توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207731 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

مسئلہ ١٣ ۴۴ اگر کوئی مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو ضروری نہيں ہے کہ اس کا ارادہ پهلی رات یا گيارہویں رات وہاں رہنے کا ہو بلکہ جونهی وہ ارادہ کر لے پهلے دن کی ابتدا سے جو کہ احتياط واجب کی بنا پر طلوع فجر صادق کا وقت ہے ،دسویں دن کا سورج غروب ہونے تک وہاں رہے گا ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر اس کا ارادہ پهلے دن کی ظہر سے گيارہویں دن کی ظہر تک وہاں رہنے کا ہو تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٣ ۴۵ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو، اس کے لئے پوری نماز پڑھنا اس صورت ميں ضروری ہے کہ جب وہ سارے دن ایک ہی جگہ رہنا چاہتا ہو،پس اگر وہ مثال کے طور پر چاہے کہ دس دن نجف اور کوفہ یا تهران اور شميران ميں گزارے، جب کہ لوگوں کی نگاہ ميں یہ دو الگ جگہيں ہوں تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۴۶ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر وہ ابتدا سے ہی یہ ارادہ رکھتا ہو کہ ان دس دنوں ميں اس جگہ کے آس پاس ایسی جگہوں پر جائے گا جو حد تر خص سے چار فرسخ کے اندر ہو ں تو اگر اس کے آنے اور جانے کی مدت عرف کی نظر ميں اس کے وہاں دس دن قيام کے منافی نہ ہو مثلاًایک یا دو گهنٹہ،تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے ليکن اگر اس سے زیادہ مدت ہو تو پورا ایک دن یا پوری ایک رات ہونے کی صورت ميں بھی نماز قصر پڑھے، ليکن اس سے زیادہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نماز قصر بھی پڑھے اور پوری بهی۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٧ اگر کسی مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا پختہ ارادہ نہ ہو مثلاًاس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر اس کا ساتهی آگيا یا رہنے کا اچھا مکان مل گيا تو دس دن وہاں رہے گا ورنہ نہيں تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٨ جب کوئی شخص کسی جگہ دس دن رہنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہو اگر اسے اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے وہاں رہنے ميں کوئی رکاوٹ پيدا ہو جائے گی اور اس کا یہ احتمال عقلاءکے نزدیک صحيح ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٩ اگر مسافر کو معلوم ہو کہ مهينہ ختم ہونے ميں دس دن یا اس سے زیادہ دن باقی ہيں اور وہ مهينے کے آخر تک کسی جگہ رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے بلکہ اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ مهينہ ختم ہونے ميں کتنے دن باقی ہيں اور مهينے کے آخر تک وہاں رہنے کا ارادہ کر لے تو اس صورت ميں کہ اسے یہ تو معلوم ہو کہ مهينے کا آخری دن مثلاًجمعہ ہے ليکن یہ معلوم نہ ہو کہ جس دن وہ ارادہ کر رہا ہے وہ جمعرات کا دن ہے تاکہ نو د ن بنيںيا بده کا دن ہے تاکہ دس دن بنيں اور اسی طرح بعد ميں یہ معلوم ہو جانے کی صورت ميں بھی کہ جس دن اس نے قيام کا ارادہ کيا تھا وہ بده کا دن تھا ضروری ہے کہ نماز پور ی پڑھے اور اس صورت کے علاوہ اس کی ذمہ داری ہے کہ نماز قصرپڑھے خواہ ارادہ کرنے کے دن سے آخر تک حقيقت ميں دس یا اس سے زیادہ روز ہی ہوتے ہوں۔

۲۲۱

مسئلہ ١٣ ۵ ٠ اگر مسافر کسی جگہ دس دن رہنے کاارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے سے پهلے وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے یا متردد ہوجائے کہ وہاں رہے یا کہيں اور چلا جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے ليکن اگر ایک چار رکعتی نمازپڑھنے کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ ترک کرے یا متردد ہوجائے تو ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔

اس مسئلے اور بعد والے مسائل ميں چار رکعتی نمازسے مراد وہ نمازهے جو ادا کے طور پر پڑھی جا رہی ہو۔

مسئلہ ١٣ ۵ ١ وہ مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اور روزہ رکھ لے،اگر ظہر کے بعدوہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے چنانچہ اگر اس نے ایک چار رکعتی نماز پڑھ لی ہو تو جب تک وہاں رہے اس کے روزے صحيح ہيں اور ضروری ہے کہ اپنی نماز یں بھی پوری پڑھے اور اگر چار رکعتی نمازنہ پڑھی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس روزکا روزہ پورا کرے اور اس کی قضابهی کرے،جب کہ نمازوں کو ضروری ہے کہ قصر پڑھے اور بعد والے دنوں ميں بھی روزہ نہيں رکھ سکتا هے۔هاں،اگر سورج غروب ہونے کے بعداور چار رکعتی نمازپڑھنے سے پهلے اپنا ارادہ ترک کر دے تو اس روز کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٣ ۵ ٢ وہ مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر وہ وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے اور اس ترک ارادہ سے پهلے یا اس کے بعد شک کرے کہ ایک چار رکعتی نماز پڑھ چکا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنی نماز یں قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۵ ٣ اگر کوئی مسافر قصر کی نيت سے نماز پڑھنے ميں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران وہ فيصلہ کر لے کہ دس یا اس سے زیادہ دن وہاں رہے گا تو ضروری ہے کہ اپنی نماز چار رکعت پر ختم کرے۔

مسئلہ ١٣ ۵۴ جس مسافر نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر وہ پهلی چار رکعت نمازکے دوران اپنا ارادہ ترک کر دے اور ابهی تيسری رکعت ميں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ نماز دو رکعتی پڑھ کر تمام کرے اور اپنی بقيہ نماز یں قصر کر کے پڑھے اور اسی طرح اگر تيسری رکعت ميں مشغول ہو گيا ہو ليکن رکوع ميں نہ گيا ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ جائے اور نماز قصر پڑھ

کر تمام کرے اور اضافی قرائت یا تسبيح انجام دینے کی صور ت ميں احتياط واجب کی بناپر دو سجدہ سهو بجا لائے اور اگر وہ شخص تيسری رکعت کے رکوع ميں جا چکا ہو تو اس کی نمازباطل ہے اور ضروری ہے کہ اسے دوبارہ قصر پڑھے اور جب تک اس جگہ پر رہے اپنی نماز یں قصر کر کے پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۵۵ جس مسافر نے دس دن کسی جگہ رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر وہ وہاں دس دن سے زیادہ رہے تو جب تک وہاں سے سفر نہ کرے ضروری ہے کہ اپنی نمازیں پوری پڑھتا رہے اور دوبارہ دس دن رہنے کا ارادہ کرنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٣ ۵۶ جس مسافر نے کسی مقام پر دس دن قيام کا ارادہ کيا ہو ضروری ہے کہ اپنے واجب روزے رکھے جب کہ مستحب روزے بھی رکھ سکتا ہے اور ظهر،عصر اور عشا کے نوافل بھی ادا کر سکتا ہے ۔

۲۲۲

مسئلہ ١٣ ۵ ٧ جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہے اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے یا دس روز رہنے کے بعد خواہ اس نے ایک نماز بھی پوری نہ پڑھی ہو، کسی ایسی جگہ جا کر واپس آنا اور دوبارہ دس دن یا اس سے کم رہنا چاہتا ہو جس کا جانا اور آنا چار فرسخ سے کم ہو تو ضروری ہے کہ جانے سے واپسی تک اور واپسی کے بعد بھی اپنی نمازیں پوری پڑھے،ليکن اگر اس جگہ واپسی صرف اس لئے ہو کہ اس کے راستے ميں پڑتی ہے اور اس کا سفر شرعی مسافت ( ٨فرسخ )جتنا ہو تو ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۵ ٨ جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد کسی اور جگہ جانا چاہے جس کا فاصلہ آٹھ فرسخ سے کم ہواور دس دن وہاں رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ جانے کے دوران اور اس جگہ جهاں پر وہ دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو اپنی نمازیں پوری پڑھے، ليکن جس جگہ وہ جانا چاہتا ہو اگر آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ دور ہو تو ضروری ہے کہ جانے کے دوران اپنی نمازیں قصر پڑھے اور اگر وہاں دس دن نہ رہنا چاہتا ہو تو جتنے دن وہاں رہے ضروری ہے کہ ان دنوں کی نماز یں بھی قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۵ ٩ جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانا چاہتا ہو جو چار فرسخ سے کم فاصلہ پر ہو ليکن وہ متردد ہو کہ پهلی جگہ پر واپس آئے یا نہيں یا اس جگہ واپس آنے سے بالکل غافل ہو یا واپس تو آنا چاہتا ہو ليکن متردد ہو کہ دس دن رہے یا نہيں یا اس جگہ دس دن رہنے اور وہاں سے سفر کرنے سے غافل ہو تو ضروری ہے کہ جانے سے لے کر واپسی تک اور واپسی کے بعد بھی اپنی نمازیں پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٠ اگر کوئی مسافر اس خيال سے کہ ا س کے ساتهی کسی جگہ دس دن رہنا چاہتے ہيں وہ بھی اس جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نمازپڑھنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس کے ساتهيوں کا ایسا کوئی ارادہ نہيں تو اگرچہ وہ خود بھی وہاں رہنے کا خيال ترک کر دے،ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۶ ١ اگر کوئی مسافر اتفاقا کسی جگہ تيس دن رہ جائے اس طرح سے کہ تيس کے تيس دنوں ميں وہاں سے چلے جانے یا وہاں رہنے کے بارے ميں متردد ہو تو تيس د ن گزرنے کے بعد اگر چہ وہ تهوڑی سی مدت ہی وہاں رہے ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٢ جو مسافر نو دن یا اس سے کم مدت کے لئے ایک جگہ رہنا چاہتا ہو اگر وہ اس جگہ نو دن یا اس سے کم مدت گزارنے کے بعد نو دن یا اس سے کم مدت کے لئے دوبارہ وہاں رہنے کاارادہ کرے اور اسی طرح تيس دن گزر جائيں تو ضروری ہے کہ اکتيسویں دن سے نماز پوری پڑھے۔

۲۲۳

مسئلہ ١٣ ۶ ٣ تيس دن گزرنے کے بعد مسافر کے لئے پوری نماز پڑھنا اس صور ت ميں ضروری ہے جب وہ تيس دن ایک ہی جگہ رہا ہو لہٰذا اگر اس نے اس مدت کا کچھ حصہ ایک جگہ اور کچھ دوسری جگہ گزارا ہو تو تيس دن کے بعد بھی ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

نماز مسافر کے مختلف مسائل

مسئلہ ١٣ ۶۴ مسافر قدیم شہر مکہ جو ”عقبہ مدنيين “سے ”ذی طوی“تک ہے ،حضرت رسول خدا(ص)کے دور کے مدینے،شہر کوفہ اور سيد الشهداء حضرت امام حسين عليہ السلام کے روضہ مطہر ميں اپنی نمازیں پوری بھی پڑھ سکتا ہے اور قصر بھی جب کہ پوری نماز پڑھنا افضل ہے ۔اگر چہ مسجدالحرام اورمسجد نبوی(ص)سے باہر حتی ائمہ عليهم السلام کے دور کے بعد کی توسيعات ميں اور مسجدکوفہ سے باہر اور حضرت سيدالشهداء عليہ السلام کی ضریح مقدس کے اطراف سے دور احوط یہ ہے کہ نماز پوری نہ پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۶۵ جو شخص جانتا ہو کہ مسافر ہے اور اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے اگر سابقہ مسئلہ ميں مذکورہ چار جگہوں کے علاوہ کسی مقام پر جان بوجه کر اپنی نماز پوری پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں،اگر یہ بھول جائے کہ مسافر کی نماز قصر ہے اور پوری پڑھ لے تو وقت گزرنے سے پهلے یاد آنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر وقت کے بعد یاد آئے تو اس کی قضا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٣ ۶۶ جو شخص جانتا ہو کہ مسافر ہے اور اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے اگر بھول کر پوری نماز پڑھ لے تو وقت گزرنے سے پهلے متوجہ ہونے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہے ،البتہ اگر وقت کے بعد متوجہ ہو تو اس کی قضا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٧ جس مسافر کو یہ علم نہ ہو کہ اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے اگر وہ پوری پڑھ لے تو اس کی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٨ جس مسافر کو یہ تو علم ہو کہ اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے ليکن وہ نماز قصر کی بعض خصوصيات سے واقف نہ ہو مثلاًنہ جانتا ہو کہ آٹھ فرسخ کے سفر ميں قصر پڑھنی ضروری ہے ، چنانچہ اگر وہ نماز پوری پڑھ لے اور وقت کے اندر یہ بات اسے معلوم ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور دوبارہ نہ پڑھنے کی صورت ميں قضا کرے،البتہ اگر وقت گزرنے کے بعد یہ بات معلوم ہو تو قضا نہيں کرنی۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٩ جس مسافر کو یہ علم ہو کہ اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے اگر یہ گمان کرتے ہوئے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ سے کم ہے پوری نماز پڑھے اور وقت کے اندر اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ تھا تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ قصر پڑھے اور دوبارہ نہ پڑھنے کی صورت ميں اس کی قضا کرے،البتہ اگر وقت گزرنے کے بعد معلوم ہو تو قضا کرنا ضروری نہيں ۔

۲۲۴

مسئلہ ١٣٧٠ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ وہ مسافر ہے اور نماز پوری پڑھ لے اور وقت کے اندر یہ بات یاد آجائے تو ضروری ہے کہ اس نماز کو دوبارہ قصر کر کے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس کی قضا کرے ليکن اگر نماز کے وقت کے بعد یہ بات یاد آئے تو اس کی قضا کرنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٣٧١ وہ شخص جسے نمازپوری پڑھنی ضروری ہے اگر وہ اس نماز کو قصر بجالائے تو اس کی نمازباطل ہے ، ليکن اگر وہ مسافر جو کسی جگہ دس دن قيام کا ارادہ رکھتا ہو اور مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز قصر بجا لائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ دوبارہ پوری نمازپڑھے۔

مسئلہ ١٣٧٢ جو شخص چار رکعتی نماز ميں مشغول ہو اور دوران نماز اسے یاد آئے کہ وہ مسافر ہے یا اس بات کی جانب متوجہ ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے تو تيسری رکعت کے رکوع ميں نہ جانے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز کو دو رکعت پر ختم کردے اور اگر اضافی قرائت یا تسبيحات اربعہ پڑھی ہيں تو احتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بھی بجا لائے۔

اور اگر تيسری رکعت کے رکوع ميں جا چکا ہو تو اس کی نمازباطل ہے ۔پس اگر اس کے پاس ایک رکعت جتنا بھی وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نئے سرے سے قصر نمازپڑھے اور اگر اتنا وقت بھی نہ ہو تو قصر نمازکی قضا انجام دے۔

مسئلہ ١٣٧٣ جو مسافر نماز مسافر کی بعض خصوصيات سے واقف نہ ہو مثلاًنہ جانتا ہو کہ چار فرسخ جانے اور چار فرسخ واپس آنے کی صورت ميں نمازقصر پڑھنا ضروری ہے ،اگر وہ چار رکعت کی نيت سے نماز پڑھنے ميں مشغول ہو جائے اور تيسری رکعت کے رکوع ميں جانے سے پهلے اسے مسئلہ معلوم ہو جائے تو ضروری ہے کہ اپنی نمازدو رکعت پر ختم کر دے اور اضافی قرائت یا تسبيحات اربعہ انجام دینے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پردو سجدہ سهو بجا لائے اور اگر مسئلہ اسے رکوع ميں معلوم ہو تو اس کی نمازباطل ہے ،اوراگر اس کے پاس ایک رکعت نماز پڑھنے کا وقت بھی باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے اور اگر ایک رکعت کا وقت بھی باقی نہ ہو تو اس نمازکی قضا قصر بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٧ ۴ وہ مسافر جسے پوری نمازپڑھنی ضروری ہے اگر مسئلے سے لا علمی کی وجہ سے دو رکعت کی نيت سے نماز پڑھنے ميں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے مسئلہ معلوم ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ نماز کو چار رکعت مکمل کرے۔

مسئلہ ١٣٧ ۵ وہ مسافر جس نے ابهی نماز نہ پڑھی ہو اگر وہ نمازکا وقت ختم ہونے سے پهلے اپنے وطن پهنچ جائے یا ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا ارادہ دس روز رہنے کاہو تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے اور وہ شخص جو مسافر نہيں ہے اگر اول وقت ميں اس نے نماز نہ پڑھی ہو اورسفر پرجائے تو ضروری ہے کہ وہ سفر ميں قصر نماز پڑھے۔

۲۲۵

مسئلہ ١٣٧ ۶ وہ مسافر جس کے لئے نماز قصر پڑھنی ضروری ہے اگر اس کی ظهر،عصر یا عشا کی نماز قضا ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان کی قضا بھی دو رکعت ہی پڑھے اگر چہ اس وقت قضا کرے جب سفر ميں نہ ہو اور جو شخص مسافر نہيں ہے اگر اس کی تينوں ميں سے کوئی ایک نماز قضا ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان کی قضا بھی چار رکعت ہی پڑھے چاہے قضا پڑھتے وقت سفر ميں ہو۔

مسئلہ ١٣٧٧ نماز ی کے لئے مستحب ہے کہ ہر نماز کے بعد تيس مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰه وَلاَ اِلٰهَ اِلاَّاللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ “ کهے اور مسافر کے لئے قصر نمازوں کے بعد یہ ذکر پڑھنا مستحب مؤکد ہے ۔

قضا نماز

مسئلہ ١٣٧٨ جس شخص نے واجب نمازیں ان کے وقت ميں نہ پڑھی ہوں ضروری ہے کہ ان کی قضا کر ے اگرچہ وہ نماز کے پورے وقت ميں سوتا رہا ہو یا مستی یا اختياری بے ہوشی کی وجہ سے نماز نہ پڑھ پایا ہو،ليکن جو نمازیں عورت نے حيض یا نفاس کی حالت ميں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا واجب نہيں ہے خواہ وہ پنچگانہ نماز یں ہوں یا کوئی اور نماز،ليکن احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ زلزلے اور گرج چمک کی وجہ سے واجب ہونے والی نماز آیات کو ادا وقضا کی نيت کے بغير بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٧٩ اگر نمازکا وقت گزرنے کے بعد کسی کو یہ علم ہو جائے کہ جو نماز اس نے پڑھی وہ باطل تھی تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٨٠ وہ شخص جس پر کسی نمازکی قضا واجب ہے ضروری ہے کہ اس کے پڑھنے ميں کوتاہی نہ کرے ليکن یہ بھی واجب نہيں ہے کہ فوراً ان کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٨١ جس شخص پر کسی نمازکی قضاواجب ہو وہ مستحب نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٣٨٢ اگر انسان کو احتما ل ہو کہ اس کے ذمے قضا نماز باقی ہے یا یہ احتمال ہوکہ جو نمازیں اس نے پڑھی تہيں وہ صحيح نہيں تہيں تو احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٣٨٣ پنجگانہ نماز کی قضا ميں ترتيب ضروری نہيں ہے سوائے ان نمازوں ميں جن ميں ترتيب ضروری ہے جيسے ایک ہی دن کی ظہر وعصر یا مغرب وعشا کی نماز، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کے علاوہ دوسری نمازوں ميں بھی ترتيب کا لحاظ رکھا جائے۔

مسئلہ ١٣٨ ۴ جو شخص پنجگانہ نمازوں کے علاوہ چند دوسری نمازوں جيسے نماز آیات کی قضا کرنا چاہے یا مثال کے طور پر یہ چاہے کہ کسی ایک پنجگانہ نماز اور چند دوسری نمازوں کی قضا کرے تو اسے ترتيب سے بجا لانا ضروری نہيں ہے ۔

۲۲۶

مسئلہ ١٣٨ ۵ اگر کوئی شخص قضا شدہ نمازوں کی ترتيب بھول جائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ ان نمازوں کو اس طرح پڑھے کہ اسے یقين ہو جائے کہ جس ترتيب سے وہ قضا ہوئی تہيں اسی ترتيب سے انجام دی گئيں ہيں ، مثلاً اگر ایک ظہر اور ایک مغرب کی نماز کی قضا اس پر واجب ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی پهلے قضا ہوئی تھی تو پهلے ایک نماز مغرب، پھر اس کے بعد ایک ظہر اور دوبارہ نماز مغرب پڑھے یا پهلے ایک نماز ظهر،پہر ایک نماز مغرب اور دوبارہ نماز ظہر پڑھے تاکہ اسے یہ یقين ہو جائے کہ جو نمازپهلے قضا ہوئی تھی وہ پهلے پڑھی گئی ہے ۔

مسئلہ ١٣٨ ۶ اگر کسی شخص کی ایک دن کی نمازظہر اور کسی دوسرے دن کی نمازعصر یا دو نمازظہر یا دو نمازعصر قضا ہوئی ہوں اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی نماز پهلے قضا ہوئی ہے تو اگر وہ شخص دو چار رکعتی نماز یں اس نيت سے پڑھے کہ ان ميں پهلی پهلے دن کی قضا ہے اور دوسری دوسرے دن کی قضا ہے تو یہ ترتيب حاصل ہونے کے لئے کافی ہے ۔

مسئلہ ١٣٨٧ اگر کسی شخص کی ایک نمازِ ظہر اور ایک نمازعشا قضا ہو جائے یا ایک نمازعصر اور ایک نماز عشا قضا ہو جائے اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ پهلے کون سی قضا ہوئی ہے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں اس طرح سے پڑھے کہ ترتيب حاصل ہو جائے اور ترتيب کے بارے ميں یقين پيدا کرنے کے لئے مثلاًظہر و عشا کی مثال ميں وہ اس طرح کر سکتا ہے کہ پهلے نماز ظہر اور پھر اس کے بعد نماز عشا اور دوبارہ نماز ظہر پڑھے یا پهلے نماز عشا پھر نماز ظہر اور دوبارہ نمازعشا پڑھے۔

مسئلہ ١٣٨٨ جو شخص یہ تو جانتا ہو کہ اس نے ایک چار رکعتی نماز نہيں پڑھی ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ وہ ظہر کی نماز ہے یا عصر کی تو اگر وہ ایک چار رکعتی نماز اس قضا نمازکی نيت سے بجا لائے جو اس نے نہيں پڑھی تو یهی کافی ہے ۔اسی طرح اگر وہ یہ نہ جانتا ہو کہ جو نماز نہيں پڑھی وہ ظہر کی تھی یا عشا کی تب بھی یهی حکم ہے اور اس صورت ميں اسے اختيار ہے کہ وہ نماز بلند آواز سے پڑھے یا آهستہ پڑھے۔

مسئلہ ١٣٨٩ جس شخص کی مسلسل پانچ نماز یں قضا ہو جائيں اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ان ميں سے کون سی نمازپهلے قضا ہوئی تهی،اگر وہ نو نمازیں ترتيب سے پڑھے مثلاًنماز صبح سے ابتدا کرتے ہوئے ظهر،عصر،مغرب وعشا پڑھنے کے بعد دوبارہ نمازصبح،ظهر،عصر اور مغرب پڑھے تو اسے ترتيب حاصل ہونے کا یقين ہوجائے گا۔اسی طرح جس شخص کی مسلسل چھ نماز یں قضا ہوئی ہو ں اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ان ميں سے کون سی نماز پهلے قضا ہوئی تھی تو ترتيب کا یقين حاصل کرنے کے لئے د س نمازیں ترتيب سے پڑھے۔اسی طرح قضا نماز وں کی تعداد ميں بڑھنے والی هرنمازکے لئے جو ترتيب سے قضا ہوئی ہوں ایک نمازکا اضافہ کرتا چلا جائے تاکہ ترتيب حاصل ہونے کا یقين ہو جائے۔

۲۲۷

مسئلہ ١٣٩٠ جس شخص کو علم ہو کہ پنجگانہ نمازوں ميں سے ہر نمازکسی ایک دن قضا ہوئی ہے ليکن وہ ان کی ترتيب نہ جانتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ پانچ دن کی قضا نماز یں پڑھے اور اگر کسی شخص کی چھ نمازیں چھ دنوں ميں قضا ہوئی ہو ں تو چھ دن کی قضا نمازیں پڑھے اور اسی طرح قضا نمازوں کی تعداد ميں بڑھنے والی ہر نمازکے لئے ایک دن کی نماز قضا کرے۔اس طرح اسے ترتيب حاصل ہونے کا یقين ہو جائے گا،مثلاًاگر سات نمازیں سات دنوں ميں قضا ہوئی ہيں تو سات دن کی نمازیں قضا پڑھے۔

ہر دن کی نماز کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ اگر نمازان دنوں ميں قضا ہوئی ہے جب وہ وطن یا اس کے حکم ميں تھا تو ایک دو رکعتی،ایک تين رکعتی اور ظہر وعصر وعشا کے لئے ایک چار رکعتی نمازپڑھ لے، جب کہ اگر نماز سفر کے دنوں ميں قضا ہوئی ہو تو ایک تين رکعتی اور فجر وظہر وعصر وعشا کے لئے ایک دو رکعتی نماز پڑھ لے۔

مسئلہ ١٣٩١ جس شخص کی مثلاًچند صبح یا ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور اسے ان کی تعداد کا علم نہ ہو یا ان کی تعداد بھول گيا ہو مثال کے طور پر وہ نہ جانتا ہو کہ تين یا چار یا پانچ نمازیں قضا ہوئی ہيں ،اگر وہ شخص کم مقدار کے اعتبار سے بھی وہ نمازیں پڑھ لے تو کافی ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی نمازیں پڑھے کہ اسے یہ یقين ہوجائے کہ ساری قضا نمازیں پڑھ لی ہيں خصوصا جب اسے پهلے مقدار کے بارے ميں یقين تھا اور بعدميں بھول گيا ہو۔

مسئلہ ١٣٩٢ جس شخص کی گذشتہ دنوں ميں صر ف ایک نماز قضاہوئی ہو احتياط مستحب یہ ہے کہ امکان کی صورت ميں پهلے اسے بجا لائے اس کے بعد اس دن کی نماز پڑھے۔نيز اگر گذشتہ دنوں ميں کوئی نماز قضا نہ ہوئی ہو ليکن اسی دن کی ایک یا اس سے زیادہ نمازیں قضا ہوئی ہوں تب بھی امکان کی صورت ميں مستحب ہے کہ اس دن کی قضا نماز،ادا نمازسے پهلے پڑھے اور دونوں صورتوں ميں اگر کيفيت یہ ہو کہ پنجگانہ نماز کی فضيلت کا وقت گزر جائے گا تو بہتر یہ ہے کہ پهلے پنجگانہ نمازادا کی جائے۔

مسئلہ ١٣٩٣ اگر کسی شخص کو نمازکے دوران یہ بات یاد آجائے کہ اس کی اس دن کی ایک یا ایک سے زیادہ نمازیں قضا ہوئی ہيں یا گذشتہ دنوں کی صرف ایک قضانماز باقی ہے تو اگر نماز کا وقت وسيع ہو اور نيت کو قضا نمازکی طرف پلٹانا ممکن ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ قضا نماز کی نيت کر لے مثلاًاگر کسی شخص کو ظہر کی نماز ميں تيسری رکعت کے رکوع سے پهلے یہ بات یاد آجائے کہ اس دن کی صبح کی نمازقضا ہو گئی ہے اور نماز کا وقت کم نہ ہو تو اپنی نيت صبح کی نماز کی طرف پلٹا دے اور نماز دو رکعت پر تمام کرے اور اس کے بعد نمازظہر پڑھے ليکن اگر وقت کم ہو یا قضا نماز کی طرف نيت پلٹانا ممکن ہی نہ ہو مثلاًاسے نمازِ ظہر کی تيسری رکعت کے رکوع ميں یہ بات یاد آئے کہ اس نے صبح کی نماز نہيں پڑھی ہے تو چونکہ نماز صبح کی طرف نيت کرنے سے ایک رکوع جو کہ رکن ہے ،زیادہ ہو جائے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ نماز صبح کی طرف نيت نہ پلٹائے۔

۲۲۸

مسئلہ ١٣٩ ۴ اگر کسی شخص کی گذشتہ دنوں کی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور اس دن کی بھی ایک یا ایک سے زیادہ نمازیں اس سے قضا ہوئی ہوں اور ان سب کو بجا لانے کے لئے اس کے پاس وقت نہ ہو یا وہ سب نمازوںکو اس روز نہ پڑھنا چاہتا ہو تو مستحب ہے کہ ادا نماز سے پهلے اسی روز کی قضا نمازیں پڑھے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ گذشتہ دنوں کی نمازیں پڑھنے کے بعد ان قضا نمازوں کو جواس دن ادا نمازسے پهلے پڑھی تہيں دوبارہ بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٩ ۵ جب تک انسان زندہ ہے کوئی دوسرا شخص اس کی قضا نمازیں نہيں پڑھ سکتا ہے خواہ وہ اپنی نمازیں پڑھنے سے عاجز ہی کيوں نہ ہو۔

مسئلہ ١٣٩ ۶ قضا نماز باجماعت پڑھی جا سکتی ہے خواہ امام جماعت کی نماز ادا ہو یا قضااور یہ بھی ضروری نہيں ہے کہ وہ دونوں ایک ہی نماز پڑہيں بلکہ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص صبح کی قضا نمازکو امام کی ظہر یا عصر کے ساته پڑھے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٣٩٧ مستحب ہے کہ مميز بچے کو یعنی وہ بچہ جو اچھے برے کی تميز رکھتا ہو،نماز پڑھنے اور دوسری عبادا ت بجا لانے کی عادت ڈالی جائے بلکہ مستحب ہے کہ اسے قضا شدہ نمازیں پڑھنے کے لئے بھی کها جائے۔

باپ کی قضا نماز جو بڑے بيٹے پر واجب ہے

مسئلہ ١٣٩٨ اگر باپ نے اپنی واجب نمازوںکو انجام نہ دیا ہو جب کہ وہ ان کی قضا کرنے پر قادر تھا اور چاہے ، احتياط کی بناپر، خدا کی نا فرمانی کرتے ہوئے انہيں ترک کيا ہو یا وہ نمازیں صحيح نہ بجا لایا ہو تو اس کے بڑے بيٹے پر واجب ہے کہ اس کے مرنے کے بعد خود ان نمازوں کو انجام دے یا کسی شخص سے اجرت پر پڑھوائے، ليکن ماں کی قضا نمازیں بڑے بيٹے پر واجب نہيں ہيں اگر چہ احوط ہے ۔

مسئلہ ١٣٩٩ اگر بڑے بيٹے کو شک ہو کہ باپ کے ذمے قضا نمازیں تہيں یا نہيں تو اس پر کوئی چيز واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٠٠ اگر بڑے بيٹے کو یہ تو معلوم ہو کہ باپ کی قضا نمازیں تہيں ليکن شک کرے کہ وہ انہيں بجا لایا تھا یا نہيں تواحتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٠١ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ بڑا بيٹا کون ہے تو باپ کی قضا نمازیں کسی بيٹے پر بھی واجب نہيں ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نمازیں واجبِ کفائی کے طور پر بجا لائيں یا آپس ميں تقسيم کر ليں یا ا س کو انجام دینے کے لئے قرعہ اندازی کر ليں۔

مسئلہ ١ ۴ ٠٢ اگر ميت نے وصيت کی ہو کہ اس کی قضا نمازوں کے لئے کسی شخص کو اجير بنایا جائے تو اجير کے صحيح طریقے سے نمازیں پڑھ لينے کے بعد بڑے بيٹے پر کچھ واجب نہيں ہے ۔

۲۲۹

مسئلہ ١ ۴ ٠٣ اگر بڑا بيٹا اپنے ماں باپ کی قضا نمازیں پڑھنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داری کے مطابق عمل کرے،مثال کے طور پر وہ اپنی ماں کی صبح، مغرب اور عشا کی قضا نمازیں بلند آواز سے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٠ ۴ جس شخص کے ذمے قضا نماز ہو اگر وہ اپنے ماں باپ کی قضا نمازیں بھی پڑھنا چاہے تو جسے بھی پهلے بجا لائے صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٠ ۵ اگر بڑا بيٹا باپ کی موت کے وقت نابالغ یا دیوانہ ہو تو ضروری ہے کہ بالغ یا عاقل ہونے کے بعد باپ کی قضا نمازیں پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٠ ۶ اگر بڑا بيٹا باپ کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے ہی مر جائے تو دوسرے بيٹوں پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

نماز جماعت

مسئلہ ١ ۴ ٠٧ مستحب ہے کہ واجب نمازوں خصوصا پنچگانہ نمازوں کو باجماعت پڑھا جائے اورصبح اور عشا کی نماز ميں اور مسجد کے پڑوس ميں رہنے والے کے لئے اور اس شخص کے لئے جو اذان کی آواز سن رہا ہو نماز جماعت کی بہت تاکيد کی گئی ہے اور اسی طرح بعض روایات کے مطابق نماز مغرب با جماعت پڑھنے کی بھی بہت تاکيد کی گئی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٠٨ نمازجماعت فرادیٰ نمازسے چوبيس ( ٢ ۴ ) درجہ افضل ہے اور پچيس( ٢ ۵ ) نمازوں کے برابرہے اور بعض روایات ميں اس طرح آیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:”جو شخص نماز جماعت پڑھنے کے لئے کسی مسجد ميں جائے تو ہر قدم کے بدلے اس کو ستر ہزار حسنہ مليں گے اور اسی طرح ستر ہزار درجات بھی مليں گے اور اگر وہ ایسی حالت ميں مرجائے تو خداوند عالم اس کے اوپر ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے کہ اس کی قبر پر جائيں اور اس کو جنت کی خوشخبری دیں اور قبر کی تنهائی ميں اس کے مونس ویاور ہوں اور اس کے لئے اس دن تک استغفار کریں جس دن اس کو قبر سے اٹھ ایا جائے گا۔

مسئلہ ١ ۴ ٠٩ لا پرواہی کی وجہ سے نماز جماعت ميں حاضر نہ ہونا جائز نہيں ہے اور بغير کسی عذر کے نماز جماعت کو ترک کرنا سزاوار نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١٠ مستحب ہے کہ انسان صبر کرے تاکہ نمازبا جماعت پڑھے اور جب تک نماز کی فضيلت کا وقت باقی ہو، نماز جماعت اس فرادیٰ نمازسے بہتر ہے جو اول وقت ميں پڑھی جا رہی ہو اور اسی طرح وہ نماز جماعت جو مختصر طور پر پڑھی جارہی ہو اس فرادیٰ نمازسے بہتر ہے جو طول دے کر پڑھی جارہی ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ١١ جس شخص نے اپنی نماز پڑھ لی ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ جب جماعت قائم ہو تو وہ اپنی نماز دوبارہ جماعت کے ساته پڑھے اور اگر نماز کے بعد اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی پهلی نمازباطل تھی تو دوسری نماز اس کے لئے کافی ہے ۔

۲۳۰

مسئلہ ١ ۴ ١٢ اگر پيش امام یا مقتدی ایک نماز جماعت کے ساته پڑھنے کے بعد دوبارہ اپنی نماز کو جماعت کے ساته پڑھنا چاہيں تو اگر پهلی والی نمازباطل ہونے کا احتمال نہ ہو تو جائز نہيں ہے ، البتہ اگر دوسری جماعت ميں امام بن کر نماز پڑھائے اور اقتدا کرنے والوں ميں ایسے افراد بھی ہو ں جنہوں نے ابهی تک واجب نماز نہ پڑھی ہو تو امام کے لئے دوبارہ نمازپڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١٣ جس شخص کو نماز ميں اس قدر وسوسہ ہوتا ہو کہ اس کی نماز باطل ہو جاتی ہو اور صرف جماعت کے ساته نماز پڑھنے سے اس کا وسوسہ دور ہوتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز باجماعت پڑھے اور اگر وسوسہ سے نماز باطل نہيں ہوتی تب بھی احتياط واجب یہ ہے کہ نمازجماعت کے ساته پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ١ ۴ اگر ماںباپ اپنے بيٹے کو حکم دیں کہ وہ نمازکو جماعت کے ساته پڑھے تو نمازجماعت سے نہ پڑھنا اگر ماں یا باپ کی اذیت کا سبب بنتا ہو تو ان کی مخالفت حرام ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١ ۵ مستحب نماز جماعت کے ساته نہيں پڑھی جا سکتی، ليکن نماز استسقا جو کہ بارش آنے کے لئے پڑھتے ہيں ، اسے جماعت کے ساته پڑھ سکتے ہيں ۔ اسی طرح وہ نمازجو پهلے واجب رہی ہو اور بعد ميں کسی وجہ سے مستحب ہوگئی ہو جيسے عيد فطر اور عيد قربان کی نمازکہ جو امام عليہ السلام کے زمانے ميں واجب تھی اور غيبت کی وجہ سے مستحب ہو گئی ہے اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١ ۶ جب امام نماز پنجگانہ ميں سے کوئی نمازجماعت کے ساته پڑھ رہا ہو تو اس کے پيچهے نماز پنجگانہ ميں سے کوئی بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١٧ اگر امام اپنی یا کسی دوسرے شخص کی نمازپنجگانہ قضا پڑھ رہا ہو اور اس نمازکا قضا ہونا بھی یقينی ہو تو اس کی اقتدا کی جاسکتی ہے ليکن اگر امام احتياطا قضا پڑھ رہا ہو تو اس کی اقتدا کرنا جائز نہيں ہے مگر یہ کہ ماموم بھی احتياطاً نماز پڑھ رہا ہو اور دونوں کی احتياط کا سبب بھی ایک ہی ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ١٨ اگر انسان نہ جانتا ہو کہ کوئی شخص جو نماز پڑھ رہا ہے وہ یوميہ واجب نمازهے یا کوئی مستحب نماز ہے تو اس کے پيچهے اقتدا نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ١ ۴ ١٩ نمازجماعت کے صحيح ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ امام اور مقتدی کے درميان اور اسی طرح ایک ماموم او ر دوسرے ایسے ماموم کے درميان جو امام اور ماموم کے درميان واسطہ ہے کوئی ایسی چيز حائل نہ ہو جو دیکھنے ميں رکاوٹ ہو۔ مثلاًپردہ یا دیوار وغيرہ پس اگر نمازکی تمام یا بعض حالتوں ميں امام او رماموم یا ماموم اور ایسے دوسرے ماموم کے درميان جو اتصال کا ذریعہ ہو کوئی چيز حائل ہو تو نماز جماعت باطل ہے اور جيسا کہ بعد ميں بيان کيا جائے گا عورت اس حکم سے مستثنی ہے ۔

۲۳۱

مسئلہ ١ ۴ ٢٠ اگر پهلی صف لمبی ہونے کی وجہ سے اس کے دونوں اطراف کھڑے ہوئے اشخاص امام جماعت کو نہ دیکھ سکيں تب بھی ان کی جماعت صحيح ہے اور اسی طرح کسی بھی صف کی لمبائی کی وجہ سے اس کے دونوں طرف کھڑے ہوئے اشخاص اگر اپنی اگلی صف کو نہ دیکھ سکيں تو ان کی بھی جماعت صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢١ اگر جماعت کی صفيں مسجد کے دروازے تک پهنچ جائيں تو جو شخص دروازے پر صف کے پيچهے کهڑا ہو اس کی نماز صحيح ہے ۔ اور ان لوگوں کی نماز بھی صحيح ہے جو اس شخص کے پيچهے کھڑے ہوکر نمازپڑھ رہے ہوں بلکہ وہ لوگ جو دونوں اطراف ميں کھڑے ہيں اور جماعت سے متصل ہيں ، ان کی بھی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢٢ جو شخص ستون کے پيچهے کهڑا ہو اگر وہ دائيں یا بائيں جانب سے کسی مقتدی کے ذریعے امام سے متصل نہ ہو تو وہ اقتدا نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ١ ۴ ٢٣ ضروری ہے کہ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ماموم کی جگہ سے اونچی نہ ہو ليکن اگر معمولی سی مثلاً ایک بالشت سے کم اونچی ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔ نيز اگر زمين ڈهلوان والی ہو اور امام اونچی طرف کهڑا ہو تو اگر ڈهلوان زیادہ نہ ہو اور ا س زمين کو ہموار کها جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢ ۴ اگر ماموم کی جگہ امام کی جگہ سے اونچی ہوتو کوئی اشکال نہيں البتہ اگر اتنی اونچی ہو کہ اسے جماعت کهنا ہی مشکوک ہو جائے تو جماعت کا قصد نہيں کيا جاسکتا۔

مسئلہ ١ ۴ ٢ ۵ اگر ایک صف ميں کھڑے ہوئے افراد کے درميان کوئی ایسا شخص موجود ہو جس کی نمازباطل ہے یا ایسا مميز بچہ موجود ہوجس کی نماز صحيح ہونے کا علم نہ ہو تو اس صورت ميں کہ دوسرے ماموم کے ذریعے سے اتصال برقرار نہ ہو، احتياط واجب کی بنا پر اقتدا نہيں کی جا سکتی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢ ۶ امام جماعت کے تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد اگر آگے والی صف نماز اور تکبيرةالاحرام کهنے کے لئے تيار ہو تو وہ شخص جو بعد والی صف ميں کهڑا ہو وہ تکبيرة الاحرام کہہ سکتا ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ انتظار کرے تاکہ وہ شخص یا اشخاص جو آگے والی صف ميں اس کے اتصال کا ذریعہ ہوں تکبير کہہ ليں۔

مسئلہ ١ ۴ ٢٧ اگر کوئی شخص یہ جانتا ہو کہ آگے والی صفوں ميں سے کسی ایک صف کی نمازباطل ہے تو وہ بعد والی صفوں ميں اقتدا نہيں کرسکتا، ليکن اگر وہ نہ جانتا ہو کہ ان کی نمازصحيح ہے یا نہيں تو اقتدا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢٨ جب کسی شخص کومعلوم ہوجائے کہ امام جماعت کی نمازباطل ہے مثلااسے یہ معلوم ہوجائے کہ امام جماعت نے وضو نہيں کيا ہے تو اگرچہ خود امام اس چيز کی طرف متوجہ نہ ہو اس کی اقتدا نہيں کی جاسکتی ہے ۔

۲۳۲

مسئلہ ١ ۴ ٢٩ اگر نماز کے بعد ماموم کو یہ علم ہو جائے کہ امام جماعت عادل نہ تھا یا کافر تھا یا کسی اور وجہ سے اس کی نماز باطل تھی مثلاً اس نے وضو کے بغير نماز پڑھ لی تھی تو ماموم کی نمازاس صورت ميں صحيح ہے کہ اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس کی وجہ سے فرادیٰ نماز باطل ہوجاتی ہو، جيسے رکوع زیادہ کرنا۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٠ اگر نماز کے دوران کوئی شخص شک کرے کہ اقتدا کی ہے یانہيں تو ضروری ہے کہ وہ نماز کو فرادیٰ کی نيت سے پورا کرے، ليکن اگر کسی وجہ سے اسے اطمينان ہوجائے کہ جماعت کی نيت کی ہے تو نماز کو جماعت کی نيت سے پورا کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٣١ اگر کوئی شخص نمازجماعت ميں تشهد کے دوران اور امام کے سلام کهنے سے پهلے فرادیٰ نماز کی طرف عدول کرنا چاہے تو اگر وہ ابتدا سے عدول کی نيت سے نہ رکھتا ہو توکوئی حرج نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص عذر رکھتا ہو تو وہ تشهد سے پهلے تک عدول کر سکتا ہے ، ليکن ان دو صورتوں کے علاوہ عدول کرنا محل اشکال ہے ، خواہ وہ ابتدا سے عدول کی نيت رکھتا ہویا نماز کے دوران عدول کی نيت کرے، البتہ اگر وہ فرادیٰ شخص کے وظيفے پر عمل کرے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص قرائت کا موقع گزر جانے کے بعد فرادیٰ نماز کی طرف عدول کرے اور ابتدا سے فرادیٰ کا قصد نہ رکھتا ہو تو اس کی نماز قرائت چھوڑنے کے اعتبار سے صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٢ اگر مقتدی امام کی الحمد اور سورہ ختم ہونے سے پهلے نمازفرادیٰ کی نيت کرے تو خواہ امام الحمد یا سورہ کا کچھ حصہ پڑھ چکا ہو، ضروری ہے کہ مقتدی الحمد اور سورہ دوبارہ پڑھے۔

اور اسی طرح اگر امام کی الحمد اورسورہ ختم ہونے کے بعد اور رکوع ميں جانے سے پهلے اگر وہ فرادیٰ کی نيت کرے تب بھی احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٣ اگر کوئی شخص نمازجماعت کے ساته فرادیٰ کی نيت کرے تو دوبارہ جماعت کی نيت نہيں کرسکتا، البتہ اگر وہ متردد ہوجائے کہ فرادیٰ کی نيت کرے یا نہيں تو اگر چہ وہ بعد ميں نمازجماعت کے ساته تمام کرنے کا مصمم ارادہ بھی کر لے، اس کی جماعت محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣ ۴ اگر کوئی شخص شک کرے کہ نماز کے دوران اس نے فرادیٰ کی نيت کی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ ا س نے فرادیٰ کی نيت نہيں کی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣ ۵ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع ميں ہو اور وہ امام کے رکوع ميں پهنچ جائے تو خواہ امام نے رکوع کا ذکر پڑھ ليا ہو اس کی نماز اور جماعت دونوں صحيح ہيں اور یہ ایک رکعت شمار ہوگی، البتہ اگر وہ رکوع کی مقدار تک جھکے ليکن امام کے رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۲۳۳

مسئلہ ١ ۴ ٣ ۶ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع ميں ہو اور وہ رکوع کی مقدار تک جھکے اور شک کرے کہ امام کے رکوع ميں پهنچا ہے یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٧ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع ميں ہو اور اس سے پهلے کہ رکوع کی حد تک جھکے امام رکوع سے سر اٹھ الے تو ضروری ہے کہ امام کے ساته ہی سجدے ميں جائے اور امام کی اگلی رکعت کو اپنی پهلی رکعت قرار دے اور احتياط واجب یہ ہے کہ امام کی پيروی کے بعد جب (اگلی رکعت کے لئے) کهڑا ہو تو قربت مطلقہ کی نيت سے، جو چاہے تکبيرة الاحرام ہو یا ذکر، تکبير کهے۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٨ اگر کوئی شخص نماز کی ابتدا ہی سے یا الحمد اور سورے کے درميان اقتدا کرے اور رکوع کی مقدار ميں جانے سے پهلے ہی امام اپنا سر رکوع سے اٹھ ا لے تو اگر وہ تاخير کرنے ميں عذر رکھتاہو تو اس کی نماز اور جماعت صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٩ اگرکوئی شخص جماعت کے لئے اس وقت پهنچے جب امام جماعت کا آخری تشهد پڑھ رہا ہو اور وہ شخص یہ چاہتا ہو کہ جماعت کا ثواب حاصل کرے تو ضروری ہے کہ اقتدا کی نيت اور تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد بيٹھ جائے اور تشهد کو احتياط واجب کی بنا پر قربت مطلقہ کی نيت سے واجب تشهد یا ذکر کی نيت کے بغير امام کے ساته پڑھے، ليکن سلام نہ پهيرے اور انتظار کرے تاکہ امام نماز کا سلام پڑھ لے۔ اس کے بعد وہ شخص کهڑا ہو جائے اور دوبارہ نيت اور تکبيرة الاحرام کهے بغير الحمد اور سورہ پڑھے اور اسے اپنی نماز کی پهلی رکعت شمار کرے۔

مسئلہ ١ ۴۴ ٠ ضروری ہے کہ ماموم امام سے آگے نہ کهڑا ہو اور اگر ماموم صرف ایک شخص ہوتو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ امام کی دائيں جانب کهڑا ہو اوراس کا امام کے پيچهے کهڑا ہونا ضروری نہيں ہے ۔ ہاں، اگر کسی شخص کا قد امام سے بلند ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ اس طرح کهڑا ہو کہ رکوع اور سجدے ميں امام سے آگے نہ ہو اور اگر مامومين زیادہ ہوں تو اس کا حکم ”مسئلہ ١ ۴ ٨٨ “ميں بيان کياجائے گا۔

مسئلہ ١ ۴۴ ١ اگر امام مرد اور ماموم عورت ہو تو اگر اس عورت اور امام کے درميان یا اس عورت اور دوسرے مقتدی مرد کے درميان جو اس عورت کے اتصال کا ذریعہ ہے ، کوئی پردہ یا اس جيسی کوئی دوسری چيز حائل ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۴ ٢ اگر نماز جماعت شروع ہونے کے بعد امام اور ماموم کے درميان یا امام اور اس شخص کے درميان جو امام سے اتصال کا ذریعہ ہو پردہ یا کوئی اور چيز حائل ہوجائے تو جماعت باطل ہے اور اس کی نماز فرادیٰ ہوجائے گی اور ضروری ہے کہ وہ فرادیٰ نمازپڑھنے والے کے وظيفے پر عمل کرے۔

۲۳۴

مسئلہ ١ ۴۴ ٣ اقوی یہ ہے کہ مقتدی کے سجدے کی جگہ اور امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کے درميان ایک بڑے قدم سے زیادہ فاصلہ نہ ہو۔ اسی طرح اگر انسان ایک ایسے مقتدی کے واسطے سے جو اس کے آگے کهڑا ہو اما م سے متصل ہو تب بھی یهی حکم ہے (یعنی ایک لمبے قدم سے زیادہ فاصلہ نہ ہو)اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ماموم کے سجدے کی جگہ او راس سے آگے کھڑے ہونے والے شخص کی جگہ کے درميان کوئی فاصلہ نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۴۴۴ اگر ماموم ایک ایسے شخص کے ذریعے سے امام سے متصل ہو جس نے اس کی دائيں یا بائيں سمت ميں اقتدا کی ہے اور سامنے سے امام سے متصل نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس شخص سے جو اس کی دائيں یا بائيں سمت کهڑ اہو ایک بڑے قدم سے زیادہ فاصلہ نہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۴۴۵ اگر نماز کے دوران امام اور ماموم کے درميان یا ماموم اور دوسرے مامو م کے درميان جو اس کے سامنے کهڑا ہے ایک لمبے قدم سے زیادہ فاصلہ ہوجائے توجماعت باطل ہے اور ضروری ہے کہ فرادیٰ کی نيت کرے اور نماز کو فرادیٰ پڑھے۔ اسی طرح اگر ایک ماموم اور دوسرے ایسے ماموم کے درميان جو اس کے دائيں یا بائيں جانب کهڑا ہے اور امام سے اتصال کا ذریعہ ہے ایک لمبے قدم سے زیادہ فاصلہ ہوجائے تب بھی بنابر احتياط و اجب یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۴۶ اگر اگلی صف ميں کھڑے ہوئے تمام لوگوں کی نمازختم ہوجائے اور بعد والی صف ميں کھڑے ہوئے لوگوں کے درميان اور جن کی نماز تمام ہوئی ہے ان سے اگلی صف ميں کھڑے ہوئے لوگوں کے درميان کا فاصلہ ایک بڑے قدم کے برابریا اس سے کم ہو تو جن لوگوں کی نماز ختم ہوئی ہے اگر وہ فورا دوسری نمازکے لئے اما م کی اقتدا کر ليں تو بعد والی صف کی جماعت صحيح ہے اور اگر مذکورہ مقدار سے زیادہ فاصلہ ہو تو بعد والی صف کی جماعت باطل ہے اور ان کی نمازفرادیٰ ہوجائے گی۔

مسئلہ ١ ۴۴ ٧ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا ء کرے جب امام کی دوسری رکعت ہو تو اس سے الحمد اور سورہ ساقط ہيں اور ضروری ہے کہ اما م سے پهلے رکوع ميں نہ جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ امام کے تشهد سے پهلے کهڑا نہ ہو اور وہ شخص قنوت اور تشهد امام کے ساته پڑھ سکتا ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اما م کے تشهد کے وقت اپنی ہاتھ کی انگليوں اور پاؤں کے تلوے کے اگلے حصے کو زمين پر رکھے اور اپنے گھٹنوں کو اٹھ الے اور ضروری ہے کہ امام کے ساته کهڑا ہو اور الحمداور سورہ پڑھے اور اگر سورہ پڑھنے کا وقت نہ ہوتو الحمد کو تمام کرے اور امام کے رکوع ميں پهنچ جائے اور اگر امام کے رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو احتياط واجب کی بنا پر فرادیٰ کا قصد کرے۔

۲۳۵

مسئلہ ١ ۴۴ ٨ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام چار رکعتی نمازکی دوسری رکعت ميں ہو تو ضروری ہے کہ اپنی نماز کی دوسری رکعت ميں جو کہ امام کی تيسری رکعت ہے ، دو سجدے کرنے کے بعدبيٹھ جائے اور واجب مقدار کی حد تک تشهد پڑھ کر کهڑا ہوجائے اور اگر تين مرتبہ تسبيحات اربعہ نہ پڑھ سکتا ہو تو ایک مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھ کر امام کے رکوع ميں پهنچ جائے اور اگر امام کے رکوع ميں نہ پهنچ پائے تو احتياط واجب کی بنا پر فرادیٰ نماز کا قصد کرے۔

مسئلہ ١ ۴۴ ٩ اگر امام تيسری یا چوتھی رکعت ميں مشغول ہو اور ماموم یہ جانتاہو، بلکہ صرف احتمال دے رہا ہوکہ اگر وہ اقتدا کرلے اور الحمد پڑھے تو امام کے رکوع ميں نہيں پهنچ پائے گا تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام رکوع ميں چلا جائے اور اس کے بعد اقتدا کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٠ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام تيسری یا چوتھی رکعت کے قيام ميں ہو تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر سورہ کے ليے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ صر ف الحمد پڑھے اورامام کے رکوع ميں پهنچ جائے اور اگر کوئی رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو احتياط واجب کی بنا پر فرادیٰ نماز کا قصد کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ١ جو شخص جانتا ہو کہ اگر وہ سورہ یا قنوت کو تما م کرے تو امام کے رکوع ميں نہيں پهنچ سکے گا اور وہ عمداسورہ یا قنوت پڑھے اور رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن ضروری ہے کہ فرادیٰ شخص کے وظيفے کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٢ جس شخص کو اطمينان ہو کہ اگر سورہ شروع کرے یا اسے تما م کرے تو امام کے رکوع ميں پهنچ جائے گا تو احتياط واجب یہ ہے کہ سورہ شروع کرے یا اگر شروع کر ليا ہوتو اسے مکمل کرے، ليکن اگر امام کے رکوع ميں نہ پهنچ پارہا ہو توسورہ شروع کرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اسے تمام نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٣ جو شخص یقين رکھتا ہو کہ اگر وہ سورہ پڑھے تو امام کے رکوع ميں پهنچ جائے گا اور سورہ پڑھے لے اور اما م کے رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو اس کی جماعت صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۵۴ اگر امام قيام کی حالت ميں ہو اور ماموم یہ نہ جانتا ہو کہ وہ کون سی رکعت ميں ہے تو وہ اقتدا کر سکتا ہے ، ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ الحمد اور سورہ جزء نماز یا قرائت قرآن کی عمومی نيت کے ساته پڑھے، اگر چہ بعد ميں معلوم ہو جائے کہ امام کی پهلی یا دوسری رکعت تھی۔

۲۳۶

مسئلہ ١ ۴۵۵ اگر کوئی شخص اس خيال سے کہ امام پهلی یا دوسری رکعت ميں ہے الحمد او رسورہ نہ پڑھے اور رکوع کے بعد اسے یہ معلوم ہوجائے کہ امام تيسری یا چوتھی رکعت ميں تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر رکوع سے پهلے یہ معلوم ہو جائے کہ امام تيسری یا چوتھی رکعت ميں ہے تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور وقت کم ہونے کی صورت ميں صرف الحمد پڑھے اور رکوع ميں پهنچ جائے اور اگر الحمد پڑھنے کا بھی وقت نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر فرادیٰ نماز کا قصد کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵۶ اگر کوئی شخص اس خيال سے کہ امام تيسری یا چوتھی رکعت ميں ہے الحمد یا سورہ پڑھ لے اور رکوع سے پهلے یا اس کے بعد اسے یہ معلوم ہو جائے کہ امام پهلی یا دوسری رکعت ميں تھا تو اس کی نمازصحيح ہے اورا گر الحمد اور سورہ پڑھنے کے درميان یہ معلوم ہو جائے تو ضروری ہے کہ بقيہ حصہ نہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٧ اگر کوئی شخص مستحب نمازپڑھ رہا ہو اورجماعت کهڑی ہو جائے اور اسے یہ اطمينان نہ ہوکہ اگر نماز کو تمام کر لے تو جماعت کو پا لے گا تو مستحب ہے کہ وہ شخص مستحب نماز کو چھوڑ دے اور جماعت ميں شریک ہوجائے، بلکہ اگر اسے یہ اطمينان نہ ہو کہ پهلی رکعت ميں شریک ہوسکے گا تب بھی مستحب ہے کہ اسی حکم پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٨ اگر کوئی شخص تين رکعتی یا چار رکعتی نمازپڑھ رہا ہو اور جماعت قائم ہوجائے، تو اگر ابهی تيسری رکعت کے رکوع ميں نہ گيا ہو اور اسے یہ اطمينان نہ ہو کہ اگر نماز کو تمام کرلے تو جماعت ميں شریک ہو جائے گا، مستحب ہے کہ وہ شخص مستحب نماز کی نيت سے اپنی نماز کو دو رکعت پر تمام کرے اور جماعت ميں شریک ہوجائے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٩ اگر امام کی نماز ختم ہو جائے اور ماموم تشهد یا پهلا سلام پڑھنے ميں مشغول ہو تو ضروری نہيں کہ فرادیٰ نماز کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٠ اگر کوئی شخص امام سے ایک رکعت پيچهے ہو اور جس وقت امام آخری رکعت کا تشهد پڑھ رہا ہو وہ فرادیٰ نماز کا قصد نہ کرے تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اپنی انگليوں اور پاؤں کے تلووں کا اگلا حصہ زمين پر رکھے اور گھٹنوں کو اٹھ ا کررکھے اور امام کے سلام پڑھنے کا انتظا ر کرے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور اگر اسی وقت فرادیٰ نماز کا قصد کرنا چاہے تو کوئی حرج نہيں ہے ، ليکن اگر ابتدا ہی سے فرادیٰ کا قصد تھا تو محل اشکال ہے ۔

امام جماعت کے شرائط

مسئلہ ١ ۴۶ ١ ضروری ہے کہ امام جماعت بالغ، عاقل، شيعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہو۔

اسی طرح اگر اقتدا نماز کی ابتدائی دو رکعات ميں ہو اور ماموم کی قرائت صحيح ہو تو ضروری ہے کہ امام کی قرائت بھی صحيح ہو۔

۲۳۷

اس کے علاوہ صورت ميں بهی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔ نيز اگر ماموم مرد ہوتو ضروری ہے کہ امام بھی مرد ہو اور نماز ميت کے علاوہ کسی دوسری نماز ميں عورت کا کسی دوسری عورت کی امامت کرنامکروہ ہے ۔هاں، نمازميت ميں اگر عورت سے زیادہ ميت کے لئے کوئی دوسرا سزاوار نہ ہو تو مکروہ نہيں ہے اور مميز بچہ جو اچھے اور برے کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے کسی دوسرے مميز بچے کی اقتدا ميں نماز پڑھ سکتا ہے اور جماعت کا اثر مترتب ہونا وجہ سے خالی نہيں ليکن احوط اثر کا مترتب نہ ہونا ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٢ اگر کوئی شخص کسی امام کو عادل سمجھتا تھا اگر شک کرے کہ وہ اب بھی اپنی عدالت پر باقی ہے یا نہيں تو وہ اس کی اقتدا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٣ جو شخص کهڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو کسی ایسے شخص کی اقتدا نہيں کرسکتا جو بيٹھ کر یا ليٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اور جو شخص بيٹھ کر نمازپڑھ رہا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا نہيں کرسکتا جو ليٹ کر نمازپڑھ رہا ہو۔

مسئلہ ١ ۴۶۴ جو شخص بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا کر سکتا ہے جو بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اوراسی طرح جو شخص ليٹ کر نمازپڑھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا کر سکتا ہے جوليٹ کر نماز پڑھتا ہو۔ اسی طرح جو شخص بيٹھ کر نماز پڑھتا ہو وہ ایسے شخص کی اقتدا کر سکتا ہے جو کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہو، ليکن جو شخص ليٹ کر نمازپڑھتا ہو وہ ایسے شخص کی اقتدا نہيں کرسکتا جو بيٹھ کر نماز پڑھتا ہو۔

مسئلہ ١ ۴۶۵ اگر امام جماعت کسی مجبوری کی وجہ سے نجس لباس یا تيمم یا وضو جبيرہ کے ساته نمازپڑھ رہا ہو تو اس کی اقتدا کی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶۶ اگر امام کسی بيماری کی وجہ سے اپنا پيشاب یا پاخانہ نہ روک سکتا ہو تو اس کی اقتدا کی جاسکتی ہے اور جو عورت مستحاضہ نہ ہو وہ مستحاضہ عورت کی اقتدا کر سکتی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٧ وہ شخص جو جذام یابرص کا مریض ہو اس کی اقتدا ميں نمازپڑھنا مکروہ ہے اور وہ شخص جس پر شرعی حد جاری ہوچکی ہو اس کی اقتدا کرنا جائز نہيں ہے ۔

جماعت کے احکام

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ ضروری ہے کہ ماموم نماز کی نيت کرتے وقت امام کو معين کرے ليکن اس کا نام جاننا ضروری نہيں مثلا اگروہ نيت کرے کہ ميں موجودہ امام کی اقتدا کرتاہوں تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٩ ضروری ہے کہ ماموم الحمد اور سورہ کے علاوہ تمام اذکار خود پڑھے، ليکن اگر ماموم کی پهلی یا دوسری رکعت، امام کی تيسری یا چوتھی رکعت ہو تو الحمد اور سورہ پڑھنا بھی ضروری ہے ۔

۲۳۸

مسئلہ ١ ۴ ٧٠ اگر ماموم نماز صبح، مغرب و عشا کی پهلی یا دوسری رکعت ميں امام کے الحمد اور سورہ پڑھنے کی آواز سن رہا ہو خواہ و ہ ان کلمات کو سمجھ نہ رہا ہو، ضروری ہے کہ وہ الحمد اور سورہ نہ پڑھے اور اگرامام کی آواز نہ سن رہا ہو تو مستحب ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے ليکن ضروری ہے کہ نماز کا جزء سمجھ کر نہ پڑھے اور ضروری ہے کہ آهستہ پڑھے اوراگر سهواً اونچی آواز سے پڑھ لے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧١ اگر ماموم امام کے الحمد اور سورہ کے بعض کلمات سن رہا ہو تو جن کلمات کو نہ سن سکے انہيں پڑھ سکتا ہے ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ الحمد اور سورہ نہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٢ اگر مامو م بھول کر الحمد اور سورہ پڑھ لے یا اس خيال سے کہ جو آواز وہ سن رہا ہے وہ امام کی آواز نہيں ہے الحمد اور سورہ پڑھ لے اور بعد ميں اسے معلوم ہوجائے کہ وہ امام کی آواز تھی تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٣ اگر مامو م شک کرے کہ امام کی آواز سن رہا ہے یا نہيں یا جو آواز سن رہا ہے اس کے بارے ميں یہ نہ جانتا ہوکہ یہ امام کی آواز ہے یا کسی اور کی آواز ہے تو وہ الحمد اورسورہ پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧ ۴ ضروری ہے کہ ماموم، نمازظہر اور عصر کی پهلی اور دوسری رکعت ميں الحمد اورسورہ نہ پڑھے اور مستحب ہے کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا ذکر پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧ ۵ ضروری ہے کہ ماموم تکبيرةالاحرام کوامام سے پهلے نہ کهے، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ جب تک امام کی تکبيرمکمل نہ ہوجائے تکبير نہ کهے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧ ۶ اگر ماموم بھول کرامام سے پهلے سلام پڑھ لے تو اس کی نماز صحيح ہے ، بلکہ اگر جان بوجه کر بھی امام سے پهلے سلام پڑھ لے تو اس صور ت ميں کہ ابتدا ہی سے عدول کا ارادہ نہ رکھتا ہو، اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٧ اگر مامو م تکبيرة الاحرام کے علاوہ دوسرے اذکار کو امام سے پهلے پڑھ لے تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر انہيں سن رہا ہو یا یہ جانتا ہو کہ امام انہيں کس وقت کهے گا تو احتياط مستحب یہ ہے کہ امام سے پهلے نہ کهے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٨ ضروری ہے کہ مامو م نماز ميں پڑھی جانے والی چيزوں کے علاوہ دوسرے افعال مثلارکوع و سجود، امام کے ساته یا امام کے تهوڑ ی دیر بعد بجا لائے اور اگر جان بوجه کر امام کے بعد یا اس کی کچھ مدت کے بعد انجام دے تو اس کی جماعت باطل ہوجائے گی، ليکن اگر اس نے فرادیٰ شخص کے وظيفے پر عمل کيا ہے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٩ اگر ماموم بھول کر امام سے پهلے ہی رکوع سے سر اٹھ ائے اور امام رکوع ميں ہی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ رکوع ميں جائے اور امام کے ساته رکوع سے سر اٹھ الے اور اس صور ت ميں رکوع کا زیادہ ہونا نماز کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر رکوع ميں واپس جائے او راس سے پهلے کہ وہ امام کے رکوع ميں پهنچے امام سر اٹھ الے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۲۳۹

مسئلہ ١ ۴ ٨٠ اگر ماموم غلطی سے سجدے سے سر اٹھ ا لے اور دیکھے کہ امام ابهی سجدے ميںہے تو ضروری ہے کہ دوبارہ سجدے ميں جائے اور اگر دونوں سجدوں ميں اتفاقاً ایسا ہی ہو جائے تو دوسجدے زیادہ ہونے کی وجہ سے نماز باطل نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١ ۴ ٨١ جوشخص غلطی سے امام سے پهلے اپنا سر سجدے سے اٹھ ا لے اور واپس سجدے ميں جائے اور اس سے پهلے کہ وہ سجدے ميں پهنچے امام اپنا سر اٹھ ا لے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر دونوں سجدوں ميں یهی اتفاق پيش آئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٢ اگر غلطی سے کوئی شخص اپنا سر رکوع یا سجدے سے اٹھ الے اور بھول کر یا اس خيال سے کہ امام کے سجدے یا رکوع ميں نہيں پهنچ پائے گا رکوع یا سجدے ميں نہ جائے تو اس کی جماعت اور نماز دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٣ اگر کوئی شخص اپنا سر سجدے سے اٹھ ا لے اور دیکھے کہ امام بھی سجدے ميں ہے چنانچہ اس خيال سے کہ یہ امام کا پهلا سجدہ ہے اور وہ شخص اس نيت سے کہ امام کے ساته سجدہ کرے، سجدے ميں چلا جائے اورا سے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ امام کا دوسرا سجدہ ہے تو یہ اس شخص کا دوسرا سجدہ ہی شمار ہوگا اور اگر اس خيال سے کہ یہ امام کا دوسرا سجدہ ہے سجدے ميں چلا جائے اور اسے یہ معلوم ہو کہ یہ امام کا پهلا سجدہ ہے تو ضروری ہے کہ امام کے ساته سجدہ کرنے کی نيت سے سجدہ کرے اور دوبارہ امام کے ساته سجدے ميں جائے اور دونوں صورتوں ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساته پڑھنے کے بعد دوبارہ بھی پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٨ ۴ اگر کوئی شخص بھول کر امام سے پهلے رکوع ميں چلا جائے اور حالت یہ ہو کہ اگر وہ اپنا سر اٹھ الے تو امام کی قرائت کے کچھ حصے ميں پهنچ جائے گا تو اگر وہ اپنا سر اٹھ الے اور امام کے ساته رکوع ميں چلاجائے تواس کی نماز اور جماعت دونوں صحيح ہيں اور اگر جان بوجه کر اپنا سرنہ اٹھ ائے تو اس کی نماز کا صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٨ ۵ اگر کوئی شخص بھول کر امام سے پهلے رکوع ميں چلا جائے او رحالت یہ ہو کہ اگر وہ اپنا سر اٹھ ا لے تو وہ امام کی قرائت ميں نہيں پهنچ سکے گا، اگر امام کی پيروی کرتے ہوئے اپنا سر اٹھ ا لے اور امام کے ساته رکوع ميں چلا جائے تو اس کی نماز اور جماعت دونوں صحيح ہيں اور اگر وہ انتظار کر لے تاکہ امام اس کے رکوع ميں پهنچ جائے تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن اس کی جماعت محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٨ ۶ اگر کوئی شخص بھول کر امام سے پهلے سجدے ميں چلا جائے اور امام کی پيروی کرنے کی نيت سے اپنا سر اٹھ ا لے اور امام کے ساته سجدے ميں جائے تو اس کی نماز اور جماعت دونوں صحيح ہيں اور اگر انتظار کرے تاکہ امام اس کے سجدے ميں پهنچ جائے تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن اس کی جماعت محل اشکال ہے ۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511