توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 0%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 511
مشاہدے: 167456
ڈاؤنلوڈ: 2376

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167456 / ڈاؤنلوڈ: 2376
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

مسئلہ ١٣ ۴۴ اگر کوئی مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو ضروری نہيں ہے کہ اس کا ارادہ پهلی رات یا گيارہویں رات وہاں رہنے کا ہو بلکہ جونهی وہ ارادہ کر لے پهلے دن کی ابتدا سے جو کہ احتياط واجب کی بنا پر طلوع فجر صادق کا وقت ہے ،دسویں دن کا سورج غروب ہونے تک وہاں رہے گا ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر اس کا ارادہ پهلے دن کی ظہر سے گيارہویں دن کی ظہر تک وہاں رہنے کا ہو تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٣ ۴۵ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو، اس کے لئے پوری نماز پڑھنا اس صورت ميں ضروری ہے کہ جب وہ سارے دن ایک ہی جگہ رہنا چاہتا ہو،پس اگر وہ مثال کے طور پر چاہے کہ دس دن نجف اور کوفہ یا تهران اور شميران ميں گزارے، جب کہ لوگوں کی نگاہ ميں یہ دو الگ جگہيں ہوں تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۴۶ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر وہ ابتدا سے ہی یہ ارادہ رکھتا ہو کہ ان دس دنوں ميں اس جگہ کے آس پاس ایسی جگہوں پر جائے گا جو حد تر خص سے چار فرسخ کے اندر ہو ں تو اگر اس کے آنے اور جانے کی مدت عرف کی نظر ميں اس کے وہاں دس دن قيام کے منافی نہ ہو مثلاًایک یا دو گهنٹہ،تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے ليکن اگر اس سے زیادہ مدت ہو تو پورا ایک دن یا پوری ایک رات ہونے کی صورت ميں بھی نماز قصر پڑھے، ليکن اس سے زیادہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نماز قصر بھی پڑھے اور پوری بهی۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٧ اگر کسی مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا پختہ ارادہ نہ ہو مثلاًاس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر اس کا ساتهی آگيا یا رہنے کا اچھا مکان مل گيا تو دس دن وہاں رہے گا ورنہ نہيں تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٨ جب کوئی شخص کسی جگہ دس دن رہنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہو اگر اسے اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے وہاں رہنے ميں کوئی رکاوٹ پيدا ہو جائے گی اور اس کا یہ احتمال عقلاءکے نزدیک صحيح ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۴ ٩ اگر مسافر کو معلوم ہو کہ مهينہ ختم ہونے ميں دس دن یا اس سے زیادہ دن باقی ہيں اور وہ مهينے کے آخر تک کسی جگہ رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے بلکہ اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ مهينہ ختم ہونے ميں کتنے دن باقی ہيں اور مهينے کے آخر تک وہاں رہنے کا ارادہ کر لے تو اس صورت ميں کہ اسے یہ تو معلوم ہو کہ مهينے کا آخری دن مثلاًجمعہ ہے ليکن یہ معلوم نہ ہو کہ جس دن وہ ارادہ کر رہا ہے وہ جمعرات کا دن ہے تاکہ نو د ن بنيںيا بده کا دن ہے تاکہ دس دن بنيں اور اسی طرح بعد ميں یہ معلوم ہو جانے کی صورت ميں بھی کہ جس دن اس نے قيام کا ارادہ کيا تھا وہ بده کا دن تھا ضروری ہے کہ نماز پور ی پڑھے اور اس صورت کے علاوہ اس کی ذمہ داری ہے کہ نماز قصرپڑھے خواہ ارادہ کرنے کے دن سے آخر تک حقيقت ميں دس یا اس سے زیادہ روز ہی ہوتے ہوں۔

۲۲۱

مسئلہ ١٣ ۵ ٠ اگر مسافر کسی جگہ دس دن رہنے کاارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے سے پهلے وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے یا متردد ہوجائے کہ وہاں رہے یا کہيں اور چلا جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے ليکن اگر ایک چار رکعتی نمازپڑھنے کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ ترک کرے یا متردد ہوجائے تو ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔

اس مسئلے اور بعد والے مسائل ميں چار رکعتی نمازسے مراد وہ نمازهے جو ادا کے طور پر پڑھی جا رہی ہو۔

مسئلہ ١٣ ۵ ١ وہ مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اور روزہ رکھ لے،اگر ظہر کے بعدوہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے چنانچہ اگر اس نے ایک چار رکعتی نماز پڑھ لی ہو تو جب تک وہاں رہے اس کے روزے صحيح ہيں اور ضروری ہے کہ اپنی نماز یں بھی پوری پڑھے اور اگر چار رکعتی نمازنہ پڑھی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس روزکا روزہ پورا کرے اور اس کی قضابهی کرے،جب کہ نمازوں کو ضروری ہے کہ قصر پڑھے اور بعد والے دنوں ميں بھی روزہ نہيں رکھ سکتا هے۔هاں،اگر سورج غروب ہونے کے بعداور چار رکعتی نمازپڑھنے سے پهلے اپنا ارادہ ترک کر دے تو اس روز کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٣ ۵ ٢ وہ مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر وہ وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے اور اس ترک ارادہ سے پهلے یا اس کے بعد شک کرے کہ ایک چار رکعتی نماز پڑھ چکا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنی نماز یں قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۵ ٣ اگر کوئی مسافر قصر کی نيت سے نماز پڑھنے ميں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران وہ فيصلہ کر لے کہ دس یا اس سے زیادہ دن وہاں رہے گا تو ضروری ہے کہ اپنی نماز چار رکعت پر ختم کرے۔

مسئلہ ١٣ ۵۴ جس مسافر نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر وہ پهلی چار رکعت نمازکے دوران اپنا ارادہ ترک کر دے اور ابهی تيسری رکعت ميں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ نماز دو رکعتی پڑھ کر تمام کرے اور اپنی بقيہ نماز یں قصر کر کے پڑھے اور اسی طرح اگر تيسری رکعت ميں مشغول ہو گيا ہو ليکن رکوع ميں نہ گيا ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ جائے اور نماز قصر پڑھ

کر تمام کرے اور اضافی قرائت یا تسبيح انجام دینے کی صور ت ميں احتياط واجب کی بناپر دو سجدہ سهو بجا لائے اور اگر وہ شخص تيسری رکعت کے رکوع ميں جا چکا ہو تو اس کی نمازباطل ہے اور ضروری ہے کہ اسے دوبارہ قصر پڑھے اور جب تک اس جگہ پر رہے اپنی نماز یں قصر کر کے پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۵۵ جس مسافر نے دس دن کسی جگہ رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر وہ وہاں دس دن سے زیادہ رہے تو جب تک وہاں سے سفر نہ کرے ضروری ہے کہ اپنی نمازیں پوری پڑھتا رہے اور دوبارہ دس دن رہنے کا ارادہ کرنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٣ ۵۶ جس مسافر نے کسی مقام پر دس دن قيام کا ارادہ کيا ہو ضروری ہے کہ اپنے واجب روزے رکھے جب کہ مستحب روزے بھی رکھ سکتا ہے اور ظهر،عصر اور عشا کے نوافل بھی ادا کر سکتا ہے ۔

۲۲۲

مسئلہ ١٣ ۵ ٧ جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہے اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے یا دس روز رہنے کے بعد خواہ اس نے ایک نماز بھی پوری نہ پڑھی ہو، کسی ایسی جگہ جا کر واپس آنا اور دوبارہ دس دن یا اس سے کم رہنا چاہتا ہو جس کا جانا اور آنا چار فرسخ سے کم ہو تو ضروری ہے کہ جانے سے واپسی تک اور واپسی کے بعد بھی اپنی نمازیں پوری پڑھے،ليکن اگر اس جگہ واپسی صرف اس لئے ہو کہ اس کے راستے ميں پڑتی ہے اور اس کا سفر شرعی مسافت ( ٨فرسخ )جتنا ہو تو ضروری ہے کہ نمازقصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۵ ٨ جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد کسی اور جگہ جانا چاہے جس کا فاصلہ آٹھ فرسخ سے کم ہواور دس دن وہاں رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ جانے کے دوران اور اس جگہ جهاں پر وہ دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو اپنی نمازیں پوری پڑھے، ليکن جس جگہ وہ جانا چاہتا ہو اگر آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ دور ہو تو ضروری ہے کہ جانے کے دوران اپنی نمازیں قصر پڑھے اور اگر وہاں دس دن نہ رہنا چاہتا ہو تو جتنے دن وہاں رہے ضروری ہے کہ ان دنوں کی نماز یں بھی قصر پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۵ ٩ جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کيا ہو اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانا چاہتا ہو جو چار فرسخ سے کم فاصلہ پر ہو ليکن وہ متردد ہو کہ پهلی جگہ پر واپس آئے یا نہيں یا اس جگہ واپس آنے سے بالکل غافل ہو یا واپس تو آنا چاہتا ہو ليکن متردد ہو کہ دس دن رہے یا نہيں یا اس جگہ دس دن رہنے اور وہاں سے سفر کرنے سے غافل ہو تو ضروری ہے کہ جانے سے لے کر واپسی تک اور واپسی کے بعد بھی اپنی نمازیں پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٠ اگر کوئی مسافر اس خيال سے کہ ا س کے ساتهی کسی جگہ دس دن رہنا چاہتے ہيں وہ بھی اس جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نمازپڑھنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس کے ساتهيوں کا ایسا کوئی ارادہ نہيں تو اگرچہ وہ خود بھی وہاں رہنے کا خيال ترک کر دے،ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۶ ١ اگر کوئی مسافر اتفاقا کسی جگہ تيس دن رہ جائے اس طرح سے کہ تيس کے تيس دنوں ميں وہاں سے چلے جانے یا وہاں رہنے کے بارے ميں متردد ہو تو تيس د ن گزرنے کے بعد اگر چہ وہ تهوڑی سی مدت ہی وہاں رہے ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٢ جو مسافر نو دن یا اس سے کم مدت کے لئے ایک جگہ رہنا چاہتا ہو اگر وہ اس جگہ نو دن یا اس سے کم مدت گزارنے کے بعد نو دن یا اس سے کم مدت کے لئے دوبارہ وہاں رہنے کاارادہ کرے اور اسی طرح تيس دن گزر جائيں تو ضروری ہے کہ اکتيسویں دن سے نماز پوری پڑھے۔

۲۲۳

مسئلہ ١٣ ۶ ٣ تيس دن گزرنے کے بعد مسافر کے لئے پوری نماز پڑھنا اس صور ت ميں ضروری ہے جب وہ تيس دن ایک ہی جگہ رہا ہو لہٰذا اگر اس نے اس مدت کا کچھ حصہ ایک جگہ اور کچھ دوسری جگہ گزارا ہو تو تيس دن کے بعد بھی ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔

نماز مسافر کے مختلف مسائل

مسئلہ ١٣ ۶۴ مسافر قدیم شہر مکہ جو ”عقبہ مدنيين “سے ”ذی طوی“تک ہے ،حضرت رسول خدا(ص)کے دور کے مدینے،شہر کوفہ اور سيد الشهداء حضرت امام حسين عليہ السلام کے روضہ مطہر ميں اپنی نمازیں پوری بھی پڑھ سکتا ہے اور قصر بھی جب کہ پوری نماز پڑھنا افضل ہے ۔اگر چہ مسجدالحرام اورمسجد نبوی(ص)سے باہر حتی ائمہ عليهم السلام کے دور کے بعد کی توسيعات ميں اور مسجدکوفہ سے باہر اور حضرت سيدالشهداء عليہ السلام کی ضریح مقدس کے اطراف سے دور احوط یہ ہے کہ نماز پوری نہ پڑھے۔

مسئلہ ١٣ ۶۵ جو شخص جانتا ہو کہ مسافر ہے اور اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے اگر سابقہ مسئلہ ميں مذکورہ چار جگہوں کے علاوہ کسی مقام پر جان بوجه کر اپنی نماز پوری پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں،اگر یہ بھول جائے کہ مسافر کی نماز قصر ہے اور پوری پڑھ لے تو وقت گزرنے سے پهلے یاد آنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر وقت کے بعد یاد آئے تو اس کی قضا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٣ ۶۶ جو شخص جانتا ہو کہ مسافر ہے اور اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے اگر بھول کر پوری نماز پڑھ لے تو وقت گزرنے سے پهلے متوجہ ہونے کی صورت ميں اس کی نماز باطل ہے ،البتہ اگر وقت کے بعد متوجہ ہو تو اس کی قضا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٧ جس مسافر کو یہ علم نہ ہو کہ اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے اگر وہ پوری پڑھ لے تو اس کی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٨ جس مسافر کو یہ تو علم ہو کہ اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے ليکن وہ نماز قصر کی بعض خصوصيات سے واقف نہ ہو مثلاًنہ جانتا ہو کہ آٹھ فرسخ کے سفر ميں قصر پڑھنی ضروری ہے ، چنانچہ اگر وہ نماز پوری پڑھ لے اور وقت کے اندر یہ بات اسے معلوم ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور دوبارہ نہ پڑھنے کی صورت ميں قضا کرے،البتہ اگر وقت گزرنے کے بعد یہ بات معلوم ہو تو قضا نہيں کرنی۔

مسئلہ ١٣ ۶ ٩ جس مسافر کو یہ علم ہو کہ اس کے لئے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے اگر یہ گمان کرتے ہوئے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ سے کم ہے پوری نماز پڑھے اور وقت کے اندر اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ تھا تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ قصر پڑھے اور دوبارہ نہ پڑھنے کی صورت ميں اس کی قضا کرے،البتہ اگر وقت گزرنے کے بعد معلوم ہو تو قضا کرنا ضروری نہيں ۔

۲۲۴

مسئلہ ١٣٧٠ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ وہ مسافر ہے اور نماز پوری پڑھ لے اور وقت کے اندر یہ بات یاد آجائے تو ضروری ہے کہ اس نماز کو دوبارہ قصر کر کے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس کی قضا کرے ليکن اگر نماز کے وقت کے بعد یہ بات یاد آئے تو اس کی قضا کرنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٣٧١ وہ شخص جسے نمازپوری پڑھنی ضروری ہے اگر وہ اس نماز کو قصر بجالائے تو اس کی نمازباطل ہے ، ليکن اگر وہ مسافر جو کسی جگہ دس دن قيام کا ارادہ رکھتا ہو اور مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز قصر بجا لائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ دوبارہ پوری نمازپڑھے۔

مسئلہ ١٣٧٢ جو شخص چار رکعتی نماز ميں مشغول ہو اور دوران نماز اسے یاد آئے کہ وہ مسافر ہے یا اس بات کی جانب متوجہ ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے تو تيسری رکعت کے رکوع ميں نہ جانے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز کو دو رکعت پر ختم کردے اور اگر اضافی قرائت یا تسبيحات اربعہ پڑھی ہيں تو احتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بھی بجا لائے۔

اور اگر تيسری رکعت کے رکوع ميں جا چکا ہو تو اس کی نمازباطل ہے ۔پس اگر اس کے پاس ایک رکعت جتنا بھی وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نئے سرے سے قصر نمازپڑھے اور اگر اتنا وقت بھی نہ ہو تو قصر نمازکی قضا انجام دے۔

مسئلہ ١٣٧٣ جو مسافر نماز مسافر کی بعض خصوصيات سے واقف نہ ہو مثلاًنہ جانتا ہو کہ چار فرسخ جانے اور چار فرسخ واپس آنے کی صورت ميں نمازقصر پڑھنا ضروری ہے ،اگر وہ چار رکعت کی نيت سے نماز پڑھنے ميں مشغول ہو جائے اور تيسری رکعت کے رکوع ميں جانے سے پهلے اسے مسئلہ معلوم ہو جائے تو ضروری ہے کہ اپنی نمازدو رکعت پر ختم کر دے اور اضافی قرائت یا تسبيحات اربعہ انجام دینے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پردو سجدہ سهو بجا لائے اور اگر مسئلہ اسے رکوع ميں معلوم ہو تو اس کی نمازباطل ہے ،اوراگر اس کے پاس ایک رکعت نماز پڑھنے کا وقت بھی باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے اور اگر ایک رکعت کا وقت بھی باقی نہ ہو تو اس نمازکی قضا قصر بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٧ ۴ وہ مسافر جسے پوری نمازپڑھنی ضروری ہے اگر مسئلے سے لا علمی کی وجہ سے دو رکعت کی نيت سے نماز پڑھنے ميں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران اسے مسئلہ معلوم ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ نماز کو چار رکعت مکمل کرے۔

مسئلہ ١٣٧ ۵ وہ مسافر جس نے ابهی نماز نہ پڑھی ہو اگر وہ نمازکا وقت ختم ہونے سے پهلے اپنے وطن پهنچ جائے یا ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا ارادہ دس روز رہنے کاہو تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے اور وہ شخص جو مسافر نہيں ہے اگر اول وقت ميں اس نے نماز نہ پڑھی ہو اورسفر پرجائے تو ضروری ہے کہ وہ سفر ميں قصر نماز پڑھے۔

۲۲۵

مسئلہ ١٣٧ ۶ وہ مسافر جس کے لئے نماز قصر پڑھنی ضروری ہے اگر اس کی ظهر،عصر یا عشا کی نماز قضا ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان کی قضا بھی دو رکعت ہی پڑھے اگر چہ اس وقت قضا کرے جب سفر ميں نہ ہو اور جو شخص مسافر نہيں ہے اگر اس کی تينوں ميں سے کوئی ایک نماز قضا ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان کی قضا بھی چار رکعت ہی پڑھے چاہے قضا پڑھتے وقت سفر ميں ہو۔

مسئلہ ١٣٧٧ نماز ی کے لئے مستحب ہے کہ ہر نماز کے بعد تيس مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰه وَلاَ اِلٰهَ اِلاَّاللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ “ کهے اور مسافر کے لئے قصر نمازوں کے بعد یہ ذکر پڑھنا مستحب مؤکد ہے ۔

قضا نماز

مسئلہ ١٣٧٨ جس شخص نے واجب نمازیں ان کے وقت ميں نہ پڑھی ہوں ضروری ہے کہ ان کی قضا کر ے اگرچہ وہ نماز کے پورے وقت ميں سوتا رہا ہو یا مستی یا اختياری بے ہوشی کی وجہ سے نماز نہ پڑھ پایا ہو،ليکن جو نمازیں عورت نے حيض یا نفاس کی حالت ميں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا واجب نہيں ہے خواہ وہ پنچگانہ نماز یں ہوں یا کوئی اور نماز،ليکن احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ زلزلے اور گرج چمک کی وجہ سے واجب ہونے والی نماز آیات کو ادا وقضا کی نيت کے بغير بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٧٩ اگر نمازکا وقت گزرنے کے بعد کسی کو یہ علم ہو جائے کہ جو نماز اس نے پڑھی وہ باطل تھی تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٨٠ وہ شخص جس پر کسی نمازکی قضا واجب ہے ضروری ہے کہ اس کے پڑھنے ميں کوتاہی نہ کرے ليکن یہ بھی واجب نہيں ہے کہ فوراً ان کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٨١ جس شخص پر کسی نمازکی قضاواجب ہو وہ مستحب نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٣٨٢ اگر انسان کو احتما ل ہو کہ اس کے ذمے قضا نماز باقی ہے یا یہ احتمال ہوکہ جو نمازیں اس نے پڑھی تہيں وہ صحيح نہيں تہيں تو احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٣٨٣ پنجگانہ نماز کی قضا ميں ترتيب ضروری نہيں ہے سوائے ان نمازوں ميں جن ميں ترتيب ضروری ہے جيسے ایک ہی دن کی ظہر وعصر یا مغرب وعشا کی نماز، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کے علاوہ دوسری نمازوں ميں بھی ترتيب کا لحاظ رکھا جائے۔

مسئلہ ١٣٨ ۴ جو شخص پنجگانہ نمازوں کے علاوہ چند دوسری نمازوں جيسے نماز آیات کی قضا کرنا چاہے یا مثال کے طور پر یہ چاہے کہ کسی ایک پنجگانہ نماز اور چند دوسری نمازوں کی قضا کرے تو اسے ترتيب سے بجا لانا ضروری نہيں ہے ۔

۲۲۶

مسئلہ ١٣٨ ۵ اگر کوئی شخص قضا شدہ نمازوں کی ترتيب بھول جائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ ان نمازوں کو اس طرح پڑھے کہ اسے یقين ہو جائے کہ جس ترتيب سے وہ قضا ہوئی تہيں اسی ترتيب سے انجام دی گئيں ہيں ، مثلاً اگر ایک ظہر اور ایک مغرب کی نماز کی قضا اس پر واجب ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی پهلے قضا ہوئی تھی تو پهلے ایک نماز مغرب، پھر اس کے بعد ایک ظہر اور دوبارہ نماز مغرب پڑھے یا پهلے ایک نماز ظهر،پہر ایک نماز مغرب اور دوبارہ نماز ظہر پڑھے تاکہ اسے یہ یقين ہو جائے کہ جو نمازپهلے قضا ہوئی تھی وہ پهلے پڑھی گئی ہے ۔

مسئلہ ١٣٨ ۶ اگر کسی شخص کی ایک دن کی نمازظہر اور کسی دوسرے دن کی نمازعصر یا دو نمازظہر یا دو نمازعصر قضا ہوئی ہوں اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی نماز پهلے قضا ہوئی ہے تو اگر وہ شخص دو چار رکعتی نماز یں اس نيت سے پڑھے کہ ان ميں پهلی پهلے دن کی قضا ہے اور دوسری دوسرے دن کی قضا ہے تو یہ ترتيب حاصل ہونے کے لئے کافی ہے ۔

مسئلہ ١٣٨٧ اگر کسی شخص کی ایک نمازِ ظہر اور ایک نمازعشا قضا ہو جائے یا ایک نمازعصر اور ایک نماز عشا قضا ہو جائے اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ پهلے کون سی قضا ہوئی ہے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں اس طرح سے پڑھے کہ ترتيب حاصل ہو جائے اور ترتيب کے بارے ميں یقين پيدا کرنے کے لئے مثلاًظہر و عشا کی مثال ميں وہ اس طرح کر سکتا ہے کہ پهلے نماز ظہر اور پھر اس کے بعد نماز عشا اور دوبارہ نماز ظہر پڑھے یا پهلے نماز عشا پھر نماز ظہر اور دوبارہ نمازعشا پڑھے۔

مسئلہ ١٣٨٨ جو شخص یہ تو جانتا ہو کہ اس نے ایک چار رکعتی نماز نہيں پڑھی ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ وہ ظہر کی نماز ہے یا عصر کی تو اگر وہ ایک چار رکعتی نماز اس قضا نمازکی نيت سے بجا لائے جو اس نے نہيں پڑھی تو یهی کافی ہے ۔اسی طرح اگر وہ یہ نہ جانتا ہو کہ جو نماز نہيں پڑھی وہ ظہر کی تھی یا عشا کی تب بھی یهی حکم ہے اور اس صورت ميں اسے اختيار ہے کہ وہ نماز بلند آواز سے پڑھے یا آهستہ پڑھے۔

مسئلہ ١٣٨٩ جس شخص کی مسلسل پانچ نماز یں قضا ہو جائيں اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ان ميں سے کون سی نمازپهلے قضا ہوئی تهی،اگر وہ نو نمازیں ترتيب سے پڑھے مثلاًنماز صبح سے ابتدا کرتے ہوئے ظهر،عصر،مغرب وعشا پڑھنے کے بعد دوبارہ نمازصبح،ظهر،عصر اور مغرب پڑھے تو اسے ترتيب حاصل ہونے کا یقين ہوجائے گا۔اسی طرح جس شخص کی مسلسل چھ نماز یں قضا ہوئی ہو ں اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ان ميں سے کون سی نماز پهلے قضا ہوئی تھی تو ترتيب کا یقين حاصل کرنے کے لئے د س نمازیں ترتيب سے پڑھے۔اسی طرح قضا نماز وں کی تعداد ميں بڑھنے والی هرنمازکے لئے جو ترتيب سے قضا ہوئی ہوں ایک نمازکا اضافہ کرتا چلا جائے تاکہ ترتيب حاصل ہونے کا یقين ہو جائے۔

۲۲۷

مسئلہ ١٣٩٠ جس شخص کو علم ہو کہ پنجگانہ نمازوں ميں سے ہر نمازکسی ایک دن قضا ہوئی ہے ليکن وہ ان کی ترتيب نہ جانتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ پانچ دن کی قضا نماز یں پڑھے اور اگر کسی شخص کی چھ نمازیں چھ دنوں ميں قضا ہوئی ہو ں تو چھ دن کی قضا نمازیں پڑھے اور اسی طرح قضا نمازوں کی تعداد ميں بڑھنے والی ہر نمازکے لئے ایک دن کی نماز قضا کرے۔اس طرح اسے ترتيب حاصل ہونے کا یقين ہو جائے گا،مثلاًاگر سات نمازیں سات دنوں ميں قضا ہوئی ہيں تو سات دن کی نمازیں قضا پڑھے۔

ہر دن کی نماز کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ اگر نمازان دنوں ميں قضا ہوئی ہے جب وہ وطن یا اس کے حکم ميں تھا تو ایک دو رکعتی،ایک تين رکعتی اور ظہر وعصر وعشا کے لئے ایک چار رکعتی نمازپڑھ لے، جب کہ اگر نماز سفر کے دنوں ميں قضا ہوئی ہو تو ایک تين رکعتی اور فجر وظہر وعصر وعشا کے لئے ایک دو رکعتی نماز پڑھ لے۔

مسئلہ ١٣٩١ جس شخص کی مثلاًچند صبح یا ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور اسے ان کی تعداد کا علم نہ ہو یا ان کی تعداد بھول گيا ہو مثال کے طور پر وہ نہ جانتا ہو کہ تين یا چار یا پانچ نمازیں قضا ہوئی ہيں ،اگر وہ شخص کم مقدار کے اعتبار سے بھی وہ نمازیں پڑھ لے تو کافی ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی نمازیں پڑھے کہ اسے یہ یقين ہوجائے کہ ساری قضا نمازیں پڑھ لی ہيں خصوصا جب اسے پهلے مقدار کے بارے ميں یقين تھا اور بعدميں بھول گيا ہو۔

مسئلہ ١٣٩٢ جس شخص کی گذشتہ دنوں ميں صر ف ایک نماز قضاہوئی ہو احتياط مستحب یہ ہے کہ امکان کی صورت ميں پهلے اسے بجا لائے اس کے بعد اس دن کی نماز پڑھے۔نيز اگر گذشتہ دنوں ميں کوئی نماز قضا نہ ہوئی ہو ليکن اسی دن کی ایک یا اس سے زیادہ نمازیں قضا ہوئی ہوں تب بھی امکان کی صورت ميں مستحب ہے کہ اس دن کی قضا نماز،ادا نمازسے پهلے پڑھے اور دونوں صورتوں ميں اگر کيفيت یہ ہو کہ پنجگانہ نماز کی فضيلت کا وقت گزر جائے گا تو بہتر یہ ہے کہ پهلے پنجگانہ نمازادا کی جائے۔

مسئلہ ١٣٩٣ اگر کسی شخص کو نمازکے دوران یہ بات یاد آجائے کہ اس کی اس دن کی ایک یا ایک سے زیادہ نمازیں قضا ہوئی ہيں یا گذشتہ دنوں کی صرف ایک قضانماز باقی ہے تو اگر نماز کا وقت وسيع ہو اور نيت کو قضا نمازکی طرف پلٹانا ممکن ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ قضا نماز کی نيت کر لے مثلاًاگر کسی شخص کو ظہر کی نماز ميں تيسری رکعت کے رکوع سے پهلے یہ بات یاد آجائے کہ اس دن کی صبح کی نمازقضا ہو گئی ہے اور نماز کا وقت کم نہ ہو تو اپنی نيت صبح کی نماز کی طرف پلٹا دے اور نماز دو رکعت پر تمام کرے اور اس کے بعد نمازظہر پڑھے ليکن اگر وقت کم ہو یا قضا نماز کی طرف نيت پلٹانا ممکن ہی نہ ہو مثلاًاسے نمازِ ظہر کی تيسری رکعت کے رکوع ميں یہ بات یاد آئے کہ اس نے صبح کی نماز نہيں پڑھی ہے تو چونکہ نماز صبح کی طرف نيت کرنے سے ایک رکوع جو کہ رکن ہے ،زیادہ ہو جائے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ نماز صبح کی طرف نيت نہ پلٹائے۔

۲۲۸

مسئلہ ١٣٩ ۴ اگر کسی شخص کی گذشتہ دنوں کی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور اس دن کی بھی ایک یا ایک سے زیادہ نمازیں اس سے قضا ہوئی ہوں اور ان سب کو بجا لانے کے لئے اس کے پاس وقت نہ ہو یا وہ سب نمازوںکو اس روز نہ پڑھنا چاہتا ہو تو مستحب ہے کہ ادا نماز سے پهلے اسی روز کی قضا نمازیں پڑھے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ گذشتہ دنوں کی نمازیں پڑھنے کے بعد ان قضا نمازوں کو جواس دن ادا نمازسے پهلے پڑھی تہيں دوبارہ بجا لائے۔

مسئلہ ١٣٩ ۵ جب تک انسان زندہ ہے کوئی دوسرا شخص اس کی قضا نمازیں نہيں پڑھ سکتا ہے خواہ وہ اپنی نمازیں پڑھنے سے عاجز ہی کيوں نہ ہو۔

مسئلہ ١٣٩ ۶ قضا نماز باجماعت پڑھی جا سکتی ہے خواہ امام جماعت کی نماز ادا ہو یا قضااور یہ بھی ضروری نہيں ہے کہ وہ دونوں ایک ہی نماز پڑہيں بلکہ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص صبح کی قضا نمازکو امام کی ظہر یا عصر کے ساته پڑھے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٣٩٧ مستحب ہے کہ مميز بچے کو یعنی وہ بچہ جو اچھے برے کی تميز رکھتا ہو،نماز پڑھنے اور دوسری عبادا ت بجا لانے کی عادت ڈالی جائے بلکہ مستحب ہے کہ اسے قضا شدہ نمازیں پڑھنے کے لئے بھی کها جائے۔

باپ کی قضا نماز جو بڑے بيٹے پر واجب ہے

مسئلہ ١٣٩٨ اگر باپ نے اپنی واجب نمازوںکو انجام نہ دیا ہو جب کہ وہ ان کی قضا کرنے پر قادر تھا اور چاہے ، احتياط کی بناپر، خدا کی نا فرمانی کرتے ہوئے انہيں ترک کيا ہو یا وہ نمازیں صحيح نہ بجا لایا ہو تو اس کے بڑے بيٹے پر واجب ہے کہ اس کے مرنے کے بعد خود ان نمازوں کو انجام دے یا کسی شخص سے اجرت پر پڑھوائے، ليکن ماں کی قضا نمازیں بڑے بيٹے پر واجب نہيں ہيں اگر چہ احوط ہے ۔

مسئلہ ١٣٩٩ اگر بڑے بيٹے کو شک ہو کہ باپ کے ذمے قضا نمازیں تہيں یا نہيں تو اس پر کوئی چيز واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٠٠ اگر بڑے بيٹے کو یہ تو معلوم ہو کہ باپ کی قضا نمازیں تہيں ليکن شک کرے کہ وہ انہيں بجا لایا تھا یا نہيں تواحتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٠١ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ بڑا بيٹا کون ہے تو باپ کی قضا نمازیں کسی بيٹے پر بھی واجب نہيں ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نمازیں واجبِ کفائی کے طور پر بجا لائيں یا آپس ميں تقسيم کر ليں یا ا س کو انجام دینے کے لئے قرعہ اندازی کر ليں۔

مسئلہ ١ ۴ ٠٢ اگر ميت نے وصيت کی ہو کہ اس کی قضا نمازوں کے لئے کسی شخص کو اجير بنایا جائے تو اجير کے صحيح طریقے سے نمازیں پڑھ لينے کے بعد بڑے بيٹے پر کچھ واجب نہيں ہے ۔

۲۲۹

مسئلہ ١ ۴ ٠٣ اگر بڑا بيٹا اپنے ماں باپ کی قضا نمازیں پڑھنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داری کے مطابق عمل کرے،مثال کے طور پر وہ اپنی ماں کی صبح، مغرب اور عشا کی قضا نمازیں بلند آواز سے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٠ ۴ جس شخص کے ذمے قضا نماز ہو اگر وہ اپنے ماں باپ کی قضا نمازیں بھی پڑھنا چاہے تو جسے بھی پهلے بجا لائے صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٠ ۵ اگر بڑا بيٹا باپ کی موت کے وقت نابالغ یا دیوانہ ہو تو ضروری ہے کہ بالغ یا عاقل ہونے کے بعد باپ کی قضا نمازیں پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٠ ۶ اگر بڑا بيٹا باپ کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے ہی مر جائے تو دوسرے بيٹوں پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

نماز جماعت

مسئلہ ١ ۴ ٠٧ مستحب ہے کہ واجب نمازوں خصوصا پنچگانہ نمازوں کو باجماعت پڑھا جائے اورصبح اور عشا کی نماز ميں اور مسجد کے پڑوس ميں رہنے والے کے لئے اور اس شخص کے لئے جو اذان کی آواز سن رہا ہو نماز جماعت کی بہت تاکيد کی گئی ہے اور اسی طرح بعض روایات کے مطابق نماز مغرب با جماعت پڑھنے کی بھی بہت تاکيد کی گئی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٠٨ نمازجماعت فرادیٰ نمازسے چوبيس ( ٢ ۴ ) درجہ افضل ہے اور پچيس( ٢ ۵ ) نمازوں کے برابرہے اور بعض روایات ميں اس طرح آیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:”جو شخص نماز جماعت پڑھنے کے لئے کسی مسجد ميں جائے تو ہر قدم کے بدلے اس کو ستر ہزار حسنہ مليں گے اور اسی طرح ستر ہزار درجات بھی مليں گے اور اگر وہ ایسی حالت ميں مرجائے تو خداوند عالم اس کے اوپر ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے کہ اس کی قبر پر جائيں اور اس کو جنت کی خوشخبری دیں اور قبر کی تنهائی ميں اس کے مونس ویاور ہوں اور اس کے لئے اس دن تک استغفار کریں جس دن اس کو قبر سے اٹھ ایا جائے گا۔

مسئلہ ١ ۴ ٠٩ لا پرواہی کی وجہ سے نماز جماعت ميں حاضر نہ ہونا جائز نہيں ہے اور بغير کسی عذر کے نماز جماعت کو ترک کرنا سزاوار نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١٠ مستحب ہے کہ انسان صبر کرے تاکہ نمازبا جماعت پڑھے اور جب تک نماز کی فضيلت کا وقت باقی ہو، نماز جماعت اس فرادیٰ نمازسے بہتر ہے جو اول وقت ميں پڑھی جا رہی ہو اور اسی طرح وہ نماز جماعت جو مختصر طور پر پڑھی جارہی ہو اس فرادیٰ نمازسے بہتر ہے جو طول دے کر پڑھی جارہی ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ١١ جس شخص نے اپنی نماز پڑھ لی ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ جب جماعت قائم ہو تو وہ اپنی نماز دوبارہ جماعت کے ساته پڑھے اور اگر نماز کے بعد اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی پهلی نمازباطل تھی تو دوسری نماز اس کے لئے کافی ہے ۔

۲۳۰

مسئلہ ١ ۴ ١٢ اگر پيش امام یا مقتدی ایک نماز جماعت کے ساته پڑھنے کے بعد دوبارہ اپنی نماز کو جماعت کے ساته پڑھنا چاہيں تو اگر پهلی والی نمازباطل ہونے کا احتمال نہ ہو تو جائز نہيں ہے ، البتہ اگر دوسری جماعت ميں امام بن کر نماز پڑھائے اور اقتدا کرنے والوں ميں ایسے افراد بھی ہو ں جنہوں نے ابهی تک واجب نماز نہ پڑھی ہو تو امام کے لئے دوبارہ نمازپڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١٣ جس شخص کو نماز ميں اس قدر وسوسہ ہوتا ہو کہ اس کی نماز باطل ہو جاتی ہو اور صرف جماعت کے ساته نماز پڑھنے سے اس کا وسوسہ دور ہوتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز باجماعت پڑھے اور اگر وسوسہ سے نماز باطل نہيں ہوتی تب بھی احتياط واجب یہ ہے کہ نمازجماعت کے ساته پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ١ ۴ اگر ماںباپ اپنے بيٹے کو حکم دیں کہ وہ نمازکو جماعت کے ساته پڑھے تو نمازجماعت سے نہ پڑھنا اگر ماں یا باپ کی اذیت کا سبب بنتا ہو تو ان کی مخالفت حرام ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١ ۵ مستحب نماز جماعت کے ساته نہيں پڑھی جا سکتی، ليکن نماز استسقا جو کہ بارش آنے کے لئے پڑھتے ہيں ، اسے جماعت کے ساته پڑھ سکتے ہيں ۔ اسی طرح وہ نمازجو پهلے واجب رہی ہو اور بعد ميں کسی وجہ سے مستحب ہوگئی ہو جيسے عيد فطر اور عيد قربان کی نمازکہ جو امام عليہ السلام کے زمانے ميں واجب تھی اور غيبت کی وجہ سے مستحب ہو گئی ہے اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١ ۶ جب امام نماز پنجگانہ ميں سے کوئی نمازجماعت کے ساته پڑھ رہا ہو تو اس کے پيچهے نماز پنجگانہ ميں سے کوئی بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١٧ اگر امام اپنی یا کسی دوسرے شخص کی نمازپنجگانہ قضا پڑھ رہا ہو اور اس نمازکا قضا ہونا بھی یقينی ہو تو اس کی اقتدا کی جاسکتی ہے ليکن اگر امام احتياطا قضا پڑھ رہا ہو تو اس کی اقتدا کرنا جائز نہيں ہے مگر یہ کہ ماموم بھی احتياطاً نماز پڑھ رہا ہو اور دونوں کی احتياط کا سبب بھی ایک ہی ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ١٨ اگر انسان نہ جانتا ہو کہ کوئی شخص جو نماز پڑھ رہا ہے وہ یوميہ واجب نمازهے یا کوئی مستحب نماز ہے تو اس کے پيچهے اقتدا نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ١ ۴ ١٩ نمازجماعت کے صحيح ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ امام اور مقتدی کے درميان اور اسی طرح ایک ماموم او ر دوسرے ایسے ماموم کے درميان جو امام اور ماموم کے درميان واسطہ ہے کوئی ایسی چيز حائل نہ ہو جو دیکھنے ميں رکاوٹ ہو۔ مثلاًپردہ یا دیوار وغيرہ پس اگر نمازکی تمام یا بعض حالتوں ميں امام او رماموم یا ماموم اور ایسے دوسرے ماموم کے درميان جو اتصال کا ذریعہ ہو کوئی چيز حائل ہو تو نماز جماعت باطل ہے اور جيسا کہ بعد ميں بيان کيا جائے گا عورت اس حکم سے مستثنی ہے ۔

۲۳۱

مسئلہ ١ ۴ ٢٠ اگر پهلی صف لمبی ہونے کی وجہ سے اس کے دونوں اطراف کھڑے ہوئے اشخاص امام جماعت کو نہ دیکھ سکيں تب بھی ان کی جماعت صحيح ہے اور اسی طرح کسی بھی صف کی لمبائی کی وجہ سے اس کے دونوں طرف کھڑے ہوئے اشخاص اگر اپنی اگلی صف کو نہ دیکھ سکيں تو ان کی بھی جماعت صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢١ اگر جماعت کی صفيں مسجد کے دروازے تک پهنچ جائيں تو جو شخص دروازے پر صف کے پيچهے کهڑا ہو اس کی نماز صحيح ہے ۔ اور ان لوگوں کی نماز بھی صحيح ہے جو اس شخص کے پيچهے کھڑے ہوکر نمازپڑھ رہے ہوں بلکہ وہ لوگ جو دونوں اطراف ميں کھڑے ہيں اور جماعت سے متصل ہيں ، ان کی بھی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢٢ جو شخص ستون کے پيچهے کهڑا ہو اگر وہ دائيں یا بائيں جانب سے کسی مقتدی کے ذریعے امام سے متصل نہ ہو تو وہ اقتدا نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ١ ۴ ٢٣ ضروری ہے کہ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ماموم کی جگہ سے اونچی نہ ہو ليکن اگر معمولی سی مثلاً ایک بالشت سے کم اونچی ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔ نيز اگر زمين ڈهلوان والی ہو اور امام اونچی طرف کهڑا ہو تو اگر ڈهلوان زیادہ نہ ہو اور ا س زمين کو ہموار کها جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢ ۴ اگر ماموم کی جگہ امام کی جگہ سے اونچی ہوتو کوئی اشکال نہيں البتہ اگر اتنی اونچی ہو کہ اسے جماعت کهنا ہی مشکوک ہو جائے تو جماعت کا قصد نہيں کيا جاسکتا۔

مسئلہ ١ ۴ ٢ ۵ اگر ایک صف ميں کھڑے ہوئے افراد کے درميان کوئی ایسا شخص موجود ہو جس کی نمازباطل ہے یا ایسا مميز بچہ موجود ہوجس کی نماز صحيح ہونے کا علم نہ ہو تو اس صورت ميں کہ دوسرے ماموم کے ذریعے سے اتصال برقرار نہ ہو، احتياط واجب کی بنا پر اقتدا نہيں کی جا سکتی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢ ۶ امام جماعت کے تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد اگر آگے والی صف نماز اور تکبيرةالاحرام کهنے کے لئے تيار ہو تو وہ شخص جو بعد والی صف ميں کهڑا ہو وہ تکبيرة الاحرام کہہ سکتا ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ انتظار کرے تاکہ وہ شخص یا اشخاص جو آگے والی صف ميں اس کے اتصال کا ذریعہ ہوں تکبير کہہ ليں۔

مسئلہ ١ ۴ ٢٧ اگر کوئی شخص یہ جانتا ہو کہ آگے والی صفوں ميں سے کسی ایک صف کی نمازباطل ہے تو وہ بعد والی صفوں ميں اقتدا نہيں کرسکتا، ليکن اگر وہ نہ جانتا ہو کہ ان کی نمازصحيح ہے یا نہيں تو اقتدا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٢٨ جب کسی شخص کومعلوم ہوجائے کہ امام جماعت کی نمازباطل ہے مثلااسے یہ معلوم ہوجائے کہ امام جماعت نے وضو نہيں کيا ہے تو اگرچہ خود امام اس چيز کی طرف متوجہ نہ ہو اس کی اقتدا نہيں کی جاسکتی ہے ۔

۲۳۲

مسئلہ ١ ۴ ٢٩ اگر نماز کے بعد ماموم کو یہ علم ہو جائے کہ امام جماعت عادل نہ تھا یا کافر تھا یا کسی اور وجہ سے اس کی نماز باطل تھی مثلاً اس نے وضو کے بغير نماز پڑھ لی تھی تو ماموم کی نمازاس صورت ميں صحيح ہے کہ اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس کی وجہ سے فرادیٰ نماز باطل ہوجاتی ہو، جيسے رکوع زیادہ کرنا۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٠ اگر نماز کے دوران کوئی شخص شک کرے کہ اقتدا کی ہے یانہيں تو ضروری ہے کہ وہ نماز کو فرادیٰ کی نيت سے پورا کرے، ليکن اگر کسی وجہ سے اسے اطمينان ہوجائے کہ جماعت کی نيت کی ہے تو نماز کو جماعت کی نيت سے پورا کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٣١ اگر کوئی شخص نمازجماعت ميں تشهد کے دوران اور امام کے سلام کهنے سے پهلے فرادیٰ نماز کی طرف عدول کرنا چاہے تو اگر وہ ابتدا سے عدول کی نيت سے نہ رکھتا ہو توکوئی حرج نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص عذر رکھتا ہو تو وہ تشهد سے پهلے تک عدول کر سکتا ہے ، ليکن ان دو صورتوں کے علاوہ عدول کرنا محل اشکال ہے ، خواہ وہ ابتدا سے عدول کی نيت رکھتا ہویا نماز کے دوران عدول کی نيت کرے، البتہ اگر وہ فرادیٰ شخص کے وظيفے پر عمل کرے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص قرائت کا موقع گزر جانے کے بعد فرادیٰ نماز کی طرف عدول کرے اور ابتدا سے فرادیٰ کا قصد نہ رکھتا ہو تو اس کی نماز قرائت چھوڑنے کے اعتبار سے صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٢ اگر مقتدی امام کی الحمد اور سورہ ختم ہونے سے پهلے نمازفرادیٰ کی نيت کرے تو خواہ امام الحمد یا سورہ کا کچھ حصہ پڑھ چکا ہو، ضروری ہے کہ مقتدی الحمد اور سورہ دوبارہ پڑھے۔

اور اسی طرح اگر امام کی الحمد اورسورہ ختم ہونے کے بعد اور رکوع ميں جانے سے پهلے اگر وہ فرادیٰ کی نيت کرے تب بھی احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٣ اگر کوئی شخص نمازجماعت کے ساته فرادیٰ کی نيت کرے تو دوبارہ جماعت کی نيت نہيں کرسکتا، البتہ اگر وہ متردد ہوجائے کہ فرادیٰ کی نيت کرے یا نہيں تو اگر چہ وہ بعد ميں نمازجماعت کے ساته تمام کرنے کا مصمم ارادہ بھی کر لے، اس کی جماعت محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣ ۴ اگر کوئی شخص شک کرے کہ نماز کے دوران اس نے فرادیٰ کی نيت کی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ ا س نے فرادیٰ کی نيت نہيں کی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣ ۵ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع ميں ہو اور وہ امام کے رکوع ميں پهنچ جائے تو خواہ امام نے رکوع کا ذکر پڑھ ليا ہو اس کی نماز اور جماعت دونوں صحيح ہيں اور یہ ایک رکعت شمار ہوگی، البتہ اگر وہ رکوع کی مقدار تک جھکے ليکن امام کے رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۲۳۳

مسئلہ ١ ۴ ٣ ۶ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع ميں ہو اور وہ رکوع کی مقدار تک جھکے اور شک کرے کہ امام کے رکوع ميں پهنچا ہے یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٧ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع ميں ہو اور اس سے پهلے کہ رکوع کی حد تک جھکے امام رکوع سے سر اٹھ الے تو ضروری ہے کہ امام کے ساته ہی سجدے ميں جائے اور امام کی اگلی رکعت کو اپنی پهلی رکعت قرار دے اور احتياط واجب یہ ہے کہ امام کی پيروی کے بعد جب (اگلی رکعت کے لئے) کهڑا ہو تو قربت مطلقہ کی نيت سے، جو چاہے تکبيرة الاحرام ہو یا ذکر، تکبير کهے۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٨ اگر کوئی شخص نماز کی ابتدا ہی سے یا الحمد اور سورے کے درميان اقتدا کرے اور رکوع کی مقدار ميں جانے سے پهلے ہی امام اپنا سر رکوع سے اٹھ ا لے تو اگر وہ تاخير کرنے ميں عذر رکھتاہو تو اس کی نماز اور جماعت صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣٩ اگرکوئی شخص جماعت کے لئے اس وقت پهنچے جب امام جماعت کا آخری تشهد پڑھ رہا ہو اور وہ شخص یہ چاہتا ہو کہ جماعت کا ثواب حاصل کرے تو ضروری ہے کہ اقتدا کی نيت اور تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد بيٹھ جائے اور تشهد کو احتياط واجب کی بنا پر قربت مطلقہ کی نيت سے واجب تشهد یا ذکر کی نيت کے بغير امام کے ساته پڑھے، ليکن سلام نہ پهيرے اور انتظار کرے تاکہ امام نماز کا سلام پڑھ لے۔ اس کے بعد وہ شخص کهڑا ہو جائے اور دوبارہ نيت اور تکبيرة الاحرام کهے بغير الحمد اور سورہ پڑھے اور اسے اپنی نماز کی پهلی رکعت شمار کرے۔

مسئلہ ١ ۴۴ ٠ ضروری ہے کہ ماموم امام سے آگے نہ کهڑا ہو اور اگر ماموم صرف ایک شخص ہوتو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ امام کی دائيں جانب کهڑا ہو اوراس کا امام کے پيچهے کهڑا ہونا ضروری نہيں ہے ۔ ہاں، اگر کسی شخص کا قد امام سے بلند ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ اس طرح کهڑا ہو کہ رکوع اور سجدے ميں امام سے آگے نہ ہو اور اگر مامومين زیادہ ہوں تو اس کا حکم ”مسئلہ ١ ۴ ٨٨ “ميں بيان کياجائے گا۔

مسئلہ ١ ۴۴ ١ اگر امام مرد اور ماموم عورت ہو تو اگر اس عورت اور امام کے درميان یا اس عورت اور دوسرے مقتدی مرد کے درميان جو اس عورت کے اتصال کا ذریعہ ہے ، کوئی پردہ یا اس جيسی کوئی دوسری چيز حائل ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۴ ٢ اگر نماز جماعت شروع ہونے کے بعد امام اور ماموم کے درميان یا امام اور اس شخص کے درميان جو امام سے اتصال کا ذریعہ ہو پردہ یا کوئی اور چيز حائل ہوجائے تو جماعت باطل ہے اور اس کی نماز فرادیٰ ہوجائے گی اور ضروری ہے کہ وہ فرادیٰ نمازپڑھنے والے کے وظيفے پر عمل کرے۔

۲۳۴

مسئلہ ١ ۴۴ ٣ اقوی یہ ہے کہ مقتدی کے سجدے کی جگہ اور امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کے درميان ایک بڑے قدم سے زیادہ فاصلہ نہ ہو۔ اسی طرح اگر انسان ایک ایسے مقتدی کے واسطے سے جو اس کے آگے کهڑا ہو اما م سے متصل ہو تب بھی یهی حکم ہے (یعنی ایک لمبے قدم سے زیادہ فاصلہ نہ ہو)اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ماموم کے سجدے کی جگہ او راس سے آگے کھڑے ہونے والے شخص کی جگہ کے درميان کوئی فاصلہ نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۴۴۴ اگر ماموم ایک ایسے شخص کے ذریعے سے امام سے متصل ہو جس نے اس کی دائيں یا بائيں سمت ميں اقتدا کی ہے اور سامنے سے امام سے متصل نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس شخص سے جو اس کی دائيں یا بائيں سمت کهڑ اہو ایک بڑے قدم سے زیادہ فاصلہ نہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۴۴۵ اگر نماز کے دوران امام اور ماموم کے درميان یا ماموم اور دوسرے مامو م کے درميان جو اس کے سامنے کهڑا ہے ایک لمبے قدم سے زیادہ فاصلہ ہوجائے توجماعت باطل ہے اور ضروری ہے کہ فرادیٰ کی نيت کرے اور نماز کو فرادیٰ پڑھے۔ اسی طرح اگر ایک ماموم اور دوسرے ایسے ماموم کے درميان جو اس کے دائيں یا بائيں جانب کهڑا ہے اور امام سے اتصال کا ذریعہ ہے ایک لمبے قدم سے زیادہ فاصلہ ہوجائے تب بھی بنابر احتياط و اجب یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۴۶ اگر اگلی صف ميں کھڑے ہوئے تمام لوگوں کی نمازختم ہوجائے اور بعد والی صف ميں کھڑے ہوئے لوگوں کے درميان اور جن کی نماز تمام ہوئی ہے ان سے اگلی صف ميں کھڑے ہوئے لوگوں کے درميان کا فاصلہ ایک بڑے قدم کے برابریا اس سے کم ہو تو جن لوگوں کی نماز ختم ہوئی ہے اگر وہ فورا دوسری نمازکے لئے اما م کی اقتدا کر ليں تو بعد والی صف کی جماعت صحيح ہے اور اگر مذکورہ مقدار سے زیادہ فاصلہ ہو تو بعد والی صف کی جماعت باطل ہے اور ان کی نمازفرادیٰ ہوجائے گی۔

مسئلہ ١ ۴۴ ٧ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا ء کرے جب امام کی دوسری رکعت ہو تو اس سے الحمد اور سورہ ساقط ہيں اور ضروری ہے کہ اما م سے پهلے رکوع ميں نہ جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ امام کے تشهد سے پهلے کهڑا نہ ہو اور وہ شخص قنوت اور تشهد امام کے ساته پڑھ سکتا ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اما م کے تشهد کے وقت اپنی ہاتھ کی انگليوں اور پاؤں کے تلوے کے اگلے حصے کو زمين پر رکھے اور اپنے گھٹنوں کو اٹھ الے اور ضروری ہے کہ امام کے ساته کهڑا ہو اور الحمداور سورہ پڑھے اور اگر سورہ پڑھنے کا وقت نہ ہوتو الحمد کو تمام کرے اور امام کے رکوع ميں پهنچ جائے اور اگر امام کے رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو احتياط واجب کی بنا پر فرادیٰ کا قصد کرے۔

۲۳۵

مسئلہ ١ ۴۴ ٨ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام چار رکعتی نمازکی دوسری رکعت ميں ہو تو ضروری ہے کہ اپنی نماز کی دوسری رکعت ميں جو کہ امام کی تيسری رکعت ہے ، دو سجدے کرنے کے بعدبيٹھ جائے اور واجب مقدار کی حد تک تشهد پڑھ کر کهڑا ہوجائے اور اگر تين مرتبہ تسبيحات اربعہ نہ پڑھ سکتا ہو تو ایک مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھ کر امام کے رکوع ميں پهنچ جائے اور اگر امام کے رکوع ميں نہ پهنچ پائے تو احتياط واجب کی بنا پر فرادیٰ نماز کا قصد کرے۔

مسئلہ ١ ۴۴ ٩ اگر امام تيسری یا چوتھی رکعت ميں مشغول ہو اور ماموم یہ جانتاہو، بلکہ صرف احتمال دے رہا ہوکہ اگر وہ اقتدا کرلے اور الحمد پڑھے تو امام کے رکوع ميں نہيں پهنچ پائے گا تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام رکوع ميں چلا جائے اور اس کے بعد اقتدا کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٠ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام تيسری یا چوتھی رکعت کے قيام ميں ہو تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر سورہ کے ليے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ صر ف الحمد پڑھے اورامام کے رکوع ميں پهنچ جائے اور اگر کوئی رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو احتياط واجب کی بنا پر فرادیٰ نماز کا قصد کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ١ جو شخص جانتا ہو کہ اگر وہ سورہ یا قنوت کو تما م کرے تو امام کے رکوع ميں نہيں پهنچ سکے گا اور وہ عمداسورہ یا قنوت پڑھے اور رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن ضروری ہے کہ فرادیٰ شخص کے وظيفے کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٢ جس شخص کو اطمينان ہو کہ اگر سورہ شروع کرے یا اسے تما م کرے تو امام کے رکوع ميں پهنچ جائے گا تو احتياط واجب یہ ہے کہ سورہ شروع کرے یا اگر شروع کر ليا ہوتو اسے مکمل کرے، ليکن اگر امام کے رکوع ميں نہ پهنچ پارہا ہو توسورہ شروع کرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اسے تمام نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٣ جو شخص یقين رکھتا ہو کہ اگر وہ سورہ پڑھے تو امام کے رکوع ميں پهنچ جائے گا اور سورہ پڑھے لے اور اما م کے رکوع ميں نہ پهنچ سکے تو اس کی جماعت صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۵۴ اگر امام قيام کی حالت ميں ہو اور ماموم یہ نہ جانتا ہو کہ وہ کون سی رکعت ميں ہے تو وہ اقتدا کر سکتا ہے ، ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ الحمد اور سورہ جزء نماز یا قرائت قرآن کی عمومی نيت کے ساته پڑھے، اگر چہ بعد ميں معلوم ہو جائے کہ امام کی پهلی یا دوسری رکعت تھی۔

۲۳۶

مسئلہ ١ ۴۵۵ اگر کوئی شخص اس خيال سے کہ امام پهلی یا دوسری رکعت ميں ہے الحمد او رسورہ نہ پڑھے اور رکوع کے بعد اسے یہ معلوم ہوجائے کہ امام تيسری یا چوتھی رکعت ميں تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر رکوع سے پهلے یہ معلوم ہو جائے کہ امام تيسری یا چوتھی رکعت ميں ہے تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور وقت کم ہونے کی صورت ميں صرف الحمد پڑھے اور رکوع ميں پهنچ جائے اور اگر الحمد پڑھنے کا بھی وقت نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر فرادیٰ نماز کا قصد کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵۶ اگر کوئی شخص اس خيال سے کہ امام تيسری یا چوتھی رکعت ميں ہے الحمد یا سورہ پڑھ لے اور رکوع سے پهلے یا اس کے بعد اسے یہ معلوم ہو جائے کہ امام پهلی یا دوسری رکعت ميں تھا تو اس کی نمازصحيح ہے اورا گر الحمد اور سورہ پڑھنے کے درميان یہ معلوم ہو جائے تو ضروری ہے کہ بقيہ حصہ نہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٧ اگر کوئی شخص مستحب نمازپڑھ رہا ہو اورجماعت کهڑی ہو جائے اور اسے یہ اطمينان نہ ہوکہ اگر نماز کو تمام کر لے تو جماعت کو پا لے گا تو مستحب ہے کہ وہ شخص مستحب نماز کو چھوڑ دے اور جماعت ميں شریک ہوجائے، بلکہ اگر اسے یہ اطمينان نہ ہو کہ پهلی رکعت ميں شریک ہوسکے گا تب بھی مستحب ہے کہ اسی حکم پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٨ اگر کوئی شخص تين رکعتی یا چار رکعتی نمازپڑھ رہا ہو اور جماعت قائم ہوجائے، تو اگر ابهی تيسری رکعت کے رکوع ميں نہ گيا ہو اور اسے یہ اطمينان نہ ہو کہ اگر نماز کو تمام کرلے تو جماعت ميں شریک ہو جائے گا، مستحب ہے کہ وہ شخص مستحب نماز کی نيت سے اپنی نماز کو دو رکعت پر تمام کرے اور جماعت ميں شریک ہوجائے۔

مسئلہ ١ ۴۵ ٩ اگر امام کی نماز ختم ہو جائے اور ماموم تشهد یا پهلا سلام پڑھنے ميں مشغول ہو تو ضروری نہيں کہ فرادیٰ نماز کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٠ اگر کوئی شخص امام سے ایک رکعت پيچهے ہو اور جس وقت امام آخری رکعت کا تشهد پڑھ رہا ہو وہ فرادیٰ نماز کا قصد نہ کرے تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اپنی انگليوں اور پاؤں کے تلووں کا اگلا حصہ زمين پر رکھے اور گھٹنوں کو اٹھ ا کررکھے اور امام کے سلام پڑھنے کا انتظا ر کرے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور اگر اسی وقت فرادیٰ نماز کا قصد کرنا چاہے تو کوئی حرج نہيں ہے ، ليکن اگر ابتدا ہی سے فرادیٰ کا قصد تھا تو محل اشکال ہے ۔

امام جماعت کے شرائط

مسئلہ ١ ۴۶ ١ ضروری ہے کہ امام جماعت بالغ، عاقل، شيعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہو۔

اسی طرح اگر اقتدا نماز کی ابتدائی دو رکعات ميں ہو اور ماموم کی قرائت صحيح ہو تو ضروری ہے کہ امام کی قرائت بھی صحيح ہو۔

۲۳۷

اس کے علاوہ صورت ميں بهی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔ نيز اگر ماموم مرد ہوتو ضروری ہے کہ امام بھی مرد ہو اور نماز ميت کے علاوہ کسی دوسری نماز ميں عورت کا کسی دوسری عورت کی امامت کرنامکروہ ہے ۔هاں، نمازميت ميں اگر عورت سے زیادہ ميت کے لئے کوئی دوسرا سزاوار نہ ہو تو مکروہ نہيں ہے اور مميز بچہ جو اچھے اور برے کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے کسی دوسرے مميز بچے کی اقتدا ميں نماز پڑھ سکتا ہے اور جماعت کا اثر مترتب ہونا وجہ سے خالی نہيں ليکن احوط اثر کا مترتب نہ ہونا ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٢ اگر کوئی شخص کسی امام کو عادل سمجھتا تھا اگر شک کرے کہ وہ اب بھی اپنی عدالت پر باقی ہے یا نہيں تو وہ اس کی اقتدا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٣ جو شخص کهڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو کسی ایسے شخص کی اقتدا نہيں کرسکتا جو بيٹھ کر یا ليٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اور جو شخص بيٹھ کر نمازپڑھ رہا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا نہيں کرسکتا جو ليٹ کر نمازپڑھ رہا ہو۔

مسئلہ ١ ۴۶۴ جو شخص بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا کر سکتا ہے جو بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اوراسی طرح جو شخص ليٹ کر نمازپڑھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا کر سکتا ہے جوليٹ کر نماز پڑھتا ہو۔ اسی طرح جو شخص بيٹھ کر نماز پڑھتا ہو وہ ایسے شخص کی اقتدا کر سکتا ہے جو کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہو، ليکن جو شخص ليٹ کر نمازپڑھتا ہو وہ ایسے شخص کی اقتدا نہيں کرسکتا جو بيٹھ کر نماز پڑھتا ہو۔

مسئلہ ١ ۴۶۵ اگر امام جماعت کسی مجبوری کی وجہ سے نجس لباس یا تيمم یا وضو جبيرہ کے ساته نمازپڑھ رہا ہو تو اس کی اقتدا کی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶۶ اگر امام کسی بيماری کی وجہ سے اپنا پيشاب یا پاخانہ نہ روک سکتا ہو تو اس کی اقتدا کی جاسکتی ہے اور جو عورت مستحاضہ نہ ہو وہ مستحاضہ عورت کی اقتدا کر سکتی ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٧ وہ شخص جو جذام یابرص کا مریض ہو اس کی اقتدا ميں نمازپڑھنا مکروہ ہے اور وہ شخص جس پر شرعی حد جاری ہوچکی ہو اس کی اقتدا کرنا جائز نہيں ہے ۔

جماعت کے احکام

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ ضروری ہے کہ ماموم نماز کی نيت کرتے وقت امام کو معين کرے ليکن اس کا نام جاننا ضروری نہيں مثلا اگروہ نيت کرے کہ ميں موجودہ امام کی اقتدا کرتاہوں تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٩ ضروری ہے کہ ماموم الحمد اور سورہ کے علاوہ تمام اذکار خود پڑھے، ليکن اگر ماموم کی پهلی یا دوسری رکعت، امام کی تيسری یا چوتھی رکعت ہو تو الحمد اور سورہ پڑھنا بھی ضروری ہے ۔

۲۳۸

مسئلہ ١ ۴ ٧٠ اگر ماموم نماز صبح، مغرب و عشا کی پهلی یا دوسری رکعت ميں امام کے الحمد اور سورہ پڑھنے کی آواز سن رہا ہو خواہ و ہ ان کلمات کو سمجھ نہ رہا ہو، ضروری ہے کہ وہ الحمد اور سورہ نہ پڑھے اور اگرامام کی آواز نہ سن رہا ہو تو مستحب ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے ليکن ضروری ہے کہ نماز کا جزء سمجھ کر نہ پڑھے اور ضروری ہے کہ آهستہ پڑھے اوراگر سهواً اونچی آواز سے پڑھ لے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧١ اگر ماموم امام کے الحمد اور سورہ کے بعض کلمات سن رہا ہو تو جن کلمات کو نہ سن سکے انہيں پڑھ سکتا ہے ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ الحمد اور سورہ نہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٢ اگر مامو م بھول کر الحمد اور سورہ پڑھ لے یا اس خيال سے کہ جو آواز وہ سن رہا ہے وہ امام کی آواز نہيں ہے الحمد اور سورہ پڑھ لے اور بعد ميں اسے معلوم ہوجائے کہ وہ امام کی آواز تھی تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٣ اگر مامو م شک کرے کہ امام کی آواز سن رہا ہے یا نہيں یا جو آواز سن رہا ہے اس کے بارے ميں یہ نہ جانتا ہوکہ یہ امام کی آواز ہے یا کسی اور کی آواز ہے تو وہ الحمد اورسورہ پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧ ۴ ضروری ہے کہ ماموم، نمازظہر اور عصر کی پهلی اور دوسری رکعت ميں الحمد اورسورہ نہ پڑھے اور مستحب ہے کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا ذکر پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧ ۵ ضروری ہے کہ ماموم تکبيرةالاحرام کوامام سے پهلے نہ کهے، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ جب تک امام کی تکبيرمکمل نہ ہوجائے تکبير نہ کهے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧ ۶ اگر ماموم بھول کرامام سے پهلے سلام پڑھ لے تو اس کی نماز صحيح ہے ، بلکہ اگر جان بوجه کر بھی امام سے پهلے سلام پڑھ لے تو اس صور ت ميں کہ ابتدا ہی سے عدول کا ارادہ نہ رکھتا ہو، اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٧ اگر مامو م تکبيرة الاحرام کے علاوہ دوسرے اذکار کو امام سے پهلے پڑھ لے تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر انہيں سن رہا ہو یا یہ جانتا ہو کہ امام انہيں کس وقت کهے گا تو احتياط مستحب یہ ہے کہ امام سے پهلے نہ کهے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٨ ضروری ہے کہ مامو م نماز ميں پڑھی جانے والی چيزوں کے علاوہ دوسرے افعال مثلارکوع و سجود، امام کے ساته یا امام کے تهوڑ ی دیر بعد بجا لائے اور اگر جان بوجه کر امام کے بعد یا اس کی کچھ مدت کے بعد انجام دے تو اس کی جماعت باطل ہوجائے گی، ليکن اگر اس نے فرادیٰ شخص کے وظيفے پر عمل کيا ہے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٧٩ اگر ماموم بھول کر امام سے پهلے ہی رکوع سے سر اٹھ ائے اور امام رکوع ميں ہی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ رکوع ميں جائے اور امام کے ساته رکوع سے سر اٹھ الے اور اس صور ت ميں رکوع کا زیادہ ہونا نماز کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر رکوع ميں واپس جائے او راس سے پهلے کہ وہ امام کے رکوع ميں پهنچے امام سر اٹھ الے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۲۳۹

مسئلہ ١ ۴ ٨٠ اگر ماموم غلطی سے سجدے سے سر اٹھ ا لے اور دیکھے کہ امام ابهی سجدے ميںہے تو ضروری ہے کہ دوبارہ سجدے ميں جائے اور اگر دونوں سجدوں ميں اتفاقاً ایسا ہی ہو جائے تو دوسجدے زیادہ ہونے کی وجہ سے نماز باطل نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١ ۴ ٨١ جوشخص غلطی سے امام سے پهلے اپنا سر سجدے سے اٹھ ا لے اور واپس سجدے ميں جائے اور اس سے پهلے کہ وہ سجدے ميں پهنچے امام اپنا سر اٹھ ا لے تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر دونوں سجدوں ميں یهی اتفاق پيش آئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٢ اگر غلطی سے کوئی شخص اپنا سر رکوع یا سجدے سے اٹھ الے اور بھول کر یا اس خيال سے کہ امام کے سجدے یا رکوع ميں نہيں پهنچ پائے گا رکوع یا سجدے ميں نہ جائے تو اس کی جماعت اور نماز دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٣ اگر کوئی شخص اپنا سر سجدے سے اٹھ ا لے اور دیکھے کہ امام بھی سجدے ميں ہے چنانچہ اس خيال سے کہ یہ امام کا پهلا سجدہ ہے اور وہ شخص اس نيت سے کہ امام کے ساته سجدہ کرے، سجدے ميں چلا جائے اورا سے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ امام کا دوسرا سجدہ ہے تو یہ اس شخص کا دوسرا سجدہ ہی شمار ہوگا اور اگر اس خيال سے کہ یہ امام کا دوسرا سجدہ ہے سجدے ميں چلا جائے اور اسے یہ معلوم ہو کہ یہ امام کا پهلا سجدہ ہے تو ضروری ہے کہ امام کے ساته سجدہ کرنے کی نيت سے سجدہ کرے اور دوبارہ امام کے ساته سجدے ميں جائے اور دونوں صورتوں ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساته پڑھنے کے بعد دوبارہ بھی پڑھے۔

مسئلہ ١ ۴ ٨ ۴ اگر کوئی شخص بھول کر امام سے پهلے رکوع ميں چلا جائے اور حالت یہ ہو کہ اگر وہ اپنا سر اٹھ الے تو امام کی قرائت کے کچھ حصے ميں پهنچ جائے گا تو اگر وہ اپنا سر اٹھ الے اور امام کے ساته رکوع ميں چلاجائے تواس کی نماز اور جماعت دونوں صحيح ہيں اور اگر جان بوجه کر اپنا سرنہ اٹھ ائے تو اس کی نماز کا صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٨ ۵ اگر کوئی شخص بھول کر امام سے پهلے رکوع ميں چلا جائے او رحالت یہ ہو کہ اگر وہ اپنا سر اٹھ ا لے تو وہ امام کی قرائت ميں نہيں پهنچ سکے گا، اگر امام کی پيروی کرتے ہوئے اپنا سر اٹھ ا لے اور امام کے ساته رکوع ميں چلا جائے تو اس کی نماز اور جماعت دونوں صحيح ہيں اور اگر وہ انتظار کر لے تاکہ امام اس کے رکوع ميں پهنچ جائے تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن اس کی جماعت محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٨ ۶ اگر کوئی شخص بھول کر امام سے پهلے سجدے ميں چلا جائے اور امام کی پيروی کرنے کی نيت سے اپنا سر اٹھ ا لے اور امام کے ساته سجدے ميں جائے تو اس کی نماز اور جماعت دونوں صحيح ہيں اور اگر انتظار کرے تاکہ امام اس کے سجدے ميں پهنچ جائے تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن اس کی جماعت محل اشکال ہے ۔

۲۴۰