توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207706 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حدیث

168۔ رسول خدا(ص): عقل سے رہنمائی حاصل کروتا کہ ہدایت پا جاؤ اور عقل کی نافرمانی مت کرو کہ پشیمان ہوگے۔

169۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل کے استعمال سے عاجز ہے وہ اس کے حاصل کرنے سے زیادہ عاجز ہے۔

170۔ امام علی(ع) : عقلمند ادب سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور چوپائے مار کھائے بغیر قابو میں نہیں آتے ۔

171۔ امام علی(ع) : جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

172۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل میں جتنا پیچھے ہوتا ہے وہ جہالت میں اتنا ہی آگے ہوتا ہے ۔

173۔ امام علی(ع) : ہم خدا کی پناہ چاہتے ہیں عقل کے خواب غفلت سے اور لغزشوں کی برائیوں سے ۔

174۔ امام علی(ع) : جو شخص غور و فکر نہیں کرتا وہ بے وقعت ہو جاتا ہے اور جو بے وقعت ہو جاتا ہے اسکی کوئی عزت نہیں ہوتی۔

175۔ امام علی(ع) : اے لوگو! جن کے نفس مختلف اور دل متفرق ہیں، بدن حاضر اور عقلیں غائب ہیں، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس سے اس طرح فرار کر رہے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں۔

176۔ امام علی(ع) :نے اپنے اصحاب کومخاطب کرکے فرمایا: اے وہ قوم جسکے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب تمہارے خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں، تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے ۔

177۔ امام صادق(ع): جب خداا پنے کسی بندہ سے نعمت سلب کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسکی عقل کو بدل دیتا ہے ۔

178۔ امام کاظم (ع)نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجتیں تمام کی ہیں....پھر صاحبان عقل کو وعظ و نصیحت کی اور انہیں آخرت کی ترغیب دلائی اور فرمایا( اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے اور دار آخرت صاحبان تقویٰ کے لئے سب سے بہتر ہے ۔ کیا تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آرہی ہے )

۴۱

اے ہشام! پھر وہ لوگ جو فکر کرنے والے نہیں ہیں خدا نے انہیں اپنے عقاب سے ڈرایا اورفرمایا (پھر ہم نے سب کو تباہ و برباد بھی کر دیا، تم ان کی طرف سے برابر صبح کو گذرتے ہو ، اور رات کے وقت بھی تو کیا تمہیں عقل نہیں آرہی ہے ) اور فرمایا( ہم اس بستی پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کہ یہ لوگ بڑی بدکاری کر رہے ہیں، اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کےلئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

اے ہشام! عقل علم کے ساتھ ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے (اور یہ مثالیں ہم تمام عالمِ انسانیت کےلئے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے )

اے ہشام! پھر خدا نے غور وخوض نہ کرنے والوںکی مذمت کی اور فرمایا( جب ان سے کہا جاتا ہے جو کچھ خد انے نازل کیا ہے اسکی اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اسکی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا یہ ایسا ہی کرینگے چاہے انکے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں) اور فرمایا( جو لوگ کافر ہو گئے ہیں انکو پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور سمجھیں یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے ) اور فرمایا( اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو بظاہر کان لگا کر سنتے بھی ہیں لیکن کیا آپ بہروںکو بات سنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ سمجھتے بھی نہیںہیں) اور فرمایا( کیا آپکا خیال یہ ہے کہ انکی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب چوپایوںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہیں) اور فرمایا( یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہیںکرینگے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میںہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں انکی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیںہر گز نہیں انکے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے)۔اور فرمایا:( اور تم اپنے نفسوں کو بھلا بیٹھے جبکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)

۴۲

اے ہشام! خدا وند عالم نے اکثریت کی مذمت کی اور فرمایا( اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کرینگے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دینگے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کےلئے ہے اور انکی اکثریت بالکل جاہل ہے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہہ دیجئے کہ ساری حمد اسی کےلئے ہے اور انکی اکثریت عقل کا استعمال نہیں کر رہی ہے )

اے ہشام! پھر اللہ تعالیٰ نے اقلیت کی مدح کی اور فرمایا( اور ہمارے بندوں میں شکر گذار بندے کم ہیں) اور فرمایا( اور وہ بہت کم ہیں) اور فرمایا( اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ اس شخص کو صرف اس بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ) اور فرمایا( اور صاحبان ایمان کو بھی لے لو اور ان کے ساتھ ایمان والے بہت ہی کم ہیں) اور فرمایا( لیکن ان کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی) اور فرمایا( او رانکی اکثریت اس بات کو نہیںسمجھتی ۔)

179۔ا مام رضا(ع): بے عقل دینداروں کی طرف توجہ نہیں کی جائیگی۔

180۔ اسحاق بن عمار: میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں! میرا پڑوسی بہت زیادہ نمازیں پڑھتا ہے ، بے پناہ صدقہ دیتا ہے، کثرت سے حج کرتا ہے اور نہایت معقول انسان ہے ، امام نے فرمایا: اے اسحاق! اس کی عقل کیسی ہے ؟ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو جائے ، عقل سے کو را ہے ، پھر آپؑ نے فرمایا: اس کے اعمال اسی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں۔

۴۳

3/3

عقل کا حجت ہونا

181۔ رسول خدا(ص): حق جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رہو، جو چیزیں تم پر مشتبہ ہو جائیں انہیں اپنی عقل کے ذریعہ جدا کرو ، کیوں کہ عقل تم پر خدا کی حجت اور تمہارے پاس اسکی امانت اور برکت ہے ۔

182۔ امام علی(ع) : عقل حق کا رسول ہے ۔

183۔ امام علی(ع) : عقل ، باطنی شریعت اور شریعت، ظاہری عقل ہے ۔

184۔ اما م صادق(ع): نبی بندوں پر خدا کی حجت ہے اور عقل بندوں اور خدا کے درمیان حجت ہے ۔

185۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! خدا کی لوگوںپر دو حجتیں ہیں: حجت ظاہری اور حجت باطنی، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین،اور ائمہ ہیں لیکن حجت باطنی عقل ہے۔

186۔ امام کاظم (ع): نے نیز ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں پر عقل کے ذریعہ حجتیں تمام کی ہیں، (قوت) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد کی ہے اور براہین کے ذریعہ انہیں اپنی ربوبیت سے آشنا کیاہے ۔

187۔ ابویعقوب بغدادی : ابن سکیت نے امام رضاکی خدمت میں عرض کیا.....خدا کی قسم میں نے آپ کے مثل کسی کو نہیں دیکھا، آج خلق پر خدا کی حجت کون ہے ؟ فرمایاؑ: عقل ہے کہ جس کے ذریعہ خدا کے متعلق سچ بولنے والوں کی پہچان اور ان کی تصدیق ہوتی ہے ، خدا پرجھوٹ باندھنے والوں کی شناخت اور ان تکذیب کی ہوتی ہے، ابو یعقوب کہتے ہیںکہ ابن سکیت نے کہا: خدا کی قسم ، یہی( واقعی) جواب ہے ۔

۴۴

3/4

اعمال کے حساب میں عقل کا دخل

188۔ امام علی(ع) : خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لیگا۔

189۔ امام باقر(ع): خدا نے جو چیزیں موسیٰ بن عمران پر نازل کی ہیں ان میں سے بعض کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب موسیٰ پر وحی نازل ہوی....تو اس وقت خدا نے فرمایا: میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

190۔ امام باقر(ع): خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق روز قیامت دقیق حساب لیگا۔

191۔ امام باقر(ع): میں نے علی(ع) کی کتاب پر نظر ڈالی تو مجھے یہ بات ملی کہ: ہر انسان کی قیمت اور اسکی قدر و منزلت اسکی معرفت کے مطابق ہے اور خدا نے دنیا میں بندوںکو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق اسکا حساب لیگا۔

3/5

اعمال کی جزا میں عقل کااثر

192۔ رسول خدا(ص): اگر تمہارے پاس کسی شخص کے نیک چال چلن کے متعلق خبر پہنچے تو تم اس کے حسن عقل کو دیکھو، کیونکہ جزاعقل کے اعتبارسے دی جاتی ہے ۔

193۔رسول خدؐا: اگر کسی کوبہت زیادہ نماز گذار اور زیادہ روزہ دار پاؤ تواس پر فخر و ماہات نہ کرو جب تک کہ اسکی عقل کو پرکھ نہ لو۔

۴۵

194۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جونمازی، زکات دینے والاحج و عمرہ بجالانے والا اور مجاہدہے اسے روز قیامت اسکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

195۔ رسول خدا(ص): جنت کے سو درجے ہیں، نناوے درجے صاحبان عقل کے لئے ہیں اور ایک درجہ بقیہ تمام افراد کے لئے ہے ۔

196۔ رسول خدا(ص): ایک شخص پہاڑ کی بلندی پر ایک گرجا گھرمیں عبادت کیا کرتا تھا، آسمان سے بارش ہوئی زمین سر سبز ہو گئی جب اس نے گدھے کو چرتے دیکھا تو کہا: پروردگارا!! اگر تیرا بھی گدھا ہوتا تو میں اپنے گدھے کے ساتھ اسے بھی چراتا، چنانچہ جب یہ خبر بنی سرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کو ملی تو انہوںنے اس عابد کے لئے بد دعا کرنی چاہی تو خدا وند عالم نے اس نبی پر وحی نازل کی ، '' میں بندوںکو ان کی عقل کے مطابق جزا دونگا''۔

197۔ تحف العقول: ایک گروہ نے پیغمبر اسلامؐ کی خدمت میںایک شخص کی تعریف کی اور اسکی تمام خوبیوں کو بیان کیا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اس شخص کی عقل کیسی ہے؟ انہوںنے کہا: اے رسولخدؐا! ہم آپکو عبادت میں اسکی کوشش و جانفشانی اور اسکی دوسری خوبیوں کی خبر دے رہے ہیں اور آپ ہم سے اسکی عقل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟! آپؐ نے فرمایا: احمق اپنی حماقت کے سبب گنہگار سے زیادہ فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے ، یقینا بندے روز قیامت اپنی عقل کے مطابق بلند درجات پر فائز ہونگے اور اپنے پروردگار کا تقرب حاصل کرینگے ۔

198۔ رسول خدا(ص):( لوگوںنے جب آپکے سامنے کسی شخص کی بہترین عبادت کی تعریف کی) تو آپ نے فرمایا: اسکی عقل کو دیکھو؛ اس لئے کہ روز قیامت بندوں کو انکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

۴۶

199۔ امام باقر(ع): موسیٰ بن عمران ؑنے دیکھا کہ بنی اسرائیل کاا یک شخص طولانی سجدے کر تا ہے اور گھنٹوںخاموش رہتا ہے۔جہاں بھی موسیٰ ؑجاتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لیتا تھا ایک روز جناب موسیٰ کسی کام کے تحت ایک ہری بھری اور سبزوادی سے گذرے تو اس مرد عبادت گذار نے ایک سرد آہ بھری ، جناب موسیٰ نے اس سے کہا: کیوں آہ بھر رہے ہو؟! اس نے کہا: مجھے اس چیز کی تمنا ہے کہ کاش میرے پروردگار کاکوئی گدھا ہوتا تو میں اسے یہاںچراتا ، جناب موسیٰؑ اسکی اس بات سے اس قدر غمگین ہوئے کہ کافی دیر تک اپنی نظروں کو زمین کی طرف جھکائے رکھا، اتنے میں جناب موسیٰ پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰ میرے بندہ کی بات تم پر اتنی گراں کیوں گذری ؟!میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

200۔ سلیمان دیلمی( کابیان ہے کہ) میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت، دینداری اور فضیلتوں کا تذکرہ کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اسکی عقل کیسی ہے ؟! میںنے کہا: مجھے نہیں معلوم، فرمایا: ثواب عقل کے مطابق دیا جائیگا اس لئے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص سر سبز و شاداب، درختوں اور پانی سے لبریز جزیرہ میں خدا کی عبادت کیا کرتا تھا۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اس کے قریب سے گذرا تو اس نے کہا پروردگارا! اپنے اس بندہ کا ثواب مجھے دکھا دے ، پس خدا وند نے اسے اپنے اس بندہ کا ثواب دکھایا لیکن فرشتہ کی نظر میں وہ ثواب بہت معمولی تھا تو خدا نے فرشتہ پر وحی کی کہ اس کے ہمراہ ہو جاؤ، فرشتہ انسانی شکل میں اس کے پاس آیا اور عابد نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ کہا: میں ایک عبادت گذار شخص ہوں مجھے تمہاری اس جگہ عبادت کی اطلاع ملی تو میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ خد اکی عبادت کروں، لہذا پورے دن وہ فرشتہ اس عابد کے ساتھ رہا، دوسرے روز فرشتہ نے اس سے کہا تمہاری جگہ پاک و پاکیزہ ہے صرف عبادت کے لئے موزوں ہے ، مرد عابد نے کہا: ہماری اس جگہ میں ایک عیب ہے ، فرشتہ نے پوچھا : وہ عیب کیاہے ؟ کہا: ہمارے پروردگارکے پاس کوئی چوپایہ نہیںہے ، اگر خدا کے پاس ایک گدھا ہوتا تو ہم یہاں پر اسے چراتے اس لئے کہ یہ گھاس تلف ہو رہی ہے ، فرشتہ نے اس سے کہا: تمہارا پروردگار گدھا کیا کریگا؟ مرد عابد نے کہا: اگر خدا کے پاس گدھا ہوتا تو یہ گھاس برباد نہ ہوتی ، پس خدا نے فرشتہ پر وحی نازل کی ، کہ میں اس کو اسکی عقل کے مطابق ثواب دونگا۔

۴۷

چوتھی فصل عقل کے رشد کے اسباب

4/1

عقل کی تقویت کے عوامل

الف۔ وحی

( اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکاہے اور ہم نے تم پر روشن نور بھی نازل کر دیا ہے )

(اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ تاریکیوں سے نکا لکر روشنی میں لے آتا ہے اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھروں میں لے جاتے ہیں۔ یہی تو جہنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں)

(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں خود تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے ہو)

ملاحظہ کریں:بقرہ :242، نور: 61، یوسف:2، زخرف:3

۴۸

حدیث

201۔ امام علی (ع): پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے ، انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیںاور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں، تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔

202۔ امام علی (ع)نے رسولخدا ؐ کی بعثت کی توصیف میں فرمایا: خدا نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ خدا کی طرف راہنمائی اور ہدایت کریں، خدا نے انکے ذریعہ ہمیں گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکالا ہے۔

203۔ امام علی (ع): خدا وند متعال نے اسلام کو بنایا اور اسکے راستوں کو اس پر چلنے والوں کےلئے آسان کیا ، اسکے ارکان کو دشمنوںکے مقابل میں پائدار کیا، اسلام کو اسکے اطاعت گذاروں کےلئے باعث عزت اور اس میں داخل ہونے والوں کےلئے سبب صلح و آشتی ...ذہین و ہوشیار انسان کےلئے فہم اور عقلمند کے لئے یقین قرار دیاہے۔

204۔ امام علی (ع): یہاں تک کہ خدا وند سبحان نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جنکے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اورجنکی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود تھی، اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے، کوئی خدا کو مخلوقات کے شبیہ بنا رہا تھا، کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا، کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا، مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا۔

۴۹

ب۔ علم

قرآن

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور انہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا مگر صاحبان علم ہے ۔

حدیث

205۔ رسول خدا(ص): علم جہالت کی نسبت دلوںکی زندگی، تاریکی سے چھٹکارا پانے کے لئے آنکھوںکی روشنی، اور کمزوری سے نجات پانے کے لئے بدن کی طاقت ہے ۔

206۔ امام علی (ع): تم عقل کے ذریعہ تولے جاؤگے لہذا علم کے ذریعہ اسے بڑھاؤ۔

207۔ امام علی (ع): عقل کے رشد کے لئے بہترین چیز تعلیم ہے ۔

208۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربہ سے بڑھتی ہے ۔

209۔ امام علی (ع): علم، عقلمند کی عقل میں اضافہ کرتاہے ۔

210۔ امام صادق(ع): حکمت کے متعلق زیادہ غور وخوض عقل کو نتیجہ خیز بناتاہے ۔

211۔ امام صادق(ع): علم کی موشگافیاں کرنے سے عقل کے دریچے کھلتے ہیں۔

212۔ امام رضا(ع): جو شخص سوچتا ہے سمجھ لیتا ہے جوسمجھ لیتا ہے عقلمند ہو جاتا ہے ۔

۵۰

ج۔ ادب

213۔ رسول خدا(ص): حسن ادب عقل کی زینت ہے ۔

214۔ امام علی (ع): ہر چیز عقل کی محتاج ہے لیکن عقل ادب کی محتاج ہے۔

215۔ امام علی (ع): صاحبان عقل کو ادب کی اس طرح ضرورت ہے کہ جس طرح زراعت کوبارش کی ضرورت ہے ۔

216۔ امام علی (ع): عقل کا بہترین ہمنشیں ادب ہے ۔

217۔ امام علی (ع): ادب عقل کی صورت ہے ۔

218۔ امام علی (ع): عقل کی بھلائی ادب ہے ۔

219۔ امام علی (ع): ادب عقل کے لئے نتیجہ خیز اور دل کی ذکاوت ہے ۔

220۔ امام علی (ع): جس کے پاس ادب نہیںہے وہ عقلمند نہیں۔

221۔ امام علی (ع): جس طرح آگ کو لکڑی کے ذریعہ شعلہ ور کرتے ہو اسی طرح عقل کو ادب کے ذریعہ رشد عطا کرو۔

222۔ امام زین العاب دین (ع): علماء کا ادب عقل کی فراوانی کا سبب ہے ۔

۵۱

د۔ تجربہ

223۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربات سے بڑھتی ہے ۔

224۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ،عقل ایسی فطرت ہے جو تجربات سے پروان چڑھتی ہے ۔

225۔ امام علی (ع): فطرت کا بہترین مددگار ادب اور عقل کا بہترین معاون تجربہ ہے ۔

226۔ امام علی (ع): تجربات ختم نہیں ہوتے عاقل انہیں کے ذریعہ ترقی کرتا ہے۔

227۔ امام حسین (ع): طویل تجربہ عقل کی افزائش کا سبب ہے ۔

ھ۔ زمین میں سیر

قرآن

( کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ انکے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سن سکتے اس لئے کہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں)

( آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ہے اس کے بعد وہی آخرت میں ایجاد کریگا، بیشک وہی ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے )

( اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

(پس آج ہم تیرے بد ن کو بچا لیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوںکے لئے نشانی بن جائے ، اگر چہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں)

۵۲

حدیث

228۔ ابن دینار : خدا نے حضرت موسیؑ کو وحی کی کہ لوہے کی نعلین پہن کر اور عصا لیکر زمین میں گردش کرو اور (گذشتگان کی) عبرت و آثارڈھونڈھو ، یہاں تک کہ نعلین گھس جائے اور عصا ٹوٹ جائے۔

229۔ داؤد(ع): علماء سے کہہ دیجئے کہ آہنی عصا لیکر اور آہنی نعلین پہن کر علم کی تلاش میں نکلیں، یہاں تک کہ عصا ٹوٹ جائے اور نعلین پھٹ جائے ۔

و۔مشورہ

230۔ امام علی (ع): جو صاحبان عقل سے مشورہ لیتاہے وہ عقل کی روشنی سے مالا مال ہو جاتا ہے۔

ز۔ تقویٰ

231۔ سید ابن طاؤس : مجھے ایک کتاب دستیاب ہوئی...... جس پر( سنن ادریس)مرقوم تھا ، اس میں لکھا تھا یاد رکھو اور یقین کرو کہ تقوائے الٰہی بہترین حکمت اور عظیم ترین نعمت ہے اور ایسا وسیلہ ہے جو خیر کی طرف دعوت دیتا ہے اور نیکی ،فہم اور عقل کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔

۵۳

ح۔ جہاد بالنفس

232۔ امام علی (ع): اپنی شہوت کا مقابلہ کرو، اپنے غصہ پر قابو رکھو اور اپنی بری عادتوں کی مخالفت کرو تاکہ تمہاری روح پاک اور تمہاری عقل کامل ہو جائے اور اپنے پروردگار کا ثواب اچھی طرح حاصل کر سکو۔

223۔ امام صادق(ع): امیر المومنینؑ: نے اپنے کسی صحابی کے پاس خط لکھ کر اس طرح نصیحت کی ، تمہیں اور خود اپنے نفس کو اس خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ جس کی نافرمانی مناسب نہیں ، اس کے سوا کوئی امید نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بے نیازی نہیں، جو خوف خدا رکھتا ہے جلیل و عزیز، قوی اور سیر و سیراب ہوجاتا ہے خوف خدا اسکی عقل کو اہل دنیا سے باز رکھتا ہے ، اس کا بدن اہل دنیا کے ساتھ ہوتاہے لیکن اس کا دل اور عقل آخرت کا نظارہ کرتی ہے آنکھیں جن چیزوں کو حب دنیا سے لبریز دیکھتی ہیں نور دل کے ذریعہ انہیں بجھا دیتاہے ، حرام دنیا سے چشم پوشی اور شبہات سے پرہیز کرتا ہے خدا کی قسم حلال و مباح سے بھی اجتناب کرتا ہے صر ف ان ٹکڑوں پر گذاراکرتا ہے کہ جن سے اپنی حیات باقی رکھ سکے اور کھردرے و سخت لباس کے ذریعہ اپنی شرمگاہوں کو چھپاتا ہے۔ اپنی حاجتوں میں کسی پر اعتماد اور کسی سے امید نہیں رکھتا تاکہ اعتماد و امید صرف خالق کائنات سے ہو۔ کوشش و جانفشانی کرتا ہے کہ اپنے بدن کو اس قدر زحمت میں ڈالے کہ ان کی پسلیاں دکھائی پڑنے لگیں اور آنکھیں گہرائی میں چلی جائیں پھر خدا اس کے عوض بدن میں طاقت اور عقل کو قوت عطا کرتا ہے اور آخرت کے لئے جو ذخیرہ کرتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

۵۴

ط۔ ذکر خدا

234۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کا نور، روح کی زندگی اور سینوںکی جلاء ہے ۔

235۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ذکر خدا کرتا ہے اسکی عقل منور ہو جاتی ہے ۔

236۔ امام علی (ع): جو شخص خدائے سبحان کو یاد کرتا ہے خداا سکے دل کو زندہ رکھتا ہے اور اسکی عقل و خرد کو منور کر دیتا ہے۔

237۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کو انس اور دل کو روشنی عطا کرتا ہے اوررحمت خدا کو کھینچتا ہے۔

238۔ امام علی (ع): یاد خدا عقل کو ہدایت اور روح کو بصیرت عطا کرتا ہے۔

ی۔ دنیا سے بے رغبتی

239۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو دنیا کی بخشش و عطا سے بے نیاز رکھتا ہے اس نے عقل کو کامل کر لیاہے۔

ک: حق کا اتباع

240۔ رسول خدا(ص): ناصح کا اتباع عقل و خرد کی افزائش اور کمال کا سرچشمہ ہے ۔

241۔ اعلام الدین : جب معاویہ کے سامنے عقل کا تذکرہ آیا تو امام حسین (ع) نے فرمایا: عقل اتباع حق کے بغیر کامل نہیںہو سکتی، معاویہ نے کہا: آپ حضرات کے سینوںمیں صرف ایک چیز ہے ۔

242۔ امام کاظم (ع): جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: حق کے سامنے جھک جاؤ تاکہ لوگوں میں سب سے بڑے عقلمند قرار پاؤ۔

۵۵

ل۔ حکماء کی ہمنشینی

243۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی اختیار کرو تاکہ تماری عقل کامل ہو، نفس کو شرف ملے اور جہالت کا خاتمہ ہو جائے۔

244۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی دلوںکی حیات اور روح کی شفاء ہے ۔

م۔ جاہلوں پر رحم

245۔ امام علی (ع): محکم ترین عقل کی نشانیوںمیں سے جاہلوں پر رحم کرنا ہے ۔

ن۔ خدا سے مدد چاہنا

246۔ امام زین العاب دین (ع):خدایا! مجھے کامل عقل ، عزم مصمم، ممتاز تدبیر، تربیت یافتہ دل، بے شمار علم اور بہترین ادب عنایت فرما، ان تمام چیزوںکو میرے لئے مفید قرار دے اے ارحم الراحمین تیر رحمت کا واسطہ انہیں میرے لئے ضرر رساں قرار نہ دے۔

247۔ ان مناجات میں مرقوم ہے جو جبریل امین رسول خدا کے پاس لائے تھے، بار الٰہا! میرے گناہوںکو توبہ کے ذریعہ مٹا دے میری توبہ کی قبولیت کے ذریعہ میرے عیوب کو دھو دے اور انہیں میرے دل کے زنگ کے لئے صیقل اور عقل کی تیز بینی کا سبب قرار دے۔

248۔ امام مہدیؑ: نے اس دعا میں فرمایا جو محمد بن علی علوی مصری کو تعلیم دی ہے ، خدایا! میں تیری بارگاہ میںسوال کرتا ہوں.... کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج، میرے دل کی رہنمائی کر اور میری عقل کو میرے لئے سازگار بنا۔

۵۶

4/2

مقویات دماغ

الف: تیل

249۔۔ امام علی (ع): تیل جلد کو ملائم اور دماغ کو پڑھاتاہے ۔

250۔ امام صادق(ع): بنفشہ کا تیل دماغ کو تقویت عطا کرتا ہے ۔

ب: کدو

251۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے علی (ع)! تم کدو ضرور کھایا کرو کیوں کہ یہ دماغ اور عقل کوبڑھاتاہے۔

252۔ انس: رسول خدا(ص) کدو زیادہ کھاتے تھے، میںنے کہا: اے رسول خدا! آپ کدو پسند کرتے ہیں! فرمایا: کدو دماغ کو بڑھاتا اور عقل کو قوی کرتا ہے ۔

253۔ رسول خدا(ص): کدو(کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے اس لئے کہ عقل کو زیادہ اور دماغ کو بڑھاتا ہے ۔

254۔ رسول خدا(ص): میٹھا کدوکھایا کرو،خدا کے علم میں اس سے زیادہ سبک کوئی درخت ہوتا تو اسے برادرم یونس کے لئے اگاتا، تم میں سے جو بھی شوربا بنائے اسے چاہئے کہ اس میںکدو زیادہ ڈالے اس لئے کہ وہ دماغ اور عقل کو بڑھاتا ہے ۔

۵۷

ج:بہی

255۔ امام رضا(ع): بہی (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے۔

د:کرفس(خراسانی اجوائن)

256۔ رسول خدا(ص): کرفس (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کیوں کہ اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔

ھ: گوشت

257۔ امام صادق ؑ: گوشت، گوشت بڑھاتا ہے اور عقل میں اضافہ کرتا ہے جو شخص چند دنوں گوشت نہیں کھاتا اس عقل خراب ہو جاتی ہے ۔

258۔ امام صادق(ع): جو شخص چالیس دن گوشت نہیںکھاتا بد اخلاق ہو جاتا ہے اور اسکی عقل خراب ہو جاتی ہے اور جو بد اخلا ق ہو جائے اس کے کان میں آوازسے اذان دی جائے۔

۵۸

و: دودھ

259۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے دودھ پینا ضروری ہے کیوں کہ دودھ حرارت قلب کو اس طرح دور کرتا ہے کہ جس طرح انگلی پیشانی سے پسینہ کو صاف کرتی ہے ، اور کمر کو مضبوط، عقل کو زیادہ اور ذہن کو تیز کرتا ہے ، آنکھوںکو جلاء بخشتا ہے اور نسیان کو دور کرتا ہے ۔

260۔ رسول خدا(ص):اپنی حاملہ عورتوں کو دودھ پلاؤ کیوں کہ شکم مادر میں جب بچہ کی غذا ددھ ہوگی تو اس کا دل قوی اور دماغ اضافہ ہوگا۔

ز: سرکہ

261۔ امام صادق(ع): سرکہ عقل کو قوی بناتا ہے ۔

262۔ محمد بن علی ہمدانی : خراسان میں ایک شخص امام رضا(ع) کی خدمت میں تھا آپ ؑ کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا کہ جس پر سرکہ اور نمک تھا، امام ؑ نے کھانے کا آغا ز سرکہ سے کیا، اس شخص نے کہا : میں آپ پر فدا ہو جاؤں! ہمیں آپ نے نمک سے آغاز کرنے کا حکم دیا ہے ؟ فرمایاؑ: یہ بھی ایسا ہی ہے ، سرکہ ذہن کو قوی بناتاہے اور عقل کو بڑھاتاہے ۔

ح: سداب( کالا دانہ)

263۔ امام رضا(ع): سداب عقل کو بڑھاتاہے ۔

۵۹

ط: شہد

264۔ امام کاظمؑ: شہد ہرمرض کےلئے شفاء ہے جو ناشتہ میں ایک انگلی شہد کندر کےساتھ کھائے اسکا بلغم زائل ہو جائیگا، صفراء کو زائل کرتا ہے اور سودا میں تلخی نہیں پیدا ہونے دیتا،ذہن کو صاف و شفاف اور حافظہ کو قوی بناتا ہے ۔

ی: انار کو اس کے باریک چھلکوں کے ساتھ کھانا

265۔ امام صادق(ع): انار کو اس کے باریک جھلکوںکے ساتھ کھاؤ کہ معدہ کو صاف اور ذہن کو بڑھاتا ہے ۔

ک: پانی

266۔ ابو طیفور متطبِّب: کا بیان ہیکہ میں امام کاظم (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اورانہیں پانی پینے سے منع کیا، امام ؑ نے فرمایا: پانی سے کیا نقصان ہے بلکہ کھانے کو معدہ میں گھماتا ہے ، غصہ کو ختم کرتا ہے ، دماغ کو بڑھاتا ہے اورتلخی کو دور کرتاہے ۔

ل: حجامت(فصد کھلوانا)

267۔ رسول خدا(ص): حجامت (فصد کھلوانا)عقل کو بڑھاتی اور حافظہ کو قوی کرتی ہے ۔

268۔ رسول خدا(ص): ناشتہ کے وقت حجامت زیادہ مفید ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے،حافظہ قوی اور حافظ کے حافظہ میں اضافہ ہوتاہے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

مسئلہ ١١٢١ اگر کوئی شخص ایک ایسی چيز بھول جائے جو رکن نہ ہو اور اس چيز کو بجالائے جو اس کے بعد ہو اور وہ بھی رکن نہ ہو مثلاً الحمدبھول جائے اور سورہ پڑھ لے، تو ضروری ہے کہ جو چيز بھول گيا ہو اسے بجا لائے اور اس کے بعد وہ چيزجو بھول کر پهلے پڑھ لی ہو دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٢٢ اگر کوئی شخص پهلا سجدہ اس خيال سے بجالائے کہ دوسرا سجدہ ہے یا دوسرا سجدہ اس خيال سے بجالائے کہ پهلا سجدہ ہے تو اس کی نماز صحيح ہے اور اس کا پهلا کيا ہو سجدہ،پهلا اور بعدميں کيا ہو اسجدہ، دوسرا سجدہ شمار ہو گا۔

موالات

مسئلہ ١١٢٣ ضروری ہے کہ انسان نماز موالات کے ساته پڑھے یعنی نماز کے افعال مثلا رکوع،سجود او رتشهد تسلسل کے ساته انجام دے اور ان کے درميان اتنا فاصلہ نہ ڈالے کہ نماز کی شکل ختم ہو جائے، اسی طرح جو چيز بھی نماز ميں پڑھے معمول کے مطابق تسلسل سے پڑھے اور اگر ان کے درميان اتنا فاصلہ ڈالے کہ اسے نماز پڑھنا نہ کها جائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١٢ ۴ اگر کوئی شخص نماز ميں جان بوجه کر حروف یا الفاظ کے درميان اتنا فاصلہ دے کہ لفظ کی شکل یا الفاظ کی جملہ بندی ہی ختم ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے ،مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو اور فاصلہ اس قدر ہو کہ نماز کی شکل ختم نہ ہو اور تکبيرةالاحرام ميں بھی نہ ہو۔

اور اگر بھولے سے حروف یا الفاظ کے درميان فاصلہ دے اور فاصلہ اتنا نہ ہو کہ نماز کی شکل ختم ہوجائے اور تکبيرةالاحرام ميں بھی نہ ہو تو چنانچہ اگر وہ بعد والے رکن ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ ان حروف یا الفاظ کو معمول کے مطابق دوبارہ پڑھے اور اگر ان کے بعد کوئی چيز پڑھ

چکا تھا تو اسے دوبارہ پڑھے اور اگر بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکاہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر حروف یا جملوں کے بعد کوئی رکن نہ ہو جيسے کہ آخری رکعت کا تشهد،تو سلا م سے پهلے متوجہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس حصے اور اس کے بعد والی چيز کو دوبارہ پڑھے اور سلام کے بعد متوجہ ہو نے کی صورت ميں اس کی نماز صحيح ہے ۔

اور اگر سلام کے حروف یا الفاظ ميں اس قدر فاصلہ دے کہ موالات ختم ہو جائے تو اس کا حکم وهی ہے جو سلام بھول جانے کے سلسلے ميں مسئلہ نمبر” ١١١ ۵ “ اور” ١١١ ۶ “ ميں بيا ن کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ١١٢ ۵ رکوع وسجود کو طول دینا اور بڑی سورتيں پڑھنا موالات کو نہيں توڑتا۔

۱۸۱

قنوت

مسئلہ ١١٢ ۶ تمام واجب اور مستحب نمازوں کی دوسری رکعت ميں قرائت کے بعد اور رکوع سے پهلے قنوت پڑھنا مستحب ہے اور نمازِشفع ميں احوط یہ ہے کہ اسے”رجاء مطلوبيت“ کی نيت سے پڑھے اور نماز وتر کے ایک رکعت ہونے کے باوجودرکوع سے پهلے قنوت پڑھنا مستحب ہے ۔

نماز جمعہ کی ہر رکعت ميں ایک قنوت، نماز آیات ميں ۵ قنوت، نماز عيد فطر وقربان کی پهلی رکعت ميں ۵ اور دوسری رکعت ميں ۴ قنوت ہيں اور احتياط واجب یہ ہے کہ عيدالفطر وقربان کی نماز وں ميں قنوت ترک نہ کيا جائے۔

مسئلہ ١١٢٧ مستحب ہے کہ قنوت پڑھتے وقت ہاتھ چھرے کے سامنے اور ہتھيلياں ایک دوسرے کے ساته ملا کر آسمان کی طرف رکھے، انگوٹہوں کے علاوہ باقی انگليوں کو آپس ميں ملائے اور نگاہ ہتھيليوں پر رکھے۔

مسئلہ ١١٢٨ قنوت ميں جو ذکر،دعا یا مناجات بھی انسان کی زبان پر آجائے چاہے ایک” سُبْحَان اللّٰہِ “ ہی ہو تو کافی ہے اور بہتر ہے کہ یہ کهے :

لاَاِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْحَلِيْمُ الْکَرِیْمُ لاَاِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْعَلِیُّ الْعَظِيْمُ سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ السَّمٰوٰاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ اْلاَرَضِيْن السَّبْعِ وَ مَا فِيْهِنَّ وَ مَا بَيْنَهُنَّ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

مسئلہ ١١٢٩ مستحب ہے کہ انسان قنوت بلند آواز سے پڑھے، ليکن جو شخص جماعت کے ساته نماز پڑھ رہا ہو اور امام جماعت اس کی آواز سن رہا ہو، اس کا بلند آواز سے قنوت پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١١٣٠ اگر کوئی شخص عمداًقنوت نہ پڑھے تو اس کی قضا نہيں ہے اور اگر بھول جائے اور رکوع کی حد تک جھکنے سے پهلے اسے یاد آجائے تو مستحب ہے کہ کهڑا ہو جائے اور قنوت پڑھے او راگرکوع ميں یاد آئے تو مستحب ہے کہ رکوع کے بعد قضا کرے اور اگر سجدے ميں یا د آئے تو مستحب ہے کہ سلام کے بعد اس کی قضا کرے۔

۱۸۲

نماز کا ترجمہ

١۔سورہ حمد کا ترجمہ( بِسْمِ اللّٰه ) شروع کرتا ہو ں اس ذات کے نام سے جس ميں تمام کمالات یکجا ہيں ، جو ہر قسم کے عيب ونقص سے منزّہ ہے اور عقل جس ميں متحيّر ہے ۔

( اَلرَّحْمٰن ) جس کی رحمت وسيع او ر بے انتها ہے ، جواس دنيا ميں صاحبان ایمان اور کفار دونوں کے لئے ہے ۔

ا( َلرَّحِيْم ) جس کی رحمت ذاتی، ازلی اور ابدی ہے ،جوآخرت ميں صرف صاحبان ایمان کے لئے ہے ۔

( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن ) تعریف صرف الله کے لئے ہے جو عالمين کا پالنے والاہے۔

( اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ) (اس کا ترجمہ کيا جا چکا ہے )

( مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ) جو روزِ جزا کا مالک وحاکم ہے ۔

( اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِيْن ) ہم صرف تيری ہی عبادت کرتے ہيں اور صرف تجه ہی سے مددکے طلبگار ہيں ۔

( اهدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم ) ہميں راہِ راست کی جانب هدایت فرما۔

( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم ) ان لوگوں کے راستے کی جانب جنہيں تو نے نعمت عطا کی ہے (جو انبياء،ان کے جانشين، شهداء،صدیقين اور خدا کے شایستہ بندے ہيں )۔

( غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّيْن ) نہ ان لوگوں کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ ان کا راستہ جو گمراہ ہيں ۔

٢۔سورہ اخلاص کا ترجمہ

( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ) اس کا ترجمہ کيا جا چکا ہے ۔

( قُلْ هو اللّٰهُ اَحَد ) اے محمد ((ص)) آپ کہہ دیجئے کہ وہ خدا یکتا ہے ۔

( اَللّٰهُ الصَّمَد ) وہ خدا جو تمام موجودات سے بے نياز ہے اور تمام موجودات اس کے محتاج ہيں ۔

( لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَد ) نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے ۔

( وَلَمْ یَکُنْ لَّه کُفُوًا اَحَد ) کوئی بھی اس کی برابری کرنے والا نہيں ۔

۱۸۳

٣۔رکوع، سجود اور ديگر اذکار کا ترجمہ

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ وَبِحَمْدِه ميرا عظيم پر وردگار ہر عيب ونقص سے پاک ومنزہ ہے اور ميں اس کی ستائش ميں مشغول ہوں۔

سُبْحَانَ رَبِّیَ اْلا عَْٔلیٰ وَبِحَمْدِه ميرا پروردگار تمام موجودات سے بالاتر ہے اور ہر عيب ونقص سے پاک ومنزہ ہے اور ميں اس کی ستائش ميں مشغول ہوں۔

سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَه خدا ہر حمدوثنا کرنے والے کی ستائش کو سنے اور قبول کرے۔

اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّیْ وَا تَُٔوْبُ اِلَيْه ميں اس خدا سے معافی کا طلب گار ہوں جو ميرا پالنے والا ہے اور جس کی طرف مجھے لوٹنا ہے ۔

بِحَوْلِ اللّٰهِ وَ قُوَّتِه ا قَُٔوْمُ وَا قَْٔعُد ميں الله تعالیٰ کی مدد اور قوت سے اٹھ تا اور بيٹھتا ہوں۔

۴ ۔قنوت کا ترجمہ

لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْحَلِيْمُ الْکَرِیْم کوئی خدا نہيں سوائے الله کے جو صاحب حلم وکرم ہے ۔

لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْعَلِیُّ الْعَظِيْم کوئی خدا نہيں سوائے الله کے جو بلند مرتبہ وبزرگ ہے ۔

سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ السَّمٰوٰاتِ السَّبْعِ وَ رَبِّ اْلاَرَضِيْنَ السَّبْع پاک ومنزہ ہے وہ خدا جو سات آسمانوں اور سات زمينوں کا پروردگار ہے ۔

وَمَا فِيْهِنَّ وَمَا بَيْنَهُنَّ وَ رَبِِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْم وہ ہر اس چيزکا پروردگار ہے جو آسمانوں اور زمينوں ميں اور ان کے مابين موجودهے،وہ عرش عظيم کا پروردگار ہے ۔

وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن حمد وثنا اس الله کے لئے مخصوص ہے جو تمام جهانوں کا پالنے والا ہے ۔

۵ ۔تسبيحات اربعہ کا ترجمہ

سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَر الله

پاک ومنزہ ہے اور حمد وثنا اسی کے لئے ہے اور الله کے سوا کوئی معبود نہيں اوروہ اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی توصيف کی جائے۔

۱۸۴

۶ ۔تشهد اور سلام کا ترجمہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، اَشْهَدُ ا نَْٔ لاَ إِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ له حمدوثنا صرف الله کے لئے ہے اور ميں گواہی دیتا ہو ں کہ الله کے سوا کوئی معبود وخدا نہيں جو یکتا اورلا شریک ہے ۔

وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْله ميں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ((ص))الله کے بندے اور اس کے رسول ہيں ۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد اے الله! محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما۔

وَتَقَبَّلْ شَفَاعَتَه وَارْفَعْ دَرَجَتَه پيغمبر کی شفاعت قبول فرما اور ان کا درجہ بلند فرما۔

اَلسَّلاَمُ عَلَيْکَ ا یَُّٔهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَکَاتُه اے پيغمبر آپ پر درود وسلام ہو اور آپ پر الله کی رحمتيں اور برکتيں نازل ہوں۔

اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْن الله کی طرف سے ہم نماز پڑھنے والوں او ر اس کے تمام صالح بندوں پر سلامتی ہو۔

اَلسَّلاَمُ عَلَيْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه تم پر خدا کی طرف سے درودوسلام اور رحمت و برکت ہو۔(اور یهاں”تم“سے مراد اس لفظ کے حقيقی معنی ہيں اگرچہ بعض روایات کے مطابق اس سے مراد دائيں بائيں جانب کے فرشتے اور مومنين ہيں )

تعقيباتِ نماز

مسئلہ ١١٣١ مستحب ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد انسان کچھ دیر کے لئے تعقيبات یعنی ذکر، دعا اور قرآن مجيد پڑھنے ميں مشغول رہے اوربہتر یہ ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کرنے اور وضو، غسل یا تيمم باطل ہونے سے پهلے، روبہ قبلہ ہو کر تعقيبات پڑھے۔تعقيبات کا عربی ميں پڑھنا ضروری نہيں ليکن بہتر ہے کہ دعاؤں کی کتب ميں بتلائی گئی دعاؤں کو پڑھے۔

تسبيح حضرت فاطمہ زهرا سلام الله عليها ان تعقيبات ميں سے ہے جن کی بہت زیادہ تاکيد کی گئی ہے ۔ یہ تسبيح اس ترتيب سے پڑھنی چاہيے: ٣ ۴ مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اس کے بعد ٣٣ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور اس کے بعد ٣٣ مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ۔

مسئلہ ١١٣٢ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے بعد سجدہ شکر بجالائے اور اتنا کافی ہے کہ شکر کی نيت سے پيشانی زمين پر رکھے، ليکن بہتر ہے کہ سومرتبہ،تين مرتبہ یا ایک مرتبہ شُکْرًالِلّٰہِ یا عَفْوًا کهے اور یہ بھی مستحب ہے کہ جب بھی انسان کو کوئی نعمت ملے یا مصيبت ٹل جائے سجدہ شکر بجالائے۔

۱۸۵

پيغمبر اکرم(ص) پر صلوات

مسئلہ ١١٣٣ جب بھی انسان حضرت رسول اکرم(ص) کا اسم مبارک مثلاًمحمد(ص) اور احمد(ص)یا آنحضرت کا لقب وکنيت مثلاًمصطفی(ص)اور ابوالقاسم(ص)زبان سے ادا کرے یا سنے تو خواہ وہ نماز ميں ہی کيوں نہ ہو مستحب ہے کہ صلوات بھيجے۔

مسئلہ ١١٣ ۴ حضرت رسول اکرم(ص) کا اسم مبارک لکھتے وقت مستحب ہے کہ انسان صلوات بھی لکھے اور بہتر ہے کہ جب بھی آنحضرت(ص) کو یاد کرے تو صلوات بھيجے۔

مبطلات نماز

مسئلہ ١١٣ ۵ بارہ چيزیں نماز کو باطل کر دیتی ہيں اور انہيں مبطلات نمازکہتے ہيں :

١) نماز کے دوران نماز کے شرائط ميں سے کوئی شرط ختم ہو جائے مثلاًنماز پڑھتے وقت اسے معلوم ہو جائے کہ جس کپڑے سے اس نے شرمگاہ کو چھپا رکھا ہے وہ غصبی ہے ۔

٢) انسان نماز کے دوران عمداًیا سهواً یا مجبوری سے کسی ایسی چيز سے دو چار ہو جو وضو یا غسل کو باطل کر دیتی ہے مثلاًاس کا پيشاب خارج ہو جائے۔البتہ جو شخص اپنے آپ کو پيشاب یا پاخانہ خارج ہونے سے محفوظ نہ رکھ سکتا ہو اور حالت نماز ميں اس سے پيشاب یا پاخانہ خارج ہو جائے تو اگر اس نے احکام وضوميں بيان شدہ طریقے پر عمل کيا ہو تو اس کی نماز باطل نہيں ہوتی اسی طرح اگر حالت نماز ميں مستحاضہ عورت کو خون آجائے تو اگر وہ مستحاضہ کے لئے معين شدہ طریقے کے مطابق عمل کرتی رہی ہے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١٣ ۶ جس شخص کو بے اختيار نيند آجائے اگر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ نيند حالت نماز ميں آگئی تھی یا اس کے بعد تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٣٧ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ وہ اپنی مرضی سے سویا تھا ليکن شک کرے کہ نماز کے بعد سویا تھا یا نماز کی حالت ميں یہ بھول گيا تھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور سو گيا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١٣٨ اگر کوئی شخص حالت سجدہ ميں نيند سے بيدار ہو اور شک کرے کہ یہ آخری سجدہ ہے یا سجدہ شکر تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

٣) انسان نماز کا حصہ سمجھتے ہوئے ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھے مگر یہ کہ جاہل قاصر ہو۔اسی طرح اگر بندگی کی نيت سے ہاتھ باندهے تب بھی احتياط واجب کی بنا پر نماز باطل ہے مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو۔

۱۸۶

مسئلہ ١١٣٩ اگر کوئی شخص بھول کر، مجبوری سے،تقيہ کی وجہ سے یا کسی اور کام کے لئے مثلاًہاتھ کو کهجانے کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو کوئی حرج نہيں ۔

۴) الحمد پڑھنے کے بعد دعا کے ارادے کے بغير یا نماز کا حصہ سمجھتے ہوئے آمين کهے بلکہ دعا کے ارادے سے بھی آمين کهنا محلِ اشکال ہے ، ليکن اگر جاہل قاصر ہو یا غلطی یا تقيہ کی وجہ سے آمين کهے تو کوئی حرج نہيں ۔

۵) جان بوجه کر قبلہ کی طرف پشت کر لے یا قبلے کی دائيں یا بائيں جانب گهوم جائے بلکہ اگر جان بوجه کر اتنی مقدار ميں گهومے کہ لوگ اسے روبہ قبلہ نہ کہيں خواہ وہ داہنی یا بائيں سمت تک نہ بھی پهنچا ہو، اس کی نماز باطل ہے ۔

جهاں تک بھول چوک کا تعلق ہے تو اگر داہنی یا بائيں سمت تک نہ پهنچا ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر پهنچ جائے اور اسے یاد آجائے تو اس صورت ميں کہ نماز کا وقت خواہ ایک رکعت کے برابر ہی سهی، باقی ہوتو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر اتنا وقت باقی نہ ہو یا نماز کا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے تو اس نماز کی قضا نہيں ہے ۔ البتہ اگر پشت قبلہ کی جانب ہو گئی ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز قضا کرے۔

مسئلہ ١١ ۴ ٠ اگر کوئی شخص جان بوجه کر اپنا سر اتنا گهمائے کہ وہ قبلہ کی دائيں یا بائيں طرف یا اس سے زیادہ مڑ جائے تو اس کی نماز باطل ہے ، ليکن اگر اتنا گهمائے کہ لوگ یہ نہ کہيں کہ قبلہ سے مڑگيا ہے تو اس کی نماز باطل نہيں ہے اور اگر اتنا گهمائے کہ لوگ یہ کہيں کہ قبلہ سے منحرف ہو گيا ہے ليکن دائيں یا بائيں طرف نہ پهنچا ہو تو اگر ایسا کرنا جان بوجه کر ہو تو نماز باطل ہے اور اگر بھول کر ہو تو نماز صحيح ہے ۔

اور اگر بھول کر سر اتنا گهمائے کہ دائيں یا بائيں طرف پهنچ جائے اور اسے یاد آجائے تو اگر نماز کا وقت خواہ ایک رکعت کے برابر ہی سهی، باقی ہو تو احتيا ط واجب کی بنا پر نماز دوبارہ پڑھے اور اگر اتنا وقت باقی نہ ہو یا نماز کا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے تو اس نماز کی قضا نہيں ہے اور اگر بھولے سے سر کو پشت بقبلہ کر ليا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز قضا کرے۔

۶) عمداً دو یا دو سے زیادہ حروف پر مشتمل کوئی ایسی بات کرے جس کے کوئی معنی ہوں چاہے اس معنی کا ارادہ بھی کيا ہو یا نہيں ، مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر اگر دو یا دو سے زیادہ حروف پر مشتمل کوئی ایسی بات کرے جس کے کوئی معنی نہ ہوں تو بھی نمازباطل ہے ۔هاں، ان تمام صورتوں ميں بھول کر بات کرنے ميں کوئی حرج نہيں ،ليکن ضروری ہے کہ دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١١ ۴ ١ اگر کوئی شخص ایسا لفظ کهے جس ميں ایک ہی حرف ہو چنانچہ اگر وہ لفظ معنی رکھتا ہو مثلاً”قِ“ کہ جس کے عربی زبان ميں ”حفاظت کرو“ کے معنی ہيں تو اس صورت ميں کہ وہ اس معنی کا قصد بھی رکھتا ہو،اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۸۷

اسی طرح اگر اس لفظ کے معنی جانتا ہو چاہے اس معنی کا قصد نہ رکھتا ہو یا اس کے کوئی معنی ہی نہ ہوں تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١ ۴ ٢ نماز کی حالت ميں کهانسنے او رڈکار لينے ميں کوئی حرج نہيں ہے اور نماز کی حالت ميں جان بوجه کر آہ وزاری کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو۔

مسئلہ ١١ ۴ ٣ اگر ایک شخص کوئی لفظ ذکر کے قصد سے کهے مثلاًذکر کے قصد سے اللّٰہ اکبر کهے اور اسے کہتے وقت آواز بلند کرے تاکہ دوسرے کو کسی چيز کی طرف متوجہ کرے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ليکن اگر کسی کو کوئی چيز سمجھانے کی نيت سے کهے یا سمجھانے اور ذکر دونوں کی نيت سے کهے تو اس کی نمازباطل ہے ، مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو اور وہ ذکر تکبيرة ا لاحرام نہ ہو۔هاں، اگر کوئی لفظ ذکر کے قصد سے کهے ليکن یہ قصد کوئی بات کسی کو سمجھانے کی وجہ سے کيا ہو تو اس کی نماز باطل نہيں ہے ۔

مسئلہ ١١ ۴۴ نماز ميں ان چار آیتوں کے علاوہ جن ميں سجدہ واجب ہے قرآن کی نيت سے،نہ کہ نمازکا حصہ ہونے کی نيت سے،قرآن پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔نيز نماز کی حالت ميں دعا کرنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان ميں دعا نہ کرے۔

مسئلہ ١١ ۴۵ اگر کوئی شخص نماز کا جز ہونے کی نيت کے بغير جا ن بوجه کر یا احتياط کے طور پر الحمد، سورہ یا اذکار نماز کے کسی حصے کی تکرار کرے تو کوئی حرج نہيں ليکن وسوسہ کی وجہ سے چند دفعہ تکرار کرے حر ام تو ہے ليکن اس کی وجہ سے نمازکا باطل ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١١ ۴۶ انسان کے لئے ضروری ہے کہ نماز کی حالت ميں کسی کو سلام نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اسے سلام کرے تو ضروری ہے کہ اسے اسی طریقے سے جواب دے مثلاًاگر وہ ”سلام عليکم“کهے تو جواب ميں یہ شخص بهی”سلام عليکم“ کهے مگر”عليکم السلام“کے جواب ميں احتيا ط واجب یہ ہے کہ”سلام عليکم“ ہی کهے۔

مسئلہ ١١ ۴ ٧ انسان کے لئے ضروری ہے کہ خواہ وہ نمازکی حالت ميں ہو یا نہ ہو سلام کا جواب فورا اس طرح دے کہ عرفاً اسے جواب سلام کها جائے اور اگر جان بوجه کر یا بھولے سے جواب دینے ميں اتنی دیر کرے کہ اسے جواب سلام نہ سمجھا جائے تو اگر وہ نماز کی حالت ميں ہو تو ضروری ہے کہ جواب نہ دے اور اگر حالت نمازميں نہ ہو تو جواب دینا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١١ ۴ ٨ سلام کا جواب اس طرح دینا ضروری ہے کہ سلام کرنے والا سن لے، ليکن اگر سلام کرنے والا بهرا ہو یا سلام کرتا ہو ا تيزی سے گزر جائے تو عام طریقے سے اس کا جواب دینا کافی ہے ۔

مسئلہ ١١ ۴ ٩ ضروری ہے کہ نمازی سلام کے جواب کو احترا م کی نيت سے کهے،اگر چہ دعا کا قصد کر لينے ميں بھی کوئی حرج نہيں ۔

۱۸۸

مسئلہ ١١ ۵ ٠ اگر نامحرم عورت یامرد یا مميز بچہ یعنی وہ بچہ جو اچھے برے کی تميز کر سکتا ہو، نماز ی کو سلام کرے تو ضروری ہے کہ نمازی اس سلام کا جواب دے او راگر عورت”سلام عليک“کہہ کر سلام کرے تو احتيا ط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نمازی”سلام عليک“ کهے اور”کاف “کو زیر یا زبر نہ دے۔

مسئلہ ١١ ۵ ١ اگر نمازی سلام کا جواب نہ دے تو اگرچہ اس نے گناہ کيا ہے ليکن اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١ ۵ ٢ اگر کوئی شخص نماز ی کو اس طرح غلط سلام کرے کہ اسے سلام سمجھا جائے تو اس کا جواب دینا واجب ہے اور احتيا ط واجب یہ ہے کہ اس سلام کا جواب صحيح دیا جائے ليکن اگر وہ سلام ہی نہ سمجھا جائے تو اس کا جواب دینا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ١١ ۵ ٣ کسی ایسے شخص کے سلام کا جواب دینا جو مذاق اور تمسخر کے طور پر سلام کرے واجب نہيں ۔جب کہ احتياط واجب کی بنا پر غير مسلم مرد اور عورت کے سلام کا جواب دینا ضروری ہے اور ان کے جواب ميں انسان لفظ”سلام“ یا لفظ ”عليک“پر اکتفا کرے اگرچہ احوط یہ ہے کہ جواب ميں فقط لفظ ”عليک“کهے۔

مسئلہ ١١ ۵۴ اگر کوئی شخص چند افراد کو سلام کرے تو ان سب پر سلام کا جواب دینا واجب ہے ليکن اگر ان ميں سے ایک شخص بھی جواب دے دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١١ ۵۵ اگر کوئی شخص چند افراد کو سلام کرے ليکن جسے سلام کرنے کا ارادہ نہ ہو وہ جواب دے دے تو باقی افراد کی ذمہ داری ختم نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١١ ۵۶ اگر کوئی شخص چند افراد کو سلام کرے اور ان ميں سے جو شخص نماز ميں مشغول ہو وہ شک کرے کہ سلام کرے والے کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا یا نہيں تو ضروری ہے کہ جواب نہ دے اور اگر نمازپڑھنے والے کویقين ہو کہ اس شخص کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا ليکن کوئی شخص سلام کا جواب دے دے تو اس صورت ميں بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر نماز پڑھنے والے کو معلوم ہو کہ سلام کرنے والے کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا اور کوئی دوسرا جواب نہ دے تو ضرور ی ہے کہ وہ نمازی سلام کا جواب دے۔

مسئلہ ١١ ۵ ٧ سلام کرنا مستحب ہے اور روایات ميں تاکيد کی گئی ہے کہ سوار پيدل کو،کهڑا ہو ا شخص بيٹھے ہوئے کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔

مسئلہ ١١ ۵ ٨ اگر دو شخص آپس ميں ایک دوسرے کو سلام کریں تو احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک دوسرے کے سلام کا جواب دے۔

مسئلہ ١١ ۵ ٩ نماز کی حالت کے علاوہ مستحب ہے کہ انسان سلام کا جواب اس سے بہتر الفاظ ميں دے مثلاً اگر کوئی شخص”سلام عليکم“کهے تو جواب ميں ”سلام عليکم ورحمةاللّٰہ“کهے۔

۱۸۹

٧) آواز کے ساته جان بوجه کر هنسے مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو اور اگر جان بوجه کر بغير آواز سے یا سهو ا آواز کے ساته هنسے تو اس کی نماز ميں کوئيحرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١١ ۶ ٠ اگر هنسی کی آواز روکنے کی وجہ سے کسی شخص کی حالت بدل جائے مثلاًاس کا رنگ سرخ ہو جائے تو نماز کو دهرانا ضروری نہيں مگر یہ کہ کوئی اور مانع پيش آجائے مثلاًنماز کی شکل ہی ختم ہو جائے۔

٨) احتياط واجب کی بنا پر دنياوی کاموں کے لئے گریہ کرنا مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو اور اگر خوف خدا یا آخرت کے لئے روئے تو یہ بہترین اعمال ميں سے ہے ۔

٩) کوئی بھی ایسا کام کرنا جس سے نماز کی شکل اس طرح تبدیل ہو جائے کہ پھر عرفاً اسے نماز پڑھنا نہ کها جاسکےمثلاًاچھلنا،کودنا وغير ہ چاہے عمداہویا بھولے سے، ليکن اس کام ميں کوئی حرج نہيں جس سے نماز کی شکل تبدیل نہ ہو تی ہو مثلاًہاتھ سے اشارہ کرنا۔

مسئلہ ١١ ۶ ١ اگر کوئی شخص نماز کے دوران اتنی دیر خاموش ہو جائے کہ اسے نماز پڑھنا نہ کها جاسکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١ ۶ ٢ اگر کوئی شخص نمازکے دوران کوئی کام کرے یا کچھ دیر خاموش رہے او ر شک کرے کہ اس کی نماز ٹوٹ گئی یا نہيں تو ضروری ہے کہ نماز کو دهرائے،اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز پوری کرے اور پھر دوبارہ پڑھے۔

١٠ ) کھانا اور پينا پس اگر کوئی شخص نماز کے دوران اس طرح کها ئے یاپيئے کہ لوگ اسے نمازپڑھنا نہ کہيں تو خواہ جان بوجه کر ہو یا بھولے سے اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے ، ليکن اگر اس طرح سے کھائے یا پيئے کہ اسے نماز پڑھنا کها جائے تو اگر یہ کام جان بوجه کر ہو تو احتياط کی بنا پر نماز باطل ہے ليکن اگر جاہل قاصر ہو یا بھولے سے اس طرح کھائے پيئے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

اور جو شخص روزہ رکھنا چاہتا ہو اگر وہ صبح کی اذان سے پهلے نماز وتر پڑھ رہا ہو اور پياسا ہو اور اسے ڈر ہو کہ نماز کو پورا کرتے ہوئے صبح ہو جائے گی تو اگر پانی اس کے سامنے دو تين قدم کے فاصلے پر ہو تو وہ پانی پی سکتا ہے ليکن ضروری ہے کہ کوئی ایسا کام جو نماز کو باطل کر تا ہے مثلاًقبلے سے منہ پهيرنا،انجام نہ دے۔

مسئلہ ١١ ۶ ٣ اگر کوئی شخص نماز کے دوران منہ یا دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی غذا نگل لے تو اس کی نماز باطل نہيں ہوتی۔ اسی طرح اگر مصری،چينی یا ان ہی جيسی کوئی چيز منہ ميں رہ گئی ہو اور نماز کی حالت ميں آهستہ آهستہ گهل کر پيٹ ميں چلی جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

١١ ) نماز ی دو رکعتی مثلاًصبح و مسافر کی نماز یا تين رکعتی نماز کی رکعتوں یا چار رکعتی نمازوں کی پهلی دو رکعتوں کے بارے ميں شک کرے جب کہ نماز پڑھنے والا شک کی حالت پر باقی بھی رہے۔

۱۹۰

١٢ ) جان بوجه کر یا بھولے سے نماز کے واجبات رکنی ميں سے کسی کو کم کر دے یا جان بوجه کر کسی واجب غير رکنی کو کم یا زیادہ کر دے مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو۔اسی طرح اگر رکوع یا ایک ہی رکعت کے دو سجدے عمداًیا سهواًزیادہ کردے تو اس کی نماز باطل ہے ليکن تکبيرةالاحرام کو بھول کر زیادہ کرنا نماز کو باطل نہيں کرتا۔ بلکہ اگر جاہل قاصر جان بوجه کر تکبيرةالاحرام زیادہ کر دے تو بھی اس کی نماز کا باطل ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١١ ۶۴ اگر نماز کے بعد شک کرے کہ دوران نماز اس نے نمازکو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دیا تھا یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

وہ چيزيں جو نماز ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١١ ۶۵ نماز ميں اپنا چہرہ دائيں یا بائيں جانب اتنا موڑنا کہ لوگ یہ نہ کہيں کہ اس نے اپنا منہ قبلہ سے موڑ ليا ہے مکروہ ہے ، ورنہ جيسا کہ بيان ہو چکا ہے اس کی نماز باطل ہے ۔

یہ بھی مکروہ ہے کہ کوئی شخص نماز ميں اپنی آنکہيں بند کر ے یا دائيں اور بائيں طرف گهمائے،اپنی داڑھی اور ہاتھوں سے کھيلے،انگلياں ایک دوسرے ميں داخل کرے،تهوکے یا قرآن مجيد یا کسی اور کتاب یاانگوٹھی کی تحریر کو دیکھے ۔

یہ بھی مکروہ ہے کہ الحمد،سورہ اور ذکر پڑھتے وقت کسی کی بات سننے کے لئے خاموش ہو جائے بلکہ ہر وہ کام جو خضوع و خشوع کوختم کر دے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١١ ۶۶ جب انسان کو نيند آرہی ہو یا جب اس نے پيشاب یا پاخانہ روک رکھا ہو نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ اسی طرح نماز کی حالت ميں ایسا تنگ موزہ پهننا بھی مکروہ ہے جو پاؤں کو دبا ے۔ان کے علاوہ دوسرے مکروہات بھی ہيں جو تفصيلی کتابوں ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

وہ صورتيں جن ميں واجب نماز توڑ ی جا سکتیہے

مسئلہ ١١ ۶ ٧ اختياری حالت ميں واجب نماز کو توڑنا حرام ہے ، ليکن مال کی حفاظت اور مالی یا جسمانی ضرر سے بچنے کے لئے نماز توڑنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٨ اگر انسا ن کی اپنی جان کی حفاظت یا جس کی جان کی حفاظت واجب ہے یا ایسے مال کی حفاظت جس کی نگهداشت واجب ہے ،نماز توڑے بغير ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑدے۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٩ اگر کوئی شخص وسيع وقت ميں نماز پڑھنے لگے اور قرض خواہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کرے اور وہ اس کا قرضہ نماز کے دوران اد ا کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت ميں اس کا قرضہ ادا کر دے اور اگر بغير نماز توڑے ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو توڑ کر اس کا قرضہ ادا کرے اور بعد ميں نماز پڑھے۔

۱۹۱

مسئلہ ١١٧٠ اگر نماز کے دوران معلوم ہو کہ مسجد نجس ہے ، چنانچہ اگر وقت تنگ ہو تو ضرور ی ہے کہ نمازکوتمام کرے اور اگر وقت وسيع ہو اور مسجد پاک کرنے سے نماز نہ ٹوٹتی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے دوران اسے پاک کرے اور باقی نماز بعد ميں پڑھے اور اگر نماز ٹوٹ جاتی ہو اور نماز کے بعد مسجد کو پاک کرنا ممکن ہو تو نماز توڑنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر مسجد کا نجس رہنا مسجد کی بے حرمتی کا باعث ہو یا نماز کے بعد مسجد پاک کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور مسجد کو پاک کرنے کے بعد نماز پڑھے۔

مسئلہ ١١٧١ جس شخص کے لئے نماز کا توڑنا ضروری ہو اگر وہ نماز مکمل کرے تو گنهگار ہونے کے باوجود اس کی نماز صحيح ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ١١٧٢ اگر کسی شخص کو رکوع کی حد تک جھکنے سے پهلے یاد آجائے کہ وہ،اذان اور اقامت کهنا بھول گيا ہے اور نماز کا وقت وسيع ہو تو مستحب ہے کہ انہيں کهنے کے لئے نماز توڑدے۔

اسی طرح اگر اسے قرائت سے پهلے یاد آجائے کہ اقامت کهنا بھول گيا ہے ۔

شکياتِ نماز

شکياتِ نمازکی ٢٣ قسميں ہيں ۔ ان ميں سے آٹھ قسميں نماز کو باطل کر دیتی ہيں ، اگرچہ ان ميں سے بعض ميں نماز کا باطل ہو نا احتياط کی بنا پر ہے اور چھ اس قسم کے شک ہيں جن کی پرواہ نہيں کرنی چاہيے اور باقی نو قسم کے شک صحيح ہيں ۔

وہ شک جو نماز کو باطل کر ديتے ہيں

مسئلہ ١١٧٣ نماز کو باطل کرنے والے شک یہ ہيں :

١) دو رکعتی واجب نماز مثلاًصبح اور مسافر کی نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے ميں شک۔ البتہ مستحب نماز اور نمازِاحتيا ط کی رکعتوں کی تعداد کے بارے ميں شک نماز کو باطل نہيں کرتا۔

٢) تين رکعتی نماز کی رکعت کی تعداد کے بارے ميں شک۔

٣) چار رکعتی نماز ميں یہ شک کہ آیا ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ۔

۴) چار رکعتی نماز ميں دوسرے سجدے کا ذکر مکمل ہونے سے پهلے یہ شک کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا زیادہ۔

۵) نماز کی رکعتوں ميں یہ شک کہ معلوم ہی نہ ہو کہ کتنی رکعتيں پڑھی ہيں ۔

۶) دو اور پانچ یا دو اور پانچ سے زیادہ رکعتوں کے درميان شک،ليکن اس شک ميں احتياط واجب یہ ہے کہ دو رکعت سمجھ کر نماز مکمل کر کے دوبارہ پڑھے۔

۱۹۲

٧) تين اور چھ یا تين اور چھ سے زیادہ رکعتوں کے درميان شک،ليکن اس شک ميں احتياط واجب یہ ہے تين رکعت پر بنا رکھ کر نماز مکمل کر کے دوبارہ پڑھے۔

٨) چار اور چھ یا چار اور چھ سے زیادہ رکعتوں کے درميان شک، ليکن اس صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز مکمل کر کے دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٧ ۴ اگر انسان کو نماز باطل کرنے والے شکوک ميں سے کوئی شک پيش آئے تو ضروری ہے کہ جب تک اس کا شک پکا نہ ہوجائے غوروفکر کرے اور اس کے بعد اس کو اختيار ہے کہ نماز کو توڑ دے، مگر بہتر ہے کہ جب تک نمازکی صورت ختم نہ ہو جائے غورو فکر کرتا رہے۔

وہ شک جن کی پروا نهيں کرنی چاہئے

مسئلہ ١١٧ ۵ جن شکوک کی پروا نہيں کرنی چاہيے وہ یہ ہيں :

١) اس چيز ميں شک جس کے بجالانے کا وقت گزر گيا ہو مثلاًانسان رکوع ميں شک کرے کہ اس نے الحمد پڑھی ہے یا نہيں ۔

٢) سلامِ نماز کے بعد شک۔

٣) نماز کا وقت گزر جانے کے بعد کا شک۔

۴) کثيرالشک کا شک یعنی اس شخص کا شک جو بہت زیادہ شک کرتا ہو۔

۵) رکعتوں کی تعداد کے بارے ميں امام جماعت کا شک جب کہ ماموم ان کی تعداد جانتا ہو اور اسی طرح ماموم کا شک جب کہ امامِ جماعت نماز کی رکعتوں کی تعداد جانتا ہو۔

۶) مستحب نمازوں اور نمازِاحتياط ميں شک۔

١۔جس فعل کا موقع گزر گيا ہو اس ميں شک کرنا

مسئلہ ١١٧ ۶ اگر نماز کے دوران کوئی شک کرے کہ نماز کے واجب افعال ميں سے کوئی فعل انجام دیا ہے یا نہيں مثلاًالحمد پڑھی ہے یا نہيں اور اس کے بعد والے کام ميں مشغول نہيں ہو اہو تو ضروری ہے کہ جس کے بجا لانے ميں شک ہے اسے بجا لائے اور اگر اس کے بعد والے کام ميں مشغول ہو چکا ہو مثلاًسورہ پڑھتے وقت شک کرے کہ الحمد پڑھی تھی یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٧٧ اگر نماز ی کوئی آیت پڑھتے وقت شک کرے کہ اس سے پهلے والی آیت پڑھی ہے یا نہيں یا جس وقت آیت کا آخری حصہ پڑھ رہا ہو شک کرے کہ اس کا پهلا حصہ پڑھا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

۱۹۳

مسئلہ ١١٧٨ اگر نمازی رکوع یا سجود کے بعد شک کرے کہ ان کے واجب افعال مثلاًذکر پڑھنا اور اپنے بدن کو سکون کی حالت ميں رکھنا،اس نے انجام دئے ہيں یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٧٩ اگر کوئی شخص سجدے ميں جاتے ہوئے شک کرے کہ رکوع کيا یانہيں تو احتياط واجب کی بنا پر اس کے لئے ضروری ہے کہ واپس پلٹے او رکھڑ ا ہونے کے بعد رکوع بجا لائے اور نماز کو مکمل کرے، نيز نماز کا اعادہ بھی کرے،ليکن اگر شک یہ ہو کہ رکوع کے بعد کهڑا ہو ا تھا یا نہيں تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر کهڑا ہو جائے اور اس کے بعدسجدے ميں جائے اور نماز مکمل کرے۔

مسئلہ ١١٨٠ اگر نمازی کهڑا ہوتے وقت شک کرے کہ سجدہ یا تشهد بجا لایا یا نہيں تو ضروری ہے کہ واپس پلٹے اور سجدہ یا تشهد بجا لائے۔

مسئلہ ١١٨١ جو شخص بيٹھ کر یا ليٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر الحمد یا تسبيحات پڑھتے وقت شک کرے کہ سجدہ یا تشهد بجا لایا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر الحمد یا تسبيحات ميں مشغول ہونے سے پهلے شک کرے کہ سجدہ یا تشهد بجا لایا ہے یا نہيں تو چنانچہ وہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس کی حالت مثلاً ”بيٹھنا “آیا قيا م کے بدلے ميں ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ واپس پلٹے اور جس چيز کے بارے ميں شک تھا اسے بجا لائے او ر اگر یہ جانتا ہو کہ یہ ”بيٹھنا “قيام کے بدلے ميں ہے تو اگر شک تشهد کے بارے ميں تھا تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ قربت مطلقہ، یعنی وجوب یا استحباب کے قصد کے بغير بجالائے اور اس کی نماز صحيح ہے اور اگر شک سجدے کے بارے ميں ہو تو احتياط واجب کی بنا پر نماز کو مکمل کرے اور دوبارہ بجالائے۔

مسئلہ ١١٨٢ اگر نمازی شک کرے کہ نماز کا کوئی واجب رکن انجام دیا یا نہيں اور اس کے بعد والے فعل ميں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بجا لائے مثلاًاگرتشهد پڑھنے سے پهلے شک کرے کہ دو سجدے بجا لایا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ بجا لائے اور اگر بعد ميں اسے یاد آجائے کہ وہ اس رکن کو انجا م دے چکا تھا تو اگر وہ رکن،رکوع یا دو سجدے ہوں تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١٨٣ اگر نمازی شک کرے کہ وہ اس عمل کو جو نماز کا رکن نہيں ہے بجا لایا ہے یا نہيں او راس کے بعد آنے والے فعل ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بجا لائے مثلاًاگر سورہ پڑھنے سے پهلے شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ الحمد پڑھے اوراگر اسے انجام دینے کے بعد یاد آجائے کہ اسے پهلے ہی انجام دے چکا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١٨ ۴ اگر نمازی شک کرے کہ رکن بجا لایا ہے یا نہيں اور بعد والے فعل ميں مشغول ہو چکا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے مثلاًتشهد پڑھتے وقت یہ شک کرے کہ دو سجدے بجا لایا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔اب اگر بعد ميں اسے یاد آئے کہ اس رکن کو انجام نہيں دیا تھا

۱۹۴

تو اگر وہ رکن تکبيرة الاحرام ہو تو اس کی نماز باطل ہے خواہ وہ بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور اگر تکبيرة الاحرام کے علاوہ کوئی رکن ہو تو اگر وہ بعد والے رکن ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بجا لائے اور اگر بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو تو ا س کی نماز باطل ہے مثلاًاگر اسے اگلی رکعت کے رکوع سے پهلے یاد آجائے کہ دو سجدے بجا نہيں لایا ہے تو ضروری ہے کہ بجا لائے ااور اگر رکوع ميں یا اس کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١٨ ۵ اگر نمازی شک کرے کہ ایک غير رکنی عمل بجا لایا ہے یا نہيں اور اس کے بعد والے عمل ميں مشغول ہو چکا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے مثلاًجس وقت سورہ پڑھ رہا ہو شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر اسے کچھ دیر ميں یاد آجائے کہ اس عمل کو انجام نہيں دیا تھا اور ابهی بعد والے رکن ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ اس عمل کو بجا لائے اور اگر بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔اس بنا پر مثلاًاسے قنوت ميں یاد آجائے کہ اس نے الحمد نہيں پڑھی تھی تو ضروری ہے کہ پڑھے اور اگر یہ بات اسے رکوع ميں یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١٨ ۶ اگر نمازی شک کرے کہ اس نے نماز کا سلام پڑھا ہے یا نہيں تو اگر وہ دوسری نماز پڑھنے ميں مشغول ہو چکا ہو یا کوئی ایسا کام انجام دینے کی وجہ سے جو نماز کی صورت ہی ختم کر دیتا ہے ،حالت نماز سے خارج ہو گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ان صورتوں سے پهلے شک کرے تو ضروری ہے کہ سلام نماز پڑھے خواہ وہ تعقيبات نماز ميں مشغول ہو چکا ہو۔هاں، اگر شک یہ ہو کہ سلا م صحيح پڑھا ہے یا نہيں تو کسی بھی صورت ميں اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

٢۔سلام کے بعد شک کرنا

مسئلہ ١١٨٧ اگر نمازی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ اس کی نمازصحيح تھی یا نہيں مثلا وہ شک کرے کہ آیا اس نے رکوع کيا تھا یا نہيں یا چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ آیا چار رکعت پڑھی ہے یا پانچ رکعت،تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مشهور علما نے فرمایاہے : ”اگرنماز ی کے شک کی دونوں صورتيں صحيح نہ ہو ں مثلاًسلام کے بعد نمازی شک کرے کہ آیا تين رکعت پڑھی ہے یا پانچ رکعت،تو اس کی نمازباطل ہے “۔ليکن یہ حکم اشکال سے خالی نہيں اور احتيا ط واجب یہ ہے کہ اس صورت ميں ایک رکعت کا اضافہ کرے او ر نماز کے سلام کے بعد دو سجدہ سهو بجا لائے اور نماز دوبارہ پڑھے۔

۱۹۵

٣۔ وقت کے بعد شک کرنا

مسئلہ ١١٨٨ اگر کوئی شخص نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز پڑھی ہے یا نہيں یا اسے گمان ہو کہ نہيں پڑھی تو اس نماز کا پڑھنا ضروری نہيں ، ليکن اگر وقت گزرنے سے پهلے شک کرے کہ نماز پڑھی ہے یا نہيں تو خواہ گمان کرے کہ پڑھ چکا ہے پھر بھی ضروری ہے کہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ١١٨٩ اگر کوئی شخص وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز صحيح پڑھی ہے یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٩٠ اگر نماز ظہر وع-صر کا وقت گزر جانے کے بعد نماز ی جانتا ہو کہ اس نے چار رکعت نمازتو پڑھی ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ ظہر کی نيت سے پڑھی ہے یا عصر کی نيت سے تو ضروری ہے کہ چار رکعت قضانماز اس نماز کی نيت سے پڑھے جو اس پر واجب ہے ۔

مسئلہ ١١٩١ اگر مغرب اور عشا کی نمازکا وقت گزر جانے کے بعد نماز ی جانتا ہوکہ اس نے ایک نماز پڑھی ہے ليکن وہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس نے تين رکعت پڑھی ہے یا چار رکعت تو ضروری ہے کہ وہ مغرب اور عشا دونوں نمازوں کی قضاکرے۔

۴ ۔کثيرالشک کا شک کرنا

مسئلہ ١١٩٢ کثير الشک وہ شخص ہے جسے عرفاً زیادہ شک کرنے والا کها جائے اور جس شخص کی حالت یہ ہو کہ ہر تين پے در پے نمازوں ميں کم از کم ایک مرتبہ شک کرتا ہو تو یہ شخص کثيرالشک ہے اور اگر زیادہ شک کرنا غصے،خوف یا پریشانی کی وجہ سے نہ ہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٩٣ اگر کثير الشک نماز کے اجزاء یا شرائط ميں سے کسی چيز کی انجام دهی کے بارے ميں شک کرے تو ضروری ہے کہ وہ یهی سمجھے کہ اسے انجام دے چکا ہے مثلاً اگر شک کرے کہ رکوع کيا ہے یا نہيں تو سمجھے کہ رکوع کرچکا ہے اور اگر کسی ایسی چيز کی انجام دهی کے بارے ميں شک کرے جو مبطل نماز ہے مثلاًشک کرے کہ صبح کی نمازدو رکعت پڑھی ہے یا تين رکعت تو یهی سمجھے کہ نماز صحيح پڑھی ہے ۔

مسئلہ ١١٩ ۴ جو شخص نماز کی کسی خاص چيز ميں زیادہ شک کرتا ہو،اگر اس کے علاوہ کسی دوسری چيز ميں شک کرے تو ضروری ہے کہ اس چيز ميں شک کے احکام پر عمل کرے مثلاًجس شخص کو زیادہ تر شک یہ ہو تا ہو کہ سجدے کئے ہيں یا نہيں ،اگر وہ رکوع بجا لانے ميں شک کرے تو ضروری ہے کہ اس شک کے احکام پر عمل کرے یعنی اگر ابهی سجدے ميں نہ گيا ہو تو رکوع کرے اور اگر سجدے ميں چلا گيا ہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

۱۹۶

مسئلہ ١١٩ ۵ جو شخص کسی مخصوص نماز مثلاً ظہر کی نماز ميں زیادہ شک کرتا ہو اگر وہ عصر کی نمازميں شک کرے تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے۔

مسئلہ ١١٩ ۶ جو شخص کسی مخصوص جگہ پر نماز پڑھتے وقت زیادہ شک کرتا ہو اگر وہ کسی دوسری جگہ نماز پڑھے اور اسے شک پيدا ہو تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے۔

مسئلہ ١١٩٧ اگر کسی شخص کو اس بارے ميں شک ہو کہ وہ کثير الشک ہو گيا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے اور کثير الشک کو جب تک یقين نہ ہو جائے کہ وہ عام لوگوں کی حالت پر لوٹ آیا ہے ،اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٩٨ اگر کثير الشک شک کرے کہ ایک رکن بجا لایا ہے یا نہيں اور وہ اس کی پروا نہ کرے او ر بعد ميں اسے یاد آجائے کہ وہ رکن بجا نہيں لایا اور وہ رکن تکبيرة الاحرام ہو تو نماز باطل ہے خواہ بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور اگر تکبيرةالاحرام کے علاوہ کوئی رکن ہو تو اور اگر وہ بعد والے رکن ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ اس رکن کو بجا لائے اور اگر بعد والے رکن ميں مشغول ہو تو اس کی نمازباطل ہے ۔مثلاً اگر شک کرے کہ رکوع کيا ہے یا نہيں اور پروا نہ کرے تو اگر دوسرے سجدے سے پهلے یا د آجائے تو ضروری ہے کہ وہ واپس پلٹے اور رکوع کرے اور اگر دوسرے سجدے ميں یاد آئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١٩٩ اگر کثيرالشک کسی ایسے عمل کی انجام دهی کے بارے ميں شک کرے جو رکن نہيں اور اس شک کی پروا نہ کرے اور بعد ميں اسے یا د آئے کہ وہ عمل انجام نہيں دیا تھا اور اسے انجام دینے کے مقام سے ابهی نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اسے انجا م دے او ر اگر اس مقام سے گزر گيا ہو تو اس کی نمازصحيح ہے مثلاًاگر شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہيں اور شک کی پروا نہ کرے مگر قنوت پڑھتے وقت اسے یاد آجائے کہ الحمد نہيں پڑھی تو ضروری ہے کہ الحمد پڑھے اور اگر رکوع ميں یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۵ ۔پيش نماز اور مقتدی کا شک

مسئلہ ١٢٠٠ اگر امام جماعت نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے ميں شک کرے مثلاً شک کرے کہ تين رکعتيں پڑھی ہيں یا چار رکعتيں او ر مقتدی کو یقين یا گمان ہو کہ مثلاًچار رکعتيں پڑھی ہيں اور وہ یہ بات امام جماعت کے علم ميں لے آئے تو امام کے لئے ضروری ہے کہ نماز کو تما م کرے او رنماز احتياط کا پڑھنا ضروری نہيں اور اگر امام کو یقين یا گمان ہو کہ کتنی رکعتيں پڑھی ہيں او ر مقتدی نماز کی رکعتوں کے بارے ميں شک کرے تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

۱۹۷

۶ ۔مستحب نمازميں شک

مسئلہ ١٢٠١ اگر کوئی شخص مستحب نماز کی رکعتوں کی تعداد ميں شک کرے تو اگر شک کی زیادتی والی طرف نماز کو باطل کرتی ہو تو ضرور ی ہے کہ کم والی طرف پر بنا رکھے مثلاً اگر صبح کی نافلہ ميں شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا تين تو ضروری ہے کہ دو پر بنا رکھے اور اگر شک کی زیادتی والی طرف نماز کو باطل نہيں کرتی ہو مثلاًشک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہے یا ایک رکعت تو شک کی جس طرف عمل کرے اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٢٠٢ رکن کی کمی مستحب نمازوں کو باطل کر دیتی ہے ليکن رکن کا اضافہ اسے باطل نہيں کرتا،لہٰذا اگر مستحب نماز کے افعال ميں سے کوئی فعل بھول جائے اور یہ بات اسے اس وقت یاد آئے جب وہ اس کے بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو تو ضروری ہے کہ اس فعل کو انجام دے اور دوبارہ اس رکن کو انجام دے مثلاًاگر رکوع کے دوران اسے یاد آئے کہ الحمد نہيں پڑھی تو ضروری ہے کہ واپس لوٹے اور الحمد پڑھے اور دوبارہ رکوع ميں جائے۔

مسئلہ ١٢٠٣ اگر کوئی شخص مستحبی نماز کے افعال ميں کسی فعل کی انجام دهی کے بارے ميں شک کرے خواہ وہ فعل رکنی ہو یا غير رکنی چنانچہ اس کا موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اسے انجام دے اور اگر موقع گزر گيا ہو تو اس کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١٢٠ ۴ اگر کسی شخص کو دو رکعتی مستحب نماز ميں تين یا تين سے زیادہ رکعت کے پڑھ لينے کا گمان ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن اگر دو یا اس سے کم رکعت کا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اسی گمان پر عمل کرے مثلاًاگر اسے گمان ہو کہ ایک رکعت پڑھی ہے تو ضروری ہے کہ ایک رکعت اور پڑھے۔

مسئلہ ١٢٠ ۵ اگر کوئی شخص مستحب نماز ميں کوئی ایسا کام کرے جس کے لئے واجب نماز ميں سجدہ سهو واجب ہو جاتا ہے یا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور نماز کے سلام کے بعد اسے یاد آئے تو اس کے لئے سجدہ سهو یا قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢٠ ۶ اگر کوئی شخص شک کرے کہ مستحب نماز پڑھی ہے یا نہيں اور اس کا کوئی وقت مقرر نہ ہو جيسے حضرت جعفرِ طيار عليہ السلام کی نماز، تو وہ یهی سمجھے کہ وہ نماز نہيں پڑھی اور اگر اس نماز کا وقت مقررہ ہو جيسے روزانہ کی نمازوں کے نوافل اور وقت گزرنے سے پهلے شک کرے کہ اسے انجام دیا ہے یا نہيں تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ وہ نماز پڑھی ہے یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

۱۹۸

صحيح شکوک

مسئلہ ١٢٠٧ اگر کسی کو چار رکعتی نماز کی تعداد کے بارے ميں شک ہو تو نو صورتوں ميں ضروری ہے کہ غور وفکر کرے اور احتياط واجب کی بنا پر فکر کرنے ميں تا خير نہ کرے۔ پس اگر اسے شک کی کسی ایک طرف کے بارے ميں یقين یا گمان ہو جائے تو ضروری ہے کہ اسی طرف کو اختيار کرے اور نماز کو ختم کرے ورنہ آنے والے احکام کے مطابق عمل کرے:

اور وہ نو صورتيں یہ ہيں :

١) دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا تين،اس صورت ميں ضروری ہے کہ تين رکعت پر بنا رکھتے ہوئے ایک رکعت اور پڑھ کر نماز کو مکمل کرے۔ نيز نماز کے بعد ایک رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر بجا لائے۔

٢) دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا چار رکعتيں،کہ اس صورت ميں اگرچہ اس اختيار کی بھی گنجائش ہے کہ یا نئے سرے سے نماز پڑھے یا چار پر بنارکھتے ہوئے نماز کو مکمل کرکے نماز احتياط بجا لائے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز مکمل کرے اور بعد ميں دو رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر بجا لائے۔

٣) دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا تين یا چار، کہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نمازمکمل کرے اور بعد ميں دو رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر اور پھر دو رکعت بيٹھ کر بجا لائے۔

۴) دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ چار رکعتيں پڑھی ہيں یا پانچ، کہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز کو مکملکرے اور بعد ميں دو سجدہ سهو بجا لائے۔

ليکن اگر نماز ی کو پهلے سجدے کے بعد یا دوسر ے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے سے پهلے مذکورہ چار شکوک ميں سے کوئی ایک شک پيش آجائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۵) نماز کے دوران کسی وقت بھی تين اور چار رکعت کے درميان شک ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز کو مکمل کرے اور مشهور قول کے مطابق بعد ميں ایک رکعت نمازِ احتياط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بيٹھ کر بجا لائے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ دو رکعت بيٹھ کر بجا لانے کو اختيار کرے۔

۱۹۹

۶) قيام کے دوران چار اور پانچ رکعت کے درميان شک کرے، کہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ بيٹھ جائے اور تشهد اور سلام بجا لائے اور مشهور قول کے مطابق بعد ميں ایک رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بيٹھ کر بجا لائے، ليکن احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ دو رکعت بيٹھ کر بجا لانے کو اختيار کرے۔

٧) قيام کے دوران تين اور پانچ رکعت کے درميان شک، کہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ بيٹھ کر تشهد وسلام بجا لائے اور بعد ميں دو رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر بجا لائے۔

٨) قيام کے دوران تين، چاراور پانچ رکعت کے درميان شک،کہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ بيٹھ جائے اور تشهد وسلام بجا لائے اور دو رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر اور بعد ميں دو رکعت بيٹھ کر بجا لائے۔

٩) قيام کے دوران پانچ اور چھ رکعت کے درميان شک کرے، کہ اس صور ت ميں ضروری ہے کہ بيٹھ جائے اور تشهد وسلام بجا لائے اور دو رکعت سجدہ سهو بھی بجا لائے۔

نيزاحتياط مستحب کی بنا پر ان آخری چار صورتوں ميں بے جا قيام کے لئے دو سجدہ سهو اور بجا لائے۔

مسئلہ ١٢٠٨ اگر کسی شخص کوصحيح شکوک ميں سے کوئی شک پيش آجائے تو اس کے لئے نماز توڑنا جائز نہيں بلکہ ضروری ہے کہ اس شک کے احکام پر عمل کرے اور اگر اس شک کے احکام پر عمل نہ کرے اور کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہے مثلاًقبلہ سے پھر جانا، دوسری نماز پڑھنا شروع کر دے تو اس کی دوسری نماز بھی باطل ہے ۔ ہاں، اگر نماز باطل کرنے والے کسی کام کو انجام دینے کے بعد دوسری نمازشروع کرے تو اس کی دوسری نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٢٠٩ اگر کسی شخص کو نمازميں ایک ایسا شک پيش آجائے جس کی وجہ سے نماز احتيا ط واجب ہو جاتی ہوتو اس شخص کے لئے ضروری ہے کہ نماز مکمل کرنے کے بعد نماز احتياط بجا لائے اور نئے سرے سے دوسری نماز نہ پڑھے اور اگر وہ نماز احتياط نہ پڑھے اور کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نمازکو باطل کر دیتا ہے دوسری نماز پڑھنا شروع کر دے تو اس کی دوسری نماز بھی باطل ہے ۔ ہاں، اگر نماز باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کے بعد دوسری نماز شروع کرے تو اس کی دوسری نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٢١٠ جب نمازکو باطل کرنے والے شکوک ميں سے کوئی شک انسان کو لاحق ہو جائے اور وہ جانتا ہو کہ بعد کی حالت ميں منتقل ہو جانے پر اس کے لئے یقين یا گمان پيدا ہو جائے گا تو اس کے لئے شک کی حالت ميں نماز جاری رکھنا جائز نہيں ہے ۔ مثلاًاگر قيام کی حالت ميں شک کرے کہ نماز ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ اور وہ یہ جانتا ہو کہ اگر رکوع ميں چلا جائے تو اس کے لئے کسی ایک طرف کا یقين یا گمان پيدا ہو جائے گا تو اس شخص کے لئے اس حالت ميں رکوع کرنا جائز نہيں ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511