توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207698 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسئلہ ١ ۴ ٨٧ اگر امام غلطی سے ایسی رکعت ميں قنوت پڑھ لے جس ميں قنوت نہيں ہے یا جس رکعت ميں تشهد نہيں ہے اس ميں تشهد پڑھنے ميں مشغول ہو جائے تو ضروری ہے کہ ماموم قنوت اور تشهد نہ پڑھے ليکن وہ امام سے پهلے رکوع ميں نہيں جا سکتا اور امام سے پهلے قيام نہيں کرسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام کا قنوت اور تشهد تمام ہوجائے اور اپنی بقيہ نماز کو امام کے ساته پڑھے۔

نمازجماعت ميں امام اور ماموم کا وظيفہ

مسئلہ ١ ۴ ٨٨ اگر ماموم ایک مرد ہو تو احتياط واجب کی بنا پر وہ امام کی دائيں طرف کهڑا ہو اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا چند عورتيں ہوں تو مرد دائيں طرف اور بقيہ عورتيں امام کے پيچهے کهڑی ہو ں اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتيں ہوں تومرد امام کے پيچهے اور عورتيں مردوں کے پيچهے کهڑی ہوں اور اگر ایک یا چند عورتيں ہوں تو امام کے پيچهے کهڑی ہوں اور ایک عورت ہونے کی صورت ميں مستحب ہے کہ امام کے پيچهے دائيں سمت ميں اس طرح کهڑی ہو کہ اس کی سجدے کی جگہ امام کے گھٹنوں یا قدم کے مقابل ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٩ اگر ماموم اور امام دونوں عورتيں ہوں تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے برابر ميں کهڑی ہوں اور امام ان سے آگے نہ ہو۔

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مستحب ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩٠ مستحب ہے کہ امام صف کے درميان ميں کهڑا ہو اور صاحبان علم، کمال اور تقویٰ پهلی صف ميں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩١ مستحب ہے کہ جماعت کی صفيں منظّم ہو ں اور ایک صف ميں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درميان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کاندهے ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٢ مستحب ہے کہ ”قد قامت الصلاة“ کهنے کے بعد مامومين کھڑے ہوجائيں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٣ مستحب ہے کہ امام اس ماموم کی حالت دیکھ کرنماز پڑھائے جو مامومين ميں سب سے زیادہ ضعيف ہو اور قنوت، رکو ع،اور سجدے کو طول نہ دے، ليکن اگر جانتا ہو کہ تمام مامومين طول دینے کی طرف مائل ہيں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۴ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد،سورہ،اور بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار نماز ميں اپنی آواز اتنی اونچی کرے کہ دوسرے مامومين سن ليں، ليکن ضروری ہے کہ اپنی آواز حد سے زیادہ اونچی نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۵ اگر امام کو رکوع کے دوران یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی ماموم ابهی ابهی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کواپنے معمول سے دگنا طول دے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے، اگرچہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی اور بھی اقتدا کے لئے آیا ہے ۔

۲۴۱

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۶ اگر جماعت کی صفوں کے درميان جگہ خالی ہو تو مکروہ ہے کہ انسان اکيلا کهڑا ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٧ ماموم کا اذکارِ نماز کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ جس مسافر کونماز ظهر،عصراور عشا دو رکعت پڑھنا ہيں ، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہيں ہے مکروہ ہے او رجو شخص مسافر نہيں اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے ۔

نماز آيات

مسئلہ ١ ۴ ٩٩ نماز آیات کہ جس کے پڑھنا کا طریقہ بعد ميں بيان ہوگا چار چيزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :

١) سورج گرہن ۔

٢) چاند گرہن۔ اگر چہ ان کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور اس کی وجہ سے کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

٣) زلزلہ، اگرچہ کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

۴) گرج چمک اور سرخ وسياہ آندهی اور ان جيسی دوسری آسمانی نشانياں، اس صورت ميں کہ اکثر لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائيں۔ جها ں تک زمينی حادثات کا تعلق ہے جيسے کہ دریا کا پانی خشک ہوجانا اور پهاڑ کا گرنا جو کہ اکثر لوگوں کہ خوف زدہ ہونے کاباعث ہوتاہے ، تو ان ميں نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٠ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگروہ ایک سے زیادہ ہو جائيں تو ضروری ہے کہ انسان ان ميں سے ہر ایک کے لئے نمازآیات پڑھے۔ مثلاً سورج گرہن بھی ہو اور زلزلہ بھی آجائے تو ضروری ہے کہ ایک نمازآیات سورج گرہن کے لئے اور ایک نماز آیات زلزلے کے لئے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠١ جس شخص پر ایک سے زیادہ نماز آیا ت کی قضا واجب ہو خواہ وہ ایک چيز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ تين مرتبہ سورج گرہن ہوا ہو اور اس شخص نے تينوں مرتبہ نماز آیات نہ پڑھی ہو، یا چند چيزوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ سورج گرہن بھی ہوا ہو اور چاند گرہن بهی، ا ن کی قضا بجا لاتے وقت ضروری نہيں ہے کہ وہ شخص یہ معين کرے کہ کون سی نماز کی قضا کر رہا ہوں، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگرچہ اجمالا ہی سهی، انہيں معين کرے مثلاًیہ نيت کرے کہ جو پهلی نماز آیات یا دوسری نماز آیات جو مجھ پر واجب ہوئی تھی اس کی قضا بجا لا رہا ہوں۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٢ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ کسی جگہ واقع ہوجائيں تو صرف اسی جگہ کے لوگوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہيں ہے ۔

۲۴۲

مسئلہ ١ ۵ ٠٣ سورج یا چاند کو گرہن لگنے کی صورت ميں نمازآیا ت پڑھنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج یا چاند کو گهن لگنا شروع ہوجائے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب سورج یا چاند مکمل طور پر گرہن سے نکل آئيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی تاخير نہ کرے کہ سور ج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع ہوجائيں، بلکہ گرہن کی ابتدا ميں ہی نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۴ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ چاند یا سورج گرہن سے نکلنا شروع ہو جائيں تو اس کی نمازادا ہے ، ليکن پورا سورج یاچاند،گرہن سے نکل جانے کی صورت ميں اس کی نمازقضا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۵ اگر چاند گرہن یا سورج گرہن کی مدت ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔اسی طرح اگر گرہن کی مدت ایک رکعت سے زیادہ ہو اور انسان نمازنہ پڑھے یهاں تک کہ ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم وقت باقی رہ گيا ہو تب بھی نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۶ انسان کے لئے واجب ہے کہ زلزلہ،گرج چمک اور انهی جيسی دوسری چيزوں کے وقوع کے وقت نماز آیات پڑھے اور ضروری ہے کہ نماز کو اتنی دیر سے نہ پڑھے کہ عرفا لوگ اسے تاخير کہيں اور تاخير کرنے کی صورت ميں اپنی نماز پڑھے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ادا یا قضا کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٧ اگر کسی شخص کو سورج یا چاند گرہن لگنا معلوم نہ ہو اور ان کے گرہن سے نکلنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے چاند یا سورج کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا بجا لائے، ليکن اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی کچھ مقدار کو گرہن لگا تھا تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٨ اگر کچھ لوگ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان پيدا نہ ہو اور اس گروہ ميں سے کوئی ایسا شخص موجودنہ ہو جس کا شرعی طورپر کوئی اعتبار ہو او رانسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد ميں یہ معلوم ہوکہ ان لوگوںنے صحيح کها تھا تو پورے چاند یاسورج کو گرہن لگنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز آیات بجا لائے، ليکن اگر ان کے کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات پڑھنا ضروری نہيں ہے ۔اسی طرح اگر دو اشخاص کہ جن کے عادل ہونے کا علم نہ ہو یا ایک شخص کہ جس کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو، اگر یہ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور بعد ميں معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں عادل تهے یا وہ ایک شخص ایسا قابل اعتماد تھا کہ جس کے قول کے بر خلاف بات کاگمان نہ تھا تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٩ اگر انسان کو ان لوگوں کے کهنے سے جو علمی قاعدے کی رو سے چاند گرہن یا سورج گرہن کے بارے ميں بتاتے ہيں ، اطمينان پيدا ہوجائے کہ سورج یا چاند گهن ہوا ہے تو ضروری هے _کہ نماز آیات پڑھے۔ نيز اگر وہ لوگ یہ کہيں کہ فلاں وقت

۲۴۳

سورج یا چاند کو گهن لگے گا اور فلاں وقت تک رہے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمينان پيدا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اطمينان پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ جو نماز آیات پڑھی تھی وہ باطل تھی تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور وقت گذرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١١ اگر پنجگانہ نمازوں کے اوقات ميں کسی شخص پر نماز آیات بھی واجب ہو جائے اور دونوں نمازوں کے لئے وقت وسيع ہو تو وہ پهلے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر ان دونوں ميں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو جس نماز کا وقت تنگ ہو ضروری ہے کہ اسے پهلے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے یوميہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٢ اگر کسی شخص کو پنجگانہ نمازوں کے د رميان یہ معلوم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور نماز پنجگانہ کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرنے کے بعد نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یوميہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ دے اور پهلے نماز آیات پڑھے اور اس کے بعد نماز یوميہ بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٣ اگر نماز آیات کے دوران کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یوميہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ وہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور نماز یوميہ شروع کر دے اور نماز مکمل کرنے کے بعد، کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہوضروری ہے کہ نماز آیات جهاں سے چھوڑی تھی وہيں سے مکمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۴ اگر کسی عورت کے حيض یا نفاس کی حالت ميں سورج یا چاند کو گهن لگ جائے تو اس پر نماز آیات اورا س کی قضا واجب نہيں ہے ليکن غير موقت جيسے کہ زلزلہ اور گرج چمک ميں عورت کے پاک ہونے کے بعد ادا یا قضا کی نيت کے بغير نماز آیات بجالانا ضروری ہے ۔

نماز آيات کا طريقہ

مسئلہ ١ ۵ ١ ۵ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت ميں پانچ رکوع ہيں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نيت کرنے کے بعد تکبيرة الاحرام کهے اور ایک مرتبہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے سر اٹھ الے اور دوبارہ ایک مرتبہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح پانچ رکوع کرے اور پانچویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دو سجدے کرے اور کهڑا ہوجائے اور دوسری رکعت کو بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشهد پڑھ کر سلام پهيرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۶ نماز آیات ميں الحمد پڑھنے کے بعد انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک سورے کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے اٹھ کر الحمد پڑھے بغير اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح یہ عمل دهراتا رہے۔ یهاں تک کہ پانچویں رکوع سے پهلے سورہ مکمل کر لے۔

۲۴۴

مثلا سورہ قل ہو اللّٰہ احد کی نيت سے ”بسم الله الرحمن الرحيم “پڑھے اور رکوع ميں جائے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور ”قل ہو اللّٰہ احد “ کهے اور دوبارہ رکوع ميں جائے اور رکوع کے بعد کهڑا ہوا ور ”الله الصمد “ کهے پھر رکوع ميں جائے اور کهڑا ہوا اور ”لم یلد ولم یولد“ کهے اور رکوع ميں چلا جائے اور رکوع سے سر اٹھ ا لے اور ”ولم یکن لہ کفوا احد“ کهے اور اس کے بعد پانچویں رکوع ميں چلا جائے، رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دوسجدے کرے۔ دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ نيز یہ بھی جائز ہے کہ ایک سورے کو پانچ سے کم حصوں ميں تقسيم کرے ليکن جب بھی سورہ مکمل کرے ضروری ہے کہ بعد والی رکوع سے پهلے الحمد پڑھے اور اس کے بعد ایک سورہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٧ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت ميں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت ميں ایک دفعہ الحمد اور سورے کو پانچ حصوں ميں تقسيم کردے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ١٨ جو چيزیں پنجگانہ نماز ميں واجب اور مستحب ہيں وہ نماز آیات ميں بھی واجب اور مستحب ہيں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساته ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کے بجائے تين دفعہ بطور رجاء ”الصلاة“کها جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٩ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ پانچویں اور دسویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ پڑھے۔ نيز ہر رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبير کهنا مستحب ہے ، ليکن پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبير کهنا مستحب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٠ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھ ویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھا جائے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ ليا جائے تب بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢١ اگر کوئی شخص نمازآیات ميں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور کسی نتيجے پر نہ پهنچے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٢ اگر شک کرے کہ پهلی رکعت کے آخری رکوع ميں ہے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع ميں اور کسی نتيجے پر نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں، اگر رکوع کی تعداد ميں شک کرے تو کم پر بنا رکھے مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ کہ اس صورت ميں اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھکا نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس رکوع کے لئے جھک گيا تھا اسے بجا لائے اور اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھک جانے کے بعد اور سجدے ميں پهنچنے سے پهلے شک ہوا ہو تواحتياط واجب کی بنا پر واپس پلٹ آئے اور رکوع بجا لائے اور نماز مکمل کر کے دوبارہ بجا لائے، ليکن اگر سجدے ميں پهنچ گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مْسئلہ ١ ۵ ٢٣ نماز آیات کا ہر رکوع ایک رکن ہے اور اگر ان ميں عمدا یا سهواً کمی یابيشی ہو جائے تو نماز باطل ہے ۔

۲۴۵

عيد فطر و عيدقربان کی نمازيں

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۴ امام عليہ السلام کے زمانے ميں عيد فطر وعيد قربان کی نمازیں واجب ہيں اور ضروری ہے کہ یہ نمازیں جماعت کے ساته پڑھی جائيں ليکن ہمارے زمانے ميں جب کہ امام عصر عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ، یہ نمازیں مستحب ہيں اور باجماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہيں ۔هاں، با جماعت پڑھنے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نمازیوں کی تعدادپانچ افراد سے کم نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۵ عيد فطر وعيد قربان کی نماز کا وقت عيد کے روز طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۶ عيد قربان کی نماز سور ج چڑھ آنے کے بعد مستحب ہے اور عيد فطر ميں مستحب ہے کہ سور ج چڑھ آنے کے بعد افطار کيا جائے اور احتياط واجب کی بنا پر فطرہ دینے کے بعد نماز عيد ادا کی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٧ عيد فطر وقربان کی نمازدو رکعت ہے جس کی پهلی رکعت ميں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبيریں کهے اور ہر تکبير کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک قنوت پڑھے ۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے اور دوسجدوں کے بعد اٹھ کهڑا ہو۔ دوسری رکعت ميں چار تکبيریںکهے اور ہر تکبير کے بعد ایک قنوت پڑھے، پانچویں تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے، رکوع کے بعد دوسجدے بجا لائے اور تشهد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٨ عيد فطر وقربا ن کی نماز کے قنوت ميں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے ، ليکن بہتر ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب مصباح المتهجد ميں نقل کی ہے ، پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ا هَْٔلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ ا هَْٔلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ وَ ا هَْٔلَ التَّقْویٰ وَ الْمَغْفِرَةِا سَْٔئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْداً وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَيْرٍ ا دَْٔخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُل سُوْءٍ ا خَْٔرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ ا سَْٔئَلُکَ خَيْرَ مَا سَئَلَکَ بِه عِبَادُک الصَّالِحُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ (الْمُخْلِصُوْنَ، الْمُخْلَصُوْنَ)

اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب ميں معتبر سند کے ساته ذکر کی ہے ، اسے پڑھا جائے۔ وہ دعا یہ ہے :

۲۴۶

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللَّهُمَّ اَنْتَ ا هَْٔلُ الْکِبْرِیَاءِوَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلُ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْقُدْرَةِ وَ السُّلْطَانِ وَ الْعِزَّةِ، ا سَْٔئَلُکَ فِیْ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْدًا وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ مَزِیْداً، ا سَْٔئَلُکَ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مَلاَئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ ا نَْٔبِيَائِکَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ ا نَْٔ تَغْفِرَ لَنَا وَ لِجَمِيْعِ الْمُوْ مِٔنِيْنَ وَ الْمُوْ مِٔنَاتِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَات اْلا حَْٔيَاءِ مِنْهُمْ وَ اْلا مَْٔوَاتِ، ا لٔلّٰهُمَّ إِنیِّ ا سَْٔئَلُکَ مِنْ خَيْرِ مَا سَئَلَکَ عِبَادُکَ الْمُرْسَلُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِه عِبَادُکَ الْمُخْلَصُوْنَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَوَّلُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ آخِرُه وَ بَدِیْعُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مُنْتَهَاهُ وَ عَالِمُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مَعَادُه وَ مَصِيْر کُلِّ شَيْیٍ إِلَيْهِ وَ مَرَدُّه وَ مُدَبِّرُ اْلاُمُوْرِ وَ بَاعِثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ، قَابِلُ الْاَعْمَالِ مُبْدِی الْخَفِيَّاتِ مُعْلِنُ السَّرَائِرِ، اَللّٰهُ اَکْبَر عَظِيْمُ الْمَلَکُوْتِ شَدِیْدُ الْجَبَرُوْتِ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ دَائِمٌ لاَّ یَزُوْلُ إِذَا قَضیٰ اَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ، اَللّٰهُ اَکْبَر خَشَعَتْ لَکَ الْاَصْوَاتُ وَ عَنَتْ لَکَ الْوُجُوْهُ وَ حَارَتْ دُوْنَکَ الْاَبْصَارُ وَ کَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ عَظَمَتِکَ وَ النَّوَاصِیَ کُلُّهَا بِيَدِکَ وَ مَقَادِیْرُ الْاُمُوْرِ کُلُّهَا اِلَيْکَ، لاَ یَقْضِیْ فِيْهَا غَيْرُکَ وَ لاَ یَتِمُّ مِنْهَا شَيْیءٌ دُوْنَکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَحَاطَ بِکُلِّ شَيْیٍ حِفْظُکَ وَ قَهَرَ کُلَّ شَيْیٍ عِزُّکَ وَ نَفَذَ کّلَّ شَيْیٍ اَمْرُکَ وَ قَامَ کُلُّ شَيْیٍ بِکَ وَ تَوَاضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِعَظَمَتِکَ وَ ذَلَّ کُل شَيْیٍ لِعِزَّتِکَ وَ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَيْیٍ لِقُدْرَتِکَ وَ خَضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِمُلْکِکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ

مسئلہ ١ ۵ ٢٩ امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ)کے زمانہ غيبت ميں اگر نماز عيد جماعت سے پڑھی جائے تو احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جائيں اور بہتر یہ ہے کہ عيد فطر کے خطبے ميں فطرے کے احکام بيان ہوں اور عيد قربان ميں قربانی کے احکام بيان ہوں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٠ عيد کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہيں ہے ليکن بہتر ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد کے بعدسورہ سبح اسم ربک الاعلیٰ (سورہ: ٨٧ )پڑھا جائے اور دوسری رکعت ميں سورہ والشمس (سورہ : ٩١ )پڑھا جائے اور سب سے افضل یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ والشمس اور دوسری رکعت ميں سورہ غاشيہ (سورہ: ٨٨ )پڑھا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣١ نماز عيد صحر ا ميں پڑھنا مستحب ہے ، ليکن مکہ مکرمہ ميں مستحب ہے کہ مسجد الحرام ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٢ مستحب ہے کہ امام جماعت اور مامو م نماز سے پهلے غسل کریں اور روئی سے بُنا ہوا سفيد عمامہ سر پر باندہيں کہ جس کا ایک سرا سينے پر اور دوسرا سرا دونوں شانوں کے درميان ہو اور مستحب ہے کہ نمازکے لئے پيدل، ننگے پير اور باوقار طریقے سے جایا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٣ مستحب ہے کہ عيد کی نمازميں زمين پر سجدہ کيا جائے، تکبيریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کيا جائے اورامام جماعت بلند آواز سے قرائت کرے۔

۲۴۷

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۴ مستحب ہے کہ عيد فطر کی رات کو مغرب وعشا کی نماز کے بعد اور عيد فطر کے دن نماز صبح کے بعد یہ تکبيریں کهی جائيں :

اَللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَاهدَانَا ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۵ عيد قربان ميں دس نمازوں کے بعد جن ميں سے پهلی نماز، عيد کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری نماز بارہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ، ان تکبيرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ ميں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَا اَبْلَانَا “ کهے، ليکن اگر عيد قربان کے موقع پر انسان منیٰ ميں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبيریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن ميں سے پهلی نماز عيد کے دن کی نمازظہر ہے اور آخری تيرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۶ احتياط مستحب ہے کہ عورتيں نماز عيد پڑھنے کے لئے نہ جائيں، ليکن یہ احتياط عمر رسيدہ عورتوں کے لئے نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٧ نماز عيد ميں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لئے ضروری ہے کہ الحمد اورسورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٨ اگر ماموم اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبيریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع ميں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبيریں اور قنوت اس نے امام کے ساته نہيں پڑہيں انہيں پڑھے اور امام کے ساته رکوع ميں مل جائے اور اگر ہر قنوت ميں ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “ یا ایک مرتبہ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کہہ دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٩ اگر کوئی شخص نماز عيد ميں اس وقت پهنچے جب امام رکوع ميں ہو تووہ نيت کر کے اور پهلی تکبير کہہ کر رکوع ميں جاسکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ نماز کو رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٠ اگر نماز عيد ميں آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر اس کو بجا لائے اور اگروہ کسی اور رکعت کا سجدہ بھول گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجا لائے۔

اسی طرح کسی بھی صورت ميں اگر اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے لئے نماز پنجگانہ ميں ، چاہے احتياط کی بنا پر، سجدہ سهو لازم ہے تواحتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۴۸

نماز کے لئے اجير بنانا

مسئلہ ١ ۵۴ ١ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جنہيں اس نے اپنی زندگی ميں انجام نہ دیا ہو کسی دوسرے شخص کو اجير بنا یا جاسکتا ہے ، یعنی اسے اجرت دی جائے تاکہ وہ انہيں بجا لائے اور اگر کوئی شخص بغير اجرت لئے ان عبادات کو بجا لائے تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٢ انسان بعض مستحب کاموں مثلا روضہ رسول(ص) کی زیارت یا قبور ائمہ عليهم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجير بن سکتا ہے اس معنیٰ ميں کہ اجارہ ميں ان اشخاص کی طرف سے ان مخصوص کاموں ميں نيابت کا قصد رکھتا ہو، چنانچہ یہ شخص انہيں کاموں کو بغير اجرت لئے بھی انجام دے سکتا ہے ۔ نيز یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو هدیہ کر دے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٣ جو شخص ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کے مسائل ميں یا تو وہ خود مجتهد ہو یا نماز، تقليد کے مطابق صحيح طریقے سے ادا کرسکے یا احتياط پر عمل کرسکے۔

مسئلہ ١ ۵۴۴ ضروری ہے کہ اجير نيت کرتے وقت ”ميت “ کو معين کرے۔هاں، یہ ضروری نہيں ہے ميت کا نام جانتا ہو، پس اگر وہ نيت کرے کہ یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے ميں اجير ہوا ہوں تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۵ ضروری ہے کہ اجير جو عمل بجا لائے اس کے لئے نيت کرے کہ جو کچھ ميت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجير کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب ميت کو هدیہ کرے تو یہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۶ ضروری ہے کہ اجير کسی ایسے شخص کو مقرر کيا جائے جس کے بارے ميں جانتے ہوں یا ان کے پاس شرعی حجت ہو کہ وہ عمل کو بجالائے گا مثلاً وہ اطمينان رکھتے ہوں یا دو عادل شخص یا ایک قابل اطمينان شخص جس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو،خبر دیں کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٧ جس شخص کو ميت کی نمازوں کے لئے اجير بنایا جائے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ عمل کو بجا نہيں لایا ہے یا باطل طریقے سے بجا لایا ہے تو ضروری ہے دوبارہ کسی شخص کو اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٨ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اجير نے عمل انجام دیا ہے یا نہيں تو اگر وہ قابل اطمينان ہو اور یہ کهے کہ ميں نے انجام دے دیا ہے یا کوئی شرعی گواہی یا کسی ایسے قابل اعتماد شخص کا قول موجود ہو کہ جس کے قول کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو کافی ہے اور اگر وہ شک کرے کہ اس اجير کا عمل صحيح تھا یا نہيں تو وہ اس کے عمل کو صحيح سمجھ لے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٩ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلا تيمم کر کے یا بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اسے ميت کی نمازوں کے لئے اجير مقرر نہيں کيا جاسکتا خواہ ميت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔

۲۴۹

مسئلہ ١ ۵۵ ٠ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے اجير بن سکتے ہيں ۔نيز نماز کو بلند یا آهستہ آواز سے پڑھنے ميں ضروری ہے کہ اجير اپنے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميت کی قضا نمازوں ميں ترتيب واجب نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ترتيب کا خيال رکھا جائے، ليکن اُن نمازوں ميں ترتيب ضروری ہے کہ جن کی ادا ميں ترتيب ضروری ہے مثلا ایک دن کی نماز ظہر وعصر یا مغرب وعشا۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٢ اگر اجير کے ساته طے کيا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے مگر یہ کہ اس عمل کے صحيح نہ ہونے کا علم رکھتا ہو کہ اس صورت ميں اس عمل کے لئے اجير نہيں بن سکتا اور اگر کچھ طے نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظيفے کے مطابق بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظيفے اور ميت کے وظيفے ميں سے جو بھی احتياط کے زیادہ قریب ہو اسی پر عمل کرے، مثلاً اگر ميت کا وظيفہ تين مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکليف ایک بار پڑھنا ہو تو تين بار پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٣ اگر اجير کے ساته یہ طے نہ کيا جائے کہ نماز کے مستحبات کتنی مقدار ميں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات نماز ميں پڑھے جاتے ہيں انہيں بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۴ اگر انسان ميت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجير مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميں بتایا گيا ہے اس کی بنا پر ضروری نہيں کہ وہ ہر اجير کے لئے وقت معين کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵۵ اگر کوئی شخص اجير بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال ميں ميت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پهلے مر جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کے لئے جن کے بارے ميں علم ہوکہ وہ انہيں بجا نہيں لایا، کسی اور شخص کو اجير مقرر کيا جائے اور جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ وہ انہيں بجانہيں لایا تھا احتياط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۶ جس شخص کو ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہوتو اگر اس کے ساته یہ طے کيا گيا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا اور وہ ان کے بجالانے پر قادر بھی تھا تو اجارہ کا معاملہ صحيح ہے اور اجرت دینے والا باقی نمازوں کی اجرت المثل واپس لے سکتا ہے یا اجارہ کو فسخ کرتے ہوئے اس مقدار کی اجرت المثل جو ادا ہو چکی ہے ، دے کر باقی مقدار کی اجرت واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ ان نمازوں کی ادائيگی پر قادر نہيں تھا تو مرنے کے بعد والی نمازوں ميں اجارہ باطل ہے اور اجرت دینے والا باقی ماندہ نمازوں کی اجرت مُسمّی لے سکتا ہے یا پهلے والی مقدار کے اجارہ کو فسخ کرتے ہو ئے اس مقدار کی اجرت المثل ادا کرسکتا ہے اور اگر یہ طے نہ کيا گيا

۲۵۰

ہو کہ وہ خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجير کے ورثاء اس کے مال سے کسی اور کو اجير بنائيں، ليکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٧ اگر اجير ميت کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس کی اپنی بھی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سابقہ مسئلے ميں جو طریقہ بتایا گيا ہے اس پر عمل کرنے کے بعداگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اس صورت ميں کہ جب اس نے وصيت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت اس کے تمام مال کے تيسرے حصے سے زیاہ ہوتو ورثاء کے اجازت دینے کی صورت ميں اس کی تمام نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جا سکتا ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت ميں اس کے مال کا تيسرا حصہ اس کی نمازوں پر خرچ کریں۔

روزے کے احکام

روزہ یہ ہے کہ انسان اذانِ صبح سے مغرب تک، ان چيزوں سے کہ جن کا بيان بعدميں آئے گا، قصد قربت،جس کا بيان وضو کے مسائل ميں گزرچکا اور اخلاص کے ساته، پرہيز کرے۔

اس مسئلے اور بعد ميں آنے والے مسائل ميں احتياط واجب کی بنا پر مغرب سے مراد وہ وقت ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مشرق کی جانب سے نمودار ہونے والی سرخی انسان کے سر کے اوپر سے گزر جائے۔

نيت

مسئلہ ١ ۵۵ ٨ روزے کی نيت ميں ضروری نہيں ہے کہ انسان نيت کے الفاظ کو دل سے گزارے یا مثلاً یہ کهے کہ ميں کل روزہ رکہوں گا، بلکہ اگر صرف یهی ارادہ رکھتا ہو کہ قربت کی نيت اور اخلاص کے ساته اذان صبح سے مغرب تک، ان کاموں کو انجام نہ دے گا جو روزے کو باطل کر دیتے ہيں تو کافی ہے ۔ اور یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت ميں روزے سے تھا ضروری ہے کہ اذانِ صبح سے کچھ دیر پهلے اور مغرب کے کچھ دیر بعد بھی روزے کو باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٩ انسان ماہ رمضان کی ہر رات ميں اس کے اگلے دن کے روزے کی نيت کر سکتا ہے اور اسی طرح مهينے کی پهلی رات کو ہی سارے روزوں کی نيت بھی کر سکتا ہے اورپہر دوبارہ ہر رات نيت دهرانا ضروری نہيں ہے اور اسی نيت پر باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٠ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کا وقت پهلی رات ميں ، رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہے اور پهلی رات کے علاوہ دوسری راتوںميں رات کی ابتدا سے پهلے بھی نيت کی جاسکتی ہے ، مثلاً پهلے دن عصر کے وقت نيت کرے کہ اگلے دن قربة الی الله روزہ رکھے گا اور اسی نيت پر باقی رہے اگر چہ اذان صبح کے بعد تک سوتا رہے۔

۲۵۱

مسئلہ ١ ۵۶ ١ مستحب روزے کی نيت کا وقت رات کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے کہ سورج غروب ہونے ميں نيت کرنے کی مقدار کا وقت باقی رہ جائے، پس اگر اس وقت تک روزے کو باطل کر دینے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور مستحب روزے کی نيت کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن اگر سورج غروب ہوجائے تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٢ جو شخص روزے کی نيت کئے بغير اذان صبح سے پهلے سوجائے، اگر ظہر سے پهلے بيدار ہو اور روزے کی نيت کرے تو اگر اس کا روزہ ایسا واجب روزہ ہوکہ جس کا وقت معين ہے ، چاہے ماہ رمضان کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ، جيسے اس نے نذر کی ہو کہ کسی معين دن روزہ رکھے گا، تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکال ہے اور اگر اس کا روزہ ایسا واجب ہو کہ جس کا وقت معين نہ ہو تو روزہ صحيح ہے ۔

اور اگر ظہر کے بعد بيدار ہو تو واجب روزے کی نيت نہيں کر سکتا ہے چاہے واجب غير معين ہو، ليکن ماہ رمضان کی قضا ميں ظہر سے عصر تک نيت کا جائز نہ ہونا احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٣ جو شخص ماہ رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معين کرے، مثلاً نيت کرے کہ قضا، نذر یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں، ليکن ماہ رمضان ميں یہ ضروری نہيں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے کی نيت کرے، بلکہ اگر اسے علم نہ ہو کہ رمضان ہے یا بھول جائے اورکسی دوسرے روزے کی نيت کرلے تب بھی وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۴ اگر کوئی جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجه کر رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی نيت کرلے تو وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہيں ہوگا اور اسی طرح بنابر احتياط واجب جس روزے کی نيت کی ہے وہ بھی روزہ شمار نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۵ اگر پهلے روزے کی نيت سے روزہ رکھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسری یاتيسری تاریخ تھی تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶۶ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے اور بے ہوش ہوجائے اور دن ميں کسی وقت ہوش آئے تو بنابر احتياط واجب ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کو پورا کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٧ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے پھر اس پر نشہ طاری ہو جائے اور دن ميں ہوش آئے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٨ اگر اذانِ صبح سے پهلے نيت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بيدار ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٩ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دیا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اور اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۲۵۲

مسئلہ ١ ۵ ٧٠ اگر بچہ ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے بالغ ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنا اس پر ضروری ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس پر روزہ واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ظہر سے پهلے بالغ ہو اور اس نے روزے کی نيت کر رکھی ہو تو روزہ پورا کرے اور اگر نيت نہ بھی کی ہو اورروزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو نيت کرے اور روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧١ جو شخص کسی ميت کے روزے اجرت لے کر رکھ رہا ہواس کے لئے مستحب روزہ رکھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن جس شخص کے ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں وہ مستحب روزے نہيں رکھ سکتا اوراگر رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ اس کے ذمّے ہو پھر بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظہر سے پهلے متوجہ ہوجائے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ليکن وہ اپنی نيت کو غير معين واجب روزے کی طرف پلٹا سکتا ہے ، جب کہ معين واجب روزے کی طرف نيت کو پلٹانا محل اشکال ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو وہ اپنی نيت کو واجب روزے کی طرف نہيں پلٹاسکتا اگر چہ واجب غير معين ہی کيوں نہ ہو اور یہ حکم ماہِ رمضان کے قضا روزوں ميں زوال کے بعد سے عصر تک احتياط واجب کی بناپر ہے ۔هاں، اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٢ اگر کسی شخص پر رمضان کے علاوہ کوئی معين روزہ واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ مقررہ دن روزہ رکہوں گا اور جان بوجه کر اذانِ صبح تک نيت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے تو اگرچہ ظہر سے پهلے یاد آجائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، بنا بر احتياط اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٣ اگر غير معين واجب روزے مثلاً کفارے کے روزے کے لئے، ظہر کے نزدیک تک عمداً نيت نہ کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ اگر نيت سے پهلے پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہيں رکھے گا یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پهلے نيت کر لے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۴ اگر کوئی کافر ماہ رمضان ميں ظہر سے پهلے مسلمان ہوجائے تو چاہے اس نے اذان صبح سے اس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، پھر بھی اس کا روزہ صحيح نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۵ اگر کوئی مریض ماہ رمضان کے دن کے وسط ميں ظہر سے پهلے یا اس کے بعد تندرست ہو جائے تو اِس دن کا روزہ اس پر واجب نہيں ہے خواہ اُس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔

۲۵۳

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۶ جس دن کے بارے ميں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا تو اُس پر واجب نہيں کہ وہ اس دن روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نيت نہيں کر سکتا، نہ ہی یہ نيت کر سکتا ہے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ اور اگر رمضان نہيں تو قضا یا اس جيسا کوئی اور روزہ رکھ رہا ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ کسی واجب روزے مثلاً قضا کی نيت کرلے یا مستحب روزے کی نيت کرے۔ چنانچہ بعد ميں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔ ہاں، اگر وہ یہ نيت کرے کہ جس چيز کا اسے حکم دیا گيا ہے اس کو انجام دے رہا ہوں اور بعد ميں معلوم ہو کہ رمضان تھا تو یہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٧ جس دن کے بارے ميں شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا دن، اگر اُس دن قضا یا اس کی مانند کوئی واجب یا مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٨ اگر کسی واجب معين روزے ميں جيسے ماہ رمضان کے روزے ميں انسان اپنی نيت سے کہ مبطلات روزہ سے خدا کی خاطر بچے، پلٹ جائے یا پلٹنے کے بارے ميں متردد ہو یا یہ نيت کرے کہ روزہ توڑنے والی چيزوں ميں سے کسی کو انجام دے یا متردد ہو کہ ایسی کوئی چيز انجام دے یا نہ دے تو اُس کا روزہ باطل ہے ، اگرچہ جو ارادہ کيا ہو اُس سے توبہ بھی کرے اور نيت کو روزے کی طرف بھی پهير دے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٩ وہ بات جس کے بارے ميں پچهلے مسئلے ميں بتایا گيا کہ واجب معين روزے کو باطل کردیتی ہے ،غير معين واجب روزے مثلاً کفارے یا غير معين نذر کے روزے کو باطل نہيں کرتی، لہٰذا اگر ظہر سے پهلے دوبارہ اپنی نيت کو روزے کی طرف پهير دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مبطلاتِ روزہ

مسئلہ ١ ۵ ٨٠ نو چيزیں روزے کو باطل کر دیتی ہيں ، اگر چہ ان ميں سے بعض چيزوںسے روزہ احتياط کی بنا پر باطل ہوتا ہے :

ا ) کھانا اور پينا

٢ ) جماع

٣ ) استمنا۔ استمنا یہ ہے کہ انسان اپنے یا کسی دوسرے کے ساته جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے۔

۴ ) خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

۵ ) احتياط واجب کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا۔

۲۵۴

۶ ) پورے سر کو پانی ميں ڈبونا۔

٧ ) اذانِ صبح تک جنابت حيض یا نفا س پر باقی رہنا۔

٨ٌ) کسی بهنے والی چيز سے انيما کرنا۔

٩ ) قے کرنا۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کھانا اور پينا

مسئلہ ١ ۵ ٨١ اگر روزہ دار اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر کوئی چيز کھائے یا پئے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا، خواہ وہ ایسی چيز ہو جسے عموماً کهایا یا پيا جاتا ہو جيسے روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کهایا یا پيا نہ جاتا ہو جيسے مٹی اور درخت کا شيرہ، خواہ کم ہو یا زیادہ، حتی اگر تری کو منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ ميں لے جائے اور نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا، سوائے ا س کے کہ یہ تری تهوک سے مل کر اِس طرح ختم ہو جائے کہ پھر اسے باہر کی تری نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٢ اگرکھانا کھانے کے دوران معلوم ہو جائے کہ صبح ہو گئی ہے توضروری ہے کہ لقمہ اگل دے اور اگر عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب ہو جائے گاجس کی تفصيلات آگے آئيںگی۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٣ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چيز کها یا پی لے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۴ دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حس کردینے والے انجکشن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اُس انجکشن سے پرہيز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۵ اگر روزہ دار دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی چيز کو اپنے روزے کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۶ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ اذان سے پهلے اپنے دانتوں ميں خلال کرے، ليکن اگر جانتا ہو یا اطمينان ہو کہ جو غذا دانتوں کے درميان ميں رہ گئی ہے وہ دن ميں اندر چلی جائے گی، چنانچہ وہ خلال نہ کرے اور وہ چيز پيٹ کے اندر چلی جائے تو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٧ لعاب دهن کو نگلنا، اگرچہ کهٹائی یا اس کی مانند چيزوں کے تصور سے منہ ميں جمع ہوجائے، روزے کو باطل نہيں کرتا۔

۲۵۵

مسئلہ ١ ۵ ٨٨ سر اور سينے کے بلغم کو نگلنے ميں ، جب تک کہ وہ منہ کے اندر والے حصے تک نہ پهنچے، کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر منہ ميں آجائيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ انہيں نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٩ اگر روزہ دار اِس قدر پياسا ہوجائے کہ اسے خوف ہو کہ وہ پياس کی وجہ سے مر جائے گا تو اس پر اتنا پانی پينا واجب ہے کہ مرنے سے نجات مل جائے، ليکن اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر رمضان ہو تو باقی دن روزہ باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز ضروری ہے ۔ اِسی طرح اگر اُسے خوف ہو کہ پانی نہ پينے کی وجہ سے اُسے قابلِ ذکر ضرر پهنچے گا یا پانی نہ پينا اُس کے لئے ایسی مشقّت کا باعث بنے گا جوعرفاً قابل برداشت نہ ہو تو اِن دو صورتوں ميں اِس قدر پانی پی سکتا ہے کہ اُس کا ضرر اور مشقّت دور ہو جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٠ بچے یا پرندے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا اور ان جيسی چيزوں کو چکهنا جو عام طور پر حلق تک نہيں پهنچتيں، اگر چہ اتفاق سے حلق تک پهنچ جائيں روزہ کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو یا مطمئن ہو کہ حلق تک پهنچ جائيں گی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور حلق تک پهنچنے کی صورت ميں اس پر کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ ١ ۵ ٩١ انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہيں چھوڑ سکتا، ليکن اگر کمزوری اِس حد تک ہو کہ روزہ دار کے لئے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھرروزہ چھوڑ دینے ميں کوئی حرج نہيں ۔

٢۔ جماع

مسئلہ ١ ۵ ٩٢ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے اگر چہ صرف ختنہ گاہ کے برابر داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔ اوربيوی کے علاوہ کسی اور سے جماع کی صورت ميں اگر منی خارج نہ ہو تو یہ حکم احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٣ اگر ختنہ گاہ سے کم مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۴ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اورختنہ گاہ کے برابر داخل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہواور پھر شک کرے کہ اُس مقدار کے برابر دخول ہوا ہے یا نہيں تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا ضروری ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ باقی دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيزکرے، ليکن کفارہ واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۵ اگر بھول جائے کہ روز ے سے ہے اور جماع کرلے یا بے اختيار جماع کرے تواس کا روزہ باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر دوران جماع اُسے یاد آجائے یا اُسے اختيار حاصل ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع کو ترک کردے اور اگر ترک نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۶

٣۔ استمنا

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۶ اگر روزہ دار استمنا کرے، یعنی جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اُس کی منی خارج ہو، تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٧ اگر بے اختيار، انسان کی منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٨ جو روزہ دار جانتا ہو کہ اگر دن ميں سو گيا تومحتلم ہو جائے گا یعنی نيند ميں اس کے جسم سے منی خارج ہو جائے گی، تو اُس کے لئے سونا جائز ہے اور اگر محتلم ہو جائے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔هاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نہ سوئے خصوصاً جب نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکليف بھی نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٩ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کی حالت ميں نيند سے بيدار ہوجائے تو اس کو خارج ہونے سے روکناواجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٠ جب روزہ دار محتلم ہوجائے تو وہ پيشاب اور استبرا کر سکتا ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ پيشاب اور استبرا کی وجہ سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔

مسئلہ ١ ۶ ٠١ جو روزہ دار محتلم ہو گيا ہو اگر وہ جانتا ہو کہ نالی ميں منی باقی رہ گئی ہے اورغسل سے پهلے پيشاب نہ کرنے کی صورت ميں غسل کے بعد منی خارج ہوگی تو بناء بر احتياط واجب ضروری ہے کہ غسل سے پهلے پيشاب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٢ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ عمداً منی خارج کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے ، اگر منی کے باہر آنے کی نيت سے مثلاً بيوی سے هنسی مذاق اور چھيڑ چھاڑ کرے تو چاہے منی خارج نہ بھی ہو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور ضروری ہے کہ قضا کرے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرنا بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٣ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کا ارادہ کئے بغير مثال کے طور پر اپنی بيوی سے چھيڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے، چنانچہ اگر اطمينان رکھتا ہو کہ اُس سے منی خارج نہ ہوگی اگر چہ اتفاق سے منی خارج ہو بھی جائے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اطمينان نہ ہو تو منی خارج ہونے کی صورت ميں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۴ ۔ خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ سے جهوٹ منسوب کرنا

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۴ اگر روزہ دار زبان سے، لکھ کر، اشارے سے یا کسی اور طریقے سے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے عمداً کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ فوراً یہ کہہ دے کہ ميں نے جھوٹ کها ہے یا توبہ کرلے، اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ جب کهباقی انبياء (علی نبينا و آلہ و عليهم السلام )اور ان کے اوصياء کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتياطِ واجب کی بنا پر روزے کو باطل کر دیتا ہے ، مگر یہ کہ ان سے دی ہوئی یہ جھوٹی نسبت الله تعالیٰ سے منسوب ہو جائے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۷

یهی حکم حضرت زهرا عليها السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے کا ہے سوائے اس کہ کے یہ جھوٹی نسبت خدا، رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی سے منسوب ہو جائے، کہ اس صورت ميں روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۵ اگر کوئی ایسی حدیث نقل کرنا چاہے جس کے متعلق نہ جانتا ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ اور اُس حدیث کے معتبر ہونے پر دليل بھی نہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جو اِس حدیث کا راوی ہے یا مثال کے طور پرجس کتاب ميں یہ حدیث تحریر ہے ، اس کا حوالہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۶ اگر کسی روایت کو سچ سمجھتے ہوئے، خدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ جھوٹ تھی تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٧ جو شخص جانتا ہو کہ خدا، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا روزے کو باطل کردیتا ہے اگر کسی چيز کو جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ جھوٹ ہے ، ان حضرات سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ جو کچھ کها تھا سچ تھا تو بھی اس کا روزہ باطل ہے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٨ کسی دوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کو اگر جان بوجه کر خدا، پيغمبر صلی الله

عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر جس نے جھوٹ گڑھا ہے اس کا قول نقل کرے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٩ اگر روزہ دار سے پوچها جائے کہ آیا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی ایک امام عليہ السلام نے اس طرح فرمایا ہے ، اور وہ جواب ميں جان بوجه کر ہاں کی جگہ نہيں اور نہيں کی جگہ ہاں کهے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٠ اگرخدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی امام عليہ السلام سے کوئی سچ بات نقل کرے، بعد ميں کهے کہ ميں نے جھوٹ کها تھا یا رات کو ان حضرات سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اور اگلے دن روزے کے عالم ميں کهے کہ جو ميں نے کل رات کها تھا وہ سچ ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۵ ۔ غبار حلق تک پهنچانا

مسئلہ ١ ۶ ١١ احتياط کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خوا ہ غبار اس چيز کاہو جس کا کھانا حلال ہے جيسے آٹا یا ایسی چيز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جيسے مٹی۔

مسئلہ ١ ۶ ١٢ اگر ہوا کی وجہ سے کوئی غبار پيدا ہو اور انسان متوجہ ہونے کے باوجود دهيان نہ رکھے اور غبار حلق تک پهنچ جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۸

مسئلہ ١ ۶ ١٣ احتياطِ واجب یہ ہے کہ روزہ دارگاڑھی بهاپ اور سگریٹ و تمباکو جيسی چيزوں کا دهواں بھی حلق تک نہ پهنچائے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۴ اگر دهيان نہ رکھے اور غبار، دهواں، گاڑھی بهاپ یا اس جيسی چيزیں حلق ميں داخل ہوجائيںتو اگر اسے یقين یا اطمينان تھا کہ یہ چيزیں حلق ميں نہ پهنچيں گی تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اسے گمان تھا کہ یہ حلق تک نہيں پهنچيں گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۵ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور دهيان نہ رکھے یا بے اختيار غبار یا اس جيسی چيز اُس کے حلق تک پهنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

۶ ۔ سر کو پانی ميں ڈبونا

مسئلہ ١ ۶ ١ ۶ اگر روزہ دار جان بوجه کر سارا سر پانی ميں ڈبودے تو اگرچہ باقی بدن پانی سے باہر رہے، اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، ليکن اگر سارا بدن پانی ميں ڈوب جائے اور سر کا کچھ حصہ باہر رہے تو روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٧ اگر آدهے سر کو ایک بار اور اس کے دوسرے آدهے حصے کو دوسری بار پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٨ اگر شک کرے کہ پورا سر پانی کے نيچے چلا گيا ہے یا نہيں تو اس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر سارا سر ڈبونے کی نيت سے پانی کے نيچے چلا جائے اور شک کرے کہ پورا سر پانی ميں ڈوبا یا نہيں تو اس کا روزہ باطل ہوگا اگر چہ کفارہ نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ١٩ اگر پورا سر پانی کے نيچے چلا جائے ليکن بالوں کی کچھ مقدار باہر رہ جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٠ پانی کے علاوہ دیگربهنے والی چيزوں مثلاً دودھ اور آب مضاف ميں سر کو ڈبونا روزے کو باطل نہيں کرتا اور احتياطِ واجبيہ ہے کہ سر کو عرق گلاب ميں ڈبونے سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢١ اگر روزہ دار بے اختيار پانی ميں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی ميں ڈوب جائے یا وہ بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٢ اگر روزہ دار یہ سمجھ کر اپنے آپ کو پانی ميں گرادے کہ اس کا سر پانی ميں نہيں ڈوبے گا ليکن اس کا سارا سر پانی ميں ڈوب جائے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٣ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے یا کوئی دوسرا شخص زبردستی اس کا سر پانی ميں ڈبودے، چنانچہ اگر پانی کے اندر اُسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا وہ شخص اپنا ہاتھ ہٹالے تو ضروری ہے کہ اِسی وقت فوراً سر کو باہر نکالے اور اگر باہر نہ نکالے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

۲۵۹

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۴ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور غسل کی نيت سے سر کو پانی ميں ڈبودے تو اُس کا روزہ اور غسل دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر غسل کے لئے اپنا سر پانی ميں ڈبودے تو اگر اُس کا روزہ رمضان کا ہو تو اس کاروزہ اور غسل دونوں باطل ہيں اور رمضان کے قضا روزے کے لئے بھی جسے اپنے لئے انجام دے رہا ہو، احتياط کی بنا پر زوال کے بعد یهی حکم ہے ، ليکن اگر مستحب روزہ ہو یا کوئی اور واجب روزہ ہو خواہ واجب معين ہو جيسے کہ کسی معين دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہو، خواہ واجب غير معين ہو جيسے کفارے کا روزہ، تو اس صورت ميں اُس کا غسل صحيح ہے اور روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۶ اگر روزہ دار کسی شخص کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا خواہ اس شخص کوڈوبنے سے بچانا واجب ہی کيوں نہ ہو۔

٧۔ جنابت، حيض اور نفاس پر اذان صبح تک باقی رہنا

مسئلہ ١ ۶ ٢٧ اگر جنب جان بوجه کر ماہ رمضان ميں اذان صبح تک غسل نہ کرے یا اگر اس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بعد ميں آئے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٨ اگر جنب ماہ رمضان اور اس کی قضا کے علاوہ مستحبی یا واجب روزوں ميں کہ جن کا وقت معين ہو جان بوجه کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ واجب روزے ميں جان بوجه کر حالتِ جنابت پر باقی نہ رہے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٩ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے یهاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے تواحتياطِ واجب کی بنا پرضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٠ اگرجنب ماہ رمضان ميں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد یاد آئے توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر کئی دنوں بعد یاد آئے تو جتنے دن جنب ہونے کا یقين تھا ان کی قضا کرے، مثال کے طور پر اگر وہ نہ جانتا ہو کہ تين دن جنب تھا یا چار دن ؟ تو ضروری ہے کہ تين دن کے روزوں کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣١ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں غسل اور تيمم ميں سے کسی کا وقت نہ رکھتا ہو اگر وہ اپنے آپ کو جنبکرے تو اس کا روزہ باطل ہو گا اور اس پر قضا اور کفارہ واجب ہيں ، ليکن جس کی ذمہ داری غسل ہو، اگر تيمم کرنے کے لئے وقت رکھتا ہو چنانچہ اپنے آپ کو جنب کرے تو بنا بر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اوراس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

خمس کے احکام

مسئلہ ١٧ ۶ ٨ سات چيزوں پر خمس واجب ہوتا ہے :

١) کمانے سے حاصل ہونے والا فائدہ

٢) کان

٣) دفينہ

۴) حلال مال جو حرام مال سے مخلوط ہو جائے

۵) جواہرات جو سمندر ميں غوطہ لگانے سے حاصل ہوتے ہيں

۶) جنگ کا مالِ غنيمت

٧) وہ زمين جو کافر ذمی مسلمان سے خریدے اور ان کے احکام مندرجہ ذیل مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کمانے سے حاصل ہونے والا منافع

مسئلہ ١٧ ۶ ٩ جب بھی انسان تجارت، صنعت یا دوسرے پيشوں سے مال حاصل کرے چاہے مثال کے طور پر وہ کسی ميّت کے لئے انجام دئے گئے نماز اور روزے کی اجرت ہی کيوں نہ ہو اور وہ مال اس کے اور اس کے اہل وعيال کے سال بھر کے اخراجات کے بعد بچ جائے تو ضروری ہے کہ اس مال کا خمس یعنی پانچواں حصہ، بعد ميں بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧٠ اگر کمائے بغير کوئی مال دستياب ہو مثلاًکوئی چيز اسے بخش دی جائے اور وہ چيز لوگوں کی نگاہوں ميں قابلِ توجہ قدر و قيمت کی حامل ہو تو ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات کے بعد اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧١ عورت کے مہر اور مردکو طلاقِ خلع کے عوض ملنے والے مال پر خمس نہيں ہے ۔

اسی طرح وارث کو ملنے والی ميراث پر بھی خمس نہيں ہے ۔ ہاں، اگر مثال کے طور پر کسی شخص سے رشتہ داری رکھتا ہو ليکن اس سے ميراث ملنے کا گمان نہ ہو تو ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہونے کی صورت ميں اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧٢ اگر ایسے شخص کی ميراث سے انسان کو کچھ مال ملے جو خمس کا اعتقاد رکھتا ہو اور انسان جانتا ہو کہ مرحوم نے خمس ادا نہيں کيا تھا تو ضروری ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے اس مال کا خمس نکالے اور اگر خود اس مال پر خمس نہ ہو ليکن وارث جانتا ہو کہ مرحوم کے ذمے خمس واجب الادا ہے تو دوسرے قرضوں کی طرح خمس بھی اُس مال ميں آجائے گا کہ جب تک اسے ادا نہ کر دے مال ميں تصرف کا حق نہيں رکھتا۔ البتہ جب مال سے خمس نکالنا چاہے تو ضروری ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے۔

۲۸۱

مسئلہ ١٧٧٣ اگر کفایت شعاری کی وجہ سے سال بھر کے اخراجات ميں سے کوئی چيز بچ جائے تو اس کا خمس نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧ ۴ جس شخص کے تمام اخراجات کوئی دوسرا شخص دیتا ہو ضروری ہے کہ حاصل ہونے والے تمام مال کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٧ ۵ اگر کسی جائيداد کو معين افراد پر مثلاًاپنی اولاد پر وقف کر دے اور اس جائيداد ميں کهيتی باڑی اور شجرکاری کرے اور اس سے کوئی چيز حاصل ہو جو ان کے سال بھر کے اخراجات سے زائد ہو تو ان پر اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر کسی اور طریقے سے بھی اس جائيداد سے کوئی منافع حاصل کریں، مثلاًاس کا کرایہ وصول کریں تو ان پر سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧ ۶ جو مال فقير نے بطورِ خمس و زکات ليا ہو اگر سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر فقير اس لئے ہوئے مال سے کوئی منافع حاصل کرے مثلاًبطور خمس لئے ہوئے درخت سے پھل حاصل ہوں اور وہ اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور کسی سے بطور صدقہ ليا جانے والا مال بھی اگر سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧٧ جس رقم کا خمس نہ دیا گيا ہو اگر عين اس رقم سے کوئی چيز خریدے یعنی فروخت کرنے والے سے کهے کہ ”یہ چيز ميں اس رقم سے خریدتا ہوں“، تو اگر حاکم شرع اس سودے کے پانچویں حصے کی اجازت دے دے تو سودا صحيح ہو گا اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس چيز کا خمس حاکم شرع کو دے اور اگر حاکم شرع اجازت نہ دے تو اس سودے کا پانچواں حصہ باطل ہے ۔ اب اگر وہ رقم جو بيچنے والے نے لی تھی تلف نہ ہوگئی ہو تو حاکمِ شرع اس رقم سے خمس لے گا اور اگر وہ رقم تلف ہو جائے تو فروخت کرنے والے یا خریدار سے اس کے عوض کا مطالبہ کرے گا۔

مسئلہ ١٧٧٨ اگر کسی چيز کو ذمے پر خریدے او ر سودا ہو جانے کے بعد اس کی قيمت ایسی رقم سے ادا کرے جس کا خمس نہ نکالا گيا ہو تو سودا صحيح ہے جب کہ خریدار اس رقم کے پانچویں حصے کی بہ نسبت فروخت کرنے والے کا مقروض ہو گا۔ ہاں، جو رقم فروخت کرنے والے کو ملی ہے اگر وہ تلف نہ ہو گئی ہو تو حاکم شرع اسی رقم سے خمس لے گا جب کہ تلف ہو جانے کی صورت ميں خریدار یا فروخت کرنے والے سے اس کے عوض کا مطالبہ کرے گا۔

۲۸۲

مسئلہ ١٧٧٩ اگر کوئی ایسا مال کہ جس کا خمس نہ دیا گيا ہو خریدے اور حاکم شرع اس چيز کے پانچویں حصے کے سودے کی اجازت نہ دے تو اتنی مقدار کا سودا باطل ہے اور حاکم شرع اس مال کا پانچواں حصہ لے سکتا ہے اور اگر اجازت دے دے تو سودا صحيح ہے اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس مال کے عوض کا پانچواں حصہ حاکم شرع کو دے اور اگر بيچنے والے کو دے چکا ہے تو اس سے واپس لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٠ انسان کوئی ایسی چيز جس کا خمس نہ دیا گيا ہو، کسی کو بخش دے تو اس چيز کا پانچواں حصہ اس تک منتقل ہی نہيں ہو تا۔

مسئلہ ١٧٨١ اگر کافر یا کسی ایسے شخص سے جو خمس دینے کا عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو کوئی مال شيعہ اثنا عشری کے ہاتھ آئے تو اس کا خمس نکالنا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٢ تاجر، کاروباری، صنعت کار اور ان جيسے افراد جس وقت سے منافع حاصل کریں، جو کہ ان کے سال کی ابتدا ہے ، ایک سال گزرنے کے بعد ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دیں۔ ہاں، جو شخص کا روباری نہ ہو اگر اتفاقاًاسے منافع مل جائے تو ضروری ہے کہ نفع حاصل ہونے کے ایک سال بعد سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٨٣ سال بھر ميں جب بھی کوئی منفعت کسی شخص کے ہاتھ آئے جو اس کے اخراجات سے زیادہ ہو تو اس کا خمس اسی وقت دے سکتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ سال کے آخر تک خمس کی ادائيگی ميں تاخيرکر دے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ قمری سال کو خمس کا سال قرار دے۔

مسئلہ ١٧٨ ۴ جس شخص کا تاجر اور کاروباری شخص کی طرح خمس دینے کے لئے سال مقرر ہو، اگر کوئی منفعت حاصل کرے اور دوران سال اس کا انتقال ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کے مرنے کے وقت تک کے اخراجات کو اس منفعت سے نکال کر باقی مقدار کا خمس دیا جائے۔

مسئلہ ١٧٨ ۵ اگر تجارت کی غرض سے خریدی ہوئی چيز کی قيمت بڑھ جانے کے باوجود اسے فروخت نہ کرے اور سال مکمل ہونے سے پهلے ہی اس کی قيمت گر جائے تو قيمت کی بڑھی ہوئی مقدار کا خمس اس پر واجب نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١٧٨ ۶ اگر تجارت کی غرض سے خریدی ہوئی چيز کی قيمت بڑھ جائے اور سال مکمل ہونے کے بعد تک اس اميد پر اسے فروخت نہ کرے کہ ابهی قيمت اور بڑھے گی اور اس کی قيمت گرجائے توا گر اس نے تاجروں کے درميان رائج وقت تک ہی اس چيز کو رکھا ہو تو قيمت کی بڑھی ہوئی مقدار کا خمس واجب نہيں ہے ، ليکن اگر اس سے زیادہ مدت تک کسی عذر کے بغير اس چيز کو رکھا تھا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ اس بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے۔

۲۸۳

مسئلہ ١٧٨٧ اگر مال تجارت کے علاوہ کوئی دوسرا مال اس کے پاس ہو جس پر خمس نہ ہو تو یہ مال وراثت کے ذریعے ملنے کی صورت ميں اگر اس کی قيمت بڑھ جائے تو چاہے اسے بيچ بھی دے، بڑھی ہوئی قيمت کا خمس دینا واجب نہيں ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب عوض دئے بغير کسی چيز کا مالک بن جائے چاہے اس چيز پر شروع سے خمس نہ ہو مثلاًایسا گھر اسے بخش دیا گيا ہو جس کی اسے ضرورت بھی ہو اور سال کے خرچے ميں وہ گھر استعمال بھی ہوا ہو یا اس چيز پر خمس ہو ليکن اسی مال سے اس کا خمس بھی دیا جا چکا ہو، مثلاًحيازت کے ذریعے کسی چيز کا مالک بنا ہو اور اس کا خمس بھی دے چکا ہو۔

ليکن اگر عوض دے کر مالک بنا ہو اور اس کی قيمت بڑھ جائے تو جب تک اس چيز کو فروخت نہ کرے اس کا خمس نہيں ہے اور اگر فروخت کر دے تو اخراجات کا حصہ نہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے اور اخراجات کا حصہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے اور دونوں صورتوں ميں اگر سال کے اخراجات ميں ہی ختم ہوجائے تو اس کا خمس نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٨ اگر کوئی شخص اس ارادے سے باغ لگائے کہ قيمت بڑھنے کے بعد اسے فروخت کر دے گا تو ضروری ہے کہ پهل، درختوں کی نشوونما اور باغ کی بڑھی ہوئی قيمت کا خمس دے اور اگر اس کا ارادہ یہ ہوکہ باغ کے پهلوں سے تجارت کرے گا تو ضروری ہے کہ پھل اور درخت کی نشوونما کا خمس دے اور اگر اس کا ارادہ ان پهلوں کو اپنے ذاتی استعمال ميں لانے کا ہو تو ضروری ہے کہ استفادے سے زیادہ ہونے کی صورت ميں پهلوں کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٨٩ اگر بيد، چنار یا ان جيسے درخت لگائے، اگر ان کا خمس دے چکا ہو تو ضروری ہے کہ ہر سال ان کے بڑھنے کا خمس دے۔ اسی طرح اگر درخت کی ان شاخوں سے کوئی منفعت حاصل کرے جو ہر سال کاٹی جاتی ہيں اور صرف ان شاخوں کی قيمت یا دوسری آمدنيوں کے ساته مل کر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ سال کے آخر ميں ان کا خمس ادا کرے۔ ہاں، اگر اصل درختوں کا خمس ہی نہ نکالا ہوا ہو اور وہ درخت بڑھے بھی ہوں تو ضروری ہے کہ اصل درخت کا خمس، اس خمس کے حصے کے بڑھے ہوئے حصے کا خمس اور اصل درخت کے بڑھے ہوئے حصے کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٩٠ جس شخص کی آمدنی کے متعدد ذرائع ہوں، مثلاًجائيداد کا کرایہ ليتا ہو، خرید و فروخت اور کهيتی باڑی بھی کرتا ہو، ضروری ہے کہ سال بھر کی کمائی کے بعد اخراجات سے زائد منافع کا خمس ادا کرے اور اگر ایک پيشے سے منافع حاصل ہو، جب کہ دوسرے پيشے سے نقصان ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ منافع کا خمس نکال دے۔

مسئلہ ١٧٩١ جو اخراجات انسان فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے ، مثلاًدلالوں اور سامان اٹھ انے والے مزدوروں کا خرچہ، یہ منفعت حاصل کرنے کا خرچہ حساب ہوگا اور اسے منفعت سے نکالا جاسکتا ہے اور اتنی مقدار کا خمس واجب نہيں ۔

۲۸۴

مسئلہ ١٧٩٢ آمدنی کا جو حصہ سال بھر ميں خوراک، لباس، گهریلوسامان، مکان کی خریداری، بيٹے کی شادی، بيٹی کے جهيز، زیارات اور ان جيسی چيزوں کے لئے خرچ ہوجائے، اگر اس کی حيثيت سے زیادہ نہ ہوں تو ان پر خمس واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧٩٣ جو مال انسان نذر اور کفارے پر خرچ کرے وہ اس کے سالانہ اخراجات کا حصہ ہے ۔ اسی طرح وہ مال بھی جو انسان کسی کو تحفے یا انعام کے طور پر دے، اگر اس کی حيثيت سے زیادہ نہ ہو تو اس کے سالانہ اخراجات ميں شمار ہوگا۔

مسئلہ ١٧٩ ۴ اگر انسان کسی ایسے شہر ميں زندگی گزارتا ہو جهاں لڑکيوں کے جهيز کے لئے معمولاًہر سال کچھ نہ کچھ تيار کيا جاتا ہے ، اگر انسان اس طریقے کے بغير لڑکی کا جهيز تيار نہ کر سکتا ہو اور جهيز نہ دینا بھی اس کی حيثيت کے منافی ہو تو دوران سال اسی سال کی آمدنی سے جهيز خریدنے پر کوئی خمس واجب نہيں ، ليکن اگر اس سال کی منفعت سے اگلے سال ميں جهيز لے تو اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٩ ۵ جو مال انسان حج وزیارات کے لئے خرچ کرتا ہے وہ اسی سال کے اخراجات ميں شمار ہوتے ہيں جس سال خرچ کر رہاہے اور اگر اس کا سفر اگلے سال تک طولانی ہوجائے تو پچهلے سال کی جتنی آمدنی اگلے سال ميں خرچ کرے، اس کا خمس نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٩ ۶ جو شخص اپنے پيشے یا کاروبار سے منفعت حاصل کرے اور اس کے پاس کچھ ایسا مال بھی موجود ہو جس پر خمس واجب الادا نہ ہو تو وہ اپنے سال بھر کے اخراجات کا حساب صرف اپنی آمدنی سے کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٩٧ جو اشيائے خورد و نوش انسان نے اپنی آمدنی سے سال بھر کے خرچ کے لئے خریدی ہوں، اگر سال کے آخر ميں اس سے کچھ بچ جائے تواس کا خمس نکالنا ضروری ہے اور اگر اس کی قيمت خمس کے طور پر دینا چاہے تو خریداری کے وقت سے قيمت بڑھ جانے کی صورت ميں ضروری ہے کہ سال کے آخر ميں جو قيمت ہو اس کے حساب سے خمس دے۔

مسئلہ ١٧٩٨ اگر خمس کی ادائيگی سے پهلے کوئی شخص اپنی آمدنی سے گھر کے لئے کوئی سامان خریدے تو جس وقت اس سامان کی ضرورت باقی نہ رہے خمس واجب نہيں ۔ یهی حکم خواتين کے زیورات کے لئے ہے جب ان کے لئے ان زیورات کو زینت کے لئے استعمال کرنے کا وقت گزر چکا ہو۔

مسئلہ ١٧٩٩ اگر کسی سال کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتو اس سال کے اخراجات کو اگلے سا ل کی آمدنی سے نہيں نکالا جا سکتا۔

مسئلہ ١٨٠٠ اگر سال کی کی ابتدا ميں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور سرمایہ استعمال کرنا پڑجائے پھر سال مکمل ہونے سے پهلے فائدہ حاصل ہوجائے تو سرمائے سے اٹھ ائی ہوئی مقدار کو فائدے سے نہيں نکالا جاسکتا۔

۲۸۵

مسئلہ ١٨٠١ اگر تجارت یا اس جيسی چيزوں ميں سرمائے کی کچھ مقدار تلف ہو جائے تو تلف سے پهلے حاصل ہونے والے منافع سے اس مقدار کو نکال سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٢ اگر کسی شخص کی سرمائے کے علاوہ کوئی ملکيت تلف ہو جائے تو حاصل ہونے والے فائدے سے اسے مهيا نہيں کرسکتا، مگر یہ کہ اسی سال ميں اس چيز کی ضرورت ہو کہ اس صورت ميں دوران سال حاصل ہونے والی آمدنی سے اسے مهيا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٣ اگر سال کی ابتدا ميں اپنے اخراجات کے لئے قرضہ لے اور سال مکمل ہونے سے پهلے کوئی منفعت حاصل ہو جائے تو اس منفعت سے قرضے کی مقدار نہيں نکال سکتا، مگر یہ کہ منفعت حاصل ہونے کے بعد قرضہ ليا گيا ہو۔ البتہ وہ دوران سال حاصل ہونے والے فائدے سے اپنا قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۴ اگر پورے سال کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور اخراجات کے لئے قرضہ لينا پڑے تو اگلے سال کی آمدنی سے اس قرضے کی مقدار کو نہيں نکال سکتا۔ ہاں، دوران سال کی آمدنی سے قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۵ اگر مال ميں اضافے یا ایسی جائيداد جس کی ضرورت نہ ہو، خریدنے کے لئے قرضہ لے، تو آمدنی سے اس قرضے کو ادا نہيں کر سکتا۔ ہاں، اگر قرض ليا ہوا مال یا اس قرض سے خریدی ہوئی چيز ضائع ہو جائے تو دوران سال کی آمدنی سے یہ قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۶ انسان ہر چيز کا خمس اسی چيز سے یا واجب مقدار ميں رائج کرنسی سے دے سکتا ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع کی اجازت کے بغير کسی اور چيز سے خمس نہ دے۔

مسئلہ ١٨٠٧ جس شخص کے مال پر خمس واجب ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو جب تک وہ خمس ادا نہ کر دے حاکم شرع کی اجازت کے بغير اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا چاہے اس کا خمس دینے کا ارادہ ہی ہو۔ ہاں، اپنے حصے ميں اعتباری تصرفات جيسے فروخت کرنا، صلح کرنا وغيرہ کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٨ جس شخص پر خمس واجب ہو وہ یہ نہيں کر سکتا کہ خمس اپنے ذمے لے لے یعنی خود کو خمس کے مستحقين کا مقروض سمجھ لے اور پچهلے مسئلے ميں بيان شدہ اعتبار سے اپنے مال ميں تصرف کرے اور اگر تصر ف کرے اور وہ مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨٠٩ جس شخص پر خمس واجب ہو اگر وہ حاکم شرع سے مصالحت کر کے خمس اپنے ذمے لے لے تو اپنے مال ميں تصرف کر سکتا ہے اور مصالحت کے بعد جو فائدہ بھی اس سے حاصل ہو گا وہ اسی کا ہو گا۔

۲۸۶

مسئلہ ١٨١٠ جو شخص کسی کے ساته شریک ہو اور اپنے حصے کے فائدے سے خمس دے دے، جب کہ اس کا شریک اپنے منافع کا خمس نہ دے اور اگلے سال خمس نہ دئے ہوئے مال سے شراکت کے لئے سرمایہ دے تو دونوں ميں سے کوئی بھی اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا، مگر یہ کہ خمس نہ دینے والا شریک خمس پر عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو تو اس صورت ميں دوسرا شریک اس مال ميں تصرف کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨١١ اگر نابالغ بچہ سرمائے کا مالک ہو اور اس سے فائدہ بھی حاصل ہو تو اس پر خمس واجب ہو جاتاہے اور ولی پر اس مال کا خمس نکالنا واجب ہے اور اگر ولی نہ دے تو ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد ادا کرے۔

مسئلہ ١٨١٢ جس شخص کو کسی سے کوئی مال ملے اور اسے یقين ہو کہ اس نے اس مال کا خمس اد انہيں کيا ہے تو اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا، مگر یہ کہ وہ شخص خمس پر عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت ہے جب شک ہو کہ اس نے اس مال کا خمس دیاہے یا نہيں ۔

مسئلہ ١٨١٣ اگر کوئی شخص اپنی آمدنی سے دوران سال کوئی ایسی جائيداد یا ملکيت خریدے جو اس کی سالانہ ضرورت اور اخراجات ميں شمار نہ ہو تو سال مکمل ہونے پر اس کا خمس دینا واجب ہے اور اگر خمس نہ دے اور اس کی قيمت بڑھ جائے تو ضروری ہے کہ اس کی موجودہ قيمت کا خمس دے۔یهی حکم جائيداد کے علاوہ دوسری چيزوں مثلاًقالين وغيرہ کاہے۔

مسئلہ ١٨١ ۴ اگر خمس نہ نکالے ہوئے مال سے مثلاًکوئی جائيداد خریدے اور اس کی قيمت بڑھ جائے، تو اگر اس نے اس جائيداد کو قيمت بڑھ جانے پر بيچنے کے لئے نہ خریدا ہو مثلاًکسی زمين کو زراعت کے لئے خرید ا ہو تو اس صورت ميں کہ اس نے یہ ملکيت اپنے ذمے پر خریدی ہو اور خمس نہ نکالے ہوئے مال سے اس کی قيمت ادا کی ہو، ضروری ہے کہ خریدی ہوئی قيمت سے اس کا خمس اد اکرے، ليکن اگر خمس نہ نکالی ہوئی رقم بيچنے والے کو یہ کہہ کر دی ہوکہ جائيداد ميں اس مال سے خرید رہا ہوں، تو حاکم شرع کے اس سودے کے پانچویں حصے کی اجازت دینے کی صورت ميں ضروری ہے کہ خریدا ر اس جائيداد کی موجودہ قيمت کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨١ ۵ جس شخص نے مکلف ہونے کے بعد شروع سے خمس نہ دیا ہو اگر اس نے اپنے کاروبار کے منافع سے کوئی ایسی چيز خریدی ہو جس کی اسے ضرورت نہ ہو اور اسے منفعت کمائے ایک سال گزر گيا ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر اس نے گھر کا سازوسامان اور ضرورت کی چيزیں اپنی حيثيت کے مطابق خریدی ہوں اور جانتا ہو کہ اس نے یہ چيزیں سال کے دوران ہونے والے منافع سے خریدی ہيں جس سال ميں اسے فائدہ ہوا ہے تو ان پر خمس دینا ضروری نہيں ہے ، ليکن اگر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے یہ چيزیں سال کے دوران خریدی ہيں یا سال ختم ہونے کے بعد تو احتياط واجب کی بنا پر حاکم شرع سے مصالحت کرے۔

۲۸۷

٢۔ معدنی کانيں

مسئلہ ١٨١ ۶ اگر کوئی شخص سونے، چاندی، سيسے، تانبے، لوهے، پيٹروليم، کوئلے، فيروزے، عقيق، پهٹکری، نمک اور دوسری معدنی کانوں سے کوئی چيز نکالے اور وہ چيز نصاب کے مطابق ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨١٧ کان سے نکلی ہوئی چيز کا نصاب ١ ۵ مثقال رائج سکہ دار سونا ہے ۔ یعنی اگر کان سے نکالی ہوئی کسی چيز کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس پر جو اخراجات آئے ہوں انہيں نکال کر جو باقی بچے اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨١٨ اگر کان سے نکالی ہوئی چيز کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک نہ پهنچے تو اس پر خمس دینا اس صورت ميں ضروری ہے کہ جب صرف یہ منفعت یا اس کے دوسرے کاروباری منافع سے اس منفعت کو ملاکر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے۔

مسئلہ ١٨١٩ چونا، جپسم، چکنی مٹی اور سرخ مٹی پر معدنی چيزوں کے حکم کا اطلاق نہيں ہوتا اور انہيں باہر نکالنے والے پر اس صورت ميں خمس دینا ضروری ہے جب صرف یہ یا اس کے دوسرے کاروباری منافع سے اس منفعت کو ملاکر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے۔

مسئلہ ١٨٢٠ جو شخص کان سے کوئی چيز نکالے تو ضروری ہے کہ خمس دے، خواہ وہ کان زمين کے اوپر ہو یا زمين کے اندر اور خواہ ایسی زمين ميں ہو جو اس کی ملکيت ہو یا ایسی زمين ميں ہو جس کا کوئی مالک نہ ہو۔

مسئلہ ١٨٢١ اگر کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ جو چيز اس نے کان سے نکالی ہے اس کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے کے برابر ہے یا نہيں تو احتياط کی بنا پر اگر ممکن ہو تو وزن کر کے یا کسی اور طریقے سے اس کی قيمت معلوم کرے اور ممکن نہ ہونے کی صورت ميں اس پر خمس نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨٢٢ اگر کئی افراد مل کر کان سے کوئی چيز نکاليں اور اس کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے اگرچہ ان ميں سے ہر ایک کا حصہ اس مقدار سے کم ہو پھر بھی احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ اس پر کيا ہوا خرچہ نکالنے کے بعد اس کا خمس دیں۔

مسئلہ ١٨٢٣ اگر کوئی شخص معدنی چيز کو اس زمين سے جو دوسرے کی ملکيت ميں ہو، مالک کی اجازت کے بغير نکالے تو جو چيز نکالی جائے وہ اسی مالک کی ہے اور اگر نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ جو چيز نکالی گئی ہو، مالک اس پوری چيز کا خمس دے۔

۲۸۸

٣۔ دفينہ

مسئلہ ١٨٢ ۴ وہ مال جو زمين، درخت، پهاڑ یا دیوار ميں چھپا ہوا ہو اور کوئی اسے وہاں سے نکالے اور اس کی صورت یہ ہو کہ لوگ اسے دفينہ کہيں ۔ تو وہ اگر نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢ ۵ اگر انسان کو کسی ایسی زمين سے دفينہ ملے جو کسی کی ملکيت نہ ہو تو وہ اس کا اپنا مال ہے اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢ ۶ دفينے کا نصاب، اگر چاندی ہو تو ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی اور اگر سونا ہو تو ١ ۵

مثقال سکہ دار سونا ہے ۔ یعنی ان دو ميں سے جو چيز ملے اگر اس کی قيمت حدنصاب کے مطابق ہو تو ضروری ہے کہ اس پر جو اخراجات آئے ہوں انہيں نکالنے کے بعد ان کا خمس دے اور اگر سونے اور چاندی کے علاوہ کوئی دوسری چيز ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اگرچہ ان دو کی حد تک نہ پهنچے ضروری ہے کہ اخراجات نکالنے کے بعد اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٧ اگر کسی شخص کو ایسی زمين سے دفينہ ملے جو اس نے کسی اور سے خریدی ہو اور اسے معلوم ہو کہ یہ ان لوگوں کا مال نہيں ہے جو اس سے پهلے اس زمين کے مالک تهے تو وہ خود اس کا ہو جائے گا اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔ ليکن اگر احتمال دے کہ سابقہ مالکوں ميں سے کسی ایک کا مال ہے تو احتياط کی بنا پر اسے اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ اس کا مال نہيں ہے تو جو اس سے پهلے زمين کا مالک تھا اسے اطلاع دے اور اسی ترتيب سے ان سب کو اطلاع دے جو اس سے پهلے زمين کے مالک تهے اور اگر معلوم ہو جائے کہ ان ميں سے کسی کا مال نہيں ہے تو وہ مال خود اس کا ہو جائے گا اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٨ اگر کسی شخص کو ایسے کئی برتنوں سے مال ملے جو ایک جگہ دفن ہوں اور اس مال کی مجموعی قيمت چاندی ميں ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی یا سونے ميں ١ ۵ مثقال سکہ دار سونا ہو تو ضروری ہے کہ اس مال کا خمس دے، ليکن اگر مختلف مقامات سے دفينے مليں تو ان ميں سے جس دفينے کی قيمت مذکورہ مقدار تک پهنچ جائے ضروری ہے کہ اس مال کا خمس دے اور جس دفينے کی قيمت مذکورہ مقدار تک نہ پهنچے اس پر خمس نہيں ہے ۔ ہاں، اگر دفينہ سونے چاندی کے علاوہ کوئی دوسری چيز ہو تو دونوں صورتوں ميں احتياط واجب کی بنا پر نصاب کو ملاحظہ کئے بغير اس مال کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٩ جب کسی دو افراد کو ایسا دفينہ ملے جو سونا یا چاندی ہو، اگر اس کی قيمت چاندی ميں ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی یا سونے ميں ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے خواہ ان ميں سے ہر ایک کا حصّہ اس مقدار جتنا نہ ہو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا خمس دیں۔ اسی طرح جب وہ دفينہ سونے چاندی کے علاوہ کوئی اور چيز ہو تو اگرچہ نصاب تک نہ پهنچے اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

۲۸۹

مسئلہ ١٨٣٠ اگر کوئی شخص جانور خریدے اور اس کے پيٹ سے اسے کوئی مال ملے تو اگر وہ جانور، بيچنے والے کا پالتوهو مثلاً مچهلياں جنہيں پالا جاتا ہے یا جانور جنہيں گھر یا باغ ميں چارہ دیا جاتا ہے تو واجب ہے کہ بيچنے والے کو اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ وہ مال اس کا نہيں ہے تو یہ مال خریدار کا ہوگا اور اگر اس کے سال کے مخارج ميں خرچ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اس صورت کے علاوہ مثلاً مچھلی جسے شکاری نے سمندرسے شکار کيا ہو یا جانور جسے صحرا سے شکار کيا گيا ہو اگر احتمالِ عقلائی ہو کہ بيچنے والے کا مال ہے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اسے اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ اس کا مال نہيں ہے تو یہ مال خریدار کا ہو گا اور اگر اس کے سال کے مخارج ميں خرچ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

۴ ۔حلال مال جو حرام مال ميں مخلوط ہو جائے

مسئلہ ١٨٣١ اگر حلال مال، حرام مال کے ساته اس طرح مل جائے کہ انسان انہيں ایک دوسرے سے الگ نہ کرسکے اور حرام مال کے مالک اور اس مال کی مقدار کا بھی علم نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ حرام مال کی مقدار خمس سے کم ہے یا زیادہ تو تمام مال کا خمس دینا ضروری ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اس خمس کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی نيت سے، خمس اور صدقہ کی نيت کے بغير، ایسی جگہ استعمال کرے جهاں خمس اور صدقہ استعمال کيا جاتا ہے اور خمس دینے کے بعد باقی مال حلال ہے ۔

مسئلہ ١٨٣٢ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور انسان حرام کی مقدار جانتا ہو ليکن اس کے مالک کو جستجو کے بعد بھی نہ پہچانے تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار اس مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے بھی اجازت لے۔

مسئلہ ١٨٣٣ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور انسان حرام کی مقدار نہ جانتا ہو ليکن اس کے مالک کو پہچانتا ہو، تو اس صورت ميں کہ ان دو مالوں کا ملناآپس ميں شراکت کا باعث بن جائے، مثلاً حلال گهی حرام گهی کے ساته مل جائے، تو ایک دوسرے کو راضی کرلينے کی صورت ميں جس بات پر راضی ہوجائيں، وهی معّين ہو جائے گی، ليکن اگر ایک دوسرے کو راضی نہ کر سکيں تو جس مقدار کا یقين ہے کہ وہ دوسرے کی ہے ضروری ہے کہ وہ مقدار اسے دے دے ۔

اور جب دو مالوں کا ملنا شراکت کا باعث نہ ہو مثلاً وہ کوئی ایسا مال ہو جس کے اجزاء ایک دوسرے سے جدا ہوں تو ضروری ہے مقدار کے اعتبار سے جس مقدار کا یقين ہے اتنی مقدار اسے دے اور خصوصيت کے اعتبار سے قرعہ اندازی کے ذریعے طے کریں۔ ہاں، دونوں صورتوں ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ جس مقدار کا احتمال دے کہ اس کی ہے ، اس سے زیادہ مقدار ميں دے۔

۲۹۰

مسئلہ ١٨٣ ۴ اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے دے اور بعد ميں اسے پتہ چلے کہ حرام کی مقدار خمس سے زیادہ تھی اور معلوم ہو جائے کہ کتنا زیادہ تھی تو ضروری ہے اسے اس کے مالک کی طرف سے اور احتياطِ واجب کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے صدقہ دے اور اگر مقدار معلوم نہ ہو تو پهلا خمس دینے کے بعد باقی بچنے والے مال ميں مسئلہ ” ١٨٣١ “ کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ١٨٣ ۵ اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے دے یا ایسا مال جس کے مالک کو نہ پہچانتا ہو، مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے اور بعد ميں اس کا مالک مل جائے تو اسے کوئی چيز دینا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٨٣ ۶ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور حرام کی مقدار معلوم ہو اور انسان جانتا ہو کہ اس کا مالک چند معلوم لوگوں ميں سے ہی کوئی ایک ہے ليکن یہ نہ جان سکے کہ کون ہے تو امکان کی صورت ميں احتياطِ واجب کی بنا پر سب کو راضی کرے اور اگر ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ مالک کا تعين قرعہ اندازی کے ذریعہ ہو۔

۵ ۔غوطہ خوری کے ذريعے حاصل ہونے والے موتی

مسئلہ ١٨٣٧ اگرغوطہ خوری کے ذریعے یعنی سمندر ميں غوطہ لگاکرموتی اور مرجان یا دوسرے جواہرات نکالے جائيں، خواہ وہ اگنے والی چيزوں سے ہوں یا معدنيات ميں سے، اگر ان کی قيمت ١٨ سکہ دار سونے کے چنوں کے برابر ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دیا جائے، اگرچہ اس پر خرچ ہونے والے اخراجات کو نکالنے کے بعد خمس دینا ہوگا۔ خواہ انہيں ایک دفعہ ميں سمندر سے نکالا گيا ہو یاایک سے زیادہ دفعہ ميں اس طرح سے کہ عرف عام ميں اسے ایک غوطہ کها جاتا ہو اور خواہ باہر نکالی جانے والی چيز ایک جنس ہو یا چند اجناس ہوں، ایک غوطہ خور باہر لایا ہو یا احتياطِ واجب کی بنا پر چند غوطہ خور باہر لائے ہوں۔

مسئلہ ١٨٣٨ اگر سمندر ميں غوطہ لگائے بغير دوسرے ذرائع سے جواہر و موتی نکالے جائيں تو احتياط کی بنا پر سابقہ مسئلے ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق اس پر خمس واجب ہے ، ليکن اگر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے موتی حاصل کرے تو ان کا خمس اس صورت ميں دینا ضروری ہے کہ جب حاصل شدہ موتی تنها یا اس کے کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوں۔

مسئلہ ١٨٣٩ مچهليوں اور ان جيسے دوسرے جانوروں کا خمس جنہيں انسان سمندر سے حاصل کرتا ہے اس صورت ميں واجب ہوتا ہے جب ان چيزوں سے حاصل کردہ منافع تنها یا کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوجائيں۔

۲۹۱

مسئلہ ١٨ ۴ ٠ اگر انسان کسی چيز کے نکالنے کا ارادہ کئے بغير سمندر ميں غوطہ لگائے اور اتفاق سے کوئی موتی اس کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے اپنی ملکيت ميں لينے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے بلکہ احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہر حال ميں اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ١ اگر انسان سمندر ميں غوطہ لگائے اور کوئی جانور نکال لائے اور اس کے پيٹ ميں سے اسے کوئی موتی ملے جس کی قيمت ١٨ مسکوک سونے کے چنوں کی قيمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، اگر وہ جانور سيپی کی مانند ہو جس کے پيٹ ميں عموماً موتی ہوتے ہيں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر کوئی ایسا جانور ہو جس نے اتفاقاً موتی نگل ليا ہو تو اس کا خمس اسی صورت ميں واجب ہوتا ہے جب اس سے حاصل کردہ فائدہ تنها یا کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٢ اگر کوئی شخص بڑے دریاؤں ميں غوطہ لگائے اور موتی نکال لائے تو اگر اس دریا ميں موتی پيدا ہوتے ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٣ اگر کوئی شخص پانی ميں غوطہ لگائے اور کچھ عنبر نکال لائے جس کی قيمت ١٨

سکہ دار سونے کے چنوں کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے ملے ہوں، تو اگرچہ ان کی قيمت ١٨ سونے کے چنوں سے کم ہو احتياط کی بنا پر اس کا خمس دینا واجب ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴۴ جس شخص کا پيشہ غوطہ خوری، دفينہ نکالنا یا کان کنی ہو، اگر وہ ان کا خمس ادا کر دے اور پھر اس کے سال بھر کے اخراجات سے کچھ بچ جائے تو دوبارہ خمس دینا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴۵ اگر بچہ کوئی معدنی چيز نکالے یا اس کے پاس حلال مال ميں حرام مال ملا ہو یا اسے کوئی دفينہ مل جائے یا سمندر ميں غوطہ لگاکر موتی نکال لائے تو ضروری ہے کہ بچے کا ولی اس کا خمس دے اور اگر ولی خمس ادا نہ کرے تو ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد خود خمس ادا کرے۔

۶ ۔مال غنيمت

مسئلہ ١٨ ۴۶ اگر مسلمان امام عليہ السلام کے حکم سے کفار سے جنگ کریں اور کچھ چيزیں جنگ ميں ان کے ہاتھ لگيں تو انہيں غنيمت کها جاتا ہے ۔ ان ميں منتقل ہونے والی چيزوں ميں سے اس مال کی حفاظت یا حمل و نقل وغيرہ کے مصارف، جو کچھ امام عليہ السلام اپنی مصلحت کے مطابق خرچ کریں اور جو مال، خاص امام عليہ السلام کا حق ہے ، ضروری ہے کہ ان (تين چيزوں) کو عليحدہ کرنے کے بعد باقی ماندہ کا خمس ادا کيا جائے اور اگر امام عليہ السلام کی اجازت کے بغير جنگ کریں اور غنيمت ان کے ہاتھ

۲۹۲

لگے، تو اگر امام عليہ السلام کے ہوتے ہوئے ہو تو سارا مال امام عليہ السلام کا ہے اور اگر زمانہ غيبت ميں ہو تو اخراجات نکالنے کے بعداحتياط کی بنا پر اس کا خمس ادا کریں۔

٧۔ وہ زمين جو کافر ذمی کسی مسلمان سے خريدے

مسئلہ ١٨ ۴ ٧ اگر کافر ذمی مسلمان سے زمين خریدے تو ضروری ہے کہ وہ کافر اس کا خمس اسی زمين سے یا اپنے دوسرے مال سے مسئلہ ” ١٨٠ ۶ “ ميں ذکر شدہ بيان کے مطابق دے، اگرچہ اس زمين پر عمارت وغيرہ تعمير ہو مثلاً گھر اور دکان کی زمين۔ اسی طرح اگر سودا گھر ، دکان یا ان جيسی کسی چيز کا ہو تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ یہ خمس ادا کرنے کے لئے قصد قربت ضروری نہيں ہے بلکہ حاکم شرع کے لئے بهی، جو اس سے خمس ليتا ہے ، قصد قربت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٨ اگر کافر ذمی مسلمان سے خریدی ہوئی زمين کسی دوسرے مسلمان کے ہاتھوں فروخت کر دے توکافر کی گردن سے خمس ساقط نہيں ہوتا۔یهی حکم اس وقت ہے جب کافر مرجائے اور وہ زمين کسی مسلمان کو بطورِ ميراث ملے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٩ اگر کافر ذمی زمين خریدتے وقت شرط کرے کہ خمس نہ دے یا شرط کرے کہ بيچنے والا خمس دے تو اس کی یہ شرط فاسد ہے اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔هاں، اگر شرط کرے کہ بيچنے والا، اس کی طرف سے خمس کی مقدار، خمس کے مالکوں تک پهنچائے توبيچنے والے پر واجب ہے کہ شرط پر عمل کرے ليکن جب تک بيچنے والا خمس ادا نہ کردے،ذمی خریدار سے ساقط نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٠ اگر مسلمان زمين کوخرید و فروخت کے بغير کافر ذمی کی ملکيت بنائے اور اس کا عوض لے مثلاً اس کے ساته مصالحت کرے، تب بھی ضروری ہے کہ کافر ذمی اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨ ۵ ١ اگر کافر ذمی نابالغ ہو اور اس کا ولی اس کے لئے زمين خریدے، اس پر بھی خمس واجب ہے ۔

خمس کا استعمال

مسئلہ ١٨ ۵ ٢ ضروری ہے کہ خمس دو حصّوں ميں تقسيم کيا جائے۔ اس کا ایک حصّہ سادات کا حق ہے جو ضروری ہے کہ یاکسی یتيم و فقير سيد کے ولی کو دیا جائے تاکہ اس کے اخراجات ميں صرف کرے یا کسی فقير سيد کو یا کسی ایسے سيد کوجو سفر ميں ناچار ہوگيا ہو، دیا جائے اور احتياط واجب یہ ہے کہ سهم سادات، عادل فقيہ کی اجازت سے دیا جائے۔ جبکہ خمس کا دوسرا حصّہ امام عليہ السلام کا ہے جو موجودہ زمانے ميں ضروری ہے کہ اس کے مصارف کی معرفت رکھنے والے عادل فقيہ کو دیا جائے یا کسی ایسی جگہ استعمال کيا جائے جهاں خرچ کرنے کی وہ اجازت دے اور احتياط کی بنا پر اس فقيہ عادل کا اعلم ہونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٣ جس یتيم سيد کو خمس دیا جائے ضروری ہے کہ وہ فقير ہو، ليکن جو سيد سفر ميں ناچار ہو جائے خواہ وہ اپنے وطن ميں فقير نہ بھی ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ۔

۲۹۳

مسئلہ ١٨ ۵۴ جو سيد سفر ميں ناچار ہوگيا ہو اگر اس کا سفر گناہ کا سفر ہو تو اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵۵ جو سيد عادل نہ ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ليکن جو سيد اثناعشری نہ ہو اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵۶ جو سيد گناہکار ہو اگر اسے خمس دینے سے گناہ کرنے ميں اس کی مدد ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ اسے خمس نہ دیا جائے اور جو سيد اعلانيہ گناہ کرتا ہو اگرچہ اسے خمس دینے سے گناہ کرنے ميں اس کی مدد نہ ہوتی ہو احتياطِ واجب کی بنا پر اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٧ جو شخص کهے کہ ميں سيد ہوں اسے خمس نہيں دیا جا سکتا، مگر یہ کہ دو عادل اس کے سيد ہونے کی تصدیق کردیں یا لوگوں کے درميان اس طرح مشهور ہو کہ انسان کو اس کے سيد ہونے کا یقين یا اطمينان ہو جائے اور بعيد نہيں ہے کہ کسی کا سيد ہونا ایک قابل اعتماد شخص کی بات سے بھی ثابت ہو جائے جب کہ اس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٨ جو شخص اپنے شہر ميں سيد مشهور ہو اگرچہ انسان کو اس کے سيد ہونے کا یقين یا اطمينان نہ ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ، بشرطيکہ اس کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٩ اگر کسی شخص کی بيوی سيدانی ہو تو وہ اسے اپنے اخراجات پر صرف کرنے کے لئے خمس نہيں دے سکتا۔ ہاں، اگر کچھ اور لوگوں کی کفالت اس کی بيوی پر واجب ہو اور وہ ان کے اخراجات نہ دے سکتی ہو تو انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی بيوی کو خمس دے تاکہ وہ زیر کفالت افراد پر خرچ کرے۔ اسی طرح اپنی سيدانی بيوی کو واجب نفقہ کے علاوہ دوسرے اخراجات پر صرف کرنے کے لئے بھی خمس دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٠ اگر انسان پر کسی سيد یا ایسی سيدانی کے اخراجات واجب ہوں جو اس کی بيوی نہ ہو، تو وہ خوراک، پوشاک اور باقی واجب اخراجات اپنے خمس سے نہيں دے سکتا۔ ہاں، اگر خمس کی کچھ رقم اس غرض سے دے کہ وہ غير واجب اخراجات پر خرچ کریں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ١ جس فقير سيد کے اخراجات کسی دوسرے شخص پر واجب ہوں اور وہ اس سيد کے اخراجات نہ دے سکتا ہو یا دینے کی طاقت رکھتا ہو اور نہ دیتا ہو تو اس سيد کو خمس دیا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٢ احتياطِ واجب یہ ہے کہ کسی ایک فقير سيد کو اس کے ایک سال کے اخراجات سے زیادہ خمس نہ دیا جائے۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٣ اگر کسی شخص کے شہر ميں کوئی مستحق سيد نہ ہو اور اسے یقين یا اطمينان ہو کہ بعد ميں بھی نہيں ملے گا یا مستحق سيد کے ملنے تک خمس کی حفاظت کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ خمس دوسرے شہر لے جائے اور مستحق کو پهنچا دے اور خمس دوسرے شہر لے جانے کے اخراجات خمس ميں سے لے سکتا ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ یہ اخراجات حاکم شرع کی اجازت

۲۹۴

سے لے اور خمس تلف ہو جانے کی صورت ميں اگر اس کی نگهداشت ميں کوتاہی برتی ہو تو ضامن ہے اور اگر کوتاہی نہ برتی ہو تو ضامن نہيں ۔

مسئلہ ١٨ ۶۴ اگر کسی شخص کے شہر ميں کوئی مستحق سيد نہ ہو تو اگرچہ اسے یقين یا اطمينان ہو کہ بعد ميں مل جائے گا اور اس مستحق کے ملنے تک خمس کی حفاظت کرنا بھی ممکن ہو تب بھی وہ خمس دوسرے شہر لے جاسکتا ہے اور اگر وہ خمس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ برتے اور وہ تلف ہو جائے تو ضامن نہيں ، ليکن وہ خمس دوسری جگہ لے جانے کے اخراجات خمس ميں سے نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ١٨ ۶۵ اگر کسی شخص کے اپنے شہر ميں خمس کا مستحق مل جائے تو اس صورت ميں اسے بھی دوسرے شہر لے جایا جا سکتا ہے کہ اسے خمس دینے ميں سستی نہ کها جاسکے، اور مستحق کو پهنچائے ليکن ضروری ہے کہ اسے لے جانے کے اخراجات خود ادا کرے اور اس صورت ميں اگر خمس تلف ہو جائے تو اگرچہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ برتی ہو وہ اس کا ضامن ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶۶ اگر کوئی شخص حاکم شرع کی اجازت سے خمس دوسرے شہر لے جائے اور تلف ہو جائے تو وہ ذمہ دار نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر حاکم شرع کے وکيل یا کسی ایسے فرد کو دے دے جسے حاکم شرع نے خمس وصول کرنے کی اجازت دی ہواور وہ خمس کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٧ جيسا کہ مسئلہ ” ١٨٠ ۶ “ ميں بتایا گيا ہے کہ حاکم شرع کی اجازت کے بغير رائج کرنسی کے علاوہ کوئی دوسری جنس خمس کے بدلے دینا احتياطِ واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے اور جائز ہونے کی صورت ميں مثلاً حاکم شرع اجازت دے دے، جائز نہيں ہے کہ کسی چيز کی قيمت اس کی اصل قيمت سے زیادہ لگا کر اسے بطور خمس دیا جائے، اگرچہ مستحق اس قيمت پر راضی ہو۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٨ جس شخص کو خمس کے مستحق سے کچھ لينا ہو احتياط کی بنا پر اپنا قرضہ خمس کی رقم سے حساب نہيں کرسکتا ليکن ایساکرسکتا ہے کہ اس مستحق کو خمس دے دے اور بعد ميں وہ مستحق اپنا قرضہ اسے چکا دے۔ یہ بھی کيا جا سکتا ہے کہ مستحق سے وکالت لے کر خود اس کی طرف سے خمس وصول کرے اور پھر اپنا قرض اس سے حساب کر لے۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٩ مستحق خمس لے کر واپس مالک کو نہيں بخش سکتا جب کہ واپس بخشنے سے حق امام عليہ السلام اور حق سادات ضائع ہو رہا ہو۔هاں، اس صورت کے علاوہ واپس بخش دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، مثلاً جس شخص کے ذمے خمس کی زیادہ رقم واجب ہو اور وہ فقير ہوگيا ہو اور چاہتا ہو کہ خمس کے مستحق لوگوں کا مقروض نہ رہے تو اگر خمس کا مستحق راضی ہو جائے کہ اس سے خمس لے کر اسی کو بخش دے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

۲۹۵

زکات کے احکام

مسئلہ ١٨٧٠ زکات نو چيزو ں پر واجب ہے :

(١) گيہوں

(٢) جو

(٣) کھجور

( ۴) کشمش

( ۵) سونا

( ۶) چاندی

(٧) اونٹ

(٨) گائے

(٩) بھيڑ اور جو شخص ان نو چيزوںميں سے کسی ایک کا مالک ہو تو ضروری ہے کہ بعد ميں بيان کی جانے والی شرائط کے مطابق مقررہ مقدار کو کسی ایسے مقام پر خرچ کرے کہ جن کا حکم دیا گيا ہے ۔

مسئلہ ١٨٧١ ”سلت-“جو ایک ایسا دانہ ہے کہ نرمی ميں گيہوںکی طرح ہوتا ہے اور جوَکی خاصيت رکھتا ہے اور ”علس“ جو گيہوں کی طرح ہوتا ہے ،احتياط مستحب ہے کہ ان کی زکات دی جائے۔

زکات واجب ہونے کے شرائط

مسئلہ ١٨٧٢ زکات اس صورت ميں واجب ہوتی ہے کہ جب مال مقررہ نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے،جس کا تذکرہ بعد ميں آئے گا اور اس کا مالک بالغ،عاقل اور آزاد ہو اور اپنے مال ميں تصرف کر سکتا ہو۔

مسئلہ ١٨٧٣ اگر انسان گيارہ مهينے گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک ہو تو ضروری ہے کہ بارہویں مهينے کی پهلی تاریخ کو اس کی زکات ادا کرے ليکن اگلے سال کی ابتدا کا حساب بارہواں مهينہ ختم ہونے کے بعد کرے۔

مسئلہ ١٨٧ ۴ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک سال کے دوران بالغ ہو جائے مثلاًکوئی بچہ محرم کی پهلی کو چاليس بھيڑوں کا مالک بنے اور دو مهينے گزرنے کے بعد بالغ ہو جائے تو محرم کی پهلی سے گيارہ مهينے گزرنے کے بعداس پرکوئی زکات واجب نہيں بلکہ بالغ ہونے کے گيارہ ماہ گزرنے کے بعد اس پر زکات واجب ہو گی،ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ محرم کی پهلی سے گيارہ مهينے گزرنے کے بعد اگر زکات کی باقی شرائط موجود ہوں تو ان کی زکات ادا کرے۔

۲۹۶

مسئلہ ١٨٧ ۵ گندم اور جوَ کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب انہيں گندم اور جوَ کها جا سکے اور کشمش کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب انہيں انگور کها جاسکے اور کھجور کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب عرب انہيں ”تمر“ (کھجور) کہيں ۔ گندم اور جوَ ميں زکات دینے کا وقت وہ ہے جب دانے کو بهوسے سے الگ کيا جائے اور کھجور اور کشمش ميں اس وقت ہے کہ جب وہ خشک ہو گئے ہوں اور اگر زکات ادا کرنے ميں اس وقت سے، بغير کسی سبب کے، تاخير کرے جب کہ مستحق بھی موجودهو تو وہ ضامن ہو گا۔

مسئلہ ١٨٧ ۶ گندم،جوَ،کشمش اور کھجور کی زکات واجب ہونے کے وقت،کہ جس کا تذکرہ پچهلے مسئلے ميں کيا گيا،اگر ان کا مالک بالغ،عاقل،آزاد اور اپنے مال ميں تصرف کرنے ميں صا حب اختيار ہو تو ضروری ہے کہ ان کی زکات دے،اگرچہ اس وقت سے پهلے تمام یا کچھ شرائط نہ رکھتا ہو اور اگر اس وقت کوئی ایک بھی شرط نہ ہو تو زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٧٧ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک پورے سال یا اس کے کچھ حصہ ميں دیوانہ رہا ہو تو اس پر زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٧٨ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک سال کے کچھ حصے ميں نشہ ميں یا بے ہوش رہا ہو تو اس پرسے زکات ساقط نہيں ہو گی۔ یهی حکم اس وقت ہے کہ جب گندم، جو،کھجور اورکشمش کی زکات واجب ہونے کے وقت وہ بے ہوش ہو۔

مسئلہ ١٨٧٩ جس مال کو انسان سے غصب کر ليا گيا ہو اور وہ اس ميں تصرف نہ کر سکتا ہو اس ميں زکات نہيں ، ليکن اگر غصب شدہ مال گندم یا جوَ کی زراعت،کھجور کا درخت یا انگور کی بيل ہو اور زکات واجب ہونے کے وقت غاصب کے ہاتھ ميں ہو تو جس وقت بھی مالک کو یہ مال مل جائے احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ زکات دے۔

مسئلہ ١٨٨٠ اگر سونا،چاندی یا کوئی دوسری چيز جس پر زکات واجب ہے ، قرض کے طور پر لے اور وہ ایک سال اس کے پاس رہے تو ضروری ہے کہ قرض لينے والا اس کی زکات دے،جب کہ قرض دینے والے پر زکات واجب نہيں ۔

گندم،جو،کھجور اورکشمش کی زکات

مسئلہ ١٨٨١ گندم،جو،کھجور اور کشمش کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب وہ نصاب کی مقدار تک پهنچ جائيں اور ان کا نصاب ٣٠٠ صاع ہے اور ہر صاع ٢ ۵ ء ۶ ١ ۴ مثقال صيرفی ہے کہ جو تقریباً ٨ ۴ ٧ کلو گرام ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٨٢ جس انگور،کھجور،جو اور گندم پر زکات واجب ہو گئی ہو، اگر ان ميں سے زکات دینے سے پهلے خود مالک یا اس کے اہل و عيال کهائيں یا فقير کو زکات کے علاوہ کسی اور نيت سے دے تو استعمال شدہ مقدار کی زکات دینا ضروری ہے ۔

۲۹۷

مسئلہ ١٨٨٣ اگر گندم،جو، کھجور اور انگور کی زکات واجب ہونے کے بعد اس کا مالک مرجائے تو ضروری ہے کہ زکات کی مقدار کو اس کے مال سے دیاجائے،ليکن اگر زکات کے واجب ہونے سے پهلے مر جائے تو ورثاء ميں سے جس وارث کاحصہ نصاب تک پهنچ جائے اس کے لئے اپنے حصے کی زکات دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٨ ۴ جو شخص حاکم شرع کی جانب سے زکات کی جمع آوری پر مامور ہو وہ خرمن بنانے کے موقع پر، جب گندم اور جو کو بهوسے سے الگ کيا جاتاہے ، ا سی طرح تازہ کھجور کے خشک ہونے کے بعد اور انگور کے کشمش ہونے کے بعد زکات کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر مالک نہ دے اور جس چيز پر زکات واجب ہو گئی ہو وہ تلف ہو جائے تو اس کا عوض دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٨ ۵ اگر کھجور کے درخت،انگور کی بيل یا گندم اور جو کی زراعت پر ان کا مالک بننے کے بعد زکات واجب ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان کی زکات دے۔

مسئلہ ١٨٨ ۶ اگر گندم،جو،کھجور یا انگور کی زکات کے واجب ہونے کے بعد زراعت وغيرہ کو فروخت کر دے تو فروخت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی زکات ادا کرے۔

مسئلہ ١٨٨٧ اگر انسا ن سارا گندم،جو، کھجور یا انگور خریدے اور جانتا ہو کہ فروخت کرنے والے نے اس کی زکات دے دی ہے تو اس پر زکات واجب نہيں ہے اور اگر جانتا ہے کہ اس کی زکات نہيں دی،تو اس صورت ميں کہ فروخت کرنے والا اس کی زکات ادا کر دے سودا صحيح ہے ،اسی طرح اگر خریدار زکات ادا کر دے، جسے وہ فروخت کرنے والے سے لے سکتا ہے ۔

ان دو صورتوں کے علاوہ اگر حاکم شرع واجب زکات والی مقدار کے سودے کی اجازت نہ دے تو اس مقدار کا سودا باطل ہو گا اور حا کم شرع زکات کی مقدار کو خریدار سے لے سکتا ہے اور اگر واجب زکات والی مقدار کے سودے کی اجازت دے دے تو سودا صحيح ہو گا اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار کی قيمت حاکم شرع کو دے اور جبکہ اس مقدار کی قيمت فروخت کرنے والے کو بھی دی ہو تو اس سے واپس لے سکتا ہے ۔

اور اگرخریدار شک کرے کہ بيچنے والے نے اس کی زکات ادا کی ہے یا نہيں تو فی الحا ل اس مال پر زکات واجب نہ ہونے کا حکم لگانا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٨٨٨ اگر گندم،جو،کھجور اور کشمش کا وزن تازہ ہونے کے وقت نصاب تک پهنچ جائے اور خشک ہو جانے کے بعد اس مقدار سے کم ہو جائے تو ان کی زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٨٩ اگر گندم،جو، کھجور اور انگور کو خشک ہونے سے پهلے استعمال ميں لائے، چنانچہ یہ مقدار خشک ہونے کی صورت ميں نصاب تک پهنچ رہی ہو تو ان کی زکات دینا ضروری ہے ۔

۲۹۸

مسئلہ ١٨٩٠ کھجور تين قسموں پر مشتمل ہے :

١) وہ کھجور کہ جسے خشک کيا جاتا ہے اور اس کی زکات کا حکم بيان ہو چکا ہے ۔

٢) وہ کھجور کہ جسے اس کے ”رطب“(تازہ) ہو نے کی حالت ميں کهایا جاتا ہے ۔

٣) وہ کھجور کہ جسے اس کی کچی حالت ميں کهایا جاتا ہے ۔

دوسری قسم کی مقدار اگر اتنی ہو کہ خشک ہونے کی حالت ميں نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو بنا بر احتياطِ واجب اس کی زکات واجب ہو گی،البتہ تيسری قسم کی کھجور ميں زکات واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٨٩١ جس گندم، جو، کھجور اور کشمش کی زکات دے دی گئی ہو اگر وہ کئی سالبهی اس کے پاس رہيں تو اس پر دوبارہ زکات واجب نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٨٩٢ اگر گندم،جو ،کھجور اور انگور بارش یا نہر کے پانی سے پهلے پھوليںيا زمين کی ١٠ ) ہو گی اور اگر ڈول یا اس جيسی چيز سے / نمی سے استفادہ کریں تو ان کی زکا ت دسواں حصہ( ١

٢٠ ) ہو گی۔ / آبياری ہو تو ان کی زکات بيسواں حصہ( ١

مسئلہ ١٨٩٣ اگر گندم،جو،کھجور اور انگور کو بارش وغيرہ کا پانی بھی دیا جائے اور وہ ڈول اور اس جيسی چيز کے پانی سے بھی استفادہ کریں تو اگر اس طرح ہو کہ عرف ميں کها جائے کہ ان کی ٢٠ ) ہو گی اور اگر کها / آبياری ڈول اور اس جيسی چيز سے ہوئی ہے تو ان کی زکات بيسواں حصہ( ١

(١٠/ جائے کہ ان کی آبياری بارش اور ان جيسی چيزوں سے ہوئی ہے تو ان کی زکات دسواں حصہ( ١

۴ ٠ )واں حصہ ہو گی۔ / ہو گی اور اگر کها جائے کہ دونوں سے آبياری ہوئی ہے تو ان کی زکات ( ٣

مسئلہ ١٨٩ ۴ چنانچہ شک کرے اور نہ جانتا ہو کہ عرف کی نگاہوں ميں دونوں سے آبياری ہوئی ۴) واں حصہ دینا کافی ہے ۔ /٣ ہے یا یہ کہ مثلاً بارش سے ہوئی ہے تو اس صورت ميں ( ٠

مسئلہ ١٨٩ ۵ اگر شک کرے اور نہ جانتا ہو کہ عرف کہ نگاہوں ميں دونوں سے آبياری ہوئی ہو ٢٠ ) دینا کافی / یا یہ کہ ڈول اور اس جيسی چيز سے آبياری ہوئی ہے تو اس صورت ميں بيسواں حصہ( ١هو گا۔ اسی طرح اگر ساته ميں کوئی تيسرا احتمال بھی آجائے کہ عرف کهے کہ بارش کے پانی سے آبياری ہوئی ہے تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨٩ ۶ اگر گندم،جو،کھجور اور انگور کی آبياری بارش اور اس جيسی چيزوں سے ہوئی ہواور ڈول یا اس جيسی چيز سے آبياری کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو اس کے باوجود ڈول کا پانی بھی دیا جائے جب کہ ڈول کا پانی فصل کے زیادہ ہونے ميں مددگار ثابت نہ ہو تو ان کی زکات دسواں حصہ ١٠ ) ہو گی،اور اگر ڈول اور اس کی مانند چيز سے آبياری ہو اور بارش یااس جيسے پانی کی /١)

۲۹۹

ضرورت نہ ہو ليکن بارش یا اس کی مانند پانی سے بھی آبياری ہو اور وہ فصل کے زیادہ ہونے ميں مدد ٢٠ ) ہو گی۔ / نہ کرے تو ان کی زکات بيسواںحصہ ( ١

مسئلہ ١٨٩٧ اگر کسی زراعت کی آبياری ڈول اور اس جيسی چيزوں سے کی جائے اور اس کے برابر والی زمين ميں دوسری زراعت ہو جو پهلی زمين کی نمی سے استفادہ کر لے اور اسے آبياری کی ضرورت ہی پيش نہ آئے تو جس زراعت کی آبياری ڈول وغيرہ کے پانی سے ہوئی ہو اس کی زکات ٢٠ ) اور اس کے برابر والی زراعت اگر کسی اور مالک کی ہو تو اس کی زکات دسواں / بيسواں حصہ( ١

١٠ ) ہے اور اگر دوسری زراعت بھی پهلے مالک ہی کی ہو تو بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی / حصہ( ١حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨٩٨ نصاب کو دیکھتے وقت گندم،جو ،کھجور اور انگور پر کئے گئے اخراجات کوفصل سے نکالا نہيں جا سکتا، لہٰذا اگر ان ميں سے ایک بھی اخراجا ت کے حساب سے پهلے حدِنصاب تک پهنچ جائے تو اس کی زکات دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٩٩ جس بيج کو زراعت کے لئے استعمال کيا گيا ہو خواہ اس کا اپنا ہو یا خریداہوا،نصاب کو دیکھتے وقت اسے فصل سے نکالا نہيں جا سکتا بلکہ جتنی فصل حاصل ہوئی ہو اسے مکمل طور پرشامل کرتے ہوئے نصاب کو دیکھا جائے گا۔

مسئلہ ١٩٠٠ جو چيز حکومت اصل مال سے ليتی ہے اس پر زکات واجب نہيں ، مثال کے طور پر اگر زراعت کا حاصل ٨ ۵ ٠ کلوگرام ہو اور حکومت ۵ ٠ کلوگرام بطور ٹيکس لے تو زکات صرف ٨٠٠کلو گرام پر واجب ہو گی۔

مسئلہ ١٩٠١ وہ اخراجات جو انسان نے زکات واجب ہونے سے پهلے کئے ہوںاحتياطِ واجب کی بنا پر زکات دیتے وقت اس بات کی اجازت نہيں ہے کہ اتنی مقدار الگ کر لے اور باقی کی زکات دے دے۔

مسئلہ ١٩٠٢ زکات واجب ہونے کے بعد جواخراجات کئے جائيں اور جو کچھ زکات کی مقدار کی نسبت خرچ کرے، حاکم شرع سے اجازت لے کر اسے زکات سے جدا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٠٣ زکات واجب ہونے سے پهلے زکات دینا جائز نہيں ہے اور زکات واجب ہونے کے بعد ضروری نہيں ہے کہ گندم اور جوکی فصل کاٹے جانے اور دانے وبهوسے کے جدا ہونے یا کھجور اور انگور کے خشک ہونے تک صبر کرے، بلکہ زکات واجب ہوتے ہی زکات کی مقدار کی قيمت معلوم کر کے اسے زکات کی نيت سے دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٠ ۴ زکات واجب ہو جانے کے بعد اصل زراعت یا کھجور اور انگور کو فصل کی کٹائی یا چننے سے پهلے ہی مستحق،حاکم شرع یا ان کے وکيل کو بطور مشاع دے سکتا ہے اور اس کے بعد کے اخراجات ميں وہ بھی شریک ہونگے۔

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511