توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207709 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

٨۔ کافر

مسئلہ ١٠٧ کافر یعنی وہ شخص جو خدا یا حضرت خاتم الانبياء(ص) کی رسالت یا قيامت کا منکر ہو یا خدا اور رسول(ص) ميں شک رکھتا ہو، یا کسی کو خدا کا شریک گردانتا ہو یا خدا کے ایک ہونے کے بارے ميں مشکوک ہو، نجس ہے ۔

اسی طرح خوارج یعنی وہ افراد جو امام معصوم عليہ السلام کے خلاف خروج کریں، غلات یعنی وہ افراد جو کسی بھی امام عليہ السلام کی خدائی کے قائل ہوں یا یہ کہتے ہوں کہ خدا ان ميں حلول کر گيا ہے اور نواصب یعنی ہر وہ فرد جو کسی بھی امام عليہ السلام یا جناب سيدہ حضرت فاطمہ زهرا عليهاالسلام کا دشمن ہو(نجس ہيں ) اور (اسی طرح) ہر وہ فرد جو ضروریات دین مثلاً نماز اور روزے ميں سے کسی کا یہ جاننے کے باوجود کہ ضروریاتِ دین ميں سے ہے ، منکر ہوجائے نجس ہے ۔

اور اہل کتاب یعنی یهودی اور عيسائی اقویٰ یہ ہے کہ پاک ہيں ، اگر چہ احوط یہ کہ ان سے پرہيز کيا جائے۔

مسئلہ ١٠٨ کافر کا تمام بدن حتیٰ اس کے بال، ناخن اور رطوبتيں بھی نجس ہيں ۔

مسئلہ ١٠٩ اگر نابالغ بچے کے باپ، ماں، دا دا اور دادی کافر ہوں تو وہ بچہ بھی نجس ہے سوائے اس کے کہ مميز ہو اور اسلام کا اظهار کرتا ہواور اگر ان ميں سے ایک بھی مسلمان ہو تو بچہ پاک ہے مگر یہ کہ مميز ہو اور کفر کا اظهار کرتا ہو۔

مسئلہ ١١٠ جس شخص کے متعلق يہ علم نہ ہو کہ مسلمان ہے یا نہيں تو وہ پاک مانا جائے گا ليکن اس پر اسلام کے دوسرے احکام کا اطلاق نہيں ہوگا، مثلاًنہ ہی وہ مسلمان عورت سے شادی کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان ميں دفن کيا جا سکتا ہے ۔

مسئلہ ١١١ جو شخص چودہ معصومين عليهم السلام ميں سے کسی ایک کو بھی دشمنی کی بناپر گالی دے، نجس ہے ۔

٩۔ شراب

مسئلہ ١١٢ شراب اور نشہ آور نبےذ نجس ہے ۔ اس کے علاوہ بهنے والی نشہ آور چيزوں ميں سوائے فقاّع کے کہ جس کا حکم بعد ميں آئے گا، احتياط مستحب اجتناب ہے ا ور اگر بهنگ و چرس کی طرح بهنے والی نہ ہوں تو پاک ہيں چاہے ان ميں کوئی چيز ڈال کر انہيں رواں بنا دیا جائے۔

مسئلہ ١١٣ صنعتی الکحل جو دروازے، کهڑکياں، ميزیں اورکرسياں وغيرہ رنگنے کے لئے استعمال ہوتی ہيں ان کی تمام قسميں پاک ہيں ۔

مسئلہ ١١ ۴ اگر انگور یا انگور کے رس ميں پکانے پر ابال آجائے تو پاک ہيں ليکن ان کا کھانا پينا حرام ہے اور اگر آگ کے علاوہ کسی اور چيز سے ابال آجائے تو ان کا کھانا پينا حرام ہے اور احتياط کی بنا پر نجس ہيں ۔

۲۱

مسئلہ ١١ ۵ کھجور، منقیٰ، کشمش اور ان کے رس ميں اگرچہ ابال بھی آجائے، پاک ہيں اور ان کا کھانا حلال ہے ۔

١٠ ۔ فقاّع (جوَ کی شراب)

مسئلہ ١١ ۶ فقّاع جو کہ جَوسے تيار ہوتی ہے اور اسے آبِ جوَکہتے ہيں نجس ہے ليکن وہ پانی جو طب کے قاعدے کے مطابق جَو سے حاصل کيا جاتا ہے اور ماء الشعير کهلاتا ہے پاک ہے ۔

مسئلہ ١١٧ جو شخص فعل حرام سے جنب ہوا ہو اس کاپسينہ پاک ہے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ اس کے ساته نماز نہ پڑھی جائے اور حالت حيض ميں بيوی سے صحبت کرنا بھی حرام سے جنب ہونے کا حکم رکھتا ہے ۔

مسئلہ ١١٨ اگر کوئی شخص ان اوقات ميں بيوی سے جماع کرے جن ميں جماع حرام ہوتا ہے ، مثلاً رمضان المبارک ميں دن کے وقت، تو اس کا پسينہ پاک ہے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ اس کے ساته نماز نہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٩ اگر حرام سے جنب ہونے والا غسل کے بجائے تيمم کرے اور تيمم کے بعد اسے پسينہ آجائے تو احتياط واجب کی بنا پراس پسينے کا حکم وهی ہے جو تيمم سے پهلے والے پسينے کا تھا۔

مسئلہ ١٢٠ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہوجائے اور پھر اس عورت سے جماع کرے جو اس کے لئے حلال ہے تو اس کے لئے احتياط واجب یہ ہے کہ اس پسينے کے ساته نماز نہ پڑھے، اور اگر پهلے اس عورت سے جماع کرے جو حلال ہو اور بعد ميں حرام کا مرتکب ہو تو اس کا پسينہ حرام سے جنب ہونے والے کے پسينے کا حکم نہيں رکھتا۔

مسئلہ ١٢١ انسانی نجاست کھانے والے اونٹ کا پسينہ احتياط کی بنا پر نجس ہے ۔ اس کے علاوہ ہر اس حيوان کا پسينہ جسے انسانی نجاست کھانے کی عادت ہو اگر چہ پاک ہے ليکن ان ميں سے کسی کے ساته نماز جائز نہيں ہے ۔

نجاست ثابت ہونے کے طريقے

مسئلہ ١٢٢ کسی بھی چيز کی نجاست تين طریقوں سے ثابت ہوتی ہے :

١)یہ کہ خود انسان کو یقين یا اطمينان ہوجائے کہ فلاں چيز نجس ہے اور اگر کسی چيز کے متعلق گمان ہو کہ نجس ہے تو اس سے پرہيز کرنا ضروری نہيں ہے ، لہذایسے قهوہ خانوں اور ہوٹلوں سے کھانا کھانے ميں ، جهاں لاپروا اور نجاست و طهارت کا لحا ظ نہ رکھنے والے افراد بھی کھانا کھاتےہوں، جب تک انسان کو اطمينان نہ ہو جائے کہ اس کے لئے لایا جانے والا کھانا نجس ہے ، کوئی حرج نہيں ۔

۲۲

٢)جس شخص کے اختيار ميں کوئی چيز ہو وہ اس کے بارے ميں کهے کہ نجس ہے جب کہ وہ جھوٹا نہ سمجھا جاتا ہو مثلاً کسی شخص کی بيوی یا نوکر یاملازمہ جب کہ وہ جھوٹے نہ ہوں کہيں کہ برتن یا کوئی دوسری چيز جو ان کے اختيار ميں ہے نجس ہے ۔

٣)دو عادل مرد کہيں کہ ایک چيز نجس ہے تو وہ نجس ہوگی، بلکہ ایک عادل شخص یا ایک قابل اعتماد شخص جو خواہ عادل نہ بھی ہو کسی چيز کے بارے ميں کهے کہ نجس ہے ا ور اس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو اس چيزسے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٢٣ اگر کوئی شخص مسئلے سے عدم واقفيت کی بنا پر یہ نہ جان پائے کہ ایک چيز نجس ہے یا پاک مثلاً اسے یہ علم نہ ہو کہ خون پاک ہے یا نجس توضروری ہے کہ مسئلہ پوچه لے اور مسئلہ معلوم ہونے تک احتياط کرے، ليکن اگر مسئلہ جانتا ہو اور کسی چيز کے بارے ميں صرف شک ہو کہ پاک ہے یا نہيں مثلاً اسے شک ہو کہ وہ چيز خون ہے یا نہيں یا یہ تو جانتا ہو کہ خون ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ مچہر کا خون ہے یا انسان کا،تو وہ چيز پاک ہوگی اور اس کے بارے ميں چھان بين کرنا یا پوچهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۴ اگر کسی نجس چيز کے بارے ميں شک ہو کہ پاک ہوئی ہے یا نہيں تو وہ نجس ہے اور اگر کسی پاک چيز کے بارے ميں شک ہو کہ نجس ہوگئی ہے یا نہيں تو وہ پاک ہے اور اگر کوئی شخص ان چيزوں کے نجس یا پاک ہونے کے متعلق معلوم بھی کر سکتا ہو تو تحقيق ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۵ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ جو دو برتن یا دو کپڑے وہ استعمال کرتا ہے ان ميں سے ایک نجس ہو گيا ہے ليکن اسے یہ علم نہ ہو کہ ان ميں سے کون سا نجس ہوا ہے تو ضروری ہے کہ دونوں سے اجتناب کرے اور مثال کے طور پر اگر یہ نہ جانتا ہو کہ خود اس کا کپڑا نجس ہوا ہے یا کسی دوسرے کا جو اس کے زیر اختيار نہيں ہے اور کسی دوسرے شخص کی ملکيت ہے تو اپنے کپڑے سے اجتناب کرنا ضروری نہيں ہے ۔

پاک چيز کيسے نجس ہوتیہے

مسئلہ ١٢ ۶ اگر ایک پاک چيز ایک نجس چيز سے متصل ہوجائے اور دونوں یا ان ميں سے ایک اس قدر تر ہو کہ ایک کی رطوبت دوسری تک پهنچ جائے تو پاک چيز بھی نجس ہوجائے گی، ليکن اگر تری اتنی کم ہو کہ رطوبت ایک شے سے دوسری شے تک نہ پهنچے تو پھر پاک چيز نجس نہ ہوگی۔

اور مشهور قول ہے کہ جو چيز نجس ہو گئی ہو وہ خود دوسری چيز کو مطلقاً نجس کر دیتی ہے ، ليکن یہ حکم پهلے واسطے کے علاوہ، جب کہ آب قليل یا دوسرے مایعات کے علاوہ کسی اور چيز سے ملاقات کرے، محل اشکال ہے اوردوسرے اور تيسرے واسطے کے ذریعے نجس ہونے والی چيزسے احتياط کی مراعات ترک نہ کی جائے۔

۲۳

مسئلہ ١٢٧ اگر کوئی پاک چيز کسی نجس چيز کو لگ جائے اورشک ہو کہ آیا یہ دونوں یاان ميں سے کوئی ایک تر تھی یا نہيں ، تو پاک چيز نجس نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٢٨ اگر دو چيزوں کے بارے ميں یہ علم نہ ہو کہ ان ميں سے کون سی پاک ہے اور کون سی نجس، جب کہ علم نہ ہو کہ پهلے یہ دونوں نجس تہيں اور پھر ان ميں سے کسی ایک کے ساته ایک پاک اور تر چيز مس ہو جائے تو وہ نجس نہيں ہوگی۔

مسئلہ ١٢٩ اگر زمين اور کپڑا یا انهی جيسی اور چيزوں ميں منتقل ہونے والی رطوبت ہو تو ان کے جس جس حصے کو نجاست لگے گی وہ نجس ہو جائے گا اور باقی حصہ پاک رہے گا۔ یهی حکم کهيرے، خربوزے اور ان جيسی چيزوں کے بارے ميں ہے ۔

مسئلہ ١٣٠ جب شيرے، تيل، گهی یا ایسی ہی کسی اور چيز کی صورت ایسی ہو کہ اگر اس کی کچھ مقدار نکال لی جائے تو اس کی جگہ خالی نہ رہے تو جوں ہی وہ ذرہ بھر بھی نجس ہوگا سارے کا سارا نجس ہو جائے گا، ليکن اگر اس کی صورت ایسی ہو کہ نکالنے کے مقام پر جگہ خالی رہے اگرچہ بعد ميں پر ہوجائے، تو صرف وهی حصہ نجس ہوگا جسے نجاست لگی ہے ، لہٰذا اگر چوهے کی مينگنی اس ميں گر جائے تو جهاں وہ مينگنی گری ہے وہ جگہ نجس اور باقی پاک ہوگی۔

مسئلہ ١٣١ اگر مکهی یا اس جيسی کوئی اور جاندار چيزایک ایسی تر چيز پر بيٹھے جو نجس ہو اور بعد ازاںایک تراور پاک چيز پر جا بيٹھے اور یہ یقين ہوجائے کہ اس جاندار کے ساته نجاست تھی تو پاک چيز نجس ہو جائے گی اور اگر یقين نہ ہو تو پاک رہے گی۔

مسئلہ ١٣٢ اگر بدن کے کسی حصے پر پسينہ ہو اور وہ حصہ نجس ہوجائے اور پھر پسينہ اس جگہ سے بہہ کر بدن کے دوسرے حصوں تک چلا جائے تو جهاں جهاں پسينہ بهے گا بدن کے وہ حصے نجس ہوجائيں گے، ليکن اگر پسينہ آگے نہ بهے تو باقی بدن پاک رہے گا۔

مسئلہ ١٣٣ جوگاڑھی اخلاط (بلغم) یا غير بلغم ناک یا گلے سے خارج ہوتی ہيں اگر ان ميں خون ہو تو وہ مقام جهاں خون ہوگا نجس اور باقی حصہ پاک ہوگا لہٰذا اگر یہ اخلاط ناک یا ہونٹوں کے باہر لگ جائيں تو بدن کے جس مقام کے بارے ميں یقين ہو کہ نجاست والا حصہ وہاں پهنچا ہے وہ نجس ہوگا اور جس مقام کے بارے ميں شک ہو کہ وہاں نجاست والا حصہ پهنچا ہے یا نہيں وہ پاک ہوگا۔

مسئلہ ١٣ ۴ اگر ایک ایسا لوٹا جس کے پيندے ميں سوراخ ہو نجس زمين پر رکھ دیا جائے اور اس کا پانی بهنا بند ہو کر لوٹے کے نيچے اس طرح جمع ہو جائے کہ اسے اور لوٹے کے پانی کو ایک ہی پانی سمجھا جائے تو لوٹے کا پانی نجس ہو جائے گاليکن اگر لوٹے کا پانی تيزی سے بہتا رہے تو نجس نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١٣ ۵ اگر کوئی چيز بدن ميں داخل ہو کر نجاست سے جاملے ليکن بدن سے باہر آنے پر نجاست سے آلودہ نہ ہو تو وہ چيز پاک ہے ، چنانچہ اگر انيما کا سامان یا اس کاپانی پاخانہ کے مخرج ميں داخل کيا جائے یا سوئی، چاقو یا کوئی اور

۲۴

ایسی چيز بدن ميں گهس جائے اور باہر نکلنے پر نجاست سے آلودہ نہ ہو تو نجس نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر تهوک اور ناک کا پانی جسم کے اندر خون سے جاملے ليکن باہر نکلنے پر خون آلودہ نہ ہو پاک ہے ۔

احکام نجاسات

مسئلہ ١٣ ۶ قرآن مجيد کی تحریر اور ورق کو نجس کرنا جب کہ یہ فعل قرآن مجيد کی بے حرمتی کا باعث ہو بلا شبہ حرام ہے اور اگر نجس ہوجائے تو فوراً پاک کرنا ضروری ہے ، بلکہ اگر بے حرمتی کا پهلو نہ بھی نکلے تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٣٧ اگر قرآن مجيد کی جلد نجس ہو جائے اور اس سے قرآن مجيد کی بے حرمتی ہو توضروری ہے کہ جلد کو پاک کيا جائے۔

مسئلہ ١٣٨ قرآن مجيد کو کسی خشک عين نجس پر رکھنا اگر بے حرمتی کا سبب ہو تو حرام ہے اور اسے اٹھ انا واجب ہے ۔

مسئلہ ١٣٩ قرآن مجيد کو نجس روشنائی سے لکھنا خواہ ایک حرف ہی کيوں نہ ہو اسے نجس کرنے کا حکم رکھتا ہے ، اور اگر لکھا جا چکا ہو تو اسے پانی سے دهو کر یا ایسے ہی کسی اور طریقے سے مٹانا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٠ اگر کافر کو قرآن مجيد دینا قرآن مجيد کی بے حرمتی کا باعث ہو تو حرام ہے اور اس سے قرآن مجيد لے لينا واجب ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١ اگر قرآن مجيد کا ورق یا کوئی ایسی چيز جس کا احترام ضروری ہو مثلاً ایسا کاغذ جس پر الله تعالیٰ، پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا معصومين عليهم السلام ميں سے کسی کا نام لکھا ہوا ہو، بيت الخلاء ميں گر جائے تو اس کا باہر نکالنا اور اسے دهونا واجب ہے خواہ اس پر کچھ رقم ہی کيوں نہ خرچ کرنی پڑے اور اگر اس کا باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس وقت تک اس بيت الخلاء کو استعمال نہ کيا جائے جب تک یہ یقين نہ ہوجائے کہ وہ گل کر ختم ہو گيا ہے ۔

اسی طرح اگر خاک شفا بيت الخلاء ميں گرجائے اور اس کا نکالنا ممکن نہ ہو تو جب تک یہ یقين نہ ہو جائے کہ وہ بالکل ختم ہو چکی ہے اس بيت الخلاء کو استعمال نہيں کيا جاسکتا۔

مسئلہ ١ ۴ ٢ کسی عينِ نجس یا نجس شدہ چيز کا کھانا پينا حرام ہے ۔ یهی حکم کسی اور کو کهلانے پلانے کا ہے ليکن بچے یا پاگل کو کهلانا جائزهے اور اگر بچہ یا دیوانہ شخص نجس غذا کھائے یا پئے یا نجس ہاتھ سے غذا کو نجس کردے اور کھائے تو اسے روکنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣ ایسی نجس چيز کا بيچنا یا عاریةً دینا جو پاک ہو سکتی ہو اشکال نہيں رکھتا، ہاں اگر عاریةً لينے والا یا خریدار اس کو کھانے پينے جيسی چيزوں ميں استعمال کرنے والا ہو تو اسے نجاست کے بارے ميں بتانا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۴ اگر ایک شخص کسی دوسرے کو نجس چيز کھاتے یا نجس لباس سے نماز پڑھتے دیکھے تو اسے اس بارے ميں کچھ کهنا ضروری نہيں ۔

۲۵

مسئلہ ١ ۴۵ اگر کسی کے گھر کا کوئی حصہ یا فرش نجس ہو اور وہ دیکھے کہ اس کے گھر آنے والوں کا بدن، لباس یا کوئی اور چيز تری کے ساته نجس جگہ سے جا لگی ہے تو اگر صاحب خانہ اس کا سبب ہو اور ممکن ہو کہ نجاست کھانے پينے کی چيزوں ميں سرایت کر جائے گی تو ان لوگوں کو اس بارے ميں آگاہ کردینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ اگر ميزبان کو کھانا کھانے کے دوران پتہ چلے کہ غذا نجس ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مهمانوں کو اس کے متعلق آگاہ کردے ليکن اگر مهمانوں ميں سے کسی کو اس بات کا علم ہو جائے تو اس کے لئے دوسروں کو بتانا ضروری نہيں ، البتہ اگر وہ ان کے ساته یوں گهل مل کر رہتا ہو کہ ان لوگوں کے نجس ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی نجس کھانے پينے ميں مبتلا ہوجائے گا توضروری ہے کہ کھانا کها چکنے کے بعد انہيں اطلاع دے دے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧ اگر کوئی ادهار لی ہوئی چيز نجس ہو جائے اور اس کا مالک اسے کھانے پينے ميں استعمال کرتا ہو جيسے برتن تو ادهار لينے والے پر واجب ہے کہ مالک کو اس کے نجس ہوجانے کے متعلق بتادے، ليکن اگر اس چيز کی نوعيت لباس کی ہو تو اس کے نجس ہونے کی اطلاع مالک کو دینا ضروری نہيں خواہ یہ علم ہو کہ وہ اس لباس کے ساته نماز پڑھتا ہے سوائے اس کے کہ لباس کا مالک واقعی پاک لباس کے ساته نماز پڑھنا چاہے کہ اس صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ نجاست کی اطلاع دے دی جائے۔

مسئلہ ١ ۴ ٨ اگر بچہ کهے کہ کوئی چيز نجس ہے یا یہ کہ اس نے کسی چيز کو دهوليا ہے تو اس کی بات پر اعتبار نہيں کيا جا سکتا ليکن اگر بچہ مميز ہو اور کهے کہ اس نے ایک چيز پانی سے دهوئی ہے جب کہ وہ بچہ قابل اعتماد ہو اور اس کی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو تو اس کی بات قبول کر لی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی چيز کی نجاست کی اطلاع دے تب بھی یهی حکم ہے ۔

مطهرات

مسئلہ ١ ۴ ٩ بارہ چيزیں نجاست کو پاک کرتی ہيں اور انہيں مطهرات کها جاتاہے :

(١) پانی

(٢) زمين

(٣) سورج

( ۴) استحالہ

( ۵) انقلاب

( ۶) انتقال

(٧) اسلام

۲۶

(٨) تبعيت

(٩) عين نجاست کا زائل ہو جانا

(١٠) نجاست خور جانور کا استبراء

(١١) مسلمان کا غائب ہو جانا

(١٢) ذبح کئے گئے جانور کے بدن سے معمول کے مطابق خون کا نکل جانا۔

ان سب کے تفصيلی احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ پانی

مسئلہ ١ ۵ ٠ پانی چار شرائط کے ساته نجس چيز کو پاک کرتاہے :

١)پانی مطلق ہو، لہذامضاف پانی جيسے گلاب کا پانی یا عرقِ بيد نجس چيز کو پاک نہيں کر سکتا ہے ۔

٢)پانی پاک ہو۔

٣)نجس چيز کو دهونے کے دوران پانی مضاف نہ بن جائے اور جس دهونے کے بعد مزید دهونا ضروری نہ ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل نہ جائے،ليکن آخری دهونا نہ ہونے کی صورت ميں پانی کے بدل جانے ميں کوئی حرج نہيں ، مثلاًاگر کسی چيز کو دو مرتبہ دهونا ضروری ہو تو خواہ پانی کا رنگ، بویا ذائقہ پهلی مرتبہ دهونے کے وقت بد ل جا ئے ليکن دوسری مرتبہ استعمال کئے جانے والے پانی ميں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہ ہو تو وہ چيز پاک ہو جائے گی۔

۴) نجس چيزکوپاک کرنے کے بعد اس ميں عين نجاست کے ذرات باقی نہ رہيں ۔

نجس چيز کو قليل پانی یعنی ایک کرُسے کم پانی سے پاک کرنے کی کچھ اور شرائط بھی ہيں جن کا ذکر بعد ميں کيا جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ١ نجس برتن کے اندرونی حصے کو قليل پانی سے تين مرتبہ دهونا ضروری ہے ،جب کہ کرُ یا جاری پانی ميں ایک مرتبہ دهونا کافی ہے ليکن وہ برتن جس ميں سے کتے نے کوئی سياّل(بهنے والی)چيز پی ہو تو پهلے ضروری ہے کہ اسے پاک مٹی سے مانجه کرمٹی ہٹالی جائے اور پھر پانی ملی ہوئی مٹی سے مانجها جائے۔ ان دونوں طریقوں کو اختيار کرنااحتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے اور اس کے بعد پانی ڈال کر برتن سے مٹی صاف کر ليں اورپہر کرُ یا جاری پانی سے ایک مرتبہ یا احتياط واجب کی بنا پرقليل پانی سے دو مرتبہ دهوئيں۔

کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو پاک کرنے کے لئے بھی احتياط واجب کی بناپریهی طریقہ اختيار کرنا ضروری ہے ۔

۲۷

مسئلہ ١ ۵ ٢ جس برتن ميں کتے نے منہ ڈالا ہو اگر اس کامنہ اتنا تنگ ہو کہ اسے مٹی سے مانجهانہ جا سکتا ہو، چنانچہ ممکن ہو تو کپڑا یا اسی طرح کی کوئی چيز لکڑی پر لپيٹ کراس کی مدد سے برتن کو مٹی سے مانجهے، پھر اس مٹی کو صاف کر کے دوبارہ پانی ملی ہوئی مٹی سے مانجهے، (خيال رہے)ان دونوں طریقوں کو اختيار کرنا احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر مٹی برتن ميں ڈال کر زور سے هلانے کے ذریعے اس طریقے پر عمل کریں، پھرپچهلے مسئلے ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق برتن کو دهوليں۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ جس برتن ميں سؤرنے کوئی سيال (بهنے والی) چيز پی ہو یا صحرائی چوہا مر گيا ہو، اسے سات مرتبہ دهونا ضروری ہے ، خواہ قليل پانی سے دهویا جائے یا کرُ یا جاری پانی سے اور بنابر احتياط واجب یهی حکم اس برتن کا ہے جسے سؤر نے چاٹا ہو۔

مسئلہ ١ ۵۴ شراب سے نجس شدہ برتن کو تين مرتبہ دهونا ضروری ہے ۔ اس ميں قليل، کرُ اور جاری پانی ميں کوئی فرق نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ سات مرتبہ دهوئے۔

مسئلہ ١ ۵۵ جو کوزہ نجس مٹی سے بنایا گيا ہو یا ا س ميں نجس پانی سرایت کر گيا ہو، تو اسے کرُ یا جاری پانی ميں ڈالنے پر جهاں جهاں پانی پهنچے گا، کوزہ پاک ہو جائے گا اور اگر کوزے کے اندرونی اجزاء کو بھی پاک کرنا مقصود ہو تو اسے کرُیا جاری پانی ميں اتنی دیر تک پڑے رہنے دینا ضروری ہے کہ پانی تمام کوزے ميں سرایت کر جائے اور اگر اس کوزے ميں کوئی ایسی رطوبت ہو جو پانی کو کوزے کے اندرونی حصوں تک نہ پهنچنے دے تو ضروری ہے کہ اسے خشک کرنے کے بعد کرُیا جاری پانی ميں ڈالا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ نجس برتن کو قليل پانی سے دو طریقے سے دهویا جا سکتا ہے :

١)برتن کو تين مرتبہ پانی سے بهرا جائے اور ہر مرتبہ خالی کر دیا جائے۔

٢)برتن ميں تين بار مناسب مقدار ميں پانی ڈاليں اور ہر بار پانی کو اس ميں یوں گهمائيں کہ وہ تمام نجس مقامات تک پهنچ جائے اور پھر اسے پھينک دیں۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ اگر ایک بڑا برتن مثلاًدیگ یا مرتبان نجس ہو جائے تو تين بار پانی سے بهرنے اور هربار خالی کرنے کے بعد پاک ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر اس ميں تين مرتبہ اوپر سے اس طرح پانی اُنڈیليں کہ اس کی تمام نجس اطراف تک پهنچ جائے اور ہر بار اس کی تہہ ميں جمع شدہ پانی کو باہر نکال دیں تو پاک ہو جائے گا اور احتياط واجب یہ ہے کہ دوسری اور تيسری بار جس برتن کے ذریعے پانی باہر نکالنا ہو،اسے بھی دهو ليا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ نجس تانبے وغيرہ کو، جنہيں پگهلایا جاتا ہے ، اگر پانی سے دهو ليا جائے تو اس کا ظاہری حصہ پاک ہو جائے گا۔

۲۸

مسئلہ ١ ۵ ٩ پيشاب سے نجس شدہ تنور ميں اگر اوپر سے اس طرح پانی ڈالا جائے کہ اس کی تمام نجس اطراف تک پهنچ جائے تو تنور پاک ہو جائے گا اور اگر تنور پيشاب کے علاوہ کسی اور چيز سے نجس ہو تو نجاست دور کرنے کے ساته مذکورہ طریقے کے مطابق اس ميں ایک بار پانی ڈالنا کافی ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ عين نجاست کو زائل کرنے کے بعد پانی ڈالا جائے اور بہتر یہ ہے کہ تنور کی تہہ ميں ایک گڑھا کهود ليا جائے جس ميں پانی جمع ہو سکے، پھر اس پانی کو نکال ليا جائے اور گڑھے کوپاک مٹی سے پُر کر دیا جائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ اگر کسی نجس چيز کو کُر یا جاری پانی ميں ایک مرتبہ یوں ڈبو دیاجائے کہ پانی اس کے تمام نجس مقامات تک پهنچ جائے تو وہ پاک ہو جائے گی اور قالين اور لباس وغيرہ کو نچوڑنا یا اس جيسا کوئی طریقہ جيسے ملنا یا پاؤں مارناضروری ہے اور اگر لباس یا اسی طرح کوئی اور چيز پيشاب سے نجس ہو جائے تو جاری یا کرُ پانی سے ایک مرتبہ دهونا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ١ پيشاب سے نجس شدہ چيز کو اگر قليل پانی سے دهونا مقصود ہو تو جب اس پر ایک مرتبہ پانی ڈالا جائے اور وہ اس سے جدا ہو جائے اس طرح کہ پيشاب اس چيز کے اندر باقی نہ رہے تو دوسری مرتبہ اس کے اوپر پانی ڈالنے سے وہ چيز پاک ہو جائے گی، ليکن لباس اور قالين وغيرہ ميں ضروری ہے کہ ہر بار نچوڑنے یا ایسے ہی کسی طریقے سے اس کا غسالہ نکالا جائے۔ ( غسالہ یا دهوون اس پانی کو کہتے ہيں جو کسی دهوئی جانے والی چيز سے دُهلنے کے دوران یا دهل جانے کے بعد خود بخود، نچوڑنے یا اس جيسے کسی طریقے سے نکلتا ہے )

مسئلہ ١ ۶ ٢ جو چيز ایسے شيرخوار بچے کے پيشاب سے جس نے کوئی غذا کھانا شروع نہ کی ہو، نجس ہو جائے اگر اس پر ایک مرتبہ اس طرح پانی ڈالا جائے کہ نجس مقامات تک پهنچ جائے تو وہ چيز پاک ہو جائے گی، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ مزید ایک بار اس پر پانی ڈالا جائے اور لباس و قالين وغيرہ کو نچوڑنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ جو چيز پيشاب کے علاوہ کسی اور چيز سے نجس ہو جائے، اسے قليل پانی سے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ عين نجاست زائل کرنے کے ساته ایک مرتبہ اس پر پانی ڈال دیں جو اس چيز سے نکل جائے اور احتياط واجب یہ ہے کہ پانی عين نجاست کو زائل کرنے کے بعد ڈالا جائے، جب کہ لباس جيسی چيزوں ميں نچوڑنے وغيرہ کے ذریعے غسالہ نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ دهاگوں سے بنی ہوئی نجس چٹائی کو پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نچوڑنے یا اس جيسے کسی طریقے سے اس کا غسالہ نکال دیا جائے، خواہ اسے کُر یا جاری پانی سے پاک کيا جائے یا قليل پانی سے۔

مسئلہ ١ ۶۵ اگر گندم، چاول یا صابن وغيرہ کا ظاہری حصہ نجس ہو جائے تو وہ کرُ یا جاری پانی ميں ڈبونے سے پاک ہو جاتاہے ، ليکن اگر ان کا اندرونی حصہ نجس ہو جائے تو ان کے پاک کرنے کا طریقہ نجس کوزے کو پاک کرنے کے طریقے کی طرح ہے جو مسئلہ نمبر” ١ ۵۵ “ ميں بيان ہو چکا ہے ۔

۲۹

مسئلہ ١ ۶۶ اگر انسان شک کرے کہ نجس پانی صابن کے اندر پهنچا ہے یا نہيں تو اس کا اندرونی حصہ پاک ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ اگر چاول یا گوشت یا ایسی ہی کسی چيز کا ظاہری حصہ پيشاب کے علاوہ کسی اور چيز سے نجس ہو جائے اور اسے ایک پاک طشت ميں رکھ کر، اس پر پانی ڈاليںاور اس پانی کو بها دیں تو وہ چيز اور طشت دونوں پاک ہو جائيں گے، اور اگر یہ چيزیں پيشاب سے نجس ہوئی ہوں تو دو مرتبہ پانی ڈال کر بهانا ضروری ہے ۔

ان دونوں صورتوں ميں اگر برتن پيالہ یا اس جيسی کوئی چيز ہو تو بنا براحتياط واجب تين مرتبہ پانی ڈال کر بهانا ضروری ہے اور وہ چيزیںجن کو پاک کرنے کے لئے نچوڑنا ضروری ہے جيسے لباس تو ضروری ہے کہ اسے نچوڑ کر ا س کا غسالہ نکال ليا جائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ جس نجس لباس کو نيل یا اس جيسی کسی چيز سے رنگا گيا ہو، اگر کرُ یا جاری پانی ميں ڈبو یا جائے یا قليل پانی سے دهویا جائے اور نچوڑتے وقت اس سے مضاف پانی نہ نکلے تو پاک ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ اگر کپڑے کو کرُ یا جاری پانی ميں دهویا جائے او رمثال کے طور پر بعد ميں کائی وغيرہ کپڑے ميں نظر آئے اور یہ احتمال نہ ہو کہ یہ کپڑے کے اندر پانی کے پهنچنے ميں رکاوٹ بنی ہے تو وہ کپڑا پاک ہے ۔

مسئلہ ١٧٠ اگر لباس یا اس سے ملتی جلتی چيز کے دهونے کے بعد اس ميں مٹی یا صابن کے ذرات نظر آئيں تو وہ پاک ہے ، ليکن اگر نجس پانی مٹی یا صابن کے اندر پهنچ چکا ہو تو مٹی اور صابن کا ظاہر پاک اور ان کا باطن نجس رہے گا۔

مسئلہ ١٧١ جب تک کہ کسی چيز سے عين نجاست کو ہٹا نہ دیا جائے وہ پاک نہيں ہو سکتی ہے ، ليکن اگر نجاست کی بویا رنگ باقی رہ جائے تو اس ميں کوئی اشکال نہيں ہے ، لہٰذا اگر خون کو لباس سے بر طرف کر دینے اور پانی سے دهونے کے بعد بھی اس ميں خون کا رنگ باقی رہے تو وہ پاک ہو جائے گا، ليکن اگر کسی چيز ميں بو یا رنگ کی وجہ سے یہ احتمال پيدا ہو کہ اس ميں نجاست کے ذرّے باقی رہ گئے ہيں تو وہ چيز نجس ہو گی۔

مسئلہ ١٧٢ اگر کرُ یاجاری پانی ميں بدن کی نجاست کو دور کيا جائے تو بدن پاک ہو جاتا ہے یهاں تک کہ پيشاب کی نجاست ميں بھی ایک سے زیادہ بار دهونا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٧٣ اگر نجس غذا دانتوں کے ریخوں ميں رہ جائے اور پانی منہ ميں بھر کر یوں گهمایاجائے کہ تمام نجس غذا تک پهنچ جائے تو غذا کا ظاہر پاک ہو جائے گا۔

مسئلہ ١٧ ۴ اگر سر اور چھرے کے بالوں کو قليل پانی سے دهویا جائے تو اس سے غسالہ کا نکلنا ضروری ہے ۔

۳۰

مسئلہ ١٧ ۵ اگر بدن یا لباس کا کوئی حصہ قليل پانی سے دهویا جائے تو نجس مقام کے پاک ہونے سے اس مقام سے متصل وہ جگہيں بھی پاک ہو جائيں گی جن تک دهوتے وقت عموماًپانی پهنچ جاتا ہے یعنی نجس مقام کی اطراف کو عليحدہ سے دهونا ضروری نہيں بلکہ وہ نجس مقام کو دهونے کے ساته ہی پاک ہو جاتے ہيں ۔ اسی طرح اگر ایک پاک چيز ایک نجس چيز کے برابر رکھ دیں اور دونوں پر پانی ڈاليں تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ نجس گوشت یا چربی کو دوسری عام چيزوں کی طرح پانی سے دهویا جائے گا۔ یهی صورت اس بدن اور لباس کی ہے جس پر تهوڑی بہت چکنائی ہو جو پانی کو بدن یا لباس تک پهنچنے سے نہ روکے۔

مسئلہ ١٧٧ اگر مثلاًبرتن یا بدن نجس ہو جائے اور بعد ميں اتنا چکنا ہو جائے کہ پانی اس تک نہ پهنچ سکے اور اس برتن یا بدن کو پاک کرنا مقصود ہو تو ضروری ہے کہ پهلے چکنائی کو دور کيا جائے تاکہ پانی برتن یا بدن تک پهنچ سکے۔

مسئلہ ١٧٨ جس نجس چيز ميں عين نجاست نہ ہو، کرُ پانی سے متصل نل کے نيچے ایک مرتبہ دهونے سے پاک ہو جاتی ہے ، اسی طرح اگر عين نجاست اس کے اندر موجود ہو ليکن نل کے نيچے پانی سے یاکسی اور چيز کے ذریعے اس کی عين نجاست بر طرف ہو جا ئے ا ور اب جو پانی اس چيز سے گرے اس کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل نہ رہا ہو تو نل کے پانی کے سے وہ چيز پاک ہو جائے گی، ليکن اگر اس چيز سے گرنے والے پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل جائے تو ضروری ہے کہ نل کا پانی اس کے اوپر اتنا ڈاليں کہ اب جو پانی اس سے جدا ہو اس ميں نجاست کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہ ہو۔

مسئلہ ١٧٩ اگر کسی چيز کو پانی سے دهوئے اور یقين ہو جائے کہ پاک ہو گئی ہے اور بعد ميں شک کرے کہ عين نجاست کو اس سے برطرف کيا تھا یا نہيں تو ضروری ہے کہ اسے دوبارہ دهوئے اور یقين یا اطمينان حاصل کرے کہ عين نجاست بر طرف ہو چکی ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ایسی زمين جس کے اندر پانی جذب ہو جاتا ہے مثلاً ریتيلی زمين، اگر نجس ہو جائے تو قليل پانی سے پاک ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ١٨١ اگر وہ زمين جس کا فرش پتّھریا اینٹوں کا ہو یاکوئی اور سخت زمين جس ميں پانی جذب نہ ہوتا ہو نجس ہو جائے تو قليل پانی سے پاک ہو سکتی ہے ، ليکن ضروری ہے کہ اس پر اتنا پانی ڈالاجائے کہ بهنے لگے۔ اب جو پانی اس کے اوپر ڈالا گيا تھا اگر کسی سوراخ (یا نالی وغيرہ)سے نکل جائے تو ساری زمين پاک ہو جائے گی اور اگر پانی باہر نہ نکل سکے بلکہ کسی جگہ جمع ہو جائے تو باقی زمين پاک ہو جائے گی ليکن یہ جگہ نجس رہے گی اور اس جگہ کو پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی پاک چيز کے ذریعے جمع شدہ پانی کو نکال ليا جائے اور بہتر یہ ہے کہ پانی جمع کرنے کے لئے گڑھا کهود ليا جائے تاکہ پانی اس ميں جمع ہو جائے اور اس کے بعد پانی کو اس سے نکال کر گڑھے کو پاک مٹی سے پر کر دیا جائے۔

۳۱

مسئلہ ١٨٢ اگر نمک کی کان کے پتّھر یا اس جيسی کسی اور چيز کاظاہری حصہ نجس ہو جائے تو قليل پانی سے اس صورت ميں پاک ہو سکتا ہے کہ پانی مضاف نہ ہوجائے۔

مسئلہ ١٨٣ اگر پگھلی ہوئی نجس شکر سے قندبناليں اور اسے کرُ یا جاری پانی ميں ڈال دیں تو وہ پاک نہيں ہوتی۔

٢۔ زمين

مسئلہ ١٨ ۴ زمين تين شرائط کے ساته پاؤں کے نچلے حصے اورجوتے کے تلوے جو کہ نجس زمين پر چلنے یا پاؤں رکھنے کی وجہ سے نجس ہو گئے ہوں، پاک کرتی ہے :

١)زمين پاک ہو

٢)خشک ہو

٣)عين نجاست مثلاً خون اور پيشاب یا نجس شدہ چيزمثلاًنجس کيچڑجو پاؤں یا جوتے کے تلوے ميں لگا ہوا ہو راستہ چلنے یا زمين پر رگڑنے کی وجہ سے ہٹ جائے۔ زمين ميں یہ بھی ضروری ہے کہ یا مٹی ہو یا پتّھر، اینٹ یا اس جيسی چيزوں سے بنی ہو۔ قالين، گهاس، چٹائی یا ان ہی جيسی کسی چيزپر چلنے سے پاؤں اور جوتے کے تلوے پاک نہيں ہوتے۔

مسئلہ ١٨ ۵ پاؤں یا جوتے کے نجس تلوے کا ڈامر یا لکڑی کے بنے ہوئے فرش پر چلنے سے پاک ہو نا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ پاؤں یا جوتے کے تلوے کو پاک کرنے کے لئے بہتر ہے کہ پندرہ ہاتھ یا اس سے زیادہ فاصلہ زمين پر چلے خواہ پندرہ ہاتھ سے کم چلنے یا پاؤں زمين پر رگڑنے سے نجاست دور ہو گئی ہو۔

مسئلہ ١٨٧ پاک ہونے کے لئے پاؤںيا جوتے کے نجس تلوے کا تر ہونا ضروری نہيں بلکہ خشک بھی ہوں تو زمين پر چلنے سے پاک ہو جاتے ہيں ۔

مسئلہ ١٨٨ جب پاؤں یا جوتے کا نجس تلوا زمين پر چلنے سے پاک ہو جائے تو اس کے اطراف کے اتنے حصے بھی جنہيں عموماً کيچڑ لگ جاتی ہے پاک ہو جاتے ہيں ۔

مسئلہ ١٨٩ اگر کسی ایسے شخص کے ہاتھ کی ہتھيلی یا گھٹنا نجس ہو جائے جو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتا ہو تو اس کے راستہ چلنے سے اس کی ہتھيلی یا گھٹنے کا پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

یهی صورت لاٹھ ی اور مصنوعی ٹانگ کے نچلے حصے، چوپائے کے نعل، موٹر گاڑیوں اور تانگے وغيرہ کے پهيوں کی ہے ۔

مسئلہ ١٩٠ اگر زمين پر چلنے کے بعد نجاست کی بو یا رنگ یا باریک ذرے جو نظر نہيں آتے، پاؤں یا جوتے کے تلوے سے لگے رہ جائيں تو کوئی حرج نہيں اگر چہ احتياط مستحب کہ ہے کہ زمين پر اس قدر چلا جائے کہ وہ بھی زائل ہو جائيں۔

۳۲

مسئلہ ١٩١ جوتے کا اندرونی حصہ زمين پر چلنے سے پاک نہيں ہوتا اور زمين پر چلنے سے موزے کے نچلے حصے کا پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

٣۔ سورج

مسئلہ ١٩٢ زمين، عمارت اور دروازہ و کهڑکی کی طرح وہ چيزیں جو عمارتوں ميں استعمال ہوتی ہيں اور اسی طرح دیوار کے اندر ٹھ ونکی ہوئی کيل کو پانچ شرطوں کے ساته پاک کرتا ہے :

١)نجس چيز گيلی ہو، لہٰذا اگر خشک ہو تو ضروری ہے کہ اسے کسی طرح تر کر ليا جائے تاکہ سورج اسے خشک کرے۔

٢)اگر اس چيز ميں عين نجاست ہو تو اس سے پهلے کہ وہ جگہ سورج کے ذریعے خشک ہو،عين نجاست کو ہٹادیا جائے۔

٣)کوئی چيز دهوپ پڑنے ميں رکاوٹ نہ ڈالے، پس اگر دهوپ پردے، بادل یا ایسی ہی کسی چيز کے پيچهے سے نجس چيزپرپڑے اوراسے خشک کر دے تو وہ چيزپاک نہيں ہو گی، البتہ اگر رکاو ٹ اتنی نازک ہو کہ دهوپ کو نہ روکے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

۴) سورج اکيلا ہی نجس چيز کہ خشک کرے، لہٰذا مثال کے طور پر اگر نجس چيز ہوا اور دهوپ سے خشک ہو تو پاک نہيں ہوتی۔ ہاں، اگرہوا اتنی هلکی ہو کہ یہ نہ کهاجاسکے کہ نجس چيز کو خشک کرنے ميں اس نے بھی کوئی مدد کی ہے تو پھر کوئی حرج نہيں ۔

۵) عمارت کے جتنے حصے ميں نجاست سرایت کرگئی ہے دهوپ اسے ایک ہی مرتبہ ميں خشک کردے، پس اگرایک مرتبہ دهوپ نجس زمين اور عمارت پر پڑے اور اس کا سامنے والا حصہ خشک کرے اور دوسری مرتبہ نچلے حصے کو خشک کرے تو اس کا سامنے والا حصہ پاک ہو جائے گااور نچلا حصہ نجس رہے گا۔

مسئلہ ١٩٣ سورج سے نجس چٹائی اورزمين ميں اگے ہوئے درخت وگهاس وغيرہ کاپاک ہونامحل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٩ ۴ اگر دهوپ نجس زمين پر پڑے اور اس کے بعد انسان شک کرے کہ دهوپ پڑنے کے وقت زمين تر تھی یا نہيں ، یا تری دهوپ کے ذریعے خشک ہوئی یا نہيں تو وہ زمين نجس ہو گی، اسی طرح اگر شک کرے کہ دهوپ پڑنے سے پهلے عين نجاست بر طرف ہوئی تھی یا نہيں يا یہ کہ کوئی چيز دهوپ کے پهنچنے ميں رکاوٹ تھی یا نہيں تو پھر بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٩ ۵ اگر دهوپ نجس دیوار کے ایک طرف پڑے اور اس کے اس حصے کو بھی خشک کر دے جس پر دهوپ نہيں پڑی تو دیوار کی دونوں اطراف پاک ہو جائيں گی۔

۳۳

۴ ۔ استحالہ

مسئلہ ١٩ ۶ اگر کوئی نجس چيز پاک چيز کی صورت ميں یوں تبدیل ہو جائے کہ عرف کی نگاہوں ميں اس کی حقيقت ہی بدل جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے ، مثال کے طور پر لکڑی جل کر راکه ہو جائے یا کتا نمک کی کان ميں گر کر نمک بن جائے، ليکن اگر اس چيز کی حقيقت نہ بدلے مثلاً گيہوں کو پيس کر آٹا بنا ليا جائے یا روٹی پکا لی جائے تو وہ پاک نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١٩٧ مٹی کا کوزہ اور دوسری چيزیں جو نجس مٹی سے بنائی جائيں نجس ہيں اور وہ کوئلہ جسے نجس لکڑی سے تيار کيا گيا ہو احوط یہ ہے کہ اس سے اجتناب کيا جائے۔

مسئلہ ١٩٨ ایسی نجس چيز جس کے متعلق علم نہ ہو کہ آیا اس کا استحالہ ہوا یا نہيں تو اگر شک کی بنياد یہ ہو کہ موضوعِ نجس باقی ہے یا نہيں ، نجس ہے ۔

۵ ۔ انقلاب

مسئلہ ١٩٩ اگر شراب خود بخود یا کوئی چيزمثلاًسرکہ یا نمک ملانے سے سرکہ بن جائے تو پاک ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ٢٠٠ وہ شراب جو نجس انگور یا اس جيسی چيز سے بنائی جائے اور وہ اسی برتن ميں سرکہ بن جائے تو وہ پاک نہيں ہو گی اور اگر اس کو کسی دوسرے پاک برتن ميں ڈال دیں اور پھر سرکہ بن جائے تب بھی بنا بر احتياط پاک نہيں ہو گی اور یهی حکم اس وقت ہے جب شراب ميں کوئی اور نجاست مل جائے اور اس ميں مل کر ختم ہو جائے۔

مسئلہ ٢٠١ وہ سرکہ جو نجس انگور، کشمش یا کھجور سے تيا ر کيا جائے نجس ہے ۔

مسئلہ ٢٠٢ اگر انگور یا کھجور کے باریک چھلکے بھی ساته ہوں اور ان ميں سرکہ ڈال دیا جائے تو کوئی حرج نہيں بلکہ اسی ميں کهيرے اور بينگن وغيرہ ڈالنے ميں بھی اشکال نہيں ہے خواہ انگور یا کھجور کے سرکہ بننے سے پهلے ہی ڈالے جائيں سوائے اس کہ کے سرکہ بننے سے پهلے جان لے کہ یہ نشہ آور ہو چکے ہيں ۔

مسئلہ ٢٠٣ اگر انگور کے رس ميں آگ پر رکھنے سے ابال آجائے تو وہ حرام ہو جاتا ہے اور اگر وہ اتنا ابل جائے کہ اس کا دو تھائی حصہ ختم ہو جائے اور ایک تھائی باقی ر ہ جائے تو حلال ہو جاتا ہے اور مسئلہ ” ١١ ۴ “ ميں بتایا جا چکا ہے کہ انگور کا رس آگ کے ذریعے ابلنے سے نجس نہيں ہوتا،ہاں اگر بغير آگ کے ابال آجائے تو وہ حرام اور بنا بر احتياط نجس بھی ہو جاتاہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ سرکہ بنے بغير پاک اور حلال نہيں ہو سکتا۔

مسئلہ ٢٠ ۴ اگر انگورکے رس کا دو تھائی حصہ بغير ابال آئے کم ہو جائے اور جو پانی بچے اس ميں ابال آجائے تو وہ حرام ہے ۔

۳۴

مسئلہ ٢٠ ۵ اگر انگور کے رس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو سکے کہ اس ميں ابال آیاہے یا نہيں تو وہ حلال ہے ليکن اگر اُبال آجائے تو جب تک یہ یقين نہ ہو کہ اس کا دو تھائی کم ہو چکاہے ، حلال نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢٠ ۶ اگر کچے انگور کے خوشے ميں کچھ پکے انگور بھی ہوں اور جو رس اس خوشے سے ليا جائے اسے لوگ انگور کا رس نہ کہيں اور اس ميں ابال آجائے تو رس کا پينا حلال ہے ۔

مسئلہ ٢٠٧ اگر انگور کا ایک دانہ کسی ایسی چيز ميں گر جائے جو آگ پر ابل رہی ہو اور وہ بھی ابلنے لگے ليکن وہ اس چيز ميں حل نہ ہو تو فقط اس دانے کا کھانا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢٠٨ اگر چند دیگوں ميں شيرہ پکایا جائے تو جو کفگير ابال ميں آئی ہو ئی دیگ ميں ڈالا جا چکا ہو اس کا ایسی دیگ ميں ڈالنا بھی جائز ہے جس ميں ابهی ابال نہ آیا ہو۔

مسئلہ ٢٠٩ جس چيز کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ یہ کچا انگور ہے یا پکا، اگر اس ميں ابال آجائے تو حلال ہے ۔

۶ ۔ انتقال

مسئلہ ٢١٠ اگر انسان یا خون جهندہ رکھنے والے حيوان کے بدن کا خون ایسے حيوان کے بدن ميں چلا جائے جو خون جهندہ نہ رکھتا ہو اور اس کے بدن کا حصہ سمجھا جانے لگے تو وہ خون پاک ہو جائے گا۔ اس کو انتقال کہتے ہيں ۔

اسی طرح باقی تمام نجاسات بھی اگر اس حيوان کے بدن کا حصہ بن جائيں جس کے بدن ميں منتقل ہوئی ہيں تو اسی حيوان کے اجزاء کا حکم ان پر جاری ہو گا، ليکن اگر حيوان کے بدن کا حصہ نہ بنيں بلکہ حيوان اس نجاست کے لئے ظرف کی طرح بن جائے تو نجس ہيں ، اسی لئے وہ خون جو جونک انسان کے بدن سے چوستی ہے چونکہ وہ جونک کا خون نہيں کهلاتابلکہ اسے انسان کا خون کہتے ہيں ، نجس ہے ۔

مسئلہ ٢١١ اگر کوئی شخص اپنے بدن پر بيٹھے ہوئے مچہر کو مار دے اور نہ جانتا ہو کہ اس مچہر سے نکلا ہو ا خون مچہر ہی کا ہے یا اس کا اپنا چوسا جانے والا خون ہے ، پاک ہے اور یهی حکم اس وقت ہے جب انسا ن جانتا ہو کہ اگرچہ یہ خون اس سے چوسا گياہے ليکن مچہر کے بدن کا حصہ بن چکا ہے ، ہاں اگر خون چوسے جانے اور مچہر مارنے کے درميان فاصلہ اتنا کم ہو کہ اسے انسان کا خون ہی کها جائے یا معلوم نہ ہو سکے اسے مچہر کا خون کها جائے گا یا انسان کا تو وہ خون نجس شمار ہوگا۔

۳۵

٧۔ اسلام

مسئلہ ٢١٢ اگر کوئی کافر کسی بھی زبان ميں خدا کی وحدانيت اور خاتم الانبياء حضرت محمدمصطفی(ص) کی نبوت کی گواہی دے دے تو مسلمان ہو جاتا ہے اور اگرچہ وہ مسلمان ہونے سے پهلے نجس کے حکم ميں تھا ليکن مسلمان ہو جانے کے بعد اس کا بدن، تهوک، ناک کا پانی اور پسينہ پاک ہو جاتا ہے ، ہاں مسلمان ہونے کے وقت اگر اس کے بدن پر کوئی عين نجاست ہو تو ضروری ہے کہ اسے دور کرے اور اس مقام کو دهولے بلکہ اگر مسلمان ہونے سے پهلے ہی عين نجاست دور ہو چکی ہو تب بھی احتياط واجب یہ ہے کہ اس مقام کو دهولے۔

مسئلہ ٢١٣ اگر کافر کے مسلمان ہونے سے پهلے اس کا لباس اس کی رطوبت سے اس کے بدن سے مس ہو ا ہو اور اس کے مسلمان ہوتے وقت وہ لباس اس کے بدن پر نہ ہو نجس ہے بلکہ اگر وہ لباس اس کے بدن پر ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ٢١ ۴ اگر کافر شهادتين پڑھ لے اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ دل سے مسلمان ہو اہے یا نہيں تو وہ پاک ہے ۔ اسی طرح اگریہ علم ہو بھی کہ وہ دل سے مسلمان نہيں ہوا ليکن ایسی کوئی بات اس سے ظاہر نہ ہوئی ہو جو توحيد اور رسالت کی شهادت کے منافی ہو تو وہ پاک ہے ۔

٨۔ تبعيت

مسئلہ ٢١ ۵ تبعيت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نجس چيز، کسی دوسری چيز کے پاک ہونے کی وجہ سے پاک ہو جائے۔

مسئلہ ٢١ ۶ اگر شراب سرکہ بن جائے تو اس کا برتن بھی اس جگہ تک جهاں تک شراب ابل کر پهنچی ہو پاک ہو جاتا ہے اور اگر کپڑا یا کوئی دوسری چيز بھی نجس ہوئی ہو جو عموماًاس پر رکھی جاتی ہے وہ بھی پاک ہو جاتی ہے ، ليکن اگر برتن کی بيرونی سطح اس شراب سے آلودہ ہو جائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ شراب کے سرکہ بن جانے کے بعدا س سے پرہيز کيا جائے۔

مسئلہ ٢١٧ کافر کابچہ تبعيت کےذریعے دو صورتوں ميں پاک ہو جاتا ہے :

١)جو کافر مرد مسلمان ہو جائے اس کا بچہ طهارت ميں اس کے تابع ہے اور اسی طرح بچے کا دادا یا بچے کی ماں یا دادی مسلما ن ہو جائيں تب بھی یهی حکم ہے ۔

٢)کافر کا بچہ کسی مسلمان کے ہاتھوں قيدی بناہو اوراس کے باپ یا اجدادميں سے کوئی اس بچے کے ساته نہ ہو۔

اور ان دونوں صورتوں ميں بچے کے تبعيت کی بنا پر پاک ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ مميز ہونے کی صورت ميں اظهارِکفر نہ کرے۔

۳۶

مسئلہ ٢١٨ وہ تختہ یا سل جس پر ميت کوغسل دیا جائے اور وہ کپڑا جس سے ميت کی شرمگاہ ڈهانپی جائے نيز غسال کے ہاتھ، یہ تمام چيزیں جو ميت کے ساته ہی دهل گئی ہيں ، غسل مکمل ہونے کے بعد پاک ہو جاتی ہيں ۔

مسئلہ ٢١٩ اگر کوئی شخص کسی چيز کو پانی سے دهوئے تو اس چيز کے پاک ہونے پر اس شخص کا وہ ہاتھ بھی جو اس چيز کے ساته ہی دهل چکا ہے ، پاک ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٠ اگر لباس یا اس جيسی کسی چيز کو قليل پانی سے دهویا جائے اور معمول کے مطابق نچوڑ دیا جائے تاکہ جس پانی سے اسے دهویا گيا ہے وہ نکل جائے تو جو پانی اس ميں رہ جائے وہ پاک ہے ، اور اس لباس سے جدا ہو جانے والے پانی کا حکم مسئلہ نمبر” ٢٧ “ميں گذر چکا ہے ۔

مسئلہ ٢٢١ جب نجس برتن کو قليل پانی سے دهویا جائے تو جو پانی برتن کو پاک کرنے کے ليے اس پر ڈالا جائے اس کے بہہ جانے کے بعدجو پانی معمول کے مطابق اس ميں باقی رہ جائے، پاک ہے اور وہ پانی جو اس سے جدا ہو اس کا حکم مسئلہ نمبر” ٢٧ “ميں بيا ن ہو چکاہے۔

٩۔ عين نجاست کا دور ہونا

مسئلہ ٢٢٢ اگر کسی حيوان کا بدن عين نجاست مثلاً خون یا نجس شدہ چيز مثلاًنجس پانی سے آلودہ ہو جائے تو اس نجاست کے دور ہوتے ہی حيوان کا بدن پاک ہو جاتا ہے ۔ یهی صورت انسانی بدن کے اندرونی حصوں مثلاًمنہ اور ناک کے اندر کی ہے مثال کے طور پر اگر مسوڑہوں سے خون نکلے اور لعاب دهن ميں گهل کر ختم ہو جائے تو منہ کے اندرونی حصے کو پاک کرنا ضروری نہيں ہے ، ليکن اگر مصنوعی دانتوںسے منہ کا خون لگ جائے تو احتياط واجب کی بنا پر انہيں پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٢٣ اگر دانتوں کے ریخوں ميں غذا رہ جائے اور پھر منہ کے اندر خون نکل آئے تو اگر انسان نہ جانتا ہو کہ خون غذا تک پهنچا ہے تو وہ غذا پاک ہے ، ليکن اگر خون غذا تک پهنچ جائے تو بنا بر احتياط نجس ہو جائے گی۔

مسئلہ ٢٢ ۴ ہونٹوں اور آنکه کی پلکوں کے وہ حصے جو بند کرتے وقت ایک دوسرے سے مل جاتے ہيں اور وہ مقامات بھی جن کے بارے ميں انسان کو یہ علم نہ ہو کہ آیا انہيں اندرونی حصہ سمجھا جائے یا ظاہری اور ان پر نجاست لگ جائے تو بنا بر احتياط پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۵ اگر نجس گردوغبار خشک کپڑے، قالين یا ایسی ہی کسی چيز پر بيٹھ جائے چنانچہ کپڑے وغيرہ کو یوں جهاڑ ليا جائے کہ نجس مٹی یا خاک اس سے الگ ہو جائے تو اس کے بعد اگر کوئی تر چيزکپڑے وغيرہ کو مس ہو جائے تو وہ نجس نہيں ہوگی۔

۳۷

١٠ ۔ نجاست کھانے والے حيوان کا استبرا

مسئلہ ٢٢ ۶ جس حيوان کو انسانی نجاست کھانے کی عادت پڑ گئی ہو اس کا پيشاب اور پاخانہ نجس ہے اور اگر اسے پاک کرنا چاہيں تو ضروری ہے کہ اس کا استبرا کيا جائے یعنی اتنے عرصے تک اسے نجاست نہ کھانے دیں اور بنابر احتياط پاک غذا دیں کہ پھر اسے نجاست کھانے والا نہ کها جاسکے۔

هاں، احتياط واجب یہ ہے کہ نجاست کھانے والے اونٹ کے ساته چاليس، گائے کے ساته بيس، بھيڑ کے ساته دس، مرغابی کے ساته پانچ اور گھریلو مرغی کے ساته تين دن اس طریقے پر عمل کيا جائے اور اگر مقررہ مدت گزر نے کے بعد بھی انہيں نجاست خورکھاجائے تومزید اتنے عرصے تک مذکورہ طریقے پرعمل ضروری ہے کہ پھرانہيں نجاست خورنہ کها جائے۔

١١ ۔ مسلمان کا غائب ہوجانا

مسئلہ ٢٢٧ اگر کسی مسلمان کے بدن یا لباس یا دوسری اشياء کے بارے ميں جو اس کے اختيا ر ميں ہو ں مثلاً برتن، قالين وغيرہ، نجاست کا یقين ہو جائے اور پھر وہ مسلمان وہاں سے غير حاضر ہو جائے تو یہ اشيا ء اس شرط کے ساته پاک ہيں کہ انسان احتمال دے کہ اس شخص نے ان اشياء کو پاک کر ليا ہو گا اور بنابر احتياط واجب ان شرائط کا خيا ل ر کهنا ضروری ہے -:

١) جس چيز نے اس مسلمان کے لباس یا بدن کو نجس کيا ہے وہ خود بھی اسے نجس سمجھتا ہو، لہٰذا اگر مثال کے طور پر اس کا لباس رطوبت کے ساته کافر کے بدن سے مس ہو گيا ہو ليکن وہ اسے نجس ہی نہ سمجھتا ہو تو اس کے چلے جانے کے بعد اس کے لباس کو پاک نہيں سمجھا جا سکتا۔

٢) اسے علم ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس چيز سے لگ گيا ہے اور نجاست و طهارت کے معاملے ميں لا پروا بھی نہ ہو۔

٣) انسان اس مسلمان کو وہ چيز ایسے کام ميں استعمال کرتے ہو ئے دیکھے کہ جس ميں اس کا پاک ہونا شرط ہو، مثلاً اسے اس لباس کے ساته نماز پڑھتے ہوئے یا اس برتن ميں کھانا کھاتے ہوئے دیکھے ۔

۴) اس بات کا احتمال ہو کہ وہ مسلمان جانتا ہے کہ اس چيز کے ساته جس کام کو وہ انجام دے رہا ہے اس ميں طهارت شرط ہے ، لہٰذا مثال کے طور پر اگر وہ مسلمان یہ نہيں جانتا کہ نمازپڑھنے والے کا لباس پاک ہونا ضروری ہے اور اس لباس کے ساته ہی نماز پڑھ رہا ہوجو نجس ہو گيا تھا تو اس لباس کو پاک نہيں سمجھا جا سکتا۔

۵) يہ کہ وہ مسلمان بالغ ہو۔

۳۸

مسئلہ ٢٢٨ اگر کسی انسان کو یقين یا اطمينان ہوجائے کہ جوچيزنجس ہوگئی تھی اب پاک ہوگئی ہے یا دو عادل یا ایک عادل شخص اس کے پاک ہونے کی خبر دے، اسی طرح اگر ایک قابل اعتماد شخص جس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، کسی چيزکے پاک ہونے کی خبر دے تو وہ چيز پاک ہے ۔

اور یهی حکم اس نجس چيز کے بارے ميں ہے جو کسی شخص کے اختيار ميں ہو اور وہ اس کے پاک ہونے کی خبر دے، جب کہ وہ شخص نجاست وطهارت کے مسئلے ميں لاپروا نہ سمجھا جاتا ہو یا کسی مسلمان نے نجس چيز کو پاک کر ليا ہو اگرچہ معلوم نہ ہو کہ صحيح طرح پاک کيا ہے یا نہيں ۔

مسئلہ ٢٢٩ جس شخص کو لباس دهونے کے لئے وکيل بنایا گيا ہو اور وہ کهے کہ ميں نے کپڑے دهو دئے ہيں اور اس کے کهنے سے اطمينان حاصل ہوجائے یا وہ شخص قابل اعتماد ہو او ر اس کی کهی ہوئی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو تو وہ لباس پاک ہے ، ليکن اگر لباس اس کے اختيار ميں ہو جب کہ اس پر نجاست وطهارت کے مسئلے ميں لا پر وائی کا الزام بھی نہ ہو تو اطمينان کا حاصل کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٠ اگر کسی شخص کی یہ حالت ہوجائے کہ اسے کوئی نجس چيز دهوتے وقت یقين یا اطمينان ہی نہ آتا ہو تو وہ طهارت کے مسئلے ميں عام افراد کے درميان رائج طریقے پر اکتفا کر سکتا ہے ۔

١٢ ۔ معمول کے مطابق ذبيحہ کے خون کا بہہ جانا

مسئلہ ٢٣١ جيسا کہ مسئلہ ” ٩٨ “ميں بيان کيا جا چکاہے کہ جب کسی جانور کو شرعی طریقے سے ذبح کرنے کے بعد اس کے بدن سے معمول کے مطابق خون نکل جائے تو اس کے بدن کے اندر باقی رہ جانے والا خون پاک ہے ۔

مسئلہ ٢٣٢ مذکورہ بالا حکم صرف حلال گوشت جانوروں کے بارے ميں ہے ، اور حرام گوشت جانوروں ميں جاری نہيں ہوگا۔

برتنوں کے احکام

مسئلہ ٢٣٣ جو برتن کتّے، سو رٔ یا مردار کی کھال سے بنایا جائے اس ميں کسی چيز کا کھانا پينا جب کہ تری اس کی نجاست کا موجب بنی ہو، حرام ہے اور اس برتن کو وضو، غسل اور ایسے دوسرے کاموں ميں استعمال نہيں کيا جا سکتا جنہيں پاک چيز سے انجام دینا ضروری ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ کتے، سو رٔاور مردار کے چمڑے کو خواہ وہ برتن کی شکل ميں نہ بھی ہو استعمال نہ کيا جائے۔

۳۹

مسئلہ ٢٣ ۴ سونے اور چاندی کے برتنوں ميں کھانا پينا حرام ہے اور بنا بر احتياط واجب ان برتنوں کا کسی بھی طرح کا استعمال یهاں تک کہ کمرے کو زینت دینا بھی جائز نہيں ہے ليکن انہيں سنبهالنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ البتہ سونے اور چاندی کے برتن بنانا، ان برتنوں کو بنانے کی اجرت لينا اور خرید وفروخت کرنا جائز ہے ، مگر یہ کہ زینت کے لئے بنائے جائيں کہ وہ محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۵ پيالی کا کنڈا جو سونے اور چاندی سے بنا ہوا ہو، اگر اسے پيالی سے جدا کرنے کے بعد برتن کها جائے تو ا س پر سونے اور چاندی کے برتنوں کا حکم جاری ہوگا، ليکن اگر جدا کرنے کے بعد اسے برتن نہ کها جائے تو اس کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ایسے برتنوں کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں جن پر سونے اور چاندی کا پانی چڑھایا گيا ہو، ليکن جس برتن پر چاندی کا کام کيا گيا ہو اس برتن کے چاندی کے کام والے مقام سے نہ کوئی چيز کھائے، نہ پئے۔

مسئلہ ٢٣٧ اگرکسی دهات کو سونے اور چاندی ميں مخلوط کر کے برتن بنائے جائيں اور دهات اتنی مقدار ميں ہو کہ اس برتن کو سونے اورچاندی کا برتن نہ کها جائے تو اس کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٣٨ اگر غذا سونے چاندی کے برتنوں ميں رکھی ہو اور کوئی شخص اس نيت سے کہ سونے چاندی کے برتنوں ميں کھانا پينا حرام ہے اسے دوسرے برتنوں ميں انڈیل لے تو لوگوں کی نگاہوں ميں دوسرے برتنوں ميں کھانا، اگر پهلے برتن کا استعمال نہ سمجھا جاتا ہو تو ایسا کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩ حقےّ کے چلم کا سوراخوں والا ڈهکنا، تلوار، چھری یا چاقو کا ميان اور قرآن مجيد رکھنے کا ڈبہ اگر سونے چاندی سے بنے ہوں تو کوئی حرج نہيں ہے ۔ تاہم احتياط مستحب یہ ہے کہ سونے چاندی کی بنی ہوئی عطردانی، سرمہ دانی اور افيم دانی استعمال نہ کی جائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠ مجبوری کی حالت ميں سونے چاندی کے برتنوں ميں ضرورت پوری ہونے کی حد تک کھانے پينے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن اس سے زیادہ کھانا پينا جائز نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴ ١ ایسے برتن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں جس کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ یہ سونے چاندی کا ہے یا کسی اور چيز سے بنا ہوا ہے ۔

۴۰

حدیث

168۔ رسول خدا(ص): عقل سے رہنمائی حاصل کروتا کہ ہدایت پا جاؤ اور عقل کی نافرمانی مت کرو کہ پشیمان ہوگے۔

169۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل کے استعمال سے عاجز ہے وہ اس کے حاصل کرنے سے زیادہ عاجز ہے۔

170۔ امام علی(ع) : عقلمند ادب سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور چوپائے مار کھائے بغیر قابو میں نہیں آتے ۔

171۔ امام علی(ع) : جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

172۔ امام علی(ع) : جو شخص عقل میں جتنا پیچھے ہوتا ہے وہ جہالت میں اتنا ہی آگے ہوتا ہے ۔

173۔ امام علی(ع) : ہم خدا کی پناہ چاہتے ہیں عقل کے خواب غفلت سے اور لغزشوں کی برائیوں سے ۔

174۔ امام علی(ع) : جو شخص غور و فکر نہیں کرتا وہ بے وقعت ہو جاتا ہے اور جو بے وقعت ہو جاتا ہے اسکی کوئی عزت نہیں ہوتی۔

175۔ امام علی(ع) : اے لوگو! جن کے نفس مختلف اور دل متفرق ہیں، بدن حاضر اور عقلیں غائب ہیں، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس سے اس طرح فرار کر رہے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں۔

176۔ امام علی(ع) :نے اپنے اصحاب کومخاطب کرکے فرمایا: اے وہ قوم جسکے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب تمہارے خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں، تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے ۔

177۔ امام صادق(ع): جب خداا پنے کسی بندہ سے نعمت سلب کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسکی عقل کو بدل دیتا ہے ۔

178۔ امام کاظم (ع)نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجتیں تمام کی ہیں....پھر صاحبان عقل کو وعظ و نصیحت کی اور انہیں آخرت کی ترغیب دلائی اور فرمایا( اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے اور دار آخرت صاحبان تقویٰ کے لئے سب سے بہتر ہے ۔ کیا تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آرہی ہے )

۴۱

اے ہشام! پھر وہ لوگ جو فکر کرنے والے نہیں ہیں خدا نے انہیں اپنے عقاب سے ڈرایا اورفرمایا (پھر ہم نے سب کو تباہ و برباد بھی کر دیا، تم ان کی طرف سے برابر صبح کو گذرتے ہو ، اور رات کے وقت بھی تو کیا تمہیں عقل نہیں آرہی ہے ) اور فرمایا( ہم اس بستی پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کہ یہ لوگ بڑی بدکاری کر رہے ہیں، اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کےلئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

اے ہشام! عقل علم کے ساتھ ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے (اور یہ مثالیں ہم تمام عالمِ انسانیت کےلئے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے )

اے ہشام! پھر خدا نے غور وخوض نہ کرنے والوںکی مذمت کی اور فرمایا( جب ان سے کہا جاتا ہے جو کچھ خد انے نازل کیا ہے اسکی اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اسکی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا یہ ایسا ہی کرینگے چاہے انکے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں) اور فرمایا( جو لوگ کافر ہو گئے ہیں انکو پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور سمجھیں یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے ) اور فرمایا( اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو بظاہر کان لگا کر سنتے بھی ہیں لیکن کیا آپ بہروںکو بات سنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ سمجھتے بھی نہیںہیں) اور فرمایا( کیا آپکا خیال یہ ہے کہ انکی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب چوپایوںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہیں) اور فرمایا( یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہیںکرینگے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میںہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں انکی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیںہر گز نہیں انکے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے)۔اور فرمایا:( اور تم اپنے نفسوں کو بھلا بیٹھے جبکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)

۴۲

اے ہشام! خدا وند عالم نے اکثریت کی مذمت کی اور فرمایا( اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کرینگے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دینگے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کےلئے ہے اور انکی اکثریت بالکل جاہل ہے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہہ دیجئے کہ ساری حمد اسی کےلئے ہے اور انکی اکثریت عقل کا استعمال نہیں کر رہی ہے )

اے ہشام! پھر اللہ تعالیٰ نے اقلیت کی مدح کی اور فرمایا( اور ہمارے بندوں میں شکر گذار بندے کم ہیں) اور فرمایا( اور وہ بہت کم ہیں) اور فرمایا( اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ اس شخص کو صرف اس بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ) اور فرمایا( اور صاحبان ایمان کو بھی لے لو اور ان کے ساتھ ایمان والے بہت ہی کم ہیں) اور فرمایا( لیکن ان کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی) اور فرمایا( او رانکی اکثریت اس بات کو نہیںسمجھتی ۔)

179۔ا مام رضا(ع): بے عقل دینداروں کی طرف توجہ نہیں کی جائیگی۔

180۔ اسحاق بن عمار: میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں! میرا پڑوسی بہت زیادہ نمازیں پڑھتا ہے ، بے پناہ صدقہ دیتا ہے، کثرت سے حج کرتا ہے اور نہایت معقول انسان ہے ، امام نے فرمایا: اے اسحاق! اس کی عقل کیسی ہے ؟ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو جائے ، عقل سے کو را ہے ، پھر آپؑ نے فرمایا: اس کے اعمال اسی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں۔

۴۳

3/3

عقل کا حجت ہونا

181۔ رسول خدا(ص): حق جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رہو، جو چیزیں تم پر مشتبہ ہو جائیں انہیں اپنی عقل کے ذریعہ جدا کرو ، کیوں کہ عقل تم پر خدا کی حجت اور تمہارے پاس اسکی امانت اور برکت ہے ۔

182۔ امام علی(ع) : عقل حق کا رسول ہے ۔

183۔ امام علی(ع) : عقل ، باطنی شریعت اور شریعت، ظاہری عقل ہے ۔

184۔ اما م صادق(ع): نبی بندوں پر خدا کی حجت ہے اور عقل بندوں اور خدا کے درمیان حجت ہے ۔

185۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! خدا کی لوگوںپر دو حجتیں ہیں: حجت ظاہری اور حجت باطنی، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین،اور ائمہ ہیں لیکن حجت باطنی عقل ہے۔

186۔ امام کاظم (ع): نے نیز ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں پر عقل کے ذریعہ حجتیں تمام کی ہیں، (قوت) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد کی ہے اور براہین کے ذریعہ انہیں اپنی ربوبیت سے آشنا کیاہے ۔

187۔ ابویعقوب بغدادی : ابن سکیت نے امام رضاکی خدمت میں عرض کیا.....خدا کی قسم میں نے آپ کے مثل کسی کو نہیں دیکھا، آج خلق پر خدا کی حجت کون ہے ؟ فرمایاؑ: عقل ہے کہ جس کے ذریعہ خدا کے متعلق سچ بولنے والوں کی پہچان اور ان کی تصدیق ہوتی ہے ، خدا پرجھوٹ باندھنے والوں کی شناخت اور ان تکذیب کی ہوتی ہے، ابو یعقوب کہتے ہیںکہ ابن سکیت نے کہا: خدا کی قسم ، یہی( واقعی) جواب ہے ۔

۴۴

3/4

اعمال کے حساب میں عقل کا دخل

188۔ امام علی(ع) : خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لیگا۔

189۔ امام باقر(ع): خدا نے جو چیزیں موسیٰ بن عمران پر نازل کی ہیں ان میں سے بعض کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب موسیٰ پر وحی نازل ہوی....تو اس وقت خدا نے فرمایا: میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

190۔ امام باقر(ع): خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق روز قیامت دقیق حساب لیگا۔

191۔ امام باقر(ع): میں نے علی(ع) کی کتاب پر نظر ڈالی تو مجھے یہ بات ملی کہ: ہر انسان کی قیمت اور اسکی قدر و منزلت اسکی معرفت کے مطابق ہے اور خدا نے دنیا میں بندوںکو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق اسکا حساب لیگا۔

3/5

اعمال کی جزا میں عقل کااثر

192۔ رسول خدا(ص): اگر تمہارے پاس کسی شخص کے نیک چال چلن کے متعلق خبر پہنچے تو تم اس کے حسن عقل کو دیکھو، کیونکہ جزاعقل کے اعتبارسے دی جاتی ہے ۔

193۔رسول خدؐا: اگر کسی کوبہت زیادہ نماز گذار اور زیادہ روزہ دار پاؤ تواس پر فخر و ماہات نہ کرو جب تک کہ اسکی عقل کو پرکھ نہ لو۔

۴۵

194۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جونمازی، زکات دینے والاحج و عمرہ بجالانے والا اور مجاہدہے اسے روز قیامت اسکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

195۔ رسول خدا(ص): جنت کے سو درجے ہیں، نناوے درجے صاحبان عقل کے لئے ہیں اور ایک درجہ بقیہ تمام افراد کے لئے ہے ۔

196۔ رسول خدا(ص): ایک شخص پہاڑ کی بلندی پر ایک گرجا گھرمیں عبادت کیا کرتا تھا، آسمان سے بارش ہوئی زمین سر سبز ہو گئی جب اس نے گدھے کو چرتے دیکھا تو کہا: پروردگارا!! اگر تیرا بھی گدھا ہوتا تو میں اپنے گدھے کے ساتھ اسے بھی چراتا، چنانچہ جب یہ خبر بنی سرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کو ملی تو انہوںنے اس عابد کے لئے بد دعا کرنی چاہی تو خدا وند عالم نے اس نبی پر وحی نازل کی ، '' میں بندوںکو ان کی عقل کے مطابق جزا دونگا''۔

197۔ تحف العقول: ایک گروہ نے پیغمبر اسلامؐ کی خدمت میںایک شخص کی تعریف کی اور اسکی تمام خوبیوں کو بیان کیا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اس شخص کی عقل کیسی ہے؟ انہوںنے کہا: اے رسولخدؐا! ہم آپکو عبادت میں اسکی کوشش و جانفشانی اور اسکی دوسری خوبیوں کی خبر دے رہے ہیں اور آپ ہم سے اسکی عقل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟! آپؐ نے فرمایا: احمق اپنی حماقت کے سبب گنہگار سے زیادہ فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے ، یقینا بندے روز قیامت اپنی عقل کے مطابق بلند درجات پر فائز ہونگے اور اپنے پروردگار کا تقرب حاصل کرینگے ۔

198۔ رسول خدا(ص):( لوگوںنے جب آپکے سامنے کسی شخص کی بہترین عبادت کی تعریف کی) تو آپ نے فرمایا: اسکی عقل کو دیکھو؛ اس لئے کہ روز قیامت بندوں کو انکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

۴۶

199۔ امام باقر(ع): موسیٰ بن عمران ؑنے دیکھا کہ بنی اسرائیل کاا یک شخص طولانی سجدے کر تا ہے اور گھنٹوںخاموش رہتا ہے۔جہاں بھی موسیٰ ؑجاتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لیتا تھا ایک روز جناب موسیٰ کسی کام کے تحت ایک ہری بھری اور سبزوادی سے گذرے تو اس مرد عبادت گذار نے ایک سرد آہ بھری ، جناب موسیٰ نے اس سے کہا: کیوں آہ بھر رہے ہو؟! اس نے کہا: مجھے اس چیز کی تمنا ہے کہ کاش میرے پروردگار کاکوئی گدھا ہوتا تو میں اسے یہاںچراتا ، جناب موسیٰؑ اسکی اس بات سے اس قدر غمگین ہوئے کہ کافی دیر تک اپنی نظروں کو زمین کی طرف جھکائے رکھا، اتنے میں جناب موسیٰ پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰ میرے بندہ کی بات تم پر اتنی گراں کیوں گذری ؟!میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

200۔ سلیمان دیلمی( کابیان ہے کہ) میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت، دینداری اور فضیلتوں کا تذکرہ کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اسکی عقل کیسی ہے ؟! میںنے کہا: مجھے نہیں معلوم، فرمایا: ثواب عقل کے مطابق دیا جائیگا اس لئے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص سر سبز و شاداب، درختوں اور پانی سے لبریز جزیرہ میں خدا کی عبادت کیا کرتا تھا۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اس کے قریب سے گذرا تو اس نے کہا پروردگارا! اپنے اس بندہ کا ثواب مجھے دکھا دے ، پس خدا وند نے اسے اپنے اس بندہ کا ثواب دکھایا لیکن فرشتہ کی نظر میں وہ ثواب بہت معمولی تھا تو خدا نے فرشتہ پر وحی کی کہ اس کے ہمراہ ہو جاؤ، فرشتہ انسانی شکل میں اس کے پاس آیا اور عابد نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ کہا: میں ایک عبادت گذار شخص ہوں مجھے تمہاری اس جگہ عبادت کی اطلاع ملی تو میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ خد اکی عبادت کروں، لہذا پورے دن وہ فرشتہ اس عابد کے ساتھ رہا، دوسرے روز فرشتہ نے اس سے کہا تمہاری جگہ پاک و پاکیزہ ہے صرف عبادت کے لئے موزوں ہے ، مرد عابد نے کہا: ہماری اس جگہ میں ایک عیب ہے ، فرشتہ نے پوچھا : وہ عیب کیاہے ؟ کہا: ہمارے پروردگارکے پاس کوئی چوپایہ نہیںہے ، اگر خدا کے پاس ایک گدھا ہوتا تو ہم یہاں پر اسے چراتے اس لئے کہ یہ گھاس تلف ہو رہی ہے ، فرشتہ نے اس سے کہا: تمہارا پروردگار گدھا کیا کریگا؟ مرد عابد نے کہا: اگر خدا کے پاس گدھا ہوتا تو یہ گھاس برباد نہ ہوتی ، پس خدا نے فرشتہ پر وحی نازل کی ، کہ میں اس کو اسکی عقل کے مطابق ثواب دونگا۔

۴۷

چوتھی فصل عقل کے رشد کے اسباب

4/1

عقل کی تقویت کے عوامل

الف۔ وحی

( اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکاہے اور ہم نے تم پر روشن نور بھی نازل کر دیا ہے )

(اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ تاریکیوں سے نکا لکر روشنی میں لے آتا ہے اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھروں میں لے جاتے ہیں۔ یہی تو جہنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں)

(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں خود تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے ہو)

ملاحظہ کریں:بقرہ :242، نور: 61، یوسف:2، زخرف:3

۴۸

حدیث

201۔ امام علی (ع): پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے ، انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیںاور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں، تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔

202۔ امام علی (ع)نے رسولخدا ؐ کی بعثت کی توصیف میں فرمایا: خدا نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ خدا کی طرف راہنمائی اور ہدایت کریں، خدا نے انکے ذریعہ ہمیں گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکالا ہے۔

203۔ امام علی (ع): خدا وند متعال نے اسلام کو بنایا اور اسکے راستوں کو اس پر چلنے والوں کےلئے آسان کیا ، اسکے ارکان کو دشمنوںکے مقابل میں پائدار کیا، اسلام کو اسکے اطاعت گذاروں کےلئے باعث عزت اور اس میں داخل ہونے والوں کےلئے سبب صلح و آشتی ...ذہین و ہوشیار انسان کےلئے فہم اور عقلمند کے لئے یقین قرار دیاہے۔

204۔ امام علی (ع): یہاں تک کہ خدا وند سبحان نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جنکے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اورجنکی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود تھی، اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے، کوئی خدا کو مخلوقات کے شبیہ بنا رہا تھا، کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا، کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا، مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا۔

۴۹

ب۔ علم

قرآن

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور انہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا مگر صاحبان علم ہے ۔

حدیث

205۔ رسول خدا(ص): علم جہالت کی نسبت دلوںکی زندگی، تاریکی سے چھٹکارا پانے کے لئے آنکھوںکی روشنی، اور کمزوری سے نجات پانے کے لئے بدن کی طاقت ہے ۔

206۔ امام علی (ع): تم عقل کے ذریعہ تولے جاؤگے لہذا علم کے ذریعہ اسے بڑھاؤ۔

207۔ امام علی (ع): عقل کے رشد کے لئے بہترین چیز تعلیم ہے ۔

208۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربہ سے بڑھتی ہے ۔

209۔ امام علی (ع): علم، عقلمند کی عقل میں اضافہ کرتاہے ۔

210۔ امام صادق(ع): حکمت کے متعلق زیادہ غور وخوض عقل کو نتیجہ خیز بناتاہے ۔

211۔ امام صادق(ع): علم کی موشگافیاں کرنے سے عقل کے دریچے کھلتے ہیں۔

212۔ امام رضا(ع): جو شخص سوچتا ہے سمجھ لیتا ہے جوسمجھ لیتا ہے عقلمند ہو جاتا ہے ۔

۵۰

ج۔ ادب

213۔ رسول خدا(ص): حسن ادب عقل کی زینت ہے ۔

214۔ امام علی (ع): ہر چیز عقل کی محتاج ہے لیکن عقل ادب کی محتاج ہے۔

215۔ امام علی (ع): صاحبان عقل کو ادب کی اس طرح ضرورت ہے کہ جس طرح زراعت کوبارش کی ضرورت ہے ۔

216۔ امام علی (ع): عقل کا بہترین ہمنشیں ادب ہے ۔

217۔ امام علی (ع): ادب عقل کی صورت ہے ۔

218۔ امام علی (ع): عقل کی بھلائی ادب ہے ۔

219۔ امام علی (ع): ادب عقل کے لئے نتیجہ خیز اور دل کی ذکاوت ہے ۔

220۔ امام علی (ع): جس کے پاس ادب نہیںہے وہ عقلمند نہیں۔

221۔ امام علی (ع): جس طرح آگ کو لکڑی کے ذریعہ شعلہ ور کرتے ہو اسی طرح عقل کو ادب کے ذریعہ رشد عطا کرو۔

222۔ امام زین العاب دین (ع): علماء کا ادب عقل کی فراوانی کا سبب ہے ۔

۵۱

د۔ تجربہ

223۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربات سے بڑھتی ہے ۔

224۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ،عقل ایسی فطرت ہے جو تجربات سے پروان چڑھتی ہے ۔

225۔ امام علی (ع): فطرت کا بہترین مددگار ادب اور عقل کا بہترین معاون تجربہ ہے ۔

226۔ امام علی (ع): تجربات ختم نہیں ہوتے عاقل انہیں کے ذریعہ ترقی کرتا ہے۔

227۔ امام حسین (ع): طویل تجربہ عقل کی افزائش کا سبب ہے ۔

ھ۔ زمین میں سیر

قرآن

( کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ انکے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سن سکتے اس لئے کہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں)

( آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ہے اس کے بعد وہی آخرت میں ایجاد کریگا، بیشک وہی ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے )

( اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

(پس آج ہم تیرے بد ن کو بچا لیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوںکے لئے نشانی بن جائے ، اگر چہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں)

۵۲

حدیث

228۔ ابن دینار : خدا نے حضرت موسیؑ کو وحی کی کہ لوہے کی نعلین پہن کر اور عصا لیکر زمین میں گردش کرو اور (گذشتگان کی) عبرت و آثارڈھونڈھو ، یہاں تک کہ نعلین گھس جائے اور عصا ٹوٹ جائے۔

229۔ داؤد(ع): علماء سے کہہ دیجئے کہ آہنی عصا لیکر اور آہنی نعلین پہن کر علم کی تلاش میں نکلیں، یہاں تک کہ عصا ٹوٹ جائے اور نعلین پھٹ جائے ۔

و۔مشورہ

230۔ امام علی (ع): جو صاحبان عقل سے مشورہ لیتاہے وہ عقل کی روشنی سے مالا مال ہو جاتا ہے۔

ز۔ تقویٰ

231۔ سید ابن طاؤس : مجھے ایک کتاب دستیاب ہوئی...... جس پر( سنن ادریس)مرقوم تھا ، اس میں لکھا تھا یاد رکھو اور یقین کرو کہ تقوائے الٰہی بہترین حکمت اور عظیم ترین نعمت ہے اور ایسا وسیلہ ہے جو خیر کی طرف دعوت دیتا ہے اور نیکی ،فہم اور عقل کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔

۵۳

ح۔ جہاد بالنفس

232۔ امام علی (ع): اپنی شہوت کا مقابلہ کرو، اپنے غصہ پر قابو رکھو اور اپنی بری عادتوں کی مخالفت کرو تاکہ تمہاری روح پاک اور تمہاری عقل کامل ہو جائے اور اپنے پروردگار کا ثواب اچھی طرح حاصل کر سکو۔

223۔ امام صادق(ع): امیر المومنینؑ: نے اپنے کسی صحابی کے پاس خط لکھ کر اس طرح نصیحت کی ، تمہیں اور خود اپنے نفس کو اس خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ جس کی نافرمانی مناسب نہیں ، اس کے سوا کوئی امید نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بے نیازی نہیں، جو خوف خدا رکھتا ہے جلیل و عزیز، قوی اور سیر و سیراب ہوجاتا ہے خوف خدا اسکی عقل کو اہل دنیا سے باز رکھتا ہے ، اس کا بدن اہل دنیا کے ساتھ ہوتاہے لیکن اس کا دل اور عقل آخرت کا نظارہ کرتی ہے آنکھیں جن چیزوں کو حب دنیا سے لبریز دیکھتی ہیں نور دل کے ذریعہ انہیں بجھا دیتاہے ، حرام دنیا سے چشم پوشی اور شبہات سے پرہیز کرتا ہے خدا کی قسم حلال و مباح سے بھی اجتناب کرتا ہے صر ف ان ٹکڑوں پر گذاراکرتا ہے کہ جن سے اپنی حیات باقی رکھ سکے اور کھردرے و سخت لباس کے ذریعہ اپنی شرمگاہوں کو چھپاتا ہے۔ اپنی حاجتوں میں کسی پر اعتماد اور کسی سے امید نہیں رکھتا تاکہ اعتماد و امید صرف خالق کائنات سے ہو۔ کوشش و جانفشانی کرتا ہے کہ اپنے بدن کو اس قدر زحمت میں ڈالے کہ ان کی پسلیاں دکھائی پڑنے لگیں اور آنکھیں گہرائی میں چلی جائیں پھر خدا اس کے عوض بدن میں طاقت اور عقل کو قوت عطا کرتا ہے اور آخرت کے لئے جو ذخیرہ کرتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

۵۴

ط۔ ذکر خدا

234۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کا نور، روح کی زندگی اور سینوںکی جلاء ہے ۔

235۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ذکر خدا کرتا ہے اسکی عقل منور ہو جاتی ہے ۔

236۔ امام علی (ع): جو شخص خدائے سبحان کو یاد کرتا ہے خداا سکے دل کو زندہ رکھتا ہے اور اسکی عقل و خرد کو منور کر دیتا ہے۔

237۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کو انس اور دل کو روشنی عطا کرتا ہے اوررحمت خدا کو کھینچتا ہے۔

238۔ امام علی (ع): یاد خدا عقل کو ہدایت اور روح کو بصیرت عطا کرتا ہے۔

ی۔ دنیا سے بے رغبتی

239۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو دنیا کی بخشش و عطا سے بے نیاز رکھتا ہے اس نے عقل کو کامل کر لیاہے۔

ک: حق کا اتباع

240۔ رسول خدا(ص): ناصح کا اتباع عقل و خرد کی افزائش اور کمال کا سرچشمہ ہے ۔

241۔ اعلام الدین : جب معاویہ کے سامنے عقل کا تذکرہ آیا تو امام حسین (ع) نے فرمایا: عقل اتباع حق کے بغیر کامل نہیںہو سکتی، معاویہ نے کہا: آپ حضرات کے سینوںمیں صرف ایک چیز ہے ۔

242۔ امام کاظم (ع): جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: حق کے سامنے جھک جاؤ تاکہ لوگوں میں سب سے بڑے عقلمند قرار پاؤ۔

۵۵

ل۔ حکماء کی ہمنشینی

243۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی اختیار کرو تاکہ تماری عقل کامل ہو، نفس کو شرف ملے اور جہالت کا خاتمہ ہو جائے۔

244۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی دلوںکی حیات اور روح کی شفاء ہے ۔

م۔ جاہلوں پر رحم

245۔ امام علی (ع): محکم ترین عقل کی نشانیوںمیں سے جاہلوں پر رحم کرنا ہے ۔

ن۔ خدا سے مدد چاہنا

246۔ امام زین العاب دین (ع):خدایا! مجھے کامل عقل ، عزم مصمم، ممتاز تدبیر، تربیت یافتہ دل، بے شمار علم اور بہترین ادب عنایت فرما، ان تمام چیزوںکو میرے لئے مفید قرار دے اے ارحم الراحمین تیر رحمت کا واسطہ انہیں میرے لئے ضرر رساں قرار نہ دے۔

247۔ ان مناجات میں مرقوم ہے جو جبریل امین رسول خدا کے پاس لائے تھے، بار الٰہا! میرے گناہوںکو توبہ کے ذریعہ مٹا دے میری توبہ کی قبولیت کے ذریعہ میرے عیوب کو دھو دے اور انہیں میرے دل کے زنگ کے لئے صیقل اور عقل کی تیز بینی کا سبب قرار دے۔

248۔ امام مہدیؑ: نے اس دعا میں فرمایا جو محمد بن علی علوی مصری کو تعلیم دی ہے ، خدایا! میں تیری بارگاہ میںسوال کرتا ہوں.... کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج، میرے دل کی رہنمائی کر اور میری عقل کو میرے لئے سازگار بنا۔

۵۶

4/2

مقویات دماغ

الف: تیل

249۔۔ امام علی (ع): تیل جلد کو ملائم اور دماغ کو پڑھاتاہے ۔

250۔ امام صادق(ع): بنفشہ کا تیل دماغ کو تقویت عطا کرتا ہے ۔

ب: کدو

251۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے علی (ع)! تم کدو ضرور کھایا کرو کیوں کہ یہ دماغ اور عقل کوبڑھاتاہے۔

252۔ انس: رسول خدا(ص) کدو زیادہ کھاتے تھے، میںنے کہا: اے رسول خدا! آپ کدو پسند کرتے ہیں! فرمایا: کدو دماغ کو بڑھاتا اور عقل کو قوی کرتا ہے ۔

253۔ رسول خدا(ص): کدو(کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے اس لئے کہ عقل کو زیادہ اور دماغ کو بڑھاتا ہے ۔

254۔ رسول خدا(ص): میٹھا کدوکھایا کرو،خدا کے علم میں اس سے زیادہ سبک کوئی درخت ہوتا تو اسے برادرم یونس کے لئے اگاتا، تم میں سے جو بھی شوربا بنائے اسے چاہئے کہ اس میںکدو زیادہ ڈالے اس لئے کہ وہ دماغ اور عقل کو بڑھاتا ہے ۔

۵۷

ج:بہی

255۔ امام رضا(ع): بہی (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے۔

د:کرفس(خراسانی اجوائن)

256۔ رسول خدا(ص): کرفس (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کیوں کہ اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔

ھ: گوشت

257۔ امام صادق ؑ: گوشت، گوشت بڑھاتا ہے اور عقل میں اضافہ کرتا ہے جو شخص چند دنوں گوشت نہیں کھاتا اس عقل خراب ہو جاتی ہے ۔

258۔ امام صادق(ع): جو شخص چالیس دن گوشت نہیںکھاتا بد اخلاق ہو جاتا ہے اور اسکی عقل خراب ہو جاتی ہے اور جو بد اخلا ق ہو جائے اس کے کان میں آوازسے اذان دی جائے۔

۵۸

و: دودھ

259۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے دودھ پینا ضروری ہے کیوں کہ دودھ حرارت قلب کو اس طرح دور کرتا ہے کہ جس طرح انگلی پیشانی سے پسینہ کو صاف کرتی ہے ، اور کمر کو مضبوط، عقل کو زیادہ اور ذہن کو تیز کرتا ہے ، آنکھوںکو جلاء بخشتا ہے اور نسیان کو دور کرتا ہے ۔

260۔ رسول خدا(ص):اپنی حاملہ عورتوں کو دودھ پلاؤ کیوں کہ شکم مادر میں جب بچہ کی غذا ددھ ہوگی تو اس کا دل قوی اور دماغ اضافہ ہوگا۔

ز: سرکہ

261۔ امام صادق(ع): سرکہ عقل کو قوی بناتا ہے ۔

262۔ محمد بن علی ہمدانی : خراسان میں ایک شخص امام رضا(ع) کی خدمت میں تھا آپ ؑ کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا کہ جس پر سرکہ اور نمک تھا، امام ؑ نے کھانے کا آغا ز سرکہ سے کیا، اس شخص نے کہا : میں آپ پر فدا ہو جاؤں! ہمیں آپ نے نمک سے آغاز کرنے کا حکم دیا ہے ؟ فرمایاؑ: یہ بھی ایسا ہی ہے ، سرکہ ذہن کو قوی بناتاہے اور عقل کو بڑھاتاہے ۔

ح: سداب( کالا دانہ)

263۔ امام رضا(ع): سداب عقل کو بڑھاتاہے ۔

۵۹

ط: شہد

264۔ امام کاظمؑ: شہد ہرمرض کےلئے شفاء ہے جو ناشتہ میں ایک انگلی شہد کندر کےساتھ کھائے اسکا بلغم زائل ہو جائیگا، صفراء کو زائل کرتا ہے اور سودا میں تلخی نہیں پیدا ہونے دیتا،ذہن کو صاف و شفاف اور حافظہ کو قوی بناتا ہے ۔

ی: انار کو اس کے باریک چھلکوں کے ساتھ کھانا

265۔ امام صادق(ع): انار کو اس کے باریک جھلکوںکے ساتھ کھاؤ کہ معدہ کو صاف اور ذہن کو بڑھاتا ہے ۔

ک: پانی

266۔ ابو طیفور متطبِّب: کا بیان ہیکہ میں امام کاظم (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اورانہیں پانی پینے سے منع کیا، امام ؑ نے فرمایا: پانی سے کیا نقصان ہے بلکہ کھانے کو معدہ میں گھماتا ہے ، غصہ کو ختم کرتا ہے ، دماغ کو بڑھاتا ہے اورتلخی کو دور کرتاہے ۔

ل: حجامت(فصد کھلوانا)

267۔ رسول خدا(ص): حجامت (فصد کھلوانا)عقل کو بڑھاتی اور حافظہ کو قوی کرتی ہے ۔

268۔ رسول خدا(ص): ناشتہ کے وقت حجامت زیادہ مفید ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے،حافظہ قوی اور حافظ کے حافظہ میں اضافہ ہوتاہے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511