توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207713 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

۵) ان آیات ميں سے کسی آیت کا پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیات چار سورتوں ميں ہيں :

١) قرآن مجيد کی ٣٢ ویں سورہ (الٓمٓ تنزیل) ٢) قرآن مجيد کی ۴ ١ ویں سورہ(حٰمٓ سجدہ)

٣) قرآن مجيد کی ۵ ٣ ویں سورہ (والنجم) ۴) قرآن مجيدکی ٩ ۶ ویں سورہ (إقرا)

اور بنابر احتياط واجب ان چار سورتوں کا بقيہ حصہ پڑھنے سے پرہيز کرے۔ یهاں تک کہ بِسْم اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم کو ان سوروں کو قصد سے، بلکہ ان کے بعض حصوں کو ان سوروں کے قصد سے پڑھنے سے بھی پرہيز کرے۔

وہ چيزيں جو جنب شخص پر مکروہ ہيں

مسئلہ ٣ ۶ ٢ نو چيزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہيں :

١-٢)کھانا اور پينا، ليکن وضو کرلے یا ہاتھ دهو لے تو مکروہ نہيں ہے ۔ ،

٣) ان سوروں کی سات سے زیادہ آیات کی تلاوت کرنا جن ميں واجب سجدہ نہيں ہے ۔

۴) بدن کا کوئی حصہ قرآن کی جلد، حاشيے یا حروف قرآن کی درميانی جگہوں سے مس کرنا۔

۵) قرآ ن ساته رکھنا۔

۶) سونا، ليکن اگر وضو کرلے یا پانی نہ ہونے کے باعث غسل کے بدلے تيمم کرلے تو مکروہ نہيں ۔

٧) مهندی اور اس جيسی چيزوں سے خضاب کرنا۔

٨) بدن پر تيل ملنا۔

٩) محتلم ہونے، یعنی نيند ميں منی نکلنے کے بعد جماع کرنا۔

غسل جنابت

مسئلہ ٣ ۶ ٣ غسل جنابت بذات خود مستحب ہے اور ان واجبات کی وجہ سے واجب ہوجاتاہے جن کے لئے طهارت شرط ہے ۔ ہاں، نماز ميت، سجدہ سهو سوائے اس سجدہ سهوکے جو بھولے ہوئے تشهد کے لئے ہوتا ہے ، سجدہ شکر اور قرآن کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶۴ یہ ضروری نہيں کہ غسل کرتے وقت نيت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے یا مستحب، بلکہ اگر قصد قربت (جس کی تفصيل وضو کے احکام ميں گزر چکی ہے )اور خلوص کے ساته غسل کرے تو کافی ہے ۔

۶۱

مسئلہ ٣ ۶۵ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا اس بات پر شرعی دليل قائم ہوجائے کہ نما زکا وقت داخل ہو چکاہے اور واجب کی نيت سے غسل کرلے، ليکن اس کا ارادہ وجوب سے مقيد نہ ہو اور بعد ميں معلوم ہو کہ غسل وقت سے پهلے کر ليا ہے تو اس کا غسل صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶۶ غسل چاہے واجب ہو یا مستحب دو طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے :

١)ترتيبی ٢) ارتماسی

غسل ترتيبی

مسئلہ ٣ ۶ ٧ غسل ترتيبی ميں غسل کی نيت سے پهلے سر اور گردن اور بعد ميں بدن دهونا ضروری ہے اور بنابر احتياط واجب بدن کو پهلے دائيں طرف اور بعد ميں بائيں طرف سے دهوئے۔ اگر جان بوجه کر یا بھولے سے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے سر کو بدن کے بعد دهوئے تو یہ دهونا کافی ہوگا ليکن بدن کو دوبارہ دهونا ضروری ہے اور اگر دائيں طرف کو بائيں طرف کے بعد دهوئے تو بنابر احتياط واجب بائيں طرف کو دوبارہ دهوئے۔ پانی کے اندر تينوں اعضاء کو غسل کی نيت سے حرکت دینے سے غسل ترتيبی کا ہوجانا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶ ٨ بنا بر احتياط واجب آدهی ناف اور آدهی شرمگاہ کو دائيں طرف اور آدهی کو بائيں طرف کے ساته دهوئے اور بہتر یہ ہے کہ تمام ناف اور تمام شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساته دهوئے۔

مسئلہ ٣ ۶ ٩ اس بات کا یقين پيدا کرنے کے لئے کہ تينوں حصوں یعنی سر وگردن، دائيں طرف اور بائيںطرف کو اچھی طرح دهو ليا ہے ، جس حصے کو دهو ئے اس کے ساته دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دهولے، بلکہ احتياط مستحب یہ ہے کہ گردن کے دائيں کے طرف کے پورے حصے کو بدن کے دائيں حصے اور گردن کے بائيں طرف کے پورے حصے کو بدن کے بائيں حصے کے ساته دهوئے۔

مسئلہ ٣٧٠ اگرغسل کرنے بعد معلوم ہو کہ بدن کاکچه حصہ نہيں دهلاہے اورمعلوم نہ ہوکہ وہ حصہ سر، دائيں جانب یا بائيں جانب ميں سے کس جانب ہے توسر کودهوناضروری نہيں اوربائيں جانب ميں جس حصے کے نہ دهلنے کا احتمال ہو اسے دهونا ضروری ہے اور دائيں جانب ميں جس حصے کے نہ دهلنے کا احتمال ہو احتياط کی بنا پر اسے بائيں جانب سے پهلے دهوئے۔

مسئلہ ٣٧١ اگرغسل کر نے کے بعدمعلوم ہو کہ بدن کا کچھ حصہ نہيں د هلا تو اگروہ حصہ بائيں جانب ميں ہو تو فقط اس حصے کو دهونا کافی ہے اور اگرو ہ حصہ دائيں جانب ہو تو اس حصے کو دهونے کے بعد احتياط واجب کی بنا پر بائيں جانب کو بھی دهوئے اور اگروہ حصہ سر وگردن ميں ہو تو اس حصے کو دهونے کے بعد بدن دهوئے اوراحتياط واجب کی بنا پر دائيں جانب کو بائيں جانب سے پهلے دهوئے۔

۶۲

مسئلہ ٣٧٢ اگرکوئی شخص غسل مکمل ہونے سے پهلے بائيں جانب کی کچھ مقدار دهلنے ميں شک کرے تو فقط اس مقدار کو دهونا کافی ہے ليکن اگربائيں جانب کی کچھ مقدار دهونے کے بعد دائيں جانب کی کچھ مقدار دهلنے ميں شک کر ے تو احتياط واجب کی بنا پراسے دهونے کے بعد بائيں جانب بھی دهوئے اور اگربدن کود ہوناشروع کرنے بعد سروگردن کی کچھ مقدار کے دهلنے ميں شک کرے تو شک کی کوئی حيثيت نہيں ہے اور اس کاغسل صحيح ہے ۔

غسل ارتماسی

مسئلہ ٣٧٣ پورے بدن کوپانی ميں ڈبو دینے سے غسل ارتماسی ہوجاتاہے اورجب پهلے سے جسم کاکچه حصہ پانی ميں موجودهواور پھرباقی جسم کوپانی ميں ڈبوئے توغسل ارتماسی صحيح ہونے ميں اشکال ہے اوراحتياط واجب کی بنا پراس طرح غسل کرے کہ عرفاًکهاجائے کہ پورا بدن ایک ساته پانی ميں ڈوباہے۔

مسئلہ ٣٧ ۴ - غسل ارتماسی ميں احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے کہ جسم کاپهلا حصہ پانی ميں داخل ہونے سے لے کر آخری حصے کے داخل ہونے تک غسل کی نيت کوباقی رکھے۔

مسئلہ ٣٧ ۵ اگرغسل ارتماسی کے بعدمعلوم ہوکہ بدن کے کسی حصے تک پانی نہيں پهنچاہے توچاہے اسے وہ جگہ معلوم ہویانہ ہو، دوبارہ غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٧ ۶ اگرغسل ترتيبی کے لئے وقت نہ ہوليکن ارتماسی کے لئے وقت ہوتوضروری ہے کہ غسل ارتماسی کرے۔

مسئلہ ٣٧٧ جس شخص نے حج یاعمرے کااحرام باندهاہو وہ غسل ارتماسی نہيں کرسکتا اور روزہ دارکے غسل ارتماسی کرنے کاحکم مسئلہ نمبر” ١ ۶ ٢ ۵ “ ميں آئے گا۔

غسل کے احکام

مسئلہ ٣٧٨ غسل ارتماسی یاترتيبی سے پهلے پورے بدن کاپاک ہونالازم نہيں بلکہ غسل کی نيت سے معتصم پانی ميں غوطہ لگانے یااس پانی کوبدن پرڈالنے سے بدن پاک ہوجائے توغسل صحيح ہے اورمعتصم اس پانی کوکہتے ہيں جو نجاست سے فقط مل جانے سے نجس نہيں ہوتا، جيسے بارش کاپانی،کراورجاری پانی۔

مسئلہ ٣٧٩ حرام سے جنب ہونے والااگرگرم پانی سے غسل کرے توپسينہ آنے کے باوجوداس کاغسل صحيح ہے اوراحتياط مستحب ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔

۶۳

مسئلہ ٣٨٠ اگرغسل ميں بدن کاکوئی حصہ دهلنے سے رہ جائے توغسل ارتماسی باطل ہے اورغسل ترتيبی کاحکم مسئلہ نمبر ” ٣٧١ “ ميں گذرچکاہے۔ ہاں، وہ حصے جنہيں عرفاً باطن سمجھا جاتا ہے جيسے ناک اورکان کے اندرونی حصے، ان کودهوناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٨١ جس حصے کے بارے ميں شک ہو کہ بدن کا ظاہری حصہ ہے یا باطنی حصہ، اگرمعلوم ہوکہ پهلے ظاہر تھا تو اسے دهوناضروری ہے اور اگر معلوم ہو کہ ظاہر نہيں تھا تو دهونا ضروری نہيں ہے اور اگر گذشتہ حالت معلوم نہ ہو تو بنا براحتياط واجب اسے دهوئے۔

مسئلہ ٣٨٢ اگرگوشوارہ اوراس جيسی چيزوں کے سوراخ اس قدر کشادہ ہوں کہ سوراخ کااندرونی حصہ ظاہر شمار ہوتا ہو تو اسے دهوناضروری ہے اوراس صورت کے علاوہ اسے دهوناضروری نہيں ۔

مسئلہ ٣٨٣ هروہ چيزجوپانی پهنچنے ميں رکاوٹ بنتی ہواسے بدن سے صاف کرناضروری ہے اوراگراس چيزکے صاف ہونے کایقين کئے بغيرغسل ارتماسی کرے تو دوبارہ غسل کرناضروری ہے اوراگرغسل ترتيبی کرے تواس کاحکم مسئلہ نمبر ” ٣٧٢ “ ميں گذرچکاہے۔

مسئلہ ٣٨ ۴ اگرغسل کرتے ہوئے شک کرے کہ پانی پهنچنے ميں رکاوٹ بننے والی کوئی چيزاس کے بدن پرہے یا نہيں توضروری ہے کہ تحقيق کرے یهاں تک کہ اسے اطمينان ہوجائے کہ اس کے بدن پرکوئی رکاوٹ نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٨ ۵ بدن کاجزشمارہونے والے چھوٹے چھوٹے بالوں کوغسل ميں دهوناضروری ہے اورلمبے بالوں کا دهونا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر پانی کسی طریقے سے بال ترکئے بغيرکھال تک پهنچ جائے توغسل صحيح ہے ،ليکن اگربال گيلے کئے بغيرکھال تک پانی پهنچاناممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ بدن تک پانی پهنچانے کے لئے ان بالوں کوبهی دهوئے۔

مسئلہ ٣٨ ۶ وضوصحيح ہونے کی تمام گذشتہ شرائط غسل صحيح ہونے ميں بھی شرط ہيں ، جيسے پانی کا پاک اورمباح ہونا، ليکن غسل ميں ضروری نہيں ہے کہ بدن کو اوپر سے نيچے کی جانب دهویا جائے اور اس کے علاوہ غسل ترتيبی ميں ایک حصہ د ہونے کے فوراًبعد دوسراحصہ دهونا بھی ضروری نہيں ہے ، لہٰذا اگرسرو گردن دهونے کے بعد وقفہ کرے اورکچه دیر بعد بدن دهوئے یادایاںحصہ دهوئے پھر کچھ دیر صبرکرنے کے بعد بایاں حصہ دهوئے توکوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، جو شخص پيشاب وپاخانہ روکنے پر قدرت نہ رکھتاہو اگرغسل کر نے اورنماز پڑھنے کی مدت تک روک سکے تو ضروری ہے کہ فوراًغسل مکمل کرے اور اس کے بعدفوراً نماز بھی پڑھے۔

مسئلہ ٣٨٧ جو شخص حمام کے مالک کی اجرت نہ د ینے کا ارادہ رکھتا ہو یا اس کی اجازت لئے بغيرادهار کی نيت سے حمام ميں غسل کرے تواگرچہ بعدميں حمام کے مالک کوراضی کرلے، اس کاغسل باطل ہے ۔

۶۴

مسئلہ ٣٨٨ اگرحمام کا مالک حمام ميں ادهار غسل کرنے پر راضی ہو ليکن کوئی شخص اس کا ادهار ادا نہ کرنے یا مال حرام سے ادا کرنے کے ارادے سے غسل کرے تو اس کاغسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٨٩ اگرحمام کے مالک کو ایسے مال سے اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کيا گيا ہو تو یہ حرام ہے اوراس کاغسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٩٠ اگرحمام ميں حوض کے پانی ميں پاخانے کے مقام کو صاف کرے اورغسل کرنے سے پهلے شک کرے کہ اس وجہ سے اب مالک غسل کرنے پر راضی ہے یا نہيں تو اس کا غسل باطل ہے ، مگر یہ کہ غسل کرنے سے پهلے حمام کے مالک کوراضی کرلے۔

مسئلہ ٣٩١ اگرشک کرے کہ غسل کيا یا نہيں تو ضروری ہے کہ غسل کرے، ليکن اگرغسل کرنے کے بعد اس کے صحيح ہونے ميں شک کرے تواگر احتمال دے کہ غسل کرتے وقت متوجہ تھا تو اس کا غسل صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٩٢ اگرغسل کے دوران پيشاب جيسا کوئی حدث اصغر صادر ہو تو احتياط واجب کی بنا پرغسل مکمل کرنے کے بعد غسل کا اعادہ کرنے کے ساته ساته وضو بھی کرے مگر یہ کہ غسل ترتيبی سے غسل ارتماسی کی طرف عدول کرلے۔

مسئلہ ٣٩٣ اگر وقت تنگ ہونے کی وجہ سے مکلف کی ذمہ داری تيمم کرنا تھی ليکن وہ اس خيال سے کہ غسل اور نمازکے لئے وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے جنابت سے طهارت حاصل کرنے یاقرآن پڑھنے وغيرہ کے ارادے سے غسل کيا ہو تو صحيح ہے ، ليکن اگرموجودہ نمازپڑھنے کے لئے اس طرح کے ارادے سے غسل کرے کہ اگریہ نماز واجب نہ ہوتی تو اس کا غسل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا تو اس صورت ميں اس کا غسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٩ ۴ جو شخص جنب ہوا ہو اور اس نے نماز پڑھی ہو، اگر شک کرے کہ اس نے غسل کيا ہے یا نہيں تو اگر احتمال دے کہ نماز شروع کرتے وقت اس جانب متوجہ تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن بعد والی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نمازکے بعد حدث اصغر صادر ہوا ہو تو ضروری ہے کہ وضو بھی کرے اور پڑھی ہوئی نماز کو بھی وقت باقی ہونے کی صورت ميں دهرائے اور اگر وقت گذر چکا ہو تو اس کی قضا کرے۔

مسئلہ ٣٩ ۵ جس پرچندغسل واجب ہوں وہ ان کو عليحدہ عليحدہ انجام دے سکتا ہے ، ليکن پهلے غسل کے بعد باقی غسلوں کے لئے وجوب کی نيت نہ کرے اوراسی طرح سب کی نيت سے ایک غسل بھی کرسکتاہے ، بلکہ اگران ميں سے کسی خاص غسل کی نيت کرے تو باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے ۔

۶۵

مسئلہ ٣٩ ۶ اگر بدن پر کسی جگہ قرآنی آیت یاخداوند متعال کا نام لکھا ہو اور غسل ترتيبی کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ پانی اس طرح بدن پر ڈالے کہ اس حصے سے بدن کا کوئی حصہ مس نہ ہو اور اگر ترتيبی وضو کرناچاہے اوراعضائے وضو پرکہيں آیت قرآنی لکھی ہو تب بھی یهی حکم ہے اور اگر خدوند متعال کا نام ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پریهی حکم ہے اورغسل ووضوميں انبياء، ائمہ اورحضرت زهراء ع کے ناموں کے سلسلے ميں احتياط کا خيال رکھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٣٩٧ جس شخص نے غسل جنابت کيا ہو ضروری ہے کہ وہ نمازکے لئے وضو نہ کرے، بلکہ استحاضہ متوسطہ کے غسل کے علاوہ واجب غسلوں اور مسئلہ نمبر ” ۶۵ ٠ “ ميں آنے والے مستحب غسلوں کے ساته بھی بغير وضو نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ وضو بھی کرے۔

استحاضہ

عورت کو آنے والے خونوں ميں سے ایک خون استحاضہ ہے اورجس عورت کوخون استحاضہ آئے اسے مستحاضہ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٣٩٨ خون استحاضہ اکثر اوقات زرد اور سرد ہوتا ہے اور شدت اورجلن کے بغيرآنے کے علاوہ گاڑھا بھی نہيں ہوتا ہے ليکن ممکن ہے کبهی سياہ یا سرخ اور گرم وگاڑھا ہو اور شدت وجلن کے ساته آئے۔

مسئلہ ٣٩٩ استحاضہ کی تين قسميں ہيں : قليلہ،متوسطہ اورکثيرہ۔

استحاضہ قليلہ: یہ ہے کہ جو روئی عورت اپنے ساته رکھتی ہے خون فقط اس کے اوپر والے حصے کو آلودہ کرے اوراندر تک سرایت نہ کرے۔

استحاضہ متوسطہ: یہ ہے کہ خون روئی ميں سرایت کرجائے چاہے کسی ایک کونے ميں هی، ليکن عورتيں خون سے بچنے کے لئے عموماً جو کپڑا یا اس جيسی چيز باندهتی ہيں ، اس تک نہ پهنچے۔

استحاضہ کثيرہ: یہ ہے کہ خون روئی ميں سرایت کرکے کپڑے تک پهنچ جائے۔

۶۶

احکام استحاضہ

مسئلہ ۴ ٠٠ استحاضہ قليلہ والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ ہر نمازکے لئے وضوکرے اور احتياط واجب کی بنا پر روئی تبدیل کرے اور اگر شرمگاہ کے ظاہری حصے پر خون لگا ہو تو اسے پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠١ استحاضہ متوسطہ والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ ہر نمازِ صبح کے لئے غسل کرے اور دوسری صبح تک سابقہ مسئلے ميں مذکورہ استحاضہ قليلہ کے وظيفے پرعمل کرے اورجب بھی نمازِ صبح کے علاوہ کسی دوسری نماز سے پهلے یہ صورت حال پيش آئے تواس نمازکے لئے غسل کرے اوردوسری صبح تک اپنی نمازوں کے لئے استحاضہ قليلہ والے کام انجام دے۔

جس نماز سے پهلے غسل ضروری تھا اگر عمداً یا بھول کر غسل نہ کرے تو بعد والی نماز سے پهلے غسل کرے، چاہے خون آرہا ہو یا رک چکا ہو۔

مسئلہ ۴ ٠٢ استحاضہ کثيرہ والی عورت کے لئے سابقہ مسئلے ميں استحاضہ متوسطہ کے مذکورہ احکام پر عمل کرنے کے علاوہ احتياط واجب کی بنا پر ہر نماز کے لئے کپڑے کو تبدیل یا پاک کر نا بھی ضروری ہے اورضروری ہے کہ ایک غسل نمازظہر وعصر کے لئے اور ایک نماز مغرب وعشا کے لئے انجام دے اور نماز ظہر وعصر اوراسی طرح مغرب وعشا کے درميان وقفہ نہ کرے اور اگر وقفہ کردے تو دوسری نماز چاہے عصر ہو یا عشاء، اس کے لئے غسل کرے اور استحاضہ کثيرہ ميں غسل، وضو کی جگہ کافی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠٣ اگر خون استحاضہ وقتِ نماز سے پهلے بھی آیا ہو تو اگر عورت نے اس خون کے لئے وضو یا غسل نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ نماز سے پهلے وضو یا غسل کرے اگر چہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔

مسئلہ ۴ ٠ ۴ جس مستحاضہ متوسطہ کے لئے وضواور غسل ضروری ہے ، ان دونوںميں سے جسے بھی پهلے انجام دے صحيح ہے ، ليکن بہترہے کہ پهلے وضوکرے۔هاں، مستحاضہ کثيرہ اگروضوکرناچاہے توضروری ہے کہ غسل سے پهلے کرے۔

مسئلہ ۴ ٠ ۵ مستحاضہ قليلہ اگر نماز صبح کے بعد متوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز ظہر وعصر کے لئے غسل کرے اوراگر نماز ظہر وع-صر کے بعد متوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب وعشا کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۴ ٠ ۶ اگرمستحاضہ قليلہ یامتوسطہ نماز صبح کے بعدکثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ ایک غسل نماز ظہر وعصر کے لئے اور ایک غسل نماز مغرب وعشا کے لئے کرے اور اگر نماز ظہر وعصر کے بعد کثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب وعشا کے لئے غسل کرے۔

۶۷

مسئلہ ۴ ٠٧ مستحاضہ کثيرہ یامتوسطہ جب نماز کا وقت داخل ہونے تک اپنی حالت پرباقی ہو، اگرنمازکاوقت داخل ہونے سے پهلے نمازکے لئے غسل کرے توباطل ہے ليکن اذانِ صبح سے تهوڑی دیرپهلے جائزهے کہ قصدرجاء سے غسل کرکے نمازشب پڑھے اورطلوع فجرکے بعداحتياط واجب کی بنا پرنمازِصبح کے لئے غسل کااعادہ کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠٨ مستحاضہ عورت پرنمازیوميہ ،جس کاحکم گذرچکاہے ،کے علاوہ هرواجب ومستحب نماز کے لئے ضروری ہے کہ مستحاضہ کے لئے ذکرشدہ تمام کاموں کوانجام دے اورمستحاضہ کثيرہ وضوبهی کرے۔ اسی طرح اگرپڑھی ہوئی نمازیوميہ کو احتياطاً دوبارہ پڑھنا چاہے یافرادیٰ پڑھی ہوئی نمازیوميہ کوباجماعت پڑھناچاہے تب بھی یهی حکم ہے اوراگراس نمازکوایسی فریضہ یوميہ کے وقت ميں پڑھناچاہے جس کے لئے غسل کياہے تواحتياط واجب کی بنا پردوبارہ غسل کرے۔هاں، اگرنمازکے فوراً بعدنمازاحتياط،بھولاہواسجدہ ،بھولاہواتشهد یا تشهد بھولنے کی وجہ سے واجب ہونے والا سجدہ سهو انجام دے تو استحاضہ والے کام انجام دیناضروری نہيں ہيں اورنمازکے سجدہ سهوکے لئے استحاضہ کے کام بجالانا ضروری نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۴ ٠٩ جس مستحاضہ کاخون رک گياہواس کے لئے فقط پهلی نمازکے لئے مستحاضہ والے کام کرناضروری ہيں اوربعدوالی نمازوں کے لئے لازم نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۴ ١٠ اگرمستحاضہ کواپنے استحاضہ کی قسم معلوم نہ ہو تونماز پڑھتے وقت ضروری ہے کہ یااحتياط کے مطابق عمل کرے یااپنے استحاضہ کی تحقيق کرے مثلاتهوڑی روئی شرمگاہ ميں داخل کرنے کے بعدنکالے اوراستحاضہ کی تينوں قسموں ميں سے اپنے استحاضہ کی قسم معلوم ہونے کے بعداس قسم کے وظيفے پرعمل کرے، ليکن اگریہ جانتی ہوکہ جس وقت تک وہ نمازپڑھے گی اس کے استحاضہ ميں تبدیلی واقع نہ ہوگی تووہ نمازکاوقت داخل ہونے سے پهلے بھی اپنے استحا ضہ کی تحقيق کرسکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١١ اگرمستحاضہ اپنے استحاضہ کی تحقيق کئے بغيرنمازميں مشغول ہوجائے تواگرقصدقربت ہو اور اس نے اپنے وظيفے کے مطابق عمل کياہو، مثلاًاس کااستحاضہ قليلہ ہو اور اس نے استحاضہ قليلہ کے وظيفے کے مطابق عمل کيا ہو تو اس کی نمازصحيح ہے اوراگرقصدقربت نہ ہویااپنے وظيفے کے مطابق عمل نہ کياہومثلاً اس کااستحاضہ متوسطہ ہواوراس نے استحاضہ قليلہ کے وظيفے پرعمل کياہوتواس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ١٢ اگرمستحاضہ اپنے استحاضہ کی تحقيق نہ کرسکتی ہو اور نہ ہی یہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ کس قسم کاہے تواحتياط واجب یہ ہے کہ زیادہ والا وظيفہ انجام دے تاکہ یقين ہوجائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری انجام دے دی ہے ، مثلااگرنہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ قليلہ ہے یامتوسطہ تواستحاضہ متوسطہ والے کاموں کوانجام دے اوراگرنہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ متوسطہ ہے یاکثيرہ تواستحاضہ کثيرہ والے کام انجام دینے کے علاوہ هرنمازکيلئے وضو بھی کرے، ليکن اگرجانتی ہوکہ پهلے اس کااستحاضہ کس قسم کاتهاضروری ہے کہ اس قسم کے وظيفہ کے مطابق عمل کرے۔

۶۸

مسئلہ ۴ ١٣ اگرخون استحاضہ ابتدائی مرحلہ ميں اندرہی موجودہواورباہرنہ آئے توعورت کے غسل یاوضوکوباطل نہيں کرتااوراگرخون کی تهوڑی سی مقداربهی باہرآجائے تووضواورغسل کوباطل کردیتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١ ۴ اگر مستحاضہ عورت نماز کے بعد اپنی تحقيق کرے اور خون نہ ہو تو اگرچہ جانتی ہو کہ خون دوبار ہ آئے گا تب بھی اسی پهلے والے وضوسے نماز پڑھ سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١ ۵ مستحاضہ اگرجانتی ہوکہ جب سے اس نے وضویاغسل شروع کياہے خون باہرنہيں آیاہے تووہ نماز کو اس وقت تک مو خٔرکرسکتی ہے جب تک اسے اس حالت کے باقی رہنے کاعلم ہو۔

مسئلہ ۴ ١ ۶ اگرمستحاضہ جانتی ہوکہ نماز کا وقت گذرنے سے پهلے مکمل طورپرپاک ہوجائے گی یانمازپڑھنے کی مقدارميں اس کاخون رک جائے گا توضروری ہے کہ صبرکرے اورنمازاس وقت پڑھے جب پاک ہو۔

مسئلہ ۴ ١٧ اگروضواورغسل کے بعدخون باہرآنارک جائے اورمستحاضہ جانتی ہوکہ اگرنمازميں اتنی تاخير کرے کہ جس وقت ميں وضو، غسل اور اس کے بعد نماز ادا کی جا سکے، تو مکمل پاک ہوجائے گی توضروری ہے کہ نمازميں تاخير کرے اور جب مکمل پاک ہوجائے تو دوبارہ وضو اور غسل کرکے نماز پڑھے اوراگر وقت نماز تنگ ہوجائے تودوبارہ وضو اور غسل کرناضروری نہيں ہے ، بلکہ احتياط واجب کی بنا پرغسل کی نيت سے اوراسی طرح وضوکی نيت سے تيمم کرکے نمازپڑھے۔

مسئلہ ۴ ١٨ مستحاضہ کثيرہ اورمتوسطہ جب مکمل طورپرخون سے پاک ہوجائے توضروری ہے کہ غسل کرے، ليکن اگرجانتی ہوکہ آخری نمازکے لئے غسل شروع کرنے کے بعدسے خون نہيں آیاہے اوروہ مکمل پاک ہوگئی ہے تودوبارہ غسل کرنالازم نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴ ١٩ مستحاضہ قليلہ ،متوسطہ اورکثيرہ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وظيفہ پرعمل کرنے کے بعدنمازميں تاخير نہ کرے سوائے اس مورد کے جو مسئلہ نمبر” ۴ ١ ۵ “ ميں گذرچکا ہے ، ليکن نمازسے پهلے اذان واقامت کهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اورنمازميں قنوت اوراس جيسے دوسرے مستحب کام بھی انجام دے سکتی ہے اوراگرنمازکے واجب اجزاء کی مقدارميں پاک ہوتواحتياط مستحب ہے کہ مستحبات کوترک کرے۔

مسئلہ ۴ ٢٠ -اگرمستحاضہ اپنے وضویاغسل کے وظيفے اور نمازکے درميان وقفہ کردے توضروری ہے کہ اپنے وظيفے کے مطابق دوبارہ وضویاغسل کرکے بلافاصلہ نمازميں مشغول ہوجائے، سوائے اس کے کہ جانتی ہوکہ اس حالت پر باقی ہے جومسئلہ نمبر ” ۴ ١ ۵ “ ميں گذرچکی ہے ۔

۶۹

مسئلہ ۴ ٢١ اگرخونِ استحاضہ کااخراج مسلسل جاری رہے اورمنقطع نہ ہوتوضررنہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ غسل کے بعدخون کوباہرآنے سے روکے اورلاپرواہی کرنے کی صورت ميں خون باہرآجائے توضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے اوراگرنمازبهی پڑھ لی ہوتودوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ۴ ٢٢ اگرغسل کرتے ہوئے خون نہ رکے توغسل صحيح ہے ليکن اگرغسل کے دوران استحاضہ متوسطہ کثيرہ ہو جائے تو شروع سے غسل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢٣ احتياط مستحب ہے کہ مستحاضہ، روزے والے پورے دن ميں جتنا ممکن ہوخون کو باہر آنے سے روکے۔

مسئلہ ۴ ٢ ۴ مستحاضہ کثيرہ کاروزہ اس حالت ميں صحيح ہے جب وہ دن کی نمازوں کے واجب غسل انجام دے اوراسی طرح احتياط واجب کی بنا پرجس دن روزہ رکھنے کا ارادہ ہو اس سے پهلے والی رات ميں نماز مغرب و عشا کے لئے بھی غسل کرے۔

مسئلہ ۴ ٢ ۵ اگرنمازعصرکے بعدمستحاضہ ہوجائے اورغروب تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢ ۶ اگرمستحاضہ قليلہ، نمازسے پهلے متوسطہ یاکثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ مستحاضہ متوسطہ یاکثيرہ کے سلسلے ميں مذکورہ احکام پر عمل کرے اوراگراستحاضہ متوسطہ کثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ مستحاضہ کثيرہ کے کام انجام دے۔ لہٰذا اگر استحاضہ متوسطہ کے لئے غسل کياہوتواس کافائدہ نہيں ہے اورکثيرہ کے لئے دوبارہ غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢٧ اگرنمازکے دوران مستحاضہ متوسطہ، کثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور استحاضہ کثيرہ کا غسل اوراس کے دوسرے کام انجام دے کردوبارہ نمازپڑھے اوراحتياط مستحب کی بنا پرغسل سے پهلے وضوکرے اور اگر غسل کے لئے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضوکرکے غسل کے بدلے تيمم کرے اوراگرتيمم کيلئے بھی وقت نہ ہوتو احتياط واجب کی بنا پراسی حالت ميں نمازتمام کرے، ليکن وقت ختم ہونے کے بعدقضاکرناضروی ہے ۔

اسی طرح اگرنمازکے دوران مستحاضہ قليلہ، متوسطہ یاکثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نمازتوڑ دے اور مستحاضہ متوسطہ یا کثيرہ کے وظائف انجام دے۔

مسئلہ ۴ ٢٨ اگرنمازکے دوران خون رک جائے اورمستحاضہ کومعلوم نہ ہوکہ اندربهی بند ہوا یا نہيں اور نماز کے بعد معلوم ہوکہ بندهوگياتهاتووضواورغسل ميں سے جو وظيفہ تھااسے انجام دے کردوبارہ نمازپڑھے۔

۷۰

مسئلہ ۴ ٢٩ اگرمستحاضہ کثيرہ، متوسطہ ہوجائے توضروری ہے کہ پهلی نمازکيلئے کثيرہ والے اوربعدوالی نمازوں کے لئے متوسطہ والے کام انجام دے، مثلا اگرنماز ظهرسے پهلے مستحاضہ کثيرہ، متوسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز ظہر کے لئے غسل کرے اور نماز عصر، مغرب اورعشا کے لئے وضو کرے، ليکن اگر نماز ظہر کے لئے غسل نہ کرے اورفقط نماز عصر پڑھنے کا وقت باقی ہو تونماز عصرکے لئے غسل کرناضروری ہے اور اگر نماز عصر کے لئے بھی غسل نہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگر اس کے لئے بھی غسل نہ کرے اورفقط نمازعشا پڑھنے کاوقت ہو تو نماز عشا کے لئے غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣٠ اگرہرنمازسے پهلے مستحاضہ کثيرہ کا خون رک جاتا ہو اور دوبارہ آجاتاہوتوخون رکنے کے وقت ميں اگر غسل کرکے نمازپڑھی جا سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اس وقت کے دوران ہی غسل کرکے نمازپڑھے اوراگرخون رکنے کا وقفہ اتناطویل نہ ہوکہ طهارت کرکے نمازپڑھ سکے تووهی ایک غسل کافی ہے اوراگرغسل اورنمازکے کچھ حصے کے لئے وقت ہو تو احتياط واجب کی بناپراس وقت ميں غسل کرے نمازپڑھے۔

مسئلہ ۴ ٣١ اگرمستحاضہ کثيرہ، قليلہ ہوجائے توضروری ہے کہ پهلے نمازکے لئے کثيرہ والے اوربعدوالی نمازوں کے لئے قليلہ والے کام انجام دے اوراگرمستحاضہ متوسطہ، قليلہ ہوجائے توبهی ضروری ہے کہ پهلی نمازکے لئے متوسطہ کے وظيفے اور بعد والی نمازوں کے لئے قليلہ کے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ۴ ٣٢ اگرمستحاضہ اپنے واجب وظيفے ميں سے کوئی ایک کام بھی ترک کرے تواس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣٣ جس مستحاضہ نے نمازکے لئے وضویاغسل کياہے احتياط واجب کی بنا پر حالت اختيار ميں اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن کی عبارت سے مس نہيں کرسکتی اور اضطرار کی صورت ميں جائز ہے ، ليکن احتياط کی بنا پر وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣ ۴ جس مستحاضہ نے اپناواجب غسل انجام دیاہے اس کے لئے مسجد ميں جانا،مسجدميں ٹہرنا، واجب سجدے والی آیت کی تلاوت کرنااوراس کے شوهرکے لئے اس سے نزدیکی کرنا حلال ہے ، اگرچہ اس نے نماز ادا کرنے کے لئے انجام دئے جانے والے دوسرے کام مثلاً روئی اور کپڑا تبدیل کرنے کا کام انجام نہ دیا ہو اور بنا بر اقویٰ یہ سارے کام غسل کے بغيربهی جائز ہيں اگرچہ ترک کرنا احوط ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣ ۵ اگرمستحاضہ کثيرہ اورمتوسطہ نمازکے وقت سے پهلے واجب سجدے والی آیت پڑھنا،مسجدجانایااس کاشوهراس سے نزدیکی کرناچاہے تو احتياط مستحب ہے کہ وہ عورت غسل کرلے۔

مسئلہ ۴ ٣ ۶ مستحاضہ پرنمازآیات واجب ہے اورنمازآیات کے لئے بھی وہ تمام کام ضروری ہيں جونمازیوميہ کے لئے گزرچکے ہيں اوراحتياط کی بنا پرمستحاضہ کثيرہ وضوبهی کرے۔

۷۱

مسئلہ ۴ ٣٧ جب بھی مستحاضہ پرنمازیوميہ کے اوقات ميں نمازآیات واجب ہوجائے اور دونوں نمازوں کو بلافاصلہ پڑھنا چاہے تب بھی ضروری ہے کہ یوميہ اورآیات دونوں نمازوں کے لئے عليٰحدہ عليٰحدہ مستحاضہ کے وظائف پر عمل کرے۔

مسئلہ ۴ ٣٨ مستحاضہ کے لئے ضروری ہے کہ قضا نمازوں کی ادائيگی پاک ہونے تک مو خٔرکردے اورقضاکے لئے وقت تنگ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ هرقضانمازکے لئے ادانمازکے واجبات بجالائے۔

مسئلہ ۴ ٣٩ اگرعورت جانتی ہوکہ اسے آنے والاخون زخم کاخون نہيں ہے اورشرعاً اس پرحيض ونفاس کا حکم بھی نہيں ہے توضروری ہے کہ استحاضہ کے احکام پر عمل کرے، بلکہ اگر شک ہو کہ خون استحاضہ ہے یادوسرے خونوں سے کوئی تو ان کی علامت نہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پراستحاضہ کے کام انجام دے۔

حيض

حيض وہ خون ہے جو غالباً ہر مهينے چند دنوں کے لئے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتا ہے ۔

عورت کو جب حيض کا خون آئے تو اسے حائض کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۴۴ ٠ حيض کا خون عموماً گاڑھا و گرم ہوتا ہے اور اس کا رنگ سياہ یا سرخ ہوتا ہے ۔ یہ شدت اور تهوڑی سی جلن کے ساته خارج ہوتا ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ١ ساٹھ برس پورے کرنے کے بعد عورت یائسہ ہو جاتی ہے ، چنانچہ اس کے بعد اسے جو خون آئے وہ حيض نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ پچاس سال مکمل ہوجانے کے بعدسے ساٹھ سال کی عمر پوری ہونے تک یائسہ اور غير یائسہ دونوں کے احکام پر عمل کرے چاہے قریشی ہو یا غير قریشی، لہٰذا اس دوران اگر علاماتِ حيض کے ساته یا ایامِ عادت ميں خون آئے تو احتياط واجب کی بنا پر ان کاموں کو ترک کر دے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔

مسئلہ ۴۴ ٢ اگر کسی لڑکی کو نو سال کی عمر تک پهنچنے سے پهلے خون آئے تو وہ حيض نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ٣ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو بھی حيض آنا ممکن ہے اور حاملہ وغير حاملہ کے درميان احکامِ حيض ميں کوئی فرق نہيں ہے ۔هاں، اگر حاملہ عورت اپنی عادت کے ایام شروع ہونے کے بيس روز بعد حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو احتياط واجب کی بنا پر اس کے لئے ضروری ہے کہ حائضہ پر حرام کاموں کو ترک کردے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

مسئلہ ۴۴۴ جس لڑکی کو معلوم نہ ہو کہ وہ نو سال کی ہو چکی ہے یا نہيں ، اگر اسے ایسا خون آئے جس ميں حيض کی علامات نہ ہوں تو وہ حيض نہيں ہے اور اگر اس خون ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو وہ حيض ہے اور شرعاً اس کی عمر پورے نو سال ہوگئی ہے ۔

۷۲

مسئلہ ۴۴۵ جس عورت کو شک ہو کہ یائسہ ہوگئی ہے یا نہيں ، اگر وہ خون دیکھے اور نہ جانتی ہو کہ یہ حيض ہے یا نہيں تو اس کی ذمہ داری ہے کہ خود کو یائسہ نہ سمجھے۔

مسئلہ ۴۴۶ حيض کی مدت تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتی۔

مسئلہ ۴۴ ٧ حيض کے لئے ضروری ہے کہ پهلے تين دن لگاتار آئے، لہٰذا اگر مثال کے طور پر کسی عورت کو دو دن خون آئے پھر ایک دن نہ آئے اور پھر ایک دن خون آجائے تو وہ حيض نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ دوسری صورت جيسی صورتحال ميں ان کاموں کو ترک کردے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔

مسئلہ ۴۴ ٨ حيض کی ابتدا ميں خون کا باہر آنا ضروری ہے ، ليکن یہ ضروری نہيں کہ پورے تين دن خون نکلتا رہے، بلکہ اگر شرم گاہ ميں بھی خون موجود ہو تو کافی ہے ۔هاں، خون کا رحم ميں ہونا کافی نہيں ہے ، البتہ اگر تين دنوں ميں تهوڑے سے وقت کے لئے کوئی عورت پاک ہو بھی جائے جيسا کہ عورتوں کے درميان معمول ہے تب بھی وہ حيض ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ٩ ضروری نہيں ہے کہ عورت پهلی اور چوتھی رات کو بھی خون دیکھے ليکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اور تيسری رات کو خون منقطع نہ ہو۔ پس اگر پهلے دن اذانِ صبح کے وقت سے تيسرے دن غروب آفتاب تک متواتر خون آتا رہے اور کسی وقت قطع نہ ہو تو بغير کسی اشکال کے وہ حيض ہے ۔ اسی طرح سے اگر پهلے دن دوپہر سے خون آنا شروع ہو اور چوتھے دن اسی وقت قطع ہو تو وہ بھی حيض ہے ، ليکن اگر طلوعِ آفتاب سے شروع ہو کر تيسرے دن غروب تک رہے تو احتياط واجب کی بنا پر ان کاموں کو ترک کر دے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

مسئلہ ۴۵ ٠ اگر کوئی عورت تين دن متواتر علامات حيض کے ساته یا عادت کے ایام ميں خون دیکھے اور پاک ہوجائے، چنانچہ اگر وہ دوبارہ علاماتِ حيض کے ساته یا عادت کے ایام ميں خون دیکھے تو جن دنوں ميں وہ خون دیکھے اور جن دنوں ميں وہ پاک ہو، ان تمام دنوں کو ملاکر اگر دس دنوں سے زیادہ نہ ہوں تو جن دنوں ميں وہ پاک تهی، وہ بھی حيض ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ١ اگر کسی عورت کو تين دن سے زیادہ اور دس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ خون پهوڑے یا زخم کا ہے یا حيض کا، تو اگر خون ميں علامات حيض موجود ہوں یا ایام عادت ہوں تو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے۔ اس صورت کے علاوہ اگر جانتی ہو کہ سابقہ حالت طهارت تھی یا سابقہ حالت کو نہ جانتی ہو تو اپنے آپ کو پاک سمجھے اور اگر جانتی ہو کہ سابقہ حالت حيض تھی تو جهاں تک سابقہ حالت کے تمام خون اور مشکوک خون کا شرعاً حيض ہونا ممکن ہو، اسے حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴۵ ٢ اگر کوئی عورت خون دیکھے جسے تين دن نہ گزرے ہوں اور جس کے بارے ميں اسے علم نہ ہو کہ زخم کا خون ہے یا حيض کا اور ایامِ عادت ميں نہ ہو اور اس ميں صفات حيض نہ ہوں، تواگر سابقہ حالت حيض ہو جيسا کہ سابقہ مسئلے ميں بيان ہوچکا، تو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عبادات کو بجالائے۔

۷۳

مسئلہ ۴۵ ٣ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے شک ہو کہ یہ خون حيض ہے یا استحاضہ ، تو اس ميں حيض کی شرائط موجود ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴۵۴ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حيض ہے یا بکارت کا خون ، توضروری ہے کہ یااپنے بارے ميں تحقيق کرے یعنی روئی کی کچھ مقدار شرمگاہ ميں رکھے اور تهوڑی دیر انتظار کرے پھر روئی باہر نکالے، پس اگر خون روئی کے اطراف ميں لگا ہو تو خون بکارت ہے اور اگر خون ساری روئی تک پهنچ چکا ہو تو حيض ہے اور یا احتياط کرتے ہوئے ان کاموں کو بھی ترک کرے جو حائضہ پر حرام ہيں اور ان اعمال کو بھی انجام دے جو پاک عورت پر واجب ہيں ۔

مسئلہ ۴۵۵ اگر کسی عورت کو تين دن سے کم خون آئے اور پاک ہو جائے اور پھر تين دن تک ایام عادت یا علاماتِ حيض کے ساته آئے تو دوسرا خون حيض ہے اور پهلا خون اگرچہ ایام عادت ميں ہو حيض نہيں ہے ۔

حائضہ کے احکام

مسئلہ ۴۵۶ حائضہ پر چند چيزیں حرام ہيں :

اوّل: نماز جيسی عبادات جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم کرنا پڑتا ہے ۔ ان عبادات کے حرام ہونے سے مراد یہ ہے کہ انہيں حکمِ خدا کی بجاآوری اور مطلوبيتِ شرعی کے قصد سے انجام دینا جائز نہيں ہے ۔ ليکن نماز ميت جيسی عبادات جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم ضروری نہيں ہے ، انہيں انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

دوم:احکامِ جنابت ميں مذکورہ تمام چيزیں جو مجنب پر حرام ہيں ۔

سوم:فرج ميں جماع جو کہ مرد و عورت دونوں پر حرام ہے چاہے ختنہ گاہ کی مقدار سے بھی کم دخول ہو اور منی بھی نہ نکلے اور احتياط واجب کی بنا پر حائضہ کے ساته پشت کی جانب سے بھی وطی کرنے ميں اجتناب کرے۔ ہاں، حائضہ سے نزدیکی کے علاوہ بوسہ دینے اور چھيڑ چھاڑ جيسی لذت حاصل کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ٧ جماع کرنا ان ایام ميں بھی حرام ہے جب عورت کا حيض قطعی نہ ہو ليکن اس پر شرعاً خون کو حيض سمجھنا ضروری ہو، لہٰذا جو عورت دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور آئندہ آنے والے حکم کی بنا پر ان ميں سے اپنی رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت والے ایام کو حيض قرار دینا ضروری ہو تو ان ایام ميں اس کا شوہر اس سے نزدیکی نہيں کرسکتا ہے ۔

۷۴

مسئلہ ۴۵ ٨ اگر مرد بيوی سے حالت حيض ميں نزدیکی کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر ایام حيض کے پهلے حصے ميں اٹھ ارہ، دوسرے حصّے ميں نو اور تيسرے حصے ميں ساڑے چار چنے کے برابر سکہ دار سونا بطور کفارہ ادا کرے۔ مثلاً جس عورت کو چھ دن حيض آتا ہو اگر اس کا شوہر پهلی اور دوسری رات یا دن ميں اس سے جماع کرے تو اٹھ ارہ چنے کے برابر سونا، تيسری اور چوتھی رات یا دن ميں نَو چنے اور پانچویں اور چھٹی رات یا دن ميں نزدیکی کرے تو ساڑھے چار چنے کے برابر سونا دے اور عورت پر کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ٩ احتياط مستحب کی بنا پر حائضہ کے ساته پشت کی جانب سے نزدیکی کرنے کا کفارہ سابقہ مسئلے کے مطابق ادا کرے۔

مسئلہ ۴۶ ٠ اگر سکہ دار سونا نہ ہو تو اس کی قيمت ادا کرے اور اگر اس کی قيمت ميں ، جماع کرتے وقت اور فقير کو ادا کرتے وقت اختلاف ہو تو فقير کو ادا کرتے وقت کی قيمت حساب کرے۔

مسئلہ ۴۶ ١ اگر کوئی اپنی بيوی کے ساته ایام حيض کے پهلے، دوسرے اور تيسرے ہر حصے ميں جماع کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر ہر حصّے کا کفارہ دے جو مجموعاً ساڑھے اکتيس چنے ہيں ۔

مسئلہ ۴۶ ٢ اگر حائضہ سے متعدد بار نزدیکی کرے تو احتياط مستحب ہے کہ ہر جماع کے لئے عليحدہ کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶ ٣ اگر مرد نزدیکی کے دوران مطلع ہو جائے کہ بيوی حائضہ ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ فوراً اس سے جدا ہو جائے اور اگر جدا نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶۴ اگرمرد حائضہ عورت سے زنا کرے یا نامحرم حائضہ کو بيوی سمجھ کر اس کے ساته جماع کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶۵ جو شخص کفارہ دینے کی قدرت نہ رکھتا ہو احتياط مستحب کی بنا پر ایک فقير کو صدقہ دے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو استغفار کرے۔

مسئلہ ۴۶۶ اگر کوئی شخص جاہل قاصر ہونے کی وجہ سے یا بھول کر اپنی بيوی سے حالت حيض ميں نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ، ليکن جاہل مقصر ميں محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٧ اگر بيوی کو حائضہ سمجھتے ہوئے اس سے نزدیکی کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حائضہ نہيں تھی تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٨ اگر عورت کو حالت حيض ميں طلاق دے تو جيسا کہ طلاق کے احکام ميں بتایا جائے گا، ایسی طلاق باطل ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٩ گر عورت خود کے بارے ميں حائضہ ہونے یا پاک ہونے کی خبر دے تو قبول کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٠ اگر عورت نماز پڑھتے ہوئے حائضہ ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۷۵

مسئلہ ۴ ٧١ اگر عورت نماز پڑھتے ہوئے شک کرے کہ حائضہ ہوئی یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر نماز کے بعد معلوم ہو کہ نماز کے دوران حائضہ ہوگئی تھی تو اس حالت ميں پڑھی ہوئی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٢ خون حيض سے پاک ہونے کے بعد اگر نماز اور دوسری عبادتيں جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم ضروری ہوتا ہے ، انجام دینا چاہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط مستحب ہے کہ غسل سے پهلے وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۴ ٧٣ حيض سے پاک ہونے کے بعد اگر چہ غسل نہ کيا ہو، عورت کو طلاق دینا صحيح ہے اور اس وقت اس کا شوہر اس سے جماع بھی کرسکتا ہے ، ليکن جماع ميں احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے شرمگاہ دهونے کے بعدهو اور احتياط مستحب ہے کہ غسل سے پهلے، خصوصاً جب شدید خواہش نہ ہو، مجامعت نہ کرے۔ ہاں، مسجد ميں ٹھ هرنے اور قرآن کے حروف کو مس کرنے جيسے کام جو حائضہ پر حرام تهے، جب تک غسل نہ کرے حلال نہيں ہوں گے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۴ اگر اتنا پانی نہ ہو جس سے وضو اور غسل دونوں کئے جا سکيں ليکن صرف غسل کرنے کے لئے کافی ہو تو غسل کرنا ضروری ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر وضوکے بدلے تيمم کرے اور اگر صرف وضو کرنے کے لئے پانی ہو اور غسل کے لئے نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور غسل کے بدلے تيمم کرے اور اگر وضو اور غسل دونوں کے لئے پانی نہ ہو تو غسل اور وضو کے بدلے ایک ایک تيمم کرے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۵ عورت نے جو نمازیں حالت حيض ميں ترک کی ہيں ان کی قضا نہيں ہے اور نماز آِیات کا حکم مسئلہ نمبر ” ١ ۵ ١ ۴ “ ميں آئے گا، جب کہ رمضان کے روزوں کی قضا کرناضروری ہے ۔هاں، معين نذر والے روزے یعنی نذر کی ہو کہ مثلاً فلاں دن روزہ رکہوں گی اور اسی دن حائضہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۶ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد عورت جانتی ہو کہ اگر دیر کی تو حائضہ ہو جائے گی تو ضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اور اگر احتمال ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٧ اگر عورت اوّل وقت ميں نماز پڑھنے ميں تاخير کرے اور اتنا وقت گذر جائے کہ وہ اپنے حال کے اعتبار سے ایک شرائط رکھنے والی اور مبطلات سے محفوظ نماز انجام دے سکتی ہو اور حائضہ ہو جائے تو اس نماز کی قضا واجب ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت بھی ہے جب وقت اتنا گذرا ہو کہ صرف حدث سے طهارت، چاہے تيمم کے ذ ریعے ہی سهی، کے ساته نماز ادا کر سکتی ہو، جب کہ اس کے لئے نماز کی باقی شرائط مثلاً ستر پوشی یا خبث سے طهارت کا انتظام کرنا ممکن نہ ہو۔

مسئلہ ۴ ٧٨ اگر عورت نماز کے آخر وقت ميں خون سے پاک ہو جائے اور ابهی اتنا وقت باقی ہو کہ غسل کرکے ایک یا ایک سے زیادہ رکعت نماز پڑھی جا سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس کی قضا ضروری ہے ۔

۷۶

مسئلہ ۴ ٧٩ اگر حيض سے پاک ہونے کے بعد عورت کے پاس نماز کے وقت ميں غسل کرنے کی گنجائش نہ ہو، ليکن تيمم کرکے وقت نماز ميں نماز پڑھ سکتی ہو تو احتياط واجب ہے کہ تيمم کر کے نماز پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت ميں اس پر قضا نہيں ہے ۔ البتہ اگر کسی اور وجہ سے اس کی شرعی ذمہ داری تيمم ہو مثلاً اس کے لئے پانی مضر ہو تو واجب ہے کہ تيمم کر کے نماز پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت ميں قضا واجب ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨٠ اگر حيض سے پاک ہونے کے بعد عورت شک کرے کہ نماز کے لئے وقت ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنی نماز پڑھے۔

مسئلہ ۴ ٨١ اگر اس خيال سے کہ نماز کے مقدمات فراہم کر کے ایک رکعت نماز کے لئے بھی وقت نہيں ہے ، نماز نہ پڑھے، پھر بعد ميں معلوم ہو کہ وقت تھا تو اس نماز کی قضا کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨٢ مستحب ہے کہ حائضہ، نماز کے وقت ميں خود کو خون سے پاک کرے، روئی اور کپڑے کو تبدیل کرے، وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتی ہو تو تيمم کرکے کسی پاک جگہ رو بقبلہ ہو کر بيٹھے اور نماز کی مقدار ميں ذکر، تسبيح تهليل اور حمد الٰهی ميں مشغول ہو۔

مسئلہ ۴ ٨٣ حائضہ کے لئے مهندی اور اس جيسی چيز سے خضاب کرنا اور بدن کے کسی حصے کو قرآن کے الفاظ کے درميانی حصّوں سے مس کرنا مکروہ ہے ۔هاں، قرآن ساته رکھنے اور پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

حائضہ عورتوں کی اقسام

مسئلہ ۴ ٨ ۴ حائضہ عورتوں کی چھ قسميں ہيں :

(اوّل) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين پر خون دیکھے اور اس کے ایام حيض کی تعداد بھی دونوں مهينوں ميں مساوی ہو مثلاً مسلسل دو ماہ مهينے کی پهلی سے ساتویں تک خون دیکھے ۔

(دوم) و قتيہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک وقت معين پر خون دیکھے ليکن دونوں مهينوں ميں اس کے ایام حيض کی تعداد برابر نہ ہو مثلاً مسلسل دو ماہ پهلی سے خون دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو۔

۷۷

(سوم) عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے ایام حيض کی تعداد مسلسل دو ماہ ایک دوسرے کے برابر ہو ليکن ان دونوںمهينوں ميں خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تک اور دوسرے مهينے بارہ سے سترہ تاریخ تک خون دیکھے ۔

اورایک مهينے ميں دو مرتبہ مساوی ایام ميں خون دیکھنے سے عادت طے ہونا محل اشکال ہے ، مثلاً مهينے کی ابتدا ميں پانچ روز اور دس یا زیادہ دنوں بعد دوبارہ پانچ روز خون دیکھے ۔

(چهارم) مضطربہ: یہ وہ عورت ہے جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو ليکن اس کی عادت ہی معين نہ ہوئی ہو یا پرانی عادت بگڑ گئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو ۔

(پنجم) مبتدئہ: یہ وہ عورت ہے جس نے پهلی مرتبہ خون دیکھا ہو۔

(ششم)ناسيہ: یہ وہ عورت ہے جو اپنی عادت بھول گئی ہو ان ميں سے ہر ایک کے مخصوص احکام ہيں جو آئندہ مسائل ميں بيان ہوں گے۔

١۔وقتيہ و عدديہ عادت والی عورت مسئلہ ۴ ٨ ۵ وقتيہ و عددیہ عادت والی خواتين کی دو اقسام ہيں :

(اوّل) وہ عورت جو مسلسل دو ماہ وقت معين پر حيض دیکھے اور وقت معين پر پاک ہو جائے مثلاً مسلسل دو ماہ پهلی سے خون دیکھے اور ساتویں کو پاک ہو جائے۔ لہٰذا اس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہے ۔

(دوم) وہ عورت جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر حيض دیکھے اور تين یا اس سے زیادہ دن گزرنے کے بعد ایک دن یا زیادہ ایام پاک رہے اور پھر دوبارہ حيض دیکھے ليکن خون والے اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مهينوں ميں خون والے اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ برابر ہو۔ لہٰذا اس کی عادت ان تمام ایام کی ہے کہ جن ميں خون دیکھا اور جن ميں پاک رہی ہے ، البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ دونوں مهينوں ميں درميانی پاکی کے ایام مساوی ہوں، مثلا اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھے اور پھر تين دن پاک گزرنے کے بعد دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے مهينے تين دن خون دیکھنے کے بعد تين دن سے کم یا زیادہ پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ نو دن ہو تو اس صورت ميں پورے نو دن حيض ہيں اور اس عورت کی عادت نو دن ہے ۔

۷۸

مسئلہ ۴ ٨ ۶ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے ایام ميں یا عادت سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے سلسلے ميں مذکورہ احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا مثلاً تين دن پورے ہونے سے پهلے پاک ہو جائے تو ضروری ہے کہ جن عبادتوں کو ترک کيا تھا ان کی قضا کرے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب ایام عادت کی ابتدا ميں تاخير سے خون دیکھے ليکن عادت سے باہر نہ ہو، البتہ اگر ایام عادت کے تمام ہونے کے بعد خون دیکھے اور اس ميں حيض کی کوئی علامت نہ ہو تو اگر ایام عادت کے ختم ہونے کے دو یا زیادہ دنوں کے بعد ہو تو حيض نہيں ہے اور اگردو دن سے کم مدت ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٨٧ وقتيہ اور عددیہ عادت والی عورت اگر عادت کے تمام ایام کے ساته ساته عادت سے پهلے والے ایام ميں حيض کی علامات کے ساته یا اس طرح خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت پهلے آگئی ہے اور عادت کے بعد کے ایام ميں بھی حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور یہ سب مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر زیادہ ہو تو فقط عادت والا خون حيض ہے اور اس سے پهلے اور بعد والا استحاضہ ہے ۔ لہٰذا عادت سے پهلے اور بعد والے ایام ميں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا ضروری ہے ۔

اگر عادت کے تمام ایام کے ساته عادت سے پهلے والے ایام ميں حيض کی علامات کے ساته یا اس طرح کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت پهلے آگئی ہے ، خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو فقط عادت کے ایام حيض ہيں اور عادت سے پهلے والا خون استحاضہ ہے ۔ لہٰذا ان ایام ميں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا ضروری ہے ۔

اگر عادت کے تمام ایام کے ساته ساته عادت کے بعد بھی حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تو احتياط واجب کی بنا پر عادت کے بعد والے ایام ميں تروک حائض اور افعال استحاضہ ميں جمع کرے، البتہ اگر مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو جائے تو عادت والے ایام حيض اور باقی استحاضہ ہيں ۔

۷۹

مسئلہ ۴ ٨٨ وقتيہ اور عددیہ عادت والی عورت اگر عادت کے کچھ دن اور عادت سے اتنا پهلے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا عادت سے پهلے حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو عادت کے ایام ميں آئے ہوئے خون کے ساته عادت سے پهلے والے جن ایام کا مجموعہ اس کی عادت کے برابر ہو وہ حيض ہے بشرطيکہ عادت سے پهلے والے خون کے بارے ميں عرفاً کها جاتا ہو کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا اس ميں حيض کی علامات ہوں اور ان سے پهلے والے ایام کو استحاضہ شمار کرے۔

اور اگر عادت کے کچھ دن اور اس کے بعد چند دن خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو اور عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات بھی موجود ہوں تو سب کا سب حيض ہے اور اگر عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات موجود نہ ہوں، تو عادت اور اس کے بعد والے جتنے ایام مل کر عادت کے دنوں کی تعداد بنتی ہوان کو حيض قرار دے اور اس کے بعد دسویں دن تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے ۔ ہاں، اگر سب مل کر دس دن سے زیادہ ہو تو عادت کی مقدار کے ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٨٩ جو عورت عادت والی ہو، اگر تين دن یا اس زیادہ خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور دونوں خونوں کے درميان دس دن سے کم فاصلہ ہو اور خون دیکھنے والے ایام کے ساته درميان ميں پاک رہنے والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو مثلاً پانچ دن خون دیکھے پھر پانچ دن پاک رہے اور دوبارہ پانچ دن خون دیکھے تو اس کی چند صورتيں ہيں :

١) پهلی مرتبہ دیکھا ہوا سارا خون عادت کے ایام ميں ہو اور پاک ہونے کے بعد جو دوسرا خون دیکھا ہو وہ عادت کے دنوں ميں نہ ہو، اس صورت ميں پهلے والے سارے خون کو حيض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔ یهی حکم ہے جب پهلے خون کی کچھ مقدار عادت ميں اور کچھ مقدار عادت سے پهلے دیکھے بشرطيکہ خون عادت سے اتنا پهلے دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا حيض کی علامات کے ساته ہو، چاہے عادت سے پهلے ہو یا عادت کے بعد ہو۔

٢) پهلا خون عادت کے ایام ميں نہ ہو اور دوسرے خون ميں سے سارا یا کچھ خون پهلی صورت ميں مذکورہ طریقے کے مطابق عادت کے دنوں ميں ہو تو ضروری ہے کہ دوسری مرتبہ کے سارے خون کو حيض اور پهلے خون کو استحاضہ قرار دے۔

٣) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت کے ایام ميں ہو اور پهلی مرتبہ کا جو خون عادت کے ایام ميں ہو وہ تين دن سے کم نہ ہو تو اس صورت ميں یہ مقدار درميانی پاکی اور دوسری مرتبہ کے عادت ميں آئے ہوئے خون کے ساته اگر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو حيض ہے ، جب کہ پهلے خون ميں سے عادت سے پهلے والا اور دوسرے ميں سے عادت کے بعد والا خون استحاضہ ہے مثلاً اگر اس کی عادت مهينے کی تيسری سے دسویں تک ہو تو جب مهينے کی پهلی سے چھٹی تک خون دیکھے پھر دو دن پاک رہے اس کے بعد پندرہویں تک خون دیکھے تو تين سے دس تک حيض ہے اور پهلے، دوسرے اور گيارہ سے پندرہ تک استحاضہ ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

خمس کے احکام

مسئلہ ١٧ ۶ ٨ سات چيزوں پر خمس واجب ہوتا ہے :

١) کمانے سے حاصل ہونے والا فائدہ

٢) کان

٣) دفينہ

۴) حلال مال جو حرام مال سے مخلوط ہو جائے

۵) جواہرات جو سمندر ميں غوطہ لگانے سے حاصل ہوتے ہيں

۶) جنگ کا مالِ غنيمت

٧) وہ زمين جو کافر ذمی مسلمان سے خریدے اور ان کے احکام مندرجہ ذیل مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کمانے سے حاصل ہونے والا منافع

مسئلہ ١٧ ۶ ٩ جب بھی انسان تجارت، صنعت یا دوسرے پيشوں سے مال حاصل کرے چاہے مثال کے طور پر وہ کسی ميّت کے لئے انجام دئے گئے نماز اور روزے کی اجرت ہی کيوں نہ ہو اور وہ مال اس کے اور اس کے اہل وعيال کے سال بھر کے اخراجات کے بعد بچ جائے تو ضروری ہے کہ اس مال کا خمس یعنی پانچواں حصہ، بعد ميں بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧٠ اگر کمائے بغير کوئی مال دستياب ہو مثلاًکوئی چيز اسے بخش دی جائے اور وہ چيز لوگوں کی نگاہوں ميں قابلِ توجہ قدر و قيمت کی حامل ہو تو ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات کے بعد اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧١ عورت کے مہر اور مردکو طلاقِ خلع کے عوض ملنے والے مال پر خمس نہيں ہے ۔

اسی طرح وارث کو ملنے والی ميراث پر بھی خمس نہيں ہے ۔ ہاں، اگر مثال کے طور پر کسی شخص سے رشتہ داری رکھتا ہو ليکن اس سے ميراث ملنے کا گمان نہ ہو تو ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہونے کی صورت ميں اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧٢ اگر ایسے شخص کی ميراث سے انسان کو کچھ مال ملے جو خمس کا اعتقاد رکھتا ہو اور انسان جانتا ہو کہ مرحوم نے خمس ادا نہيں کيا تھا تو ضروری ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے اس مال کا خمس نکالے اور اگر خود اس مال پر خمس نہ ہو ليکن وارث جانتا ہو کہ مرحوم کے ذمے خمس واجب الادا ہے تو دوسرے قرضوں کی طرح خمس بھی اُس مال ميں آجائے گا کہ جب تک اسے ادا نہ کر دے مال ميں تصرف کا حق نہيں رکھتا۔ البتہ جب مال سے خمس نکالنا چاہے تو ضروری ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے۔

۲۸۱

مسئلہ ١٧٧٣ اگر کفایت شعاری کی وجہ سے سال بھر کے اخراجات ميں سے کوئی چيز بچ جائے تو اس کا خمس نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧ ۴ جس شخص کے تمام اخراجات کوئی دوسرا شخص دیتا ہو ضروری ہے کہ حاصل ہونے والے تمام مال کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٧ ۵ اگر کسی جائيداد کو معين افراد پر مثلاًاپنی اولاد پر وقف کر دے اور اس جائيداد ميں کهيتی باڑی اور شجرکاری کرے اور اس سے کوئی چيز حاصل ہو جو ان کے سال بھر کے اخراجات سے زائد ہو تو ان پر اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر کسی اور طریقے سے بھی اس جائيداد سے کوئی منافع حاصل کریں، مثلاًاس کا کرایہ وصول کریں تو ان پر سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧ ۶ جو مال فقير نے بطورِ خمس و زکات ليا ہو اگر سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر فقير اس لئے ہوئے مال سے کوئی منافع حاصل کرے مثلاًبطور خمس لئے ہوئے درخت سے پھل حاصل ہوں اور وہ اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور کسی سے بطور صدقہ ليا جانے والا مال بھی اگر سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧٧ جس رقم کا خمس نہ دیا گيا ہو اگر عين اس رقم سے کوئی چيز خریدے یعنی فروخت کرنے والے سے کهے کہ ”یہ چيز ميں اس رقم سے خریدتا ہوں“، تو اگر حاکم شرع اس سودے کے پانچویں حصے کی اجازت دے دے تو سودا صحيح ہو گا اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس چيز کا خمس حاکم شرع کو دے اور اگر حاکم شرع اجازت نہ دے تو اس سودے کا پانچواں حصہ باطل ہے ۔ اب اگر وہ رقم جو بيچنے والے نے لی تھی تلف نہ ہوگئی ہو تو حاکمِ شرع اس رقم سے خمس لے گا اور اگر وہ رقم تلف ہو جائے تو فروخت کرنے والے یا خریدار سے اس کے عوض کا مطالبہ کرے گا۔

مسئلہ ١٧٧٨ اگر کسی چيز کو ذمے پر خریدے او ر سودا ہو جانے کے بعد اس کی قيمت ایسی رقم سے ادا کرے جس کا خمس نہ نکالا گيا ہو تو سودا صحيح ہے جب کہ خریدار اس رقم کے پانچویں حصے کی بہ نسبت فروخت کرنے والے کا مقروض ہو گا۔ ہاں، جو رقم فروخت کرنے والے کو ملی ہے اگر وہ تلف نہ ہو گئی ہو تو حاکم شرع اسی رقم سے خمس لے گا جب کہ تلف ہو جانے کی صورت ميں خریدار یا فروخت کرنے والے سے اس کے عوض کا مطالبہ کرے گا۔

۲۸۲

مسئلہ ١٧٧٩ اگر کوئی ایسا مال کہ جس کا خمس نہ دیا گيا ہو خریدے اور حاکم شرع اس چيز کے پانچویں حصے کے سودے کی اجازت نہ دے تو اتنی مقدار کا سودا باطل ہے اور حاکم شرع اس مال کا پانچواں حصہ لے سکتا ہے اور اگر اجازت دے دے تو سودا صحيح ہے اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس مال کے عوض کا پانچواں حصہ حاکم شرع کو دے اور اگر بيچنے والے کو دے چکا ہے تو اس سے واپس لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٠ انسان کوئی ایسی چيز جس کا خمس نہ دیا گيا ہو، کسی کو بخش دے تو اس چيز کا پانچواں حصہ اس تک منتقل ہی نہيں ہو تا۔

مسئلہ ١٧٨١ اگر کافر یا کسی ایسے شخص سے جو خمس دینے کا عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو کوئی مال شيعہ اثنا عشری کے ہاتھ آئے تو اس کا خمس نکالنا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٢ تاجر، کاروباری، صنعت کار اور ان جيسے افراد جس وقت سے منافع حاصل کریں، جو کہ ان کے سال کی ابتدا ہے ، ایک سال گزرنے کے بعد ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دیں۔ ہاں، جو شخص کا روباری نہ ہو اگر اتفاقاًاسے منافع مل جائے تو ضروری ہے کہ نفع حاصل ہونے کے ایک سال بعد سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٨٣ سال بھر ميں جب بھی کوئی منفعت کسی شخص کے ہاتھ آئے جو اس کے اخراجات سے زیادہ ہو تو اس کا خمس اسی وقت دے سکتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ سال کے آخر تک خمس کی ادائيگی ميں تاخيرکر دے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ قمری سال کو خمس کا سال قرار دے۔

مسئلہ ١٧٨ ۴ جس شخص کا تاجر اور کاروباری شخص کی طرح خمس دینے کے لئے سال مقرر ہو، اگر کوئی منفعت حاصل کرے اور دوران سال اس کا انتقال ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کے مرنے کے وقت تک کے اخراجات کو اس منفعت سے نکال کر باقی مقدار کا خمس دیا جائے۔

مسئلہ ١٧٨ ۵ اگر تجارت کی غرض سے خریدی ہوئی چيز کی قيمت بڑھ جانے کے باوجود اسے فروخت نہ کرے اور سال مکمل ہونے سے پهلے ہی اس کی قيمت گر جائے تو قيمت کی بڑھی ہوئی مقدار کا خمس اس پر واجب نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١٧٨ ۶ اگر تجارت کی غرض سے خریدی ہوئی چيز کی قيمت بڑھ جائے اور سال مکمل ہونے کے بعد تک اس اميد پر اسے فروخت نہ کرے کہ ابهی قيمت اور بڑھے گی اور اس کی قيمت گرجائے توا گر اس نے تاجروں کے درميان رائج وقت تک ہی اس چيز کو رکھا ہو تو قيمت کی بڑھی ہوئی مقدار کا خمس واجب نہيں ہے ، ليکن اگر اس سے زیادہ مدت تک کسی عذر کے بغير اس چيز کو رکھا تھا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ اس بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے۔

۲۸۳

مسئلہ ١٧٨٧ اگر مال تجارت کے علاوہ کوئی دوسرا مال اس کے پاس ہو جس پر خمس نہ ہو تو یہ مال وراثت کے ذریعے ملنے کی صورت ميں اگر اس کی قيمت بڑھ جائے تو چاہے اسے بيچ بھی دے، بڑھی ہوئی قيمت کا خمس دینا واجب نہيں ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب عوض دئے بغير کسی چيز کا مالک بن جائے چاہے اس چيز پر شروع سے خمس نہ ہو مثلاًایسا گھر اسے بخش دیا گيا ہو جس کی اسے ضرورت بھی ہو اور سال کے خرچے ميں وہ گھر استعمال بھی ہوا ہو یا اس چيز پر خمس ہو ليکن اسی مال سے اس کا خمس بھی دیا جا چکا ہو، مثلاًحيازت کے ذریعے کسی چيز کا مالک بنا ہو اور اس کا خمس بھی دے چکا ہو۔

ليکن اگر عوض دے کر مالک بنا ہو اور اس کی قيمت بڑھ جائے تو جب تک اس چيز کو فروخت نہ کرے اس کا خمس نہيں ہے اور اگر فروخت کر دے تو اخراجات کا حصہ نہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے اور اخراجات کا حصہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے اور دونوں صورتوں ميں اگر سال کے اخراجات ميں ہی ختم ہوجائے تو اس کا خمس نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٨ اگر کوئی شخص اس ارادے سے باغ لگائے کہ قيمت بڑھنے کے بعد اسے فروخت کر دے گا تو ضروری ہے کہ پهل، درختوں کی نشوونما اور باغ کی بڑھی ہوئی قيمت کا خمس دے اور اگر اس کا ارادہ یہ ہوکہ باغ کے پهلوں سے تجارت کرے گا تو ضروری ہے کہ پھل اور درخت کی نشوونما کا خمس دے اور اگر اس کا ارادہ ان پهلوں کو اپنے ذاتی استعمال ميں لانے کا ہو تو ضروری ہے کہ استفادے سے زیادہ ہونے کی صورت ميں پهلوں کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٨٩ اگر بيد، چنار یا ان جيسے درخت لگائے، اگر ان کا خمس دے چکا ہو تو ضروری ہے کہ ہر سال ان کے بڑھنے کا خمس دے۔ اسی طرح اگر درخت کی ان شاخوں سے کوئی منفعت حاصل کرے جو ہر سال کاٹی جاتی ہيں اور صرف ان شاخوں کی قيمت یا دوسری آمدنيوں کے ساته مل کر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ سال کے آخر ميں ان کا خمس ادا کرے۔ ہاں، اگر اصل درختوں کا خمس ہی نہ نکالا ہوا ہو اور وہ درخت بڑھے بھی ہوں تو ضروری ہے کہ اصل درخت کا خمس، اس خمس کے حصے کے بڑھے ہوئے حصے کا خمس اور اصل درخت کے بڑھے ہوئے حصے کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٩٠ جس شخص کی آمدنی کے متعدد ذرائع ہوں، مثلاًجائيداد کا کرایہ ليتا ہو، خرید و فروخت اور کهيتی باڑی بھی کرتا ہو، ضروری ہے کہ سال بھر کی کمائی کے بعد اخراجات سے زائد منافع کا خمس ادا کرے اور اگر ایک پيشے سے منافع حاصل ہو، جب کہ دوسرے پيشے سے نقصان ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ منافع کا خمس نکال دے۔

مسئلہ ١٧٩١ جو اخراجات انسان فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے ، مثلاًدلالوں اور سامان اٹھ انے والے مزدوروں کا خرچہ، یہ منفعت حاصل کرنے کا خرچہ حساب ہوگا اور اسے منفعت سے نکالا جاسکتا ہے اور اتنی مقدار کا خمس واجب نہيں ۔

۲۸۴

مسئلہ ١٧٩٢ آمدنی کا جو حصہ سال بھر ميں خوراک، لباس، گهریلوسامان، مکان کی خریداری، بيٹے کی شادی، بيٹی کے جهيز، زیارات اور ان جيسی چيزوں کے لئے خرچ ہوجائے، اگر اس کی حيثيت سے زیادہ نہ ہوں تو ان پر خمس واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧٩٣ جو مال انسان نذر اور کفارے پر خرچ کرے وہ اس کے سالانہ اخراجات کا حصہ ہے ۔ اسی طرح وہ مال بھی جو انسان کسی کو تحفے یا انعام کے طور پر دے، اگر اس کی حيثيت سے زیادہ نہ ہو تو اس کے سالانہ اخراجات ميں شمار ہوگا۔

مسئلہ ١٧٩ ۴ اگر انسان کسی ایسے شہر ميں زندگی گزارتا ہو جهاں لڑکيوں کے جهيز کے لئے معمولاًہر سال کچھ نہ کچھ تيار کيا جاتا ہے ، اگر انسان اس طریقے کے بغير لڑکی کا جهيز تيار نہ کر سکتا ہو اور جهيز نہ دینا بھی اس کی حيثيت کے منافی ہو تو دوران سال اسی سال کی آمدنی سے جهيز خریدنے پر کوئی خمس واجب نہيں ، ليکن اگر اس سال کی منفعت سے اگلے سال ميں جهيز لے تو اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٩ ۵ جو مال انسان حج وزیارات کے لئے خرچ کرتا ہے وہ اسی سال کے اخراجات ميں شمار ہوتے ہيں جس سال خرچ کر رہاہے اور اگر اس کا سفر اگلے سال تک طولانی ہوجائے تو پچهلے سال کی جتنی آمدنی اگلے سال ميں خرچ کرے، اس کا خمس نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٩ ۶ جو شخص اپنے پيشے یا کاروبار سے منفعت حاصل کرے اور اس کے پاس کچھ ایسا مال بھی موجود ہو جس پر خمس واجب الادا نہ ہو تو وہ اپنے سال بھر کے اخراجات کا حساب صرف اپنی آمدنی سے کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٩٧ جو اشيائے خورد و نوش انسان نے اپنی آمدنی سے سال بھر کے خرچ کے لئے خریدی ہوں، اگر سال کے آخر ميں اس سے کچھ بچ جائے تواس کا خمس نکالنا ضروری ہے اور اگر اس کی قيمت خمس کے طور پر دینا چاہے تو خریداری کے وقت سے قيمت بڑھ جانے کی صورت ميں ضروری ہے کہ سال کے آخر ميں جو قيمت ہو اس کے حساب سے خمس دے۔

مسئلہ ١٧٩٨ اگر خمس کی ادائيگی سے پهلے کوئی شخص اپنی آمدنی سے گھر کے لئے کوئی سامان خریدے تو جس وقت اس سامان کی ضرورت باقی نہ رہے خمس واجب نہيں ۔ یهی حکم خواتين کے زیورات کے لئے ہے جب ان کے لئے ان زیورات کو زینت کے لئے استعمال کرنے کا وقت گزر چکا ہو۔

مسئلہ ١٧٩٩ اگر کسی سال کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتو اس سال کے اخراجات کو اگلے سا ل کی آمدنی سے نہيں نکالا جا سکتا۔

مسئلہ ١٨٠٠ اگر سال کی کی ابتدا ميں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور سرمایہ استعمال کرنا پڑجائے پھر سال مکمل ہونے سے پهلے فائدہ حاصل ہوجائے تو سرمائے سے اٹھ ائی ہوئی مقدار کو فائدے سے نہيں نکالا جاسکتا۔

۲۸۵

مسئلہ ١٨٠١ اگر تجارت یا اس جيسی چيزوں ميں سرمائے کی کچھ مقدار تلف ہو جائے تو تلف سے پهلے حاصل ہونے والے منافع سے اس مقدار کو نکال سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٢ اگر کسی شخص کی سرمائے کے علاوہ کوئی ملکيت تلف ہو جائے تو حاصل ہونے والے فائدے سے اسے مهيا نہيں کرسکتا، مگر یہ کہ اسی سال ميں اس چيز کی ضرورت ہو کہ اس صورت ميں دوران سال حاصل ہونے والی آمدنی سے اسے مهيا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٣ اگر سال کی ابتدا ميں اپنے اخراجات کے لئے قرضہ لے اور سال مکمل ہونے سے پهلے کوئی منفعت حاصل ہو جائے تو اس منفعت سے قرضے کی مقدار نہيں نکال سکتا، مگر یہ کہ منفعت حاصل ہونے کے بعد قرضہ ليا گيا ہو۔ البتہ وہ دوران سال حاصل ہونے والے فائدے سے اپنا قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۴ اگر پورے سال کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور اخراجات کے لئے قرضہ لينا پڑے تو اگلے سال کی آمدنی سے اس قرضے کی مقدار کو نہيں نکال سکتا۔ ہاں، دوران سال کی آمدنی سے قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۵ اگر مال ميں اضافے یا ایسی جائيداد جس کی ضرورت نہ ہو، خریدنے کے لئے قرضہ لے، تو آمدنی سے اس قرضے کو ادا نہيں کر سکتا۔ ہاں، اگر قرض ليا ہوا مال یا اس قرض سے خریدی ہوئی چيز ضائع ہو جائے تو دوران سال کی آمدنی سے یہ قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۶ انسان ہر چيز کا خمس اسی چيز سے یا واجب مقدار ميں رائج کرنسی سے دے سکتا ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع کی اجازت کے بغير کسی اور چيز سے خمس نہ دے۔

مسئلہ ١٨٠٧ جس شخص کے مال پر خمس واجب ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو جب تک وہ خمس ادا نہ کر دے حاکم شرع کی اجازت کے بغير اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا چاہے اس کا خمس دینے کا ارادہ ہی ہو۔ ہاں، اپنے حصے ميں اعتباری تصرفات جيسے فروخت کرنا، صلح کرنا وغيرہ کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٨ جس شخص پر خمس واجب ہو وہ یہ نہيں کر سکتا کہ خمس اپنے ذمے لے لے یعنی خود کو خمس کے مستحقين کا مقروض سمجھ لے اور پچهلے مسئلے ميں بيان شدہ اعتبار سے اپنے مال ميں تصرف کرے اور اگر تصر ف کرے اور وہ مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨٠٩ جس شخص پر خمس واجب ہو اگر وہ حاکم شرع سے مصالحت کر کے خمس اپنے ذمے لے لے تو اپنے مال ميں تصرف کر سکتا ہے اور مصالحت کے بعد جو فائدہ بھی اس سے حاصل ہو گا وہ اسی کا ہو گا۔

۲۸۶

مسئلہ ١٨١٠ جو شخص کسی کے ساته شریک ہو اور اپنے حصے کے فائدے سے خمس دے دے، جب کہ اس کا شریک اپنے منافع کا خمس نہ دے اور اگلے سال خمس نہ دئے ہوئے مال سے شراکت کے لئے سرمایہ دے تو دونوں ميں سے کوئی بھی اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا، مگر یہ کہ خمس نہ دینے والا شریک خمس پر عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو تو اس صورت ميں دوسرا شریک اس مال ميں تصرف کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨١١ اگر نابالغ بچہ سرمائے کا مالک ہو اور اس سے فائدہ بھی حاصل ہو تو اس پر خمس واجب ہو جاتاہے اور ولی پر اس مال کا خمس نکالنا واجب ہے اور اگر ولی نہ دے تو ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد ادا کرے۔

مسئلہ ١٨١٢ جس شخص کو کسی سے کوئی مال ملے اور اسے یقين ہو کہ اس نے اس مال کا خمس اد انہيں کيا ہے تو اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا، مگر یہ کہ وہ شخص خمس پر عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت ہے جب شک ہو کہ اس نے اس مال کا خمس دیاہے یا نہيں ۔

مسئلہ ١٨١٣ اگر کوئی شخص اپنی آمدنی سے دوران سال کوئی ایسی جائيداد یا ملکيت خریدے جو اس کی سالانہ ضرورت اور اخراجات ميں شمار نہ ہو تو سال مکمل ہونے پر اس کا خمس دینا واجب ہے اور اگر خمس نہ دے اور اس کی قيمت بڑھ جائے تو ضروری ہے کہ اس کی موجودہ قيمت کا خمس دے۔یهی حکم جائيداد کے علاوہ دوسری چيزوں مثلاًقالين وغيرہ کاہے۔

مسئلہ ١٨١ ۴ اگر خمس نہ نکالے ہوئے مال سے مثلاًکوئی جائيداد خریدے اور اس کی قيمت بڑھ جائے، تو اگر اس نے اس جائيداد کو قيمت بڑھ جانے پر بيچنے کے لئے نہ خریدا ہو مثلاًکسی زمين کو زراعت کے لئے خرید ا ہو تو اس صورت ميں کہ اس نے یہ ملکيت اپنے ذمے پر خریدی ہو اور خمس نہ نکالے ہوئے مال سے اس کی قيمت ادا کی ہو، ضروری ہے کہ خریدی ہوئی قيمت سے اس کا خمس اد اکرے، ليکن اگر خمس نہ نکالی ہوئی رقم بيچنے والے کو یہ کہہ کر دی ہوکہ جائيداد ميں اس مال سے خرید رہا ہوں، تو حاکم شرع کے اس سودے کے پانچویں حصے کی اجازت دینے کی صورت ميں ضروری ہے کہ خریدا ر اس جائيداد کی موجودہ قيمت کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨١ ۵ جس شخص نے مکلف ہونے کے بعد شروع سے خمس نہ دیا ہو اگر اس نے اپنے کاروبار کے منافع سے کوئی ایسی چيز خریدی ہو جس کی اسے ضرورت نہ ہو اور اسے منفعت کمائے ایک سال گزر گيا ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر اس نے گھر کا سازوسامان اور ضرورت کی چيزیں اپنی حيثيت کے مطابق خریدی ہوں اور جانتا ہو کہ اس نے یہ چيزیں سال کے دوران ہونے والے منافع سے خریدی ہيں جس سال ميں اسے فائدہ ہوا ہے تو ان پر خمس دینا ضروری نہيں ہے ، ليکن اگر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے یہ چيزیں سال کے دوران خریدی ہيں یا سال ختم ہونے کے بعد تو احتياط واجب کی بنا پر حاکم شرع سے مصالحت کرے۔

۲۸۷

٢۔ معدنی کانيں

مسئلہ ١٨١ ۶ اگر کوئی شخص سونے، چاندی، سيسے، تانبے، لوهے، پيٹروليم، کوئلے، فيروزے، عقيق، پهٹکری، نمک اور دوسری معدنی کانوں سے کوئی چيز نکالے اور وہ چيز نصاب کے مطابق ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨١٧ کان سے نکلی ہوئی چيز کا نصاب ١ ۵ مثقال رائج سکہ دار سونا ہے ۔ یعنی اگر کان سے نکالی ہوئی کسی چيز کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس پر جو اخراجات آئے ہوں انہيں نکال کر جو باقی بچے اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨١٨ اگر کان سے نکالی ہوئی چيز کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک نہ پهنچے تو اس پر خمس دینا اس صورت ميں ضروری ہے کہ جب صرف یہ منفعت یا اس کے دوسرے کاروباری منافع سے اس منفعت کو ملاکر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے۔

مسئلہ ١٨١٩ چونا، جپسم، چکنی مٹی اور سرخ مٹی پر معدنی چيزوں کے حکم کا اطلاق نہيں ہوتا اور انہيں باہر نکالنے والے پر اس صورت ميں خمس دینا ضروری ہے جب صرف یہ یا اس کے دوسرے کاروباری منافع سے اس منفعت کو ملاکر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے۔

مسئلہ ١٨٢٠ جو شخص کان سے کوئی چيز نکالے تو ضروری ہے کہ خمس دے، خواہ وہ کان زمين کے اوپر ہو یا زمين کے اندر اور خواہ ایسی زمين ميں ہو جو اس کی ملکيت ہو یا ایسی زمين ميں ہو جس کا کوئی مالک نہ ہو۔

مسئلہ ١٨٢١ اگر کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ جو چيز اس نے کان سے نکالی ہے اس کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے کے برابر ہے یا نہيں تو احتياط کی بنا پر اگر ممکن ہو تو وزن کر کے یا کسی اور طریقے سے اس کی قيمت معلوم کرے اور ممکن نہ ہونے کی صورت ميں اس پر خمس نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨٢٢ اگر کئی افراد مل کر کان سے کوئی چيز نکاليں اور اس کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے اگرچہ ان ميں سے ہر ایک کا حصہ اس مقدار سے کم ہو پھر بھی احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ اس پر کيا ہوا خرچہ نکالنے کے بعد اس کا خمس دیں۔

مسئلہ ١٨٢٣ اگر کوئی شخص معدنی چيز کو اس زمين سے جو دوسرے کی ملکيت ميں ہو، مالک کی اجازت کے بغير نکالے تو جو چيز نکالی جائے وہ اسی مالک کی ہے اور اگر نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ جو چيز نکالی گئی ہو، مالک اس پوری چيز کا خمس دے۔

۲۸۸

٣۔ دفينہ

مسئلہ ١٨٢ ۴ وہ مال جو زمين، درخت، پهاڑ یا دیوار ميں چھپا ہوا ہو اور کوئی اسے وہاں سے نکالے اور اس کی صورت یہ ہو کہ لوگ اسے دفينہ کہيں ۔ تو وہ اگر نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢ ۵ اگر انسان کو کسی ایسی زمين سے دفينہ ملے جو کسی کی ملکيت نہ ہو تو وہ اس کا اپنا مال ہے اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢ ۶ دفينے کا نصاب، اگر چاندی ہو تو ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی اور اگر سونا ہو تو ١ ۵

مثقال سکہ دار سونا ہے ۔ یعنی ان دو ميں سے جو چيز ملے اگر اس کی قيمت حدنصاب کے مطابق ہو تو ضروری ہے کہ اس پر جو اخراجات آئے ہوں انہيں نکالنے کے بعد ان کا خمس دے اور اگر سونے اور چاندی کے علاوہ کوئی دوسری چيز ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اگرچہ ان دو کی حد تک نہ پهنچے ضروری ہے کہ اخراجات نکالنے کے بعد اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٧ اگر کسی شخص کو ایسی زمين سے دفينہ ملے جو اس نے کسی اور سے خریدی ہو اور اسے معلوم ہو کہ یہ ان لوگوں کا مال نہيں ہے جو اس سے پهلے اس زمين کے مالک تهے تو وہ خود اس کا ہو جائے گا اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔ ليکن اگر احتمال دے کہ سابقہ مالکوں ميں سے کسی ایک کا مال ہے تو احتياط کی بنا پر اسے اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ اس کا مال نہيں ہے تو جو اس سے پهلے زمين کا مالک تھا اسے اطلاع دے اور اسی ترتيب سے ان سب کو اطلاع دے جو اس سے پهلے زمين کے مالک تهے اور اگر معلوم ہو جائے کہ ان ميں سے کسی کا مال نہيں ہے تو وہ مال خود اس کا ہو جائے گا اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٨ اگر کسی شخص کو ایسے کئی برتنوں سے مال ملے جو ایک جگہ دفن ہوں اور اس مال کی مجموعی قيمت چاندی ميں ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی یا سونے ميں ١ ۵ مثقال سکہ دار سونا ہو تو ضروری ہے کہ اس مال کا خمس دے، ليکن اگر مختلف مقامات سے دفينے مليں تو ان ميں سے جس دفينے کی قيمت مذکورہ مقدار تک پهنچ جائے ضروری ہے کہ اس مال کا خمس دے اور جس دفينے کی قيمت مذکورہ مقدار تک نہ پهنچے اس پر خمس نہيں ہے ۔ ہاں، اگر دفينہ سونے چاندی کے علاوہ کوئی دوسری چيز ہو تو دونوں صورتوں ميں احتياط واجب کی بنا پر نصاب کو ملاحظہ کئے بغير اس مال کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٩ جب کسی دو افراد کو ایسا دفينہ ملے جو سونا یا چاندی ہو، اگر اس کی قيمت چاندی ميں ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی یا سونے ميں ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے خواہ ان ميں سے ہر ایک کا حصّہ اس مقدار جتنا نہ ہو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا خمس دیں۔ اسی طرح جب وہ دفينہ سونے چاندی کے علاوہ کوئی اور چيز ہو تو اگرچہ نصاب تک نہ پهنچے اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

۲۸۹

مسئلہ ١٨٣٠ اگر کوئی شخص جانور خریدے اور اس کے پيٹ سے اسے کوئی مال ملے تو اگر وہ جانور، بيچنے والے کا پالتوهو مثلاً مچهلياں جنہيں پالا جاتا ہے یا جانور جنہيں گھر یا باغ ميں چارہ دیا جاتا ہے تو واجب ہے کہ بيچنے والے کو اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ وہ مال اس کا نہيں ہے تو یہ مال خریدار کا ہوگا اور اگر اس کے سال کے مخارج ميں خرچ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اس صورت کے علاوہ مثلاً مچھلی جسے شکاری نے سمندرسے شکار کيا ہو یا جانور جسے صحرا سے شکار کيا گيا ہو اگر احتمالِ عقلائی ہو کہ بيچنے والے کا مال ہے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اسے اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ اس کا مال نہيں ہے تو یہ مال خریدار کا ہو گا اور اگر اس کے سال کے مخارج ميں خرچ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

۴ ۔حلال مال جو حرام مال ميں مخلوط ہو جائے

مسئلہ ١٨٣١ اگر حلال مال، حرام مال کے ساته اس طرح مل جائے کہ انسان انہيں ایک دوسرے سے الگ نہ کرسکے اور حرام مال کے مالک اور اس مال کی مقدار کا بھی علم نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ حرام مال کی مقدار خمس سے کم ہے یا زیادہ تو تمام مال کا خمس دینا ضروری ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اس خمس کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی نيت سے، خمس اور صدقہ کی نيت کے بغير، ایسی جگہ استعمال کرے جهاں خمس اور صدقہ استعمال کيا جاتا ہے اور خمس دینے کے بعد باقی مال حلال ہے ۔

مسئلہ ١٨٣٢ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور انسان حرام کی مقدار جانتا ہو ليکن اس کے مالک کو جستجو کے بعد بھی نہ پہچانے تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار اس مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے بھی اجازت لے۔

مسئلہ ١٨٣٣ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور انسان حرام کی مقدار نہ جانتا ہو ليکن اس کے مالک کو پہچانتا ہو، تو اس صورت ميں کہ ان دو مالوں کا ملناآپس ميں شراکت کا باعث بن جائے، مثلاً حلال گهی حرام گهی کے ساته مل جائے، تو ایک دوسرے کو راضی کرلينے کی صورت ميں جس بات پر راضی ہوجائيں، وهی معّين ہو جائے گی، ليکن اگر ایک دوسرے کو راضی نہ کر سکيں تو جس مقدار کا یقين ہے کہ وہ دوسرے کی ہے ضروری ہے کہ وہ مقدار اسے دے دے ۔

اور جب دو مالوں کا ملنا شراکت کا باعث نہ ہو مثلاً وہ کوئی ایسا مال ہو جس کے اجزاء ایک دوسرے سے جدا ہوں تو ضروری ہے مقدار کے اعتبار سے جس مقدار کا یقين ہے اتنی مقدار اسے دے اور خصوصيت کے اعتبار سے قرعہ اندازی کے ذریعے طے کریں۔ ہاں، دونوں صورتوں ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ جس مقدار کا احتمال دے کہ اس کی ہے ، اس سے زیادہ مقدار ميں دے۔

۲۹۰

مسئلہ ١٨٣ ۴ اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے دے اور بعد ميں اسے پتہ چلے کہ حرام کی مقدار خمس سے زیادہ تھی اور معلوم ہو جائے کہ کتنا زیادہ تھی تو ضروری ہے اسے اس کے مالک کی طرف سے اور احتياطِ واجب کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے صدقہ دے اور اگر مقدار معلوم نہ ہو تو پهلا خمس دینے کے بعد باقی بچنے والے مال ميں مسئلہ ” ١٨٣١ “ کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ١٨٣ ۵ اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے دے یا ایسا مال جس کے مالک کو نہ پہچانتا ہو، مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے اور بعد ميں اس کا مالک مل جائے تو اسے کوئی چيز دینا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٨٣ ۶ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور حرام کی مقدار معلوم ہو اور انسان جانتا ہو کہ اس کا مالک چند معلوم لوگوں ميں سے ہی کوئی ایک ہے ليکن یہ نہ جان سکے کہ کون ہے تو امکان کی صورت ميں احتياطِ واجب کی بنا پر سب کو راضی کرے اور اگر ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ مالک کا تعين قرعہ اندازی کے ذریعہ ہو۔

۵ ۔غوطہ خوری کے ذريعے حاصل ہونے والے موتی

مسئلہ ١٨٣٧ اگرغوطہ خوری کے ذریعے یعنی سمندر ميں غوطہ لگاکرموتی اور مرجان یا دوسرے جواہرات نکالے جائيں، خواہ وہ اگنے والی چيزوں سے ہوں یا معدنيات ميں سے، اگر ان کی قيمت ١٨ سکہ دار سونے کے چنوں کے برابر ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دیا جائے، اگرچہ اس پر خرچ ہونے والے اخراجات کو نکالنے کے بعد خمس دینا ہوگا۔ خواہ انہيں ایک دفعہ ميں سمندر سے نکالا گيا ہو یاایک سے زیادہ دفعہ ميں اس طرح سے کہ عرف عام ميں اسے ایک غوطہ کها جاتا ہو اور خواہ باہر نکالی جانے والی چيز ایک جنس ہو یا چند اجناس ہوں، ایک غوطہ خور باہر لایا ہو یا احتياطِ واجب کی بنا پر چند غوطہ خور باہر لائے ہوں۔

مسئلہ ١٨٣٨ اگر سمندر ميں غوطہ لگائے بغير دوسرے ذرائع سے جواہر و موتی نکالے جائيں تو احتياط کی بنا پر سابقہ مسئلے ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق اس پر خمس واجب ہے ، ليکن اگر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے موتی حاصل کرے تو ان کا خمس اس صورت ميں دینا ضروری ہے کہ جب حاصل شدہ موتی تنها یا اس کے کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوں۔

مسئلہ ١٨٣٩ مچهليوں اور ان جيسے دوسرے جانوروں کا خمس جنہيں انسان سمندر سے حاصل کرتا ہے اس صورت ميں واجب ہوتا ہے جب ان چيزوں سے حاصل کردہ منافع تنها یا کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوجائيں۔

۲۹۱

مسئلہ ١٨ ۴ ٠ اگر انسان کسی چيز کے نکالنے کا ارادہ کئے بغير سمندر ميں غوطہ لگائے اور اتفاق سے کوئی موتی اس کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے اپنی ملکيت ميں لينے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے بلکہ احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہر حال ميں اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ١ اگر انسان سمندر ميں غوطہ لگائے اور کوئی جانور نکال لائے اور اس کے پيٹ ميں سے اسے کوئی موتی ملے جس کی قيمت ١٨ مسکوک سونے کے چنوں کی قيمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، اگر وہ جانور سيپی کی مانند ہو جس کے پيٹ ميں عموماً موتی ہوتے ہيں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر کوئی ایسا جانور ہو جس نے اتفاقاً موتی نگل ليا ہو تو اس کا خمس اسی صورت ميں واجب ہوتا ہے جب اس سے حاصل کردہ فائدہ تنها یا کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٢ اگر کوئی شخص بڑے دریاؤں ميں غوطہ لگائے اور موتی نکال لائے تو اگر اس دریا ميں موتی پيدا ہوتے ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٣ اگر کوئی شخص پانی ميں غوطہ لگائے اور کچھ عنبر نکال لائے جس کی قيمت ١٨

سکہ دار سونے کے چنوں کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے ملے ہوں، تو اگرچہ ان کی قيمت ١٨ سونے کے چنوں سے کم ہو احتياط کی بنا پر اس کا خمس دینا واجب ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴۴ جس شخص کا پيشہ غوطہ خوری، دفينہ نکالنا یا کان کنی ہو، اگر وہ ان کا خمس ادا کر دے اور پھر اس کے سال بھر کے اخراجات سے کچھ بچ جائے تو دوبارہ خمس دینا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴۵ اگر بچہ کوئی معدنی چيز نکالے یا اس کے پاس حلال مال ميں حرام مال ملا ہو یا اسے کوئی دفينہ مل جائے یا سمندر ميں غوطہ لگاکر موتی نکال لائے تو ضروری ہے کہ بچے کا ولی اس کا خمس دے اور اگر ولی خمس ادا نہ کرے تو ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد خود خمس ادا کرے۔

۶ ۔مال غنيمت

مسئلہ ١٨ ۴۶ اگر مسلمان امام عليہ السلام کے حکم سے کفار سے جنگ کریں اور کچھ چيزیں جنگ ميں ان کے ہاتھ لگيں تو انہيں غنيمت کها جاتا ہے ۔ ان ميں منتقل ہونے والی چيزوں ميں سے اس مال کی حفاظت یا حمل و نقل وغيرہ کے مصارف، جو کچھ امام عليہ السلام اپنی مصلحت کے مطابق خرچ کریں اور جو مال، خاص امام عليہ السلام کا حق ہے ، ضروری ہے کہ ان (تين چيزوں) کو عليحدہ کرنے کے بعد باقی ماندہ کا خمس ادا کيا جائے اور اگر امام عليہ السلام کی اجازت کے بغير جنگ کریں اور غنيمت ان کے ہاتھ

۲۹۲

لگے، تو اگر امام عليہ السلام کے ہوتے ہوئے ہو تو سارا مال امام عليہ السلام کا ہے اور اگر زمانہ غيبت ميں ہو تو اخراجات نکالنے کے بعداحتياط کی بنا پر اس کا خمس ادا کریں۔

٧۔ وہ زمين جو کافر ذمی کسی مسلمان سے خريدے

مسئلہ ١٨ ۴ ٧ اگر کافر ذمی مسلمان سے زمين خریدے تو ضروری ہے کہ وہ کافر اس کا خمس اسی زمين سے یا اپنے دوسرے مال سے مسئلہ ” ١٨٠ ۶ “ ميں ذکر شدہ بيان کے مطابق دے، اگرچہ اس زمين پر عمارت وغيرہ تعمير ہو مثلاً گھر اور دکان کی زمين۔ اسی طرح اگر سودا گھر ، دکان یا ان جيسی کسی چيز کا ہو تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ یہ خمس ادا کرنے کے لئے قصد قربت ضروری نہيں ہے بلکہ حاکم شرع کے لئے بهی، جو اس سے خمس ليتا ہے ، قصد قربت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٨ اگر کافر ذمی مسلمان سے خریدی ہوئی زمين کسی دوسرے مسلمان کے ہاتھوں فروخت کر دے توکافر کی گردن سے خمس ساقط نہيں ہوتا۔یهی حکم اس وقت ہے جب کافر مرجائے اور وہ زمين کسی مسلمان کو بطورِ ميراث ملے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٩ اگر کافر ذمی زمين خریدتے وقت شرط کرے کہ خمس نہ دے یا شرط کرے کہ بيچنے والا خمس دے تو اس کی یہ شرط فاسد ہے اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔هاں، اگر شرط کرے کہ بيچنے والا، اس کی طرف سے خمس کی مقدار، خمس کے مالکوں تک پهنچائے توبيچنے والے پر واجب ہے کہ شرط پر عمل کرے ليکن جب تک بيچنے والا خمس ادا نہ کردے،ذمی خریدار سے ساقط نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٠ اگر مسلمان زمين کوخرید و فروخت کے بغير کافر ذمی کی ملکيت بنائے اور اس کا عوض لے مثلاً اس کے ساته مصالحت کرے، تب بھی ضروری ہے کہ کافر ذمی اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨ ۵ ١ اگر کافر ذمی نابالغ ہو اور اس کا ولی اس کے لئے زمين خریدے، اس پر بھی خمس واجب ہے ۔

خمس کا استعمال

مسئلہ ١٨ ۵ ٢ ضروری ہے کہ خمس دو حصّوں ميں تقسيم کيا جائے۔ اس کا ایک حصّہ سادات کا حق ہے جو ضروری ہے کہ یاکسی یتيم و فقير سيد کے ولی کو دیا جائے تاکہ اس کے اخراجات ميں صرف کرے یا کسی فقير سيد کو یا کسی ایسے سيد کوجو سفر ميں ناچار ہوگيا ہو، دیا جائے اور احتياط واجب یہ ہے کہ سهم سادات، عادل فقيہ کی اجازت سے دیا جائے۔ جبکہ خمس کا دوسرا حصّہ امام عليہ السلام کا ہے جو موجودہ زمانے ميں ضروری ہے کہ اس کے مصارف کی معرفت رکھنے والے عادل فقيہ کو دیا جائے یا کسی ایسی جگہ استعمال کيا جائے جهاں خرچ کرنے کی وہ اجازت دے اور احتياط کی بنا پر اس فقيہ عادل کا اعلم ہونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٣ جس یتيم سيد کو خمس دیا جائے ضروری ہے کہ وہ فقير ہو، ليکن جو سيد سفر ميں ناچار ہو جائے خواہ وہ اپنے وطن ميں فقير نہ بھی ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ۔

۲۹۳

مسئلہ ١٨ ۵۴ جو سيد سفر ميں ناچار ہوگيا ہو اگر اس کا سفر گناہ کا سفر ہو تو اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵۵ جو سيد عادل نہ ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ليکن جو سيد اثناعشری نہ ہو اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵۶ جو سيد گناہکار ہو اگر اسے خمس دینے سے گناہ کرنے ميں اس کی مدد ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ اسے خمس نہ دیا جائے اور جو سيد اعلانيہ گناہ کرتا ہو اگرچہ اسے خمس دینے سے گناہ کرنے ميں اس کی مدد نہ ہوتی ہو احتياطِ واجب کی بنا پر اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٧ جو شخص کهے کہ ميں سيد ہوں اسے خمس نہيں دیا جا سکتا، مگر یہ کہ دو عادل اس کے سيد ہونے کی تصدیق کردیں یا لوگوں کے درميان اس طرح مشهور ہو کہ انسان کو اس کے سيد ہونے کا یقين یا اطمينان ہو جائے اور بعيد نہيں ہے کہ کسی کا سيد ہونا ایک قابل اعتماد شخص کی بات سے بھی ثابت ہو جائے جب کہ اس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٨ جو شخص اپنے شہر ميں سيد مشهور ہو اگرچہ انسان کو اس کے سيد ہونے کا یقين یا اطمينان نہ ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ، بشرطيکہ اس کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٩ اگر کسی شخص کی بيوی سيدانی ہو تو وہ اسے اپنے اخراجات پر صرف کرنے کے لئے خمس نہيں دے سکتا۔ ہاں، اگر کچھ اور لوگوں کی کفالت اس کی بيوی پر واجب ہو اور وہ ان کے اخراجات نہ دے سکتی ہو تو انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی بيوی کو خمس دے تاکہ وہ زیر کفالت افراد پر خرچ کرے۔ اسی طرح اپنی سيدانی بيوی کو واجب نفقہ کے علاوہ دوسرے اخراجات پر صرف کرنے کے لئے بھی خمس دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٠ اگر انسان پر کسی سيد یا ایسی سيدانی کے اخراجات واجب ہوں جو اس کی بيوی نہ ہو، تو وہ خوراک، پوشاک اور باقی واجب اخراجات اپنے خمس سے نہيں دے سکتا۔ ہاں، اگر خمس کی کچھ رقم اس غرض سے دے کہ وہ غير واجب اخراجات پر خرچ کریں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ١ جس فقير سيد کے اخراجات کسی دوسرے شخص پر واجب ہوں اور وہ اس سيد کے اخراجات نہ دے سکتا ہو یا دینے کی طاقت رکھتا ہو اور نہ دیتا ہو تو اس سيد کو خمس دیا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٢ احتياطِ واجب یہ ہے کہ کسی ایک فقير سيد کو اس کے ایک سال کے اخراجات سے زیادہ خمس نہ دیا جائے۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٣ اگر کسی شخص کے شہر ميں کوئی مستحق سيد نہ ہو اور اسے یقين یا اطمينان ہو کہ بعد ميں بھی نہيں ملے گا یا مستحق سيد کے ملنے تک خمس کی حفاظت کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ خمس دوسرے شہر لے جائے اور مستحق کو پهنچا دے اور خمس دوسرے شہر لے جانے کے اخراجات خمس ميں سے لے سکتا ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ یہ اخراجات حاکم شرع کی اجازت

۲۹۴

سے لے اور خمس تلف ہو جانے کی صورت ميں اگر اس کی نگهداشت ميں کوتاہی برتی ہو تو ضامن ہے اور اگر کوتاہی نہ برتی ہو تو ضامن نہيں ۔

مسئلہ ١٨ ۶۴ اگر کسی شخص کے شہر ميں کوئی مستحق سيد نہ ہو تو اگرچہ اسے یقين یا اطمينان ہو کہ بعد ميں مل جائے گا اور اس مستحق کے ملنے تک خمس کی حفاظت کرنا بھی ممکن ہو تب بھی وہ خمس دوسرے شہر لے جاسکتا ہے اور اگر وہ خمس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ برتے اور وہ تلف ہو جائے تو ضامن نہيں ، ليکن وہ خمس دوسری جگہ لے جانے کے اخراجات خمس ميں سے نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ١٨ ۶۵ اگر کسی شخص کے اپنے شہر ميں خمس کا مستحق مل جائے تو اس صورت ميں اسے بھی دوسرے شہر لے جایا جا سکتا ہے کہ اسے خمس دینے ميں سستی نہ کها جاسکے، اور مستحق کو پهنچائے ليکن ضروری ہے کہ اسے لے جانے کے اخراجات خود ادا کرے اور اس صورت ميں اگر خمس تلف ہو جائے تو اگرچہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ برتی ہو وہ اس کا ضامن ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶۶ اگر کوئی شخص حاکم شرع کی اجازت سے خمس دوسرے شہر لے جائے اور تلف ہو جائے تو وہ ذمہ دار نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر حاکم شرع کے وکيل یا کسی ایسے فرد کو دے دے جسے حاکم شرع نے خمس وصول کرنے کی اجازت دی ہواور وہ خمس کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٧ جيسا کہ مسئلہ ” ١٨٠ ۶ “ ميں بتایا گيا ہے کہ حاکم شرع کی اجازت کے بغير رائج کرنسی کے علاوہ کوئی دوسری جنس خمس کے بدلے دینا احتياطِ واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے اور جائز ہونے کی صورت ميں مثلاً حاکم شرع اجازت دے دے، جائز نہيں ہے کہ کسی چيز کی قيمت اس کی اصل قيمت سے زیادہ لگا کر اسے بطور خمس دیا جائے، اگرچہ مستحق اس قيمت پر راضی ہو۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٨ جس شخص کو خمس کے مستحق سے کچھ لينا ہو احتياط کی بنا پر اپنا قرضہ خمس کی رقم سے حساب نہيں کرسکتا ليکن ایساکرسکتا ہے کہ اس مستحق کو خمس دے دے اور بعد ميں وہ مستحق اپنا قرضہ اسے چکا دے۔ یہ بھی کيا جا سکتا ہے کہ مستحق سے وکالت لے کر خود اس کی طرف سے خمس وصول کرے اور پھر اپنا قرض اس سے حساب کر لے۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٩ مستحق خمس لے کر واپس مالک کو نہيں بخش سکتا جب کہ واپس بخشنے سے حق امام عليہ السلام اور حق سادات ضائع ہو رہا ہو۔هاں، اس صورت کے علاوہ واپس بخش دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، مثلاً جس شخص کے ذمے خمس کی زیادہ رقم واجب ہو اور وہ فقير ہوگيا ہو اور چاہتا ہو کہ خمس کے مستحق لوگوں کا مقروض نہ رہے تو اگر خمس کا مستحق راضی ہو جائے کہ اس سے خمس لے کر اسی کو بخش دے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

۲۹۵

زکات کے احکام

مسئلہ ١٨٧٠ زکات نو چيزو ں پر واجب ہے :

(١) گيہوں

(٢) جو

(٣) کھجور

( ۴) کشمش

( ۵) سونا

( ۶) چاندی

(٧) اونٹ

(٨) گائے

(٩) بھيڑ اور جو شخص ان نو چيزوںميں سے کسی ایک کا مالک ہو تو ضروری ہے کہ بعد ميں بيان کی جانے والی شرائط کے مطابق مقررہ مقدار کو کسی ایسے مقام پر خرچ کرے کہ جن کا حکم دیا گيا ہے ۔

مسئلہ ١٨٧١ ”سلت-“جو ایک ایسا دانہ ہے کہ نرمی ميں گيہوںکی طرح ہوتا ہے اور جوَکی خاصيت رکھتا ہے اور ”علس“ جو گيہوں کی طرح ہوتا ہے ،احتياط مستحب ہے کہ ان کی زکات دی جائے۔

زکات واجب ہونے کے شرائط

مسئلہ ١٨٧٢ زکات اس صورت ميں واجب ہوتی ہے کہ جب مال مقررہ نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے،جس کا تذکرہ بعد ميں آئے گا اور اس کا مالک بالغ،عاقل اور آزاد ہو اور اپنے مال ميں تصرف کر سکتا ہو۔

مسئلہ ١٨٧٣ اگر انسان گيارہ مهينے گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک ہو تو ضروری ہے کہ بارہویں مهينے کی پهلی تاریخ کو اس کی زکات ادا کرے ليکن اگلے سال کی ابتدا کا حساب بارہواں مهينہ ختم ہونے کے بعد کرے۔

مسئلہ ١٨٧ ۴ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک سال کے دوران بالغ ہو جائے مثلاًکوئی بچہ محرم کی پهلی کو چاليس بھيڑوں کا مالک بنے اور دو مهينے گزرنے کے بعد بالغ ہو جائے تو محرم کی پهلی سے گيارہ مهينے گزرنے کے بعداس پرکوئی زکات واجب نہيں بلکہ بالغ ہونے کے گيارہ ماہ گزرنے کے بعد اس پر زکات واجب ہو گی،ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ محرم کی پهلی سے گيارہ مهينے گزرنے کے بعد اگر زکات کی باقی شرائط موجود ہوں تو ان کی زکات ادا کرے۔

۲۹۶

مسئلہ ١٨٧ ۵ گندم اور جوَ کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب انہيں گندم اور جوَ کها جا سکے اور کشمش کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب انہيں انگور کها جاسکے اور کھجور کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب عرب انہيں ”تمر“ (کھجور) کہيں ۔ گندم اور جوَ ميں زکات دینے کا وقت وہ ہے جب دانے کو بهوسے سے الگ کيا جائے اور کھجور اور کشمش ميں اس وقت ہے کہ جب وہ خشک ہو گئے ہوں اور اگر زکات ادا کرنے ميں اس وقت سے، بغير کسی سبب کے، تاخير کرے جب کہ مستحق بھی موجودهو تو وہ ضامن ہو گا۔

مسئلہ ١٨٧ ۶ گندم،جوَ،کشمش اور کھجور کی زکات واجب ہونے کے وقت،کہ جس کا تذکرہ پچهلے مسئلے ميں کيا گيا،اگر ان کا مالک بالغ،عاقل،آزاد اور اپنے مال ميں تصرف کرنے ميں صا حب اختيار ہو تو ضروری ہے کہ ان کی زکات دے،اگرچہ اس وقت سے پهلے تمام یا کچھ شرائط نہ رکھتا ہو اور اگر اس وقت کوئی ایک بھی شرط نہ ہو تو زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٧٧ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک پورے سال یا اس کے کچھ حصہ ميں دیوانہ رہا ہو تو اس پر زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٧٨ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک سال کے کچھ حصے ميں نشہ ميں یا بے ہوش رہا ہو تو اس پرسے زکات ساقط نہيں ہو گی۔ یهی حکم اس وقت ہے کہ جب گندم، جو،کھجور اورکشمش کی زکات واجب ہونے کے وقت وہ بے ہوش ہو۔

مسئلہ ١٨٧٩ جس مال کو انسان سے غصب کر ليا گيا ہو اور وہ اس ميں تصرف نہ کر سکتا ہو اس ميں زکات نہيں ، ليکن اگر غصب شدہ مال گندم یا جوَ کی زراعت،کھجور کا درخت یا انگور کی بيل ہو اور زکات واجب ہونے کے وقت غاصب کے ہاتھ ميں ہو تو جس وقت بھی مالک کو یہ مال مل جائے احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ زکات دے۔

مسئلہ ١٨٨٠ اگر سونا،چاندی یا کوئی دوسری چيز جس پر زکات واجب ہے ، قرض کے طور پر لے اور وہ ایک سال اس کے پاس رہے تو ضروری ہے کہ قرض لينے والا اس کی زکات دے،جب کہ قرض دینے والے پر زکات واجب نہيں ۔

گندم،جو،کھجور اورکشمش کی زکات

مسئلہ ١٨٨١ گندم،جو،کھجور اور کشمش کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب وہ نصاب کی مقدار تک پهنچ جائيں اور ان کا نصاب ٣٠٠ صاع ہے اور ہر صاع ٢ ۵ ء ۶ ١ ۴ مثقال صيرفی ہے کہ جو تقریباً ٨ ۴ ٧ کلو گرام ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٨٢ جس انگور،کھجور،جو اور گندم پر زکات واجب ہو گئی ہو، اگر ان ميں سے زکات دینے سے پهلے خود مالک یا اس کے اہل و عيال کهائيں یا فقير کو زکات کے علاوہ کسی اور نيت سے دے تو استعمال شدہ مقدار کی زکات دینا ضروری ہے ۔

۲۹۷

مسئلہ ١٨٨٣ اگر گندم،جو، کھجور اور انگور کی زکات واجب ہونے کے بعد اس کا مالک مرجائے تو ضروری ہے کہ زکات کی مقدار کو اس کے مال سے دیاجائے،ليکن اگر زکات کے واجب ہونے سے پهلے مر جائے تو ورثاء ميں سے جس وارث کاحصہ نصاب تک پهنچ جائے اس کے لئے اپنے حصے کی زکات دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٨ ۴ جو شخص حاکم شرع کی جانب سے زکات کی جمع آوری پر مامور ہو وہ خرمن بنانے کے موقع پر، جب گندم اور جو کو بهوسے سے الگ کيا جاتاہے ، ا سی طرح تازہ کھجور کے خشک ہونے کے بعد اور انگور کے کشمش ہونے کے بعد زکات کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر مالک نہ دے اور جس چيز پر زکات واجب ہو گئی ہو وہ تلف ہو جائے تو اس کا عوض دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٨ ۵ اگر کھجور کے درخت،انگور کی بيل یا گندم اور جو کی زراعت پر ان کا مالک بننے کے بعد زکات واجب ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان کی زکات دے۔

مسئلہ ١٨٨ ۶ اگر گندم،جو،کھجور یا انگور کی زکات کے واجب ہونے کے بعد زراعت وغيرہ کو فروخت کر دے تو فروخت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی زکات ادا کرے۔

مسئلہ ١٨٨٧ اگر انسا ن سارا گندم،جو، کھجور یا انگور خریدے اور جانتا ہو کہ فروخت کرنے والے نے اس کی زکات دے دی ہے تو اس پر زکات واجب نہيں ہے اور اگر جانتا ہے کہ اس کی زکات نہيں دی،تو اس صورت ميں کہ فروخت کرنے والا اس کی زکات ادا کر دے سودا صحيح ہے ،اسی طرح اگر خریدار زکات ادا کر دے، جسے وہ فروخت کرنے والے سے لے سکتا ہے ۔

ان دو صورتوں کے علاوہ اگر حاکم شرع واجب زکات والی مقدار کے سودے کی اجازت نہ دے تو اس مقدار کا سودا باطل ہو گا اور حا کم شرع زکات کی مقدار کو خریدار سے لے سکتا ہے اور اگر واجب زکات والی مقدار کے سودے کی اجازت دے دے تو سودا صحيح ہو گا اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار کی قيمت حاکم شرع کو دے اور جبکہ اس مقدار کی قيمت فروخت کرنے والے کو بھی دی ہو تو اس سے واپس لے سکتا ہے ۔

اور اگرخریدار شک کرے کہ بيچنے والے نے اس کی زکات ادا کی ہے یا نہيں تو فی الحا ل اس مال پر زکات واجب نہ ہونے کا حکم لگانا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٨٨٨ اگر گندم،جو،کھجور اور کشمش کا وزن تازہ ہونے کے وقت نصاب تک پهنچ جائے اور خشک ہو جانے کے بعد اس مقدار سے کم ہو جائے تو ان کی زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٨٩ اگر گندم،جو، کھجور اور انگور کو خشک ہونے سے پهلے استعمال ميں لائے، چنانچہ یہ مقدار خشک ہونے کی صورت ميں نصاب تک پهنچ رہی ہو تو ان کی زکات دینا ضروری ہے ۔

۲۹۸

مسئلہ ١٨٩٠ کھجور تين قسموں پر مشتمل ہے :

١) وہ کھجور کہ جسے خشک کيا جاتا ہے اور اس کی زکات کا حکم بيان ہو چکا ہے ۔

٢) وہ کھجور کہ جسے اس کے ”رطب“(تازہ) ہو نے کی حالت ميں کهایا جاتا ہے ۔

٣) وہ کھجور کہ جسے اس کی کچی حالت ميں کهایا جاتا ہے ۔

دوسری قسم کی مقدار اگر اتنی ہو کہ خشک ہونے کی حالت ميں نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو بنا بر احتياطِ واجب اس کی زکات واجب ہو گی،البتہ تيسری قسم کی کھجور ميں زکات واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٨٩١ جس گندم، جو، کھجور اور کشمش کی زکات دے دی گئی ہو اگر وہ کئی سالبهی اس کے پاس رہيں تو اس پر دوبارہ زکات واجب نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٨٩٢ اگر گندم،جو ،کھجور اور انگور بارش یا نہر کے پانی سے پهلے پھوليںيا زمين کی ١٠ ) ہو گی اور اگر ڈول یا اس جيسی چيز سے / نمی سے استفادہ کریں تو ان کی زکا ت دسواں حصہ( ١

٢٠ ) ہو گی۔ / آبياری ہو تو ان کی زکات بيسواں حصہ( ١

مسئلہ ١٨٩٣ اگر گندم،جو،کھجور اور انگور کو بارش وغيرہ کا پانی بھی دیا جائے اور وہ ڈول اور اس جيسی چيز کے پانی سے بھی استفادہ کریں تو اگر اس طرح ہو کہ عرف ميں کها جائے کہ ان کی ٢٠ ) ہو گی اور اگر کها / آبياری ڈول اور اس جيسی چيز سے ہوئی ہے تو ان کی زکات بيسواں حصہ( ١

(١٠/ جائے کہ ان کی آبياری بارش اور ان جيسی چيزوں سے ہوئی ہے تو ان کی زکات دسواں حصہ( ١

۴ ٠ )واں حصہ ہو گی۔ / ہو گی اور اگر کها جائے کہ دونوں سے آبياری ہوئی ہے تو ان کی زکات ( ٣

مسئلہ ١٨٩ ۴ چنانچہ شک کرے اور نہ جانتا ہو کہ عرف کی نگاہوں ميں دونوں سے آبياری ہوئی ۴) واں حصہ دینا کافی ہے ۔ /٣ ہے یا یہ کہ مثلاً بارش سے ہوئی ہے تو اس صورت ميں ( ٠

مسئلہ ١٨٩ ۵ اگر شک کرے اور نہ جانتا ہو کہ عرف کہ نگاہوں ميں دونوں سے آبياری ہوئی ہو ٢٠ ) دینا کافی / یا یہ کہ ڈول اور اس جيسی چيز سے آبياری ہوئی ہے تو اس صورت ميں بيسواں حصہ( ١هو گا۔ اسی طرح اگر ساته ميں کوئی تيسرا احتمال بھی آجائے کہ عرف کهے کہ بارش کے پانی سے آبياری ہوئی ہے تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨٩ ۶ اگر گندم،جو،کھجور اور انگور کی آبياری بارش اور اس جيسی چيزوں سے ہوئی ہواور ڈول یا اس جيسی چيز سے آبياری کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو اس کے باوجود ڈول کا پانی بھی دیا جائے جب کہ ڈول کا پانی فصل کے زیادہ ہونے ميں مددگار ثابت نہ ہو تو ان کی زکات دسواں حصہ ١٠ ) ہو گی،اور اگر ڈول اور اس کی مانند چيز سے آبياری ہو اور بارش یااس جيسے پانی کی /١)

۲۹۹

ضرورت نہ ہو ليکن بارش یا اس کی مانند پانی سے بھی آبياری ہو اور وہ فصل کے زیادہ ہونے ميں مدد ٢٠ ) ہو گی۔ / نہ کرے تو ان کی زکات بيسواںحصہ ( ١

مسئلہ ١٨٩٧ اگر کسی زراعت کی آبياری ڈول اور اس جيسی چيزوں سے کی جائے اور اس کے برابر والی زمين ميں دوسری زراعت ہو جو پهلی زمين کی نمی سے استفادہ کر لے اور اسے آبياری کی ضرورت ہی پيش نہ آئے تو جس زراعت کی آبياری ڈول وغيرہ کے پانی سے ہوئی ہو اس کی زکات ٢٠ ) اور اس کے برابر والی زراعت اگر کسی اور مالک کی ہو تو اس کی زکات دسواں / بيسواں حصہ( ١

١٠ ) ہے اور اگر دوسری زراعت بھی پهلے مالک ہی کی ہو تو بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی / حصہ( ١حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨٩٨ نصاب کو دیکھتے وقت گندم،جو ،کھجور اور انگور پر کئے گئے اخراجات کوفصل سے نکالا نہيں جا سکتا، لہٰذا اگر ان ميں سے ایک بھی اخراجا ت کے حساب سے پهلے حدِنصاب تک پهنچ جائے تو اس کی زکات دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٩٩ جس بيج کو زراعت کے لئے استعمال کيا گيا ہو خواہ اس کا اپنا ہو یا خریداہوا،نصاب کو دیکھتے وقت اسے فصل سے نکالا نہيں جا سکتا بلکہ جتنی فصل حاصل ہوئی ہو اسے مکمل طور پرشامل کرتے ہوئے نصاب کو دیکھا جائے گا۔

مسئلہ ١٩٠٠ جو چيز حکومت اصل مال سے ليتی ہے اس پر زکات واجب نہيں ، مثال کے طور پر اگر زراعت کا حاصل ٨ ۵ ٠ کلوگرام ہو اور حکومت ۵ ٠ کلوگرام بطور ٹيکس لے تو زکات صرف ٨٠٠کلو گرام پر واجب ہو گی۔

مسئلہ ١٩٠١ وہ اخراجات جو انسان نے زکات واجب ہونے سے پهلے کئے ہوںاحتياطِ واجب کی بنا پر زکات دیتے وقت اس بات کی اجازت نہيں ہے کہ اتنی مقدار الگ کر لے اور باقی کی زکات دے دے۔

مسئلہ ١٩٠٢ زکات واجب ہونے کے بعد جواخراجات کئے جائيں اور جو کچھ زکات کی مقدار کی نسبت خرچ کرے، حاکم شرع سے اجازت لے کر اسے زکات سے جدا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٠٣ زکات واجب ہونے سے پهلے زکات دینا جائز نہيں ہے اور زکات واجب ہونے کے بعد ضروری نہيں ہے کہ گندم اور جوکی فصل کاٹے جانے اور دانے وبهوسے کے جدا ہونے یا کھجور اور انگور کے خشک ہونے تک صبر کرے، بلکہ زکات واجب ہوتے ہی زکات کی مقدار کی قيمت معلوم کر کے اسے زکات کی نيت سے دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٠ ۴ زکات واجب ہو جانے کے بعد اصل زراعت یا کھجور اور انگور کو فصل کی کٹائی یا چننے سے پهلے ہی مستحق،حاکم شرع یا ان کے وکيل کو بطور مشاع دے سکتا ہے اور اس کے بعد کے اخراجات ميں وہ بھی شریک ہونگے۔

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511