توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207780 / ڈاؤنلوڈ: 4355
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

مال تلف ہوجانے کی صورت ميں اگر فطرہ لينے والا جانتا تھا کہ اسے دی جانے والی چيز فطرہ ہے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے اور اگر نہيں جانتا تھا تو اس کا عوض دینا اس پر واجب نہيں اور ضروری ہے کہ انسان دوبارہ فطرہ دے۔

مسئلہ ٢٠ ۴ ٠ جو شخص کهے کہ ميں فقير ہوں اگر جانتا ہو کہ وہ پهلے فقير تھا تو اسے فطرہ دیا جا سکتا ہے اور جس کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ وہ فقير تھا یا نہيں اور کهے کہ ميں فقير ہوں اگر اس کی بات سے اطمينان حاصل نہ ہو تو بنابر احتياطِ واجب اسے فطرہ نہيں دیا جاسکتا اور اگر جانتا ہو کہ پهلے فقير نہيں تھا تو جب تک اس کی بات سے اطمينان حاصل نہ ہوجائے اسے فطرہ نہيں دیا جا سکتا۔

فطرے کے متفرق مسائل

مسئلہ ٢٠ ۴ ١ انسان کے لئے ضروری ہے کہ فطرہ قصدِ قربت،جيسا کہ وضو کے مسائل ميں بيان کيا گيا،اور اخلاص کے ساته دے اور فطرہ دیتے وقت فطرہ دینے کی نيت کرے۔

مسئلہ ٢٠ ۴ ٢ ماہِ رمضان سے پهلے فطرہ دینا صحيح نہيں ہاں ماہ رمضان داخل ہونے کے بعد دے سکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ ماہ رمضان ميں بھی نہ دے البتہ یہ کيا جا سکتا ہے کہ ماہ رمضان سے پهلے فقير کو قرض دے اور فطرہ واجب ہونے کے بعد قرض کو فطرے کی بابت حساب کر لے۔

مسئلہ ٢٠ ۴ ٣ ضروری ہے کہ فطرے کے طور پر دی جانے والے گيہوں یا کسی اور چيز ميں کوئی اور چيزیا مٹی ملی ہوئی نہ ہواور اگر کوئی چيز ملی ہوئی ہو ليکن فطرے کی چيز خالصاً ایک صاع کے برابر ہو اور اسے ملی ہوئی چيز سے جدا کرنا زحمت اور خرچے کا باعث نہ ہو یا ملی ہوئی چيز کی مقدار اتنی کم ہوکہ اسے خالص گندم ہی کها جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٠ ۴۴ احتياطِ واجب کی بنا پر کسی نقص رکھنے والی چيز سے فطرہ دینا کافی نہيں ۔

مسئلہ ٢٠ ۴۵ جو شخص کئی افراد کا فطرہ دے رہا ہو ضروری نہيں کہ وہ سب کے لئے ایک ہی چيز دے مثلا اگر کچھ کے فطرے ميں گندم اور کچھ کے فطرے ميں جَو دے توکافی ہے ۔

مسئلہ ٢٠ ۴۶ عيد فطر کی نماز پڑھنے والے شخص کے لئے احتياطِ واجب کی بنا پرضروری ہے کہ نماز عيد سے پهلے فطرہ دے دے، ليکن اگر نماز عيد نہ پڑھے تو فطرہ دینے ميں ظہر تک تاخير کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٠ ۴ ٧ اگر اپنے مال کی کچھ مقدار فطرے کی نيت سے عليحدہ رکھے ليکن عيد کے دن ظہر تک مستحق کو نہ دے تو جب بھی اسے دے فطرے کی نيت کرے۔

۳۲۱

مسئلہ ٢٠ ۴ ٨ اگر فطرہ واجب ہونے کے وقت فطرہ نہ دے اور نہ ہی جدا کرے تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ بعد ميں اس نيت سے فطرہ دے کہ جو خدا مجھ سے چاہتا ہے اسے ادا کر رہا ہوں۔

مسئلہ ٢٠ ۴ ٩ اگر فطرہ جدا کردے تو اسے اپنے لئے اٹھ ا کر اس کی جگہ دوسرا مال نہيں رکھ سکتا۔

مسئلہ ٢٠ ۵ ٠ اگر انسان کے پاس کوئی ایسا مال ہو جس کی قيمت فطرے سے زیادہ ہو تو اگر وہ فطرہ دئے بغير نيت کرے کہ اس مال کی کچھ مقدار فطرے کے لئے ہے ،اس طرح سے کہ اس ميں کچھ اس کا مال ہو اور کچھ فطرہ ہو تو اس ميں اشکال ہے ليکن اگر تمام مال فقير کودے دینا چاہتا ہو تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٠ ۵ ١ اگر فطرے کے لئے رکھا ہوا مال تلف ہوجائے تو فقير تک دسترسی رکھنے کے باوجود فطرے کی ادائيگی ميں تاخير کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس کا عوض دے اور اگر فقير تک دسترسی نہ ہو اور اس کی حفاظت ميں کوتاہی نہ کی ہو تو ضامن نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢٠ ۵ ٢ اگر اپنے علاقے ميں مستحق مل جائے تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ فطرہ دوسری جگہ نہ لے جائے اور اگر دوسری جگہ لے جائے اور تلف ہوجائے تو اس کا عوض دینا ضروری ہے ۔

حج کے احکام

مسئلہ ٢٠ ۵ ٣ بيت الله کی زیارت اور مقررہ اعمال کی ادائيگی کو حج کہتے ہيں جو مندرجہ ذیل شرائط رکھنے والے پر پوری زندگی ميں ایک مرتبہ واجب ہوتا ہے :

١) بالغ ہو ٢) عاقل ہو ٣) آزادهو ۴) حج پر جانے کی وجہ سے کسی ایسے حرام کام کو کہ جس کا ترک کرنا حج سے زیادہ اہم ہو انجام دینے پر یا کسی ایسے واجب عمل کو جو حج سے زیادہ اہم ہو ترک کرنے پر مجبور نہ ہو۔

۵) استطاعت رکھتا ہو۔

مستطيع ہونے کے لئے چند چيزیں معتبر ہيں :

١) اس کے پاس زادِ راہ اور سواری یا اتنا مال ہو کہ اسے مهيا کر سکے۔

٢) ایسی صحت اور اتنی طاقت رکھتا ہو کہ مکہ جا کر حج کو بجا لا سکے۔

٣) راستے ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور اگر راستہ بند ہو یا انسان کو خوف ہو کہ راستے ميں یا اعمال حج کی ادائيگی کے دوران اس کی جان یا آبرو چلی جائے گی یا اس کے مال کو لوٹ ليا جائے گا تو اس پر حج واجب نہيں ليکن اگرکسی دوسرے راستے سے جانا ممکن ہو اگرچہ وہ راستہ دور ہو ضروری ہے کہ اس راستے سے جائے۔

۳۲۲

۴) اس کے پاس اعمالِ حج کی ادائيگی کے برابر وقت ہو۔

۵) جن افراد کے اخراجات دینا اس پر واجب ہے جيسے بيوی اور بچے اور جن افراد کے اخراجات دینا لوگ ضروری سمجھتے ہيں جيسے وہ نوکر یا ملازمہ جس کی اسے ضرورت ہو،ان سب کے اخراجات اس کے پاس موجود ہوں۔

۶) واپس لوٹنے کے بعد اپنے اور اہل وعيال کے لئے اپنی حيثيت کے مطابق کام دهندہ،کهيتی باڑی،ملکيت کی آمدنی یا کوئی اور ذریعہ معاش رکھتا ہو تاکہ زندگی گزارنے ميں مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

مسئلہ ٢٠ ۵۴ جس شخص کے لئے ذاتی مکان اتنا ضروری ہو کہ اس کے نہ ہوتے ہوئے حرج ومشقت ميں پڑ جائے تو اس پر حج اسی وقت واجب ہو گا کہ جب گھر کی رقم بھی اس کے پاس موجود ہو۔

مسئلہ ٢٠ ۵۵ جو عورت حج پر جا سکتی ہو اگرپلٹنے کے بعد اس کے پاس مال نہ ہو اور اس کا شوہر بھی اس کا خرچ نہ دے اور وہ زندگی گزارنے ميں حر ج ومشقت ميں پڑجائے تو اس پر حج واجب نہيں ۔

مسئلہ ٢٠ ۵۶ اگر کسی کے پاس زادِ راہ اور سواری کا جانور نہ ہو اور دوسرا اسے حج پر جانے کی پيشکش کرے اور کهے:”سفرِ حج کے دوران تمهارا اور تمهارے اہل و عيال کا خرچہ ميں دوں گا“،تو یہ اطمينان رکھنے کی صورت ميں کہ وہ اس کا خرچہ دے گا،اس پر حج واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ٢٠ ۵ ٧ اگر حج پر آنے جانے اوراس دوران ميں اہل واعيا ل کا خرچہ کسی کو اس شرط پربخشا جائے کہ حج ادا کرو تو واجب ہے کہ قبول کرے اور حج بھی اس پر واجب ہو جا ئے گا چاہے واپسی پر اپنی زندگی گزارنے کے لئے مال نہ رکھتا ہویا مقروض ہو مگر یہ کہ قرض ادا کرنے کا وقت پهنچ گيا ہو،قرض خواہ مطالبہ بھی کر رہا ہو اور مقروض حج نہ کرنے کی صورت ميں (هی) قرض کی ادائيگی پر قدرت رکھتا ہو یا قرض مدت دار ہو ليکن مقرو ض جانتا ہو کہ حج کرنے کی -صورت ميں وہ وقت پر قرض ادا نہيں کر سکے گا۔

مسئلہ ٢٠ ۵ ٨ اگر کسی کے حج پر آنے جانے اور اس مدت ميں اس کے اہل وعيا ل کے اخراجات کسی کو یہ کہہ کر دئے جائيں کہ حج پر جاؤ ليکن یہ مال اس کی ملکيت ميں نہ دیا جائے تو اطمينان رکھنے کی صورت ميں کہ اس سے مال واپس نہيں ليا جائے گا،اس پر حج واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ٢٠ ۵ ٩ اگر مال کی اتنی مقدار جو حج کے لئے کافی ہو کسی کو اس شرط پر دی جائے کہ سفرِ حج کے دوران مال دینے والے کی خدمت کرے تو اس پر حج واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢٠ ۶ ٠ اگر کسی کو مال کی کچھ مقدار دی جائے اور حج اس پر واجب ہو جائے چناچہ اگر وہ حج کر لے تو چاہے بعد ميں اسے اتنا مال مل جائے کہ اپنے وطن سے حج پر جا سکے،دوبارہ حج اس پر واجب نہيں ہو گا۔

۳۲۳

مسئلہ ٢٠ ۶ ١ اگر تجارت کے لئے مثلاّجّدہ تک جا ئے ا ور اتنامال اس کے ہاتھ لگے کہ وہاں سے مکہ جانے کے لئے شرائط استطاعت موجود ہوں تو ضروری ہے کہ حج کرے اور حج کر لينے کی صورت ميں چاہے بعد ميں اتنا مال مل جائے کہ اپنے وطن سے مکہ جا سکتا ہو،دوبارہ حج واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٠ ۶ ٢ جو شخص بذاتِ خود کسی دوسرے کی جانب سے حج کرنے پر اجير بنا ہو اگر وہ خود نہ جاسکے اور کسی دوسرے کو اپنی جانب سے بھيجنا چاہے تو ضروری ہے کہ جس نے اسے اجير بنایا تھا اس سے اجازت لے۔

مسئلہ ٢٠ ۶ ٣ اگر کوئی شخص مستطيع ہونے کے باوجود حج نہ کرے اور فقير ہو جائے تو ضروری ہے کہ زحمت برداشت کر کے ہی سهی بعد ميں حج کرے۔اور اگر کسی طرح حج پر نہ جا سکتا ہو اور کوئی اسے حج کے لئے اجير بنا ئے تو ضروری ہے کہ مکہ جا کر جس شخص کے لئے اجير بنا ہے اس کے حج کو بجا لائے اور اگرممکن ہو تو اگلے سال تک مکہ ميں ٹھ هرے اور اپنے لئے حج کرے اور اگر ممکن ہو کہ اجير بن کر اجرت نقد لے اور جس نے اسے اجير بنایا ہے وہ راضی ہوجائے کہ اس کا حج آئندہ سال انجام دیا جائے تو ضروری ہے کہ پهلے سال اپنے لئے اور آئندہ سال جس کے لئے اجير بنا تھا اس کا حج کرے۔

مسئلہ ٢٠ ۶۴ اگر استطاعت کے پهلے سال ميں مکہ جائے اور شریعت کے اعتبار سے مقررہ وقت ميں عرفات اور مشعرالحرام ميں نہ پهنچ سکے تو اس صور ت ميں کہ اس کے لئے پهلے جا کر پهنچنا ممکن نہ تھا اگر آئندہ سالوں ميں مستطيع نہ ہو تو اس پر حج واجب نہيں ۔ ليکن اگر اس کے لئے جلدی نکل کر ان مقامات تک پهنچنا ممکن تھا یا وہ پچهلے سالوں ميں مستطيع ہونے کے باوجود حج پر نہيں گيا تھا تو ضروری ہے کہ چاہے زحمت برداشت کر کے ہی سهی حج کرے۔

مسئلہ ٢٠ ۶۵ جو شخص استطاعت کے پهلے سال ميں حج نہ کرے اور بعد ميں ب-ڑھاپے،بيماری یا ناتوانی کی وجہ سے حج نہ کر سکے یا اس کے لئے کوئی حرج ہو اور نا اميد ہو جائے کہ بعد ميں وہ بغير حرج کے خود حج کر سکے گا تو ضروری ہے کہ فوراًکسی دوسرے کو اپنی طرف سے بھيجے بلکہ اس پهلے سال ہی جس ميں حج پر جانے کی مقدار ميں مال ملا ہو،اگر بڑھاپے،بيماری یا ناتوانی کی وجہ سے حج نہ کر سکتا ہو یا اس کے لئے کوئی حرج ہو اور بعد ميں حج کرنے سے نااميد ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ کسی کو اپنی جانب سے حج ادا کرنے کے لئے بھيجے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر وہ خود مرد ہو تو کسی ایسے شخص کو نائب بنا ئے جو پهلی بار حج پر جا رہا ہو۔

مسئلہ ٢٠ ۶۶ جو شخص کسی دوسرے کی طرف سے حج کے لئے اجير بنا ہو ضروری ہے کہ طواف النساء بھی اس کی طرف سے بجا لائے اور اگر انجام نہ دے تو عور ت خود اس اجير پر حرام ہو جائے گی۔

۳۲۴

مسئلہ ٢٠ ۶ ٧ اگر طواف النساء کو جهالت کی وجہ سے انجام نہ دے یا صحيح طور پر بجا نہ لایا ہو یا بھول جائے تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ خود بجا لائے اور اگر انجام دینے پر قدرت نہ رکھتا ہو یا حرج ہو تو کسی کو نائب بنا سکتا ہے ليکن جان بوجه کر انجام نہ دینے کی صورت ميں ضروری ہے کہ خود پلٹے اور بجالائے مگر یہ کہ اس کے لئے ممکن نہ ہو یا حرج ہو تو کسی کو نائب بنا سکتا ہے ۔

”اور مسائلِ حج کی تفصيلات مناسکِ حج ميں مذکور ہيں “۔

امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے احکام

مکلف پر اہم ترین واجبات ميں سے ایک امر بالمعروف اور نهی عن المنکر ہے ۔

ارشادِ رب العزت ہے :

و( َالْمُو مِْٔنُوْنَ وَ الْمُو مِْٔنَاتُ بَعْضُهُمْ ا ؤَْلِيَاءُ بَعْضٍ یَّا مُْٔرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهونَ عَنِ الْمُنْکَرِ ) ترجمہ: اور مومن مرد اور عورتيں، ان ميں سے بعض افراد دوسرے بعض کے دوست ہيں ، یہ امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کرتے ہيں ۔

امر بالمعروف اور نهی عن المنکرانبياء خدا عليهم السلام کا راستہ ہے ۔ اسی الهی ذمہ داری کے ذریعے باقی دینی فرائض اور قوانين مرحلہ عمل تک پهنچتے ہيں ۔ اسی سے رزق و روزی حلال ہوتے ہيں ، لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے اور حق اپنے اصل حقدار تک پهنچتا ہے ۔اسی سے زمين منکرات اور برائيوں کی آلودگی سے طهارت پاکر اچھائيوں اور نيکيوں سے آباد ہوتی ہے ۔

امام صادق عليہ السلام کی یهی حدیث کافی ہے جس ميں آپ عليہ السلام فرماتے ہيں کہ:رسول اکرم(ص) نے فرمایا:”تمهاری کيا کيفيت ہوگی جب تمهاری عورتيں فاسد اور تمهارے جوان فاسق ہو جائيں گے جب کہ تم امر بالمعروف یا نهی عن المنکر نہ کر رہے ہوگے؟“

کهاگيا:”کيا ایسا ہوجائے گا، یا رسول الله(ص) !!؟“

فرمایا:”هاں، بلکہ اس سے بھی بدتر ہوگا۔تمهارا کيا حال ہوگا جب تم امر بالمنکر اور نهی عن المعروف کروگے؟“

کها:”اے الله کے رسول(ص)! کيا ایسا ہوجائے گا!؟“ فرمایا:”هاں، بلکہ اس سے بھی بدتر، کيا حال ہوگا تمهارا جب تم معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھو گے!؟“

مسئلہ ٢٠ ۶ ٨ امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کرنا ان شرائط کی موجودگی ميں جن کا تذکرہ کيا جائے گا، واجب کفائی ہے ، یعنی اگر مومنين کی اتنی تعداد اپنی اس شرعی ذمہ داری کو پورا کردے کہ کافی ہوجائے تو دوسروں کی ذمہ داری بھی ختم ہوجائے گی، ورنہ سب گنهگار ہوں گے۔

۳۲۵

مسئلہ ٢٠ ۶ ٩ امر بالمعروف اور نهی عن المنکر چند شرائط کی موجودگی ميں واجب ہوتے ہيں :

١) امر و نهی کرنے والا ، معروف اور منکر کا علم رکھتا ہو، لہٰذا جو شخص خود جاہل ہو کہ معروف کيا ہے اور منکر کيا، ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ کام اپنے ذمہ نہ لے، بلکہ جاہل شخص کا امربالمعروف اور نهی عن المنکر کرنا خود ایک منکر ہے جس سے نهی کرنا ضروری ہے ۔

٢) اس بات کا احتمال ہو کہ بات کا اثر ہوگا۔ لہٰذا اگر جانتا ہو کہ معروف کو ترک کرنے والا یا منکر کو انجام دینے والا بات کا اثر نہ لے گا تو امر و نهی واجب نہيں ہيں ۔

٣) معروف کو ترک کرنے والا یا منکر کو انجام دینے والا اپنے عمل کو چھوڑ نہ چکا ہو، لہٰذا اگر وہ اپنا عمل چھوڑ چکا ہو یا احتمال ہو کہ اپنا عمل چھوڑ چکا ہے تو امرو نهی واجب نہيں ہيں ۔

۴) وہ شخص معروف کو ترک کرنے یا منکر کو انجام دینے ميں معذور نہ ہو۔ معذور، مثلاً یہ کہ اس کا مجتهد اس عمل کو حرام یا واجب نہ سمجھتا ہو، چاہے امر و نهی کرنے والے کے اجتهاد یا تقليد کے اعتبار سے وہ کام حرام یا واجب ہو۔

۵) یہ کہ اگر اس بات کا علم نہ ہو کہ بات کا اثر ہوگا تو ضروری ہے کہ اس کے امر ونهی کے نتيجے ميں کسی مسلمان کی جان، مال یا آبرو کو ضرر نہ پهنچ رہا ہو۔جب کہ اگر جانتا ہو کہ اثر ہوگا تو ضروری ہے کہ اہم اور مهم کا خيال کرے، لہٰذا اگر امر بالمعروف یا نهی عن المنکر خود اس معروف یا منکر کی اہميت کے اعتبار سے نقصان کے مقابلے ميں شرعاً زیادہ اہم ہو تو امر و نهی کی ذمہ داری ختم نہ ہوگی۔

مسئلہ ٢٠٧٠ جب بھی یقين یا اطمينان کی بنا پر کسی مکلف کے لئے ثابت ہوجائے کہ امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کی شرائط موجودہيں تو امر و نهی واجب ہوجاتے ہيں ، جب کہ اگر کسی ایک شرط کے بارے ميں بھی شک ہو تو واجب نہيں ہيں ۔

مسئلہ ٢٠٧١ اگر معروف کوترک کرنے والا یا منکر کو انجام دینے والا یہ دعویٰ کرے کہ اپنے کام ميں شرعی عذر رکھتا ہے توپہر امر ونهی واجب نہيں ہيں ۔

مسئلہ ٢٠٧٢ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ دین ميں بدعت کو رواج دینے والوں اور ان لوگوں سے جو دین ميں فساد اور عقائد حقّہ کے تزلزل کا باعث بنتے ہيں ، برائت و بيزاری کا اظهار کرے اور دوسروں کو ان کے فتنہ و فساد سے بچائے۔

مسئلہ ٢٠٧٣ ترکِ معروف یا انجام منکر کی اطلاع حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے گهروں ميں گهسنا اور ان کے بارے ميں تجسس کرنا جائز نہيں ہے ۔

۳۲۶

مسئلہ ٢٠٧ ۴ امر بالمعروف و نهی عن المنکر اس صورت ميں واجب نہيں ہيں کہ جب امر و نهی کی وجہ سے امر و نهی کرنے والا ایسی مشقت اور حرج ميں پڑ جائے جسے عام طور پر عرف ميں برداشت نہيں کيا جاتا، سوائے اس مقام کے جهاں شریعت کی نگاہ ميں کام کی اہميت اتنی زیادہ ہو کہ حرج کی وجہ سے بھی ذمہ داری ختم نہ ہورہی ہو، مثلاً دین یا مسلمانوں کی جان کی حفاظت۔

مسئلہ ٢٠٧ ۵( یَا اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَهْلِيْکُمْ نَارًا وُّقُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ) یعنی اے ایمان لانے والو! اپنے آپ اور اپنے اہل کو جهنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندهن انسان اور پتّھر ہوں گے۔

خداندعالم کے اس فرمان کی روشنی ميں ہر مکلف پر واجب موکد ہے کہ اپنے اہل و عيال کو امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کرے ، جن چيزوں کا خود کو حکم دیتا ہے انہيں بھی حکم دے اور جن چيزوں سے خود کو روکتا ہے انہيں بھی روکے۔

مسئلہ ٢٠٧ ۶ ہر مکلف پر واجب ہے کہ منکرات سے دل ميں کراہت رکھے، چاہے ان کو رکوا نہ سکتا ہو۔

امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کرنے کے لئے پهلے قلبی کراہت کا اظهار کرے، چاہے وہ اس طریقے سے ہو کہ معروف کو ترک کرنے والے یا منکر کو انجام دینے والے سے تعلقات توڑ لے اور زبان کے ذریعے وعظ و نصيحت، معروف کے ثواب اور منکر کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے معروف کی جانب راغب اور منکر سے دور کرے۔

اگر یہ دو طریقے اثر انداز نہ ہوں اور مار پيٹ کے بغير روکنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس طرح سے ہو کہ قصاص اور دیت کا سبب نہ بنے، لہٰذا مثلاً کوئی زخم آنے کی صورت ميں اگر جان بوجه کر ہو تو زخمی شخص قصاص کر سکتا ہے اور غلطی سے ہو تو دیت لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٠٧٧ امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ امرو نهی کرتے وقت شارع مقدس کے اس مقصد کو ذهن ميں رکھے کہ گمراہ کی راہنمائی ہو اور فاسد شخص کی اصلاح ہو۔ یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب وہ کسی بھی گنهگار شخص کو اپنے بدن کے ایک فاسد عضو کی مانند سمجھے اور جس طرح سے اپنے پارہ تن کے معالجہ کے لئے تگ و دو کرتا ہے اسی انداز سے ان لوگوںکے علاج کے لئے کوشش کرے جو روحانی امراض و مفاسد ميں مبتلا ہيں ۔

امربالمعروف و نهی عن المنکر کرنے والے کو اس بات سے غافل نہيں ہونا چاہئے کہ شاید اس گنهگار کے نامہ اعمال ميں کوئی ایسی نيکی ہو جس کی وجہ سے خداوند متعال اسے بخش دے، جب کہ خود اس کے نامہ اعمال ميں کوئی ایسا گناہ ہو کہ جس کی وجہ سے خداوند متعال اس کا مواخذہ کرے۔

مسئلہ ٢٠٧٨ مستحبات کے سلسلے ميں امر بالمعروف کرنا مستحب ہے ۔

۳۲۷

خاتمہ:

اگر چہ ہر گناہ بڑا ہے ، اس لئے کہ خداوند متعال کی عظمت و جلال اور کبریائی کی کوئی حد نہيں ۔ لہٰذا اس بات کے مدنظر کہ خدائے متعال کی معصيت، در حقيقت علی و عظيم خدا کی معصيت ہے ، بڑی چيز ہے ۔ روایت ميں آیا ہے :”یہ مت دیکھو کيا گناہ کيا ہے ، بلکہ یہ دیکھو کہ نافرمانی کس کی کر رہے ہو“۔ البتہ گناہوں کو آپس ميں پرکھنے کے اعتبار سے بعض گناہ زیادہ بڑے ہيں اور ان کا عذاب زیادہ شدید ہے ۔ بعض گناہوں پر صراحت کے ساته یا ضمنی طور پر عذاب اور آگ کی وعيد سنائی گئی ہے ۔ اہلبيت عصمت عليهم السلام کی روایات ميں انہيں گناہ کبيرہ کها گيا ہے ، جب کہ اس آیہ کریمہ کے اعتبار سے کہ:

( اِنَ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَا تُنْهونَ عَنْهُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَيِّئَاتِکُمْ )

ترجمہ: اگر ان گناہان کبيرہ سے دوری اختيار کروگے جن سے تمہيں روکا گيا ہے ، تو ہم تمهاری برائيوں اور خرابيوں سے پردہ پوشی کریں گے۔

ان گناہوں سے بچنا دوسرے گناہوں کی بخشش کا سبب ہے ۔

بعض فقهاء اعلی الله مقامهم نے ان گناہوں کی تعداد ٧٠ تک جب کہ کچھ اور بزرگان نے ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ بتا ئی ہے ۔ ہم اُس فهرست ميں سے زیادہ پيش آنے والے گناہوں کا تذکرہ کر رہے ہيں :

١) خداوند متعال سے شرک اور کفر اختيار کرنا کہ جو کسی بھی گناہِ کبيرہ سے قابلِ قياس ہی نہيں ۔

٢) خداوندمتعال کی رحمت اور شفقت سے نا اميد اور مایوس ہونا۔

٣) خداوند متعال کی سزائے اعمال سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا۔

۴) خدا کی جھوٹی قسم کھانا۔

۵) ان چيزوں کا انکار کرنا جنہيں خداوند متعال نے نازل فرمایا ہے ۔

۶) اولياء الهی سے جنگ کرنا۔

٧) قطع طریق اور زمين ميں فساد پهيلانے کے ذریعے خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے جنگ کرنا۔

٨) پروردگار کے نازل کردہ احکام کے علاوہ کسی چيز کا حکم لگانا۔

٩) خدا، رسول(ص) اور اوصياء عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا۔

١٠ ) مساجد ميں ذکر خداوند متعال سے روکنا اور انہيں مخروبہ بنانے کی کوشش کرنا۔

۳۲۸

١١ ) واجب زکات نہ نکالنا۔

١٢ ) واجب جهاد ميں شرکت نہ کرنا۔

١٣ )مسلمانوں کا کفار کے ساته جنگ سے فرار کرنا۔

١ ۴ ) اضلال یعنی خداوند متعال کے راستے سے گمراہ کرنا۔

١ ۵ ) گناہان صغيرہ پر مصر ہونا۔

١ ۶ ) جان بوجه کر نماز یا کسی اور واجب الهی کو ترک کرنا۔

١٧ )ریا کاری کرنا۔

١٨ )لهو (لعب)، مثلاً غنا اور ستار بجانے ميں مشغول ہونا۔

١٩ ) ظالم کو ولی بنانا۔

٢٠ )ظالم کی مدد کرنا۔

٢١ ) عهد و قسم کو توڑ دینا۔

٢٢ )تبذیر ( مال کو فاسد کرنا اور اسے بے کار ميں خرچ کرنا)

٢٣ )اسراف۔

٢ ۴ ) شراب نوشی۔

٢ ۵ ) جادو۔

٢ ۶ ) ظلم۔

٢٧ )غنا۔

٢٨ )عاق والدین ہونا(ماں باپ کو اذیت دینا اور ان سے بدسلوکی کرنا)

٢٩ )قطع رحم۔

٣٠ )لواط۔

٣١ )زنا۔

٣٢ )پاکدامن عورت پر زنا کی تهمت لگانا۔

٣٣ )دلّالی (عورت اور مرد کو زنا کے لئے یا دو مردوںکو لواط کے لئے ایک دوسرے سے ملوانا)

۳۲۹

٣ ۴ ) چوری۔

٣ ۵ ) سود خوری۔

٣ ۶ ) سحت ( حرام ) کھانا۔ جيسے شراب کی قيمت، زانيہ کی اجرت یا وہ رشوت جو حاکم حکم لگانے کے لئے لے۔

٣٧ )ناپ تول ميں کمی کرنا۔

٣٨ )مسلمانوں سے غشّ (ملاوٹ) کرنا۔

٣٩ )یتيم کا مال ظلم کرتے ہوئے کھانا۔

۴ ٠ )جھوٹی گواہی دینا۔

۴ ١ )گواہی چھپا نا۔

۴ ٢ )مومنين کے درميان گناہ و فواحش کو پهيلانا۔

۴ ٣ )فتنہ۔

۴۴ ) سخن چينی (چغلخوری) کرناجو مومنين کے درميان افتراق کا سبب ہو۔

۴۵ ) مومن سے نازیبا گفتگو کرنا، اس کی توهين کرنااور اسے ذليل کرنا۔

۴۶ ) مومن پر بہتان (تهمت) لگانا۔

۴ ٧ )غيبت کرنا۔ غيبت یہ ہے کہ مومن کی غير موجودگی ميں اس کے چھپے ہوئے عيب کو ظاہر کرنا، چاہے زبان کے ذریعے اسے ظاہر کرے یا اپنے عمل سے، اگر چہ اس عيب کو ظاہر کرتے وقت اس کی توهين اور ہتک حرمت کا ارادہ نہ ہو ، جب کہ اگر توهين کی غرض سے کسی کا عيب ظاہر کرے تو دو گناہوں کا ارتکاب ہوگا۔غيبت کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ توبہ کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر جس کی غيبت کی ہے اس سے معافی مانگے، سوائے اس کے کہ معافی مانگنا خود فساد کا سبب ہو۔

چند مقامات پر غيبت جائزہے :

١) فسق ميں تجاہر کرنے والا، یعنی کهلم کهلا فسق کرنے والا اور اس کی غيبت اسی گناہ کی حد تک کرنا جائز ہے ۔

٢) مظلوم ظالم کی اس ظلم ميں غيبت کرے جو اس پر ہوا ہے ۔

٣) مشورہ کے موقع پر، کہ نصيحت کی نيت سے مشورہ دینے والا اس حد تک غيبت کر سکتا ہے کہ نصيحت ہوجائے۔

۴) دین ميں بدعت گزاری کرنے والے اور اس شخص کی غيبت جو لوگوں کی گمراہی کا باعث ہو۔

۵) فاسق گواہ کے فسق کو ظاہر کرنے کے لئے غيبت، یعنی اگر گواہی دینے والا فاسق ہو تو اس لئے کہ کہيں اس کی گواہی سے کسی کا حق ضائع نہ ہوجائے ، جائز ہے کہ غيبت کر کے اس کے فسق کو ظاہر کر د یا جائے۔

۳۳۰

۶) کسی شخص کی جان، مال یا آبرو کو نقصان سے بچانے کے لئے اس کی غيبت کرنا۔

٧) گناہ گار کو گناہ سے بچانے کے لئے اس کی غيبت جب کہ اس کے بغير اسے گناہ سے بچانا ممکن نہ ہو۔

خريد و فروخت کے احکام

مسئلہ ٢٠٧٩ کاروباری شخص کے لئے سزاوار ہے کہ وہ خریدو فروخت کے احکام سيکه لے بلکہ جن مقامات پر تفصيلی یا اجمالی طور پر یقين یا اطمينان رکھتا ہو کہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی واجب کو چھوڑ دے گا یا حرام کو انجام دے دے گا تو ان پيش آنے والے مسائل کا سيکهنا ضروری ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت ہے :

”جو شخص تجارت کرنا چاہتا ہو ضروری ہے کہ اپنے دین ميں دانا ہو تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس کے لئے کيا حلال ہے اور کيا حرام ہے اور جو شخص دین کی سمجھ بوجه نہ رکھتے ہوئے تجارت کرے تو وہ شبہہ ناک معاملات ميں پهنس جائے گا۔“

مسئلہ ٢٠٨٠ اگر انسان مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر نہ جانتا ہو کہ جو سودا اس نے کيا وہ صحيح ہے یا باطل تو وہ اس سودے پر اس کے اثرات کو مرتب نہيں کر سکتا اور نہ ہی سودے کی بابت لئے گئے مال ميں تصرف کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٠٨١ جس شخص کے پاس مال نہ ہو اوراس پر کچھ اخراجات واجب ہو ں جيسے بيوی بچے کا خرچ تو ضروری ہے کہ کمائے اور مستحب کاموںکے لئے جيسے اہل وعيال کی زندگی ميں وسعت دینے کے لئے اور فقراء کی دستگيری کے لئے کمانا مستحب ہے ۔

خريدوفروخت کے مستحبات

خریدو فروخت ميں چند امور مستحب ہيں جن ميں سے چند یہ ہيں :

١) چيزکی قيمت ميں خریداروں کے درميان فرق نہ رکھے مگر ایمان،فقر اور ان ہی جيسے امور کی وجہ سے جو ترجيح دینے کا باعث ہيں ۔

٢) چيزکی قيمت ميں سختی نہ کرے سوائے اس مقام کے جهاں سختی نہ کرنے کی وجہ سے اسے دهوکہ ہو جائے گا۔

٣) جو چيز فروخت کر رہا ہو اسے کچھ زیادہ د ے اور جو چيز خرید رہا ہو اسے کچھ کم لے۔

۴) اس کے ساته سودا کرنے والا شخص اگر پشيمان ہو کر اس سے سودا توڑ نے کا تقاضا کرے تو اس کے تقاضے کو قبول کرلے۔

۳۳۱

مکروہ معاملات

مسئلہ ٢٠٨٢ اہم مکروہ معاملات یہ ہيں :

١) جائيداد جيسے زمين،مکان،باغ اور پانی فروخت کر دیناسوائے اس کے کہ اس رقم سے کوئی اور جائيداد خرید لی جائے۔

٢) قصائی کا کام کرنا ۔

٣) کفن بيچنا ۔

۴) پست لوگوں سے سودا کرنا ۔

۵) اذان صبح اور سورج نکلنے کے درميان سودا کرنا یا سودے کے لئے چيز کو پيش کرنا۔

۶) گندم،جوَ اور ان جيسی چيزوں کی خریدوفروخت کو اپنا پيشہ قرار دینا۔

٧) جس چيز کو کوئی شخص خرید رہا ہو اسے خریدنے کے لئے سودے ميں دخل اندازی کرنا۔

حرام اور باطل معاملات

مسئلہ ٢٠٨٣ بعض سودے باطل ہيں مگر حرام نہيں ،بعض حرام ہيں مگر باطل نہيں جب کہ بعض حرام ہيں اور باطل بهی۔ ان ميں سے اہم یہ ہيں :

١) بعض عين نجس اشياء جيسے نشہ آور مشروبات اور سو رٔ کی خریدو فروخت کہ یہ دونوں باطل اورحرام ہيں ۔اسی طرح نجس مردار اور غير شکاری کتے کی خرید وفروخت کہ یہ دونوں باطل اور بنا بر احتياط حرام ہيں ۔

اس کے علاوہ عين نجس چيزوں ميں اگر عقلاء کے اعتبار سے کوئی حلال فائدہ اٹھ ایا جاسکتا ہو جيسے پاخانہ کو کهاد بنا دینا یا مریض کو خون دینا تو ان کی خریدو فروخت صحيح اور حلال ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کو ترک کيا جائے۔

٢) غصبی مال کی خرید وفروخت جو کہ مالک کی اجازت کے بغير باطل ہے ليکن شرعی ذمہ داری کے اعتبارسے حرام نہيں بلکہ غصبی مال ميں خارجی تصرفات حرام ہيں ۔

٣) ایسی چيزوں کی خریدوفروخت کرنا جن کی لوگوں کی نگاہ ميں کوئی قيمت نہيں اور جن کی خریدوفروخت کو لوگوں کی نظروں ميں بے وقوفانہ عمل سمجھا جاتاہوجيسے لوگوں کی نظر ميں قيمت نہ رکھنے والے جانوروں کی خریدوفروخت، باطل ہے مگر حرام نہيں ۔

۴) ایسی چيزوں کی خریدوفروخت کرنا جو معمولاًحرام کاموں ميں استعمال ہوتی ہيں مثلاًجوئے کے آلات،باطل اور حرام ہيں ۔

۵) ایسا سودا کرنا کہ جس ميں سود ہو باطل اور حرام ہے ۔

۳۳۲

۶) ایسی چيز کا فروخت کرنا جس ميں ملاوٹ کی گئی ہو جب کہ یہ ملاوٹ ظاہر نہ ہو اور بيچنے والا بھی خریدار کو نہ بتائے جيسے چربی ملے ہو ئے گهی کا فروخت کرنا یا ملاوٹ والی چيز کو قيمت قرار دینا۔ اس قسم کا سودا حرام ہے اور بعض صورتوں ميں کہ جن کا تذکرہ کيا جائے گا،باطل ہے ۔

حضوراکرم(ص) نے اس طرح فرمایا : ”مسلمانوں کے ساته ملاوٹ کا سودا کرنے والا مسلمانوں سے نہيں “۔

حضرت(ص)سے روایت ہے : ”جو شخص اپنے مسلمان بهائی کے ساته ملاوٹ کرے خدا اس کی روزی سے بر کت اٹھ ا ليتا ہے اس کے ذریعہ معاش کو اس پر فاسد کر دیتا ہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے “۔

مسئلہ ٢٠٨ ۴ ایسی نجس شدہ پاک چيز کو فروخت کرنے ميں کوئی حرج نہيں جسے پاک کرنا ممکن ہو ليکن اگر خریدار اس چيز کو کھانے پينے جيسی چيز وں ميں استعمال کے لئے لے رہا ہویا ایسے کام کے لئے لے رہا ہو جس کے صحيح ہونے کے لئے ظاہری طهارت کافی نہيں مثلاً پانی کو وضو یا غسل ميں استعمال کے لئے لے رہا ہو تو اس کے نجس ہونے کی اطلاع دینا ضروری ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت ہے جب لباس نجس ہو گيا ہو اور خریدار واقعاً پاک لباس کے ساته نماز پڑھنا چاہتا ہو اگرچہ لاعلمی ميں نماز پڑھنے والے کے لئے بدن اور لباس کا ظاہری طور پر پاک ہونا کافی ہے ۔

مسئلہ ٢٠٨ ۵ نجس شدہ پاک چيز جسے پاک کرنا ممکن نہ ہو اگر عقلاء کی نظر ميں اس سے حلال استفادے کی کوئی صورت ہو تو اس کی خرید وفروخت ميں کوئی حرج نہيں ليکن اگر خریدار اسے کھانے پينے جيسی چيزوں ميں استعمال کرنا چاہتا ہو یا نجاست اس کے ایسے عمل کے باطل ہونے کا باعث بنے جس ميں طهارت شرط ہے ۔ جيسے کوئی نجس مٹی کا تيل جلانے ميں استعمال کرنا چاہتا ہوليکن یهی تيل کھانے یا اس کے بدن کے نجس ہونے کا باعث بن جائے جس کی وجہ سے اس کا وضو یا غسل ہی باطل ہوجائے تو خریدار کو اس کی نجاست کی اطلاع دینا واجب ہے اور اگر بدن کی نجاست وضو یاغسل کے باطل ہونے کا سبب نہ بنے ليکن خریدار واقعی پاک لباس کے ساته نماز پڑھنا چاہتا ہو تب بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢٠٨ ۶ کهائی جانے والی نجس دواوں کی خرید وفروخت باطل ہے جن سے عقلاء کے نزدیک کھانے کے علاوہ کوئی حلال فائدہ نہ اٹھ ایا جا سکتا ہو،هاں اگر کوئی فائدہ ہو تو صحيح ہے ليکن خریدار کو اس کی نجاست کی اطلاع دینا ضروری ہے ۔

اور اگروہ دوا کهائی جانے والی نہ ہو تو اس کی خریدوفروخت جائز ہے ۔ ليکن گذشتہ مسئلے ميں بيان شدہ تفصيلات کے مطابق خریدا ر کو نجاست کی اطلاع دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٠٨٧ جوتيل اورگهی غيراسلامی ممالک سے درآمدکيا جاتا ہے اگران کے نجس ہونے کاعلم نہ ہوان کی خریدو فروخت ميں کوئی حرج نہيں ۔ یهی حکم اس صورت ميں ہے کہ جب ان کے نجس ہونے کا علم ہو ليکن عقلائی حلال فائدہ بھی رکھتے ہو ں ليکن

۳۳۳

اس صورت ميں ضروری ہے کہ مسئلہ نمبر” ٢٠٨ ۵ “ ميں بيان شدہ تفصيلات کے مطابق خریدار کو نجاست کی اطلاع دے دی جائے۔

اور وہ گهی جو جانور سے اس کی جان نکلنے کے بعد حاصل کيا جاتا ہے چاہے اس جانور کو شریعت کے طریقے کے مطابق ذبح کئے جانے کا احتمال ہو ليکن اگر اسے کسی کافر سے ليا جائے جب کہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ اس نے کسی مسلمان یا مسلمانوں کے بازار سے اسے حاصل کيا ہے یا اگر اسے غير اسلامی ممالک سے لایا گيا ہو،اس کا کھانا حرام اور خریدوفروخت باطل ہے اور اس پر نجس چيز کے احکام جاری ہوں گے۔

مسئلہ ٢٠٨٨ اگر لومڑی یا اس جيسے جانور کوشریعت کے مقررہ طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے سے مارا گيا ہو یا وہ خود مر گيا ہو تو اس کی کھال کی خریدوفروخت باطل ہے اور بنا بر احتياط حرام ہے ۔

مسئلہ ٢٠٨٩ جو چمڑا غير اسلامی ممالک سے در آمد کيا جاتا ہے یا کسی کافر کے ہاتھ سے ليا جاتاہے جب کہ یہ ثابت نہ ہو کہ اس نے اسے کسی مسلمان یا مسلمانوں کے بازار سے ليا ہے ،چاہے اس بات کا احتمال ہو کہ یہ چمڑا شریعت کے مقررہ طریقے سے ذبح شدہ جانور کاہے ،اس کی خریدوفروخت باطل ہے اور اس ميں نماز جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٠٩٠ چمڑا یا جانور کے جان دینے کے بعد اس سے حاصل کيا جانے والا گهی اگر مسلمان کے ہاتھ سے ليا جائے ليکن انسان جانتا ہو کہ اس مسلمان نے اسے کسی کافر کے ہاتھ سے یہ تحقيق کئے بغير ليا ہے کہ یہ شریعت کے مقررہ طریقے سے ذبح کئے گئے جانور کے ہيں یا نہيں تو ان کی خریدوفرخت باطل ہے اور اس چمڑے کے ساته نماز پڑھنا اور اس گهی کو کھانا جائز نہيں ۔

مسئلہ ٢٠٩١ نشہ آور مشروبات کی خریدوفروخت حرام اور باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٠٩٢ غصبی مال کا مالک کی اجازت کے بغير فروخت کرنا باطل ہے اور فروخت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ خریدار سے لی ہو ئی رقم اسے واپس لوٹا دے۔

مسئلہ ٢٠٩٣ اگر خریدار سودا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ليکن جو چيز خرید رہا ہے اس کی قيمت نہ دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ سودا صحيح ہے اور واجب ہے کہ فروخت کرنے والے کو اس کی قيمت ادا کرے۔

مسئلہ ٢٠٩ ۴ اگر خریدار کوئی چيز ذمے پر خریدے اور اس کی قيمت حرام مال سے ادا کرے تویہ سودا صحيح ہے مگر جب تک وہ اس کی قيمت حلال مال سے ادا نہ کردے وہ برئ الذمہ نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢٠٩ ۵ آلاتِ لهوجيسے گٹار اور ساز کی خریدوفروخت حرام ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم چھوٹے سازوں کا بھی ہے جسے بچے کهلونے کے طور پر استعمال کرتے ہيں ۔ البتہ مشترکہ آلات جيسے ریڈیو اور ٹيپ ریکارڈر کی خریدوفروخت اگر حرام ميں استعمال کے لئے نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

۳۳۴

مسئلہ ٢٠٩ ۶ ایسی چيزجس سے حلال فائدہ اٹھ ایا جا سکتا ہے اگر کسی حرام ميں استعمال کرنے والے کو اس نيت سے بيچی جائے کہ وہ اسے حرام ميں استعمال کرے مثلاًانگور اس ارادے سے بيچے کہ ا س سے شراب تيا ر کی جائے تو اس کا سودا حرام اور باطل ہے ليکن اگر نيت یہ نہ ہو بلکہ صرف یہ جانتا ہو کہ خریدار اس انگور سے شراب تيار کرے گا تو اسے بيچنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٠٩٧ جاندار کا مجسمہ بنانا،اور احتياطِ واجب کی بنا پر اس کی پينٹنگز بنانا حرام ہے ،البتہ اس کی خریدو فروخت کرنا اور اسے اپنے پاس رکھنا جائز ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ انہيں بھی ترک کيا جائے۔

مسئلہ ٢٠٩٨ جوئے،چوری یا باطل سودے سے حاصل ہونے والی چيز سے سودا کرنا کسی اور کے مال سے سودا کرنے کا حکم رکھتا ہے جس کے صحيح اور نافذ ہونے کے لئے اس کے مالک یا ولی کی اجازت ضروری ہے ،(کہ جس کے بغير)اس مال ميں تصرف حرام ہے اور جس کسی کے ہاتھ ميں بھی ہو ضروری ہے کہ مالک یا اس کے ولی کو لوٹا دے۔

مسئلہ ٢٠٩٩ اگر چربی ملا ہوا گهی فروخت کرے، چنانچہ اگر سودے ميں اسے معين کر دیا گيا ہو مثلاًکهے کہ یہ ایک من گهی فروخت کرتا ہوں تو دوصورتيں ہيں :

١) اس ملی ہوئی چربی کی مقدار اتنی ہو کہ عرفاًیہ کها جائے کہ ایک من گهی ہے ليکن اس ميں ملاوٹ ہوئی ہے تو یہ سودا صحيح ہے ،هاں خریدار کو سودا فسخ کرنے کا حق ہے ۔

٢) ملی ہوئی چربی کی مقدار اتنی ہوکہ عرفًا اسے گهی نہ کها جاسکے بلکہ یہ کها جائے کہ یہ گهی اور چربی ہے تو اس صورت ميں چربی کی مقدار کا سودا باطل ہے اور چربی کے مقابلے ميں لی گئی رقم خریدارکی ہے جب کہ چربی خود بيچنے والے کا مال ہے اور خریدار خالص گهی کی بہ نسبت سودے کو بھی فسخ کر سکتا ہے ۔

اور اگر بيچا جانے والا گهی معين نہ ہو بلکہ ایک من گهی ذمے پر فروخت کرے اور بعد ميں چربی ملا ہو اگهی دے دے تو خریدار اس گهی کو واپس کر کے خال--ص گهی کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٠٠ اگر وزن یا پيمانے سے فروخت کی جانے والی چيزکی کچھ مقدار اسی چيز سے زیادہ کے عوض فروخت کرے مثلاً ایک من گندم کو ڈیڑھ من گندم کے عوض فروخت کرے تو یہ سودهے اور حرام اور یہ سودا بھی باطل ہے یهی حکم اس وقت بھی ہے جب دونوں ميں سے ایک سالم اور دوسری نقص والی ہو یا ایک اعلیٰ اور دوسری گھٹيا ہو یا دونوں کی قيمتيں مختلف ہو ں ليکن اگر خرید وفروخت کے وقت ایک کی مقدار دوسری سے زیادہ ہو تب بھی سود اور حرام اور سودا باطل ہے ، لہٰذا اگر ثابت تانبا دے کر اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا تانبا لے یا ثابت قسم کا پيتل دے کر اس سے زیادہ مقدار ميں ٹوٹا ہوا پيتل لے یا گهڑا ہو سونا دے کر اس سے زیادہ مقدار ميں بغير گهڑا ہو سونا لے تو یہ سود اور حرام ہوں گے اور سودا بھی باطل ہوگا۔

۳۳۵

مسئلہ ٢١٠١ اگر اضافی لی گئی چيز فروخت کی جانے والی چيز کے علاوہ سے ہو مثلاًایک من گندم کو ایک من گندم اور ایک روپے کے عوض فروخت کرے تب بھی یہ سوداور حرام ہے اور سودا باطل ہے بلکہ اگر کوئی چيز زیادہ نہ لے ليکن شرط رکھے کہ خریدار اس کے لئے کوئی کام انجام دے پھر بھی یہ سود اور حرام ہے اور سودا باطل ہے ۔

مسئلہ ٢١٠٢ جو چيزیں وزن یا پيمانے سے فروخت کی جاتی ہيں اگر سودا کرنے والا چاہے کہ سودے ميں سود نہ آئے تو اس بات کا خيال رکھنا ضروری ہے کہ سودے کی دونوں اطراف ميں سے کسی ایک ميں کوئی اضافہ جو پچهلے مسئلے ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اضافے کے حکم ميں ہے وجود ميں نہ آئے مثلاً(یہ کر ليں کہ) ایک من گندم اور ایک رومال کو ڈیڑھ من گندم نقد کے عوض فروخت کرے تاکہ آدها من گندم اس ایک رومال کا عوض ہوجائے ۔ یهی حکم ہے اگر دونوں اطراف ميں کوئی چيز بڑھادی جائے مثلاًایک من گندم اور ایک رومال کو ڈیڑھ من گندم اور ایک رومال کے عوض گزرے ہوئے مسئلے کا خيال رکھتے ہوئے فروخت کردے۔

مسئلہ ٢١٠٣ اگر کسی ایسی چيز کو جسے کپڑے کی طرح ميٹراور گز کے حساب سے فروخت کيا جاتا ہے یا ایسی چيز کو جيسے اخروٹ اور انڈے کی طرح تعداد کے حساب سے فروخت کيا جاتا ہے ،فروخت کرے اور اس سے زیادہ لے تو اگر سودا دو معين چيزوں کے درميا ن ميں ہو تو کوئی حرج نہيں یا اسی طرح اگر ذمے پر فروخت کرے اور ان کے درميان فرق ہو جيسے دس عدد بڑے انڈوں کو گيارہ عدد درميانی اندازے کے انڈوں کے عوض ذمے پر فروخت کرے،ليکن اگر ان کے درميان کسی قسم کا فرق نہ ہو تو سودے کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے اور اسی طرح کاغذی نوٹوں کا زیادہ کے عوض فروخت کرنا جو اگر چہ گنے جاتے ہيں ،اگر دونوں ایک ہی جنس سے ہوں خواہ دونوں معين ہوں یا ایک معين اور دوسرا ذمے پر ہو محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢١٠ ۴ جس چيز کو کچھ شهروں ميں وزن یا پيمانے سے اور کچھ شهروں ميں تعداد کے حساب سے فروخت کيا جاتا ہو،تو ان ميں سے کسی طریقے کے غالبی نہ ہونے کی صورت ميں ہر شہر ميں وہيں کے رواج کے مطابق حکم جاری ہوگا۔ اسی طرح اگر زیادہ تر شهروں ميں اسے وزن یا پيمانے کے حساب سے فروخت کيا جاتا ہو اور کچھ شهروں ميں تعداد کے اعتبار سے پھر بھی یهی حکم ہے اگرچہ احتياط اس ميں ہے کہ اس چيز کو اسی چيز کی زیادہ مقدار کے عوض نہ بيچا جائے۔

مسئلہ ٢١٠ ۵ بيچی جانے والی چيز اور اس کا عوض ایک ہی جنس سے نہ ہو ں تو زیادہ لينے ميں کوئی حرج نہيں ،لہٰذا اگر ایک من چاول کو دو من گندم کے عوض فروخت کرے تو سودا صحيح ہوگا۔

مسئلہ ٢١٠ ۶ اگر بيچی جانے والی چيز اور اس کے عوض کو ایک ہی چيز سے حاصل کيا گيا ہو تو ضروری ہے کہ زیادہ نہ ليا جائے،لہٰذا اگر ایک من گائے کے گهی کو ڈیرہ من گائے کے پنير سے فروخت کيا جائے تو یہ سود اور حرام ہے اور سودا باطل ہے ۔یهی حکم اس وقت بھی ہے جب پکے ہوئے پھل کو اسی جنس کے کچے پھل کے عوض فروخت کيا جائے۔

۳۳۶

مسئلہ ٢١٠٧ سودی معاملات ميں جوَاور گندم ایک ہی چيز سمجھے جائيں گے،لہٰذا مثلاًاگر ایک من گندم کو ایک من اور پانچ چھٹا نک جوَ کے عوض فروخت کرے تو یہ سود اور حرام ہے اور سودا باطل ہے نيز اگر مثال کے طور پر دس من جوَ خریدے تاکہ فصل کی صفائی کی ابتدا ميں دس من گندم عوض کے طور پر دے تو چونکہ جوَ کو نقد ليا ہے اور گندم کچھ عرصے بعد دے گا تو یہ ایسا ہے جيسے زیادہ مقدار لی ہو، لہٰذا حرام اور سودا باطل ہے ۔

مسئلہ ٢١٠٨ مسلمان کافر حربی سے سود لے سکتا ہے اور اس کافر سے جو اسلام کی پناہ ميں ہو سودی سودا کرنا جائز نہيں ،هاں سودا ہوجانے کے بعد اگر سود لينا اس کی شریعت ميں جائز ہو تو لے سکتا ہے اور باپ بيٹا اور دائمی مياں بيوی ایک دوسرے سے سود لے سکتے ہيں ۔

بيچ نے والے اور خريدار کے شرائط

مسئلہ ٢١٠٩ بيچنے والے اور خریدار کے کچھ شرائط ہيں :

١) بالغ ہو ں۔

٢) عاقل ہوں۔

٣) سفيہ(نادان) نہ ہوں۔یعنی اپنے مال کو بےکار کاموں ميں صرف نہ کریں۔

۴) خرید وفروخت کا ارادہ رکھتے ہوں۔ پس اگر مثلاًمذاق ميں کهے کہ ميں نے اپنا مال بيچ دیا تو سودا وجود ميں ہی نہيں آئے گا۔در حقيقت خریدنے اور بيچنے کا ارادہ سودے کی حقيقت ميں شامل ہيں ،سودے کے لئے شرطِ صحت نہيں ہے ۔

۵) کسی نے انہيں ناحق مجبور نہ کيا ہو،البتہ اگر مجبور ہوں ليکن بعد ميں راضی ہو جائيں تو سودا نافذهو گا۔

۶) یہ کہ جس جنس اور عوض کو دے رہے ہوں ان کے مالک ہوں یا مالک پر ولایت یا اس کی جانب سے وکالت یا اجازت رکھتے ہوں۔

ان سب کے احکام آئندہ مسائل ميں بيا ن کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٢١١٠ اس نا بالغ بچے کے ساته سودا کرنا جو آزادانہ طور پر سودا کر رہا ہو،اس کے اپنے مال ميں باطل ہے ليکن اگر سودا ولی کے ساته ہو اور نابالغ مميز بچہ صرف سودے کا صيغہ جاری کرے تو سودا صحيح ہو گااور اگر چيز یا رقم کسی اور کی ہو اور وہ بچہ اس کے مالک کی طرف سے بطور وکيل اس چيز کو فروخت کرے یا اس رقم سے کوئی چيز خریدے تو اگرچہ وہ مميز بچہ تصرف ميں آزاد ہو،سودا صحيح ہے اور اگر بچہ سودے ميں بيچی گئی چيز اور دی گئی رقم،ایک دوسرے تک پہچانے کا وسيلہ ہو تو اگرچہ مميز نہ بھی ہو تو پھر بھی کوئی حرج نہيں ،ليکن بيچنے والے اور خریدارکو یقين یا اطمينان ہونا ضروری ہے کہ بچہ چيز یا رقم اس کے مالک تک پهنچا دے گا۔

۳۳۷

مسئلہ ٢١١١ اگر نا بالغ بچے سے جب کہ اس کے ساته سودا کرنا صحيح نہ ہو،کوئی سودا کرے اور کوئی چيز یا رقم اس بچے سے لے،تو اگر وہ چيز یا رقم بچے کا اپنا مال ہو تو ضروری ہے کہ اس کے ولی تک پهنچائے اور اگر کسی دسرے کا مال ہو تو ضروری ہے کہ یا اس کے مالک کو دے یا اس کے مالک سے رضامندی طلب کرے اور اگر اس کے مالک کو نہ پهنچانتا ہو اور اس کو پہچاننے کا کوئی ذریعہ بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ بچے سے لی گئی چيز کو اس کے مالک کی طرف سے ردّ مظالم کی بابت ميں فقير کو دے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اس کام کے لئے حاکم شرع کی اجازت حاصل کرے۔

مسئلہ ٢١١٢ اگر کوئی شخص کسی مميز بچے کے ساته،جب کہ اس کے ساته سودا کرنا صحيح نہ ہو،سودا کرے اور وہ چيز یا رقم جو بچے کو دی ہو ضائع ہو جائے تو وہ شخص اس بچے سے، اس کے بالغ ہونے کے بعد اس چيز یا رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے ،ليکن اگر بچہ مميز نہ ہو تو پھروہ مطالبے کا حق نہيں رکھتا۔

مسئلہ ٢١١٣ اگر خریدار یا فروخت کرنے والے کو ناحق کسی سودے پر مجبور کيا جائے تو سودے کے بعد راضی ہو جانے کی صورت ميں سودا صحيح ہے ،ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ سودا کيا جائے۔

مسئلہ ٢١١ ۴ اگر انسان کسی کے ما ل کو اس کی اجازت کے بغير فروخت کردے تو جب تک اس مال کا مالک اس کے فروخت کرنے پر راضی نہ ہو اور اجازت نہ دے سودا بے اثر رہے گا۔

مسئلہ ٢١١ ۵ بچے کا باپ اور دادا نيز باپ کا وصی اور دادا کا وصی جسے انہوں نے بچے کے امور پر نگراں قرار دیا ہو،بچے کے مال کو فروخت کر سکتے ہيں اور بنا بر احتيا ط واجب ضروری ہے کہ سودا بچے کی مصلحت ميں ہو،اور ان ميں سے کسی کے نہ ہونے کی صورت ميں عادل مجتهدبهی بچے کی مصلحت کی صورت ميں اس کا مال فروخت کر سکتا ہے ،اسی طرح دیوانے اور غائب کے مال کو بھی بوقت ضرورت بيچ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١١ ۶ اگر کوئی شخص کسی کا ما ل غصب کر کے فروخت کر دے اور فروخت ہو جانے کے بعد مال کا مالک سودے کی اجازت دے دے تو سودا نافذ ہو گا اور غاصب کی جانب سے خریدار کو دی گئی چيز اور سودے کے وقت سے اجازت دینے کے وقت تک،اس چيز کے سارے فائدے خریدار کے ہو ںگے اور خریدار کی جانب سے غاصب کو (قيمت کے طور پر) دی گئی چيز اور سودے کے وقت سے (اجازت دینے کے وقت تک) اس چيز کے سارے فائدے اس (اصل) مالک کی ملکيت ہوں گے جس کے مال کو غصب کيا گيا تھا۔

مسئلہ ٢١١٧ اگر کوئی شخص کسی کے مال کو غصب کر کے اس ارادے سے فروخت کر دے کہ اس کے عوض حاصل ہونے والی رقم اس کا اپنا مال ہو تو اگر صاحبِ مال سودے کی اجازت دے دے تو سودا نافذهو گا ليکن رقم مالک کا مال ہو گی نہ کہ غاصب کا مال۔

۳۳۸

بيچی جانے والی چيز اور اس کے عوض کے شرائط

مسئلہ ٢١١٨ جس چيز کو فروخت کيا جا رہا ہو اور جس چيز کو اس کے عوض ليا جا رہا ہو اس کی پانچ شرطيں ہيں ؛

١) یہ کہ اس کی مقدار وزن یا پيمانہ یا گنتی یاان جيسی چيزوں کے ذریعے معلوم ہو۔

٢) یہ کہ وہ ان چيزوں کو ایک دوسرے کے حوالے کر سکيں،اور اگر فروخت کرنے والا مثلاًکوئی ایسا مال فروخت کرے کہ جسے وہ خریدار کے حوالے نہ کر سکتا ہو ليکن خریدنے والا اس کو حاصل کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو کافی ہے ، لہٰذا مثا ل کے طور ایسے بهاگے ہوئے گهوڑے کو فروخت کرنا کہ دونوں ميں سے کوئی بھی اس کو حاصل کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو،باطل ہے ،ليکن اگر اسی بهاگے ہوئے گهوڑے کو ایک اور ایسی چيز کے ساته ملا کر بيچ دے جسے خریدار کے حوالے کر سکتا ہو تو اگرچہ و ہ گهوڑا ہاتھ نہ لگ سکے،سودا صحيح ہے اور احتيا ط یہ ہے کہ بهاگے ہوئے غلام اور کنيز کے علاوہ،ایسی کسی چيز کو بيچنے کے لئے طریقہ یہ اختيا ر کرے کہ کسی بھی قيمت رکھنے والی چيز کو بيچے اورسودے ميں یہ شرط لگا دے کہ اگر وہ بهاگی ہوئی چيز مل گئی توخریدار کی ہو گی۔

٣) جنس وعوض ميں موجود وہ خصوصيات معين ہوں جن سے قيمت پر اثر پڑتا ہے ۔

۴) یہ کہ ملکيت طِلق ہو،لہٰذا وقف شدہ مال فروخت کرنا جائز نہيں مگر کچھ مقامات پر کہ جن کا تذکرہ بعد ميں آئے گا۔

۵) خودچيز کو فروخت کرے نہ کہ اس کی منفعت کو،پس اگر ایک سال کے لئے گھر کی منفعت کو فروخت کرے تو یہ صحيح نہيں ۔هاں، اگر خریدار رقم کی بجائے اپنی ملکيت کی منفعت کو دے،مثلاًکسی سے قالين خریدے اور قيمت کے طور پر ایک سال کے لئے اپنے گھر کی منفعت دے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٢١١٩ جس چيز کا کسی شہر ميں ،وزن یاپيمانے کے ذریعے سودا کيا جاتا ہو تو اس شہر ميں بنا بر احتياط ضروری ہے کہ وہ چيز وزن یا پيمانہ کے ذریعے ہی خریدی جائے،ليکن اسی چيز کو جس شہر ميں مشاہدے سے خریدا جاتا ہو، مشاہدے کے ذریعے خرید سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٢٠ جس چيز کی وزن کے ذریعے خریدوفروخت کی جاتی ہو،اس کا سودا پيمانے کے ذریعے بھی کيا جا سکتا ہے ،اس طرح کہ اگر مثال کے طور پر دس من گندم فروخت کرنا چاہتا ہو تو ایک من گندم کی گنجائش رکھنے والے پيمانے کے ذریعے سے دس پيمانے دے۔

مسئلہ ٢١٢١ اگر بيان کی گئی شرائط ميں سے کوئی ایک شرط بھی نہ ہو تو سودا باطل ہے ،ليکن اگر دونوں مالک ایک دوسرے کے مال ميں تصرف کرنے پر راضی ہو ں اور تصرف بھی ایسا نہ ہو جو ملکيت پر موقوف ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

۳۳۹

مسئلہ ٢١٢٢ وقف شدہ چيز کا سودا باطل ہے ليکن اگر وہ اس طرح خراب ہو جائے یا خراب ہونے والی ہو کہ اس چيز سے وہ فائدہ اٹھ انا کہ جس کے لئے اسے وقف کيا گيا ہے ،ممکن نہ رہے مثلاًمسجد کی چٹائی اس طرح بوسيدہ ہو جائے کہ اس پر نماز نہ پڑھی جاسکے تو اسے فروخت کر دینے ميں کوئی حرج نہيں اور اگر ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اس کے عوض کو اسی مسجد ميں کسی ایسی جگہ جو وقف کرنے والے کے مقصد سے نزدیک تر ہو،استعمال کيا جائے۔بہر حال ضروری ہے کہ وقف اور اسی طرح اس کے عوض کا تصرف متولی کرے اور اس کے نہ ہونے کی صورت ميں حاکم شرع کی اجازت سے ہو۔

مسئلہ ٢١٢٣ جن افراد کے ليے کسی چيز کو وقف کيا گياہو،جب بھی ان کے درميان اس طرح اختلاف پيدا ہو جائے کہ وقف کے مال کو نہ بيچنے کی صورت ميں وقف ميں مالی یا کسی جانی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس مال کو فروخت کيا جا سکتا ہے اورضروری ہے کہ اس کے عوض ميں کوئی مال خریدا جائے جس کے فوائد کو پهلے والے وقف کے مطابق وقف کرنے والے کے معين کردہ مواردميں استعمال کيا جائے اور یہ ممکن نہ ہونے کی صورت ميں اسے اس مصرف ميں جو وقف کرنے والے کے مقصد کے قریب تر ہو،لایا جائے۔ یهی حکم اس وقت بھی لگے گا جب وقف کرنے والے نے وقف کے وقت ہی شرط رکھ دی ہو کہ اگر مصلحت،وقف کے مال کو بيچ دینے ميں ہے تو اسے بيچ دیا جائے۔

مسئلہ ٢١٢ ۴ ایسی ملکيت کا خرید وفروخت کرنا جو کسی دوسرے کو کرایہ پر دی جاچکی ہو اشکال نہيں رکھتا ليکن کرایے کی مدت ختم ہونے تک اس کے فوائد کرایے دار کا ہی حق ہوں گے۔اور اگر خریدار نہ جانتا ہو کہ اس ملکيت کو کرایے پر دیا جا چکاہے یا اس گمان سے کہ کرایے کی مدت کم ہے ملکيت کو خرید لے تو صورتِ حال سے مطلع ہونے پراس سودے کو توڑ سکتاہے۔

خريد وفروخت کا صيغہ

مسئلہ ٢١٢ ۵ خرید وفروخت کے لئے عربی ميں صيغہ پڑھنا ضروری نہيں ،لہٰذا اگر فروخت کرنے والا مثال کے طور پر اردو ميں کهے:”ميں نے اس مال کو اس رقم کے عوض فروخت کيا“،اور خریدار کهے:”ميں نے قبول کيا“،تو سودا صحيح ہو گا،ليکن خریدار اور فروخت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ قصدِ انشاء رکھتے ہوں یعنی ان دو جملوں کے کهنے سے ان کا مقصد خرید وفروخت ہو۔

مسئلہ ٢١٢ ۶ اگر سودے کے وقت صيغہ نہ پڑھا جائے ليکن فروخت کرنے والا اور خریدار،اس لين دین سے خرید وفروخت کا ارادہ کریں تو سودا صحيح ہے اور دونوں مالک ہو جائيں گے۔

پھلوں کی خريد وفروخت

مسئلہ ٢١٢٧ اس پھل کو فروخت کرنا جس کا پھول گر گيا ہو اور پھل اپنے ابتدائی مرحلے ميں داخل ہو چکاہو، درخت سے توڑنے سے پهلے بھی صحيح ہے ۔ نيز بيلوں پر لگے ہوئے کچے انگور فروخت کرنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ، ليکن درخت پر لگی ہوئی کھجور کو ضروری ہے کہ لال یا پيلا ہونے سے پهلے فروخت نہ کيا جائے۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511