توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214197 / ڈاؤنلوڈ: 4725
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

توضيح المسائل

حضرت آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد

خراسانی مدظلہ العالی

ناشر: مدرسة الامام الباقر العلوم عليہ السلام

دوسرا ایڈیشن: ١ ۴ ٢٨ ه، مطابق ٢٠٠٧

پریس: نگارش

ملنے کا پتہ: قم، صفائيہ روڈ، گلی نمبر ٣٧ ، مکان نمبر ٢١ ، ٹيليفون: ٧٧ ۴ ٣٢ ۵۶ ۔ ٠٢ ۵ ١

۳

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ا

َلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَ الصَّلوٰةُ وَ السَّلاَمُ عَلیٰ ا شَْٔرَفِ اْلا نَْٔبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ الطَّيِّبِيْنَ

الطَّاهِرِیْنَ لاَ سِيِّمَا بَقِيَّةِ اللّٰهِ فِي اْلا رََٔضِيْنَ، وَ اللَّعْنَةُ الدَّائِمَةُ عَلٰی ا عَْٔدَائِهِمْ اَجْمَعِيْنَ

تقليد کے احکام

مسئلہ ١انسان کے لئے ضروری ہے کہ اصولِ دین اسلام پراس کے عقيدے کی بنياد یقين پر ہو۔

اصول دین ميں تقليد یعنی یقين حاصل کئے بغير کسی کی پيروی کرنا، باطل ہے ، ليکن احکام دین ميں ضروری اور قطعی امور اور اسی طرح وہ موضوعات جو دليل کے محتاج ہيں ، کے علاوہ ضروری ہے کہ:

١)یا خود مجتهد ہو کہ اپنی ذمہ داریوں کو دليل کے ساته جان سکے۔

٢)یا کسی ایسے مجتهدکے احکامات پرعمل کرے(تقليد کرے)جس کی شرائط کاتذکرہ آئندہ بيان ہوگا۔

٣)یا احتياط کرتے ہوئے اپنا فریضہ اس طرح انجام دے کہ اسے اپنی ذمہ داری پوری ہونے کا یقين ہوجائے مثلاً اگر چند مجتهد کسی عمل کو حرام قرار دیں اور چند دوسروں کا کهنا ہو کہ حرام نہيں ہے تو اس عمل سے باز رہے اور اگر کسی عمل کو بعض مجتهد واجب اور بعض جائز سمجھتے ہوں تو اس عمل کو بجالائے، لہٰذا جو اشخاص نہ تو مجتهد ہوں اور نہ ہی احتياط پر عمل پيرا ہوسکيں ان کے لئے واجب ہے کہ تقليد کریں۔

مسئلہ ٢گذشتہ ميں بيان کی گئی چيزوں ميں تقليد کامطلب یہ ہے کہ کسی مجتهد کے فتوے پر عمل کيا جائے اور مقلدکے لئے ایسے مجتهد کا قول حجّت ہے جو:

١) مرد

٢) عاقل

٣) شيعہ اثناء عشری

۴) حلال زادہ

۵) زندہ : اگرچہ مقلد نے مميز ہونے کے زمانے ميں مجتهد کو پایا ہو

۶) عادل

٧) بنا بر احتياط واجب بالغ ہو۔

۴

عادل وہ شخص ہے جو ان اعمال کو بجالائے جو اس پر واجب ہيں اور ان باتوں کو ترک کردے جو اس پر حرام ہيں ۔

عادل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بظاہر ایک اچھا شخص ہو کہ اگر اس کے اہل محلہ یا ہمسایوں یا ا س سے ميل جول رکھنے والے افراد سے اس کے بارے ميں دریافت کيا جائے تو وہ اس کی اچھائی کی تصدیق کریں۔

اگر در پيش مسائل ميں مجتهدین کے فتوے مختلف ہونے کا، مجملاً ہی سهی، علم ہو تو ضروری ہے کہ اس مجتهد کی تقليد کی جائے جو اعلم ہو یعنی اپنے زمانے کے دوسرے مجتهدوں کے مقابلے ميں احکام الهی اور مقررہ ذمہ داریوں کو عقلی اور شرعی دليلوں کے ذریعے سمجھنے کی بہتر صلاحيت رکھتا ہو، سوائے اس کے کہ غير اعلم کا قول احتياط کے مطابق ہو۔

مسئلہ ٣مجتهد اور اعلم کی پہچان چند طریقوں سے ہو سکتی ہے :

١)انسان کو خود یقين ہو جائے مثلاً وہ خوداتنا صاحب علم ہو کہ مجتهد اوراعلم کو پہچان سکے۔

٢)دو ایسے عالم اور عادل افراد جو مجتهد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحيت رکھتے ہوں کسی کے مجتهد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطيکہ دو ایسے ہی عالم اور عادل اشخاص ان کی تردید نہ کریں۔

اور اقویٰ یہ ہے کہ کسی کا مجتهد یا اعلم ہونا ایک ایسے قابل اعتماد شخص کے قول سے بھی ثابت ہو جاتا ہے جو اہل خبرہ سے ہو جب کہ اس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو۔

٣)کچه اہل علم جو مجتهد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحيت رکھتے ہوں اور ان کی بات سے اطمينان آجاتا ہو کسی کے مجتهد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں۔

مسئلہ ۴ اگر در پيش فتاویٰ ميں دو یا زیادہ مجتهدین کے درميان، اجمالاً ہی سهی، اختلاف کا علم ہو تو اگر خود علم رکھتا ہو یا حجتِ شرعيہ اس بات پر قائم ہوجائے کہ دونوں علم کے اعتبار سے مساوی ہيں تو ضروری ہے کہ اس کے فتوے پرعمل کرے جس کا فتویٰ احتياط کے مطابق ہو اور اگر ان ميں سے کسی کا فتویٰ احتياط کے مطابق نہ ہومثلاً ایک پوری نماز پڑھنے کا فتویٰ دے جب کہ دوسرا قصر نماز پڑھنے کا فتویٰ دے تو ضروری ہے کہ احتياط کرتے ہوئے دونوں کے مسائل پر عمل کرے۔

اور اگر احتياط ممکن نہ ہو، مثلاًایک مجتهد کسی عمل کے واجب ہونے کا فتویٰ دے جب کہ دوسرا اسی کے حرام ہونے کا فتویٰ دے یا احتياط پر عمل کرنا مشقت کا باعث ہو تو احتياط کی بنا پر اس کے فتوے پر عمل کرے جو فتویٰ دینے ميں زیادہ صاحبِ ورع ہو اور اگر ورع کے اعتبار سے بھی مساوی ہوں تو پھر اختيار ہے کہ جس کے فتوے پر چاہے عمل کرے۔ یهی حکم اس صورت ميں بھی لگے گا کہ جب کسی ایک کے اعلم ہونے کا یقين ہو ليکن معيّن نہ ہو کہ کون اعلم ہے یا کسی ایک کے اعلم ہونے کا احتمال ہو، جب کہ احتيا ط پر عمل کرنا ممکن ہو اور مشقت کا باعث نہ ہو۔

۵

پس اگر احتياط کرنا ممکن نہ ہو یا مشقت کا باعث ہو تو پهلی صورت ميں ، جب کہ کسی ایک کے اعلم ہونے کا یقين ہے ليکن معين نہيں ہے کہ کون اعلم ہے ، اگر کسی ایک ميں اعلميت کا احتمال زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے اور اگر دونوں ميں اعلميت کا احتمال برابر ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ جو فتویٰ دینے ميں زیادہ صاحب ورع ہو اس کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے اور اگر اس اعتبار سے بھی مساوی ہوں تو پھر اختيار ہے کہ ان دو ميں سے جس کی چاہے تقليد کرلے۔

اور دوسری صورت ميں ، کہ جب اعلم کے وجود کا احتمال ہو، احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جس کے بارے ميں اعلم ہونے کا گمان یا احتمال ہو یا جس کے بارے ميں اعلميت کا احتمال زیادہ قوی ہو اس کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے ورنہ احتياط واجب کی بنا پر فتویٰ دینے کے معاملے ميں زیادہ صاحب ورع کے فتاویٰ پر عمل کرے اور اگر اس اعتبار سے بھی مساوی ہوں تو اختيار ہے کہ کسی کے بھی فتاویٰ پر عمل کرے۔

مسئلہ ۵ کسی مجتهد کا فتویٰ حاصل کرنے کے چار طریقے ہيں :

١)خود مجتهد سے ( اس کا فتویٰ) سننا۔

٢)ایسے دو عادل اشخاص سے سننا جو مجتهد کا فتویٰ بيان کریں۔

٣)مجتهد کا فتویٰ کسی قابل اعتماد شخص سے سننا جس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، یا اس کی بات پر اطمينان ہو۔

۴) اس فتوے کامجتهد کی مسائل کے بارے ميں تحریرکردہ کتاب ميں پڑھنا بشرطيکہ اس کتاب کے درست ہونے کے بارے ميں اطمينان ہو۔

مسئلہ ۶ جب تک انسان کو یہ یقين نہ ہو جائے کہ مجتهد کا فتویٰ تبدیل ہو چکا ہے وہ اس مسئلے پر عمل کر سکتا ہے اور اگر فتوے کے بدلے جانے کا احتمال ہو تو چھان بين ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٧اگر مجتهد اعلم کسی مسئلے ميں کوئی فتویٰ دے تو جس شخص کی ذمہ داری اس مجتهد کی تقليد کرنا ہے ، اس مسئلے ميں کسی دوسرے مجتهد کے فتوے پر عمل نہيں کر سکتا، ليکن اگر وہ مجتهد اعلم فتویٰ نہ دے بلکہ یہ فرمائے کہ احتياط اس ميں ہے کہ یوں عمل کيا جائے مثلاً یہ فرمائے کہ احتياط اس ميں ہے کہ چار رکعتی نماز کی تيسری اور چوتھی رکعت ميں تين مرتبہ کهے :سُبْحَانَ اللّهِ وَالْحَمْدُ لِلّهِ وَلاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّهُ وَ اللّهُ ا کَْٔبَر ، تو مقلد کے لئے ضروری ہے کہ یا تو اس احتياط پر، جسے احتياط واجب کہتے ہيں ، عمل کرے یا کسی ایسے دوسرے مجتهد کے فتوے پرجو اس کے بعد دوسروں کے مقابلے ميں اعلم ہو، عمل کرے جو ایک مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنے کو کافی سمجھتا ہو۔

۶

اسی طرح اگر مجتهد اعلم کسی مسئلے کے بارے ميں یہ فرمائے کہ محل تامل یامحل اشکال ہے تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

اور اس رسالے ميں تحریر کئے گئے مستحبات کو انجام دیتے اور مکروہات کو ترک کرتے وقت رجاء کی نيت کی جائے۔

مسئلہ ٨اگر مجتهد اعلم کسی مسئلے ميں فتویٰ دینے کے بعد یا اس سے پهلے احتياط کا تذکرہ کرے مثلاً یہ فرمائے کہ نجس برتن ایسے پانی ميں جس کی مقدار ایک کُرکے برابر ہو ایک مرتبہ دهونے سے پاک ہو جاتا ہے اگر چہ احتياط اس ميں ہے کہ تين مرتبہ دهوئے، تو مقلد کو اس بات کی اجازت ہے کہ اس احتياط کو جسے احتياطِ مستحب کہتے ہيں ترک کر دے۔

مسئلہ ٩وہ مجتهد جس کی تقليد کرنا انسان کی ذمہ داری تھی اگر اس دنيا سے انتقال کر جائے تو اس صورت ميں کہ فوت شدہ مجتهد کے مقابلے ميں زندہ مجتهد کا اعلم ہونا اس کے نزدیک ثابت ہوجائے، در پيش مسائل ميں اگر زندہ اور فوت شدہ مجتهد کے فتاویٰ ميں ۔اجمالاً ہی سهی۔اختلاف کا علم ہو تو واجب ہے کہ زندہ کے مسائل پر عمل کرے اور اگر ميت کا اعلم ہونا اس کے نزدیک ثابت تھا تو جب تک زندہ کا اعلم ہونا اس کے نزدیک ثابت نہ ہو جائے ضروری ہے کہ فوت شدہ مجتهد کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے، چاہے اس کی زندگی ميں اس کے فتوے پر عمل کرنے کا ملتزم تھا یا نہيں ، چاہے اس کی زندگی ميں اس کے فتاویٰ پر عمل کيا ہو یا نہ کيا ہواور چاہے اس کی زندگی ميں اس کے فتاویٰ کو سيکها ہو یا نہ سيکها ہو۔

مسئلہ ١٠ اگر کسی مسئلے ميں ایک شخص کی ذمہ داری یہ ہو کہ زندہ مجتهد کے فتوے کے مطابق عمل کرے تو وہ اس مسئلے ميں دوبارہ فوت شدہ مجتهد کی تقليد نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ١١ جو مسائل انسان کو عموماً در پيش آتے ہوں ان کا سيکهنا واجب ہے ۔

مسئلہ ١٢ اگر کسی شخص کو کوئی ایسا مسئلہ پيش آئے جس کا حکم اسے معلوم نہ ہو تو ضروری ہے کہ احتياط کرے یا مذکورہ شرائط کے مطابق تقليد کرے، ليکن اگر اسے اعلم اور غير اعلم کی آراء کے مختلف ہونے کا، مجملاً ہی سهی، علم ہو اوراعلم کے فتوے تک رسائی نہ ہواور اعلم کا فتویٰ معلوم ہونے تک تاخير کرنا یا احتياط پر عمل کرنا ممکن نہ ہو یا حرج کا سبب ہو تو غير اعلم کی تقليد جائز ہے ۔

مسئلہ ١٣ اگر کوئی شخص کسی مجتهد کا فتویٰٰ کسی دوسرے شخص کو بتائے اور پھر مجتهد اپنا سابقہ فتویٰ بدل دے تو اُس کے لئے اُس دوسرے شخص کو فتوے کی تبدیلی کی اطلاع دینا ضروری نہيں ،ليکن اگر فتویٰ بتانے کے بعد یہ معلوم ہوکہ فتویٰ بتانے ميں غلطی ہوگئی ہے تواگراس کی وجہ سے وہ شخص کسی حکمِ الزامی(واجب/حرام) کی مخالفت ميں پڑ رہا ہو تو جهاں تک ممکن ہو اس غلطی کا ازالہ ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ اگر کوئی مکلف ایک مدت تک بغير کسی کی تقليدکئے اعمال بجالاتارہے تو اگر اس کا عمل واقع کے مطابق ہویااس مجتهد کے فتاویٰ کے مطابق ہو کہ جس کی تقليدکرنافی الحال اس کی ذمہ داری ہے تواس کے اعمال صحيح ہيں ۔

۷

احکام طهارت

مطلق اور مضاف پانی

مسئلہ ١ ۵ پانی یا مطلق ہوتا ہے یا مضاف۔ مضاف پانی وہ ہوتا ہے جسے کسی چيز سے حاصل کيا جائے، مثلاًتربوز کا پانی یا گلاب کا عرق۔ اس پانی کو بھی مضاف کہتے ہيں جو کسی دوسری چيز سے ملا ہوا ہومثلاً وہ پانی جو اس حد تک مٹی وغيرہ سے ملا ہوا ہو کہ پھر اسے پانی نہ کها جاسکے ۔

ان کے علاوہ جو پانی ہو اسے ’آب مطلق‘ کہتے ہيں اور اس کی پانچ قسميں ہيں :

١)کرُ پانی

٢)قليل پانی

٣)جاری پانی

۴) بارش کاپانی

۵) کنویں کا پانی

١۔ کرُ پانی

مسئلہ ١ ۶ پانی کی وہ مقدار ایک کُر ہے جو ایک ایسے برتن کو بھر دے جس کی لمبائی، چوڑائی اور گهرائی تين تين بالشت ہو۔

مسئلہ ١٧ کوئی عين نجس چيز مثلاً پيشاب یا خون یا وہ چيز جو نجس ہوگئی ہو جےسے کہ نجس لباس، اگر ایسے پانی ميں گرجائے جس کی مقدار ایک کُرکے برابر ہو اور اس کے نتیجے ميں پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ بدل جائے تو پانی نجس ہوجائے گا، ليکن اگر ایسی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو نجس نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١٨ کرُ پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ اگر نجاست کے علاوہ کسی اور چيز سے تبدیل ہوجائے تو وہ پانی نجس نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١٩ کوئی عين نجس چيز مثلاً خون، اگر ایسے پانی ميں جا گرے جس کی مقدار ایک کرُ سے زیادہ ہو اور اس کے ایک حصے کی بو، رنگ یا ذائقہ تبدیل کر دے تو اس صورت ميں اگر پانی کے اس حصّے کی مقدار جس ميں کوئی تبدیلی واقع نہيں ہوئی ایک کُر سے کم ہو تو سارا پانی نجس ہوجائے گا ليکن اگر اس کی مقدار ایک کُر یا اُس سے زیادہ ہو تو صرف وہ حصّہ نجس ہوگا جس کی بو، رنگ یا ذائقہ تبدیل ہوا ہے ۔

۸

مسئلہ ٢٠ فوارے کا پانی اگر کرُ پانی سے متصل ہوتو نجس پانی کو پاک کردیتا ہے ليکن اگر نجس پانی پر فوارے کا پانی قطروں کی صورت ميں گرے تو اسے پاک نہيں کرتا، البتّہ اگر فوارے کے سامنے کوئی چيز رکھ دی جائے جس کے نتیجے ميں اس کا پانی قطرہ قطرہ ہونے سے پهلے نجس پانی سے متصل ہوجائے تو نجس پانی کو پاک کردیتا ہے اوراحتياطِ مستحب يہ ہے کہ فوارے کا پانی نجس پانی سے مخلوط ہوجائے۔

مسئلہ ٢١ اگر کسی نجس چيز کوکرُپانی سے متصل نل کے نيچے دهوئيں اور اس چيز کی دهوون اس پانی سے متصل ہوجائے جس کی مقدار ایک کُر سے کم نہ ہو تو وہ دهوون پاک ہوگی بشرطیکہ اس ميں نجاست کی بو، رنگ یا ذائقہ پيدا نہ ہو۔

مسئلہ ٢٢ اگر کُر پانی کا کچھ حصّہ جم کر برف بن جائے اور جو حصّہ پانی کی شکل ميں باقی رہے اس کی مقدار ایک کرُ سے کم ہو تو جونهی کوئی نجاست اس پانی کو چھوئے گی وہ نجس ہوجائے گا اور برف پگهلنے پر جو پانی بنتا جائے گا وہ بھی نجس ہوگا۔

مسئلہ ٢٣ اگر پانی کی مقدار ایک کرُ کے برابر ہو اور بعد ميں شک ہو کہ آیا اب بھی کرُ کے برابر باقی ہے یا نہيں تو اس کی حيثيت ایک کرُ پانی ہی کی ہوگی یعنی وہ نجاست کو بھی پاک کرے گا اور نجاست کے اتّصال سے نجس بھی نہيں ہوگا۔ اس کے برعکس جو پانی ایک کرُ سے کم تھا اگر اس کے متعلق شک ہو کہ اب اس کی مقدار ایک کُرکے برابر ہوگئی ہے یانہيں تو اسے ایک کُرسے کم ہی سمجھا جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۴ پانی کا ایک کُر کے برابر ہونا چند طریقوں سے ثابت ہو سکتا ہے :

١) انسان کو خود اس بارے ميں یقین یا اطمينان ہو۔

٢) دو عادل مرد اس کے بارے ميں خبر دیں۔

٣)کوئی قابلِ اعتماد شخص خبر دے کہ جس کی کهی ہوئی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو۔

۴) جس شخص کے اختيار ميں پانی ہے وہ اطلاع دے جب کہ اسے جھوٹا نہ کها جاتا ہو۔

٢۔ قليل پانی

مسئلہ ٢ ۵ قليل پانی، وہ پانی ہے جو زمين سے نہ اُبلے اور جس کی مقدار ایک کُرسے کم ہو۔

مسئلہ ٢ ۶ جب قليل پانی کسی نجس چيزپرگرے یاکوئی نجس چيزاس سے آملے توپانی نجس ہوجائے گا، البتّہ اگر پانی نجس چيزپرزورسے گرے تواس کاجتناحصّہ اس نجس چيزسے مل جائے گانجس ہوجائے گاليکن باقی پاک رہے گا۔

۹

مسئلہ ٢٧ جو قليل پانی کسی چيز پر عین نجاست دُور کرنے کے لئے ڈالا جائے وہ اس سے جداہونے پر نجس ہوتا ہے ، ليکن وہ قليل پانی جو عین نجاست کے الگ ہوجانے کے بعد نجس چيز کو پاک کرنے کے لئے اس پر ڈالا جائے اور اس سے جدا ہوجائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨ جس پانی سے پيشاب یا پاخانہ کے خارج ہونے کے مقامات دهوئے جائيں وہ اگر مندرجہ ذیل پانچ شرائط پوری کرتا ہو تو کسی پاک چيز سے ملنے پر اُسے نجس نہيں کرے گا :

١) پانی ميں نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ پيدا نہ ہوا ہو۔

٢)باہر سے کوئی نجاست اس پانی سے نہ آملی ہو۔

٣)کوئی اور نجاست مثلاً خون، پيشاب یا پاخانے کے ساته خارج نہ ہوئی ہو۔

۴) بنابر احتياط پاخانے کے ذرّے پانی ميں دکهائی نہ دیں۔

۵) پيشاب یا پاخانہ خارج ہونے کے مقامات پر معمول سے زیادہ نجاست نہ لگی ہو۔

٣۔ جاری پانی

جاری پانی وہ ہے جو زمين سے اُبلے اور بہتا ہو مثلاً چشمے یا کارےز کا پانی۔

مسئلہ ٢٩ جاری پانی اگرچہ کُرسے کم ہی کیوں نہ ہو، نجاست کے آملنے سے جب تک نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ نہ بدل جائے پاک ہے ۔

مسئلہ ٣٠ اگر نجاست جاری پانی سے آملے تو اس کی اتنی مقدار جس کی بُو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل جائے نجس ہے ، البتہ اس پانی کا وہ حصّہ جو چشمے سے متصل ہو پاک ہے خواہ اس کی مقدار کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو، جب کہ ندی کی دوسری طرف کا پانی اگر ایک کُر جتنا ہو یا اس پانی کے ذریعے جس ميں (بُو، رنگ یا ذائقے کی) کوئی تبدیلی واقع نہيں ہوئی چشمے کی طرف کے پانی سے ملا ہو تو پاک ہے ورنہ نجس ہے ۔

مسئلہ ٣١ اگر کسی چشمے کا پانی جاری نہ ہو ليکن صورت يہ ہو کہ اگر اس ميں سے پانی نکال ليں تو دوبارہ اس کا پانی اُبل پڑتا ہو تو وہ بھی جاری پانی کے حکم ميں آتا ہے یعنی اگر نجاست اس سے آملے تو جب تک نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ بدل نہ جائے پاک ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ندی یا نہر کے کنارے کا پانی جو ساکن ہو اور جاری پانی سے متصل ہو اس وقت تک نجس نہيں ہوتا جب تک کسی نجاست کے آملنے کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے۔

۱۰

مسئلہ ٣٣ اگر ایک ایسا چشمہ ہو جو مثال کے طور پر سردیوں ميں پهوٹتا ہو ليکن گرمیوں ميں پهوٹنا بند ہوجاتا ہو، صرف پهوٹتے وقت جاری پانی کا حکم رکھتاہے۔

مسئلہ ٣ ۴ اگر کسی حمام کے حوضچے کا پانی ایک کُر سے کم ہو ليکن وہ پانی کے ایک ایسے ذخیرے سے متصل ہو جس کا پانی حوض کے پانی سے مِل کر ایک کُر بن جاتا ہو، جاری پانی کی طرح ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ حمام اور عمارات کے پائپوںکا پانی جو ٹونٹیوں اور شاور کے ذریعے بہتا ہے اگر ایسے ذخیرے سے متصل ہو جس کا پانی ایک کُر سے کم نہ ہو تو نلکوں وغيرہ کا پانی، جاری پانی کا حکم رکھتا ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶ جو پانی زمين پر بہہ رہا ہو ليکن زمين سے نہ پهوٹتا ہو اگر وہ ایک کُر سے کم ہو اور اس ميں نجاست مِل جائے تو وہ نجس ہوجائے گا، ليکن اگر وہ پانی تيزی سے بہہ رہا ہواور نجاست اس کے نچلے حصے کو لگے تو اس کا اوپر والا حصہ نجس نہيں ہوگا۔

۴ ۔ بارش کا پانی

مسئلہ ٣٧ جس نجس چيز ميں عین نجاست نہ ہو اگر اس پر ایک مرتبہ بارش ہو جائے تو جهاں جهاں بارش کا پانی پهنچ جائے وہ جگہ پاک ہو جاتی ہے اورقالين و لباس وغيرہ کا نچوڑنا بھی ضروری نہيں ہے ، ليکن بارش کے دو تین قطرے کافی نہيں ہيں بلکہ اتنی بارش ضروری ہے کہ کها جائے کہ بارش ہو رہی ہے ، بلکہ احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اتنی بارش ہو کہ اگر سخت زمين ہو تو پانی بهنا شروع ہوجائے۔

مسئلہ ٣٨ اگر بارش کا پانی عين نجس پر برسے اور پھر وہاں سے رِس کر دوسری جگہ پهنچے ليکن عین نجاست اس ميں شامل نہ ہو اور نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ بھی اس ميں پيدا نہ ہوا ہو تو وہ پانی پاک ہے ، پس اگر بارش کا پانی خون پر برسنے کے بعد رِسے اور اس ميں خون کے ذرّات شامل ہوں یا خون کی بُو، رنگ یا ذائقہ پيدا ہوگيا ہو تو وہ پانی نجس ہوگا۔

مسئلہ ٣٩ اگر مکان کی نچلی یا بالائی چھت پر عین نجاست موجود ہو تو بارش کے دوران جو پانی نجاست کو چُھو کر نچلی چھت سے ٹپکے یا پرنالے سے گرے پاک ہے ، ليکن جب بارش تھم جائے اور يہ بات علم ميں آئے کہ اب جو پانی گر رہا ہے وہ کسی نجس چيز سے لگ کر آرہا ہے تو وہ پانی نجس ہوگا۔

مسئلہ ۴ ٠ جس نجس زمين پر بارش برس جائے پاک ہوجاتی ہے اور اگر بارش کا پانی زمين پر بهنے لگے اور بارش کے دوران ہی کسی ایسے نجس مقام پر پهنچ جائے جوچھت کے نيچے ہو تو اسے بھی پاک کردے گا۔

مسئلہ ۴ ١ جس نجس مٹی کے اجزاء تک بارش کا مطلق پانی پهنچ جائے تو مٹی پاک ہوجائے گی چاہے بارش کی وجہ سے کےچڑ ہی بن جائے۔

۱۱

مسئلہ ۴ ٢ اگر بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہوجائے خواہ اس کی مقدار ایک کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو، اگر بارش کے دوران ہی کوئی نجس چيز اس ميں دهوئی جائے اور نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل نہ ہو تو وہ نجس چيز پاک ہوجائے گی۔

مسئلہ ۴ ٣ اگر نجس زمين پر بچهے ہوئے پاک قالين پر بارش برسے اور اس کا پانی نجس زمين تک پهنچ جائے تو فرش بھی نجس نہيں ہوگا اور زمين بھی پاک ہوجائے گی۔

مسئلہ ۴۴ اگر بارش کا پانی ایک گڑھے ميں جمع ہوجائے اور اس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو تو بارش تھمنے کے بعد نجاست کی آمیزش سے نجس ہوجائے گا۔

۵ ۔ کنويں کا پانی

مسئلہ ۴۵ ایک ایسے کنویں کا پانی جو زمين سے اُبلتا ہو اگرچہ مقدار ميں ایک کُر سے کم ہو، نجاست پڑنے پر جب تک اس نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے پاک ہے ، ليکن مستحب ہے کہ بعض نجاستوں کے گرنے پر کنویں سے تفصيلی کتابوں ميں درج شدہ مقدار کے مطابق پانی نکال دیا جائے۔

مسئلہ ۴۶ اگر کوئی نجاست کنویں ميں گر جائے اور اس کے پانی کی بُو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کر دے تو جب کنویں کے پانی ميں پيدا شدہ يہ تبدیلی ختم ہوجائے گی پانی پاک ہوجائے گا اوراحتياطِ مستحب يہ ہے کہ يہ پانی کنویں کے منبع سے اُبلنے والے پانی ميں مخلوط ہوجائے۔

پانی کے احکام

مسئلہ ۴ ٧ مضاف پانی، جس کے معنی مسئلہ” ١ ۵ “ ميں بيان ہوچکے ہيں ، کسی نجس چيز کو پاک نہيں کرتا۔ ایسے پانی سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨ مضاف پانی چاہے قليل ہو یا کثير، نجاست سے ملنے پر نجس ہوجاتا ہے اگرچہ اس حکم کا بعض کثیر تعداد کے مضاف پانيوں کے لئے بھی عام ہونا محل اشکال ہے ، البتہ اگر ایسا پانی کسی نجس چيز پر زور سے گرے تو اس کا جتنا حصّہ نجس چيز سے متصل ہوگا نجس ہوجائے گا اور جو متصل نہيں ہوگا پاک رہے گا مثلاً اگر عرقِ گلاب کو گلابدان سے نجس ہاتھ پر چھڑکا جائے تو اس کا جتنا حصّہ ہاتھ کو لگے گا نجس ہوجائے گا اور جو نہيں لگے گا وہ پاک رہے گا۔

مسئلہ ۴ ٩ اگرنجس مضاف پانی ایک کُر کے برابر پانی یا جاری پانی سے یوں مل جائے کہ پھر اسے مضاف پانی نہ کها جاسکے تو وہ پاک ہوجائے گا۔

۱۲

مسئلہ ۵ ٠ اگر ایک پانی مطلق تھا اور بعد ميں اس کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ مضاف ہوجانے کی حد تک پهنچا ہے یا نہيں تو وہ مطلق پانی کی طرح ہے ، یعنی نجس چيز کو پاک کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی صحيح ہوگا اور اگرایک پانی مضاف تھا اور يہ معلوم نہ ہو کہ وہ مطلق ہوا یا نہيں تو وہ مضاف پانی کی طرح ہے ، یعنی کسی نجس چيز کو پاک نہيں کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہوگا۔

مسئلہ ۵ ١ ایسا پانی جس کے بارے ميں يہ معلوم نہ ہوکہ مطلق ہے یامضاف اور يہ بھی معلوم نہ ہو کہ پهلے مطلق تھا یا مضاف، نجاست کوپاک نہيں کرتااوراس سے وضو و غسل کرنا بھی باطل ہے ،ليکن اگر وہ ایک کرُ یا اس سے زیادہ ہو تو نجاست ملنے کی صورت ميں بھی اس پر پاک پانی کا حکم لگے گا۔

مسئلہ ۵ ٢ ایسا پانی جس ميں کوئی عينِ نجاست مثلاً خون یا پيشاب گر جائے اور اس کی بُو،رنگ یا ذائقے کو تبدیل کردے نجس ہوجاتا ہے خواہ وہ کُر یا جاری پانی ہی کيوں نہ ہو، تاہم اگر اس پانی کی بُو، رنگ یا ذائقہ کسی ایسی نجاست سے تبدیل ہو جو اس سے باہر ہے مثلاً قر ےب پڑے ہوئے مردار کی وجہ سے اس کی بُو، بدل جائے تو پھر وہ پانی نجس نہيں ہوگا۔

مسئلہ ۵ ٣ وہ پانی جس کی بُو، رنگ یا ذائقہ کسی عينِ نجس مثلاً خون یا پيشاب گرنے کی وجہ سے تبدیل ہو چکاہو، اگر کُر یا جاری پانی سے متصل ہوجائے یا اس پر بارش کا پانی برسے یا ہوا،بارش کا پانی اس پر گرائے یا بارش کا پانی بارش کے دوران ہی پرنالے سے اس پر گرے اور ان تمام صورتوں ميں اس ميں واقع شدہ تبدیلی زائل ہوجائے تو ایسا پانی پاک ہوجاتا ہے ، ليکن احتياطِ مستحب یہ ہے کہ بارش کا پانی یاکُر یا جاری پانی اس نجس پانی ميں مخلوط ہوجائے۔

مسئلہ ۵۴ اگر کسی نجس چيز کو کُر یا جاری پانی ميں پاک کيا جائے تو جس دهونے ميں وہ چيز پاک ہوتی ہے اس کے بعد وہ پانی جو باہر نکالنے کے بعد اس چيزسے ٹپکے، پاک ہوگا۔

مسئلہ ۵۵ جو پانی پهلے پاک ہو اور يہ علم نہ ہو کہ بعد ميں نجس ہوا یا نہيں وہ پاک ہے اور جو پانی پهلے نجس ہو اور معلوم نہ ہو کہ بعد ميں پاک ہوا یا نہيں وہ نجس ہے ۔

مسئلہ ۵۶ کتے، سو رٔاور غیر کتابی کافرکا جھوٹا نجس ہے اور اس کا کھانا اور پینا حرام ہے مگر حرام گوشت جانوروں کا جھوٹا پاک ہے اور بلّی کے علاوہ اس قسم کے باقی تمام جانوروں کا جھوٹا کھانا اور پینا مکروہ ہے ۔

۱۳

بيت الخلاء کے احکام

مسئلہ ۵ ٧ انسان پر واجب ہے کہ پيشاب اور پاخانہ کرتے وقت اور دوسرے مواقع پر اپنی شرمگاہوں کو ان لوگوں سے جو اچھے اور برے کی تميز رکھتے ہوںخواہ وہ اس کے محرم ہی کیوں نہ ہوں، چاہے مکلف ہوں یا نہ ہوں، چھپا کر رکھے، ليکن بيوی اور شوہر کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو بيوی اور شوہر کے حکم ميں آتے ہيں مثلاً کنیز اور اس کے مالک کے لئے ، اپنی شرمگاہوں کو ایک دوسرے سے چھپا نا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ۵ ٨ اپنی شرمگاہوں کو کسی مخصوص چيز سے ڈهانپنا ضروری نہيں مثلاً اگر ہاتھ سے بھی ڈهانپ ليا جائے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ پيشاب یا پاخانہ کرتے وقت ضروری ہے کہ بدن کا اگلا حصّہ یعنی پيٹ اور سینہ روبہ قبلہ یا پشت بقبلہ نہ ہو۔

مسئلہ ۶ ٠ اگر پيشاب یا پاخانہ کرتے وقت کسی شخص کے بدن کا اگلا حصہ رو بقبلہ یا پشت بقبلہ ہو اور وہ اپنی شرمگاہ کو قبلے کی طرف سے موڑلے تو يہ کافی نہيں ہے اور اگر اس کے بدن کا اگلا حصّہ روبقبلہ یا پشت بقبلہ نہ ہو تو احتياطِ واجب يہ ہے کہ شرمگاہ کو روبقبلہ یا پشت بقبلہ نہ موڑے۔

مسئلہ ۶ ١ احتياطِ مستحب يہ ہے کہ استبرا کے موقع پر، جس کے احکام بعد ميں بيان کیئے جائيں گے اور پيشاب اور پاخانہ خارج ہونے کے مقامات کو پاک کرتے وقت بدن کا اگلا حصّہ رو بقبلہ یا پشت بقبلہ نہ ہو۔

مسئلہ ۶ ٢ اگر کيفيت یہ ہو کہ یا وہ فرد جو شرمگاہ کے حوالے سے نا محرم ہے وہ شرمگاہ پر نظر ڈالے اور یا پھر روبقبلہ یا پشت بقبلہ بيٹھے تو نا محرم سے شرمگاہ کو چھپا نا واجب ہے اور اس صورت ميں احتياطِ واجب يہ ہے کہ پشت بقبلہ بیٹھے (یعنی رو بقبلہ نہ بیٹھے)۔ اسی طرح اگر کسی اور وجہ سے رو بقبلہ یا پُشت بقبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣ احتياطِ مستحب يہ ہے کہ بچّے کو رفعِ حاجت کے لئے رُو بقبلہ یا پشت بقبلہ نہ بٹھ ایا جائے۔

مسئلہ ۶۴ چار مقامات پر رفع حاجت حرام ہے :

١) بند گليوں ميں جب کہ گلی والوں نے اس کی اجازت نہ دی ہو۔

٢)کسی ایسے شخص کی زمين ميں جس نے رفعِ حاجت کی اجازت نہ دی ہو۔

٣) ان جگہوں ميں جو مخصوص افراد کے لئے وقف ہوں مثلاً بعض مدرسے۔

۴) ہر اس جگہ جهاں رفع حاجت کسی مومن کی بے حرمتی یا دین یا مذهب کی کسی مقدس چيز کی توهين کا باعث ہو۔

۱۴

مسئلہ ۶۵ تين صورتوں ميں پاخانہ خارج ہونے کا مقام(مقعد) صرف پانی سے پاک ہوسکتا ہے :

١)پاخانے کے ساته کوئی اور نجاست مثلاً خون، باہر آئی ہو۔

٢) کوئی بيرونی نجاست پاخانے کے مخرج پر لگ گئی ہو۔

٣)پاخانے کے مخرج کے اطراف معمول سے زیادہ آلودہ ہوگئے ہوں۔

ان تین وں صورتوں کے علاوہ پاخانے کے مخرج کو یا تو پانی سے دهویا جاسکتا ہے اور یا بعد ميں بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق کپڑے یا پتّھر وغيرہ سے بھی پاک کيا جاسکتا ہے ، اگرچہ پانی سے دهونا بہتر ہے ۔

مسئلہ ۶۶ پيشاب کا مخرج پانی کے علاوہ کسی چيز سے پاک نہيں ہوتااور اسے کرُ یا جاری پانی سے ایک مرتبہ دهونا کافی ہے ، ليکن قليل پانی سے احتياط واجب کی بنا پر دو مرتبہ دهونا ضروری ہے ، جب کہ اگر پيشاب معمول کے علاوہ کسی مقام سے خارج ہو رہا ہو تو پھر اقویٰ يہ ہے کہ دو مرتبہ دهویا جائے اور بہتر يہ ہے کہ تین مرتبہ دهوئيں۔

مسئلہ ۶ ٧ اگرپاخانے کے مخرج کو پانی سے دهویا جائے توضروری ہے کہ اس ميں پاخانے کا کوئی ذرہ باقی نہ رہے، البتّہ رنگ یا بُو باقی رہ جانے ميں کوئی حرج نہيں اور اگر پهلی بار ہی وہ مقام یوںدهل جائے کہ پاخانے کا کوئی ذرّہ اس ميں باقی نہ رہے تو دوبارہ دهونا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٨ پتّھر، ڈهيلا یا کپڑا یا انهی جیسی دوسری چيزیں اگر خشک اور پاک ہوں تو ان سے پاخانہ خارج ہونے کے مقام کو پاک کيا جاسکتا ہے اور اگر ان ميں معمولی نمی بھی ہو جو پاخانہ خارج ہونے کے مقام تک نہ پهنچے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٩ احتياطِ مستحب يہ ہے کہ پتّھر، ڈهيلا یا کپڑا جس سے پاخانہ صاف کيا جائے اس کے تين ٹکڑے ہوں اورتین سے کم ميں اگر مقعد مکمل طور پر صاف ہوجائے تو اس پر اکتفاء کيا جاسکتا ہے اور اگر تين ٹکڑوں سے صاف نہ ہو سکے تواتنے مزید ٹکڑوں کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ پاخانہ خارج ہونے کا مقام بالکل صاف ہوجائے، البتہ ایسے آثار کے باقی رہ جانے ميں جو پتّھر وغيرہ جیسی چيز سے صاف کئے جانے سے عام طور پر باقی رہ جاتے ہيں ، کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٧٠ پاخانے کے مخرج کو ایسی چيزوں سے پاک کرنا حرام ہے جن کا احترام ضروری ہو مثلاً ایسا کاغذ جس پر خدا ئے تعالیٰ، پیغمبروںيا ائمہ عليهم السلام کے نام لکھے ہوںيا اس کے علاوہ ایسی چيزیں جن کا شریعت ميں احترام ضروری ہے ، ليکن اگر کوئی ان سے استنجاء کرلے تو طهارت حاصل ہوجائے گی۔

اور مخرج کا ہڈی یا گوبر سے پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

۱۵

مسئلہ ٧١ اگر شک ہو کہ پاخانہ خارج ہونے کا مقام پاک کيا ہے یا نہيں تو اسے پاک کرنا واجب ہے اگرچہ پيشاب یا پاخانہ کرنے کے بعد وہ ہمےشہ متعلقہ مقام کو فوراً پاک کرتا ہو۔

مسئلہ ٧٢ اگر نماز کے بعدشک ہو کہ آیا نماز سے پهلے مخرج کوپاک کيا تھا یا نہيں تو اگر نماز سے پهلے، طهارت سے غافل ہونے کا یقین نہ ہو تو نماز صحيح ہے جب کہ مخرج کو نجس ہوگا۔

استبراء

مسئلہ ٧٣ استبرا ایک ایساعمل ہے جو مرد پيشاب کرچکنے کے بعد اس غرض سے انجام دیتے ہيں کہ اس کے بعد نالی سے نکلنے والی رطوتبوں پر پيشاب کا حکم نہ لگے۔ اس کی کئی ترکےبيں ہيں ،جن ميں سے بہترین يہ ہے کہ پيشاب آنا بند ہوجانے کے بعدتین دفعہ بائيں ہاتھ کی درميانی انگلی کے سا ته مقعد سے لے کر عضوِ تناسل کی جڑ تک سونتے اور اس کے بعد انگهوٹے کو عضوِ تناسل کے اوپر اور انگهوٹے کے ساته والی انگلی کو اس کے نيچے رکھے اور تین بار ختنے کی جگہ تک سونتے اور پھر تین دفعہ حشفہ کو دبائے۔

مسئلہ ٧ ۴ وہ پانی جو کبهی کبهی عورت سے چھيڑ چھاڑ یا هنسی مذاق کرنے کے بعد انسان کے بدن سے خارج ہوتا ہے پاک ہے ، اسی طرح وہ پانی جو کبهی کبهارمنی کے بعد خارج ہوتا ہے جب کہ منی اس سے نہ ملی ہو اور وہ پانی بھی جو کبهی کبها رپيشاب کے بعد نکلتا ہے جب کہ پيشاب اس سے نہ ملا ہو، پاک ہے ۔

اور اگر انسان پيشاب کے بعد استبرا کرے اور پھر کوئی ایسی رطوبت خارج ہو جس کی بارے ميں شک ہوجائے کہ پيشاب ہے یا منی کے علاوہ کوئی اور رطوبت، تو اس رطوبت کو پاک ہے ۔

مسئلہ ٧ ۵ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ استبرا کيا ہے یا نہيں اور اس کے بدن سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں وہ نہ جانتا ہو کہ پاک ہے یا نہيں تو وہ نجس ہے اور اگر وہ وضو کرچکا ہو تو وہ بھی باطل ہوجائے گا، ليکن اگر اسے اس بارے ميں شک ہو کہ جو استبرا اس نے کيا تھا وہ صحيح تھا یا نہيں اورکوئی رطوبت اس کے بدن سے خارج ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ یہ رطوبت پاک ہے یا نہيں تو وہ پاک ہوگی اور اس سے وضو بھی باطل نہ ہوگا۔

مسئلہ ٧ ۶ اگر کسی شخص نے استبرا نہ کيا ہو اور پيشاب کرنے کے بعد کافی وقت گزر جانے کی وجہ سے اسے یقین یا اطمينان ہو کہ پيشاب نالی ميں باقی نہيں رہا اورکوئی ایسی رطوبت خارج ہوجس کے بارے ميں شک ہو کہ پاک ہے یا نہيں تو وہ رطوبت پاک ہے اور اس سے وضو بھی باطل نہ ہوگا۔

مسئلہ ٧٧ اگر کوئی شخص پيشاب کے بعد استبرا کر کے وضو کرلے اور اس کے بعدایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ یا پيشاب ہے یا منی تو اس پرواجب ہے کہ احتياطاً غسل کرے اور وضو بھی کرے، البتّہ اگر اس نے پهلے وضو نہ کيا ہوتو وضو کرلینا کافی ہے ۔

۱۶

مسئلہ ٧٨ عورت کے لئے پيشاب کے بعد استبرا نہيں ہے ، پس اگر کوئی رطوبت خارج ہو اور شک ہو کہ يہ پيشاب ہے یا نہيں تووہ رطوبت پاک ہوگی اور اس سے وضو یا غسل بھی باطل نہيں ہو گا۔

رفع حاجت کے مستحبات اور مکروهات

مسئلہ ٧٩ ہر شخص کے لئے مستحب ہے کہ جب وہ رفع حاجت کے لئے جائے تو :

١)ایسی جگہ بیٹھے جهاں اسے کوئی نہ دےکهے۔

٢)بيت الخلاء ميں داخل ہوتے وقت پهلے بایاں پاؤں اندر رکھے اور نکلتے وقت پهلے دایاں پاو ںٔ باہر رکھے۔

٣)رفع حاجت کے وقت سر ڈهانپ کر رکھے۔

۴) بدن کا بوجه بائيں پاوں پر ڈالے۔

مسئلہ ٨٠ رفع حاجت کے مکروہات :

١)سورج اور چاند کی جانب منہ کر کے بیٹھنا ليکن اپنی شرمگاہ کو کسی طرح ڈهانپ لے تو مکروہ نہيں ہے ۔

٢) ہوا کے رخ کے با لمقابل بيٹھنا۔

٣)گلی کوچوں ميں بيٹھنا۔

۴) راستوں ميں بيٹھنا۔

۵) مکان کے دروازے کے سامنے بيٹھنا۔

۶) ميوہ دار درخت کے نيچے بیٹھنا۔

٧)اس دوران کوئی چيز کھانا

٨)زیادہ دیر بيٹھنا

٩)سيدهے ہاتھ سے طهارت کرنا

١٠ )باتيں کرنا ليکن اگر مجبوری ہو یا ذکرِ خدا کرے جو کہ ہر حال ميں مستحب ہے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨١ کھڑے ہو کر، سخت زمين پر، جانوروں کے بِلوں ميں یا پانی ميں بالخصوص ساکن پانی ميں پيشاب کرنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٨٢ پيشاب اور پاخانہ روکنا مکروہ ہے اور اگر بدن کے لئے بطورِکلی مضر ہو تو حرام ہے ۔

مسئلہ ٨٣ نماز سے پهلے، سونے سے پهلے، مباشرت کرنے سے پهلے اور منی خارج ہونے کے بعد پيشاب کرنا مستحب ہے ۔

۱۷

نجاسات

مسئلہ ٨ ۴ دس چيزیں نجس ہيں :

(١ پيشاب

(٢ پاخانہ

(٣ منی

( ۴ مردار

( ۵ خون

( ۶ کتا

(٧ سو رٔ

(٨ کافر

(٩ شراب

(١٠ فقّاع (جَو کی شراب)

١۔ ٢) پيشاب اور پاخانہ )

مسئلہ ٨ ۵ انسان اورخونِ جهندہ رکھنے والے، یعنی اگر اس کی رگ کاٹی جائے تو خون اچھل کر نکلے، ہر حرام گوشت حيوان کا پيشاب اور پاخانہ نجس ہے اور خون جهندہ نہ رکھنے والے حرام گوشت جانور مثلاًحرام مچھلی کا پاخانہ، اسی طرح گوشت نہ رکھنے والے چھوٹے حیوانوں مثلاً مچہر اور مکهی کا فضلہ بھی پاک ہے اور احتياطِ مستحب يہ ہے کہ ایسے حرام گوشت جانور کے پيشاب سے اجتناب کيا جائے جو خونِ جهندہ نہيں رکھتا۔

مسئلہ ٨ ۶ جن پرندوں کا گوشت حرام ہے ان کا پيشاب اور فضلہ پاک ہے ليکن ان سے پرہےز احوط ہے ۔

مسئلہ ٨٧ نجاست خور حیوان کا، اس چوپائے کا جس سے کسی انسان نے بد فعلی کی ہواوراس بکری کے بچے کا پيشاب اور پاخانہ جس نے سو رٔنی کا دودھ پيا ہو، اس تفصيل کی بنا پر جو بعد ميں آئے گی، نجس ہے اور اسی طرح احتياطِ واجب کی بنا پر اس بھیڑ کے بچے کا پيشاب اور پاخانہ بھی نجس ہے جس نے سو رٔنی کا دودھ پيا ہو۔

۱۸

٣۔ منی

مسئلہ ٨٨ انسان کی اور هرخونِ جهندہ رکھنے والے حرام گوشت جانور کی منی نجس ہے ،اسی طرح احتياطِ واجب کی بناپرخونِ جهندہ رکھنے والے حلال گوشت جانوروں کی منی بھی نجس ہے ۔

۴ ۔ مردار

مسئلہ ٨٩ انسان کی اور خون جهندہ رکھنے والے ہر حیوان کی لاش نجس ہے خواہ وہ خود مرا ہو یا اسے شرع کے مقرّر کردہ طریقے کے علاوہ کسی طریقے سے مار ا گيا ہو۔

مچھلی چونکہ خون جهندہ نہيں رکھتی اس لئے پانی ميں بھی مرجائے تو پاک ہے ۔

( mink ) مسئلہ ٩٠ لاش کے وہ اجزاء جن ميں جان نہيں ہوتی پاک ہيں مثلاًاون، بال اور کُرک بشرطیکہ وہ مردار زندگی ميں نجس العين نہ ہوں۔

مسئلہ ٩١ اگرکسی انسان یا خون جهندہ رکھنے والے حیوان کے بدن سے اس کی زندگی ميں ہی گوشت یا کوئی دوسرا ایسا حصّہ جس ميں جان ہو جُدا کرليا جائے، نجس ہے ۔

مسئلہ ٩٢ اگر ہونٹوں یا کسی دوسری جگہ سے ذرا سی کھال نکال دی جائے تو وہ پاک ہے ۔

مسئلہ ٩٣ مُردہ مُرغی کے پيٹ سے جو انڈا نکلے اگر اس کا چھلکا سخت ہوگيا ہو تو پاک ہے ، ليکن مردار سے مس ہوجانے کی وجہ سے اس کا چھلکا دهونا ضروری ہے اور اگر اس کی کھال سخت نہ ہوئی ہو تو اس کے نجس ہونے ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ اگر بھیڑ یا بکری کا بچہ چرنے کے قابل ہونے سے پهلے مرجائے تو وہ پنیر مايہ جو اس کے شیر دان ميں ہوتا ہے پاک ہے ، ليکن احتياطِ واجب کی بنا پر اسے باہر سے دهونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ بهنے والی دوائياں، عطر،تيل، گهی، جوتوں کا پالش اور صابن جنہيں کافر ممالک سے لایا جاتا ہے اگر ان کی نجاست کے بارے ميں یقین نہ ہو تو پاک ہيں ۔

مسئلہ ٩ ۶ گوشت، چربی اور چمڑا اگر مسلمانوں کے بازار سے لئے جائيں تو پاک ہيں ۔ اسی طرح اگر کسی مسلمان کے ہاتھ ميں ہوں جو اس کو شرعاً ذبح شدہ جانور کے طور پر استعمال کرے،سوائے اس کے کہ اس نے کسی کافر سے حاصل کی ہواور اس بات کی تحقيق نہ کی ہو کہ آیا یہ اس جانور کے ہيں جن کو شریعت کے طریقے کے مطابق ذبح کياگيا ہے یا نہيں ۔

۱۹

۵ ۔ خون

مسئلہ ٩٧ انسان او ر خو ن جهندہ رکھنے والے ہر حيوان، یعنی وہ حیوان جس کی رگ کاٹی جائے تو اس ميں سے خون اچھل کر نکلے، کا خون نجس ہے ، پس ایسے جانوروں مثلاًمچھلی اور مچھرکا خون، جو اچھلنے والا خون نہيں رکتے پاک ہے ۔

مسئلہ ٩٨ حلال گوشت جانور کو اگر شرع کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق ذبح کيا جائے اور معمول کے مطابق اس کا خون خارج ہوجائے تو جو خون بدن ميں باقی رہ جائے وہ پاک ہے ليکن اگر جانور کے سانس لينے سے یا اس کا سراونچی جگہ پر ہونے کی وجہ سے بدن ميں پلٹ جائے تو وہ خون نجس ہوگا۔

مسئلہ ٩٩ انڈے کی زردی ميں بننے والا خون کھانا حرام ہے اور احتياط واجب کی بنا پر نجس ہے ۔

مسئلہ ١٠٠ وہ خون جو بعض اوقات دودھ دوہتے ہوئے نظر آتا ہے نجس ہے اور دودھ کو نجس کردیتا ہے ۔

مسئلہ ١٠١ منہ ميں آنے والا خون مثلاًدانتوں کی ریخوں سے نکلنے والا خون اگر لعاب دهن سے مل کر ختم ہوجائے تو لعاب دهن سے پرہيزضروری نہيں ہے اور اگر خون منہ ميں گهل کر ختم نہ ہو اور منہ سے باہر آجائے تو اس سے پرہيز کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٠٢ جو خون چوٹ لگنے کی وجہ سے ناخن یا کھال کے نيچے مر جائے اگر اس کی شکل ایسی ہو کہ لوگ اسے خون نہ کہيں تو پاک اور خون کہيں تو نجس ہوگا اور اس صورت ميں اگر کھال یا ناخن ميں سوراخ ہوجائے اور کوئی رطوبت باہر سے اس سے آملے تو وہ نجس ہو جائے گی اور اس صورت ميں اگر اس مقام سے خون کو نکال کر وضو یا غسل کے ليے پاک کرنا حرج کا باعث ہو تو تيمم کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٠٣ اگر کسی شخص کو يہ معلوم نہ ہو کہ کھال کے نيچے خون مرگيا ہے یا چوٹ لگنے کی وجہ سے گوشت نے ایسی شکل اختيار کرلی ہے تو وہ پاک ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۴ اگر کھانا پکاتے ہوئے خون کا ایک ذرّہ بھی اس ميں گر جائے تو سارے کا سارا کھانا اور برتن نجس ہوجائے گا۔ اُبال، حرارت اور آگ اُنہيں پاک نہيں کرسکتے۔

مسئلہ ١٠ ۵ جو زرد مادہ زخم کی حالت بہتر ہونے پر اس کے چاروں طرف پيدا ہوجاتا ہے اگر اس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ اس ميں خون ملا ہوا ہے تو وہ پاک ہوگا۔

۶- ۔ ٧) کتا اور سو رٔ )

مسئلہ ١٠ ۶ وہ کتا اور سو رٔ جو خشکی ميں رہتے ہيں نجس ہيں حتیٰ کہ ان کے بال، ہڈیاں،ناخن اور رطوبتيں بھی نجس ہيں ، ا لبتّہ دریائی کتا ا ور سؤر پاک ہيں ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پانچويں فصل: تقصير

يہ عمرہ كے واجبات ميں سے پانچواں ہے _

مسئلہ ۳۱۱_ سعى كو مكمل كرنے كے بعد تقصير واجب ہے اور اس سے مراد ہے سر، داڑھى يا مونچھوں كے كچھ بالوں كا كاٹنا يا ہاتھ يا پاؤں كے كچھ ناخن اتارنا _

مسئلہ ۳۱۲_ تقصير ايك عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۱۳_ عمرہ تمتع سے مُحل ہونے كيلئے سر كا منڈانا تقصير سے كافى نہيںہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اگر تقصير سے

۱۴۱

پہلے سرمنڈا لے تو اگر اس نے جان بوجھ كر ايسا كيا ہو تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ سرمنڈانے كى وجہ سے اس پر ايك بكرى كا كفارہ دينا بھى واجب ہے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو حلق اور تقصير كے درميان اسے اختيار ہے _

مسئلہ ۳۱۴_ عمرہ تمتع كے احرام سے مُحل ہونے كيلئے بالوں كو نوچنا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے جيسے كے گزرچكا ہے پس اگر تقصير كى بجائے اپنے بالوں كو نوچے تو اگر اسے جان بوجھ كر انجام دے تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ اس پر بال نوچنے كا كفارہ بھى ہوگا _

مسئلہ ۳۱۵_ اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كى بجائے بالوں كو نوچے اور حج كو بجالائے تو اس كا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج افراد واقع ہوگا اور اس وقت اگر اس پر حج واجب ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اعمال حج ادا كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجالائے پھر آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج

۱۴۲

بجالائے اور يہى حكم ہے اس بندے كا جو حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كے بدلے اپنے بال مونڈ دے اور حج بجالائے _

مسئلہ ۳۱۶_ سعى كے بعد تقصير كى انجام دہى ميں جلدى كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۱۷_ اگر جان بوجھ كر يا لاعلمى كى وجہ سے تقصير كو ترك كر كے حج كا احرام باندھ لے تو اقوى يہ ہے كہ اس كا عمرہ باطل ہے اور اس كا حج حج افراد ہوجائيگا اور احوط وجوبى يہ ہے كہ حج كے بعد عمرہ مفردہ كو بجالائے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو آئندہ سال عمرہ اور حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۱۸_ اگر بھول كر تقصير كو ترك كردے اور حج كيلئے احرام باندھ لے تو اس كا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اگر چہ اسكے لئے ايك بكرى كا كفارہ دينا مستحب ہے بلكہ احوط اس كا ترك نہ كرنا ہے _

مسئلہ ۳۱۹_ عمرہ تمتع كى تقصير كے بعد اس كيلئے وہ سب حلال ہوجائيگا جو

۱۴۳

حرام تھا حتى كہ عورتيں بھى _

مسئلہ ۳۲۰_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء واجب نہيں ہے اگر چہ احوط يہ ہے كہ رجاء كى نيت سے طواف النساء اور اسكى نماز كو بجالائے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو اس كيلئے عورتيں حلال نہيںہوںگى مگر تقصير يا حلق كے بعد طواف النساء اور نماز طواف كو بجالانے كے بعد اور اس كا طريقہ اور احكام طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں كہ جو گزرچكا ہے _

مسئلہ ۳۲۱_ ظاہر كى بناپر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج كيلئے الگ طور پر طواف النساء واجب ہے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايك حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو اگر چہ اس كيلئے عورتوں كے حلال ہونے ميں ايك طواف النساء كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے مگر ان ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء واجب ہے _

۱۴۴

دوسرا حصہ:

اعمال حج كے بارے ميں

۱۴۵

پہلى فصل :احرام

يہ حج كے واجبات ميں سے پہلا واجب ہے _ شرائط ، كيفيت ، محرمات، احكام اور كفار ات كے لحاظ سے حج كا احرام عمرہ كے احرام سے مختلف نہيںہے مگر نيت ميں پس اسكے ساتھ اعمال حج كو انجام دينے كى نيت كريگا اور جو كچھ عمرہ كے احرام كى نيت ميں معتبر ہے وہ سب حج كے احرام كى نيت ميں بھى معتبر ہے اور يہ احرام نيت اور تلبيہ كے ساتھ منعقد ہوجاتا ہے پس جب حج كى نيت كرے اور تلبيہ كہے تو اس كا احرام منعقد ہوجائيگا _ ہاں احرام حج بعض امور كے ساتھ مختص ہے جنہيں مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں :

۱۴۶

مسئلہ ۳۲۲_ حج تمتع كے احرام كا ميقات مكہ معظمہ ہے اور افضل يہ ہے كہ حج تمتع كا احرام مسجدالحرام سے باندھے اور مكہ معظمہ كے ہر حصے سے احرام كافى ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _ ليكن احوط يہ ہے كہ قديمى مقامات سے احرام باندھے ہاں اگر شك كرے كہ يہ مكہ كا حصہ ہے يا نہيں تو اس سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے _

مسئلہ ۳۲۳_ واجب ہے كہ نوذى الحج كو زوال سے پہلے احرام باندھے اس طرح كہ عرفات ميں وقوف اختيارى كو پاسكے اور اسكے اوقات ميں سے افضل ترويہ كے دن( آٹھ ذى الحج) زوال كا وقت ہے _ اور اس سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے بالخصوص بوڑھے اور بيمار كيلئے جب انہيں بھيڑ كى شدت كا خوف ہو _ نيز گزرچكا ہے كہ جو شخص عمرہ بجالانے كے بعد كسى ضرورت كى وجہ سے مكہ سے خارج ہونا چاہے تو اس كيلئے احرام حج كو مقدم كرنا جائز ہے _

مسئلہ ۳۲۴_ جو شخص احرام كو بھول كر عرفات كى طرف چلاجائے تو اس

۱۴۷

پر واجب ہے كہ مكہ معظمہ كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے يہ نہ كرسكتا ہو تو اپنى جگہ سے ہى احرام باندھ لے اور اس كا حج صحيح ہے اور ظاہر يہ ہے كہ جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے _

مسئلہ ۳۲۵_ جو شخص احرام كو بھول جائے يہاں تك كہ حج كے اعمال مكمل كرلے تو اس كا حج صحيح ہے _ اور حكم سے جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ لاعلمى اور بھولنے كى صورت ميں آئندہ سال حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۲۶: جو شخص جان بوجھ كر احرام كو ترك كردے يہاں تك كہ وقوفبالعرفات اور وقوف بالمشعر كى فرصت ختم ہوجائے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۲۷_ جس شخص كيلئے اعمال مكہ كو وقوفين پر مقدم كرنا جائز ہو اس پر واجب ہے كہ انہيں احرام كى حالت ميں بجالائے پس اگر انہيں بغير احرام كے بجالائے تو احرام كے ساتھ ان كا اعادہ كرنا ہوگا _

۱۴۸

دوسرى فصل :عرفات ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے دوسرا واجب ہے اور عرفات ايك مشہور پہاڑ ہے كہ جسكى حد عرنہ ، ثويہ اور نمرہ كے وسطسے ليكر ذى المجاز تك اور ما زمين سے وقوف كى جگہ كے آخر تك اور خود يہ حدود اس سے خارج ہيں_

مسئلہ ۳۲۸_ وقوف بالعرفات عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزرچكى ہيں_

مسئلہ ۳۲۹_ وقوف سے مراد اس جگہ ميں صرف حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل يا ٹھہرا ہوا_

مسئلہ ۳۳۰_ احوط يہ ہے كہ نوذى الحج كے زوال سے غروب شرعى

۱۴۹

(نماز مغرب كا وقت) تك ٹھہرے اور بعيد نہيں ہے كہ اسے زوال كے اول سے اتنى مقدار مؤخر كرنا جائز ہو كہ جس ميں نماز ظہر ين كو انكے مقدمات سميت اكٹھا ادا كيا جاسكے_

مسئلہ ۳۳۱_ مذكورہ وقوف واجب ہے ليكن اس ميںسے ركن صرف وہ ہے جس پر وقوف كا نام صدق كرے اور يہ ايك ياد و منٹ كے ساتھ بھى ہوجاتا ہے اگر اس مقدار كو بھى اپنے اختيار كے ساتھ ترك كردے تو حج باطل ہے اور اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو ترك كردے يا وقوف كو عصر تك مؤخر كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگرچہ جان بوجھ ايسا كرنے كى صورت ميں گناہ گار ہے _

مسئلہ ۳۳۲_ غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرنا حرام ہے پس اگر جان بوجھ كر كوچ كرے اور عرفات كى حدود سے باہر نكل جائے اور پلٹے بھى نہ تو گناہ گار ہے اورايك اونٹ كا كفارہ دينا واجب ہے ليكن اس كا حج صحيح ہے اور اگر اونٹ كا كفارہ دينے سے عاجز ہو تو اٹھارہ روزے ركھے اور احوط

۱۵۰

يہ ہے كہ اونٹ كو عيد والے دن منى ميں ذبح كرے اگر چہ اسے منى ميں ذبح كرنے كا معين نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو كفارہ نہيں ہے _

مسئلہ ۳۳۳_ اگر بھول كر يا حكم سے لاعلمى كى وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرے تو اگر وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ پلٹے اور اگر نہ پلٹے تو گناہ گارہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر وقت گزرجانے كے بعد متوجہ ہو تو اس پر كوئي شے نہيں ہے _

۱۵۱

تيسرى فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے تيسرا ہے اور اس سے مراد غروب كے وقت عرفات سے مشعر الحرام كى طرف كوچ كرنے كے بعد اس مشہور جگہ ميں ٹھہرنا ہے_

مسئلہ ۳۳۴_ وقوف بالمشعر عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت معتبر ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۳۵_ واجب وقوف كا وقت دس ذى الحج كو طلوع فجر سے طلوع آفتاب تك ہے اوراحوط يہ ہے كہ عرفات سے كوچ كرنے كے بعد رات كو وہاں پہنچ كر وقوف كى نيت كے ساتھ وہاں وقوف كرے _

۱۵۲

مسئلہ ۳۳۶_ مشعر ميں طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك باقى رہنا واجب ہے ليكن ركن اتنى مقدار ہے جسے وقوف كہا جائے اگر چہ يہ ايك يا دو منٹ ہو _اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو جان بوجھ كر ترك كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگر چہ فعل احرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اگر اپنے اختيار كے ساتھ اتنى مقدار وقوف كو بھى ترك كردے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۳۷_ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں ،كمزوروں اور صاحبان عذر_ جيسے خوف يا بيماري_ كيلئے اتنى مقدار وقوف كرنے كے بعد كہ جس پر وقوف صدق كرتا ہے عيد كى رات مشعر سے منى كى طرف كوچ كرنا جائز ہے اسى طرح وہ لوگ جو ان كے ہمراہ كوچ كرتے ہيں اور انكى احوال پرسى كرتے ہيں جيسے خدام اور تيمار دارى كرنے والے _

تنبيہ : وقوفين ميں سے ايك يادونوں كو درك كرنے كے اعتبار سے اور اختياراً يا اضطراراً جان بوجھ كر، لاعلمى سے يا بھول كر فرداً يا تركيباً بہت سارى تقسيمات ہيں كہ جو مفصل كتابوں ميں مذكور ہيں_

۱۵۳

چوتھى فصل :كنكرياں مارنا

يہ حج كے واجبات ميں سے چوتھا اور منى كے اعمال ميں سے پہلا ہے _ دس ذى الحج كو جمرہ عقبہ ( سب سے بڑا) كوكنكرياں مارناواجب ہے _

كنكرياں مارنے (رمي) كى شرائط

كنكرياں مارنے (رمي) ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: نيت اپنى تمام شرائط كے ساتھ جيسے كہ احرام كى نيت ميں گزرچكا ہے_

دوم: يہ كہ رمى اسكے ساتھ ہو جسے كنكرياں كہا جائے پس نہ اتنے

۱۵۴

چھوٹے كے ساتھ صحيح ہے كہ وہ ريت ہو اور نہ اتنے بڑے كے ساتھ كہ جو پتھر ہو _

سوم : يہ كہ رمى عيدوالے دن طلوع آفتاب اورغروب آفتاب كے درميان ہو البتہ جس كيلئے يہ ممكن ہو _

چہارم: يہ كہ كنكرياں جمرے كو لگيں پس اگر نہ لگے يا اسے اسكے لگنے كا گمان ہو تو يہ شمار نہيں ہوگى اور اسكے بدلے دوسرى كنكرى مارنا واجب ہے اور اس كا لگے بغير صرف اس دائرے تك پہنچ جانا جو جمرے كے اردگرد ہے كافى نہيں ہے_

پنجم: يہ كہ رمى سات كنكريوں كے ساتھ ہو

ششم: يہ كہ پے در پے كنكرياں مارے پس اگر ايك ہى دفعہ مارے تو صرف ايك شمار ہوگى چاہے سب جمرے كو لگ جائيں يا نہ _

مسئلہ ۳۳۸_ جمرے كو رمى كرنا جائز ہے اس پر لگے ہوئے سيمنٹ سميت_ اسى طرح جمرہ كے نئے بنائے گئے حصے پر رمى كرنا بھى جائز ہے

۱۵۵

البتہ اگر عرف ميں اسے جمرہ كا حصہ شمار كيا جائے_

مسئلہ ۳۳۹_ اگر متعارف قديمى جمرہ كے آگے اور پيچھے سے كئي ميٹر كا اضافہ كر ديں تو اگر بغير مشقت كے سابقہ جمرہ كو پہچان كر اسے رمى كرنا ممكن ہو تو يہ واجب ہے ورنہ موجودہ جمرہ كى جس جگہ كو چاہے رمى كرے اور يہى كافى ہے _

مسئلہ ۳۴۰_ ظاہر يہ ہے كہ اوپر والى منزل سے رمى كرنا جائز ہے اگرچہ احوط اس جگہ سے رمى كرنا ہے جو پہلے سے متعارف ہے_

كنكريوں كى شرائط:

كنكريوں ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول : يہ كہ وہ حرم كى ہوں اور اگر حرم كے باہر سے ہوں تو كافى نہيں ہيں_

دوم: يہ كہ وہ نئي ہوں كہ جنہيں پہلے صحيح طور پر نہ ماراگيا ہو اگرچہ گذشتہ سالوں ميں _

۱۵۶

سوم: يہ كہ مباح ہوں پس غصبى كنكريوں كا مارنا جائز نہيں ہے اور نہ ان كنكريوں كا مارنا جنہيں كسى دوسرے نے جمع كيا ہو اسكى اجازت كے بغير ہاں كنكريوں كا پاك ہونا شرط نہيں ہے _

مسئلہ ۳۴۱_ عورتيں اور كمزور لوگ _ كہ جنہيں مشعر الحرام ميں صرف وقوف كا مسمى انجا م دينے كے بعد منى كى طرف جانے كى اجازت ہے اگر وہ دن كو رمى كرنے سے معذور ہوں تو ان كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے بلكہ عورتوں كيلئے ہر صورت ميں رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے البتہ اگروہ اپنے حج كيلئے رمى كر رہى ہوں يا ان كا حج نيابتى ہو ليكن اگر عورت صرف رمى كيلئے كسى كى طرف سے نائب بنى ہو تو رات كے وقت رمى كرنا صحيح نہيں ہے اگر چہ دن ميں رمى كرنے سے عاجز ہو بلكہ نائب بنانے والے كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ايسے شخص كو نائب بنائے جو دن كے وقت رمى كر سكے اگر اسے ايسا شخص مل جائے _اور ان لوگوں كى ہمراہى كرنے والا اگر وہ خود معذور ہو تو اس كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے ورنہ اس پر واجب

۱۵۷

ہے كے دن وقت رمى كرے _

مسئلہ ۳۴۲ _ جو شخص عيد والے دن رمى كرنے سے معذور ہے اس كيلئے شب عيد يا عيد كے بعد والى رات ميں رمى كرنا جائز ہے اور اسى طرح جو شخص گيارہويں يا بارہويں كے دن رمى كرنے سے معذور ہے اسكے لئے اسكى رات يا اسكے بعد والى رات رمى كرنا جائز ہے _

پانچويں فصل :قربانى كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے پانچواں اورمنى كے اعمال ميں سے دوسرا عمل ہے

مسئلہ ۳۴۳_ حج تمتع كرنے والے پر قربانى كرنا واجب ہے اور قربانى تين جانوروں ميں سے ايك ہوگى اونٹ ، گائے اور بھيڑ بكرى اور ان جانوروں ميں مذكر اور مونث كے درميان فرق نہيں ہے اور اونٹ افضل ہے اورمذكورہ جانوروں كے علاوہ ديگر حيوانات كافى نہيں ہيں_

مسئلہ ۳۴۴_ قربانى ايك عبادت ہے كہ جس ميں ان تمام شرائط كے ساتھ نيت شر ط ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزر چكى ہيں_

۱۵۸

مسئلہ ۳۴۵_ قربانى ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: سن: اونٹ ميں معتبر ہے كہ وہ چھٹے سال ميں داخل ہو اور گائے ميں معتبر ہے كہ وہ تيسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر_ اور بكرى گائے كى طرح ہے ليكن بھيڑ ميں معتبر ہے كہ وہ دوسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر _مذكورہ حد بندى چھوٹا ہونے كى جہت سے ہے پس اس سے كمتر كافى نہيں ہے ليكن بڑا ہونے كى جہت سے تو مذكورہ حيوانات ميںسے بڑى عمر والا بھى كافى ہے _

دوم : صحيح و سالم ہونا

سوم: يہ كہ بہت دبلا نہ ہو

چہارم: يہ كہ اسكے اعضا پورے ہوں پس ناقص كافى نہيں ہے جيسے خصى اور يہ وہ ہے كہ جسكے بيضے نكال ديئےائيں ہاں جسكے بيضے كوٹ ديئے جائيں وہ كافى ہے مگر يہ كہ خصى كى حد كو پہنچ جائے _ اور دم كٹا ، كانا ، لنگڑا ، كان كٹا اور جس كا اندر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى نہيںہے _ اسى طرح اگر

۱۵۹

پيدائشےى طور پر ايسا ہو تو بھى كافى نہيںہے پس دہ حيوان كافى نہيں ہے كہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف كے جانوروں ميںعام طور پر ہوتا ہے اس طرح كے اسے اس ميں نقص شمار كيا جائے _

ہاں جس كا باہر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى ہے ( باہر كا سينگ اندر والے سينگ كے غلاف كے طور پر ہوتا ہے ) اور جسكا كان پھٹا ہوا ہو يا اسكے كان ميں سوراخ ہو اس ميں كوئي حرج نہيںہے _

مسئلہ ۳۴۶_ اگر ايك جانور كو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح كرے پھر اس كے مريض يا ناقص ہونے كا انكشاف ہو تو قدرت كى صورت ميں دوسرى قربانى كو ذبح كرنا واجب ہے _

مسئلہ ۳۴۷_ احوط يہ ہے كہ قربانى جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے سے مؤخر ہو _

مسئلہ ۳۴۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اپنے اختيار كے ساتھ قربانى كو روز عيد سے مؤخر نہ كرے پس اگر جان بوجھ كر ، بھول كر يا لاعلمى كى وجہ سے كسى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511