توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207676 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

مسئلہ ٩٧ ۴ جب انسان نماز ميں کوئی واجب ذکر پڑھنے ميں مشغول ہو تو ضروری ہے کہ اس کا بدن ساکن ہو اور جب وہ قدرے آگے یا پيچهے ہونا چاہے تو ضروری ہے کہ اس وقت کچھ نہ پڑ ہے ۔

مسئلہ ٩٧ ۵ اگر بدن کے حرکت کی حالت ميں کوئی شخص مستحب ذکر پڑھے تو ذکر و نماز دونوں صحيح ہيں ، ليکن اگر مستحب ذکر کو اس نيت سے پڑھے کہ یہ ذکر نماز کے لئے وارد ہوئے ہيں تو احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ بدن ساکن ہو، البتہ اگر بدن ساکن نہ ہو تو اس کی نماز بهرحال صحيح ہے ۔ ها ں، ضروری ہے کہ بِحَوْلِ اللّٰہِ وَقُوَّتِہ اَقُوْمُ وَ اَقْعُدُ اس وقت کهے جب کهڑ اہو رہا ہو۔

مسئلہ ٩٧ ۶ قرائت اور واجب اذکار کے وقت ہاتھوں اور انگليوں کو حرکت دینے ميں کوئی حرج نہيں اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کو بھی حرکت نہ دے۔

مسئلہ ٩٧٧ اگر کوئی شخص الحمد وسورہ یا تسبيحات اربعہ پڑھتے وقت بے اختيار اتنی حرکت کرے کہ بدن ساکن ہونے کی حالت سے نکل جائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ بدن کے دوبارہ ساکن ہونے کے بعد حرکت کی حالت ميں پڑھا جانے والا ذکر دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٩٧٨ نماز کے د وران جس شخص کے لئے کهڑا رہنا ممکن نہ رہے اگر اس کی مجبوری نماز کا وقت ختم ہونے تک باقی نہ رہے تو ضروری ہے کہ قدرت کی حالت ميں کھڑے ہوکر نماز پڑھے،ليکن اگر نماز کا وقت ختم ہونے تک اس کے لئے کهڑاہونا ممکن نہ ہو سکے تو ضروری ہے کہ باقی نماز کو بيٹھ کر پڑھے۔ اسی طرح اگر بيٹھنا بھی ممکن نہ رہے تو ليٹ کر پڑھے ليکن جب تک اس کا بدن ساکن نہ ہو جائے ضروری ہے کہ قرائت اور واجب اذکار نہ پڑھے۔نيزاس مسئلے ميں اور آئندہ آنے والے مسائل ميں مستحب اذکار کا حکم(وهی ہے جو)مسئلہ نمبر” ٩٧ ۵ “ ميں بيان ہو چکاہے۔

مسئلہ ٩٧٩ جب تک انسان کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکتا ہو ضروری ہے کہ نہ بيٹھے، مثلاًاگر کھڑے ہونے کی حالت ميں کسی کا بدن هلتا ہو یا اسے کسی چيز پر ٹيک لگانا پڑے یا اپنے بدن کو ٹيڑھا کرنے یا جھکانے یا پاؤں زیادہ کھولنے پر مجبور ہو جب کہ ان(آخری) تين صورتوں ميں اسے کهڑا ہونا کها جاسکے تو ضروری ہے کہ جيسے بھی ہو سکے کھڑے ہو کر نماز پڑھے، ليکن اگر وہ کسی طرح بھی کهڑا نہ ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ سيدها بيٹھ جائے اور بيٹھ کر نماز پڑھے۔

مسئلہ ٩٨٠ جب تک انسان بيٹھ سکتا ہو ضروری ہے کہ ليٹ کر نماز نہ پڑ ہے اور اگر وہ سيدها نہ بيٹھ سکے تو ضروری ہے کہ جيسے بھی ممکن ہو بيٹھے اور اگر بالکل نہ بيٹھ سکے تو ضروری ہے کہ قبلے کے احکام ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق دائيں پهلو ليٹے اوراگر دائيںپهلو نہ ليٹ سکتا ہو تو بائيں پهلو ليٹے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پشت کے بل اس طرح ليٹے کے اس کے تلوے قبلے کی طرف ہوں۔

۱۶۱

مسئلہ ٩٨١ جو شخص بيٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر وہ الحمد و سورہ یا تسبيحات اربعہ پڑھنے کے بعد کهڑا ہونے کے قابل ہو جائے اور رکوع کهڑا ہو کر بجا لاسکے تو ضروری ہے کہ کهڑا ہو جائے اور قيام کی حالت سے رکوع ميں جائے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ رکوع بھی بيٹھ کر بجا لائے۔

مسئلہ ٩٨٢ جو شخص ليٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر وہ اس قابل ہو جائے کہ بيٹھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز کی جتنی مقدار ممکن ہو بيٹھ کر پڑھے اور اگر کهڑا ہو سکے تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار ممکن ہو کهڑا ہو کر پڑھے ليکن جب تک اس کا بدن ساکن نہ ہو جائے ضروری ہے کہ قرائت اور واجب ذکر نہ پڑھے۔

مسئلہ ٩٨٣ جو شخص بيٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر نماز کے دوران اس قابل ہو جائے کہ کهڑا ہو سکے تو ضروری ہے کہ نماز کی جتنی مقدار ممکن ہو کهڑا ہو کر پڑھے ليکن جب تک اس کا بدن ساکن نہ ہو جائے ضروری ہے کہ قرائت اور واجب ذکر نہ پڑھے۔

مسئلہ ٩٨ ۴ اگر کسی ایسے شخص کو جو کهڑ اہو سکتاہو یہ خوف ہو کہ کهڑا ہونے سے بيمار ہو جائے گا یا اسے کوئی ضرر پهنچے گا تو وہ بيٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر بيٹھنے سے بھی خوف ہو تو ليٹ کر نماز پڑ ه سکتا ہے ۔

مسئلہ ٩٨ ۵ جس شخص کو یہ احتمال ہو کہ آخر وقت ميں کهڑا ہو کر نماز پڑھ سکے گا اس کے لئے بہتر ہے کہ نماز پڑھنے ميں تاخير کرے،پس اگر وہ آخر وقت تک کهڑا ہونے پر قادر نہ ہو سکے تو اپنے وظيفے کے مطابق نماز بجالائے۔اسی طرح وہ شخص بھی جو اوّل وقت ميں پهلو کے بل یا ليٹ کر نماز پڑ ه سکتا ہو بہتر ہے کہ نماز پڑھنے ميں تاخير کرے اور آخر وقت ميں اپنے وظيفے کے مطابق نماز بجا لائے اور اس صورت ميں کہ اس نے اول وقت ميں نماز پڑھ لی ہو اور آخر وقت ميں کهڑا ہونے یا بيٹھنے پر قادر ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ اپنی قدرت کے مطابق بجالائے۔

مسئلہ ٩٨ ۶ انسان کے لئے مستحب ہے کہ قيام کی حالت ميں ریڑھ اور گردن کی ہڈی کو سيدها رکھے،کندہوں کو نيچے کی طرف ڈهيلا چھوڑ دے،ہاتھوں کو رانوں پر رکھے، انگلياں ملا کر رکھے، اپنی نگاہ سجدہ گاہ پر رکھے،بدن کا بوجه دونوں پاؤںپر یکساں ڈالے،خضوع وخشوع کی حالت ميں کهڑا ہو،پاؤں آگے پيچهے نہ رکھے اور اگر مردهو تو پاؤں کے درميان تين پهيلی ہوئی انگليوں سے لے کر ایک بالشت تک کا فاصلہ رکھے اور اگر عورت ہو تو دونوں پاؤں ملا کر رکھے۔

قرائت

مسئلہ ٩٨٧ ضروری ہے کہ انسان روزانہ کی واجب نمازوں کی پهلی او ردوسری رکعت ميں پهلے الحمد اور اس کے بعد کسی ایک پورے سورہ کی تلاوت کرے اور سورہ والضحی وا لم نشرح اسی طرح سورہ الفيل و سورہ قریش نماز ميں ایک سورہ شمار ہوتے ہيں ۔

۱۶۲

مسئلہ ٩٨٨ اگر نماز کا وقت تنگ ہو یا انسان کسی مجبوری کی وجہ سے سورہ نہ پڑھ سکتا ہو مثلاًاسے خوف ہو کہ اگر سورہ پڑھے گا تو چور،درندہ یا کوئی اور چيز اسے نقصان پهنچائے گی تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سورہ نہ پڑھے۔

مریض اور اس شخص سے جو کسی کام کی وجہ سے جلدی ميں ہو سورہ ساقط ہے اور اگر پڑھے بھی تو ضروری ہے کہ اسے جزُءِ نماز کی نيت سے نہ پڑھے بلکہ تلاوتِ قرآن کی نيت سے پڑھ لے۔

مسئلہ ٩٨٩ اگر کوئی جان بوجه کر الحمد سے پهلے سورہ کو جزُءِ نماز کی نيت سے پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر غلطی سے پڑھے اور درميا ن ميں اس کو یاد آجائے تو ضروری ہے کہ اس کو چھوڑ دے او ر حمد پڑ هنے کے بعد سورہ شروع سے پڑھے۔

مسئلہ ٩٩٠ اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ یا ان ميں سے کسی ایک کو پڑھنا بھول جائے اور رکوع ميں جانے کے بعد اسے یا د آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٩٩١ اگر رکوع کے لئے جھکنے سے پهلے کسی شخص کو یا د آجائے کہ اس نے الحمد یا سورہ نہيں پڑھا تو ضروری ہے کہ پڑھے اور اگر یاد آئے کہ سورہ نہيں پڑھا تو فقط سورہ پڑھے ليکن اگر اسے یاد آئے کہ فقط الحمد نہيں پڑھی تو ضروری ہے کہ پهلے الحمد اور بعد ميں سورہ پڑھے ا ور اگر جھک بھی جائے ليکن رکوع کی حد تک پهنچنے سے پهلے یاد آئے کہ الحمد اور سورہ یا فقط سورہ یا فقط الحمد نہيں پڑھی تو ضروری ہے کہ کهڑا ہو جائے اور اسی حکم کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ٩٩٢ اگر کوئی شخص جان بوجه کر واجب نماز ميں ان چار سوروں ميں سے کوئی ایک سورہ پڑھے جس ميں واجب سجدے والی آیت ہے اور جن کا ذکر مسئلہ نمبر ” ٣ ۶ ١ “ميں کيا گيا ہے تو واجب ہے کہ آیت سجدہ پڑھنے کے بعد سجدہ بجالائے اور ا س صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نماز کو تمام کر کے دوبارہ پڑھے اور اگر گناہ کرے اور سجدہ بجا نہ لائے تو بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٩٩٣ اگر کوئی شخص بھول کر ایسا سورہ پڑھنا شروع کر دے جس ميں واجب سجدہ ہو ليکن آیت سجدہ پر پهنچنے سے پهلے اسے خيال آ جائے تو ضروری ہے کہ اس سورے کو چھوڑ کر دوسرا سورہ پڑھے اور اگر آیت سجدہ پڑھنے کے بعد خيا ل آئے تو احتياطاًسجدے کا اشارہ کرتے ہوئے سورے کو مکمل کرے اور ایک دوسرا سورہ بھی قربتِ مطلقہ کی نيت سے پڑھے، یعنی اس نيت سے کہ اگر اس کی ذمہ داری سورہ پڑھنا ہے تو یہ وهی سورہ ہے ورنہ یہ تلاوتِ قرآن ہے اور نماز کے بعد سجدہ تلاوت بجا لائے۔

مسئلہ ٩٩ ۴ اگر نماز کے دوران آیتِ سجدہ سنے تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن قرآن کے سجدے کی نيت سے اشارہ کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کے بعد اس سجدے کو عام طریقے سے بھی بجا لائے۔

مسئلہ ٩٩ ۵ مستحب نماز ميں سورہ پڑھنا ضروری نہيں خواہ وہ نذر یا ان جيسی دوسری چيز وں کی وجہ سے واجب ہو گئی ہو ليکن بعض مستحب نمازیں مثلاًنمازِ وحشت کہ جس ميں مخصوص سورہ ہے اگر کو ئی شخص اس نمازکو مقررہ طریقے سے پڑھنا چاہے تو وهی سورہ پڑھنا ضروری ہے ۔

۱۶۳

مسئلہ ٩٩ ۶ جمعہ کی نماز اور جمعہ کے دن نمازِ ظہر کی پهلی رکعت ميں الحمد کے بعد سورہ جمعہ اور دوسری رکعت ميں الحمد کے بعد سورہ منافقون پڑھنا مستحب ہے اور اگر کوئی شخص ان ميں سے کوئی ایک سورہ پڑھنا شروع کر دے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا سورہ نہ پڑھے۔

مسئلہ ٩٩٧ اگر کوئی شخص الحمد کے بعد سورہ اخلاص یا سورہ کافرون پڑھنے لگے تو اسے چھوڑکر کوئی دوسرا سورہ نہيں پڑھ سکتا،البتہ اگر نماز جمعہ یا جمعہ کے دن نمازِ ظہر ميں بھول کر سورہ جمعہ اور سورہ منافقون کے بجائے ان دو سورتوں ميں سے کوئی سورہ پڑھے تو انہيں چھوڑ کر سورہ جمعہ اور سورہ منافقون پڑھ سکتا ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر نصف تک پڑھ چکا ہو تو پھر ان سوروں کو نہ چھوڑے۔

مسئلہ ٩٩٨ اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز ميں یا جمعہ کے دن ظہر کی نمازميں جان بوجه کر سورہ اخلاص یا سورہ کافرون پڑھے تو خواہ وہ نصف تک نہ پهنچا ہو احتياط واجب کی بنا پر انہيں چھوڑ کر سورہ جمعہ اور سورہ منافقون نہيں پڑھ سکتا۔

مسئلہ ٩٩٩ اگر کوئی شخص نماز ميں سورہ اخلاص یا سورہ کافرون کے علاوہ کوئی دوسرا سورہ پڑھے تو جب تک نصف سے آگے نہ بڑھا ہو اسے چھوڑ کر دوسرا سورہ پڑھ سکتا ہے اور آدهے سورے سے لے کر دو تھائی حصے تک احتياط واجب کی بنا پر نہيں چھوڑ سکتا جب کہ دو تھائی حصے کے بعد یہ سورہ چھوڑ کر دوسرا سورہ پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٠٠٠ اگر کوئی شخص سورے کا کچھ حصہ بھول جائے یا کسی مجبوری مثلاً وقت کی تنگی یا کسی اور وجہ سے اسے مکمل نہ کر سکتا ہو تو وہ اس سورے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا سورہ پڑھ سکتا ہے خواہ وہ دو تھائی سے آگے بڑھ چکا ہو یا وہ سورہ اخلاص یا سورہ کافرون ہی ہو۔

مسئلہ ١٠٠١ مرد پر واجب ہے کہ صبح،مغرب اور عشا کی نمازوں ميں الحمد اور سورہ بلند آواز سے پڑھے اور مردوعورت پر واجب ہے کہ نمازِظہر و عصر ميں الحمد اور سورہ آهستہ آواز سے پڑہيں ۔

مسئلہ ١٠٠٢ مرد کے لےے ضروری ہے کہ صبح اور مغرب و عشا کی نماز ميں خيال رکھے کہ الحمد اور سورہ کے تمام الفاظ حتیٰ کہ ان کے آخری حرف تک کو بلند آواز سے پڑھے۔

مسئلہ ١٠٠٣ صبح،مغرب اور عشا کی نماز ميں عورت، الحمد اور سورہ بلند یا آهستہ آواز سے پڑھ سکتی ہے ۔هاں، اگر نا محرم اس کی آوازسن رہا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر آهستہ پڑھے، ليکن اگر اس صورت ميں کہ عورت کيلئے اپنی آواز سنانا حرام ہو مثلاً لهجے کی نزاکت کے ساته اور سریلی آواز ميں پڑھے اور نا محرم اسے سن رہا ہو تو بلند آواز سے پڑھنا جائز نہيں اور اگر پڑھے تو نماز باطل ہے

۱۶۴

مسئلہ ١٠٠ ۴ اگر کوئی شخص جان بوجه کر بلند آواز سے پڑھی جانے والی نماز کو آهستہ یا آهستہ پڑھی جانے والی نماز کو بلند آواز سے پڑھے تو نماز باطل ہے ، ليکن اگر بھولے سے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کرے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ نيز الحمد وسورہ پڑھنے کے دوران اگر متوجہ ہو جائے کہ غلطی ہوئی ہے تو جو حصہ پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٠٠ ۵ اگر کوئی شخص الحمد وسورہ پڑھنے کے دوران اپنی آواز معمول سے زیادہ بلند کرے مثلاً ان سورتوں کو چلاّ کر پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠٠ ۶ انسان کيلئے واجب ہے کہ نماز سيکه لے تاکہ صحيح پڑھ سکے اور جو شخص کسی طرح بھی صحيح طور پر نماز نہ سيکه سکتا ہو تو جس طرح پڑھ سکتا ہے پڑھے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر وہ چيزیں نہ سيکه سکتا ہو جو امامِ جماعت،ماموم کے بدلے ميں پڑھتا ہے تو نماز باجماعت پڑھے۔

مسئلہ ١٠٠٧ اگر کسی شخص کو الحمدو سورة و نماز کی بقيہ چيزوں کو اچھی طرح نہ آتا ہو اور وہ سيکه سکتا ہو تو نماز کا وقت وسيع ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ سيکه لے اور وقت تنگ ہونے کی صورت ميں اگر ممکن ہو تو ضروری ہے کہ نماز باجماعت پڑھے۔

مسئلہ ١٠٠٨ مستحباتِ نماز سکھانے کی اجرت لينا جائز ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ واجبات نماز سکھانے کی اجرت نہ لے۔

مسئلہ ١٠٠٩ اگر کسی کو الحمد یا سورہ کا کوئی لفظ نہ آتا ہو اور جاہل مقصر ہو یا جان بوجه کر اسے نہ پڑھے یا ایک کے بجائے دوسرا حرف کهے مثلاً”ض“ کے بجائے”ظ“ کهے یا جهاں زیر اور زبر کے بغير پڑھنا ضروری ہے وہاں زیروزبر کے ساته پڑھے یا تشدید نہ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠١٠ اگر انسان کسی لفظ کو صحيح سمجھتا ہو اور نماز ميں بھی اسی طریقے سے پڑھے اور بعد ميں پتہ چلے کہ غلط پڑھا ہے ، چنانچہ اگر وہ اس لفظ کو صحيح سمجھنے ميں جاہل قاصر تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گذر گيا ہو تو اس کی قضا بجالائے،ليکن اگر وہ جاہل مقصر ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گذر گيا ہو توقضا بجالائے۔

مسئلہ ١٠١١ جو شخص نہ جانتا ہو کہ ایک لفظ”س“سے پڑھنا چاہيے یا”ص“ سے تو ضروری ہے کہ اس کو سيکه لے اور اگر دو یا دو سے زائد طریقوں سے پڑھے مثلاً”اہدناالصراط المستقيم“ کو ایک مرتبہ”س“ کے ساته اور ایک مرتبہ”ص“ کے ساته پڑھے تو اس صورت ميں کہ صحيح قرائت کے لئے نماز کا جزو ہو نے کی نيت رکھتا ہو جب کہ دوسری قرائت عرفاًذکرِ غلط یاقرآن غلط کهی جاتی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ،ليکن اس صورت ميں کہ جب دوسری قرائت کو انسان کا کلام سمجھا جائے،اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۶۵

اسی طرح اگر کلمہ کے زیر وزبر کو نہ جانتا ہو تو اس کی نماز باطل ہے مگر یہ کہ زیر وزبر ایسے لفظ کے آخر ميں ہو ں جس پر وقف کرنا جائز ہے اور وہ ہميشہ وقف کرے یا وصل بالسکون کرے تو آخری حرکت کا یاد کرنا واجب نہيں اور اس کی نماز بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠١٢ اگر کسی لفظ ميں ” واو“هو اور اس لفظ ميں ” واو“ سے پهلے والے حرف پر” پيش “هو اور” واو“ کے بعد والا حرف”همزہ“ ہو مثلاًکلمہ”سوء“ اور اسی طرح اگر کسی لفظ ميں ”الف “هو اور اس لفظ ميں ” الف“ سے پهلے والے حرف پر زبرہو اور” الف“ کے بعد والا حرف” ہمزہ“ ہو مثلاًکلمہ”جاءَ“ اور اسی طرح اگر کسی لفظ ميں ”ی“ ہو اور اس لفظ ميں ”ی“سے پهلے والے حرف پر زیر ہو اور”ی“ کے بعد والا حرف”همزہ“ ہو مثلاًکلمہ ”جیء“ تو احتياط مستحب یہ ہے کہ ان تين حروف کو”مدّ“کے ساته یعنی کھينچ کر پڑھے۔

اور اگران حروف یعنی” واو“” الف“اور” یاء“ کے بعد ہمزہ کے بجائے کوئی ساکن حرف ہو یعنی اس پر”زیر زبر یا پيش “نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان تين حروف کو” مد“ کے ساته پڑھے مثلاً”الضَّالِّيْنَ “کہ جس ميں الف کے بعد حرف” لام“ ساکن ہے ، ضروری ہے کہ”الف“ کو” مد“ کے ساته پڑھے اور اگر اس صورت ميں بتلائے گئے طریقے کے مطابق عمل نہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠١٣ احتياط واجب یہ ہے کہ نماز ميں ”وقف بہ حرکت“ نہ کرے۔وقف بہ حرکت کے معنی یہ ہيں کہ کسی لفظ کے آخر ميں زیر زبر یا پيش پڑھے اور اس لفظ ميں اور اس سے اگلے لفظ کے درميان فاصلہ دے مثلاًکهے ”الرَّحْمٰنِ الرَحِيْمِ “ اور”الرَّحِيْمِ “ کے ميم کو زیر د ے اور اس کے بعد قدرے فاصلہ دے کر کهے”مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ”وصل بہ سکون“ نہ کرے،وصل بہ سکون کے معنی یہ ہيں کہ کسی لفظ کے آخر ميں زیر زبر یا پيش نہ پڑھے اور اس لفظ کو اگلے لفظ سے جوڑدے مثلاً”الرَّحْمٰن الرَحِيْمِ “اور ”الرَّحِيْم “ کی”ميم “کو زیر دئے بغير فوراً”مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“کهے۔

مسئلہ ١٠١ ۴ نماز کی تيسری اور چوتھی رکعت ميں فقط ایک دفعہ الحمد یا ایک تسبيحات اربعہ پڑھنا کافی ہے ، یعنی نماز پڑھنے والا ایک دفعہ کهے”سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلاَ إِلٰهَ إِلاَّاللّٰهُ وَاللّٰهُ ا کَْٔبَرُ “ اور بہتر یہ ہے کہ تين دفعہ کهے اور ایک رکعت ميں الحمد اور دوسری ميں تسبيحات بھی پڑھ سکتا ہے ليکن بہتر یہ ہے کہ دونوں رکعتوں ميں تسبيحات پڑھے۔

مسئلہ ١٠١ ۵ اگر وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تسبيحات اربعہ کو ایک دفعہ پڑھا جائے۔

مسئلہ ١٠١ ۶ مرد اور عورت دونوں پر واجب ہے کہ نماز کی تيسری اور چوتھی رکعت ميں الحمد یا تسبيحات اربعہ آهستہ پڑہيں ۔

مسئلہ ١٠١٧ اگر کوئی شخص تيسری یا چوتھی رکعت ميں الحمد پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی بسم الله بھی آهستہ پڑھے۔

۱۶۶

مسئلہ ١٠١٨ جو شخص تسبيحات اربعہ نہ سيکه سکتا ہو یا صحيح نہ پڑھ سکتا ہو ليکن الحمد صحيح طریقے سے پڑھ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز کی تيسری اور چوتھی رکعت ميں الحمد پڑھے۔

مسئلہ ١٠١٩ اگر کوئی شخص نماز کی پهلی دو رکعتوںميں اس خيال سے کہ یہ آخری دو رکعتيں ہيں تسبيحات پڑھے ليکن رکوع سے پهلے اسے صحيح صورت حال کا علم ہو جائے تو ضروری ہے کہ الحمد وسورہ پڑھے اور اگر اسے رکوع کے دوران یا رکوع کے بعد معلوم ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠٢٠ اگر کوئی شخص نماز کی آخری دو رکعتوں ميں اس خيال سے کہ یہ پهلی دو رکعتيں ہيں الحمد پڑھے یا نماز کی پهلی دو رکعتوں ميں یہ خيال کرتے ہوئے کہ یہ آخری دو رکعتيں ہيں الحمد پڑھے تو اسے صحيح صورت حال کا خواہ رکوع سے پهلے علم ہو یا بعد ميں اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠٢١ اگر کوئی شخص تيسری یا چوتھی رکعت ميں الحمد پڑھنا چاہتا ہو ليکن اس کی زبان پر تسبيحات آجائيں یا تسبيحات پڑھنا چاہتا ہو اور اس کی زبان پر الحمد آجائے تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ کر دوبارہ الحمد یا تسبيحات پڑھے،ليکن اگر اس کی عادت وهی کچھ پڑھنے کی ہو جو اس کی زبان پر آیا ہے تو وہ اسی کو تمام کر سکتا ہے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠٢٢ جس شخص کی عادت تيسری اور چوتھی رکعت ميں تسبيحات پڑھنے کی ہو اگر نيت کے بغير حتیٰ جوخود پر واجب ہے اسے انجام دینے کی نيت کے بغير الحمد پڑھنے لگے تو ضروری ہے کہ اس کو چھوڑ دے اور دوبارہ الحمد یا تسبيحات پڑھے۔

مسئلہ ١٠٢٣ تيسری اور چوتھی رکعت ميں تسبيحات کے بعد استغفار کرنا مثلاً”ا سَْٔتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی وَا تَُٔوْبُ إِلَيْہِ“یا”اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِی“ کهنا مستحب ہے ۔

اور اگر نماز پڑھنے والا رکوع کے لئے جھکنے سے پهلے خواہ استغفار پڑھ رہا ہو یا ا س سے فارغ ہو چکا ہو شک کرے کہ اس نے الحمد یا تسبيحات پڑھی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ الحمد یا تسبيحات پڑھے۔

مسئلہ ١٠٢ ۴ اگر تيسری یا چوتھی رکعت کے رکوع ميں شک کرے کہ تسبيحات پڑھی یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے ليکن اگر رکوع کی حد تک جھکنے سے پهلے شک کرے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹے اور حمد یا تسبيحات پڑھے۔

مسئلہ ١٠٢ ۵ جب انسان کسی آیت کو پڑھنے کے بعد شک کرے کہ آیا آیت یا اس کا کوئی لفظ صحيح پڑھا ہے یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے خواہ بعد والی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو گيا ہو یا نہيں ۔هاں، اگر آیت مکمل کرنے سے پهلے شک کرے کہ اس آیت کا کوئی لفظ صحيح پڑھا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا کرتے ہوئے دوبارہ اس لفظ اور اس کے بعد والے حصے کو صحيح پڑھے خواہ اس لفظ سے پهلے والے حصے کو بھی تکرار کرے اور دونوں صورتوں ميں پوری آیت یا اس لفظ اور

۱۶۷

اس کے بعد والے حصے کی تکرار جب تک وسوسے کی حد نہ پهنچے نماز کے صحيح ہو نے پر اثر انداز نہيں ہوتی۔هاں، جب وسوسے کے حد تک پهنچ جائے تو تکرار کرنا حرام ہے ليکن اس سے نماز باطل نہيں ہوتی اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١٠٢ ۶ مستحب ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد پڑھنے سے پهلے”ا عَُٔوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَان الرَّجِيْمِ “ کهے، ظہر اور عصر کی پهلی اور دوسری رکعتوں ميں ”بسم اللّٰہ “ بلند آواز سے کهے اور الحمد اور سورہ کو واضح کرتے ہو ئے پڑھے، ہر آیت کے آخر پر وقف کرے یعنی اسے بعد والی آیت کے ساته نہ ملائے، الحمد اور سورہ پڑھتے وقت آیات کے معنوں کی طرف توجہ رکھے، اگر جماعت سے نماز پڑھ رہا ہو تو امام جماعت کے سورہ الحمد ختم کرنے کے بعد اور اگر فرادی نماز پڑھ رہا ہو تو خود کی سورہ الحمد مکمل کرنے کے بعد”ا لَْٔحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ “ کهے، سورہ ”قل هواللّٰه احد “ پڑھنے کے بعد ایک یا دو یا تين دفعہ ’’کَذَا لِکَ اللّٰهُ رَبّي “ یا تين دفعہ ”کَذَا لِکَ اللّٰهُ رَبُّنَا “ کهے اور سورہ پڑھنے کے بعد تهوڑی دیر رکے اور پھر رکوع سے پهلے کی تکبير کهے یا قنوت پڑھے۔

مسئلہ ١٠٢٧ مستحب ہے کہ تمام نمازوں کی پهلی رکعت ميں سورہ قدر اور دوسری رکعت ميں سورہ اخلاص پڑھے۔

مسئلہ ١٠٢٨ پنجگانہ نمازوں ميں سے کسی ایک نمازميں بھی انسان کا سورہ اخلاص کونہ پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١٠٢٩ ایک ہی سانس ميں سورہ اخلاصکا پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١٠٣٠ جو سورہ انسان پهلی رکعت ميں پڑھے اسی کو دوسری رکعت ميں پڑھنا مکروہ ہے ليکن اگر سورہ اخلاص دونوں رکعتوں ميں پڑھے تو مکروہ نہيں ہے ۔

رکوع

مسئلہ ١٠٣١ ضروری ہے کہ ہر رکعت ميں قرائت کے بعد اس قدر جھکے کہ انگليوں کے سرے گھٹنوںتک پهنچ جائيں۔ اس عمل کو رکوع کہتے ہيں اور احوط یہ ہے کہ اس قدر جھکے کے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھ سکے۔

مسئلہ ١٠٣٢ اگر کوئی شخص رکوع جتنا جھک جائے ليکن اپنی انگليوں کے سرے گھٹنوں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٠٣٣ اگر کوئی شخص عام طریقے کے مطابق رکوع نہ کرے بلکہ مثلاًبائيں یا دائيں جانب جھک جائے تو خواہ اس کے ہاتھ گھٹنوں تک پهنچ بھی جائيں، رکوع صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٠٣ ۴ ضروری ہے کہ جھکنا رکوع کی نيت سے ہو، لہذ ا اگرکسی اور کام کے لئے مثلا جانور کو مارنے کے لئے جھکے تو اسے رکوع نہيں سمجھا جاسکتا بلکہ ضروری ہے کہ کهڑ اہو کر دوبارہ رکوع کے لئے جھکے اور اس عمل کی وجہ سے نہ رُکن ميں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی نماز باطل ہوتی ہے ۔

۱۶۸

مسئلہ ١٠٣ ۵ جس شخص کے ہاتھ یا گھٹنے دوسرے لوگوں کے ہاتھ اور گھٹنوں سے مختلف ہوں مثلاً اس کے ہاتھ اتنے لمبے ہوں کہ اگر معمولی سا بھی جھکے تو گھٹنوں تک پهنچ جائيں یا اس کے گھٹنے دوسرے لوگوں کے گھٹنوں کے مقابلے ميں اتنا نيچے ہوں کہ اسے ہاتھ گھٹنوں تک پهنچانے کيلئے بہت زیادہ جھکنا پڑتا ہو تو ضروری ہے کہ اتنا جھکے جتنا عموماًلوگ جھکتے ہيں ۔

مسئلہ ١٠٣ ۶ بيٹھ کر رکوع کرنے والے کے لئے اس قدر جھکنا ضروری ہے کہ اس کا چہرہ گھٹنوں کے بالمقابل جا پهنچے اور احوط یہ ہے کہ اتنا جھکے جتنا کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی حالت ميں جھکتا۔

مسئلہ ١٠٣٧ رکوع ميں واجب ہے کہ حالتِ اختيار ميں تين دفعہ”سبحان اللّٰہ “ یا ایک دفعہ” سبحان ربی العظيم وبحمدہ“ یا کوئی بھی وہ ذکر جو اتنی مقدار ميں ہو پڑھے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ بيان شدہ طریقہِ تسبيح کو دوسرے اذکار پر مقدم کرے اور وقت کی تنگی یا کسی مجبوری کی حالت ميں ایک دفعہ”سبحان اللّٰہ “ کهنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١٠٣٨ ذکر رکوع مسلسل اور صحيح عربی ميں پڑھنا ضروری ہے اور مستحب ہے کہ تين،پانچ،یا سات دفعہ بلکہ اس سے بھی زیادہ پڑھا جائے۔

مسئلہ ١٠٣٩ رکوع کی حالت ميں ضروری ہے کہ واجب ذکر کی مقدار تک بدن ساکن ہو اور مستحب ذکر ميں بھی اگر اس نيت سے پڑھے کہ یہ ذکر وہ ہے جسے رکوع ميں پڑھنے کے لئے کها گيا ہے تو احتياط واجب کی بنا پر بدن کا ساکن ہونا ضروری ہے اور اگر صرف ذکر کی نيت سے پڑھے تو ساکن ہونا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٠ ۴ ٠ اگر نماز پڑھنے والا رکوع کا واجب ذکر ادا کرتے وقت بے اختيار اتنی حرکت کرے کہ بدن سکون کی حالت سے نکل جائے تو ضروری ہے کہ بدن کے سکون حاصل کرنے کے بعد دوبارہ ذکر ادا کرے ليکن اگر اتنی کم حرکت کرے کہ بدن سکون کی حالت سے خارج نہ ہو یا انگليوں کو هلائے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۴ ١ اگر نماز پڑھنے والا اس سے پيشتر کہ رکوع جتنا جھکے اور اس کا بدن سکون حاصل کر لے جان بوجه کر ذکرِ رکوع پڑھنا شروع کر دے تو اس کی نماز باطل ہے ليکن اگرجاہل قاصر ہو تو اس کی نماز ا س اضافے کے اعتبار سے باطل نہيں ہوگی۔

مسئلہ ١٠ ۴ ٢ اگر ایک شخص واجب ذکر ختم ہونے سے پهلے جان بوجه کر رکوع سے سر اٹھ ا ئے تو اس کی نماز باطل ہے ، مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو تو اس وجہ سے اس کی نماز باطل نہيں اور اگرسهواً سر اٹھ ا لے اور حالت رکوع سے نکلنے سے پهلے اسے یاد آئے کہ اس نے ذکرِ رکوع ختم نہيں کيا تو ضروری ہے کہ بدن کے ساکن ہونے کے بعد ذکر پڑھے اور اگر اسے حالتِ رکوع سے نکلنے کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۴ ٣ ضرورت کے وقت جائزهے کہ رکوع ميں ایک” سبحان اللّٰہ “پڑھی جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ باقی دو”سبحان اللّٰہ“ کو رکوع سے اٹھ تے ہوئے پڑھ لے۔

۱۶۹

مسئلہ ١٠ ۴۴ جو شخص مرض وغيرہ کی وجہ سے رکوع ميں اپنا بدن ساکن نہ رکھ سکے تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن ضروری ہے کہ حالتِ رکوع سے نکلنے سے پهلے واجب ذکر پڑھ لے۔

مسئلہ ١٠ ۴۵ جو شخص شرعی رکوع کی حد تک نہ جھک سکتا ہو جسے مسئلہ نمبر ١٠٣١ ميں بيان کيا گيا ہے تو ضروری ہے کہ کسی چيز کا سهارا لے کر شرعی رکوع بجالائے اور جب سهارے کے ذریعے بھی شرعی رکوع نہ کر سکے تو اگر عرفی رکوع کرنا اس کے لئے ممکن ہو تو عرفی رکوع کرے،اور سر سے بھی رکوع کے لئے اشارہ کرے اور اگر عرفی رکوع کی مقدار تک بھی نہ جھک سکتا ہو یا کسی طریقے سے بھی نہ جھک سکتا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ رکوع کے وقت بيٹھ جائے اور بيٹھ کر رکوع بجالائے اور ایک نماز اور پڑھے جس ميں رکوع کے لئے قيام کی حالت ميں ہی سر سے اشارہ کرے۔

مسئلہ ١٠ ۴۶ جس شخص کو رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرنا ضروری ہو اگر وہ اشارہ کرنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ رکوع کی نيت سے آنکہوں کو بند کر لے او رذکرِ رکوع پڑھے او ر رکوع سے اٹھنے کی نيت سے آنکہوں کو کھول دے اور اگر اس قابل بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ دل ميں رکوع کی نيت کرے اور ذکر رکوع پڑھے۔

مسئلہ ١٠ ۴ ٧ جو شخص کھڑے ہو کریا بيٹھ کر رکوع نہيں کر سکتا یهاں تک کہ عرفی مقدار تک بھی رکوع نہيں کر سکتا اور صرف بيٹھنے کی حالت ميں تهوڑا جھک سکتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرے اور اگر بيٹھنے کی حالت ميں عرفی مقدار تک جھک سکتا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ ایک نماز اور پڑھے اور رکوع کے وقت بيٹھ کر اس مقدارميں جھک جائے۔

مسئلہ ١٠ ۴ ٨ اگر کوئی شخص رکوع کی حد تک جھکنے کے بعد سر اٹھ ا لے اور دوبارہ رکوع کرنے کی حد تک جھک جائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

اور رکوع کی حد تک پهنچنے کے بعد اگر کوئی شخص اتنا اور جھک جائے کہ رکوع کی حد سے گذر جائے اور دوبارہ رکوع ميں واپس آجائے تو اس صورت ميں کہ وہ جھکے جھکے ہی رکوع کی حد تک پلٹا ہو اس کی نماز باطل نہيں ۔

مسئلہ ١٠ ۴ ٩ ضروری ہے کہ ذکرِ رکوع ختم ہونے کے بعد سيدها کهڑا ہو جائے اور جب اس کا بدن سکون حاصل کر لے اس کے بعد سجدے ميں جائے اور اگر جان بوجه کر کهڑا ہونے سے پهلے یا بدن کے سکون حاصل کرنے سے پهلے سجدے ميں جائے تو اس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۵ ٠ اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے اور سجدے کی حالت ميں پهنچنے سے پهلے اسے یاد آجائے تو ضروری ہے کہ کهڑا ہو اور پھر رکوع ميں جائے اور اگر جھکے جھکے ہی رکوع کی جانب لوٹے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۷۰

مسئلہ ١٠ ۵ ١ اگر کسی شخص کو پيشانی زمين پر رکھنے کے بعد یاد آئے کہ اس نے رکوع نہيں کيا تو اس کيلئے ضروری ہے کہ لوٹ جائے اور کهڑا ہونے کے بعد رکوع بجا لائے اور احتياط واجب کی بنا پر اضافی سجدے کی وجہ سے دو سجدہ سهو بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز دهرائے اور اگر اسے دوسرے سجدے ميں یاد آئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۵ ٢ مستحب ہے کہ انسان رکوع ميں جانے سے پهلے جب سيدها کهڑا ہو تو تکبير کهے،رکوع ميں گھٹنوں کو پيچهے کی طرف دهکيلے رہے،پيٹھ کو ہموار رکھے،گردن کو کھينچ کر پيٹھ کے برابر رکھے،نگاہ دونوں پاؤں کے درميان ہو،ذکر سے پهلے یا بعد ميں درود پڑھے اور جب رکوع کے بعد اُٹھ کر سيدها کهڑا ہو جائے تو بدن کے سکون کی حالت ميں ہوتے ہوئے ” سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ“کهے۔

مسئلہ ١٠ ۵ ٣ عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ رکوع ميں ہاتھوں کو گھٹنوں سے اوپر رکہيں اور گھٹنوں کو پيچهے کی طرف نہ دهکيليں۔

سجود

مسئلہ ١٠ ۵۴ نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ واجب اور مستحب نمازوںکی ہر رکعت ميں رکوع کے بعد دو سجدے کر ے یعنی پيشانی کو خضوع کی نيت سے زمين پر رکھے اور نماز کے سجدے ميں واجب ہے کہ دونوں ہتھيلياں،دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤںکے انگوٹھ ے بھی زمين پر رکھے۔

مسئلہ ١٠ ۵۵ دو سجدے مل کر ایک رکن ہيں اور اگر کوئی شخص واجب نماز ميں عمداً یا بھولے سے ایک ہی رکعت ميں دونوں سجدے ترک کر دے یا دو سجدوں کا اضافہ کر دے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۵۶ اگر کوئی شخص جان بوجه کر ایک سجدہ کم یا زیادہ کر دے تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر غلطی سے ایک سجدہ کم یا زیادہ کر ے تو اس کا حکم بعد ميں بيان کيا جائے گا۔

مسئلہ ١٠ ۵ ٧ اگر جان بوجه کر یا غلطی سے کوئی شخص پيشانی زمين پر نہ رکھے تو خواہ بدن کے دوسرے حصے زمين سے لگ بھی گئے ہوں،اس کا سجدہ ہوا ہی نہيں ، ليکن اگر وہ پيشانی زمين پر رکھ دے اور غلطی سے بدن کے دوسرے حصے زمين پر نہ رکھے یا غلطی سے ذکر نہ پڑھے تو اس کا سجدہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۵ ٨ سجدے ميں واجب ہے کہحالت اختيار ميں سجدے ميں تين مرتبہ” سبحان اللّٰہ“ یا ایک مرتبہ ”سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ “ یا اتنی مقدارکا کوئی بھی ذکر پڑھے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ تسبيح کودوسرے اذکار پر مقدم کرے۔ نيز ضروری ہے کہ ان کلمات کو صحيح عربی ميں اور مسلسل پڑھا جائے اور مستحب ہے کہ ” سبحان ربی الا علی و بحمدہ“ کو تين،پانچ یا سات مرتبہ یا اس بھی زیادہ مرتبہ پڑھے۔

۱۷۱

مسئلہ ١٠ ۵ ٩ سجدے کی حالت ميں واجب ذکر کی مقدار تک بدن کا ساکن ہونا ضروری ہے اور احتياط واجب کی بنا پر مستحب ذکر کہتے وقت بھی اگر اس نيت سے کهے کہ یہ وہ ذکر ہے جسے سجدے ميں پڑھنے کے لئے کها گيا ہے ،بدن کا ساکن ہونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٠ اگر پيشانی زمين پر لگنے اور بدن کے سا کن ہونے سے پهلے کوئی شخص جان بوجه کر ذکرِ سجدہ پڑھے یا ذکر ختم ہونے سے پهلے جان بوجه کر سجدے سے سر اٹھ الے تو اس کی نماز باطل ہے ، ليکن اگر وہ جاہل قاصر ہو تو دونوں صورتوں ميں اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۶ ١ اگر پيشانی زمين پر لگنے سے پهلے کوئی شخص غلطی سے ذکر سجدہ پڑھے اور ا س سے پهلے کہ سجدے سے سر اٹھ ائے اسے معلوم ہو جائے کہ اس نے غلطی کی ہے تو ضروری ہے کہ سکون کی حالت ميں دوبارہ ذکر پڑھے۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٢ اگر کسی شخص کو سجدے سے سر اٹھ ا لينے کے بعد معلوم ہو کہ اس نے ذکرِ سجدہ ختم ہونے سے پهلے سر اٹھ ا ليا تھا تو اس کی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٣ ذکرِ سجدہ پڑھنے کے دوران اگر کوئی شخص جان بوجه کر سات اعضائے سجدہ ميں سے کسی ایک کو زمين پر سے اٹھ الے تو جاہل قاصر نہ ہونے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہو جائے گی،ليکن جس وقت ذکر نہ پڑھ رہا ہو اگر پيشانی کے علاوہ کوئی اورعضو زمين پر سے اٹھ ا لے اور دوبارہ رکھ دے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۶۴ اگر ذکر سجدہ ختم ہونے سے پهلے کوئی شخص سهواًپيشانی زمين پر سے اٹھ الے تو اسے دوبارہ زمين پر نہيں رکھ سکتا اور ضروری ہے کہ اسے ایک سجدہ شمار کرے، ليکن اگر دوسرے اعضاء سهواً زمين پر سے اٹھ الے تو ضروری ہے کہ انہيں دوبارہ زمين پر رکھے اور ذکر پڑھے۔

مسئلہ ١٠ ۶۵ پهلے سجدے کا ذکر ختم ہونے کے بعد ضروری ہے کہ بيٹھ جائے یهاں تک کہ اس کا بدن سکون حاصل کرے اور پھر دوبارہ سجدے ميں جائے۔

مسئلہ ١٠ ۶۶ ضروری ہے کہ نمازی کے پيشانی رکھنے کی جگہ،انگوٹھ ے کے سرے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں سے زیادہ بلند یا پست نہ ہو اور احتياط واجب یہ ہے کہ پيشانی کی جگہ اس کے گھٹنوں کی جگہ سے بھی اس مقدار سے زیادہ نيچی یا اونچی نہ ہو۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٧ اس ڈهلوان جگہ ميں جس کی ڈهلان صحيح طور سے معلوم نہ ہو اگر نمازی کی پيشانی کی جگہ اس کے گھٹنوں اور پاؤں کی انگليوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں سے زیادہ بلند یا پست ہو تو احتياط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٨ اگر نماز پڑھنے والا اپنی پيشانی کوغلطی سے ایک ایسی چيز پر رکھ دے جو اس کے پاؤں کی انگليوں کے سرے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں سے زیادہ بلند ہو اور اس جگہ کی بلندی اس قدر ہو کہ اسے سجدے کی حالت نہ کها جا سکے تو ضروری ہے کہ سر کو اٹھ ا کر ایسی چيز پر رکھ دے جو بلند نہ ہو یا جس کی بلندی چار ملی ہوئی انگليوں کے برابر یا اس سے کم ہو۔

۱۷۲

اور اگر اس کی بلندی اس قدر ہو کہ اسے سجدے کی حالت کها جائے تو ضروری ہے کہ پيشانی کو اس چيز سے کھينچ کر ایسی چيز تک لے جائے جس کی بلندی چار ملی ہوئی انگليوں کے برابر یا اس سے کم ہواور اگر پيشانی کو کھينچنا ممکن نہ ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز کو مکمل کر کے دوبارہ پڑھے۔مسئلہ ١٠ ۶ ٩ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کی پيشانی اور سجدہ گاہ کے درميان کوئی دوسری چيز نہ ہو۔ پس اگر سجدہ گاہ پر اتنا ميل ہو کہ پيشانی سجد ہ گا ہ کو نہ چھوئے تو اس کا سجدہ باطل ہے ، ليکن اگر مثلاً سجدہ گاہ کا رنگ تبدیل ہو گيا ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٠٧٠ سجدے ميں ضروری ہے کہ دونوں ہتھلياں زمين پر ر کهے اور مجبوری کی حالت ميں ضروری ہے کہ ہاتھوںکی پشت زمين پر رکھے اور اگر ہاتھوں کی پشت بھی زمين پر رکھنا ممکن نہ ہو تو احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ کلائياں زمين پر رکھے اور اگر انہيں بھی نہ رکھ سکے تو پھر کهنی تک جو حصہ بھی ممکن ہو زمين پر رکھے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر بازو زمين پر رکھ دے۔

مسئلہ ١٠٧١ سجدے ميں ضروری ہے کہ پاؤں کے دونوں انگوٹھ ے زمين پر رکھے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ دونوں انگوٹہوں کے سرے زمين پر رکھے اور اگر پاؤں کی دوسری انگلياں یا پاؤں کا اوپر والا حصہ زمين پر رکھے یاناخن لمبے ہونے کی بنا پر انگوٹہوں کے سرے زمين پر نہ لگيں تو نماز باطل ہے اور جس شخص نے جاہل مقصر ہونے کی وجہ سے اپنی نمازیں اس طرح پڑھی ہوں، ضروری ہے کہ انہيں دوبارہ پڑھے،ليکن جاہل قاصر ہونے کی صورت ميں ا س کی نمازیں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١٠٧٢ جس شخص کے پاؤں کے انگوٹہوں کا کچھ حصہ کٹا ہو ا ہو ضروری ہے کہ جتنا باقی ہواسے زمين پر رکھے اور اگر انگوٹہوں کا کچھ حصہ بھی نہ بچا ہو یا بہت کم بچا ہو تو احتيا ط کی بنا پر ضروری ہے کہ باقی انگليوں کو زمين پر رکھے اور اگر اس کی کوئی بھی انگلی نہ ہو تو اس کا جتنا حصہ بھی باقی بچا ہو زمين پر رکھے۔

مسئلہ ١٠٧٣ اگر کوئی شخص معمول کے خلاف سجدہ کرے مثلاً سينے اور پيٹ کو زمين سے ملا دے یا پاؤں کو لمبا کر دے تو اگرچہ اس کے ساتوں اعضاء زمين پر لگے ہوں احتياط واجب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ١٠٧ ۴ سجدہ گاہ یا دوسری چيز جس پر نماز پڑھنے والا سجدہ کرے ضروری ہے کہ پاک ہو، ليکن اگر مثا ل کے طور پر سجدہ گاہ کو نجس فرش پر رکھ دے یا سجدہ گاہ کی ایک طرف نجس ہو اور وہ پيشانی پاک طرف پر رکھے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٠٧ ۵ اگرپيشانی پر پھوڑا وغيرہ ہو تو اگر ممکن ہو تو پيشانی کی صحيح وسالم جگہ سے سجدہ کرے اور اگر ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس پر سجدہ کرنا صحيح ہو اس کو کهرچ کر اس کهرچی ہوئی جگہ ميں پهوڑے والی جگہ رکھے اور پيشانی کی صحيح وسالم جگہ کی اتنی مقدار جو سجدے کے لئے کافی ہے اس چيز پر رکھ دے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ یہ کهرچنا زمين پر ہو۔

۱۷۳

مسئلہ ١٠٧ ۶ اگر پهوڑ ایا زخم تمام پيشانی پر پهيلا ہو اہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ پيشانی کی دو اطراف ميں سے کسی ایک طرف اور ٹھ وڑی سے سجدہ کرے اگرچہ اس کی وجہ سے نمازدو مرتبہ پڑھنی پڑے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو صرف ٹھ وڑی سے سجدہ کرے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ سجدے کے لئے اشارہ کرے۔

مسئلہ ١٠٧٧ جو شخص پيشانی زمين پر نہ رکھ سکتا ہو ضروری ہے کہ جس قدر بھی جھک سکتا ہو جھکے او ر سجدہ گاہ یا کسی دوسری چيز کو جس پر سجدہ صحيح ہو کسی بلند چيز پر رکھے اور اپنی پيشانی اس پر اس طرح رکھے کہ لوگ کہيں کہ اس نے سجدہ کيا ہے ليکن ضروری ہے کہ ہتھيليوں اورگھٹنوںاور پاؤں کے انگوٹہوں کو معمول کے مطابق زمين پر رکھے۔

مسئلہ ١٠٧٨ اگر کوئی ایسی بلند چيز نہ ہو جس پر نماز پڑھنے والا سجدہ گاہ یا کوئی دوسری چيز جس پر سجدہ کرنا صحيح ہو، رکھ سکے تو ضروری ہے کہ سجدہ گاہ یا دوسری چيز کو جس پر سجدہ کر رہا ہو ہاتھ سے اٹھ ا ئے اور سجدہ کرے اور اگر خود اس کے لئے ممکن نہ ہو تو کوئی دوسرا شخص اس سجدہ گاہ کو اٹھ ائے اور یہ شخص اس پر سجدہ کرے۔

مسئلہ ١٠٧٩ اگر کوئی شخص بالکل ہی سجدہ نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ سجدے کے لئے سر سے اشارہ کرے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ آنکہوں سے اشارہ کرے اور اگر آنکہوں سے بھی اشارہ نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل ميں سجدے کی نيت کر کے سجدے کا ذکر پڑھے۔

مسئلہ ١٠٨٠ اگر کسی شخص کی پيشانی بے اختيار سجدہ گاہ سے اٹھ جائے تو ضروری ہے کہ حتی الامکان اسے دوبارہ سجدہ گاہ پر نہ جانے دے اور یہ ایک سجدہ شمار ہو گا خواہ ذکرِ سجدہ پڑھا ہو یا نہيں اور اگر سر کو نہ روک سکے اور بے اختيار دوبارہ سجدے کی جگہ پر پهنچ جائے تو ان دونوں کا ایک سجدہ شمار ہونا محلِ اشکال ہے اگر چہ اس کا ایک سجدہ تو یقيناہو چکا ہے ۔ پس اگر اس نے ذکر ادا نہ کيا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی نيت سے جو چاہے واجب ہو یا مستحب، ذکر پڑھے۔

مسئلہ ١٠٨١ جهاں انسان کے لئے تقيہ کر نا ضروری ہے وہا ں وہ قالين یا اس طرح کی چيز پر سجدہ کر سکتا ہے اور نماز کی خاطر کسی دوسری جگہ جانا ضروری نہيں ۔هاں، اگر چٹائی یا کسی دوسری چيزپر، جس پر سجدہ کرنا صحيح ہو زحمت ميں پڑے بغير سجدہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہقالين یا اس جيسی چيزوں پر سجدہ نہ کرے۔

مسئلہ ١٠٨٢ اگر کوئی شخص پر ندوں کے پر وں سے بهرے گدے یا اسی قسم کی دوسری چيز پر سجدہ کرے جس پر ٹھ هراؤ حاصل نہيں ہو سکتا تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠٨٣ اگر انسان کيچڑ وا لی زمين ميں نماز پڑھنے پر مجبور ہو اور بدن اور لباس کی آلودگی اس کے لئے باعث حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ سجدہ اور تشهدمعمول کے مطابق بجا لائے اورا گر باعث حرج ہو تو قيام کی حالت ميں ہی سجدے کے لئے سر سے اشارہ کرے اور تشهد کھڑے ہو کر پڑھے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۷۴

مسئلہ ١٠٨ ۴ احتياط مستحب یہ ہے کہ انسان پهلی اور اس تيسری رکعت ميں جس ميں تشهدنہيں ہوتا مثلاًنمازظهر،عصر وعشا کی تيسری رکعت ميں دوسرے سجدے کے بعد تهوڑی دیر کے لئے سکون سے بيٹھے اور پھر کهڑا ہو۔

مسئلہ ١٠٨ ۵ ضروری ہے کہ سجدہ زمين یا زمين سے اگنے والی ایسی چيز پر ہو جو کهائی یا پهنی نہ جاتی ہو ں مثلاًلکڑی اور درختوں کے پتے۔ کھانے اور پهننے کی چيزوں پر مثلاًگندم، جوَاورکپاس پر یا ان چيزوں پر جنہيں زمين یا زمين سے اگنے والی چيزیں نہيں کها جا سکتا مثلاً سونا، چاندی، تارکول،زفت اور ان جيسی چيزوں پر سجدہ کرنا صحيح نہيں ہے ۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر قيمتی پتّھروں مثلاً زمرد وفيروزہ پر سجدہ کرنا صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٠٨ ۶ انگور کے پتوں پر اس وقت تک سجدہ کرنا صحيح نہيں جب تک وہ معمولاً کھائے جاتے ہو ں۔

مسئلہ ١٠٨٧ زمين سے اگنے والی ان چيزوں پر جو حيوانات کی خوراک ہيں مثلاًگهاس اور بهوسا،سجدہ کرنا صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٠٨٨ جن پھولوں کو کهایا نہيں جاتا ان پر سجدہ کرنا صحيح ہے اور جو دوائيں زمين سے اگتی ہيں اگر وہ خود کهائی جاتی ہيں تو ان پر سجدہ کرنا صحيح نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان دواؤں پر بھی جنہيں ابال کر یا دم دے کر ان کاپانی استعمال کيا جاتا ہے ،سجدہ نہ کرے۔

مسئلہ ١٠٨٩ ان پودوں پر جو بعض علاقوں ميں کھائے جاتے ہوں اور بعض جگہوں ميں نہ کھائے جاتے ہوں سجدہ صحيح نہيں ۔کچے پهلوں پر بھی سجدہ کرنا صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٠٩٠ چونے کے پتّھر اور جپسم پر سجدہ کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اختيار کی حالت ميں پکے ہوئے جپسم اور چونے یا اینٹ اور مٹی کے بر تنوں اور ان سے ملتی جلتی چيزوں پر سجدہ نہ کيا جائے۔

مسئلہ ١٠٩١ اگر کاغذ کو ایسی چيز سے بنایا گيا ہو جس پر سجدہ کرنا صحيح ہے جيسے بهوسا، تو اس پر سجدہ کيا جا سکتا ہے ليکن وہ کاغذ جو جوروئی یا ان جيسی چيزوں سے بنا ہو اس پر سجدہ کرنا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٠٩٢ سجدے کے لئے بہترین چيز خاک تربت حضرت سيد الشهداء حضرت امام حسين عليہ السلام ہے ،اس کے بعد مٹی،مٹی کے بعد پتّھر اور پتّھر کے بعد پودے ہيں ۔

مسئلہ ١٠٩٣ اگر کسی کے پاس ایسی چيزنہ ہو جس پر سجدہ کرنا صحيح ہے یا اگر ہو ليکن سخت سردی یا گرمی وغير ہ کی وجہ سے اس پر سجدہ نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اگر اس کا لباس ریشم سے نہ بُنا گيا ہو تو اس پر سجدہ کر ے اور احوط یہ ہے کہ روئی اور اُسی سے بنائے گئے سے بنے ہو ئے لباس پر مقدم رکھے۔ ( mink ) لباس کو ان کے علاوہ کسی چيز مثلاًاون اور منک اور اگر لباس ميسر نہ ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ فيروزہ وعقيق اور ان جيسے پتّھر یا روئی سے بنے ہو ئے کاغذ پر سجدہ کرے

۱۷۵

اور اگر یہ بھی فراہم نہ ہو تو روئی یا ریشم سے بنے ہوئے کاغذ پر سجدہ کرے اور اگر یہ بھی نہ مل سکے تو ہر اس چيز پر سجدہ کر سکتا ہے جس پر حالتِ اختيار ميں سجدہ کرنا جائز نہيں تھا۔ ہاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ جب تک ہاتھ کی پشت پر سجدہ کر نا ممکن ہو کسی اور چيز پر جس پر سجدہ کرنا جائز نہيں ، سجدہ نہ کرے اور اگر ہاتھ کی پشت بھی نہ ہو تو جب تک روئی، تارکول اور زفت موجود ہيں دوسری چيزوں پر سجدہ نہ کرے۔

مسئلہ ١٠٩ ۴ کيچڑ اور ایسی نرم مٹی پر جس پر پيشانی سکون سے نہ ٹک سکے سجدہ کرنا باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠٩ ۵ اگر پهلے سجدے ميں سجد ہ گاہ پيشانی سے چپک جا ئے تو دوسرے سجدے کے لئے اسے پيشانی سے چھڑالينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٠٩ ۶ اگر نماز پڑھنے کے دوران سجدہ گاہ گم ہو جائے اور نماز پڑھنے والے کے پاس کوئی ایسی چيز نہ ہو جس پر سجدہ کرنا صحيح ہو تو نماز کا وقت وسيع ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز کو توڑ دے اور اگر نماز کاوقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ مسئلہ نمبر ” ١٠٩٣ “ميں بيان شدہ ترتيب کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ١٠٩٧ جب کسی شخص کو سجدے کی حالت ميں معلوم ہو کہ پيشانی کسی ایسی چيز پر رکھی ہے جس پر سجدہ کرنا باطل ہے تو اگر نماز کا وقت وسيع ہو اور اس کے لئے صحيح چيز پر سجدہ کرنا ممکن ہو تو اپنی پيشانی کو اس چيز سے اٹھ ا کر صحيح چيز پر سجدہ کرے اور احتياط واجب کی بنا پر دو سجدئہ سهوبهی بجا لائے اور اگر ممکن نہ ہو تو نماز دوبارہ پڑھے اور اگر نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ مسئلہ نمبر” ١٠٩٣ “ميں بيان شدہ تر تيب کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ١٠٩٨ اگر کسی شخص کو سجدے کے بعد معلوم ہو کہ اس نے اپنی پيشانی کسی ایسی چيز پر رکھی تھی جس پر سجدہ کرنا باطل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ صحيح چيز پر سجدہ کرے اور احتيا ط واجب کی بنا پر دو سجدئہ سهو بھی بجا لائے اور اگر ایک رکعت کے دونوں سجدوں ميں یہ غلطی ہوئی ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٠٩٩ الله تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا حرام ہے ۔ اور عوام ميں سے بعض لوگ جو ائمہ عليهم السلام کے مزارات مقدسہ کے سامنے پيشانی زمين پر رکھتے ہيں اگر وہ الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی نيت سے ایسا کریں تو کوئی حرج نہيں ورنہ ایسا کرنا حرام ہے ۔

۱۷۶

سجدے کے مستحبات اور مکروهات

مسئلہ ١١٠٠ سجدے ميں چند چيزیں مستحب ہيں :

١) جو شخص کهڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو وہ رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد مکمل طور پر کھڑے ہو کر، اور بيٹھ کر نماز پڑھنے والا رکوع کے بعدپوری طرح بيٹھ کر سجدے ميں جانے کے لئے تکبير کهے۔

٢) سجدے ميں جاتے وقت مرد پهلے اپنے ہاتھوں اور عورت پهلے اپنے گھٹنوں کو زمين پر رکھے۔

٣) ناک کو سجدہ گاہ یا کسی ایسی چيز پر رکھے جس پر سجدہ کرنا صحيح ہو۔

۴) سجدے کی حالت ميں ہاتھ کی انگليوں کو ملا کر کانوں کے پاس روبہ قبلہ رکھے۔

۵) سجدے ميں دعا کرے،الله تعالیٰ سے حاجت طلب کرے اور یہ دعا پڑھے :

یَا خَيْرَالْمَسْئُوْلِيْنَ وَ یَا خَيْرَالْمُعْطِيْنَ ارْزُقْنِیْ وَارْزُقْ عِيَالِی مِنْ فَضْلِکَ الْوَاسِعِ فَإِنَّکَ ذُوالْفَضْل الْعَظِيْمِ “۔

ترجمہ: اے بہترین سوال سننے والے !اے بہترین عطا کرنے والے!مجھے اور ميرے اہل وعيال کو اپنے وسيع فضل وکرم سے رزق عطا فرما۔ بے شک تو صاحبِ فضلِ عظيم ہے ۔

۶) سجدے کے بعد بائيں ران پر بيٹھ جائے اور دائيں پاؤں کا اوپر والا حصہ بائيں پاؤں کے تلوے پر رکھے۔

٧) هرسجدے کے بعد جب بيٹھ جائے اوربدن کو سکون حاصل ہو جائے تو تکبير کهے۔

٨) پهلے سجدے کے بعد جب بدن کو سکون حاصل ہو جائے تو ”اَسْتَغْفِرُاللّهَ رَبِّی وَاَتُوْب اِلَيْهِ “کهے۔

٩) لمبا سجدہ کرے اور بيٹھتے وقت ہاتھوں کو رانوں پر رکھے۔

١٠ ) دوسرے سجدے ميں جانے کے لئے بدن کے سکون کی حالت ميں ”اللّٰہ اکبر “کهے۔

١١ ) سجدوں ميں صلوات پڑھے۔

١٢ ) سجدے سے قيام کے لئے اٹھ تے وقت ہاتھوں کو گھٹنوں کے بعد زمين سے اٹھ ائے۔

١٣ )مرد کهنيوں اور پيٹ کو زمين سے نہ لگائيں اور بازؤوں کو پهلو سے جدا رکہيں اور عورتيں کهنياں اور پيٹ زمين پر رکہيں اور بد ن کے اعضاء ایک دوسرے سے ملا ليں۔

ان کے علاوہ اور مستحبات بھی ہيں جنہيں تفصيلی کتابوں ميں تحریر کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ١١٠١ سجدے ميں قرآن مجيد پڑھنا مکروہ ہے اور سجدے کی جگہ سے گردوغبار دور کرنے کے لئے پهونک مارنا بھی مکروہ ہے بلکہ اگر پهونک مارنے کی وجہ سے ایک حرف بھی منہ سے عمداً نکل جائے تو اس کا حکم مبطلات ششم نماز ميں ذکر ہوگا۔

ان کے علاوہ اور مکروہات کا ذکر بھی مفصل کتابوں ميں آیا ہے ۔

۱۷۷

قرآن مجيد کے واجب سجدے

مسئلہ ١١٠٢ قرآن مجيد کی چار سورتوں یعنی ”والنجم“،”اقرا “ٔ، ”المٓ تنزیل“ اور ”حمٰٓ سجدہ (فصلت)“ ميں سے ہر ایک ميں ایک آیتِ سجدہ ہے جسے انسان پڑھے یا سنے تو آیت ختم ہو نے کے فوراً بعد سجدہ کرنا ضروری ہے اور اگر سجدہ کرنا بھول جائے تو جب بھی اسے یاد آئے سجدہ کرنا ٩٩٣ “اور” ٩٩ ۴ “ ميں بيان شدہ ”،“ ضروری ہے ، ليکن اگر وہ شخص حالت نمازميں ہو تو مسئلہ نمبر” ٩٩٢

طریقے کے مطابق عمل کرے۔ ہاں، غير اختياری حالت ميں سجدے والی آیت سننے پر احتياط مستحب یہ ہے کہ سجدہ کرے۔

مسئلہ ١١٠٣ اگر انسان سجدے کی آیت سننے کے وقت خود بھی وہ آیت پڑھے تو ضروری ہے کہ دو سجدے کرے۔

مسئلہ ١١٠ ۴ اگر نماز کے علاوہ سجدے کی حالت ميں کوئی شخص آیتِ سجدہ پڑھے یا سنے تو ضروری ہے کہ سجدے سے سر اٹھ ا کر دوبارہ سجدہ کرے۔

مسئلہ ١١٠ ۵ اگر انسان کسی غير مميز بچے سے جو اچھے اور بر ے کی تميز نہ رکھتا ہو یا کسی ایسے شخص سے جو قرآن پڑھنے کا قصد نہ رکھتا ہو یا گراموفون یا ٹيپ ریکارڈ سے سجدے کی آیت سنے تو اس پر سجدہ واجب نہيں ۔ ہاں، اگر کوئی شخص ریڈیو اسٹيشن سے براہ راست آیتِ سجدہ کو اس قصد سے پڑھے کہ یہ قرآن ہے اور انسان ریڈیو کے ذریعے اس آیت کو سنے تو اس پر سجدہ واجب ہے ۔

مسئلہ ١١٠ ۶ قرآن کا واجب سجدہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی جگہ غصبی نہ ہو اور احتياط واجب کی بنا پر اس کی پيشانی رکھنے کی جگہ اس کے گھٹنوں اور پاؤں کی انگليوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں سے زیادہ اونچی نہ ہو۔ ليکن یہ ضروری نہيں کہ اس نے وضو یا غسل کر رکھا ہو یا قبلہ رخ ہو یا اپنی شرمگاہ کو چھپا ئے یا اس کا بدن اور پيشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو۔ اس کے علاوہ بھی جو شرائط نماز پڑھنے والے کے لباس کے لےے ضروری ہيں وہ شرائط قرآ ن مجيد کا واجب سجدہ اد اکرنے والے کے لباس کے لئے ضروری نہيں ہيں ۔

مسئلہ ١١٠٧ قرآن مجيد کے واجب سجدے ميں ضروری ہے کہ انسان اپنی پيشانی سجدہ گاہ یا کسی ایسی چيز پر رکھے جس پر سجدہ کرنا صحيح ہو اور احتياط واجب کی بنا پر نماز کے سجدے ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق باقی اعضاء بھی زمين پر رکھے۔

مسئلہ ١١٠٨ جب انسان قرآن مجيد کا سجدہ کرنے کے لئے پيشانی زمين پر رکھ دے تو خواہ کوئی ذکر نہ بھی پڑھے تب بھی کافی ہے ۔ ہاں، ذکر کا پڑھنا مستحب ہے اور بہتر ہے کہ یہ پڑھے:

لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ حَقًّاحَقًّا، لاَ اِلٰهَ اِلاَّاللّٰهُ اِیْمَاناًوَّتَصْدِیْقًا،لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ عُبُوْدِیَّةً وَ رِقًّا، سَجَدْتُ لَکَ یَا رَبِّ تَعَبُّدًا وَّ رِقًّا، لاَ مُسْتَنْکِفاً وَّلاَ مُسْتَکْبِرًا بَلْ اَنَا عْبَدٌ ذَلِيلٌضَعِيْفٌ خَائِفٌ مُّسْتَجِيْرٌ “۔

۱۷۸

تشهد

مسئلہ ١١٠٩ تمام واجب اور مستحب نمازوں کی دوسری رکعت، نماز مغرب کی تيسری رکعت اور ظهر، عصر او ر عشا کی چوتھی رکعت ميں انسان کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے سجدے کے بعد تشهد پڑھے یعنی کهے:”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَل عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “ اور احتياط واجب یہ ہے کہ مذکورہ طریقے کے علاوہ کسی اور طرح نہ پڑھے۔

نماز وتر ميں بھی تشهد پڑھنا ضروری ہے اور واجب نمازوں ميں ضروری ہے کہ دوسرے سجدے کے بعد بيٹھ جائے اور بدن کے سکون کی حالت ميں تشهد پڑھے، ليکن مستحب نمازوں ميں سجدے کے بعد بيٹھنا اور بدن کا ساکن ہونا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١١١٠ ضروری ہے کہ تشهد کے جملے صحيح عربی ميں اورمعمول کے مطابق تسلسل سے کهے جائيں۔

مسئلہ ١١١١ اگر کوئی شخص تشهد پڑھنا بھول جائے،اور رکوع سے پهلے یاد آئے کہ اس نے تشهد نہيں پڑھا تو ضروری ہے کہ بيٹھ جائے،تشهد پڑھے اور پھر دوبارہ کهڑ اہو کر جو کچھ اس رکعت ميں پڑھنا ضروری ہے پڑھے اور نماز تمام کرے اور احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد بے جا قيام کے لئے دو سجدئہ سهو بجا لائے۔

او راگر اسے رکوع ميں یا اس کے بعد یاد آئے تو ضروری ہے کہ نماز تما م کرے اور نماز کے سلام کے بعد احتياط مستحب کی بنا پر تشهد کی قضا کرے اور ضروری ہے کہ بھولے ہوئے تشهد کے لئے دو سجدئہ سهو بھی بجا لائے۔

مسئلہ ١١١٢ مستحب ہے کہ تشهد کی حالت ميں انسان بائيں ران پر بيٹھے، دائيں پاؤں کی پشت کو بائيں پاؤں کے تلوے پر رکھے، تشهد سے پهلے ”اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ“ یا ”بِسْمِ اللّٰه وَبِاللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَخَيْرُ اْلاَسْمَاءِلِلّٰهِ “ کهے۔ یہ بھی مستحب ہے کہ ہاتھ رانوں پر رکھے، انگلياں ایک دوسرے کے ساته ملائے اور اپنے دامن پر نگاہ رکھے اور پهلے تشهد ميں صلوات کے بعد کهے”وَتَقَبَّلْ شَفَاعَتَه وَارْفَعْ دَرَجَتَه “۔

مسئلہ ١١١٣ مستحب ہے کہ عورتيں تشهد پڑھتے وقت اپنی رانيں ملا کر رکہيں ۔

۱۷۹

نماز کا سلام

مسئلہ ١١١ ۴ نماز کی آخری رکعت ميں تشهد کے بعد جب نماز ی بيٹھا ہو اور اس کا بدن سکون کی حالت ميں ہو تو مستحب ہے کہ کهے: ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْکَ اَیُّهَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “اور اس کے بعد ضروری ہے کہ کهے: ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ “، یا یہ کهے : ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْکُمْ “ اور مستحب ہے کہ ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْکُمْ “ کے ساته ”وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَا تُه “ کا اضافہ کرے اور اگر ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلیٰ عِبَاد اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ “ پهلے کهے تو مستحب ہے کہ اس کے بعد ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَا تُه “ بھی کهے۔

مسئلہ ١١١ ۵ اگر کوئی شخص نماز کا سلام کهنا بھول جائے اور اسے ایسے وقت یاد آئے جب ابهی نماز کی شکل ختم نہ ہوئی ہو اور اس نے کوئی ایسا کام بھی نہ کيا ہو جسے عمداًیا سهواًکرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے مثلاًقبلہ کی طرف پيٹھ کرنا، تو ضروری ہے کہ سلام کهے اور اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١١ ۶ اگر کوئی شخص نماز کا سلام کهنا بھول جائے اور اسے ایسے وقت یاد آئے جب اس نے کوئی ایسا کام کيا ہو جسے عمداً یا سهواً کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے مثلاً قبلے کی طرف پيٹھ کرنا، تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر ایسے وقت یاد آئے جب نماز کی شکل ختم ہو چکی ہو ليکن اس نے کوئی ایسا کام نہ کيا ہو جسے عمداًیاسهواً کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہو تو احتياط کی بنا پر اس کی نمازباطل ہے ۔

ترتيب

مسئلہ ١١١٧ جو شخص جان بوجه کو نماز کی ترتيب الٹ دے اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے مثلا سورے کو الحمد سے پهلے پڑھ لے، ليکن اگر ترتيب دو رکن کے علاوہ کسی چيز ميں الٹی ہو اور وہ شخص بھی جاہل قاصر ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١١٨ اگر کوئی شخص نماز کا کوئی رکن بھول کر اس کے بعد کا رکن انجام دے دے مثلا رکوع کرنے سے پهلے دو سجدے کر لے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١١٩ اگر کوئی شخص نماز کا کوئی رکن بھول جائے اور اس کے بعد والی ایسی چيز انجام دے دے جو رکن نہ ہو مثلاً اس سے پهلے کہ دو سجدے کرے تشهد پڑھ لے، تو ضروری ہے کہ رکن بجالائے اور جو کچھ بھول کر اس سے پهلے پڑھا تھا اسے دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٢٠ اگر کوئی شخص ایک ایسی چيز بھول جائے جو رکن نہ ہو اور اس کے بعد کا رکن بجالائے مثلاً الحمد بھول جائے اور رکوع ميں چلا جائے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسئلہ ١ ۴ ٨٧ اگر امام غلطی سے ایسی رکعت ميں قنوت پڑھ لے جس ميں قنوت نہيں ہے یا جس رکعت ميں تشهد نہيں ہے اس ميں تشهد پڑھنے ميں مشغول ہو جائے تو ضروری ہے کہ ماموم قنوت اور تشهد نہ پڑھے ليکن وہ امام سے پهلے رکوع ميں نہيں جا سکتا اور امام سے پهلے قيام نہيں کرسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام کا قنوت اور تشهد تمام ہوجائے اور اپنی بقيہ نماز کو امام کے ساته پڑھے۔

نمازجماعت ميں امام اور ماموم کا وظيفہ

مسئلہ ١ ۴ ٨٨ اگر ماموم ایک مرد ہو تو احتياط واجب کی بنا پر وہ امام کی دائيں طرف کهڑا ہو اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا چند عورتيں ہوں تو مرد دائيں طرف اور بقيہ عورتيں امام کے پيچهے کهڑی ہو ں اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتيں ہوں تومرد امام کے پيچهے اور عورتيں مردوں کے پيچهے کهڑی ہوں اور اگر ایک یا چند عورتيں ہوں تو امام کے پيچهے کهڑی ہوں اور ایک عورت ہونے کی صورت ميں مستحب ہے کہ امام کے پيچهے دائيں سمت ميں اس طرح کهڑی ہو کہ اس کی سجدے کی جگہ امام کے گھٹنوں یا قدم کے مقابل ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٩ اگر ماموم اور امام دونوں عورتيں ہوں تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے برابر ميں کهڑی ہوں اور امام ان سے آگے نہ ہو۔

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مستحب ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩٠ مستحب ہے کہ امام صف کے درميان ميں کهڑا ہو اور صاحبان علم، کمال اور تقویٰ پهلی صف ميں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩١ مستحب ہے کہ جماعت کی صفيں منظّم ہو ں اور ایک صف ميں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درميان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کاندهے ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٢ مستحب ہے کہ ”قد قامت الصلاة“ کهنے کے بعد مامومين کھڑے ہوجائيں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٣ مستحب ہے کہ امام اس ماموم کی حالت دیکھ کرنماز پڑھائے جو مامومين ميں سب سے زیادہ ضعيف ہو اور قنوت، رکو ع،اور سجدے کو طول نہ دے، ليکن اگر جانتا ہو کہ تمام مامومين طول دینے کی طرف مائل ہيں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۴ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد،سورہ،اور بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار نماز ميں اپنی آواز اتنی اونچی کرے کہ دوسرے مامومين سن ليں، ليکن ضروری ہے کہ اپنی آواز حد سے زیادہ اونچی نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۵ اگر امام کو رکوع کے دوران یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی ماموم ابهی ابهی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کواپنے معمول سے دگنا طول دے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے، اگرچہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی اور بھی اقتدا کے لئے آیا ہے ۔

۲۴۱

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۶ اگر جماعت کی صفوں کے درميان جگہ خالی ہو تو مکروہ ہے کہ انسان اکيلا کهڑا ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٧ ماموم کا اذکارِ نماز کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ جس مسافر کونماز ظهر،عصراور عشا دو رکعت پڑھنا ہيں ، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہيں ہے مکروہ ہے او رجو شخص مسافر نہيں اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے ۔

نماز آيات

مسئلہ ١ ۴ ٩٩ نماز آیات کہ جس کے پڑھنا کا طریقہ بعد ميں بيان ہوگا چار چيزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :

١) سورج گرہن ۔

٢) چاند گرہن۔ اگر چہ ان کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور اس کی وجہ سے کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

٣) زلزلہ، اگرچہ کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

۴) گرج چمک اور سرخ وسياہ آندهی اور ان جيسی دوسری آسمانی نشانياں، اس صورت ميں کہ اکثر لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائيں۔ جها ں تک زمينی حادثات کا تعلق ہے جيسے کہ دریا کا پانی خشک ہوجانا اور پهاڑ کا گرنا جو کہ اکثر لوگوں کہ خوف زدہ ہونے کاباعث ہوتاہے ، تو ان ميں نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٠ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگروہ ایک سے زیادہ ہو جائيں تو ضروری ہے کہ انسان ان ميں سے ہر ایک کے لئے نمازآیات پڑھے۔ مثلاً سورج گرہن بھی ہو اور زلزلہ بھی آجائے تو ضروری ہے کہ ایک نمازآیات سورج گرہن کے لئے اور ایک نماز آیات زلزلے کے لئے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠١ جس شخص پر ایک سے زیادہ نماز آیا ت کی قضا واجب ہو خواہ وہ ایک چيز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ تين مرتبہ سورج گرہن ہوا ہو اور اس شخص نے تينوں مرتبہ نماز آیات نہ پڑھی ہو، یا چند چيزوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ سورج گرہن بھی ہوا ہو اور چاند گرہن بهی، ا ن کی قضا بجا لاتے وقت ضروری نہيں ہے کہ وہ شخص یہ معين کرے کہ کون سی نماز کی قضا کر رہا ہوں، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگرچہ اجمالا ہی سهی، انہيں معين کرے مثلاًیہ نيت کرے کہ جو پهلی نماز آیات یا دوسری نماز آیات جو مجھ پر واجب ہوئی تھی اس کی قضا بجا لا رہا ہوں۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٢ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ کسی جگہ واقع ہوجائيں تو صرف اسی جگہ کے لوگوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہيں ہے ۔

۲۴۲

مسئلہ ١ ۵ ٠٣ سورج یا چاند کو گرہن لگنے کی صورت ميں نمازآیا ت پڑھنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج یا چاند کو گهن لگنا شروع ہوجائے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب سورج یا چاند مکمل طور پر گرہن سے نکل آئيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی تاخير نہ کرے کہ سور ج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع ہوجائيں، بلکہ گرہن کی ابتدا ميں ہی نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۴ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ چاند یا سورج گرہن سے نکلنا شروع ہو جائيں تو اس کی نمازادا ہے ، ليکن پورا سورج یاچاند،گرہن سے نکل جانے کی صورت ميں اس کی نمازقضا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۵ اگر چاند گرہن یا سورج گرہن کی مدت ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔اسی طرح اگر گرہن کی مدت ایک رکعت سے زیادہ ہو اور انسان نمازنہ پڑھے یهاں تک کہ ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم وقت باقی رہ گيا ہو تب بھی نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۶ انسان کے لئے واجب ہے کہ زلزلہ،گرج چمک اور انهی جيسی دوسری چيزوں کے وقوع کے وقت نماز آیات پڑھے اور ضروری ہے کہ نماز کو اتنی دیر سے نہ پڑھے کہ عرفا لوگ اسے تاخير کہيں اور تاخير کرنے کی صورت ميں اپنی نماز پڑھے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ادا یا قضا کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٧ اگر کسی شخص کو سورج یا چاند گرہن لگنا معلوم نہ ہو اور ان کے گرہن سے نکلنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے چاند یا سورج کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا بجا لائے، ليکن اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی کچھ مقدار کو گرہن لگا تھا تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٨ اگر کچھ لوگ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان پيدا نہ ہو اور اس گروہ ميں سے کوئی ایسا شخص موجودنہ ہو جس کا شرعی طورپر کوئی اعتبار ہو او رانسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد ميں یہ معلوم ہوکہ ان لوگوںنے صحيح کها تھا تو پورے چاند یاسورج کو گرہن لگنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز آیات بجا لائے، ليکن اگر ان کے کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات پڑھنا ضروری نہيں ہے ۔اسی طرح اگر دو اشخاص کہ جن کے عادل ہونے کا علم نہ ہو یا ایک شخص کہ جس کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو، اگر یہ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور بعد ميں معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں عادل تهے یا وہ ایک شخص ایسا قابل اعتماد تھا کہ جس کے قول کے بر خلاف بات کاگمان نہ تھا تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٩ اگر انسان کو ان لوگوں کے کهنے سے جو علمی قاعدے کی رو سے چاند گرہن یا سورج گرہن کے بارے ميں بتاتے ہيں ، اطمينان پيدا ہوجائے کہ سورج یا چاند گهن ہوا ہے تو ضروری هے _کہ نماز آیات پڑھے۔ نيز اگر وہ لوگ یہ کہيں کہ فلاں وقت

۲۴۳

سورج یا چاند کو گهن لگے گا اور فلاں وقت تک رہے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمينان پيدا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اطمينان پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ جو نماز آیات پڑھی تھی وہ باطل تھی تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور وقت گذرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١١ اگر پنجگانہ نمازوں کے اوقات ميں کسی شخص پر نماز آیات بھی واجب ہو جائے اور دونوں نمازوں کے لئے وقت وسيع ہو تو وہ پهلے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر ان دونوں ميں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو جس نماز کا وقت تنگ ہو ضروری ہے کہ اسے پهلے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے یوميہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٢ اگر کسی شخص کو پنجگانہ نمازوں کے د رميان یہ معلوم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور نماز پنجگانہ کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرنے کے بعد نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یوميہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ دے اور پهلے نماز آیات پڑھے اور اس کے بعد نماز یوميہ بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٣ اگر نماز آیات کے دوران کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یوميہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ وہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور نماز یوميہ شروع کر دے اور نماز مکمل کرنے کے بعد، کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہوضروری ہے کہ نماز آیات جهاں سے چھوڑی تھی وہيں سے مکمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۴ اگر کسی عورت کے حيض یا نفاس کی حالت ميں سورج یا چاند کو گهن لگ جائے تو اس پر نماز آیات اورا س کی قضا واجب نہيں ہے ليکن غير موقت جيسے کہ زلزلہ اور گرج چمک ميں عورت کے پاک ہونے کے بعد ادا یا قضا کی نيت کے بغير نماز آیات بجالانا ضروری ہے ۔

نماز آيات کا طريقہ

مسئلہ ١ ۵ ١ ۵ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت ميں پانچ رکوع ہيں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نيت کرنے کے بعد تکبيرة الاحرام کهے اور ایک مرتبہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے سر اٹھ الے اور دوبارہ ایک مرتبہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح پانچ رکوع کرے اور پانچویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دو سجدے کرے اور کهڑا ہوجائے اور دوسری رکعت کو بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشهد پڑھ کر سلام پهيرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۶ نماز آیات ميں الحمد پڑھنے کے بعد انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک سورے کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے اٹھ کر الحمد پڑھے بغير اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح یہ عمل دهراتا رہے۔ یهاں تک کہ پانچویں رکوع سے پهلے سورہ مکمل کر لے۔

۲۴۴

مثلا سورہ قل ہو اللّٰہ احد کی نيت سے ”بسم الله الرحمن الرحيم “پڑھے اور رکوع ميں جائے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور ”قل ہو اللّٰہ احد “ کهے اور دوبارہ رکوع ميں جائے اور رکوع کے بعد کهڑا ہوا ور ”الله الصمد “ کهے پھر رکوع ميں جائے اور کهڑا ہوا اور ”لم یلد ولم یولد“ کهے اور رکوع ميں چلا جائے اور رکوع سے سر اٹھ ا لے اور ”ولم یکن لہ کفوا احد“ کهے اور اس کے بعد پانچویں رکوع ميں چلا جائے، رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دوسجدے کرے۔ دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ نيز یہ بھی جائز ہے کہ ایک سورے کو پانچ سے کم حصوں ميں تقسيم کرے ليکن جب بھی سورہ مکمل کرے ضروری ہے کہ بعد والی رکوع سے پهلے الحمد پڑھے اور اس کے بعد ایک سورہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٧ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت ميں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت ميں ایک دفعہ الحمد اور سورے کو پانچ حصوں ميں تقسيم کردے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ١٨ جو چيزیں پنجگانہ نماز ميں واجب اور مستحب ہيں وہ نماز آیات ميں بھی واجب اور مستحب ہيں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساته ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کے بجائے تين دفعہ بطور رجاء ”الصلاة“کها جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٩ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ پانچویں اور دسویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ پڑھے۔ نيز ہر رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبير کهنا مستحب ہے ، ليکن پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبير کهنا مستحب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٠ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھ ویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھا جائے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ ليا جائے تب بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢١ اگر کوئی شخص نمازآیات ميں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور کسی نتيجے پر نہ پهنچے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٢ اگر شک کرے کہ پهلی رکعت کے آخری رکوع ميں ہے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع ميں اور کسی نتيجے پر نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں، اگر رکوع کی تعداد ميں شک کرے تو کم پر بنا رکھے مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ کہ اس صورت ميں اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھکا نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس رکوع کے لئے جھک گيا تھا اسے بجا لائے اور اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھک جانے کے بعد اور سجدے ميں پهنچنے سے پهلے شک ہوا ہو تواحتياط واجب کی بنا پر واپس پلٹ آئے اور رکوع بجا لائے اور نماز مکمل کر کے دوبارہ بجا لائے، ليکن اگر سجدے ميں پهنچ گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مْسئلہ ١ ۵ ٢٣ نماز آیات کا ہر رکوع ایک رکن ہے اور اگر ان ميں عمدا یا سهواً کمی یابيشی ہو جائے تو نماز باطل ہے ۔

۲۴۵

عيد فطر و عيدقربان کی نمازيں

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۴ امام عليہ السلام کے زمانے ميں عيد فطر وعيد قربان کی نمازیں واجب ہيں اور ضروری ہے کہ یہ نمازیں جماعت کے ساته پڑھی جائيں ليکن ہمارے زمانے ميں جب کہ امام عصر عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ، یہ نمازیں مستحب ہيں اور باجماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہيں ۔هاں، با جماعت پڑھنے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نمازیوں کی تعدادپانچ افراد سے کم نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۵ عيد فطر وعيد قربان کی نماز کا وقت عيد کے روز طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۶ عيد قربان کی نماز سور ج چڑھ آنے کے بعد مستحب ہے اور عيد فطر ميں مستحب ہے کہ سور ج چڑھ آنے کے بعد افطار کيا جائے اور احتياط واجب کی بنا پر فطرہ دینے کے بعد نماز عيد ادا کی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٧ عيد فطر وقربان کی نمازدو رکعت ہے جس کی پهلی رکعت ميں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبيریں کهے اور ہر تکبير کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک قنوت پڑھے ۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے اور دوسجدوں کے بعد اٹھ کهڑا ہو۔ دوسری رکعت ميں چار تکبيریںکهے اور ہر تکبير کے بعد ایک قنوت پڑھے، پانچویں تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے، رکوع کے بعد دوسجدے بجا لائے اور تشهد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٨ عيد فطر وقربا ن کی نماز کے قنوت ميں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے ، ليکن بہتر ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب مصباح المتهجد ميں نقل کی ہے ، پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ا هَْٔلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ ا هَْٔلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ وَ ا هَْٔلَ التَّقْویٰ وَ الْمَغْفِرَةِا سَْٔئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْداً وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَيْرٍ ا دَْٔخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُل سُوْءٍ ا خَْٔرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ ا سَْٔئَلُکَ خَيْرَ مَا سَئَلَکَ بِه عِبَادُک الصَّالِحُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ (الْمُخْلِصُوْنَ، الْمُخْلَصُوْنَ)

اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب ميں معتبر سند کے ساته ذکر کی ہے ، اسے پڑھا جائے۔ وہ دعا یہ ہے :

۲۴۶

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللَّهُمَّ اَنْتَ ا هَْٔلُ الْکِبْرِیَاءِوَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلُ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْقُدْرَةِ وَ السُّلْطَانِ وَ الْعِزَّةِ، ا سَْٔئَلُکَ فِیْ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْدًا وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ مَزِیْداً، ا سَْٔئَلُکَ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مَلاَئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ ا نَْٔبِيَائِکَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ ا نَْٔ تَغْفِرَ لَنَا وَ لِجَمِيْعِ الْمُوْ مِٔنِيْنَ وَ الْمُوْ مِٔنَاتِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَات اْلا حَْٔيَاءِ مِنْهُمْ وَ اْلا مَْٔوَاتِ، ا لٔلّٰهُمَّ إِنیِّ ا سَْٔئَلُکَ مِنْ خَيْرِ مَا سَئَلَکَ عِبَادُکَ الْمُرْسَلُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِه عِبَادُکَ الْمُخْلَصُوْنَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَوَّلُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ آخِرُه وَ بَدِیْعُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مُنْتَهَاهُ وَ عَالِمُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مَعَادُه وَ مَصِيْر کُلِّ شَيْیٍ إِلَيْهِ وَ مَرَدُّه وَ مُدَبِّرُ اْلاُمُوْرِ وَ بَاعِثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ، قَابِلُ الْاَعْمَالِ مُبْدِی الْخَفِيَّاتِ مُعْلِنُ السَّرَائِرِ، اَللّٰهُ اَکْبَر عَظِيْمُ الْمَلَکُوْتِ شَدِیْدُ الْجَبَرُوْتِ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ دَائِمٌ لاَّ یَزُوْلُ إِذَا قَضیٰ اَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ، اَللّٰهُ اَکْبَر خَشَعَتْ لَکَ الْاَصْوَاتُ وَ عَنَتْ لَکَ الْوُجُوْهُ وَ حَارَتْ دُوْنَکَ الْاَبْصَارُ وَ کَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ عَظَمَتِکَ وَ النَّوَاصِیَ کُلُّهَا بِيَدِکَ وَ مَقَادِیْرُ الْاُمُوْرِ کُلُّهَا اِلَيْکَ، لاَ یَقْضِیْ فِيْهَا غَيْرُکَ وَ لاَ یَتِمُّ مِنْهَا شَيْیءٌ دُوْنَکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَحَاطَ بِکُلِّ شَيْیٍ حِفْظُکَ وَ قَهَرَ کُلَّ شَيْیٍ عِزُّکَ وَ نَفَذَ کّلَّ شَيْیٍ اَمْرُکَ وَ قَامَ کُلُّ شَيْیٍ بِکَ وَ تَوَاضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِعَظَمَتِکَ وَ ذَلَّ کُل شَيْیٍ لِعِزَّتِکَ وَ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَيْیٍ لِقُدْرَتِکَ وَ خَضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِمُلْکِکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ

مسئلہ ١ ۵ ٢٩ امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ)کے زمانہ غيبت ميں اگر نماز عيد جماعت سے پڑھی جائے تو احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جائيں اور بہتر یہ ہے کہ عيد فطر کے خطبے ميں فطرے کے احکام بيان ہوں اور عيد قربان ميں قربانی کے احکام بيان ہوں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٠ عيد کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہيں ہے ليکن بہتر ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد کے بعدسورہ سبح اسم ربک الاعلیٰ (سورہ: ٨٧ )پڑھا جائے اور دوسری رکعت ميں سورہ والشمس (سورہ : ٩١ )پڑھا جائے اور سب سے افضل یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ والشمس اور دوسری رکعت ميں سورہ غاشيہ (سورہ: ٨٨ )پڑھا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣١ نماز عيد صحر ا ميں پڑھنا مستحب ہے ، ليکن مکہ مکرمہ ميں مستحب ہے کہ مسجد الحرام ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٢ مستحب ہے کہ امام جماعت اور مامو م نماز سے پهلے غسل کریں اور روئی سے بُنا ہوا سفيد عمامہ سر پر باندہيں کہ جس کا ایک سرا سينے پر اور دوسرا سرا دونوں شانوں کے درميان ہو اور مستحب ہے کہ نمازکے لئے پيدل، ننگے پير اور باوقار طریقے سے جایا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٣ مستحب ہے کہ عيد کی نمازميں زمين پر سجدہ کيا جائے، تکبيریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کيا جائے اورامام جماعت بلند آواز سے قرائت کرے۔

۲۴۷

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۴ مستحب ہے کہ عيد فطر کی رات کو مغرب وعشا کی نماز کے بعد اور عيد فطر کے دن نماز صبح کے بعد یہ تکبيریں کهی جائيں :

اَللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَاهدَانَا ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۵ عيد قربان ميں دس نمازوں کے بعد جن ميں سے پهلی نماز، عيد کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری نماز بارہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ، ان تکبيرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ ميں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَا اَبْلَانَا “ کهے، ليکن اگر عيد قربان کے موقع پر انسان منیٰ ميں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبيریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن ميں سے پهلی نماز عيد کے دن کی نمازظہر ہے اور آخری تيرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۶ احتياط مستحب ہے کہ عورتيں نماز عيد پڑھنے کے لئے نہ جائيں، ليکن یہ احتياط عمر رسيدہ عورتوں کے لئے نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٧ نماز عيد ميں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لئے ضروری ہے کہ الحمد اورسورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٨ اگر ماموم اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبيریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع ميں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبيریں اور قنوت اس نے امام کے ساته نہيں پڑہيں انہيں پڑھے اور امام کے ساته رکوع ميں مل جائے اور اگر ہر قنوت ميں ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “ یا ایک مرتبہ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کہہ دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٩ اگر کوئی شخص نماز عيد ميں اس وقت پهنچے جب امام رکوع ميں ہو تووہ نيت کر کے اور پهلی تکبير کہہ کر رکوع ميں جاسکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ نماز کو رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٠ اگر نماز عيد ميں آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر اس کو بجا لائے اور اگروہ کسی اور رکعت کا سجدہ بھول گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجا لائے۔

اسی طرح کسی بھی صورت ميں اگر اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے لئے نماز پنجگانہ ميں ، چاہے احتياط کی بنا پر، سجدہ سهو لازم ہے تواحتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۴۸

نماز کے لئے اجير بنانا

مسئلہ ١ ۵۴ ١ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جنہيں اس نے اپنی زندگی ميں انجام نہ دیا ہو کسی دوسرے شخص کو اجير بنا یا جاسکتا ہے ، یعنی اسے اجرت دی جائے تاکہ وہ انہيں بجا لائے اور اگر کوئی شخص بغير اجرت لئے ان عبادات کو بجا لائے تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٢ انسان بعض مستحب کاموں مثلا روضہ رسول(ص) کی زیارت یا قبور ائمہ عليهم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجير بن سکتا ہے اس معنیٰ ميں کہ اجارہ ميں ان اشخاص کی طرف سے ان مخصوص کاموں ميں نيابت کا قصد رکھتا ہو، چنانچہ یہ شخص انہيں کاموں کو بغير اجرت لئے بھی انجام دے سکتا ہے ۔ نيز یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو هدیہ کر دے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٣ جو شخص ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کے مسائل ميں یا تو وہ خود مجتهد ہو یا نماز، تقليد کے مطابق صحيح طریقے سے ادا کرسکے یا احتياط پر عمل کرسکے۔

مسئلہ ١ ۵۴۴ ضروری ہے کہ اجير نيت کرتے وقت ”ميت “ کو معين کرے۔هاں، یہ ضروری نہيں ہے ميت کا نام جانتا ہو، پس اگر وہ نيت کرے کہ یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے ميں اجير ہوا ہوں تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۵ ضروری ہے کہ اجير جو عمل بجا لائے اس کے لئے نيت کرے کہ جو کچھ ميت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجير کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب ميت کو هدیہ کرے تو یہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۶ ضروری ہے کہ اجير کسی ایسے شخص کو مقرر کيا جائے جس کے بارے ميں جانتے ہوں یا ان کے پاس شرعی حجت ہو کہ وہ عمل کو بجالائے گا مثلاً وہ اطمينان رکھتے ہوں یا دو عادل شخص یا ایک قابل اطمينان شخص جس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو،خبر دیں کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٧ جس شخص کو ميت کی نمازوں کے لئے اجير بنایا جائے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ عمل کو بجا نہيں لایا ہے یا باطل طریقے سے بجا لایا ہے تو ضروری ہے دوبارہ کسی شخص کو اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٨ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اجير نے عمل انجام دیا ہے یا نہيں تو اگر وہ قابل اطمينان ہو اور یہ کهے کہ ميں نے انجام دے دیا ہے یا کوئی شرعی گواہی یا کسی ایسے قابل اعتماد شخص کا قول موجود ہو کہ جس کے قول کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو کافی ہے اور اگر وہ شک کرے کہ اس اجير کا عمل صحيح تھا یا نہيں تو وہ اس کے عمل کو صحيح سمجھ لے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٩ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلا تيمم کر کے یا بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اسے ميت کی نمازوں کے لئے اجير مقرر نہيں کيا جاسکتا خواہ ميت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔

۲۴۹

مسئلہ ١ ۵۵ ٠ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے اجير بن سکتے ہيں ۔نيز نماز کو بلند یا آهستہ آواز سے پڑھنے ميں ضروری ہے کہ اجير اپنے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميت کی قضا نمازوں ميں ترتيب واجب نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ترتيب کا خيال رکھا جائے، ليکن اُن نمازوں ميں ترتيب ضروری ہے کہ جن کی ادا ميں ترتيب ضروری ہے مثلا ایک دن کی نماز ظہر وعصر یا مغرب وعشا۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٢ اگر اجير کے ساته طے کيا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے مگر یہ کہ اس عمل کے صحيح نہ ہونے کا علم رکھتا ہو کہ اس صورت ميں اس عمل کے لئے اجير نہيں بن سکتا اور اگر کچھ طے نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظيفے کے مطابق بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظيفے اور ميت کے وظيفے ميں سے جو بھی احتياط کے زیادہ قریب ہو اسی پر عمل کرے، مثلاً اگر ميت کا وظيفہ تين مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکليف ایک بار پڑھنا ہو تو تين بار پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٣ اگر اجير کے ساته یہ طے نہ کيا جائے کہ نماز کے مستحبات کتنی مقدار ميں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات نماز ميں پڑھے جاتے ہيں انہيں بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۴ اگر انسان ميت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجير مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميں بتایا گيا ہے اس کی بنا پر ضروری نہيں کہ وہ ہر اجير کے لئے وقت معين کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵۵ اگر کوئی شخص اجير بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال ميں ميت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پهلے مر جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کے لئے جن کے بارے ميں علم ہوکہ وہ انہيں بجا نہيں لایا، کسی اور شخص کو اجير مقرر کيا جائے اور جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ وہ انہيں بجانہيں لایا تھا احتياط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۶ جس شخص کو ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہوتو اگر اس کے ساته یہ طے کيا گيا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا اور وہ ان کے بجالانے پر قادر بھی تھا تو اجارہ کا معاملہ صحيح ہے اور اجرت دینے والا باقی نمازوں کی اجرت المثل واپس لے سکتا ہے یا اجارہ کو فسخ کرتے ہوئے اس مقدار کی اجرت المثل جو ادا ہو چکی ہے ، دے کر باقی مقدار کی اجرت واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ ان نمازوں کی ادائيگی پر قادر نہيں تھا تو مرنے کے بعد والی نمازوں ميں اجارہ باطل ہے اور اجرت دینے والا باقی ماندہ نمازوں کی اجرت مُسمّی لے سکتا ہے یا پهلے والی مقدار کے اجارہ کو فسخ کرتے ہو ئے اس مقدار کی اجرت المثل ادا کرسکتا ہے اور اگر یہ طے نہ کيا گيا

۲۵۰

ہو کہ وہ خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجير کے ورثاء اس کے مال سے کسی اور کو اجير بنائيں، ليکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٧ اگر اجير ميت کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس کی اپنی بھی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سابقہ مسئلے ميں جو طریقہ بتایا گيا ہے اس پر عمل کرنے کے بعداگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اس صورت ميں کہ جب اس نے وصيت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت اس کے تمام مال کے تيسرے حصے سے زیاہ ہوتو ورثاء کے اجازت دینے کی صورت ميں اس کی تمام نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جا سکتا ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت ميں اس کے مال کا تيسرا حصہ اس کی نمازوں پر خرچ کریں۔

روزے کے احکام

روزہ یہ ہے کہ انسان اذانِ صبح سے مغرب تک، ان چيزوں سے کہ جن کا بيان بعدميں آئے گا، قصد قربت،جس کا بيان وضو کے مسائل ميں گزرچکا اور اخلاص کے ساته، پرہيز کرے۔

اس مسئلے اور بعد ميں آنے والے مسائل ميں احتياط واجب کی بنا پر مغرب سے مراد وہ وقت ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مشرق کی جانب سے نمودار ہونے والی سرخی انسان کے سر کے اوپر سے گزر جائے۔

نيت

مسئلہ ١ ۵۵ ٨ روزے کی نيت ميں ضروری نہيں ہے کہ انسان نيت کے الفاظ کو دل سے گزارے یا مثلاً یہ کهے کہ ميں کل روزہ رکہوں گا، بلکہ اگر صرف یهی ارادہ رکھتا ہو کہ قربت کی نيت اور اخلاص کے ساته اذان صبح سے مغرب تک، ان کاموں کو انجام نہ دے گا جو روزے کو باطل کر دیتے ہيں تو کافی ہے ۔ اور یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت ميں روزے سے تھا ضروری ہے کہ اذانِ صبح سے کچھ دیر پهلے اور مغرب کے کچھ دیر بعد بھی روزے کو باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٩ انسان ماہ رمضان کی ہر رات ميں اس کے اگلے دن کے روزے کی نيت کر سکتا ہے اور اسی طرح مهينے کی پهلی رات کو ہی سارے روزوں کی نيت بھی کر سکتا ہے اورپہر دوبارہ ہر رات نيت دهرانا ضروری نہيں ہے اور اسی نيت پر باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٠ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کا وقت پهلی رات ميں ، رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہے اور پهلی رات کے علاوہ دوسری راتوںميں رات کی ابتدا سے پهلے بھی نيت کی جاسکتی ہے ، مثلاً پهلے دن عصر کے وقت نيت کرے کہ اگلے دن قربة الی الله روزہ رکھے گا اور اسی نيت پر باقی رہے اگر چہ اذان صبح کے بعد تک سوتا رہے۔

۲۵۱

مسئلہ ١ ۵۶ ١ مستحب روزے کی نيت کا وقت رات کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے کہ سورج غروب ہونے ميں نيت کرنے کی مقدار کا وقت باقی رہ جائے، پس اگر اس وقت تک روزے کو باطل کر دینے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور مستحب روزے کی نيت کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن اگر سورج غروب ہوجائے تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٢ جو شخص روزے کی نيت کئے بغير اذان صبح سے پهلے سوجائے، اگر ظہر سے پهلے بيدار ہو اور روزے کی نيت کرے تو اگر اس کا روزہ ایسا واجب روزہ ہوکہ جس کا وقت معين ہے ، چاہے ماہ رمضان کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ، جيسے اس نے نذر کی ہو کہ کسی معين دن روزہ رکھے گا، تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکال ہے اور اگر اس کا روزہ ایسا واجب ہو کہ جس کا وقت معين نہ ہو تو روزہ صحيح ہے ۔

اور اگر ظہر کے بعد بيدار ہو تو واجب روزے کی نيت نہيں کر سکتا ہے چاہے واجب غير معين ہو، ليکن ماہ رمضان کی قضا ميں ظہر سے عصر تک نيت کا جائز نہ ہونا احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٣ جو شخص ماہ رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معين کرے، مثلاً نيت کرے کہ قضا، نذر یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں، ليکن ماہ رمضان ميں یہ ضروری نہيں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے کی نيت کرے، بلکہ اگر اسے علم نہ ہو کہ رمضان ہے یا بھول جائے اورکسی دوسرے روزے کی نيت کرلے تب بھی وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۴ اگر کوئی جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجه کر رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی نيت کرلے تو وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہيں ہوگا اور اسی طرح بنابر احتياط واجب جس روزے کی نيت کی ہے وہ بھی روزہ شمار نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۵ اگر پهلے روزے کی نيت سے روزہ رکھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسری یاتيسری تاریخ تھی تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶۶ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے اور بے ہوش ہوجائے اور دن ميں کسی وقت ہوش آئے تو بنابر احتياط واجب ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کو پورا کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٧ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے پھر اس پر نشہ طاری ہو جائے اور دن ميں ہوش آئے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٨ اگر اذانِ صبح سے پهلے نيت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بيدار ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٩ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دیا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اور اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۲۵۲

مسئلہ ١ ۵ ٧٠ اگر بچہ ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے بالغ ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنا اس پر ضروری ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس پر روزہ واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ظہر سے پهلے بالغ ہو اور اس نے روزے کی نيت کر رکھی ہو تو روزہ پورا کرے اور اگر نيت نہ بھی کی ہو اورروزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو نيت کرے اور روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧١ جو شخص کسی ميت کے روزے اجرت لے کر رکھ رہا ہواس کے لئے مستحب روزہ رکھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن جس شخص کے ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں وہ مستحب روزے نہيں رکھ سکتا اوراگر رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ اس کے ذمّے ہو پھر بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظہر سے پهلے متوجہ ہوجائے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ليکن وہ اپنی نيت کو غير معين واجب روزے کی طرف پلٹا سکتا ہے ، جب کہ معين واجب روزے کی طرف نيت کو پلٹانا محل اشکال ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو وہ اپنی نيت کو واجب روزے کی طرف نہيں پلٹاسکتا اگر چہ واجب غير معين ہی کيوں نہ ہو اور یہ حکم ماہِ رمضان کے قضا روزوں ميں زوال کے بعد سے عصر تک احتياط واجب کی بناپر ہے ۔هاں، اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٢ اگر کسی شخص پر رمضان کے علاوہ کوئی معين روزہ واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ مقررہ دن روزہ رکہوں گا اور جان بوجه کر اذانِ صبح تک نيت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے تو اگرچہ ظہر سے پهلے یاد آجائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، بنا بر احتياط اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٣ اگر غير معين واجب روزے مثلاً کفارے کے روزے کے لئے، ظہر کے نزدیک تک عمداً نيت نہ کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ اگر نيت سے پهلے پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہيں رکھے گا یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پهلے نيت کر لے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۴ اگر کوئی کافر ماہ رمضان ميں ظہر سے پهلے مسلمان ہوجائے تو چاہے اس نے اذان صبح سے اس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، پھر بھی اس کا روزہ صحيح نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۵ اگر کوئی مریض ماہ رمضان کے دن کے وسط ميں ظہر سے پهلے یا اس کے بعد تندرست ہو جائے تو اِس دن کا روزہ اس پر واجب نہيں ہے خواہ اُس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔

۲۵۳

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۶ جس دن کے بارے ميں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا تو اُس پر واجب نہيں کہ وہ اس دن روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نيت نہيں کر سکتا، نہ ہی یہ نيت کر سکتا ہے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ اور اگر رمضان نہيں تو قضا یا اس جيسا کوئی اور روزہ رکھ رہا ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ کسی واجب روزے مثلاً قضا کی نيت کرلے یا مستحب روزے کی نيت کرے۔ چنانچہ بعد ميں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔ ہاں، اگر وہ یہ نيت کرے کہ جس چيز کا اسے حکم دیا گيا ہے اس کو انجام دے رہا ہوں اور بعد ميں معلوم ہو کہ رمضان تھا تو یہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٧ جس دن کے بارے ميں شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا دن، اگر اُس دن قضا یا اس کی مانند کوئی واجب یا مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٨ اگر کسی واجب معين روزے ميں جيسے ماہ رمضان کے روزے ميں انسان اپنی نيت سے کہ مبطلات روزہ سے خدا کی خاطر بچے، پلٹ جائے یا پلٹنے کے بارے ميں متردد ہو یا یہ نيت کرے کہ روزہ توڑنے والی چيزوں ميں سے کسی کو انجام دے یا متردد ہو کہ ایسی کوئی چيز انجام دے یا نہ دے تو اُس کا روزہ باطل ہے ، اگرچہ جو ارادہ کيا ہو اُس سے توبہ بھی کرے اور نيت کو روزے کی طرف بھی پهير دے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٩ وہ بات جس کے بارے ميں پچهلے مسئلے ميں بتایا گيا کہ واجب معين روزے کو باطل کردیتی ہے ،غير معين واجب روزے مثلاً کفارے یا غير معين نذر کے روزے کو باطل نہيں کرتی، لہٰذا اگر ظہر سے پهلے دوبارہ اپنی نيت کو روزے کی طرف پهير دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مبطلاتِ روزہ

مسئلہ ١ ۵ ٨٠ نو چيزیں روزے کو باطل کر دیتی ہيں ، اگر چہ ان ميں سے بعض چيزوںسے روزہ احتياط کی بنا پر باطل ہوتا ہے :

ا ) کھانا اور پينا

٢ ) جماع

٣ ) استمنا۔ استمنا یہ ہے کہ انسان اپنے یا کسی دوسرے کے ساته جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے۔

۴ ) خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

۵ ) احتياط واجب کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا۔

۲۵۴

۶ ) پورے سر کو پانی ميں ڈبونا۔

٧ ) اذانِ صبح تک جنابت حيض یا نفا س پر باقی رہنا۔

٨ٌ) کسی بهنے والی چيز سے انيما کرنا۔

٩ ) قے کرنا۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کھانا اور پينا

مسئلہ ١ ۵ ٨١ اگر روزہ دار اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر کوئی چيز کھائے یا پئے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا، خواہ وہ ایسی چيز ہو جسے عموماً کهایا یا پيا جاتا ہو جيسے روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کهایا یا پيا نہ جاتا ہو جيسے مٹی اور درخت کا شيرہ، خواہ کم ہو یا زیادہ، حتی اگر تری کو منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ ميں لے جائے اور نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا، سوائے ا س کے کہ یہ تری تهوک سے مل کر اِس طرح ختم ہو جائے کہ پھر اسے باہر کی تری نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٢ اگرکھانا کھانے کے دوران معلوم ہو جائے کہ صبح ہو گئی ہے توضروری ہے کہ لقمہ اگل دے اور اگر عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب ہو جائے گاجس کی تفصيلات آگے آئيںگی۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٣ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چيز کها یا پی لے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۴ دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حس کردینے والے انجکشن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اُس انجکشن سے پرہيز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۵ اگر روزہ دار دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی چيز کو اپنے روزے کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۶ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ اذان سے پهلے اپنے دانتوں ميں خلال کرے، ليکن اگر جانتا ہو یا اطمينان ہو کہ جو غذا دانتوں کے درميان ميں رہ گئی ہے وہ دن ميں اندر چلی جائے گی، چنانچہ وہ خلال نہ کرے اور وہ چيز پيٹ کے اندر چلی جائے تو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٧ لعاب دهن کو نگلنا، اگرچہ کهٹائی یا اس کی مانند چيزوں کے تصور سے منہ ميں جمع ہوجائے، روزے کو باطل نہيں کرتا۔

۲۵۵

مسئلہ ١ ۵ ٨٨ سر اور سينے کے بلغم کو نگلنے ميں ، جب تک کہ وہ منہ کے اندر والے حصے تک نہ پهنچے، کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر منہ ميں آجائيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ انہيں نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٩ اگر روزہ دار اِس قدر پياسا ہوجائے کہ اسے خوف ہو کہ وہ پياس کی وجہ سے مر جائے گا تو اس پر اتنا پانی پينا واجب ہے کہ مرنے سے نجات مل جائے، ليکن اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر رمضان ہو تو باقی دن روزہ باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز ضروری ہے ۔ اِسی طرح اگر اُسے خوف ہو کہ پانی نہ پينے کی وجہ سے اُسے قابلِ ذکر ضرر پهنچے گا یا پانی نہ پينا اُس کے لئے ایسی مشقّت کا باعث بنے گا جوعرفاً قابل برداشت نہ ہو تو اِن دو صورتوں ميں اِس قدر پانی پی سکتا ہے کہ اُس کا ضرر اور مشقّت دور ہو جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٠ بچے یا پرندے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا اور ان جيسی چيزوں کو چکهنا جو عام طور پر حلق تک نہيں پهنچتيں، اگر چہ اتفاق سے حلق تک پهنچ جائيں روزہ کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو یا مطمئن ہو کہ حلق تک پهنچ جائيں گی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور حلق تک پهنچنے کی صورت ميں اس پر کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ ١ ۵ ٩١ انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہيں چھوڑ سکتا، ليکن اگر کمزوری اِس حد تک ہو کہ روزہ دار کے لئے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھرروزہ چھوڑ دینے ميں کوئی حرج نہيں ۔

٢۔ جماع

مسئلہ ١ ۵ ٩٢ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے اگر چہ صرف ختنہ گاہ کے برابر داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔ اوربيوی کے علاوہ کسی اور سے جماع کی صورت ميں اگر منی خارج نہ ہو تو یہ حکم احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٣ اگر ختنہ گاہ سے کم مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۴ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اورختنہ گاہ کے برابر داخل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہواور پھر شک کرے کہ اُس مقدار کے برابر دخول ہوا ہے یا نہيں تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا ضروری ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ باقی دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيزکرے، ليکن کفارہ واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۵ اگر بھول جائے کہ روز ے سے ہے اور جماع کرلے یا بے اختيار جماع کرے تواس کا روزہ باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر دوران جماع اُسے یاد آجائے یا اُسے اختيار حاصل ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع کو ترک کردے اور اگر ترک نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۶

٣۔ استمنا

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۶ اگر روزہ دار استمنا کرے، یعنی جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اُس کی منی خارج ہو، تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٧ اگر بے اختيار، انسان کی منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٨ جو روزہ دار جانتا ہو کہ اگر دن ميں سو گيا تومحتلم ہو جائے گا یعنی نيند ميں اس کے جسم سے منی خارج ہو جائے گی، تو اُس کے لئے سونا جائز ہے اور اگر محتلم ہو جائے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔هاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نہ سوئے خصوصاً جب نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکليف بھی نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٩ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کی حالت ميں نيند سے بيدار ہوجائے تو اس کو خارج ہونے سے روکناواجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٠ جب روزہ دار محتلم ہوجائے تو وہ پيشاب اور استبرا کر سکتا ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ پيشاب اور استبرا کی وجہ سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔

مسئلہ ١ ۶ ٠١ جو روزہ دار محتلم ہو گيا ہو اگر وہ جانتا ہو کہ نالی ميں منی باقی رہ گئی ہے اورغسل سے پهلے پيشاب نہ کرنے کی صورت ميں غسل کے بعد منی خارج ہوگی تو بناء بر احتياط واجب ضروری ہے کہ غسل سے پهلے پيشاب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٢ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ عمداً منی خارج کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے ، اگر منی کے باہر آنے کی نيت سے مثلاً بيوی سے هنسی مذاق اور چھيڑ چھاڑ کرے تو چاہے منی خارج نہ بھی ہو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور ضروری ہے کہ قضا کرے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرنا بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٣ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کا ارادہ کئے بغير مثال کے طور پر اپنی بيوی سے چھيڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے، چنانچہ اگر اطمينان رکھتا ہو کہ اُس سے منی خارج نہ ہوگی اگر چہ اتفاق سے منی خارج ہو بھی جائے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اطمينان نہ ہو تو منی خارج ہونے کی صورت ميں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۴ ۔ خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ سے جهوٹ منسوب کرنا

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۴ اگر روزہ دار زبان سے، لکھ کر، اشارے سے یا کسی اور طریقے سے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے عمداً کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ فوراً یہ کہہ دے کہ ميں نے جھوٹ کها ہے یا توبہ کرلے، اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ جب کهباقی انبياء (علی نبينا و آلہ و عليهم السلام )اور ان کے اوصياء کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتياطِ واجب کی بنا پر روزے کو باطل کر دیتا ہے ، مگر یہ کہ ان سے دی ہوئی یہ جھوٹی نسبت الله تعالیٰ سے منسوب ہو جائے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۷

یهی حکم حضرت زهرا عليها السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے کا ہے سوائے اس کہ کے یہ جھوٹی نسبت خدا، رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی سے منسوب ہو جائے، کہ اس صورت ميں روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۵ اگر کوئی ایسی حدیث نقل کرنا چاہے جس کے متعلق نہ جانتا ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ اور اُس حدیث کے معتبر ہونے پر دليل بھی نہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جو اِس حدیث کا راوی ہے یا مثال کے طور پرجس کتاب ميں یہ حدیث تحریر ہے ، اس کا حوالہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۶ اگر کسی روایت کو سچ سمجھتے ہوئے، خدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ جھوٹ تھی تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٧ جو شخص جانتا ہو کہ خدا، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا روزے کو باطل کردیتا ہے اگر کسی چيز کو جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ جھوٹ ہے ، ان حضرات سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ جو کچھ کها تھا سچ تھا تو بھی اس کا روزہ باطل ہے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٨ کسی دوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کو اگر جان بوجه کر خدا، پيغمبر صلی الله

عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر جس نے جھوٹ گڑھا ہے اس کا قول نقل کرے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٩ اگر روزہ دار سے پوچها جائے کہ آیا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی ایک امام عليہ السلام نے اس طرح فرمایا ہے ، اور وہ جواب ميں جان بوجه کر ہاں کی جگہ نہيں اور نہيں کی جگہ ہاں کهے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٠ اگرخدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی امام عليہ السلام سے کوئی سچ بات نقل کرے، بعد ميں کهے کہ ميں نے جھوٹ کها تھا یا رات کو ان حضرات سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اور اگلے دن روزے کے عالم ميں کهے کہ جو ميں نے کل رات کها تھا وہ سچ ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۵ ۔ غبار حلق تک پهنچانا

مسئلہ ١ ۶ ١١ احتياط کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خوا ہ غبار اس چيز کاہو جس کا کھانا حلال ہے جيسے آٹا یا ایسی چيز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جيسے مٹی۔

مسئلہ ١ ۶ ١٢ اگر ہوا کی وجہ سے کوئی غبار پيدا ہو اور انسان متوجہ ہونے کے باوجود دهيان نہ رکھے اور غبار حلق تک پهنچ جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۸

مسئلہ ١ ۶ ١٣ احتياطِ واجب یہ ہے کہ روزہ دارگاڑھی بهاپ اور سگریٹ و تمباکو جيسی چيزوں کا دهواں بھی حلق تک نہ پهنچائے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۴ اگر دهيان نہ رکھے اور غبار، دهواں، گاڑھی بهاپ یا اس جيسی چيزیں حلق ميں داخل ہوجائيںتو اگر اسے یقين یا اطمينان تھا کہ یہ چيزیں حلق ميں نہ پهنچيں گی تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اسے گمان تھا کہ یہ حلق تک نہيں پهنچيں گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۵ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور دهيان نہ رکھے یا بے اختيار غبار یا اس جيسی چيز اُس کے حلق تک پهنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

۶ ۔ سر کو پانی ميں ڈبونا

مسئلہ ١ ۶ ١ ۶ اگر روزہ دار جان بوجه کر سارا سر پانی ميں ڈبودے تو اگرچہ باقی بدن پانی سے باہر رہے، اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، ليکن اگر سارا بدن پانی ميں ڈوب جائے اور سر کا کچھ حصہ باہر رہے تو روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٧ اگر آدهے سر کو ایک بار اور اس کے دوسرے آدهے حصے کو دوسری بار پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٨ اگر شک کرے کہ پورا سر پانی کے نيچے چلا گيا ہے یا نہيں تو اس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر سارا سر ڈبونے کی نيت سے پانی کے نيچے چلا جائے اور شک کرے کہ پورا سر پانی ميں ڈوبا یا نہيں تو اس کا روزہ باطل ہوگا اگر چہ کفارہ نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ١٩ اگر پورا سر پانی کے نيچے چلا جائے ليکن بالوں کی کچھ مقدار باہر رہ جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٠ پانی کے علاوہ دیگربهنے والی چيزوں مثلاً دودھ اور آب مضاف ميں سر کو ڈبونا روزے کو باطل نہيں کرتا اور احتياطِ واجبيہ ہے کہ سر کو عرق گلاب ميں ڈبونے سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢١ اگر روزہ دار بے اختيار پانی ميں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی ميں ڈوب جائے یا وہ بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٢ اگر روزہ دار یہ سمجھ کر اپنے آپ کو پانی ميں گرادے کہ اس کا سر پانی ميں نہيں ڈوبے گا ليکن اس کا سارا سر پانی ميں ڈوب جائے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٣ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے یا کوئی دوسرا شخص زبردستی اس کا سر پانی ميں ڈبودے، چنانچہ اگر پانی کے اندر اُسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا وہ شخص اپنا ہاتھ ہٹالے تو ضروری ہے کہ اِسی وقت فوراً سر کو باہر نکالے اور اگر باہر نہ نکالے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

۲۵۹

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۴ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور غسل کی نيت سے سر کو پانی ميں ڈبودے تو اُس کا روزہ اور غسل دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر غسل کے لئے اپنا سر پانی ميں ڈبودے تو اگر اُس کا روزہ رمضان کا ہو تو اس کاروزہ اور غسل دونوں باطل ہيں اور رمضان کے قضا روزے کے لئے بھی جسے اپنے لئے انجام دے رہا ہو، احتياط کی بنا پر زوال کے بعد یهی حکم ہے ، ليکن اگر مستحب روزہ ہو یا کوئی اور واجب روزہ ہو خواہ واجب معين ہو جيسے کہ کسی معين دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہو، خواہ واجب غير معين ہو جيسے کفارے کا روزہ، تو اس صورت ميں اُس کا غسل صحيح ہے اور روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۶ اگر روزہ دار کسی شخص کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا خواہ اس شخص کوڈوبنے سے بچانا واجب ہی کيوں نہ ہو۔

٧۔ جنابت، حيض اور نفاس پر اذان صبح تک باقی رہنا

مسئلہ ١ ۶ ٢٧ اگر جنب جان بوجه کر ماہ رمضان ميں اذان صبح تک غسل نہ کرے یا اگر اس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بعد ميں آئے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٨ اگر جنب ماہ رمضان اور اس کی قضا کے علاوہ مستحبی یا واجب روزوں ميں کہ جن کا وقت معين ہو جان بوجه کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ واجب روزے ميں جان بوجه کر حالتِ جنابت پر باقی نہ رہے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٩ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے یهاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے تواحتياطِ واجب کی بنا پرضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٠ اگرجنب ماہ رمضان ميں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد یاد آئے توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر کئی دنوں بعد یاد آئے تو جتنے دن جنب ہونے کا یقين تھا ان کی قضا کرے، مثال کے طور پر اگر وہ نہ جانتا ہو کہ تين دن جنب تھا یا چار دن ؟ تو ضروری ہے کہ تين دن کے روزوں کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣١ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں غسل اور تيمم ميں سے کسی کا وقت نہ رکھتا ہو اگر وہ اپنے آپ کو جنبکرے تو اس کا روزہ باطل ہو گا اور اس پر قضا اور کفارہ واجب ہيں ، ليکن جس کی ذمہ داری غسل ہو، اگر تيمم کرنے کے لئے وقت رکھتا ہو چنانچہ اپنے آپ کو جنب کرے تو بنا بر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اوراس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511