توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 7%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214301 / ڈاؤنلوڈ: 4736
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اور بہتر یہ ہے کہ پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَرْسَلَه بِالْحَقِّ بَشِيْراً وَّ نَذِیْرا بَيْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّارْحَمْ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ کَاَفْضَلِ مَا صَلَّيْتَ وَ بَارَکْتَ وَ تَرَحَّمْتَ عَلیٰ اِبْرَاهِيْمَ وَ آلِ اِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ وَّ صَلِّ عَلیٰ جَمِيْعِ الْاَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِيْنَ و الشُّهَدَاءِ وَالصِّدِّیْقِيْنَ وَ جَمِيْعِ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْن

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ الْاَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَالْاَمْوَاتِ تَابِعْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُم بِالْخَيْرَاتِ إِنَّکَ مُجِيْبُ الدَّعَوَاتِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر

اگر ميّت مرد ہو تو چوتھی تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذَا عَبْدُکَ وَ ابْنُ عَبْدِکَ وَ ابْنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنْتَ خَيْرُ مَنْزُوْلٍ بِه اَللّٰهُمَّ اِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهُ اِلا خَيْراً وَّ ا نَْٔتَ اَعْلَمُ بِه مِنَّا اَللّٰهُمَّ اِنْ کَانَ مُحْسِناً فَزِدْ فِی اِحْسَانِه وَ اِنْ کَانَ مُسِئْياً فَتَجَاوَزْ عَنْهُ وَ اغْفِرْ لَه اَللّٰهُمَّ اجْعَله عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّيِّيْنَ وَ اخْلُفْ عَلٰی اهله فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْهُ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

ليکن اگر ميّت عورت ہو تو چوتھی تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذِه اَمَتُکَ وَ ابْنَةُ عَبْدِکَ وَ ابْنةُ اَمَتِکَ نَزَلَتْ بِکَ وَاَنْتَ خَيْرُ مَنْزُوْلٍ بِه اَللّٰهُمَّ اِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهَا اِلا خَيْراً وَّ ا نَْٔتَ اَعْلَمُ بِهَا مِنَّا اَللّٰهُمَّ اِنْ کَانَتْ مُحْسِنَةً فَزِدْ فِی اِحْسَانِهَا وَ اِنْ کَانَتْ مُسِيْئَةً فَتَجَاوَزْ عَنْهَا وَ اغْفِرْ لَهَا اَللّٰهُم اجْعَلْهَا عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّيِّيْنَ وَ اخْلُفْ عَلٰی اهلها فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْها بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن

مسئلہ ۶ ١ ۵ ضروری ہے کہ تکبيریں اور دعائيں یکے بعد دیگرے اس طرح پڑہيں کہ نماز اپنی شکل نہ کهو دے۔

مسئلہ ۶ ١ ۶ جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو خواہ مقتدی ہی کيوں نہ ہو اس کے لئے تکبيریں اور دعائيں پڑھنا ضروری ہے ۔

۱۰۱

نمازِ ميّت کے مستحبات

مسئلہ ۶ ١٧ چند چيزیں نمازِ ميّت ميں مستحب ہيں :

١) جو شخص نمازِ ميّت پڑھے وہ وضو یا غسل یا تيمم کرے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ تيمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرنا ممکن نہ ہو یا اس بات کا خدشہ ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے گا تو نماز ميں شریک نہ ہو سکے گا۔

٢) اگر ميّت مرد ہو تو امام یا جو شخص اکيلا ميّت پر نماز پڑھ رہا ہو ميّت کے شکم کے سامنے کهڑا ہو اور اگر ميّت عورت ہو تو اس کے سينے کے سامنے کهڑا ہو ۔

٣) نماز ننگے پاؤں پڑھے۔

۴) ہر تکبير ميں ہاتھوں کو بلند کرے۔

۵) ميّت اور نماز ی کے درميا ن فاصلہ اتنا کم ہو کہ اگر ہو ا نماز ی کے لباس کو حرکت دے تو وہ جنازے کو چھو جائے۔

۶) نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھی جائے۔

٧) امام تکبيریں اور دعائيں بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آهستہ پڑہيں ۔

٨) نماز جماعت ميں مقتدی اگر چہ ایک شخص ہی کيوں نہ، ہو امام کے پيچهے کهڑا ہو ۔

٩) نماز پڑھنے والا ميّت اور مومنين کے لئے کثرت سے دعا کرے۔

١٠ ) نماز کو ایسی جگہ پڑہيں جهاں نمازِ ميّت کے لئے لوگ زیا دہ جاتے ہو ں۔

١١ ) اگر حائضہ عورت نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھے تو ایک صف ميں اکيلی کهڑی ہو ۔

مسئلہ ۶ ١٨ مسجدوں ميں نمازِ ميّت پڑھنا مکروہ ہے ليکن مسجد الحرام ميں پڑھنا مکروہ نہيں ہے ۔

دفن کے احکام مسئلہ ۶ ١٩ ميّت کو اس طرح زمين ميں دفن کرنا واجب ہے کہ اس کی بو باہر نہ آئے اور درندے بھی اس کا بدن باہر نہ نکال سکيں اور اگر اس بات کا خوف ہو کہ جانور اس کا بدن باہر نکا ل ليں گے تو قبر کو اینٹوں اور اس جيسی چيزوں سے پختہ کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٠ اگر ميّت کو زمين ميں دفن کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے دفن کرنے کی بجائے کسی ایسی تعمير شدہ جگہ یا تابوت ميں رکھا جائے جس سے دفن کا مقصد حاصل ہو سکے۔

مسئلہ ۶ ٢١ ميّت کو قبر ميں دائيں پهلو اس طرح لٹانا ضروری ہے کہ اس کے بدن کا سامنے والا حصّہ قبلہ رخ ہو۔

۱۰۲

مسئلہ ۶ ٢٢ اگر کوئی شخص کشتی ميں مرجائے اور اس کی ميت کے خراب ہو نے کا امکا ن نہ ہو اور اسے کشتی ميں رکھنے ميں کوئی امر مانع نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کریں تا کہ خشکی تک پهنچ کر اسے زمين ميں دفن کریں، ورنہ ضروری ہے کہ اسے کشتی ميں غسل دیں، حنوط کریں اور کفن پهنائيں اور نمازِ ميّت پڑھنے کے بعد اسے مرتبان ميں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیں اور اسے سمندر ميں ڈال دیں اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ جهاں تک ممکن ہو قبلہ رخ ہو نے کا خيا ل رکہيں ۔

اور اگر ممکن نہ ہو تو کوئی بهاری چيز اس کے پاؤں ميں بانده کر سمندر ميں ڈال دیں اور ممکنہ صورت ميں اسے ایسی جگہ ڈاليں جهاں جانور اسے فوراً لقمہ نہ بناليں۔

مسئلہ ۶ ٢٣ اگر اس بات کا خوف ہو کہ دشمن قبر کهود کر ميّت کو باہر نکا ل لے گا اور کا ن یا ناک یا دوسرے اعضاء کاٹ لے گا، تو اگر ممکن ہو تو سابقہ مسئلے ميں بيا ن کئے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر ميں ڈال دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢ ۴ اگر ميّت کو سمندر ميں ڈالنا یا اس کی قبر پختہ کرنا ضروری ہو تو اس کے اخراجات ميّت کے اصل مال سے لئے جائيں گے۔

مسئلہ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی کا فر عورت مرجائے اور اس کے پيٹ ميں مرا ہو ا بچہ ہو اور اس بچے کا باپ مسلمان ہو تو اس عورت کو قبر ميں بائيں پهلو قبلے کی طرف پيٹھ کر کے لٹانا ضروری ہے تا کہ بچے کا منہ قبلے کی طرف ہو اور اگر پيٹ ميں موجود بچے کے بدن ميں ابهی جان نہ پڑی ہو تب بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢ ۶ مسلمان کو کفار کے قبرستان ميں دفن کرنا اور کا فر کو مسلمانوں کے قبرستان ميں دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٧ مسلمان کو ایسی جگہ جهاں اس کی بے حرمتی ہو تی ہو مثلاً جهاں کوڑا کرکٹ اور گندگی پھينکی جاتی ہو، دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٨ ميّت کو غصبی زمين یا ایسی زمين ميں جو دفن کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کے لئے وقف کی گئی ہو، دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٩ ميّت کو کسی دوسرے مردے کی قبر ميں دفن کرنا، جب کہ اس وجہ سے غير کے حق ميں تصرف ہو رہا ہو یا ایسی قبر کو کهودنا پڑ رہا ہو جس ميں ميّت ابهی باقی ہے یا ميّت کی بے حرمتی ہو رہی ہو، جائز نہيں ہے ۔هاں، اس کے علاوہ صورتو ں ميں مثلاً قبر پر انی ہو گئی ہو اور پهلی ميّت کا نشان باقی نہ رہا ہو یا قبر پهلے ہی کهودی جا چکی ہو، تو دفن کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٣٠ ميّت سے جدا ہو نے والی چيز اگر اس کے بدن کا حصّہ ہو تو ضروری ہے کہ ميّت کے ساته دفن ہو اور اگر بال، ناخن اور دانت ہو ں تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ميّت کے ساته دفن ہو ں اور جو ناخن اور دانت انسان کی زندگی ميں ہی اس سے جدا ہو جائيں انہيں دفن کرنا مستحب ہے ۔

۱۰۳

مسئلہ ۶ ٣١ اگر کوئی شخص کنویں ميں مرجائے اور اسے باہر نکا لنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ کنویں کا منہ بند کر کے اس کنویں کو ہی اس کی قبر قرار دیں۔

مسئلہ ۶ ٣٢ اگر بچہ ماں کے پيٹ ميں مرجائے اور اس کا پيٹ ميں رہنا ماں کی زندگی کے لئے خطرناک ہو تو ضروری ہے کہ اسے آسان ترین طریقے سے باہر نکا ليں اور اگر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر مجبور ہو ں تو ایسا کرنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ۔هاں، یہ ضروری ہے کہ اگر اس عورت کا شوہر اہل فن ہو تو وہ بچے کو باہر نکا لے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی اہل فن عورت کے ذریعے نکا ليں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایسا محرم مرد نکا لے جو اہل فن ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو نامحرم مرد جو اہل فن ہو بچے کو باہر نکا لے اور اگر ایسا شخص بھی موجود نہ ہو تو پھر جو اہل فن نہ ہو، بتائی گئی ترتيب کا خيا ل رکھتے ہو ئے بچے کو باہر نکا ل سکتا ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣٣ اگر ماں مرجائے اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو، تو چاہے اس بچے کے زندہ رہنے کی اميد نہ ہو تب بھی ضروری ہے کہ ان اشخاص کے ذریعے جن کا ذکر سابقہ مسئلے ميں ہو چکا ہے ، ترتيب کا لحاظ رکھتے ہو ئے اس کے پيٹ کی اس جگہ کو چاک کریں جو بچے کی سلامتی کے لئے بہتر ہو اور بچے کو باہر نکا ليں اور ميت کو غسل دینے کے لئے اس جگہ کو دوبارہ ٹانکے لگا دیں۔

دفن کے مستحبات

مسئلہ ۶ ٣ ۴ مستحب ہے کہ قبر کو ایک متو سط انسان کے قد کے لگ بھگ کهودیں اور ميّت کو نزدیکی ترین قبرستان ميں دفن کریں، مگر یہ کہ دور والا قبرستان کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً وہاں نيک لوگ دفن کئے گئے ہو ں یا لوگ وہاں اہل قبور پر فاتحہ پڑھنے زیا دہ جاتے ہو ں۔

یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ کو قبر سے چند گز دور زمين پر رکھ دیں اور تين دفعہ ميں تهوڑا تهوڑا کر کے قبر کے نزدیک لے جائيں اور ہر مرتبہ زمين پر رکہيں اور پھر اٹھ اليں اور چوتھی مرتبہ قبر ميں اتار دیں اور اگر ميّت مرد ہو تو تيسری دفعہ زمين پر اس طرح رکہيں کہ اس کا سر قبر کی نچلی طرف ہو اور چوتھی دفعہ سر کی طرف سے قبر ميں داخل کریں۔ اور اگر ميّت عورت ہو تو تيسری دفعہ اسے قبر کے قبلے کی طرف رکہيں اور پهلو کی طرف سے قبر ميں اتار دیں اور قبر ميں اتارتے وقت ایک کپڑا قبر کے اُوپر تان ليں۔

یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ آرام کے ساته تابوت سے نکا ليں اور قبر ميں داخل کریں۔ اسی طرح وہ دعائيں جنہيں پڑھنے کے لئے کها گيا ہے دفن کرنے سے پهلے اور دفن کرتے وقت پڑہيں ۔ ميّت کو قبر ميں رکھنے کے بعد اس کے کفن کی گرہيں کھول دیں، اس کا رخسار زمين پر رکھ دیں، اس کے سر کے نيچے مٹی کا تکيہ بنا دیں، اس کی پيٹھ کے نيچے کچی اینٹيں یا ڈهيلے رکھ دیں تا کہ ميّت چت نہ ہو جائے اور اس سے پهلے کہ قبر بند کریں، کوئی ایک شخص اپنا دایا ں ہاتھ ميّت کے دائيں کندهے پر مارے، بایا ں ہاتھ زور سے ميّت کے بائيں کندهے پر رکھے، منہ اس کے کا ن کے قریب لے جائے، اسے زور سے حرکت دے اور تين دفعہ کهے:

۱۰۴

إِسْمَعْ إِفْهَمْ یَا فلان ابن فلان اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام لے، مثلاً اگر اس کا اپنا نام محمد اور اس کے باپ کا نام علی ہو تو تين دفعہ کهے:

إِسْمَعْ إِفْهَمْ یَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلی اس کے بعد کهے:

هَلْ ا نَْٔتَ عَلَی الَعَهْدِ الَّذِیْ فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ مِنْ شَهَادَةِ ا نَْٔ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا نََّٔ مُحَمَّدا صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ عَبْدُه وَ رَسُوْلُه وَ سَيِّدُ النَّبِيِّيْنَ وَ خَاتَمُ الْمُرْسَلِيْنَ وَ اَنَّ عَلِياًّ اَمِيْرُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ سَيِّدُ الْوَصِيِّيْن وَ اِمَامٌ افْتَرَضَ اللّٰهُ طَاعَتَه عَلَی الْعَالَمِيْنَ وَاَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ وَ عَلِیَّ بَنَ الْحُسَيْنِ و مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ جَعْفَرَ بْن مُحَمَّدٍ وَّ مُوْسَی بْنَ جَعْفَرٍ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُوْسٰی وَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ وَّالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ وَّالْقَائِمَ الْحُجَّةَ الْمَهْدِیَّ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اَئِمَّةُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ حُجَجُ اللّٰهِ عَلَی الْخَلْقِ اَجْمَعِيْنَ وَاَئِمَّتُکَ اَئِمَّةُ هُدیً ا بَْٔرَارٌ یَا فلان بن فلان اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام لے اور اس کے بعد کهے:

اِذَا اَتَاکَ الْمَلَکَانِ الْمُقَرَّبَانِ رَسُوْلَيْنِ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ وَ سَئَلاَ کَ عَنْ رَبِّکَ وَ عَنْ نَّبِيِّکَ و عَنْ دِیْنِکَ وَ عَنْ کِتَابِکَ وَ عَنْ قِبْلَتِکَ وَ عَنْ اَئِمَّتِکَ فَلاَ تَخَفْ وَلاَ تَحْزَنْ وَ قُلْ فِی جَوَابِهِمَا اَللّٰهُ رَبِّی وَ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ نَبِيِّیْ وَالْاِسْلاَمُ دِیْنِیْ وَالْقُرْآنُ کِتَابِیْ وَالْکَعْبَةُ قِبْلَتِیْ وَ اَمِيْرُالْمُوْمِنِيْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب اِمَامِیْ وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْمُجْتَبیٰ اِمَامِیْ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِیٍّ الشَّهِيْدُ بِکَرْبَلاَ اِمَامِیْ وَ عَلِیٌّ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ اِمَامِیْ و مُحَمَّدٌ الْبَاقِرُ اِمَامِیْ وَ جَعْفَرٌ الصَّادِقُ اِمَامِیْ وَ مُوْسَی الْکَاظِمُ اِمَامِیْ وَ عَلِیٌّ الرِّضَا اِمَامِیْ وَ مُحَمَّدٌ الْجَوَادُ اِمَامِی وَعَلِیٌّ الْهَادِیْ اِمَامِیْ وَ الْحَسَنُ الْعَسْکَرِیْ اِمَامِیْ وَالْحُجَّةُ الْمُنْتَظَرُ اِمَامِیْ هٰؤُلاَءِ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اَئِمَّتِیْ وَ سَادَتِی وَ قَادَتِیْ وَ شُفَعَائِیْ بِهِمْ ا تََٔوَلیّٰ وَ مِنْ اَعْدَائِهِمْ ا تََٔبَرَّءُ فِی الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ثُمَّ اعْلَمْ یَا فلان بن فلان

اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام ليںاور اس کے بعد کهے:

اَنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ نِعْمَ الرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ نِعْمَ الرَّسُوْلُ وَاَنَّ عَلِیَّ بْنَ ا بَِٔی طَالِبٍ وَّ اَوْلاَدَهُ الْمَعْصُوْمِيْنَ الْاَئِمَّةَ الْاِثْنٰی عَشَرَ نِعْمَ الْا ئَِٔمَّةُ وَ اَنَّ مَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ حَقٌّ و اَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَّ سُؤَالَ مُنْکَرٍ وَّ نَکِيْرٍ فِی الْقَبْرِ حَقٌّ وَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَّ النُّشُوْرَ حَقٌّ وَّ الصِّرَاطَ حَقٌّ وَّ الْمِيْزَانَ حَقٌّ و تَطَایُرَ الْکُتُبِ حَقٌّ وَّ اَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لاَّ رَیْبَ فِيْهَا وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْر پھر کهے:

ا فََٔهِمْتَ یَا فلان اور فلان کی جگہ ميّت کا نام لے اور اس کے بعد کهے:

ثَبَّتَکَ اللّٰهُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ وَ هَدَاکَ اللّٰهُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ عَرَّفَ اللّٰهُ بَيْنَکَ وَ بَيْنَ ا ؤَْلِيَائِکَ فِی مُسْتَقَر مِّنْ رَّحَمْتِه

۱۰۵

اس کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ وَاصْعَدْ بِرُوْحِه اِلَيْکَ وَ لَقَّه مِنْکَ بُرها ناً اَللّٰهُمَّ عَفْوَکَ عَفْوَک

مسئلہ ۶ ٣ ۵ مستحب ہے کہ جو شخص ميّت کو قبر ميں اُتارے وہ با طهارت، برہنہ سر اور ننگے پاؤں ہو، ميّت کی پائنتی کی طرف سے قبر سے باہر نکلياور مستحب ہے کہ قبر سے باہر آنے کے بعد کهے:

اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبّ الْعَالَمِيْنَ اَللّٰهُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَه فِی اَعْلٰی عِلِّيِّيْنَ وَاخْلُفْ عَلیٰ عَقِبِه فِی الْغَابِرِیْنَ (وَعِنْدَکَ نَحْتَسِبُه) یَا رَبَّ الْعَالَمِيْن اور مستحب ہے کہ ميّت کے عزیز و اقرباء کے علاوہ جو لوگ موجود ہو ں وہ ہاتھ کی پشت سے قبر پر مٹی ڈاليں۔یہ بھی مستحب ہے کہ اگر ميّت عورت ہو تو اس کا محرم اسے قبر ميں اُتارے اور اگر کوئی محرم نہ ہو تو اس کے عزیز و اقرباء اسے قبر ميں اُتاریں۔

مسئلہ ۶ ٣ ۶ مستحب ہے کہ قبر مربع یا مربع مستطيل بنائی جائے، اسے زمين سے تقریباً چار انگليوں کے برابر اٹھ ایا جائے اور اس پر کوئی نشانی رکھی جائے تاکہ پهنچاننے ميں غلطی نہ ہو ۔ قبر پر پانی چھڑکا جائے اور پانی چھڑکنے کے بعد جو لوگ موجود ہو ں وہ اپنے ہاتھ قبر پر رکہيں ، انگلياں کھول کر قبر کی مٹی ميں گاڑیں اور سات دفعہ سورہ مبارکہ انا انزلناہ پڑہيں ، ميّت کے لئے طلب مغفرت کریں اور وارد شدہ دعائيں پڑہيں ، مثال کے طور پر یہ دعا:

اَللّٰهُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ وَاصْعَدْ (صَعِّدْ) رُوْحَه اِلیٰ اَرْوَاحِ الْمُوْمِنِيْنَ فِی عِلِّيِّيْنَ وَاَلْحِقْهُ بِالصَّالِحِيْن

مسئلہ ۶ ٣٧ مستحب ہے کہ تشييع جنازہ کے لئے آئے ہو ئے لوگوں کے چلے جانے کے بعد ميّت کا ولی یا وہ شخص جسے ولی اجازت دے ميّت کو ان دعاؤں کی تلقين کرے جو بتائی گئی ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٣٨ مستحب ہے کہ دفن کے بعد ميّت کے پسماندگان کو پر سہ دیا جائے، ليکن اگر اتنی مدت گذر چکی ہو کہ پر سہ دینے سے ان کا دکه تازہ ہو جائے تو پر سہ نہ دینا بہتر ہے ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ ميّت کے اہل خانہ کے لئے تين دن تک کھانا بھيجا جائے اور ان کے پاس بيٹھ کر کھانا کھانا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣٩ مستحب ہے کہ انسان عزیز و اقرباء کی موت پر خصوصاً بيٹے کی موت پر صبر کرے، جب بھی ميّت کو یاد کرے( اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيه رَاجِعُوْنَ ) پڑھے، ميّت کے لئے قرآن کی تلاوت کرے، قبر کو پختہ بنائے تا کہ جلدی خراب نہ ہو اور ماں باپ کی قبر پر خداوند متعال سے حاجات طلب کرے۔

مسئلہ ۶۴ ٠ کسی کی موت پر انسان کے لئے اپنے چھرے و بدن کو زخمی کرنا یا اپنے آپ کو نقصان پهنچانا، جب کہ اس کی وجہ سے قابل ذکر نقصان پهنچ رہا ہو، جائز نہيں ہے ۔ اگر چہ ضرر نہ بھی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ترک کرے۔

۱۰۶

مسئلہ ۶۴ ١ احتياط واجب کی بنا پر باپ اور بهائی کے علاوہ کسی اور کی موت پر گریبان چاک کرنا جائز نہيں ہے ليکن باپ اور بهائی کی مصيبت ميں ایسا کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶۴ ٢ اگر عورت ميّت کے سوگ ميں اپنا چہرہ زخمی کر کے خون آلود کرلے یا بال نوچے تو احتياط مستحب کی بنا پر ایک غلام آزاد کرے یا دس فقيروں کو کھانا کهلائے یا انہيں کپڑے پهنائے۔ اسی طرح اگر مرد اپنی بيوی یا فرزند کی موت پر اپنا گریبان چاک کرے یا لباس پهاڑے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶۴ ٣ احتياط مستحب یہ ہے کہ ميّت پر روتے وقت آواز زیا دہ بلند نہ کی جائے۔

نمازِ وحشت

مسئلہ ۶۴۴ مستحب ہے کہ ميّت کے دفن کے بعد پهلی رات کو اس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے۔ اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ حمد کے بعد ایک دفعہ آیت الکرسی اور دوسری رکعت ميں سورہ حمد کے بعد دس دفعہ سورہ انا انزلناہ پڑھا جائے اور نماز کے سلام کے بعد کها جائے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ابْعَثْ ثَوَابَهَا اِلیٰ قَبْرِ فُلان اور لفظ فلان کی بجائے ميّت کا نام ليا جائے۔

مسئلہ ۶۴۵ ميّت کے دفن کے بعد پهلی رات کو کسی بھی وقت نمازِ وحشت پڑھی جاسکتی ہے ، ليکن بہتر یہ ہے کہ اوّل شب ميں نماز عشا کے بعد پڑھی جائے۔

مسئلہ ۶۴۶ اگرميّت کو کسی دور کے شہر لے جانا ہو یا کسی اور وجہ سے اس کے دفن ميں تاخير ہو جائے تو نمازِ وحشت کو دفن کی پهلی رات تک ملتو ی کرنا ضروری ہے ۔

نبشِ قبر

مسئلہ ۶۴ ٧ کسی مسلمان کی قبر نبش کرنا، یعنی اس کی قبر کو کھولنا، خواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کيوں نہ ہو حرام ہے ۔ ہاں، اگر اس کا بدن ختم ہو چکا ہو اور ہڈیا ں مٹی بن چکی ہو ں تو پھر کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶۴ ٨ امام زادگان، شهدا، علما اور اس کے علاوہ ہر اس مقام پر جهاں قبر کھولنا بےحرمتی کا باعث ہو، حرام ہے ، خواہ انہيں فوت ہو ئے سالهاسال گزرچکے ہو ں۔

مسئلہ ۶۴ ٩ چند صورتو ں ميں قبر کا کھولنا حرام نہيں ہے :

١) ميّت کو غصبی زمين ميں دفن کيا گيا ہو اور زمين کا مالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو ۔

٢) کفن یا کوئی اور چيز جوميّت کے ساته دفن کی گئی ہو غصبی ہو اور اس کا مالک اس بات پر رضامند نہ ہو کہ وہ قبر ميں رہے۔

۱۰۷

اور اسی طرح اگر خود ميّت کے مال ميں سے کوئی چيز جو اس کے ورثاء کو ملی ہو اس کے ساته دفن ہو گئی ہو اور وارث اس بات پر راضی نہ ہو ں کہ وہ چيز قبر ميں رہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، مگر یہ کہ اس چيز کی قيمت کم ہو تو اس صورت ميں قبر کا کھولنا محل اشکا ل ہے ۔

٣) قبر کا کھولنا ميّت کی بے حرمتی کا سبب نہ ہو، جب کہ ميّت کو بغير غسل کے یا کفن پهنائے بغير دفن کيا گيا ہو یا معلوم ہو جائے کہ ميّت کا غسل باطل تھا یا اسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہيں دیا گيا تھا یا قبر ميں قبلہ رخ نہيں لٹایا گيا تھا۔

۴) ایسا حق ثابت کرنے کے لئے ميت کا بدن دیکھنا چاہيں جوميت کے احترام سے زیا دہ اہم ہو۔

۵) ميّت کو ایسی جگہ دفن کيا گيا ہو جهاں اس کی بے حرمتی ہو تی ہو مثلاً اسے کا فروں کے قبرستان ميں یا ایسی جگہ دفن کيا گيا ہو جهاں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھينکا جاتا ہو ۔

۶) کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبر کھولی جائے جس کی اہميت قبر کھولنے سے زیا دہ ہو، مثلاً زندہ بچے کو ایسی حاملہ عورت کے پيٹ سے نکا لنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گيا ہو ۔

٧) اس بات کا خوف ہو کہ ميّت کو درندہ چير پهاڑ ڈالے گا یا سيلاب اسے بهالے جائے گا یا اسے دشمن نکا ل لے گا۔

٨) ميّت کے بدن کا کوئی ایسا حصہ دفن کرنا چاہيں جو اس کے ساته دفن نہ ہو سکا ہو، ليکن احتياطِ واجب یہ ہے کہ بدن کے اس حصّے کو قبر ميں اس طرح رکہيں کہ ميّت کا بدن نظر نہ آئے۔

مستحب غسل

مسئلہ ۶۵ ٠ اسلام کی مقدس شریعت ميں بہت سے غسل مستحب ہيں جن ميں سے کچھ یہ ہيں :

١) غسلِ جمعہ: اس کا وقت صبح کی اذان کے بعد سے ظہر تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ ظہر کے قریب بجالایا جائے اور اگر کوئی شخص ظہر تک انجام نہ دے تو بہتر ہے کہ ادا و قضا کی نيت کئے بغير غروب آفتاب تک بجالائے اور اگر جمعہ کے دن غسل نہ کرے تو مستحب ہے کہ ہفتے کے دن صبح سے غروب آفتاب تک اس کی قضا بجالائے اور جو شخص جانتا ہو کہ اسے جمعہ کے دن پانی ميسر نہ ہو گا تو وہ رجاء جمعرات کے دن غسل انجام دے سکتا ہے ۔

مستحب ہے کہ انسان غسل جمعہ کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد وَّاجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّا بِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْن

۱۰۸

٢) ماہ رمضان کی پهلی، سترہو یں، انيسویں، اکيسویں، تيئيسویں اور چوبيسویں رات کا غسل۔

٣) عيدالفطر اور عيد قربان کے دن کا غسل۔ ان کا وقت صبح کی اذان سے غروب آفتاب تک ہے ، اگر چہ احوط یہ ہے کہ ظہر سے غروب کے وقت تک رجاء کی نيت سے بجالائے اور بہتر یہ ہے کہ نماز عيد سے پهلے کيا جائے۔

۴) عيدالفطر کی رات کا غسل ۔ اس کا وقت غروب کے بعد ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ رات کی باقی مدت ميں اذانِ صبح تک رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

۵) ماہ ذی الحجہ کے آٹھ ویں اور نویں دن کا غسل اور احوط یہ ہے کہ نویں دن کا غسل زوال کے وقت کيا جائے۔

۶) اس شخص کا غسل جس نے سورج گرہن کے وقت عمداً نماز آیا ت نہ پڑھی ہو جب کہ سورج کو مکمل گرہن لگا ہو۔

٧) اس شخص کا غسل جس نے اپنے بدن کا کوئی حصہ ایسی ميّت سے مس کيا ہو جسے غسل دیا جاچکا ہو ۔

٨) احرام کا غسل۔

٩) حرم خدا ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١٠ ) مکہ مکرمہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١١ ) خانہ کعبہ کی زیا رت کا غسل۔

١٢ ) کعبہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١٣ )نحر، ذبح اور حلق (بال مونڈنے) کے لئے غسل۔

١ ۴ ) مدینہ منورہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١ ۵ ) حرمِ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں داخل ہو نے کا غسل(اور اس کی حدود، عائراور وعيرنامی دو پهاڑیوں کے درميان ہے )۔

١ ۶ ) پيغمبر اکرم(ص) کی قبر مطہر سے وداع کا غسل۔

١٧ )دشمن کے ساته مباہلہ کرنے کا غسل۔

١٨ )نوزائدہ بچے کو غسل دینا۔

١٩ ) استخارہ کرنے کا غسل۔

٢٠ )طلب باران کا غسل۔

٢١ ) مکمل سورج گرہن کے وقت کا غسل۔

۱۰۹

٢٢ )حضرت سيدالشهداء عليہ السلام کی نزدیک سے زیا رت کا غسل۔

٢٣ )فسق اور کفر سے تو بہ کا غسل۔

مسئلہ ۶۵ ١ فقهاء نے مستحب غسلوں کے باب ميں بہت سے غسلوں کو ذکر فرمایا ہے جن ميں سے چند یہ ہيں :

١) رمضان المبارک کی تمام طاق راتو ں کا غسل اور اس کی آخری دهائی کی تمام راتو ں کا غسل اور اس کی تيئيسویں رات کے آخری حصّے ميں دوسرا غسل۔

٢) ماہ ذی الحجہ کے چوبيسویں دن کا غسل۔

٣) عيد نوروز کے دن، پندرہو یں شعبان، نویں اور سترہو یں ربيع الاوّل اور ذی القعدہ کے پچيسویں دن کا غسل۔

۴) اس عورت کا غسل جس نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے خوشبو استعمال کی ہو ۔

۵) اس شخص کا غسل جو مستی کی حالت ميں سوگيا ہو ۔

۶) اس شخص کا غسل جو کسی سولی چڑھے ہو ئے انسان کو دیکھنے گيا ہو اور اسے دیکھا بھی ہو، ليکن اگر اتفاقاً یا مجبوری کی حالت ميں نظر کی ہو یا مثال کے طور پر گواہی دینے گيا ہو تو غسل مستحب نہيں ہے ۔

٧) مسجد نبوی صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں داخل ہو نے کا غسل

٨) دور یا نزدیک سے معصومين عليهم السلام کی زیا رت کے لئے غسل۔

٩) عيد غدیر کے دن کا غسل۔

ليکن احوط یہ ہے کہ یہ تمام غسل رجاء کی نيت سے بجالائے جائيں۔

مسئلہ ۶۵ ٢ ان مستحب غسلوں کے ساته جن کا ذکر مسئلہ ” ۶۵ ٠ “ ميں کيا گيا ہے انسان ایسے کا م جن کے لئے وضو ضروری ہے مثلاً نماز، انجام دے سکتا ہے ليکن جو غسل رجاء کی نيت سے کئے جائيں وہ وضو کی جگہ کافی نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶۵ ٣ اگر کسی شخص کے ذمے کئی مستحب غسل ہو ں اور وہ سب کی نيت کر کے ایک غسل کرلے تو کافی ہے ۔

تيمم

سات صورتو ں ميں وضواورغسل کے بجائے تيمم کرناضروری ہے :

تيمم کی پهلی صورت

١) یہ کہ وضویا غسل کے لئے ضروری مقدارميں پانی مهيا کرناممکن نہ ہو۔

۱۱۰

مسئلہ ۶۵۴ اگر انسان آبادی ميں ہو تو ضروری ہے کہ وضواورغسل کا پانی مهيا کرنے کے لئے اتنی جستجوکرے کہ اس کے ملنے سے نااميد ہو جائے اوراگر بيا بان ميں ہو تو ناہموار زمين ميں پر انے زمانے ميں کمان سے پھينکے جانے والے ایک تير کی پروازکے برابراور ہموار زمين ميں دوبارپھينکے جانے والے تيرکے فاصلے کے برابر جستجو کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر یہ جستجودائرے کی شکل ميں ہو جس کا مرکز پانی ڈهونڈنے کی ابتدائی جگہ اور درميا نی فاصلہ تيرکی پر واز کے برابرہو ۔

مسئلہ ۶۵۵ اگر چاراطراف ميں سے بعض ہمواراوربعض ناہموارہو ں تو ضرورری ہے کہ جوطرف ہموارہو اس ميں دوتيروں کی پر واز کے برابراورجوطرف ناہموارہو اس ميں ایک تيرکی پر واز کے برابرمذکورہ بالامسئلے ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق جستجوکرے۔

مسئلہ ۶۵۶ جس طرف پانی کے نہ ہو نے کا یقين یا شرعی گواہی موجود ہو اس طرف تلاش کرناضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶۵ ٧ اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ نہ ہو اورپانی مهيا کرنے کے لئے اس کے پاس وقت ہو، اگر یقين یا شرعی گواہی ہو کہ جس فاصلے تک پانی تلاش کرناضروری ہے اس سے دورپانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ پانی حاصل کرنے کے لئے وہاں جائے، بشرطيکہ وہاں جانامشقت وضررکا باعث نہ ہو اوراگر پانی موجودهو نے کا گمان ہو، خواہ اس کا گمان قوی ہی کيوںنہ ہو جب تک اطمينان حاصل نہ ہو، جاناضروری نہيں ہے ، ليکن احوط ہے ۔

مسئلہ ۶۵ ٨ ضروری نہيں کہ انسان خودپانی کی تلاش ميں جائے بلکہ کسی اورایسے شخص کوبھيج سکتاہے جس کے کهنے پر اسے اطمينان ہو ۔ اسی طرح کسی ایسے شخص کو بھی بھيج سکتا ہے جو ثقہ ہو اور اس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو، چاہے اس کے بتانے سے اطمينان بھی حاصل نہ ہو ۔ ان دونوں صورتو ں ميں ایک شخص کا چند اشخاص کی طرف سے جاناکافی ہے ۔

مسئلہ ۶۵ ٩ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے سامان سفر ميں یا پڑاو ڈالنے کی جگہ پر یا قافلے ميں پانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ اس قدر جستجوکرے کے اسے پانی نہ ہو نے کا یقين یا اطمينان ہو جائے یا اس کے حصول سے نااميد ہو جائے۔

مسئلہ ۶۶ ٠ اگرشخص نماز کے وقت سے پهلے، تلاش کرنے کے باوجود پانی حاصل نہ کرپائے اورنماز کے وقت تک وہيں رہے، چنانچہ اسے احتما ل ہو کہ اس جگہ پانی مل جائے گا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پهلے کی جستجوپر اکتفانہ کرے، سوائے اس کے کہ وقت نماز داخل ہو نے سے کچھ پهلے اول وقت کی فضيلت کو پانے کے لئے جستجو کی ہو ۔

مسئلہ ۶۶ ١ اگر نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعدجستجوکے باوجود پانی حاصل نہ کرپائے اوربعدوالی نماز کے وقت تک اسی جگہ رہے، چنانچہ اگر احتما ل دے کہ اب وہاں پانی مل جائے گا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش ميں جائے۔

۱۱۱

مسئلہ ۶۶ ٢ اگر کسی شخص کے پاس نماز کے لئے وقت تنگ ہو یا اسے چور، ڈاکویا درندے سے جان یا اس کی حيثيت کے مطابق خاطر خواہ مال کا خوف ہو یا پانی کی تلاش اتنی کٹھن ہو کہ اس کی سختی کوبرداشت کرنا حرج کا باعث ہو تو جستجو ضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶۶ ٣ اگر کوئی شخص پانی تلاش نہ کرے یهاں تک کہ نماز کا وقت تنگ ہو جائے تو اگر چہ وہ گنهگار ہے ، ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے ، چاہے بعد ميں معلوم ہو جائے کہ اگر پانی تلاش کرتاتو مل جاتا اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ۶۶۴ جس شخص کو یقين ہو کہ پانی نہيں ملے گا، چنانچہ پانی کی تلاش ميں نہ جائے اور تيمم کرکے نماز پڑھ لے اوربعد ميں معلوم ہو کہ اگر پانی تلاش کرتاتو پانی مل جاتا، اگر وقت باقی ہو تو وضوکرکے دوبارہ نماز پڑھناضروری ہے ۔

مسئلہ ۶۶۵ اگر کسی شخص کوپانی تلاش کرنے پر نہ ملے اورتيمم کے ساته نماز پڑھ لے اورنماز پڑھنے کے بعدمعلوم ہو کہ جهاں اس نے پانی تلاش کيا تھا وہاں پانی موجود تھا، تو اگر وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ وضوکرکے دوبارہ نماز پڑھے ورنہ اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ۶۶۶ جس شخص کو یقين ہو کہ نماز کا وقت تنگ ہے اگر وہ پانی تلاش کئے بغير تيمم کے ساته نماز پڑھ لے اور نماز پڑھنے کے بعد اور وقت گزرنے سے پهلے اسے پتہ چلے کہ پانی تلاش کرنے کے لئے اس کے پاس وقت تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے اور اگر وقت گزرنے کے بعد معلوم ہو تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶۶ ٧ اگر نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعد کسی شخص کا وضو باقی ہو اور جانتا ہو یا شرعی دليل مثلاً اطمينان وغيرہ ہو کہ اگر اس نے اپناوضوباطل کردیا تو دوبارہ وضو کرنے کے لئے پانی نہيں ملے گا یا وضو نہيں کر پائے گا تو اس صورت ميں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو اور اس کے لئے کسی حرج و ضرر کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے باطل نہ کرے۔

ليکن ایساشخص یہ جانتے ہو ئے بھی کہ غسل نہ کرپائے گااپنی بيوی سے جماع کرسکتاہے۔

مسئلہ ۶۶ ٨ اگر کوئی شخص نماز کے وقت سے پهلے باوضو ہو اور اسے معلوم ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کردیا تو دوبارہ پانی مهيا کرنا اس کے لئے ممکن نہيں ہو گا تو اس صورت ميں اگر وہ اپنا وضو بغير کسی حرج یا ضرر کے برقرار رکھ سکتا ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنا وضو باطل نہ کرے۔

مسئلہ ۶۶ ٩ جب کسی کے پاس فقط وضویا غسل کی مقدارميں پانی ہو اور وہ جانتا ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ اگر اسے گرادے تو پانی نہيں مل سکے گا تو اگر نماز کا وقت داخل ہو گيا ہو تو یہ پانی گراناجائز نہيں ہے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پهلے بھی نہ گرائے۔

۱۱۲

مسئلہ ۶ ٧٠ اگر کوئی شخص جانتا ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ پانی حاصل نہ کرسکے گا، نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعدکسی ضرروحرج کے بغيراس کے لئے وضو باطل کرنا جائز نہيں یا جوپانی اس کے پاس ہے ، اسے گرانا جائز نہيں ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔

تيمم کی دوسری صورت

مسئلہ ۶ ٧١ اگر کوئی شخص کمزوری یا چور، ڈاکو اور جانور وغيرہ کے خوف سے یا کنویں سے پانی نکا لنے کے وسائل نہ ہو نے کی وجہ سے پانی حاصل نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔ اسی طرح اگر پانی مهيا کرنے یا اسے استعمال کرنے ميں اسے اتنی تکليف اٹھ انی پڑے جو ناقابل برداشت ہو تو اس صورت ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٢ اگر کسی شخص کے لئے، کنویں سے پانی نکا لنے کے لئے ڈول اوررسّی وغيرہ ضروری ہو ں اوروہ مجبور ہو کہ انہيں خریدے یا کرائے پر حاصل کرے تو خواہ ان کی قيمت عام بهاو سے کئی گنا زیا دہ ہی کيوں نہ ہو، ضروری ہے کہ مهيا کرے۔ اسی طرح اگر پانی اپنی قيمت سے مهنگا بيچا جارہا ہو تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر ان چيزوں کو مهيا کرنے کے لئے اتنا زیا دہ پيسے دینے پڑرہے ہو ں جو عسرو حرج کا باعث ہو ں تو ان چيزوں کا مهيا کرنا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٣ اگر کوئی شخص پانی مهيا کرنے کے لئے قرض لينے پر مجبور ہو تو ضروری ہے کہ قرض کرے، ليکن جو شخص جانتا ہو یا اسے اطمينان ہو کہ وہ قرضے کی ادائيگی نہ کرسکے گا تو اس کے لئے قرض لينا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧ ۴ اگر کنواں کهودنے ميں کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ انسان پانی مهيا کرنے کے لئے کنواں کهودے۔

مسئلہ ۶ ٧ ۵ اگر کوئی شخص بغير احسان کے کچھ پانی دے تو اسے قبول کرنا ضروری ہے ۔

تيمم کی تيسری صورت

مسئلہ ۶ ٧ ۶ اگر کسی شخص کو پانی استعمال کرنے سے اپنی جان کا خوف ہو یا بدن ميں کوئی بيماری یا عيب پيدا ہونے یا بيماری کے طولانی یا شدید ہو جانے یا علاج ميں دشواری پيدا ہو نے کا خوف ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تيمم کرے، ليکن اگر گرم پانی اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو گرم پانی سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٧ ضروری نہيں ہے کہ انسان کو یقين ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے ، بلکہ یهی کہ اسے خوف ہو کہ پانی اس کے لئے ضرر رکھتاہے اور یہ خوف عام لوگوں کی نظرميں صحيح ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٧٨ اگر کوئی شخص درد چشم ميں مبتلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

۱۱۳

مسئلہ ۶ ٧٩ اگر کوئی شخص ضرر کے یقين یا خوف کی وجہ سے تيمم کرے اور نماز سے پهلے اس بات کا پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ نہيں تو اس کا تيمم باطل ہے اور اگر اس بات کا پتہ نماز کے بعد اور وقت گزرنے سے پهلے چلے تو وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھناضروری ہے اور اگر وقت باقی نہ ہو تو قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٨٠ اگر کسی شخص کویقين یا اطمينان ہو کہ پانی اس کے لئے مضرنہيں ہے اورغسل یا وضوکرلے، بعدميں اسے پتہ چلے کہ پانی اس کے لئے مضرتها، تو اگر ضرر اتنا زیا دہ ہو کہ اس کا اقدام حرام ہو تو وضو اور غسل دونوں باطل ہيں ۔

تيمم کی چوتھی صورت

مسئلہ ۶ ٨١ جس شخص کویہ خوف ہو کہ پانی سے وضویا غسل کرلينے کے بعدان ميں سے کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، تو ضروری ہے کہ وہ تيمم کرے:

١) یہ کہ وہ خود ابهی یا بعدميں ایسی پيا س ميں مبتلا ہو جائے گا جواس کی هلاکت یا بيماری کا سبب ہو گی یا اس کا برداشت کرنااس کے لئے سخت حرج کا باعث ہو گا۔

٢) اسے خوف ہو کہ جن افراد کی حفاظت کرنااس پر واجب ہے ، وہ پيا س سے هلاک یا بيمار ہو جائيں گے۔

٣) یہ کہ کسی انسان یا حيوان کی هلاکت یا بيماری یا بيتابی جواسے گراںگزرتی ہو کا خوف ہو یا اس حيوان کی هلاکت سے اُسے خاطر خواہ نقصان ہو۔

مسئلہ ۶ ٨٢ اگر کسی شخص کے پاس پاک پانی کے علاوہ جو وضو اور غسل کے لئے ہو، نجس پانی کی اتنی مقداربهی موجود ہو جو اس کے اور اس کے ساتهيوں کے پينے کے لئے کافی ہو، ليکن ان کے لئے پانی کی نجاست ثابت ہو اور نجس پانی پينے سے پر هيز بھی کرتے ہو ں تو ضروری ہے کہ پاک پانی کوپينے کے لئے رکھ لے اورتيمم کے ساته نماز پڑھے۔ ہاں، اگر بچے یا حيوان کوپانی دیناچاہے تو ضروری ہے کہ انہيں نجس پانی د ے اورپاک پانی کے ساته وضو یا غسل کرے۔

تيمم کی پانچويں صورت

مسئلہ ۶ ٨٣ اگر کسی شخص کا بدن یا لباس نجس ہو اوراس کے پاس اتنی مقدارميں پانی ہو کہ اس سے وضویا غسل کرنے کی صورت ميں بدن یا لباس دهونے کے لئے پانی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ بدن یا لباس دهوئے اورتيمم کرکے نماز پڑھے، ليکن اگر اس کے پاس ایسی کوئی چيزنہ ہو جس پر تيمم کرے تو ضروری ہے کہ پانی کووضویا غسل کے لئے استعمال کرے اورنجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے۔

۱۱۴

تيمم کی چھٹی صورت

مسئلہ ۶ ٨ ۴ اگر کسی شخص کے پاس ایسے پانی یا برتن کے علاوہ کوئی دوسرا پانی یا برتن نہ ہو کہ جس کا استعمال کرنا حرام ہے ، مثلااس کے پاس موجودپانی یا برتن غصبی ہو اوراس کے سواکوئی دوسراپانی یا برتن نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کے بجائے تيمم کرے۔

تيمم کی ساتو يں صورت

مسئلہ ۶ ٨ ۵ جب وقت اتناتنگ ہو کہ اگر ایک شخص وضویا غسل کرے تو ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ شخص تيمم کرے۔ ہاں، اگر وضو یا غسل کے لئے تيمم جتنا وقت ہی صرف ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرے۔

مسئلہ ۶ ٨ ۶ اگر کوئی شخص جان بوجه کرنماز پڑھنے ميں اتنی تاخيرکرے کہ وضویا غسل کا وقت باقی نہ رہے تو وہ گنهگار ہو گا، ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا وضو یا غسل کے ساته انجام دے۔

مسئلہ ۶ ٨٧ اگر کسی کوشک ہو کہ وضو یا غسل کرنے کی صورت ميں نماز کا وقت باقی رہے گا یا نہيں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٨٨ اگر کسی شخص نے وقت کی تنگی کی وجہ سے تيمم کيا ہو اورنماز کے بعدوضوکرسکنے کے باوجود نہ کرے یهاں تک کہ اس کے پاس موجودپانی ضائع ہو جائے اور اس وجہ سے اس کی ذمہ داری تيمم کرنا قرار پائے تو ضروری ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے دوبارہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٨٩ اگر کسی شخص کے پاس پانی موجود ہو ليکن وقت تنگ ہو نے کے باعث تيمم کرکے نماز پڑھنے لگے اورنماز کے دوران اس کے پاس موجودپانی ضائع ہو جائے اور اس کی ذمہ داری تيمم کرنا بن جائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے دوبارہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٩٠ اگر کسی شخص کے پاس اتنا وقت ہو کہ وضو یا غسل کرکے نماز کو اس کے مستحب اعمال مثلاً اقامت اورقنوت کے بغير پڑھ سکے، تو ضروری ہے غسل یا وضو کرے اور نماز کو مستحب اعمال کے بغير بجا لائے، بلکہ اگر سورہ پڑھنے جتنا وقت بھی نہ بچتا ہو تب بھی ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرکے بغير سورہ کے نماز پڑھے۔

۱۱۵

وہ چيزيں جن پر تيمم کرناصحيحہے

مسئلہ ۶ ٩١ مٹی، ریت، ڈهيلے، پتّھر اورہر اس چيزپر تيمم کرنا صحيح ہے جسے عرف عام ميں زمين کے اجزاء سے سمجھاجاتاہو، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ مٹی کے ہو تے ہو ئے کسی دوسری چيزپر تيمم نہ کيا جائے اوراگر مٹی نہ ہو تو ریت یا ڈهيلے پر اور اگر ریت اور ڈهيلا بھی نہ ہو تو پھر پتّھر پر تيمم کيا جائے۔

مسئلہ ۶ ٩٢ جپسم اورچونے کے پتّھرپر تيمم کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر اگر ممکن ہو تو چونے اور جپسم کے پکے ہوئے پتّھراورپکی اینٹ پر تيمم نہ کرے۔هاں، فيروزے اور عقيق جيسے پتّھروں پر تيمم جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩٣ اگر کسی شخص کو مٹی، ریت، ڈهيلے، پتّھر حتیٰ جپسم اور چونے کے پتّھر بھی نہ مل سکيں، تو ضروری ہے کہ قالين اور کپڑوں پر موجود گرد و غبارپر تيمم کرے اور اگر گرد و غبار بھی نہ مل سکے تو ضروری ہے کہ تر مٹی پر تيمم کرے اور اگر تر مٹی بھی نہ مل سکے تو مستحب یہ ہے کہ تيمم کے بغيرنماز پڑھے ليکن بعد ميں اس نماز کی قضا پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩ ۴ اگر کوئی شخص قالين اور اس جيسی دوسری چيزوں کو جهاڑ کر مٹی مهيا کرسکتا ہو تو اس کا گر د و غبار پر تيمم کرنا باطل ہے اور اگر مٹی کو خشک کرکے اس سے سوکهی مٹی حاصل کرسکتاہو تو گيلی مٹی پر تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩ ۵ جس شخص کے پاس پانی نہ ہو ليکن برف موجود ہو اور اسے پگهلانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے پگهلا کر پانی بنائے اور اس سے وضو یا غسل کرے اور اگر ایساکرنا ممکن نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ا یسی چيزبهی نہ ہو جس پر تيمّم کر نا صحيح ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ برف کے ساته اعضاءِ وضو یا غسل کو تر کرکے نماز پڑھے ليکن ضروری ہے کہ اس نمازکی قضابهی پڑھے۔

مسئلہ ۶ ٩ ۶ اگر مٹی اور ریت کے ساته سوکهی گهاس کی طرح کی کوئی چيزهو ئی ہو جس پر تيمم کرناباطل ہو تو اس پر تيمم نہيں کرسکتا، ليکن اگر وہ چيزاتنی کم ہو کہ اسے مٹی یا ریت ميں نہ ہو نے کے برابرسمجھا جائے تو اس مٹی یا ریت پر تيمم صحيح ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩٧ اگر ایک شخص کے پاس کوئی ایسی چيز نہ ہو جس پر تيمم کيا جاسکے اور اس کا خریدنا یا کسی طرح حاصل کرنا ممکن ہو اور حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ خرید کریا ایسے ہی کسی طریقے سے مهيا کرے۔

مسئلہ ۶ ٩٨ مٹی کی دیوار پر تيمم کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خشک زمين یا خشک مٹی کے ہو تے ہو ئے ترزمين یا ترمٹی پر تيمم نہ کيا جائے۔

مسئلہ ۶ ٩٩ انسان جس چيز پر تيمم کرے اس کا پاک ہوناضروری ہے اور اگر اس کے پاس ایسی کوئی پاک چيزنہ ہو جس پر تيمم کرنا صحيح ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر اس نجس چيز پر تيمم کرے اور نماز پڑھے اور ضروری ہے کہ بعدميں اس کی قضابجالائے۔

مسئلہ ٧٠٠ اگر کسی شخص کویقين ہو کہ ایک چيز پر تيمم کرناصحيح ہے اور اس پر تيمم کرلے اور بعدميں معلوم ہو کہ اس چيز پر تيمم کرنا باطل تھا تو جو نماز یں اس تيمم کے ساته پڑھی ہيں انہيں دوبارہ پڑھناضروری ہے ۔

۱۱۶

مسئلہ ٧٠١ وہ چيز جس پر تيمم کيا جائے اور وہ جگہ جهاں وہ چيز رکھی ہو، ضروری ہے کہ غصبی نہ ہو ں، پس اگر غصبی مٹی پر تيمم کرے یا اپنی مٹی بغيراجازت کے دوسرے کی ملکيت ميں رکھے اور اس پر تيمم کرے تو اس کا تيمم باطل ہے ، ليکن خود تيمم کرنے والے کی جگہ کا غصبی نہ ہوناتيمم کے صحيح ہو نے ميں معتبرنہيں ہے ۔

مسئلہ ٧٠٢ غصب کی ہو ئی فضاميں تيمم کرنا، مثال کے طورپر اگر کوئی شخص اپنی زمين ميں اپنے ہاتھ مٹی پر مارے اور پھراجازت کے بغيردوسرے کی زمين ميں داخل ہو کرہا تہوں کوپيشانی پر پهيرے، تو بنا براحتياط اس کا تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٠٣ غصبی چيزپر یا ایسی چيزپر جوغصبی جگہ رکھی ہوئی ہو، خواہ نہ جانتا ہو کہ غصبی ہے ، تيمم کرنا باطل ہے ۔ غصبی فضاميں تيمم کرنے کا بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

البتہ اگر بھول جائے یا غصب سے غافل ہو تو صحيح ہے ، سوائے اس کے کہ خودغاصب ہو اور غصب سے تو بہ نہ کی ہو کہ اس صورت ميں اگر اس کا تيمم غصبی چيزپر یا اس چيزپر ہو جو غصبی جگہ رکھی ہو تو باطل ہے ، جب کہ اگر تو بہ کرچکا ہو تو احتياط کی بنا پر باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٠ ۴ جوشخص غصبی جگہ ميں قيد ہو اور اس جگہ کا پانی اور مٹی دونوں غصبی ہو ں تو ضروری ہے کہ تيمم کرکے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٠ ۵ جس چيزپر تيمم کيا جائے، احتياطِ واجب کی بنا پر ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اس پر گرد و غبار موجود ہو جو ہاتھوں پر لگ جائے اور اس ميں ہاتھ مارنے کے بعدمستحب ہے کہ ہاتھوں کوجهاڑے۔

مسئلہ ٧٠ ۶ گڑھے والی زمين، راستے پر بيٹھی ہوئی مٹی اور ایسے نمکزار پرجس پر نمک کی تہہ نہ جمی ہو، تيمم کرنا مکروہ ہے اور اگر اس پر نمک کی تہہ جم گئی ہو تو باطل ہے ۔

وضو يا غسل کے بدلے تيمم کرنے کا طريقہ

مسئلہ ٧٠٧ وضو یا غسل کے بدلے کئے جانے والے تيمم ميں چارچيزیں واجب ہيں :

١) نيت۔

٢) دونوں ہتھيليوں کوایسی چيزپر مارناجس پر تيمم کرناصحيح ہو اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ دونوں ہتھيليوں کوایک ساته مارے۔

٣) دونوں ہتھيليوں کوپوری پيشانی اور پيشانی کے دونوں طرف، جهاں سرکے بال اگتے ہيں ، سے لے کربهنوو ںٔ اور ناک کے اوپر تک پهيرنااور احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہاتھ بهنوو ںٔ پر بھی پهيرے جائيں۔

۴) بائيں ہتھيلی کودائيں ہاتھ کی تمام پشت پر اور اس کے بعددائيں ہتھيلی کوبائيں ہاتھ کی تمام پشت پر پهيرنا۔

۱۱۷

مسئلہ ٧٠٨ احتياط مستحب یہ ہے کہ تيمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے، اس طرح سے کيا جائے کہ ایک دفعہ ہاتھوں کوزمين پر مارنے کے بعد پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے۔ اس کے بعد ایک دفعہ پھر زمين پر ہاتھ مارے اور ہاتھوں کی پشت کا مسح کرے۔

تيمم کے احکام

مسئلہ ٧٠٩ اگر ایک شخص پيشانی اور ہاتھوں کی پشت کے ذراسے حصے کا بھی مسح نہ کرے تو تيمم باطل ہے ، چاہے عمدًامسح نہ کيا ہو یا مسئلہ نہ جانتاہو یا بھول گيا ہو۔ البتہ بہت زیادہ باریک بينی بھی ضروری نہيں بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ یہ کها جاسکے کہ پوری پيشانی اور دونوں ہاتھوں کی مکمل پشت کا مسح ہو چکا ہے ۔

مسئلہ ٧١٠ یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ ہاتھ کی تمام پشت پر مسح کرليا ہے ، ضروری ہے کہ کلائی سے کچھ اوپر والے حصے کا بھی مسح کرے، ليکن انگليوں کے درميا ن مسح کرناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٧١١ ضروری ہے کہ پيشانی اور ہاتھوں کی پشت کا مسح اوپر سے نيچے کی جانب کرے اور ان افعال کو پے در پے انجام دے اور اگر ان کے درميا ن اتنافاصلہ دے کہ لوگ یہ نہ کہيں کہ تيمم کررہاہے تو تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ٧١٢ نيت کرتے وقت یہ معين کرناضروری ہے کہ اس کا تيمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے اور اگر غسل کے بدلے ہو تو اس غسل کوبهی معين کرے۔ ہاں، اجمالاًمعين کرنا بهی، مثلاً یہ نيت کہ یہ تيمم اس چيزکے بدلے ہے جوپهلے واجب ہو ئی یا بعد ميں ، کافی ہے ۔

اور اگر اس پر ایک ہی تيمم واجب ہو اور نيت کرے کہ ميں اپنی اس وقت کی ذمہ داری انجام دے رہا ہو ں، تو صحيح ہے ، چاہے اس ذمہ داری کی پہچان ميں غلطی کرے۔

مسئلہ ٧١٣ احتياط مستحب کی بنا پر تيمم ميں پيشانی، ہتھيليوں اور ہاتھوں کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٧١ ۴ ضروری ہے کہ انسان تيمم کے لئے انگوٹھی اتاردے اور اگر پيشانی یا ہاتھوں کی پشت یا ہتھيليوں پر کوئی رکا وٹ ہو مثلاًان پر کوئی چيزچپکی ہو ئی ہو تو اسے ہٹادے۔

مسئلہ ٧١ ۵ اگر پيشانی یا ها تہوں کی پشت پر زخم ہو اور اس پر کپڑایا کوئی اور ایسی چيز بندهی ہو جسے کھولا نہ جا سکتا ہو تو ضرور ی ہے کہ اس کے اوپر ہاتھ پهيرے۔ اسی طرح اگر ہتھيلی زخمی ہو اور اس پر کپڑایا پٹی وغيرہ بندهی ہو جسے کھولانہ جاسکتاہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ہاتھوں کواسی پٹی سميت اس چيزپر مارے جس پر تيمم کرناصحيح ہے اور پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور ہاتھوں کی پشت سے بھی تيمم کرے۔

۱۱۸

مسئلہ ٧١ ۶ اگر پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر بال ہو ں تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر سرکے بال پيشانی پر آگرے ہو ں تو ضروری ہے کہ انہيں پيچهے ہٹادے۔

مسئلہ ٧١٧ اگر کسی شخص کواحتمال ہو کہ پيشانی یا ہتھيليوںيا ہاتھوں کی پشت پر کوئی رکا وٹ ہے اور یہ احتمال عام لوگوں کی نظرميں بجا ہو تو ضروری ہے کہ جستجوکرے تاکہ اسے یقين یا اطمينان ہو جائے کہ رکا وٹ موجود نہيں ہے ، بلکہ اگر ایک ایساقابل اعتماد شخص بھی اس رکا وٹ کے نہ ہونے کی خبردے، جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، تو کافی ہے ۔

مسئلہ ٧١٨ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو، اگر وہ خودتيمم نہ کرسکتاہو، حتیٰ کہ مٹی پر ہاتھ رکھ کربهی، تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے کی مدد لے اور اگر کسی کی مددسے بھی تيمم نہيں کرسکتا تو ضروی ہے کہ نائب لے اور نائب کے لئے ضروری ہے کہ اسے خوداس کے ہاتھوں کے ساته تيمم کرائے اور اگر ایساکرناممکن نہ ہو تو نائب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں کواس چيزپر مارے جس پر تيمم کرناصحيح ہو اور پھراس کی پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور ضروری ہے کہ تيمم کی نيت وہ خودکرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نائب بھی نيت کرے۔

مسئلہ ٧١٩ اگر کوئی شخص تيمم کے دوران شک کرے کہ اس کا کچھ حصہ بھول گيا ہے یا نہيں اور اس حصے کا موقع گزرگيا ہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کا تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢٠ اگر کسی شخص کوبائيں ہاتھ کا مسح کرنے کے بعدشک ہو کہ آیا اس نے تيمم درست کيا ہے یا نہيں جب کہ احتمال دے کہ مسح کرتے وقت متو جہ تھاتو اس کا تيمم صحيح ہے اور اگر اس کا شک خود بائيں ہاتھ کے مسح کے بارے ميں ہو تو ضروری ہے کہ اس کا مسح کرے، مگریہ کہ جس عمل ميں طهارت شرط ہو اس ميں داخل ہو چکا ہو یا تسلسل ختم ہو گيا ہو اور اگر بائيں ہاتھ کے مسح کے صحيح ہو نے ميں شک ہو تو اس کا تيمم صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧٢١ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو وہ نماز کے وقت سے پهلے نماز کے لئے تيمم نہيں کرسکتا، ليکن اگر کسی اور واجب کا م یا مستحب کا م کے لئے تيمم کرے اور نماز کے وقت تک عذرباقی رہے جب کہ آخروقت تک عذر زائل ہونے سے مایوس ہو تو اسی تيمم کے ساته نماز پڑھ سکتاہے ، ورنہ محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ٧٢٢ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو اگر آخروقت تک عذر زائل ہونے سے مایوس ہو تو وقت وسيع ہو نے کی صورت ميں تيمم کے ساته نماز پڑھ سکتاہے ، ليکن اگر مایوس نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کرے، اگر عذربرطرف ہو جائے تو وضو یا غسل کے ساته نماز پڑھے ورنہ تنگی ؤقت ميں تيمم کے ساته نماز اداکرے۔

۱۱۹

مسئلہ ٧٢٣ جوشخص وضو یا غسل نہ کرسکتاہو اوراسے یقين یا اطمينان ہو کہ اس کا عذربرطرف ہو جائے گا، تو اپنی قضا نماز وں کوتيمم کے ساته نہيں پڑھ سکتا ور نہ پڑھ سکتاہے ، ليکن اگر بعدميں اس کا عذربرطرف ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کودوبارہ غسل یا وضو کے ساته اداکرے۔

مسئلہ ٧٢ ۴ جو شخص وضو یا غسل نہ کرسکتا ہو، اگر آخروقت تک عذرکے برطرف ہو نے سے مایوس ہو تو جن نوافل کا وقت معين ہے انہيں تيمم کے ساته پڑھ سکتاہے اور اگر مایوس نہ ہو احتياطِ واجب یہ ہے کہ ان نوافل کوان کے آخری وقت ميں بجالائے۔

مسئلہ ٧٢ ۵ جس شخص کا وظيفہ احتياطِ واجب کی بنا پر غسلِ جبيرہ اور تيمم ہو اگر وہ غسل اور تيمم کے بعدنماز پڑھے اور نماز کے بعداس سے حدثِ اصغر صادر ہو مثلااگر وہ پيشاب کرے تو بعدکی نماز وں کے لئے احتياطاً تيمم کرے اور وضو بھی کرے اور اگر حدث نماز سے پهلے صادر ہو تو اس نماز کے لئے بھی وضو کرکے تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢ ۶ اگر کوئی شخص پانی نہ ملنے یا کسی اور عذرکی وجہ سے تيمم کرے تو عذرکے برطرف ہو نے کے بعداس کا تيمم باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ٧٢٧ جوچيزیں وضو کوباطل کرتی ہيں وہ وضو کے بدلے کئے ہو ئے تيمم کوبهی باطل کرتی ہيں اور جوچيزیں غسل کوباطل کرتی ہيں وہ غسل کے بدلے کئے گئے تيمم کوبهی باطل کرتی ہيں ۔

مسئلہ ٧٢٨ جوشخص غسل نہ کرسکتاہو اور اس پر چندغسل واجب ہو ں، اگر ان ميں سے ایک غسل جنابت ہو تو غسل جنابت کے بدلے ایک تيمم باقی سب کے لئے کافی ہے اور اگر غسل جنابت کے علاوہ ہوں تو ضروری ہے کہ هرایک کے بدلے ایک تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢٩ جوشخص غسل نہ کرسکتاہو اگر وہ کوئی ایساکا م انجام دیناچاہے جس کے لئے غسل واجب ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تيمم کرے اور جو شخص وضو نہ کرسکتا ہو اگر وہ کوئی ایساکا م کرنا چاہے جس کے لئے وضو واجب ہے تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٣٠ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تيمم کرے تو نماز کے لئے وضو کرناضروری نہيں ہے ، ليکن اگر دوسرے غسلوں کے بدلے تيمم کرے تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے ایک اور تيمم کرے۔

۱۲۰

مسئلہ ٧٣١ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تيمم کرے ليکن بعدميں کسی ایسی صورت سے دوچارہو جو وضو کو باطل کردیتی ہو اور بعدکی نمازوں کے لئے غسل بھی نہ کرسکتاہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تيمم کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔ جنابت کے علاوہ حيض، نفاس اور مسِ ميت جيسے حدثِ اکبرکے بدلے تيمم کا بھی یهی حکم ہے ، مگریہ ضروری ہے کہ وضو بھی کرے۔

مسئلہ ٧٣٢ جس شخص پر کوئی کا م انجام دینے، مثلا نماز پڑھنے کے لئے، وضو اور غسل کے بدلے تيمم کرنا ضروری ہو، اس کے لئے ضروری نہيں ہے کہ ایک تيسرا تيمم اس نيت سے بھی انجام دے کہ اس کام کو انجام دے سکوں۔ ہاں، اگر وہ پهلے تيمم ميں وضو یا غسل کے بدلے تيمم کی نيت کرے اور دوسرے تيمم کومافی الذمّہ کی نيت سے انجام دے تو یہ احتياط کے مطابق ہے ۔

مسئلہ ٧٣٣ جس شخص کا فریضہ تيمم ہو اگر وہ کسی کا م کے لئے تيمم کرے تو جب تک اس کا تيمم اور عذرباقی ہے وہ ان کا موں کوانجام دے سکتاہے جنہيں وضو یا غسل کرکے انجام دیناضروری ہے ، ليکن اگر اس کا عذروقت کی تنگی ہو یا پانی ہو تے ہو ئے نمازِ ميّت یا سونے کے لئے تيمم کيا ہو تو اس تيمم سے فقط ان کا موں کوانجام دے سکتاہے جن کے لئے اس نے تيمم کيا ہے ۔

مسئلہ ٧٣ ۴ چندصورتو ں ميں بہترہے کہ انسان نے جونماز یں تيمم کے ساته پڑھی ہو ں ان کی قضاکرے:

١) یہ کہ پانی کے استعمال سے ڈرتاہو اور عمداً خود کو جنب کر ليا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

٢) یہ جانتے ہو ئے یا اس بات کا گمان ہو تے ہو ئے کہ پانی حاصل نہ کرسکے گا عمدا خود کو جنب کيا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

٣) آخروقت تک عمداً پانی کی تلاش ميں نہ جائے اور تيمم کرکے نماز پڑھے اور بعدميں معلوم ہو کہ اگر جستجوکرتاتو اسے پانی مل جاتا۔

۴) عمداً نماز پڑھنے ميں تاخيرکی ہو اور آخروقت ميں تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

۵) یہ جانتے ہو ئے یا اس بات کا گمان ہو تے ہو ئے کہ پانی نہيں ملے گا، جو پانی اس کے پاس تھا اسے گرادیا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

۱۲۱

نماز کے احکام

نماز کے احکام بيا ن کرنے سے پهلے دو نکا ت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے :

اوّل)اہميتِ نماز : قرآن مجيد ميں تقریباً ایک سو مقامات پر نماز کے بارے ميں گفتگو ہو ئی ہے ، جن ميں سے صرف دو مقامات کی طرف اشارہ کافی ہے :

١) خداوندمتعال نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کو مقام نبوت و رسالت اور خلت عطا کرنے کے بعد جب چند کلمات ميں آزمایا اور حضرت ابراہيم عليہ السلام نے ان کلمات کو پورا کر دیا تو مقام امامت عنایت ہو ا اور ان تمام مقامات کے ہوتے ہوئے آپ عليہ السلام کی نظر ميں مقام امامت کی عظمت اتنا زیا دہ اہم تھی کہ( قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ) (عرض کی اور ميری اولاد ميں سے؟) جواب ملا( لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِيْنَ ) (ميرے اس عهد پر ظالموں ميں سے کوئی شخص فائز نہيں ہو سکتا) اور نماز کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شخص جس کے لئے خداوند متعال مقام امامت کو پيش کر رہا ہے اور وہ اپنی ذریت کے لئے بھی اسے مانگ رہا ہے ، تمام مقامات طے کرنے کے بعد جوارِ خانہ خدا ميں درخواست کر رہا ہے( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلوٰةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ) (پروردگارا! مجھے نماز قائم کرنے والا قرار دے، اور ميری ذریت ميں سے بهی)

اور اسی طرح اپنی ذریت کو کعبہ کے ساته بسانے کے بعد کها( رَبَّنَّا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ )

(اے ہمارے پروردگار! ميں اپنی کچھ ذریت کو ایک بے آب و گياہ وادی ميں تيرے حرمت والے گہر کے کنارے آباد کر رہا ہوں، اے ہمارے پروردگار! تاکہ یہ نماز قائم کریں)

٢) قرآن مجيد ميں ”مومنون“ کے نام سے سورہ ہے جس ميں مومنين کا تعارف کچھ خصوصيا ت کے ذریعے کروایا گيا ہے ۔ سب سے پهلی خصوصيت جس سے ابتدا ہو ئی ہے وہ یہ ہے کہ( اَلَّذِیْنَ هم فِیْ صَلاَ تهم خَاشِعُوْنَ ) (یہ وہ لوگ ہيں جو اپنی نمازوں ميں خاشعين ہيں )، جب کہ آخری خصوصيت جس پر اختتام ہوا ہے یہ ہے( وَالَّذِیْنَ هم عَلیٰ صَلَوَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ ) (اور یہ وہ لوگ ہيں جو اپنی نمازوں کے محافظ ہيں )

پس ایمان کا آغاز و اختتام نماز پر ہے اور اس کا نتيجہ بھی یہ آیت ہے( اُوْلٰئِکَ هم الْوَارِثُوْنَ الَّذِیْن یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هم فِيْهَا خَالِدُوْنَ )

۱۲۲

اور سنت سے اسی قدر بيا ن کرنابس ہے کہ حضرت امام صادق عليہ السلام سے روایت ہو ئی ہے کہ آپ عليہ السلام فرماتے ہيں : ”ميں معرفت خدا کے بعد، کسی دوسری چيز کو نہيں پہچانتا جو نماز پنجگانہ سے افضل ہو۔“ حضرت عليہ السلام کا عدمِ علم در حقيقت عدم کے بارے ميں علم ہے اور یہ روایت کلام خدا کو ہی بيا ن کر رہی ہے کہ خداوندمتعال قرآن مجيد ميں فرماتا ہے ذ( ٰلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْب فِيْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِیْنَ یُو مِْٔنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَیُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ) کہ غيب پر ایمان کے بعد، قيا مِ نماز کا تذکرہ ہے ۔

نماز کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ساری عبادات ميں نماز سے زیا دہ جامع عبادت کوئی نہيں ہے کيونکہ یہ وہ عبادت ہے جو فعلی عبادت اور قولی عبادت پر مشتمل ہے ۔ فعلی عبادت ميں رکوع، سجود، قيا م اور قعود جيسے افعال عبادی شامل ہيں ، جب کہ قولی عبادت ميں قرائت و ذکر شامل ہيں ۔ اس عبادت ميں تسبيح، تکبير، تحميد اور تهليل جيسے تمام معارف الهيہ موجود ہيں جو معرفت حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کے ارکا ن اربعہ ہيں ۔یہ عبادت ملائکہ مقربين کی تمام عبادات پر مشتمل ہے کہ ان ميں سے بعض کی عبادت قيا م ہے اور بعض قعود ميں ہيں ، کچھ رکوع ميں اور کچھ سجود ميں ہيں ۔

روایا ت ميں نماز کے لئے جو عناوین ذکر ہو ئے ہيں وہ بہت زیا دہ ہيں ان ميں سے بعض عناوین یہ ہيں :

رَا سُْٔ الدِّیْنِ، و آخِرُ وَصَایَا الْا نَْٔبِيَاءِ، وَ ا حََٔبُّ الْاَعْمَالِ، وَ خَيْرُ الْا عَْٔمَالِ، وَ قِوَامُ الْاِسِلاَمِ، وَ اسْتِقْبَال الرَّحْمٰنِ، مِنْهَاجُ الْاَنْبِيَاءِ وَ بِه یَبْلُغُ الْعَبْدُ اِلیَ الدَّرَجَةِ الْعُلْيا

دوم)انسان کو اس بات کا خيا ل رکھنا چاہئے کہ نماز جلدبازی اور تيز رفتاری سے نہ پڑھے، بلکہ یاد خدا کے ساته خضوع و خشوع اور وقار سے نماز پڑھے اور متو جہ رہے کہ کس هستی کے ساته ہم کلام ہے اور اپنے آپ کو خداوندعالم کی عظمت و بندگی کے مقابلے ميں حقير و ناچيز سمجھے۔

علاوہ از ایں، نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ تو بہ و استغفار کرے اور نماز کی قبوليت ميں رکاوٹ بننے والے گناہوں مثلاً حسد، تکبّر، غيبت، حرام کھانا، نشہ آور اشياء کا استعمال اور خمس و زکوٰة کا ادانہ کرنا، بلکہ تمام گناہوں کو ترک کردے۔

اسی طرح ضروری ہے کہ نماز کا ثواب گھٹانے والے کاموں کو انجام نہ دے مثلاً اونگھنے کی حالت ميں اور پيشاب روک کر نماز نہ پڑھے، نماز کے وقت آسمان کی جانب نہ دیکھے اور ایسے کا م انجام دے جو نماز کا ثواب بڑھاتے ہيں ، مثلاً عقيق کی انگوٹھی اور پاکيزہ لباس پهنے، کنگهی اور مسواک کرے، نيز خوشبو لگائے۔

۱۲۳

واجب نماز يں

چھ نماز یں واجب ہيں :

١) روزانہ کی نماز یں اورنماز جمعہ بھی ان ميں سے ہے ۔

٢) نمازِ آیا ت۔

٣) نمازِ ميّت، اس بنا پر کہ اس پر حقيقت ميں نماز کا اطلاق ہو، اگر چہ یہ نماز بھر صورت واجب ہے ۔

۴) خانہ کعبہ کے واجب طواف کی نماز ۔

۵) باپ کی قضا نماز یں جو بڑے بيٹے پر واجب ہيں ۔

۶) جو نمازیں اجارہ، نذر، قسم، عهد اور عقد کے ضمن ميں شرط سے واجب ہو تی ہيں ۔

روزانہ کی واجب نماز يں

جمعہ کے علاوہ روزانہ کی نمازیں پانچ ہيں : ظہر و عصر ہر ایک چار رکعت، مغرب تين رکعت، عشا چار رکعت اور فجر دو رکعت۔

مسئلہ ٧٣ ۵ سفر اور خوف ميں ضروری ہے کہ انسان چار رکعتی نماز یں ان شرائط کے ساته جو بعد ميں بيا ن ہو ں گی، دو رکعت پڑھے۔

ظهر اور عصر کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧٣ ۶ اگر لکڑی یا اس جيسی کسی سيدهی چيز کو، جسے شاخص کہتے ہيں ، ہموار زمين ميں سيدها گاڑا جائے تو صبح سورج طلوع ہوتے وقت اس کا سایہ مغرب کی طرف پڑتا ہے اور جوں جوں سورج اُونچا ہو تا جاتا ہے اس کا سایہ گھٹتا جاتا ہے اور ہمارے شهروں ميں ظہر شرعی کے وقت کمی کے آخری درجے پر پهنچ جاتا ہے ۔ ظہر گزرنے کے بعد اس کا سایہ مشرق کی جانب ہو جاتا ہے اور جوں جوں سورج مغرب کی طرف ڈهلتا ہے سایہ بڑھتا جاتا ہے ۔

لہذا، جب سایہ کمی کے آخری درجے تک پهنچ کر دوبارہ بڑھنے لگے تو پتہ چلتا ہے کہ ظہر شرعی کا وقت ہو چکا ہے ، ليکن بعض شهروں ميں جهاں بعض اوقات ظہر کے وقت سایہ بالکل ختم ہو جاتا ہے ، جب سایہ دوبارہ ظاہر ہو تا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا وقت ہو چکا ہے ۔

مسئلہ ٧٣٧ نماز ظہر و عصر کا وقت زوال سے غروبِ آفتاب تک کا درميانی وقت ہے ، ليکن اگر کوئی شخص جان بوجه کر نماز عصر کو ظہر کی نماز سے پهلے پڑھے تو وہ نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر آخری وقت ميں ایک نماز سے زیا دہ پڑھنے کا وقت باقی نہ ہو، تو اس صورت ميں جس شخص نے اس وقت تک نماز ظہر نہ پڑھی ہو، ضروری ہے کہ پهلے نماز عصر پڑھے اور اس کے بعد نماز ظہر کی قضا

۱۲۴

کرے۔ البتہ، اگر کوئی شخص اس وقت سے پهلے غلطی سے عصر کی پوری نماز ظہر سے پهلے پڑھ لے تو اس کی نماز صحيح ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ اس نماز کو نماز ظہر قرار دے اور دوسری چار رکعت مافی الذمہ کی نيت سے پڑھے۔

مسئلہ ٧٣٨ اگر کوئی شخص ظہر کی نماز پڑھنے سے پهلے غلطی سے عصر کی نماز پڑھنا شروع کردے اور نماز کے دوران اسے معلوم ہو کہ اس سے غلطی ہو ئی ہے تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز ظہر کی طرف پهير دے یعنی نيت کرے جو کچھ پڑھ چکا ہو ں اور پڑھ رہا ہو ں اور پڑہوں گا وہ تمام کی تمام نماز ظہر ہے اور نماز مکمل کرنے کے بعد عصر کی نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٣٩ نماز جمعہ امام معصوم عليہ السلام یا آپ عليہ السلام کی جانب سے منصوب آپ عليہ السلام کے نائب کے ہو تے ہو ئے واجب تعينی ہے اور غيبت کے زمانے ميں مکلّف کو اختيار ہے کہ نماز ظہر پڑھے یا شرائط کے ہو تے ہو ئے، نماز جمعہ پڑھے۔ احوط نماز ظہر کا پڑھنا ہے اور افضل نماز جمعہ ہے ۔

مسئلہ ٧ ۴ ٠ نماز جمعہ کا وقت محدود ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ یقين، اطمينان یا وقت ہوجانے کی دوسری نشانيوں کے ذریعے، ظہر شرعی ثابت ہونے کے بعد، تاخير نہ کریں۔

مغرب و عشا کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧ ۴ ١ احتياطِ واجب یہ ہے کہ نماز مغرب کی ادائيگی ميں سورج کے غروب ہو نے کے بعد اتنی تاخير کریں کہ مشرق سے ظاہر ہو نے والی سرخی انسان کے سر پر سے گزر جائے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٢ مغرب اور عشا کی نماز کا وقت صاحبِ اختيار شخص کے لئے آدهی رات تک رہتا ہے ، ليکن جو شخص نيند، بھول جانے، حيض یا اس کے علاوہ کسی اوروجہ سے آدهی رات تک نماز نہ پڑھ سکے تو اس کے لئے صبح صادق تک ہے ۔

نماز عشا کو نماز مغرب کے بعد پڑھنا ضروری ہے ، لہٰذا اگر جان بوجه کر مغرب کی نماز سے پهلے پڑھی جائے تو باطل ہے ، ليکن اگر عشا کی نماز ادا کرنے کی مقدار سے زیا دہ وقت باقی نہ رہا ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ عشا کی نماز کو نماز مغرب سے پهلے پڑھا جائے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٣ اگر کوئی شخص غلطی سے عشا کی نماز کو مغرب سے پهلے پڑھ لے اور نماز کے بعد متو جہ ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور ضروری ہے کہ نماز مغرب کو اس کے بعد بجالائے۔

مسئلہ ٧ ۴۴ اگر کوئی شخص نماز مغرب پڑھنے سے پهلے عشا کی نماز پڑھنے ميں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ اس نے غلطی کی ہے اور ابهی وہ چوتھی رکعت کے رکوع تک نہ پهنچا ہو تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کی طرف نيت پهيرلے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد عشا کی نماز پڑھے اور اگر چوتھی رکعت کے رکوع ميں جاچکا ہو تو ضروری ہے کہ اسے تو ڑ دے اور نماز مغرب پڑھنے کے بعد نماز عشا بجالائے۔

۱۲۵

مسئلہ ٧ ۴۵ نماز عشا کا وقت صاحب اختيار شخص کے لئے آدهی رات تک ہے اور احتياط واجب کی بنا پر رات کا حساب غروب کے وقت سے صبح کی اذان تک ہوگا نہ کہ سورج نکلنے تک۔

مسئلہ ٧ ۴۶ اگر کوئی شخص جان بوجه کر مغرب اور عشا کی نماز آدهی رات تک نہ پڑھے تو احوط یہ ہے کہ اذان صبح سے پهلے تک ادا اور قضاکی نيت کے بغير ان نماز وں کو ادا کرے۔

صبح کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧ ۴ ٧ صبح کی اذان کے قریب مشرق کی جانب سے ایک سفيدی اُوپر اُٹھ تی ہے جسے فجرِ اوّل کها جاتا ہے اور جب یہ سفيدی پهيل جائے تو فجرِ دوم اور نماز صبح کا اوّل وقت ہے اور صبح کی نماز کا آخری وقت سورج نکلنے تک ہے ۔

اوقاتِ نماز کے احکام

مسئلہ ٧ ۴ ٨ انسان نماز ميں اس وقت مشغول ہو سکتا ہے جب اسے یقين یا اطمينان ہو کہ وقت داخل ہو گيا ہے یا دو عادل مرد یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، خبر دے کہ وقت داخل ہو گيا ہے یا وقت شناس شخص جو قابل اطمينان ہو، وقت داخل ہو نے کا اعلان کرنے کے لئے اذان دے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٩ اگر کوئی شخص عمومی عذر مثلاً بادل یا گرد و غبار، یا کسی ذاتی عذر مثلاً نا بينائی یا قيد خانے ميں ہونے کی وجہ سے، نماز کا اوّل وقت داخل ہو نے کے بارے ميں یقين یا شرعی گواہی حاصل نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ اسے وقت داخل ہونے کے بارے ميں یقين یا شرعی گواہی حاصل ہو جائے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٠ اگر مذکورہ بالا طریقوں سے کسی شخص کے لئے ثابت ہو جائے کہ نماز کا وقت ہو گيا ہے اور وہ نماز ميں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے معلوم ہو کہ ابهی وقت داخل نہيں ہو ا تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ اس نے ساری نماز وقت سے پهلے پڑھی ہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

هاں، اگر نماز کے دوران معلوم ہو کہ وقت داخل ہو گيا یا نماز کے بعد اسے یہ پتہ چلے کہ نماز کے دوران وقت داخل ہو گيا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧ ۵ ١ اگر کوئی شخص اس بات کی جانب متو جہ نہ ہو کہ ضروری ہے کہ وقت داخل ہو نے کے ثابت ہو نے کے بعد انسان نماز ميں مشغول ہو اگر نماز کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس نے ساری نماز وقت ميں پڑھی ہے تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر اسے یہ پتہ چل جائے کہ اس نے وقت سے پهلے نماز پڑھی ہے یا اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وقت ميں پڑھی ہے یا وقت سے پهلے پڑھی ہے یا نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز کے دوران وقت داخل ہو ا تھا تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۲۶

مسئلہ ٧ ۵ ٢ اگر کوئی شخص اس یقين یا اطمينان کے ساته نماز پڑھنے لگے کہ وقت داخل ہوگيا ہے اور نماز کے دوران شک کرے کہ وقت داخل ہو ا ہے یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے ۔ ليکن اگر نماز کے دوران اسے یقين یا اطمينان ہو کہ وقت داخل ہو گيا ہے اور شک کرے کہ نماز کی جتنی مقدار پڑھی ہے وہ وقت ميں پڑھی ہے یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧ ۵ ٣ اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز کے بعض مستحب اعمال ادا کرنے سے نماز کی کچھ مقدار وقت کے بعد پڑھی جائے گی تو ضروری ہے کہ ان مستحبات کو چھوڑ دے، مثلاً اگر قنوت پڑھنے کی وجہ سے نماز کا کچھ حصّہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے ہو تو ضروری ہے کہ قنوت نہ پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵۴ جس شخص کے پاس نماز کی فقط ایک رکعت ادا کرنے کا وقت ہو اس کی نماز ادا کی نيت سے ہو گی، البتہ ضروری ہے کہ نماز ميں اتنی تاخير نہ کرے۔

مسئلہ ٧ ۵۵ جو شخص سفر ميں نہ ہو اگر اس کے پاس غروب آفتاب تک پانچ رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی دونوں نماز یں پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ عصر کی نماز پڑھے اور بعد ميں ظہر کی نماز قضا کرے۔ اسی طرح جس کے پاس کوئی عذر نہ ہو اگر آدهی رات تک اس کے پاس پانچ رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ مغرب اور عشا کی نماز پڑھے اور اگر وقت اس سے کم ہو تو ضروری ہے کہ صرف عشا کی نماز پڑھے اور بعد ميں مغرب پڑھے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ مغرب مافی الذمہ کی نيت سے ادا و قضا کی نيت کئے بغير پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵۶ جو شخص سفر ميں ہو اگر غروب آفتاب تک اس کے پاس تين رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ صرف عصر پڑھے اور بعد ميں نماز ظہر کی قضا کرے۔ اسی طرح جس مسافر کے پاس کوئی عذر نہ ہو اگر آدهی رات تک اس کے پاس چار رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ مغرب اور عشا کی نماز پڑھے۔ اگر اس اندازے کے مطابق بھی وقت نہ ہو ليکن نماز عشا پڑھنے کے ساته مغرب کی ایک رکعت کو آدهی رات ہونے سے پهلے درک کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ پهلے عشا کی نماز پڑھے اور اس کے بعد فوراً نماز مغرب بجالائے اور اگر اس سے بھی کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ پهلے عشا اور پھر مغرب کی نماز پڑھے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ اسے ادا اور قضاء کی نيت کے بغير مافی الذمہ کی نيت سے پڑھے اور اگر عشا کی نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ آدهی رات ہو نے ميں ایک رکعت یا اس سے زیا دہ رکعات پڑھنے کا وقت باقی ہے تو اس کی نماز مغرب ادا ہے اور ضروری ہے کہ فوراً نماز مغرب ادا کرے۔

۱۲۷

مسئلہ ٧ ۵ ٧ مستحب ہے کہ انسان نماز کو اس کے اوّل وقت ميں پڑھے اور اس سے متعلق بہت زیا دہ تاکيد کی گئی ہے اور جتنا اوّل وقت کے قریب ہو بہتر ہے مگر یہ کہ تاخير کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً اس لئے انتظار کرے کہ نماز جماعت کے ساته پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٨ جب انسان کے پاس کوئی ایسا عذر ہو کہ اگر اوّل وقت ميں نماز پڑھنا چاہے تو تيمم کر کے نماز پڑھنے پر مجبور ہو، اگر اسے علم ہو کہ اس کا عذر آخر وقت تک باقی رہے گا تو اول وقت ميں نماز پڑھ سکتا ہے ، ليکن اگر احتمال دے کہ اس کا عذر دور ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ عذر کے برطرف ہو نے تک انتظار کرے اور اگر اس کا عذر برطرف نہ ہو تو آخر وقت ميں نماز پڑھے۔

هاں، یہ ضروری نہيں کہ اس قدر انتظار کرے کہ صرف نماز کے واجب افعال انجام دے سکے بلکہ اگر اس کے پاس مستحباتِ نماز مثلاً اذان و اقامت اور قنوت کے لئے بھی وقت ہو تو وہ تيمم کر کے ان مستحبات کے ساته نماز ادا کرسکتا ہے ۔

تيمم کے علاوہ دوسری مجبوریوں کی صورت ميں اگر وہ عذر تقيّہ ہو تو اوّل وقت ميں نماز پڑھنا جائز ہے اور اسے دوبارہ پڑھنا بھی ضروری نہيں ہے ، خواہ وقت کے دوران اس کا عذر برطرف ہی کيوں نہ ہو جائے۔ جب کہ تقيّہ کے علاوہ اگر احتمال دے کہ اس کا عذر باقی رہے گا تو جائز ہے کہ اوّل وقت ميں نماز پڑھے، ليکن اگر وقت کے دوران اس کا عذر برطرف ہو جائے تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٩ جو شخص نماز اور اس کی شکيات و سهویات کے مسائل کا علم نہ رکھتا ہو اور اس بات کا احتمال ہو کہ نماز کے دوران ان ميں سے کوئی مسئلہ پيش آئے گا اور کسی لازمی ذمہ داری یا ضروری احتياط کی خلاف ورزی ہوجائے گی،احتياط کی بنا پر انہيں سيکهنے کے لئے نماز تاخير سے پڑھے، ليکن اگر اسے اطمينان ہو کہ صحيح طریقے سے نماز پڑھ لے گا تو اوّل وقت ميں نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پس اگر نماز ميں کوئی ایسا مسئلہ پيش نہ آئے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر کوئی ایسا مسئلہ پيش آجائے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ جن دوباتو ں کا احتمال ہو ان ميں سے کسی ایک پر عمل کرتے ہوئے نماز کو پورا کرے۔ ہاں، نماز کے بعد مسئلہ معلوم کرنا ضروری ہے تاکہ اگر اس کی نماز باطل ثابت ہو تو دوبارہ پڑھے اور اگر صحيح ہو تو دوبارہ پڑھنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٠ اگر نماز کا وقت وسيع ہو اور قرض خواہ بھی اپنے قرض کا مطالبہ کرے تو ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ پهلے قرضہ ادا کرے اور بعد ميں نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا دوسرا واجب کا م پيش آجائے جسے فوراً بجالانا ضروری ہو مثلاً دیکھے کہ مسجد نجس ہو گئی ہے تو ضروری ہے کہ پهلے مسجد کو پاک کرے اور بعد ميں نماز پڑھے اور دونوں صورتو ں ميں اگر پهلے نماز پڑھے تو گنهگار ہے ، ليکن اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۲۸

وہ نماز يں جنهيں ترتيب سے پڑھنا ضروریہے

مسئلہ ٧ ۶ ١ ضروری ہے کہ انسان نماز عصر، نماز ظہر کے بعد اور نماز عشا کو نماز مغرب کے بعد پڑھے اور اگر جان بوجه کر نماز عصر، نماز ظہر سے پهلے یا نماز عشا کو نماز مغرب سے پهلے پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٢ اگر کوئی شخص نماز ظہر کی نيت سے نماز پڑھنا شروع کرے اور نماز کے دوران اسے یا د آئے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے تو وہ نيت کو نماز عصر ميں تبدیل نہيں کرسکتا بلکہ ضروری ہے کہ نماز تو ڑ کر عصر کی نماز پڑھے۔ مغرب و عشا ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٣ اگر نماز عصر کے دوران کوئی شک کرے کہ اس نے نماز ظہر پڑھی ہے یا نہيں ، تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز ظہر ميں تبدیل کر دے ليکن اگر وقت اتنا کم ہو کہ نماز ختم ہو نے کے بعد سورج غروب کر جائے گا اور ایک رکعت کے لئے بھی وقت باقی نہ ہو گا تو ضروری ہے کے نماز عصر کی نيت سے نماز کو پورا کرے اور اس بات پر بنا رکھے کہ نماز ظہر ادا کرچکا ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶۴ اگر کوئی شخص نماز عصر کے دوران اس یقين یا اطمينان پر کہ اس نے نماز ظہر نہيں پڑھی نيت کو ظہر ميں تبدیل کر دے، اگر کوئی عمل انجام دینے سے پهلے اسے یا د آجائے کہ ظہر کی نماز پڑھ چکا ہے تو ضروری ہے کہ باقی نماز کو عصر کی نيت سے پڑھے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔ اسی طرح جو کچھ انجام دے چکا ہو اگر وہ رکن نہ ہو تب بھی یهی حکم ہے ، ليکن اس صورت ميں قرائت اور ذکر وغيرہ جو ظہر کی نيت سے انجام دے چکا ہو ضروری ہے کہ انہيں دوبارہ عصر کی نيت سے بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں صورتو ں ميں نماز کو عصر کی نيت سے پورا کرے اور دوبارہ بھی پڑھے۔ ہاں، جو کچھ انجام دے چکا ہو وہ اگر ایک رکعت، رکوع یا دو سجدے ہو ں تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۶۵ اگر کوئی شخص نماز عشا ميں چوتھی رکعت کے رکوع سے پهلے شک کرے کہ اس نے نماز مغرب پڑھی ہے یا نہيں اور وقت اتنا کم ہو کہ نماز ختم کرنے کے بعد عشا کے لئے ایک رکعت نماز پڑھنے کا وقت بھی باقی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ عشا کی نيت سے نماز مکمل کرے اور اس بات پر بنا رکھے کہ مغرب کی نماز پڑھ چکا ہے ۔

اور اگر ایک رکعت یا اس سے زیا دہ پڑھنے کا وقت موجود ہو تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز مغرب ميں تبدیل کر کے اس کی تين رکعت مکمل کرے اور بعد ميں عشا کی نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۶۶ اگر کوئی شخص نماز عشا کی چوتھی رکعت کے رکوع ميں پهنچنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز مغرب پڑھی ہے یا نہيں اور وقت وسيع ہو تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ نماز مغرب و عشا دونوں پڑھے۔ اسی طرح اگر پانچ رکعات پڑھنے کا وقت ہو تو بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر وقت اس سے کمتر ہو تو اس کی نماز عشا صحيح ہے اور ضروری ہے کہ اسے پورا کرے اور بنا اس پر رکھے کہ نماز مغرب پڑھ چکا ہے ۔

۱۲۹

مسئلہ ٧ ۶ ٧ اگر کوئی شخص ایسی نماز جسے وہ پڑھ چکا ہو احتياطاً دوبارہ پڑھے اور نماز کے دوران اسے یا د آئے کہ اس نماز سے پهلے والی نماز نہيں پڑھی تو وہ نيت کو اس نماز کی طرف نہيں پهيرسکتا مثلاً جب وہ نماز عصر احتياطاً پڑھ رہا ہو اگر اسے یا د آئے کہ اس نے نماز ظہر نہيں پڑھی تو وہ نيت کو نماز ظہر کی طرف نہيں پهير سکتا۔

مسئلہ ٧ ۶ ٨ نمازِ قضا کی نيت کو نماز ادا اور نماز مستحب کی نيت کو نماز واجب کی طرف پهيرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٩ اگر ادا نماز کا وقت وسيع ہو تو انسان نماز کے دوران نيت کو قضا نماز ميں تبدیل کرسکتا ہے بشرطيکہ نماز قضاء کی طرف نيت تبدیل کرنا ممکن ہو، مثلاً اگر وہ نماز ظہر ميں مشغول ہو تو نيت کو قضائے صبح ميں اسی صورت ميں تبدیل کرسکتا ہے کہ تيسری رکعت کے رکوع ميں داخل نہ ہو ا ہو ۔

مستحب نماز يں

مسئلہ ٧٧٠ مستحب نماز یں بہت سی ہيں اور انہيں نوافل کہتے ہيں ۔ مستحب نماز وں ميں سے روزانہ کے نوافل کی بہت زیا دہ تاکيد کی گئی ہے ۔ اور یہ روز جمعہ کے علاوہ چونتيس رکعات ہيں ۔ جن ميں سے آٹھ رکعت ظهرکی، آٹھ رکعت عصر کی، چار رکعت مغرب کی، دو رکعت عشا کی، گيا رہ رکعت نماز شب کی اور دو رکعت صبح کی ہيں ۔ چونکہ احتياطِ واجب کی بنا پر عشا کی دورکعت نافلہ بيٹھ کر انجام دینا ضروری ہے ، اس لئے وہ ایک رکعت شمار ہو تی ہے ۔

جمعہ کے دن ظہر اور عصر کی سولہ رکعت نوافل پر چار رکعت کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اور قول مشهو ر کے مطابق بہتر یہ ہے کہ ان ميں سے چھ رکعت سورج کے مکمل طور پر نکل آنے پر، چھ

رکعت دن چڑھنے پر، چھ رکعت زوال سے پهلے اور دو رکعت زوال کے وقت پڑھے۔

مسئلہ ٧٧١ نماز شب کی گيا رہ رکعتو ں ميں سے آٹھ رکعتيں نافلہ شب کی نيت سے، دو رکعت نماز شفع کی نيت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نيت سے پڑھی جائے گی۔ نافلہ شب کا مکمل طریقہ دعا کی کتابوں ميں مذکور ہے ۔

مسئلہ ٧٧٢ نوافل بيٹھ کر بھی پڑھی جاسکتی ہيں ، ليکن بہتر یہ ہے کہ بيٹھ کر پڑھی جانے والی دو رکعت کو ایک رکعت شمار کيا جائے مثلاً جو شخص ظہر کی نوافل جو آٹھ رکعتيں ہيں بيٹھ کر پڑھنا چاہے تو بہتر ہے کہ سولہ رکعتيں پڑھے اور اگر نماز وتر کو بيٹھ کر پڑھنا چاہے تو ایک ایک رکعت کی دو نماز یں پڑھے۔

مسئلہ ٧٧٣ ظہر اور عصر کی نوافل کو سفر ميں نہيں پڑھا جاسکتا اور اگر عشا کی نفليں رجاء

کی نيت سے پڑھی جائيں تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

۱۳۰

روزانہ کی نوافل کا وقت

مسئلہ ٧٧ ۴ ظہر کی نوافل نماز ظہر سے پهلے پڑھی جاتی ہيں اور ان کا وقت ظہر کی ابتدا سے ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اس کی انتها اس وقت تک ہے کہ شاحض کے ظہر کے بعد پيدا ہونے والے سائے کی مقدار، سات ميں سے دو حصّوں کے برابر ہو جائے مثلاً اگر شاحض کی لمبائی سات بالشت ہو تو جب سائے کی مقدار دو بالشت ہوجائے تو احتياط کی بنا پر یہ نافلہ ظہر کا آخری وقت ہے ۔

مسئلہ ٧٧ ۵ عصر کی نوافل نماز عصر سے پهلے پڑھی جاتی ہيں ۔ احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا وقت شاحض کے سائے کی اس مقدار تک ہے جو ظہر کے بعد ظاہر ہو اور سات ميں سے چار حصّوں تک پهنچ جائے۔ اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نفليں اس کے مقررہ وقت کے بعد پڑھنا چاہے تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ ظہر کی نفليں نماز ظہر کے بعد اور عصر کی نفليں نماز عصر کے بعد پڑھے اور ادا و قضاء کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ٧٧ ۶ مغرب کی نفلوں کا وقت نماز مغرب ختم ہو نے کے بعد ہو تا ہے اور مغرب کے آخری وقت تک باقی رہتا ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ سورج کے غروب ہو نے کے بعد مغرب کی جانب دکهائی دینے والی سرخی کے ختم ہو نے سے پهلے پڑھ لے اور اگر سرخی ختم ہو نے کے بعد پڑھے تو ادا و قضاء کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ٧٧٧ عشا کی نفلوں کا وقت نماز عشا ختم ہو نے کے بعد سے آدهی رات تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ نماز عشا ختم ہو نے کے فوراً بعد پڑھی جائيں۔

مسئلہ ٧٧٨ نماز صبح کی نوافل کا وقت احتياطِ واجب کی بنا پر فجر اوّل کے بعد سے لے کر مشرق کی سرخی ظاہر ہونے تک ہے اور جوشخص مشرق کی سرخی ظاہر ہو نے کے بعد پڑھنا چاہے تو نماز صبح کے بعد پڑھے اور ادا و قضاء کی نيت نہ کرے اور نماز شب پڑھنے والا، نافلہ شب کے فوراً بعد نافلہ صبح پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٧٧٩ نماز شب کا وقت مشهو ر قول کی بنا پر آدهی رات سے اذانِ صبح تک ہے ، ليکن بعيد نہيں ہے کہ اس کا وقت رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہو اور آدهی رات سے اذان صبح تک اس کی فضيلت کا وقت ہو اور افضل یہ ہے کہ رات کے آخری تيسرے حصے ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ٧٨٠ مشهو ر قول کی بنا پر نماز شب کا اوّل وقت آدهی رات سے ہے ۔ مسافر اور وہ شخص جس کے لئے آدهی رات کے بعد نماز شب ادا کرنا مشکل ہو وہ اسے اوّل شب ميں پڑھ سکتا ہے ، اگر چہ بعيد نہيں ہے کہ ان دو کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی اوّلِ شب ميں پڑھنا جائز ہو جيسا کہ سابقہ مسئلہ ميں ذکر ہو چکا ہے ۔

۱۳۱

نمازِ غفيلہ

مسئلہ ٧٨١ نمازِ غفيلہ مشهو ر مستحب نماز وں ميں سے ہے اور مغرب و عشا کی نماز کے درميا ن پڑھی جاتی ہے ۔

اس کی پهلی رکعت ميں الحمد کے بعد کسی سورہ کی بجائے اس آیت کا پڑھنا ضروری ہے :

( وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَهَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ اَنْ لَّنَ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادیٰ فِی الظُّلُمَاتِ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ ا نَْٔتَ سُبْحَانَکَ انی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَه وَ نَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ ننُجْیِ الْمُؤْمِنِيْنَ )

اور دوسری رکعت ميں الحمد کے بعد کسی سورہ کی بجائے اس آیت کو پڑھے:

( وَ عِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ یَعْلَمُهَا اِلاَّ هو وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلاَّ یَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ وَ لاَ رَطْبٍ وَّ لاَ یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِيْنٍ )

اور اس کے قنوت ميں پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْا لَُٔکَ بِمَفَاتِحِ الْغَيْبِ الَّتِيْ لاَ یَعْلَمُهَا اِلاَّ اَنْتَ ا نَْٔ تُصَلِّيَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تَفْعَل بِیْ کذا و کذا

اور کذا و کذا کی بجائے اپنی حاجات بيا ن کرے اور اس کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ وَلِيُّ نِعْمَتِيْ وَالْقَادِرُ عَلیٰ طَلِبَتِيْ تَعْلَمُ حَاجَتِيْ فَا سَْٔا لَُٔکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِم السَّلاَمُ لَمَّا قَضَيْتَهَا لِيْ

قبلے کے احکام

مسئلہ ٧٨٢ قبلہ وہ مقام ہے جهاں خانہ کعبہ بنا ہواہے۔ ضروری ہے کہ اس کے سامنے رخ کرکے نماز پڑھی جائے ليکن جو شخص اس سے دور ہے اگر اس طرح کهڑا ہو کہ لوگ کہيں قبلہ رخ نماز پڑھ رہا ہے تو کافی ہے ۔ یهی حکم قبلہ رخ ہوکر انجام دئے جانے والے دوسرے کاموں، مثلا حيوانات کو ذبح کرنے کا ہے ۔

مسئلہ ٧٨٣ جو شخص کهڑا ہو کر واجب نماز پڑھ رہا ہو ضروری ہے کہ اس کا چہرہ ، سينہ اور پيٹ قبلے کی طرف ہوں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کے پاؤں کی انگليا ں بھی قبلہ کی طرف ہو ں۔

مسئلہ ٧٨ ۴ جس شخص کی ذمہ داری بيٹھ کر نماز پڑھنا ہو، ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت اس کا چہرہ ، سينہ اور پيٹ قبلہ کی طرف ہو ں۔

۱۳۲

مسئلہ ٧٨ ۵ جو شخص بيٹھ کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو ضروری ہے کہ نماز کے وقت دائيں پهلو کے بل اس طرح ليٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصّہ قبلے کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ بائيں پهلو کے بل یوں ليٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصّہ قبلے کی طرف ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پشت کے بل اس طرح ليٹے کہ اس کے پيروں کے تلوے قبلے کی طرف ہو ں۔

مسئلہ ٧٨ ۶ نماز احتياط، بھولا ہو ا سجدہ و تشهد اور اس سجدہ سهو کی بجا آوری کے لئے جو بھولے ہو ئے تشهد کے لئے انجام دیا جاتا ہے ، ضروری ہے کہ انسان قبلہ رخ ہو۔ اس کے علاوہ باقی سجدہ هائے سهو ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں قبلے کی طرف رخ کر کے ادا کيا جائے۔

مسئلہ ٧٨٧ مستحب نماز کو زمين پر استقرار کی حالت ميں قبلہ رخ ہو کر پڑھنا ضروری ہے ، ليکن چلتے ہو ئے اور سواری کی حالت ميں قبلے کی طرف منہ کرکے پڑھنا ضروری نہيں ہے ، خواہ نذر کی وجہ سے واجب ہو گئی ہو۔

مسئلہ ٧٨٨ جو شخص نماز پڑھنا چاہے ضروری ہے کہ قبلے کی سمت کا تعين کرنے کے لئے کوشش کرے یهاں تک کہ قبلے کی سمت کے بارے ميں اسے یقين یا اطمينان ہو جائے یا دو عادل مرد یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو، قبلے کے متعلق اطلاع دیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے شهروں ميں قبلے کو ان کی نمازوں اور قبروں سے معلوم کرسکتا ہے ۔ اگر یہ موجود نہ ہو ں تو ضروری ہے کہ اسے معلوم کرنے کی کوشش کرے اور دوسرے طریقوں سے حاصل ہو نے والے گمان کے مطابق عمل کرے، خواہ وہ گمان کسی کا فر یا ایسے فاسق کے کهنے سے حاصل ہو جو علمی قواعد کے ذریعے قبلے کا رخ جانتا ہو ۔

مسئلہ ٧٨٩ جس شخص کو قبلے کے بارے ميں گمان ہو اور اس سے زیادہ مضبوط گمان پيدا کرسکتا ہو تو وہ اپنے گمان پر عمل نہيں کرسکتا، مثلاً اگر مهمان، صاحب خانہ کے کهنے پر قبلے کی سمت کے بارے ميں گمان پيدا کرلے ليکن کسی دوسرے طریقے سے زیا دہ قوی گمان پيدا کرسکتا ہو تو وہ صاحب خانہ کے کهنے پر عمل نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٧٩٠ اگر کسی کے پاس قبلے کا رخ متعين کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو یا کوشش کے باوجود اس کا گمان کسی ایک طرف نہ جائے تو اس کا کسی بھی سمت منہ کر کے نماز پڑھنا کافی ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت وسيع ہو تو چار نماز یں چاروں سمت منہ کر کے پڑھے۔

مسئلہ ٧٩١ اگر اس بارے ميں یقين یا وہ چيز جو یقين کے حکم ميں ہو یا گمان حاصل ہو جائے کہ قبلہ دو ميں سے کسی ایک طرف ہے تو ضروری ہے کہ ان دونوں طرف منہ کر کے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٩٢ جو شخص کئی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتا ہو اگر وہ ایسی دو نماز یں پڑھنا چاہے جو ظہر اور عصر کی طرح یکے بعد دیگرے پڑھنی ضروری ہيں تو احتياط مستحب یہ ہے کہ پهلی نماز کو مختلف سمتو ں کی طرف منہ کر کے پڑھے اور بعد ميں دوسری نماز شروع کرے۔

۱۳۳

مسئلہ ٧٩٣ جس شخص کو قبلے کے بارے ميں یقين یا کوئی ایسی چيز جو یقين کے حکم ميں ہے ، حاصل نہ ہو سکے اگر وہ نماز کے علاوہ کوئی ایسا کا م کرنا چاہے جو قبلے کی طرف منہ کر کے کرنا ضروری ہے مثلاً وہ کوئی حيوان ذبح کرنا چاہتا ہو، تو اگر اس کے لئے تاخير کرنا ممکن ہو تاکہ قبلہ معلوم کيا جا سکے، تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ تاخير کرے۔ ہاں، اگر تاخير ممکن نہ ہو یا حرج کا باعث ہو تو گمان کے مطابق عمل کرسکتا ہے اور اگر گمان ممکن نہ ہو اور حيوان کا ذبح کرنا ضروری ہو مثلاً تاخير کی صورت ميں حيوان مرجائے گا، تو جس طرف منہ کر کے ذبح کرے صحيح ہے ۔

نماز ميں بدن کا ڈهانپنا

مسئلہ ٧٩ ۴ ضروری ہے کہ مرد نماز کی حالت ميں اپنی دونوں شرمگاہو ں کو ڈهانپے، خواہ اسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ناف سے گھٹنوں تک بدن بھی ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩ ۵ ضروری ہے کہ عورت نماز کے وقت اپنا پورا بدن حتی سر اور بال بھی ڈهانپے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے تلوے بھی ڈهانپے، ليکن وضو ميں دهویا جانے والا چھرے کا حصہ، کلائيوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں کا ظاہری حصّہ ڈهانپنا ضروری نہيں ہے ۔ ہاں، یہ اطمينان حاصل کرنے کے لئے کہ اس نے واجب مقدار ڈهانپ لی ہے ضروری ہے کہ چھرے کی اطراف اور کلائيوں سے نيچے کا کچھ حصہ بھی ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩ ۶ بھولے ہو ئے سجدے، بھولے ہوئے تشهد یا بھولے ہوئے تشهد کی وجہ سے واجب ہونے والے سجدہ سهو کو انجام دیتے وقت ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس طرح ڈهانپے جس طرح نماز کے وقت ڈهانپا جاتا ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ باقی سجدہ هائے سهو بجالاتے وقت بھی اپنے آپ کو ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩٧ اگر کوئی انسان جان بوجه کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے، جب کہ مسئلہ سيکهنے ميں کوتاہی کی ہو، نماز ميں اپنی شرمگاہ نہ چھپا ئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٩٨ اگر کسی شخص کو نماز کے دوران پتہ چلے کہ اس کی شرمگاہ برہنہ ہے تو ضروری ہے کہ فوراً اپنی شرمگاہ چھپا ئے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نماز مکمل کرکے دوبارہ پڑھے، ليکن اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز کے دوران اس کی شرمگاہ برہنہ تھی تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

یهی حکم اس وقت ہے جب اسے نماز کے دوران معلوم ہو کہ پهلے اس کی شرمگاہ برہنہ تھی ليکن فی الحال چھپی ہو ئی ہے ۔

مسئلہ ٧٩٩ اگر کسی شخص کا لباس کھڑے ہو نے کی حالت ميں اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ لے ليکن ممکن ہے کہ دوسری حالت ميں مثلاً رکوع یا سجود کی حالت ميں نہ ڈهانپے تو اگر شرمگاہ کے برہنہ ہو نے کے وقت اسے کسی ذریعے سے ڈهانپ لے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس لباس کے ساته نماز نہ پڑھے۔

۱۳۴

مسئلہ ٨٠٠ انسان نماز ميں اپنے آپ کو گهاس اور درختو ں کے پتو ں سے ڈهانپ سکتا ہے ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ ان چيزوں سے اس وقت ڈهانپے جب اس کے پاس کوئی اور چيز نہ ہو ۔

مسئلہ ٨٠١ اگر گارے کے علاوہ شرمگاہ کو چھپا نے کے لئے کوئی دوسری چيز نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اختياری حالت ميں گارے کے ساته خود کو ڈهانپ کر پڑھی جانے والی اور اضطرار کے وقت برہنہ حالت ميں پڑھی جانے والی ،دونوں نمازوں کو انجام دے۔

مسئلہ ٨٠٢ جس شخص کے پاس کوئی ایسی چيز نہ ہو جس سے وہ نماز ميں اپنے آپ کو ڈهانپے، اگر احتمال دے کہ آخر وقت تک کوئی چيز مل جائے گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز ميں تاخير کرے اور اگر کوئی چيز نہ ملے تو آخر وقت ميں اپنے وظيفے کے مطابق نماز پڑھے۔ ایسا شخص اپنی نماز اول وقت ميں بھی پڑھ سکتا ہے اور اگر آخر وقت تک کوئی چيز نہ ملے تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر مل جائے تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨٠٣ جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہو، اگر اپنی شرمگاہ ڈهانپنے کے لئے حتی اس کے پاس گارا اور کيچڑ بھی نہ ہو تو اگر کيفيت یہ ہو کہ کسی ناظرِ محترم کی نگاہ اس کی شرمگاہ پر نہ پڑ رہی ہو تو کهڑا ہو کر نماز پڑھے اور احتياط واجب کی بنا پر ہاتھ کو اپنی شرمگاہ پر رکھے اور ضروری ہے کہ رکوع و سجود اشارے کے ساته بجالائے اور احتياط واجب کی بنا پر سجود کے لئے زیادہ اشارہ کرے۔اور اگر کيفيت یہ ہو کہ کسی ناظرِ محترم کی نگاہ اس پر پڑ رہی ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ

کر نماز پڑھے اور رکوع و سجود کے لئے اشارہ کرے اور احتياط واجب کی بنا پر سجود کے لئے زیادہ اشارہ کرے۔

نمازی کے لباس کی شرائط

مسئلہ ٨٠ ۴ نمازی کے لباس کی چھ شرائط ہيں :

١) پاک ہو

٢) مباح ہو

٣) مردار کے اجزاء سے نہ بنا ہو

۴) حرام گوشت حيوان کے اجزاء سے نہ بنا ہو

۵،۶ ) اگر نمازی مرد ہو تو اس کا لباس خالص ریشم اور زردوزی (سونے کی کڑھائی )کا بنا ہوا نہ ہو۔

۱۳۵

اور ان شرائط کی تفصيل آئندہ مسائل ميں بيان کی جائے گی۔

پهلی شرط

مسئلہ ٨٠ ۵ نمازی کا لباس پاک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص اختياری حالت ميں نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠ ۶ جو شخص اپنی کوتاہی کی وجہ سے یہ نہ جانتا ہو کہ نجس بدن یا لباس کے ساته نماز باطل ہے اور نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے، تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠٧ جو شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے، نجس چيز کی نجاست کو نہ جانتا ہو، مثلاً یہ نہ جانتا ہو کہ غير کتابی کافر کا پسينہ نجس ہے اور اس کے ساته نماز پڑھے، تو جاہل مقصر ہونے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠٨ جو شخص نہ جانتا ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور نماز پڑھنے کے بعدنجاست کا علم ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ ہاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر وقت باقی ہو تو نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٨٠٩ جو شخص بھول جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور نماز کے دوران یا اس کے بعد یاد آئے تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گيا ہو تو اس کی قضا کرے۔

مسئلہ ٨١٠ جو شخص وسيع وقت ميں نماز ميں مشغول ہو، اگر نماز کے دوران اس کا بدن یا لباس نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے معلوم ہو جائے کہ نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس تبدیل کرنے یا لباس اتارنے سے نماز کی شکل نہ بگڑے تو ضروری ہے کہ نماز کے دوران بدن یا لباس پاک کرے یا لباس تبدیل کرے یا اگر کسی اور چيز نے اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ رکھا ہو تو لباس اتار دے، ليکن اگر بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس بدلنے یا اتار نے سے نماز کی شکل بگڑ جاتی ہو یا لباس اتارنے سے برہنہ ہوتا ہو تو اس کی نماز باطل ہوگی اور ضروری ہے کہ دوبارہ پاک بدن اور پاک لباس کے ساته نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨١١ جو شخص تنگ وقت ميں نماز ميں مشغول ہو، اگر نماز کے دوران اس کا لباس نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا لباس نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا لباس نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ اسے پاک کرنا، تبدیل کرنا یا اتارنا ممکن ہو اور نماز بھی نہ ٹوٹتی ہو تو ضروری ہے کہ لباس کو پاک کرے، تبدیل کرے یا اگر کسی اور چيز نے اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ رکھا ہو تو

۱۳۶

لباس اتار دے اور نماز کو مکمل کرے، ليکن اگر کسی چيز نے اس کی شرمگاہ کو نہ ڈهانپ رکھا ہو اور لباس کو بھی پاک یا تبدیل نہ کرسکتا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ اسی نجس لباس کے ساته نماز مکمل کرے۔

مسئلہ ٨١٢ جو شخص تنگ وقت ميں نماز ميں مشغول ہو اگر نماز کے دوران اس کا بدن نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے اسے معلوم ہوجائے کہ اس کا بدن نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا بدن نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ بدن پاک کرنے سے نماز کی شکل نہ بگڑتی ہو بدن کو پاک کرے اور اگر نماز کی شکل بگڑتی ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت ميں نماز کو مکمل کرے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١٣ جس شخص کو اپنے بدن یا لباس کے پاک ہونے ميں شک ہو اور سابقہ نجاست کے بارے ميں اسے نہ یقين ہو اور نہ ہی کوئی ایسی چيز جو یقين کے حکم ميں ہے اور نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۴ اگر کوئی شخص اپنا لباس دهوئے اور اس کے پاک ہوجانے کے بارے ميں اسے یقين یا وہ چيز حاصل ہو جائے جو یقين کے حکم ميں ہے ، پھر اس لباس کے ساته نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ پاک نہيں ہوا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۵ اگر کوئی شخص اپنے بدن یا لباس پر خون دیکھے اور اسے یقين ہو جائے کہ وہ خون نجس نہيں ہے مثلاً اسے یقين ہو کہ مچہر کا خون ہے ، چنانچہ اگر نماز پڑھنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ یہ ایسا خون تھا جس کے ساته نماز نہيں پڑھی جاسکتی تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۶ اگر کسی شخص کو یقين ہو کہ اس کے بدن یا لباس پر جو خون ہے وہ ایسا نجس خون ہے جس کے ساته نماز صحيح ہے مثلاً اسے یقين ہوکہ زخم یا پهوڑے کا خون ہے ليکن نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ یہ ایسا خون ہے جس کے ساته نماز باطل ہے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١٧ اگر کوئی شخص کسی چيز کے نجس ہونے کو بھول جائے اوراس کا بدن یا لباس رطوبت کے ساته اس چيز سے چھو جائے اور اسی بھول کے عالم ميں وہ نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر اس کا بدن رطوبت کے ساته اس چيز کو چھو جائے جس کا نجس ہونا وہ بھول گيا ہے اور وہ اپنے آپ کو پاک کئے بغير غسل کرکے نماز پڑھے تو اس کا غسل اور نماز دونوںباطل ہيں ، مگر یہ کہ کيفيت یہ ہو کہ غسل کرنے سے بدن بھی پاک ہو جائے، مثلا معتصم پانی سے غسل کرے یعنی ایسے پانی سے جو نجس چيز کے ساته صرف ملنے سے نجس نہيں ہوتا، مثلاً کُر اور جاری پانی۔

۱۳۷

اسی طرح اگر وضو کے اعضا کا کوئی حصّہ رطوبت کے ساته اس چيز سے چھو جائے جس کے نجس ہونے کے بارے ميں وہ بھول گيا ہو اور اس حصے کو پاک کرنے سے پهلے ہی وضو کرکے نماز پڑھ لے تو اس کا وضو اور نماز دونوں باطل ہيں ، مگر یہ کہ وضو کرنے سے وضو کے اعضا بھی پاک ہو جائيں مثلاً معتصم پانی سے وضو کرے۔

مسئلہ ٨١٨ جس شخص کے پاس ایک لباس ہو، اگر اس کا بدن اور لباس نجس ہو جائيں اور اس کے پاس ان ميں سے ایک کو پاک کرنے کا پانی ہو تو احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ بدن کو پاک کرے اور نجس لباس کے ساته نماز پڑھے۔ ہاں، اگربدن کی نجاست لباس کی نجاست سے کمتر ہو یا بدن کی نجاست کو ایک مرتبہ دهونا ضروری ہو اور لباس کی نجاست کو دو مرتبہ دهونا ضروری ہو تو ان دو صورتوں ميں لباس کو پهلے پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٨١٩ جس شخص کے پاس نجس لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس نہ ہو، ضروری ہے کہ نجس لباس کے ساته نماز پڑھے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٢٠ جس شخص کے پاس دو لباس ہوں اگر وہ جانتا ہو کہ ان ميں سے ایک نجس ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ کون سا نجس ہے اور اس کے پاس وقت ہو تو ضروری ہے کہ دونوں لباس کے ساته نماز پڑھے، مثلاً اگر نماز ظہر و عصر پڑھنا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ هرلباس کے ساته ایک نماز ظہر کی اور ایک نماز عصر کی پڑھے، ليکن اگر وقت تنگ ہو تو ان ميں سے ایک لباس کے ساته نماز پڑھے اور وقت کے بعد دوسرے لباس یا کسی پاک لباس کے ساته نماز پڑھے۔

دوسری شرط

مسئلہ ٨٢١ نمازی کا وہ لباس جس سے شرمگاہ ڈهانپی جاتی ہے ، ضروری ہے کہ مباح ہو۔

جو شخص جانتا ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے یا اپنی کوتاہی کی وجہ سے یہ مسئلہ نہ سيکها ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے اور جان بوجه کر اس لباس سے اپنی شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ، ليکن وہ چيزیں جو خود بہ تنهائی شرمگاہ کو نہ ڈهانپ سکيں اور اسی طرح وہ چيزیں جنہيں نمازی نے حالت نماز ميں نہ پهن رکھا ہو، اگر چہ ان سے شرمگاہ کو ڈهانپا جاسکتا ہو مثلاً بڑا رومال، یا لنگوٹی جو جيب ميں رکھی ہو اور اسی طرح وہ چيزیں جنہيں نمازی نے پهنا ہو ليکن ان کے ذریعے شرمگاہ کو نہ ڈهانپا ہو، ان تمام صورتوں ميں ان کے غصبی ہونے سے نماز باطل نہيں ہوتی، اگرچہ نماز کے صحيح ہونے کے اعتبار سے احتياط یہ ہے کہ ان کو ترک کر دیا جائے۔

مسئلہ ٨٢٢ جو شخص یہ تو جانتا ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ اس لباس کے ساته شرمگاہ ڈهانپنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ، اگر جان بوجه کر اس کے ذریعے حالت نماز ميں شرمگاہ ڈهانپی ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۳۸

مسئلہ ٨٢٣ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ اس کا لباس غصبی ہے اور اس لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔یهی حکم اس وقت ہے جب لباس کے غصبی ہونے کو بھول جائے جب کہ غاصب خود نہ ہو، ليکن اگر غاصب بھول جائے کہ اس نے غصب کيا ہے اور اس غصبی لباس کے ساته اپنی شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھ لے تو غصب سے توبہ نہ کرنے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہے اور اگر توبہ کرچکا ہو تو نماز کا باطل ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٢ ۴ اگر کسی شخص کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ اس کا لباس غصبی ہے ليکن نماز کے دوران اسے پتہ چل جائے اور اس کی شرمگاہ کسی دوسری چيز سے ڈهکی ہوئی ہو اور وہ فوراً یا نماز کا تسلسل توڑے بغير غصبی لباس اتار سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے اتار دے اور اگر اس کی شرمگاہ کسی دوسری چيز سے ڈهکی ہوئی نہ ہو یا اس غصبی لباس کو فوراً نہ اُتارسکتا ہو یا لباس اُتارنے سے نماز کا تسلسل ٹوٹتا ہو اور صورت یہ ہو کہ اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کا وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور اس لباس کے ساته نماز پڑھے جو غصبی نہ ہو اور اگر اتنا وقت بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کی حالت ميں ہی لباس اُتار دے اور مسئلہ نمبر ” ٨٠٣ “ ميں برہنہ لوگوں کی نماز کے لئے بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز مکمل کرے۔

مسئلہ ٨٢ ۵ اگر کوئی شخص اپنی جان کی حفاظت کے لئے غصبی لباس کے ساته نماز پڑھے، تو چاہے اس کے ذریعے شرمگاہ ڈهکی ہو ئی ہو یا مثال کے طور پر غصبی لباس کے ساته اس لئے نماز پڑھے تا کہ چور نہ لے جائے، تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٢ ۶ اگر کوئی شخص عين اس رقم سے لباس خریدے جس کا خمس اس نے ادا نہ کيا ہو تو اس لباس کے ساته نماز پڑھنے کا وهی حکم ہے جو غصبی لباس کے ساته نماز پڑھنے کا ہے ۔

تيسری شرط

مسئلہ ٨٢٧ ضروری ہے کہ نمازی کا لباس، خون جهندہ رکھنے والے مردہ حيوان کے اجزا سے نہ بنا ہو، بلکہ اگر ایسے مردہ حيوان مثلاً مچھلی اور سانپ، جن کا خون جهندہ نہيں ہوتا، کے اجزا سے تيار کيا ہوا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر اس کے ساته نماز نہ پڑھی جائے۔

مسئلہ ٨٢٨ اگر نجس مردار کی ایسی چيز مثلاً گوشت اور کھال جن ميں روح ہوتی ہے ، نمازی کے ہمراہ ہو اگر چہ اس کا لباس نہ ہو، احتياط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٢٩ اگر حلال گوشت مردار کی کوئی ایسی چيز مثلاً بال اور اون، جن ميں روح نہيں ہوتی، نمازی کے ہمراہ ہو یا ان کے ساته تيار کئے گئے لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۳۹

چوتھی شرط

مسئلہ ٨٣٠ ضروری ہے کہ نمازی کا لباس حرام گوشت جانور کے اجزا سے بنا ہوا نہ ہو اور اگر حرام گوشت جانور کا ایک بال بھی نمازی کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٣١ حرام گوشت جانور مثلاً بلی کے منہ یا ناک کا پانی یا کوئی دوسری رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگی ہو اور وہ تر ہو تو نماز باطل ہے ،ليکن اگر خشک ہو اور اس کا عين جزء زائل ہوگيا ہو تو نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٣٢ اگر کسی کا بال، پسينہ، منہ کا لعاب یا ناک کا پانی نمازی کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح موتی، موم اور شهد اس کے ہمراہ ہو تب بھی نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨٣٣ اگر کسی کو شک ہو کہ لباس حلال گوشت جانور سے تيار کيا گيا ہے یا حرام گوشت جانور سے تو خواہ وہ اسلامی مملکت ميں تيار کيا گيا ہو یا غير اسلامی مملکت ميں ، اس کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨٣ ۴ سيپ اور اس سے بنائی گئی چيزوں مثلاً قميص کے بٹن کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے ۔

پهن کر نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں اور ( MINK FUR ) مسئلہ ٨٣ ۵ سمور کا خالص لباس احتياط واجب یہ ہے کہ گلهری کی پوستين کے ساته نماز نہ پڑھے۔

مسئلہ ٨٣ ۶ اگر کوئی شخص ایسے لباس کے ساته نماز پڑھے جس کے متعلق نہ جانتا ہو یا بھول گيا ہو کہ حرام گوشت جانور سے تيار ہوا ہے تو دوبارہ نماز پڑھنا ضروری نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور جاہل قاصر کا بھی یهی حکم ہے ۔

پانچويں شرط

مسئلہ ٨٣٧ مردوں کے لئے زر دوزی کيا ہوا لباس پهننا حرام ہے اور اس کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ، ليکن عورتوں کے لئے نماز ميں یا نماز کے علاوہ اس کے پهننے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٣٨ مردوں کے لئے سونا پهننا مثلاً گلے ميں سونے کی زنجير پهننا، سونے کی گهڑی کلائی پر باندهنا، سونے کی عينک لگانا، سونے کی انگوٹھی ہاتھ ميں پهننا اور ان جيسی چيزوں کا استعمال حرام اور ان کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ، ليکن عورت کے لئے نماز ميں اور نماز کے علاوہ بھی ان چيزوں کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٣٩ اگر کوئی مرد نہ جانتا ہو یا بھول گيا ہو کہ مثلاً اس کی انگوٹھی یا لباس سونے کا ہے یا شک رکھتا ہو اور ان کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511