تو خواہ ان کی قيمت عام بهاو سے کئی گنا زیا دہ ہی کيوں نہ ہو، ضروری ہے کہ مهيا کرے۔ اسی طرح اگر پانی اپنی قيمت سے مهنگا بيچا جارہا ہو تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر ان چيزوں کو مهيا کرنے کے لئے اتنا زیا دہ پيسے دینے پڑرہے ہو ں جو عسرو حرج کا باعث ہو ں تو ان چيزوں کا مهيا کرنا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٣ اگر کوئی شخص پانی مهيا کرنے کے لئے قرض لينے پر مجبور ہو تو ضروری ہے کہ قرض کرے، ليکن جو شخص جانتا ہو یا اسے اطمينان ہو کہ وہ قرضے کی ادائيگی نہ کرسکے گا تو اس کے لئے قرض لينا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧ ۴ اگر کنواں کهودنے ميں کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ انسان پانی مهيا کرنے کے لئے کنواں کهودے۔

مسئلہ ۶ ٧ ۵ اگر کوئی شخص بغير احسان کے کچھ پانی دے تو اسے قبول کرنا ضروری ہے ۔

تيمم کی تيسری صورت

مسئلہ ۶ ٧ ۶ اگر کسی شخص کو پانی استعمال کرنے سے اپنی جان کا خوف ہو یا بدن ميں کوئی بيماری یا عيب پيدا ہونے یا بيماری کے طولانی یا شدید ہو جانے یا علاج ميں دشواری پيدا ہو نے کا خوف ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تيمم کرے، ليکن اگر گرم پانی اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو گرم پانی سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٧ ضروری نہيں ہے کہ انسان کو یقين ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے ، بلکہ یهی کہ اسے خوف ہو کہ پانی اس کے لئے ضرر رکھتاہے اور یہ خوف عام لوگوں کی نظرميں صحيح ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٧٨ اگر کوئی شخص درد چشم ميں مبتلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

۱۱۳

مسئلہ ۶ ٧٩ اگر کوئی شخص ضرر کے یقين یا خوف کی وجہ سے تيمم کرے اور نماز سے پهلے اس بات کا پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ نہيں تو اس کا تيمم باطل ہے اور اگر اس بات کا پتہ نماز کے بعد اور وقت گزرنے سے پهلے چلے تو وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھناضروری ہے اور اگر وقت باقی نہ ہو تو قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٨٠ اگر کسی شخص کویقين یا اطمينان ہو کہ پانی اس کے لئے مضرنہيں ہے اورغسل یا وضوکرلے، بعدميں اسے پتہ چلے کہ پانی اس کے لئے مضرتها، تو اگر ضرر اتنا زیا دہ ہو کہ اس کا اقدام حرام ہو تو وضو اور غسل دونوں باطل ہيں ۔

تيمم کی چوتھی صورت

مسئلہ ۶ ٨١ جس شخص کویہ خوف ہو کہ پانی سے وضویا غسل کرلينے کے بعدان ميں سے کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، تو ضروری ہے کہ وہ تيمم کرے:

١) یہ کہ وہ خود ابهی یا بعدميں ایسی پيا س ميں مبتلا ہو جائے گا جواس کی هلاکت یا بيماری کا سبب ہو گی یا اس کا برداشت کرنااس کے لئے سخت حرج کا باعث ہو گا۔

٢) اسے خوف ہو کہ جن افراد کی حفاظت کرنااس پر واجب ہے ، وہ پيا س سے هلاک یا بيمار ہو جائيں گے۔

٣) یہ کہ کسی انسان یا حيوان کی هلاکت یا بيماری یا بيتابی جواسے گراںگزرتی ہو کا خوف ہو یا اس حيوان کی هلاکت سے اُسے خاطر خواہ نقصان ہو۔

مسئلہ ۶ ٨٢ اگر کسی شخص کے پاس پاک پانی کے علاوہ جو وضو اور غسل کے لئے ہو، نجس پانی کی اتنی مقداربهی موجود ہو جو اس کے اور اس کے ساتهيوں کے پينے کے لئے کافی ہو، ليکن ان کے لئے پانی کی نجاست ثابت ہو اور نجس پانی پينے سے پر هيز بھی کرتے ہو ں تو ضروری ہے کہ پاک پانی کوپينے کے لئے رکھ لے اورتيمم کے ساته نماز پڑھے۔ ہاں، اگر بچے یا حيوان کوپانی دیناچاہے تو ضروری ہے کہ انہيں نجس پانی د ے اورپاک پانی کے ساته وضو یا غسل کرے۔

تيمم کی پانچويں صورت

مسئلہ ۶ ٨٣ اگر کسی شخص کا بدن یا لباس نجس ہو اوراس کے پاس اتنی مقدارميں پانی ہو کہ اس سے وضویا غسل کرنے کی صورت ميں بدن یا لباس دهونے کے لئے پانی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ بدن یا لباس دهوئے اورتيمم کرکے نماز پڑھے، ليکن اگر اس کے پاس ایسی کوئی چيزنہ ہو جس پر تيمم کرے تو ضروری ہے کہ پانی کووضویا غسل کے لئے استعمال کرے اورنجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے۔

۱۱۴

تيمم کی چھٹی صورت

مسئلہ ۶ ٨ ۴ اگر کسی شخص کے پاس ایسے پانی یا برتن کے علاوہ کوئی دوسرا پانی یا برتن نہ ہو کہ جس کا استعمال کرنا حرام ہے ، مثلااس کے پاس موجودپانی یا برتن غصبی ہو اوراس کے سواکوئی دوسراپانی یا برتن نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کے بجائے تيمم کرے۔

تيمم کی ساتو يں صورت

مسئلہ ۶ ٨ ۵ جب وقت اتناتنگ ہو کہ اگر ایک شخص وضویا غسل کرے تو ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ شخص تيمم کرے۔ ہاں، اگر وضو یا غسل کے لئے تيمم جتنا وقت ہی صرف ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرے۔

مسئلہ ۶ ٨ ۶ اگر کوئی شخص جان بوجه کرنماز پڑھنے ميں اتنی تاخيرکرے کہ وضویا غسل کا وقت باقی نہ رہے تو وہ گنهگار ہو گا، ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا وضو یا غسل کے ساته انجام دے۔

مسئلہ ۶ ٨٧ اگر کسی کوشک ہو کہ وضو یا غسل کرنے کی صورت ميں نماز کا وقت باقی رہے گا یا نہيں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٨٨ اگر کسی شخص نے وقت کی تنگی کی وجہ سے تيمم کيا ہو اورنماز کے بعدوضوکرسکنے کے باوجود نہ کرے یهاں تک کہ اس کے پاس موجودپانی ضائع ہو جائے اور اس وجہ سے اس کی ذمہ داری تيمم کرنا قرار پائے تو ضروری ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے دوبارہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٨٩ اگر کسی شخص کے پاس پانی موجود ہو ليکن وقت تنگ ہو نے کے باعث تيمم کرکے نماز پڑھنے لگے اورنماز کے دوران اس کے پاس موجودپانی ضائع ہو جائے اور اس کی ذمہ داری تيمم کرنا بن جائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے دوبارہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٩٠ اگر کسی شخص کے پاس اتنا وقت ہو کہ وضو یا غسل کرکے نماز کو اس کے مستحب اعمال مثلاً اقامت اورقنوت کے بغير پڑھ سکے، تو ضروری ہے غسل یا وضو کرے اور نماز کو مستحب اعمال کے بغير بجا لائے، بلکہ اگر سورہ پڑھنے جتنا وقت بھی نہ بچتا ہو تب بھی ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرکے بغير سورہ کے نماز پڑھے۔

۱۱۵

وہ چيزيں جن پر تيمم کرناصحيحہے

مسئلہ ۶ ٩١ مٹی، ریت، ڈهيلے، پتّھر اورہر اس چيزپر تيمم کرنا صحيح ہے جسے عرف عام ميں زمين کے اجزاء سے سمجھاجاتاہو، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ مٹی کے ہو تے ہو ئے کسی دوسری چيزپر تيمم نہ کيا جائے اوراگر مٹی نہ ہو تو ریت یا ڈهيلے پر اور اگر ریت اور ڈهيلا بھی نہ ہو تو پھر پتّھر پر تيمم کيا جائے۔

مسئلہ ۶ ٩٢ جپسم اورچونے کے پتّھرپر تيمم کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر اگر ممکن ہو تو چونے اور جپسم کے پکے ہوئے پتّھراورپکی اینٹ پر تيمم نہ کرے۔هاں، فيروزے اور عقيق جيسے پتّھروں پر تيمم جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩٣ اگر کسی شخص کو مٹی، ریت، ڈهيلے، پتّھر حتیٰ جپسم اور چونے کے پتّھر بھی نہ مل سکيں، تو ضروری ہے کہ قالين اور کپڑوں پر موجود گرد و غبارپر تيمم کرے اور اگر گرد و غبار بھی نہ مل سکے تو ضروری ہے کہ تر مٹی پر تيمم کرے اور اگر تر مٹی بھی نہ مل سکے تو مستحب یہ ہے کہ تيمم کے بغيرنماز پڑھے ليکن بعد ميں اس نماز کی قضا پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩ ۴ اگر کوئی شخص قالين اور اس جيسی دوسری چيزوں کو جهاڑ کر مٹی مهيا کرسکتا ہو تو اس کا گر د و غبار پر تيمم کرنا باطل ہے اور اگر مٹی کو خشک کرکے اس سے سوکهی مٹی حاصل کرسکتاہو تو گيلی مٹی پر تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩ ۵ جس شخص کے پاس پانی نہ ہو ليکن برف موجود ہو اور اسے پگهلانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے پگهلا کر پانی بنائے اور اس سے وضو یا غسل کرے اور اگر ایساکرنا ممکن نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ا یسی چيزبهی نہ ہو جس پر تيمّم کر نا صحيح ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ برف کے ساته اعضاءِ وضو یا غسل کو تر کرکے نماز پڑھے ليکن ضروری ہے کہ اس نمازکی قضابهی پڑھے۔

مسئلہ ۶ ٩ ۶ اگر مٹی اور ریت کے ساته سوکهی گهاس کی طرح کی کوئی چيزهو ئی ہو جس پر تيمم کرناباطل ہو تو اس پر تيمم نہيں کرسکتا، ليکن اگر وہ چيزاتنی کم ہو کہ اسے مٹی یا ریت ميں نہ ہو نے کے برابرسمجھا جائے تو اس مٹی یا ریت پر تيمم صحيح ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩٧ اگر ایک شخص کے پاس کوئی ایسی چيز نہ ہو جس پر تيمم کيا جاسکے اور اس کا خریدنا یا کسی طرح حاصل کرنا ممکن ہو اور حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ خرید کریا ایسے ہی کسی طریقے سے مهيا کرے۔

مسئلہ ۶ ٩٨ مٹی کی دیوار پر تيمم کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خشک زمين یا خشک مٹی کے ہو تے ہو ئے ترزمين یا ترمٹی پر تيمم نہ کيا جائے۔

مسئلہ ۶ ٩٩ انسان جس چيز پر تيمم کرے اس کا پاک ہوناضروری ہے اور اگر اس کے پاس ایسی کوئی پاک چيزنہ ہو جس پر تيمم کرنا صحيح ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر اس نجس چيز پر تيمم کرے اور نماز پڑھے اور ضروری ہے کہ بعدميں اس کی قضابجالائے۔

مسئلہ ٧٠٠ اگر کسی شخص کویقين ہو کہ ایک چيز پر تيمم کرناصحيح ہے اور اس پر تيمم کرلے اور بعدميں معلوم ہو کہ اس چيز پر تيمم کرنا باطل تھا تو جو نماز یں اس تيمم کے ساته پڑھی ہيں انہيں دوبارہ پڑھناضروری ہے ۔

۱۱۶

مسئلہ ٧٠١ وہ چيز جس پر تيمم کيا جائے اور وہ جگہ جهاں وہ چيز رکھی ہو، ضروری ہے کہ غصبی نہ ہو ں، پس اگر غصبی مٹی پر تيمم کرے یا اپنی مٹی بغيراجازت کے دوسرے کی ملکيت ميں رکھے اور اس پر تيمم کرے تو اس کا تيمم باطل ہے ، ليکن خود تيمم کرنے والے کی جگہ کا غصبی نہ ہوناتيمم کے صحيح ہو نے ميں معتبرنہيں ہے ۔

مسئلہ ٧٠٢ غصب کی ہو ئی فضاميں تيمم کرنا، مثال کے طورپر اگر کوئی شخص اپنی زمين ميں اپنے ہاتھ مٹی پر مارے اور پھراجازت کے بغيردوسرے کی زمين ميں داخل ہو کرہا تہوں کوپيشانی پر پهيرے، تو بنا براحتياط اس کا تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٠٣ غصبی چيزپر یا ایسی چيزپر جوغصبی جگہ رکھی ہوئی ہو، خواہ نہ جانتا ہو کہ غصبی ہے ، تيمم کرنا باطل ہے ۔ غصبی فضاميں تيمم کرنے کا بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

البتہ اگر بھول جائے یا غصب سے غافل ہو تو صحيح ہے ، سوائے اس کے کہ خودغاصب ہو اور غصب سے تو بہ نہ کی ہو کہ اس صورت ميں اگر اس کا تيمم غصبی چيزپر یا اس چيزپر ہو جو غصبی جگہ رکھی ہو تو باطل ہے ، جب کہ اگر تو بہ کرچکا ہو تو احتياط کی بنا پر باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٠ ۴ جوشخص غصبی جگہ ميں قيد ہو اور اس جگہ کا پانی اور مٹی دونوں غصبی ہو ں تو ضروری ہے کہ تيمم کرکے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٠ ۵ جس چيزپر تيمم کيا جائے، احتياطِ واجب کی بنا پر ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اس پر گرد و غبار موجود ہو جو ہاتھوں پر لگ جائے اور اس ميں ہاتھ مارنے کے بعدمستحب ہے کہ ہاتھوں کوجهاڑے۔

مسئلہ ٧٠ ۶ گڑھے والی زمين، راستے پر بيٹھی ہوئی مٹی اور ایسے نمکزار پرجس پر نمک کی تہہ نہ جمی ہو، تيمم کرنا مکروہ ہے اور اگر اس پر نمک کی تہہ جم گئی ہو تو باطل ہے ۔

وضو يا غسل کے بدلے تيمم کرنے کا طريقہ

مسئلہ ٧٠٧ وضو یا غسل کے بدلے کئے جانے والے تيمم ميں چارچيزیں واجب ہيں :

١) نيت۔

٢) دونوں ہتھيليوں کوایسی چيزپر مارناجس پر تيمم کرناصحيح ہو اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ دونوں ہتھيليوں کوایک ساته مارے۔

٣) دونوں ہتھيليوں کوپوری پيشانی اور پيشانی کے دونوں طرف، جهاں سرکے بال اگتے ہيں ، سے لے کربهنوو ںٔ اور ناک کے اوپر تک پهيرنااور احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہاتھ بهنوو ںٔ پر بھی پهيرے جائيں۔

۴) بائيں ہتھيلی کودائيں ہاتھ کی تمام پشت پر اور اس کے بعددائيں ہتھيلی کوبائيں ہاتھ کی تمام پشت پر پهيرنا۔

۱۱۷

مسئلہ ٧٠٨ احتياط مستحب یہ ہے کہ تيمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے، اس طرح سے کيا جائے کہ ایک دفعہ ہاتھوں کوزمين پر مارنے کے بعد پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے۔ اس کے بعد ایک دفعہ پھر زمين پر ہاتھ مارے اور ہاتھوں کی پشت کا مسح کرے۔

تيمم کے احکام

مسئلہ ٧٠٩ اگر ایک شخص پيشانی اور ہاتھوں کی پشت کے ذراسے حصے کا بھی مسح نہ کرے تو تيمم باطل ہے ، چاہے عمدًامسح نہ کيا ہو یا مسئلہ نہ جانتاہو یا بھول گيا ہو۔ البتہ بہت زیادہ باریک بينی بھی ضروری نہيں بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ یہ کها جاسکے کہ پوری پيشانی اور دونوں ہاتھوں کی مکمل پشت کا مسح ہو چکا ہے ۔

مسئلہ ٧١٠ یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ ہاتھ کی تمام پشت پر مسح کرليا ہے ، ضروری ہے کہ کلائی سے کچھ اوپر والے حصے کا بھی مسح کرے، ليکن انگليوں کے درميا ن مسح کرناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٧١١ ضروری ہے کہ پيشانی اور ہاتھوں کی پشت کا مسح اوپر سے نيچے کی جانب کرے اور ان افعال کو پے در پے انجام دے اور اگر ان کے درميا ن اتنافاصلہ دے کہ لوگ یہ نہ کہيں کہ تيمم کررہاہے تو تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ٧١٢ نيت کرتے وقت یہ معين کرناضروری ہے کہ اس کا تيمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے اور اگر غسل کے بدلے ہو تو اس غسل کوبهی معين کرے۔ ہاں، اجمالاًمعين کرنا بهی، مثلاً یہ نيت کہ یہ تيمم اس چيزکے بدلے ہے جوپهلے واجب ہو ئی یا بعد ميں ، کافی ہے ۔

اور اگر اس پر ایک ہی تيمم واجب ہو اور نيت کرے کہ ميں اپنی اس وقت کی ذمہ داری انجام دے رہا ہو ں، تو صحيح ہے ، چاہے اس ذمہ داری کی پہچان ميں غلطی کرے۔

مسئلہ ٧١٣ احتياط مستحب کی بنا پر تيمم ميں پيشانی، ہتھيليوں اور ہاتھوں کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٧١ ۴ ضروری ہے کہ انسان تيمم کے لئے انگوٹھی اتاردے اور اگر پيشانی یا ہاتھوں کی پشت یا ہتھيليوں پر کوئی رکا وٹ ہو مثلاًان پر کوئی چيزچپکی ہو ئی ہو تو اسے ہٹادے۔

مسئلہ ٧١ ۵ اگر پيشانی یا ها تہوں کی پشت پر زخم ہو اور اس پر کپڑایا کوئی اور ایسی چيز بندهی ہو جسے کھولا نہ جا سکتا ہو تو ضرور ی ہے کہ اس کے اوپر ہاتھ پهيرے۔ اسی طرح اگر ہتھيلی زخمی ہو اور اس پر کپڑایا پٹی وغيرہ بندهی ہو جسے کھولانہ جاسکتاہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ہاتھوں کواسی پٹی سميت اس چيزپر مارے جس پر تيمم کرناصحيح ہے اور پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور ہاتھوں کی پشت سے بھی تيمم کرے۔

۱۱۸

مسئلہ ٧١ ۶ اگر پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر بال ہو ں تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر سرکے بال پيشانی پر آگرے ہو ں تو ضروری ہے کہ انہيں پيچهے ہٹادے۔

مسئلہ ٧١٧ اگر کسی شخص کواحتمال ہو کہ پيشانی یا ہتھيليوںيا ہاتھوں کی پشت پر کوئی رکا وٹ ہے اور یہ احتمال عام لوگوں کی نظرميں بجا ہو تو ضروری ہے کہ جستجوکرے تاکہ اسے یقين یا اطمينان ہو جائے کہ رکا وٹ موجود نہيں ہے ، بلکہ اگر ایک ایساقابل اعتماد شخص بھی اس رکا وٹ کے نہ ہونے کی خبردے، جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، تو کافی ہے ۔

مسئلہ ٧١٨ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو، اگر وہ خودتيمم نہ کرسکتاہو، حتیٰ کہ مٹی پر ہاتھ رکھ کربهی، تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے کی مدد لے اور اگر کسی کی مددسے بھی تيمم نہيں کرسکتا تو ضروی ہے کہ نائب لے اور نائب کے لئے ضروری ہے کہ اسے خوداس کے ہاتھوں کے ساته تيمم کرائے اور اگر ایساکرناممکن نہ ہو تو نائب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں کواس چيزپر مارے جس پر تيمم کرناصحيح ہو اور پھراس کی پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور ضروری ہے کہ تيمم کی نيت وہ خودکرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نائب بھی نيت کرے۔

مسئلہ ٧١٩ اگر کوئی شخص تيمم کے دوران شک کرے کہ اس کا کچھ حصہ بھول گيا ہے یا نہيں اور اس حصے کا موقع گزرگيا ہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کا تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢٠ اگر کسی شخص کوبائيں ہاتھ کا مسح کرنے کے بعدشک ہو کہ آیا اس نے تيمم درست کيا ہے یا نہيں جب کہ احتمال دے کہ مسح کرتے وقت متو جہ تھاتو اس کا تيمم صحيح ہے اور اگر اس کا شک خود بائيں ہاتھ کے مسح کے بارے ميں ہو تو ضروری ہے کہ اس کا مسح کرے، مگریہ کہ جس عمل ميں طهارت شرط ہو اس ميں داخل ہو چکا ہو یا تسلسل ختم ہو گيا ہو اور اگر بائيں ہاتھ کے مسح کے صحيح ہو نے ميں شک ہو تو اس کا تيمم صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧٢١ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو وہ نماز کے وقت سے پهلے نماز کے لئے تيمم نہيں کرسکتا، ليکن اگر کسی اور واجب کا م یا مستحب کا م کے لئے تيمم کرے اور نماز کے وقت تک عذرباقی رہے جب کہ آخروقت تک عذر زائل ہونے سے مایوس ہو تو اسی تيمم کے ساته نماز پڑھ سکتاہے ، ورنہ محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ٧٢٢ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو اگر آخروقت تک عذر زائل ہونے سے مایوس ہو تو وقت وسيع ہو نے کی صورت ميں تيمم کے ساته نماز پڑھ سکتاہے ، ليکن اگر مایوس نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کرے، اگر عذربرطرف ہو جائے تو وضو یا غسل کے ساته نماز پڑھے ورنہ تنگی ؤقت ميں تيمم کے ساته نماز اداکرے۔

۱۱۹

مسئلہ ٧٢٣ جوشخص وضو یا غسل نہ کرسکتاہو اوراسے یقين یا اطمينان ہو کہ اس کا عذربرطرف ہو جائے گا، تو اپنی قضا نماز وں کوتيمم کے ساته نہيں پڑھ سکتا ور نہ پڑھ سکتاہے ، ليکن اگر بعدميں اس کا عذربرطرف ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کودوبارہ غسل یا وضو کے ساته اداکرے۔

مسئلہ ٧٢ ۴ جو شخص وضو یا غسل نہ کرسکتا ہو، اگر آخروقت تک عذرکے برطرف ہو نے سے مایوس ہو تو جن نوافل کا وقت معين ہے انہيں تيمم کے ساته پڑھ سکتاہے اور اگر مایوس نہ ہو احتياطِ واجب یہ ہے کہ ان نوافل کوان کے آخری وقت ميں بجالائے۔

مسئلہ ٧٢ ۵ جس شخص کا وظيفہ احتياطِ واجب کی بنا پر غسلِ جبيرہ اور تيمم ہو اگر وہ غسل اور تيمم کے بعدنماز پڑھے اور نماز کے بعداس سے حدثِ اصغر صادر ہو مثلااگر وہ پيشاب کرے تو بعدکی نماز وں کے لئے احتياطاً تيمم کرے اور وضو بھی کرے اور اگر حدث نماز سے پهلے صادر ہو تو اس نماز کے لئے بھی وضو کرکے تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢ ۶ اگر کوئی شخص پانی نہ ملنے یا کسی اور عذرکی وجہ سے تيمم کرے تو عذرکے برطرف ہو نے کے بعداس کا تيمم باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ٧٢٧ جوچيزیں وضو کوباطل کرتی ہيں وہ وضو کے بدلے کئے ہو ئے تيمم کوبهی باطل کرتی ہيں اور جوچيزیں غسل کوباطل کرتی ہيں وہ غسل کے بدلے کئے گئے تيمم کوبهی باطل کرتی ہيں ۔

مسئلہ ٧٢٨ جوشخص غسل نہ کرسکتاہو اور اس پر چندغسل واجب ہو ں، اگر ان ميں سے ایک غسل جنابت ہو تو غسل جنابت کے بدلے ایک تيمم باقی سب کے لئے کافی ہے اور اگر غسل جنابت کے علاوہ ہوں تو ضروری ہے کہ هرایک کے بدلے ایک تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢٩ جوشخص غسل نہ کرسکتاہو اگر وہ کوئی ایساکا م انجام دیناچاہے جس کے لئے غسل واجب ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تيمم کرے اور جو شخص وضو نہ کرسکتا ہو اگر وہ کوئی ایساکا م کرنا چاہے جس کے لئے وضو واجب ہے تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٣٠ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تيمم کرے تو نماز کے لئے وضو کرناضروری نہيں ہے ، ليکن اگر دوسرے غسلوں کے بدلے تيمم کرے تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے ایک اور تيمم کرے۔

۱۲۰

تمام مہمان چپ بیٹھے تھے کسی نے بھی اس آسمانی دعوت کو جواب نہیں دیا: صرف حضرت علی (ع) کہ جن کی عمر تقریباً چودہ سال کی تھی اٹھے اور کہا اے خدا کے رسول(ص) : میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی نصرت و مدد کروں_ پیغمبر اسلام (ص) نے محبت کے انداز میں حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا اور پھر اپنی گفتگو کو دوبارہ حاضرین کے لئے دہرایا اور آخر میں دوبارہ پوچھا کون میرے اس کام میں مدد کرنے کے لئے تیار ہے تا کہ میرا بھائی اور وزیر اور وصی او رجانشین اور خلیفہ ہو؟ اس دفعہ بھی پیغمبر اسلام (ص) کی آسمانی دعوت کا کسی نے جواب نہیں دیا تمام چپ بیٹھے رہے_

حضرت علی علیہ السلام نے اس سکوت کوتوڑتے ہوئے محکم ارادے اور جذبے بھرے انداز میں کہا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی اعانت کروں پیغمبر اسلام (ص) نے محبت بھری نگاہ اس فداکار نوجوان پر ڈالی اور اپنی بات کا تیسری بار پھر تکرار کیا اور کہا_ اے میرے رشتہ دارو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں تمہارے لئے لایا ہوں مجھے محکم ہوا ہے کہ تمہیں خداپرستی اور توحید کی دعوت دوں کون ہے کہ اس کام میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی اور وزیر، وصی، اور جانشین و خلیفہ ہو اس دفعہ بھی تمام خاموش تھے فقط حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان سے اٹھے اور محکم ارادے سے کہا یا رسول اللہ(ص) میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں آپ(ص) کے تمام کاموں میں مدد کروں گا اس وقت مہمانوں کی حیرت زدگی کے عالم میں پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا

۱۲۱

اور ان کے مدد کے معاہدہ اور پیمان کو قبول فرمایا اور مہمانوں میں اعلان کیا_ کہ یہ نوجوان میرا بھائی میرا وزیر میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس پر عمل کرو بہت سے مہمان ناراض ہوئے وہ وہاں سے اٹھے اور پیغمبر اسلام(ص) کی باتوں کا مزاق اڑانے لگے اور ابوطالب (ع) سے کہنے لگے کہ آج سے علی علیہ السلام تمہارا حاکم ہوگیا ہے_ محمد(ص) نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنوں اور اس پر عمل کرو اور اس کی پیروی کرو_

سوالات

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو ابتداء میں اسلام کے لئے کیسے مدعو کرتے تھے اور کتنے عرصہ تک ایسا کرتے رہے؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو کس غرض اور ہدف کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان سے کیا چاہتے تھے؟

۳)___ تین سال کے بعد اللہ تعالی کا آپ(ص) کو کیا حکم ملا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حکم کی تعمیل کے لئے کیا کیا ؟

۵)___ جب مہمان گھر سے باہر نکلتے تھے تو ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے نیز انہوں نے ابولہب سے کیا کہا؟

۶)___ دوسرے دن کی مجلس میں پیغمبر (ص) نے اپنے رشتہ داروں سے کیا فرمایا تھا اور ان سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا ؟

۱۲۲

۷)___ کس نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعو کا مثبت جواب دیا اور کیا کہا؟

۸)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کا تعارف کس عنوان سے کرایا؟

۹)___ مہمانوں نے حضرت رسول (ص) کی بات کا کیا مطلب سمجھا اور اسے جناب ابوطالب (ع) سے کس انداز میں کہنا شروع کیا؟

اپنے دوستوں کو بلایئےہ واقعہ کو سنایئےور اس موضوع پر ان سے گفتگو کیجئے تا کہ اس پیغام کے پہنچانے میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں؟

۱۲۳

پندرہواں سبق

صبر و استقامت

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور جو تھے بھی ان کی اکثریت فقیر، کا رکن اور مزدور قسم کے لوگوں کی تھی لیکن اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) پر صحیح اور پختہ ایمان لاچکے تھے_ اللہ پر ایمان کو قیمتی سرمایہ جانتے تھے دین اسلام کی عظمت کے قائل تھے اور اس عظیم دین اسلام کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے تھے اور اسلام کی ترقی کے لئے جان کی قربانی تک پیش کردیتے اور استقامت دکھلاتے تھے وہ صحیح بامراد، مستقل مزاج اور فدا ہونے والے انسان تھے_

مكّہ کے طاقتور اور بت پرست نئے نئے مسلمان ہونے والوں کا مذاق اڑاتے اور گالیاں دیتے اور ناروا کلمات کہتے تھے ان کو بہت سخت کاموں پر لگاتے اور انہیں تکلیفیں پہنچاتے تا کہ دین اسلام

۱۲۴

سے دست بردار اور کافر ہوجائیں_ لوہے کی زرہ ان کے بدن پر پہناتے اور پہاڑ اور میدان کے درمیان تپتے سورج کے سامنے کھڑا کئے رکھتے زرہ گرم ہوجاتی اور ان کے جسم کو جلا ڈالتی پھر ان کو اسی حالت میں پتھروں اور گرم ریت پر گھیسٹتے اور کہتے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو اور محمد(ص) کو ناروا اور ناسزا کلمات کہو تا کہ ہم تمہیں ایسے شکنجہ میں نہ ڈالیں لیکن وہ فداکار مسلمان تھے لہذا وہ سخت شکنجوں کو برداشت کرتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے انہوں نے اتنا صبر اور استقامت کا ثبوت دیا کہ مكّہ کے بہانہ باز بت پرست تھک گئے اور اپنی کمزوری اور پریشانی کا اظہار کیا ان بہادر مسلمانوں کا ایمان اور ان کی استقامت تھی کہ جس نے اسلام کو نابود ہونے سے محفوظ رکھا عمّار ایسے ہی بہادر مسلمانوں میں ایک تھے ظالم بت پرست انہیں اور ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سميّہ کو پکڑ کر شہر سے باہر لے جاتے اور گرم و جلا دینے والی ریت پر مكّہ کے اطراف میں دوپہر کے وقت مختلف اذیتیں دیتے عمّار کی ماں کہ جس پر ہمارے بہت درود و سلام ہوں پہلی عورت ہیں جو اسلام کے راستے میں شہید ہوئیں جب پیغمبر(ص) ان کی دردناک اذیتوں سے مطلع ہوتے اور ان فداکار مسلمانوں کا دفاع نہ کرسکتے تھے تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور فرماتے کہ صبر و استقامت سے کام لو اپنے ایمان اور عقیدہ کو محفوظ رکھو کیونکہ سب کو آخرت ہی کی طرف لوٹنا ہے اور تمہارے لئے اللہ کا وعدہ بہشت بریں ہے یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے آخر کار تم ہی کامیاب

۱۲۵

ہوگے بلال بھی ان بہادر اور فداکار مسلمانوں میں سے ایک تھے وہ دین اسلام کو اپی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے ظالم انسان انھیں دوپہر کے وقت جلتی دھوپ میں ریت پر لٹاتے اور بہت بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتے تھے اور ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں اور خدا و پیغمبر اسلام (ص) کو ناسزا کلمات کہیں اور بتوں کی عظمت بیان کریں لیکن وہ بجائے اس کے کہ اسلام کا انکار کرتے اور بتوں کی تعریف کرتے ہمیشہ یہی کہتے تھے، احد، احد، یعنی ایک خدا، ایک خدا، صمد، صمد، یعنی بے نیاز اور محتاجوں کی پناہ گاہ خدا_

اسلام کے فدائیوں نے تکلیفیں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس طرح دین اسلام کی حفاظت کی اور اسے ہم تک پہنچایا_ اب دین اسلام کے راستے میں ہماری فداکاری اور جہاد کاوقت ہے دیکھیں کس طرح ہم اتنی بڑی ذمہ داری سے عہدہ براء ہوتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ وہ مسلمانوں جو صحیح ایمان لائے تھے ان کی صفات کیسی تھیں؟

۲)___ بت پرست مسلمانوں کو کیوں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچاتے تھے؟

۱۲۶

۳)___ صبر کا کیا مطلب ہے ان سچّے مسلمانوں کا دین کے راستے میں صبر کس طرح تھا؟

۴)___ اسلام میں پہلے شہدی کا نام کیا ہے اور وہ کس طرح شہید ہوا؟

۴)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ان فداکار مسلمانوں سے کیا فرمایا اور ان کی کیسے دلجوئی کی؟

۵)___ بلال کون تھے بت پرست ان سے کیا چاہتے تھے اور وہ جواب میں کیا کہتے تھے؟

۷)___ دین اسلام کو صحیح مسلمانوں نے کس طرح حفاظت کی؟

۸)___ اسلام کے قوانین کی حفاظت اور اس کے دفاع کے بارے میں ہماری کیا ذمّہ داری ہے؟

۱۲۷

سولہواں سبق

دین اسلام کا تعارف

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی مكّہ کے بت پرست ان مسلمانوں سے دشمنی اور مخالفت کرتے تھے اور انھیں تکلیف پہنچاتے تھے مسلمانوں کے پاس چونکہ قدرت اور طاقت نہ تھی وہ ان بت پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے انہوںیہی بہتر سمجھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں تا کہ ملک میں دین اسلام پر آزادانہ عمل کرسکیں اسی نظریہ کے تحت گروہ در گروہ کشتی پر سوار ہوتے اور مخفی طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے_

حبشہ کا بادشاہ نجّاشی تھا (نجّاشی حبشہ کے چند ایک بادشاہوں کا لقب تھا) یہ عیسائی تھا مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے باخبر ہوا تو ان کو مہربانی اور خوش اخلاقی سے پناہ دی_ جب مكّہ کے بت پرستوں کو

۱۲۸

مسلمانوں کے ہجرت کرجانے کی اطلاع ملی تو بہت ناراض اور غضبناک ہوئے دو آدمیوں کو بہت قیمتی تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کو وہاں سے پکڑ کر مكّہ واپس لے آئیں_ وہ دو آدمی حبشہ آئے اور نجاشی کے پاس گئے اور اس کی تعظیم بجالائے اور اسے تحائف پیش کئے نجّاشی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دیدار کے لئے شہر مكّہ سے آئے ہیں ہمارے نادان جوانوں میں سے ایک تعداد ہمارے دین سے خارج ہوگئی ہے اور ہمارے بتوں کی پرستش سے ہاتھ اٹھایا ہے یہ آپ کے ملک میں بھاگ کر آگئے ہیںمكّہ کے اشراف اور سردار آپ سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردیں تا کہ ان کو ہم اپنے شہر لے جائیں اور انہیں سزا و تنبیہ کریں، نجّاشی نے ان دونوں سے کہا کہ مجھے تحقیق کرنی ہوگی اس کے بعد نجّاشی نے مسلمانوں کو اپنے محل میں دعوت دی اور عیسائی علماء کے سامنے ان سے سوالات کئے نجّاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ تمہارا اس سے پہلے کیا دین تھا اب تمہارا کیا دین ہے کیوں ہمارے ملک میں ہجرت کی ہے جناب جعفر ابن ابی طالب (ع) نے جو ایک فداکار او رمومن جو ان تھے جواب دیا کہ ہمارے شہر میں طاقت ور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں وہاں کے لوگ بت پرست ہیں مردار گوشت کھاتے ہیں برے اور ناپسندیدہ کام انجام دیتے ہیں اپنوں کے ساتھ باوفا اور مہربان نہیں ہیں_ ہمسایوں کو تکلیف دیتے ہیں ان حالات میں اللہ تعالی نے ہمارے لئے ایک پیغمبر جو ہمارے در میان سچائی اور امانت میں مشہور ہے بھیجا ہے وہ ہمارے لئے

۱۲۹

اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام لایا ہے، دین اسلام اس وقت نجّاشی نے اپنی جگہ س حرکت اور تھوڑاسا آگے بڑھا تا کہ غور سے سنے کہ دین اسلام کیا ہے اور کیا کہتا ہے_

جناب جعفر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے اور ایک نگاہ عیسائی علماء کی طرف کی اور کہا کہ دین اسلام ہمیں کہتا ہے کہ بت پرستی نہ کرو اور ایک خدا کی عبادت کرو اور صرف اسی کے حکم کو قبول کرو دین اسلام ہمیں کہتا ہے: سچّے بنو_ امانت دار بنو وفادار ہوجاؤ رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی کرو_ کسی کا رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی نہ کرو، کسی کو گالیاں نہ دو، لغو اور بیہودہ کلام نہ کرو، یتیم کا مال ظلم سے نہ کھاؤ نماز پڑھو، اور اپنے مال کا کچھ حصّہ اچھے کاموں میں خرچ کرو نجاشی اور عیسائی علماء خوب غور سے سن رہے تھے اور آپ کی گفتگو سے لذّت حاصل کر رہے تھے لیکن وہ دو آدمی غصّے سے اپنے ہونٹوں کو چبا رہے تھے اور غصّے کے عالم میں مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے_

جناب جعفر نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا_ اے حبشہ کے بادشاہ دین اسلام کو حضرت محمد(ص) اللہ کی طرف سے لائے ہیں ہم نے اسے قبول کیا ہے اور خدا و اس کے پیغمبر(ص) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمان ہوگئے ہیں مكّہ کے بت پرست اس سے ناراض ہوئے اور جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی اور اذیتیں دیں_ ہم مجبور ہوئے کہ اپنے شہر سے ہجرت کر کے اس ملک میں پناہ لیں تا

۱۳۰

کہ اللہ تعالی کی عبادت کرسکیں اور اپنے مذہب کے اعمال اور عبادات کو آزادنہ طور پر بجالاسکیں_

نجاشی حضرت جعفر کی گفتگو سن کر خوش ہوا اور کہا کہ تمہارے پیغمبر(ص) کے کلام اور جناب عیسی علیہ السلام کے کلام کا سرچشمہ ایک ہے دونوں اللہ کے کلام ہیں تم اس ملک میں آزاد ہو تو اپنے دین کے اعمال کو اور عبادت کو آزادانہ طور سے انجام دے سکتے ہو اور دین اسلام پر باقی رہو واقعی کتنا اچھا دین ہے_

اس کے بعد ان دو بت پرستوں کو آوازدی اور کہا کہ میں رشوت نہیں لیتا جو چیزیں تم لائے تھے انھیں اٹھا لو اور جلدی یہاں سے چلے جاؤ_

یقین جانو کہ میں مسلمانوں کو تمہارے حوالہ نہیں کروں گا جتنا جلدی ہو مكّہ لوٹ جاؤ_

وہ دو آدمی تحائف کو لیکر شرمندہ باہر نکلے اور مكّہ کی طرف چلے گئے_

سوالات

۱)___ ہجرت کے کیا معنی ہیں مسلمانوں نے کیوں ہجرت کی_

۲)___ حبشہ کے بادشاہ کیا دین تھا اور مسلمانوں کو کیوں واپس نہ کیا؟

۱۳۱

۳)___ جعفر کون تھے انہوں نے عیسائی علماء کے سامنے پیغمبر(ص) اور دین اسلام کے متعلق کیا گفتگو کی؟

۴)___ اگر آپ سے دین اسلام اور پیغمبر(ص) کے بارے میں سوال کیا جائے تو کیا جواب دیں گے؟ اسلام اور پیغمبر(ص) کا کیسے تعارف کروائیں گے؟

۵)___ نجّاشی نے جناب جعفر کی گفتگو سننے کے بعد کیا کہا_ بت پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کیا ان کے تحائف کو قبول کرلیا_ اور کیوں؟

۱۳۲

سترہواں سبق

مظلوم کا دفاع

ایک بوڑھا آدمی کسی بیابان میں رہتا تھا اونٹوں کی پرورش اور نگہبانی کرتا تھا اونٹوں کو شہروں میں لے جا کر بیجتا اور اس سے اپنے گھر بار اور بچّوں کی ضروریات خریدتا تھا ایک دفعہ اونٹوں کو لیکر مکہ گیا_ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے اور اونٹوں کی قیمت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اچانک ابوجہل آیا اور دوسروں کی پرواہ کئے بغیر اس بوڑھے آدمی سے کہا کہ اونٹ صرف مجھے فروخت کرنا صرف مجھے سمجھ گئے دوسروں نے جب ابوجہل کی سخت لہجے میں بات سنی تو سب وہاں سے چلے گئے اور اسے اس بوڑھے اونٹ فروش کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا ابوجہل نے کہا کہ اونٹ میرے گھر لے آؤ اس بوڑھے آدمی نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اونٹ اس کے گھر پہنچا دیئےور روپیہ کا تقاضہ کیا ابوجہل نے بلند آواز سے

۱۳۳

کہا کون سا روپیہ میں اس شہر کا سردار ہوں اگر چاہتے ہو پھر مكّہ آؤ اور اونٹ فروخت کرو تو پھر تمہیں چاہیے کہ اونٹوں کا روپیہ مجھ سے نہ لو سمجھ گئے بوڑھے آدمی نے کہا کہ یہی اونٹ میرا سارا سرمایہ ہے میں نے اس کی پرورش اور حفاظت میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اس سرمایہ سے چاہتا تھا کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روزی مہيّا کروں اس لئے تمہیں زیب نہیں دیتا کہ میں خالی ہاتھ لوٹ جاؤں اور تمام زندگی اور کام سے رہ جاؤں چونکہ ابوجہل ایک ظالم اورخودپسند آدمی تھا بجائے اس کے کہ اس کا حق ادا کرتا غضبناک ہو کر کہا کہ تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے بہت جلدی یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ کوڑوں سے تیرا جواب دوں گا سمجھ گئے اس بوڑھے آدمی نے دیکھا کہ اگر تھوڑی دیر اور بیٹھتا ہوں تو ممکن ہے کہ مار بھی کھاؤں مجبور ہوکر وہ اس ظالم بے رحم کے گھر سے اٹھ کر چلا گیا راستے میں اپنے واقعہ کو چند گزرنے والوں سے بیان کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کو تیار نہ ہوا بلکہ وہ جواب دیتے کہ ابوجہل ہمارا شہری ہے وہ قریش میں سے طاقت ور آدمی ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا وہ بوڑھا آدمی گلی کوچہ میں سرگردان جارہا تھا کہ مسجد الحرام تک پہنچ گیا وہاں قریش کی عمومی مجلس میں ابوجہل کی شکایت کی دو آدمیوں نے از راہ مذاق اس بوڑھے آدمی سے کہا اس آدمی کو دیکھو_ یہ محمد(ص) ہے اس نے کہنا شروع کیا ہے کہ میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں وہ ابوجہل کا دوست ہے وہ تیرا حق ابوجہل سے لے سکتا ہے جاؤ اس کے پاس وہ جھوٹ

۱۳۴

بول رہے تھے ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست نہ تھے بلکہ اس کے اور اس کے کاموں کے دشمن تھے خدا نے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا تھا تا کہ وہ ظالموں کے دشمن رہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کریں اور بہادر نیک لوگوں کی مدد سے ظالموں اور خودپسندوں کو ختم کریں خدا نے حضرت محمد(ص) کو لوگوں کی رہبری کے لئے بھیجا تھا تا کہ اجتماع میں عدل اور انصاف کو برقرار رکھیں اور لوگ آزادانہ خدا کی پرستش کریں وہ جھوٹ بول رہے تھے لیکن بوڑھا مظلوم انسان ان کی باتوں کو صحیح خیال کر رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ واقعی حضرت محمد(ص) ابوجہل کے دوست ہیں لہذا وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس آیا تا کہ آپ(ص) سے مدد کرنے کی درخواست کرے جو لوگ قریش کی عمومی مجلس میں بیٹھے ہوے تھے ہنس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے اور کہتے تھے کون ہے جو ابوجہل سے بات کرسکتا ہے وہ قریش کا طاقتور انسان ہے کسی میں جرات نہیںکہ اس کی مخالفت کرے ابوجہل محمد(ص) کو بھی مارے گا اور وہ شرمندہ واپس لوٹیں گے وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس پہنچا اور اپنی سرگزست بیان کی اور آپ سے مدد چاہی حضرت محمد(ص) نے اس کی شکایت کو غور سے سنا اور فرمایا کہ میرے ساتھ آو وہ بوڑھا آدمی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ابوجہل کے گھر پہنچا کچھ آڈمی تھوڑے فاصلے پر ان کے پیچھے ہولئے تا کہ دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ابوجہل کے گھر پہنچے اونٹوں کی آواز اوبجہل کے گھر سے سنائی دے رہی تھی پیغمبر اسلام (ص) نے دروازہ کھٹکھٹایا ابوجہل نے سخت لہجے میں کہا کہ

۱۳۵

کون ہے دروازہ کھولو محمد(ص) ہوں: بوڑھے آدمی نے جب ابوجہل کی سخت آواز سنی تو چند قدم پیچھے ہٹ کر علیحدہ کھڑا ہوگیا ابوجہل نے دروازہ کھولا_ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جائزہ لیا اور پھر تیز نگاہ سے اسے دیکھا اور سخت غصّے کی حالت میں فرمایا اے ابوجہل کیوں کیوں کھڑے ہو جلدی کرو اس کے پیسے دو ابوجہل گھر گیا جو لوگ دور کھڑے تھے انہوں نے گمان کیا کہ ابوجہل اندر گیا ہے تا کہ چابک یا تلوار اٹھالائے گا لیکن ان کی امید کے برعکس وہ پریشان حالت میں گھر سے باہر آیا اور لرزتے ہاتھ سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بوڑھے آدمی کو دے دی بوڑھے آدمی نے وہ تھیلی لے لی_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس سے فرمایا کہ تھیلی کو کھولو اور روپیہ گن کر دیکھو کہیں کم نہ ہوں اس بوڑھے آدمی نے روپیہ گنا اور کہا کہ پورے ہیں اس نے پیغمبر اسلام(ص) کا شکریہ ادا کیا جو لوگ دور سے اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے تھے انہوں نے تعجب کیا اس کے بعد جب ابوجہل کو دیکھا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ محمد(ص) سے ڈرگیا تھا کتنا ڈرپوک ہے تو ابوجہل نے جواب میں کہا وہ جب میرے گھر آئے اور غصّے سے مجھے دیکھ کر روپیہ دینے کے لئے کہا تو اس قدر خوف اور اضطراب مجھ پر طاری ہوا کہ میں مجبور ہوگیا کہ ان کے حکم پر عمل کروں اور اونٹوں کی قیمت ادا کروں اگر تم میری جگہ ہوتے تو اس کے سوا کوئی چارہ تمہارے لئے بھی نہ ہوتا_

اس دن کے بعد جب بھی ابوجہل اور اشراف مكّہ اکٹھے مل کر

۱۳۶

بیٹھتے اور حضرت محمد(ص) اور آپ کے اصحاب کے متعلق گفتگو کرتے تو کہتے کہ محمد(ص) کے پیروکاروں کو اتنی تکلیفیں دیں گے وہ محمد(ص) کو تنہا چھوڑدیںگے اور دین اسلام سے دست پردار ہوجائیں گے محمد(ص) کو اتنا تنگ کریں گے کہ پھر وہ ہم سے مقابلہ نہ کرسکیں گے اور کمزوروں کا حق ہم سے وصول نہ کرسکیں گے آپ کی سمجھے ہیں کیا تکلیف دینے اور اذیتیں پہنچانے سے سچے مسلمانوں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا تھا؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پھر پیغمبر اسلام(ص) نے مظلوموں کی مدد نہیں کی ...؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیاہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست تھے خدا نے آپ(ص) کو کس غرض کے لئے پیغمبری کے لئے چنا تھا؟

۲)___ لوگوں نے اس بوڑھے آدمی کی مدد کیوں نہ کی؟

۳)___ جب وہ آدمی لوگوں سے مدد مانگتا تھا تو اس کو کیا جواب ملتا تھا اور کیا ان کا جواب درست تھا اور اگر درست نہیں تھا تو کیوں؟

۴)___ اگر کوئی تم سے مدد طلب کرے تو اسے کیا جواب دوگے؟

۵)___ تم نے آج تک کسی مظلوم کی مدد کی ہے اور کسی طرح بیان کیجئے؟

۱۳۷

۶)___ ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل سے کیسے پیش آئے اور اس سے کیا فرمایا؟

۷)___ پیغمبر اسلام(ص) کے اس کردار سے آپ کیا درس لیتے ہیں اور کس طرح پیغمبر(ص) کے اس کردار کی آپ پیروری کریں گے؟

۸)___ بت پرستوں نے کیوں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے کا ارادہ کیا تھا؟

۱۳۸

اٹھارہواں سبق

خدا کا آخری پیغمبر حضرت محمد(ص)

اللہ تعالی نے جب سے محمد مصطفی (ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انہیں اپنا آخری پیغمبر قرار دیا ہے ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس ابتدائی دعوت کے وقت سے اللہ تعالی کے حکم سے خود کو آخری نبی ہونے کا اعلان کردیا تھا یعنی اعلان کیا تھا کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تمام وہ لوگ جو ابتداء اسلام میں آنحضرت(ص) پر ایمان لائے تھے اور مسلمان ہوئے تھے جانتے تھے کہ آپ خدا کے آخری پیغمبر ہیں قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے_

حضرت محمد مصطفی (ص) کو آخری پیغمبر بتلایا ہے قرآن فرماتا ہے کہ محمد(ص) رسول خدا اور خاتم النبین ہیں لہذا جو مسلمان ہیں اور قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں حضرت محمد(ص) کو اللہ کا آخری پیغمبر تسلیم کرتے ہیں_

۱۳۹

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام کا آئین اتنا دقیق اور کامل ہے کہ حق طلب انسانوں کو ہمیشہ اور ہر وقت سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے وہ خدا جو تمام انسانوں کی ضروریات کو تمام زبانوں میں جانتا تھا قرآن کے تربیتی پروگرام کو اس طرح دقیق اور کامل و منظّم کیا ہے کہ انسان کے کمال کی ضروریات مہيّا کردی ہیں اسی لئے جتنا بھی انسان ترقی کرجائے اور اس کے علم و کمال میں زیادتی ہوجائے پھر بھی قرآن کا جو اللہ کا کلام اور اس کی طرف سے ہدایت ہے اسی طرح محتاج ہے جس طرح اللہ کی دوسری مخلوقات جیسے پانی، سورج، ہوا، و غیرہ ہمیشہ او رہر حالت میں محتاج ہیں_

انسان کی اسلامی تربیت کا آئین قرآن میں ہے اور قرآن آسمانی کتابوں کی آخری کتاب ہے اور دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے کہ جس کی خداوند عالم نے فداکار مسلمانوں کی مدد سے محافظت کی ہے اور ہم تک پہنچایا ہے یہ عظیم کتاب انسان کی تربیت کا کامل ترین آئین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری آسمانی دین اور ہمارے پیغمبر(ص) کو آخری پیغام لے آنے والا بتلایا ہے_

ان مطالب کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملے مکمل کیجئے

۱)___ اللہ تعالی نے جب سے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انھیں___ دیا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511