توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207660 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

مسئلہ ٧٣١ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تيمم کرے ليکن بعدميں کسی ایسی صورت سے دوچارہو جو وضو کو باطل کردیتی ہو اور بعدکی نمازوں کے لئے غسل بھی نہ کرسکتاہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تيمم کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔ جنابت کے علاوہ حيض، نفاس اور مسِ ميت جيسے حدثِ اکبرکے بدلے تيمم کا بھی یهی حکم ہے ، مگریہ ضروری ہے کہ وضو بھی کرے۔

مسئلہ ٧٣٢ جس شخص پر کوئی کا م انجام دینے، مثلا نماز پڑھنے کے لئے، وضو اور غسل کے بدلے تيمم کرنا ضروری ہو، اس کے لئے ضروری نہيں ہے کہ ایک تيسرا تيمم اس نيت سے بھی انجام دے کہ اس کام کو انجام دے سکوں۔ ہاں، اگر وہ پهلے تيمم ميں وضو یا غسل کے بدلے تيمم کی نيت کرے اور دوسرے تيمم کومافی الذمّہ کی نيت سے انجام دے تو یہ احتياط کے مطابق ہے ۔

مسئلہ ٧٣٣ جس شخص کا فریضہ تيمم ہو اگر وہ کسی کا م کے لئے تيمم کرے تو جب تک اس کا تيمم اور عذرباقی ہے وہ ان کا موں کوانجام دے سکتاہے جنہيں وضو یا غسل کرکے انجام دیناضروری ہے ، ليکن اگر اس کا عذروقت کی تنگی ہو یا پانی ہو تے ہو ئے نمازِ ميّت یا سونے کے لئے تيمم کيا ہو تو اس تيمم سے فقط ان کا موں کوانجام دے سکتاہے جن کے لئے اس نے تيمم کيا ہے ۔

مسئلہ ٧٣ ۴ چندصورتو ں ميں بہترہے کہ انسان نے جونماز یں تيمم کے ساته پڑھی ہو ں ان کی قضاکرے:

١) یہ کہ پانی کے استعمال سے ڈرتاہو اور عمداً خود کو جنب کر ليا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

٢) یہ جانتے ہو ئے یا اس بات کا گمان ہو تے ہو ئے کہ پانی حاصل نہ کرسکے گا عمدا خود کو جنب کيا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

٣) آخروقت تک عمداً پانی کی تلاش ميں نہ جائے اور تيمم کرکے نماز پڑھے اور بعدميں معلوم ہو کہ اگر جستجوکرتاتو اسے پانی مل جاتا۔

۴) عمداً نماز پڑھنے ميں تاخيرکی ہو اور آخروقت ميں تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

۵) یہ جانتے ہو ئے یا اس بات کا گمان ہو تے ہو ئے کہ پانی نہيں ملے گا، جو پانی اس کے پاس تھا اسے گرادیا ہو اور تيمم کرکے نماز پڑھی ہو ۔

۱۲۱

نماز کے احکام

نماز کے احکام بيا ن کرنے سے پهلے دو نکا ت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے :

اوّل)اہميتِ نماز : قرآن مجيد ميں تقریباً ایک سو مقامات پر نماز کے بارے ميں گفتگو ہو ئی ہے ، جن ميں سے صرف دو مقامات کی طرف اشارہ کافی ہے :

١) خداوندمتعال نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کو مقام نبوت و رسالت اور خلت عطا کرنے کے بعد جب چند کلمات ميں آزمایا اور حضرت ابراہيم عليہ السلام نے ان کلمات کو پورا کر دیا تو مقام امامت عنایت ہو ا اور ان تمام مقامات کے ہوتے ہوئے آپ عليہ السلام کی نظر ميں مقام امامت کی عظمت اتنا زیا دہ اہم تھی کہ( قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ) (عرض کی اور ميری اولاد ميں سے؟) جواب ملا( لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِيْنَ ) (ميرے اس عهد پر ظالموں ميں سے کوئی شخص فائز نہيں ہو سکتا) اور نماز کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شخص جس کے لئے خداوند متعال مقام امامت کو پيش کر رہا ہے اور وہ اپنی ذریت کے لئے بھی اسے مانگ رہا ہے ، تمام مقامات طے کرنے کے بعد جوارِ خانہ خدا ميں درخواست کر رہا ہے( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلوٰةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ) (پروردگارا! مجھے نماز قائم کرنے والا قرار دے، اور ميری ذریت ميں سے بهی)

اور اسی طرح اپنی ذریت کو کعبہ کے ساته بسانے کے بعد کها( رَبَّنَّا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ )

(اے ہمارے پروردگار! ميں اپنی کچھ ذریت کو ایک بے آب و گياہ وادی ميں تيرے حرمت والے گہر کے کنارے آباد کر رہا ہوں، اے ہمارے پروردگار! تاکہ یہ نماز قائم کریں)

٢) قرآن مجيد ميں ”مومنون“ کے نام سے سورہ ہے جس ميں مومنين کا تعارف کچھ خصوصيا ت کے ذریعے کروایا گيا ہے ۔ سب سے پهلی خصوصيت جس سے ابتدا ہو ئی ہے وہ یہ ہے کہ( اَلَّذِیْنَ هم فِیْ صَلاَ تهم خَاشِعُوْنَ ) (یہ وہ لوگ ہيں جو اپنی نمازوں ميں خاشعين ہيں )، جب کہ آخری خصوصيت جس پر اختتام ہوا ہے یہ ہے( وَالَّذِیْنَ هم عَلیٰ صَلَوَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ ) (اور یہ وہ لوگ ہيں جو اپنی نمازوں کے محافظ ہيں )

پس ایمان کا آغاز و اختتام نماز پر ہے اور اس کا نتيجہ بھی یہ آیت ہے( اُوْلٰئِکَ هم الْوَارِثُوْنَ الَّذِیْن یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هم فِيْهَا خَالِدُوْنَ )

۱۲۲

اور سنت سے اسی قدر بيا ن کرنابس ہے کہ حضرت امام صادق عليہ السلام سے روایت ہو ئی ہے کہ آپ عليہ السلام فرماتے ہيں : ”ميں معرفت خدا کے بعد، کسی دوسری چيز کو نہيں پہچانتا جو نماز پنجگانہ سے افضل ہو۔“ حضرت عليہ السلام کا عدمِ علم در حقيقت عدم کے بارے ميں علم ہے اور یہ روایت کلام خدا کو ہی بيا ن کر رہی ہے کہ خداوندمتعال قرآن مجيد ميں فرماتا ہے ذ( ٰلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْب فِيْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِیْنَ یُو مِْٔنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَیُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ) کہ غيب پر ایمان کے بعد، قيا مِ نماز کا تذکرہ ہے ۔

نماز کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ساری عبادات ميں نماز سے زیا دہ جامع عبادت کوئی نہيں ہے کيونکہ یہ وہ عبادت ہے جو فعلی عبادت اور قولی عبادت پر مشتمل ہے ۔ فعلی عبادت ميں رکوع، سجود، قيا م اور قعود جيسے افعال عبادی شامل ہيں ، جب کہ قولی عبادت ميں قرائت و ذکر شامل ہيں ۔ اس عبادت ميں تسبيح، تکبير، تحميد اور تهليل جيسے تمام معارف الهيہ موجود ہيں جو معرفت حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کے ارکا ن اربعہ ہيں ۔یہ عبادت ملائکہ مقربين کی تمام عبادات پر مشتمل ہے کہ ان ميں سے بعض کی عبادت قيا م ہے اور بعض قعود ميں ہيں ، کچھ رکوع ميں اور کچھ سجود ميں ہيں ۔

روایا ت ميں نماز کے لئے جو عناوین ذکر ہو ئے ہيں وہ بہت زیا دہ ہيں ان ميں سے بعض عناوین یہ ہيں :

رَا سُْٔ الدِّیْنِ، و آخِرُ وَصَایَا الْا نَْٔبِيَاءِ، وَ ا حََٔبُّ الْاَعْمَالِ، وَ خَيْرُ الْا عَْٔمَالِ، وَ قِوَامُ الْاِسِلاَمِ، وَ اسْتِقْبَال الرَّحْمٰنِ، مِنْهَاجُ الْاَنْبِيَاءِ وَ بِه یَبْلُغُ الْعَبْدُ اِلیَ الدَّرَجَةِ الْعُلْيا

دوم)انسان کو اس بات کا خيا ل رکھنا چاہئے کہ نماز جلدبازی اور تيز رفتاری سے نہ پڑھے، بلکہ یاد خدا کے ساته خضوع و خشوع اور وقار سے نماز پڑھے اور متو جہ رہے کہ کس هستی کے ساته ہم کلام ہے اور اپنے آپ کو خداوندعالم کی عظمت و بندگی کے مقابلے ميں حقير و ناچيز سمجھے۔

علاوہ از ایں، نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ تو بہ و استغفار کرے اور نماز کی قبوليت ميں رکاوٹ بننے والے گناہوں مثلاً حسد، تکبّر، غيبت، حرام کھانا، نشہ آور اشياء کا استعمال اور خمس و زکوٰة کا ادانہ کرنا، بلکہ تمام گناہوں کو ترک کردے۔

اسی طرح ضروری ہے کہ نماز کا ثواب گھٹانے والے کاموں کو انجام نہ دے مثلاً اونگھنے کی حالت ميں اور پيشاب روک کر نماز نہ پڑھے، نماز کے وقت آسمان کی جانب نہ دیکھے اور ایسے کا م انجام دے جو نماز کا ثواب بڑھاتے ہيں ، مثلاً عقيق کی انگوٹھی اور پاکيزہ لباس پهنے، کنگهی اور مسواک کرے، نيز خوشبو لگائے۔

۱۲۳

واجب نماز يں

چھ نماز یں واجب ہيں :

١) روزانہ کی نماز یں اورنماز جمعہ بھی ان ميں سے ہے ۔

٢) نمازِ آیا ت۔

٣) نمازِ ميّت، اس بنا پر کہ اس پر حقيقت ميں نماز کا اطلاق ہو، اگر چہ یہ نماز بھر صورت واجب ہے ۔

۴) خانہ کعبہ کے واجب طواف کی نماز ۔

۵) باپ کی قضا نماز یں جو بڑے بيٹے پر واجب ہيں ۔

۶) جو نمازیں اجارہ، نذر، قسم، عهد اور عقد کے ضمن ميں شرط سے واجب ہو تی ہيں ۔

روزانہ کی واجب نماز يں

جمعہ کے علاوہ روزانہ کی نمازیں پانچ ہيں : ظہر و عصر ہر ایک چار رکعت، مغرب تين رکعت، عشا چار رکعت اور فجر دو رکعت۔

مسئلہ ٧٣ ۵ سفر اور خوف ميں ضروری ہے کہ انسان چار رکعتی نماز یں ان شرائط کے ساته جو بعد ميں بيا ن ہو ں گی، دو رکعت پڑھے۔

ظهر اور عصر کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧٣ ۶ اگر لکڑی یا اس جيسی کسی سيدهی چيز کو، جسے شاخص کہتے ہيں ، ہموار زمين ميں سيدها گاڑا جائے تو صبح سورج طلوع ہوتے وقت اس کا سایہ مغرب کی طرف پڑتا ہے اور جوں جوں سورج اُونچا ہو تا جاتا ہے اس کا سایہ گھٹتا جاتا ہے اور ہمارے شهروں ميں ظہر شرعی کے وقت کمی کے آخری درجے پر پهنچ جاتا ہے ۔ ظہر گزرنے کے بعد اس کا سایہ مشرق کی جانب ہو جاتا ہے اور جوں جوں سورج مغرب کی طرف ڈهلتا ہے سایہ بڑھتا جاتا ہے ۔

لہذا، جب سایہ کمی کے آخری درجے تک پهنچ کر دوبارہ بڑھنے لگے تو پتہ چلتا ہے کہ ظہر شرعی کا وقت ہو چکا ہے ، ليکن بعض شهروں ميں جهاں بعض اوقات ظہر کے وقت سایہ بالکل ختم ہو جاتا ہے ، جب سایہ دوبارہ ظاہر ہو تا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا وقت ہو چکا ہے ۔

مسئلہ ٧٣٧ نماز ظہر و عصر کا وقت زوال سے غروبِ آفتاب تک کا درميانی وقت ہے ، ليکن اگر کوئی شخص جان بوجه کر نماز عصر کو ظہر کی نماز سے پهلے پڑھے تو وہ نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر آخری وقت ميں ایک نماز سے زیا دہ پڑھنے کا وقت باقی نہ ہو، تو اس صورت ميں جس شخص نے اس وقت تک نماز ظہر نہ پڑھی ہو، ضروری ہے کہ پهلے نماز عصر پڑھے اور اس کے بعد نماز ظہر کی قضا

۱۲۴

کرے۔ البتہ، اگر کوئی شخص اس وقت سے پهلے غلطی سے عصر کی پوری نماز ظہر سے پهلے پڑھ لے تو اس کی نماز صحيح ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ اس نماز کو نماز ظہر قرار دے اور دوسری چار رکعت مافی الذمہ کی نيت سے پڑھے۔

مسئلہ ٧٣٨ اگر کوئی شخص ظہر کی نماز پڑھنے سے پهلے غلطی سے عصر کی نماز پڑھنا شروع کردے اور نماز کے دوران اسے معلوم ہو کہ اس سے غلطی ہو ئی ہے تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز ظہر کی طرف پهير دے یعنی نيت کرے جو کچھ پڑھ چکا ہو ں اور پڑھ رہا ہو ں اور پڑہوں گا وہ تمام کی تمام نماز ظہر ہے اور نماز مکمل کرنے کے بعد عصر کی نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٣٩ نماز جمعہ امام معصوم عليہ السلام یا آپ عليہ السلام کی جانب سے منصوب آپ عليہ السلام کے نائب کے ہو تے ہو ئے واجب تعينی ہے اور غيبت کے زمانے ميں مکلّف کو اختيار ہے کہ نماز ظہر پڑھے یا شرائط کے ہو تے ہو ئے، نماز جمعہ پڑھے۔ احوط نماز ظہر کا پڑھنا ہے اور افضل نماز جمعہ ہے ۔

مسئلہ ٧ ۴ ٠ نماز جمعہ کا وقت محدود ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ یقين، اطمينان یا وقت ہوجانے کی دوسری نشانيوں کے ذریعے، ظہر شرعی ثابت ہونے کے بعد، تاخير نہ کریں۔

مغرب و عشا کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧ ۴ ١ احتياطِ واجب یہ ہے کہ نماز مغرب کی ادائيگی ميں سورج کے غروب ہو نے کے بعد اتنی تاخير کریں کہ مشرق سے ظاہر ہو نے والی سرخی انسان کے سر پر سے گزر جائے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٢ مغرب اور عشا کی نماز کا وقت صاحبِ اختيار شخص کے لئے آدهی رات تک رہتا ہے ، ليکن جو شخص نيند، بھول جانے، حيض یا اس کے علاوہ کسی اوروجہ سے آدهی رات تک نماز نہ پڑھ سکے تو اس کے لئے صبح صادق تک ہے ۔

نماز عشا کو نماز مغرب کے بعد پڑھنا ضروری ہے ، لہٰذا اگر جان بوجه کر مغرب کی نماز سے پهلے پڑھی جائے تو باطل ہے ، ليکن اگر عشا کی نماز ادا کرنے کی مقدار سے زیا دہ وقت باقی نہ رہا ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ عشا کی نماز کو نماز مغرب سے پهلے پڑھا جائے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٣ اگر کوئی شخص غلطی سے عشا کی نماز کو مغرب سے پهلے پڑھ لے اور نماز کے بعد متو جہ ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور ضروری ہے کہ نماز مغرب کو اس کے بعد بجالائے۔

مسئلہ ٧ ۴۴ اگر کوئی شخص نماز مغرب پڑھنے سے پهلے عشا کی نماز پڑھنے ميں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے پتہ چلے کہ اس نے غلطی کی ہے اور ابهی وہ چوتھی رکعت کے رکوع تک نہ پهنچا ہو تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کی طرف نيت پهيرلے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد عشا کی نماز پڑھے اور اگر چوتھی رکعت کے رکوع ميں جاچکا ہو تو ضروری ہے کہ اسے تو ڑ دے اور نماز مغرب پڑھنے کے بعد نماز عشا بجالائے۔

۱۲۵

مسئلہ ٧ ۴۵ نماز عشا کا وقت صاحب اختيار شخص کے لئے آدهی رات تک ہے اور احتياط واجب کی بنا پر رات کا حساب غروب کے وقت سے صبح کی اذان تک ہوگا نہ کہ سورج نکلنے تک۔

مسئلہ ٧ ۴۶ اگر کوئی شخص جان بوجه کر مغرب اور عشا کی نماز آدهی رات تک نہ پڑھے تو احوط یہ ہے کہ اذان صبح سے پهلے تک ادا اور قضاکی نيت کے بغير ان نماز وں کو ادا کرے۔

صبح کی نماز کا وقت

مسئلہ ٧ ۴ ٧ صبح کی اذان کے قریب مشرق کی جانب سے ایک سفيدی اُوپر اُٹھ تی ہے جسے فجرِ اوّل کها جاتا ہے اور جب یہ سفيدی پهيل جائے تو فجرِ دوم اور نماز صبح کا اوّل وقت ہے اور صبح کی نماز کا آخری وقت سورج نکلنے تک ہے ۔

اوقاتِ نماز کے احکام

مسئلہ ٧ ۴ ٨ انسان نماز ميں اس وقت مشغول ہو سکتا ہے جب اسے یقين یا اطمينان ہو کہ وقت داخل ہو گيا ہے یا دو عادل مرد یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، خبر دے کہ وقت داخل ہو گيا ہے یا وقت شناس شخص جو قابل اطمينان ہو، وقت داخل ہو نے کا اعلان کرنے کے لئے اذان دے۔

مسئلہ ٧ ۴ ٩ اگر کوئی شخص عمومی عذر مثلاً بادل یا گرد و غبار، یا کسی ذاتی عذر مثلاً نا بينائی یا قيد خانے ميں ہونے کی وجہ سے، نماز کا اوّل وقت داخل ہو نے کے بارے ميں یقين یا شرعی گواہی حاصل نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ اسے وقت داخل ہونے کے بارے ميں یقين یا شرعی گواہی حاصل ہو جائے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٠ اگر مذکورہ بالا طریقوں سے کسی شخص کے لئے ثابت ہو جائے کہ نماز کا وقت ہو گيا ہے اور وہ نماز ميں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے معلوم ہو کہ ابهی وقت داخل نہيں ہو ا تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ اس نے ساری نماز وقت سے پهلے پڑھی ہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

هاں، اگر نماز کے دوران معلوم ہو کہ وقت داخل ہو گيا یا نماز کے بعد اسے یہ پتہ چلے کہ نماز کے دوران وقت داخل ہو گيا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧ ۵ ١ اگر کوئی شخص اس بات کی جانب متو جہ نہ ہو کہ ضروری ہے کہ وقت داخل ہو نے کے ثابت ہو نے کے بعد انسان نماز ميں مشغول ہو اگر نماز کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس نے ساری نماز وقت ميں پڑھی ہے تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر اسے یہ پتہ چل جائے کہ اس نے وقت سے پهلے نماز پڑھی ہے یا اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وقت ميں پڑھی ہے یا وقت سے پهلے پڑھی ہے یا نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز کے دوران وقت داخل ہو ا تھا تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۲۶

مسئلہ ٧ ۵ ٢ اگر کوئی شخص اس یقين یا اطمينان کے ساته نماز پڑھنے لگے کہ وقت داخل ہوگيا ہے اور نماز کے دوران شک کرے کہ وقت داخل ہو ا ہے یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے ۔ ليکن اگر نماز کے دوران اسے یقين یا اطمينان ہو کہ وقت داخل ہو گيا ہے اور شک کرے کہ نماز کی جتنی مقدار پڑھی ہے وہ وقت ميں پڑھی ہے یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧ ۵ ٣ اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز کے بعض مستحب اعمال ادا کرنے سے نماز کی کچھ مقدار وقت کے بعد پڑھی جائے گی تو ضروری ہے کہ ان مستحبات کو چھوڑ دے، مثلاً اگر قنوت پڑھنے کی وجہ سے نماز کا کچھ حصّہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے ہو تو ضروری ہے کہ قنوت نہ پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵۴ جس شخص کے پاس نماز کی فقط ایک رکعت ادا کرنے کا وقت ہو اس کی نماز ادا کی نيت سے ہو گی، البتہ ضروری ہے کہ نماز ميں اتنی تاخير نہ کرے۔

مسئلہ ٧ ۵۵ جو شخص سفر ميں نہ ہو اگر اس کے پاس غروب آفتاب تک پانچ رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی دونوں نماز یں پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ عصر کی نماز پڑھے اور بعد ميں ظہر کی نماز قضا کرے۔ اسی طرح جس کے پاس کوئی عذر نہ ہو اگر آدهی رات تک اس کے پاس پانچ رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ مغرب اور عشا کی نماز پڑھے اور اگر وقت اس سے کم ہو تو ضروری ہے کہ صرف عشا کی نماز پڑھے اور بعد ميں مغرب پڑھے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ مغرب مافی الذمہ کی نيت سے ادا و قضا کی نيت کئے بغير پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵۶ جو شخص سفر ميں ہو اگر غروب آفتاب تک اس کے پاس تين رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ صرف عصر پڑھے اور بعد ميں نماز ظہر کی قضا کرے۔ اسی طرح جس مسافر کے پاس کوئی عذر نہ ہو اگر آدهی رات تک اس کے پاس چار رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو ضروری ہے کہ مغرب اور عشا کی نماز پڑھے۔ اگر اس اندازے کے مطابق بھی وقت نہ ہو ليکن نماز عشا پڑھنے کے ساته مغرب کی ایک رکعت کو آدهی رات ہونے سے پهلے درک کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ پهلے عشا کی نماز پڑھے اور اس کے بعد فوراً نماز مغرب بجالائے اور اگر اس سے بھی کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ پهلے عشا اور پھر مغرب کی نماز پڑھے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ اسے ادا اور قضاء کی نيت کے بغير مافی الذمہ کی نيت سے پڑھے اور اگر عشا کی نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ آدهی رات ہو نے ميں ایک رکعت یا اس سے زیا دہ رکعات پڑھنے کا وقت باقی ہے تو اس کی نماز مغرب ادا ہے اور ضروری ہے کہ فوراً نماز مغرب ادا کرے۔

۱۲۷

مسئلہ ٧ ۵ ٧ مستحب ہے کہ انسان نماز کو اس کے اوّل وقت ميں پڑھے اور اس سے متعلق بہت زیا دہ تاکيد کی گئی ہے اور جتنا اوّل وقت کے قریب ہو بہتر ہے مگر یہ کہ تاخير کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً اس لئے انتظار کرے کہ نماز جماعت کے ساته پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٨ جب انسان کے پاس کوئی ایسا عذر ہو کہ اگر اوّل وقت ميں نماز پڑھنا چاہے تو تيمم کر کے نماز پڑھنے پر مجبور ہو، اگر اسے علم ہو کہ اس کا عذر آخر وقت تک باقی رہے گا تو اول وقت ميں نماز پڑھ سکتا ہے ، ليکن اگر احتمال دے کہ اس کا عذر دور ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ عذر کے برطرف ہو نے تک انتظار کرے اور اگر اس کا عذر برطرف نہ ہو تو آخر وقت ميں نماز پڑھے۔

هاں، یہ ضروری نہيں کہ اس قدر انتظار کرے کہ صرف نماز کے واجب افعال انجام دے سکے بلکہ اگر اس کے پاس مستحباتِ نماز مثلاً اذان و اقامت اور قنوت کے لئے بھی وقت ہو تو وہ تيمم کر کے ان مستحبات کے ساته نماز ادا کرسکتا ہے ۔

تيمم کے علاوہ دوسری مجبوریوں کی صورت ميں اگر وہ عذر تقيّہ ہو تو اوّل وقت ميں نماز پڑھنا جائز ہے اور اسے دوبارہ پڑھنا بھی ضروری نہيں ہے ، خواہ وقت کے دوران اس کا عذر برطرف ہی کيوں نہ ہو جائے۔ جب کہ تقيّہ کے علاوہ اگر احتمال دے کہ اس کا عذر باقی رہے گا تو جائز ہے کہ اوّل وقت ميں نماز پڑھے، ليکن اگر وقت کے دوران اس کا عذر برطرف ہو جائے تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۵ ٩ جو شخص نماز اور اس کی شکيات و سهویات کے مسائل کا علم نہ رکھتا ہو اور اس بات کا احتمال ہو کہ نماز کے دوران ان ميں سے کوئی مسئلہ پيش آئے گا اور کسی لازمی ذمہ داری یا ضروری احتياط کی خلاف ورزی ہوجائے گی،احتياط کی بنا پر انہيں سيکهنے کے لئے نماز تاخير سے پڑھے، ليکن اگر اسے اطمينان ہو کہ صحيح طریقے سے نماز پڑھ لے گا تو اوّل وقت ميں نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پس اگر نماز ميں کوئی ایسا مسئلہ پيش نہ آئے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر کوئی ایسا مسئلہ پيش آجائے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ جن دوباتو ں کا احتمال ہو ان ميں سے کسی ایک پر عمل کرتے ہوئے نماز کو پورا کرے۔ ہاں، نماز کے بعد مسئلہ معلوم کرنا ضروری ہے تاکہ اگر اس کی نماز باطل ثابت ہو تو دوبارہ پڑھے اور اگر صحيح ہو تو دوبارہ پڑھنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٠ اگر نماز کا وقت وسيع ہو اور قرض خواہ بھی اپنے قرض کا مطالبہ کرے تو ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ پهلے قرضہ ادا کرے اور بعد ميں نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا دوسرا واجب کا م پيش آجائے جسے فوراً بجالانا ضروری ہو مثلاً دیکھے کہ مسجد نجس ہو گئی ہے تو ضروری ہے کہ پهلے مسجد کو پاک کرے اور بعد ميں نماز پڑھے اور دونوں صورتو ں ميں اگر پهلے نماز پڑھے تو گنهگار ہے ، ليکن اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۲۸

وہ نماز يں جنهيں ترتيب سے پڑھنا ضروریہے

مسئلہ ٧ ۶ ١ ضروری ہے کہ انسان نماز عصر، نماز ظہر کے بعد اور نماز عشا کو نماز مغرب کے بعد پڑھے اور اگر جان بوجه کر نماز عصر، نماز ظہر سے پهلے یا نماز عشا کو نماز مغرب سے پهلے پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٢ اگر کوئی شخص نماز ظہر کی نيت سے نماز پڑھنا شروع کرے اور نماز کے دوران اسے یا د آئے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے تو وہ نيت کو نماز عصر ميں تبدیل نہيں کرسکتا بلکہ ضروری ہے کہ نماز تو ڑ کر عصر کی نماز پڑھے۔ مغرب و عشا ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٣ اگر نماز عصر کے دوران کوئی شک کرے کہ اس نے نماز ظہر پڑھی ہے یا نہيں ، تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز ظہر ميں تبدیل کر دے ليکن اگر وقت اتنا کم ہو کہ نماز ختم ہو نے کے بعد سورج غروب کر جائے گا اور ایک رکعت کے لئے بھی وقت باقی نہ ہو گا تو ضروری ہے کے نماز عصر کی نيت سے نماز کو پورا کرے اور اس بات پر بنا رکھے کہ نماز ظہر ادا کرچکا ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶۴ اگر کوئی شخص نماز عصر کے دوران اس یقين یا اطمينان پر کہ اس نے نماز ظہر نہيں پڑھی نيت کو ظہر ميں تبدیل کر دے، اگر کوئی عمل انجام دینے سے پهلے اسے یا د آجائے کہ ظہر کی نماز پڑھ چکا ہے تو ضروری ہے کہ باقی نماز کو عصر کی نيت سے پڑھے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔ اسی طرح جو کچھ انجام دے چکا ہو اگر وہ رکن نہ ہو تب بھی یهی حکم ہے ، ليکن اس صورت ميں قرائت اور ذکر وغيرہ جو ظہر کی نيت سے انجام دے چکا ہو ضروری ہے کہ انہيں دوبارہ عصر کی نيت سے بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں صورتو ں ميں نماز کو عصر کی نيت سے پورا کرے اور دوبارہ بھی پڑھے۔ ہاں، جو کچھ انجام دے چکا ہو وہ اگر ایک رکعت، رکوع یا دو سجدے ہو ں تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۶۵ اگر کوئی شخص نماز عشا ميں چوتھی رکعت کے رکوع سے پهلے شک کرے کہ اس نے نماز مغرب پڑھی ہے یا نہيں اور وقت اتنا کم ہو کہ نماز ختم کرنے کے بعد عشا کے لئے ایک رکعت نماز پڑھنے کا وقت بھی باقی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ عشا کی نيت سے نماز مکمل کرے اور اس بات پر بنا رکھے کہ مغرب کی نماز پڑھ چکا ہے ۔

اور اگر ایک رکعت یا اس سے زیا دہ پڑھنے کا وقت موجود ہو تو ضروری ہے کہ نيت کو نماز مغرب ميں تبدیل کر کے اس کی تين رکعت مکمل کرے اور بعد ميں عشا کی نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧ ۶۶ اگر کوئی شخص نماز عشا کی چوتھی رکعت کے رکوع ميں پهنچنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز مغرب پڑھی ہے یا نہيں اور وقت وسيع ہو تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ نماز مغرب و عشا دونوں پڑھے۔ اسی طرح اگر پانچ رکعات پڑھنے کا وقت ہو تو بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر وقت اس سے کمتر ہو تو اس کی نماز عشا صحيح ہے اور ضروری ہے کہ اسے پورا کرے اور بنا اس پر رکھے کہ نماز مغرب پڑھ چکا ہے ۔

۱۲۹

مسئلہ ٧ ۶ ٧ اگر کوئی شخص ایسی نماز جسے وہ پڑھ چکا ہو احتياطاً دوبارہ پڑھے اور نماز کے دوران اسے یا د آئے کہ اس نماز سے پهلے والی نماز نہيں پڑھی تو وہ نيت کو اس نماز کی طرف نہيں پهيرسکتا مثلاً جب وہ نماز عصر احتياطاً پڑھ رہا ہو اگر اسے یا د آئے کہ اس نے نماز ظہر نہيں پڑھی تو وہ نيت کو نماز ظہر کی طرف نہيں پهير سکتا۔

مسئلہ ٧ ۶ ٨ نمازِ قضا کی نيت کو نماز ادا اور نماز مستحب کی نيت کو نماز واجب کی طرف پهيرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٧ ۶ ٩ اگر ادا نماز کا وقت وسيع ہو تو انسان نماز کے دوران نيت کو قضا نماز ميں تبدیل کرسکتا ہے بشرطيکہ نماز قضاء کی طرف نيت تبدیل کرنا ممکن ہو، مثلاً اگر وہ نماز ظہر ميں مشغول ہو تو نيت کو قضائے صبح ميں اسی صورت ميں تبدیل کرسکتا ہے کہ تيسری رکعت کے رکوع ميں داخل نہ ہو ا ہو ۔

مستحب نماز يں

مسئلہ ٧٧٠ مستحب نماز یں بہت سی ہيں اور انہيں نوافل کہتے ہيں ۔ مستحب نماز وں ميں سے روزانہ کے نوافل کی بہت زیا دہ تاکيد کی گئی ہے ۔ اور یہ روز جمعہ کے علاوہ چونتيس رکعات ہيں ۔ جن ميں سے آٹھ رکعت ظهرکی، آٹھ رکعت عصر کی، چار رکعت مغرب کی، دو رکعت عشا کی، گيا رہ رکعت نماز شب کی اور دو رکعت صبح کی ہيں ۔ چونکہ احتياطِ واجب کی بنا پر عشا کی دورکعت نافلہ بيٹھ کر انجام دینا ضروری ہے ، اس لئے وہ ایک رکعت شمار ہو تی ہے ۔

جمعہ کے دن ظہر اور عصر کی سولہ رکعت نوافل پر چار رکعت کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اور قول مشهو ر کے مطابق بہتر یہ ہے کہ ان ميں سے چھ رکعت سورج کے مکمل طور پر نکل آنے پر، چھ

رکعت دن چڑھنے پر، چھ رکعت زوال سے پهلے اور دو رکعت زوال کے وقت پڑھے۔

مسئلہ ٧٧١ نماز شب کی گيا رہ رکعتو ں ميں سے آٹھ رکعتيں نافلہ شب کی نيت سے، دو رکعت نماز شفع کی نيت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نيت سے پڑھی جائے گی۔ نافلہ شب کا مکمل طریقہ دعا کی کتابوں ميں مذکور ہے ۔

مسئلہ ٧٧٢ نوافل بيٹھ کر بھی پڑھی جاسکتی ہيں ، ليکن بہتر یہ ہے کہ بيٹھ کر پڑھی جانے والی دو رکعت کو ایک رکعت شمار کيا جائے مثلاً جو شخص ظہر کی نوافل جو آٹھ رکعتيں ہيں بيٹھ کر پڑھنا چاہے تو بہتر ہے کہ سولہ رکعتيں پڑھے اور اگر نماز وتر کو بيٹھ کر پڑھنا چاہے تو ایک ایک رکعت کی دو نماز یں پڑھے۔

مسئلہ ٧٧٣ ظہر اور عصر کی نوافل کو سفر ميں نہيں پڑھا جاسکتا اور اگر عشا کی نفليں رجاء

کی نيت سے پڑھی جائيں تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

۱۳۰

روزانہ کی نوافل کا وقت

مسئلہ ٧٧ ۴ ظہر کی نوافل نماز ظہر سے پهلے پڑھی جاتی ہيں اور ان کا وقت ظہر کی ابتدا سے ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اس کی انتها اس وقت تک ہے کہ شاحض کے ظہر کے بعد پيدا ہونے والے سائے کی مقدار، سات ميں سے دو حصّوں کے برابر ہو جائے مثلاً اگر شاحض کی لمبائی سات بالشت ہو تو جب سائے کی مقدار دو بالشت ہوجائے تو احتياط کی بنا پر یہ نافلہ ظہر کا آخری وقت ہے ۔

مسئلہ ٧٧ ۵ عصر کی نوافل نماز عصر سے پهلے پڑھی جاتی ہيں ۔ احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا وقت شاحض کے سائے کی اس مقدار تک ہے جو ظہر کے بعد ظاہر ہو اور سات ميں سے چار حصّوں تک پهنچ جائے۔ اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نفليں اس کے مقررہ وقت کے بعد پڑھنا چاہے تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ ظہر کی نفليں نماز ظہر کے بعد اور عصر کی نفليں نماز عصر کے بعد پڑھے اور ادا و قضاء کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ٧٧ ۶ مغرب کی نفلوں کا وقت نماز مغرب ختم ہو نے کے بعد ہو تا ہے اور مغرب کے آخری وقت تک باقی رہتا ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ سورج کے غروب ہو نے کے بعد مغرب کی جانب دکهائی دینے والی سرخی کے ختم ہو نے سے پهلے پڑھ لے اور اگر سرخی ختم ہو نے کے بعد پڑھے تو ادا و قضاء کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ٧٧٧ عشا کی نفلوں کا وقت نماز عشا ختم ہو نے کے بعد سے آدهی رات تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ نماز عشا ختم ہو نے کے فوراً بعد پڑھی جائيں۔

مسئلہ ٧٧٨ نماز صبح کی نوافل کا وقت احتياطِ واجب کی بنا پر فجر اوّل کے بعد سے لے کر مشرق کی سرخی ظاہر ہونے تک ہے اور جوشخص مشرق کی سرخی ظاہر ہو نے کے بعد پڑھنا چاہے تو نماز صبح کے بعد پڑھے اور ادا و قضاء کی نيت نہ کرے اور نماز شب پڑھنے والا، نافلہ شب کے فوراً بعد نافلہ صبح پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٧٧٩ نماز شب کا وقت مشهو ر قول کی بنا پر آدهی رات سے اذانِ صبح تک ہے ، ليکن بعيد نہيں ہے کہ اس کا وقت رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہو اور آدهی رات سے اذان صبح تک اس کی فضيلت کا وقت ہو اور افضل یہ ہے کہ رات کے آخری تيسرے حصے ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ٧٨٠ مشهو ر قول کی بنا پر نماز شب کا اوّل وقت آدهی رات سے ہے ۔ مسافر اور وہ شخص جس کے لئے آدهی رات کے بعد نماز شب ادا کرنا مشکل ہو وہ اسے اوّل شب ميں پڑھ سکتا ہے ، اگر چہ بعيد نہيں ہے کہ ان دو کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی اوّلِ شب ميں پڑھنا جائز ہو جيسا کہ سابقہ مسئلہ ميں ذکر ہو چکا ہے ۔

۱۳۱

نمازِ غفيلہ

مسئلہ ٧٨١ نمازِ غفيلہ مشهو ر مستحب نماز وں ميں سے ہے اور مغرب و عشا کی نماز کے درميا ن پڑھی جاتی ہے ۔

اس کی پهلی رکعت ميں الحمد کے بعد کسی سورہ کی بجائے اس آیت کا پڑھنا ضروری ہے :

( وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَهَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ اَنْ لَّنَ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادیٰ فِی الظُّلُمَاتِ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ ا نَْٔتَ سُبْحَانَکَ انی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَه وَ نَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ ننُجْیِ الْمُؤْمِنِيْنَ )

اور دوسری رکعت ميں الحمد کے بعد کسی سورہ کی بجائے اس آیت کو پڑھے:

( وَ عِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ یَعْلَمُهَا اِلاَّ هو وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلاَّ یَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ وَ لاَ رَطْبٍ وَّ لاَ یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِيْنٍ )

اور اس کے قنوت ميں پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْا لَُٔکَ بِمَفَاتِحِ الْغَيْبِ الَّتِيْ لاَ یَعْلَمُهَا اِلاَّ اَنْتَ ا نَْٔ تُصَلِّيَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تَفْعَل بِیْ کذا و کذا

اور کذا و کذا کی بجائے اپنی حاجات بيا ن کرے اور اس کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ وَلِيُّ نِعْمَتِيْ وَالْقَادِرُ عَلیٰ طَلِبَتِيْ تَعْلَمُ حَاجَتِيْ فَا سَْٔا لَُٔکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِم السَّلاَمُ لَمَّا قَضَيْتَهَا لِيْ

قبلے کے احکام

مسئلہ ٧٨٢ قبلہ وہ مقام ہے جهاں خانہ کعبہ بنا ہواہے۔ ضروری ہے کہ اس کے سامنے رخ کرکے نماز پڑھی جائے ليکن جو شخص اس سے دور ہے اگر اس طرح کهڑا ہو کہ لوگ کہيں قبلہ رخ نماز پڑھ رہا ہے تو کافی ہے ۔ یهی حکم قبلہ رخ ہوکر انجام دئے جانے والے دوسرے کاموں، مثلا حيوانات کو ذبح کرنے کا ہے ۔

مسئلہ ٧٨٣ جو شخص کهڑا ہو کر واجب نماز پڑھ رہا ہو ضروری ہے کہ اس کا چہرہ ، سينہ اور پيٹ قبلے کی طرف ہوں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کے پاؤں کی انگليا ں بھی قبلہ کی طرف ہو ں۔

مسئلہ ٧٨ ۴ جس شخص کی ذمہ داری بيٹھ کر نماز پڑھنا ہو، ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت اس کا چہرہ ، سينہ اور پيٹ قبلہ کی طرف ہو ں۔

۱۳۲

مسئلہ ٧٨ ۵ جو شخص بيٹھ کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو ضروری ہے کہ نماز کے وقت دائيں پهلو کے بل اس طرح ليٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصّہ قبلے کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ بائيں پهلو کے بل یوں ليٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصّہ قبلے کی طرف ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پشت کے بل اس طرح ليٹے کہ اس کے پيروں کے تلوے قبلے کی طرف ہو ں۔

مسئلہ ٧٨ ۶ نماز احتياط، بھولا ہو ا سجدہ و تشهد اور اس سجدہ سهو کی بجا آوری کے لئے جو بھولے ہو ئے تشهد کے لئے انجام دیا جاتا ہے ، ضروری ہے کہ انسان قبلہ رخ ہو۔ اس کے علاوہ باقی سجدہ هائے سهو ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں قبلے کی طرف رخ کر کے ادا کيا جائے۔

مسئلہ ٧٨٧ مستحب نماز کو زمين پر استقرار کی حالت ميں قبلہ رخ ہو کر پڑھنا ضروری ہے ، ليکن چلتے ہو ئے اور سواری کی حالت ميں قبلے کی طرف منہ کرکے پڑھنا ضروری نہيں ہے ، خواہ نذر کی وجہ سے واجب ہو گئی ہو۔

مسئلہ ٧٨٨ جو شخص نماز پڑھنا چاہے ضروری ہے کہ قبلے کی سمت کا تعين کرنے کے لئے کوشش کرے یهاں تک کہ قبلے کی سمت کے بارے ميں اسے یقين یا اطمينان ہو جائے یا دو عادل مرد یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو، قبلے کے متعلق اطلاع دیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے شهروں ميں قبلے کو ان کی نمازوں اور قبروں سے معلوم کرسکتا ہے ۔ اگر یہ موجود نہ ہو ں تو ضروری ہے کہ اسے معلوم کرنے کی کوشش کرے اور دوسرے طریقوں سے حاصل ہو نے والے گمان کے مطابق عمل کرے، خواہ وہ گمان کسی کا فر یا ایسے فاسق کے کهنے سے حاصل ہو جو علمی قواعد کے ذریعے قبلے کا رخ جانتا ہو ۔

مسئلہ ٧٨٩ جس شخص کو قبلے کے بارے ميں گمان ہو اور اس سے زیادہ مضبوط گمان پيدا کرسکتا ہو تو وہ اپنے گمان پر عمل نہيں کرسکتا، مثلاً اگر مهمان، صاحب خانہ کے کهنے پر قبلے کی سمت کے بارے ميں گمان پيدا کرلے ليکن کسی دوسرے طریقے سے زیا دہ قوی گمان پيدا کرسکتا ہو تو وہ صاحب خانہ کے کهنے پر عمل نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٧٩٠ اگر کسی کے پاس قبلے کا رخ متعين کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو یا کوشش کے باوجود اس کا گمان کسی ایک طرف نہ جائے تو اس کا کسی بھی سمت منہ کر کے نماز پڑھنا کافی ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت وسيع ہو تو چار نماز یں چاروں سمت منہ کر کے پڑھے۔

مسئلہ ٧٩١ اگر اس بارے ميں یقين یا وہ چيز جو یقين کے حکم ميں ہو یا گمان حاصل ہو جائے کہ قبلہ دو ميں سے کسی ایک طرف ہے تو ضروری ہے کہ ان دونوں طرف منہ کر کے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٩٢ جو شخص کئی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتا ہو اگر وہ ایسی دو نماز یں پڑھنا چاہے جو ظہر اور عصر کی طرح یکے بعد دیگرے پڑھنی ضروری ہيں تو احتياط مستحب یہ ہے کہ پهلی نماز کو مختلف سمتو ں کی طرف منہ کر کے پڑھے اور بعد ميں دوسری نماز شروع کرے۔

۱۳۳

مسئلہ ٧٩٣ جس شخص کو قبلے کے بارے ميں یقين یا کوئی ایسی چيز جو یقين کے حکم ميں ہے ، حاصل نہ ہو سکے اگر وہ نماز کے علاوہ کوئی ایسا کا م کرنا چاہے جو قبلے کی طرف منہ کر کے کرنا ضروری ہے مثلاً وہ کوئی حيوان ذبح کرنا چاہتا ہو، تو اگر اس کے لئے تاخير کرنا ممکن ہو تاکہ قبلہ معلوم کيا جا سکے، تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ تاخير کرے۔ ہاں، اگر تاخير ممکن نہ ہو یا حرج کا باعث ہو تو گمان کے مطابق عمل کرسکتا ہے اور اگر گمان ممکن نہ ہو اور حيوان کا ذبح کرنا ضروری ہو مثلاً تاخير کی صورت ميں حيوان مرجائے گا، تو جس طرف منہ کر کے ذبح کرے صحيح ہے ۔

نماز ميں بدن کا ڈهانپنا

مسئلہ ٧٩ ۴ ضروری ہے کہ مرد نماز کی حالت ميں اپنی دونوں شرمگاہو ں کو ڈهانپے، خواہ اسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ناف سے گھٹنوں تک بدن بھی ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩ ۵ ضروری ہے کہ عورت نماز کے وقت اپنا پورا بدن حتی سر اور بال بھی ڈهانپے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے تلوے بھی ڈهانپے، ليکن وضو ميں دهویا جانے والا چھرے کا حصہ، کلائيوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں کا ظاہری حصّہ ڈهانپنا ضروری نہيں ہے ۔ ہاں، یہ اطمينان حاصل کرنے کے لئے کہ اس نے واجب مقدار ڈهانپ لی ہے ضروری ہے کہ چھرے کی اطراف اور کلائيوں سے نيچے کا کچھ حصہ بھی ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩ ۶ بھولے ہو ئے سجدے، بھولے ہوئے تشهد یا بھولے ہوئے تشهد کی وجہ سے واجب ہونے والے سجدہ سهو کو انجام دیتے وقت ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس طرح ڈهانپے جس طرح نماز کے وقت ڈهانپا جاتا ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ باقی سجدہ هائے سهو بجالاتے وقت بھی اپنے آپ کو ڈهانپے۔

مسئلہ ٧٩٧ اگر کوئی انسان جان بوجه کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے، جب کہ مسئلہ سيکهنے ميں کوتاہی کی ہو، نماز ميں اپنی شرمگاہ نہ چھپا ئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٩٨ اگر کسی شخص کو نماز کے دوران پتہ چلے کہ اس کی شرمگاہ برہنہ ہے تو ضروری ہے کہ فوراً اپنی شرمگاہ چھپا ئے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نماز مکمل کرکے دوبارہ پڑھے، ليکن اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ نماز کے دوران اس کی شرمگاہ برہنہ تھی تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

یهی حکم اس وقت ہے جب اسے نماز کے دوران معلوم ہو کہ پهلے اس کی شرمگاہ برہنہ تھی ليکن فی الحال چھپی ہو ئی ہے ۔

مسئلہ ٧٩٩ اگر کسی شخص کا لباس کھڑے ہو نے کی حالت ميں اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ لے ليکن ممکن ہے کہ دوسری حالت ميں مثلاً رکوع یا سجود کی حالت ميں نہ ڈهانپے تو اگر شرمگاہ کے برہنہ ہو نے کے وقت اسے کسی ذریعے سے ڈهانپ لے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس لباس کے ساته نماز نہ پڑھے۔

۱۳۴

مسئلہ ٨٠٠ انسان نماز ميں اپنے آپ کو گهاس اور درختو ں کے پتو ں سے ڈهانپ سکتا ہے ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ ان چيزوں سے اس وقت ڈهانپے جب اس کے پاس کوئی اور چيز نہ ہو ۔

مسئلہ ٨٠١ اگر گارے کے علاوہ شرمگاہ کو چھپا نے کے لئے کوئی دوسری چيز نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اختياری حالت ميں گارے کے ساته خود کو ڈهانپ کر پڑھی جانے والی اور اضطرار کے وقت برہنہ حالت ميں پڑھی جانے والی ،دونوں نمازوں کو انجام دے۔

مسئلہ ٨٠٢ جس شخص کے پاس کوئی ایسی چيز نہ ہو جس سے وہ نماز ميں اپنے آپ کو ڈهانپے، اگر احتمال دے کہ آخر وقت تک کوئی چيز مل جائے گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز ميں تاخير کرے اور اگر کوئی چيز نہ ملے تو آخر وقت ميں اپنے وظيفے کے مطابق نماز پڑھے۔ ایسا شخص اپنی نماز اول وقت ميں بھی پڑھ سکتا ہے اور اگر آخر وقت تک کوئی چيز نہ ملے تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر مل جائے تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨٠٣ جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہو، اگر اپنی شرمگاہ ڈهانپنے کے لئے حتی اس کے پاس گارا اور کيچڑ بھی نہ ہو تو اگر کيفيت یہ ہو کہ کسی ناظرِ محترم کی نگاہ اس کی شرمگاہ پر نہ پڑ رہی ہو تو کهڑا ہو کر نماز پڑھے اور احتياط واجب کی بنا پر ہاتھ کو اپنی شرمگاہ پر رکھے اور ضروری ہے کہ رکوع و سجود اشارے کے ساته بجالائے اور احتياط واجب کی بنا پر سجود کے لئے زیادہ اشارہ کرے۔اور اگر کيفيت یہ ہو کہ کسی ناظرِ محترم کی نگاہ اس پر پڑ رہی ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ

کر نماز پڑھے اور رکوع و سجود کے لئے اشارہ کرے اور احتياط واجب کی بنا پر سجود کے لئے زیادہ اشارہ کرے۔

نمازی کے لباس کی شرائط

مسئلہ ٨٠ ۴ نمازی کے لباس کی چھ شرائط ہيں :

١) پاک ہو

٢) مباح ہو

٣) مردار کے اجزاء سے نہ بنا ہو

۴) حرام گوشت حيوان کے اجزاء سے نہ بنا ہو

۵،۶ ) اگر نمازی مرد ہو تو اس کا لباس خالص ریشم اور زردوزی (سونے کی کڑھائی )کا بنا ہوا نہ ہو۔

۱۳۵

اور ان شرائط کی تفصيل آئندہ مسائل ميں بيان کی جائے گی۔

پهلی شرط

مسئلہ ٨٠ ۵ نمازی کا لباس پاک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص اختياری حالت ميں نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠ ۶ جو شخص اپنی کوتاہی کی وجہ سے یہ نہ جانتا ہو کہ نجس بدن یا لباس کے ساته نماز باطل ہے اور نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے، تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠٧ جو شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے، نجس چيز کی نجاست کو نہ جانتا ہو، مثلاً یہ نہ جانتا ہو کہ غير کتابی کافر کا پسينہ نجس ہے اور اس کے ساته نماز پڑھے، تو جاہل مقصر ہونے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٠٨ جو شخص نہ جانتا ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور نماز پڑھنے کے بعدنجاست کا علم ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ ہاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر وقت باقی ہو تو نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٨٠٩ جو شخص بھول جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور نماز کے دوران یا اس کے بعد یاد آئے تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گيا ہو تو اس کی قضا کرے۔

مسئلہ ٨١٠ جو شخص وسيع وقت ميں نماز ميں مشغول ہو، اگر نماز کے دوران اس کا بدن یا لباس نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے معلوم ہو جائے کہ نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس تبدیل کرنے یا لباس اتارنے سے نماز کی شکل نہ بگڑے تو ضروری ہے کہ نماز کے دوران بدن یا لباس پاک کرے یا لباس تبدیل کرے یا اگر کسی اور چيز نے اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ رکھا ہو تو لباس اتار دے، ليکن اگر بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس بدلنے یا اتار نے سے نماز کی شکل بگڑ جاتی ہو یا لباس اتارنے سے برہنہ ہوتا ہو تو اس کی نماز باطل ہوگی اور ضروری ہے کہ دوبارہ پاک بدن اور پاک لباس کے ساته نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨١١ جو شخص تنگ وقت ميں نماز ميں مشغول ہو، اگر نماز کے دوران اس کا لباس نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا لباس نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا لباس نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ اسے پاک کرنا، تبدیل کرنا یا اتارنا ممکن ہو اور نماز بھی نہ ٹوٹتی ہو تو ضروری ہے کہ لباس کو پاک کرے، تبدیل کرے یا اگر کسی اور چيز نے اس کی شرمگاہ کو ڈهانپ رکھا ہو تو

۱۳۶

لباس اتار دے اور نماز کو مکمل کرے، ليکن اگر کسی چيز نے اس کی شرمگاہ کو نہ ڈهانپ رکھا ہو اور لباس کو بھی پاک یا تبدیل نہ کرسکتا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ اسی نجس لباس کے ساته نماز مکمل کرے۔

مسئلہ ٨١٢ جو شخص تنگ وقت ميں نماز ميں مشغول ہو اگر نماز کے دوران اس کا بدن نجس ہو جائے اور اس سے پهلے کہ نماز کا کچھ حصّہ نجاست کے ساته پڑھے اسے معلوم ہوجائے کہ اس کا بدن نجس ہوا ہے یا سمجھ جائے کہ اس کا بدن نجس ہے اور شک کرے کہ اسی وقت نجس ہوا ہے یا پهلے سے نجس تھا، تو اس صورت ميں کہ بدن پاک کرنے سے نماز کی شکل نہ بگڑتی ہو بدن کو پاک کرے اور اگر نماز کی شکل بگڑتی ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت ميں نماز کو مکمل کرے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١٣ جس شخص کو اپنے بدن یا لباس کے پاک ہونے ميں شک ہو اور سابقہ نجاست کے بارے ميں اسے نہ یقين ہو اور نہ ہی کوئی ایسی چيز جو یقين کے حکم ميں ہے اور نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۴ اگر کوئی شخص اپنا لباس دهوئے اور اس کے پاک ہوجانے کے بارے ميں اسے یقين یا وہ چيز حاصل ہو جائے جو یقين کے حکم ميں ہے ، پھر اس لباس کے ساته نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ پاک نہيں ہوا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۵ اگر کوئی شخص اپنے بدن یا لباس پر خون دیکھے اور اسے یقين ہو جائے کہ وہ خون نجس نہيں ہے مثلاً اسے یقين ہو کہ مچہر کا خون ہے ، چنانچہ اگر نماز پڑھنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ یہ ایسا خون تھا جس کے ساته نماز نہيں پڑھی جاسکتی تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١ ۶ اگر کسی شخص کو یقين ہو کہ اس کے بدن یا لباس پر جو خون ہے وہ ایسا نجس خون ہے جس کے ساته نماز صحيح ہے مثلاً اسے یقين ہوکہ زخم یا پهوڑے کا خون ہے ليکن نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ یہ ایسا خون ہے جس کے ساته نماز باطل ہے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨١٧ اگر کوئی شخص کسی چيز کے نجس ہونے کو بھول جائے اوراس کا بدن یا لباس رطوبت کے ساته اس چيز سے چھو جائے اور اسی بھول کے عالم ميں وہ نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر اس کا بدن رطوبت کے ساته اس چيز کو چھو جائے جس کا نجس ہونا وہ بھول گيا ہے اور وہ اپنے آپ کو پاک کئے بغير غسل کرکے نماز پڑھے تو اس کا غسل اور نماز دونوںباطل ہيں ، مگر یہ کہ کيفيت یہ ہو کہ غسل کرنے سے بدن بھی پاک ہو جائے، مثلا معتصم پانی سے غسل کرے یعنی ایسے پانی سے جو نجس چيز کے ساته صرف ملنے سے نجس نہيں ہوتا، مثلاً کُر اور جاری پانی۔

۱۳۷

اسی طرح اگر وضو کے اعضا کا کوئی حصّہ رطوبت کے ساته اس چيز سے چھو جائے جس کے نجس ہونے کے بارے ميں وہ بھول گيا ہو اور اس حصے کو پاک کرنے سے پهلے ہی وضو کرکے نماز پڑھ لے تو اس کا وضو اور نماز دونوں باطل ہيں ، مگر یہ کہ وضو کرنے سے وضو کے اعضا بھی پاک ہو جائيں مثلاً معتصم پانی سے وضو کرے۔

مسئلہ ٨١٨ جس شخص کے پاس ایک لباس ہو، اگر اس کا بدن اور لباس نجس ہو جائيں اور اس کے پاس ان ميں سے ایک کو پاک کرنے کا پانی ہو تو احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ بدن کو پاک کرے اور نجس لباس کے ساته نماز پڑھے۔ ہاں، اگربدن کی نجاست لباس کی نجاست سے کمتر ہو یا بدن کی نجاست کو ایک مرتبہ دهونا ضروری ہو اور لباس کی نجاست کو دو مرتبہ دهونا ضروری ہو تو ان دو صورتوں ميں لباس کو پهلے پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٨١٩ جس شخص کے پاس نجس لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس نہ ہو، ضروری ہے کہ نجس لباس کے ساته نماز پڑھے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٢٠ جس شخص کے پاس دو لباس ہوں اگر وہ جانتا ہو کہ ان ميں سے ایک نجس ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ کون سا نجس ہے اور اس کے پاس وقت ہو تو ضروری ہے کہ دونوں لباس کے ساته نماز پڑھے، مثلاً اگر نماز ظہر و عصر پڑھنا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ هرلباس کے ساته ایک نماز ظہر کی اور ایک نماز عصر کی پڑھے، ليکن اگر وقت تنگ ہو تو ان ميں سے ایک لباس کے ساته نماز پڑھے اور وقت کے بعد دوسرے لباس یا کسی پاک لباس کے ساته نماز پڑھے۔

دوسری شرط

مسئلہ ٨٢١ نمازی کا وہ لباس جس سے شرمگاہ ڈهانپی جاتی ہے ، ضروری ہے کہ مباح ہو۔

جو شخص جانتا ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے یا اپنی کوتاہی کی وجہ سے یہ مسئلہ نہ سيکها ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے اور جان بوجه کر اس لباس سے اپنی شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ، ليکن وہ چيزیں جو خود بہ تنهائی شرمگاہ کو نہ ڈهانپ سکيں اور اسی طرح وہ چيزیں جنہيں نمازی نے حالت نماز ميں نہ پهن رکھا ہو، اگر چہ ان سے شرمگاہ کو ڈهانپا جاسکتا ہو مثلاً بڑا رومال، یا لنگوٹی جو جيب ميں رکھی ہو اور اسی طرح وہ چيزیں جنہيں نمازی نے پهنا ہو ليکن ان کے ذریعے شرمگاہ کو نہ ڈهانپا ہو، ان تمام صورتوں ميں ان کے غصبی ہونے سے نماز باطل نہيں ہوتی، اگرچہ نماز کے صحيح ہونے کے اعتبار سے احتياط یہ ہے کہ ان کو ترک کر دیا جائے۔

مسئلہ ٨٢٢ جو شخص یہ تو جانتا ہو کہ غصبی لباس پهننا حرام ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ اس لباس کے ساته شرمگاہ ڈهانپنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ، اگر جان بوجه کر اس کے ذریعے حالت نماز ميں شرمگاہ ڈهانپی ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۳۸

مسئلہ ٨٢٣ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ اس کا لباس غصبی ہے اور اس لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔یهی حکم اس وقت ہے جب لباس کے غصبی ہونے کو بھول جائے جب کہ غاصب خود نہ ہو، ليکن اگر غاصب بھول جائے کہ اس نے غصب کيا ہے اور اس غصبی لباس کے ساته اپنی شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھ لے تو غصب سے توبہ نہ کرنے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہے اور اگر توبہ کرچکا ہو تو نماز کا باطل ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٢ ۴ اگر کسی شخص کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ اس کا لباس غصبی ہے ليکن نماز کے دوران اسے پتہ چل جائے اور اس کی شرمگاہ کسی دوسری چيز سے ڈهکی ہوئی ہو اور وہ فوراً یا نماز کا تسلسل توڑے بغير غصبی لباس اتار سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے اتار دے اور اگر اس کی شرمگاہ کسی دوسری چيز سے ڈهکی ہوئی نہ ہو یا اس غصبی لباس کو فوراً نہ اُتارسکتا ہو یا لباس اُتارنے سے نماز کا تسلسل ٹوٹتا ہو اور صورت یہ ہو کہ اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کا وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور اس لباس کے ساته نماز پڑھے جو غصبی نہ ہو اور اگر اتنا وقت بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کی حالت ميں ہی لباس اُتار دے اور مسئلہ نمبر ” ٨٠٣ “ ميں برہنہ لوگوں کی نماز کے لئے بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز مکمل کرے۔

مسئلہ ٨٢ ۵ اگر کوئی شخص اپنی جان کی حفاظت کے لئے غصبی لباس کے ساته نماز پڑھے، تو چاہے اس کے ذریعے شرمگاہ ڈهکی ہو ئی ہو یا مثال کے طور پر غصبی لباس کے ساته اس لئے نماز پڑھے تا کہ چور نہ لے جائے، تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٢ ۶ اگر کوئی شخص عين اس رقم سے لباس خریدے جس کا خمس اس نے ادا نہ کيا ہو تو اس لباس کے ساته نماز پڑھنے کا وهی حکم ہے جو غصبی لباس کے ساته نماز پڑھنے کا ہے ۔

تيسری شرط

مسئلہ ٨٢٧ ضروری ہے کہ نمازی کا لباس، خون جهندہ رکھنے والے مردہ حيوان کے اجزا سے نہ بنا ہو، بلکہ اگر ایسے مردہ حيوان مثلاً مچھلی اور سانپ، جن کا خون جهندہ نہيں ہوتا، کے اجزا سے تيار کيا ہوا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر اس کے ساته نماز نہ پڑھی جائے۔

مسئلہ ٨٢٨ اگر نجس مردار کی ایسی چيز مثلاً گوشت اور کھال جن ميں روح ہوتی ہے ، نمازی کے ہمراہ ہو اگر چہ اس کا لباس نہ ہو، احتياط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٢٩ اگر حلال گوشت مردار کی کوئی ایسی چيز مثلاً بال اور اون، جن ميں روح نہيں ہوتی، نمازی کے ہمراہ ہو یا ان کے ساته تيار کئے گئے لباس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۳۹

چوتھی شرط

مسئلہ ٨٣٠ ضروری ہے کہ نمازی کا لباس حرام گوشت جانور کے اجزا سے بنا ہوا نہ ہو اور اگر حرام گوشت جانور کا ایک بال بھی نمازی کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٣١ حرام گوشت جانور مثلاً بلی کے منہ یا ناک کا پانی یا کوئی دوسری رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگی ہو اور وہ تر ہو تو نماز باطل ہے ،ليکن اگر خشک ہو اور اس کا عين جزء زائل ہوگيا ہو تو نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٣٢ اگر کسی کا بال، پسينہ، منہ کا لعاب یا ناک کا پانی نمازی کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح موتی، موم اور شهد اس کے ہمراہ ہو تب بھی نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨٣٣ اگر کسی کو شک ہو کہ لباس حلال گوشت جانور سے تيار کيا گيا ہے یا حرام گوشت جانور سے تو خواہ وہ اسلامی مملکت ميں تيار کيا گيا ہو یا غير اسلامی مملکت ميں ، اس کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨٣ ۴ سيپ اور اس سے بنائی گئی چيزوں مثلاً قميص کے بٹن کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے ۔

پهن کر نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں اور ( MINK FUR ) مسئلہ ٨٣ ۵ سمور کا خالص لباس احتياط واجب یہ ہے کہ گلهری کی پوستين کے ساته نماز نہ پڑھے۔

مسئلہ ٨٣ ۶ اگر کوئی شخص ایسے لباس کے ساته نماز پڑھے جس کے متعلق نہ جانتا ہو یا بھول گيا ہو کہ حرام گوشت جانور سے تيار ہوا ہے تو دوبارہ نماز پڑھنا ضروری نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور جاہل قاصر کا بھی یهی حکم ہے ۔

پانچويں شرط

مسئلہ ٨٣٧ مردوں کے لئے زر دوزی کيا ہوا لباس پهننا حرام ہے اور اس کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ، ليکن عورتوں کے لئے نماز ميں یا نماز کے علاوہ اس کے پهننے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٣٨ مردوں کے لئے سونا پهننا مثلاً گلے ميں سونے کی زنجير پهننا، سونے کی گهڑی کلائی پر باندهنا، سونے کی عينک لگانا، سونے کی انگوٹھی ہاتھ ميں پهننا اور ان جيسی چيزوں کا استعمال حرام اور ان کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ، ليکن عورت کے لئے نماز ميں اور نماز کے علاوہ بھی ان چيزوں کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٣٩ اگر کوئی مرد نہ جانتا ہو یا بھول گيا ہو کہ مثلاً اس کی انگوٹھی یا لباس سونے کا ہے یا شک رکھتا ہو اور ان کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

مسئلہ ١ ۶ ٣٢ اگر اس چيز کا پتہ لگانے کے لئے کہ وقت ہے یا نہيں جستجو کرے اوریہ گمان حاصل کرنے کے بعدکہ غسل کے لئے وقت ہے ، اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تيمم کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ، اور اگر جستجو کئے بغير گمان کرے کہ وقت ہے اور اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تيمم کے ساته روزہ رکھ لے تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٣ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں جنب ہو اور جانتا ہو کہ اگر سوگيا تو صبح تک بيدار نہيں ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ غسل کئے بغير نہ سوئے اور اگر غسل سے پهلے سو جائے اور صبح تک بيدار نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہو جائيں گے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۴ جب بھی جنب ماہ رمضان کی کسی شب ميں بيدار ہو، اِس صورت ميں کہ اطمينان نہ رکھتا ہوکہ اذان صبح سے پهلے غسل کے لئے بيدار ہو سکے گا تو احتياط مستحب یہ ہے کہ غسل کرنے سے پهلے نہ سوئے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۵ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں جنب ہو اور یقين یا اطمينان رکھتا ہو کہ اگر سوگيا تو اذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوجائے گا، چنانچہ پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ بيدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور اس ارادے سے سو جائے اور اذانِ صبح تک سوتا رہے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۶ جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو اور اُسے علم ہو یا احتمال ہو کہ اگر سو گيا تو صبح کی اذان سے پهلے بيدار ہوجائے گا، اگر وہ اس بات سے غافل ہو کہ بيدار ہونے کے بعداس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، اس صورت ميں کہ وہ سوجائے اور صبح کی اذان تک سوتا رہے، تو بنا بر احتياط ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٧ جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو اور اُسے یقين ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ اگر سوگيا تو اذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوجائے گاليکن بيدار ہونے کے بعد وہ غسل نہ کرنا چاہتا ہو یا تردد کا شکار ہو کہ غسل کرے یا نہيں تو اس صورت ميں اگرسو جائے اور بيدار نہ ہو تواس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ اس پر واجب ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٨ اگر جنب ماہ رمضان کی کسی رات ميں سوکر بيدار ہوجائے اور اسے معلوم ہو یا اس بات کا احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوجائے تواذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوگا اورمصمم ارادہ بھی رکھتا ہوکہ بيدار ہونے کے بعد غسل کرے گا، چنانچہ دوبارہ سوجائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر دوسری نيند سے بيدار ہو اور تيسری مرتبہ کے لئے سوجائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہوتوضروری ہے کہ اِس دن کے روزے کی قضا کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے۔

۲۶۱

مسئلہ ١ ۶ ٣٩ محتلم ہونے کی صورت ميں پهلی نيند سے مراد، وہ نيند ہے کہ جس ميں بيدار ہونے کے بعد سوجائے، یعنی وہ نيند کہ جس ميں محتلم ہوا ہے پهلی نيند شمار نہيں ہوگی۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٠ اگر روزہ دار دن ميں محتلم ہوجائے تو فوری طور پر غسل کرنا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ١ اگر ماہ رمضان ميں اذانِ صبح کے بعد بيدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہو گيا ہے تو اگر چہ جانتا ہو کہ اذان سے پهلے محتلم ہوا تھا، اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٢ جو شخص ماہ رمضان کے روزے کی قضا رکھنا چاہتا ہو، اگر وہ اذانِ صبح تک جنب رہے خواہ جان بوجه کر نہ بھی ہو، اس کا روزہ باطل ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٣ جو شخص ماہ رمضان کا قضا روزہ رکھنا چاہتا ہو، اگر وہ اذانِ صبح کے بعد بيدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہوگيا ہے اور جانتا ہو کہ اذان سے پهلے محتلم ہوا ہے تو بنا بر احتياط اس کا روزہ باطل ہوگا، ليکن اگر روزے کی قضا کا وقت دوسرے ماہ رمضان کے آنے تک تنگ ہو، مثال کے طور پر رمضان کے پانچ روزے قضا ہوں اور رمضان آنے ميں محض پانچ دن رہ گئے ہوں تو بنا بر احتياطِ واجب اس دن روزہ رکھے اور ایک اور روزہ ماہ رمضان کے بعدبهی رکھے۔

مسئلہ ١ ۶۴۴ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوں کے علاوہ ایسے واجب روزوں ميں جن کا وقت معين نہ ہومثلاً کفارے کے روزے، جان بوجه کر اذانِ صبح تک جنابت کی حالت ميں رہے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس دن کے علاوہ کسی دوسرے دن روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۶۴۵ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور جان بوجه کر غسل نہ کرے یا اگر اُس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہے اوراگر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوتا اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ غسل کرلے۔

مسئلہ ١ ۶۴۶ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کے لئے وقت نہ رکھتی ہوتوضروری ہے کہ تيمم کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اذان صبح تک جاگتی رہے اور جس جنب شخص کی ذمہ داری تيمم ہو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٧ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح کے قریب حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور غسل اور تيمم ميں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہو تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

۲۶۲

مسئلہ ١ ۶۴ ٨ اگر عورت اذانِ صبح کے بعد حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے یا دن ميں کسی وقت خون حيض یا نفاس دیکھے اگر چہ مغرب کا وقت نزدیک ہو، اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٩ اگر عورت غسلِ حيض یا نفاس کرنا بھول جائے اور ایک یا کئی دنوں کے بعد اسے یاد آئے تو جو روزے اس نے رکھے ہوں وہ صحيح ہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٠ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور کوتاہی کرتے ہوئے اذانِ صبح تک غسل نہ کرے اُس کا روزہ باطل ہے ، ليکن اگر کوتاہی نہ کرے مثلاً زنانہ حمام کے ميسر ہونے کا انتظار کرے تو خواہ اس مدت ميں وہ تين بار سوئے اور اذان تک غسل نہ کرے تو تيمم کر لينے کی صورت ميں اس کا روزہ صحيح ہے اور اگر تيمم بھی ممکن نہ ہو تو اُس کا روزہ بغير تيمم کے بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ١ جو عورت استحاضہ کثيرہ کی حالت ميں ہو اگر وہ اپنے غسلوں کو احکام استحاضہ ميں گذری ہوئی تفصيل کے مطابق انجام دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے اور استحاضہ متوسطہ ميں اگر چہ غسل نہ کرے تب بھی اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٢ جس نے ميت کو مس کيا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ ميت کے بدن سے لگایا ہو تو وہ غسلِ مسِ ميت انجام دئے بغير روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر روزے کی حالت ميں بھی ميت کو مس کرے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

٨۔ حقنہ لينا

مسئلہ ١ ۶۵ ٣ بهنے والی چيز سے انيما لينا اگرچہ مجبوری اور علاج کے لئے ہو، روزے کو باطل کردیتا ہے ۔

٩۔ قے کرنا

مسئلہ ١ ۶۵۴ اگر روزے دار عمداً قے کرے اگر چہ بيماری یا ایسی ہی کسی چيز کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر بھولے سے یا بے اختيار قے کرے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۵۵ اگر رات ميں کوئی ایسی چيز کهالے کہ جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ اس کی وجہ سے دن ميں بے اختيار قے کردے گا تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶۵۶ اگر روزہ دار قے روک سکتا ہو تو ضرر اور مشقت نہ ہو نے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قے کو روکے۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٧ اگر مثلاً روزے دار کے حلق ميں مکهی چلی جائے اور قے کئے بغير اُسے باہر نکالنا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ باہر نکالے اور اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر ممکن نہ ہو تو اگر اسے نگلنا، کھانا کها جائے تو ضروری ہے کہ اُسے باہر نکالے اگرچہ قے کے ذریعے ہو اور اس کا روزہ باطل ہے اور اگر نگلنے کو کھانا نہ کها جائے تو ضروری ہے کہ باہر نہ نکالے اور اس کا روزہ صحيح ہے ۔

۲۶۳

مسئلہ ١ ۶۵ ٨ اگر بھولے سے کسی چيز کو نگل لے اور حلق سے گزر جائے اور پيٹ ميں پهنچنے سے پهلے اِس کو یاد آجائے کہ روزہ ہے تو اس کا باہر نکالناضروری نہيں ہے اور اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٩ اگر یقين ہو کہ ڈکار لينے کی وجہ سے کوئی چيز گلے سے باہر آجائے گی تو بنا بر احتياطِ واجب جان بوجه کر ڈکار نہ لے، ليکن اگر یقين نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٠ اگر ڈکار لينے سے کوئی چيز منہ ميں آجائے تو باہر اگل دینا ضروری ہے اور اگر بے اختيار اندر چلی جائے تو روزہ صحيح ہے ۔

روزہ باطل کر نے والی چيزوں کے احکام

مسئلہ ١ ۶۶ ١ اگر کوئی شخص جان بوجه کر اور اختيار سے روزہ باطل کر دینے والے کسی بھی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ ہاں، اگر جان بوجه کر نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر جنب سو جائے اور مسئلہ” ١ ۶ ٣ ۶ “ ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اذانِ صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٢ اگر روزہ دار بھولے سے روزہ باطل کرنے والے کاموں ميں سے کوئی کام انجام دے اور اس خيال سے کہ اس کا روزہ باطل ہوگيا ہے وہ عمداًدوبارہ ان ميں سے کسی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٣ اگر کوئی چيز زبردستی روزہ دار کے گلے ميں ڈال دی جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا، ليکن اگر اسے روزہ توڑنے پر مجبور کيا جائے مثلاًاس سے کها جائے:” اگر تم نے کھانا نہ کهایا تو ہم تمہيں جانی یا مالی نقصان پهنچائيں گے“ اور وہ نقصان سے بچنے کے ليے خود کوئی چيز کها لے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۶۴ ضروری ہے کہ روزہ دار ایسی جگہ نہ جائے جس کے بارے ميں جانتا ہو یا اطمينان رکھتا ہو کہ کوئی چيز اس کے حلق ميں ڈال دی جائے گی یا اسے اپنا روزہ باطل کرنے پر مجبور کيا جائے گا لہٰذا اگر وہ چلا جائے اور کوئی چيز اس کے گلے ميں ڈال دی جائے یا وہ خود مجبوری کی بنا پر روزہ باطل کرنے والے کسی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، بلکہ اگر صرف جانے کا ارادہ کرے اگرچہ نہ جائے اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

وہ چيزيں جو روزہ دار کے لئے مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۶۶۵ کچھ چيزیںروزہ دار کے لئے مکروہ ہيں جن ميں سے بعض یہ ہيں :

١) آنکہوں ميں دوائی ڈالنا اور سرمہ لگانا جب کہ ان کا مزہ یا بو حلق تک پهنچ جائے۔

٢) کسی بھی ایسے کا م کو انجام دینا جو کمزوری کا باعث ہو مثلاً خون نکالنا یا حمام جانا۔

۲۶۴

٣) ناس کھينچنا بشرطيکہ معلوم نہ ہو کہ حلق تک پهنچ جائے گی اور اگر معلوم ہو کہ حلق تک پهنچ جائے گی تو جائز نہيں ہے ۔

۴) خوشبودار جڑی بوٹيوں کوسونگهنا۔

۵) عورت کا پانی ميں بيٹھنا۔

۶) خشک چيز سے انيما کرنا۔

٧) بدن پر موجود لباس کو تر کرنا۔

٨) دانت نکالنا اور ہر وہ کا م جس کی وجہ سے منہ سے خون نکل آئے۔

٩) تر لکڑی سے مسواک کرنا۔

١٠ ) بلاوجہ پانی یا کوئی بهنے والی چيز منہ ميں ڈالنا۔

اور یہ بھی مکروہ ہے کہ انسان منی خارج کرنے کا ارادہ کئے بغير اپنی بيوی کا بوسہ لے یا اپنی شهوت کو ابهارنے والا کوئی بھی کام انجام دے اور اگر منی خارج کرنے کا ارادہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

قضا و کفارہ واجب ہونے کے مقامات مسئلہ ١ ۶۶۶ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو جائے اور مسئلہ” ١ ۶ ٣ ۶ “ ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق بيدار ہو کر دوبارہ سو جائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ صرف ا س روزے کی قضا کرے ليکن اگر روزہ دار مبطلاتِ روزہ ميں سے کوئی اور کام عمدا انجام دے جب کہ وہ جانتا ہو کہ یہ کام روزے کو باطل کر دیتا ہے تو قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہو جائيں گے۔ یهی حکم اس صورت ميں بھی ہے جب جانتا ہو کہ یہ کام حرام ہے چاہے یہ نہ جانتا ہو کہ یہ روزے کو باطل بھی کر دیتا ہے جيسے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام ميں سے کسی پر جھوٹ باندهنا۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٧ اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے مبطلاتِ روزہ ميں سے کسی کام کو اس عقيدے کے ساته کہ یہ عمل روزے کو باطل نہيں کرتا، انجام دے تو ا س پر کفارہ واجب نہيں ۔

روزے کا کفارہ

مسئلہ ١ ۶۶ ٨ ماہِ رمضان کا روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ:

١) ایک غلام کو آزاد کرے ،یا

٢) آنے والے مسئلے ميں بيان کردہ طریقے کے مطابق دو ماہ کے روزے رکھے ،یا

٣) ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا ہر فقير کو ایک مُد، جو تقریباًساڑھے سات سو گرام بنتا ہے گندم، آٹا، روٹی، کھجور یا ان جيسی کوئی کھانے کی چيز دے۔

۲۶۵

اور اگر یہ چيزیں ممکن نہ ہوں تو احتياطِ واجب کی بنا پر جس قدر ممکن ہو صدقہ دے اور استغفار بھی کرے اور اگر صدقہ دینا بھی ممکن نہ ہو تو استغفار کرے اگرچہ صرف ایک مرتبہ ”استغفراللّٰہ“کهے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب بھی ممکن ہو کفارہ بھی دے۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٩ جو شخص ماہِ رمضان کے کفارے ميں دو ماہ کے روزے رکھنا چاہتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مهينہ مکمل اور اگلے مهينے کا پهلا دن مسلسل روزے رکھے جب کہ باقی روزے اگر مسلسل نہ بھی ہوں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٠ جو شخص رمضان کے کفارے ميں دو ماہ کے روزے رکھنا چاہتا ہو ضروری ہے کہ ایسے وقت ميں شروع نہ کرے جب جانتا ہو کہ ایک مهينے اور ایک دن کے درميان عيدِ قربان کی طرح کوئی ایسا دن بھی ہے جس کا روزہ حرام ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧١ جس کے لئے مسلسل روزے رکھنا ضروری ہوں اگر درميان ميں بغير کسی عذر کے ایک دن روزہ نہ رکھے یا ایسے وقت روزے رکھنا شروع کرے جب جانتا ہو کہ درميان ميں ایک ایسا دن آرہا ہے کہ جس ميں روزہ رکھنا اس پر واجب ہے ، مثلاًوہ دن آرہا ہے جس ميں روزہ رکھنے کی نذر کر رکھی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ شروع سے روزے رکھے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٢ اگر ان دنوں ميں جب مسلسل روزے رکھنا ضروری ہيں ، بے اختيا ر کوئی عذر پيش آجائے جيسے حيض یا نفاس یا کسی بيماری ميں مبتلاہو جائے، تو عذر ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ باقی روزوں کو عذر ختم ہونے کے بعد بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٣ اگر کسی حرام چيز سے اپنے روزے کو باطل کر دے خواہ وہ چيز بذاتِ خود حرام ہوجيسے شراب اور زنا یا کسی وجہ سے حرام ہو گئی ہو جيسے اپنی حائضہ بيوی سے مقاربت کرنا تو احتياط کی بنا پر اس پر کفارہ جمع واجب ہو جائے گا یعنی ضروری ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، دو مهينے کے روزے رکھے اور ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا بھی کهلائے یا ان ميں سے ہر ایک کو ایک مُد طعام دے۔

اور اگر یہ تينوں اس کے لئے ممکن نہ ہوں تو ضروری ہے کہ ان ميں سے جو ممکن ہو انجام دے اور بنا بر احتياطِ واجب استغفار بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۴ اگر روزہ دار جان بوجه کر خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے جھوٹی بات منسوب کرے تو احتياط کی بنا پر کفارہ جمع اس پر واجب ہو جائے گا جس کی تفصيل گذشتہ مسئلے ميں بيان کی گئی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۵ اگر روزہ دار ماہِ رمضان کے ایک ہی دن ميں کئی بار جماع یا استمنا کرے تو بنا بر احتياط اس پر ہر مرتبہ کے لئے کفارہ واجب ہو جائے گا اور اگر اس کاجماع یا استمنا حرام ہو تو بنا بر احتياط ہر مرتبہ کيلئے ایک کفارہ جمع اس پر واجب ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۶ اگر روزہ دار ماہِ رمضان کے ایک دن ميں جماع اور استمنا کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو چند بار انجام دے تو ان سب کے لئے ایک کفارہ کافی ہے ۔

۲۶۶

مسئلہ ١ ۶ ٧٧ اگر روزہ دار جماع اور استمنا کے علاوہ روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں اپنے لئے حلال عورت سے جماع یا استمنا کرے تو پهلے کام کے لئے ایک کفارہ اور جماع یا استمنا کے لئے بنا بر احتياط ایک دوسرا کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٨ اگر روزہ دار جماع اور استمنا کے علاوہ کوئی اور ایسا حلال کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو انجام دے مثلاً پانی پئے پھر جماع یا استمنا کے علاوہ کوئی ایسا حرام کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو انجام دے مثلاًحرام کھانا کهالے تو ایک کفارہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٩ اگر روزے دار کے ڈکار لينے سے کوئی غذا اس کے منہ ميں آجائے اور وہ اسے عمداً نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب ڈکار لينے سے منہ ميں آنے والی چيز غذا کے مرحلے سے نکل چکی ہو اگرچہ اس صورت ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ کفارہ جمع دے اور اگر ڈکار لينے سے ایسی چيز منہ ميں آجائے کہ جس کا کھانا حرام ہے جيسے خون اور اسے عمداً نگل لے تو روزہ باطل ہے اور ضروری ہے کہ اس دن کی قضا کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر کفارہ جمع بھی دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٠ اگر نذر کرے کہ ایک معين دن روزہ رکھے گا اور اس دن جان بوجه کر اپنا روزہ باطل کردے تو ضروری ہے کہ کفارہ دے اور نذر توڑنے کا کفارہ وهی ہے جو قسم توڑنے کا کفارہ ہے جسے مسئلہ نمبر ” ٢٧٣ ۴ “ ميں بيان کيا جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٨١ اگر روز ہ د ارکسی ایسے شخص کے کهنے پر جس کا کهنا ہو کہ مغرب ہو گئی ہے جب کہ شرعاً اس شخص کی بات قابلِ اعتبار نہ ہو، افطار کرلے او ر بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب کا وقت نہيں ہوا تھا یا شک کرے کہ مغرب ہوئی تھی یا نہيں تو اس پر قضا اور کفارہ واجب ہو جائيں گے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٢ جو شخص جان بوجه کر اپنا روزہ توڑ دے اگر وہ ظہر کے بعد سفر کرے یا کفارے سے بچنے کے لئے ظہر سے پهلے سفر کرے تو اس سے کفارہ ساقط نہيں ہو گا اور ظہر سے پهلے سفر پيش آجانے پر بھی بنا بر اقویٰ یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٣ اگر جان بوجه کر اپنا روزہ توڑدے اور بعد ميں کوئی عذر جيسے حيض یا نفاس یا کوئی بيماری اسے لاحق ہو جائے تو بنا بر احتياط اس پر کفارہ واجب ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۴ اگر کسی کو یقين یا اطمينا ن ہو یا شرعی گواہی قائم ہو جائے کہ ماہِ رمضان کا پهلا دن ہے اور جان بوجه کر اپنے روزے کو باطل کر دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ شعبان کا آخری دن تھا تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۵ اگر انسان شک کرے کہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا شوال کی پهلی اور جان بوجھ کر اپنے روزے کو باطل کردے اور بعد ميں معلوم ہو کہ شوال کی پهلی تھی تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

۲۶۷

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۶ اگر روزہ دار رمضان ميں اپنی روزہ دار بيوی سے جماع کرے جبکہ اس نے بيوی کو جماع پر مجبور کيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے اور بنا بر احتيا ط اپنی بيوی کے روزے کا کفارہ دے اور اگر بيوی جماع پر راضی تھی تو ہر ایک پر ایک کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٧ اگر عورت اپنے روزے دار شوہر کو جماع کرنے پر مجبور کرے تو اس پر شوہر کے روزے کا کفارہ دینا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٨ اگر روزے دار ماہِ رمضان ميں اپنی بيوی کو جماع پر مجبور کرے اور جماع کے دوران عورت راضی ہو جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر مرد دو کفارے اور عورت ایک کفارہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٩ اگر روزے دار ماہِ رمضان ميں اپنی سوئی ہوئی روزہ دار بيوی سے جماع کرے تو اس پر ایک کفارہ واجب ہو گا جب کہ بيوی کا روزہ صحيح ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٠ اگر مرد اپنی بيوی کو یا بيوی اپنے شوہر کو جماع کے علاوہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اور کام انجام دینے پر مجبور کرے تو ان ميں سے کسی پر کفارہ واجب نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩١ جو شخص سفر یا بيماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ رہا ہو وہ اپنی روزے دار بيوی کو جماع پر مجبور نہيں کر سکتا، ليکن اگر مجبور کرے تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٢ ضروری ہے کہ انسان کفارے کی ادائيگی ميں کوتاہی نہ کرے، البتہ اسے فوراً ادا کرنا بھی ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٣ اگر انسان پر کفارہ واجب ہوئے چند سال گذر جائيں اور کفارہ انجا م نہ دیا ہو تو اس پر کسی چيز کا اضافہ نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۴ جو شخص ایک دن کے کفارے کے لئے ساٹھ فقيروں کو کھانا کهلانا چاہتا ہو، وہ یہ نہيں کر سکتا کہ ان ميں سے ایک فقير کو دو یا اس سے زیادہ بار پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا انہيں ایک مُد سے زیادہ طعام دے اور زیادہ کو کفارہ ميں شمار کرے۔ ہاں، وہ یہ کر سکتا ہے کہ فقير کو اس کے اہل و عيال کے ساته پيٹ بھر کر کھانا کهلائے جو چاہے چھوٹے ہی کيوں نہ ہوں ليکن عمر کے اعتبار سے اتنے ہوں کہ انہيں کهلانے کو کھانا کهلانا کها جاسکے یا بچے کے ولی کو بچے کے لئے ایک مُد دے دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۵ جس شخص نے ماہِ رمضان کا قضا روزہ رکھا ہو اگر وہ ظہر کے بعد عمداًروزہ توڑنے والا کوئی کام انجام دے تو ضروری ہے کہ دس فقيروں کو ایک ایک مُد طعام دے اور اگر یہ نہ کر سکتا ہو تو تين دن روزے رکھے جو بنا بر احتياط مسلسل ہوں۔

۲۶۸

وہ مقامات کہ جن ميں صرف روزے کی قضا واجبہے

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۶ چند صورتو ں ميں انسان پر روزے کی صرف قضا واجب ہے اور کفارہ واجب نہيں ہے :

١) ماہ رمضان کی رات ميں جنب ہو اور مسئلہ نمبر ” ١ ۶ ٣٨ “ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اذانِ صبح تک دوسری اور تيسری نيندسے بيدار نہ ہو۔

٢) روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو ليکن روزے کی نيت نہ کرے یا ریاکاری کرے، یا روزے سے نہ ہونے کا ارادہ کرے یا روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ کرے اور انجام نہ دے۔

٣) ماہ رمضان ميں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور اسی حالت ميں ایک یا چند دن روزہ رکھے۔

۴) ماہ رمضان ميں یہ جستجو کئے بغير کہ صبح ہوگئی ہے یا نہيں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی۔ اسی طرح اگر جستجو کرنے کے بعد یہ گمان ہو کہ صبح ہو گئی ہے یا شک کرے کہ صبح ہو ئی یا نہيں اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی تو اس روزے کی قضا اس پر واجب ہے ۔

۵) کسی کے یہ کهنے پر کہ صبح نہيں ہوئی انسان روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی۔

۶) کسی کے یہ کهنے پر کہ صبح ہوگئی ہے یقين نہ کرتے ہوئے یا اس خيال سے کہ وہ مذاق کر رہا ہے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو چکی تھی۔

٧) نا بينا یا اس جيسا کوئی شخص کسی اور کے کهنے پر افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تھی۔

٨) مطلع صاف ہو اور تاریکی کی وجہ سے اس یقين کے ساته کہ مغرب ہو گئی ہے افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تهی، ليکن اگر مطلع ابر آلود ہو اور اس گمان کے ساته کہ مغرب ہو گئی ہے افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تھی تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

٩) ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے یا بلاوجہ کلی کرے اور بے اختيار پانی منه کے اندر چلا جائے ليکن اگر بھول جائے کہ روزہ سے ہے اور پانی اندر لے جائے یا واجب نماز کے وضو کے لئے کلی کرے اور بے اختيار پانی اندر چلا جائے تو اس پر قضا واجب نہيں ۔

١٠ ) کوئی زبردستی یا مجبوری یا تقيہ کی وجہ سے افطار کرے۔

۲۶۹

مسئلہ ١ ۶ ٩٧ اگر پانی کے علاوہ کوئی اور چيز منہ ميں ڈالے اور وہ بے اختيار اندر چلی جائے یا پانی ناک ميں ڈالے اور بے اختيار اندر چلا جائے تو اس پر قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٨ روزہ دار کے لئے زیادہ ناک ميں پانی ڈالنا یا کلی کرنا مکروہ ہے اور اگر کلی کرنے کے بعد لعاب دهن کو نگلنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ اس سے پهلے تين مرتبہ لعاب دهن کو تهوک دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٩ اگر انسان جانتا ہو کہ کلی کرنے یا ناک ميں پانی ڈالنے کی وجہ سے بے اختيار یا بھولے سے پانی اس کے حلق ميں چلا جائے گا تو ضروری ہے کہ نہ کلی کرے اور نہ ناک ميں پانی ڈالے۔

مسئلہ ١٧٠٠ اگر ماہ رمضان ميں جستجو کرنے کے بعد اس یقين کے ساته کہ صبح نہيں ہوئی، روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تو قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٠١ اگر انسان شک کرے کہ مغرب ہو گئی ہے یا نہيں تو وہ افطار نہيں کر سکتا ہے ، ليکن اگر شک کرے کہ صبح ہوئی ہے یا نہيں تو جستجو سے پهلے بھی وہ روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے سکتا ہے ۔

قضا روزے کے احکام

مسئلہ ١٧٠٢ اگر دیوانہ عاقل ہو جائے تو دیوانگی کے وقت کے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٠٣ اگر کافر مسلمان ہو جائے تو کفر کے وقت کے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر کوئی مسلمان کافر ہو جائے تو جو روزے کفر کے زمانے ميں اس نے نہيں رکھے ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے اور اگر مسلمان بھی ہو جائے تو اسلام لانے کی وجہ سے اس پر سے کوئی چيز ساقط نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٧٠ ۴ جو روزہ انسان سے نشہ کی حالت ميں چھوٹ گيا ہو اس کی قضا ضروری ہے اگرچہ جس چيز کی وجہ سے اس پر نشہ طاری ہوا ہو اسے علاج کے لئے کهایا ہو۔

مسئلہ ١٧٠ ۵ اگر کسی عذر کی وجہ سے چند دن روزہ نہ رکھے اور بعد ميں شک کرے کہ اس کا عذر کس وقت ختم ہو ا تھا تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس زیادہ مقدار کے روزوں کی قضا کرے جس ميں روزے نہ رکھنے کا احتمال ہے ۔ مثلاًجس نے ماہ رمضان سے پهلے سفر کيا ہو اور نہ جانتا ہو کہ پانچویں رمضان کو پهنچا تھا یا چھٹی رمضان کو تو بنا بر احتياطِ واجب چھ روزے رکھے، ليکن جو شخص یہ نہ جانتا ہو کہ کس وقت عذر پيش آیا تھا تو وہ کم مقدار کی قضا کر سکتا ہے مثال کے طور پر ماہ رمضان کے آخر ی ایام ميں سفر کرے اور رمضان کے بعد لوٹے اور نہ جانتا ہو کہ پچيسویں رمضان کو سفر کيا تھا یا چھبيسویں کو تو وہ کم مقدار یعنی پانچ دن کی قضا پر اکتفا کر سکتا ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ زیادہ دنوں کی قضا کرے۔

۲۷۰

مسئلہ ١٧٠ ۶ جس پر چند رمضان کے مهينوں کے روزوں کی قضا ہو تو کسی کی بھی قضا پهلے انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، ليکن اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا آخری رمضان کے پانچ روزوںکی قضا اس پر ہو اور رمضان آنے ميں بھی پانچ دن رہ گئے ہوں تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ پهلے آخری رمضان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧٠٧ جس شخص پر کئی رمضان کے مهينوں کے روزوں کی قضا واجب ہو، اس کے لئے قضا کرتے وقت یہ معين کرنا ضروری نہيں ہے کہ یہ کس رمضان کے روزوں کی قضا ہے مگر یہ کہ دونوں روزوں ميں اثر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔

مسئلہ ١٧٠٨ انسان ماہِ رمضان کے قضا روزے ميں ظہر سے پهلے اپنا روزہ باطل کر سکتا ہے ، ليکن اگر قضا کرنے کا وقت تنگ ہو تو احتياطِ واجب کی بناپر اپنا روزہ باطل نہيں کر سکتا ۔

مسئلہ ١٧٠٩ جس نے کسی ميت کا قضا روزہ رکھا ہو احتياط مستحب یہ ہے کہ زوال کے بعد روزہ نہ توڑے۔

مسئلہ ١٧١٠ اگر بيماری، حيض یا نفاس کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اور رمضان کے مکمل ہونے سے پهلے یا رمضان ختم ہونے کے بعد اور قضا پر قدرت حاصل کرنے سے پهلے مر جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧١١ جس شخص نے بيمار ی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے ہو ں اور اس کی بيمار ی اگلے سال کے رمضان تک باقی رہے تو چھوڑے ہوئے روزوںکی قضا اس پر واجب نہيں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے، ليکن اگر اس نے کسی اور عذر مثلاًسفر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اور اس کا عذر اگلے رمضان تک باقی رہے تو ضروری ہے کہ چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقير کودے۔

مسئلہ ١٧١٢ اگر کوئی شخص بيمار ی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اور رمضان کے بعد اس کی بيماری تو ختم ہو جائے ليکن کوئی دوسرا عذر پيش آ جائے کہ جس کی وجہ سے اگلے رمضان تک روزے کی قضا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ نہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔

اسی طرح اگر اس نے ماہ رمضان ميں بيمار ی کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اور رمضان کے بعد اس کا عذر تو برطرف ہو جائے ليکن اگلے سال کے رمضان تک بيمار ی کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے تو ضروری ہے کہ نہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔ اور دونوں صورتوں ميں احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١٣ جو شخص ماہ رمضان ميں کسی عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے اور رمضا ن کے بعد عذر بر طرف ہوجانے کے باوجود اگلے سال کے رمضان تک عمداً ان روزوں کی قضا نہ کر ے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بھی کرے اور ہر دن کے لئے فقير کو ایک مد طعام بھی دے۔

۲۷۱

مسئلہ ١٧١ ۴ اگر روزوں کی قضا کرنے ميں اتنی کوتاہی کرے کہ وقت تنگ ہوجائے اور وقت کی تنگی ميں عذر پيش آ جائے تو ضروری ہے کہ قضا روزے رکھے اور ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ اسی طرح اگر عذر کے وقت پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ عذر کے زائل ہونے کے بعد اپنے روزوں کی قضا کرے گا ليکن اس سے پهلے کہ قضا کرے وقت کی تنگی ميں عذرپيش آجائے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بھی کرے اور ہر دن کے لئے احتياطِ واجب کی بنا پر ایک مدطعام بھی فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١ ۵ اگر کسی انسان کی بيماری کئی سال تک طولانی ہوجائے تو صحت یاب ہونے کے بعد ضروری ہے کہ آخری رمضان کے روزے قضا کرے اور پچهلے سالوں کے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١ ۶ جس شخص پر ہر دن کے لئے ایک مُد طعام فقير کو دینا ضروری ہو تو و ہ چند دنوں کا کفارہ ایک ہی فقير کو بھی دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧١٧ اگر رمضان کے قضا روزوں کو چند سالوں تک انجام نہ دے تو ضروری ہے کہ قضا کرے اور پهلے سال کی تاخير کی وجہ سے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے، البتہ بعد کے چند سالوں کی تاخير کی وجہ سے اس پر کوئی چيز واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧١٨ اگر رمضان کے روزے جان بوجه کر نہ رکھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بھی انجام دے اور ہر دن کے لئے یا ایک غلام کو آزاد کرے یا ساٹھ فقيروں کو طعام دے یا دو مهينے کے روزے رکھے اور اگر آئندہ رمضان تک ان روزوں کی قضا انجام نہ دے تو ہر دن کے لئے فقير کو ایک مد طعام بھی دے۔

مسئلہ ١٧١٩ اگر رمضان کا روزہ جان بوجه کر نہ رکھے اور دن ميں چند مرتبہ جماع یا استمنا کرے تو احتياطِ واجب کی بناپر ہر بار کے لئے کفارہ دے، ليکن اگر چند مرتبہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اورکام انجام دے مثلاًچند مرتبہ کھانا کھائے تو ایک کفارہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٠ باپ کے مرنے کے بعد ضروری ہے کہ اس کا بڑا بيٹا مسئلہ نمبر ” ١٣٩٨ “ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اس کے روزوں کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٧٢١ اگر باپ نے رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ مثلاًنذر کا روزہ نہ رکھا ہو تو واجب ہے کہ بڑا بيٹا اس کی بھی قضا کرے، ليکن اگر باپ کسی کے روزے رکھنے کے لئے اجير بنا ہو اور ان کو نہ رکھا ہو تو بڑے بيٹے پر اس کی قضا ضروری نہيں ۔

۲۷۲

مسافر کے روزوں کے احکام

مسئلہ ١٧٢٢ جس مسافر کی ذمہ داری ہے کہ چار رکعتی نمازوں کو سفر ميں دورکعت پڑھے، ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور جس مسافر کو اپنی نمازیں پوری پڑھنا ہيں ، مثلاًوہ شخص جس کا پيشہ ہی سفر کرنا ہو یا اس کا سفر گناہ کاسفر ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ سفر ميں روزہ رکھے۔

مسئلہ ١٧٢٣ ماہ رمضا ن ميں سفر کرنے ميں کوئی حرج نہيں ليکن مکروہ ہے ، چاہے روزے سے فرار کرنے کے لئے نہ ہو، مگر یہ کہ سفر اس کی ضرورت کی وجہ سے ہو یا جيسا کہ بعض روایتوں ميں آیا ہے حج یا عمرہ کے لئے ہو۔

مسئلہ ١٧٢ ۴ اگر ماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرا معين روزہ انسان پر واجب ہو جس کا تعلق حق الناس سے ہو مثلاً یہ کہ انسان اجير بنا ہو کہ کسی معين دن ميں روزہ رکھے گا تو وہ اس دن سفر نہيں کر سکتا۔ یهی حکم احتياطِ واجب کی بنا پر نذر کے علاوہ دوسرے واجب معين روزوں جيسے اعتکاف کے تيسرے دن کے روزے کا ہے ۔ ہاں، اگر کوئی روزہ نذر کی وجہ سے معين ہوا ہو تو اقوی یہ ہے کہ وہ اس دن سفر کر کے اس کے بجائے کسی اور دن روزہ رکھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٢ ۵ اگر کوئی روزہ رکھنے کی نذر کرے ليکن معين نہ کرے کہ کس دن روزہ رکھے گا تو اس روزے کو سفر ميں انجام نہيں دے سکتا، ليکن اگر نذر کرے کہ سفر ميں کسی معين دن روزہ رکھے گا تو ضروری ہے کہ اس روزے کو سفر ميں انجام دے ۔اسی طرح اگر نذر کرے کہ فلاں دن روزہ رکھے گا خواہ سفر ہو یا نہ ہو تو ضروری ہے کہ چاہے سفر ميں ہو اس دن روزہ رکھے۔

مسئلہ ١٧٢ ۶ مسافر طلب حاجت کی غرض سے تين د ن مدینہ منورہ ميں مستحب روزے رکھ سکتا ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ وہ تين دن بده، جمعرات اور جمعہ ہوں۔

مسئلہ ١٧٢٧ جو شخص نہ جانتا ہو کہ مسافر کا روزہ باطل ہے اگر وہ سفر ميں روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے مسئلہ معلوم ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن اگر مغرب تک معلوم نہ ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٨ اگر بھول جائے کہ وہ مسافر ہے یا بھول جائے کہ مسافر کا روزہ باطل ہے اور سفر ميں روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٩ اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر کرے تو ضروری ہے کہ اپنا روزہ پورا کرے اور اگر ظہر سے پهلے سفر کرے تو حد تر خص تک پهنچنے پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر اس سے پهلے روز ہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس پر کفارہ واجب ہو جائے گا۔

۲۷۳

مسئلہ ١٧٣٠ اگر مسافر ماہ رمضان ميں خواہ فجرسے پهلے ہی سفر ميں ہو یا روزے سے ہو اور سفر کرے، اگرظہر سے پهلے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا دس دن رہنے کا ارادہ ہو اور اس نے روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس دن روزہ رکھے اور اگر انجام دے دیا ہو تو اس دن کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧٣١ اگر مسافر ظہر کے بعد اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچے کہ جهاں وہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو اس دن کا روزہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٣٢ مسافر اور روزہ رکھنے سے معذور افراد کے لئے ماہِ رمضان کے دن ميں جماع کرنا، ضرورت سے زیادہ کھانا اور خود کو مکمل طور پر سيراب کرنا مکروہ ہے ۔

وہ افراد جن پر روزہ رکھنا واجب نهيں

مسئلہ ١٧٣٣ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو یااس کے لئے روزہ رکھنا مشقّت کا باعث ہو تو اس پر سے روزے کی ذمہ داری کو اٹھ ا ليا گيا ہے ۔ ہاں، دوسری صورت ميں ضروری ہے کہ ہر روزے کے بدلے ميں فدیہ دے جو کہ ایک مد طعام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ گندم دے۔

مسئلہ ١٧٣ ۴ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھے، اگر ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھنے پر قادر ہوجائے تو جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٣ ۵ اگر انسان کو ایسی بيماری ہو کہ اسے زیادہ پياس لگتی ہو اور اس کے لئے پياس کو برداشت کرنا ممکن نہ ہو یا باعث مشقت ہو تو اس سے روزے کی ذمہ داری کو اٹھ ا ليا گيا ہے ، ليکن دوسری صورت ميں ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے اور احتياط مستحب یہ هے کہ مجبوری سے زیادہ مقدار ميں پانی نہ پئے اور ماہ رمضان کے بعد اگر روزہ رکھنے پر قادر ہو جائے تو جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧٣ ۶ جس عورت کے وضع حمل کا وقت قریب ہو اور روزہ اس کے حمل یا خود اس عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کا روزہ صحيح نہيں اور پهلی صورت ميں ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ یهی حکم احتياط مستحب کی بنا پر دوسری صورت کے لئے ہے اور جو روزے نہيں رکھے ہيں ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧٣٧ جو عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور اس کا دودھ کم ہو خواہ وہ بچے کی ماں ہو یا دایہ ہو، اجرت کے ساته دودھ پلائے یا بغير اجرت کے، اگر روزہ اس بچے کے لئے یا خود اس عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس عورت کا روزہ صحيح نہيں ہے اور پهلی صورت ميں ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ یهی حکم احتياطِ مستحب کی بنا پر دوسری صورت کے لئے بھی

۲۷۴

ہے اور جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا ضروری ہے اور یہ حکم اس وقت ہے کہ جب بچے کے دودھ کے لئے کوئی اور طریقہ ميسر نہ ہو اور اگر ميسر ہو تو واجب ہے کہ وہ عورت روزہ رکھے۔

مهينے کی پهلی تاريخ ثابت ہونے کا طريقہ

مسئلہ ١٧٣٨ مهينے کی پهلی تاریخ چند چيزوں سے ثابت ہوتی ہے :

١) انسان خود چاند دیکھے ۔

٢) اتنے لوگ جن کے کهنے پر یقين یا اطمينان آجاتا ہے ، کہيں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے ۔ اسی طرح ہر وہ چيز جس کی وجہ سے یقين یا اطمينان حاصل ہو جائے۔

٣) دوعادل مرد کہيں کہ ہم نے ایک ہی رات ميں چاند دیکھا ہے ليکن اگر چاند کی خصوصيت ایک دوسرے سے مختلف بيان کریں تو مهينے کی پهلی تاریخ ثابت نہيں ہوتی۔ یهی حکم اس وقت ہے جب یہ دونوں تصدیق کے قابل نہ ہوں مثلاًجب مطلع صاف ہو، چاند دیکھنے والے افراد زیادہ ہو ں اور ان دو کے علاوہ باقی افراد کوشش کے باوجود نہ دیکھ پائيں۔

۴) ماہِ شعبان کی پهلی سے تيس دن گزر جائيں جس سے ماہِ رمضان کی پهلی ثابت ہو جاتی ہے اور ماہِ رمضان کی پهلی سے تيس دن گزر جائيں جس سے شوال کی پهلی ثابت ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ١٧٣٩ مهينے کی پهلی کا حاکم شرع کے حکم سے ثابت ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٠ مهينے کی پهلی نجوميوں کی پيشن گوئی سے ثابت نہيں ہوتی، ليکن اگر انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان حاصل ہو جائے تو اس پر عمل ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ١ چاند کا اونچاہونا یا دیر سے غروب ہونا اس بات کی دليل نہيں کہ گذشتہ رات مهينے کی پهلی رات تهی، ليکن اگر ظہر سے پهلے چاند نظر آئے تو یہ مهينے کا پهلا دن شمار ہو گا اور چاند کے گرد حلقے کے ذریعے پچهلی رات کا چاند رات ثابت ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٢ اگر کسی کے لئے ماہِ رمضان کی پهلی ثابت نہ ہو اور وہ روزہ نہ رکھے اور بعد ميں ثابت ہوجائے کہ گذشتہ رات ہی چاند رات تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٣ اگر کسی شہر ميں مهينے کی پهلی تاریخ ثابت ہوجائے تو دوسرے شهروں ميں بھی خواہ دور ہوں یا نزدیک، خواہ ان کا افق ایک ہو یا نہ ہو، رات مشترک ہونے کی صورت ميں چاند ثابت ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴۴ مهينے کی پهلی ٹيلی گرام سے ثابت نہيں ہوتی مگر یہ کہ انسان جانتا ہو کہ ٹيلی گرام، شرعی دليل کی بنياد پر کيا گيا ہے ۔

۲۷۵

مسئلہ ١٧ ۴۵ جس دن کے بارے ميں انسان کو معلوم نہ ہو کہ رمضان کا آخری دن ہے یا شوال کا پهلا دن، ضروری ہے کہ روزہ رکھے ليکن اگر مغرب سے پهلے معلوم ہو جائے کہ شوال کی پهلی ہے تو ضروری ہے کہ افطار کر لے۔

مسئلہ ١٧ ۴۶ اگر قيد ميں موجود شخص کے پاس ماہِ رمضان ثابت ہونے کا کوئی طریقہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنے گمان پر عمل کرے چاہے کسی بھی طریقے سے حاصل ہوا ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو جس مهينے کے متعلق احتمال ہو کہ ماہِ رمضان ہے ، صحيح ہے کہ روزہ رکھ لے، ليکن ضروری ہے کہ اس مهينے سے گيارہ مهينے گذرنے کے بعد دوبارہ ایک مهينہ روزہ رکھے اور اگر بعد ميں معلوم ہو جائے کہ جس چيز کا اس نے گمان کيا تھا یا جسے اختيار کيا تھا وہ ماہِ رمضان نہيں تھا تو اگر یہ معلوم ہو کہ ماہِ رمضان اس مهينے سے پهلے تھا تو یہ کافی ہوگا اور اگر معلوم ہو کہ ماہِ رمضان اس مهينے کے بعد تھا تو ضروری ہے کہ قضا کرے۔

حرام اور مکروہ روزے

مسئلہ ١٧ ۴ ٧ عيد فطر اور عيد قربان کے دن روزہ رکھنا حرام ہے ۔ نيز جس دن کے بارے ميں انسان کو معلوم نہ ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پهلی، اگر پهلی رمضان کی نيت سے روزہ رکھے تو حرام ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٨ اگر بيوی کے مستحب روزہ رکھنے کی وجہ سے شوهرکا حق ضائع ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ اگر شوہر کا حق ضائع نہ بھی ہوتب بھی شوہر کی اجازت کے بغيرمستحب روزہ نہ رکھے۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٩ اولاد کا مستحب روزہ رکھنا اگر ماں باپ کی اذیت کا سبب ہو تو حرام ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٠ اگر اولاد باپ کی اجازت کے بغير کوئی مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں باپ اسے منع کرے، اگر بچے کی مخالفت کرنا باپ کی اذیت کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ افطار کر لے۔ یهی حکم اس وقت ہے جب ماں اسے منع کرے اور اس کی مخالفت کرنا اذیت کا باعث ہو۔

مسئلہ ١٧ ۵ ١ جو شخص جانتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر نہيں اگرچہ ڈاکٹر کهے کہ نقصان دہ ہے ، ضروری ہے کہ روزہ رکھے اور جس شخص کو قابل ذکر ضرر کا یقين یا گمان ہو یا اس چيز کا خوف ہو جس کا خوف عقلا کے نزدیک صحيح ہوتو چاہے ڈاکٹر کهے کہ ضرر نہيں ہے ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اگر روزہ رکھ بھی لے تو صحيح نہيں ہے ، مگر یہ کہ روزہ اس کے لئے مضر نہ تھا او راس نے قصدِقربت کيا تھا کہ اس صورت ميں اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٢ اگر انسان کو احتمال ہو کہ روزہ اس کے لئے قابلِ ذکر ضرر کا باعث ہے اور اس احتمال کی وجہ سے اسے خوف ہو جائے، اگر اس کا احتمال عقلا کی نظر ميں صحيح ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اگر روزہ رکھ لے تو باطل ہو گا مگر یہ کہ روزہ مضر نہ ہو اور اس نے قصدِقربت کيا ہو۔

۲۷۶

مسئلہ ١٧ ۵ ٣ جس شخص کا عقيدہ یہ ہو کہ روزہ اس کے لئے قابل توجہ ضررکا باعث نہيں اگروہ روزہ رکھ لے اور مغرب کے بعد معلوم ہو کہ روزہ اس کے لئے قابلِ توجہ ضررکا باعث تھا تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٧ ۵۴ مذکورہ روزوں کے علاوہ اور حرام روزے بھی ہيں جنہيں مفصّل کتابوں ميں بيان کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵۵ عاشور کے دن کا روزہ بنا بر احتياطِ واجب جائز نہيں اور اس دن کا روزہ مکروہ ہے جس کے بارے ميں شک ہو کہ عرفہ کا دن ہے یا عيد قربان کا۔

مستحب روزے

مسئلہ ١٧ ۵۶ مذکورہ حرام اور مکروہ روزوں کے علاوہ سال کے تمام دنوں کا روزہ مستحب ہے ، جب کہ بعض ایام کے بارے ميں زیادہ تاکيد کی گئی ہے جن ميں سے بعض یہ ہيں :

١) ہر ماہ کی پهلی اور آخری جمعرات اور دسویں تاریخ کے بعد آنے والا پهلا بده اور اگر کوئی شخص یہ روزے نہ رکھے تو مستحب ہے کہ قضا کرے اور اگر بالکل روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو ١٢٫ ۶ ) سکہ دار چنے کے برابر چاندی فقير کو )

مستحب ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام یا پھر ۶ ۔ ١٢دے۔

٢) ہر مهينے کی تيرہویں، چودهویں اور پندرہویں تاریخ۔

٣) رجب اور شعبان کا پورا مهينہ، اور ان دو مهينوں ميں سے کچھ دن اگرچہ ایک ہی دن ہو۔

۴) عيد نوروز کا دن۔

۵) شوال کی چوتھی تاریخ سے نویں تاریخ تک کے ایام۔

۶) ذی القعدہ کی پچيسویں اور انتيسویں کا دن۔

٧) ذی الحجہ کی پهلی تاریخ سے نویں (روزِعرفہ )تک، ليکن اگر روزے کی کمزوری کی وجہ سے روزِعرفہ کی دعائيں نہ پڑھ سکے تو اس دن کا روزہ مکروہ ہے ۔

٨) عيد غدیر کا مبارک دن( ١٨ /ذی الحجہ )۔

٩) روزِمباہلہ ( ٢ ۴ / ذی الحجہ )۔

١٠ ) محرم کے پهلے، تيسرے اور ساتویں دن۔

١١ ) پيغمبر اکرم(ص) کی ولادت باسعادت کے دن ( ١٧ /ربيع الاول)۔

١٢) ١ ۵/ جمادی الاوّل کے دن۔

۲۷۷

١٣ )حضرت رسول اکرم(ص)کی بعثت کے دن ( ٢٧ /رجب)۔

اگر کوئی شخص مستحب روزہ رکھے تو اسے پورا کرنا واجب نہيں ،بلکہ اگر اس کا مومن بهائی اسے کھانے کی دعوت دے تو مستحب ہے کہ اس کی دعوت قبول کرلے اور دن ميں ہی چاہے ظہر کا وقت گذر چکا ہو روزہ افطار کر لے۔

وہ صورتيں جن ميں مبطلاتِ روزہ سے پرہيز مستحبہے

مسئلہ ١٧ ۵ ٧ چند افراد کے لئے مستحب ہے کہ ماہِ رمضان ميں چاہے روزے سے نہ ہوں، روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کریں:

١) وہ مسافر جس نے سفر ميں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دیا ہو اور ظہر سے پهلے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا دس دن قيام کا ارادہ ہو۔

٢) وہ مسافر جو ظہر کے بعد اپنے وطن یا ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں و ہ دس دن قيام کرنا چاہتا ہو۔

٣) وہ مریض جو ظہر کے بعد تندرست ہو جائے۔ یهی حکم ہے جب وہ ظهرسے پهلے تندرست ہو جائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو۔

۴) وہ عورت جو دن ميں کسی وقت حيض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٨ مستحب ہے کہ روزہ دار نمازمغرب وعشا کو افطار سے پهلے پڑھے، ليکن اگر کوئی دوسر ا شخص اس کا منتظر ہو یا وہ کھانے کی زیادہ خواہش رکھتا ہو کہ جس کی وجہ سے وہ قلبی توجہ کے ساته نمازنہ پڑھ سکتا ہو تو بہتر ہے کہ پهلے افطار کرے، ليکن جس قدر ممکن ہو نماز کو وقت فضيلت ميں پڑھے۔

اعتکاف

اعتکاف عبادات ميں سے ہے اور شرعاًاعتکاف یہ ہے کہ انسان قربة الی الله کی نيت سے مسجد ميں توقف وقيام کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کا قيام کسی عبادت مثلاًنمازکو انجام دینے کی نيت سے ہواور اعتکاف کے لئے کوئی خاص وقت معين نہيں ہے بلکہ جب بھی روزہ رکھنا صحيح ہے اعتکاف کرنا بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٩ اعتکا ف ميں کچھ چيزوں کا خيال رکھنا ضروری ہے :

١) اعتکاف کرنے والا عاقل ہو اور مميز بچے کا اعتکاف کرنا صحيح ہے ۔

٢) قصدِقربت جيسا کہ وضو کے باب ميں بيان کيا گيا ہے ۔

٣) روزہ، لہٰذا جس شخص کا روزہ باطل ہے جيسے وہ مسافر جس نے دس دن قيام کا ارادہ نہ کيا ہو، وہ اعتکاف نہيں کر سکتا۔

۴) یہ کہ مسجدالحرام، مسجدنبوی، مسجد کوفہ، مسجد بصرہ یا جامع مسجد ميں ہو۔

۲۷۸

۵) اس فرد کی اجازت سے ہو جس کی اجازت ضروری ہے ، لہٰذا بيوی کا اعتکاف شوہر کی اجازت کے بغير جب کہ شوہر کی حق تلفی ہو رہی ہو، صحيح نہيں ہے ۔

۶) تين دن اور اُن تين دنوں کے درميان کی دو راتيں اسی مسجد ميں گزارے جس ميں اعتکاف کر رہا ہے اور بغير کسی ضروری کا م کے مسجد سے باہر نہ جائے۔ البتہ مریض کی عيادت، تشييع جنازہ اور تجهيزِميت جيسے غسلِ ميت، نماز اور دفن کے لئے مسجدسے باہر جا سکتا ہے ۔

جن صورتوں ميں مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے ، اس کا م کی انجام دهی کے وقت سے زیادہ باہر نہ ٹھ هرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نزدیک ترین راستے سے مسجد کو لوٹے اور مسجد سے باہر نہ بيٹھے اور اگر بيٹھنے پر مجبور ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں سائے ميں نہ بيٹھے۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٠ اعتکاف شروع کرنے کے بعد اس کے واجب معين، مثلاًجب اس نے نذر کی ہو کہ کسی خاص وقت ميں اعتکاف کرے گا، نہ ہونے کی صورت ميں دو روز گذرنے سے پهلے وہ اعتکاف سے پلٹ سکتا ہے اور اسے توڑ سکتا ہے ، ليکن اگر نيت کے وقت ہی شرط لگا دی ہو کہ کوئی کام پيش آنے کی صورت ميں اس کو اعتکاف توڑ نے کا اختيار ہو تو دو دن گزرنے کے بعد بھی اعتکاف توڑ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ١ اعتکاف کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ خود کو چند چيزوں سے بچائے اور ان چيزوں کو انجام دینے سے اعتکاف باطل ہو جاتا ہے ،ليکن جماع کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کا ترک کرنا اس صورت ميں جبکہ اعتکاف واجب معين نہ ہو احتياط کی بنا پر ہے :

١) جماع کرنا اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ استمنا، عورت کو شهوت کے ساته مس کرنے اور شهوت کے ساته بوسہ لينے سے بھی اجتناب کرے۔

٢) خوشبو لگانا۔

٣) خرید وفروخت، کہ اس سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے البتہ سودا باطل نہيں ہوتا اور احتياط واجب یہ ہے کہ ہر قسم کی تجارت سے، چاہے مصالحت، مضاربہ اور اجارہ یا ان جيسی چيزوں کے ذریعے ہو، اجتناب کرے اور اگر کسی چيز کی خرید وفروخت پر مجبور ہو جائے اور اس کے لئے کوئی وکيل بھی نہ مل سکے تو جائز ہے ۔

۴) کسی پر غالب ہونے اور اپنے فضل کا اظهار کرنے کے لئے ممارات یعنی جدال کرنا، چاہے دنيوی امور ميں ہو یا اخروی امور ميں ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٢ اگر واجب اعتکاف ميں جان بوجه کر جماع کرے، چاہے دن ميں ہو یا رات ميں ، اس پر کفارہ واجب ہوجائے گا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلائے۔

۲۷۹

اور جماع کے علاوہ دوسرے ان امور کی ادائيگی سے جن سے بچنا ضروری ہے ، کفارہ واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٣ اگر اعتکاف کرنے والا غلطی سے اعتکاف باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس کے اعتکاف کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶۴ اگر مذکورہ بالا چيزوں ميں سے کسی کے ذریعے اعتکاف باطل کرے تو اعتکاف کے واجبِ غيرِ معين ہونے کی صورت ميں ، مثلًا جب اس نے وقت معين کئے بغير اعتکاف کرنے کی نذر کی ہو، ضروری ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے اور اگر اعتکاف واجب معين ہو مثلاًاس نے معين وقت ميں اعتکاف کرنے کی نذر کی ہو یا اعتکاف تو مستحب ہو ليکن اسے باطل کرنے والا کام دو دن گزرنے کے بعد انجام دیا ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور اگر دو دن مکمل ہونے سے پهلے اعتکاف مستحب کو باطل کيا ہو تو اس کی قضا نہيں ۔

مسئلہ ١٧ ۶۵ ایک اعتکاف سے دوسرے اعتکاف کی طرف نيت پهيرنا جائز نہيں ہے ، چاہے دونوں اعتکاف واجب ہوں، مثلاًایک نذر اور دوسرا قسم کے ذریعے خود پر واجب کيا ہو، یا دونوں مستحب ہوں، یا ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو، یا ایک خود کے لئے ہو اور دوسرے ميں کسی کا نائب یا اجير ہو، یا دونوںکسی کی نيابت ميں ہو ں۔

مسئلہ ١٧ ۶۶ اگر اعتکاف کرنے والا شخص غصبی قالين پر بيٹھے تو گنهگار ہے ليکن اس کا اعتکاف باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر کوئی شخص کسی جگہ سبقت کر کے اپنی جگہ بنا چکا ہو اور اعتکاف کرنے والا اس کی رضایت کے بغير اس سے وہ جگہ لے لے تو اس جگہ اس کا اعتکاف باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٧ اگر اعتکاف کرنے والے پر غسل واجب ہو جائے تو اگر مسجد ميں اس غسل کی ادائيگی ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو مسجد سے نکلنا جائزنہيں ہے جيسے غسلِ مس ميت انجام دینا، ليکن اگر اس غسل کو مسجد ميں کرنے ميں کوئی رکاوٹ ہو جيسے غسل جنابت جس کا لازمی نتيجہ یہ ہے کہ انسان جنابت کے ساته مسجد ميں رہے، تو ضروری ہے کہ مسجد سے نکلے ورنہ اس کا اعتکاف باطل ہو جائے گا۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511