توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215363 / ڈاؤنلوڈ: 4748
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

مسئلہ ١٢١١ جب صحيح شکوک ميں سے کوئی شک انسان کو لاحق ہو جائے تو جيساکہ بيان کيا جاچکا ہے احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ فوراً غور و فکر کرے۔هاں،وہ چيزیں جن کی وجہ سے ممکن ہے کہ شک کی کسی ایک طرف یقين یا گمان ہو جائے اگر ختم نہ ہوتی ہوں اور فکر کرنے ميں تهوڑی سی دیر کر دے پھر بھی کوئی حرج نہيں مثلاًاگر وہ سجدے ميں کوئی شک کرے تو وہ سجدے کے بعد تک فکر کرنے ميں تاخير کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٢١٢ اگر پهلے کسی شخص کا گمان ایک طرف ہو اور پھر اس کی نظر ميں دونوں اطراف برابر ہو جائيں تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے اور اگر پهلے اس کی نظر ميں دونوں اطراف برابر ہوں اور اپنی ذمہ داری کے مطابق ایک طرف کو اختيا ر کرے اور بعد ميں اس کا گمان دوسری طرف چلا جائے تو ضروری ہے کہ وہ اسی طرف کو اختيار کرلے اور اپنی ذمہ داری کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ١٢١٣ جو شخص یہ نہ جانتا ہو کہ اس کا ایک طرف گمان ہے یا دونوں اطراف اس کی نظر ميں برابر ہيں تو ضروری ہے کہ وہ شک کے احکام پر عمل کرے او ر احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر شک صحيح شکوک ميں سے ہو اور نمازِاحتياط کا موقع ہو اور اس کا گمان بھی زیادہ پر ہو تو نماز گمان کے مطابق تمام کر کے نماز احتياط پڑھے اور اگر شک صحيح شکوک ميں سے نہ ہو یا گمان کم پر ہو تو نماز گمان کے مطابق مکمل کر کے دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١٢١ ۴ جو شخص نمازکے بعد یہ تو جانتا ہو کہ نمازکے دوران وہ شک کی حالت ميں تھا مثلاً اسے شک تھا کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا تين رکعتيں اور اس نے تين رکعتوں پر بنا رکھی تھی ليکن اسے یہ نہ معلوم ہو کہ اس کے گما ن ميں تين رکعتيںتہيں يا دونوں اطراف اس کی نظر ميں برابر تهے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نمازِ احتياط پڑھے۔

مسئلہ ١٢١ ۵ اگر تشهد پڑھتے وقت یا کھڑے ہونے کے بعد شک کرے کہ پچهلی رکعت کے دو سجدے اد ا کئے تهے یا نہيں اور اسی وقت اسے ان شکوک ميں سے کوئی شک لاحق ہو جائے جواگر دو سجدے مکمل ہونے کے بعد لاحق ہوتا تو صحيح ہوتا مثلاً وہ شک کرے کہ ميں نے دو رکعتيں پڑھی ہيں یا تين اور وہ اسی شک کے مطابق عمل کرے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٢١ ۶ اگر تشهد ميں مشغول ہونے سے پهلے یا بغير تشهد والی رکعتوںميں کھڑے ہونے سے پهلے نمازی شک کرے کہ ایک یا دو سجدے بجا لایا ہے یا نہيں اور اسی حالت ميں اس کو ان شکوک ميں سے کوئی شک لاحق ہو جائے جو دو سجدےمکمل ہونے کے بعد صحيح ہے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٢١٧ اگر نمازی قيام کی حالت ميں تين اور چار رکعتوں کے درميان یا تين اور چار اور پانچ رکعتوں کے درميان شک کرے اور اسے یہ یاد آجائے کہ اس نے پچهلی رکعت کا ایک سجدہ یا دونوں سجدے ادا نہيں کيے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۲۰۱

مسئلہ ١٢١٨ اگر کسی کا ایک شک زائل ہو جائے اور کوئی دوسرا شک اسے لاحق ہو جائے مثلاًشک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا تين اور بعد ميں شک کرے کہ تين رکعتيں پڑھی ہيں یا چار تو ضروری ہے کہ وہ دوسرے شک کے احکام پر عمل کرے۔

مسئلہ ١٢١٩ جو شخص نمازکے بعد شک کرے کہ نماز کی حالت ميں مثال کے طور پر اس نے دو اور چار رکعتوں کے درميان شک کيا تھا یا تين اور چار رکعتوں کے درميان،تو وہ نمازکو کالعدم قرار دے سکتا ہے اور ضروری ہے کہ نماز کو باطل کرنے والا کوئی کام مثلاً قبلہ سے منہ پهيرنا یا جان بوجه کر گفتگو کرنا، انجام دینے کے بعد نماز دوبارہ پڑھے۔

اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ دونوں شکوک کے احکام پر عمل کرنے کے بعد نماز دهرائے۔

مسئلہ ١٢٢٠ جوشخص نمازکے بعد یہ تو جانتا ہو کہ نمازکی حالت ميں اسے کوئی شک لاحق ہو گيا تھاليکن یہ نہ جانتا ہو کہ وہ شک نماز کو باطل کرنے والے شکوک ميں سے تھا یا صحيح شکوک ميں سے تھا او ر اگر صحيح شکوک ميں سے بھی تھا تو اس کا تعلق صحيح شکوک کی کون سی قسم ميں سے تھا تو اس کے لئے جائز ہے کہ نمازکو کالعدم قرار دے اور نماز کو باطل کرنے والا کوئی کام انجا م دینے کے بعد دوبارہ نمازپڑھے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ صحيح شکوک کے وظيفے پر عمل کرنے کے بعد نماز کو دهرائے۔

مسئلہ ١٢٢١ جو شخص بيٹھ کر نمازپڑھ رہا ہو اگر اسے ایسا شک لاحق ہو جائے جس کے لئے اسے ایک رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر یا دو رکعت بيٹھ کر پڑھنا ضروری ہو تو ضروری ہے کہ وہ ایک رکعت بيٹھ کر پڑھے اور اگر وہ ایسا شک کرے جس کے لئے اسے دو رکعت نماز احتياط کھڑے ہو کر پڑھنی چاہئے تو ضروری ہے کہ دو رکعت بيٹھ کر پڑھے۔

مسئلہ ١٢٢٢ جو شخص کهڑا ہو کر نمازپڑھ رہا ہو اگر وہ نماز احتياط پڑھتے وقت کهڑا ہونے سے عاجز ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز احتياط اس شخص کے حکم کے مطابق پڑھے جو بيٹھ کر نماز پڑھتا ہو جس کا حکم پچهلے مسئلے ميں بيان ہو چکا ہے ۔

مسئلہ ١٢٢٣ جو شخص بيٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر وہ نمازاحتياط پڑھنے کے وقت کهڑا ہو سکے تو ضروری ہے کہ اس شخص کے وظيفے کے مطابق عمل کرے جو کھڑے ہو کر نمازپڑھتا ہے ۔

نماز احتياط

مسئلہ ١٢٢ ۴ جس شخص پرنماز احتياط پڑھنا واجب ہو ضروری ہے کہ وہ نماز کے سلام کے بعد فوراً نمازاحتياط کی نيت کرے اور تکبير کهے، پھر الحمد پڑھے، رکوع ميں جائے اور دو سجدے بجالائے۔پس اگر اس پر ایک رکعت نماز احتياط واجب ہو تو دو سجدوں کے بعد تشهد اور سلام پڑھے اور اگر اس پر دو رکعت نمازاحتياط واجب ہو تو دو سجدوں کے بعد پهلی رکعت کی طرح ایک اور رکعت بجا لائے اور تشهد کے بعد سلام پڑھے۔

مسئلہ ١٢٢ ۵ نماز احتياط ميں سورہ اور قنوت نہيں ہے ۔ضروری ہے کہ یہ نمازآهستہ پڑھے اور ا س کی نيت زبان پر نہ لائے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اس کی بسم الله بھی آهستہ پڑھے۔

۲۰۲

مسئلہ ١٢٢ ۶ اگر کسی شخص کو نماز احتياط پڑھنے سے پهلے یہ معلوم ہو جائے کہ جو نماز پڑھی تھی وہ صحيح تھی تو نماز احتياط پڑھنا ضروری نہيں اور اگر نماز احتياط کے دوران اس بات کا علم ہو جائے تو اس نمازکو مکمل کرنا ضروری نہيں ،البتہ اسے دو رکعت نمازنافلہ کی نيت سے مکمل کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٢٢٧ اگر نماز احتياط پڑھنے سے پهلے نمازی کو معلوم ہو جائے کہ اس نے نمازکی رکعتيں کم پڑھی ہيں اور نماز پڑھنے کے بعد اس نے نمازکو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو ضروری ہے کہ نمازکا جو حصہ نہ پڑھا ہو اسے پڑھے اور احتياط واجب کی بنا پر بے جا سلام کے لئے دو سجدہ سهو بجا لائے۔

اور اگر اس نے نماز کو باطل کرنے والاکوئی کام انجام دیا ہومثلاً قبلے کی طرف پشت کی ہو،تو ضروری ہے کہ نمازدوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١٢٢٨ اگر کسی کو نمازاحتياط کے بعد معلوم ہو کہ اس کی نمازميں کمی نماز احتياط کے برابر تھی مثلاً دو اور چاررکعتوں کے درميان شک کی صورت ميں دو رکعت نماز احتياط پڑھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ اس نے نماز کی دو رکعتيں پڑھی تہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٢٢٩ اگر کسی شخص کو نماز احتياط پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ نماز ميں جو کمی ہوئی تھی وہ نماز احتياط سے کم تھی مثلاً دو رکعت اور چار رکعتوں کے درميان شک کی صورت ميں دو رکعت نمازاحتياط پڑھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ اس نے نماز کی تين رکعتيں پڑھی تہيں تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١٢٣٠ اگر کسی شخص کو نماز احتياط پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ اس کی نماز ميں کمی نماز احتياط سے زیادہ تھی اور نماز احتياط کے بعد اس نے کوئی ایسا کام کيا ہو جو نمازکوباطل کر دیتا ہے مثلاً قبلے کی طرف پشت کی ہو،تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر کوئی ایسا کام نہ کيا هو جو نمازکو باطل کرتا ہو تو احتياط واجب کی بنا پرنمازميں جو کمی ہوئی تھی اس کو ملاتے ہوئے نمازکو مکمل کرے،نيز اصل نمازاور نماز احتياط ميں بے جا سلام پڑھنے کی وجہ سے اور اس طرح کی پيش آنے والی دوسری چيزوں ميں سے ہر ایک کے لئے دو سجدہ سهو بجا لائے او ر نماز بھی دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١٢٣١ اگر کوئی شخص دو، تين اور چار رکعتوں ميں شک کرے اور کھڑے ہو کر دو رکعت نمازاحتياط پڑھنے کے بعد اسے یاد آئے کہ اس نے نمازکی دو رکعتيں پڑھی تہيں تو اس کے لئے بيٹھ کردو رکعت نماز احتياط پڑھنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٢٣٢ اگر کوئی شخص تين اور چار رکعتوں ميں شک کرے اور جس وقت وہ دو رکعت نماز احتيا ط بيٹھ کر پڑھ رہا ہو رکوع سے پهلے اسے یاد آئے کہ نمازتين رکعت پڑھی ہے تو ضروری ہے کہ جو کچھ اس نے پڑھا ہو اسے شمار نہ کرے اور احتياط واجب کی بنا پر کهڑا ہو جائے اور جو کمی نماز ميں ہوئی ہو اسے پورا کرے اور بے جا سلام کی وجہ سے دو سجدہ سهو بجا لائے اور اگر بے جا تشهد

۲۰۳

انجام دیا ہوتو اس کے لئے بھی دو سجدہ سهو بجا لائے اور نماز بھی دوبارہ پڑھے اور اگر پهلے رکوع کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ١٢٣٣ جو شخص دو، تين اور چار رکعتوں کے درميان شک کرے او ر جس وقت وہ دو رکعت نماز احتياط کهڑا ہو کر پڑھ رہا ہو دوسرے رکوع ميں جانے سے پهلے اسے یاد آئے کہ اس نے نمازتين رکعت پڑھی تھی تو احتياط واجب کی بنا پر بيٹھ جائے اور نماز احتياط کو ایک رکعت پر تمام کرے اور بے جا سلام کی وجہ سے دو سجدہ سهو اور بے جا تشهد کے لئے بهی، اگر تشهد پڑھا ہو،دو سجدہ سهو بجا لائے۔نيز نماز کا اعادہ بھی کرے۔

مسئلہ ١٢٣ ۴ اگر کسی شخص کو نمازاحتياط کے دوران معلوم ہو کہ اس کی نماز ميں کمی نماز احتياط سے زیادہ یا کم تھی اور وہ نماز احتياط اس طریقے سے ادا نہ کر سکتا ہو کہ نماز کی کمی پوری ہوجائے مثلاًتين اور چار رکعت کے درميان شک کی صورت ميں جس وقت وہ دو رکعت نماز احتياط بيٹھ کر پڑھ رہا ہو اسے یاد آجائے کہ نماز دو رکعت پڑھی ہے تو اس صورت ميں چونکہ بيٹھ کر دو رکعت نماز احتياط پڑھنے کو کھڑے ہو کر دو رکعت پڑھنے کے برابر شمار نہيں کرسکتاہے لہٰذا ضروری ہے کہ نماز احتياط کو چھوڑ دے اور احتياط واجب کی بنا پر نماز کی کمی کو پورا کرے اور بے جا سلام کی وجہ سے دو سجدہ سهو اور بے جا تشهد کی وجہ سے بهی، اگر تشهد پڑھا ہو،دو سجدہ سهو بجا لائے۔

نيز نمازدوبارہ پڑھے۔ یہ حکم اس وقت ہے جب اسے یہ بات رکوع سے قبل ہی معلوم ہو گئی ہو اور اگر رکوع کے بعد معلوم ہوئی ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١٢٣ ۵ اگر کوئی شخص شک کرے کہ جو نماز احتياط اس پر واجب تھی وہ اسے بجا لایا ہے یا نہيں تو نماز کا وقت گزر جانے کی صورت ميں اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر وقت باقی ہو تو اگر شک اور نماز کے درميان زیادہ وقفہ بھی نہ گزرا ہو اور اس نے نماز کو باطل کرنے والا کوئی کام جيسے قبلہ سے منہ موڑنا،بهی انجام نہ دیا ہو تو ضروری ہے کہ نماز احتياط پڑھے اور اگر نمازکو باطل کرنے والا کوئی کام کر چکا ہو یا نمازاور شک کے درميان زیادہ وقفہ ہو گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٢٣ ۶ اگر کوئی شخص نمازاحتياط ميں ایک رکعت کے بجائے دو رکعت پڑھ لے یا کسی رکن کا اضافہ کر دے تو نماز احتياط باطل ہے اور دوبارہ اصل نماز پڑھنا ضرور ی ہے ۔

مسئلہ ١٢٣٧ اگر کسی شخص کو نمازاحتياط پڑھتے ہوئے اس نمازکے افعال ميں سے کسی کے متعلق شک ہو جائے تو اگر اس کا وقت نہ گزرا ہو تو اسے انجام دینا ضروری ہے اور اگر وقت گزر گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے مثلاًاگر شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہيں اور ابهی رکوع ميں نہ گيا ہو تو ضروری ہے کہ الحمد پڑھے اور اگر رکوع ميں جا چکا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پر وا نہ کرے۔

۲۰۴

مسئلہ ١٢٣٨ اگر کوئی شخص نمازاحتياط کی رکعتوں ميں شک کرے اور زیادہ رکعتوں کی طرف والا شک نماز کو باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ اپنی نماز کی بنياد کم رکعتوں پر رکھے اور اگر زیادہ رکعتوں کی طرف والا شک نماز کو باطل نہ کرتا ہو تو نماز کی بنا زیادہ رکعات پر رکھے، مثلاً جب وہ دو رکعت نماز احتياط پڑھ رہا ہو اگر شک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا تين تو چونکہ زیادہ کی طرف والا شک نماز کو باطل کرتا ہے اس لئے اسے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس نے دو رکعتيں پڑھی ہيں اور اگر شک کرے کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا دو رکعتيں پڑھی ہيں تو چونکہ زیادتی کی طرف والا شک نماز کو باطل نہيں کرتا اس لئے اسے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس نے دو رکعتيں پڑھی ہيں ۔

مسئلہ ١٢٣٩ اگر نماز احتياط ميں غلطی سے کوئی ایسا عمل کم یا زیادہ کردے جو رکن نہ ہو تو اس کے لئے سجدہ سهو کی ضرورت نہيں ،سوائے ان چيزوں کے جن کا تذکرہ مسئلہ نمبر ” ١٢ ۴ ١ “ ميں کيا جائے گا۔

مسئلہ ١٢ ۴ ٠ اگر نماز احتياط کے سلام کے بعد نماز کے اجزاء یا شرائط ميں سے کسی کے بارے ميں شک کرے کہ اسے انجام دیا ہے یا نہيں تو وہ اپنے شک کی پر وا نہ کرے۔

مسئلہ ١٢ ۴ ١ اگر کوئی شخص نمازاحتياط ميں تشهد پڑھنا یا ایک سجدہ کرنا بھول جا ئے اور اس تشهد یا سجدے کا اپنی جگہ پر بجا لانا بھی ممکن نہ ہو تو نماز کے سلام کے بعدتشهدبھولنے کے صورت ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کی قضا کرے اور ضروری ہے کہ دو سجدہ سهو بجا لائے اور سجدہ بھولنے کے صورت ميں ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے ۔

مسئلہ ١٢ ۴ ٢ اگر کسی شخص پر نماز احتياط کے ساته ایک سجدے یا تشهد کی قضا،یا دو سجدہ سهو واجب ہوجائيں تو ضروری ہے کہ پهلے نماز احتياط بجا لائے۔

مسئلہ ١٢ ۴ ٣ نماز کی رکعتوں کے بارے ميں گمان یقين ہی کی طرح ہے مثلاًاگر کوئی شخص یہ نہ جانتا ہو کہ نماز ایک رکعت پڑھی ہے یا دو اور وہ گمان کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں تو وہ سمجھے کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں اور اگر چار رکعتی نمازميں گمان کرے کہ چار رکعتيںپڑھی ہيں تو اسے نمازاحتياط پڑھنے کی ضرورت نہيں ۔البتہ افعال کے بارے ميں گمان شک کی طرح ہے لہذاگر اسے گمان ہو کہ رکوع کر چکا ہے اور وہ سجدے ميں داخل نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ رکوع انجام دے اور اگر اسے گمان ہو کہ الحمد نہيں پڑھی اور سورے ميں داخل ہو چکا ہو تو اپنے گمان کی پروا نہ کرے اور نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۴۴ روزانہ کی واجب نمازوں اور دوسری نمازوں ميں شک، سهو اور گمان کے حکم ميں کوئی فرق نہيں ہے ۔ مثلاًاگر کسی شخص کو نماز آیات کے دوران شک ہو کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا دو رکعتيں تو چونکہ اس کا شک دو رکعتی نماز ميں ہے لہٰذا اس کی نماز باطل ہے اور اگر وہ گمان کرے کہ دو رکعت پڑھی ہيں یا ایک رکعت پڑھی ہے تو اپنے گمان کے مطابق نماز کو تمام کرے۔

۲۰۵

سجدہ سهو

مسئلہ ١٢ ۴۵ ضروری ہے کہ انسان پانچ چيزوں کے لئے اس طریقے کے مطابق جس کا بيان آئندہ ہو گا سلام نماز کے بعد دو سجدہ سهو بجا لائے:

١) نماز کے دوران سهواًکلام کرنا۔

٢) تشهد بھول جانا۔

٣) چار رکعتی نماز ميں دوسرے سجدے کا واجب ذکر ختم ہونے کے بعد شک کرنا کہ چار رکعت پڑھی ہے یا پانچ یا حالت قيام ميں پانچ اور چھ رکعت کے درميان شک کرنا جيسا کہ مسئلہ نمبر ١٢٠٧ “کی چوتھی اور نویں صورت ميں گزر چکا ہے ۔ ”

۴) احتياط واجب کی بنا پر جهاں سلام نہيں پڑھنا چاہئے،وہاں بھول کر سلام پڑھنا، مثلاً پهلی رکعت ميں سلام پڑھے۔

۵) احتياط واجب کی بنا پر ایک سجدہ بھول جانا اور یهی حکم ہر اس چيز کا ہے جو نمازميں غلطی سے کم یا زیادہ ہو گئی ہو۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ جهاں بيٹھنا ضروری ہو اگر وہاں کهڑا ہو جائے یا جهاں کهڑا ہونا ضروری ہو اگر وہاں بيٹھ جائے تو دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١٢ ۴۶ اگر انسا ن غلطی سے یا اس خيال سے کہ وہ نمازپڑھ چکا ہے کلام کرے تو احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١٢ ۴ ٧ اس آواز کے لئے جو کهانسنے اور آہ بهرنے سے پيدا ہو تی ہے سجدہ سهو واجب نہيں ہے ۔ ہاں، اگر غلطی سے مثلاًلفظ ”آخ“یا ’ ’ آہ “کهے تو سجدہ سهو بجا لانا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۴ ٨ اگر کوئی شخص ایک ایسی چيز جو اس نے غلط پڑھی ہو دوبارہ صحيح طریقے سے پڑھے تو اس کے غلط پڑھنے پر سجدہ سهو واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۴ ٩ اگر کوئی شخص نمازميں غلطی سے کچھ دیر باتيں کرتا رہے اور عموماًاسے ایک مرتبہ بات کرنا سمجھا جاتا ہو تو اس کے لئے نمازکے سلام کے بعد دو سجدہ سهو کافی ہيں ۔

مسئلہ ١٢ ۵ ٠ اگر کوئی شخص غلطی سے تسبيحات اربعہ نہ پڑھے تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز کے بعد دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۰۶

مسئلہ ١٢ ۵ ١ جهاں نماز کا سلام نہيں کهنا چاہئے اگر کوئی شخص غلطی سے ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِاللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ “ یا ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللّٰهُ وَ بَرَکَاتُه

کہہ _______دے تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ دو سجدہ سهو بجا لائے، بلکہ اگر غلطی سے ان دو سلاموں کی کچھ مقدار پڑھ لے تب بھی یهی حکم ہے ۔البتہ اگر غلطی سے ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہ“ کہہ دے تو احتياط مستحب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١٢ ۵ ٢ جهاں سلام نہيں پڑھنا چاہئے وہاں اگرکوئی شخص غلطی سے تينوں سلام پڑھ لے تو اس کے لئے دو سجدہ سهو کافی ہيں ۔

مسئلہ ١٢ ۵ ٣ جو شخص ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے او ر بعد والی رکعت کے رکوع ميں جانے سے پهلے اسے یاد آئے تو ضروری ہے کہ پلٹ کر بجا لائے اور نماز کے بعد احتياط مستحب کی بنا پر بے جا قيام کے لئے دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١٢ ۵۴ جس شخص کو رکوع ميں یا اس کے بعد یاد آئے کہ وہ اس سے پهلے والی رکعت ميں ایک سجدہ بھول گيا ہے تو ضروری ہے کہ نماز کے سلام کے بعد سجدے کی قضا کرے اور احتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بھی بجا لائے اور اگر رکوع ميں یا اس کے بعد یاد آئے کہ اس سے پهلی رکعت ميں تشهد بھول گيا ہے تو احتياط مستحب کی بنا پر تشهد کی قضا کرے اور ضروری ہے کہ دو سجدہ سهو بھی بجا لائے۔

مسئلہ ١٢ ۵۵ جو شخص نمازکے سلام کے بعد جان بوجه کر سجدہ سهو نہ کرے تو وہ گنهگا ر ہے اور جس قدر جلدی ہو اسے ادا کرنا واجب ہے اور اگر اس نے بھول کر سجدہ سهو نہيں کيا تو جس وقت بھی اسے یاد آئے ضروری ہے کہ فوراً سجدہ کرے اور اس کے لئے نمازکا دوبارہ پڑھنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٢ ۵۶ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اس پر سجدہ سهو واجب ہو ا ہے یا نہيں تو اس کا بجا لانا اس پر ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٢ ۵ ٧ اگر کوئی شخص شک کرے کہ مثلاًاس پر دو سجدہ سهو واجب ہوئے ہيں یاچار تو اگر وہ دو سجدے کر لے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۵ ٨ جس شخص کو علم ہو کہ دو سجدہ سهوميں سے ایک سجدہ بجا نہيں لایا اور اس کی بر محل ادائيگی بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ دو سجدہ سهو بجا لائے اور اگر اسے علم ہو کہ اس نے سهواًتين سجدے کئے ہيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ دوبارہ دو سجدہ سهو کرے۔

۲۰۷

سجدہ سهو کا طريقہ

مسئلہ ١٢ ۵ ٩ سجدہ سهو کا طریقہ یہ ہے کہ نمازکے سلام کے بعد انسان فوراً سجدہ سهو کی نيت کرے اور پيشانی کسی ایسی چيز پر رکھ دے جس پر سجدہ کرنا صحيح ہو اور احتياط واجب یہ ہے کہ پيشانی کے علاوہ دوسرے اعضاء کو بھی زمين پر رکھے اور یہ ذکر پڑھے ”بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ السَّلاَمُ عَلَيْک اَیُّهَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَ کَاتُه “اس کے بعد ضروری ہے کہ بيٹھ جائے اور دوبارہ سجدہ ميں جا کر مذکورہ بالا ذکر پڑھے اور بيٹھ جائے اور تشهد پڑھنے کے بعد سلام پهيرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ تشهد عام طریقے کے مطابق بجا لائے اور سلام ميں ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْکُمْ“کهے۔

بھولے ہوئے سجدے اور تشهد کی قضا

مسئلہ ١٢ ۶ ٠ بھولے ہوئے سجدے اور تشهد کی قضا کے وقت، جسے نمازکے بعد انجام دیا جاتا ہے اور اسی طرح بھولے ہوئے تشهد کے لئے دو سجدہ سهو انجام دیتے وقت نماز کے تما م شرائط مثلا بدن اور لباس کا پاک ہونے اور روبہ قبلہ ہونے کا خيال رکھنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۶ ١ اگر انسان چند سجدے کرنا بھول جائے مثلاًایک سجدہ پهلی اور ایک سجدہ دوسری رکعت ميں بھول جائے تو ضروری ہے کہ نمازکے بعد ان دونوں سجدوں کی قضا بجا لائے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ان دونوں کی قضا کے بعد ہر ایک کے لئے دو سجدہ سهو بھی بجا لائے اور انسان کے لئے یہ معين کرنا ضروری نہيں ہے کہ وہ کون سے سجدے کی قضا کر رہا ہے یا کون سے سجدے کے لئے سجدہ سهو کر رہا ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۶ ٢ اگر کوئی شخص ایک سجدہ اور تشهد بھول جائے تو سجدے کی قضا واجب ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر تشهد کی قضا کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ سجدے کی قضا تشهد کی قضا سے پهلے بجا لائے اور ضروری ہے کہ بھولے ہوئے تشهد کے لئے دو سجدہ سهو بجا لائے اور اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر بھولے ہوئے سجدے کے لئے بھی دو سجدہ سهو کرے۔

مسئلہ ١٢ ۶ ٣ اگر انسان دو رکعتوں سے دو سجدے بھول جائے تو قضا کرتے وقت انہيں ترتيب سے بجا لانا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۶۴ اگر انسان نماز کے سلام اور سجدے کی قضا کے درميان کوئی ایسا کام کرے جس کے عمداًیا سهواً کرنے سے نمازباطل ہو جاتی ہے مثلاً قبلے کی طرف پيٹھ کر لے تو احتياط واجب یہ ہے کہ سجدے کی قضا کے بعد دوبارہ نماز پڑھے، یهی حکم وہاں پر بھی ہے جب تشهد کی قضا کے طور پر دو سجدہ سهو انجام دے۔

۲۰۸

مسئلہ ١٢ ۶۵ اگر کسی شخص کو نمازکے سلام کے بعد یاد آئے کہ وہ آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول گيا ہے اور اس نے کوئی ایسا کام نہ کيا ہو جسے عمداًیا سهواً کرنے سے نمازباطل ہو جاتی ہے مثلاً قبلے کی طرف پشت کرنا،تو ضروری ہے کہ پلٹ کر نمازکو تمام کرے اور احتياط واجب کی بنا پر بے جا سلام کے لئے دو سجدہ سهو بجا لائے۔ اسی طرح اگر وہ ایک سجدہ بھول گياہواورسلام سے پهلے تشهد بھی پڑھا ہو تو بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۶۶ اگر ایک شخص نمازکے سلام اور سجدے کی قضا کے درميان کوئی ایسا کام کرے جس کے لئے سجدہ سهو واجب ہو جاتا ہے مثلاًبھولے سے کلام کرنا،تو ضروری ہے کہ سجدے کی قضا کرے اور احتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو کلام کرنے کی وجہ سے اور دو سجدے بھولے ہوئے سجدے کے لئے بجا لائے۔

مسئلہ ١٢ ۶ ٧ اگر کسی شخص کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ نمازميں ایک سجدہ بھولا ہے یا دوسری رکعت کا تشهد تو ضروری ہے کہ سجدے کی قضا کرے اور دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١٢ ۶ ٨ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ سجدہ یا تشهد بھولا ہے یا نہيں تو اس کے لئے ان کی قضا کرنا یا سجدہ سهو بجا لانا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۶ ٩ جو شخص یہ تو جانتا ہو کہ سجدہ یا تشهد بھول گيا ہے ليکن شک کرے کہ بعد والی رکعت کے رکوع سے پهلے اسے یاد آیا تھا اور وہ اسے بجا لایا تھا یا اس کو یاد نہيں آیا تھا تو سجدہ بھولنے کی صورت ميں ضرور ی ہے کہ اس کی قضا کرے اور احتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے اور تشهد کو بھولنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١٢٧٠ جس شخص پر سجدے کی قضا ضروری ہو اگر کسی دوسرے کام کی وجہ سے اس پر سجدہ سهو بھی واجب ہو جائے تو احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے کہ نمازکے بعد پهلے سجدے کی قضاکرے اور بعد ميں سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١٢٧١ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ نمازپڑھنے کے بعد بھولے ہوئے سجدے کی قضا بجا لایا ہے یا نہيں ، چنانچہ اگر ا سے نماز کا وقت گزر جانے کے بعدشک ہو اہو تو احتياط واجب کی بنا پر سجدے کی قضا بجا لائے اور اگر شک نماز کے وقت کے دوران ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بجا لائے۔

نماز کے اجزاء یا شرائط کو کم یا زیادہ کرنا

مسئلہ ١٢٧٢ جب بھی نماز کے واجبات ميں سے کوئی چيز جان بوجه کر کم یا زیادہ کی جائے تو خواہ ایک حرف ہی کيو ں نہ ہو نماز باطل ہے ۔

۲۰۹

مسئلہ ١٢٧٣ اگر کوئی شخص کو تاہی کی بنا پر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز ميں کوئی چيز کم یا زیادہ کر دے تو اس کی نماز باطل ہے ليکن جاہل قاصر اور بھولے سے نماز کے غير رکنی واجبات کو کم یا زیادہ کرنے والے کی نماز صحيح ہے اور واجب رکنی کا حکم مسئلہ نمبر” ٩ ۵ ١ “ميں بيان کيا جا چکا ہے ۔اور اگر کوئی شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے صبح، مغرب یا عشا کی نماز ميں الحمد اور سورہ آهستہ پڑھے یا نمازظہر اور عصر ميں الحمد اور سورہ بلند آواز سے پڑھے یا سفر ميں ظهر،عصر اور عشا کی نماز دو رکعت کے بجائے چار رکعت پڑھے تو خواہ اس کا مسئلہ نہ جاننا کو تا ہی کی وجہ سے ہو پھر اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٢٧ ۴ جس شخص کو نماز کے دوران یا نماز کے بعد معلوم ہو کہ اس کا وضو یا غسل باطل تھا یا وہ وضو یا غسل کئے بغير نماز پڑھنے لگا تھا تو اس کی نمازباطل ہے اور ضروری ہے کہ دوبارہ وضو یا غسل کر کے نمازپڑھے اور اگر نماز کا وقت گزر گيا ہو تو ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١٢٧ ۵ اگر کسی شخص کو رکوع ميں پهنچنے کے بعد یاد آئے کہ وہ پچهلی رکعت کے دونوں سجدے بھول گيا ہے تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر یہ بات اسے رکوع ميں پهنچنے سے پهلے یاد آئے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر دو سجدے بجا لائے اور پھر کهڑا ہو جائے اور الحمد وسورہ یا تسبيحات اربعہ پڑھے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد قرائت یا تسبيحات ميں سے جو بھی اضافی انجام دی ہو اس کے لئے احتياط واجب کی بنا پر پر دو سجدہ سهو بجا لائے اور احتياط مستحب کی بنا پر بے جا قيام کے لئے بھی دو سجدہ سهو انجا م د ے۔

مسئلہ ١٢٧ ۶ اگر کسی شخص کو ”السلام علينا “یا ”السلام عليکم “کهنے سے پهلے یاد آجائے کہ وہ آخری رکعت کے دو سجدے بجا نہيں لایا ہے تو ضروری ہے کہ دو سجدے بجا لائے، دوبارہ تشهد پڑھ کر سلام پهيرے اور احتياط واجب کی بنا پر بے جا تشهد کے لئے دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١٢٧٧ اگر کسی شخص کو نمازکے سلام سے پهلے یاد آئے کہ اس نے نمازکے آخری حصے کی ایک یا ایک سے زیادہ رکعتيں نہيں پڑہيں تو ضروری ہے کہ جتنا حصہ بھول گيا ہو اسے بجا لائے۔

مسئلہ ١٢٧٨ اگر کسی شخص کو نمازکے سلام کے بعدیاد آئے کہ اس نے نمازکے آخری حصے کی ایک یا ایک سے زیادہ رکعتيں نہيں پڑہيں اور اس سے ایسا کام بھی سر زد ہو چکا ہو کہ اگر وہ نمازميں عمداًیاسهواًسر زد ہو جائے تو نمازباطل ہو جاتی ہے مثلاًاس نے قبلے کی طرف پيٹھ کر لی ہو، تو اس کی نمازباطل ہے اور اگر اس نے کوئی ایسا کام نہ کيا ہو جس کا عمدا یا سهوا کرنا نماز کو باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ جتنا حصہ پڑھنا بھول گيا ہو اسے فوراًبجا لائے اور زائد سلام کے لئے احتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے اور اسی طرح دو سجدہ سهواگر اضافی تشهد انجام دیا ہوبجا لائے۔

۲۱۰

مسئلہ ١٢٧٩ جب کوئی شخص نماز کے سلام کے بعد ایک ایسا کام انجام دے جو اگر نماز کے دوران عمداًیا سهواًکيا جائے تو نماز باطل ہو جاتی ہو مثلاًقبلے کی طرف پشت کر لے،اور بعد ميں اسے یاد آئے کہ وہ آخری رکعت کے دو سجدے بجا نہيں لایا تو اس کی نمازباطل ہے ۔هاں،اگر نمازباطل کرنے والا کوئی کام کرنے سے پهلے اسے یہ بات یادآئے تو ضروری ہے کہ ان بھولے ہوئے دونوں سجدوں کو انجام دے اور دوبارہ تشهد اور سلام پڑھے اور بے جا سلا م کے لئے احتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو کرے او ر اسی طرح دو سجدہ سهوبے جا تشهد کے لئے بھی بجا لائے، اگر اضافی تشهد انجام دیا ہو۔

مسئلہ ١٢٨٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس نے پوری نماز وقت سے پهلے پڑھ لی ہے تو ضروری ہے کہ وہ دوبارہ نماز پڑھے اور اگر وقت گزر گيا ہو تو اس کی قضا کرے اور اگر نمازکا کچھ حصہ وقت سے پهلے پڑھا ہو تو اس کا حکم مسئلہ نمبر ” ٧ ۵ ١ “ميں بيان ہو چکا ہے ۔

اور اگر یہ معلوم ہو کہ نمازرو بہ قبلہ ہو کر نہيں پڑھی تو دائيں اور بائيں سمت کی حدود کے اندر قبلے سے ہٹنے کی صورت ميں اس کی نمازصحيح ہے اور اس صورت کے علاوہ اگر وقت گزرنے سے پهلے یہ بات معلوم ہو جائے تو نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر وقت گزر گيا ہو تو اس کی قضا ضروری نہيں ، ليکن اگر قبلے کی طرف پيٹھ کر کے نمازپڑھی ہے تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا کرنا ضروری ہے ۔

اور مذکورہ بالا تمام صورتوں ميں اگر مسئلہ شرعی نہ جاننے کی وجہ سے اس نے نمازقبلے کے علاوہ کسی اور سمت ميں پڑھی ہو تو اس کی نمازباطل ہے ۔

مسافر کی نماز

ضروری ہے کہ مسافر ظهر،عصر اور عشا کی نماز یں آٹھ شرائط کے ساته قصر بجا لائے یعنی دو رکعت پڑھے:

پهلی شرط

اس کا سفر آٹھ فر سخ شرعی سے کم نہ ہو اور فرسخِ شرعی تقریباً ساڑھے پانچ کلو ميٹر سے قدرے کم ہو تا ہے ۔

مسئلہ ١٢٨١ جس شخص کے جانے او رآنے کا مجموعی فاصلہ ملا کر آٹھ فرسخ ہو تو اگراس کا صرف جانا اور اسی طرح صرف واپس آنا چار فرسخ سے کم نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

لہذاگر کسی شخص کے جانے کی مسافت مثال کے طور پر تين فرسخ اور واپس آنے کی مسافت پانچ فرسخ ہو یا اس کے برعکس ہو تو ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے۔

۲۱۱

مسئلہ ١٢٨٢ اگر کسی شخص کا جانا چار فرسخ اور واپس آنا بھی چار فرسخ ہو تو اگر چہ جس دن ہو گيا ہو اسی دن یا اسی رات واپس نہ لوٹے، ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے اور روزہ نہ رکھے۔

البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ پوری نمازبهی پڑھے۔

مسئلہ ١٢٨٣ اگر ایک مختصر سفر آٹھ فرسخ سے تهوڑا کم ہو یا انسان کو علم نہ ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے اور اگر شک کرے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے یا نہيں تو اس کے لئے تحقيق کرنا ضروری نہيں اور ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔

مسئلہ ١٢٨ ۴ اگر ایک عادل یا ایسا قابل اعتماد شخص جس کی کهی ہوئی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو، کسی کو بتائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٢٨ ۵ وہ شخص جسے یقين ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اگر نماز قصر کر کے پڑھے اور بعد ميں اسے معلوم ہو کہ آٹھ فرسخ نہيں تھا تو ضروری ہے کہ پور ی نمازپڑھے اور وقت گزرنے کی صورت ميں اس کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٢٨ ۶ اگر کسی شخص کو یقين ہو کہ جس جگہ وہ جانا چاہتا ہے ، وہاں کا سفر آٹھ فر سخ نہيں یا شک ہو کہ آٹھ فرسخ ہے یا نہيں اور راستے ميں معلوم ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ تھا تو اگر چہ تهوڑا سا سفر بھی باقی ہو ضروری ہے کہ نمازقصر کر کے پڑھے اوراگر پوری نمازپڑھ چکا ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ قصر پڑھے، ليکن وقت گزرنے کی صورت ميں قضا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٢٨٧ اگر دو جگہوں کا درميانی فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو اور کوئی شخص چند مرتبہ ان کے درميان آئے جائے تو خواہ ان تما م مسافتوں کا فاصلہ ملا کر آٹھ فرسخ ہو بھی جائے، پھر بھی ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے۔

مسئلہ ١٢٨٨ اگر کسی جگہ جانے کے دورراستے ہوں جن ميں سے ایک راستہ آٹھ فرسخ سے کم ہو اور دوسرآٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ ہو تو اگر انسان اس راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے اور اگر اس راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ نہيں ہے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔

مسئلہ ١٢٨٩ اگر کسی شہر کے گرد دیوار ہے تو آٹھ فرسخ کی ابتد اسی دیوار سے ہوگی اور دیوار نہ ہونے کی صورت ميں آٹھ فرسخ کی ابتدا شہر کے آخری گهروں سے ہو گی۔

۲۱۲

دوسری شرط

مسافر اپنے سفر کی ابتدا سے ہی آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ لہٰذا اگر وہ اس جگہ تک کا سفر کرے جو آٹھ فرسخ سے کم ہو اور وہاں پهنچنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانے کا ارادہ کرے جس کا فاصلہ طے کردہ فاصلے سے ملا کر آٹھ فرسخ ہو جاتا ہو تو چونکہ وہ شروع سے آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ نہيں رکھتا تھا اس لئے ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے،ليکن اگر وہ وہاں سے آٹھ فرسخ آگے جانے کا ارادہ کرے یا چار فرسخ آگے کسی ایسی جگہ جانا چاہتا ہو جهاں اس کا سفر ٹوٹ نہ رہا ہو مثلاً وہاںپر اس کا ارادہ دس دن ٹھ هرنے کا نہ ہو اور پھر چار فرسخ طے کر کے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ واپس آنا چاہتا ہو جهاں اس کا ارادہ دس دن ٹھ هرنے کا ہو تو ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔

مسئلہ ١٢٩٠ جو شخص نہ جانتا ہو کہ اسے کتنے فرسخ سفر طے کرنا پڑے گا مثلاًکسی گم شدہ چيز کو ڈهونڈنے کے لئے سفر کر رہا ہو اور نہ جانتا ہو کہ اسے پالينے کے لئے کهاں تک جانا پڑے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے،ليکن اگر واپسی ميں اس کے وطن یا اس جگہ تک کا فاصلہ جهاں وہ دس دن قيام کرنا چاہتا ہو آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ ہوتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔نيز اگر وہ سفر کے دوران ارادہ کرے کہ چار فرسخ دور اس جگہ جائے گا جهاں اس کا سفر ٹوٹ نہ رہا هو،مثلاً اس کا وہاں دس دن ٹھ هرنے کا ارادہ نہ ہو،اور چار فرسخ واپس آتے ہوئے طے کرے گا تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٢٩١ ضروری ہے کہ مسافر اس صورت ميں نماز قصر پڑھے جب اس کا آٹھ فرسخ کا فاصلہ طے کرنے کا پختہ ارادہ ہو لہٰذا اگر کوئی شخص شہر سے با ہر جا رہا ہو اور مثال کے طور پر اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر کوئی ساتهی مل گيا تو آٹھ فرسخ تک جاؤں گا اور اسے اطمينان ہو کہ ساتهی مل جائے گا تو ضروری ہے کہ نماز قصرپڑھے اور اگر اطمينان نہ ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔

مسئلہ ١٢٩٢ جو شخص آٹھ فرسخ سفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اگرچہ وہ ہر روز تهوڑا فاصلہ طے کرے تو حد تر خص تک پهنچ جانے کی صورت ميں ، جس کے معنی آٹھ ویں شرط ميں بيان کئے جائيں گے،ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے ليکن اگر ہر روز اتنا فاصلہ طے کرے کہ عرفاًلوگ اسے مسافرنہ کہيں جيسے دس یا بيس ميٹر تو ضروری ہے کہ وہ اپنی نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٢٩٣ جو شخص سفر ميں کسی دوسرے کے اختيار ميں ہو مثلاًنوکر جو اپنے مالک کے ساته سفر کر رہا ہو اگر اسے علم ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے اور اگر اسے علم نہ ہو تو پوری پڑھے اور اس بارے ميں پوچهنا ضروری نہيں اور اگر پوچه لے تو مالک کے لئے جواب دینا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢٩ ۴ جو شخص سفر ميں کسی دوسر ے کے اختيار ميں ہو اگر وہ جانتا ہو یا گمان رکھتا ہو یا حتی تردید رکھتا ہو کہ چار فرسخ تک پهنچنے سے پهلے ہی اس سے جدا ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔

۲۱۳

مسئلہ ١٢٩ ۵ جو شخص سفر ميں کسی دوسرے کے اختيار ميں ہو اگر چار فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اس سے جدا نہ ہونے کا اطمينان نہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اگر چہ اس کا مطمئن نہ ہونااس احتمال کی وجہ سے ہو کہ سفر ميں کوئی رکاوٹ پيش آجائے گی،ليکن اگر اسے اطمينان ہو کہ وہ اس سے جدا نہيں ہو گا تو غير متوقعہ رکاوٹوں کے احتمال سے کوئی فرق نہيں پڑتا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

تيسری شرط

راستے ميں مسافر اپنا ارادہ توڑ نہ دے لہٰذا اگر وہ چار فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اپنا ارادہ بدل دے یا تردید کی کيفيت ميں آجائے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٢٩ ۶ اگر چار فرسخ تک پهنچنے کے بعد کوئی شخص اپنا سفر ترک کر دے تو اگر وہ اس جگہ رہنے کا یا دس دن گزار کر پلٹنے کا پختہ ارادہ کر لے یا رہنے اور واپس جانے کے بارے ميں کوئی فيصلہ نہ کر پا رہا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نمازپڑھے۔

مسئلہ ١٢٩٧ اگر چار فرسخ پهنچنے کے بعد کوئی شخص اپنا سفر ترک کر دے اور واپس جانے کا پختہ ارادہ کر لے تو اگر اس دوران سفر کو توڑنے والی کوئی چيز مثلاًدس دن رہنے کا ارادہ،اس کے لئے پيش نہ آئی ہو تو ا س شر ط کے ساته کہ واپسی کا فاصلہ بھی چار فرسخ سے کم نہ ہو،ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٢٩٨ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ جانے کے لئے جو آٹھ فرسخ دور ہو سفر شروع کر دے اور کچھ راستہ طے کرنے کے بعد کسی اور جگہ جانا چاہے تو اگر جس جگہ سے اس نے سفر شروع کيا تھا وہاں سے اس جگہ تک جهاں وہ اب جانا چاہتا ہے آٹھ فرسخ ہوتے ہوں تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٢٩٩ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ جانا چاہتا ہو جو آٹھ فرسخ دور ہو اور چار فرسخ طے کرنے کے بعد متردد ہو جائے کہ باقی سفر طے کرے یا کسی جگہ پر دس روز رہے بغير اپنے علاقے ميں واپس آجائے، تو ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے، خواہ تردّد کے وقت اس نے کچھ فاصلہ طے کيا ہو یا نہيں اور خواہ بعدميں آگے جائے یا پلٹ جانے کا فيصلہ کرلے۔

مسئلہ ١٣٠٠ اگر کوئی شخص چار فرسخ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد متردد ہوجائے کہ آٹھ فرسخ کے سفر کا باقی ماندہ حصہ طے کرے یا واپس اپنے علاقے ميں چلا جائے ليکن اسے اس بات کا احتما ل ہو کہ جس مقام پر وہ مترددهوا ہے یا کسی اور جگہ دس روز رہے گا تو اگرچہ وہ یہ فيصلہ بھی کر لے کہ دس روز رہے بغير بقيہ راستہ طے کروں گا، پھر بھی ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔اور اگر تردید کے بعد اس کا فيصلہ یہ ہو کہ اب نئے سرے سے آٹھ فرسخ سفر کرے گا یا چارچار فرسخ آنا جانا کرے گا تو سفر شروع کرنے کے بعد اس کی نماز قصر ہے ۔

۲۱۴

مسئلہ ١٣٠١ اگر کوئی شخص چار فرسخ تک پهنچنے سے پهلے متردد ہو جائے کہ بقيہ راستہ طے کرے یا نہيں اور بعد ميں بقيہ راستہ طے کرنے کا فيصلہ کر لے تو اگر اس کا باقی ماندہ سفر آٹھ فرسخ ہو یا جانااور آنا چار چار فرسخ ہوں تو (دوبارہ) سفر شروع کرنے کے بعد ضروری ہے کہ اپنی نمازیں قصر پڑھے۔

چوتھی شرط

آٹھ فرسخ مکمل کرنے سے پهلے مسافر اپنے وطن سے گزرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہویا کسی جگہ دس یا زیادہ دن اس کا ٹھ هرنے کا ارادہ نہ ہو، لہٰذا وہ شخص جو چاہتا ہو کہ آٹھ فرسخ تک پهنچے سے پهلے اپنے وطن سے گزرے یا دس روز کسی جگہ پر ٹھ هرے، ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣٠٢ جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آٹھ فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اپنے وطن سے گزرے گا یا نہيں یا دس روز کسی جگہ ٹھ هرنے کا قصد کرے گا یا نہيں تو ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣٠٣ جو شخص آٹھ فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اپنے وطن سے گزرنا چاہتا ہو یا کسی جگہ دس دن ٹہرنا چاہتا ہو نيز وہ شخص جو وطن سے گزرنے یا کسی جگہ دس دن ٹھ هرنے کے بارے ميں متردد ہو اگر وہ کسی جگہ دس دن ٹھ هرنے یا اپنے وطن سے گزرنے کا ارادہ ترک بھی کردے تب بھی ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے۔ ہاں، اگر باقی ماندہ سفر آٹھ فرسخ ہو یا چار فرسخ ہو ليکن چار فرسخ پر سفر توڑے بغير پلٹنا چاہتا ہو اور واپسی بھی چار فرسخ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

پانچويں شرط

سفر کسی حرام کام کے لئے نہ ہو لہٰذا اگر کسی حرام کام مثلاًچوری یا ظالم کی اس کے ظلم ميں مدد کرنے یا کسی مسلمان کو نقصان پهنچانے کے لئے سفر کرے یا خود اس کا سفر ہی حرام ہو مثلاًاس نے شرعی قسم کهائی ہو کہ سفر پر نہيں جائے گا یا سفر پر جانا ایسے ضرر کا باعث ہو جسے برداشت کرنا حرام ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔

مسئلہ ١٣٠ ۴ جو سفر انسان پر واجب نہ ہو،اگر ماں باپ کے لئے اذیت کا باعث ہو تو حرام ہے اور ایسے سفر ميں ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے اور روزہ بھی رکھے۔

مسئلہ ١٣٠ ۵ جس شخص کا سفر حرام نہ ہو اور وہ کسی حرام کام کے لئے بھی سفر نہ کر رہا ہو اگر چہ وہ سفر ميں گناہ بھی کرے مثلاًغيبت کرے یا شراب پئے تب بھی ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣٠ ۶ اگر کوئی شخص کسی واجب کام کوترک کرنے کے لئے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے لہٰذا مقروض شخص اگر اپنا قرضہ لوٹا سکتا ہو اور قرض خواہ بھی اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کر رہا ہو، چنانچہ سفر ميں وہ اپنا قرضہ نہ لوٹا سکتا ہو

۲۱۵

اور قرض سے فرار اختيار کرنے کے لئے سفر کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نمازپڑھے، ليکن اگر واجب کام کو چھوڑنے کے لئے سفر نہ کرے اگر چہ وہ سفر کے دوران واجب کام کو چھوڑدے تب بھی ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣٠٧ اگر کسی شخص کا سفر حرام نہ ہو ليکن وہ جس زمين پر سفر کر رہا ہووہ غصبی ہو یا سواری کا جانور یا کوئی دوسری چيز جس پر سفر کر رہا ہو،غصبی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے البتہ اگر وہ سواری کو لوٹانے سے بچنے کی خاطراس سواری پر سفر کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣٠٨ جو شخص کسی ظالم کے ساته سفر کر رہا ہو اگر وہ مجبور نہ ہو اور اس کا سفر ظالم کے ظلم ميں مدد کا سبب ہو یا اس ظالم کی شان وشوکت یا اس کے حکم ميں قوت کا سبب ہو تو ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے ليکن اگر مجبور ہو یا مثال کے طور پر کسی مظلوم کو نجات دینے کے لئے اس ظالم کے ساته سفر کرے تو اس کی نمازقصر ہے ۔

مسئلہ ١٣٠٩ اگر کوئی شخص سير وتفریح یا گهومنے پھرنے کے لئے سفر کرے تو اس کا سفر حرام نہيں ہے اور ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣١٠ اگر کوئی شخص لهو اور خوش گذرانی کے لئے شکار پر جائے تو اس کا سفر جاتے وقت حرام ہے اور اسے پوری نماز پڑھنا چاہئے۔هاں،پلٹتے وقت اگراس کا سفر آٹھ فرسخ ہو اور عياشی والے شکار کے لئے نہ ہو تو اس کی نمازقصر ہے ۔

اور اگر روزی کمانے کے لئے شکار پر جائے تو اس کی نمازقصر ہے ۔ اسی طرح اگر تجارت کی غرض سے شکار پر جائے تب بھی یهی حکم ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ قصر بھی پڑھے اور پور ی بهی،اسی طرح روزہ بھی رکھے اور اس کی قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١٣١١ جس شخص نے گناہ کے لئے سفر کيا ہو اگر اس کی واپسی کا سفر آٹھ فرسخ ہو تو ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔ ہاں،احتيا ط مستحب یہ ہے کہ اگر اس نے توبہ نہ کی ہو تو نمازقصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔

مسئلہ ١٣١٢ جس شخص کا سفر گناہ کا سفر ہو اگر وہ سفر کے دوران گناہ کرنے کا ارادہ ترک کر دے، چنانچہ اگر باقی ماندہ سفر آٹھ فرسخ ہو یا کسی ایسی جگہ جانا چاہتا ہو جو چار فرسخ کے فاصلے پر ہو اور اتنا ہی واپس بھی آنا چاہتا ہو تو سفر شروع کرنے کے بعد ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣١٣ جس شخص نے گناہ کا سفر نہ کيا ہو اگر وہ سفر کے دوران یہ ارادہ کرے کہ بقيہ سفر گناہ کرنے کی غرض سے طے کروں گا تو سفر شروع کرنے کے بعد سے ضروری ہے کہ اپنی نماز یں پوری پڑھے اور وہ نمازیں جو قصر پڑھ چکاہے اس صور ت ميں صحيح ہيں کہ جب طے شدہ مقدار،شرعی سفر شمار ہو تی ہو ورنہ احتياط واجب کی بنا پر وقت ہونے کی صورت ميں ان نماز وں کو دهرائے اور وقت گزر جانے کی صورت ميں ان کی قضا کرے۔

۲۱۶

چھٹی شرط

یہ کہ ان لوگوں ميں سے نہ ہو جو خانہ بدوش ہيں ، جيسے وہ صحر انشين جو بيابانوں ميں گهومتے رہتے ہيں اور جهاں پر بھی اپنے اور اپنے جانوروں کے لئے آب ودانہ دیکھتے ہيں وہيں ڈیرہ ڈال دیتے ہيں اور چند روز بعد پھر کسی دوسری جگہ پر چلے جاتے ہيں اور ایسے لوگ کہ جن کا گهراور لوازمات زندگی ہر وقت ان کے ساته ہوتے ہيں ضروری ہے کہ پوری نماز یں پڑہيں ۔

مسئلہ ١٣١ ۴ اگر کوئی صحرا نشين اپنے حيوانات کے لئے جائے قيام اور چراگاہ تلاش کرنے کے لئے سفر کرے اور خيمہ و لوازمات زندگی اس کے ساته ہوں تو اس کی نماز پوری ہو گی ورنہ اس کی نمازقصر ہے ۔

مسئلہ ١٣١ ۵ اگر صحرا نشين زیارت،حج،تجارت یا ان جيسے دوسرے کاموںکے لئے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

ساتويں شرط

سفر کرنا اس کا پيشہ نہ ہو،لہٰذا اس بنا پر ساربان،ڈرایئور، ملاح اور انہيں جيسے دوسرے افراد خواہ اپنے گھر کا سامان لے جانے کے لئے سفر کریں،ضروری ہے کہ پوری نماز یں پڑہيں اور سفر کا پيشہ ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ عرفاًلوگ یہ کہيں کہ اس کا پيشہ سفر ہے مثلاً یہ کہيں کہ اس کا کام ساربانی یا گاڑی چلانا ہے ۔

اسی طرح ضروری ہے کہ اس کا پيشہ سفر ميں نہ ہو مثلاًجس شخص کی رہا ئش ایک جگہ پر ہو اور اس کا پيشہ جيسے تجارت،تدریس اور طبابت کسی دوسری جگہ پر ہو اور کيفيت یہ ہو کہ اسے زیادہ تر یا ایک دن چھوڑ کر ایک دن مثلاً سفر کرنا پڑتا ہو۔

مسئلہ ١٣١ ۶ جس شخص کا پيشہ سفر کرنا ہو اگر وہ کسی دوسرے کام مثلاًزیارت یاحج کے لئے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے، ليکن اگر مثلا ڈرائيور اپنی گاڑی کرائے پر چلائے اور ضمناً خود بھی زیارت کرے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔

مسئلہ ١٣١٧ قافلہ سالار مثلاًوہ جو حاجيوں کو مکہ پهنچانے کے لئے سفر کرتا ہو،اگر اس کا پيشہ ہی سفر کرنا ہو تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے ليکن اگر اس کا پيشہ سفر کرنا نہ ہو اور اس کے سفر کی مدت بھی کم ہو مثلاًوہ ہوائی جهاز سے جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے ليکن اگر اس کے سفر کی مدت زیادہ ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔

مسئلہ ١٣١٨ جس شخص کا پيشہ ہی قافلہ لے جانا ہو اور مثلاًوہ دور دراز علاقوں سے حاجيوں کو مکہ لے جاتا ہو اگر وہ پورا سال یا سال کا اکثر حصہ سفر ميں گزارتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣١٩ جس شخص کا پيشہ سال کے کچھ حصے ميں سفر کرنا ہو مثلاًایک ڈرائيور جو صرف گرميوں یا سردیوں کے ایام ميں اپنی گاڑی کرائے پر چلاتا ہو تو ضروری ہے کہ اس دوران اگر وہ اپنے کام کے لئے بھی سفر کرے تو نماز پوری پڑھے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ اپنی نماز قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔

۲۱۷

مسئلہ ١٣٢٠ ڈرائيور اور ٹھ يلے والا وغير ہ جو شہر کے آس پاس دو تين فرسخ کے فاصلے پر آتا جاتا ہو اگر وہ اتفاقاًسفر شرعی جتنی مسافت طے کر لے تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣٢١ وہ سودا گر جو چوپائے پر سامان لاد کر بيچتا ہے جس کا پيشہ سفر ہے اگر وہ اپنے وطن ميں دس دن یا زیادہ ٹھ هرجائے چاہے ابتدا سے دس دن رکنے کا ارادہ رکھتا ہو یا بغير قصد کے رک جائے، دس دن کے بعد جب پهلا سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز کو قصر پڑھے، ليکن دوسرے لوگ جن کا پيشہ سفر ہو یا سفر ميں پيشہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر نماز کو پوری اور قصر دونوں طرح پڑھے۔

مسئلہ ١٣٢٢ وہ سودا گر جو چوپائے پر سامان لاد کر بيچتا ہے اگر وہ اپنے وطن کے علاوہ کسی جگہ دس دن یا اس سے زیادہ ٹھ ہر جائے تو اگر ابتدا سے دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ دس دن کے بعد جب وہ پهلے سفر پر جائے تو نمازقصر پڑھے ليکن وہ دوسرے اشخاص جن کا پيشہ سفر ہو یا سفر ميں ہو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ اس سفر ميں پوری نمازبهی پڑہيں اور قصر بھی پڑہيں ۔

مسئلہ ١٣٢٣ جس شخص کا پيشہ سفر ہو اگر وہ شک کرے کہ اپنے وطن یا کسی دوسری جگہ پردس روز ٹہرا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ وہ پوری نمازپڑھے۔

مسئلہ ١٣٢ ۴ جو شخص مختلف شهروں کی سياحت کرتا ہو اور اس نے اپنے لئے کوئی وطن اختيار نہ کيا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پوری نماز پڑھے۔

مسئلہ ١٣٢ ۵ جس شخص کا پيشہ سفر نہ ہو اگر کسی شہر یا گاؤں ميں اس کی کوئی چيز ہو جسے لانے کے لئے وہ پے درپے سفر کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے، البتہ اگر اس کا سفر اس کے وطن ميں قيام سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ نمازپوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣٢ ۶ وہ شخص جو اپنا وطن چھوڑکر کوئی دوسرا وطن اپنانا چاہتا ہے اگر اس کا پيشہ سفر نہ ہو تو ضروری ہے کہ سفر ميں نماز قصر کرے۔

آٹھ ويں شرط

یہ کہ مسافر حد تر خص تک پهنچ جائے یعنی اپنے شهرسے اتنا دور ہو جائے کہ وہاں کی اذان نہ سنے اور اگر کوئی شہر والوں کو نہ دیکھ رہا ہو تو یقيناوہ حد تر خص تک پهنچ چکا ہے ليکن یہ ضروری ہے کہ دیکھنے ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو ليکن اپنے وطن کے علاوہ دوسرے مقامات ميں جيسے ہی وہ اپنی اقامتگاہ سے نکلے اس کی نمازقصر ہے ۔اسی طرح وہ جگہ جهاں پر اس نے تيس روز تردید کی حالت ميں گزارے ہيں وہاں سے جيسے ہی نکلے اس کی نمازقصر ہو گی۔

۲۱۸

مسئلہ ١٣٢٧ وہ مسافر جو شہر واپس آرہا ہو اگر وہ اپنے شہر کی اذان کی آواز سن لے تو ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے ليکن وہ مسافر جو کسی جگہ پر دس روز ٹہرنا چاہتا ہے جب تک اس جگہ نہ پهنچ جائے اس کی نماز قصر ہے ۔

مسئلہ ١٣٢٨ جو شہر اتنی بلندی پر واقع ہو کہ دور سے ہی اس کے رہنے والے دکهائی دیں یا اس قدر نشيب ميں ہو کہ اگر انسان تهوڑا سا دور جائے تو وہاں کے رہنے والوں کو نہ دیکھ سکے، اگروہاں کا رہنے والا سفر کرے تو حد تر خص جس کے معنی آٹھ ویں شرط ميں بيان ہو چکے ہيں ،تک پهنچنے کا یقين کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اتنا دور ہو جائے کہ اگر اس کا شہر ہموار زمين پر ہوتا تو اس کے رہنے والے نظر نہ آتے۔نيز اگر راستہ معمول سے زیادہ بلند یا نشيبی ہو توحد تر خص تک پهنچنے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ معمول کو مد نظر رکھے۔

مسئلہ ١٣٢٩ اگر جو شخص کسی ایسی جگہ سے سفر کرے جهاں پر کوئی نہ رہتا ہو تو جب وہ ایسی جگہ پهنچ جائے کہ اگر شہر ميں کوئی رہتا تو وہاں سے نظر نہ آتا تو وہ یقيناحد تر خص تک پهنچ گيا ہے اور نماز قصر پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٣٣٠ جو شخص اتنا دور نکل جائے کہ اب اسے یہ معلوم نہ ہو کہ جو آواز وہ سن رہا ہے وہ اذان کی آواز ہے یا کوئی دوسری آواز ہے ،ضروری ہے کہ وہ نمازقصر پڑھے ہاں اگر اس کو معلوم ہو کہ اذان دی جا رہی ہے ليکن وہ اذان کے الفاظ سمجھ نہ رہا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نمازپڑھے۔

مسئلہ ١٣٣١ اگر کوئی شخص اتنا دور نکل جائے کہ وہ گهروں کی اذان نہ سن سکتا ہو ليکن شہر کی اذان کو جو معمولاًبلند مقام سے دی جاتی ہے سن سکتا ہو تو وہ نمازقصر نہيں پڑھ سکتا۔

مسئلہ ١٣٣٢ اگر کوئی شخص ایسے مقام پر پهنچ جائے کہ شہر کی اس اذان کو جو معمولاً بلند مقام سے دی جاتی ہے نہ سن سکتا ہو ليکن اس اذان کو سن سکتا ہو جو بہت اونچے مقام سے دی جا رہی ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣٣٣ اگر کسی شخص کا کان یا اذان کی آواز معمول کے مطابق نہ ہوں تو ضروری ہے کہ اس مقام سے نماز قصر پڑھے جهاں سے ایک عام انسان کا کان اس آواز کو جو معمول کے مطابق ہو نہ سن سکے۔

مسئلہ ١٣٣ ۴ اگر سفر پر جاتے ہوئے شک کرے کہ آیا حد تر خص تک پهنچا یا نہيں تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے اور اگر وطن پلٹنے والا مسافر شک کرے کہ حد تر خص تک پهنچا یا نہيں تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے، مگر یہ کہ جاتے وقت ہی اس کو اس بات کا علم ہو کہ پلٹتے ہوئے بھی اس مقام پر یهی شک پيش آئے گا تو ایسی صورت ميں ضروری ہے کہ احتياط کرتے ہوئے یا تو آتے اور جاتے وقت اس مقام سے گزرنے کے بعد نماز پڑھے تاکہ حد تر خص سے گزرنے کا یقين ہو جائے اور یا پھر نماز پوری بھی پڑھے اور قصر بهی،خواہ آنا اور جانا ایک ہی نماز کے وقت ميں ہو یا پلٹتے وقت پهلی نمازکا وقت گزر چکا ہو۔

۲۱۹

مسئلہ ١٣٣ ۵ جو مسافر سفر کے دوران اپنے وطن سے گزر رہا ہو،حد تر خص تک پهنچنے کے بعد ضروری ہے کہ پوری نمازپڑھے۔

مسئلہ ١٣٣ ۶ جو مسافر سفر کے دوران اپنے وطن پهنچ گيا ہو جب تک وہ اس جگہ پر ہے نماز پوری پڑھے، ليکن اگر وہ اس جگہ سے آٹھ فرسخ آگے جانا چاہتا ہو یا چار فرسخ جانا اور چار فرسخ واپس آنا چاہتا ہو تو حد تر خص تک پهنچنے کے بعد ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣٣٧ وہ جگہ جسے انسان اپنی سکونت ورہا ئش کے لئے اختيار کرے وہ اس کا وطن ہے ، ليکن اگر وہ اسی جگہ پيدا ہوا ہو اور اس کے ماں باپ کا وطن ہو تو رہا ئش کے لئے اختيار کرنے کی شرط بھی نہيں بلکہ جب تک وہ اس جگہ کوترک کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اس کا وطن ہے ۔

مسئلہ ١٣٣٨ اگر کوئی شخص کچھ عرصے کے لئے ایک ایسی جگہ رہنا چاہے جو اس کا اصلی وطن نہ ہو اور بعد ميں کہيں اور جانے کا ارادہ ہو تو وہ جگہ اس کا وطن شمار نہيں ہوگی۔

مسئلہ ١٣٣٩ وہ جگہ جسے انسان نے اپنی زندگی گزارنے کے لئے منتخب کيا ہو اور وہاں کے مقامی باشندوں کی طرح زندگی گزار رہا ہو مثلاًاگر اس کے لئے کوئی سفر پيش آئے تو واپسی پر اسی جگہ پلٹتا ہو تو خواہ وہ ہميشہ وہاں پر رہنے کا ارادہ نہ بھی رکھتا ہو، وہ اس کا وطن نہيں ہے ليکن اس پر وطن کے احکام جاری ہوں گے۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٠ جو شخص دو مقامات پر زندگی گزارتا ہو مثلاچھ مهينے ایک شہر اور چھ مهينے دوسرے شہر ميں ر ہتا ہو تو دونوں مقامات اس کا وطن ہيں ۔یهی حکم اس وقت ہے جب وہ زیادہ مقامات پر اس طرح زندگی گزارتا ہو کہ عرفاًان جگہوں کو اس کی دائمی رہا ئش گاہ کها جاتا ہو۔

مسئلہ ١٣ ۴ ١ جو شخص کسی جگہ پر ایک ایسے مکان کا مالک ہو جهاںاس نے مسلسل چھ مهينے رہنے کا قصد کيا ہو اور یہ مدت گزار بھی چکاہو ليکن فی الحال اس کا وہاں رہنے کا ارادہ نہ ہو تو اس جگہ پر وطن کے احکام جاری نہيں ہوں گے،اگر چہ احتياط مؤکد یہ ہے کہ جب بھی وہاں جائے نمازپوری بھی پڑھے اور قصر بهی۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٢ اگر کوئی شخص کسی ایسے مقام پر پهنچے جو پهلے اس کا وطن رہا ہو ليکن اب اس جگہ کو ترک کر چکا ہو تو اس جگہ پر وطن کے احکام جاری نہيں ہوں گے۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٣ جس مسافر کا کسی جگہ پر مسلسل دس دن رہنے کا ارادہ ہو یا وہ جانتا ہو کہ غير اختياری طور پر دس دن تک ایک جگہ رہنا پڑے گا تو ضروری ہے کہ وہاںنماز پوری پڑھے۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

متوشلح کی اپنے بیٹے لمک سے وصیت

اخبار الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:

جب متوشلح کی موت کا زمانہ قر یب آیا ، تو انھوں نے اپنے بیٹے لمک سے وصیت کی ،لمک جامع(جمع کر نے والے) کے معنی میں ہے اور وہ نوح پیغمبر کے والد ہیں۔

متوشلح نے ان سے وصیت کی ا ور صحیفے اور مہر لگی کتابیں کہ جو ادریس پیغمبر کی تھیں ان کے حوالے کیں اور وصیت ان تک منتقل ہو گئی۔

لمک کی اپنے بیٹے نوح سے وصیت

اور جب لمک کی موت کا وقت قریب آیا تو نوح ، سام ، حام اور یافث اور ان کی عورتوں کو بلایا ، شیث کی اولاد میں صرف ان آٹھ افراد کے علا وہ کوئی باقی نہیں رہا تھا کیو نکہ باقی پہاڑ سے نیچے آکر قابیل کی اولاد سے مخلوط ہوگئے تھے اور ان سے راہ و رسم برقرار کر لی تھی ۔

لمک نے ان آٹھ افراد پر درود بھیجا اور ان کے لئے برکت کی دعا کی اور کہا:

اس خدا سے دعا کر تا ہوں جس نے آدم کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا کہ ہمارے باپ آدم کی برکت تم پر نازل کر ے اور حکو مت وسلطنت تمہارے فرزندوں میں قرار دے میں مر جا ؤں گا اور اے نوح ! تمہارے سوا ان میں سے کوئی دوسرا جو عذاب خدا وندی کا مستحق ہے نجات نہیں پا ئے گا. اور جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر غار گنج (جہاں حضرت آدم کا جسد رکھا ہوا ہے) میں رکھ دینا اور جب خدا کا ارادہ ہو کہ کشتی میں سوار ہو تو مجھے اور جسد آدم کو اٹھا کر پہاڑ کے نیچے لے آؤ اور ہمیں اپنے ساتھ ساتھ رکھو اُس وقت تک کہ جب تک کشتی سے باہر نہ آجاؤ۔

اور جب طوفان تھم جائے اور کشتی سے باہر آجاؤ اور زمین پر قدم رکھو تو حضرت آدم کے جسد کے پاس نماز پڑھو اور اپنے بڑے بیٹے سام کو تا کید کرو کہ آدم کے جسد کو اٹھا کر اپنے کسی فرزند کے ساتھ اُسے زمین کے وسط میں سپرد خاک کر دے اور خدا وند عالم فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اُس کے ہمراہ بھیجے گا تا کہ اُس کا ہمدم ہو اور وسط زمین کی راہنمائی کر ے۔

۲۸۱

خدا وند عالم نے نوح پر ،ان کے جد ادریس پیغمبر کے زمانے میں اور ادریس کو آسمان پر اٹھا ئے جانے سے پہلے وحی نازل کی اور انھیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو طغیا نی و سر کشی کے انجام سے ڈرائیں اور انھیں ان گناہوں کے ارتکاب سے منع کریں جن کے وہ مر تکب ہوتے تھے اور انھیں عذاب سے ڈرائیں. نوح نے خدا کے حکم کی تعمیل کی اور عبادت خدا اور قوم کو خدا کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہوگئے۔

نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت

جب حضر ت نوح کشتی سے باہر آئے توتین سو ساٹھ سال تک زندہ رہے اور جب موت کا وقت قر یب آیا تو ان کے بیٹے سام ،حام ، یافث اور ان کی اولا د ان کے ارد گرد جمع ہو گئی۔

نوح نے ان سے وصیت کی اور خدا وند سبحان کی عبادت کا حکم دیا اور سام کوحکم دیا کہ جب وہ انتقال کر جائیں تو کشتی کے اندر جائے اور کسی کو اطلاع د یئے بغیر حضرت آدم کے جسد کو زمین کے وسط میں اور مقدس جگہ پر سپرد لحدکر دے. پھر کہا. اے سام! جب تم ملکیزدق کے ہمراہ اس کام کوا نجام دینے کے لئے روانہ ہو جاؤ گے تو خدا وند سبحان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کو تمہارے ساتھ کرے گا تا کہ تمہارا راہنما ہو اور وسط زمین کے بارے میں تمھیں اطلاع دے. اس ماموریت میں کسی کو اپنے کام سے باخبر نہ کر نا یہ حضرت آدم کی وصیت کا جز ہے جو انھوں نے اپنے فرزندوں سے کی تھی اور ہر ایک نے دوسرے کو اس کے انجام دینے کی وصیت کی یہاں تک کہ یہ وصیت تم تک پہونچی ؛ پھر جب اس جگہ پہنچ جاؤ جہاں فرشتہ نے راہنمائی کی ہے،تو جسد آدم کو اسی جگہ خاک میں دفن کر دو،پھر اس گھڑی حکم دو کہ ملکیزدق وہاں سے جدا نہ ہو اور خدا کی عبادت کے سوا کوئی کام نہ کرے۔

خدا وند سبحان نے ریاست اور وہ تمام کتابیں جو پیغمبروں پر نازل ہوئی تھیں سام کے حوالے کیں اور اسے دیگر فرزندوں اور بھائیوں سے الگ نوح کی جانشینی سے مخصوص کر دیا۔

۲۸۲

سام کی اپنے بیٹے ارفخشد سے وصیت

سام باپ کی وفات کے بعد خدا کی عبادت اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں مشغول ہوگئے۔ انھوں نے کشتی کا دروازہ کھو لا اور حضرت آدم کے جسد کو اپنے بیٹے ملکیزدق کے ہمراہ لے کر خفیہ طور پر بھائیوں اور خاندان کو اطلاع دئیے بغیر جسد کو نیچے لائے .فرشتہ نے ان کی راہنمائی کی ذمّہ داری لی اور اس جگہ تک جہاں حکم تھا کہ حضرت آدم کے جسد کو وہاں دفن کریں ان کے ساتھ ساتھ رہا؛اور جسد آدم کو وہیں پر سپرد لحد کر دیا۔

اور جب سام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بیٹے ارفخشد کو وصیت فرمائی، جو کہ اپنے والد کے بعد زمین میں ان کے جانشین تھے۔

ارفخشد کی اپنے بیٹے شالح سے وصیت

جب ارفخشد کی موت کا وقت قریب آیا ،بیٹے اور خاندان والے ان کے پا س جمع ہوگئے،انھوں نے خدا وندعالم کی عبادت اور گناہوں سے دوری اختیار کر نے کی تاکید کی ۔

پھر اس وقت اپنے بیٹے شالح سے کہا : میری وصیت قبول کرو اور میرے بعد خا ندان کے درمیان میرے جانشین رہو اور خدا وند رحمان کی اطاعت و عبادت کے لئے قیام کرو ، یہ کہہ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔

شالح کی اپنے بیٹے عابر سے وصیت

شالح کی موت کا وقت جب نزدیک آیا،تو اپنے بیٹے عابر سے وصیت کی اور انھیں حکم دیا کہ قابیل ملعون کی اولاد سے کنارہ کشی اختیار کر یں.یہ کہہ کہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

گزشتہ فصلوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے کس طرح اپنے دو بیٹے اسمٰعیل و اسحق کو حنفیہ شریعت کی حفاظت کے لئے وصیت فر ما ئی ہے۔ کتاب کی اس جلد میںجو کچھ ہم نے یہاں تک ذکر کیا ہے، جا نشینی اور وصایت سے متعلق اخبار کے سلسلوںکا ایک حصّہ تھا۔

پہلی جلد میں ہم نے پڑھا کہ خدا وند عالم نے موسیٰ کلیم اللہ کو کس طرح حکم دیا کہ یسع بن نون کو اپنی شریعت اور امت پر اپنا وصی بنا ئیں۔

۲۸۳

اور حضرت داؤد نے اپنے فرزند سلیمان کو اسی امر سے متعلق وصیت فرمائی اور حضرت عیسی نے اپنے حواری شمعون یا سمعان کو اسی امر کی وصیت کی اور یہ وصیت کا سلسلہ حضرت آدم کے زمانے سے حضرت عیسیٰ کے دور تک یوں ہی جاری و ساری رہا۔

واضح ہے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دیگر پیغمبروں کی بہ نسبت کو ئی الگ روش نہیں رکھتے تھے اور ان کی سیرت بھی اُن سے جدا اور متفاوت نہیں تھی.لہٰذا آنحضرت نے خدا کے حکم سے اپنے بعد کے لئے اپنے اہلبیت اور عترت سے بارہ وصی معین کئے کہ اُن میںسب سے پہلے ان کے چچا زاد بھائی امیر المومنین ہیں .اور ان میں آخری امام حسن عسکری کے فرزند حضرت مہدی (عج)ہیں۔

اس وصایت سے متعلق مفصل و مشروح اخبار ہمارے ماھر فن بزرگوں کی پانچ کتا ب''اثبات الوصیہ'' میں ذکر ہوئے ہیں کہ ہمارے شیخ اور استاد ''الذریعہ'' کے مؤلف نے ان کا تعارف کر ایا ہے۔اور ہم نے ان کی وصیت سے متعلق بعض روایات واخبار کو ۲۵ صفحہ سے زیادہ میں معالم المدرستین نامی کتاب کی پہلی جلد میں(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وارد نصوص کے ذیل میںاپنے بعد ولی امر کی تعیین سے متعلق) ذکر کیا ہے کہ یہاں پر اختصار کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ اسلام کی دعوت کے آغاز میں اور آیت( وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الَّاقْرَبین ) کے نازل ہو نے کے بعد پیغمبر اکرم نے جناب عبد المطلب کے فرزندوں کو بلا یا اور انھیں اسلام قبول کر نے کی دعوت دی۔

پھر اُس مہمانی کے اختتام پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب کی گردن پر رکھا اور فرمایا: یہ، تمہارے درمیان میرا بھائی میرا وصی اور جا نشین ہے۔

اس کی اطا عت و فرمانبرداری کرو۔( ۱ )

۲۔ پیغمبر کے دو صحابی سلمان فارسی اور ابو سعید خدری نے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

میرا وصی اور میرے راز کا محافظ اور سب سے اچھا شخص جسے میں اپنے بعد اپنا جا نشین بنائوں گا اور وہ شخص جو میرے امور کو انجام دے گا اور میرے قرضوں کو ادا کر ے گا وہ علی بن ابی طالب ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۳ ، ص۱۱۷۱؛ اور تاریخ ابن اثیر، ج۲ ،ص ۲۲۲؛ تاریخ ابن عساکر میں امیر المومنین کے حال کی تشریح اور شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید، ج۳ ،ص ۲۶۳ کہ جس میں ا ختصار کے ساتھ نقل کیا گیا ہے.۲۔ سلمان فارسی کی روایت معجم الکبیر میں ،ج۶، ص ۲۲۱ اور مجمع الزوائد، ج۹ ،ص ۱۱۳ .ابو سعید کی روایت علی بن ابی طالب کے فضائل سے متعلق کنزالعمال ،ج۲ ،ص ۱۱۹ کی کتاب فضائل سے.اور طبرانی نے ج ،۲ ،ص ۲۷۱ پر ذکر کیا ہے ؛ ابو سعید بن مالک خراجی متوفّٰی ۵۴ھ کی سوانح حیات استیعاب اور اسد الغابہ اور اصابہ نامی کتاب میں ذکر ہوئی ہے،بعد کے صفحات میں ان تین کتابوں سے متعلق''سہ گانہ کتابوں'' کے عنوان سے نام ذکر کر یں گے.

۲۸۴

۳۔ انس بن مالک سے( اختصار کے ساتھ ) روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُ س سے فرمایا:سب سے پہلا شخص جو اس در سے داخل ہو گا امام المتقین،سید المسلمین،یعسوب الدین اور خاتم الوصیین ہے...اور اسی وقت علی اُس در سے داخل ہوئے۔( ۱ )

۴۔بریدہ صحابی نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا ہے کہ : ہر پیغمبر کا ایک وصی اور وارث رہا ہے اورعلی میرے وصی اور وارث ہیں.... ..( ۲ )

۵۔ صحیح بخا ری،مسلم اور دیگر منابع و مصادر میں مذکور ہے( ۳ ) (اور ہم بخا ری کی بات کو نقل کرتے ہیں):

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی سے فرما یا:

(یَا عَلی اَنتَ مِنّیِ بِمنزِلة هَارُونَ مِنْ مُوسَیٰ اِلَّا اَنَّه لَا ناَبِیَّ بَعدِی )

اے علی تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے،اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں آئے گا۔

۶۔ سنن ترمذی اور مسنداحمد بن حنبل میں مذکور ہے:(اور ہم ترمذی کی بات کو نقل کرتے ہیں)۔( ۴ )

(اِنِّی تَارِِک فِیْکُم مٰا اِنْ تَمَسَّکتُم بهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعدِی ،أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الاّٰخَرِ: کِتاَبَ

____________________

(۱)حضرت امیر امو منین کی سوانح حیات ابن عساکر اور حلےة ا لاولیاء کی پہلی جلد کے صفحہ ۶۳ پر اور زبیدی کی تالیف موسوعۂ اطرف الحدیث عن امجاد سادة المتقین میں ذکر ہوئی ہے، انس بن مالک اور ابو ثمامہ خزرجی کے سال وفات کے بارے میں اختلاف ہے ۹۰ سے ۹۳ ہجری تک ذکر کیا گیا ہے.(۲)ریاض النضرہ میں امام کی سوانح حیات ج۲ ،ص۲۳۴اور تاریخ ابن عساکر۔بریدہ،ابو عبد اللہ بن حدید بن عبد اللہ الاسلمی جنگ احد کے بعد مد ینہ آئے اور دوسری جنگوں میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم رکاب ہوکر شرکت کی. ان کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے کے لئے سہ گانہ کتابوں کی طرف رجو ع کریں. (۳) صحیح بخاری، ج،۲ ص۲۰۰ باب مناقب علی بن ابی طالب؛ صحیح مسلم،ج۷،ص ۱۲۰ باب فضائل علی بن ابی طالب؛ترمذی، ج ۱۳، ص ۱۷۱،باب منا قب علی ؛ طیالسی،ج۱،ص ۲۸ ۔۲۹، حدیث ۲۰۵، ۲۰۹، ۲۱۳؛ ابن ماجہ؛باب فضائل علی بن ابی طالب ، حدیث ۱۱۵؛ مسند احمد،ج۱، ص ۱۷۰ ،۱۷۳ تا ۱۷۵، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۵ اور ۳۳۰ اور ج ۳،ص ۳۲ اور ۳۳۸ اور ج۶،ص ۳۶۹ اور ۴۳۸؛ اور مستدرک حاکم ،ج۲،ص ۳۳۷؛ طبقات ابن سعد،ج ۳،ص ۱ ،۱۴ اور ۱۵؛ مجمع الزوائد، ج۹ ،ص ۱۰۹ تا ص ۱۱۱ اور بہت سے دیگر منابع و مآخذ.

(۴)سنن ترمذی ،۱۳، ص ۲۰۱؛ اسد الغا بہ، ج۲ ص ۱۲. حضرت امام حسن کی سونح حیات کے ذیل میں. الدرّ المنثور سورۂ شوریٰ کی آیہ مودت کی تفسیر کے ضمن میں ؛مستدرک الصحیحین اور ان کی تلخیص ج۳، ص ۱۰۹. خصائص نسائی ص۳۰ ؛مسنداحمد،۳،ص ۱۷ صدر روایت میں ''انی اوشکُ ان ادعی فاجیب'' ذکر ہے کہ جس کی صفحہ ۱۴، ۲۶، ۵۹ پر بسط و تفصیل کے ساتھ شرح کی گئی ہے طبقات ابن سعد ج۲، ق۲، ص۲؛ کنز العمال،ج۱ ص ۴۷ اور ۴۸ اور اس کے صفحہ ۹۷ پر اختصار کے ساتھ مذکور ہے۔

۲۸۵

اللّٰهِ حَبل مَمدُوْد مِنَ السَّمٰائِ اِلیٰ الَٔارضِ،وَ عِترتِی أَهلَ بَیْتیِ،وَلَنْ یَتَفَرَّقاَ حَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوضَ،فَانْظُرُوْا کَیْفَ تَخْلَفُو نَنِی فِیهِمَا )میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان سے متمسک رہے،تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور ان میں سے ایک دوسرے سے عظیم اور گرانقدر ہے ایک خدا کی کتاب جو آسمان سے زمین کی طرف کھینچی ہوئی رسی ہے اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہلبیت.یہ دو ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں.غور کرو کہ ان دو کے بارے میں میری وصیت کا کیسے پاس و لحاظ رکھو گے۔

اور یہ بھی ارشاد فرما یا:

(لَا یَزالُ هَٰذَا اَلدِّیْنُ قَائِماً حَتّیٰ تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ یَکُونَ عَلَیْکُمْ اِثْنَاعَشَرَ )

یہ دین قیامت کے دن تک،یا اُس وقت تک جب تک کہ تم پر بارہ آدمی امامت کریں گے ہمیشہ برقرار رہے گا۔

ایک دوسری روایت میں مذکور ہے:

(لاٰ یَزٰالُ اَمَرُ الَنََّاسِ مَاضِیاً اِلیٰ اِثْنٰی عَشَرَ )

لوگوں کا کام ہمیشہ بارہ آدمیوں پر ثابت واستوار رہے گا ۔

اس کے بعد دوسری روایت میں فرما یا:

ثُمّ یَکُون المَرج وَالهَرج

(ائمہ معصومین علیھم السلام اور حضرت صاحب الزمان( عج )کا دور گزرنے کے بعد ) پھر دنیا تباہی و بربادی اورہرج ومرج کا شکار ہو جائے گی اور آخری زمانے کا فتنہ ظاہر ہو گا۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے:

فَاذَا هَلکُوا مَاجت الَٔا رضُ بَأهِلهَا

اور جب تمام ائمہ آکر کے گزر جائیں گے تو زمین اور اس کے باشند ے اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جائیں گے۔

ایک دوسری روایت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا ہے کہ ان کی تعداد بنی اسرائیل کے نقباء کے برابر بارہ افراد پر مشتمل ہے ۔یہ روایات اہلبیت پیغمبر کے بارہ ائمہ کے علاوہ کسی اورپر صادق نہیں آتی ہیں ؛ ایسے امام جن کے آخری فرد کی عمر خدا نے طولا نی کر دی ہے اور اُن کے بعد دنیا نابود ہوجائے گی۔

چونکہ مکتب خلفاء کے علماء ائمہ اہلبیت علیھم السلام کے معتقد نہیں ہیں لہٰذا ان روایات کی تفسیر میں حیران و سرگرداں ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اس کے معنی اور تاویل کرنے سے عاجز و بے بس ہیں۔

۲۸۶

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدان کے بارہ اوصیائ

ہم یہاں پر ان بارہ افراد کے اسماء بیان کررہے ہیں جن کے ناموں کی تصریح پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری روایات میں فرمائی ہے۔

پہلے وصی حضرت علی بن ابی طالب امیر المو منین ، وصی رسول ربّ رلعالمین۔

دوسرے وصی حضرت حسن بن علی سبط اکبر.

تیسرے وصی حضرت حسین بن علی سبط اصغر ، شہید کربلا.

چوتھے وصی حضرت علی بن الحسین سجاد ، زین العابدین

پانچویں وصی حضرت محمد بن علی باقر.

چھٹے وصی حضرت جعفر بن محمدں صادق.

ساتویں وصی حضرت موسی بن جعفر کاظم.

آٹھویں وصی حضرت علی بن موسیٰ رضا.

نویں وصی حضرت محمد بن علی جواد ، تقی.

دسویں وصی حضرت علی بن محمد ہادی، نقی.

گیارھویں وصی حضرتحسن بن علی عسکری.

بارھویں وصی حضرت محمد بن الحسن مھدی،حجت اور منتظر.

اس طرح سے حضرت آدم سے خا تم ا لانبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک وصی کی تعیین کا سلسلہ چلا ہے۔

۲۸۷

دوسرے:

یہ کہ ہم نے اس کتاب میں دیکھا کہ اللہ کی حجتوں کے درمیان ''انوش'' نے زمین پر کھجور کا درخت لگا یا ، زراعت کی اور زمین میں بیج بویا اور زمین کی آباد کاری میں مشغول ہوئے اور اپنے فرزند قینان کو نما ز قائم کرنے،زکاة ادا کر نے،خانہ خدا کا حج کر نے اور قابیلیوں سے جہاد کر نے کا حکم دیا اور خود بھی باپ کے حکم کی تعمیل کی اور اس کو کمال کے تمام مراحل تک کامیابی سے ہمکنارکیا ۔

اور''یرد'' کو دیکھتے ہیں کہ استخراج معادن اور شہر کی تعمیر میں مشغول ہوئے ہیں،مسجدیں بنانے مضر درندوں کے قتل کر نے اور گائے بھیڑ کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔

ادریس وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے سوئی سے خیاطی(سلائی) کی ہے اور وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے قابیل کی اولاد کو قید کیا اور انھیں اپناغلام بنا یا ، وہ علم نجوم میں ماہر تھے.اور بارہ برجوں اور آسمانی سےّاروں میں سے ہر ایک کا مخصوص نام رکھا ہے۔

متوشلح بھی شہروں کی تعمیر کی جانب متوجہ ہوئے ہیں وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اونٹ کی سواری کی ہے۔

یہیں سے ہم درک کرتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی طرف سے اسلام کی تبلیغ پر مامور تھے وہ اپنے زمانے میں بشری تمدن کے بھی راہنما تھے ، لوگوں کی ہدایت کے بارے میں عیسائیوں کے دعوے کے برخلاف صرف ان کی عبادت کی کیفیت اور طریقوں پر اکتفا نہیں کیا ہے ۔

تیسرے :

عصر فترت میں پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کو دیکھتے ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند اسمٰعیل کی دعا کے مصداق تھے جیسا کہ ان دونوں حضرات نے سورۂ بقرہ کی ۱۲۸آیت کی نقل کے مطابق بارگاہِ خدا وندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا یا :

( رَبََّنَا وَاجْعَلْنَامُسْلِمَینِ لَکَ وَ مِن ذُرِّیَّتِنَا اُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ... )

خدا یا! ہمیں اپنا مسلم مطلق قرار دے اور ہمارے فرزندوں کو بھی ایسی امت قرار دے جو تیرے سامنے خاضع اور سراپا تسلیم ہوں۔

۲۸۸

انھیں میں سے ''خزیمہ بن مدرکہ'' بھی تھے کہ فرما تے تھے:

مکّہ سے احمد نامی پیغمبر کے خروج کا زمانہ قریب ہے اس کی خصو صیت یہ ہو گی کہ لوگوں کو خدا کی عبادت اور پرستش کی دعوت دے گا لہٰذا اس کی پیروی کرنا اور اس کی تکذیب نہ کر نا کہ وہ جو کچھ پیش کریگا وہ حق ہے۔

''کعب بن لؤی'' بھی کہتے تھے آسمان وزمین بیکار خلق نہیں کئے گئے ہیں اور دار آخرت تمہارے سامنے ہے، وہ لوگوں کو مکارم اخلا ق کی دعوت دیتے تھے اور کہتے تھے؛ اللہ کے پر امن حرم سے خاتم الانبیائ، اس امر کے لئے جس کی موسیٰ اور عیسیٰ نے خبر دی ہے مبعوث ہوں گے۔

اور اس طرح فرما تے تھے''اچانک خدا کے پیغمبر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہنچ جائیں گے جب کہ تم غافل ہوگے ...'' پھر کہتے تھے : اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا اور پیغمبر کی دعوت و بعثت کو درک کرتا۔

اور جب''عمر وبن لحیّ'' ''ہبل'' نامی بُت کو مکّہ لایا اور بُت پر ستی عام ہو گئی تو،یہ ''قُصیّ'' تھے کہ بُت پرستی کو مردود سمجھتے ہوئے لوگوں کو خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے. انھوں نے حج کے شعائر کو جو کہ ابراہیم کے دین حنیف کے بنیادی جز میں شامل تھے قائم رکھا اور مکّہ والوں کی مدد سے حجاج کو کھانا کھلانے اور ان کی مہمان نوازی کے لئے قدم اٹھا یا۔

ان کے بعد یہی ذمّہ داری ان کے فرزند ''عبد مناف'' نے سنبھالی اور انہوں نے قریش کو تقوائے الٰہی اور صلہ رحم کی رعایت کا حکم صادر کیا۔

ان کے فرزند ''جناب ہاشم'' بھی حجاج کو کھانا کھلانے اور مہمان نوازی کے لئے اٹھے، انھیں نے مکّہ میں اپنے مدد گاروں سے کہا: تمھیں اس گھر کی حر مت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم لوگ اس امر کے لئے صرف اور صرف حلال مال مخصوص کرو اور خبردار وہ مال جوغصبی ہو، زور زبردستی سے چھینا گیا ہو اور قطع رحم کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہوا یسے مال کو اس محترم کام کے لئے ہرگز مخصوص نہ کرنا۔

۲۸۹

یہ جناب ہاشم ہی تھے کہ جنھوں نے جاڑے اور گرمی میں دو تجارتی سفر کی،شام اور ایران، یمن اور حبشہ کی جانب بنیاد ڈالی۔

ان کے فرزند'' جناب عبد المطلب'' نے بھی اپنے آباء و اجداد کی را ہ و روش اپنائی.ان کے بارے میں اس طرح کہا گیاہے:

وہ قلبی اعتبار سے توحید اور روز قیامت پر اعتقاد رکھتے تھے،خدا وند عالم نے زمزم نامی کنویں کی کھدائی ان کے ہاتھوں کرائی .اور جب ابرھہ اپنے لشکر کے ساتھ کعبہ کو منہدم کر نے کے لئے مکّہ آیا تو اُس سے جناب عبد المطلب نے کہا: اس گھر کا ایک مالک ہے جو تجھے روک دے گا پھر اُس وقت خدا سے رازو نیاز کرتے ہوئے اس طرح شعر پڑھا:

یا ربِّ فان المرئَ یمنع

رحله فامنع رحالک

''خدایا! ہر شخص اپنے گھر کا دفاع کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع کر''۔

ابرھہ اور اس کے سپا ھیوں کے مکّہ پر حملہ کر نے کے بعد قریش فرار کر گئے اور جناب عبد المطلب اور ان کا گھرانہ تنہا وہاں رہ گیا۔

اور جب خدا نے ابرھہ کے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تو اس طرح شعر پڑھا:

طارت قریش اذ رات خمیساً

فظلت فرداً لَا اری انیسا

''جب قریش کی نظر ابرھہ کے لشکر پر پڑی تو داہنے بائیں سے فرار کر گئے اور میں تن تنہا بے یارو مددگار باقی رہ گیا''

''ہم قدیم ا لایام ہی سے آل اللہ تھے اور حضرت ابراہیم کے دور سے اب تک ایسا ہی ہے۔

ہم نے قوم ثمود کو درمیان سے اکھاڑ پھینکا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو۔

ہم خدا کے عبادت گزار ہیں، صلۂ رحم اور عہد وپیمان کا پاس ولحاظ رکھنا ہماری سنت ہے۔

ہمیشہ خدا کی ہمارے درمیان ایک حجت (راہنما) رہی ہے کہ خدا وند عالم اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے'' ۔

شیبة الحمد (جناب عبد المطلب) ان اشعار میں فر ماتے ہیں:

۲۹۰

جب قریش نے ابرھہ کے لشکر کو دیکھا تو پرندوں کی طرح ہر جانب سے فرار کر گئے اور میں تن تنہا بے مونس و یاور حرم میں باقی رہ گیا. عبدا لمطلب کی یہ بات اس ایمان اور اطمینان کی عکاسی کر رہی ہے جو ایمان وہ خدا پر رکھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ خدا ابرھہ کو حرم میں داخل نہیں ہونے دے گا اور اسے تباہ و برباد کردے گا. وہ اور ان کا گھر انہ حضرت ابراہیم کے زمانے سے آل اللہ ہیں اور اس بات کا مخلوق میں خدا کی حجت کے سوا کوئی مصداق نہیں ہوسکتا. کیو نکہ خدا کی یہی حجتیں تھیں کہ ثمود اور عاد قبیلہ کو ارم اور اس کے ستونوں کے ساتھ ویران کر دیا اور چونکہ ہود اور صالح جناب عبد المطلب کے اجداد کے سلسلے میں نہیں ہیں اور ان دو پیغمبروں کی قومیں قریش سے نہیں تھیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کی یہ بات کہ '' ہم نے قوم ثمود اور عاد کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکا '' اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کی حجتوں نے کہ اُن میں سے ایک جناب عبد المطلب بھی تھے ثمود اور عاد کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکا، پھر خدا نے اس وقت ان کی دعا سے ابرھہ کو نابود کر دیا. اور اُن کا یہ کہنا کہ ''ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی حجتیں رہی ہیں کہ خدا ان کے ذریعہ ہم سے بلاؤں کو دور کرتا ہے'' یہ اس بات کی تاکید ہے کہ اپنے زمانہ میں وہ خود ہی خدا کی ایک حجت تھے،جیسا کہ حضرت ہوداور حضرت صالح اور حضرت ابراہیم اپنے زمانے میں خدا کی حجت تھے۔

جب پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے،تو جناب عبد المطلب نے اپنے شعر میں کہا کہ ان کے پوتے کا نام آسمانی کتابوں میں''احمد'' ہے جیسا کہ خدا نے عیسیٰ بن مریم کی زبان سے فرما یا:

( وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَاتِی مِنْ بَعدِی اِسْمُهُ اَحْمَدُ )

میں اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی تمھیں بشارت دے رہا ہوں جس کا نام احمد ہو گا۔

اور جب پیغمبر کی دایہ حلیمہ سعدیہ نے جناب عبد المطلب کوان کے مکّہ کے پہاڑوں میں گم ہو جانے کی خبر دی، توجناب عبد المطلب نے اپنے ربّ سے خطاب کر کے کہا:

''خدایا! محمد کو کہ تو نے خود ہی اس کا نام محمد رکھا ہے ہمیں لو ٹا دے''۔

۲۹۱

یہ تمام باتیں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ عبدا لمطلب ان لو گو میں سے تھے جو اپنے سے قبل کی آسمانی کتابوںکے بارے میں آگاہی رکھتے تھے ؛ اور یہ مکّہ جیسے جہالت سرشت شہر اور قریش کی طرح جاہل لوگوں میں ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ اس بات کو قبول کر یں کہ وہ کتابیں اُن کے اختیار میں تھیں اور جناب عبد المطلب سلسلۂ اوصیاء ابراہیم اور اسمٰعیل کی ایک کڑی ہیں۔

اوریہ بھی کہ جناب عبد المطلب صلۂ رحم کی رعایت ، محتاجوں کو کھانا کھلانے ، ظلم وستم نہ کرنے اور سر کشی و طغیانی نہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور کہتے تھے:

کوئی ستمگر دنیا سے نہیں جا تا مگر یہ کہ وہ اپنے ظلم وستم کی سزا بھگت لے اور کہتے تھے: خدا کی قسم اس دنیا کے بعد پاداش اعمال کی ایک جگہ ہے. جہاں اچھے یا بُرے کاموں کی جزا یا سزا ملے گی۔

جناب عبد المطلب نے نذر پوری کرنے، چور کاہاتھ کاٹنے،محارم سے شادی کر نے کی ممانعت اور لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے روکنے کی سنت قائم کی ۔

اور شراب پینے،زنا کر نے اور برہنہ خانہ خدا کے ارد گر د طواف کر نے سے روکا ہے۔( ۱ )

یہ سب کچھ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں مذکورہے ۔

خدا وند عالم نے مکّہ والوں کے لئے جناب عبد المطلب کی طلب باراں سے متعلق دعا مستجاب کی ہے. وہ ہر سال ماہ رمضان میں غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے؛ جناب عبدالمطلب نے تمام قریش (بالخصوص جناب ابو طالب) کو پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رعایت کی تاکید فرمائی ۔

____________________

(۱) دور جاہلیت میں بعض افراد، اپنے لباس میں اس بہا نے سے طواف نہیں کرتے تھے کہ انھوں نے اس لباس میں گناہ کیا ہے لہٰذا طواف کے موقع پر یا مکّہ والوں سے عارےةً لباس مانگتے تھے یا عریاں کعبہ کا طواف کر تے تھے.

۲۹۲

آیات کی تفسیر میں عبرت کے مقامات

خداوندعالم نے بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام عالم پر ان کو فو قیت و بر تری عطا کی اُس وقت جب فرعون اور فرعون کے ماننے والوں نے ان کے لڑکوں کے سر کاٹ کر اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ کر بدترین عذاب سے انھیں دو چار کیا تو اس نے انھیں نجات دی اور سارے عالم پر انھیں بر تری عطا کی اور دنیا میں عظیم فوقیت اور رفعت کا مالک بنا یا۔

اسی طرح اُن کے لئے دریا کو شگافتہ کیا اور اس کے درمیان خشکی کا راستہ پیدا کیا تا کہ وہ عبور کر سکیں اور اس نے انھیں عبور کرایا. فر عون اور اس کے سپا ہیوں نے ان کا پیچھا کیا اور اسی خشکی کے راستہ پر قدم رکھا جس سے بنی اسرائیل آگے گئے تھے اور بنی اسرائیل کی آخری فرد کے باہر آتے ہی دریا آپس میں مل گیا اور خدا نے فرعون اور اُس کے سپا ہیوں کو بنی اسرائیل کی نگاہوں کے سامنے غرق کر دیا. پھر فرعون کی لاش کو پانی کی سطح پر لے آیاکہ آج تک مصر کے میوزیم میں سالم موجود ہے اور دنیا والوں کے لئے عبرت کا سامان ہے۔

بنی اسرائیل اُسی طرح آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک قوم کو دیکھا کہ وہ بتوں کی پو جا کررہی ہے،تو پھر انھوں نے موسیٰ سے کہا:''ہمارے لئے بھی ان کی طرح کو ئی خدا قرار دو''موسیٰ نے اُن سے کہا:ان کی روش لغو اور باطل ہے۔

آیا اس خدا کے علاوہ کہ جس کانام جلیل ہے اور اُس نے تم کو سارے عالم پر برتری و فو قیت عطا کی ہے کوئی دوسرا خدا تلاش کروں؟!

اس کے بعد خدا نے بنی اسرائیل سے فرمایا:( اسکنوا الارض )

اس سر زمین کو اپنے تصرف میں قرار دو یہ اس حال میں خطاب تھا جب کہ ان کی ایک عمر فرعون کی غلامی میں گذرچکی تھی حتیٰ کہ اپنے مالک و مختار بھی نہیں تھے چہ جائیکہ وہ کسی زمین کے تمام خصوصیات و امتیازات کے ساتھ مالک ہوں۔

اور خدا وند عالم نے بادل کو ان کے سر پر سایہ فگن قرار دیا اور آسمانی غذائیں(من وسلویٰ) انھیں کھلائیں کہ سلویٰ سب سے عمدہ گو شت کو شامل ہے اور منّ اصلی اور خالص شکر کو شامل ہے.ایسی حالت میں انھوں نے موسیٰ سے کہا! اے موسیٰ ! ہم ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کر سکتے.اپنے ربّ سے کہو کہ ہمیں زمین کی پیدا شدہ چیزیں، دانے، لہسن، پیاز، مسور کی دال وغیرہ سے نوازے کہ موسیٰ نے ان سے کہا: کسی ایک شہر میں داخل ہو جاؤ وہاں تمہاری آرزوئیں پوری ہو جائیں گی۔

۲۹۳

اسی طرح خداوند عالم نے انھیں سارے عالم پر برتری دی ،جب موسیٰ نے انھیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کیا اور خدا کے حکم سے اپنا عصا پتھر پر مارا تو پانی کے بارہ چشمے اُس سے پھوٹ پڑے اور ہر قبیلہ نے اپنی اپنی پینے کی جگہ مخصوص و معین کر لی اور ہر ایک نے اپنی اپنی پیاس بجھائی۔

خداوند جل جلالہ نے موسیٰ سے ۳۰شب کا وعدہ کیا کہ طور سینا پر جائیں تاکہ توریت جو کہ بنی اسرائیل کے لئے قوانین اور شریعت پر مشتمل ہے ،انھیں عطا کرے.خدا نے اس وعدہ کو دس دن مزید بڑھا دیا اور اس کو چالیس دن میں کامل کر دیا لیکن اس مدت میں سامر ی نے (۱ )حضرت موسیٰ کے طور سینا پر مناجات کے لئے جانے کے بعد قوم بنی اسرائیل کو گمراہ کر دیا.اُس نے ان کے سونے کے زیورات سے ایک گو سالہ بنایا اور جو خاک وہ اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا وہ حضرت جبرئیل کے قدموں کی خاک تھی اسے گو سالہ کے منھ میں ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں ہوا پھونکنے سے گوسالہ کی آواز نکلتی تھی. سامری نے اُن سے کہا؛ یہ تمہارا اور موسیٰ ـکاخدا ہے!! تو ہارون نے ان سے کہا! تم لوگ اس کے ذریعہ امتحان اور آزمائش

____________________

(۱) سامری شمرونی کا معرّب ہے جس طرح کلمہ عیسیٰ کہ یشوع جو کہ عبری زبان کا لفظ ہے، اس سے معرّب ہوا ہے. شمرونی شمرون کی طرف منسوب ہے( جو کہ اسباط بنی اسرائیل میں سے یساکا ر کا چوتھا بیٹا ہے). اس کے لئے قاموس کتاب مقدس میں لفظ شمرون ملاحظہ ہو.

۲۹۴

میں مبتلا ہوگئے ہو.تمہا را ربّ خدا وند رحمن ہے. انھوں نے جواب دیا : جب تک کہ موسیٰ ہمارے پاس نہیں آجاتے ہم اس گوسالہ کی پو جا نہیں چھوڑیں گے۔

خدا وندعالم نے بنی اسرا ئیل کی اس کارستانی کی موسیٰ کوخبر دی،پھر موسیٰ انتہائی افسوس اور غم و غصّہ کے ساتھ ان کے پاس واپس آئے اور اپنے بھائی ہارون کو زجروتو بیخ کی، ہارون نے کہا: اے بھائی! اپنا ہاتھ میرے سراور داڑھی سے ہٹالو. اس قوم نے مجھے چھوڑ دیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کرڈالیں۔

پھر جب بنی اسرائیل اپنی خطا پر نادم و پشمان ہوئے تو خداوند سبحان نے ان کی توبہ قبول کی اس شرط کے ساتھ کہ جو لوگ گوسالہ پرستی میں مشغول ہوگئے تھے وہ خود کو خداپرستوں کے حوالے کر دیں تا کہ انھیں قتل کیا جائے جب ان لوگوں نے اس فرمان کو قبول کیا اور امر خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے، تو خدا وند منّان نے انھیں معاف کر دیا.لیکن تعجب ہے کہ اُس کے بعدبھی موسیٰ سے خواہش کی کہ انھیں بھی اپنے ہمراہ ربُّ العزت کی وعدہ گاہ تک لے جائیں اور وہ خود ان کو خدا سے کلام کرتے ہوئے دیکھیں۔

اس وجہ سے موسیٰ نے اُن میں سے ستر افراد کو چُنا.جب وہ لوگ میقات (وعدہ گاہ) پر پہونچے تو کہنے لگے کہ : ہم خدا کو آشکار طور پر دیکھنا چاہتے ہیں! لہٰذا (جیسا وہ خیال کر تے تھے) اسی اثناء میں ایک بجلی نے انھیں اپنے لپیٹ میں لے لیا(اور اسی جگہ مرگئے) کہ خدا وند عالم نے دوبارہ انھیںموسیٰ کی درخواست پر حیات دی.پھر اس طرح سے یہ لو گ توریت پر(جسے خدا وند سبحان نے چراغ ہدایت قرار دیا تھا تاکہ ان کے انبیاء اس کے مطابق حکم کریں) ایمان لائے ۔

موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ یاد دلانے کے بعد کہ خدا وند عالم نے ان پر کیا کیا نعمتیں نازل کیں ہیں اوران کے ذریعہ سے انھیں عالمین پر فضیلت دی ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے میری قوم!مقدس سرزمین (سر زمین شام) کہ خدا وند عالم نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے داخل ہو جاؤ۔

انھوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ایک ستمگراور سرکش قوم رہتی ہے،ہم وہاں اُس وقت تک قدم نہیں رکھ سکتے جب تک کہ وہ وہاں سے باہر نکل نہ جائیں اور جیسے ہی وہ باہر جائیں گے ہم وہاں داخل ہو جائیں گے۔

۲۹۵

اُس وقت ان کی قوم کے دو دانشوروںنے اُن سے خطاب کر تے ہوئے کہا: دروازہ سے اُن کے سامنے وارد ہو ، کہ تمہارے داخل ہو جانے ہی سے تمہاری کامیابی ہو جائے گی اور اگر مومن ہو تو خدا پر توکل اور بھروسہ کرو۔

قوم نے کہا: اے موسیٰ ! جب تک کہ وہ وہاں ہیں ہم ہر گز وہاں داخل نہیں ہو گے. لہٰذا تم خود اور تمہارا خدا چلے جاؤ.اور اُن سے جنگ کرو ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں!!

اس کا جواب دیتے ہوئے خدا وند سبحان نے فر مایا:

( فَاِ نَّهَا مُحَرَّ مَة عَلَیْهِمْ اَرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیْهُونَ فِیْ الْاَرْضِ فَلَا تٔاسَ عَلٰی الْقَوِمِ الْفَاسِقِینَ )

چالیس سال تک ان کا اس سر زمین پر تصرف کر نا حرام ہے،وہ لوگ اتنی مدت تک سینا کے جنگلوں میں اسی طرح حیران و سرگرداں رہیں گے اور تم اے موسیٰ ! ستمگروں کے لئے اپنا دل نہ جلاؤ.اور ان کی خاطر رنجیدہ نہ ہو۔

یہ سب حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کی بعض داستان ہے. لیکن جو کچھ اس قوم سے موسیٰ کے بعد سرزد ہوا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ:

اُن میں سے بعض نے دریائے سرخ کے کنارے سکونت اختیار کر لی .اور مچھلی کا شکار کر نے لگے (قضاء الٰہی سے دریا کی مچھلیاں شنبہ کو بہت زیادہ ساحل کے کنارے آتی تھیں اور خدا نے انھیں شنبہ کو شکار کرنے سے ان کے سرکش نفس کی ریاضت و تزکیہ کے لئے منع کر دیا تھا). ان لوگوں نے اس ممانعت کی مخالفت کی اور سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے لگے ،نتیجہ کے طور پر خدا نے انھیں بندر کی شکل میں مسخ کر کے ہلاک کر ڈالا۔

خداوند منّان نے حضرت موسیٰ کے اوصیاء کے درمیان حضرت داؤد کو قرار دیا اور ان کو زبور عطاکی ، جب داؤد زبور کی تلا وت کر تے اور تسبیح خدا وندی کی آواز بلند کر تے تو اُن کی خو ش الحانی پہاڑوں میں اس طرح گونجتی کہ پر ندے تسبیح میں ان کے ہم آواز ہو جاتے.خدا وند عالم نے ان کے ہاتھ میں لوہا نرم بنا دیا تھا تا کہ اُس سے زرہ بنائیں پھران کے بعد حضرت سلیمان کو قرار دیا اور ہوا کو اُن کے اختیار میں دے دیا تا کہ اُن کے حکم کے مطابق وہ جہاں چاہیں حر کت کرے.اسی طرح جنّاتوں کو جو دریا میں غوّاصی پر مامور تھے تاکہ ان کے لئے اندر سے گوھرنکال لائیں اور عبادت خانے،مجسمے،محرابیں اور حوض کے برابر پیا لے اور بڑی بڑی ثابت دیگیں یعنی جو قابل نقل و انتقال نہ ہوتی تھیں حضرت سلیمان کے لئے بناتے تھے۔

۲۹۶

خدا وند منان نے انھیںحیوانوں کی زبان سکھائی اس طرح سے کہ چیونٹی کی گفتگو درک کرلی اور ھدھد نے تخت بلقیس کے بارے میں انھیں باخبر کیا اور ان کے ملازموں میںاُس شخص نے جسے کتاب کا تھوڑا سا علم تھا یمن سے چشم زدن میں تخت بلقیس شام میں حاضر کر دیا۔

ملا ئکہ ان کے خد مت گزار تھے اور جنوں میں جو حضرت سلیمان کے حکم کی نافرمانی کر تا تو اسے عذاب کے تازیانہ سے تنبیہ کر تے تھے ۔

جنّات حضرت سلیمان کے مرنے کے بعد اسی طرح اپنی فعّالیت اور ماموریت پر لگے ہوئے تھے یہاں تک کہ دیمک نے اُن کے عصا کو کھوکھلاکر دیا اور سلیمان زمین پر گر پڑے۔

یہ تمام موارد(مقامات) بنی اسرائیل اور ان کے پیغمبروں کے درمیان استثنائی صورت کے حامل تھے، منجملہ ان استثنائی حالا ت کے حضرت موسیٰ کے زمانے میں ایک واقعہ یہ تھا کہ ایک مقتول کے قاتل کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہو گیا تو خدا نے انھیں حکم دیا کہ ایک گائے کا سر کاٹیں اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑااس مقتول کے جسم پر ماریں، جب انھوں نے ایسا کیا تواس کے زیر اثر خدا نے اس مقتول کو زندہ کردیا اور حقیقت امر آشکار ہو گئی۔

منجملہ ان داستانوں کے ''عزیر'' اور ''ارمیا''کی بھی داستان ہے کہ ایک ایسے ویران گاؤں سے ان کا گذر ہوا جس کی دیواریں اور چھتیں گر چکی تھیں اوروہاں کے رہنے والے سب مر چکے تھے اور درندے ان کے جسموں کو کھا چکے تھے، توحیرت سے کہا:خداوند عالم ان مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ ! خدا نے انھیں ایک سو سال مردہ رکھا پھر دوبارہ زندہ کیا صبح کے وقت ان کی روح قبض کر لی اور شام کے وقت ان کی زندگی واپس کر دی( یعنی جسم میں جان ڈال دی) ایک فرشتہ نے اُن سے پو چھا کتنی دیر تک سوتے رہے؟

عزیرنے آسمان اور سورج کی طرف نظر کی تو وہ ڈوبنے ہی کے قریب تھا اور کہا:(میر ے خیال میں) ایک دن یا اس کا ایک حصّہ سویا رہا۔

فرشتہ نے کہا:بلکہ تمہارے سونے کی مدت ایک سو سال ہے! اپنی غذا(انجیر،انگور) اپنی پینے کی چیز (انگور کے رس) کی طرف نظر ڈالو اوردیکھو ،کہ اتنے سالوں کے بعد بھی ان میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اب اپنے گدھے کی طرف دیکھو کہ اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر تتر بتر اور نابود ہوگئیں ہیں!

۲۹۷

پھر اس وقت خداوند عالم نے پراگندہ جسموں کو ایک دوسرے سے متصل کیا اور ان پر گوشت چڑھا یا اور انھیں زندہ کر دیا تو عزیرکو معلوم ہو گیا کہ کس طرح خدا مردہ کو زندہ کر ے گا اور جب ا نھوں نے ایسا دیکھا تو کہا :مکمّل طور پر مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا ہر چیز پر قادر و تواناہے۔

حضرت موسیٰ کے بعد استثنائی داستانوں میں حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا جیسے پیغمبروں کی بھی داستان ہے۔

حضرت زکریا خدا کو پکار کر کہتے ہیں: خدا یا! میری ہڈیاں بو سیدہ ہوگئیں(کمزور ہوگئیں) ہیں اور میرے سر کے بال سفید ہوگئے ہیں اور میری بیوی بانجھ ہے، اپنے بعد اپنے وارثوں سے خائف اور ہرا ساں ہوں تو خود ہی مجھے ایک جانشین عطاکر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔

توخدا وند عالم نے انھیں یحییٰ کی خوشخبری دی ایسے نام کے ساتھ کہ اُس سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا تھا اور خدا نے ان کے بچپنے ہی میں انھیں کتاب اور قضاوت عطا کی ۔

سب سے زیادہ مشہور ان کی استثنائی داستان خدا کے پیغمبر حضرت عیسیٰ کی ان کی ماں مریم کے ذریعہ بن باپ کے ولادت کی خبر ہے.اور اپنی قوم سے گہوارہ میں ان کا کلام کر نا اور یہ کہناکہ خدا نے انھیں کتاب و حکمت عطا کی ہے. اور ان کا مٹی سے ایک پرندہ کا پیدا کر نا اور کوڑھی، کور مادر زاد کو شفا دینا ،مردوں کو زندہ کر نا اور حضرت عیسیٰ کی شکل وصورت میں ان کی مخبری کرنے والے بدخواہ کو تبدیل کر نا تا کہ عیسیٰ کی جگہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جا ئے.خدا نے حضرت عیسیٰ کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندی پر بلا لیا اور اب تک اسی طرح انھیں زندہ رکھا ہے تا کہ انھیں آخری زمانے میں زمین میں حضرت بقےة اللہ الاعظم مہدی صاحب الزمان کے پاس لوٹا دے۔

اسی طرح بنی اسرائیل کے انبیاء کے لئے بھی استثنائی حالات کا سراغ رکھتے ہیں کہ اُن سے پہلے کسی ایک پیغمبر میں بھی نہیں دیکھا ہے، جیسے وہ سب کچھ جو حضرت سلیمان کو دیا گیا، جنّاتوں کا ان کے لئے کام کرنا، یا بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ کا پیدا ہو نا اور خدا کی اجازت سے ان کا مٹی سے پرندہ خلق کر نا۔

۲۹۸

اور ہم کسی قوم کو بنی اسرائیل سے زیادہ سنگدل قوم نہیں جانتے.وہ نہایت بدطینت لو گ تھے جنھوں نے اپنے پیغمبر سے نہ گانہ معجزات اور آیات دیکھے اور اس کا مشاہدہ کیا کہ اُس نے انھیں دریا کے بارہ خشکی راستوں سے گذارا اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا. خدا وند منّا ن نے انھیں پو ری تاریخ انسانیت میں بے مثال معجزے کے ذریعہ نجا ت دی لیکن جیسے ہی اُن کی نظر بتوں پر پڑی تو اپنے پیغمبر سے کہتے ہیں: اے موسیٰ! ہمارے لئے ان کے بُتوں کے مانند بُت سے ایک خدا بناؤ!!

یا جب ان کے پیغمبر ان کے عمل کے لئے شریعت لا نے گئے تو گوسالہ پر ستی میں مشغول ہوگئے!!

یہ سب ان کے ناپسندیدہ اور بُرے صفات کے نمونے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایسا طرز تفکراور ایسی روش دکھائی دیتی ہے جو ان سے مخصوص تھی اور گزشتہ یا ان کے بعد کی امتوں میں نہیں پائی گئی ہیں۔

ان کے دشمن بھی ایسے ہی تھے؛ جیسے فرعون اور اس کے درباری اور وہ اقوام اور امتیں جو اُس زمانے میں سر زمین شام کی ساکن کہلاتی تھیں اور وہ اُن سے جنگ پر ما مور ہوئی تھیں۔

ان تمام استثنائی حالا ت اور مواقع کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ دیگر امتوں کی بہ نسبت استثنائی اور خصوصی احکام کی احتیاج رکھیں. انھیں موارد(مقامات) میں کعبہ سے بیت المقدس کی طرف قبلہ کا تبدیل ہو ناہے اور ان تمام چیزوں کی تحریم جنھیں اسرائیل( یعقوب پیغمبر ) نے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں اور چونکہ بعض خصوصی حالات ان امتوں کے نابود ہو جانے کی وجہ سے کہ جن سے ان کی سرزمین میں انھوں نے جنگ کی تھی.حضرت عیسیٰ بن مریم کے زمانے میں ختم ہوچکے تھے. لہٰذا،خداوند عالم نے اُن کے کچھ محرمات جواُن پر حرام کر دیئے تھے حلال کر دیئے۔

اور چو نکہ حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ان تمام استثنائی مواقع اور خاص حالات کا خاتمہ ہو چکا تھا،لہٰذا استثنائی احکام اور ان سے مخصوص قوانین بھی درمیان سے اٹھا لئے گئے ؛ چنانچہ خدا وند متعال سورۂ اعراف کی ۱۵۷ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( اَلَّذِٔٔیْنَ یَتّاَبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ الناَبِیَّ ا لأُ مِّیََّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَه مَکتُوْباً عِندَهُمْ فِیْ التَّورَاةِ وَ اْلاِنْجِیْلِ یَأ مُرُهُمْ بِِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَا هُم عَنِ المُنْکرِ وَیُحِلُّ لَهُمْ الطَّیِّباتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیهِمُ الخَبائثَ وَ یضعُ عَنهُم اِصْرَهُمْ وَ الأَغَلْالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیهِمْ... )

۲۹۹

جو لوگ اس امی نبی رسول کی جس کا نام و نشان اپنے پاس موجود توریت اور انجیل میں تحریر پاتے ہیں پیروی کریں ایسا پیغمبر جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور بُرائی سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال کر تا ہے اور نجاستوں کو اُن پر حرام کر تا ہے، قید وبند کی تکلیف گراں سے انھیں آزاد کر دیتا ہے۔

اسی وجہ سے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی شریعت منسوخ ہو گئی اور حکم ہوا کہ ابراہیم کے دین حنیف کی پیروی کر یں کہ اب اس کے مبلغ اور بیان کر نے والے حضرت خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کے قوانین اور شریعتیں حضرت آدم سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ایک دین واحد اور انسان کی فطرت کے مطابق ہیں اور چو نکہ اللہ کی تخلیق میں کو ئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے لہٰذا خدا کی شریعت اور اس کے قوانین بھی تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔

اللہ کی شریعت ہر زمانے کے پیغمبر کے ہم عصر لو گوں کی ضرورت کے مطابق اس پیغمبر پر نازل ہوئی ہے اسی لحاظ سے اُس شریعت میں سے ایک خاندان کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم پر نازل ہوئی ۔

حضرت ادریس کے زمانے میں ایک شہر کے رہنے والوں کی نیاز کے بقدر اور نوح کے زمانے میں چند شہروں اور علاقوںکی نیاز وضرورت کے بقدر اس شریعت کا دائرہ وسیع ہو گیا. حضرت نوح کے زمانے کی شریعت کی اتنی مقدار ہمارے زمانے کو بھی شامل ہے۔

چنانچہ خدا وند عالم فرما تا ہے:

( شَرعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحاً )

'' تمہارے لئے دین میں وہ راستہ قرار دیا ہے جس کی نوح کو وصیت کی تھی '' ابراہیم کا دین حنیف نوح کی شریعت سے اختلاف نہیں رکھتا جیسا کہ خدا وند سبحان فرما تا ہے:

( وَانَّ مِنْ شِیعَتهِ لِابِرَاهیمَ )

اس معنی میں کہ ابراہیم حضرت نوح کے اتباع کر نے والوںمیں تھے۔

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511