توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207659 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

توضيح المسائل

حضرت آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد

خراسانی مدظلہ العالی

ناشر: مدرسة الامام الباقر العلوم عليہ السلام

دوسرا ایڈیشن: ١ ۴ ٢٨ ه، مطابق ٢٠٠٧

پریس: نگارش

ملنے کا پتہ: قم، صفائيہ روڈ، گلی نمبر ٣٧ ، مکان نمبر ٢١ ، ٹيليفون: ٧٧ ۴ ٣٢ ۵۶ ۔ ٠٢ ۵ ١

۳

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ا

َلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَ الصَّلوٰةُ وَ السَّلاَمُ عَلیٰ ا شَْٔرَفِ اْلا نَْٔبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ الطَّيِّبِيْنَ

الطَّاهِرِیْنَ لاَ سِيِّمَا بَقِيَّةِ اللّٰهِ فِي اْلا رََٔضِيْنَ، وَ اللَّعْنَةُ الدَّائِمَةُ عَلٰی ا عَْٔدَائِهِمْ اَجْمَعِيْنَ

تقليد کے احکام

مسئلہ ١انسان کے لئے ضروری ہے کہ اصولِ دین اسلام پراس کے عقيدے کی بنياد یقين پر ہو۔

اصول دین ميں تقليد یعنی یقين حاصل کئے بغير کسی کی پيروی کرنا، باطل ہے ، ليکن احکام دین ميں ضروری اور قطعی امور اور اسی طرح وہ موضوعات جو دليل کے محتاج ہيں ، کے علاوہ ضروری ہے کہ:

١)یا خود مجتهد ہو کہ اپنی ذمہ داریوں کو دليل کے ساته جان سکے۔

٢)یا کسی ایسے مجتهدکے احکامات پرعمل کرے(تقليد کرے)جس کی شرائط کاتذکرہ آئندہ بيان ہوگا۔

٣)یا احتياط کرتے ہوئے اپنا فریضہ اس طرح انجام دے کہ اسے اپنی ذمہ داری پوری ہونے کا یقين ہوجائے مثلاً اگر چند مجتهد کسی عمل کو حرام قرار دیں اور چند دوسروں کا کهنا ہو کہ حرام نہيں ہے تو اس عمل سے باز رہے اور اگر کسی عمل کو بعض مجتهد واجب اور بعض جائز سمجھتے ہوں تو اس عمل کو بجالائے، لہٰذا جو اشخاص نہ تو مجتهد ہوں اور نہ ہی احتياط پر عمل پيرا ہوسکيں ان کے لئے واجب ہے کہ تقليد کریں۔

مسئلہ ٢گذشتہ ميں بيان کی گئی چيزوں ميں تقليد کامطلب یہ ہے کہ کسی مجتهد کے فتوے پر عمل کيا جائے اور مقلدکے لئے ایسے مجتهد کا قول حجّت ہے جو:

١) مرد

٢) عاقل

٣) شيعہ اثناء عشری

۴) حلال زادہ

۵) زندہ : اگرچہ مقلد نے مميز ہونے کے زمانے ميں مجتهد کو پایا ہو

۶) عادل

٧) بنا بر احتياط واجب بالغ ہو۔

۴

عادل وہ شخص ہے جو ان اعمال کو بجالائے جو اس پر واجب ہيں اور ان باتوں کو ترک کردے جو اس پر حرام ہيں ۔

عادل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بظاہر ایک اچھا شخص ہو کہ اگر اس کے اہل محلہ یا ہمسایوں یا ا س سے ميل جول رکھنے والے افراد سے اس کے بارے ميں دریافت کيا جائے تو وہ اس کی اچھائی کی تصدیق کریں۔

اگر در پيش مسائل ميں مجتهدین کے فتوے مختلف ہونے کا، مجملاً ہی سهی، علم ہو تو ضروری ہے کہ اس مجتهد کی تقليد کی جائے جو اعلم ہو یعنی اپنے زمانے کے دوسرے مجتهدوں کے مقابلے ميں احکام الهی اور مقررہ ذمہ داریوں کو عقلی اور شرعی دليلوں کے ذریعے سمجھنے کی بہتر صلاحيت رکھتا ہو، سوائے اس کے کہ غير اعلم کا قول احتياط کے مطابق ہو۔

مسئلہ ٣مجتهد اور اعلم کی پہچان چند طریقوں سے ہو سکتی ہے :

١)انسان کو خود یقين ہو جائے مثلاً وہ خوداتنا صاحب علم ہو کہ مجتهد اوراعلم کو پہچان سکے۔

٢)دو ایسے عالم اور عادل افراد جو مجتهد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحيت رکھتے ہوں کسی کے مجتهد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطيکہ دو ایسے ہی عالم اور عادل اشخاص ان کی تردید نہ کریں۔

اور اقویٰ یہ ہے کہ کسی کا مجتهد یا اعلم ہونا ایک ایسے قابل اعتماد شخص کے قول سے بھی ثابت ہو جاتا ہے جو اہل خبرہ سے ہو جب کہ اس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو۔

٣)کچه اہل علم جو مجتهد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحيت رکھتے ہوں اور ان کی بات سے اطمينان آجاتا ہو کسی کے مجتهد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں۔

مسئلہ ۴ اگر در پيش فتاویٰ ميں دو یا زیادہ مجتهدین کے درميان، اجمالاً ہی سهی، اختلاف کا علم ہو تو اگر خود علم رکھتا ہو یا حجتِ شرعيہ اس بات پر قائم ہوجائے کہ دونوں علم کے اعتبار سے مساوی ہيں تو ضروری ہے کہ اس کے فتوے پرعمل کرے جس کا فتویٰ احتياط کے مطابق ہو اور اگر ان ميں سے کسی کا فتویٰ احتياط کے مطابق نہ ہومثلاً ایک پوری نماز پڑھنے کا فتویٰ دے جب کہ دوسرا قصر نماز پڑھنے کا فتویٰ دے تو ضروری ہے کہ احتياط کرتے ہوئے دونوں کے مسائل پر عمل کرے۔

اور اگر احتياط ممکن نہ ہو، مثلاًایک مجتهد کسی عمل کے واجب ہونے کا فتویٰ دے جب کہ دوسرا اسی کے حرام ہونے کا فتویٰ دے یا احتياط پر عمل کرنا مشقت کا باعث ہو تو احتياط کی بنا پر اس کے فتوے پر عمل کرے جو فتویٰ دینے ميں زیادہ صاحبِ ورع ہو اور اگر ورع کے اعتبار سے بھی مساوی ہوں تو پھر اختيار ہے کہ جس کے فتوے پر چاہے عمل کرے۔ یهی حکم اس صورت ميں بھی لگے گا کہ جب کسی ایک کے اعلم ہونے کا یقين ہو ليکن معيّن نہ ہو کہ کون اعلم ہے یا کسی ایک کے اعلم ہونے کا احتمال ہو، جب کہ احتيا ط پر عمل کرنا ممکن ہو اور مشقت کا باعث نہ ہو۔

۵

پس اگر احتياط کرنا ممکن نہ ہو یا مشقت کا باعث ہو تو پهلی صورت ميں ، جب کہ کسی ایک کے اعلم ہونے کا یقين ہے ليکن معين نہيں ہے کہ کون اعلم ہے ، اگر کسی ایک ميں اعلميت کا احتمال زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے اور اگر دونوں ميں اعلميت کا احتمال برابر ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ جو فتویٰ دینے ميں زیادہ صاحب ورع ہو اس کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے اور اگر اس اعتبار سے بھی مساوی ہوں تو پھر اختيار ہے کہ ان دو ميں سے جس کی چاہے تقليد کرلے۔

اور دوسری صورت ميں ، کہ جب اعلم کے وجود کا احتمال ہو، احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جس کے بارے ميں اعلم ہونے کا گمان یا احتمال ہو یا جس کے بارے ميں اعلميت کا احتمال زیادہ قوی ہو اس کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے ورنہ احتياط واجب کی بنا پر فتویٰ دینے کے معاملے ميں زیادہ صاحب ورع کے فتاویٰ پر عمل کرے اور اگر اس اعتبار سے بھی مساوی ہوں تو اختيار ہے کہ کسی کے بھی فتاویٰ پر عمل کرے۔

مسئلہ ۵ کسی مجتهد کا فتویٰ حاصل کرنے کے چار طریقے ہيں :

١)خود مجتهد سے ( اس کا فتویٰ) سننا۔

٢)ایسے دو عادل اشخاص سے سننا جو مجتهد کا فتویٰ بيان کریں۔

٣)مجتهد کا فتویٰ کسی قابل اعتماد شخص سے سننا جس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، یا اس کی بات پر اطمينان ہو۔

۴) اس فتوے کامجتهد کی مسائل کے بارے ميں تحریرکردہ کتاب ميں پڑھنا بشرطيکہ اس کتاب کے درست ہونے کے بارے ميں اطمينان ہو۔

مسئلہ ۶ جب تک انسان کو یہ یقين نہ ہو جائے کہ مجتهد کا فتویٰ تبدیل ہو چکا ہے وہ اس مسئلے پر عمل کر سکتا ہے اور اگر فتوے کے بدلے جانے کا احتمال ہو تو چھان بين ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٧اگر مجتهد اعلم کسی مسئلے ميں کوئی فتویٰ دے تو جس شخص کی ذمہ داری اس مجتهد کی تقليد کرنا ہے ، اس مسئلے ميں کسی دوسرے مجتهد کے فتوے پر عمل نہيں کر سکتا، ليکن اگر وہ مجتهد اعلم فتویٰ نہ دے بلکہ یہ فرمائے کہ احتياط اس ميں ہے کہ یوں عمل کيا جائے مثلاً یہ فرمائے کہ احتياط اس ميں ہے کہ چار رکعتی نماز کی تيسری اور چوتھی رکعت ميں تين مرتبہ کهے :سُبْحَانَ اللّهِ وَالْحَمْدُ لِلّهِ وَلاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّهُ وَ اللّهُ ا کَْٔبَر ، تو مقلد کے لئے ضروری ہے کہ یا تو اس احتياط پر، جسے احتياط واجب کہتے ہيں ، عمل کرے یا کسی ایسے دوسرے مجتهد کے فتوے پرجو اس کے بعد دوسروں کے مقابلے ميں اعلم ہو، عمل کرے جو ایک مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنے کو کافی سمجھتا ہو۔

۶

اسی طرح اگر مجتهد اعلم کسی مسئلے کے بارے ميں یہ فرمائے کہ محل تامل یامحل اشکال ہے تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

اور اس رسالے ميں تحریر کئے گئے مستحبات کو انجام دیتے اور مکروہات کو ترک کرتے وقت رجاء کی نيت کی جائے۔

مسئلہ ٨اگر مجتهد اعلم کسی مسئلے ميں فتویٰ دینے کے بعد یا اس سے پهلے احتياط کا تذکرہ کرے مثلاً یہ فرمائے کہ نجس برتن ایسے پانی ميں جس کی مقدار ایک کُرکے برابر ہو ایک مرتبہ دهونے سے پاک ہو جاتا ہے اگر چہ احتياط اس ميں ہے کہ تين مرتبہ دهوئے، تو مقلد کو اس بات کی اجازت ہے کہ اس احتياط کو جسے احتياطِ مستحب کہتے ہيں ترک کر دے۔

مسئلہ ٩وہ مجتهد جس کی تقليد کرنا انسان کی ذمہ داری تھی اگر اس دنيا سے انتقال کر جائے تو اس صورت ميں کہ فوت شدہ مجتهد کے مقابلے ميں زندہ مجتهد کا اعلم ہونا اس کے نزدیک ثابت ہوجائے، در پيش مسائل ميں اگر زندہ اور فوت شدہ مجتهد کے فتاویٰ ميں ۔اجمالاً ہی سهی۔اختلاف کا علم ہو تو واجب ہے کہ زندہ کے مسائل پر عمل کرے اور اگر ميت کا اعلم ہونا اس کے نزدیک ثابت تھا تو جب تک زندہ کا اعلم ہونا اس کے نزدیک ثابت نہ ہو جائے ضروری ہے کہ فوت شدہ مجتهد کے فتاویٰ کے مطابق عمل کرے، چاہے اس کی زندگی ميں اس کے فتوے پر عمل کرنے کا ملتزم تھا یا نہيں ، چاہے اس کی زندگی ميں اس کے فتاویٰ پر عمل کيا ہو یا نہ کيا ہواور چاہے اس کی زندگی ميں اس کے فتاویٰ کو سيکها ہو یا نہ سيکها ہو۔

مسئلہ ١٠ اگر کسی مسئلے ميں ایک شخص کی ذمہ داری یہ ہو کہ زندہ مجتهد کے فتوے کے مطابق عمل کرے تو وہ اس مسئلے ميں دوبارہ فوت شدہ مجتهد کی تقليد نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ١١ جو مسائل انسان کو عموماً در پيش آتے ہوں ان کا سيکهنا واجب ہے ۔

مسئلہ ١٢ اگر کسی شخص کو کوئی ایسا مسئلہ پيش آئے جس کا حکم اسے معلوم نہ ہو تو ضروری ہے کہ احتياط کرے یا مذکورہ شرائط کے مطابق تقليد کرے، ليکن اگر اسے اعلم اور غير اعلم کی آراء کے مختلف ہونے کا، مجملاً ہی سهی، علم ہو اوراعلم کے فتوے تک رسائی نہ ہواور اعلم کا فتویٰ معلوم ہونے تک تاخير کرنا یا احتياط پر عمل کرنا ممکن نہ ہو یا حرج کا سبب ہو تو غير اعلم کی تقليد جائز ہے ۔

مسئلہ ١٣ اگر کوئی شخص کسی مجتهد کا فتویٰٰ کسی دوسرے شخص کو بتائے اور پھر مجتهد اپنا سابقہ فتویٰ بدل دے تو اُس کے لئے اُس دوسرے شخص کو فتوے کی تبدیلی کی اطلاع دینا ضروری نہيں ،ليکن اگر فتویٰ بتانے کے بعد یہ معلوم ہوکہ فتویٰ بتانے ميں غلطی ہوگئی ہے تواگراس کی وجہ سے وہ شخص کسی حکمِ الزامی(واجب/حرام) کی مخالفت ميں پڑ رہا ہو تو جهاں تک ممکن ہو اس غلطی کا ازالہ ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ اگر کوئی مکلف ایک مدت تک بغير کسی کی تقليدکئے اعمال بجالاتارہے تو اگر اس کا عمل واقع کے مطابق ہویااس مجتهد کے فتاویٰ کے مطابق ہو کہ جس کی تقليدکرنافی الحال اس کی ذمہ داری ہے تواس کے اعمال صحيح ہيں ۔

۷

احکام طهارت

مطلق اور مضاف پانی

مسئلہ ١ ۵ پانی یا مطلق ہوتا ہے یا مضاف۔ مضاف پانی وہ ہوتا ہے جسے کسی چيز سے حاصل کيا جائے، مثلاًتربوز کا پانی یا گلاب کا عرق۔ اس پانی کو بھی مضاف کہتے ہيں جو کسی دوسری چيز سے ملا ہوا ہومثلاً وہ پانی جو اس حد تک مٹی وغيرہ سے ملا ہوا ہو کہ پھر اسے پانی نہ کها جاسکے ۔

ان کے علاوہ جو پانی ہو اسے ’آب مطلق‘ کہتے ہيں اور اس کی پانچ قسميں ہيں :

١)کرُ پانی

٢)قليل پانی

٣)جاری پانی

۴) بارش کاپانی

۵) کنویں کا پانی

١۔ کرُ پانی

مسئلہ ١ ۶ پانی کی وہ مقدار ایک کُر ہے جو ایک ایسے برتن کو بھر دے جس کی لمبائی، چوڑائی اور گهرائی تين تين بالشت ہو۔

مسئلہ ١٧ کوئی عين نجس چيز مثلاً پيشاب یا خون یا وہ چيز جو نجس ہوگئی ہو جےسے کہ نجس لباس، اگر ایسے پانی ميں گرجائے جس کی مقدار ایک کُرکے برابر ہو اور اس کے نتیجے ميں پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ بدل جائے تو پانی نجس ہوجائے گا، ليکن اگر ایسی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو نجس نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١٨ کرُ پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ اگر نجاست کے علاوہ کسی اور چيز سے تبدیل ہوجائے تو وہ پانی نجس نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١٩ کوئی عين نجس چيز مثلاً خون، اگر ایسے پانی ميں جا گرے جس کی مقدار ایک کرُ سے زیادہ ہو اور اس کے ایک حصے کی بو، رنگ یا ذائقہ تبدیل کر دے تو اس صورت ميں اگر پانی کے اس حصّے کی مقدار جس ميں کوئی تبدیلی واقع نہيں ہوئی ایک کُر سے کم ہو تو سارا پانی نجس ہوجائے گا ليکن اگر اس کی مقدار ایک کُر یا اُس سے زیادہ ہو تو صرف وہ حصّہ نجس ہوگا جس کی بو، رنگ یا ذائقہ تبدیل ہوا ہے ۔

۸

مسئلہ ٢٠ فوارے کا پانی اگر کرُ پانی سے متصل ہوتو نجس پانی کو پاک کردیتا ہے ليکن اگر نجس پانی پر فوارے کا پانی قطروں کی صورت ميں گرے تو اسے پاک نہيں کرتا، البتّہ اگر فوارے کے سامنے کوئی چيز رکھ دی جائے جس کے نتیجے ميں اس کا پانی قطرہ قطرہ ہونے سے پهلے نجس پانی سے متصل ہوجائے تو نجس پانی کو پاک کردیتا ہے اوراحتياطِ مستحب يہ ہے کہ فوارے کا پانی نجس پانی سے مخلوط ہوجائے۔

مسئلہ ٢١ اگر کسی نجس چيز کوکرُپانی سے متصل نل کے نيچے دهوئيں اور اس چيز کی دهوون اس پانی سے متصل ہوجائے جس کی مقدار ایک کُر سے کم نہ ہو تو وہ دهوون پاک ہوگی بشرطیکہ اس ميں نجاست کی بو، رنگ یا ذائقہ پيدا نہ ہو۔

مسئلہ ٢٢ اگر کُر پانی کا کچھ حصّہ جم کر برف بن جائے اور جو حصّہ پانی کی شکل ميں باقی رہے اس کی مقدار ایک کرُ سے کم ہو تو جونهی کوئی نجاست اس پانی کو چھوئے گی وہ نجس ہوجائے گا اور برف پگهلنے پر جو پانی بنتا جائے گا وہ بھی نجس ہوگا۔

مسئلہ ٢٣ اگر پانی کی مقدار ایک کرُ کے برابر ہو اور بعد ميں شک ہو کہ آیا اب بھی کرُ کے برابر باقی ہے یا نہيں تو اس کی حيثيت ایک کرُ پانی ہی کی ہوگی یعنی وہ نجاست کو بھی پاک کرے گا اور نجاست کے اتّصال سے نجس بھی نہيں ہوگا۔ اس کے برعکس جو پانی ایک کرُ سے کم تھا اگر اس کے متعلق شک ہو کہ اب اس کی مقدار ایک کُرکے برابر ہوگئی ہے یانہيں تو اسے ایک کُرسے کم ہی سمجھا جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۴ پانی کا ایک کُر کے برابر ہونا چند طریقوں سے ثابت ہو سکتا ہے :

١) انسان کو خود اس بارے ميں یقین یا اطمينان ہو۔

٢) دو عادل مرد اس کے بارے ميں خبر دیں۔

٣)کوئی قابلِ اعتماد شخص خبر دے کہ جس کی کهی ہوئی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو۔

۴) جس شخص کے اختيار ميں پانی ہے وہ اطلاع دے جب کہ اسے جھوٹا نہ کها جاتا ہو۔

٢۔ قليل پانی

مسئلہ ٢ ۵ قليل پانی، وہ پانی ہے جو زمين سے نہ اُبلے اور جس کی مقدار ایک کُرسے کم ہو۔

مسئلہ ٢ ۶ جب قليل پانی کسی نجس چيزپرگرے یاکوئی نجس چيزاس سے آملے توپانی نجس ہوجائے گا، البتّہ اگر پانی نجس چيزپرزورسے گرے تواس کاجتناحصّہ اس نجس چيزسے مل جائے گانجس ہوجائے گاليکن باقی پاک رہے گا۔

۹

مسئلہ ٢٧ جو قليل پانی کسی چيز پر عین نجاست دُور کرنے کے لئے ڈالا جائے وہ اس سے جداہونے پر نجس ہوتا ہے ، ليکن وہ قليل پانی جو عین نجاست کے الگ ہوجانے کے بعد نجس چيز کو پاک کرنے کے لئے اس پر ڈالا جائے اور اس سے جدا ہوجائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨ جس پانی سے پيشاب یا پاخانہ کے خارج ہونے کے مقامات دهوئے جائيں وہ اگر مندرجہ ذیل پانچ شرائط پوری کرتا ہو تو کسی پاک چيز سے ملنے پر اُسے نجس نہيں کرے گا :

١) پانی ميں نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ پيدا نہ ہوا ہو۔

٢)باہر سے کوئی نجاست اس پانی سے نہ آملی ہو۔

٣)کوئی اور نجاست مثلاً خون، پيشاب یا پاخانے کے ساته خارج نہ ہوئی ہو۔

۴) بنابر احتياط پاخانے کے ذرّے پانی ميں دکهائی نہ دیں۔

۵) پيشاب یا پاخانہ خارج ہونے کے مقامات پر معمول سے زیادہ نجاست نہ لگی ہو۔

٣۔ جاری پانی

جاری پانی وہ ہے جو زمين سے اُبلے اور بہتا ہو مثلاً چشمے یا کارےز کا پانی۔

مسئلہ ٢٩ جاری پانی اگرچہ کُرسے کم ہی کیوں نہ ہو، نجاست کے آملنے سے جب تک نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ نہ بدل جائے پاک ہے ۔

مسئلہ ٣٠ اگر نجاست جاری پانی سے آملے تو اس کی اتنی مقدار جس کی بُو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل جائے نجس ہے ، البتہ اس پانی کا وہ حصّہ جو چشمے سے متصل ہو پاک ہے خواہ اس کی مقدار کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو، جب کہ ندی کی دوسری طرف کا پانی اگر ایک کُر جتنا ہو یا اس پانی کے ذریعے جس ميں (بُو، رنگ یا ذائقے کی) کوئی تبدیلی واقع نہيں ہوئی چشمے کی طرف کے پانی سے ملا ہو تو پاک ہے ورنہ نجس ہے ۔

مسئلہ ٣١ اگر کسی چشمے کا پانی جاری نہ ہو ليکن صورت يہ ہو کہ اگر اس ميں سے پانی نکال ليں تو دوبارہ اس کا پانی اُبل پڑتا ہو تو وہ بھی جاری پانی کے حکم ميں آتا ہے یعنی اگر نجاست اس سے آملے تو جب تک نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ بدل نہ جائے پاک ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ندی یا نہر کے کنارے کا پانی جو ساکن ہو اور جاری پانی سے متصل ہو اس وقت تک نجس نہيں ہوتا جب تک کسی نجاست کے آملنے کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے۔

۱۰

مسئلہ ٣٣ اگر ایک ایسا چشمہ ہو جو مثال کے طور پر سردیوں ميں پهوٹتا ہو ليکن گرمیوں ميں پهوٹنا بند ہوجاتا ہو، صرف پهوٹتے وقت جاری پانی کا حکم رکھتاہے۔

مسئلہ ٣ ۴ اگر کسی حمام کے حوضچے کا پانی ایک کُر سے کم ہو ليکن وہ پانی کے ایک ایسے ذخیرے سے متصل ہو جس کا پانی حوض کے پانی سے مِل کر ایک کُر بن جاتا ہو، جاری پانی کی طرح ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ حمام اور عمارات کے پائپوںکا پانی جو ٹونٹیوں اور شاور کے ذریعے بہتا ہے اگر ایسے ذخیرے سے متصل ہو جس کا پانی ایک کُر سے کم نہ ہو تو نلکوں وغيرہ کا پانی، جاری پانی کا حکم رکھتا ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶ جو پانی زمين پر بہہ رہا ہو ليکن زمين سے نہ پهوٹتا ہو اگر وہ ایک کُر سے کم ہو اور اس ميں نجاست مِل جائے تو وہ نجس ہوجائے گا، ليکن اگر وہ پانی تيزی سے بہہ رہا ہواور نجاست اس کے نچلے حصے کو لگے تو اس کا اوپر والا حصہ نجس نہيں ہوگا۔

۴ ۔ بارش کا پانی

مسئلہ ٣٧ جس نجس چيز ميں عین نجاست نہ ہو اگر اس پر ایک مرتبہ بارش ہو جائے تو جهاں جهاں بارش کا پانی پهنچ جائے وہ جگہ پاک ہو جاتی ہے اورقالين و لباس وغيرہ کا نچوڑنا بھی ضروری نہيں ہے ، ليکن بارش کے دو تین قطرے کافی نہيں ہيں بلکہ اتنی بارش ضروری ہے کہ کها جائے کہ بارش ہو رہی ہے ، بلکہ احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اتنی بارش ہو کہ اگر سخت زمين ہو تو پانی بهنا شروع ہوجائے۔

مسئلہ ٣٨ اگر بارش کا پانی عين نجس پر برسے اور پھر وہاں سے رِس کر دوسری جگہ پهنچے ليکن عین نجاست اس ميں شامل نہ ہو اور نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ بھی اس ميں پيدا نہ ہوا ہو تو وہ پانی پاک ہے ، پس اگر بارش کا پانی خون پر برسنے کے بعد رِسے اور اس ميں خون کے ذرّات شامل ہوں یا خون کی بُو، رنگ یا ذائقہ پيدا ہوگيا ہو تو وہ پانی نجس ہوگا۔

مسئلہ ٣٩ اگر مکان کی نچلی یا بالائی چھت پر عین نجاست موجود ہو تو بارش کے دوران جو پانی نجاست کو چُھو کر نچلی چھت سے ٹپکے یا پرنالے سے گرے پاک ہے ، ليکن جب بارش تھم جائے اور يہ بات علم ميں آئے کہ اب جو پانی گر رہا ہے وہ کسی نجس چيز سے لگ کر آرہا ہے تو وہ پانی نجس ہوگا۔

مسئلہ ۴ ٠ جس نجس زمين پر بارش برس جائے پاک ہوجاتی ہے اور اگر بارش کا پانی زمين پر بهنے لگے اور بارش کے دوران ہی کسی ایسے نجس مقام پر پهنچ جائے جوچھت کے نيچے ہو تو اسے بھی پاک کردے گا۔

مسئلہ ۴ ١ جس نجس مٹی کے اجزاء تک بارش کا مطلق پانی پهنچ جائے تو مٹی پاک ہوجائے گی چاہے بارش کی وجہ سے کےچڑ ہی بن جائے۔

۱۱

مسئلہ ۴ ٢ اگر بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہوجائے خواہ اس کی مقدار ایک کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو، اگر بارش کے دوران ہی کوئی نجس چيز اس ميں دهوئی جائے اور نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل نہ ہو تو وہ نجس چيز پاک ہوجائے گی۔

مسئلہ ۴ ٣ اگر نجس زمين پر بچهے ہوئے پاک قالين پر بارش برسے اور اس کا پانی نجس زمين تک پهنچ جائے تو فرش بھی نجس نہيں ہوگا اور زمين بھی پاک ہوجائے گی۔

مسئلہ ۴۴ اگر بارش کا پانی ایک گڑھے ميں جمع ہوجائے اور اس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو تو بارش تھمنے کے بعد نجاست کی آمیزش سے نجس ہوجائے گا۔

۵ ۔ کنويں کا پانی

مسئلہ ۴۵ ایک ایسے کنویں کا پانی جو زمين سے اُبلتا ہو اگرچہ مقدار ميں ایک کُر سے کم ہو، نجاست پڑنے پر جب تک اس نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے پاک ہے ، ليکن مستحب ہے کہ بعض نجاستوں کے گرنے پر کنویں سے تفصيلی کتابوں ميں درج شدہ مقدار کے مطابق پانی نکال دیا جائے۔

مسئلہ ۴۶ اگر کوئی نجاست کنویں ميں گر جائے اور اس کے پانی کی بُو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کر دے تو جب کنویں کے پانی ميں پيدا شدہ يہ تبدیلی ختم ہوجائے گی پانی پاک ہوجائے گا اوراحتياطِ مستحب يہ ہے کہ يہ پانی کنویں کے منبع سے اُبلنے والے پانی ميں مخلوط ہوجائے۔

پانی کے احکام

مسئلہ ۴ ٧ مضاف پانی، جس کے معنی مسئلہ” ١ ۵ “ ميں بيان ہوچکے ہيں ، کسی نجس چيز کو پاک نہيں کرتا۔ ایسے پانی سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨ مضاف پانی چاہے قليل ہو یا کثير، نجاست سے ملنے پر نجس ہوجاتا ہے اگرچہ اس حکم کا بعض کثیر تعداد کے مضاف پانيوں کے لئے بھی عام ہونا محل اشکال ہے ، البتہ اگر ایسا پانی کسی نجس چيز پر زور سے گرے تو اس کا جتنا حصّہ نجس چيز سے متصل ہوگا نجس ہوجائے گا اور جو متصل نہيں ہوگا پاک رہے گا مثلاً اگر عرقِ گلاب کو گلابدان سے نجس ہاتھ پر چھڑکا جائے تو اس کا جتنا حصّہ ہاتھ کو لگے گا نجس ہوجائے گا اور جو نہيں لگے گا وہ پاک رہے گا۔

مسئلہ ۴ ٩ اگرنجس مضاف پانی ایک کُر کے برابر پانی یا جاری پانی سے یوں مل جائے کہ پھر اسے مضاف پانی نہ کها جاسکے تو وہ پاک ہوجائے گا۔

۱۲

مسئلہ ۵ ٠ اگر ایک پانی مطلق تھا اور بعد ميں اس کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ مضاف ہوجانے کی حد تک پهنچا ہے یا نہيں تو وہ مطلق پانی کی طرح ہے ، یعنی نجس چيز کو پاک کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی صحيح ہوگا اور اگرایک پانی مضاف تھا اور يہ معلوم نہ ہو کہ وہ مطلق ہوا یا نہيں تو وہ مضاف پانی کی طرح ہے ، یعنی کسی نجس چيز کو پاک نہيں کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہوگا۔

مسئلہ ۵ ١ ایسا پانی جس کے بارے ميں يہ معلوم نہ ہوکہ مطلق ہے یامضاف اور يہ بھی معلوم نہ ہو کہ پهلے مطلق تھا یا مضاف، نجاست کوپاک نہيں کرتااوراس سے وضو و غسل کرنا بھی باطل ہے ،ليکن اگر وہ ایک کرُ یا اس سے زیادہ ہو تو نجاست ملنے کی صورت ميں بھی اس پر پاک پانی کا حکم لگے گا۔

مسئلہ ۵ ٢ ایسا پانی جس ميں کوئی عينِ نجاست مثلاً خون یا پيشاب گر جائے اور اس کی بُو،رنگ یا ذائقے کو تبدیل کردے نجس ہوجاتا ہے خواہ وہ کُر یا جاری پانی ہی کيوں نہ ہو، تاہم اگر اس پانی کی بُو، رنگ یا ذائقہ کسی ایسی نجاست سے تبدیل ہو جو اس سے باہر ہے مثلاً قر ےب پڑے ہوئے مردار کی وجہ سے اس کی بُو، بدل جائے تو پھر وہ پانی نجس نہيں ہوگا۔

مسئلہ ۵ ٣ وہ پانی جس کی بُو، رنگ یا ذائقہ کسی عينِ نجس مثلاً خون یا پيشاب گرنے کی وجہ سے تبدیل ہو چکاہو، اگر کُر یا جاری پانی سے متصل ہوجائے یا اس پر بارش کا پانی برسے یا ہوا،بارش کا پانی اس پر گرائے یا بارش کا پانی بارش کے دوران ہی پرنالے سے اس پر گرے اور ان تمام صورتوں ميں اس ميں واقع شدہ تبدیلی زائل ہوجائے تو ایسا پانی پاک ہوجاتا ہے ، ليکن احتياطِ مستحب یہ ہے کہ بارش کا پانی یاکُر یا جاری پانی اس نجس پانی ميں مخلوط ہوجائے۔

مسئلہ ۵۴ اگر کسی نجس چيز کو کُر یا جاری پانی ميں پاک کيا جائے تو جس دهونے ميں وہ چيز پاک ہوتی ہے اس کے بعد وہ پانی جو باہر نکالنے کے بعد اس چيزسے ٹپکے، پاک ہوگا۔

مسئلہ ۵۵ جو پانی پهلے پاک ہو اور يہ علم نہ ہو کہ بعد ميں نجس ہوا یا نہيں وہ پاک ہے اور جو پانی پهلے نجس ہو اور معلوم نہ ہو کہ بعد ميں پاک ہوا یا نہيں وہ نجس ہے ۔

مسئلہ ۵۶ کتے، سو رٔاور غیر کتابی کافرکا جھوٹا نجس ہے اور اس کا کھانا اور پینا حرام ہے مگر حرام گوشت جانوروں کا جھوٹا پاک ہے اور بلّی کے علاوہ اس قسم کے باقی تمام جانوروں کا جھوٹا کھانا اور پینا مکروہ ہے ۔

۱۳

بيت الخلاء کے احکام

مسئلہ ۵ ٧ انسان پر واجب ہے کہ پيشاب اور پاخانہ کرتے وقت اور دوسرے مواقع پر اپنی شرمگاہوں کو ان لوگوں سے جو اچھے اور برے کی تميز رکھتے ہوںخواہ وہ اس کے محرم ہی کیوں نہ ہوں، چاہے مکلف ہوں یا نہ ہوں، چھپا کر رکھے، ليکن بيوی اور شوہر کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو بيوی اور شوہر کے حکم ميں آتے ہيں مثلاً کنیز اور اس کے مالک کے لئے ، اپنی شرمگاہوں کو ایک دوسرے سے چھپا نا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ۵ ٨ اپنی شرمگاہوں کو کسی مخصوص چيز سے ڈهانپنا ضروری نہيں مثلاً اگر ہاتھ سے بھی ڈهانپ ليا جائے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ پيشاب یا پاخانہ کرتے وقت ضروری ہے کہ بدن کا اگلا حصّہ یعنی پيٹ اور سینہ روبہ قبلہ یا پشت بقبلہ نہ ہو۔

مسئلہ ۶ ٠ اگر پيشاب یا پاخانہ کرتے وقت کسی شخص کے بدن کا اگلا حصہ رو بقبلہ یا پشت بقبلہ ہو اور وہ اپنی شرمگاہ کو قبلے کی طرف سے موڑلے تو يہ کافی نہيں ہے اور اگر اس کے بدن کا اگلا حصّہ روبقبلہ یا پشت بقبلہ نہ ہو تو احتياطِ واجب يہ ہے کہ شرمگاہ کو روبقبلہ یا پشت بقبلہ نہ موڑے۔

مسئلہ ۶ ١ احتياطِ مستحب يہ ہے کہ استبرا کے موقع پر، جس کے احکام بعد ميں بيان کیئے جائيں گے اور پيشاب اور پاخانہ خارج ہونے کے مقامات کو پاک کرتے وقت بدن کا اگلا حصّہ رو بقبلہ یا پشت بقبلہ نہ ہو۔

مسئلہ ۶ ٢ اگر کيفيت یہ ہو کہ یا وہ فرد جو شرمگاہ کے حوالے سے نا محرم ہے وہ شرمگاہ پر نظر ڈالے اور یا پھر روبقبلہ یا پشت بقبلہ بيٹھے تو نا محرم سے شرمگاہ کو چھپا نا واجب ہے اور اس صورت ميں احتياطِ واجب يہ ہے کہ پشت بقبلہ بیٹھے (یعنی رو بقبلہ نہ بیٹھے)۔ اسی طرح اگر کسی اور وجہ سے رو بقبلہ یا پُشت بقبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣ احتياطِ مستحب يہ ہے کہ بچّے کو رفعِ حاجت کے لئے رُو بقبلہ یا پشت بقبلہ نہ بٹھ ایا جائے۔

مسئلہ ۶۴ چار مقامات پر رفع حاجت حرام ہے :

١) بند گليوں ميں جب کہ گلی والوں نے اس کی اجازت نہ دی ہو۔

٢)کسی ایسے شخص کی زمين ميں جس نے رفعِ حاجت کی اجازت نہ دی ہو۔

٣) ان جگہوں ميں جو مخصوص افراد کے لئے وقف ہوں مثلاً بعض مدرسے۔

۴) ہر اس جگہ جهاں رفع حاجت کسی مومن کی بے حرمتی یا دین یا مذهب کی کسی مقدس چيز کی توهين کا باعث ہو۔

۱۴

مسئلہ ۶۵ تين صورتوں ميں پاخانہ خارج ہونے کا مقام(مقعد) صرف پانی سے پاک ہوسکتا ہے :

١)پاخانے کے ساته کوئی اور نجاست مثلاً خون، باہر آئی ہو۔

٢) کوئی بيرونی نجاست پاخانے کے مخرج پر لگ گئی ہو۔

٣)پاخانے کے مخرج کے اطراف معمول سے زیادہ آلودہ ہوگئے ہوں۔

ان تین وں صورتوں کے علاوہ پاخانے کے مخرج کو یا تو پانی سے دهویا جاسکتا ہے اور یا بعد ميں بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق کپڑے یا پتّھر وغيرہ سے بھی پاک کيا جاسکتا ہے ، اگرچہ پانی سے دهونا بہتر ہے ۔

مسئلہ ۶۶ پيشاب کا مخرج پانی کے علاوہ کسی چيز سے پاک نہيں ہوتااور اسے کرُ یا جاری پانی سے ایک مرتبہ دهونا کافی ہے ، ليکن قليل پانی سے احتياط واجب کی بنا پر دو مرتبہ دهونا ضروری ہے ، جب کہ اگر پيشاب معمول کے علاوہ کسی مقام سے خارج ہو رہا ہو تو پھر اقویٰ يہ ہے کہ دو مرتبہ دهویا جائے اور بہتر يہ ہے کہ تین مرتبہ دهوئيں۔

مسئلہ ۶ ٧ اگرپاخانے کے مخرج کو پانی سے دهویا جائے توضروری ہے کہ اس ميں پاخانے کا کوئی ذرہ باقی نہ رہے، البتّہ رنگ یا بُو باقی رہ جانے ميں کوئی حرج نہيں اور اگر پهلی بار ہی وہ مقام یوںدهل جائے کہ پاخانے کا کوئی ذرّہ اس ميں باقی نہ رہے تو دوبارہ دهونا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٨ پتّھر، ڈهيلا یا کپڑا یا انهی جیسی دوسری چيزیں اگر خشک اور پاک ہوں تو ان سے پاخانہ خارج ہونے کے مقام کو پاک کيا جاسکتا ہے اور اگر ان ميں معمولی نمی بھی ہو جو پاخانہ خارج ہونے کے مقام تک نہ پهنچے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٩ احتياطِ مستحب يہ ہے کہ پتّھر، ڈهيلا یا کپڑا جس سے پاخانہ صاف کيا جائے اس کے تين ٹکڑے ہوں اورتین سے کم ميں اگر مقعد مکمل طور پر صاف ہوجائے تو اس پر اکتفاء کيا جاسکتا ہے اور اگر تين ٹکڑوں سے صاف نہ ہو سکے تواتنے مزید ٹکڑوں کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ پاخانہ خارج ہونے کا مقام بالکل صاف ہوجائے، البتہ ایسے آثار کے باقی رہ جانے ميں جو پتّھر وغيرہ جیسی چيز سے صاف کئے جانے سے عام طور پر باقی رہ جاتے ہيں ، کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٧٠ پاخانے کے مخرج کو ایسی چيزوں سے پاک کرنا حرام ہے جن کا احترام ضروری ہو مثلاً ایسا کاغذ جس پر خدا ئے تعالیٰ، پیغمبروںيا ائمہ عليهم السلام کے نام لکھے ہوںيا اس کے علاوہ ایسی چيزیں جن کا شریعت ميں احترام ضروری ہے ، ليکن اگر کوئی ان سے استنجاء کرلے تو طهارت حاصل ہوجائے گی۔

اور مخرج کا ہڈی یا گوبر سے پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

۱۵

مسئلہ ٧١ اگر شک ہو کہ پاخانہ خارج ہونے کا مقام پاک کيا ہے یا نہيں تو اسے پاک کرنا واجب ہے اگرچہ پيشاب یا پاخانہ کرنے کے بعد وہ ہمےشہ متعلقہ مقام کو فوراً پاک کرتا ہو۔

مسئلہ ٧٢ اگر نماز کے بعدشک ہو کہ آیا نماز سے پهلے مخرج کوپاک کيا تھا یا نہيں تو اگر نماز سے پهلے، طهارت سے غافل ہونے کا یقین نہ ہو تو نماز صحيح ہے جب کہ مخرج کو نجس ہوگا۔

استبراء

مسئلہ ٧٣ استبرا ایک ایساعمل ہے جو مرد پيشاب کرچکنے کے بعد اس غرض سے انجام دیتے ہيں کہ اس کے بعد نالی سے نکلنے والی رطوتبوں پر پيشاب کا حکم نہ لگے۔ اس کی کئی ترکےبيں ہيں ،جن ميں سے بہترین يہ ہے کہ پيشاب آنا بند ہوجانے کے بعدتین دفعہ بائيں ہاتھ کی درميانی انگلی کے سا ته مقعد سے لے کر عضوِ تناسل کی جڑ تک سونتے اور اس کے بعد انگهوٹے کو عضوِ تناسل کے اوپر اور انگهوٹے کے ساته والی انگلی کو اس کے نيچے رکھے اور تین بار ختنے کی جگہ تک سونتے اور پھر تین دفعہ حشفہ کو دبائے۔

مسئلہ ٧ ۴ وہ پانی جو کبهی کبهی عورت سے چھيڑ چھاڑ یا هنسی مذاق کرنے کے بعد انسان کے بدن سے خارج ہوتا ہے پاک ہے ، اسی طرح وہ پانی جو کبهی کبهارمنی کے بعد خارج ہوتا ہے جب کہ منی اس سے نہ ملی ہو اور وہ پانی بھی جو کبهی کبها رپيشاب کے بعد نکلتا ہے جب کہ پيشاب اس سے نہ ملا ہو، پاک ہے ۔

اور اگر انسان پيشاب کے بعد استبرا کرے اور پھر کوئی ایسی رطوبت خارج ہو جس کی بارے ميں شک ہوجائے کہ پيشاب ہے یا منی کے علاوہ کوئی اور رطوبت، تو اس رطوبت کو پاک ہے ۔

مسئلہ ٧ ۵ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ استبرا کيا ہے یا نہيں اور اس کے بدن سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں وہ نہ جانتا ہو کہ پاک ہے یا نہيں تو وہ نجس ہے اور اگر وہ وضو کرچکا ہو تو وہ بھی باطل ہوجائے گا، ليکن اگر اسے اس بارے ميں شک ہو کہ جو استبرا اس نے کيا تھا وہ صحيح تھا یا نہيں اورکوئی رطوبت اس کے بدن سے خارج ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ یہ رطوبت پاک ہے یا نہيں تو وہ پاک ہوگی اور اس سے وضو بھی باطل نہ ہوگا۔

مسئلہ ٧ ۶ اگر کسی شخص نے استبرا نہ کيا ہو اور پيشاب کرنے کے بعد کافی وقت گزر جانے کی وجہ سے اسے یقین یا اطمينان ہو کہ پيشاب نالی ميں باقی نہيں رہا اورکوئی ایسی رطوبت خارج ہوجس کے بارے ميں شک ہو کہ پاک ہے یا نہيں تو وہ رطوبت پاک ہے اور اس سے وضو بھی باطل نہ ہوگا۔

مسئلہ ٧٧ اگر کوئی شخص پيشاب کے بعد استبرا کر کے وضو کرلے اور اس کے بعدایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ یا پيشاب ہے یا منی تو اس پرواجب ہے کہ احتياطاً غسل کرے اور وضو بھی کرے، البتّہ اگر اس نے پهلے وضو نہ کيا ہوتو وضو کرلینا کافی ہے ۔

۱۶

مسئلہ ٧٨ عورت کے لئے پيشاب کے بعد استبرا نہيں ہے ، پس اگر کوئی رطوبت خارج ہو اور شک ہو کہ يہ پيشاب ہے یا نہيں تووہ رطوبت پاک ہوگی اور اس سے وضو یا غسل بھی باطل نہيں ہو گا۔

رفع حاجت کے مستحبات اور مکروهات

مسئلہ ٧٩ ہر شخص کے لئے مستحب ہے کہ جب وہ رفع حاجت کے لئے جائے تو :

١)ایسی جگہ بیٹھے جهاں اسے کوئی نہ دےکهے۔

٢)بيت الخلاء ميں داخل ہوتے وقت پهلے بایاں پاؤں اندر رکھے اور نکلتے وقت پهلے دایاں پاو ںٔ باہر رکھے۔

٣)رفع حاجت کے وقت سر ڈهانپ کر رکھے۔

۴) بدن کا بوجه بائيں پاوں پر ڈالے۔

مسئلہ ٨٠ رفع حاجت کے مکروہات :

١)سورج اور چاند کی جانب منہ کر کے بیٹھنا ليکن اپنی شرمگاہ کو کسی طرح ڈهانپ لے تو مکروہ نہيں ہے ۔

٢) ہوا کے رخ کے با لمقابل بيٹھنا۔

٣)گلی کوچوں ميں بيٹھنا۔

۴) راستوں ميں بيٹھنا۔

۵) مکان کے دروازے کے سامنے بيٹھنا۔

۶) ميوہ دار درخت کے نيچے بیٹھنا۔

٧)اس دوران کوئی چيز کھانا

٨)زیادہ دیر بيٹھنا

٩)سيدهے ہاتھ سے طهارت کرنا

١٠ )باتيں کرنا ليکن اگر مجبوری ہو یا ذکرِ خدا کرے جو کہ ہر حال ميں مستحب ہے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨١ کھڑے ہو کر، سخت زمين پر، جانوروں کے بِلوں ميں یا پانی ميں بالخصوص ساکن پانی ميں پيشاب کرنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٨٢ پيشاب اور پاخانہ روکنا مکروہ ہے اور اگر بدن کے لئے بطورِکلی مضر ہو تو حرام ہے ۔

مسئلہ ٨٣ نماز سے پهلے، سونے سے پهلے، مباشرت کرنے سے پهلے اور منی خارج ہونے کے بعد پيشاب کرنا مستحب ہے ۔

۱۷

نجاسات

مسئلہ ٨ ۴ دس چيزیں نجس ہيں :

(١ پيشاب

(٢ پاخانہ

(٣ منی

( ۴ مردار

( ۵ خون

( ۶ کتا

(٧ سو رٔ

(٨ کافر

(٩ شراب

(١٠ فقّاع (جَو کی شراب)

١۔ ٢) پيشاب اور پاخانہ )

مسئلہ ٨ ۵ انسان اورخونِ جهندہ رکھنے والے، یعنی اگر اس کی رگ کاٹی جائے تو خون اچھل کر نکلے، ہر حرام گوشت حيوان کا پيشاب اور پاخانہ نجس ہے اور خون جهندہ نہ رکھنے والے حرام گوشت جانور مثلاًحرام مچھلی کا پاخانہ، اسی طرح گوشت نہ رکھنے والے چھوٹے حیوانوں مثلاً مچہر اور مکهی کا فضلہ بھی پاک ہے اور احتياطِ مستحب يہ ہے کہ ایسے حرام گوشت جانور کے پيشاب سے اجتناب کيا جائے جو خونِ جهندہ نہيں رکھتا۔

مسئلہ ٨ ۶ جن پرندوں کا گوشت حرام ہے ان کا پيشاب اور فضلہ پاک ہے ليکن ان سے پرہےز احوط ہے ۔

مسئلہ ٨٧ نجاست خور حیوان کا، اس چوپائے کا جس سے کسی انسان نے بد فعلی کی ہواوراس بکری کے بچے کا پيشاب اور پاخانہ جس نے سو رٔنی کا دودھ پيا ہو، اس تفصيل کی بنا پر جو بعد ميں آئے گی، نجس ہے اور اسی طرح احتياطِ واجب کی بنا پر اس بھیڑ کے بچے کا پيشاب اور پاخانہ بھی نجس ہے جس نے سو رٔنی کا دودھ پيا ہو۔

۱۸

٣۔ منی

مسئلہ ٨٨ انسان کی اور هرخونِ جهندہ رکھنے والے حرام گوشت جانور کی منی نجس ہے ،اسی طرح احتياطِ واجب کی بناپرخونِ جهندہ رکھنے والے حلال گوشت جانوروں کی منی بھی نجس ہے ۔

۴ ۔ مردار

مسئلہ ٨٩ انسان کی اور خون جهندہ رکھنے والے ہر حیوان کی لاش نجس ہے خواہ وہ خود مرا ہو یا اسے شرع کے مقرّر کردہ طریقے کے علاوہ کسی طریقے سے مار ا گيا ہو۔

مچھلی چونکہ خون جهندہ نہيں رکھتی اس لئے پانی ميں بھی مرجائے تو پاک ہے ۔

( mink ) مسئلہ ٩٠ لاش کے وہ اجزاء جن ميں جان نہيں ہوتی پاک ہيں مثلاًاون، بال اور کُرک بشرطیکہ وہ مردار زندگی ميں نجس العين نہ ہوں۔

مسئلہ ٩١ اگرکسی انسان یا خون جهندہ رکھنے والے حیوان کے بدن سے اس کی زندگی ميں ہی گوشت یا کوئی دوسرا ایسا حصّہ جس ميں جان ہو جُدا کرليا جائے، نجس ہے ۔

مسئلہ ٩٢ اگر ہونٹوں یا کسی دوسری جگہ سے ذرا سی کھال نکال دی جائے تو وہ پاک ہے ۔

مسئلہ ٩٣ مُردہ مُرغی کے پيٹ سے جو انڈا نکلے اگر اس کا چھلکا سخت ہوگيا ہو تو پاک ہے ، ليکن مردار سے مس ہوجانے کی وجہ سے اس کا چھلکا دهونا ضروری ہے اور اگر اس کی کھال سخت نہ ہوئی ہو تو اس کے نجس ہونے ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ اگر بھیڑ یا بکری کا بچہ چرنے کے قابل ہونے سے پهلے مرجائے تو وہ پنیر مايہ جو اس کے شیر دان ميں ہوتا ہے پاک ہے ، ليکن احتياطِ واجب کی بنا پر اسے باہر سے دهونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ بهنے والی دوائياں، عطر،تيل، گهی، جوتوں کا پالش اور صابن جنہيں کافر ممالک سے لایا جاتا ہے اگر ان کی نجاست کے بارے ميں یقین نہ ہو تو پاک ہيں ۔

مسئلہ ٩ ۶ گوشت، چربی اور چمڑا اگر مسلمانوں کے بازار سے لئے جائيں تو پاک ہيں ۔ اسی طرح اگر کسی مسلمان کے ہاتھ ميں ہوں جو اس کو شرعاً ذبح شدہ جانور کے طور پر استعمال کرے،سوائے اس کے کہ اس نے کسی کافر سے حاصل کی ہواور اس بات کی تحقيق نہ کی ہو کہ آیا یہ اس جانور کے ہيں جن کو شریعت کے طریقے کے مطابق ذبح کياگيا ہے یا نہيں ۔

۱۹

۵ ۔ خون

مسئلہ ٩٧ انسان او ر خو ن جهندہ رکھنے والے ہر حيوان، یعنی وہ حیوان جس کی رگ کاٹی جائے تو اس ميں سے خون اچھل کر نکلے، کا خون نجس ہے ، پس ایسے جانوروں مثلاًمچھلی اور مچھرکا خون، جو اچھلنے والا خون نہيں رکتے پاک ہے ۔

مسئلہ ٩٨ حلال گوشت جانور کو اگر شرع کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق ذبح کيا جائے اور معمول کے مطابق اس کا خون خارج ہوجائے تو جو خون بدن ميں باقی رہ جائے وہ پاک ہے ليکن اگر جانور کے سانس لينے سے یا اس کا سراونچی جگہ پر ہونے کی وجہ سے بدن ميں پلٹ جائے تو وہ خون نجس ہوگا۔

مسئلہ ٩٩ انڈے کی زردی ميں بننے والا خون کھانا حرام ہے اور احتياط واجب کی بنا پر نجس ہے ۔

مسئلہ ١٠٠ وہ خون جو بعض اوقات دودھ دوہتے ہوئے نظر آتا ہے نجس ہے اور دودھ کو نجس کردیتا ہے ۔

مسئلہ ١٠١ منہ ميں آنے والا خون مثلاًدانتوں کی ریخوں سے نکلنے والا خون اگر لعاب دهن سے مل کر ختم ہوجائے تو لعاب دهن سے پرہيزضروری نہيں ہے اور اگر خون منہ ميں گهل کر ختم نہ ہو اور منہ سے باہر آجائے تو اس سے پرہيز کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٠٢ جو خون چوٹ لگنے کی وجہ سے ناخن یا کھال کے نيچے مر جائے اگر اس کی شکل ایسی ہو کہ لوگ اسے خون نہ کہيں تو پاک اور خون کہيں تو نجس ہوگا اور اس صورت ميں اگر کھال یا ناخن ميں سوراخ ہوجائے اور کوئی رطوبت باہر سے اس سے آملے تو وہ نجس ہو جائے گی اور اس صورت ميں اگر اس مقام سے خون کو نکال کر وضو یا غسل کے ليے پاک کرنا حرج کا باعث ہو تو تيمم کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٠٣ اگر کسی شخص کو يہ معلوم نہ ہو کہ کھال کے نيچے خون مرگيا ہے یا چوٹ لگنے کی وجہ سے گوشت نے ایسی شکل اختيار کرلی ہے تو وہ پاک ہے ۔

مسئلہ ١٠ ۴ اگر کھانا پکاتے ہوئے خون کا ایک ذرّہ بھی اس ميں گر جائے تو سارے کا سارا کھانا اور برتن نجس ہوجائے گا۔ اُبال، حرارت اور آگ اُنہيں پاک نہيں کرسکتے۔

مسئلہ ١٠ ۵ جو زرد مادہ زخم کی حالت بہتر ہونے پر اس کے چاروں طرف پيدا ہوجاتا ہے اگر اس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ اس ميں خون ملا ہوا ہے تو وہ پاک ہوگا۔

۶- ۔ ٧) کتا اور سو رٔ )

مسئلہ ١٠ ۶ وہ کتا اور سو رٔ جو خشکی ميں رہتے ہيں نجس ہيں حتیٰ کہ ان کے بال، ہڈیاں،ناخن اور رطوبتيں بھی نجس ہيں ، ا لبتّہ دریائی کتا ا ور سؤر پاک ہيں ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

مسئلہ ١ ۶ ٣٢ اگر اس چيز کا پتہ لگانے کے لئے کہ وقت ہے یا نہيں جستجو کرے اوریہ گمان حاصل کرنے کے بعدکہ غسل کے لئے وقت ہے ، اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تيمم کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ، اور اگر جستجو کئے بغير گمان کرے کہ وقت ہے اور اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تيمم کے ساته روزہ رکھ لے تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٣ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں جنب ہو اور جانتا ہو کہ اگر سوگيا تو صبح تک بيدار نہيں ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ غسل کئے بغير نہ سوئے اور اگر غسل سے پهلے سو جائے اور صبح تک بيدار نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہو جائيں گے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۴ جب بھی جنب ماہ رمضان کی کسی شب ميں بيدار ہو، اِس صورت ميں کہ اطمينان نہ رکھتا ہوکہ اذان صبح سے پهلے غسل کے لئے بيدار ہو سکے گا تو احتياط مستحب یہ ہے کہ غسل کرنے سے پهلے نہ سوئے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۵ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں جنب ہو اور یقين یا اطمينان رکھتا ہو کہ اگر سوگيا تو اذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوجائے گا، چنانچہ پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ بيدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور اس ارادے سے سو جائے اور اذانِ صبح تک سوتا رہے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۶ جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو اور اُسے علم ہو یا احتمال ہو کہ اگر سو گيا تو صبح کی اذان سے پهلے بيدار ہوجائے گا، اگر وہ اس بات سے غافل ہو کہ بيدار ہونے کے بعداس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، اس صورت ميں کہ وہ سوجائے اور صبح کی اذان تک سوتا رہے، تو بنا بر احتياط ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٧ جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو اور اُسے یقين ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ اگر سوگيا تو اذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوجائے گاليکن بيدار ہونے کے بعد وہ غسل نہ کرنا چاہتا ہو یا تردد کا شکار ہو کہ غسل کرے یا نہيں تو اس صورت ميں اگرسو جائے اور بيدار نہ ہو تواس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ اس پر واجب ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٨ اگر جنب ماہ رمضان کی کسی رات ميں سوکر بيدار ہوجائے اور اسے معلوم ہو یا اس بات کا احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوجائے تواذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوگا اورمصمم ارادہ بھی رکھتا ہوکہ بيدار ہونے کے بعد غسل کرے گا، چنانچہ دوبارہ سوجائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر دوسری نيند سے بيدار ہو اور تيسری مرتبہ کے لئے سوجائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہوتوضروری ہے کہ اِس دن کے روزے کی قضا کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے۔

۲۶۱

مسئلہ ١ ۶ ٣٩ محتلم ہونے کی صورت ميں پهلی نيند سے مراد، وہ نيند ہے کہ جس ميں بيدار ہونے کے بعد سوجائے، یعنی وہ نيند کہ جس ميں محتلم ہوا ہے پهلی نيند شمار نہيں ہوگی۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٠ اگر روزہ دار دن ميں محتلم ہوجائے تو فوری طور پر غسل کرنا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ١ اگر ماہ رمضان ميں اذانِ صبح کے بعد بيدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہو گيا ہے تو اگر چہ جانتا ہو کہ اذان سے پهلے محتلم ہوا تھا، اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٢ جو شخص ماہ رمضان کے روزے کی قضا رکھنا چاہتا ہو، اگر وہ اذانِ صبح تک جنب رہے خواہ جان بوجه کر نہ بھی ہو، اس کا روزہ باطل ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٣ جو شخص ماہ رمضان کا قضا روزہ رکھنا چاہتا ہو، اگر وہ اذانِ صبح کے بعد بيدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہوگيا ہے اور جانتا ہو کہ اذان سے پهلے محتلم ہوا ہے تو بنا بر احتياط اس کا روزہ باطل ہوگا، ليکن اگر روزے کی قضا کا وقت دوسرے ماہ رمضان کے آنے تک تنگ ہو، مثال کے طور پر رمضان کے پانچ روزے قضا ہوں اور رمضان آنے ميں محض پانچ دن رہ گئے ہوں تو بنا بر احتياطِ واجب اس دن روزہ رکھے اور ایک اور روزہ ماہ رمضان کے بعدبهی رکھے۔

مسئلہ ١ ۶۴۴ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوں کے علاوہ ایسے واجب روزوں ميں جن کا وقت معين نہ ہومثلاً کفارے کے روزے، جان بوجه کر اذانِ صبح تک جنابت کی حالت ميں رہے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس دن کے علاوہ کسی دوسرے دن روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۶۴۵ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور جان بوجه کر غسل نہ کرے یا اگر اُس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہے اوراگر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوتا اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ غسل کرلے۔

مسئلہ ١ ۶۴۶ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کے لئے وقت نہ رکھتی ہوتوضروری ہے کہ تيمم کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اذان صبح تک جاگتی رہے اور جس جنب شخص کی ذمہ داری تيمم ہو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٧ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح کے قریب حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور غسل اور تيمم ميں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہو تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

۲۶۲

مسئلہ ١ ۶۴ ٨ اگر عورت اذانِ صبح کے بعد حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے یا دن ميں کسی وقت خون حيض یا نفاس دیکھے اگر چہ مغرب کا وقت نزدیک ہو، اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٩ اگر عورت غسلِ حيض یا نفاس کرنا بھول جائے اور ایک یا کئی دنوں کے بعد اسے یاد آئے تو جو روزے اس نے رکھے ہوں وہ صحيح ہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٠ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور کوتاہی کرتے ہوئے اذانِ صبح تک غسل نہ کرے اُس کا روزہ باطل ہے ، ليکن اگر کوتاہی نہ کرے مثلاً زنانہ حمام کے ميسر ہونے کا انتظار کرے تو خواہ اس مدت ميں وہ تين بار سوئے اور اذان تک غسل نہ کرے تو تيمم کر لينے کی صورت ميں اس کا روزہ صحيح ہے اور اگر تيمم بھی ممکن نہ ہو تو اُس کا روزہ بغير تيمم کے بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ١ جو عورت استحاضہ کثيرہ کی حالت ميں ہو اگر وہ اپنے غسلوں کو احکام استحاضہ ميں گذری ہوئی تفصيل کے مطابق انجام دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے اور استحاضہ متوسطہ ميں اگر چہ غسل نہ کرے تب بھی اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٢ جس نے ميت کو مس کيا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ ميت کے بدن سے لگایا ہو تو وہ غسلِ مسِ ميت انجام دئے بغير روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر روزے کی حالت ميں بھی ميت کو مس کرے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

٨۔ حقنہ لينا

مسئلہ ١ ۶۵ ٣ بهنے والی چيز سے انيما لينا اگرچہ مجبوری اور علاج کے لئے ہو، روزے کو باطل کردیتا ہے ۔

٩۔ قے کرنا

مسئلہ ١ ۶۵۴ اگر روزے دار عمداً قے کرے اگر چہ بيماری یا ایسی ہی کسی چيز کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر بھولے سے یا بے اختيار قے کرے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۵۵ اگر رات ميں کوئی ایسی چيز کهالے کہ جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ اس کی وجہ سے دن ميں بے اختيار قے کردے گا تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶۵۶ اگر روزہ دار قے روک سکتا ہو تو ضرر اور مشقت نہ ہو نے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قے کو روکے۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٧ اگر مثلاً روزے دار کے حلق ميں مکهی چلی جائے اور قے کئے بغير اُسے باہر نکالنا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ باہر نکالے اور اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر ممکن نہ ہو تو اگر اسے نگلنا، کھانا کها جائے تو ضروری ہے کہ اُسے باہر نکالے اگرچہ قے کے ذریعے ہو اور اس کا روزہ باطل ہے اور اگر نگلنے کو کھانا نہ کها جائے تو ضروری ہے کہ باہر نہ نکالے اور اس کا روزہ صحيح ہے ۔

۲۶۳

مسئلہ ١ ۶۵ ٨ اگر بھولے سے کسی چيز کو نگل لے اور حلق سے گزر جائے اور پيٹ ميں پهنچنے سے پهلے اِس کو یاد آجائے کہ روزہ ہے تو اس کا باہر نکالناضروری نہيں ہے اور اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٩ اگر یقين ہو کہ ڈکار لينے کی وجہ سے کوئی چيز گلے سے باہر آجائے گی تو بنا بر احتياطِ واجب جان بوجه کر ڈکار نہ لے، ليکن اگر یقين نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٠ اگر ڈکار لينے سے کوئی چيز منہ ميں آجائے تو باہر اگل دینا ضروری ہے اور اگر بے اختيار اندر چلی جائے تو روزہ صحيح ہے ۔

روزہ باطل کر نے والی چيزوں کے احکام

مسئلہ ١ ۶۶ ١ اگر کوئی شخص جان بوجه کر اور اختيار سے روزہ باطل کر دینے والے کسی بھی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ ہاں، اگر جان بوجه کر نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر جنب سو جائے اور مسئلہ” ١ ۶ ٣ ۶ “ ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اذانِ صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٢ اگر روزہ دار بھولے سے روزہ باطل کرنے والے کاموں ميں سے کوئی کام انجام دے اور اس خيال سے کہ اس کا روزہ باطل ہوگيا ہے وہ عمداًدوبارہ ان ميں سے کسی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٣ اگر کوئی چيز زبردستی روزہ دار کے گلے ميں ڈال دی جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا، ليکن اگر اسے روزہ توڑنے پر مجبور کيا جائے مثلاًاس سے کها جائے:” اگر تم نے کھانا نہ کهایا تو ہم تمہيں جانی یا مالی نقصان پهنچائيں گے“ اور وہ نقصان سے بچنے کے ليے خود کوئی چيز کها لے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۶۴ ضروری ہے کہ روزہ دار ایسی جگہ نہ جائے جس کے بارے ميں جانتا ہو یا اطمينان رکھتا ہو کہ کوئی چيز اس کے حلق ميں ڈال دی جائے گی یا اسے اپنا روزہ باطل کرنے پر مجبور کيا جائے گا لہٰذا اگر وہ چلا جائے اور کوئی چيز اس کے گلے ميں ڈال دی جائے یا وہ خود مجبوری کی بنا پر روزہ باطل کرنے والے کسی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، بلکہ اگر صرف جانے کا ارادہ کرے اگرچہ نہ جائے اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

وہ چيزيں جو روزہ دار کے لئے مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۶۶۵ کچھ چيزیںروزہ دار کے لئے مکروہ ہيں جن ميں سے بعض یہ ہيں :

١) آنکہوں ميں دوائی ڈالنا اور سرمہ لگانا جب کہ ان کا مزہ یا بو حلق تک پهنچ جائے۔

٢) کسی بھی ایسے کا م کو انجام دینا جو کمزوری کا باعث ہو مثلاً خون نکالنا یا حمام جانا۔

۲۶۴

٣) ناس کھينچنا بشرطيکہ معلوم نہ ہو کہ حلق تک پهنچ جائے گی اور اگر معلوم ہو کہ حلق تک پهنچ جائے گی تو جائز نہيں ہے ۔

۴) خوشبودار جڑی بوٹيوں کوسونگهنا۔

۵) عورت کا پانی ميں بيٹھنا۔

۶) خشک چيز سے انيما کرنا۔

٧) بدن پر موجود لباس کو تر کرنا۔

٨) دانت نکالنا اور ہر وہ کا م جس کی وجہ سے منہ سے خون نکل آئے۔

٩) تر لکڑی سے مسواک کرنا۔

١٠ ) بلاوجہ پانی یا کوئی بهنے والی چيز منہ ميں ڈالنا۔

اور یہ بھی مکروہ ہے کہ انسان منی خارج کرنے کا ارادہ کئے بغير اپنی بيوی کا بوسہ لے یا اپنی شهوت کو ابهارنے والا کوئی بھی کام انجام دے اور اگر منی خارج کرنے کا ارادہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

قضا و کفارہ واجب ہونے کے مقامات مسئلہ ١ ۶۶۶ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو جائے اور مسئلہ” ١ ۶ ٣ ۶ “ ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق بيدار ہو کر دوبارہ سو جائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ صرف ا س روزے کی قضا کرے ليکن اگر روزہ دار مبطلاتِ روزہ ميں سے کوئی اور کام عمدا انجام دے جب کہ وہ جانتا ہو کہ یہ کام روزے کو باطل کر دیتا ہے تو قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہو جائيں گے۔ یهی حکم اس صورت ميں بھی ہے جب جانتا ہو کہ یہ کام حرام ہے چاہے یہ نہ جانتا ہو کہ یہ روزے کو باطل بھی کر دیتا ہے جيسے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام ميں سے کسی پر جھوٹ باندهنا۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٧ اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے مبطلاتِ روزہ ميں سے کسی کام کو اس عقيدے کے ساته کہ یہ عمل روزے کو باطل نہيں کرتا، انجام دے تو ا س پر کفارہ واجب نہيں ۔

روزے کا کفارہ

مسئلہ ١ ۶۶ ٨ ماہِ رمضان کا روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ:

١) ایک غلام کو آزاد کرے ،یا

٢) آنے والے مسئلے ميں بيان کردہ طریقے کے مطابق دو ماہ کے روزے رکھے ،یا

٣) ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا ہر فقير کو ایک مُد، جو تقریباًساڑھے سات سو گرام بنتا ہے گندم، آٹا، روٹی، کھجور یا ان جيسی کوئی کھانے کی چيز دے۔

۲۶۵

اور اگر یہ چيزیں ممکن نہ ہوں تو احتياطِ واجب کی بنا پر جس قدر ممکن ہو صدقہ دے اور استغفار بھی کرے اور اگر صدقہ دینا بھی ممکن نہ ہو تو استغفار کرے اگرچہ صرف ایک مرتبہ ”استغفراللّٰہ“کهے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب بھی ممکن ہو کفارہ بھی دے۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٩ جو شخص ماہِ رمضان کے کفارے ميں دو ماہ کے روزے رکھنا چاہتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مهينہ مکمل اور اگلے مهينے کا پهلا دن مسلسل روزے رکھے جب کہ باقی روزے اگر مسلسل نہ بھی ہوں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٠ جو شخص رمضان کے کفارے ميں دو ماہ کے روزے رکھنا چاہتا ہو ضروری ہے کہ ایسے وقت ميں شروع نہ کرے جب جانتا ہو کہ ایک مهينے اور ایک دن کے درميان عيدِ قربان کی طرح کوئی ایسا دن بھی ہے جس کا روزہ حرام ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧١ جس کے لئے مسلسل روزے رکھنا ضروری ہوں اگر درميان ميں بغير کسی عذر کے ایک دن روزہ نہ رکھے یا ایسے وقت روزے رکھنا شروع کرے جب جانتا ہو کہ درميان ميں ایک ایسا دن آرہا ہے کہ جس ميں روزہ رکھنا اس پر واجب ہے ، مثلاًوہ دن آرہا ہے جس ميں روزہ رکھنے کی نذر کر رکھی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ شروع سے روزے رکھے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٢ اگر ان دنوں ميں جب مسلسل روزے رکھنا ضروری ہيں ، بے اختيا ر کوئی عذر پيش آجائے جيسے حيض یا نفاس یا کسی بيماری ميں مبتلاہو جائے، تو عذر ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ باقی روزوں کو عذر ختم ہونے کے بعد بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٣ اگر کسی حرام چيز سے اپنے روزے کو باطل کر دے خواہ وہ چيز بذاتِ خود حرام ہوجيسے شراب اور زنا یا کسی وجہ سے حرام ہو گئی ہو جيسے اپنی حائضہ بيوی سے مقاربت کرنا تو احتياط کی بنا پر اس پر کفارہ جمع واجب ہو جائے گا یعنی ضروری ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، دو مهينے کے روزے رکھے اور ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا بھی کهلائے یا ان ميں سے ہر ایک کو ایک مُد طعام دے۔

اور اگر یہ تينوں اس کے لئے ممکن نہ ہوں تو ضروری ہے کہ ان ميں سے جو ممکن ہو انجام دے اور بنا بر احتياطِ واجب استغفار بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۴ اگر روزہ دار جان بوجه کر خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے جھوٹی بات منسوب کرے تو احتياط کی بنا پر کفارہ جمع اس پر واجب ہو جائے گا جس کی تفصيل گذشتہ مسئلے ميں بيان کی گئی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۵ اگر روزہ دار ماہِ رمضان کے ایک ہی دن ميں کئی بار جماع یا استمنا کرے تو بنا بر احتياط اس پر ہر مرتبہ کے لئے کفارہ واجب ہو جائے گا اور اگر اس کاجماع یا استمنا حرام ہو تو بنا بر احتياط ہر مرتبہ کيلئے ایک کفارہ جمع اس پر واجب ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۶ اگر روزہ دار ماہِ رمضان کے ایک دن ميں جماع اور استمنا کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو چند بار انجام دے تو ان سب کے لئے ایک کفارہ کافی ہے ۔

۲۶۶

مسئلہ ١ ۶ ٧٧ اگر روزہ دار جماع اور استمنا کے علاوہ روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں اپنے لئے حلال عورت سے جماع یا استمنا کرے تو پهلے کام کے لئے ایک کفارہ اور جماع یا استمنا کے لئے بنا بر احتياط ایک دوسرا کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٨ اگر روزہ دار جماع اور استمنا کے علاوہ کوئی اور ایسا حلال کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو انجام دے مثلاً پانی پئے پھر جماع یا استمنا کے علاوہ کوئی ایسا حرام کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو انجام دے مثلاًحرام کھانا کهالے تو ایک کفارہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٩ اگر روزے دار کے ڈکار لينے سے کوئی غذا اس کے منہ ميں آجائے اور وہ اسے عمداً نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب ڈکار لينے سے منہ ميں آنے والی چيز غذا کے مرحلے سے نکل چکی ہو اگرچہ اس صورت ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ کفارہ جمع دے اور اگر ڈکار لينے سے ایسی چيز منہ ميں آجائے کہ جس کا کھانا حرام ہے جيسے خون اور اسے عمداً نگل لے تو روزہ باطل ہے اور ضروری ہے کہ اس دن کی قضا کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر کفارہ جمع بھی دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٠ اگر نذر کرے کہ ایک معين دن روزہ رکھے گا اور اس دن جان بوجه کر اپنا روزہ باطل کردے تو ضروری ہے کہ کفارہ دے اور نذر توڑنے کا کفارہ وهی ہے جو قسم توڑنے کا کفارہ ہے جسے مسئلہ نمبر ” ٢٧٣ ۴ “ ميں بيان کيا جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٨١ اگر روز ہ د ارکسی ایسے شخص کے کهنے پر جس کا کهنا ہو کہ مغرب ہو گئی ہے جب کہ شرعاً اس شخص کی بات قابلِ اعتبار نہ ہو، افطار کرلے او ر بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب کا وقت نہيں ہوا تھا یا شک کرے کہ مغرب ہوئی تھی یا نہيں تو اس پر قضا اور کفارہ واجب ہو جائيں گے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٢ جو شخص جان بوجه کر اپنا روزہ توڑ دے اگر وہ ظہر کے بعد سفر کرے یا کفارے سے بچنے کے لئے ظہر سے پهلے سفر کرے تو اس سے کفارہ ساقط نہيں ہو گا اور ظہر سے پهلے سفر پيش آجانے پر بھی بنا بر اقویٰ یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٣ اگر جان بوجه کر اپنا روزہ توڑدے اور بعد ميں کوئی عذر جيسے حيض یا نفاس یا کوئی بيماری اسے لاحق ہو جائے تو بنا بر احتياط اس پر کفارہ واجب ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۴ اگر کسی کو یقين یا اطمينا ن ہو یا شرعی گواہی قائم ہو جائے کہ ماہِ رمضان کا پهلا دن ہے اور جان بوجه کر اپنے روزے کو باطل کر دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ شعبان کا آخری دن تھا تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۵ اگر انسان شک کرے کہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا شوال کی پهلی اور جان بوجھ کر اپنے روزے کو باطل کردے اور بعد ميں معلوم ہو کہ شوال کی پهلی تھی تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

۲۶۷

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۶ اگر روزہ دار رمضان ميں اپنی روزہ دار بيوی سے جماع کرے جبکہ اس نے بيوی کو جماع پر مجبور کيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے اور بنا بر احتيا ط اپنی بيوی کے روزے کا کفارہ دے اور اگر بيوی جماع پر راضی تھی تو ہر ایک پر ایک کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٧ اگر عورت اپنے روزے دار شوہر کو جماع کرنے پر مجبور کرے تو اس پر شوہر کے روزے کا کفارہ دینا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٨ اگر روزے دار ماہِ رمضان ميں اپنی بيوی کو جماع پر مجبور کرے اور جماع کے دوران عورت راضی ہو جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر مرد دو کفارے اور عورت ایک کفارہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٩ اگر روزے دار ماہِ رمضان ميں اپنی سوئی ہوئی روزہ دار بيوی سے جماع کرے تو اس پر ایک کفارہ واجب ہو گا جب کہ بيوی کا روزہ صحيح ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٠ اگر مرد اپنی بيوی کو یا بيوی اپنے شوہر کو جماع کے علاوہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اور کام انجام دینے پر مجبور کرے تو ان ميں سے کسی پر کفارہ واجب نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩١ جو شخص سفر یا بيماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ رہا ہو وہ اپنی روزے دار بيوی کو جماع پر مجبور نہيں کر سکتا، ليکن اگر مجبور کرے تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٢ ضروری ہے کہ انسان کفارے کی ادائيگی ميں کوتاہی نہ کرے، البتہ اسے فوراً ادا کرنا بھی ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٣ اگر انسان پر کفارہ واجب ہوئے چند سال گذر جائيں اور کفارہ انجا م نہ دیا ہو تو اس پر کسی چيز کا اضافہ نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۴ جو شخص ایک دن کے کفارے کے لئے ساٹھ فقيروں کو کھانا کهلانا چاہتا ہو، وہ یہ نہيں کر سکتا کہ ان ميں سے ایک فقير کو دو یا اس سے زیادہ بار پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا انہيں ایک مُد سے زیادہ طعام دے اور زیادہ کو کفارہ ميں شمار کرے۔ ہاں، وہ یہ کر سکتا ہے کہ فقير کو اس کے اہل و عيال کے ساته پيٹ بھر کر کھانا کهلائے جو چاہے چھوٹے ہی کيوں نہ ہوں ليکن عمر کے اعتبار سے اتنے ہوں کہ انہيں کهلانے کو کھانا کهلانا کها جاسکے یا بچے کے ولی کو بچے کے لئے ایک مُد دے دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۵ جس شخص نے ماہِ رمضان کا قضا روزہ رکھا ہو اگر وہ ظہر کے بعد عمداًروزہ توڑنے والا کوئی کام انجام دے تو ضروری ہے کہ دس فقيروں کو ایک ایک مُد طعام دے اور اگر یہ نہ کر سکتا ہو تو تين دن روزے رکھے جو بنا بر احتياط مسلسل ہوں۔

۲۶۸

وہ مقامات کہ جن ميں صرف روزے کی قضا واجبہے

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۶ چند صورتو ں ميں انسان پر روزے کی صرف قضا واجب ہے اور کفارہ واجب نہيں ہے :

١) ماہ رمضان کی رات ميں جنب ہو اور مسئلہ نمبر ” ١ ۶ ٣٨ “ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اذانِ صبح تک دوسری اور تيسری نيندسے بيدار نہ ہو۔

٢) روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو ليکن روزے کی نيت نہ کرے یا ریاکاری کرے، یا روزے سے نہ ہونے کا ارادہ کرے یا روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ کرے اور انجام نہ دے۔

٣) ماہ رمضان ميں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور اسی حالت ميں ایک یا چند دن روزہ رکھے۔

۴) ماہ رمضان ميں یہ جستجو کئے بغير کہ صبح ہوگئی ہے یا نہيں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی۔ اسی طرح اگر جستجو کرنے کے بعد یہ گمان ہو کہ صبح ہو گئی ہے یا شک کرے کہ صبح ہو ئی یا نہيں اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی تو اس روزے کی قضا اس پر واجب ہے ۔

۵) کسی کے یہ کهنے پر کہ صبح نہيں ہوئی انسان روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی۔

۶) کسی کے یہ کهنے پر کہ صبح ہوگئی ہے یقين نہ کرتے ہوئے یا اس خيال سے کہ وہ مذاق کر رہا ہے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو چکی تھی۔

٧) نا بينا یا اس جيسا کوئی شخص کسی اور کے کهنے پر افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تھی۔

٨) مطلع صاف ہو اور تاریکی کی وجہ سے اس یقين کے ساته کہ مغرب ہو گئی ہے افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تهی، ليکن اگر مطلع ابر آلود ہو اور اس گمان کے ساته کہ مغرب ہو گئی ہے افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تھی تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

٩) ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے یا بلاوجہ کلی کرے اور بے اختيار پانی منه کے اندر چلا جائے ليکن اگر بھول جائے کہ روزہ سے ہے اور پانی اندر لے جائے یا واجب نماز کے وضو کے لئے کلی کرے اور بے اختيار پانی اندر چلا جائے تو اس پر قضا واجب نہيں ۔

١٠ ) کوئی زبردستی یا مجبوری یا تقيہ کی وجہ سے افطار کرے۔

۲۶۹

مسئلہ ١ ۶ ٩٧ اگر پانی کے علاوہ کوئی اور چيز منہ ميں ڈالے اور وہ بے اختيار اندر چلی جائے یا پانی ناک ميں ڈالے اور بے اختيار اندر چلا جائے تو اس پر قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٨ روزہ دار کے لئے زیادہ ناک ميں پانی ڈالنا یا کلی کرنا مکروہ ہے اور اگر کلی کرنے کے بعد لعاب دهن کو نگلنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ اس سے پهلے تين مرتبہ لعاب دهن کو تهوک دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٩ اگر انسان جانتا ہو کہ کلی کرنے یا ناک ميں پانی ڈالنے کی وجہ سے بے اختيار یا بھولے سے پانی اس کے حلق ميں چلا جائے گا تو ضروری ہے کہ نہ کلی کرے اور نہ ناک ميں پانی ڈالے۔

مسئلہ ١٧٠٠ اگر ماہ رمضان ميں جستجو کرنے کے بعد اس یقين کے ساته کہ صبح نہيں ہوئی، روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تو قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٠١ اگر انسان شک کرے کہ مغرب ہو گئی ہے یا نہيں تو وہ افطار نہيں کر سکتا ہے ، ليکن اگر شک کرے کہ صبح ہوئی ہے یا نہيں تو جستجو سے پهلے بھی وہ روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے سکتا ہے ۔

قضا روزے کے احکام

مسئلہ ١٧٠٢ اگر دیوانہ عاقل ہو جائے تو دیوانگی کے وقت کے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٠٣ اگر کافر مسلمان ہو جائے تو کفر کے وقت کے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر کوئی مسلمان کافر ہو جائے تو جو روزے کفر کے زمانے ميں اس نے نہيں رکھے ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے اور اگر مسلمان بھی ہو جائے تو اسلام لانے کی وجہ سے اس پر سے کوئی چيز ساقط نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٧٠ ۴ جو روزہ انسان سے نشہ کی حالت ميں چھوٹ گيا ہو اس کی قضا ضروری ہے اگرچہ جس چيز کی وجہ سے اس پر نشہ طاری ہوا ہو اسے علاج کے لئے کهایا ہو۔

مسئلہ ١٧٠ ۵ اگر کسی عذر کی وجہ سے چند دن روزہ نہ رکھے اور بعد ميں شک کرے کہ اس کا عذر کس وقت ختم ہو ا تھا تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس زیادہ مقدار کے روزوں کی قضا کرے جس ميں روزے نہ رکھنے کا احتمال ہے ۔ مثلاًجس نے ماہ رمضان سے پهلے سفر کيا ہو اور نہ جانتا ہو کہ پانچویں رمضان کو پهنچا تھا یا چھٹی رمضان کو تو بنا بر احتياطِ واجب چھ روزے رکھے، ليکن جو شخص یہ نہ جانتا ہو کہ کس وقت عذر پيش آیا تھا تو وہ کم مقدار کی قضا کر سکتا ہے مثال کے طور پر ماہ رمضان کے آخر ی ایام ميں سفر کرے اور رمضان کے بعد لوٹے اور نہ جانتا ہو کہ پچيسویں رمضان کو سفر کيا تھا یا چھبيسویں کو تو وہ کم مقدار یعنی پانچ دن کی قضا پر اکتفا کر سکتا ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ زیادہ دنوں کی قضا کرے۔

۲۷۰

مسئلہ ١٧٠ ۶ جس پر چند رمضان کے مهينوں کے روزوں کی قضا ہو تو کسی کی بھی قضا پهلے انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، ليکن اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا آخری رمضان کے پانچ روزوںکی قضا اس پر ہو اور رمضان آنے ميں بھی پانچ دن رہ گئے ہوں تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ پهلے آخری رمضان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧٠٧ جس شخص پر کئی رمضان کے مهينوں کے روزوں کی قضا واجب ہو، اس کے لئے قضا کرتے وقت یہ معين کرنا ضروری نہيں ہے کہ یہ کس رمضان کے روزوں کی قضا ہے مگر یہ کہ دونوں روزوں ميں اثر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔

مسئلہ ١٧٠٨ انسان ماہِ رمضان کے قضا روزے ميں ظہر سے پهلے اپنا روزہ باطل کر سکتا ہے ، ليکن اگر قضا کرنے کا وقت تنگ ہو تو احتياطِ واجب کی بناپر اپنا روزہ باطل نہيں کر سکتا ۔

مسئلہ ١٧٠٩ جس نے کسی ميت کا قضا روزہ رکھا ہو احتياط مستحب یہ ہے کہ زوال کے بعد روزہ نہ توڑے۔

مسئلہ ١٧١٠ اگر بيماری، حيض یا نفاس کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اور رمضان کے مکمل ہونے سے پهلے یا رمضان ختم ہونے کے بعد اور قضا پر قدرت حاصل کرنے سے پهلے مر جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧١١ جس شخص نے بيمار ی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے ہو ں اور اس کی بيمار ی اگلے سال کے رمضان تک باقی رہے تو چھوڑے ہوئے روزوںکی قضا اس پر واجب نہيں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے، ليکن اگر اس نے کسی اور عذر مثلاًسفر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اور اس کا عذر اگلے رمضان تک باقی رہے تو ضروری ہے کہ چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقير کودے۔

مسئلہ ١٧١٢ اگر کوئی شخص بيمار ی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اور رمضان کے بعد اس کی بيماری تو ختم ہو جائے ليکن کوئی دوسرا عذر پيش آ جائے کہ جس کی وجہ سے اگلے رمضان تک روزے کی قضا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ نہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔

اسی طرح اگر اس نے ماہ رمضان ميں بيمار ی کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اور رمضان کے بعد اس کا عذر تو برطرف ہو جائے ليکن اگلے سال کے رمضان تک بيمار ی کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے تو ضروری ہے کہ نہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔ اور دونوں صورتوں ميں احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١٣ جو شخص ماہ رمضان ميں کسی عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے اور رمضا ن کے بعد عذر بر طرف ہوجانے کے باوجود اگلے سال کے رمضان تک عمداً ان روزوں کی قضا نہ کر ے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بھی کرے اور ہر دن کے لئے فقير کو ایک مد طعام بھی دے۔

۲۷۱

مسئلہ ١٧١ ۴ اگر روزوں کی قضا کرنے ميں اتنی کوتاہی کرے کہ وقت تنگ ہوجائے اور وقت کی تنگی ميں عذر پيش آ جائے تو ضروری ہے کہ قضا روزے رکھے اور ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ اسی طرح اگر عذر کے وقت پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ عذر کے زائل ہونے کے بعد اپنے روزوں کی قضا کرے گا ليکن اس سے پهلے کہ قضا کرے وقت کی تنگی ميں عذرپيش آجائے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بھی کرے اور ہر دن کے لئے احتياطِ واجب کی بنا پر ایک مدطعام بھی فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١ ۵ اگر کسی انسان کی بيماری کئی سال تک طولانی ہوجائے تو صحت یاب ہونے کے بعد ضروری ہے کہ آخری رمضان کے روزے قضا کرے اور پچهلے سالوں کے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١ ۶ جس شخص پر ہر دن کے لئے ایک مُد طعام فقير کو دینا ضروری ہو تو و ہ چند دنوں کا کفارہ ایک ہی فقير کو بھی دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧١٧ اگر رمضان کے قضا روزوں کو چند سالوں تک انجام نہ دے تو ضروری ہے کہ قضا کرے اور پهلے سال کی تاخير کی وجہ سے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے، البتہ بعد کے چند سالوں کی تاخير کی وجہ سے اس پر کوئی چيز واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧١٨ اگر رمضان کے روزے جان بوجه کر نہ رکھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بھی انجام دے اور ہر دن کے لئے یا ایک غلام کو آزاد کرے یا ساٹھ فقيروں کو طعام دے یا دو مهينے کے روزے رکھے اور اگر آئندہ رمضان تک ان روزوں کی قضا انجام نہ دے تو ہر دن کے لئے فقير کو ایک مد طعام بھی دے۔

مسئلہ ١٧١٩ اگر رمضان کا روزہ جان بوجه کر نہ رکھے اور دن ميں چند مرتبہ جماع یا استمنا کرے تو احتياطِ واجب کی بناپر ہر بار کے لئے کفارہ دے، ليکن اگر چند مرتبہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اورکام انجام دے مثلاًچند مرتبہ کھانا کھائے تو ایک کفارہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٠ باپ کے مرنے کے بعد ضروری ہے کہ اس کا بڑا بيٹا مسئلہ نمبر ” ١٣٩٨ “ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اس کے روزوں کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٧٢١ اگر باپ نے رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ مثلاًنذر کا روزہ نہ رکھا ہو تو واجب ہے کہ بڑا بيٹا اس کی بھی قضا کرے، ليکن اگر باپ کسی کے روزے رکھنے کے لئے اجير بنا ہو اور ان کو نہ رکھا ہو تو بڑے بيٹے پر اس کی قضا ضروری نہيں ۔

۲۷۲

مسافر کے روزوں کے احکام

مسئلہ ١٧٢٢ جس مسافر کی ذمہ داری ہے کہ چار رکعتی نمازوں کو سفر ميں دورکعت پڑھے، ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور جس مسافر کو اپنی نمازیں پوری پڑھنا ہيں ، مثلاًوہ شخص جس کا پيشہ ہی سفر کرنا ہو یا اس کا سفر گناہ کاسفر ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ سفر ميں روزہ رکھے۔

مسئلہ ١٧٢٣ ماہ رمضا ن ميں سفر کرنے ميں کوئی حرج نہيں ليکن مکروہ ہے ، چاہے روزے سے فرار کرنے کے لئے نہ ہو، مگر یہ کہ سفر اس کی ضرورت کی وجہ سے ہو یا جيسا کہ بعض روایتوں ميں آیا ہے حج یا عمرہ کے لئے ہو۔

مسئلہ ١٧٢ ۴ اگر ماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرا معين روزہ انسان پر واجب ہو جس کا تعلق حق الناس سے ہو مثلاً یہ کہ انسان اجير بنا ہو کہ کسی معين دن ميں روزہ رکھے گا تو وہ اس دن سفر نہيں کر سکتا۔ یهی حکم احتياطِ واجب کی بنا پر نذر کے علاوہ دوسرے واجب معين روزوں جيسے اعتکاف کے تيسرے دن کے روزے کا ہے ۔ ہاں، اگر کوئی روزہ نذر کی وجہ سے معين ہوا ہو تو اقوی یہ ہے کہ وہ اس دن سفر کر کے اس کے بجائے کسی اور دن روزہ رکھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٢ ۵ اگر کوئی روزہ رکھنے کی نذر کرے ليکن معين نہ کرے کہ کس دن روزہ رکھے گا تو اس روزے کو سفر ميں انجام نہيں دے سکتا، ليکن اگر نذر کرے کہ سفر ميں کسی معين دن روزہ رکھے گا تو ضروری ہے کہ اس روزے کو سفر ميں انجام دے ۔اسی طرح اگر نذر کرے کہ فلاں دن روزہ رکھے گا خواہ سفر ہو یا نہ ہو تو ضروری ہے کہ چاہے سفر ميں ہو اس دن روزہ رکھے۔

مسئلہ ١٧٢ ۶ مسافر طلب حاجت کی غرض سے تين د ن مدینہ منورہ ميں مستحب روزے رکھ سکتا ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ وہ تين دن بده، جمعرات اور جمعہ ہوں۔

مسئلہ ١٧٢٧ جو شخص نہ جانتا ہو کہ مسافر کا روزہ باطل ہے اگر وہ سفر ميں روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے مسئلہ معلوم ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن اگر مغرب تک معلوم نہ ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٨ اگر بھول جائے کہ وہ مسافر ہے یا بھول جائے کہ مسافر کا روزہ باطل ہے اور سفر ميں روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٩ اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر کرے تو ضروری ہے کہ اپنا روزہ پورا کرے اور اگر ظہر سے پهلے سفر کرے تو حد تر خص تک پهنچنے پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر اس سے پهلے روز ہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس پر کفارہ واجب ہو جائے گا۔

۲۷۳

مسئلہ ١٧٣٠ اگر مسافر ماہ رمضان ميں خواہ فجرسے پهلے ہی سفر ميں ہو یا روزے سے ہو اور سفر کرے، اگرظہر سے پهلے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا دس دن رہنے کا ارادہ ہو اور اس نے روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس دن روزہ رکھے اور اگر انجام دے دیا ہو تو اس دن کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧٣١ اگر مسافر ظہر کے بعد اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچے کہ جهاں وہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو اس دن کا روزہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٣٢ مسافر اور روزہ رکھنے سے معذور افراد کے لئے ماہِ رمضان کے دن ميں جماع کرنا، ضرورت سے زیادہ کھانا اور خود کو مکمل طور پر سيراب کرنا مکروہ ہے ۔

وہ افراد جن پر روزہ رکھنا واجب نهيں

مسئلہ ١٧٣٣ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو یااس کے لئے روزہ رکھنا مشقّت کا باعث ہو تو اس پر سے روزے کی ذمہ داری کو اٹھ ا ليا گيا ہے ۔ ہاں، دوسری صورت ميں ضروری ہے کہ ہر روزے کے بدلے ميں فدیہ دے جو کہ ایک مد طعام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ گندم دے۔

مسئلہ ١٧٣ ۴ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھے، اگر ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھنے پر قادر ہوجائے تو جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٣ ۵ اگر انسان کو ایسی بيماری ہو کہ اسے زیادہ پياس لگتی ہو اور اس کے لئے پياس کو برداشت کرنا ممکن نہ ہو یا باعث مشقت ہو تو اس سے روزے کی ذمہ داری کو اٹھ ا ليا گيا ہے ، ليکن دوسری صورت ميں ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے اور احتياط مستحب یہ هے کہ مجبوری سے زیادہ مقدار ميں پانی نہ پئے اور ماہ رمضان کے بعد اگر روزہ رکھنے پر قادر ہو جائے تو جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧٣ ۶ جس عورت کے وضع حمل کا وقت قریب ہو اور روزہ اس کے حمل یا خود اس عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کا روزہ صحيح نہيں اور پهلی صورت ميں ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ یهی حکم احتياط مستحب کی بنا پر دوسری صورت کے لئے ہے اور جو روزے نہيں رکھے ہيں ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧٣٧ جو عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور اس کا دودھ کم ہو خواہ وہ بچے کی ماں ہو یا دایہ ہو، اجرت کے ساته دودھ پلائے یا بغير اجرت کے، اگر روزہ اس بچے کے لئے یا خود اس عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس عورت کا روزہ صحيح نہيں ہے اور پهلی صورت ميں ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ یهی حکم احتياطِ مستحب کی بنا پر دوسری صورت کے لئے بھی

۲۷۴

ہے اور جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا ضروری ہے اور یہ حکم اس وقت ہے کہ جب بچے کے دودھ کے لئے کوئی اور طریقہ ميسر نہ ہو اور اگر ميسر ہو تو واجب ہے کہ وہ عورت روزہ رکھے۔

مهينے کی پهلی تاريخ ثابت ہونے کا طريقہ

مسئلہ ١٧٣٨ مهينے کی پهلی تاریخ چند چيزوں سے ثابت ہوتی ہے :

١) انسان خود چاند دیکھے ۔

٢) اتنے لوگ جن کے کهنے پر یقين یا اطمينان آجاتا ہے ، کہيں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے ۔ اسی طرح ہر وہ چيز جس کی وجہ سے یقين یا اطمينان حاصل ہو جائے۔

٣) دوعادل مرد کہيں کہ ہم نے ایک ہی رات ميں چاند دیکھا ہے ليکن اگر چاند کی خصوصيت ایک دوسرے سے مختلف بيان کریں تو مهينے کی پهلی تاریخ ثابت نہيں ہوتی۔ یهی حکم اس وقت ہے جب یہ دونوں تصدیق کے قابل نہ ہوں مثلاًجب مطلع صاف ہو، چاند دیکھنے والے افراد زیادہ ہو ں اور ان دو کے علاوہ باقی افراد کوشش کے باوجود نہ دیکھ پائيں۔

۴) ماہِ شعبان کی پهلی سے تيس دن گزر جائيں جس سے ماہِ رمضان کی پهلی ثابت ہو جاتی ہے اور ماہِ رمضان کی پهلی سے تيس دن گزر جائيں جس سے شوال کی پهلی ثابت ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ١٧٣٩ مهينے کی پهلی کا حاکم شرع کے حکم سے ثابت ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٠ مهينے کی پهلی نجوميوں کی پيشن گوئی سے ثابت نہيں ہوتی، ليکن اگر انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان حاصل ہو جائے تو اس پر عمل ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ١ چاند کا اونچاہونا یا دیر سے غروب ہونا اس بات کی دليل نہيں کہ گذشتہ رات مهينے کی پهلی رات تهی، ليکن اگر ظہر سے پهلے چاند نظر آئے تو یہ مهينے کا پهلا دن شمار ہو گا اور چاند کے گرد حلقے کے ذریعے پچهلی رات کا چاند رات ثابت ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٢ اگر کسی کے لئے ماہِ رمضان کی پهلی ثابت نہ ہو اور وہ روزہ نہ رکھے اور بعد ميں ثابت ہوجائے کہ گذشتہ رات ہی چاند رات تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٣ اگر کسی شہر ميں مهينے کی پهلی تاریخ ثابت ہوجائے تو دوسرے شهروں ميں بھی خواہ دور ہوں یا نزدیک، خواہ ان کا افق ایک ہو یا نہ ہو، رات مشترک ہونے کی صورت ميں چاند ثابت ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴۴ مهينے کی پهلی ٹيلی گرام سے ثابت نہيں ہوتی مگر یہ کہ انسان جانتا ہو کہ ٹيلی گرام، شرعی دليل کی بنياد پر کيا گيا ہے ۔

۲۷۵

مسئلہ ١٧ ۴۵ جس دن کے بارے ميں انسان کو معلوم نہ ہو کہ رمضان کا آخری دن ہے یا شوال کا پهلا دن، ضروری ہے کہ روزہ رکھے ليکن اگر مغرب سے پهلے معلوم ہو جائے کہ شوال کی پهلی ہے تو ضروری ہے کہ افطار کر لے۔

مسئلہ ١٧ ۴۶ اگر قيد ميں موجود شخص کے پاس ماہِ رمضان ثابت ہونے کا کوئی طریقہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنے گمان پر عمل کرے چاہے کسی بھی طریقے سے حاصل ہوا ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو جس مهينے کے متعلق احتمال ہو کہ ماہِ رمضان ہے ، صحيح ہے کہ روزہ رکھ لے، ليکن ضروری ہے کہ اس مهينے سے گيارہ مهينے گذرنے کے بعد دوبارہ ایک مهينہ روزہ رکھے اور اگر بعد ميں معلوم ہو جائے کہ جس چيز کا اس نے گمان کيا تھا یا جسے اختيار کيا تھا وہ ماہِ رمضان نہيں تھا تو اگر یہ معلوم ہو کہ ماہِ رمضان اس مهينے سے پهلے تھا تو یہ کافی ہوگا اور اگر معلوم ہو کہ ماہِ رمضان اس مهينے کے بعد تھا تو ضروری ہے کہ قضا کرے۔

حرام اور مکروہ روزے

مسئلہ ١٧ ۴ ٧ عيد فطر اور عيد قربان کے دن روزہ رکھنا حرام ہے ۔ نيز جس دن کے بارے ميں انسان کو معلوم نہ ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پهلی، اگر پهلی رمضان کی نيت سے روزہ رکھے تو حرام ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٨ اگر بيوی کے مستحب روزہ رکھنے کی وجہ سے شوهرکا حق ضائع ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ اگر شوہر کا حق ضائع نہ بھی ہوتب بھی شوہر کی اجازت کے بغيرمستحب روزہ نہ رکھے۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٩ اولاد کا مستحب روزہ رکھنا اگر ماں باپ کی اذیت کا سبب ہو تو حرام ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٠ اگر اولاد باپ کی اجازت کے بغير کوئی مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں باپ اسے منع کرے، اگر بچے کی مخالفت کرنا باپ کی اذیت کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ افطار کر لے۔ یهی حکم اس وقت ہے جب ماں اسے منع کرے اور اس کی مخالفت کرنا اذیت کا باعث ہو۔

مسئلہ ١٧ ۵ ١ جو شخص جانتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر نہيں اگرچہ ڈاکٹر کهے کہ نقصان دہ ہے ، ضروری ہے کہ روزہ رکھے اور جس شخص کو قابل ذکر ضرر کا یقين یا گمان ہو یا اس چيز کا خوف ہو جس کا خوف عقلا کے نزدیک صحيح ہوتو چاہے ڈاکٹر کهے کہ ضرر نہيں ہے ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اگر روزہ رکھ بھی لے تو صحيح نہيں ہے ، مگر یہ کہ روزہ اس کے لئے مضر نہ تھا او راس نے قصدِقربت کيا تھا کہ اس صورت ميں اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٢ اگر انسان کو احتمال ہو کہ روزہ اس کے لئے قابلِ ذکر ضرر کا باعث ہے اور اس احتمال کی وجہ سے اسے خوف ہو جائے، اگر اس کا احتمال عقلا کی نظر ميں صحيح ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اگر روزہ رکھ لے تو باطل ہو گا مگر یہ کہ روزہ مضر نہ ہو اور اس نے قصدِقربت کيا ہو۔

۲۷۶

مسئلہ ١٧ ۵ ٣ جس شخص کا عقيدہ یہ ہو کہ روزہ اس کے لئے قابل توجہ ضررکا باعث نہيں اگروہ روزہ رکھ لے اور مغرب کے بعد معلوم ہو کہ روزہ اس کے لئے قابلِ توجہ ضررکا باعث تھا تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٧ ۵۴ مذکورہ روزوں کے علاوہ اور حرام روزے بھی ہيں جنہيں مفصّل کتابوں ميں بيان کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵۵ عاشور کے دن کا روزہ بنا بر احتياطِ واجب جائز نہيں اور اس دن کا روزہ مکروہ ہے جس کے بارے ميں شک ہو کہ عرفہ کا دن ہے یا عيد قربان کا۔

مستحب روزے

مسئلہ ١٧ ۵۶ مذکورہ حرام اور مکروہ روزوں کے علاوہ سال کے تمام دنوں کا روزہ مستحب ہے ، جب کہ بعض ایام کے بارے ميں زیادہ تاکيد کی گئی ہے جن ميں سے بعض یہ ہيں :

١) ہر ماہ کی پهلی اور آخری جمعرات اور دسویں تاریخ کے بعد آنے والا پهلا بده اور اگر کوئی شخص یہ روزے نہ رکھے تو مستحب ہے کہ قضا کرے اور اگر بالکل روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو ١٢٫ ۶ ) سکہ دار چنے کے برابر چاندی فقير کو )

مستحب ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام یا پھر ۶ ۔ ١٢دے۔

٢) ہر مهينے کی تيرہویں، چودهویں اور پندرہویں تاریخ۔

٣) رجب اور شعبان کا پورا مهينہ، اور ان دو مهينوں ميں سے کچھ دن اگرچہ ایک ہی دن ہو۔

۴) عيد نوروز کا دن۔

۵) شوال کی چوتھی تاریخ سے نویں تاریخ تک کے ایام۔

۶) ذی القعدہ کی پچيسویں اور انتيسویں کا دن۔

٧) ذی الحجہ کی پهلی تاریخ سے نویں (روزِعرفہ )تک، ليکن اگر روزے کی کمزوری کی وجہ سے روزِعرفہ کی دعائيں نہ پڑھ سکے تو اس دن کا روزہ مکروہ ہے ۔

٨) عيد غدیر کا مبارک دن( ١٨ /ذی الحجہ )۔

٩) روزِمباہلہ ( ٢ ۴ / ذی الحجہ )۔

١٠ ) محرم کے پهلے، تيسرے اور ساتویں دن۔

١١ ) پيغمبر اکرم(ص) کی ولادت باسعادت کے دن ( ١٧ /ربيع الاول)۔

١٢) ١ ۵/ جمادی الاوّل کے دن۔

۲۷۷

١٣ )حضرت رسول اکرم(ص)کی بعثت کے دن ( ٢٧ /رجب)۔

اگر کوئی شخص مستحب روزہ رکھے تو اسے پورا کرنا واجب نہيں ،بلکہ اگر اس کا مومن بهائی اسے کھانے کی دعوت دے تو مستحب ہے کہ اس کی دعوت قبول کرلے اور دن ميں ہی چاہے ظہر کا وقت گذر چکا ہو روزہ افطار کر لے۔

وہ صورتيں جن ميں مبطلاتِ روزہ سے پرہيز مستحبہے

مسئلہ ١٧ ۵ ٧ چند افراد کے لئے مستحب ہے کہ ماہِ رمضان ميں چاہے روزے سے نہ ہوں، روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کریں:

١) وہ مسافر جس نے سفر ميں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دیا ہو اور ظہر سے پهلے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا دس دن قيام کا ارادہ ہو۔

٢) وہ مسافر جو ظہر کے بعد اپنے وطن یا ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں و ہ دس دن قيام کرنا چاہتا ہو۔

٣) وہ مریض جو ظہر کے بعد تندرست ہو جائے۔ یهی حکم ہے جب وہ ظهرسے پهلے تندرست ہو جائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو۔

۴) وہ عورت جو دن ميں کسی وقت حيض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٨ مستحب ہے کہ روزہ دار نمازمغرب وعشا کو افطار سے پهلے پڑھے، ليکن اگر کوئی دوسر ا شخص اس کا منتظر ہو یا وہ کھانے کی زیادہ خواہش رکھتا ہو کہ جس کی وجہ سے وہ قلبی توجہ کے ساته نمازنہ پڑھ سکتا ہو تو بہتر ہے کہ پهلے افطار کرے، ليکن جس قدر ممکن ہو نماز کو وقت فضيلت ميں پڑھے۔

اعتکاف

اعتکاف عبادات ميں سے ہے اور شرعاًاعتکاف یہ ہے کہ انسان قربة الی الله کی نيت سے مسجد ميں توقف وقيام کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کا قيام کسی عبادت مثلاًنمازکو انجام دینے کی نيت سے ہواور اعتکاف کے لئے کوئی خاص وقت معين نہيں ہے بلکہ جب بھی روزہ رکھنا صحيح ہے اعتکاف کرنا بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٩ اعتکا ف ميں کچھ چيزوں کا خيال رکھنا ضروری ہے :

١) اعتکاف کرنے والا عاقل ہو اور مميز بچے کا اعتکاف کرنا صحيح ہے ۔

٢) قصدِقربت جيسا کہ وضو کے باب ميں بيان کيا گيا ہے ۔

٣) روزہ، لہٰذا جس شخص کا روزہ باطل ہے جيسے وہ مسافر جس نے دس دن قيام کا ارادہ نہ کيا ہو، وہ اعتکاف نہيں کر سکتا۔

۴) یہ کہ مسجدالحرام، مسجدنبوی، مسجد کوفہ، مسجد بصرہ یا جامع مسجد ميں ہو۔

۲۷۸

۵) اس فرد کی اجازت سے ہو جس کی اجازت ضروری ہے ، لہٰذا بيوی کا اعتکاف شوہر کی اجازت کے بغير جب کہ شوہر کی حق تلفی ہو رہی ہو، صحيح نہيں ہے ۔

۶) تين دن اور اُن تين دنوں کے درميان کی دو راتيں اسی مسجد ميں گزارے جس ميں اعتکاف کر رہا ہے اور بغير کسی ضروری کا م کے مسجد سے باہر نہ جائے۔ البتہ مریض کی عيادت، تشييع جنازہ اور تجهيزِميت جيسے غسلِ ميت، نماز اور دفن کے لئے مسجدسے باہر جا سکتا ہے ۔

جن صورتوں ميں مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے ، اس کا م کی انجام دهی کے وقت سے زیادہ باہر نہ ٹھ هرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نزدیک ترین راستے سے مسجد کو لوٹے اور مسجد سے باہر نہ بيٹھے اور اگر بيٹھنے پر مجبور ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں سائے ميں نہ بيٹھے۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٠ اعتکاف شروع کرنے کے بعد اس کے واجب معين، مثلاًجب اس نے نذر کی ہو کہ کسی خاص وقت ميں اعتکاف کرے گا، نہ ہونے کی صورت ميں دو روز گذرنے سے پهلے وہ اعتکاف سے پلٹ سکتا ہے اور اسے توڑ سکتا ہے ، ليکن اگر نيت کے وقت ہی شرط لگا دی ہو کہ کوئی کام پيش آنے کی صورت ميں اس کو اعتکاف توڑ نے کا اختيار ہو تو دو دن گزرنے کے بعد بھی اعتکاف توڑ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ١ اعتکاف کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ خود کو چند چيزوں سے بچائے اور ان چيزوں کو انجام دینے سے اعتکاف باطل ہو جاتا ہے ،ليکن جماع کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کا ترک کرنا اس صورت ميں جبکہ اعتکاف واجب معين نہ ہو احتياط کی بنا پر ہے :

١) جماع کرنا اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ استمنا، عورت کو شهوت کے ساته مس کرنے اور شهوت کے ساته بوسہ لينے سے بھی اجتناب کرے۔

٢) خوشبو لگانا۔

٣) خرید وفروخت، کہ اس سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے البتہ سودا باطل نہيں ہوتا اور احتياط واجب یہ ہے کہ ہر قسم کی تجارت سے، چاہے مصالحت، مضاربہ اور اجارہ یا ان جيسی چيزوں کے ذریعے ہو، اجتناب کرے اور اگر کسی چيز کی خرید وفروخت پر مجبور ہو جائے اور اس کے لئے کوئی وکيل بھی نہ مل سکے تو جائز ہے ۔

۴) کسی پر غالب ہونے اور اپنے فضل کا اظهار کرنے کے لئے ممارات یعنی جدال کرنا، چاہے دنيوی امور ميں ہو یا اخروی امور ميں ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٢ اگر واجب اعتکاف ميں جان بوجه کر جماع کرے، چاہے دن ميں ہو یا رات ميں ، اس پر کفارہ واجب ہوجائے گا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلائے۔

۲۷۹

اور جماع کے علاوہ دوسرے ان امور کی ادائيگی سے جن سے بچنا ضروری ہے ، کفارہ واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٣ اگر اعتکاف کرنے والا غلطی سے اعتکاف باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس کے اعتکاف کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶۴ اگر مذکورہ بالا چيزوں ميں سے کسی کے ذریعے اعتکاف باطل کرے تو اعتکاف کے واجبِ غيرِ معين ہونے کی صورت ميں ، مثلًا جب اس نے وقت معين کئے بغير اعتکاف کرنے کی نذر کی ہو، ضروری ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے اور اگر اعتکاف واجب معين ہو مثلاًاس نے معين وقت ميں اعتکاف کرنے کی نذر کی ہو یا اعتکاف تو مستحب ہو ليکن اسے باطل کرنے والا کام دو دن گزرنے کے بعد انجام دیا ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور اگر دو دن مکمل ہونے سے پهلے اعتکاف مستحب کو باطل کيا ہو تو اس کی قضا نہيں ۔

مسئلہ ١٧ ۶۵ ایک اعتکاف سے دوسرے اعتکاف کی طرف نيت پهيرنا جائز نہيں ہے ، چاہے دونوں اعتکاف واجب ہوں، مثلاًایک نذر اور دوسرا قسم کے ذریعے خود پر واجب کيا ہو، یا دونوں مستحب ہوں، یا ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو، یا ایک خود کے لئے ہو اور دوسرے ميں کسی کا نائب یا اجير ہو، یا دونوںکسی کی نيابت ميں ہو ں۔

مسئلہ ١٧ ۶۶ اگر اعتکاف کرنے والا شخص غصبی قالين پر بيٹھے تو گنهگار ہے ليکن اس کا اعتکاف باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر کوئی شخص کسی جگہ سبقت کر کے اپنی جگہ بنا چکا ہو اور اعتکاف کرنے والا اس کی رضایت کے بغير اس سے وہ جگہ لے لے تو اس جگہ اس کا اعتکاف باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٧ اگر اعتکاف کرنے والے پر غسل واجب ہو جائے تو اگر مسجد ميں اس غسل کی ادائيگی ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو مسجد سے نکلنا جائزنہيں ہے جيسے غسلِ مس ميت انجام دینا، ليکن اگر اس غسل کو مسجد ميں کرنے ميں کوئی رکاوٹ ہو جيسے غسل جنابت جس کا لازمی نتيجہ یہ ہے کہ انسان جنابت کے ساته مسجد ميں رہے، تو ضروری ہے کہ مسجد سے نکلے ورنہ اس کا اعتکاف باطل ہو جائے گا۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511