توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 213978 / ڈاؤنلوڈ: 4704
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

قرآن فرماتا ہے۔وَلاَ یَاْ تَلِ اُواالْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعة اَنْ یُّؤتُوْٓا اُولی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُهَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ’’دولتمند مسلمان قسم نہ کھالیں۔‘‘ اس مقام پر ان کی دینی غیرت جوش میں نہ آئے۔ تہمت کا چرچا کرنے والوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے برا کام کیا ہے لیکن تم ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ۔ تم قسم نہ کھاؤ کہ اپنے قرابت داروں، مساکین اور راہِ خدا کے مہاجرین کی مالی امداد اس وجہ سے روک لو کہ انہوں نے تہمت کا چرچا کرنے جیسے برے فعل کا ارتکاب کیا ہےوَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا انہیں معاف کر دیجئے، درگزر سے کام لیجئے۔اَلاَ تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰهُ لَکُمْ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے گناہ معاف کر دے؟ (کِس قدر عمدہ تعبیر ہے!) اے انسانو! تم ایک دوسرے کے گناہوں سے درگزر کیا کرو کیونکہ تم خود بھی گناہ گار ہو اور یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو نظرانداز کر دے گا تو جس سلوک کی امید تمہیں خدا سے ہے تم بھی ویسا ہی سلوک لوگوں سے روا رکھو۔ ان کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ۔ جہاں تک بھی ممکن ہو بھلائی کے ذریعے گناہ گاروں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو، یعنی اگر بھلائی مؤثر نہ ہو تب سخت گیری سے کام لو۔

اَئمہ طاہرینؓ کے پسندیدہ خصائل میں ایک یہ ہے کہ وہ بہت سے غلام خرید کر ان کو کچھ عرصے تک اپنے گھروں میں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اسلام میں غلامی کا فلسفہ یہ ہے کہ غلاموں کے لئے ایک ایسا عرصہ (کفر کے زمانہ سے لے کر آزاد ہونے تک کا عرصہ) ہونا چاہئے جس میں وہ مسلمان افراد سے اسلامی تربیت حاصل کر سکیں۔ اور اسلام کے اس عمل کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ کام بھی اَئمہ طاہرینؓ کے مختصات میں سے ایک تھا، (چونکہ زکوٰۃ کا ایک مصرف یہ ہے کہ غلام خرید کر آزاد کئے جائیں لیکن جس غلام نے اسلامی تربیت حاصل نہ کی ہو اسے خریدتے ہی آزاد کر دینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی غلام ایسا ہو جس نے پہلے سے اسلامی تربیت حاصل کر لی ہو تو اس کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی غلام نے پہلے سے تربیت نہ پائی ہو تو ضروری ہے کہ اسے کچھ مدت تک حقیقی مسلمانوں میں سے کسی کے گھر میں رکھا جائے تاکہ وہ اسلامی آداب و رسوم سے آگاہ ہو جائے اور اس کے بعد اسے آزاد کیا جائے۔ ائمہ طاہرینؓ یہ کام بہت زیادہ انجام دیتے تھے۔ جو غلام کچھ مدت تک ان کے گھر میں رہتے وہ اسلام کی حقیقت و ماہیت سے آشنا ہو جاتے اور اسلام ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔ امام زین العابدینؓ کے گھر میں بہت سے غلام تھے۔

۴۱

سال کے دوران اگر کسی غلام سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو امام سجادؓ اسے ایک کاپی میں تحریر کر لیتے اور ماہِ رمضان کے آخری دن (یا آخری رات) میں تمام غلاموں کو جمع کر کے ان کے درمیان کھڑے ہو جاتے۔ کاپی منگواتے اور ان کو مخاطب کر کے فرماتے اے فلاں تم کو یاد ہے کہ فلاں وقت تم نے نافرمانی کی تھی؟ وہ جواب دیتا جی ہاں (آپؓ باری باری ہر ایک کو اس کی خطائیں یاد دلاتے اور) آپؓ فرماتے: ’’خدایا! یہ میرے ماتحت ہیں انہوں نے میرے حق میں بدی کی ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں۔ میں ان سب کو معاف کرتا ہوں۔ اے میرے مالک میں بڑا گناہگار ہوں۔ اے خدا اس گناہ گار بندے کو معاف کر دے۔‘‘ پھر آپ ان تمام غلاموں کو راہِ خدا میں آزاد کر دیتے۔

آپ نے توجہ فرمائی کہ اسلام میں ’’درگزر کرنے‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ البتہ اسلام اجتماعی مسائل میں درگزر سے کام لینے کو روا نہیں رکھتا کیونکہ اس درگزر کا تعلق کسی ایک شخص کی ذات سے نہیں، کسی ایک فرد سے نہیں، بلکہ معاشرے سے ہوتا ہے۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اب جس کا مال چوری ہوا ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کو معاف کرتا ہوں، لہٰذا معاشرہ بھی اسے معاف کر دے۔ معاشرہ اس کو معاف نہیں کرتا۔ یہ تیرا (یعنی جس کا مال چوری ہوا ہے اس کا) حق نہیں ہے بلکہ معاشرے کا حق ہے۔

روایت میں ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ اسلام (جیسا کہ آپؓ کا ظاہری خلافت کے زمانے میں معمول تھا کہ ہر جگہ اکیلے ہی جاتے تھے، حتیٰ کہ خلوت کی جگہوں پر بذاتِ خود جاتے اور حالات کا جائزہ لیتے) کوفہ کے ایک باغ میں سے گزر رہے تھے کہ آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ’’الغوث!‘‘ یعنی کوئی شخص مدد طلب کر رہا تھا۔ صرف ظاہر ہو رہا تھا کہ لڑائی ہو رہی ہے۔ آپ تیز تیز قد اٹھاتے ہوئے آواز کی طرف بڑھے۔ آپؓ نے دیکھا کہ دو آدمی ہاتھا پائی میں مصروف ہیں اور ایک شخص دوسرے کو پیٹ رہا ہے۔ آپؓ کے پہنچنے پر ان کا جھگڑا ختم ہو گیا۔ (شاید امامؓ نے ان میں صلح کرائی ہو) پتہ چلا کہ وہ دونوں آپس میں دوست ہیں۔ آپؓ جب مارنے والے کو سزا کی خاطر اپنے ساتھ لے کر جانے لگے تو پٹنے والے نے کہا میں اسے معاف کئے دیتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ تم نے اپنی جانب سے اسے معاف کر دیا تو یہ تمہارا حق تھا۔ لیکن ایک حق سلطان کا بھی ہے یعنی حکومت کا بھی ایک حق ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ اسے سزا دے اس حق کو تم معاف نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا تعلق تمہارے ساتھ نہیں ہے۔

۴۲

میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس حق کا تعلق معاشرے کے ساتھ ہو اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا، اسے اسلام معاف نہیں کرتا۔ کسی شخص کا ذاتی حق معاف کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ اگر کوئی شخص کسی مجرم و گناہ گار کی مالی امداد کیا کرتا تھا، اب اس کی امداد روکنا چاہے تو یہ ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اسے معاف کر دو۔ امداد بحال کر دو۔ یہی وجہ ہے قرآن بارِ دیگر عفو و چشم پوشی کا حکم دے رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو محبت اور بھلائی کے ذریعہ تدارک کرے۔

اب ہم اس سے اگلی آیت پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قرآن میں تہمت (خصوصاً عورتوں پر تہمت) لگانے کے موضوع پر جتنا زور دیا گیا ہے کسی اور موضوع پر نہیں دیا گیا’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاَتِ الْمُؤمِنَاتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ‘‘ جو لوگ پاکدامن غافل عورتوں (غافل عورت سے مراد وہ عورت ہے جو ہر بات سے بے خبر ہو کر اپنے گھر میں رہتی ہے) پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔’’یَومَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُم وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُون‘‘ جس دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے۔

یہ قرآن کی منطق ہے البتہ یہاں اس کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن بڑی صراحت کے ساتھ بتا رہا ہے کہ جہانِ آخرت زندہ ہے، اس جہان کی ہر چیز زندہ ہے اور اس جہان میں تمام اشیاء اور اعضاء ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ہو گا۔ ہاتھ گواہی دے گا کہ میں نے فلاں کام کیا تھا۔ اسی طرح پاؤں، آنکھ اور کان بھی اپنے اپنے افعال کی گواہی دیں گے۔ بدن کی جلد (حدیث میں آیا ہے کہ اس سے مراد شرمگاہ ہے) بھی اپنے فعل کی اطلاع دے گی۔ اس دن زبان پر مہر لگا دی جائے گی۔ (اس سے کہا جائے گا) اے زبان تو خاموش رہ، اعضاء و جوارح کو بولنے دے۔ زبان بولے گی تو فقط ان گناہوں کی گواہی دے گی جن کا اس نے ارتکاب کیا ہو گا۔ قرآن فرماتا ہے کہ جس دن اشخاص کی زبانیں، (چونکہ انہوں نے زبان سے گناہ کئے تھے) ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف ان اعمال کی گواہی دیں گے جن اعمال کو وہ انجام دے چکے ہوں گے۔’’یَوْمَئِذٍ یُّوَفِیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ ‘‘ اس دن خداان کو پورا پورا بدلہ دے گا۔

۴۳

اگر کوئی عورت۔’’نَعُوْذُ بِاللّٰهِ‘‘ بری ہو جائے اور اپنے دامنِ عفت کو داغدار کر لے تو مرد کی شرافت بھی داغدار ہو جاتی ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی مرد بدفعلی سے آلودہ ہو تو اس کی بیوی کی شرافت پر زیادہ حرف نہیں آتا بلکہ اس کی شرافت پر تو بالکل ہی حرف نہیں آتا۔ اس میں ایک نفسیاتی راز ہے۔ میں نے چند سال قبل خواتین کے مجلے میں ’’عورت‘‘ کے متعلق مقالات تحریر کئے۔ (جو اس مجلے میں بیان شدہ مقالات کے خلاف تھے) ۔ ان مقالات میں میں نے اس راز کو بیان کیا تھا۔ اسلام کے بہت سے احکامات کی بنیاد بھی اسی مطلب پر استوار ہے۔ اگر کوئی عورت بدکار ہو تو اس کا شوہر اپنی شرافت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جبکہ ایسی نیک خواتین بکثرت معاشرے میں پائی جاتی ہیں جن کے شوہر بدکار ہیں لیکن لوگ ان خواتین کو بدکار شمار نہیں کرتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شوہر بدکار ہے تو اس کا بیوی سے کیا تعلق۔ اگر شوہر کثیف ہے تو بیوی کا کیا قصور؟ یہ رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت پاکدامنی جیسے امور میں مرد کی ناموس ہے۔ اس کے ذاتی و شخصی امور کا تعلق اس کے شوہر سے نہیں ہوتا۔ یعنی اگر کوئی عورت (نعوذ باللہ) بدکار ہو جائے تو شوہر کی آبرو پر حرف آتا ہے۔ لیکن اگر عورت میں کوئی دوسرا عیب ہو تو یہ مرد کا عیب نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی عورت مومنہ نہ ہو بلکہ حقیقت میں کافرہ یا منافقہ ہو، تو اس بات سے شوہر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے ’’حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے۔ وہ دونوں پیغمبر تھے جبکہ ان کی بیویوں کے دل نورِ ایمان سے منور نہیں تھے۔ عقیدہ کے اعتبار سے وہ ان کے مخالفین کی صف میں تھیں۔ اس جگہ قرآن کریم فرماتا ہے: ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں، ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں۔‘‘ اس ’’پاکیزگی‘‘ سے مراد ناموس کی پاکیزگی ہے۔

۴۴

ناپاک مرد غیرت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ ناپاک عورت کو قبول کرتا ہے اور یوں ایک طرح کا انتخاب جنم لیتا ہے۔ پاک اشخاص ان اشخاص کو ڈھونڈتے ہیں جو پاک ہوں اور ناپاک اشخاص اپنے جیسوں کو تلاش کرتے ہیں۔ اس جگہ خدا نے شرعی قانون بیان نہیں کیا ہے بلکہ قرآن ایک فطری قانون بیان کر رہا ہے۔ آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ پاک نوجوان لڑکا شادی کے لئے ایسی لڑکی کو تلاش کرتا ہے جو پاکدامن ہو اور پاک لڑکی بھی پاک شوہر کو پسند کرتی ہے جبکہ آلودہ اور کثیف نوجوان اس لڑکی سے بھی شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جو کئی لڑکوں سے ناجائز تعلقات قائم کر چکی ہو۔

کثیف مرد کی کثیف روح کثیف عورت کو پسند کرتی ہے اور کثیف عورت کی کثیف روح کثیف مرد کو پسند کرتی ہے جبکہ پاک مرد کی پاک روح پاک عورت کا انتخاب کرتی ہے اور پاک عورت کی پاک روح پاک مرد کا انتخاب کرتی ہے۔

آپ لوگ نبی اکرم اور ان کی ناموس کے متعلق کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ کسی بھی پیغمبر کے خاندان میں ایسی برائیوں کا پایا جانا محال ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی پیغمبر کے گھر والے کافر ہوں، کسی نبی کا بیٹا کافر ہو، لیکن نبی کے گھر والوں کا فاسق ہونا محال ہے۔

’’وَصَلَّی اللّٰهُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِهِ الطَّاهِرِیْنَ‘‘

۴۵

چوتھی تقریر

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْ خُلُوْا بُیُوتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِمُوْا علیٰٓ اَهلِهَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْآ فِیْهَا اَحَداً فَلاَ تَدْخُلُوْهَا حَتّٰی یُؤذَنَ لَکُمْ وَ اِنْ قِیْلَ لَکُمْ ارْجِعُوْا فَارجِعُوْا هُوَ اَزْکیٰ لَکُمم وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْ خُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَهٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّکُمْ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ ‘‘(سُورہ نُور، آیت 27 تا 29)

میں نے اپنی گزشتہ ایک تقریر میں بیان کیا تھا کہ قرآنِ کریم عفت و پاکدامنی اور افراد کے جنسی تعلقات کی پاکیزگی پر بہت زور دیتا ہے۔ اس کی اساس ان مصلحتوں اور حکمتوں پر استوار ہے جن کی جانب میں اشارہ کر چکا ہوں۔

اسلام نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دو طریقے اختیار کئے ہیں۔ ایک جانب تو اس نے ایسی تدابیر اختیار کی ہیں جن کی مدد سے جنسی غریزے پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور دوسری جانب وہ بدکاری کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔

جن آیاتِ مبارکہ کی تفصیل ہم نے ابتدا میں بیان کی تھی ان میں بدکاری کی سزا کا ذکر تھا۔’’اَلزَّانِیَة وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَة جَلْدَة ‘‘ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں گناہ کہ ختم کرنے کے محض سزا ہی کافی نہیں ہے۔ سخت ترین سزائیں بھی جرم اور گناہ کو ختم نہیں کر سکتیں۔ ظلم اور جرم چاہے بے عفتی ہو، چاہے چوری و قتل ہو، یا بے احتیاطی ہو، مثلاً بے احتیاطی سے گاڑی چلانا۔ یہ بات بالکل درست نہیں کہ ہم کسی جرم یا ظلم کے خاتمہ کے لئے فقط سزا پر زور دیں۔ بلکہ ہمیں وقوعِ جرم کے اسباب کو دیکھنا چاہئے! ان اسباب کا خاتمہ کرنا چاہئے اور پھر جرائم پیشہ عناصر کو سزا دی جانی چاہئے۔ (عام طور پر وقوعِ جرم کے اسباب نہیں پائے جاتے فقط سرکشی کی ایک خاص حالت میں جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے) اس کی وضاحت کی خاطر ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ تیز رفتاری اور اوور ٹیکنگ کا مسئلہ اہم ترین مسائل میں سے ہے۔

۴۶

اس بات کی ہمیشہ تاکید کی جاتی ہے کہ ڈرائیور حضرات شہر کے اندر فلاں رفتار (مثلاً چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ) سے تیز گاڑی نہ چلائیں۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ کیا جائے گا۔ جرمانہ جس قدر بھی زیادہ ہو اگر اس جرم کے وقوع کے اسباب کی چھان بین نہ کی جائے تو محض سزا کافی نہیں ہو گی۔ خصوصاً ڈرائیونگ میں تو سزا ویسے ہی موجود ہے یعنی ’’مجازا تُھا مَعَھا‘‘ ہے کیونکہ جو شخص گاڑی تیز رفتاری سے چلاتا ہو اور دیوانوں کے مانند اندرونِ شہر اور بیرونِ شہر گاڑی تیز رفتار سے دوڑاتا پھرتا ہو تو سب سے زیادہ خطرہ اسی کو لاحق ہوتا ہے۔ اس کی گاڑی بھی خطرے میں ہوتی ہے اور جان بھی۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو جان اور مال کا خطرہ اسے تیز رفتاری سے باز رکھتا ہے اور نہ ہی سزا۔ کیوں؟ اس لئے کہ بعض عوامل اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی ٹیکسی ڈرائیور کو ٹیکسی احتیاط سے چلانے کی نصیحت کریں یا تیز رفتار سے گاڑی چلانے پر اس کے لئے جرمانہ تجویز کریں جبکہ وہ اس قسم کے حالات کا شکار ہو کہ وہ خود ٹیکسی کا مالک نہ ہو بلکہ اس کی حیثیت فقط ایک ڈرائیور کی ہو۔ صبح سے ہی ٹیکسی چلانا شروع کر دیتا ہو۔ اب اگر وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد 120 تومان نہ کمائے تو وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتا کیونکہ ان 120 تومانوں میں سے 60 تومان تو اسے مالک کو ادا کرنا ہیں۔ اگر وہ 60 تومان مالک کو ادا نہیں کرے گا تو وہ دوسرے دن اس کی چھٹی کرا دے گا۔ پھر 30 تومان ٹیکسی کے پٹرول وغیرہ کا خرچہ نکالے گا۔ یوں دن بھر کی مشقت کے بعد اس کے لئے فقط 30 تومان باقی بچتے ہیں۔ ان حالات میں اگر اس کو ہزار نصیحت کریں اور کہیں کہ تیز رفتاری سے تمہاری جان خطرے میں پڑ سکتی ہے یا تمہیں اس قدر جرمانہ کیا جائے گا اور تمہیں جیل بھیج دیا جائے گا، جبکہ دوسری طرف 30 تومان گھر لے کر جانا بھی اس کی مجبوری ہے کیونکہ اگر 30 تومان بھی گھر لے کر نہ جائے تو اپنی بیوی بچوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ ان حالات میں وہ کیا کرسکتا ہے؟ وہ ٹیکسی اسٹارٹ کرتا ہے اور پھر اسے تیز رفتاری سے چلاتا ہے۔ وہ بہرصورت 120 تومان کمانے پر مجبور ہے۔ ایک مجبوری اس پر اپنا حکم چلاتی ہے، اس لئے نہ وہ سزا کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی کوئی نصیحت سودمند ثابت ہوتی ہے۔ پس اگر ہم اس کو تیز رفتاری سے باز رکھنا چاہیں تو سزا سخت کرنے سے ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، بلکہ ہمیں تیز رفتاری کے اسباب کو مد نظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور اس کے اسباب کو پیش نظر رکھ کر ہی مشکل حل ہو گی۔ مثلاً اگر ہم اس کو ایسی سہولیات بہم پہنچا سکیں کہ وہ دن میں سات گھنٹے آرام سے ٹیکسی چلا کر بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے تو اس کا دماغ خراب نہیں کہ اپنی جان اور ٹیکسی کو خطرے میں ڈالے یا اپنے آپ کو جیل کے حوالہ کرے۔

۴۷

چوری، شراب خوری، زنا، قتل اور ان جیسے دوسرے جرائم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جرائم کے اسباب کو ختم کرنے سے ہی جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم شراب نہ پینے کا موعظہ کریں اور اخبارات پر شراب نوشی کے خطرناک نتائج (اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچاس فیصد جرم، ظلم، قتل، بے عفتی، حادثات شراب کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں) تحریر کریں، درحالیکہ شراب خواری کی رغبت دلانے کے تمام عوامل موجود ہوں، تمام غزلوں، تحریروں اور شعروں میں مے خواری و شراب نوشی کی دعوت دی گئی ہو، ہر محفل میں اسے عیش کوشی کا حصہ قرار دیا جاتا ہو، اسے پینے کی رغبت دلائی جاتی ہو اور شراب کی دکانوں کی تعداد دوسری تمام دوکانوں سے زیادہ ہو۔ ہر قدم پر نوجوانوں کو دعوت دینے کے لئے ایک سائن بورڈ نصب ہو جس پر تحریر ہو کہ ’’وہ‘‘ اور ’’وغیرہ‘‘ ’’یہاں دستیاب ہے، تشریف لائیے‘‘ تو اس صورت حال میں جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔

زنا اور پاکدامنی کا مسئلہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اسلام نے زنا کرنے والوں کے لئے سخت سزا تجویز کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے خاتمہ کے لئے سزا کا سہارا نہیں لیا۔ اسی لئے اس نے زنا ثابت ہونے کا راستہ بہت دشوار بنا دیا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ لوگ زنا کرنے اور نہ کرنے والوں کا سراغ لگائیں، بلکہ وہ تو اس کام کو بہت بری نظر سے دیکھتا ہے۔ البتہ اگر زنا پایہ ثبوت تک پہنچ جائے تو وہ سخت سزا دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ سزا کے ذریعہ زنا کا خاتمہ کرنا نہیں چاہتا۔ وہ لوگوں کو سراغ لگانے کی رغبت نہیں دلاتا۔ بلکہ وہ تو سرے سے ہی گناہ کا سراغ لگانے کا مخالف ہے۔ وہ اس جاسوسی کا مخالف ہے جو لوگوں کے گناہوں سے پردہ اٹھانے کی خاطر کی جائے’’وَلاَ تَجَسّسُوْا‘‘ (حجرات۔ 12)

اب یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اسلام نے گناہ کا سد باب کرنے کے لئے کیا طریقہ اپنایا ہے؟ اسلام نے زنا و بدکاری کے سد باب کے لئے متعدد طریقے اپنائے ہیں جن میں وعظ و نصیحت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور تربیت شامل ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ لوگوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہو۔ یہ تمام طریقے بہت ہی مناسب ہیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے اصولوں کو ایسی اساس پر استوارکرتا ہے جس کے باعث ایسے اسباب ہی جنم نہیں لیتے جو گمراہی اور گناہ کی جانب راغب کریں۔ پاکدامنی کا مسئلہ اسی قبیل سے ہے۔

۴۸

گزشتہ تقریروں میں کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی ساری کوشش یہی ہے کہ انسان اپنی جنسی شہوت کا جواب جائز شادی سے دے۔ اسلام تجرد کے خلاف ہے، (ہم چند آیات کے بعد پڑھیں گے۔ وَاَنْکِحُواالْاَیَامیٰ مِنْکُمم وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآ ئِکُمْ) شادی کرنے کی رغبت دلا رہا ہے۔ لڑکی لڑکے کو لازماً شادی کرنا چاہئے۔ (اس ’’لازماً‘‘ پر فی الحال ہم بحث نہیں کریں گے۔ اسی آیت کے ضمن میں اس پر بحث کریں گے۔)

پس ایک جانب تو اسلام شادی کی شدید رغبت دلاتا ہے تاکہ بے عفتی کے اسباب ہی وجود میں نہ آئیں۔ اسی لئے وہ ہر قسم کے تجرد کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری جانب یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا محض شادی کے ذریعہ بدکاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ کیا گر کسی مرد کی اپنی بیوی ہو اور کسی عورت کا اپنا شوہر ہو تو یہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کی طرف راغب نہ ہوں اور شادی شدہ انسان بعض حیوانات (وہ حیوانات جو فقط اپنے ساتھی کی طرف مائل ہوتے ہیں) کے مانند ہو جاتا ہے؟

حیوانات غریزے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ انہیں خودمختار پیدا نہیں کیا گیا۔ کبوتر اور بعض دوسرے حیوانات جفت ہیں، جبکہ گوسفند، اسپ اور آہو جیسے حیوانات میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ ان میں جفتی کرنے والی کوئی بات نہیں ہوتی چاہے وہ مادہ ہوں چاہے نر۔ خاص جنگلی حیوانات میں بوجھ اٹھانے کے علاوہ کسی اور کام کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔ وہ نر کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ کبوتروں جیسے وہ حیوانات جو جوڑوں کی صورت میں زندگی بسر کرتے ہیں ان میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ فقط آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی عمل انجام دیتے ہیں۔ نہ تو نر کبوتر اس مادہ کبوتر کے علاوہ کسی دوسری کبوتری پر نظر رکھتا ہے اور نہ ہی یہ کبوتری اس کبوتر کے علاوہ کسی دوسرے کبوتر کی طرف توجہ کرتی ہے۔ لیکن چونکہ انسان کو خودمختار خلق کیا گیا ہے اس لئے اسے خود ہی تمام شہوات میں ہر شہوت میں اپنے افعال فرض کی ادائیگی کے طور پر دینا ہوتے ہیں، فطرت کے جبر کے تحت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بدکاری کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے۔ لیکن اس کے سد باب کے لئے اکیلی شادی کافی نہیں ہے۔ یعنی اگر شادی شدہ مرد کی نظر کسی غیر عورت پر پڑے تو اس کی رغبت میں اضافہ ہوتا ہے، خاص کر جب عورت نے دوسروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لئے بناؤ سنگار بھی کیا ہوا ہو۔ اور اگر کوئی شادی شدہ عورت کسی غیر مرد کو دیکھے تب بھی یہی صورتِ حال پیش آتی ہے۔

۴۹

اسی لئے اسلام نے مرد و زن کے میل جول کے لئے چند شرائط کو لازمی قرار دیا ہے۔ ان شرائط کو فقط اس لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ کہ عورت و مرد کا میل جول شہوت انگیز نہ ہو۔

بعد والی آیات سے جن کو ہم پڑھیں گے، مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ تقریر کے آغا زمیں تلاوت کی جانے والی آیات کا تعلق اذن سے ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اطلاع اور اجازت کے بغیر اسے گھر میں داخل ہونے کا حق نہیں پہنچتا۔ اگرچہ یہ تین آیات عورت سے مخصوص نہیں ہیں لیکن ان کا زیادہ تر تعلق عورت سے ہی ہے۔ آیت یہ ہے۔

یٰااَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِمُوْا عَلیٰٓ اَهلِهَا

’’اے اہلِ ایمان تم اپنے ذاتی گھر ( آپ کا اپنا گھر مستثنیٰ ہے) کے علاوہ دوسرے شخص حتی کہ اپنے والدین، بہنوں اور بطریقِ اولیٰ اپنے بھائیوں کے گھروں میں اچانک نہ آ دھمکو بلکہ پہلے اپنے استیناس کیا کرو اور اہلِ خانہ کو سلام کیا کرو۔‘‘ ’’استیناس کیا کرو‘‘ یعنی گھر والوں کی انس، الفت اور سکون کا سامان کیا کرو۔

واضح سی بات ہے کہ ہر کسی کی ذاتی اور گھریلو زندگی اس کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی ذاتی زندگی میں کسی بھی دوسرے شخص کی بے جا مداخلت سے شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ اس لئے اگر اس کے گھر میں کوئی دوسرا شخص اچانک آ دھمکے تو وہ گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے ایسا نہ کیا کرو۔ کسی کے گھر میں اچانک نہ داخل ہوا کرو، بلکہ پہلے استیناس کیا کرو۔ یعنی ایسا کام کیا کرو کہ ان کو گھبراہٹ و سراسیمگی لاحق نہ ہونے پائے، یعنی پہلے ان کو اطلاع دیا کرو۔

زمانہ قدیم میں گھروں کے دروازے بند کرنے کا معمول نہیں تھا۔ (جیسا کہ اب بھی بعض دیہاتوں میں اس معمول نہیں ہے) شہروں میں دروازوں کو اندر سے بند کر دینے کا معمول ہے۔ اگر کوئی شخص اطلاع کے بغیر داخل ہونا بھی چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ اب دروازوں کو اندر سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اسے پہلی گھنٹی بجانی یا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت اہلِ خانہ کو اطلاع دینے اور ان سے اجازت طلب کرنے کی رسم نہیں تھی۔ وہ تو اجازت طلب کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اسلام اپنے ساتھ یہ حکم لایا کہ کسی کے گھر میں اچانک داخل ہونا حرام ہے۔

۵۰

ہم جو کسی کے گھر میں اطلاع کے بغیر داخل نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دروازہ بند ہوتا ہے۔ اگر دروازہ کھلا ہوا ہو تب بھی ہم کو اطلاع کے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔وَتُسَلِمُوْا عَلیٰٓ اَهْلِهَا ’’سلام بھی کیا کرو۔‘‘ سلام کئے بغیر گھر میں داخل نہ ہوا کرو۔ جو شخص بھی کسی کے پاس جائے تو اسے چاہئے کہ پہلے اسے سلام کرے۔ جو شخص کسی کے گھر میں جائے تو اسے چاہئے کہ اہلِ خانہ کو سلام کرے۔ یہ رسم نبی اکرم نے ڈالی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی کے گھر میں داخل ہوا کرو تو بہرصورت اہلِ خانہ کو اطلاع دیا کرو تاکہ وہ آمادہ ہو جایا کریں اور جب تک وہ اجازت نہ دے دیں، جب تک ’’تشریف لائیے‘‘ نہ کہیں، اس وقت تک گھر کے اندر قدم نہ رکھا کرو۔ البتہ آپ کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت کھانسنے کے ذریعے بھی گھر میں داخل ہونے کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ لیکن آخر آپ ایسا ہی کیوں کریں؟ اس سے بہتر یہ ہے کہ آپ ذکرِ خدا کریں۔ مثلاً ’’اللہ اکبر‘‘ یا ’’سبحان اللہ‘‘ کہیں۔ آجکل ہمارے مابین ’’یااللہ‘‘ کہنے کا معمول ہے اور یہ ایک بہت اچھی رسم ہے، اگرچہ رفتہ رفتہ فرنگی مآب لوگوں میں یہ رسم ختم ہو گئی ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ایک اسلامی رسم ہے۔ ان کے درمیان تو سلام کرنے کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے اور یا اللہ کہنے کا بھی، اور یہ تعجب کی بات ہے۔

نبی اکرم کسی کے گھر میں بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوا کرتے تھے۔ آپ استیناس کو زیادہ تر سلام کرنے کے ساتھ ہی انجام دیتے تھے، حتیٰ کہ آپ اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ عَلَیھَا کے گھر میں بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوتے تھے ۔ بلکہ باہر دروازے پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں فرمایا کرتے’’اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَآ اَهْلَ الْبَیْتِ‘‘ اگر اس کا جواب دیا جاتا اور کہا جاتا کہ ’’تشریف لائیں‘‘ تو آپ اندر داخل ہوتے۔ اگر جواب نہ ملتا تو اس خیال سے کہ شاید انہوں نے پہلی مرتبہ نہیں سنا ہو گا۔ دوبارہ فرماتےاَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَآ اَهْلَ الْبَیْتِ‘‘ اگر پھر بھی جواب نہ ملتا تو احتیاطاً اس خیال سے کہ انہوں نے دوسری مرتبہ بھی نہیں سنا ہو گا، آپ تیسری مرتبہ بھی سلام کرتے۔ اگر تیسرے سلام کا بھی جواب نہ ملتا تو واپس پلٹ جاتے۔ آپ فرماتے یا تو وہ گھر میں موجود نہیں ہیں، یا ان کی حالت کسی دوسرے شخص کے داخل ہونے کی مقتضی نہیں ہے۔ اور آپ بالکل برا محسوس نہ فرماتے۔’’ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ‘‘ ’’یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارا فائدہ اسی میں ہے۔ شاید تمہیں اس کام کے فائدے کا پتہ بعد میں چلے۔ شاید تم بعد میں اس کے فائدے کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔‘‘

۵۱

یعنی پہلے عمل کرو بعد میں تمہیں اس کے فائدہ کا علم ہو گا۔ اس سلسلے میں بہت سی داستانیں نقل ہوئی ہیں جو آپ کی سنی ہوئی ہیں۔ ’’سمرہ بن جندب‘‘ جو بہت ہی بد طنیت تھا، اس نے امیرالمومنین علیؓ اور معاویہ کے زمانے میں بہت بدطینتی کا مظاہرہ کیا، کی ایک داستان معروف ہے۔ نبی اکرم کے زمانے میں اس کا ایک درخت آپ کے ایک صحابی کے گھر میں تھا۔ اس درخت کی وجہ سے اسے اس گھر میں داخل ہونے اور درخت کی دیکھ بھال کرنے کا حق پہنچتا تھا۔ مگر چونکہ درخت دوسرے شخص کے گھر میں تھا۔ اس لئے اصولاً اسے اس گھر میں داخل ہونے سے پیشتر استیناس اور اجازت حاصل کرنا چاہئے تھی۔ اسے ’’یااللہ‘‘ کہنا چاہتے تھا۔ لیکن وہ بہت اکڑ باز اور ظالم تھا۔ ان باتوں کی پرواہ مطلق نہ کیا کرتا اور اچانک اس گھر میں داخل ہو جاتا تھا۔ (ہر شخص اپنے گھر میں کسی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اسے اس حالت میں دیکھیں) اور اہلِ خانہ کی نا راحتی کا موجب بنا کرتا۔ مالکِ مکان نے چند مرتبہ اسے سمجھایا لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ یا رسول اللہ فلاں شخص کو آپ سمجھائیں، وہ میرے گھر میں اچانک آ دھمکتا ہے۔ آپ نے اسے بلوا کر سمجھایا لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا کہ اس گھر میں میرا درخت ہے اس لئے مجھے وہاں جانے کا حق حاصل ہے۔ آپ متوجہ ہوئے کہ یہ شخص تو بد طینت ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا آؤ ایک کام کرتے ہیں۔ تم یہ درخت میرے ہاتھوں فروخت کر دو۔ میں تمہیں اس سے بہتر درخت دوں گا جو ایک اور جگہ پر واقعہ ہے، مگر وہ نہ مانا۔ تین درخت، چار درخت، دس درختوں تک کی تجویز آپ نے اسے پیش کی جسے اس نے قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا میں تجھے جنت میں کھجور کے ایک درخت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس نے جواب دیا مجھے جنت کا درخت نہیں یہی درخت چاہئے اور میں گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت بھی نہیں لیا کروں گا۔ اس نے (اپنے کردار سے) ثابت کر دیا کہ وہ ظالم اور ستمگر شخص ہے۔ (میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اسلام ابتداء میں نرمی سے کام لیتا ہے لیکن اگر وہ موثر نہ ہو تو پھر سختی کو کام میں لاتا ہے) آپ نے فوراً مالک مکان کو حکم دیا کہ گھر جا کر اس کا درخت جڑ سے اکھاڑ ڈالو اور اس کے آگے پھینک دو۔’’اِنَّه رَجُلٌ مُّضَارّ ’’ یہ ضرر رساں شخص ہے‘‘ لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ عَلیٰ مُؤمِنٍ ’’ دینِ اسلام میں ضرر اور ضرار کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘

۵۲

بعد میں قرآن فرماتا ہے۔’’فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْ فِیْهَآ اَحَداً فَلاَ تَدْ خُلُوْهَا حَتّٰی یُؤذَنَ لَکُمْ‘‘ اگر آپ کسی کے گھر میں جائیں اور وہ گھر پر موجود نہ ہو تو اس صورت میں آپ کا کیا فرض ہے؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب تو گھر پر کوئی بھی نہیں جو ہمیں اجازت دے۔ کوئی عورت بھی اس گھر میں نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس گھر میں داخل ہوں گے تو ہمیں یہ نہیں کہا جائے گا کہ آپ اچانک کیوں آ دھمکے ہیں۔ چونکہ اس گھر میں کوئی نامحرم بھی نہیں ہے اس لئے ہم کو اس میں داخل ہونے کا حق پہنچاتا ہے؟ نہیں! یہ جو کسی گھر میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے محض نامحرم کی وجہ سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ لوگوں کے ذاتی معاملات میں بے جا مداخلت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کی زندگی میں ایسے امور کا پایا جانا ممکن ہے جن کو وہ دوسروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہو۔ خدا فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص بھی گھر پر نہ ہو تب بھی گھر میں داخل نہ ہوا کرو، مگر یہ کہ تمہیں پہلے سے اجازت دی گئی ہو یعنی اہلِ خانہ نے پہلے سے تمہیں اجازت دے رکھی ہو۔ مثلاً مالکِ مکان نے تمہیں گھر کی چابی دی ہو یا اس نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی ہو۔

اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ہم کسی کے پاس جائیں، وہ شخص گھر میں بھی موجود ہو اور ہم اس سے اجازت طلب کریں، لیکن وہ بجائے اس کے کہ ہم سے کہے ’’تشریف لائیے‘‘ کہے ’’ آپ واپس تشریف لے جائیں، فی الحال میں آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا‘‘ تو اس صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ قرآن صریحاً فرما رہا ہے کہ اگر گھر کا مالک کہے کہ میں فی الحال تمہاری پذیرائی کرنے سے قاصر ہوں تو تمہیں واپس پلٹ جانا چاہئے اور گھر کے مالک کی بات تمہارے دل پر گراں نہیں گزرنی چاہئے۔ اسلام کا یہ حکم ہم لوگوں کی موجودہ زندگی سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔

اس مقام پر قرآن ہم سے کہہ رہا ہے ’’نا حق تمہارے دل پر گراں نہ گزرے۔ اگر تم کسی کے گھر میں جانا چاہتے ہو تو اگر انہوں نے تمہیں بلایا ہو اور تم نے ان سے وقت لیا ہو، تو گھر میں داخل ہو جایا کرو۔ اور اگر پیشگی اطلاع کے بغیر کسی کا دروازہ کھٹکھٹاؤ جس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہوں تو اس صورت میں اگر اہلِ خانہ کسی مجبوری کی بناء پر آپ کو اندر نہ بلا سکتا ہو تو اسے بغیر کسی شرم و لحاظ کے کہہ دینا چاہئے کہ میں گھر پر ہوں (یہ نہیں کہنا چاہئے کہ گھر پر نہیں ہوں) لیکن فی الحال مصروف ہوں اس لئے معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کا میزبان بننے سے قاصر ہوں (اکثر اتفاق ہوتا ہے کہ اہلِ خانہ کو کوئی ضروری کام درپیش ہوتا ہے جبکہ آنے والا کسی ضروری کام سے نہیں آیا ہتا) آپ نے مجھ سے پیشگی وقت نہیں لیا تھا۔ اب آپ تشریف لے جائیے۔ پھر کسی وقت تشریف لائیے گا اور یہ بات واشگاف الفاظ میں کہی جانی چاہئے۔ اور اگر صاحبِ خانہ دو ٹوک الفاظ میں کہے تو آنے والے میں بھی اس قدر شہامت، شجاعت اور مردانگی ہونی چاہئے کہ یہ بات اس پر گراں نہ گزرے۔

لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آجکل اس کے برعکس عمل ہو رہا ہے۔ نہ تو گھر والے میں اس قدر شہامت، صراحت، صداقت پائی جاتی ہے کہ کہے میں فی الحال آپ کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہوں اور نہ ہی آنے والے میں اسی قدر انسانیت پائی جاتی ہے کہ اگر وہ کہے کہ میں فی الحال آپ کو وقت نہیں دے سکتا، آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا تو اس کے دل پر گراں نہ گزرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں درج ذیل تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی ایک صورت پر عمل ہو رہا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے مالک مکان جھوٹ بولتا ہے۔ وہ بچوں سے کہتا ہے کہ (آنے والے سے) کہو ابو گھر پر نہیں ہیں۔ اس طرح وہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ ’’گھر پر نہیں ہے‘‘ جھوٹ ہے اور جھوٹ گناہ کبیرہ ہے۔ بعض لوگ اس مقام پر اپنے خیال کے مطابق ’’توریہ‘‘ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ توریہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں جھوٹ نہ بولنے کی صورت میں مفسدہ وجود میں آتا ہو مثلاً خنجر بکف کوئی شخص آیا ہو، وہ کسی کونا حق قتل کرنا چاہتا ہو۔ وہ پوچھے کہ فلاں آدمی یہاں موجود ہے یا نہیں؟ تو جواب دینا چاہئے کہ یہاں نہیں ہے۔ اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو جھوٹ کی عادت پڑ جائے اس لئے اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی دوسری بات کو گزاریں۔ کہیں ’’نہیں‘‘ اور دل میں گزاریں کہ ’’یہاں‘‘ نہیں ہے۔ اور یہ درست نہیں ہے کہ انسان اپنی مرضی کا ہر جھوٹ بول لے اور اسے توریہ قرار دیدے۔ تو مالک مکان بچوں سے کہتا ہے کہ آنے والے سے کہو ’’نہیں ہے۔‘‘ لیکن اے بچو! جب تم کہو کہ نہیں ہے تو تمہارا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ ہمارا والد کمرے کی چوکھٹ پر نہیں ہے۔ تو جناب اس مقام پر آپ سچ بول سکتے ہیں پھر توریہ کیوں کرتے ہیں؟ یہاں آپ کو کہنا چاہئے کہ میں گھر پر موجود ہوں لیکن فی الحال آپ کی میزبانی کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوں۔

۵۳

ایک مرتبہ ملا نصیرالدین ایک مہمان کو اپنے ہمراہ گھر کے دروازے تک لایا۔ خود گھر میں داخل ہو گیا۔ اس کی بیوی (ان بہت سی عورتوں کی طرح جو ایسے امور میں ہٹ دھرمی کیا کرتی ہیں) اس سے جھگڑ پڑی کہ مہمان کو اپنے ہمراہ کیوں لائے ہو۔ ہمارے پاس اس کی پذیرائی کے لئے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ لہٰذا تم نے اسے لا کر اچھا نہیں کیا۔ ملا نصیر الدین نے کہا ک ہاب میں کیا کروں؟ بیوی نے کہا میں اس کی بالکل مہمان نوازی نہیں کروں گی۔ ملا نصیرالدین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ آخر اس نے اپنے بچوں کے ذریعے مہمان کو کہلوا بھیجا کہ ملا گھر پر نہیں ہے۔ مہمان نے کہا ابھی تو ہم مل کر آئے تھے۔ یہ سنتے ہی ملا نے بلند آواز سے جواب دیا شاید اس گھر کے دو دروازے ہوں اور وہ دوسرے دروازے سے باہر چلا گیا ہو۔

عموماً ایسے مواقع پر کئے جانے والے ہمارے کام ملا نصیرالدین کے کاموں جیسے ہوتے ہیں۔ یعنی جب دروازے پر آ کر کہا جاتا ہے کہ ’’صاحب گھر پر نہیں ہیں‘‘ تو مہمان سمجھ جاتا ہے کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب کوئی دروازے پر آتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹھہرئے میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں کہ صاحب گھر میں موجود ہیں یا نہیں تو صاف معلوم ہو رہا ہوتا ہے کہ جب تم گھر کے اندر سے آئے ہو تو تم کو پتہ ہے کہ صاحب گھر پر ہیں یا گھر پر نہیں ہیں۔ یہ کہنا کہ ’’میں دیکھ کر آتا ہوں کہ صاحب گھر پر ہیں یا نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں کہو سچ سچ بتاؤں یا جھوٹ سے کام لوں۔

یہ عین حقیقت ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود کہ سب جانتے ہیں، مہمان بھی جانتا ہوتا ہے اور میزبان بھی۔ لیکن اس کے باوجود مسلسل جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ پس ایک صورت یہی ہے کہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ صاحب خانہ آنے والے سے کہتا ہے ’’تشریف لائیے‘‘۔ بہت ظاہرداری سے کام لیتا ہے۔ اسے خوش آمدید،اَهْلاً وَّسَهْلاً وَّ مَرْحَباً جیسے الفاظ سے اس کا استقبال کرتا ہے۔ بڑے تپاک سے ملتا ہے جبکہ دل ہی دل میں اسے گالیاں دے رہا ہوتا ہے۔ اسے کوستا ہے کہ یہ بلائے ناگہانی اس وقت کہاں سے آ ٹپکی۔ ہمیں کئی ضروری کام تھے۔ لوگ کس قدر غیر مہذب ہیں۔ بے سوچے سمجھے دوسروں کے گھروں میں آ دھمکتے ہیں اور ان کے کاموں میں مخل ہوتے ہیں۔ جب مہمان چلا جاتا ہے تو پھر میزبان بیوی بچوں کے سامنے اسے ڈھیر ساری گالیاں بکتا ہے۔

۵۴

ان حالات میں وہ بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا! وہ بچہ جو دیکھ رہا ہے کہ اس کے باپ میں اتنی شہامت بھی نہیں ہے کہ مہمان سے کہہ سکے کہ میں آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا۔ میرے پاس فی الحال وقت نہیں ہے بلکہ وہ سرو قد ہو کر مہمان کی تعظیم بجا لاتا ہے، اسے خوش آمدید کہتا ہے جبکہ اس کے جانے کے بعد اس پر صلواتیں بھیجتا ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ میزبان و صاحب خانہ معقول کام کرتا ہے۔ یعنی وہ خود دروازے پر آ کر آنے والے سے کہتا ہے ’’جناب مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو فی الحال وقت نہیں دے سکتا۔ مجھے ضروری کام ہے، میں مصروف ہوں۔‘‘ یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ آنے والے تک پیغام بھیجتا ہے کہ فی الحال میں مصروف ہوں جس کی وجہ سے میں آپ کی میزبانی کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوں۔ تو اس صورت میں صاحب خانہ نے ایک معقول طریقہ اختیار کیا ہے لیکن آنے والے شخص میں اخلاقی جراءت نہیں پائی جاتی (کیونکہ) اس کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ وہ اپنی ہر محفل میں اسی کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں فلاں شخص کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے ملاقات نہ کی۔ وہ یہ بات تو نہیں بتاتا کہ میں نے پیشگی اجازت نہیں لی تھی اور نہ ہی یہ سوچتا ہے کہ صاحب خانہ کسی مجبوری کی بناء پر مجھ سے ملاقات نہیں کر سکا۔

(جبکہ اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ) آپ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے کوئی مجبوری ہو گی اور تمہیں اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ تمہارا میزبان شجاع ہے۔ اس نے تم سے جھوٹ نہیں بولا بلکہ واضح الفاظ میں حقیقت بیان کر دی ہے۔ یہ تھی تیسری صورت۔ان دونوں یا تو پہلی دو صورتوں جو کہ میزبان کے بارے میں ہیں پر عمل کیا جا رہا ہے یا اس تیسری صورت پر جو کہ مہمان سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ چوتھی صورت جسے اسلام پسند کرتا ہے ہمارے معاشرے میں بالکل ناپید ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ اگر صاحب خانہ کے پاس وقت نہ ہو، وہ آنے والے سے ملاقات نہ کر سکتا ہو تو صراحت کے ساتھ کہہ دینا چاہئے کہ ’’جناب میں معذرت چاہتا ہوں کہ فی الحال آپ کو وقت نہیں دے سکتا۔ آپ کی میزبانی کے فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہوں‘‘ اور آنے والے کو بھی برا محسوس کئے بغیر واپس پلٹ جانا چاہئے۔ قرآن نے اس چوتھی صورت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے۔

وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا

’’اور جب تم سے کہا جائے کہ واپس لوٹ جاؤ تو پلٹ جایا کرو‘‘’’هُوَ اَزْلیٰ لَکُمْ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔‘‘ یہ چوتھی صورت پہلی تینوں صورتوں سے بہتر ہے۔’’وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے جانتا ہے۔‘‘

۵۵

قرآن نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے گھر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں داخل ہونا چاہو تو اجازت کے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ (گھر سے مراد وہ چار دیوار ہے جس میں کوئی زندگی بسر کر رہا ہو) ۔ اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا ہر وہ چار دیواری جس میں لوگ رہ رہے ہوں اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے؟ کیا کسی دکان میں داخل ہونے کے لئے بھی اجازت طلب کرنا ضروری ہے؟ اگر میں کسی شاپنگ سنٹر میں داخل ہونا چاہوں تو کیا پہلے اجازت طلب کرنی چاہئے؟ کیا کسی سرائے میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنا واجب ہے؟ یا یہ حکم فقط ان گھروں سے مخصوص جن میں کوئی زندگی بسر کر رہا ہو۔ یعنی کیا یہ حکم لوگوں کے ذاتی و شخصی مکانوں کے ساتھ مختص ہے؟

قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ حکم فقط خاص مکانوں سے مخصوص ہے چاہے وہ رہنے سہنے کا مکان ہو یا کام کرنے کا مکان۔ عمومی اماکن کے لئے یہ حکم نہیں ہے کیونکہ عمومی اماکن کا دروازہ تو سب کے لئے کھلا ہوا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ایک شخص بہت ہی سادہ لوح تھا اور ساتھ ساتھ پارسا بھی بہت تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہیں ہونا چاہئے۔ سنے میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ مشہد میں اپنے علاقے کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے ایک بہت بڑے کاروان سرا میں داخل ہونا چاہتا تھا۔

خود کاروان سرائے کے دروازے کے پاس باہر کھڑا ہو گیا اور دوسرے شخص کو یہ معلوم کرنے کو بھیجا کہ کیا مجھے اس کاروان سرائے میں داخل ہونے کی اجازت ہے یا نہیں! جبکہ کاروان سرائے کا دروازہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ کاریں اور گاڑیاں اکثر وہاں سے گزرتی رہتی ہیں۔ اس میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عمومی اماکن میں سے ہے۔

اس لئے قرآن مجید فرماتا ہے۔’’لیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْ خُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ مَسْکُوْنَة ’’ ایسے مکانوں میں بغیر اجازت کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں جن میں لوگ موجود ہوں اور وہاں لین دین کا کاروبار ہوتا ہو بشرطیکہ وہ ان کی سکونت کے مکان نہ ہوں۔فِیْهَا مَتَاعٌ لَّکُمْ ’’ان مکانوں میں تمہارے لئے متاع ہے‘‘ یعنی تم ان مکانوں میں کام کی وجہ سے داخل ہونا چاہتے ہو۔ البتہ اگر ان مکانوں میں تمہیں کوئی کام نہ ہو تو بلا مقصد دوسروں کے کاموں میں مخل نہ ہوا کرو۔ اس کے بعد قرآن فرماتا ہے۔’’وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاتَکْتُمُوْنَ‘‘ خدا ہر اس چیز کو جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور مخفی کرتے ہو۔‘‘

۵۶

اب یہاں سے حجاب اور نگاہ کے متعلق آیات کا آغاز ہو رہا ہے۔

قُلْ لِلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِ هِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ‘‘ (سُورہ نُور، آیت 30)

’’(اے رسول) مؤمنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے پاکیزہ تر ہے۔ (یعنی عفت کا حکم پاکیزگی کی خاطر دیا گیا ہے) اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔‘‘

اس آیت میں بہت سے مسائل ہیں جن پر بحث کرنا ضروری ہے۔ مفسرین نے’’یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِ هِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ‘‘ پر بہت زیادہ بحث کی ہے۔ بعض مفسرین کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ دونوں فقرے شرمگاہ چھپانے کے بارے میں ہیں کیونکہ اسلام کے واجبات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر عورت و مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی شرمگاہ کو اپنے شریکِ حیات کے سوا دوسروں کی نظروں سے مخفی رکھے۔ شرمگاہ کا چھپانا مرد پر بھی واجب ہے اور عورت پر بھی۔ خاوند بیوی تو شرمگاہ کی نسبت ایک دوسرے کے محرم ہیں۔ دوسروں سے اس کا چھپانا واجب ہے۔ میاں بیوی کے علاوہ کوئی شخص بھی دوسرے کی شرمگاہ کا محرم نہیں ہے۔ شرمگاہ کے مسئلے میں والدین اپنی اولاد کے، بھائی بھائی کا اور بہنیں بھی آپس میں ایک دوسری کی محرم نہیں ہیں۔ شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے۔ اور غیر کی شرمگاہ کی طرف نگاہ کرنا حرام ہے۔ اس کا حرام ہونا دینِ اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔

۵۷

فہرست

پہلی تقریر 2

دوسری تقریر 18

تیسری تقریر 31

چوتھی تقریر 46

۵۸

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

چھٹی شرط

مسئلہ ٨ ۴ ٠ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے مرد کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو۔ احتياط واجب کی بنا پر ٹوپی اور ازار بند کا بھی یهی حکم ہے اور نماز کے علاوہ بھی خالص ریشم کا لباس پهننا مردوں کے لئے حرام ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ١ اگر لباس کا تمام استریا اس کا کچھ حصّہ خالص ریشم کا ہو تو مرد کے لئے اس کا پهننا حرام اور اس کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٢ جس لباس کے بارے ميں یہ علم نہ ہو کہ خالص ریشم کا ہے یا کسی اور چيز کا بنا ہوا ہے تو اس کا پهننا جائز ہے اور اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٣ ریشمی رومال یا اس جيسی کوئی چيز مرد کی جيب ميں ہو تو کوئی حرج نہيں ہے اور وہ نماز کو باطل نہيں کرتی۔

مسئلہ ٨ ۴۴ عورت کے لئے نماز ميں یا اس کے علاوہ ریشمی لباس پهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۵ مجبوری کی حالت ميں غصبی، خالص ریشمی یا زردوزی کا لباس پهننے ميں کوئی حرج نہيں ۔ نيز جو شخص یہ لباس پهننے پر مجبور ہو اور آخر وقت تک پهننے کے لئے اس کے پاس کوئی دوسرا لباس نہ ہو تو وہ ان کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۶ اگر کسی شخص کے پاس غصبی لباس اور مردار کے اجزاء سے بنے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس، آخر وقت تک نہ ہو اور یہ لباس پهننے پر مجبور بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوںکی طرح مسئلہ ” ٨٠٣ “ ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٧ اگر کسی شخص کے پاس حرام گوشت جانور کے اجزاء سے تيار کئے گئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو، چنانچہ اگر وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور ہو تو اس لباس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٨ اگر کسی مرد کے پاس خالص ریشم یا زردوزی کئے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو اور وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٩ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی چيز نہ ہو جس سے وہ اپنی شرمگاہ کو نماز ميں ڈهانپ سکے تو واجب ہے کہ اس کا انتظام کرے، چاہے کرائے پر لے یا خریدے، ليکن اگر اس پر اس کی حيثيت سے زیادہ پيسے خرچ ہوتے ہوں یا اتنا خرچہ اس کے حال کے اعتبار سے نقصان دہ ہو تو اسے لينا ضروری نہيں ہے اور وہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ نقصان برداشت کرے اور شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھے۔

۱۴۱

مسئلہ ٨ ۵ ٠ جس شخص کے پاس لباس نہ ہو، اگر کوئی دوسرا شخص اسے لباس بخش دے یا ادهار دے دے تو اگر اس لباس کا قبول کرنا اس کے لئے حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے قبول کرے، بلکہ اگر اُدهار لينے یا بخشش کے طور پر طلب کرنے ميں اس کے لئے کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اُدهار مانگے یا بخشش کے طور پر طلب کرے۔

مسئلہ ٨ ۵ ١ ایسے لباس کا پهننا جس کا کپڑا، رنگ یا سلائی اسے پهننے والے کے لئے رائج نہ ہو، تو اگر اسے پهننا اس کی توهين، بدنامی یا لوگوں کی جانب سے انگلياں اٹھ انے کا باعث ہو تو اسے پهننا حرام ہے اور اگر ایسے لباس سے نماز ميں شرمگاہ کو چھپا ئے تو بعيد نہيں کہ اس کا حکم، غصبی لباس کا حکم ہوجس کا تذکرہ مسئلہ” ٨٢١ “ ميں کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٢ اگر مرد، زنانہ لباس پهنے یا عورت، مردانہ لباس پهنے اور اسے اپنا لباس قرار دے تو احتياط کی بنا پر اس کا پهننا حرام ہے اور نماز ميں اس لباس کے ساته شرمگاہ ڈهانپنا احتياط کی بنا پر بطلان کا باعث ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٣ جس شخص کے لئے ليٹ کر نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اس کا لحاف حرام گوشت جانور کے اجزا سے بنا ہو تو اس ميں نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر اس کا گدّا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنا ہو جسے خود سے لپيٹ لے یا نجس ہو یا نمازی کے مرد ہونے کی صورت ميں ریشم یا زردوزی کيا ہوا ہو تو احتياط واجب کی بناپر اس ميں نماز نہ پڑھے۔

جن صورتوںميں نمازی کا بدن اور لباس پاک ہونا ضروری نہيں مسئلہ ٨ ۵۴ تين صورتوں ميں ، جن کی تفصيل بعد ميں بيان کی جائے گی، اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے :

١) اس کے بدن کے زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کی وجہ سے اس کے لباس یا بدن پر خون لگ جائے۔

٢) اس کے بدن یا لباس پر درہم کی مقدار سے کم خون لگا ہو۔ درہم کی وہ مقدار جس سے کم مقدار نماز ميں معاف ہے ، تقریباً شهادت والی انگلی کی اُوپر والی پور کے برابر ہے ۔

٣) نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔

اس کے علاوہ ایک اور صورت ميں اگر نمازی کا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ اس کا چھوٹا لباس مثلاً موزہ اور ٹوپی نجس ہو۔

ان چاروں صورتوں کے تفصيلی احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٨ ۵۵ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کا خون ہو، چنانچہ اگر بدن اور لباس کا پاک کرنا یا لباس تبدیل کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے تکليف کا باعث ہو تو جب تک زخم یا جراحت یا پھوڑا ٹھيک نہ ہو جائے اس خون کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر اس کے بدن یا لباس پر ایسی پيپ ہو جو خون کے ساته نکلی ہو یا ایسی دوائی ہوجو زخم پر لگائی گئی ہو اور نجس ہوگئی ہو، اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

۱۴۲

مسئلہ ٨ ۵۶ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر ایسی جراحت یا زخم کا خون ہو جو جلدی ٹھيک ہو جاتا ہو اور اسے پاک کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے آسان ہو اور ایک درہم کی مقدار سے کم بھی نہ ہو اور اس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٧ اگر بدن یا لباس کی ایسی جگہ جو زخم سے کچھ فاصلے پر ہو زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر بدن یا لباس کی وہ جگہ جو عموما زخم کی رطوبت سے آلودہ ہو جاتی ہو اس زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٨ اگر کسی شخص کے بدن یا لباس کو اس بواسير سے جس کے مسّے باہر نہ ہوں یا اس زخم سے جو منہ اور ناک وغيرہ کے اندر ہو خون لگ جائے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ، البتہ اس بواسير کے خون کے ساته نماز پڑھنا بلااشکال جائز ہے جس کے مسّے مقعد کے باہر ہوں۔

مسئلہ ٨ ۵ ٩ جس شخص کے بدن پر زخم ہو اگر وہ اپنے بدن یا لباس پر ایسا خون دیکھے جو ایک درہم یا اس سے زیادہ ہو اور نہ جانتا ہو کہ یہ خون زخم کا ہے یا کوئی اور خون ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٠ اگر کسی شخص کے بدن پر چند زخم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہوں کہ ایک زخم شمار ہوں تو جب تک وہ زخم ٹھيک نہ ہو جائيں ان کے خون کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر وہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہوں کہ ان ميں سے ہر زخم عليحدہ زخم شمار ہو تو جو زخم ٹھيک ہو جائے، اگر اس کا خون ایک درہم سے کم نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے لئے بدن اور لباس کوپاک کرے۔

مسئلہ ٨ ۶ ١ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر سوئی کی نوک کے برابر بھی حيض، کتے، سوّر، کافر غير کتابی، مردار یا حرام گوشت جانور کا خون لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر نفاس اور استحاضہ کے خون کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن کوئی دوسرا خون مثلاً ایسے انسان کا خون جو نجس العين نہيں ہے یا حلال گوشت جانور کا خون، اگرچہ بدن یا لباس کے کئی حصّوں پر لگا ہو اور اس کی مجموعی مقدار ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٢ جو خون بغير استر کے کپڑے پر گرے اور دوسری طرف جاپهنچے وہ ایک خون شمار ہوتا ہے ، ليکن اگر کپڑے کی دوسری طرف الگ خون سے آلودہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کو عليحدہ خون شمار کيا جائے، پس اگر وہ خون جو کپڑے کے سامنے کے رخ اور پچهلی طرف ہے ، مجموعی طور پر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

۱۴۳

مسئلہ ٨ ۶ ٣ اگر استر والے کپڑے پر خون گرے اور اس کے استر تک پهنچ جائے یا استر پر گرے اور کپڑے تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ ہر خون کو الگ شمار کيا جائے، لہٰذا اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۴ اگر بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم خون ہواور کوئی ایسی رطوبت اس سے آلگے جس سے اس کے اطراف آلودہ ہو جائيں تو اس کے ساته نماز باطل ہے ، خواہ خون اور وہ رطوبت ایک درہم کے برابر نہ ہوں، ليکن اگر رطوبت فقط خون سے ملے اور اس کے اطراف کو آلودہ نہ کرے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۵ اگر بدن یا لباس پر خون نہ ہو ليکن رطوبت کے ساته خون سے لگنے کی وجہ سے نجس ہو جائيں تو خواہ نجس ہونے والی مقدار ایک درہم سے کم ہو، اس کے ساته نماز نہيں پڑھی جاسکتی۔

مسئلہ ٨ ۶۶ اگر بدن یا لباس پر جو خون ہو اس کی مقدار ایک درہم سے کم ہو اور کوئی دوسری نجاست اس سے آلگے مثلاً پيشاب کا ایک قطرہ اس پر جاگرے اور وہ بدن یا لباس سے لگ جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٧ اگر نمازی کا چھوٹا لباس مثلاً ٹوپی اور موزہ جس سے شرمگاہ کو نہ ڈهانپا جاسکتا ہو نجس ہو جائے اور نمازی کے لباس ميں دوسرے موانع نہ ہوں مثلاً مردار یا نجس العين یا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے نہ ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے ۔ نيز نجس انگوٹھی کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٨ نجس چيز مثلاً رومال، چابی اور نجس چاقو کا نمازی کے پاس ہونا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٩ اگر بدن یا لباس پر لگے ہوئے خون کے بارے ميں یہ تو معلوم ہوکہ درہم سے کم ہے ليکن یہ احتمال بھی ہو کہ یہ ایسا خون ہے جونماز ميں معاف نہيں ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے اور اسے نماز کے لئے پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧٠ اگربدن یا لباس پر لگا ہوا خون درہم سے کم ہو ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ یہ خون معاف نہيں ہے اور نماز پڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ یہ خون معاف نہيں تھا تو نماز دهرانا ضروری نہيں هے۔ اسی طرح اگر ایک درہم سے کم سمجھتے ہوئے نمازپڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ درہم کے برابر یا اس سے زیادہ تھا تو اس صورت ميں بھی نماز دهرانا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧١ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مستحب ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

تحت الحنک کے ساته عمامہ، عبا، سفيد اور پاکيزہ ترین لباس پهننا، خوشبو کا استعمال کرنا اور عقيق کی انگوٹھی پهننا۔

۱۴۴

نمازی کے لباس ميں مکروہ چيزیں

مسئلہ ٨٧٢ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مکروہ ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

سياہ لباس، ميلا یاتنگ لباس پهننا، شرابی اور نجاست سے پرہيز نہ کرنے والے کا لباس پهننا اور لباس کے بٹن کا کهلا ہونا۔

اور احتياط واجب یہ ہے کہ ایسے لباس یا انگوٹھی کے ساته نماز نہ پڑھے جس پر جاندار کی صورت کا عکس ہو۔

نماز پڑھنے کی جگہ

جس جگہ نماز پڑھی جائے اس کی سات شرائط ہيں :

پهلی شرط

وہ جگہ مباح ہو ۔

مسئلہ ٨٧٣ جو شخص غصبی جگہ ميں نماز پڑھ رہا ہو تو اعضائے سجدہ کی جگہ غصبی ہو نے کی صورت ميں اس کی نمازباطل ہے ، اگر چہ قالين، کمبل یا ان جيسی کسی چيز پر کهڑا ہو۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر تخت یا اس جيسی کسی چيز پر نماز پڑھنے کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن غصبی خيمے اور غصبی چھت کے نيچے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۴ جس ملکيت سے فائدہ اٹھ انا کسی اور کا حق ہے اس ميں صاحبِ حق کی اجازت کے بغير نماز پڑھنا باطل ہے ، مثلاًکرائے کے گھر ميں کرائے دار کی رضایت کے بغير مالک مکان یا کوئی اور شخص نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

اسی طرح اگر ميت نے اپنے مال کا تيسرا حصہ کسی جگہ خرچ کرنے کی وصيت کی ہو تو جب تک ترکہ سے تيسرا حصہ جدا نہ کر ليا جائے مرحوم کی ملک پر نماز نہيں پڑھی جا سکتی ہے ۔

هاں، جس جگہ پر کسی کا کوئی حق ہو اور اس جگہ نماز پڑھنا صاحب حق کے اختيار ميں رکاوٹ کا باعث ہو مثلًا ایسی زمين پر نماز پڑھنا جس پر کسی نے پتّھر چن دئے ہوں، صاحب حق کی اجازت کے بغير باطل ہے جب کہ اس صورت کے علاوہ ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ مثلاًرہن رکھوانے والے کی اجازت سے اس زمين پر نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے جو کسی کے پاس رہن رکھوائی گئی ہو اگرچہ جس کے پاس وہ زمين رہن رکھی گئی ہو اس ميں نماز پڑھنے پرراضی نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧ ۵ اگر کوئی مسجدميں بيٹھے ہوئے کسی شخص کی جگہ غصب کر کے وہاں نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۶ جس جگہ کے غصبی ہونے کا علم نہ ہو اور وہاں نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ سجدہ کرنے کی جگہ غصبی تھی تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۴۵

البتہ اگر کسی جگہ کے غصبی ہونے کو بھول کر نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ ہاں، اگر خود نے کسی جگہ کو غصب کيا ہو اور بھول کر وہاں نمازپڑھے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی تھی تواس کی نماز باطل ہے جب کہ اگر توبہ کر چکا تھا تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٧ ایسی جگہ نماز پڑھنا جهاں اعضائے سجدہ رکھنے کی جگہ غصبی ہو اور جانتا بھی ہو کہ یہ جگہ غصبی ہے ، باطل ہے ۔ اگرچہ اسے نماز کے باطل ہونے کا حکم معلوم نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧٨ جو شخص سواری کی حالت ميں واجب نماز پڑھنے پر مجبور ہو تو اگر سواری کا جانور یا اس کی زین غصبی ہو اور اسی جانور یا زین پر سجدہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ یهی حکم اس جانور پر مستحب نمازپڑھنے کا ہے ۔ ہاں، اگر جانور کی نعل غصبی ہو تو نماز کا باطل ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٩ جو شخص کسی ملکيت ميں دوسرے کے ساته شریک ہو تو جب تک اس کا حصہ جدا نہ ہو جائے اس وقت تک اس ملکيت ميں اپنے شریک کی رضایت کے بغير نہ تصرف کر سکتا ہے نہ نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨٨٠ جس مال کا خمس نہ نکالا ہو اگر عين اسی مال سے ملکيت خریدے تو اس ملکيت ميں تصرف حرام ہے اور نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨١ اگر کوئی شخص اپنی ملکيت ميں نماز پڑھنے کی اجازت دے اور انسان جانتا ہو کہ دل سے راضی نہيں ہے تو اس کی ملکيت ميں نماز باطل ہے اوراگر اجازت نہ دے ليکن انسان کو یقين ہو کہ راضی ہے تو نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٨٢ جس مرنے والے کے ذمہ خمس یا زکات واجب الادا ہو جبکہ اس کا ترکہ خمس یا زکات کی واجب الادا مقدار سے زیادہ نہ ہو تو اس ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کے واجبات ادا کر دئے جائيں یا حاکم شرع کی اجازت سے ضمانت لے لی جائے تو ورثاء

کی اجازت سے ميت کے ترکے ميں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٣ جو مرنے والا لوگوں کا مقروض ہو اور اس کا ترکہ قرض کی مقدار سے زیادہ نہ ہو تو قرض خواہ کی اجازت کے بغير ميت کے ترکے ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کا قرض ادا کرنے کی ضمانت لے لی جائے اور قرض خواہ بھی راضی ہوجائے تو ورثا کی اجازت سے اس ميں تصرف کرنا جائز ہے اور نماز بھی صحيح ہے ۔

۱۴۶

مسئلہ ٨٨ ۴ اگر ميت مقروض نہ ہو ليکن اس کے ورثا ميں سے کوئی نابالغ، دیوانہ یا لاپتہ ہو تو اس کے ترکے ميں اس کے ولی کی اجازت کے بغير تصرف کرنا حرام اورنماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۵ کسی کی ملکيت ميں نماز پڑھنا اس صورت ميں جائز ہے کہ جب انسان کے پاس شرعی دليل ہو یا اسے یقين ہو کہ مالک اس جگہ نماز پڑھنے پر راضی ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب مالک اِس طرح کے تصرف کی اجازت دے کہ جسے عرفی اعتبار سے نمازپڑھنے کی اجازت بھی سمجھا جائے، مثلاًکسی کو اپنی ملکيت ميں بيٹھنے اور ليٹنے کی اجازت دے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے نمازپڑھنے کی اجازت بھی دے دی ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۶ مسئلہ نمبر ” ٢٧٧ “ميں گزری ہوئی تفصيل کے مطابق وسيع اراضی ميں نماز پڑھنے کے لئے مالک کی اجازت ضروری نہيں ہے ۔

دوسری شرط

مسئلہ ٨٨٧ واجب نماز ميں ضروری ہے کہ نمازی کی جگہ اتنی متحرک نہ ہو کہ نمازی کے بدن کے ساکن رہنے اور اختياری حالت ميں پڑھی جانے والی نماز کے افعال کی ادائيگی ميں رکاوٹ بن جائے۔

هاں، اگر وقت تنگ ہونے یا کسی اور وجہ سے کسی ایسی جگہ مثلاًبس، کشتی یا ٹرین وغيرہ ميں نماز پڑھنے پر مجبور ہو جائے تو ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک بدن کے سکون اور قبلے کا خيال رکھے اور اگر یہ سواریاں قبلے کی سمت سے ہٹ جائيں تو خود قبلے کی طرف گهوم جائے۔

مسئلہ ٨٨٨ کهڑی ہوئی بس، کشتی، ٹرین یا ان جيسی چيزوں ميں نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٩ گندم وجوَ کے ڈهير یا ان جيسی کسی اور چيز پر جو بدن کو ساکن نہ رہنے دے، نماز باطل ہے ۔

۱۴۷

تيسری شرط

مسئلہ ٨٩٠ ضروری ہے کہ ایسی جگہ پر نماز پڑھے جهاںنماز مکمل کرنے کا احتمال ہو اور اگر ہوا، بارش، لوگوں کے هجوم یا ان جيسے اسباب کی وجہ سے اطمينان ہو کہ اس جگہ نماز مکمل نہيں کر سکے گا تو اگرچہ اتفاقاً وہاں نماز مکمل کر لے پھر بھی اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٩١ اگر ایسی جگہ نماز پڑھے جهاں ٹہرنا حرام ہے مثلاًایسی چھت کے نيچے جو گرنے ہی والی ہے تو اگرچہ وہ گنهگار ہے ليکن اس کی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٩٢ جس چيز کی توهين حرام ہے اگر اس پر اٹھنا بيٹھنا اس کی توهين کا باعث ہو مثلاًقالين کا وہ حصہ جس پر الله کا نام لکھا ہو، اس پر نمازپڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط کی بنا پر باطل بھی ہے ۔

چوتھی شرط

نماز پڑھنے کی جگہ چھت نيچی ہونے کی وجہ سے اتنی چھوٹی نہ ہو کہ سيدها کهڑا نہ ہو سکے اور اسی طرح مکان کے تنگ ہونے کی وجہ سے جگہ اتنی تنگ نہ ہو کہ رکوع اور سجود انجام نہ دے سکے۔

مسئلہ ٨٩٣ اگر ایسی جگہ نمازپڑھنے پر مجبور ہو جائے جهاں کسی طرح کهڑا نہ ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ کر نماز پڑھے اوراگر رکوع اور سجود کی ادائيگی ممکن نہ ہو تو ان کے لئے سر سے اشارہ کرے۔

مسئلہ ٨٩ ۴ پيغمبراکرم(ص) اور ائمہ اطهار عليهم السلام کی قبورمطہر سے آگے بڑھ کر نماز پڑھنااگر بے حرمتی کا سبب ہو تو حرام اور باطل ہے بلکہ بے حرمتی نہ ہونے کی صورت ميں بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔ ہاں، اگر نماز کے وقت کوئی چيزمثلاًدیوار، اس کے اور قبر کے درميان ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن قبر مطہر پر بنے ہوئے صندوق، ضریح اور اس پر پڑے ہوئے کپڑے کا فاصلہ کافی نہيں ہے ۔

پانچويں شرط

مسئلہ ٨٩ ۵ یہ کہ نمازپڑھنے کی جگہ اگر نجس ہو تو اتنی تر نہ ہو کہ نماز کو باطل کرنے والی نجاست نمازی کے بدن یا لباس تک سرایت کر جائے۔ ہاں، سجدے کے لئے پيشانی رکھنے کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور اگر وہ نجس ہو تو اس کے خشک ہونے کی صورت ميں بھی نماز باطل ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ بالکل نجس نہ ہو۔

۱۴۸

چھٹی شرط

ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت مرداور عورت کے درميان کم ازکم ایک بالشت کا فاصلہ ہو، جب کہ شہر مکہ کے علاوہ کسی بھی مقام پر دس ذراع سے کم کے فاصلے ميں نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٨٩ ۶ اگر عورت مذکورہ فاصلے سے کم فاصلے پر مردکے برابر یا اس سے آگے نماز پڑھے اور دونوں ایک ساته نماز شروع کریں تو ضروری ہے کہ دونوں دوبارہ نماز پڑہيں ۔ اسی طرح اگر ایک نے دوسرے سے پهلے نماز شروع کی ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٨٩٧ اگر ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوئے مرد اور عورت یا مرد سے آگے کهڑی ہوئی عورت اور مرد کے درميان دیوار، پردہ یا کوئی ایسی چيز ہو کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکيں تو دونوں کی نمازميں کوئی حرج نہيں اگر چہ ان کے درميان مذکورہ مقدار سے بھی کم فاصلہ ہو۔

ساتويں شرط

ضروری ہے کہ نمازی کی پيشانی رکھنے کی جگہ، اس کے پاؤں کی انگليوں کے سرے اور بنا بر احتياط واجب گھٹنے رکھنے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں کی مقدار سے زیادہ نيچی یا اونچی نہ ہو اور اس کی تفصيل سجدے کے احکام ميں آئے گی۔

مسئلہ ٨٩٨ نامحرم مرد اور عورت کا ایسی جگہ اکهٹا ؟؟؟هونا جهاں کوئی دوسرا نہ ہو اور نہ ہی آ سکتا ہو جبکہ اس صورت ميں انہيں گناہ ميں مبتلا ہونے کا احتمال ہو، جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ نماز نہ پڑہيں ۔

مسئلہ ٨٩٩ جهاں سِتار یااس جيسی چيزیں بجائی جاتی ہوں وہاں نماز پڑھنے سے نماز باطل نہيں ہوتی ہے ، ليکن ان چيزوں کو سننا حرام ہے ۔ یهی حکم وہاں ٹھ هرنے کا ہے سوائے اس شخص کے لئے جو اس عمل کو روکنے کے لئے وہاں ٹہرا ہو۔

مسئلہ ٩٠٠ اختياری حالت ميں خانہ کعبہ کی چھت پر واجب نماز پڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی واجب نماز نہ پڑھے ليکن مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٠١ خانہ کعبہ کے اندر مستحب نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے بلکہ خانہ کعبہ کے اندر ہر گوشے کے سامنے دو رکعت نمازپڑھنا مستحب ہے ۔

۱۴۹

وہ مقامات جهاں نمازپڑھنا مستحب ہے

مسئلہ ٩٠٢ اسلام کی مقدس شریعت ميں مسجد ميں نماز پڑھنے کی بہت تاکيد کی گئی ہے ۔ تمام مساجد ميں سب سے بہتر مسجدالحرام ہے ۔ اس کے بعد مسجد نبوی صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور پھر مسجدکوفہ کا درجہ ہے ۔ ان کے بعد مسجدبيت المقدس، شہر کی جامع مسجد، محلہ کی مسجداو ر بازار کی مسجد کا درجہ بالترتيب ہے ۔

مسئلہ ٩٠٣ خواتين کے لئے اپنے گھر ميں بلکہ کوٹہر ی اور پيچهے والے کمرے ميں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۴ ائمہ عليهم السلام کے حرم مطہر ميں نماز پڑھنا مستحب ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق حضرت امير المومنين عليہ السلام اورسيد الشهداعليهم السلام کے حرم ميں نماز مسجدسے افضل ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۵ مسجد ميں زیادہ جانا اور جس مسجد ميں نماز ی نہ ہوتے ہوں وہاں جانا مستحب ہے اور مسجد کے پڑوسی کے لئے بغير کسی عذر کے مسجد کے علاوہ کسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۶ انسان کے لئے مستحب ہے کہ مسجد ميں نہ جانے والے کے ساته کھانا نہ کھائے، کاموں ميں اس سے مشورہ نہ لے، اس کا ہمسایہ نہ بنے، اس سے لڑکی نہ لے اور نہ ہی اسے لڑکی دے۔

وہ مقامات جهاں نماز پڑھنا مکروہ ہے

مسئلہ ٩٠٧ چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

١) حمام ميں

٢) نمک زار ميں

٣) انسان کے سامنے

۴) کهلے ہوئے دروازے کے سامنے

۵) سڑک اور گلی کوچوں ميں جب کہ وہاں سے گزرنے والوں کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو اور اگر تکليف کا باعث ہو توحرام ہے ۔

۶) آگ اور چراغ کے سامنے

٧) باورچی خانے ميں اور ہر اس جگہ جهاں آتش دان ہو

٨) کنویں اور پيشاب کے جمع ہونے کی جگہ کے سامنے

٩) جاندار کی تصویر اور مجسمے کے سامنے مگر یہ کہ ان پر پردہ ڈال دیا جائے

۱۵۰

١٠ ) جس کمرے ميں کوئی جنب ہو

١١ ) جهاں جاندار کی تصویر ہو اگرچہ نماز ی کے سامنے نہ ہو

١٢ ) قبر کے سامنے

١٣ ) قبر کے اوپر

١ ۴ ) دو قبروں کے درميان

١ ۵ ) قبرستان ميں

مسئلہ ٩٠٨ لوگوں کی گذر گاہ پر یا کسی کے سامنے نمازپڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اپنے سامنے کوئی چيز رکھے جو اگر لکڑی یا رسی بھی ہو تو کافی ہے ۔

مسجد کے احکام

مسئلہ ٩٠٩ مسجد کی زمين، چھت کا اندرونی اور اوپری حصہ اور مسجد کی دیوار کا اندر والا حصہ نجس کرنا حرام ہے اور جس شخص کو بھی اس کے نجس ہونے کا علم ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کو فوراً پاک کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسجد کی دیوار کا باہر والا حصہ بھی نجس نہ کرے اور اگر نجس ہو جائے تو نجاست کودور کرے۔

مسئلہ ٩١٠ اگر مسجد پاک نہ کرسکتا ہو یا پاک کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہو اور کوئی مددگار نہ ملے تو اس پر مسجد پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن جو شخص مسجد کو پاک کر سکتا ہو اور احتمال ہو کہ وہ مسجد کوپاک کر دے گاتو اس کو اطلاع دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩١١ اگر مسجد کی کوئی ایسی جگہ نجس ہو جائے جسے کهودے یا توڑے بغير پاک کرنا ممکن نہ ہو تو اگر اس کی توڑ پهوڑ مکمل اور وقف کو نقصان پهنچانے والی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس جگہ کو کهودا یا توڑا جائے۔ اور کهودی ہوئی جگہ کو پرُ کرنا او ر توڑی ہوئی جگہ کو دوبارہ بنانا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر مسجد کی اینٹ جيسی کوئی چيز نجس ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اسے پاک کر کے پرانی جگہ پر لگا دیا جائے۔

مسئلہ ٩١٢ اگر مسجد غصب کر کے اس پر گھر یا گھر جيسی عمارت بنالی جائے تو بنا بر احتياط اسے نجس کرنا حرام ہے اور پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن ٹوٹی ہوئی مسجد کو نجس کرنا اگرچہ اس ميں کوئی نمازنہ پڑھتا ہو، جائز نہيں ہے اور پاک کرنا ضروری ہے

مسئلہ ٩١٣ ائمہ عليهم السلام کے روضوں کو نجس کرنا حرام ہے اور نجس ہونے کے بعد اگر نجس چھوڑنے سے بے احترامی ہوتی ہو تو انہيں پاک کر نا واجب ہے ۔ بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تو بھی احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کرے۔

۱۵۱

مسئلہ ٩١ ۴ مسجد کی چٹائی نجس کرنا حرام ہے اور نجس کرنے والے کے لئے احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور باقی افراد کے لےے احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کریں، ليکن اگر چٹائی کا نجس رہنا مسجد کی بے احترامی ہوتو ضروری ہے کہ اسے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ٩١ ۵ اگر بے احترامی ہوتی ہوتو مسجدميں کسی عين نجس یا نجس شدہ چيز کو لے جاناحرام ہے ، بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تب بھی احتياط مستحب ہے کہ عين نجس کو مسجد ميں نہ لے جائے۔

مسئلہ ٩١ ۶ مسجد ميں مجالس کے ليے شاميانہ لگانے، فرش بچهانے، سياہ چيزیں آویزاں کرنے اور چائے کا سامان لے جانے ميں جبکہ مسجد کو نقصان نہ پهنچے اور نماز پڑھنے ميں کسی رکاوٹ کا باعث نہ بنے، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩١٧ احتياط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے اور انسان اور جاندار کے نقش سے مزین کر نا جائز نہيں ہے اور بيل بوٹوں جيسی بے جان چيزوں سے مزین کر نا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩١٨ اگر مسجد ٹوٹ جائے تو بھی نہ اسے فروخت کيا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکيت یا سڑک ميں شامل کيا جا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٩١٩ مسجد کے دروازے، کهڑکيا ں اور دوسری چيزوں کو فروخت کرنا حرام ہے اور اگر مسجد ٹوٹ جائے تو ضروری ہے کہ ان چيزوں کواس مسجد کی تعمير ميں استعمال کيا جائے اور جو چيزیں اس مسجد کے کام کی نہ ہوںانہيں دوسری مسجد ميں استعمال کيا جائے، ليکن اگر کسی بھی مسجد کے کام نہ آئيں تو جو چيزیں مسجد کا جزء شمار نہ ہوتی ہوں اور مسجد کے لئے وقف کی گئی ہو ں انہيں حاکم شرع کی اجازت سے فروخت کيا جاسکتا ہے اور اگر ممکن ہو تو ان کی قيمت بھی اسی مسجد، ورنہ کسی اور مسجد کی تعمير ميں خرچ کی جائے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تواسے دوسرے نيک کاموں ميں خرچ کيا جائے۔

مسئلہ ٩٢٠ مسجد کی تعمير اورمرمت مستحب ہے اور اگر ٹوٹی ہوئی مسجد کی مرمت ممکن نہ ہو تو اسے توڑکر دوبارہ بنایا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ضرورت ہو تونماز کی گنجائش بڑھانے کے لئے اس مسجد کوبهی جو نہ ٹوٹی ہو، توڑ کر دوبارہ بنایا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ٩٢١ مسجدکو صاف کرنا اور اس ميں چراغ روشن کرنا مستحب ہے اور مسجد جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ خوشبو لگائے، پاکيزہ اور قيمتی لباس پهنے، اپنے جوتو ںکو دیکھ لے کہ اس کہ نيچے والے حصے ميں نجاست تو نہيں ہے ، مسجد ميں داخل ہوتے وقت پهلے سيدها پاؤں اور باہر نکلتے وقت پهلے الٹا پاؤں اٹھ ائے اور مستحب ہے کہ سب سے پهلے مسجد ميں آئے اور سب سے آخر ميں باہر جائے۔

مسئلہ ٩٢٢ جب انسان مسجد ميں جائے تو مستحب ہے کہ دو رکعت نمازتحيت، مسجد کے احترام ميں پڑھے اور اگر واجب یا کوئی مستحب نماز بھی پڑھ لے تو کافی ہے ۔

۱۵۲

مسئلہ ٩٢٣ مسجد ميں بغير کسی مجبوری کے سونا، دنياوی امور کے بارے ميں گفتگو کرنا، کسی دستکاری ميں مشغول رہنا اور ایسے شعر پڑھنا جس ميں نصيحت اور اس جيسی چيز نہ ہو مکروہ ہے ۔

اسی طرح مسجد ميں تهوکنا، ناک کی غلاظت وبلغم پھينکنا، کسی کهوئے ہوئے کو ڈهونڈنا اور اپنی آواز بلند کرنا بھی مکروہ ہے ليکن اذان کے لئے آواز بلند کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٢ ۴ بچوں اور دیوانوں کو مسجد ميں آنے دینا مکروہ ہے اور پياز یا لهسن جيسی چيز کھائے ہوئے شخص کے لئے کہ جس کے منہ کی بو سے لوگوں کو اذیت ہوتی ہو، مسجدميں جانا مکروہ ہے ۔

اذان اور اقامت

مسئلہ ٩٢ ۵ مرد اور عورت کے لئے مستحب ہے کہ واجب یوميہ نمازوں سے پهلے اذان اور اقامت کہيں جب کہ یوميہ نمازوں کے علاوہ دوسری واجب نمازوں اور مستحب نمازوں کے لئے جائز نہيں ہے ، ليکن جب عيد فطر یا عيد قربان کی نماز جماعت سے پڑھی جا رہی ہو تو مستحب ہے کہ تين مرتبہ الصلاة کہہ کر پکارا جائے اور ان دو نمازوں کے علاوہ کسی نماز مثلًانماز آیات ميں اگر جماعت سے پڑھی جائے تو رجاء کها جائے۔

مسئلہ ٩٢ ۶ مستحب ہے کہ نومولود کے دائيں کان ميں اذان اور بائيں کان ميں اقامت کهے اوریہ ولادت کے پهلے روز بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٢٧ اذان کے اٹھ ارہ جملے ہيں :

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ چار مرتبہا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ دومرتبہلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه دو مرتبہ اور اقامت کے سترہ جملے ہيں :

یعنی اول سے دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ اور آخر سے ایک مرتبہلاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه کم ہو جائيں گے اورحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ کے بعد ضروری ہے کہ دو مرتبہقَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ کا اضافہ کرے۔

مسئلہ ٩٢٨ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ عَلِيًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ اذان واقامت کا جز نہيں ہے ليکن چونکہ حضرت علی عليہ السلا م کی ولایت دین کی تکميل کرتی ہے لہٰذا اس کی گواہی ہر مقام پر او را شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰه کے جملے کے بعد خدا سے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے ۔

۱۵۳

اذان اور اقامت کا ترجمہ

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ الله توصيف کئے جانے سے بالا تر ہےا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہےا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ محمدبن عبد الله(ص) الله کے رسول ہيںحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ نماز کے لئے جلدی کرو حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ کاميابی کی طرف جلدی کروحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ بہترین کام کی طرف جلدی کرو قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ یقينانماز قائم ہو گئیلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہے مسئلہ ٩٢٩ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے جملوں کے درميان زیادہ فاصلہ نہ دے اور اگر ان کے درميان معمول سے زیادہ فاصلہ کر دے تو ضروری ہے کہ شروع سے کهے۔

مسئلہ ٩٣٠ اگر اذان اور اقامت کہتے وقت آواز کو گلے ميں گهمائے تو اگر یہ غنا اور گلوکاری ہو جائے یعنی لهو ولعب کی محفلوں سے مخصوص گانے کے انداز ميں اذان اور اقامت کهے تو حرام ہے اور اگر غنا اور گلوکاری نہ ہو تو مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٣١ دو نماز وں ميں اذان جائزنہيں ہے :

١) ميدان عرفات ميں روز عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کے دن، نماز عصر ميں ۔

٢) شب بقر عيد کی نماز عشا ميں اس شخص کے لئے جو مشعر الحرام ميں ہو۔

یہ دو اذانيں اس صورت ميں جائز نہيں ہيں جب ان ميں سے پهلے پڑھی ہوئی نمازميں فاصلہ بالکل نہ ہو یا اتنا کم فاصلہ ہو کہ عرفاً یہ کها جائے کہ دو نمازیں ساته ميں پڑھی ہيں ۔

مسئلہ ٩٣٢ اگر نمازجماعت کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہو تو اس جماعت کے ساته نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت نہ کهے۔

مسئلہ ٩٣٣ اگر نماز جماعت پڑھنے مسجد ميں جائے اور دیکھے کہ نماز ختم ہو چکی ہے ليکن صفيں ابهی تک نہ بگڑی ہوں اور لوگ بھی متفرق نہ ہوئے ہوں توآنے والے مسئلے ميں بيان شدہ شرائط کے ساته اپنے لئے اذان اور اقامت نہيں کہہ سکتا۔

مسئلہ ٩٣ ۴ جهاں جماعت ہو رہی ہو یا جماعت مکمل ہوئے زیادہ وقت نہ گزرا ہو اور صفيں نہ بگڑی ہوں اگر کوئی وہاں فرادیٰ یا باجماعت نماز پڑھنا چاہے تو چھ شرائط کے ساته اس سے اذان اور اقامت ساقط ہو جائے گی (اور یہ سقوط، عزیمت کے عنوان سے ہے یعنی اذان اور اقامت جائز نہيں ہے :

١) جماعت مسجد ميں ہو پس اگر مسجد ميں نہ ہو تو اذان اور اقامت ساقط نہيں ہوگی۔

٢) اس نماز کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہوں۔

۱۵۴

٣) جماعت باطل نہ ہو۔

۴) جماعت اور اس شخص کی نماز ایک ہی جگہ پر ہو، لہٰذا اگر مثال کے طور پر جماعت مسجد کے اندر ہو اور وہ چھت پر نماز پڑھنا چاہے تو اس سے اذان اور اقامت ساقط نہ ہونگی۔

۵) نماز جماعت اور ا س کی نمازدونوں ادا ہوں۔

۶) نمازجماعت اور اس شخص کی نمازکا وقت مشترک ہو۔ مثلا دونوں نماز یں ظہر ہو ں یا عصر ہوں یا نماز جماعت ظہر ہو اور وہ نماز عصر پڑھے یا اسے نمازظہر پڑھنی ہو اور جماعت عصر ہو۔

مسئلہ ٩٣ ۵ اگر گذشتہ مسئلے کی تيسری شرط ميں شک کرے یعنی شک کرے کہ نمازجماعت صحيح تھی یا نہيں تو اس سے اذان واقامت ساقط ہے ليکن اگر صفوں کے بگڑنے یا دوسری شرائط کے حاصل ہونے ميں شک کرے تو اگر سابقہ حالت معلوم ہو تو اسی حالت کے مطابق عمل کرے مثلاًاگر رات کی تاریکی ميں شک کرے کہ صفيں بگڑی ہيں یا نہيں تو سمجھے کہ صفيں اپنی حالت پر باقی ہيں اور اذان اور اقامت نہ کهے اور اگر شک کرے کہ اس جماعت کے لئے اذان واقامت کهی گئی ہے یا نہيں تو سمجھے کہ نہيں کهی گئی ہے اور اذان واقامت مستحب کی نيت سے کهے اور اگر حالت سابقہ معلوم نہ ہوتو رجاء اذان واقامت کهے۔

مسئلہ ٩٣ ۶ دوسرے کی اذان کی آوازسننے والے کے لئے ہر سنے ہوئے جملے کو دهرانا مستحب ہے او راقامت سننے والا حی علی الصلاةسے قد قامت الصلاة تک کے جملے کو رجاء دهرائے اور باقی جملات کو ذکر کی نيت سے کهنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٣٧ جس نے دوسرے کی اذان و اقامت سنی ہو اور نمازپڑھنا چاہے تو اگر دوسرے کی اذان واقامت اور اس کی نماز کے درميان زیادہ فاصلہ نہ ہو تو یہ شخص اذان واقامت کو ترک کر سکتا ہے چاہے اس نے دوسرے کی اذان واقامت کے ساته تکرار کی ہو یا نہ کی ہو۔

مسئلہ ٩٣٨ اگر مردکسی عورت کی اذان سنے تو اس سے اذان ساقط نہيں ہوتی چاہے اس نے لذت کے قصد سے سنی ہو یا قصدِلذت کے بغير سنی ہو۔

مسئلہ ٩٣٩ نماز جماعت کی اذان واقامت کهنے والے کے لئے ضروری ہے مرد ہو، ليکن خواتين کی نماز جماعت ميں کسی عورت کا اذان واقامت کهنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٠ ضروری ہے کہ اقامت، اذان کے بعد ہو اور اگر اذان سے پهلے کهے تو صحيح نہيں ہے اور اقامت ميں کھڑے ہو کر کهنا اور( وضو، غسل یا تيمم کے ذریعے) باطهارت ہونا بھی شرط ہے ۔

۱۵۵

مسئلہ ٩ ۴ ١ اگر اذان واقامت کے جملات ترتيب بدل کر کهے مثلاًحی علی الفلاح کو حی علی الصلاة سے پهلے کهے تو ضروری ہے کہ جهاں سے ترتيب بگڑی ہے وہيں سے دوبارہ کهے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٢ ضروری ہے کہ اذان واقامت کے درميان فاصلہ نہ دے اور اگر اتنا فاصلہ دے کہ کهی ہوئی اذان کو اس اقامت کی اذان نہ کها جا سکے تو دوبارہ اذان واقامت کهنا مستحب ہے اور اگر اذان واقامت کے بعد نمازميں اتنا فاصلہ دے دے کہ یہ دونوں اس نماز کی اذان واقامت نہ کهی جا سکيں تو بھی اس نمازکے لےے اذان واقامت کو دهرانا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٣ ضروری ہے کہ اذان واقامت صحيح عربی ميں کهی جائيں، لہٰذا اگر غلط عربی ميں کهے یا ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف ادا کرے یا مثلاًاردو زبان ميں ترجمہ کهے تو صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۴ ضروری ہے کہ اذان واقامت وقت داخل ہونے کے بعد کهے، لہٰذا اگر عمداًیا بھول کر وقت سے پهلے کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۵ اگر اقامت کهنے سے پهلے شک کرے کہ اذان کهی یا نہيں تو اذان کهے ليکن اگر اقامت شروع کرنے کے بعد اذان کے بارے ميں شک کرے تو اذان کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۶ اگر اذان اور اقامت کے دوران کوئی جملہ کهنے سے پهلے شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها یا نہيں تو جس جملے کے بارے ميں شک ہو اسے کهے ليکن اگر کوئی جملہ کہتے وقت شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها ہے یا نہيں تو اسے کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٧ اذان کہتے وقت مستحب ہے :

اذان دینے والا قبلہ رخ ہو بالخصوص اذان ميں شهادت کے جملے ادا کرتے وقت اس کی زیادہ تاکيد ہے ، وضو یا غسل کيا ہوا ہو،دو انگلياں دونوں کانوں ميں رکھے، اونچی آواز سے اذان دے اور اسے کھينچے، اذان کے جملات کے درميان تهوڑا سا فاصلہ دے اور اذا ن کے جملات کے دوران بات نہ کرے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ اقامت کہتے وقت اس کا بدن ساکن ہو اور اسے اذان کے مقابلے ميں آهستہ آواز ميں کهے اور اس کے جملوں کو ایک دوسرے سے نہ ملائے، ليکن اقامت کے جملوں کے درميان اتنا فاصلہ نہ دے جتنا اذان کے جملوں کے درميا ن دیتا ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٩ مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کے درميان تهوڑی دیر کے لئے بيٹھ کر یا دو رکعت نماز پڑ ه کر یا بات کرے یا تسبيح پڑھ کر فاصلہ دے۔ليکن نمازصبح کی اذان اور اقامت کے درميا ن بات چيت کرنا مکروہ ہے ۔

۱۵۶

مسئلہ ٩ ۵ ٠ مستحب ہے کہ جس شخص کو اطلاعی اذان دینے پر معين کياجائے وہ عادل وو قت شناس ہو،اس کی آواز بلند ہو اوراونچی جگہ پر اذان دے۔

واجباتِ نماز

واجباتِ نماز گيارہ ہيں :

١)نيت

٢)قيا م یعنی کهڑا ہونا

٣)تکبيرةالاحرام یعنی نماز کی ابتدا ميں الله اکبر کهنا

۴) رکوع

۵) سجود

۶) قرائت

٧)ذکر

٨)تشهد

٩)سلام

١٠ )ترتيب

١١ )موالات یعنی اجزائے نماز کا پے در پے بجا لانا

مسئلہ ٩ ۵ ١ واجباتِ نماز ميں سے بعض رکن ہيں یعنی اگر انسان انہيں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا جان بوجه کر ہو یا غلطی سے،نماز باطل ہو جاتی ہے ۔جب کہ باقی واجبا ت رکن نہيں ہيں یعنی اگر وہ غلطی کی بنا پر چھوٹ جایئں تو نماز باطل نہيں ہوتی۔

نماز کے واجباتِ رکنی پانچ ہيں :

١) نيت

٢) تکبيرة الاحرام

٣)قيام متصل بہ رکوع،یعنی رکوع ميں جانے سے پهلے کا قيام

۴) رکوع

۱۵۷

۵) ہر رکعت کے دو سجدے اور جهاں تک واجبات نماز کو زیادہ کرنے کا تعلق ہے تو اگر زیادتی عمداہو تو بغيرکسی شرط کے نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر جاہل قاصر جان بوجه کر تکبيرة الاحرام کو زیادہ کرے تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے اور اگر زیادتی غلطی سے ہوئی ہو تو چنانچہ زیادتی رکوع کی ہو یا ایک ہی رکعت کے دو سجدوں کی ہو تو نماز باطل ہے ورنہ باطل نہيں ۔

نيت

مسئلہ ٩ ۵ ٢ ضروری ہے کہ انسان نماز کو قربت کی نيت سے جيسا کہ وضو کے مسائل ميں بيان ہو چکا ہے اور اخلاص کے ساته بجا لائے۔ اور نيت کو اپنے دل سے گزارنا یا اپنی زبان پر جاری کرنا،مثلاً یہ کهنا:”چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں خداوندمتعال کے حکم کی بجا آوری کے لئے “،ضروری نہيں بلکہ نماز احتياط ميں نيت کو زبان سے ادا کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٣ اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نماز ميں نيت کرے کہ چار رکعت نماز پڑھتا ہوں اور معين نہ کرے کہ ظہر ہے یا عصر،نہ اجمالی طور پر اور نہ ہی تفصيلی طور پر تو ا س کی نماز باطل ہے ۔

اجمالی نيت سے مراد یہ ہے کہ مثلاًنمازِ ظہر کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے مجھ پر واجب ہوئی ہے اس کو انجام دے رہا ہوں یا مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر نماز ظہر کی قضا واجب ہے اور وہ ظہر کے وقت ميں اس قضا نماز یا ظہر کی ادا نمازکوپڑھناچاہے توضروری ہے کہ جو نماز پڑھے اسے اجمالاہی سهی نيت ميں معين کرے مثلاًنمازِ ظہر کی قضا کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے ميری ذمہ داری ہے اسے انجام دے رہا ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۴ ضروری ہے کہ انسان شروع سے آخر تک نماز کی نيت پر قائم رہے،پس اگر وہ نماز ميں اس طرح غافل ہو جائے کہ اگر کوئی پوچهے کہ وہ کيا کر رہا ہے اور ا س کی سمجھ ميں نہ آئے کہ وہ کيا جواب دے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵۵ ضروری ہے کہ انسان صرف خدا کے لئے نماز پڑھے،لہٰذا جو شخص ریا کرے یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے اس کی نماز باطل ہے خواہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے ہو یا خدا اور لوگ دونو ں اس کی نظر ميں ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۶ اگر کوئی شخص نماز کا کچھ حصہ بھی خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ،بلکہ اگر نماز تو خدا کے لئے پڑھے ليکن لوگوں کو دکھانے کے لئے کسی خاص جگہ مثلاًمسجد ميں پڑھے یا کسی خاص وقت مثلاًاول وقت ميں پڑھے یا کسی خاص طریقے سے مثلاًباجماعت پ-ڑھے تب بھی اس کی نماز باطل ہے اور احتياط واجب کی بنا پروہ مستحبات، مثلاًقنوت بھی کہ جن کے لئے نماز ظرف کی حيثيت رکھتی ہے ،اگر خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۵۸

تکبيرةالاحرام

مسئلہ ٩ ۵ ٧ ہر نماز کی ابتدا ميں ”اللّٰہ اکبر“ کهنا واجب اور رکن ہے اور ضروری ہے کہ انسان لفظ” اللّٰہ“ اور لفظ”اکبر“ کے حروف اور” اللّٰہ اکبر“ کے دو لفظ پے درپے کهے۔یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دو لفظ صحيح عربی ميں کهے جائيںاور اگر کوئی شخص غلط عربی ميں کهے یا اس کا ترجمہ زبان پر جاری کرے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٨ احتياط واجب یہ ہے کہ انسان نماز کی تکبيرة الاحرام کو اس سے پهلے پڑھی جانے والی چيز مثلاًاقامت یا تکبير سے پهلے پ-ڑھی جانے والی دعا سے نہ ملائے۔

مسئلہ ٩ ۵ ٩ احتياط مستحب یہ ہے کہ انسان اللّٰہ اکبر کو اس کے بعد پڑھی جانے والی چيز مثلاًبِسم اللّٰہ الرَّحمنِ الَّرحيم سے نہ ملائے ليکن اگر ملا کر پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اکبر کے ’را‘ پر پيش دے(یعنی اکبرُپڑھے)۔

مسئلہ ٩ ۶ ٠ تکبيرةالاحرام کہتے وقت ضروری ہے کہ انسان کا بدن ساکن ہو اور اگر جان بوجه کر اس حالت ميں کہ جب بدن حرکت ميں ہو تکبيرة الاحرام کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ١ ضروری ہے کہ تکبير،الحمد،سورہ،ذکر اور دعا اتنی آواز سے پڑھے کہ خود سن سکے اور اگر ا ونچا سننے، بهرہ ہونے یا شوروغل کی وجہ سے نہ سن سکے تو ضروری ہے کہ اس طرح کهے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تو سن ليتا۔

مسئلہ ٩ ۶ ٢ اگر کوئی شخص گونگا ہو، یا زبان ميں کوئی ایسی بيماری ہو کہ جس کی وجہ سے صحيح طریقے سے”اللّٰہ اکبر“ نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح بھی کہہ سکتا ہو کهے اور اگر بالکل نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل ميں پڑھے، تکبير کے لئے اپنی زبان کو حرکت دے اور انگلی سے اشارہ بھی کرے۔

مسئلہ ٩ ۶ ٣ انسان کے لئے مستحب ہے کہ تکبيرة الاحرام کهنے سے پهلے یہ کهے :

یَا مُحْسِنُ قَدْ اَتَاکَ الْمُسِیْءُ وَ قَدْ اَمَرْتَ الْمُحْسِنَ اَنْ یَتَجَاوَزَ عَنِ الْمُسِیْءِ اَنْتَ الْمُحْسِنُ وَ اَنَا الْمُسِیْءُ فَبِحَق مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ تَجَاوَزْ عَنْ قَبِيْحِ مَا تَعْلَمُ مِنِّی ۔

ترجمہ :اے اپنے بندوں پر احسان کرنے والے خد ا! بندہ گنهگار تير ی بارگاہ ميں آیا ہے اور تو نے نيک لوگوں کو گنهگاروں سے در گزرکرنے کا حکم دیا ہے ۔تو احسان کرنے والا اور ميں نافرمان ہوں، لہٰذا محمد و آلِ محمد کے حق کا واسطہ، اپنی رحمت محمدوآلِ محمدپرنازل کر اور مجھ سے سر زد ہونے والی برائيوں سے جنہيں تو جانتا ہے در گزر فرما۔

مسئلہ ٩ ۶۴ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز کی پهلی تکبيراور دوران نماز دوسری تکبيریں کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرے۔

۱۵۹

مسئلہ ٩ ۶۵ اگر کوئی شک کرے کہ تکبيرة الاحرام کهی ہے یا نہيں تو اگر وہ قرائت کی کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکاہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ابهی کوئی چيز شروع نہيں کی تو تکبيرة الاحرام کهنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶۶ اگر تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد شک کرے کہ اسے صحيح ادا کيا یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے خواہ وہ کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز مکمل کرنے کے بعد اسے دهرائے۔

قيام(کھڑا ہونا )

مسئلہ ٩ ۶ ٧ تکبيرةالاحرام کہتے وقت قيا م اور رکوع سے پهلے والا قيام جسے”قيام متصل بہ رکوع “کها جاتا ہے رکن ہيں ، ليکن ان دو کے علاوہ مثلاًحمد وسورہ پڑھتے وقت قيام اور رکوع کے بعد کا قيام رکن نہيں ہے ،لہذ ا اگر کوئی شخص بھولے سے اسے تر ک کر دے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٨ تکبيرةالاحرام کهنے سے پهلے اور اس کے بعد تهوڑی دیر کے لئے کهڑا ہونا واجب ہے تاکہ یقين ہو جائے کہ تکبيرة الاحرام قيام کی حالت ميں کهی گئی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٩ اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے اور الحمد وسورہ کے بعد بيٹھ جائے اور پھر اسے یاد آئے کہ رکوع نہيں کيا تو ضروری ہے کہ کهڑ اہو جائے اور رکوع ميں جائے اور اگر سيدها کهڑا ہوئے بغير جھکے ہونے کی حالت ميں ہی رکوع کی طرف پلٹ آئے تو چونکہ قيام متصل بہ رکوع بجا نہيں لایا، اس لئے اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩٧٠ جب ایک شخص تکبيرةالاحرام یا قرائت کے لئے کهڑ ا ہو تو ضروری ہے کہ بدن کو حرکت نہ دے، کسی طرف نہ جھکے اور احتياط واجب کی بنا پر اختيار کی حالت ميں کسی جگہ ٹيک نہ لگائے، ليکن اگر مجبوری ہو یا رکوع کے لئے جھکتے ہو ئے پاؤں کو حرکت دے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧١ اگر اس قيام کی حالت ميں کہ جو تکبيرة الاحرام یا قرائت کے وقت واجب ہے کوئی شخص بھولے سے بدن کو حرکت دے یا کسی طرف جھک جائے یا کسی جگہ ٹيک لگائے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٢ احتياط واجب یہ ہے کہ قيام کی حالت ميں انسان کے دونوں پاؤںزمين پر ہوں ليکن یہ ضروری نہيں کہ بدن کا بوجه بھی دونوں پاؤں پر ہو لہذ ا اگر ایک پاؤں پر بھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٣ جو شخص ٹھيک طور پر کهڑا ہو سکتا ہو اگر وہ اپنے پاؤں اتنے کهلے رکھے کہ اسے کهڑا ہونا نہ کها جا سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر معمول کے خلاف کهڑا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511