توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207700 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اور بہتر یہ ہے کہ پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَرْسَلَه بِالْحَقِّ بَشِيْراً وَّ نَذِیْرا بَيْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّارْحَمْ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ کَاَفْضَلِ مَا صَلَّيْتَ وَ بَارَکْتَ وَ تَرَحَّمْتَ عَلیٰ اِبْرَاهِيْمَ وَ آلِ اِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ وَّ صَلِّ عَلیٰ جَمِيْعِ الْاَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِيْنَ و الشُّهَدَاءِ وَالصِّدِّیْقِيْنَ وَ جَمِيْعِ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْن

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ الْاَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَالْاَمْوَاتِ تَابِعْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُم بِالْخَيْرَاتِ إِنَّکَ مُجِيْبُ الدَّعَوَاتِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر

اگر ميّت مرد ہو تو چوتھی تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذَا عَبْدُکَ وَ ابْنُ عَبْدِکَ وَ ابْنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنْتَ خَيْرُ مَنْزُوْلٍ بِه اَللّٰهُمَّ اِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهُ اِلا خَيْراً وَّ ا نَْٔتَ اَعْلَمُ بِه مِنَّا اَللّٰهُمَّ اِنْ کَانَ مُحْسِناً فَزِدْ فِی اِحْسَانِه وَ اِنْ کَانَ مُسِئْياً فَتَجَاوَزْ عَنْهُ وَ اغْفِرْ لَه اَللّٰهُمَّ اجْعَله عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّيِّيْنَ وَ اخْلُفْ عَلٰی اهله فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْهُ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

ليکن اگر ميّت عورت ہو تو چوتھی تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذِه اَمَتُکَ وَ ابْنَةُ عَبْدِکَ وَ ابْنةُ اَمَتِکَ نَزَلَتْ بِکَ وَاَنْتَ خَيْرُ مَنْزُوْلٍ بِه اَللّٰهُمَّ اِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهَا اِلا خَيْراً وَّ ا نَْٔتَ اَعْلَمُ بِهَا مِنَّا اَللّٰهُمَّ اِنْ کَانَتْ مُحْسِنَةً فَزِدْ فِی اِحْسَانِهَا وَ اِنْ کَانَتْ مُسِيْئَةً فَتَجَاوَزْ عَنْهَا وَ اغْفِرْ لَهَا اَللّٰهُم اجْعَلْهَا عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّيِّيْنَ وَ اخْلُفْ عَلٰی اهلها فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْها بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن

مسئلہ ۶ ١ ۵ ضروری ہے کہ تکبيریں اور دعائيں یکے بعد دیگرے اس طرح پڑہيں کہ نماز اپنی شکل نہ کهو دے۔

مسئلہ ۶ ١ ۶ جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو خواہ مقتدی ہی کيوں نہ ہو اس کے لئے تکبيریں اور دعائيں پڑھنا ضروری ہے ۔

۱۰۱

نمازِ ميّت کے مستحبات

مسئلہ ۶ ١٧ چند چيزیں نمازِ ميّت ميں مستحب ہيں :

١) جو شخص نمازِ ميّت پڑھے وہ وضو یا غسل یا تيمم کرے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ تيمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرنا ممکن نہ ہو یا اس بات کا خدشہ ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے گا تو نماز ميں شریک نہ ہو سکے گا۔

٢) اگر ميّت مرد ہو تو امام یا جو شخص اکيلا ميّت پر نماز پڑھ رہا ہو ميّت کے شکم کے سامنے کهڑا ہو اور اگر ميّت عورت ہو تو اس کے سينے کے سامنے کهڑا ہو ۔

٣) نماز ننگے پاؤں پڑھے۔

۴) ہر تکبير ميں ہاتھوں کو بلند کرے۔

۵) ميّت اور نماز ی کے درميا ن فاصلہ اتنا کم ہو کہ اگر ہو ا نماز ی کے لباس کو حرکت دے تو وہ جنازے کو چھو جائے۔

۶) نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھی جائے۔

٧) امام تکبيریں اور دعائيں بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آهستہ پڑہيں ۔

٨) نماز جماعت ميں مقتدی اگر چہ ایک شخص ہی کيوں نہ، ہو امام کے پيچهے کهڑا ہو ۔

٩) نماز پڑھنے والا ميّت اور مومنين کے لئے کثرت سے دعا کرے۔

١٠ ) نماز کو ایسی جگہ پڑہيں جهاں نمازِ ميّت کے لئے لوگ زیا دہ جاتے ہو ں۔

١١ ) اگر حائضہ عورت نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھے تو ایک صف ميں اکيلی کهڑی ہو ۔

مسئلہ ۶ ١٨ مسجدوں ميں نمازِ ميّت پڑھنا مکروہ ہے ليکن مسجد الحرام ميں پڑھنا مکروہ نہيں ہے ۔

دفن کے احکام مسئلہ ۶ ١٩ ميّت کو اس طرح زمين ميں دفن کرنا واجب ہے کہ اس کی بو باہر نہ آئے اور درندے بھی اس کا بدن باہر نہ نکال سکيں اور اگر اس بات کا خوف ہو کہ جانور اس کا بدن باہر نکا ل ليں گے تو قبر کو اینٹوں اور اس جيسی چيزوں سے پختہ کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٠ اگر ميّت کو زمين ميں دفن کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے دفن کرنے کی بجائے کسی ایسی تعمير شدہ جگہ یا تابوت ميں رکھا جائے جس سے دفن کا مقصد حاصل ہو سکے۔

مسئلہ ۶ ٢١ ميّت کو قبر ميں دائيں پهلو اس طرح لٹانا ضروری ہے کہ اس کے بدن کا سامنے والا حصّہ قبلہ رخ ہو۔

۱۰۲

مسئلہ ۶ ٢٢ اگر کوئی شخص کشتی ميں مرجائے اور اس کی ميت کے خراب ہو نے کا امکا ن نہ ہو اور اسے کشتی ميں رکھنے ميں کوئی امر مانع نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کریں تا کہ خشکی تک پهنچ کر اسے زمين ميں دفن کریں، ورنہ ضروری ہے کہ اسے کشتی ميں غسل دیں، حنوط کریں اور کفن پهنائيں اور نمازِ ميّت پڑھنے کے بعد اسے مرتبان ميں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیں اور اسے سمندر ميں ڈال دیں اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ جهاں تک ممکن ہو قبلہ رخ ہو نے کا خيا ل رکہيں ۔

اور اگر ممکن نہ ہو تو کوئی بهاری چيز اس کے پاؤں ميں بانده کر سمندر ميں ڈال دیں اور ممکنہ صورت ميں اسے ایسی جگہ ڈاليں جهاں جانور اسے فوراً لقمہ نہ بناليں۔

مسئلہ ۶ ٢٣ اگر اس بات کا خوف ہو کہ دشمن قبر کهود کر ميّت کو باہر نکا ل لے گا اور کا ن یا ناک یا دوسرے اعضاء کاٹ لے گا، تو اگر ممکن ہو تو سابقہ مسئلے ميں بيا ن کئے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر ميں ڈال دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢ ۴ اگر ميّت کو سمندر ميں ڈالنا یا اس کی قبر پختہ کرنا ضروری ہو تو اس کے اخراجات ميّت کے اصل مال سے لئے جائيں گے۔

مسئلہ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی کا فر عورت مرجائے اور اس کے پيٹ ميں مرا ہو ا بچہ ہو اور اس بچے کا باپ مسلمان ہو تو اس عورت کو قبر ميں بائيں پهلو قبلے کی طرف پيٹھ کر کے لٹانا ضروری ہے تا کہ بچے کا منہ قبلے کی طرف ہو اور اگر پيٹ ميں موجود بچے کے بدن ميں ابهی جان نہ پڑی ہو تب بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢ ۶ مسلمان کو کفار کے قبرستان ميں دفن کرنا اور کا فر کو مسلمانوں کے قبرستان ميں دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٧ مسلمان کو ایسی جگہ جهاں اس کی بے حرمتی ہو تی ہو مثلاً جهاں کوڑا کرکٹ اور گندگی پھينکی جاتی ہو، دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٨ ميّت کو غصبی زمين یا ایسی زمين ميں جو دفن کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کے لئے وقف کی گئی ہو، دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٩ ميّت کو کسی دوسرے مردے کی قبر ميں دفن کرنا، جب کہ اس وجہ سے غير کے حق ميں تصرف ہو رہا ہو یا ایسی قبر کو کهودنا پڑ رہا ہو جس ميں ميّت ابهی باقی ہے یا ميّت کی بے حرمتی ہو رہی ہو، جائز نہيں ہے ۔هاں، اس کے علاوہ صورتو ں ميں مثلاً قبر پر انی ہو گئی ہو اور پهلی ميّت کا نشان باقی نہ رہا ہو یا قبر پهلے ہی کهودی جا چکی ہو، تو دفن کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٣٠ ميّت سے جدا ہو نے والی چيز اگر اس کے بدن کا حصّہ ہو تو ضروری ہے کہ ميّت کے ساته دفن ہو اور اگر بال، ناخن اور دانت ہو ں تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ميّت کے ساته دفن ہو ں اور جو ناخن اور دانت انسان کی زندگی ميں ہی اس سے جدا ہو جائيں انہيں دفن کرنا مستحب ہے ۔

۱۰۳

مسئلہ ۶ ٣١ اگر کوئی شخص کنویں ميں مرجائے اور اسے باہر نکا لنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ کنویں کا منہ بند کر کے اس کنویں کو ہی اس کی قبر قرار دیں۔

مسئلہ ۶ ٣٢ اگر بچہ ماں کے پيٹ ميں مرجائے اور اس کا پيٹ ميں رہنا ماں کی زندگی کے لئے خطرناک ہو تو ضروری ہے کہ اسے آسان ترین طریقے سے باہر نکا ليں اور اگر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر مجبور ہو ں تو ایسا کرنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ۔هاں، یہ ضروری ہے کہ اگر اس عورت کا شوہر اہل فن ہو تو وہ بچے کو باہر نکا لے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی اہل فن عورت کے ذریعے نکا ليں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایسا محرم مرد نکا لے جو اہل فن ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو نامحرم مرد جو اہل فن ہو بچے کو باہر نکا لے اور اگر ایسا شخص بھی موجود نہ ہو تو پھر جو اہل فن نہ ہو، بتائی گئی ترتيب کا خيا ل رکھتے ہو ئے بچے کو باہر نکا ل سکتا ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣٣ اگر ماں مرجائے اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو، تو چاہے اس بچے کے زندہ رہنے کی اميد نہ ہو تب بھی ضروری ہے کہ ان اشخاص کے ذریعے جن کا ذکر سابقہ مسئلے ميں ہو چکا ہے ، ترتيب کا لحاظ رکھتے ہو ئے اس کے پيٹ کی اس جگہ کو چاک کریں جو بچے کی سلامتی کے لئے بہتر ہو اور بچے کو باہر نکا ليں اور ميت کو غسل دینے کے لئے اس جگہ کو دوبارہ ٹانکے لگا دیں۔

دفن کے مستحبات

مسئلہ ۶ ٣ ۴ مستحب ہے کہ قبر کو ایک متو سط انسان کے قد کے لگ بھگ کهودیں اور ميّت کو نزدیکی ترین قبرستان ميں دفن کریں، مگر یہ کہ دور والا قبرستان کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً وہاں نيک لوگ دفن کئے گئے ہو ں یا لوگ وہاں اہل قبور پر فاتحہ پڑھنے زیا دہ جاتے ہو ں۔

یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ کو قبر سے چند گز دور زمين پر رکھ دیں اور تين دفعہ ميں تهوڑا تهوڑا کر کے قبر کے نزدیک لے جائيں اور ہر مرتبہ زمين پر رکہيں اور پھر اٹھ اليں اور چوتھی مرتبہ قبر ميں اتار دیں اور اگر ميّت مرد ہو تو تيسری دفعہ زمين پر اس طرح رکہيں کہ اس کا سر قبر کی نچلی طرف ہو اور چوتھی دفعہ سر کی طرف سے قبر ميں داخل کریں۔ اور اگر ميّت عورت ہو تو تيسری دفعہ اسے قبر کے قبلے کی طرف رکہيں اور پهلو کی طرف سے قبر ميں اتار دیں اور قبر ميں اتارتے وقت ایک کپڑا قبر کے اُوپر تان ليں۔

یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ آرام کے ساته تابوت سے نکا ليں اور قبر ميں داخل کریں۔ اسی طرح وہ دعائيں جنہيں پڑھنے کے لئے کها گيا ہے دفن کرنے سے پهلے اور دفن کرتے وقت پڑہيں ۔ ميّت کو قبر ميں رکھنے کے بعد اس کے کفن کی گرہيں کھول دیں، اس کا رخسار زمين پر رکھ دیں، اس کے سر کے نيچے مٹی کا تکيہ بنا دیں، اس کی پيٹھ کے نيچے کچی اینٹيں یا ڈهيلے رکھ دیں تا کہ ميّت چت نہ ہو جائے اور اس سے پهلے کہ قبر بند کریں، کوئی ایک شخص اپنا دایا ں ہاتھ ميّت کے دائيں کندهے پر مارے، بایا ں ہاتھ زور سے ميّت کے بائيں کندهے پر رکھے، منہ اس کے کا ن کے قریب لے جائے، اسے زور سے حرکت دے اور تين دفعہ کهے:

۱۰۴

إِسْمَعْ إِفْهَمْ یَا فلان ابن فلان اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام لے، مثلاً اگر اس کا اپنا نام محمد اور اس کے باپ کا نام علی ہو تو تين دفعہ کهے:

إِسْمَعْ إِفْهَمْ یَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلی اس کے بعد کهے:

هَلْ ا نَْٔتَ عَلَی الَعَهْدِ الَّذِیْ فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ مِنْ شَهَادَةِ ا نَْٔ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا نََّٔ مُحَمَّدا صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ عَبْدُه وَ رَسُوْلُه وَ سَيِّدُ النَّبِيِّيْنَ وَ خَاتَمُ الْمُرْسَلِيْنَ وَ اَنَّ عَلِياًّ اَمِيْرُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ سَيِّدُ الْوَصِيِّيْن وَ اِمَامٌ افْتَرَضَ اللّٰهُ طَاعَتَه عَلَی الْعَالَمِيْنَ وَاَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ وَ عَلِیَّ بَنَ الْحُسَيْنِ و مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ جَعْفَرَ بْن مُحَمَّدٍ وَّ مُوْسَی بْنَ جَعْفَرٍ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُوْسٰی وَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ وَّالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ وَّالْقَائِمَ الْحُجَّةَ الْمَهْدِیَّ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اَئِمَّةُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ حُجَجُ اللّٰهِ عَلَی الْخَلْقِ اَجْمَعِيْنَ وَاَئِمَّتُکَ اَئِمَّةُ هُدیً ا بَْٔرَارٌ یَا فلان بن فلان اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام لے اور اس کے بعد کهے:

اِذَا اَتَاکَ الْمَلَکَانِ الْمُقَرَّبَانِ رَسُوْلَيْنِ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ وَ سَئَلاَ کَ عَنْ رَبِّکَ وَ عَنْ نَّبِيِّکَ و عَنْ دِیْنِکَ وَ عَنْ کِتَابِکَ وَ عَنْ قِبْلَتِکَ وَ عَنْ اَئِمَّتِکَ فَلاَ تَخَفْ وَلاَ تَحْزَنْ وَ قُلْ فِی جَوَابِهِمَا اَللّٰهُ رَبِّی وَ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ نَبِيِّیْ وَالْاِسْلاَمُ دِیْنِیْ وَالْقُرْآنُ کِتَابِیْ وَالْکَعْبَةُ قِبْلَتِیْ وَ اَمِيْرُالْمُوْمِنِيْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب اِمَامِیْ وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْمُجْتَبیٰ اِمَامِیْ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِیٍّ الشَّهِيْدُ بِکَرْبَلاَ اِمَامِیْ وَ عَلِیٌّ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ اِمَامِیْ و مُحَمَّدٌ الْبَاقِرُ اِمَامِیْ وَ جَعْفَرٌ الصَّادِقُ اِمَامِیْ وَ مُوْسَی الْکَاظِمُ اِمَامِیْ وَ عَلِیٌّ الرِّضَا اِمَامِیْ وَ مُحَمَّدٌ الْجَوَادُ اِمَامِی وَعَلِیٌّ الْهَادِیْ اِمَامِیْ وَ الْحَسَنُ الْعَسْکَرِیْ اِمَامِیْ وَالْحُجَّةُ الْمُنْتَظَرُ اِمَامِیْ هٰؤُلاَءِ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اَئِمَّتِیْ وَ سَادَتِی وَ قَادَتِیْ وَ شُفَعَائِیْ بِهِمْ ا تََٔوَلیّٰ وَ مِنْ اَعْدَائِهِمْ ا تََٔبَرَّءُ فِی الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ثُمَّ اعْلَمْ یَا فلان بن فلان

اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام ليںاور اس کے بعد کهے:

اَنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ نِعْمَ الرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ نِعْمَ الرَّسُوْلُ وَاَنَّ عَلِیَّ بْنَ ا بَِٔی طَالِبٍ وَّ اَوْلاَدَهُ الْمَعْصُوْمِيْنَ الْاَئِمَّةَ الْاِثْنٰی عَشَرَ نِعْمَ الْا ئَِٔمَّةُ وَ اَنَّ مَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ حَقٌّ و اَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَّ سُؤَالَ مُنْکَرٍ وَّ نَکِيْرٍ فِی الْقَبْرِ حَقٌّ وَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَّ النُّشُوْرَ حَقٌّ وَّ الصِّرَاطَ حَقٌّ وَّ الْمِيْزَانَ حَقٌّ و تَطَایُرَ الْکُتُبِ حَقٌّ وَّ اَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لاَّ رَیْبَ فِيْهَا وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْر پھر کهے:

ا فََٔهِمْتَ یَا فلان اور فلان کی جگہ ميّت کا نام لے اور اس کے بعد کهے:

ثَبَّتَکَ اللّٰهُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ وَ هَدَاکَ اللّٰهُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ عَرَّفَ اللّٰهُ بَيْنَکَ وَ بَيْنَ ا ؤَْلِيَائِکَ فِی مُسْتَقَر مِّنْ رَّحَمْتِه

۱۰۵

اس کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ وَاصْعَدْ بِرُوْحِه اِلَيْکَ وَ لَقَّه مِنْکَ بُرها ناً اَللّٰهُمَّ عَفْوَکَ عَفْوَک

مسئلہ ۶ ٣ ۵ مستحب ہے کہ جو شخص ميّت کو قبر ميں اُتارے وہ با طهارت، برہنہ سر اور ننگے پاؤں ہو، ميّت کی پائنتی کی طرف سے قبر سے باہر نکلياور مستحب ہے کہ قبر سے باہر آنے کے بعد کهے:

اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبّ الْعَالَمِيْنَ اَللّٰهُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَه فِی اَعْلٰی عِلِّيِّيْنَ وَاخْلُفْ عَلیٰ عَقِبِه فِی الْغَابِرِیْنَ (وَعِنْدَکَ نَحْتَسِبُه) یَا رَبَّ الْعَالَمِيْن اور مستحب ہے کہ ميّت کے عزیز و اقرباء کے علاوہ جو لوگ موجود ہو ں وہ ہاتھ کی پشت سے قبر پر مٹی ڈاليں۔یہ بھی مستحب ہے کہ اگر ميّت عورت ہو تو اس کا محرم اسے قبر ميں اُتارے اور اگر کوئی محرم نہ ہو تو اس کے عزیز و اقرباء اسے قبر ميں اُتاریں۔

مسئلہ ۶ ٣ ۶ مستحب ہے کہ قبر مربع یا مربع مستطيل بنائی جائے، اسے زمين سے تقریباً چار انگليوں کے برابر اٹھ ایا جائے اور اس پر کوئی نشانی رکھی جائے تاکہ پهنچاننے ميں غلطی نہ ہو ۔ قبر پر پانی چھڑکا جائے اور پانی چھڑکنے کے بعد جو لوگ موجود ہو ں وہ اپنے ہاتھ قبر پر رکہيں ، انگلياں کھول کر قبر کی مٹی ميں گاڑیں اور سات دفعہ سورہ مبارکہ انا انزلناہ پڑہيں ، ميّت کے لئے طلب مغفرت کریں اور وارد شدہ دعائيں پڑہيں ، مثال کے طور پر یہ دعا:

اَللّٰهُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ وَاصْعَدْ (صَعِّدْ) رُوْحَه اِلیٰ اَرْوَاحِ الْمُوْمِنِيْنَ فِی عِلِّيِّيْنَ وَاَلْحِقْهُ بِالصَّالِحِيْن

مسئلہ ۶ ٣٧ مستحب ہے کہ تشييع جنازہ کے لئے آئے ہو ئے لوگوں کے چلے جانے کے بعد ميّت کا ولی یا وہ شخص جسے ولی اجازت دے ميّت کو ان دعاؤں کی تلقين کرے جو بتائی گئی ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٣٨ مستحب ہے کہ دفن کے بعد ميّت کے پسماندگان کو پر سہ دیا جائے، ليکن اگر اتنی مدت گذر چکی ہو کہ پر سہ دینے سے ان کا دکه تازہ ہو جائے تو پر سہ نہ دینا بہتر ہے ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ ميّت کے اہل خانہ کے لئے تين دن تک کھانا بھيجا جائے اور ان کے پاس بيٹھ کر کھانا کھانا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣٩ مستحب ہے کہ انسان عزیز و اقرباء کی موت پر خصوصاً بيٹے کی موت پر صبر کرے، جب بھی ميّت کو یاد کرے( اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيه رَاجِعُوْنَ ) پڑھے، ميّت کے لئے قرآن کی تلاوت کرے، قبر کو پختہ بنائے تا کہ جلدی خراب نہ ہو اور ماں باپ کی قبر پر خداوند متعال سے حاجات طلب کرے۔

مسئلہ ۶۴ ٠ کسی کی موت پر انسان کے لئے اپنے چھرے و بدن کو زخمی کرنا یا اپنے آپ کو نقصان پهنچانا، جب کہ اس کی وجہ سے قابل ذکر نقصان پهنچ رہا ہو، جائز نہيں ہے ۔ اگر چہ ضرر نہ بھی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ترک کرے۔

۱۰۶

مسئلہ ۶۴ ١ احتياط واجب کی بنا پر باپ اور بهائی کے علاوہ کسی اور کی موت پر گریبان چاک کرنا جائز نہيں ہے ليکن باپ اور بهائی کی مصيبت ميں ایسا کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶۴ ٢ اگر عورت ميّت کے سوگ ميں اپنا چہرہ زخمی کر کے خون آلود کرلے یا بال نوچے تو احتياط مستحب کی بنا پر ایک غلام آزاد کرے یا دس فقيروں کو کھانا کهلائے یا انہيں کپڑے پهنائے۔ اسی طرح اگر مرد اپنی بيوی یا فرزند کی موت پر اپنا گریبان چاک کرے یا لباس پهاڑے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶۴ ٣ احتياط مستحب یہ ہے کہ ميّت پر روتے وقت آواز زیا دہ بلند نہ کی جائے۔

نمازِ وحشت

مسئلہ ۶۴۴ مستحب ہے کہ ميّت کے دفن کے بعد پهلی رات کو اس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے۔ اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ حمد کے بعد ایک دفعہ آیت الکرسی اور دوسری رکعت ميں سورہ حمد کے بعد دس دفعہ سورہ انا انزلناہ پڑھا جائے اور نماز کے سلام کے بعد کها جائے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ابْعَثْ ثَوَابَهَا اِلیٰ قَبْرِ فُلان اور لفظ فلان کی بجائے ميّت کا نام ليا جائے۔

مسئلہ ۶۴۵ ميّت کے دفن کے بعد پهلی رات کو کسی بھی وقت نمازِ وحشت پڑھی جاسکتی ہے ، ليکن بہتر یہ ہے کہ اوّل شب ميں نماز عشا کے بعد پڑھی جائے۔

مسئلہ ۶۴۶ اگرميّت کو کسی دور کے شہر لے جانا ہو یا کسی اور وجہ سے اس کے دفن ميں تاخير ہو جائے تو نمازِ وحشت کو دفن کی پهلی رات تک ملتو ی کرنا ضروری ہے ۔

نبشِ قبر

مسئلہ ۶۴ ٧ کسی مسلمان کی قبر نبش کرنا، یعنی اس کی قبر کو کھولنا، خواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کيوں نہ ہو حرام ہے ۔ ہاں، اگر اس کا بدن ختم ہو چکا ہو اور ہڈیا ں مٹی بن چکی ہو ں تو پھر کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶۴ ٨ امام زادگان، شهدا، علما اور اس کے علاوہ ہر اس مقام پر جهاں قبر کھولنا بےحرمتی کا باعث ہو، حرام ہے ، خواہ انہيں فوت ہو ئے سالهاسال گزرچکے ہو ں۔

مسئلہ ۶۴ ٩ چند صورتو ں ميں قبر کا کھولنا حرام نہيں ہے :

١) ميّت کو غصبی زمين ميں دفن کيا گيا ہو اور زمين کا مالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو ۔

٢) کفن یا کوئی اور چيز جوميّت کے ساته دفن کی گئی ہو غصبی ہو اور اس کا مالک اس بات پر رضامند نہ ہو کہ وہ قبر ميں رہے۔

۱۰۷

اور اسی طرح اگر خود ميّت کے مال ميں سے کوئی چيز جو اس کے ورثاء کو ملی ہو اس کے ساته دفن ہو گئی ہو اور وارث اس بات پر راضی نہ ہو ں کہ وہ چيز قبر ميں رہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، مگر یہ کہ اس چيز کی قيمت کم ہو تو اس صورت ميں قبر کا کھولنا محل اشکا ل ہے ۔

٣) قبر کا کھولنا ميّت کی بے حرمتی کا سبب نہ ہو، جب کہ ميّت کو بغير غسل کے یا کفن پهنائے بغير دفن کيا گيا ہو یا معلوم ہو جائے کہ ميّت کا غسل باطل تھا یا اسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہيں دیا گيا تھا یا قبر ميں قبلہ رخ نہيں لٹایا گيا تھا۔

۴) ایسا حق ثابت کرنے کے لئے ميت کا بدن دیکھنا چاہيں جوميت کے احترام سے زیا دہ اہم ہو۔

۵) ميّت کو ایسی جگہ دفن کيا گيا ہو جهاں اس کی بے حرمتی ہو تی ہو مثلاً اسے کا فروں کے قبرستان ميں یا ایسی جگہ دفن کيا گيا ہو جهاں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھينکا جاتا ہو ۔

۶) کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبر کھولی جائے جس کی اہميت قبر کھولنے سے زیا دہ ہو، مثلاً زندہ بچے کو ایسی حاملہ عورت کے پيٹ سے نکا لنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گيا ہو ۔

٧) اس بات کا خوف ہو کہ ميّت کو درندہ چير پهاڑ ڈالے گا یا سيلاب اسے بهالے جائے گا یا اسے دشمن نکا ل لے گا۔

٨) ميّت کے بدن کا کوئی ایسا حصہ دفن کرنا چاہيں جو اس کے ساته دفن نہ ہو سکا ہو، ليکن احتياطِ واجب یہ ہے کہ بدن کے اس حصّے کو قبر ميں اس طرح رکہيں کہ ميّت کا بدن نظر نہ آئے۔

مستحب غسل

مسئلہ ۶۵ ٠ اسلام کی مقدس شریعت ميں بہت سے غسل مستحب ہيں جن ميں سے کچھ یہ ہيں :

١) غسلِ جمعہ: اس کا وقت صبح کی اذان کے بعد سے ظہر تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ ظہر کے قریب بجالایا جائے اور اگر کوئی شخص ظہر تک انجام نہ دے تو بہتر ہے کہ ادا و قضا کی نيت کئے بغير غروب آفتاب تک بجالائے اور اگر جمعہ کے دن غسل نہ کرے تو مستحب ہے کہ ہفتے کے دن صبح سے غروب آفتاب تک اس کی قضا بجالائے اور جو شخص جانتا ہو کہ اسے جمعہ کے دن پانی ميسر نہ ہو گا تو وہ رجاء جمعرات کے دن غسل انجام دے سکتا ہے ۔

مستحب ہے کہ انسان غسل جمعہ کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد وَّاجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّا بِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْن

۱۰۸

٢) ماہ رمضان کی پهلی، سترہو یں، انيسویں، اکيسویں، تيئيسویں اور چوبيسویں رات کا غسل۔

٣) عيدالفطر اور عيد قربان کے دن کا غسل۔ ان کا وقت صبح کی اذان سے غروب آفتاب تک ہے ، اگر چہ احوط یہ ہے کہ ظہر سے غروب کے وقت تک رجاء کی نيت سے بجالائے اور بہتر یہ ہے کہ نماز عيد سے پهلے کيا جائے۔

۴) عيدالفطر کی رات کا غسل ۔ اس کا وقت غروب کے بعد ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ رات کی باقی مدت ميں اذانِ صبح تک رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

۵) ماہ ذی الحجہ کے آٹھ ویں اور نویں دن کا غسل اور احوط یہ ہے کہ نویں دن کا غسل زوال کے وقت کيا جائے۔

۶) اس شخص کا غسل جس نے سورج گرہن کے وقت عمداً نماز آیا ت نہ پڑھی ہو جب کہ سورج کو مکمل گرہن لگا ہو۔

٧) اس شخص کا غسل جس نے اپنے بدن کا کوئی حصہ ایسی ميّت سے مس کيا ہو جسے غسل دیا جاچکا ہو ۔

٨) احرام کا غسل۔

٩) حرم خدا ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١٠ ) مکہ مکرمہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١١ ) خانہ کعبہ کی زیا رت کا غسل۔

١٢ ) کعبہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١٣ )نحر، ذبح اور حلق (بال مونڈنے) کے لئے غسل۔

١ ۴ ) مدینہ منورہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١ ۵ ) حرمِ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں داخل ہو نے کا غسل(اور اس کی حدود، عائراور وعيرنامی دو پهاڑیوں کے درميان ہے )۔

١ ۶ ) پيغمبر اکرم(ص) کی قبر مطہر سے وداع کا غسل۔

١٧ )دشمن کے ساته مباہلہ کرنے کا غسل۔

١٨ )نوزائدہ بچے کو غسل دینا۔

١٩ ) استخارہ کرنے کا غسل۔

٢٠ )طلب باران کا غسل۔

٢١ ) مکمل سورج گرہن کے وقت کا غسل۔

۱۰۹

٢٢ )حضرت سيدالشهداء عليہ السلام کی نزدیک سے زیا رت کا غسل۔

٢٣ )فسق اور کفر سے تو بہ کا غسل۔

مسئلہ ۶۵ ١ فقهاء نے مستحب غسلوں کے باب ميں بہت سے غسلوں کو ذکر فرمایا ہے جن ميں سے چند یہ ہيں :

١) رمضان المبارک کی تمام طاق راتو ں کا غسل اور اس کی آخری دهائی کی تمام راتو ں کا غسل اور اس کی تيئيسویں رات کے آخری حصّے ميں دوسرا غسل۔

٢) ماہ ذی الحجہ کے چوبيسویں دن کا غسل۔

٣) عيد نوروز کے دن، پندرہو یں شعبان، نویں اور سترہو یں ربيع الاوّل اور ذی القعدہ کے پچيسویں دن کا غسل۔

۴) اس عورت کا غسل جس نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے خوشبو استعمال کی ہو ۔

۵) اس شخص کا غسل جو مستی کی حالت ميں سوگيا ہو ۔

۶) اس شخص کا غسل جو کسی سولی چڑھے ہو ئے انسان کو دیکھنے گيا ہو اور اسے دیکھا بھی ہو، ليکن اگر اتفاقاً یا مجبوری کی حالت ميں نظر کی ہو یا مثال کے طور پر گواہی دینے گيا ہو تو غسل مستحب نہيں ہے ۔

٧) مسجد نبوی صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں داخل ہو نے کا غسل

٨) دور یا نزدیک سے معصومين عليهم السلام کی زیا رت کے لئے غسل۔

٩) عيد غدیر کے دن کا غسل۔

ليکن احوط یہ ہے کہ یہ تمام غسل رجاء کی نيت سے بجالائے جائيں۔

مسئلہ ۶۵ ٢ ان مستحب غسلوں کے ساته جن کا ذکر مسئلہ ” ۶۵ ٠ “ ميں کيا گيا ہے انسان ایسے کا م جن کے لئے وضو ضروری ہے مثلاً نماز، انجام دے سکتا ہے ليکن جو غسل رجاء کی نيت سے کئے جائيں وہ وضو کی جگہ کافی نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶۵ ٣ اگر کسی شخص کے ذمے کئی مستحب غسل ہو ں اور وہ سب کی نيت کر کے ایک غسل کرلے تو کافی ہے ۔

تيمم

سات صورتو ں ميں وضواورغسل کے بجائے تيمم کرناضروری ہے :

تيمم کی پهلی صورت

١) یہ کہ وضویا غسل کے لئے ضروری مقدارميں پانی مهيا کرناممکن نہ ہو۔

۱۱۰

مسئلہ ۶۵۴ اگر انسان آبادی ميں ہو تو ضروری ہے کہ وضواورغسل کا پانی مهيا کرنے کے لئے اتنی جستجوکرے کہ اس کے ملنے سے نااميد ہو جائے اوراگر بيا بان ميں ہو تو ناہموار زمين ميں پر انے زمانے ميں کمان سے پھينکے جانے والے ایک تير کی پروازکے برابراور ہموار زمين ميں دوبارپھينکے جانے والے تيرکے فاصلے کے برابر جستجو کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر یہ جستجودائرے کی شکل ميں ہو جس کا مرکز پانی ڈهونڈنے کی ابتدائی جگہ اور درميا نی فاصلہ تيرکی پر واز کے برابرہو ۔

مسئلہ ۶۵۵ اگر چاراطراف ميں سے بعض ہمواراوربعض ناہموارہو ں تو ضرورری ہے کہ جوطرف ہموارہو اس ميں دوتيروں کی پر واز کے برابراورجوطرف ناہموارہو اس ميں ایک تيرکی پر واز کے برابرمذکورہ بالامسئلے ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق جستجوکرے۔

مسئلہ ۶۵۶ جس طرف پانی کے نہ ہو نے کا یقين یا شرعی گواہی موجود ہو اس طرف تلاش کرناضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶۵ ٧ اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ نہ ہو اورپانی مهيا کرنے کے لئے اس کے پاس وقت ہو، اگر یقين یا شرعی گواہی ہو کہ جس فاصلے تک پانی تلاش کرناضروری ہے اس سے دورپانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ پانی حاصل کرنے کے لئے وہاں جائے، بشرطيکہ وہاں جانامشقت وضررکا باعث نہ ہو اوراگر پانی موجودهو نے کا گمان ہو، خواہ اس کا گمان قوی ہی کيوںنہ ہو جب تک اطمينان حاصل نہ ہو، جاناضروری نہيں ہے ، ليکن احوط ہے ۔

مسئلہ ۶۵ ٨ ضروری نہيں کہ انسان خودپانی کی تلاش ميں جائے بلکہ کسی اورایسے شخص کوبھيج سکتاہے جس کے کهنے پر اسے اطمينان ہو ۔ اسی طرح کسی ایسے شخص کو بھی بھيج سکتا ہے جو ثقہ ہو اور اس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو، چاہے اس کے بتانے سے اطمينان بھی حاصل نہ ہو ۔ ان دونوں صورتو ں ميں ایک شخص کا چند اشخاص کی طرف سے جاناکافی ہے ۔

مسئلہ ۶۵ ٩ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے سامان سفر ميں یا پڑاو ڈالنے کی جگہ پر یا قافلے ميں پانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ اس قدر جستجوکرے کے اسے پانی نہ ہو نے کا یقين یا اطمينان ہو جائے یا اس کے حصول سے نااميد ہو جائے۔

مسئلہ ۶۶ ٠ اگرشخص نماز کے وقت سے پهلے، تلاش کرنے کے باوجود پانی حاصل نہ کرپائے اورنماز کے وقت تک وہيں رہے، چنانچہ اسے احتما ل ہو کہ اس جگہ پانی مل جائے گا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پهلے کی جستجوپر اکتفانہ کرے، سوائے اس کے کہ وقت نماز داخل ہو نے سے کچھ پهلے اول وقت کی فضيلت کو پانے کے لئے جستجو کی ہو ۔

مسئلہ ۶۶ ١ اگر نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعدجستجوکے باوجود پانی حاصل نہ کرپائے اوربعدوالی نماز کے وقت تک اسی جگہ رہے، چنانچہ اگر احتما ل دے کہ اب وہاں پانی مل جائے گا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش ميں جائے۔

۱۱۱

مسئلہ ۶۶ ٢ اگر کسی شخص کے پاس نماز کے لئے وقت تنگ ہو یا اسے چور، ڈاکویا درندے سے جان یا اس کی حيثيت کے مطابق خاطر خواہ مال کا خوف ہو یا پانی کی تلاش اتنی کٹھن ہو کہ اس کی سختی کوبرداشت کرنا حرج کا باعث ہو تو جستجو ضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶۶ ٣ اگر کوئی شخص پانی تلاش نہ کرے یهاں تک کہ نماز کا وقت تنگ ہو جائے تو اگر چہ وہ گنهگار ہے ، ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے ، چاہے بعد ميں معلوم ہو جائے کہ اگر پانی تلاش کرتاتو مل جاتا اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ۶۶۴ جس شخص کو یقين ہو کہ پانی نہيں ملے گا، چنانچہ پانی کی تلاش ميں نہ جائے اور تيمم کرکے نماز پڑھ لے اوربعد ميں معلوم ہو کہ اگر پانی تلاش کرتاتو پانی مل جاتا، اگر وقت باقی ہو تو وضوکرکے دوبارہ نماز پڑھناضروری ہے ۔

مسئلہ ۶۶۵ اگر کسی شخص کوپانی تلاش کرنے پر نہ ملے اورتيمم کے ساته نماز پڑھ لے اورنماز پڑھنے کے بعدمعلوم ہو کہ جهاں اس نے پانی تلاش کيا تھا وہاں پانی موجود تھا، تو اگر وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ وضوکرکے دوبارہ نماز پڑھے ورنہ اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ۶۶۶ جس شخص کو یقين ہو کہ نماز کا وقت تنگ ہے اگر وہ پانی تلاش کئے بغير تيمم کے ساته نماز پڑھ لے اور نماز پڑھنے کے بعد اور وقت گزرنے سے پهلے اسے پتہ چلے کہ پانی تلاش کرنے کے لئے اس کے پاس وقت تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے اور اگر وقت گزرنے کے بعد معلوم ہو تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶۶ ٧ اگر نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعد کسی شخص کا وضو باقی ہو اور جانتا ہو یا شرعی دليل مثلاً اطمينان وغيرہ ہو کہ اگر اس نے اپناوضوباطل کردیا تو دوبارہ وضو کرنے کے لئے پانی نہيں ملے گا یا وضو نہيں کر پائے گا تو اس صورت ميں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو اور اس کے لئے کسی حرج و ضرر کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے باطل نہ کرے۔

ليکن ایساشخص یہ جانتے ہو ئے بھی کہ غسل نہ کرپائے گااپنی بيوی سے جماع کرسکتاہے۔

مسئلہ ۶۶ ٨ اگر کوئی شخص نماز کے وقت سے پهلے باوضو ہو اور اسے معلوم ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کردیا تو دوبارہ پانی مهيا کرنا اس کے لئے ممکن نہيں ہو گا تو اس صورت ميں اگر وہ اپنا وضو بغير کسی حرج یا ضرر کے برقرار رکھ سکتا ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنا وضو باطل نہ کرے۔

مسئلہ ۶۶ ٩ جب کسی کے پاس فقط وضویا غسل کی مقدارميں پانی ہو اور وہ جانتا ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ اگر اسے گرادے تو پانی نہيں مل سکے گا تو اگر نماز کا وقت داخل ہو گيا ہو تو یہ پانی گراناجائز نہيں ہے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پهلے بھی نہ گرائے۔

۱۱۲

مسئلہ ۶ ٧٠ اگر کوئی شخص جانتا ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ پانی حاصل نہ کرسکے گا، نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعدکسی ضرروحرج کے بغيراس کے لئے وضو باطل کرنا جائز نہيں یا جوپانی اس کے پاس ہے ، اسے گرانا جائز نہيں ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔

تيمم کی دوسری صورت

مسئلہ ۶ ٧١ اگر کوئی شخص کمزوری یا چور، ڈاکو اور جانور وغيرہ کے خوف سے یا کنویں سے پانی نکا لنے کے وسائل نہ ہو نے کی وجہ سے پانی حاصل نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔ اسی طرح اگر پانی مهيا کرنے یا اسے استعمال کرنے ميں اسے اتنی تکليف اٹھ انی پڑے جو ناقابل برداشت ہو تو اس صورت ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٢ اگر کسی شخص کے لئے، کنویں سے پانی نکا لنے کے لئے ڈول اوررسّی وغيرہ ضروری ہو ں اوروہ مجبور ہو کہ انہيں خریدے یا کرائے پر حاصل کرے تو خواہ ان کی قيمت عام بهاو سے کئی گنا زیا دہ ہی کيوں نہ ہو، ضروری ہے کہ مهيا کرے۔ اسی طرح اگر پانی اپنی قيمت سے مهنگا بيچا جارہا ہو تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر ان چيزوں کو مهيا کرنے کے لئے اتنا زیا دہ پيسے دینے پڑرہے ہو ں جو عسرو حرج کا باعث ہو ں تو ان چيزوں کا مهيا کرنا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٣ اگر کوئی شخص پانی مهيا کرنے کے لئے قرض لينے پر مجبور ہو تو ضروری ہے کہ قرض کرے، ليکن جو شخص جانتا ہو یا اسے اطمينان ہو کہ وہ قرضے کی ادائيگی نہ کرسکے گا تو اس کے لئے قرض لينا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧ ۴ اگر کنواں کهودنے ميں کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ انسان پانی مهيا کرنے کے لئے کنواں کهودے۔

مسئلہ ۶ ٧ ۵ اگر کوئی شخص بغير احسان کے کچھ پانی دے تو اسے قبول کرنا ضروری ہے ۔

تيمم کی تيسری صورت

مسئلہ ۶ ٧ ۶ اگر کسی شخص کو پانی استعمال کرنے سے اپنی جان کا خوف ہو یا بدن ميں کوئی بيماری یا عيب پيدا ہونے یا بيماری کے طولانی یا شدید ہو جانے یا علاج ميں دشواری پيدا ہو نے کا خوف ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تيمم کرے، ليکن اگر گرم پانی اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو گرم پانی سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٧ ضروری نہيں ہے کہ انسان کو یقين ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے ، بلکہ یهی کہ اسے خوف ہو کہ پانی اس کے لئے ضرر رکھتاہے اور یہ خوف عام لوگوں کی نظرميں صحيح ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٧٨ اگر کوئی شخص درد چشم ميں مبتلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

۱۱۳

مسئلہ ۶ ٧٩ اگر کوئی شخص ضرر کے یقين یا خوف کی وجہ سے تيمم کرے اور نماز سے پهلے اس بات کا پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ نہيں تو اس کا تيمم باطل ہے اور اگر اس بات کا پتہ نماز کے بعد اور وقت گزرنے سے پهلے چلے تو وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھناضروری ہے اور اگر وقت باقی نہ ہو تو قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٨٠ اگر کسی شخص کویقين یا اطمينان ہو کہ پانی اس کے لئے مضرنہيں ہے اورغسل یا وضوکرلے، بعدميں اسے پتہ چلے کہ پانی اس کے لئے مضرتها، تو اگر ضرر اتنا زیا دہ ہو کہ اس کا اقدام حرام ہو تو وضو اور غسل دونوں باطل ہيں ۔

تيمم کی چوتھی صورت

مسئلہ ۶ ٨١ جس شخص کویہ خوف ہو کہ پانی سے وضویا غسل کرلينے کے بعدان ميں سے کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، تو ضروری ہے کہ وہ تيمم کرے:

١) یہ کہ وہ خود ابهی یا بعدميں ایسی پيا س ميں مبتلا ہو جائے گا جواس کی هلاکت یا بيماری کا سبب ہو گی یا اس کا برداشت کرنااس کے لئے سخت حرج کا باعث ہو گا۔

٢) اسے خوف ہو کہ جن افراد کی حفاظت کرنااس پر واجب ہے ، وہ پيا س سے هلاک یا بيمار ہو جائيں گے۔

٣) یہ کہ کسی انسان یا حيوان کی هلاکت یا بيماری یا بيتابی جواسے گراںگزرتی ہو کا خوف ہو یا اس حيوان کی هلاکت سے اُسے خاطر خواہ نقصان ہو۔

مسئلہ ۶ ٨٢ اگر کسی شخص کے پاس پاک پانی کے علاوہ جو وضو اور غسل کے لئے ہو، نجس پانی کی اتنی مقداربهی موجود ہو جو اس کے اور اس کے ساتهيوں کے پينے کے لئے کافی ہو، ليکن ان کے لئے پانی کی نجاست ثابت ہو اور نجس پانی پينے سے پر هيز بھی کرتے ہو ں تو ضروری ہے کہ پاک پانی کوپينے کے لئے رکھ لے اورتيمم کے ساته نماز پڑھے۔ ہاں، اگر بچے یا حيوان کوپانی دیناچاہے تو ضروری ہے کہ انہيں نجس پانی د ے اورپاک پانی کے ساته وضو یا غسل کرے۔

تيمم کی پانچويں صورت

مسئلہ ۶ ٨٣ اگر کسی شخص کا بدن یا لباس نجس ہو اوراس کے پاس اتنی مقدارميں پانی ہو کہ اس سے وضویا غسل کرنے کی صورت ميں بدن یا لباس دهونے کے لئے پانی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ بدن یا لباس دهوئے اورتيمم کرکے نماز پڑھے، ليکن اگر اس کے پاس ایسی کوئی چيزنہ ہو جس پر تيمم کرے تو ضروری ہے کہ پانی کووضویا غسل کے لئے استعمال کرے اورنجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے۔

۱۱۴

تيمم کی چھٹی صورت

مسئلہ ۶ ٨ ۴ اگر کسی شخص کے پاس ایسے پانی یا برتن کے علاوہ کوئی دوسرا پانی یا برتن نہ ہو کہ جس کا استعمال کرنا حرام ہے ، مثلااس کے پاس موجودپانی یا برتن غصبی ہو اوراس کے سواکوئی دوسراپانی یا برتن نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کے بجائے تيمم کرے۔

تيمم کی ساتو يں صورت

مسئلہ ۶ ٨ ۵ جب وقت اتناتنگ ہو کہ اگر ایک شخص وضویا غسل کرے تو ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ شخص تيمم کرے۔ ہاں، اگر وضو یا غسل کے لئے تيمم جتنا وقت ہی صرف ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرے۔

مسئلہ ۶ ٨ ۶ اگر کوئی شخص جان بوجه کرنماز پڑھنے ميں اتنی تاخيرکرے کہ وضویا غسل کا وقت باقی نہ رہے تو وہ گنهگار ہو گا، ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا وضو یا غسل کے ساته انجام دے۔

مسئلہ ۶ ٨٧ اگر کسی کوشک ہو کہ وضو یا غسل کرنے کی صورت ميں نماز کا وقت باقی رہے گا یا نہيں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٨٨ اگر کسی شخص نے وقت کی تنگی کی وجہ سے تيمم کيا ہو اورنماز کے بعدوضوکرسکنے کے باوجود نہ کرے یهاں تک کہ اس کے پاس موجودپانی ضائع ہو جائے اور اس وجہ سے اس کی ذمہ داری تيمم کرنا قرار پائے تو ضروری ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے دوبارہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٨٩ اگر کسی شخص کے پاس پانی موجود ہو ليکن وقت تنگ ہو نے کے باعث تيمم کرکے نماز پڑھنے لگے اورنماز کے دوران اس کے پاس موجودپانی ضائع ہو جائے اور اس کی ذمہ داری تيمم کرنا بن جائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے دوبارہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٩٠ اگر کسی شخص کے پاس اتنا وقت ہو کہ وضو یا غسل کرکے نماز کو اس کے مستحب اعمال مثلاً اقامت اورقنوت کے بغير پڑھ سکے، تو ضروری ہے غسل یا وضو کرے اور نماز کو مستحب اعمال کے بغير بجا لائے، بلکہ اگر سورہ پڑھنے جتنا وقت بھی نہ بچتا ہو تب بھی ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرکے بغير سورہ کے نماز پڑھے۔

۱۱۵

وہ چيزيں جن پر تيمم کرناصحيحہے

مسئلہ ۶ ٩١ مٹی، ریت، ڈهيلے، پتّھر اورہر اس چيزپر تيمم کرنا صحيح ہے جسے عرف عام ميں زمين کے اجزاء سے سمجھاجاتاہو، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ مٹی کے ہو تے ہو ئے کسی دوسری چيزپر تيمم نہ کيا جائے اوراگر مٹی نہ ہو تو ریت یا ڈهيلے پر اور اگر ریت اور ڈهيلا بھی نہ ہو تو پھر پتّھر پر تيمم کيا جائے۔

مسئلہ ۶ ٩٢ جپسم اورچونے کے پتّھرپر تيمم کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر اگر ممکن ہو تو چونے اور جپسم کے پکے ہوئے پتّھراورپکی اینٹ پر تيمم نہ کرے۔هاں، فيروزے اور عقيق جيسے پتّھروں پر تيمم جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩٣ اگر کسی شخص کو مٹی، ریت، ڈهيلے، پتّھر حتیٰ جپسم اور چونے کے پتّھر بھی نہ مل سکيں، تو ضروری ہے کہ قالين اور کپڑوں پر موجود گرد و غبارپر تيمم کرے اور اگر گرد و غبار بھی نہ مل سکے تو ضروری ہے کہ تر مٹی پر تيمم کرے اور اگر تر مٹی بھی نہ مل سکے تو مستحب یہ ہے کہ تيمم کے بغيرنماز پڑھے ليکن بعد ميں اس نماز کی قضا پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩ ۴ اگر کوئی شخص قالين اور اس جيسی دوسری چيزوں کو جهاڑ کر مٹی مهيا کرسکتا ہو تو اس کا گر د و غبار پر تيمم کرنا باطل ہے اور اگر مٹی کو خشک کرکے اس سے سوکهی مٹی حاصل کرسکتاہو تو گيلی مٹی پر تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩ ۵ جس شخص کے پاس پانی نہ ہو ليکن برف موجود ہو اور اسے پگهلانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے پگهلا کر پانی بنائے اور اس سے وضو یا غسل کرے اور اگر ایساکرنا ممکن نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ا یسی چيزبهی نہ ہو جس پر تيمّم کر نا صحيح ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ برف کے ساته اعضاءِ وضو یا غسل کو تر کرکے نماز پڑھے ليکن ضروری ہے کہ اس نمازکی قضابهی پڑھے۔

مسئلہ ۶ ٩ ۶ اگر مٹی اور ریت کے ساته سوکهی گهاس کی طرح کی کوئی چيزهو ئی ہو جس پر تيمم کرناباطل ہو تو اس پر تيمم نہيں کرسکتا، ليکن اگر وہ چيزاتنی کم ہو کہ اسے مٹی یا ریت ميں نہ ہو نے کے برابرسمجھا جائے تو اس مٹی یا ریت پر تيمم صحيح ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩٧ اگر ایک شخص کے پاس کوئی ایسی چيز نہ ہو جس پر تيمم کيا جاسکے اور اس کا خریدنا یا کسی طرح حاصل کرنا ممکن ہو اور حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ خرید کریا ایسے ہی کسی طریقے سے مهيا کرے۔

مسئلہ ۶ ٩٨ مٹی کی دیوار پر تيمم کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خشک زمين یا خشک مٹی کے ہو تے ہو ئے ترزمين یا ترمٹی پر تيمم نہ کيا جائے۔

مسئلہ ۶ ٩٩ انسان جس چيز پر تيمم کرے اس کا پاک ہوناضروری ہے اور اگر اس کے پاس ایسی کوئی پاک چيزنہ ہو جس پر تيمم کرنا صحيح ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر اس نجس چيز پر تيمم کرے اور نماز پڑھے اور ضروری ہے کہ بعدميں اس کی قضابجالائے۔

مسئلہ ٧٠٠ اگر کسی شخص کویقين ہو کہ ایک چيز پر تيمم کرناصحيح ہے اور اس پر تيمم کرلے اور بعدميں معلوم ہو کہ اس چيز پر تيمم کرنا باطل تھا تو جو نماز یں اس تيمم کے ساته پڑھی ہيں انہيں دوبارہ پڑھناضروری ہے ۔

۱۱۶

مسئلہ ٧٠١ وہ چيز جس پر تيمم کيا جائے اور وہ جگہ جهاں وہ چيز رکھی ہو، ضروری ہے کہ غصبی نہ ہو ں، پس اگر غصبی مٹی پر تيمم کرے یا اپنی مٹی بغيراجازت کے دوسرے کی ملکيت ميں رکھے اور اس پر تيمم کرے تو اس کا تيمم باطل ہے ، ليکن خود تيمم کرنے والے کی جگہ کا غصبی نہ ہوناتيمم کے صحيح ہو نے ميں معتبرنہيں ہے ۔

مسئلہ ٧٠٢ غصب کی ہو ئی فضاميں تيمم کرنا، مثال کے طورپر اگر کوئی شخص اپنی زمين ميں اپنے ہاتھ مٹی پر مارے اور پھراجازت کے بغيردوسرے کی زمين ميں داخل ہو کرہا تہوں کوپيشانی پر پهيرے، تو بنا براحتياط اس کا تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٠٣ غصبی چيزپر یا ایسی چيزپر جوغصبی جگہ رکھی ہوئی ہو، خواہ نہ جانتا ہو کہ غصبی ہے ، تيمم کرنا باطل ہے ۔ غصبی فضاميں تيمم کرنے کا بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

البتہ اگر بھول جائے یا غصب سے غافل ہو تو صحيح ہے ، سوائے اس کے کہ خودغاصب ہو اور غصب سے تو بہ نہ کی ہو کہ اس صورت ميں اگر اس کا تيمم غصبی چيزپر یا اس چيزپر ہو جو غصبی جگہ رکھی ہو تو باطل ہے ، جب کہ اگر تو بہ کرچکا ہو تو احتياط کی بنا پر باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٠ ۴ جوشخص غصبی جگہ ميں قيد ہو اور اس جگہ کا پانی اور مٹی دونوں غصبی ہو ں تو ضروری ہے کہ تيمم کرکے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٠ ۵ جس چيزپر تيمم کيا جائے، احتياطِ واجب کی بنا پر ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اس پر گرد و غبار موجود ہو جو ہاتھوں پر لگ جائے اور اس ميں ہاتھ مارنے کے بعدمستحب ہے کہ ہاتھوں کوجهاڑے۔

مسئلہ ٧٠ ۶ گڑھے والی زمين، راستے پر بيٹھی ہوئی مٹی اور ایسے نمکزار پرجس پر نمک کی تہہ نہ جمی ہو، تيمم کرنا مکروہ ہے اور اگر اس پر نمک کی تہہ جم گئی ہو تو باطل ہے ۔

وضو يا غسل کے بدلے تيمم کرنے کا طريقہ

مسئلہ ٧٠٧ وضو یا غسل کے بدلے کئے جانے والے تيمم ميں چارچيزیں واجب ہيں :

١) نيت۔

٢) دونوں ہتھيليوں کوایسی چيزپر مارناجس پر تيمم کرناصحيح ہو اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ دونوں ہتھيليوں کوایک ساته مارے۔

٣) دونوں ہتھيليوں کوپوری پيشانی اور پيشانی کے دونوں طرف، جهاں سرکے بال اگتے ہيں ، سے لے کربهنوو ںٔ اور ناک کے اوپر تک پهيرنااور احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہاتھ بهنوو ںٔ پر بھی پهيرے جائيں۔

۴) بائيں ہتھيلی کودائيں ہاتھ کی تمام پشت پر اور اس کے بعددائيں ہتھيلی کوبائيں ہاتھ کی تمام پشت پر پهيرنا۔

۱۱۷

مسئلہ ٧٠٨ احتياط مستحب یہ ہے کہ تيمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے، اس طرح سے کيا جائے کہ ایک دفعہ ہاتھوں کوزمين پر مارنے کے بعد پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے۔ اس کے بعد ایک دفعہ پھر زمين پر ہاتھ مارے اور ہاتھوں کی پشت کا مسح کرے۔

تيمم کے احکام

مسئلہ ٧٠٩ اگر ایک شخص پيشانی اور ہاتھوں کی پشت کے ذراسے حصے کا بھی مسح نہ کرے تو تيمم باطل ہے ، چاہے عمدًامسح نہ کيا ہو یا مسئلہ نہ جانتاہو یا بھول گيا ہو۔ البتہ بہت زیادہ باریک بينی بھی ضروری نہيں بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ یہ کها جاسکے کہ پوری پيشانی اور دونوں ہاتھوں کی مکمل پشت کا مسح ہو چکا ہے ۔

مسئلہ ٧١٠ یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ ہاتھ کی تمام پشت پر مسح کرليا ہے ، ضروری ہے کہ کلائی سے کچھ اوپر والے حصے کا بھی مسح کرے، ليکن انگليوں کے درميا ن مسح کرناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٧١١ ضروری ہے کہ پيشانی اور ہاتھوں کی پشت کا مسح اوپر سے نيچے کی جانب کرے اور ان افعال کو پے در پے انجام دے اور اگر ان کے درميا ن اتنافاصلہ دے کہ لوگ یہ نہ کہيں کہ تيمم کررہاہے تو تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ٧١٢ نيت کرتے وقت یہ معين کرناضروری ہے کہ اس کا تيمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے اور اگر غسل کے بدلے ہو تو اس غسل کوبهی معين کرے۔ ہاں، اجمالاًمعين کرنا بهی، مثلاً یہ نيت کہ یہ تيمم اس چيزکے بدلے ہے جوپهلے واجب ہو ئی یا بعد ميں ، کافی ہے ۔

اور اگر اس پر ایک ہی تيمم واجب ہو اور نيت کرے کہ ميں اپنی اس وقت کی ذمہ داری انجام دے رہا ہو ں، تو صحيح ہے ، چاہے اس ذمہ داری کی پہچان ميں غلطی کرے۔

مسئلہ ٧١٣ احتياط مستحب کی بنا پر تيمم ميں پيشانی، ہتھيليوں اور ہاتھوں کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٧١ ۴ ضروری ہے کہ انسان تيمم کے لئے انگوٹھی اتاردے اور اگر پيشانی یا ہاتھوں کی پشت یا ہتھيليوں پر کوئی رکا وٹ ہو مثلاًان پر کوئی چيزچپکی ہو ئی ہو تو اسے ہٹادے۔

مسئلہ ٧١ ۵ اگر پيشانی یا ها تہوں کی پشت پر زخم ہو اور اس پر کپڑایا کوئی اور ایسی چيز بندهی ہو جسے کھولا نہ جا سکتا ہو تو ضرور ی ہے کہ اس کے اوپر ہاتھ پهيرے۔ اسی طرح اگر ہتھيلی زخمی ہو اور اس پر کپڑایا پٹی وغيرہ بندهی ہو جسے کھولانہ جاسکتاہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ہاتھوں کواسی پٹی سميت اس چيزپر مارے جس پر تيمم کرناصحيح ہے اور پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور ہاتھوں کی پشت سے بھی تيمم کرے۔

۱۱۸

مسئلہ ٧١ ۶ اگر پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر بال ہو ں تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر سرکے بال پيشانی پر آگرے ہو ں تو ضروری ہے کہ انہيں پيچهے ہٹادے۔

مسئلہ ٧١٧ اگر کسی شخص کواحتمال ہو کہ پيشانی یا ہتھيليوںيا ہاتھوں کی پشت پر کوئی رکا وٹ ہے اور یہ احتمال عام لوگوں کی نظرميں بجا ہو تو ضروری ہے کہ جستجوکرے تاکہ اسے یقين یا اطمينان ہو جائے کہ رکا وٹ موجود نہيں ہے ، بلکہ اگر ایک ایساقابل اعتماد شخص بھی اس رکا وٹ کے نہ ہونے کی خبردے، جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، تو کافی ہے ۔

مسئلہ ٧١٨ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو، اگر وہ خودتيمم نہ کرسکتاہو، حتیٰ کہ مٹی پر ہاتھ رکھ کربهی، تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے کی مدد لے اور اگر کسی کی مددسے بھی تيمم نہيں کرسکتا تو ضروی ہے کہ نائب لے اور نائب کے لئے ضروری ہے کہ اسے خوداس کے ہاتھوں کے ساته تيمم کرائے اور اگر ایساکرناممکن نہ ہو تو نائب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں کواس چيزپر مارے جس پر تيمم کرناصحيح ہو اور پھراس کی پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور ضروری ہے کہ تيمم کی نيت وہ خودکرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نائب بھی نيت کرے۔

مسئلہ ٧١٩ اگر کوئی شخص تيمم کے دوران شک کرے کہ اس کا کچھ حصہ بھول گيا ہے یا نہيں اور اس حصے کا موقع گزرگيا ہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کا تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢٠ اگر کسی شخص کوبائيں ہاتھ کا مسح کرنے کے بعدشک ہو کہ آیا اس نے تيمم درست کيا ہے یا نہيں جب کہ احتمال دے کہ مسح کرتے وقت متو جہ تھاتو اس کا تيمم صحيح ہے اور اگر اس کا شک خود بائيں ہاتھ کے مسح کے بارے ميں ہو تو ضروری ہے کہ اس کا مسح کرے، مگریہ کہ جس عمل ميں طهارت شرط ہو اس ميں داخل ہو چکا ہو یا تسلسل ختم ہو گيا ہو اور اگر بائيں ہاتھ کے مسح کے صحيح ہو نے ميں شک ہو تو اس کا تيمم صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧٢١ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو وہ نماز کے وقت سے پهلے نماز کے لئے تيمم نہيں کرسکتا، ليکن اگر کسی اور واجب کا م یا مستحب کا م کے لئے تيمم کرے اور نماز کے وقت تک عذرباقی رہے جب کہ آخروقت تک عذر زائل ہونے سے مایوس ہو تو اسی تيمم کے ساته نماز پڑھ سکتاہے ، ورنہ محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ٧٢٢ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو اگر آخروقت تک عذر زائل ہونے سے مایوس ہو تو وقت وسيع ہو نے کی صورت ميں تيمم کے ساته نماز پڑھ سکتاہے ، ليکن اگر مایوس نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کرے، اگر عذربرطرف ہو جائے تو وضو یا غسل کے ساته نماز پڑھے ورنہ تنگی ؤقت ميں تيمم کے ساته نماز اداکرے۔

۱۱۹

مسئلہ ٧٢٣ جوشخص وضو یا غسل نہ کرسکتاہو اوراسے یقين یا اطمينان ہو کہ اس کا عذربرطرف ہو جائے گا، تو اپنی قضا نماز وں کوتيمم کے ساته نہيں پڑھ سکتا ور نہ پڑھ سکتاہے ، ليکن اگر بعدميں اس کا عذربرطرف ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کودوبارہ غسل یا وضو کے ساته اداکرے۔

مسئلہ ٧٢ ۴ جو شخص وضو یا غسل نہ کرسکتا ہو، اگر آخروقت تک عذرکے برطرف ہو نے سے مایوس ہو تو جن نوافل کا وقت معين ہے انہيں تيمم کے ساته پڑھ سکتاہے اور اگر مایوس نہ ہو احتياطِ واجب یہ ہے کہ ان نوافل کوان کے آخری وقت ميں بجالائے۔

مسئلہ ٧٢ ۵ جس شخص کا وظيفہ احتياطِ واجب کی بنا پر غسلِ جبيرہ اور تيمم ہو اگر وہ غسل اور تيمم کے بعدنماز پڑھے اور نماز کے بعداس سے حدثِ اصغر صادر ہو مثلااگر وہ پيشاب کرے تو بعدکی نماز وں کے لئے احتياطاً تيمم کرے اور وضو بھی کرے اور اگر حدث نماز سے پهلے صادر ہو تو اس نماز کے لئے بھی وضو کرکے تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢ ۶ اگر کوئی شخص پانی نہ ملنے یا کسی اور عذرکی وجہ سے تيمم کرے تو عذرکے برطرف ہو نے کے بعداس کا تيمم باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ٧٢٧ جوچيزیں وضو کوباطل کرتی ہيں وہ وضو کے بدلے کئے ہو ئے تيمم کوبهی باطل کرتی ہيں اور جوچيزیں غسل کوباطل کرتی ہيں وہ غسل کے بدلے کئے گئے تيمم کوبهی باطل کرتی ہيں ۔

مسئلہ ٧٢٨ جوشخص غسل نہ کرسکتاہو اور اس پر چندغسل واجب ہو ں، اگر ان ميں سے ایک غسل جنابت ہو تو غسل جنابت کے بدلے ایک تيمم باقی سب کے لئے کافی ہے اور اگر غسل جنابت کے علاوہ ہوں تو ضروری ہے کہ هرایک کے بدلے ایک تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢٩ جوشخص غسل نہ کرسکتاہو اگر وہ کوئی ایساکا م انجام دیناچاہے جس کے لئے غسل واجب ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تيمم کرے اور جو شخص وضو نہ کرسکتا ہو اگر وہ کوئی ایساکا م کرنا چاہے جس کے لئے وضو واجب ہے تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٣٠ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تيمم کرے تو نماز کے لئے وضو کرناضروری نہيں ہے ، ليکن اگر دوسرے غسلوں کے بدلے تيمم کرے تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے ایک اور تيمم کرے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسئلہ ١ ۴ ٨٧ اگر امام غلطی سے ایسی رکعت ميں قنوت پڑھ لے جس ميں قنوت نہيں ہے یا جس رکعت ميں تشهد نہيں ہے اس ميں تشهد پڑھنے ميں مشغول ہو جائے تو ضروری ہے کہ ماموم قنوت اور تشهد نہ پڑھے ليکن وہ امام سے پهلے رکوع ميں نہيں جا سکتا اور امام سے پهلے قيام نہيں کرسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام کا قنوت اور تشهد تمام ہوجائے اور اپنی بقيہ نماز کو امام کے ساته پڑھے۔

نمازجماعت ميں امام اور ماموم کا وظيفہ

مسئلہ ١ ۴ ٨٨ اگر ماموم ایک مرد ہو تو احتياط واجب کی بنا پر وہ امام کی دائيں طرف کهڑا ہو اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا چند عورتيں ہوں تو مرد دائيں طرف اور بقيہ عورتيں امام کے پيچهے کهڑی ہو ں اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتيں ہوں تومرد امام کے پيچهے اور عورتيں مردوں کے پيچهے کهڑی ہوں اور اگر ایک یا چند عورتيں ہوں تو امام کے پيچهے کهڑی ہوں اور ایک عورت ہونے کی صورت ميں مستحب ہے کہ امام کے پيچهے دائيں سمت ميں اس طرح کهڑی ہو کہ اس کی سجدے کی جگہ امام کے گھٹنوں یا قدم کے مقابل ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٩ اگر ماموم اور امام دونوں عورتيں ہوں تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے برابر ميں کهڑی ہوں اور امام ان سے آگے نہ ہو۔

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مستحب ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩٠ مستحب ہے کہ امام صف کے درميان ميں کهڑا ہو اور صاحبان علم، کمال اور تقویٰ پهلی صف ميں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩١ مستحب ہے کہ جماعت کی صفيں منظّم ہو ں اور ایک صف ميں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درميان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کاندهے ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٢ مستحب ہے کہ ”قد قامت الصلاة“ کهنے کے بعد مامومين کھڑے ہوجائيں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٣ مستحب ہے کہ امام اس ماموم کی حالت دیکھ کرنماز پڑھائے جو مامومين ميں سب سے زیادہ ضعيف ہو اور قنوت، رکو ع،اور سجدے کو طول نہ دے، ليکن اگر جانتا ہو کہ تمام مامومين طول دینے کی طرف مائل ہيں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۴ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد،سورہ،اور بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار نماز ميں اپنی آواز اتنی اونچی کرے کہ دوسرے مامومين سن ليں، ليکن ضروری ہے کہ اپنی آواز حد سے زیادہ اونچی نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۵ اگر امام کو رکوع کے دوران یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی ماموم ابهی ابهی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کواپنے معمول سے دگنا طول دے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے، اگرچہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی اور بھی اقتدا کے لئے آیا ہے ۔

۲۴۱

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۶ اگر جماعت کی صفوں کے درميان جگہ خالی ہو تو مکروہ ہے کہ انسان اکيلا کهڑا ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٧ ماموم کا اذکارِ نماز کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ جس مسافر کونماز ظهر،عصراور عشا دو رکعت پڑھنا ہيں ، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہيں ہے مکروہ ہے او رجو شخص مسافر نہيں اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے ۔

نماز آيات

مسئلہ ١ ۴ ٩٩ نماز آیات کہ جس کے پڑھنا کا طریقہ بعد ميں بيان ہوگا چار چيزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :

١) سورج گرہن ۔

٢) چاند گرہن۔ اگر چہ ان کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور اس کی وجہ سے کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

٣) زلزلہ، اگرچہ کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

۴) گرج چمک اور سرخ وسياہ آندهی اور ان جيسی دوسری آسمانی نشانياں، اس صورت ميں کہ اکثر لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائيں۔ جها ں تک زمينی حادثات کا تعلق ہے جيسے کہ دریا کا پانی خشک ہوجانا اور پهاڑ کا گرنا جو کہ اکثر لوگوں کہ خوف زدہ ہونے کاباعث ہوتاہے ، تو ان ميں نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٠ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگروہ ایک سے زیادہ ہو جائيں تو ضروری ہے کہ انسان ان ميں سے ہر ایک کے لئے نمازآیات پڑھے۔ مثلاً سورج گرہن بھی ہو اور زلزلہ بھی آجائے تو ضروری ہے کہ ایک نمازآیات سورج گرہن کے لئے اور ایک نماز آیات زلزلے کے لئے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠١ جس شخص پر ایک سے زیادہ نماز آیا ت کی قضا واجب ہو خواہ وہ ایک چيز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ تين مرتبہ سورج گرہن ہوا ہو اور اس شخص نے تينوں مرتبہ نماز آیات نہ پڑھی ہو، یا چند چيزوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ سورج گرہن بھی ہوا ہو اور چاند گرہن بهی، ا ن کی قضا بجا لاتے وقت ضروری نہيں ہے کہ وہ شخص یہ معين کرے کہ کون سی نماز کی قضا کر رہا ہوں، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگرچہ اجمالا ہی سهی، انہيں معين کرے مثلاًیہ نيت کرے کہ جو پهلی نماز آیات یا دوسری نماز آیات جو مجھ پر واجب ہوئی تھی اس کی قضا بجا لا رہا ہوں۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٢ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ کسی جگہ واقع ہوجائيں تو صرف اسی جگہ کے لوگوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہيں ہے ۔

۲۴۲

مسئلہ ١ ۵ ٠٣ سورج یا چاند کو گرہن لگنے کی صورت ميں نمازآیا ت پڑھنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج یا چاند کو گهن لگنا شروع ہوجائے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب سورج یا چاند مکمل طور پر گرہن سے نکل آئيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی تاخير نہ کرے کہ سور ج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع ہوجائيں، بلکہ گرہن کی ابتدا ميں ہی نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۴ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ چاند یا سورج گرہن سے نکلنا شروع ہو جائيں تو اس کی نمازادا ہے ، ليکن پورا سورج یاچاند،گرہن سے نکل جانے کی صورت ميں اس کی نمازقضا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۵ اگر چاند گرہن یا سورج گرہن کی مدت ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔اسی طرح اگر گرہن کی مدت ایک رکعت سے زیادہ ہو اور انسان نمازنہ پڑھے یهاں تک کہ ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم وقت باقی رہ گيا ہو تب بھی نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۶ انسان کے لئے واجب ہے کہ زلزلہ،گرج چمک اور انهی جيسی دوسری چيزوں کے وقوع کے وقت نماز آیات پڑھے اور ضروری ہے کہ نماز کو اتنی دیر سے نہ پڑھے کہ عرفا لوگ اسے تاخير کہيں اور تاخير کرنے کی صورت ميں اپنی نماز پڑھے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ادا یا قضا کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٧ اگر کسی شخص کو سورج یا چاند گرہن لگنا معلوم نہ ہو اور ان کے گرہن سے نکلنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے چاند یا سورج کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا بجا لائے، ليکن اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی کچھ مقدار کو گرہن لگا تھا تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٨ اگر کچھ لوگ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان پيدا نہ ہو اور اس گروہ ميں سے کوئی ایسا شخص موجودنہ ہو جس کا شرعی طورپر کوئی اعتبار ہو او رانسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد ميں یہ معلوم ہوکہ ان لوگوںنے صحيح کها تھا تو پورے چاند یاسورج کو گرہن لگنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز آیات بجا لائے، ليکن اگر ان کے کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات پڑھنا ضروری نہيں ہے ۔اسی طرح اگر دو اشخاص کہ جن کے عادل ہونے کا علم نہ ہو یا ایک شخص کہ جس کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو، اگر یہ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور بعد ميں معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں عادل تهے یا وہ ایک شخص ایسا قابل اعتماد تھا کہ جس کے قول کے بر خلاف بات کاگمان نہ تھا تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٩ اگر انسان کو ان لوگوں کے کهنے سے جو علمی قاعدے کی رو سے چاند گرہن یا سورج گرہن کے بارے ميں بتاتے ہيں ، اطمينان پيدا ہوجائے کہ سورج یا چاند گهن ہوا ہے تو ضروری هے _کہ نماز آیات پڑھے۔ نيز اگر وہ لوگ یہ کہيں کہ فلاں وقت

۲۴۳

سورج یا چاند کو گهن لگے گا اور فلاں وقت تک رہے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمينان پيدا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اطمينان پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ جو نماز آیات پڑھی تھی وہ باطل تھی تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور وقت گذرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١١ اگر پنجگانہ نمازوں کے اوقات ميں کسی شخص پر نماز آیات بھی واجب ہو جائے اور دونوں نمازوں کے لئے وقت وسيع ہو تو وہ پهلے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر ان دونوں ميں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو جس نماز کا وقت تنگ ہو ضروری ہے کہ اسے پهلے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے یوميہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٢ اگر کسی شخص کو پنجگانہ نمازوں کے د رميان یہ معلوم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور نماز پنجگانہ کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرنے کے بعد نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یوميہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ دے اور پهلے نماز آیات پڑھے اور اس کے بعد نماز یوميہ بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٣ اگر نماز آیات کے دوران کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یوميہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ وہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور نماز یوميہ شروع کر دے اور نماز مکمل کرنے کے بعد، کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہوضروری ہے کہ نماز آیات جهاں سے چھوڑی تھی وہيں سے مکمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۴ اگر کسی عورت کے حيض یا نفاس کی حالت ميں سورج یا چاند کو گهن لگ جائے تو اس پر نماز آیات اورا س کی قضا واجب نہيں ہے ليکن غير موقت جيسے کہ زلزلہ اور گرج چمک ميں عورت کے پاک ہونے کے بعد ادا یا قضا کی نيت کے بغير نماز آیات بجالانا ضروری ہے ۔

نماز آيات کا طريقہ

مسئلہ ١ ۵ ١ ۵ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت ميں پانچ رکوع ہيں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نيت کرنے کے بعد تکبيرة الاحرام کهے اور ایک مرتبہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے سر اٹھ الے اور دوبارہ ایک مرتبہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح پانچ رکوع کرے اور پانچویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دو سجدے کرے اور کهڑا ہوجائے اور دوسری رکعت کو بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشهد پڑھ کر سلام پهيرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۶ نماز آیات ميں الحمد پڑھنے کے بعد انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک سورے کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے اٹھ کر الحمد پڑھے بغير اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح یہ عمل دهراتا رہے۔ یهاں تک کہ پانچویں رکوع سے پهلے سورہ مکمل کر لے۔

۲۴۴

مثلا سورہ قل ہو اللّٰہ احد کی نيت سے ”بسم الله الرحمن الرحيم “پڑھے اور رکوع ميں جائے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور ”قل ہو اللّٰہ احد “ کهے اور دوبارہ رکوع ميں جائے اور رکوع کے بعد کهڑا ہوا ور ”الله الصمد “ کهے پھر رکوع ميں جائے اور کهڑا ہوا اور ”لم یلد ولم یولد“ کهے اور رکوع ميں چلا جائے اور رکوع سے سر اٹھ ا لے اور ”ولم یکن لہ کفوا احد“ کهے اور اس کے بعد پانچویں رکوع ميں چلا جائے، رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دوسجدے کرے۔ دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ نيز یہ بھی جائز ہے کہ ایک سورے کو پانچ سے کم حصوں ميں تقسيم کرے ليکن جب بھی سورہ مکمل کرے ضروری ہے کہ بعد والی رکوع سے پهلے الحمد پڑھے اور اس کے بعد ایک سورہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٧ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت ميں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت ميں ایک دفعہ الحمد اور سورے کو پانچ حصوں ميں تقسيم کردے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ١٨ جو چيزیں پنجگانہ نماز ميں واجب اور مستحب ہيں وہ نماز آیات ميں بھی واجب اور مستحب ہيں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساته ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کے بجائے تين دفعہ بطور رجاء ”الصلاة“کها جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٩ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ پانچویں اور دسویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ پڑھے۔ نيز ہر رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبير کهنا مستحب ہے ، ليکن پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبير کهنا مستحب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٠ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھ ویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھا جائے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ ليا جائے تب بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢١ اگر کوئی شخص نمازآیات ميں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور کسی نتيجے پر نہ پهنچے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٢ اگر شک کرے کہ پهلی رکعت کے آخری رکوع ميں ہے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع ميں اور کسی نتيجے پر نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں، اگر رکوع کی تعداد ميں شک کرے تو کم پر بنا رکھے مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ کہ اس صورت ميں اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھکا نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس رکوع کے لئے جھک گيا تھا اسے بجا لائے اور اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھک جانے کے بعد اور سجدے ميں پهنچنے سے پهلے شک ہوا ہو تواحتياط واجب کی بنا پر واپس پلٹ آئے اور رکوع بجا لائے اور نماز مکمل کر کے دوبارہ بجا لائے، ليکن اگر سجدے ميں پهنچ گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مْسئلہ ١ ۵ ٢٣ نماز آیات کا ہر رکوع ایک رکن ہے اور اگر ان ميں عمدا یا سهواً کمی یابيشی ہو جائے تو نماز باطل ہے ۔

۲۴۵

عيد فطر و عيدقربان کی نمازيں

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۴ امام عليہ السلام کے زمانے ميں عيد فطر وعيد قربان کی نمازیں واجب ہيں اور ضروری ہے کہ یہ نمازیں جماعت کے ساته پڑھی جائيں ليکن ہمارے زمانے ميں جب کہ امام عصر عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ، یہ نمازیں مستحب ہيں اور باجماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہيں ۔هاں، با جماعت پڑھنے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نمازیوں کی تعدادپانچ افراد سے کم نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۵ عيد فطر وعيد قربان کی نماز کا وقت عيد کے روز طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۶ عيد قربان کی نماز سور ج چڑھ آنے کے بعد مستحب ہے اور عيد فطر ميں مستحب ہے کہ سور ج چڑھ آنے کے بعد افطار کيا جائے اور احتياط واجب کی بنا پر فطرہ دینے کے بعد نماز عيد ادا کی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٧ عيد فطر وقربان کی نمازدو رکعت ہے جس کی پهلی رکعت ميں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبيریں کهے اور ہر تکبير کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک قنوت پڑھے ۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے اور دوسجدوں کے بعد اٹھ کهڑا ہو۔ دوسری رکعت ميں چار تکبيریںکهے اور ہر تکبير کے بعد ایک قنوت پڑھے، پانچویں تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے، رکوع کے بعد دوسجدے بجا لائے اور تشهد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٨ عيد فطر وقربا ن کی نماز کے قنوت ميں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے ، ليکن بہتر ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب مصباح المتهجد ميں نقل کی ہے ، پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ا هَْٔلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ ا هَْٔلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ وَ ا هَْٔلَ التَّقْویٰ وَ الْمَغْفِرَةِا سَْٔئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْداً وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَيْرٍ ا دَْٔخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُل سُوْءٍ ا خَْٔرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ ا سَْٔئَلُکَ خَيْرَ مَا سَئَلَکَ بِه عِبَادُک الصَّالِحُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ (الْمُخْلِصُوْنَ، الْمُخْلَصُوْنَ)

اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب ميں معتبر سند کے ساته ذکر کی ہے ، اسے پڑھا جائے۔ وہ دعا یہ ہے :

۲۴۶

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللَّهُمَّ اَنْتَ ا هَْٔلُ الْکِبْرِیَاءِوَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلُ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْقُدْرَةِ وَ السُّلْطَانِ وَ الْعِزَّةِ، ا سَْٔئَلُکَ فِیْ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْدًا وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ مَزِیْداً، ا سَْٔئَلُکَ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مَلاَئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ ا نَْٔبِيَائِکَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ ا نَْٔ تَغْفِرَ لَنَا وَ لِجَمِيْعِ الْمُوْ مِٔنِيْنَ وَ الْمُوْ مِٔنَاتِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَات اْلا حَْٔيَاءِ مِنْهُمْ وَ اْلا مَْٔوَاتِ، ا لٔلّٰهُمَّ إِنیِّ ا سَْٔئَلُکَ مِنْ خَيْرِ مَا سَئَلَکَ عِبَادُکَ الْمُرْسَلُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِه عِبَادُکَ الْمُخْلَصُوْنَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَوَّلُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ آخِرُه وَ بَدِیْعُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مُنْتَهَاهُ وَ عَالِمُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مَعَادُه وَ مَصِيْر کُلِّ شَيْیٍ إِلَيْهِ وَ مَرَدُّه وَ مُدَبِّرُ اْلاُمُوْرِ وَ بَاعِثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ، قَابِلُ الْاَعْمَالِ مُبْدِی الْخَفِيَّاتِ مُعْلِنُ السَّرَائِرِ، اَللّٰهُ اَکْبَر عَظِيْمُ الْمَلَکُوْتِ شَدِیْدُ الْجَبَرُوْتِ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ دَائِمٌ لاَّ یَزُوْلُ إِذَا قَضیٰ اَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ، اَللّٰهُ اَکْبَر خَشَعَتْ لَکَ الْاَصْوَاتُ وَ عَنَتْ لَکَ الْوُجُوْهُ وَ حَارَتْ دُوْنَکَ الْاَبْصَارُ وَ کَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ عَظَمَتِکَ وَ النَّوَاصِیَ کُلُّهَا بِيَدِکَ وَ مَقَادِیْرُ الْاُمُوْرِ کُلُّهَا اِلَيْکَ، لاَ یَقْضِیْ فِيْهَا غَيْرُکَ وَ لاَ یَتِمُّ مِنْهَا شَيْیءٌ دُوْنَکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَحَاطَ بِکُلِّ شَيْیٍ حِفْظُکَ وَ قَهَرَ کُلَّ شَيْیٍ عِزُّکَ وَ نَفَذَ کّلَّ شَيْیٍ اَمْرُکَ وَ قَامَ کُلُّ شَيْیٍ بِکَ وَ تَوَاضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِعَظَمَتِکَ وَ ذَلَّ کُل شَيْیٍ لِعِزَّتِکَ وَ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَيْیٍ لِقُدْرَتِکَ وَ خَضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِمُلْکِکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ

مسئلہ ١ ۵ ٢٩ امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ)کے زمانہ غيبت ميں اگر نماز عيد جماعت سے پڑھی جائے تو احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جائيں اور بہتر یہ ہے کہ عيد فطر کے خطبے ميں فطرے کے احکام بيان ہوں اور عيد قربان ميں قربانی کے احکام بيان ہوں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٠ عيد کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہيں ہے ليکن بہتر ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد کے بعدسورہ سبح اسم ربک الاعلیٰ (سورہ: ٨٧ )پڑھا جائے اور دوسری رکعت ميں سورہ والشمس (سورہ : ٩١ )پڑھا جائے اور سب سے افضل یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ والشمس اور دوسری رکعت ميں سورہ غاشيہ (سورہ: ٨٨ )پڑھا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣١ نماز عيد صحر ا ميں پڑھنا مستحب ہے ، ليکن مکہ مکرمہ ميں مستحب ہے کہ مسجد الحرام ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٢ مستحب ہے کہ امام جماعت اور مامو م نماز سے پهلے غسل کریں اور روئی سے بُنا ہوا سفيد عمامہ سر پر باندہيں کہ جس کا ایک سرا سينے پر اور دوسرا سرا دونوں شانوں کے درميان ہو اور مستحب ہے کہ نمازکے لئے پيدل، ننگے پير اور باوقار طریقے سے جایا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٣ مستحب ہے کہ عيد کی نمازميں زمين پر سجدہ کيا جائے، تکبيریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کيا جائے اورامام جماعت بلند آواز سے قرائت کرے۔

۲۴۷

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۴ مستحب ہے کہ عيد فطر کی رات کو مغرب وعشا کی نماز کے بعد اور عيد فطر کے دن نماز صبح کے بعد یہ تکبيریں کهی جائيں :

اَللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَاهدَانَا ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۵ عيد قربان ميں دس نمازوں کے بعد جن ميں سے پهلی نماز، عيد کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری نماز بارہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ، ان تکبيرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ ميں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَا اَبْلَانَا “ کهے، ليکن اگر عيد قربان کے موقع پر انسان منیٰ ميں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبيریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن ميں سے پهلی نماز عيد کے دن کی نمازظہر ہے اور آخری تيرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۶ احتياط مستحب ہے کہ عورتيں نماز عيد پڑھنے کے لئے نہ جائيں، ليکن یہ احتياط عمر رسيدہ عورتوں کے لئے نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٧ نماز عيد ميں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لئے ضروری ہے کہ الحمد اورسورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٨ اگر ماموم اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبيریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع ميں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبيریں اور قنوت اس نے امام کے ساته نہيں پڑہيں انہيں پڑھے اور امام کے ساته رکوع ميں مل جائے اور اگر ہر قنوت ميں ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “ یا ایک مرتبہ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کہہ دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٩ اگر کوئی شخص نماز عيد ميں اس وقت پهنچے جب امام رکوع ميں ہو تووہ نيت کر کے اور پهلی تکبير کہہ کر رکوع ميں جاسکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ نماز کو رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٠ اگر نماز عيد ميں آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر اس کو بجا لائے اور اگروہ کسی اور رکعت کا سجدہ بھول گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجا لائے۔

اسی طرح کسی بھی صورت ميں اگر اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے لئے نماز پنجگانہ ميں ، چاہے احتياط کی بنا پر، سجدہ سهو لازم ہے تواحتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۴۸

نماز کے لئے اجير بنانا

مسئلہ ١ ۵۴ ١ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جنہيں اس نے اپنی زندگی ميں انجام نہ دیا ہو کسی دوسرے شخص کو اجير بنا یا جاسکتا ہے ، یعنی اسے اجرت دی جائے تاکہ وہ انہيں بجا لائے اور اگر کوئی شخص بغير اجرت لئے ان عبادات کو بجا لائے تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٢ انسان بعض مستحب کاموں مثلا روضہ رسول(ص) کی زیارت یا قبور ائمہ عليهم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجير بن سکتا ہے اس معنیٰ ميں کہ اجارہ ميں ان اشخاص کی طرف سے ان مخصوص کاموں ميں نيابت کا قصد رکھتا ہو، چنانچہ یہ شخص انہيں کاموں کو بغير اجرت لئے بھی انجام دے سکتا ہے ۔ نيز یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو هدیہ کر دے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٣ جو شخص ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کے مسائل ميں یا تو وہ خود مجتهد ہو یا نماز، تقليد کے مطابق صحيح طریقے سے ادا کرسکے یا احتياط پر عمل کرسکے۔

مسئلہ ١ ۵۴۴ ضروری ہے کہ اجير نيت کرتے وقت ”ميت “ کو معين کرے۔هاں، یہ ضروری نہيں ہے ميت کا نام جانتا ہو، پس اگر وہ نيت کرے کہ یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے ميں اجير ہوا ہوں تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۵ ضروری ہے کہ اجير جو عمل بجا لائے اس کے لئے نيت کرے کہ جو کچھ ميت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجير کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب ميت کو هدیہ کرے تو یہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۶ ضروری ہے کہ اجير کسی ایسے شخص کو مقرر کيا جائے جس کے بارے ميں جانتے ہوں یا ان کے پاس شرعی حجت ہو کہ وہ عمل کو بجالائے گا مثلاً وہ اطمينان رکھتے ہوں یا دو عادل شخص یا ایک قابل اطمينان شخص جس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو،خبر دیں کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٧ جس شخص کو ميت کی نمازوں کے لئے اجير بنایا جائے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ عمل کو بجا نہيں لایا ہے یا باطل طریقے سے بجا لایا ہے تو ضروری ہے دوبارہ کسی شخص کو اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٨ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اجير نے عمل انجام دیا ہے یا نہيں تو اگر وہ قابل اطمينان ہو اور یہ کهے کہ ميں نے انجام دے دیا ہے یا کوئی شرعی گواہی یا کسی ایسے قابل اعتماد شخص کا قول موجود ہو کہ جس کے قول کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو کافی ہے اور اگر وہ شک کرے کہ اس اجير کا عمل صحيح تھا یا نہيں تو وہ اس کے عمل کو صحيح سمجھ لے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٩ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلا تيمم کر کے یا بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اسے ميت کی نمازوں کے لئے اجير مقرر نہيں کيا جاسکتا خواہ ميت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔

۲۴۹

مسئلہ ١ ۵۵ ٠ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے اجير بن سکتے ہيں ۔نيز نماز کو بلند یا آهستہ آواز سے پڑھنے ميں ضروری ہے کہ اجير اپنے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميت کی قضا نمازوں ميں ترتيب واجب نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ترتيب کا خيال رکھا جائے، ليکن اُن نمازوں ميں ترتيب ضروری ہے کہ جن کی ادا ميں ترتيب ضروری ہے مثلا ایک دن کی نماز ظہر وعصر یا مغرب وعشا۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٢ اگر اجير کے ساته طے کيا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے مگر یہ کہ اس عمل کے صحيح نہ ہونے کا علم رکھتا ہو کہ اس صورت ميں اس عمل کے لئے اجير نہيں بن سکتا اور اگر کچھ طے نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظيفے کے مطابق بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظيفے اور ميت کے وظيفے ميں سے جو بھی احتياط کے زیادہ قریب ہو اسی پر عمل کرے، مثلاً اگر ميت کا وظيفہ تين مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکليف ایک بار پڑھنا ہو تو تين بار پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٣ اگر اجير کے ساته یہ طے نہ کيا جائے کہ نماز کے مستحبات کتنی مقدار ميں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات نماز ميں پڑھے جاتے ہيں انہيں بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۴ اگر انسان ميت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجير مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميں بتایا گيا ہے اس کی بنا پر ضروری نہيں کہ وہ ہر اجير کے لئے وقت معين کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵۵ اگر کوئی شخص اجير بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال ميں ميت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پهلے مر جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کے لئے جن کے بارے ميں علم ہوکہ وہ انہيں بجا نہيں لایا، کسی اور شخص کو اجير مقرر کيا جائے اور جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ وہ انہيں بجانہيں لایا تھا احتياط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۶ جس شخص کو ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہوتو اگر اس کے ساته یہ طے کيا گيا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا اور وہ ان کے بجالانے پر قادر بھی تھا تو اجارہ کا معاملہ صحيح ہے اور اجرت دینے والا باقی نمازوں کی اجرت المثل واپس لے سکتا ہے یا اجارہ کو فسخ کرتے ہوئے اس مقدار کی اجرت المثل جو ادا ہو چکی ہے ، دے کر باقی مقدار کی اجرت واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ ان نمازوں کی ادائيگی پر قادر نہيں تھا تو مرنے کے بعد والی نمازوں ميں اجارہ باطل ہے اور اجرت دینے والا باقی ماندہ نمازوں کی اجرت مُسمّی لے سکتا ہے یا پهلے والی مقدار کے اجارہ کو فسخ کرتے ہو ئے اس مقدار کی اجرت المثل ادا کرسکتا ہے اور اگر یہ طے نہ کيا گيا

۲۵۰

ہو کہ وہ خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجير کے ورثاء اس کے مال سے کسی اور کو اجير بنائيں، ليکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٧ اگر اجير ميت کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس کی اپنی بھی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سابقہ مسئلے ميں جو طریقہ بتایا گيا ہے اس پر عمل کرنے کے بعداگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اس صورت ميں کہ جب اس نے وصيت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت اس کے تمام مال کے تيسرے حصے سے زیاہ ہوتو ورثاء کے اجازت دینے کی صورت ميں اس کی تمام نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جا سکتا ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت ميں اس کے مال کا تيسرا حصہ اس کی نمازوں پر خرچ کریں۔

روزے کے احکام

روزہ یہ ہے کہ انسان اذانِ صبح سے مغرب تک، ان چيزوں سے کہ جن کا بيان بعدميں آئے گا، قصد قربت،جس کا بيان وضو کے مسائل ميں گزرچکا اور اخلاص کے ساته، پرہيز کرے۔

اس مسئلے اور بعد ميں آنے والے مسائل ميں احتياط واجب کی بنا پر مغرب سے مراد وہ وقت ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مشرق کی جانب سے نمودار ہونے والی سرخی انسان کے سر کے اوپر سے گزر جائے۔

نيت

مسئلہ ١ ۵۵ ٨ روزے کی نيت ميں ضروری نہيں ہے کہ انسان نيت کے الفاظ کو دل سے گزارے یا مثلاً یہ کهے کہ ميں کل روزہ رکہوں گا، بلکہ اگر صرف یهی ارادہ رکھتا ہو کہ قربت کی نيت اور اخلاص کے ساته اذان صبح سے مغرب تک، ان کاموں کو انجام نہ دے گا جو روزے کو باطل کر دیتے ہيں تو کافی ہے ۔ اور یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت ميں روزے سے تھا ضروری ہے کہ اذانِ صبح سے کچھ دیر پهلے اور مغرب کے کچھ دیر بعد بھی روزے کو باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٩ انسان ماہ رمضان کی ہر رات ميں اس کے اگلے دن کے روزے کی نيت کر سکتا ہے اور اسی طرح مهينے کی پهلی رات کو ہی سارے روزوں کی نيت بھی کر سکتا ہے اورپہر دوبارہ ہر رات نيت دهرانا ضروری نہيں ہے اور اسی نيت پر باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٠ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کا وقت پهلی رات ميں ، رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہے اور پهلی رات کے علاوہ دوسری راتوںميں رات کی ابتدا سے پهلے بھی نيت کی جاسکتی ہے ، مثلاً پهلے دن عصر کے وقت نيت کرے کہ اگلے دن قربة الی الله روزہ رکھے گا اور اسی نيت پر باقی رہے اگر چہ اذان صبح کے بعد تک سوتا رہے۔

۲۵۱

مسئلہ ١ ۵۶ ١ مستحب روزے کی نيت کا وقت رات کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے کہ سورج غروب ہونے ميں نيت کرنے کی مقدار کا وقت باقی رہ جائے، پس اگر اس وقت تک روزے کو باطل کر دینے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور مستحب روزے کی نيت کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن اگر سورج غروب ہوجائے تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٢ جو شخص روزے کی نيت کئے بغير اذان صبح سے پهلے سوجائے، اگر ظہر سے پهلے بيدار ہو اور روزے کی نيت کرے تو اگر اس کا روزہ ایسا واجب روزہ ہوکہ جس کا وقت معين ہے ، چاہے ماہ رمضان کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ، جيسے اس نے نذر کی ہو کہ کسی معين دن روزہ رکھے گا، تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکال ہے اور اگر اس کا روزہ ایسا واجب ہو کہ جس کا وقت معين نہ ہو تو روزہ صحيح ہے ۔

اور اگر ظہر کے بعد بيدار ہو تو واجب روزے کی نيت نہيں کر سکتا ہے چاہے واجب غير معين ہو، ليکن ماہ رمضان کی قضا ميں ظہر سے عصر تک نيت کا جائز نہ ہونا احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٣ جو شخص ماہ رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معين کرے، مثلاً نيت کرے کہ قضا، نذر یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں، ليکن ماہ رمضان ميں یہ ضروری نہيں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے کی نيت کرے، بلکہ اگر اسے علم نہ ہو کہ رمضان ہے یا بھول جائے اورکسی دوسرے روزے کی نيت کرلے تب بھی وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۴ اگر کوئی جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجه کر رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی نيت کرلے تو وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہيں ہوگا اور اسی طرح بنابر احتياط واجب جس روزے کی نيت کی ہے وہ بھی روزہ شمار نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۵ اگر پهلے روزے کی نيت سے روزہ رکھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسری یاتيسری تاریخ تھی تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶۶ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے اور بے ہوش ہوجائے اور دن ميں کسی وقت ہوش آئے تو بنابر احتياط واجب ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کو پورا کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٧ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے پھر اس پر نشہ طاری ہو جائے اور دن ميں ہوش آئے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٨ اگر اذانِ صبح سے پهلے نيت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بيدار ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٩ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دیا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اور اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۲۵۲

مسئلہ ١ ۵ ٧٠ اگر بچہ ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے بالغ ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنا اس پر ضروری ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس پر روزہ واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ظہر سے پهلے بالغ ہو اور اس نے روزے کی نيت کر رکھی ہو تو روزہ پورا کرے اور اگر نيت نہ بھی کی ہو اورروزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو نيت کرے اور روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧١ جو شخص کسی ميت کے روزے اجرت لے کر رکھ رہا ہواس کے لئے مستحب روزہ رکھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن جس شخص کے ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں وہ مستحب روزے نہيں رکھ سکتا اوراگر رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ اس کے ذمّے ہو پھر بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظہر سے پهلے متوجہ ہوجائے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ليکن وہ اپنی نيت کو غير معين واجب روزے کی طرف پلٹا سکتا ہے ، جب کہ معين واجب روزے کی طرف نيت کو پلٹانا محل اشکال ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو وہ اپنی نيت کو واجب روزے کی طرف نہيں پلٹاسکتا اگر چہ واجب غير معين ہی کيوں نہ ہو اور یہ حکم ماہِ رمضان کے قضا روزوں ميں زوال کے بعد سے عصر تک احتياط واجب کی بناپر ہے ۔هاں، اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٢ اگر کسی شخص پر رمضان کے علاوہ کوئی معين روزہ واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ مقررہ دن روزہ رکہوں گا اور جان بوجه کر اذانِ صبح تک نيت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے تو اگرچہ ظہر سے پهلے یاد آجائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، بنا بر احتياط اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٣ اگر غير معين واجب روزے مثلاً کفارے کے روزے کے لئے، ظہر کے نزدیک تک عمداً نيت نہ کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ اگر نيت سے پهلے پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہيں رکھے گا یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پهلے نيت کر لے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۴ اگر کوئی کافر ماہ رمضان ميں ظہر سے پهلے مسلمان ہوجائے تو چاہے اس نے اذان صبح سے اس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، پھر بھی اس کا روزہ صحيح نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۵ اگر کوئی مریض ماہ رمضان کے دن کے وسط ميں ظہر سے پهلے یا اس کے بعد تندرست ہو جائے تو اِس دن کا روزہ اس پر واجب نہيں ہے خواہ اُس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔

۲۵۳

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۶ جس دن کے بارے ميں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا تو اُس پر واجب نہيں کہ وہ اس دن روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نيت نہيں کر سکتا، نہ ہی یہ نيت کر سکتا ہے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ اور اگر رمضان نہيں تو قضا یا اس جيسا کوئی اور روزہ رکھ رہا ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ کسی واجب روزے مثلاً قضا کی نيت کرلے یا مستحب روزے کی نيت کرے۔ چنانچہ بعد ميں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔ ہاں، اگر وہ یہ نيت کرے کہ جس چيز کا اسے حکم دیا گيا ہے اس کو انجام دے رہا ہوں اور بعد ميں معلوم ہو کہ رمضان تھا تو یہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٧ جس دن کے بارے ميں شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا دن، اگر اُس دن قضا یا اس کی مانند کوئی واجب یا مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٨ اگر کسی واجب معين روزے ميں جيسے ماہ رمضان کے روزے ميں انسان اپنی نيت سے کہ مبطلات روزہ سے خدا کی خاطر بچے، پلٹ جائے یا پلٹنے کے بارے ميں متردد ہو یا یہ نيت کرے کہ روزہ توڑنے والی چيزوں ميں سے کسی کو انجام دے یا متردد ہو کہ ایسی کوئی چيز انجام دے یا نہ دے تو اُس کا روزہ باطل ہے ، اگرچہ جو ارادہ کيا ہو اُس سے توبہ بھی کرے اور نيت کو روزے کی طرف بھی پهير دے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٩ وہ بات جس کے بارے ميں پچهلے مسئلے ميں بتایا گيا کہ واجب معين روزے کو باطل کردیتی ہے ،غير معين واجب روزے مثلاً کفارے یا غير معين نذر کے روزے کو باطل نہيں کرتی، لہٰذا اگر ظہر سے پهلے دوبارہ اپنی نيت کو روزے کی طرف پهير دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مبطلاتِ روزہ

مسئلہ ١ ۵ ٨٠ نو چيزیں روزے کو باطل کر دیتی ہيں ، اگر چہ ان ميں سے بعض چيزوںسے روزہ احتياط کی بنا پر باطل ہوتا ہے :

ا ) کھانا اور پينا

٢ ) جماع

٣ ) استمنا۔ استمنا یہ ہے کہ انسان اپنے یا کسی دوسرے کے ساته جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے۔

۴ ) خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

۵ ) احتياط واجب کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا۔

۲۵۴

۶ ) پورے سر کو پانی ميں ڈبونا۔

٧ ) اذانِ صبح تک جنابت حيض یا نفا س پر باقی رہنا۔

٨ٌ) کسی بهنے والی چيز سے انيما کرنا۔

٩ ) قے کرنا۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کھانا اور پينا

مسئلہ ١ ۵ ٨١ اگر روزہ دار اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر کوئی چيز کھائے یا پئے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا، خواہ وہ ایسی چيز ہو جسے عموماً کهایا یا پيا جاتا ہو جيسے روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کهایا یا پيا نہ جاتا ہو جيسے مٹی اور درخت کا شيرہ، خواہ کم ہو یا زیادہ، حتی اگر تری کو منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ ميں لے جائے اور نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا، سوائے ا س کے کہ یہ تری تهوک سے مل کر اِس طرح ختم ہو جائے کہ پھر اسے باہر کی تری نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٢ اگرکھانا کھانے کے دوران معلوم ہو جائے کہ صبح ہو گئی ہے توضروری ہے کہ لقمہ اگل دے اور اگر عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب ہو جائے گاجس کی تفصيلات آگے آئيںگی۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٣ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چيز کها یا پی لے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۴ دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حس کردینے والے انجکشن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اُس انجکشن سے پرہيز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۵ اگر روزہ دار دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی چيز کو اپنے روزے کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۶ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ اذان سے پهلے اپنے دانتوں ميں خلال کرے، ليکن اگر جانتا ہو یا اطمينان ہو کہ جو غذا دانتوں کے درميان ميں رہ گئی ہے وہ دن ميں اندر چلی جائے گی، چنانچہ وہ خلال نہ کرے اور وہ چيز پيٹ کے اندر چلی جائے تو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٧ لعاب دهن کو نگلنا، اگرچہ کهٹائی یا اس کی مانند چيزوں کے تصور سے منہ ميں جمع ہوجائے، روزے کو باطل نہيں کرتا۔

۲۵۵

مسئلہ ١ ۵ ٨٨ سر اور سينے کے بلغم کو نگلنے ميں ، جب تک کہ وہ منہ کے اندر والے حصے تک نہ پهنچے، کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر منہ ميں آجائيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ انہيں نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٩ اگر روزہ دار اِس قدر پياسا ہوجائے کہ اسے خوف ہو کہ وہ پياس کی وجہ سے مر جائے گا تو اس پر اتنا پانی پينا واجب ہے کہ مرنے سے نجات مل جائے، ليکن اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر رمضان ہو تو باقی دن روزہ باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز ضروری ہے ۔ اِسی طرح اگر اُسے خوف ہو کہ پانی نہ پينے کی وجہ سے اُسے قابلِ ذکر ضرر پهنچے گا یا پانی نہ پينا اُس کے لئے ایسی مشقّت کا باعث بنے گا جوعرفاً قابل برداشت نہ ہو تو اِن دو صورتوں ميں اِس قدر پانی پی سکتا ہے کہ اُس کا ضرر اور مشقّت دور ہو جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٠ بچے یا پرندے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا اور ان جيسی چيزوں کو چکهنا جو عام طور پر حلق تک نہيں پهنچتيں، اگر چہ اتفاق سے حلق تک پهنچ جائيں روزہ کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو یا مطمئن ہو کہ حلق تک پهنچ جائيں گی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور حلق تک پهنچنے کی صورت ميں اس پر کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ ١ ۵ ٩١ انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہيں چھوڑ سکتا، ليکن اگر کمزوری اِس حد تک ہو کہ روزہ دار کے لئے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھرروزہ چھوڑ دینے ميں کوئی حرج نہيں ۔

٢۔ جماع

مسئلہ ١ ۵ ٩٢ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے اگر چہ صرف ختنہ گاہ کے برابر داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔ اوربيوی کے علاوہ کسی اور سے جماع کی صورت ميں اگر منی خارج نہ ہو تو یہ حکم احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٣ اگر ختنہ گاہ سے کم مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۴ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اورختنہ گاہ کے برابر داخل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہواور پھر شک کرے کہ اُس مقدار کے برابر دخول ہوا ہے یا نہيں تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا ضروری ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ باقی دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيزکرے، ليکن کفارہ واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۵ اگر بھول جائے کہ روز ے سے ہے اور جماع کرلے یا بے اختيار جماع کرے تواس کا روزہ باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر دوران جماع اُسے یاد آجائے یا اُسے اختيار حاصل ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع کو ترک کردے اور اگر ترک نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۶

٣۔ استمنا

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۶ اگر روزہ دار استمنا کرے، یعنی جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اُس کی منی خارج ہو، تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٧ اگر بے اختيار، انسان کی منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٨ جو روزہ دار جانتا ہو کہ اگر دن ميں سو گيا تومحتلم ہو جائے گا یعنی نيند ميں اس کے جسم سے منی خارج ہو جائے گی، تو اُس کے لئے سونا جائز ہے اور اگر محتلم ہو جائے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔هاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نہ سوئے خصوصاً جب نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکليف بھی نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٩ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کی حالت ميں نيند سے بيدار ہوجائے تو اس کو خارج ہونے سے روکناواجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٠ جب روزہ دار محتلم ہوجائے تو وہ پيشاب اور استبرا کر سکتا ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ پيشاب اور استبرا کی وجہ سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔

مسئلہ ١ ۶ ٠١ جو روزہ دار محتلم ہو گيا ہو اگر وہ جانتا ہو کہ نالی ميں منی باقی رہ گئی ہے اورغسل سے پهلے پيشاب نہ کرنے کی صورت ميں غسل کے بعد منی خارج ہوگی تو بناء بر احتياط واجب ضروری ہے کہ غسل سے پهلے پيشاب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٢ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ عمداً منی خارج کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے ، اگر منی کے باہر آنے کی نيت سے مثلاً بيوی سے هنسی مذاق اور چھيڑ چھاڑ کرے تو چاہے منی خارج نہ بھی ہو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور ضروری ہے کہ قضا کرے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرنا بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٣ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کا ارادہ کئے بغير مثال کے طور پر اپنی بيوی سے چھيڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے، چنانچہ اگر اطمينان رکھتا ہو کہ اُس سے منی خارج نہ ہوگی اگر چہ اتفاق سے منی خارج ہو بھی جائے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اطمينان نہ ہو تو منی خارج ہونے کی صورت ميں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۴ ۔ خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ سے جهوٹ منسوب کرنا

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۴ اگر روزہ دار زبان سے، لکھ کر، اشارے سے یا کسی اور طریقے سے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے عمداً کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ فوراً یہ کہہ دے کہ ميں نے جھوٹ کها ہے یا توبہ کرلے، اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ جب کهباقی انبياء (علی نبينا و آلہ و عليهم السلام )اور ان کے اوصياء کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتياطِ واجب کی بنا پر روزے کو باطل کر دیتا ہے ، مگر یہ کہ ان سے دی ہوئی یہ جھوٹی نسبت الله تعالیٰ سے منسوب ہو جائے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۷

یهی حکم حضرت زهرا عليها السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے کا ہے سوائے اس کہ کے یہ جھوٹی نسبت خدا، رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی سے منسوب ہو جائے، کہ اس صورت ميں روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۵ اگر کوئی ایسی حدیث نقل کرنا چاہے جس کے متعلق نہ جانتا ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ اور اُس حدیث کے معتبر ہونے پر دليل بھی نہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جو اِس حدیث کا راوی ہے یا مثال کے طور پرجس کتاب ميں یہ حدیث تحریر ہے ، اس کا حوالہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۶ اگر کسی روایت کو سچ سمجھتے ہوئے، خدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ جھوٹ تھی تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٧ جو شخص جانتا ہو کہ خدا، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا روزے کو باطل کردیتا ہے اگر کسی چيز کو جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ جھوٹ ہے ، ان حضرات سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ جو کچھ کها تھا سچ تھا تو بھی اس کا روزہ باطل ہے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٨ کسی دوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کو اگر جان بوجه کر خدا، پيغمبر صلی الله

عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر جس نے جھوٹ گڑھا ہے اس کا قول نقل کرے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٩ اگر روزہ دار سے پوچها جائے کہ آیا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی ایک امام عليہ السلام نے اس طرح فرمایا ہے ، اور وہ جواب ميں جان بوجه کر ہاں کی جگہ نہيں اور نہيں کی جگہ ہاں کهے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٠ اگرخدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی امام عليہ السلام سے کوئی سچ بات نقل کرے، بعد ميں کهے کہ ميں نے جھوٹ کها تھا یا رات کو ان حضرات سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اور اگلے دن روزے کے عالم ميں کهے کہ جو ميں نے کل رات کها تھا وہ سچ ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۵ ۔ غبار حلق تک پهنچانا

مسئلہ ١ ۶ ١١ احتياط کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خوا ہ غبار اس چيز کاہو جس کا کھانا حلال ہے جيسے آٹا یا ایسی چيز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جيسے مٹی۔

مسئلہ ١ ۶ ١٢ اگر ہوا کی وجہ سے کوئی غبار پيدا ہو اور انسان متوجہ ہونے کے باوجود دهيان نہ رکھے اور غبار حلق تک پهنچ جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۸

مسئلہ ١ ۶ ١٣ احتياطِ واجب یہ ہے کہ روزہ دارگاڑھی بهاپ اور سگریٹ و تمباکو جيسی چيزوں کا دهواں بھی حلق تک نہ پهنچائے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۴ اگر دهيان نہ رکھے اور غبار، دهواں، گاڑھی بهاپ یا اس جيسی چيزیں حلق ميں داخل ہوجائيںتو اگر اسے یقين یا اطمينان تھا کہ یہ چيزیں حلق ميں نہ پهنچيں گی تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اسے گمان تھا کہ یہ حلق تک نہيں پهنچيں گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۵ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور دهيان نہ رکھے یا بے اختيار غبار یا اس جيسی چيز اُس کے حلق تک پهنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

۶ ۔ سر کو پانی ميں ڈبونا

مسئلہ ١ ۶ ١ ۶ اگر روزہ دار جان بوجه کر سارا سر پانی ميں ڈبودے تو اگرچہ باقی بدن پانی سے باہر رہے، اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، ليکن اگر سارا بدن پانی ميں ڈوب جائے اور سر کا کچھ حصہ باہر رہے تو روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٧ اگر آدهے سر کو ایک بار اور اس کے دوسرے آدهے حصے کو دوسری بار پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٨ اگر شک کرے کہ پورا سر پانی کے نيچے چلا گيا ہے یا نہيں تو اس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر سارا سر ڈبونے کی نيت سے پانی کے نيچے چلا جائے اور شک کرے کہ پورا سر پانی ميں ڈوبا یا نہيں تو اس کا روزہ باطل ہوگا اگر چہ کفارہ نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ١٩ اگر پورا سر پانی کے نيچے چلا جائے ليکن بالوں کی کچھ مقدار باہر رہ جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٠ پانی کے علاوہ دیگربهنے والی چيزوں مثلاً دودھ اور آب مضاف ميں سر کو ڈبونا روزے کو باطل نہيں کرتا اور احتياطِ واجبيہ ہے کہ سر کو عرق گلاب ميں ڈبونے سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢١ اگر روزہ دار بے اختيار پانی ميں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی ميں ڈوب جائے یا وہ بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٢ اگر روزہ دار یہ سمجھ کر اپنے آپ کو پانی ميں گرادے کہ اس کا سر پانی ميں نہيں ڈوبے گا ليکن اس کا سارا سر پانی ميں ڈوب جائے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٣ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے یا کوئی دوسرا شخص زبردستی اس کا سر پانی ميں ڈبودے، چنانچہ اگر پانی کے اندر اُسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا وہ شخص اپنا ہاتھ ہٹالے تو ضروری ہے کہ اِسی وقت فوراً سر کو باہر نکالے اور اگر باہر نہ نکالے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

۲۵۹

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۴ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور غسل کی نيت سے سر کو پانی ميں ڈبودے تو اُس کا روزہ اور غسل دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر غسل کے لئے اپنا سر پانی ميں ڈبودے تو اگر اُس کا روزہ رمضان کا ہو تو اس کاروزہ اور غسل دونوں باطل ہيں اور رمضان کے قضا روزے کے لئے بھی جسے اپنے لئے انجام دے رہا ہو، احتياط کی بنا پر زوال کے بعد یهی حکم ہے ، ليکن اگر مستحب روزہ ہو یا کوئی اور واجب روزہ ہو خواہ واجب معين ہو جيسے کہ کسی معين دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہو، خواہ واجب غير معين ہو جيسے کفارے کا روزہ، تو اس صورت ميں اُس کا غسل صحيح ہے اور روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۶ اگر روزہ دار کسی شخص کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا خواہ اس شخص کوڈوبنے سے بچانا واجب ہی کيوں نہ ہو۔

٧۔ جنابت، حيض اور نفاس پر اذان صبح تک باقی رہنا

مسئلہ ١ ۶ ٢٧ اگر جنب جان بوجه کر ماہ رمضان ميں اذان صبح تک غسل نہ کرے یا اگر اس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بعد ميں آئے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٨ اگر جنب ماہ رمضان اور اس کی قضا کے علاوہ مستحبی یا واجب روزوں ميں کہ جن کا وقت معين ہو جان بوجه کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ واجب روزے ميں جان بوجه کر حالتِ جنابت پر باقی نہ رہے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٩ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے یهاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے تواحتياطِ واجب کی بنا پرضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٠ اگرجنب ماہ رمضان ميں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد یاد آئے توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر کئی دنوں بعد یاد آئے تو جتنے دن جنب ہونے کا یقين تھا ان کی قضا کرے، مثال کے طور پر اگر وہ نہ جانتا ہو کہ تين دن جنب تھا یا چار دن ؟ تو ضروری ہے کہ تين دن کے روزوں کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣١ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں غسل اور تيمم ميں سے کسی کا وقت نہ رکھتا ہو اگر وہ اپنے آپ کو جنبکرے تو اس کا روزہ باطل ہو گا اور اس پر قضا اور کفارہ واجب ہيں ، ليکن جس کی ذمہ داری غسل ہو، اگر تيمم کرنے کے لئے وقت رکھتا ہو چنانچہ اپنے آپ کو جنب کرے تو بنا بر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اوراس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511