توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207715 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

۵) ان آیات ميں سے کسی آیت کا پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیات چار سورتوں ميں ہيں :

١) قرآن مجيد کی ٣٢ ویں سورہ (الٓمٓ تنزیل) ٢) قرآن مجيد کی ۴ ١ ویں سورہ(حٰمٓ سجدہ)

٣) قرآن مجيد کی ۵ ٣ ویں سورہ (والنجم) ۴) قرآن مجيدکی ٩ ۶ ویں سورہ (إقرا)

اور بنابر احتياط واجب ان چار سورتوں کا بقيہ حصہ پڑھنے سے پرہيز کرے۔ یهاں تک کہ بِسْم اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم کو ان سوروں کو قصد سے، بلکہ ان کے بعض حصوں کو ان سوروں کے قصد سے پڑھنے سے بھی پرہيز کرے۔

وہ چيزيں جو جنب شخص پر مکروہ ہيں

مسئلہ ٣ ۶ ٢ نو چيزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہيں :

١-٢)کھانا اور پينا، ليکن وضو کرلے یا ہاتھ دهو لے تو مکروہ نہيں ہے ۔ ،

٣) ان سوروں کی سات سے زیادہ آیات کی تلاوت کرنا جن ميں واجب سجدہ نہيں ہے ۔

۴) بدن کا کوئی حصہ قرآن کی جلد، حاشيے یا حروف قرآن کی درميانی جگہوں سے مس کرنا۔

۵) قرآ ن ساته رکھنا۔

۶) سونا، ليکن اگر وضو کرلے یا پانی نہ ہونے کے باعث غسل کے بدلے تيمم کرلے تو مکروہ نہيں ۔

٧) مهندی اور اس جيسی چيزوں سے خضاب کرنا۔

٨) بدن پر تيل ملنا۔

٩) محتلم ہونے، یعنی نيند ميں منی نکلنے کے بعد جماع کرنا۔

غسل جنابت

مسئلہ ٣ ۶ ٣ غسل جنابت بذات خود مستحب ہے اور ان واجبات کی وجہ سے واجب ہوجاتاہے جن کے لئے طهارت شرط ہے ۔ ہاں، نماز ميت، سجدہ سهو سوائے اس سجدہ سهوکے جو بھولے ہوئے تشهد کے لئے ہوتا ہے ، سجدہ شکر اور قرآن کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶۴ یہ ضروری نہيں کہ غسل کرتے وقت نيت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے یا مستحب، بلکہ اگر قصد قربت (جس کی تفصيل وضو کے احکام ميں گزر چکی ہے )اور خلوص کے ساته غسل کرے تو کافی ہے ۔

۶۱

مسئلہ ٣ ۶۵ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا اس بات پر شرعی دليل قائم ہوجائے کہ نما زکا وقت داخل ہو چکاہے اور واجب کی نيت سے غسل کرلے، ليکن اس کا ارادہ وجوب سے مقيد نہ ہو اور بعد ميں معلوم ہو کہ غسل وقت سے پهلے کر ليا ہے تو اس کا غسل صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶۶ غسل چاہے واجب ہو یا مستحب دو طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے :

١)ترتيبی ٢) ارتماسی

غسل ترتيبی

مسئلہ ٣ ۶ ٧ غسل ترتيبی ميں غسل کی نيت سے پهلے سر اور گردن اور بعد ميں بدن دهونا ضروری ہے اور بنابر احتياط واجب بدن کو پهلے دائيں طرف اور بعد ميں بائيں طرف سے دهوئے۔ اگر جان بوجه کر یا بھولے سے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے سر کو بدن کے بعد دهوئے تو یہ دهونا کافی ہوگا ليکن بدن کو دوبارہ دهونا ضروری ہے اور اگر دائيں طرف کو بائيں طرف کے بعد دهوئے تو بنابر احتياط واجب بائيں طرف کو دوبارہ دهوئے۔ پانی کے اندر تينوں اعضاء کو غسل کی نيت سے حرکت دینے سے غسل ترتيبی کا ہوجانا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶ ٨ بنا بر احتياط واجب آدهی ناف اور آدهی شرمگاہ کو دائيں طرف اور آدهی کو بائيں طرف کے ساته دهوئے اور بہتر یہ ہے کہ تمام ناف اور تمام شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساته دهوئے۔

مسئلہ ٣ ۶ ٩ اس بات کا یقين پيدا کرنے کے لئے کہ تينوں حصوں یعنی سر وگردن، دائيں طرف اور بائيںطرف کو اچھی طرح دهو ليا ہے ، جس حصے کو دهو ئے اس کے ساته دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دهولے، بلکہ احتياط مستحب یہ ہے کہ گردن کے دائيں کے طرف کے پورے حصے کو بدن کے دائيں حصے اور گردن کے بائيں طرف کے پورے حصے کو بدن کے بائيں حصے کے ساته دهوئے۔

مسئلہ ٣٧٠ اگرغسل کرنے بعد معلوم ہو کہ بدن کاکچه حصہ نہيں دهلاہے اورمعلوم نہ ہوکہ وہ حصہ سر، دائيں جانب یا بائيں جانب ميں سے کس جانب ہے توسر کودهوناضروری نہيں اوربائيں جانب ميں جس حصے کے نہ دهلنے کا احتمال ہو اسے دهونا ضروری ہے اور دائيں جانب ميں جس حصے کے نہ دهلنے کا احتمال ہو احتياط کی بنا پر اسے بائيں جانب سے پهلے دهوئے۔

مسئلہ ٣٧١ اگرغسل کر نے کے بعدمعلوم ہو کہ بدن کا کچھ حصہ نہيں د هلا تو اگروہ حصہ بائيں جانب ميں ہو تو فقط اس حصے کو دهونا کافی ہے اور اگرو ہ حصہ دائيں جانب ہو تو اس حصے کو دهونے کے بعد احتياط واجب کی بنا پر بائيں جانب کو بھی دهوئے اور اگروہ حصہ سر وگردن ميں ہو تو اس حصے کو دهونے کے بعد بدن دهوئے اوراحتياط واجب کی بنا پر دائيں جانب کو بائيں جانب سے پهلے دهوئے۔

۶۲

مسئلہ ٣٧٢ اگرکوئی شخص غسل مکمل ہونے سے پهلے بائيں جانب کی کچھ مقدار دهلنے ميں شک کرے تو فقط اس مقدار کو دهونا کافی ہے ليکن اگربائيں جانب کی کچھ مقدار دهونے کے بعد دائيں جانب کی کچھ مقدار دهلنے ميں شک کر ے تو احتياط واجب کی بنا پراسے دهونے کے بعد بائيں جانب بھی دهوئے اور اگربدن کود ہوناشروع کرنے بعد سروگردن کی کچھ مقدار کے دهلنے ميں شک کرے تو شک کی کوئی حيثيت نہيں ہے اور اس کاغسل صحيح ہے ۔

غسل ارتماسی

مسئلہ ٣٧٣ پورے بدن کوپانی ميں ڈبو دینے سے غسل ارتماسی ہوجاتاہے اورجب پهلے سے جسم کاکچه حصہ پانی ميں موجودهواور پھرباقی جسم کوپانی ميں ڈبوئے توغسل ارتماسی صحيح ہونے ميں اشکال ہے اوراحتياط واجب کی بنا پراس طرح غسل کرے کہ عرفاًکهاجائے کہ پورا بدن ایک ساته پانی ميں ڈوباہے۔

مسئلہ ٣٧ ۴ - غسل ارتماسی ميں احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے کہ جسم کاپهلا حصہ پانی ميں داخل ہونے سے لے کر آخری حصے کے داخل ہونے تک غسل کی نيت کوباقی رکھے۔

مسئلہ ٣٧ ۵ اگرغسل ارتماسی کے بعدمعلوم ہوکہ بدن کے کسی حصے تک پانی نہيں پهنچاہے توچاہے اسے وہ جگہ معلوم ہویانہ ہو، دوبارہ غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٧ ۶ اگرغسل ترتيبی کے لئے وقت نہ ہوليکن ارتماسی کے لئے وقت ہوتوضروری ہے کہ غسل ارتماسی کرے۔

مسئلہ ٣٧٧ جس شخص نے حج یاعمرے کااحرام باندهاہو وہ غسل ارتماسی نہيں کرسکتا اور روزہ دارکے غسل ارتماسی کرنے کاحکم مسئلہ نمبر” ١ ۶ ٢ ۵ “ ميں آئے گا۔

غسل کے احکام

مسئلہ ٣٧٨ غسل ارتماسی یاترتيبی سے پهلے پورے بدن کاپاک ہونالازم نہيں بلکہ غسل کی نيت سے معتصم پانی ميں غوطہ لگانے یااس پانی کوبدن پرڈالنے سے بدن پاک ہوجائے توغسل صحيح ہے اورمعتصم اس پانی کوکہتے ہيں جو نجاست سے فقط مل جانے سے نجس نہيں ہوتا، جيسے بارش کاپانی،کراورجاری پانی۔

مسئلہ ٣٧٩ حرام سے جنب ہونے والااگرگرم پانی سے غسل کرے توپسينہ آنے کے باوجوداس کاغسل صحيح ہے اوراحتياط مستحب ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔

۶۳

مسئلہ ٣٨٠ اگرغسل ميں بدن کاکوئی حصہ دهلنے سے رہ جائے توغسل ارتماسی باطل ہے اورغسل ترتيبی کاحکم مسئلہ نمبر ” ٣٧١ “ ميں گذرچکاہے۔ ہاں، وہ حصے جنہيں عرفاً باطن سمجھا جاتا ہے جيسے ناک اورکان کے اندرونی حصے، ان کودهوناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٨١ جس حصے کے بارے ميں شک ہو کہ بدن کا ظاہری حصہ ہے یا باطنی حصہ، اگرمعلوم ہوکہ پهلے ظاہر تھا تو اسے دهوناضروری ہے اور اگر معلوم ہو کہ ظاہر نہيں تھا تو دهونا ضروری نہيں ہے اور اگر گذشتہ حالت معلوم نہ ہو تو بنا براحتياط واجب اسے دهوئے۔

مسئلہ ٣٨٢ اگرگوشوارہ اوراس جيسی چيزوں کے سوراخ اس قدر کشادہ ہوں کہ سوراخ کااندرونی حصہ ظاہر شمار ہوتا ہو تو اسے دهوناضروری ہے اوراس صورت کے علاوہ اسے دهوناضروری نہيں ۔

مسئلہ ٣٨٣ هروہ چيزجوپانی پهنچنے ميں رکاوٹ بنتی ہواسے بدن سے صاف کرناضروری ہے اوراگراس چيزکے صاف ہونے کایقين کئے بغيرغسل ارتماسی کرے تو دوبارہ غسل کرناضروری ہے اوراگرغسل ترتيبی کرے تواس کاحکم مسئلہ نمبر ” ٣٧٢ “ ميں گذرچکاہے۔

مسئلہ ٣٨ ۴ اگرغسل کرتے ہوئے شک کرے کہ پانی پهنچنے ميں رکاوٹ بننے والی کوئی چيزاس کے بدن پرہے یا نہيں توضروری ہے کہ تحقيق کرے یهاں تک کہ اسے اطمينان ہوجائے کہ اس کے بدن پرکوئی رکاوٹ نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٨ ۵ بدن کاجزشمارہونے والے چھوٹے چھوٹے بالوں کوغسل ميں دهوناضروری ہے اورلمبے بالوں کا دهونا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر پانی کسی طریقے سے بال ترکئے بغيرکھال تک پهنچ جائے توغسل صحيح ہے ،ليکن اگربال گيلے کئے بغيرکھال تک پانی پهنچاناممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ بدن تک پانی پهنچانے کے لئے ان بالوں کوبهی دهوئے۔

مسئلہ ٣٨ ۶ وضوصحيح ہونے کی تمام گذشتہ شرائط غسل صحيح ہونے ميں بھی شرط ہيں ، جيسے پانی کا پاک اورمباح ہونا، ليکن غسل ميں ضروری نہيں ہے کہ بدن کو اوپر سے نيچے کی جانب دهویا جائے اور اس کے علاوہ غسل ترتيبی ميں ایک حصہ د ہونے کے فوراًبعد دوسراحصہ دهونا بھی ضروری نہيں ہے ، لہٰذا اگرسرو گردن دهونے کے بعد وقفہ کرے اورکچه دیر بعد بدن دهوئے یادایاںحصہ دهوئے پھر کچھ دیر صبرکرنے کے بعد بایاں حصہ دهوئے توکوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، جو شخص پيشاب وپاخانہ روکنے پر قدرت نہ رکھتاہو اگرغسل کر نے اورنماز پڑھنے کی مدت تک روک سکے تو ضروری ہے کہ فوراًغسل مکمل کرے اور اس کے بعدفوراً نماز بھی پڑھے۔

مسئلہ ٣٨٧ جو شخص حمام کے مالک کی اجرت نہ د ینے کا ارادہ رکھتا ہو یا اس کی اجازت لئے بغيرادهار کی نيت سے حمام ميں غسل کرے تواگرچہ بعدميں حمام کے مالک کوراضی کرلے، اس کاغسل باطل ہے ۔

۶۴

مسئلہ ٣٨٨ اگرحمام کا مالک حمام ميں ادهار غسل کرنے پر راضی ہو ليکن کوئی شخص اس کا ادهار ادا نہ کرنے یا مال حرام سے ادا کرنے کے ارادے سے غسل کرے تو اس کاغسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٨٩ اگرحمام کے مالک کو ایسے مال سے اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کيا گيا ہو تو یہ حرام ہے اوراس کاغسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٩٠ اگرحمام ميں حوض کے پانی ميں پاخانے کے مقام کو صاف کرے اورغسل کرنے سے پهلے شک کرے کہ اس وجہ سے اب مالک غسل کرنے پر راضی ہے یا نہيں تو اس کا غسل باطل ہے ، مگر یہ کہ غسل کرنے سے پهلے حمام کے مالک کوراضی کرلے۔

مسئلہ ٣٩١ اگرشک کرے کہ غسل کيا یا نہيں تو ضروری ہے کہ غسل کرے، ليکن اگرغسل کرنے کے بعد اس کے صحيح ہونے ميں شک کرے تواگر احتمال دے کہ غسل کرتے وقت متوجہ تھا تو اس کا غسل صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٩٢ اگرغسل کے دوران پيشاب جيسا کوئی حدث اصغر صادر ہو تو احتياط واجب کی بنا پرغسل مکمل کرنے کے بعد غسل کا اعادہ کرنے کے ساته ساته وضو بھی کرے مگر یہ کہ غسل ترتيبی سے غسل ارتماسی کی طرف عدول کرلے۔

مسئلہ ٣٩٣ اگر وقت تنگ ہونے کی وجہ سے مکلف کی ذمہ داری تيمم کرنا تھی ليکن وہ اس خيال سے کہ غسل اور نمازکے لئے وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے جنابت سے طهارت حاصل کرنے یاقرآن پڑھنے وغيرہ کے ارادے سے غسل کيا ہو تو صحيح ہے ، ليکن اگرموجودہ نمازپڑھنے کے لئے اس طرح کے ارادے سے غسل کرے کہ اگریہ نماز واجب نہ ہوتی تو اس کا غسل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا تو اس صورت ميں اس کا غسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٩ ۴ جو شخص جنب ہوا ہو اور اس نے نماز پڑھی ہو، اگر شک کرے کہ اس نے غسل کيا ہے یا نہيں تو اگر احتمال دے کہ نماز شروع کرتے وقت اس جانب متوجہ تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن بعد والی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نمازکے بعد حدث اصغر صادر ہوا ہو تو ضروری ہے کہ وضو بھی کرے اور پڑھی ہوئی نماز کو بھی وقت باقی ہونے کی صورت ميں دهرائے اور اگر وقت گذر چکا ہو تو اس کی قضا کرے۔

مسئلہ ٣٩ ۵ جس پرچندغسل واجب ہوں وہ ان کو عليحدہ عليحدہ انجام دے سکتا ہے ، ليکن پهلے غسل کے بعد باقی غسلوں کے لئے وجوب کی نيت نہ کرے اوراسی طرح سب کی نيت سے ایک غسل بھی کرسکتاہے ، بلکہ اگران ميں سے کسی خاص غسل کی نيت کرے تو باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے ۔

۶۵

مسئلہ ٣٩ ۶ اگر بدن پر کسی جگہ قرآنی آیت یاخداوند متعال کا نام لکھا ہو اور غسل ترتيبی کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ پانی اس طرح بدن پر ڈالے کہ اس حصے سے بدن کا کوئی حصہ مس نہ ہو اور اگر ترتيبی وضو کرناچاہے اوراعضائے وضو پرکہيں آیت قرآنی لکھی ہو تب بھی یهی حکم ہے اور اگر خدوند متعال کا نام ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پریهی حکم ہے اورغسل ووضوميں انبياء، ائمہ اورحضرت زهراء ع کے ناموں کے سلسلے ميں احتياط کا خيال رکھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٣٩٧ جس شخص نے غسل جنابت کيا ہو ضروری ہے کہ وہ نمازکے لئے وضو نہ کرے، بلکہ استحاضہ متوسطہ کے غسل کے علاوہ واجب غسلوں اور مسئلہ نمبر ” ۶۵ ٠ “ ميں آنے والے مستحب غسلوں کے ساته بھی بغير وضو نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ وضو بھی کرے۔

استحاضہ

عورت کو آنے والے خونوں ميں سے ایک خون استحاضہ ہے اورجس عورت کوخون استحاضہ آئے اسے مستحاضہ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٣٩٨ خون استحاضہ اکثر اوقات زرد اور سرد ہوتا ہے اور شدت اورجلن کے بغيرآنے کے علاوہ گاڑھا بھی نہيں ہوتا ہے ليکن ممکن ہے کبهی سياہ یا سرخ اور گرم وگاڑھا ہو اور شدت وجلن کے ساته آئے۔

مسئلہ ٣٩٩ استحاضہ کی تين قسميں ہيں : قليلہ،متوسطہ اورکثيرہ۔

استحاضہ قليلہ: یہ ہے کہ جو روئی عورت اپنے ساته رکھتی ہے خون فقط اس کے اوپر والے حصے کو آلودہ کرے اوراندر تک سرایت نہ کرے۔

استحاضہ متوسطہ: یہ ہے کہ خون روئی ميں سرایت کرجائے چاہے کسی ایک کونے ميں هی، ليکن عورتيں خون سے بچنے کے لئے عموماً جو کپڑا یا اس جيسی چيز باندهتی ہيں ، اس تک نہ پهنچے۔

استحاضہ کثيرہ: یہ ہے کہ خون روئی ميں سرایت کرکے کپڑے تک پهنچ جائے۔

۶۶

احکام استحاضہ

مسئلہ ۴ ٠٠ استحاضہ قليلہ والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ ہر نمازکے لئے وضوکرے اور احتياط واجب کی بنا پر روئی تبدیل کرے اور اگر شرمگاہ کے ظاہری حصے پر خون لگا ہو تو اسے پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠١ استحاضہ متوسطہ والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ ہر نمازِ صبح کے لئے غسل کرے اور دوسری صبح تک سابقہ مسئلے ميں مذکورہ استحاضہ قليلہ کے وظيفے پرعمل کرے اورجب بھی نمازِ صبح کے علاوہ کسی دوسری نماز سے پهلے یہ صورت حال پيش آئے تواس نمازکے لئے غسل کرے اوردوسری صبح تک اپنی نمازوں کے لئے استحاضہ قليلہ والے کام انجام دے۔

جس نماز سے پهلے غسل ضروری تھا اگر عمداً یا بھول کر غسل نہ کرے تو بعد والی نماز سے پهلے غسل کرے، چاہے خون آرہا ہو یا رک چکا ہو۔

مسئلہ ۴ ٠٢ استحاضہ کثيرہ والی عورت کے لئے سابقہ مسئلے ميں استحاضہ متوسطہ کے مذکورہ احکام پر عمل کرنے کے علاوہ احتياط واجب کی بنا پر ہر نماز کے لئے کپڑے کو تبدیل یا پاک کر نا بھی ضروری ہے اورضروری ہے کہ ایک غسل نمازظہر وعصر کے لئے اور ایک نماز مغرب وعشا کے لئے انجام دے اور نماز ظہر وعصر اوراسی طرح مغرب وعشا کے درميان وقفہ نہ کرے اور اگر وقفہ کردے تو دوسری نماز چاہے عصر ہو یا عشاء، اس کے لئے غسل کرے اور استحاضہ کثيرہ ميں غسل، وضو کی جگہ کافی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠٣ اگر خون استحاضہ وقتِ نماز سے پهلے بھی آیا ہو تو اگر عورت نے اس خون کے لئے وضو یا غسل نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ نماز سے پهلے وضو یا غسل کرے اگر چہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔

مسئلہ ۴ ٠ ۴ جس مستحاضہ متوسطہ کے لئے وضواور غسل ضروری ہے ، ان دونوںميں سے جسے بھی پهلے انجام دے صحيح ہے ، ليکن بہترہے کہ پهلے وضوکرے۔هاں، مستحاضہ کثيرہ اگروضوکرناچاہے توضروری ہے کہ غسل سے پهلے کرے۔

مسئلہ ۴ ٠ ۵ مستحاضہ قليلہ اگر نماز صبح کے بعد متوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز ظہر وعصر کے لئے غسل کرے اوراگر نماز ظہر وع-صر کے بعد متوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب وعشا کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۴ ٠ ۶ اگرمستحاضہ قليلہ یامتوسطہ نماز صبح کے بعدکثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ ایک غسل نماز ظہر وعصر کے لئے اور ایک غسل نماز مغرب وعشا کے لئے کرے اور اگر نماز ظہر وعصر کے بعد کثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب وعشا کے لئے غسل کرے۔

۶۷

مسئلہ ۴ ٠٧ مستحاضہ کثيرہ یامتوسطہ جب نماز کا وقت داخل ہونے تک اپنی حالت پرباقی ہو، اگرنمازکاوقت داخل ہونے سے پهلے نمازکے لئے غسل کرے توباطل ہے ليکن اذانِ صبح سے تهوڑی دیرپهلے جائزهے کہ قصدرجاء سے غسل کرکے نمازشب پڑھے اورطلوع فجرکے بعداحتياط واجب کی بنا پرنمازِصبح کے لئے غسل کااعادہ کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠٨ مستحاضہ عورت پرنمازیوميہ ،جس کاحکم گذرچکاہے ،کے علاوہ هرواجب ومستحب نماز کے لئے ضروری ہے کہ مستحاضہ کے لئے ذکرشدہ تمام کاموں کوانجام دے اورمستحاضہ کثيرہ وضوبهی کرے۔ اسی طرح اگرپڑھی ہوئی نمازیوميہ کو احتياطاً دوبارہ پڑھنا چاہے یافرادیٰ پڑھی ہوئی نمازیوميہ کوباجماعت پڑھناچاہے تب بھی یهی حکم ہے اوراگراس نمازکوایسی فریضہ یوميہ کے وقت ميں پڑھناچاہے جس کے لئے غسل کياہے تواحتياط واجب کی بنا پردوبارہ غسل کرے۔هاں، اگرنمازکے فوراً بعدنمازاحتياط،بھولاہواسجدہ ،بھولاہواتشهد یا تشهد بھولنے کی وجہ سے واجب ہونے والا سجدہ سهو انجام دے تو استحاضہ والے کام انجام دیناضروری نہيں ہيں اورنمازکے سجدہ سهوکے لئے استحاضہ کے کام بجالانا ضروری نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۴ ٠٩ جس مستحاضہ کاخون رک گياہواس کے لئے فقط پهلی نمازکے لئے مستحاضہ والے کام کرناضروری ہيں اوربعدوالی نمازوں کے لئے لازم نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۴ ١٠ اگرمستحاضہ کواپنے استحاضہ کی قسم معلوم نہ ہو تونماز پڑھتے وقت ضروری ہے کہ یااحتياط کے مطابق عمل کرے یااپنے استحاضہ کی تحقيق کرے مثلاتهوڑی روئی شرمگاہ ميں داخل کرنے کے بعدنکالے اوراستحاضہ کی تينوں قسموں ميں سے اپنے استحاضہ کی قسم معلوم ہونے کے بعداس قسم کے وظيفے پرعمل کرے، ليکن اگریہ جانتی ہوکہ جس وقت تک وہ نمازپڑھے گی اس کے استحاضہ ميں تبدیلی واقع نہ ہوگی تووہ نمازکاوقت داخل ہونے سے پهلے بھی اپنے استحا ضہ کی تحقيق کرسکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١١ اگرمستحاضہ اپنے استحاضہ کی تحقيق کئے بغيرنمازميں مشغول ہوجائے تواگرقصدقربت ہو اور اس نے اپنے وظيفے کے مطابق عمل کياہو، مثلاًاس کااستحاضہ قليلہ ہو اور اس نے استحاضہ قليلہ کے وظيفے کے مطابق عمل کيا ہو تو اس کی نمازصحيح ہے اوراگرقصدقربت نہ ہویااپنے وظيفے کے مطابق عمل نہ کياہومثلاً اس کااستحاضہ متوسطہ ہواوراس نے استحاضہ قليلہ کے وظيفے پرعمل کياہوتواس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ١٢ اگرمستحاضہ اپنے استحاضہ کی تحقيق نہ کرسکتی ہو اور نہ ہی یہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ کس قسم کاہے تواحتياط واجب یہ ہے کہ زیادہ والا وظيفہ انجام دے تاکہ یقين ہوجائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری انجام دے دی ہے ، مثلااگرنہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ قليلہ ہے یامتوسطہ تواستحاضہ متوسطہ والے کاموں کوانجام دے اوراگرنہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ متوسطہ ہے یاکثيرہ تواستحاضہ کثيرہ والے کام انجام دینے کے علاوہ هرنمازکيلئے وضو بھی کرے، ليکن اگرجانتی ہوکہ پهلے اس کااستحاضہ کس قسم کاتهاضروری ہے کہ اس قسم کے وظيفہ کے مطابق عمل کرے۔

۶۸

مسئلہ ۴ ١٣ اگرخون استحاضہ ابتدائی مرحلہ ميں اندرہی موجودہواورباہرنہ آئے توعورت کے غسل یاوضوکوباطل نہيں کرتااوراگرخون کی تهوڑی سی مقداربهی باہرآجائے تووضواورغسل کوباطل کردیتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١ ۴ اگر مستحاضہ عورت نماز کے بعد اپنی تحقيق کرے اور خون نہ ہو تو اگرچہ جانتی ہو کہ خون دوبار ہ آئے گا تب بھی اسی پهلے والے وضوسے نماز پڑھ سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١ ۵ مستحاضہ اگرجانتی ہوکہ جب سے اس نے وضویاغسل شروع کياہے خون باہرنہيں آیاہے تووہ نماز کو اس وقت تک مو خٔرکرسکتی ہے جب تک اسے اس حالت کے باقی رہنے کاعلم ہو۔

مسئلہ ۴ ١ ۶ اگرمستحاضہ جانتی ہوکہ نماز کا وقت گذرنے سے پهلے مکمل طورپرپاک ہوجائے گی یانمازپڑھنے کی مقدارميں اس کاخون رک جائے گا توضروری ہے کہ صبرکرے اورنمازاس وقت پڑھے جب پاک ہو۔

مسئلہ ۴ ١٧ اگروضواورغسل کے بعدخون باہرآنارک جائے اورمستحاضہ جانتی ہوکہ اگرنمازميں اتنی تاخير کرے کہ جس وقت ميں وضو، غسل اور اس کے بعد نماز ادا کی جا سکے، تو مکمل پاک ہوجائے گی توضروری ہے کہ نمازميں تاخير کرے اور جب مکمل پاک ہوجائے تو دوبارہ وضو اور غسل کرکے نماز پڑھے اوراگر وقت نماز تنگ ہوجائے تودوبارہ وضو اور غسل کرناضروری نہيں ہے ، بلکہ احتياط واجب کی بنا پرغسل کی نيت سے اوراسی طرح وضوکی نيت سے تيمم کرکے نمازپڑھے۔

مسئلہ ۴ ١٨ مستحاضہ کثيرہ اورمتوسطہ جب مکمل طورپرخون سے پاک ہوجائے توضروری ہے کہ غسل کرے، ليکن اگرجانتی ہوکہ آخری نمازکے لئے غسل شروع کرنے کے بعدسے خون نہيں آیاہے اوروہ مکمل پاک ہوگئی ہے تودوبارہ غسل کرنالازم نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴ ١٩ مستحاضہ قليلہ ،متوسطہ اورکثيرہ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وظيفہ پرعمل کرنے کے بعدنمازميں تاخير نہ کرے سوائے اس مورد کے جو مسئلہ نمبر” ۴ ١ ۵ “ ميں گذرچکا ہے ، ليکن نمازسے پهلے اذان واقامت کهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اورنمازميں قنوت اوراس جيسے دوسرے مستحب کام بھی انجام دے سکتی ہے اوراگرنمازکے واجب اجزاء کی مقدارميں پاک ہوتواحتياط مستحب ہے کہ مستحبات کوترک کرے۔

مسئلہ ۴ ٢٠ -اگرمستحاضہ اپنے وضویاغسل کے وظيفے اور نمازکے درميان وقفہ کردے توضروری ہے کہ اپنے وظيفے کے مطابق دوبارہ وضویاغسل کرکے بلافاصلہ نمازميں مشغول ہوجائے، سوائے اس کے کہ جانتی ہوکہ اس حالت پر باقی ہے جومسئلہ نمبر ” ۴ ١ ۵ “ ميں گذرچکی ہے ۔

۶۹

مسئلہ ۴ ٢١ اگرخونِ استحاضہ کااخراج مسلسل جاری رہے اورمنقطع نہ ہوتوضررنہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ غسل کے بعدخون کوباہرآنے سے روکے اورلاپرواہی کرنے کی صورت ميں خون باہرآجائے توضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے اوراگرنمازبهی پڑھ لی ہوتودوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ۴ ٢٢ اگرغسل کرتے ہوئے خون نہ رکے توغسل صحيح ہے ليکن اگرغسل کے دوران استحاضہ متوسطہ کثيرہ ہو جائے تو شروع سے غسل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢٣ احتياط مستحب ہے کہ مستحاضہ، روزے والے پورے دن ميں جتنا ممکن ہوخون کو باہر آنے سے روکے۔

مسئلہ ۴ ٢ ۴ مستحاضہ کثيرہ کاروزہ اس حالت ميں صحيح ہے جب وہ دن کی نمازوں کے واجب غسل انجام دے اوراسی طرح احتياط واجب کی بنا پرجس دن روزہ رکھنے کا ارادہ ہو اس سے پهلے والی رات ميں نماز مغرب و عشا کے لئے بھی غسل کرے۔

مسئلہ ۴ ٢ ۵ اگرنمازعصرکے بعدمستحاضہ ہوجائے اورغروب تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢ ۶ اگرمستحاضہ قليلہ، نمازسے پهلے متوسطہ یاکثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ مستحاضہ متوسطہ یاکثيرہ کے سلسلے ميں مذکورہ احکام پر عمل کرے اوراگراستحاضہ متوسطہ کثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ مستحاضہ کثيرہ کے کام انجام دے۔ لہٰذا اگر استحاضہ متوسطہ کے لئے غسل کياہوتواس کافائدہ نہيں ہے اورکثيرہ کے لئے دوبارہ غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢٧ اگرنمازکے دوران مستحاضہ متوسطہ، کثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور استحاضہ کثيرہ کا غسل اوراس کے دوسرے کام انجام دے کردوبارہ نمازپڑھے اوراحتياط مستحب کی بنا پرغسل سے پهلے وضوکرے اور اگر غسل کے لئے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضوکرکے غسل کے بدلے تيمم کرے اوراگرتيمم کيلئے بھی وقت نہ ہوتو احتياط واجب کی بنا پراسی حالت ميں نمازتمام کرے، ليکن وقت ختم ہونے کے بعدقضاکرناضروی ہے ۔

اسی طرح اگرنمازکے دوران مستحاضہ قليلہ، متوسطہ یاکثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نمازتوڑ دے اور مستحاضہ متوسطہ یا کثيرہ کے وظائف انجام دے۔

مسئلہ ۴ ٢٨ اگرنمازکے دوران خون رک جائے اورمستحاضہ کومعلوم نہ ہوکہ اندربهی بند ہوا یا نہيں اور نماز کے بعد معلوم ہوکہ بندهوگياتهاتووضواورغسل ميں سے جو وظيفہ تھااسے انجام دے کردوبارہ نمازپڑھے۔

۷۰

مسئلہ ۴ ٢٩ اگرمستحاضہ کثيرہ، متوسطہ ہوجائے توضروری ہے کہ پهلی نمازکيلئے کثيرہ والے اوربعدوالی نمازوں کے لئے متوسطہ والے کام انجام دے، مثلا اگرنماز ظهرسے پهلے مستحاضہ کثيرہ، متوسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز ظہر کے لئے غسل کرے اور نماز عصر، مغرب اورعشا کے لئے وضو کرے، ليکن اگر نماز ظہر کے لئے غسل نہ کرے اورفقط نماز عصر پڑھنے کا وقت باقی ہو تونماز عصرکے لئے غسل کرناضروری ہے اور اگر نماز عصر کے لئے بھی غسل نہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگر اس کے لئے بھی غسل نہ کرے اورفقط نمازعشا پڑھنے کاوقت ہو تو نماز عشا کے لئے غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣٠ اگرہرنمازسے پهلے مستحاضہ کثيرہ کا خون رک جاتا ہو اور دوبارہ آجاتاہوتوخون رکنے کے وقت ميں اگر غسل کرکے نمازپڑھی جا سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اس وقت کے دوران ہی غسل کرکے نمازپڑھے اوراگرخون رکنے کا وقفہ اتناطویل نہ ہوکہ طهارت کرکے نمازپڑھ سکے تووهی ایک غسل کافی ہے اوراگرغسل اورنمازکے کچھ حصے کے لئے وقت ہو تو احتياط واجب کی بناپراس وقت ميں غسل کرے نمازپڑھے۔

مسئلہ ۴ ٣١ اگرمستحاضہ کثيرہ، قليلہ ہوجائے توضروری ہے کہ پهلے نمازکے لئے کثيرہ والے اوربعدوالی نمازوں کے لئے قليلہ والے کام انجام دے اوراگرمستحاضہ متوسطہ، قليلہ ہوجائے توبهی ضروری ہے کہ پهلی نمازکے لئے متوسطہ کے وظيفے اور بعد والی نمازوں کے لئے قليلہ کے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ۴ ٣٢ اگرمستحاضہ اپنے واجب وظيفے ميں سے کوئی ایک کام بھی ترک کرے تواس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣٣ جس مستحاضہ نے نمازکے لئے وضویاغسل کياہے احتياط واجب کی بنا پر حالت اختيار ميں اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن کی عبارت سے مس نہيں کرسکتی اور اضطرار کی صورت ميں جائز ہے ، ليکن احتياط کی بنا پر وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣ ۴ جس مستحاضہ نے اپناواجب غسل انجام دیاہے اس کے لئے مسجد ميں جانا،مسجدميں ٹہرنا، واجب سجدے والی آیت کی تلاوت کرنااوراس کے شوهرکے لئے اس سے نزدیکی کرنا حلال ہے ، اگرچہ اس نے نماز ادا کرنے کے لئے انجام دئے جانے والے دوسرے کام مثلاً روئی اور کپڑا تبدیل کرنے کا کام انجام نہ دیا ہو اور بنا بر اقویٰ یہ سارے کام غسل کے بغيربهی جائز ہيں اگرچہ ترک کرنا احوط ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣ ۵ اگرمستحاضہ کثيرہ اورمتوسطہ نمازکے وقت سے پهلے واجب سجدے والی آیت پڑھنا،مسجدجانایااس کاشوهراس سے نزدیکی کرناچاہے تو احتياط مستحب ہے کہ وہ عورت غسل کرلے۔

مسئلہ ۴ ٣ ۶ مستحاضہ پرنمازآیات واجب ہے اورنمازآیات کے لئے بھی وہ تمام کام ضروری ہيں جونمازیوميہ کے لئے گزرچکے ہيں اوراحتياط کی بنا پرمستحاضہ کثيرہ وضوبهی کرے۔

۷۱

مسئلہ ۴ ٣٧ جب بھی مستحاضہ پرنمازیوميہ کے اوقات ميں نمازآیات واجب ہوجائے اور دونوں نمازوں کو بلافاصلہ پڑھنا چاہے تب بھی ضروری ہے کہ یوميہ اورآیات دونوں نمازوں کے لئے عليٰحدہ عليٰحدہ مستحاضہ کے وظائف پر عمل کرے۔

مسئلہ ۴ ٣٨ مستحاضہ کے لئے ضروری ہے کہ قضا نمازوں کی ادائيگی پاک ہونے تک مو خٔرکردے اورقضاکے لئے وقت تنگ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ هرقضانمازکے لئے ادانمازکے واجبات بجالائے۔

مسئلہ ۴ ٣٩ اگرعورت جانتی ہوکہ اسے آنے والاخون زخم کاخون نہيں ہے اورشرعاً اس پرحيض ونفاس کا حکم بھی نہيں ہے توضروری ہے کہ استحاضہ کے احکام پر عمل کرے، بلکہ اگر شک ہو کہ خون استحاضہ ہے یادوسرے خونوں سے کوئی تو ان کی علامت نہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پراستحاضہ کے کام انجام دے۔

حيض

حيض وہ خون ہے جو غالباً ہر مهينے چند دنوں کے لئے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتا ہے ۔

عورت کو جب حيض کا خون آئے تو اسے حائض کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۴۴ ٠ حيض کا خون عموماً گاڑھا و گرم ہوتا ہے اور اس کا رنگ سياہ یا سرخ ہوتا ہے ۔ یہ شدت اور تهوڑی سی جلن کے ساته خارج ہوتا ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ١ ساٹھ برس پورے کرنے کے بعد عورت یائسہ ہو جاتی ہے ، چنانچہ اس کے بعد اسے جو خون آئے وہ حيض نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ پچاس سال مکمل ہوجانے کے بعدسے ساٹھ سال کی عمر پوری ہونے تک یائسہ اور غير یائسہ دونوں کے احکام پر عمل کرے چاہے قریشی ہو یا غير قریشی، لہٰذا اس دوران اگر علاماتِ حيض کے ساته یا ایامِ عادت ميں خون آئے تو احتياط واجب کی بنا پر ان کاموں کو ترک کر دے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔

مسئلہ ۴۴ ٢ اگر کسی لڑکی کو نو سال کی عمر تک پهنچنے سے پهلے خون آئے تو وہ حيض نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ٣ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو بھی حيض آنا ممکن ہے اور حاملہ وغير حاملہ کے درميان احکامِ حيض ميں کوئی فرق نہيں ہے ۔هاں، اگر حاملہ عورت اپنی عادت کے ایام شروع ہونے کے بيس روز بعد حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو احتياط واجب کی بنا پر اس کے لئے ضروری ہے کہ حائضہ پر حرام کاموں کو ترک کردے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

مسئلہ ۴۴۴ جس لڑکی کو معلوم نہ ہو کہ وہ نو سال کی ہو چکی ہے یا نہيں ، اگر اسے ایسا خون آئے جس ميں حيض کی علامات نہ ہوں تو وہ حيض نہيں ہے اور اگر اس خون ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو وہ حيض ہے اور شرعاً اس کی عمر پورے نو سال ہوگئی ہے ۔

۷۲

مسئلہ ۴۴۵ جس عورت کو شک ہو کہ یائسہ ہوگئی ہے یا نہيں ، اگر وہ خون دیکھے اور نہ جانتی ہو کہ یہ حيض ہے یا نہيں تو اس کی ذمہ داری ہے کہ خود کو یائسہ نہ سمجھے۔

مسئلہ ۴۴۶ حيض کی مدت تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتی۔

مسئلہ ۴۴ ٧ حيض کے لئے ضروری ہے کہ پهلے تين دن لگاتار آئے، لہٰذا اگر مثال کے طور پر کسی عورت کو دو دن خون آئے پھر ایک دن نہ آئے اور پھر ایک دن خون آجائے تو وہ حيض نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ دوسری صورت جيسی صورتحال ميں ان کاموں کو ترک کردے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔

مسئلہ ۴۴ ٨ حيض کی ابتدا ميں خون کا باہر آنا ضروری ہے ، ليکن یہ ضروری نہيں کہ پورے تين دن خون نکلتا رہے، بلکہ اگر شرم گاہ ميں بھی خون موجود ہو تو کافی ہے ۔هاں، خون کا رحم ميں ہونا کافی نہيں ہے ، البتہ اگر تين دنوں ميں تهوڑے سے وقت کے لئے کوئی عورت پاک ہو بھی جائے جيسا کہ عورتوں کے درميان معمول ہے تب بھی وہ حيض ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ٩ ضروری نہيں ہے کہ عورت پهلی اور چوتھی رات کو بھی خون دیکھے ليکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اور تيسری رات کو خون منقطع نہ ہو۔ پس اگر پهلے دن اذانِ صبح کے وقت سے تيسرے دن غروب آفتاب تک متواتر خون آتا رہے اور کسی وقت قطع نہ ہو تو بغير کسی اشکال کے وہ حيض ہے ۔ اسی طرح سے اگر پهلے دن دوپہر سے خون آنا شروع ہو اور چوتھے دن اسی وقت قطع ہو تو وہ بھی حيض ہے ، ليکن اگر طلوعِ آفتاب سے شروع ہو کر تيسرے دن غروب تک رہے تو احتياط واجب کی بنا پر ان کاموں کو ترک کر دے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

مسئلہ ۴۵ ٠ اگر کوئی عورت تين دن متواتر علامات حيض کے ساته یا عادت کے ایام ميں خون دیکھے اور پاک ہوجائے، چنانچہ اگر وہ دوبارہ علاماتِ حيض کے ساته یا عادت کے ایام ميں خون دیکھے تو جن دنوں ميں وہ خون دیکھے اور جن دنوں ميں وہ پاک ہو، ان تمام دنوں کو ملاکر اگر دس دنوں سے زیادہ نہ ہوں تو جن دنوں ميں وہ پاک تهی، وہ بھی حيض ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ١ اگر کسی عورت کو تين دن سے زیادہ اور دس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ خون پهوڑے یا زخم کا ہے یا حيض کا، تو اگر خون ميں علامات حيض موجود ہوں یا ایام عادت ہوں تو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے۔ اس صورت کے علاوہ اگر جانتی ہو کہ سابقہ حالت طهارت تھی یا سابقہ حالت کو نہ جانتی ہو تو اپنے آپ کو پاک سمجھے اور اگر جانتی ہو کہ سابقہ حالت حيض تھی تو جهاں تک سابقہ حالت کے تمام خون اور مشکوک خون کا شرعاً حيض ہونا ممکن ہو، اسے حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴۵ ٢ اگر کوئی عورت خون دیکھے جسے تين دن نہ گزرے ہوں اور جس کے بارے ميں اسے علم نہ ہو کہ زخم کا خون ہے یا حيض کا اور ایامِ عادت ميں نہ ہو اور اس ميں صفات حيض نہ ہوں، تواگر سابقہ حالت حيض ہو جيسا کہ سابقہ مسئلے ميں بيان ہوچکا، تو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عبادات کو بجالائے۔

۷۳

مسئلہ ۴۵ ٣ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے شک ہو کہ یہ خون حيض ہے یا استحاضہ ، تو اس ميں حيض کی شرائط موجود ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴۵۴ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حيض ہے یا بکارت کا خون ، توضروری ہے کہ یااپنے بارے ميں تحقيق کرے یعنی روئی کی کچھ مقدار شرمگاہ ميں رکھے اور تهوڑی دیر انتظار کرے پھر روئی باہر نکالے، پس اگر خون روئی کے اطراف ميں لگا ہو تو خون بکارت ہے اور اگر خون ساری روئی تک پهنچ چکا ہو تو حيض ہے اور یا احتياط کرتے ہوئے ان کاموں کو بھی ترک کرے جو حائضہ پر حرام ہيں اور ان اعمال کو بھی انجام دے جو پاک عورت پر واجب ہيں ۔

مسئلہ ۴۵۵ اگر کسی عورت کو تين دن سے کم خون آئے اور پاک ہو جائے اور پھر تين دن تک ایام عادت یا علاماتِ حيض کے ساته آئے تو دوسرا خون حيض ہے اور پهلا خون اگرچہ ایام عادت ميں ہو حيض نہيں ہے ۔

حائضہ کے احکام

مسئلہ ۴۵۶ حائضہ پر چند چيزیں حرام ہيں :

اوّل: نماز جيسی عبادات جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم کرنا پڑتا ہے ۔ ان عبادات کے حرام ہونے سے مراد یہ ہے کہ انہيں حکمِ خدا کی بجاآوری اور مطلوبيتِ شرعی کے قصد سے انجام دینا جائز نہيں ہے ۔ ليکن نماز ميت جيسی عبادات جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم ضروری نہيں ہے ، انہيں انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

دوم:احکامِ جنابت ميں مذکورہ تمام چيزیں جو مجنب پر حرام ہيں ۔

سوم:فرج ميں جماع جو کہ مرد و عورت دونوں پر حرام ہے چاہے ختنہ گاہ کی مقدار سے بھی کم دخول ہو اور منی بھی نہ نکلے اور احتياط واجب کی بنا پر حائضہ کے ساته پشت کی جانب سے بھی وطی کرنے ميں اجتناب کرے۔ ہاں، حائضہ سے نزدیکی کے علاوہ بوسہ دینے اور چھيڑ چھاڑ جيسی لذت حاصل کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ٧ جماع کرنا ان ایام ميں بھی حرام ہے جب عورت کا حيض قطعی نہ ہو ليکن اس پر شرعاً خون کو حيض سمجھنا ضروری ہو، لہٰذا جو عورت دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور آئندہ آنے والے حکم کی بنا پر ان ميں سے اپنی رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت والے ایام کو حيض قرار دینا ضروری ہو تو ان ایام ميں اس کا شوہر اس سے نزدیکی نہيں کرسکتا ہے ۔

۷۴

مسئلہ ۴۵ ٨ اگر مرد بيوی سے حالت حيض ميں نزدیکی کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر ایام حيض کے پهلے حصے ميں اٹھ ارہ، دوسرے حصّے ميں نو اور تيسرے حصے ميں ساڑے چار چنے کے برابر سکہ دار سونا بطور کفارہ ادا کرے۔ مثلاً جس عورت کو چھ دن حيض آتا ہو اگر اس کا شوہر پهلی اور دوسری رات یا دن ميں اس سے جماع کرے تو اٹھ ارہ چنے کے برابر سونا، تيسری اور چوتھی رات یا دن ميں نَو چنے اور پانچویں اور چھٹی رات یا دن ميں نزدیکی کرے تو ساڑھے چار چنے کے برابر سونا دے اور عورت پر کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ٩ احتياط مستحب کی بنا پر حائضہ کے ساته پشت کی جانب سے نزدیکی کرنے کا کفارہ سابقہ مسئلے کے مطابق ادا کرے۔

مسئلہ ۴۶ ٠ اگر سکہ دار سونا نہ ہو تو اس کی قيمت ادا کرے اور اگر اس کی قيمت ميں ، جماع کرتے وقت اور فقير کو ادا کرتے وقت اختلاف ہو تو فقير کو ادا کرتے وقت کی قيمت حساب کرے۔

مسئلہ ۴۶ ١ اگر کوئی اپنی بيوی کے ساته ایام حيض کے پهلے، دوسرے اور تيسرے ہر حصے ميں جماع کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر ہر حصّے کا کفارہ دے جو مجموعاً ساڑھے اکتيس چنے ہيں ۔

مسئلہ ۴۶ ٢ اگر حائضہ سے متعدد بار نزدیکی کرے تو احتياط مستحب ہے کہ ہر جماع کے لئے عليحدہ کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶ ٣ اگر مرد نزدیکی کے دوران مطلع ہو جائے کہ بيوی حائضہ ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ فوراً اس سے جدا ہو جائے اور اگر جدا نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶۴ اگرمرد حائضہ عورت سے زنا کرے یا نامحرم حائضہ کو بيوی سمجھ کر اس کے ساته جماع کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶۵ جو شخص کفارہ دینے کی قدرت نہ رکھتا ہو احتياط مستحب کی بنا پر ایک فقير کو صدقہ دے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو استغفار کرے۔

مسئلہ ۴۶۶ اگر کوئی شخص جاہل قاصر ہونے کی وجہ سے یا بھول کر اپنی بيوی سے حالت حيض ميں نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ، ليکن جاہل مقصر ميں محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٧ اگر بيوی کو حائضہ سمجھتے ہوئے اس سے نزدیکی کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حائضہ نہيں تھی تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٨ اگر عورت کو حالت حيض ميں طلاق دے تو جيسا کہ طلاق کے احکام ميں بتایا جائے گا، ایسی طلاق باطل ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٩ گر عورت خود کے بارے ميں حائضہ ہونے یا پاک ہونے کی خبر دے تو قبول کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٠ اگر عورت نماز پڑھتے ہوئے حائضہ ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۷۵

مسئلہ ۴ ٧١ اگر عورت نماز پڑھتے ہوئے شک کرے کہ حائضہ ہوئی یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر نماز کے بعد معلوم ہو کہ نماز کے دوران حائضہ ہوگئی تھی تو اس حالت ميں پڑھی ہوئی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٢ خون حيض سے پاک ہونے کے بعد اگر نماز اور دوسری عبادتيں جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم ضروری ہوتا ہے ، انجام دینا چاہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط مستحب ہے کہ غسل سے پهلے وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۴ ٧٣ حيض سے پاک ہونے کے بعد اگر چہ غسل نہ کيا ہو، عورت کو طلاق دینا صحيح ہے اور اس وقت اس کا شوہر اس سے جماع بھی کرسکتا ہے ، ليکن جماع ميں احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے شرمگاہ دهونے کے بعدهو اور احتياط مستحب ہے کہ غسل سے پهلے، خصوصاً جب شدید خواہش نہ ہو، مجامعت نہ کرے۔ ہاں، مسجد ميں ٹھ هرنے اور قرآن کے حروف کو مس کرنے جيسے کام جو حائضہ پر حرام تهے، جب تک غسل نہ کرے حلال نہيں ہوں گے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۴ اگر اتنا پانی نہ ہو جس سے وضو اور غسل دونوں کئے جا سکيں ليکن صرف غسل کرنے کے لئے کافی ہو تو غسل کرنا ضروری ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر وضوکے بدلے تيمم کرے اور اگر صرف وضو کرنے کے لئے پانی ہو اور غسل کے لئے نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور غسل کے بدلے تيمم کرے اور اگر وضو اور غسل دونوں کے لئے پانی نہ ہو تو غسل اور وضو کے بدلے ایک ایک تيمم کرے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۵ عورت نے جو نمازیں حالت حيض ميں ترک کی ہيں ان کی قضا نہيں ہے اور نماز آِیات کا حکم مسئلہ نمبر ” ١ ۵ ١ ۴ “ ميں آئے گا، جب کہ رمضان کے روزوں کی قضا کرناضروری ہے ۔هاں، معين نذر والے روزے یعنی نذر کی ہو کہ مثلاً فلاں دن روزہ رکہوں گی اور اسی دن حائضہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۶ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد عورت جانتی ہو کہ اگر دیر کی تو حائضہ ہو جائے گی تو ضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اور اگر احتمال ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٧ اگر عورت اوّل وقت ميں نماز پڑھنے ميں تاخير کرے اور اتنا وقت گذر جائے کہ وہ اپنے حال کے اعتبار سے ایک شرائط رکھنے والی اور مبطلات سے محفوظ نماز انجام دے سکتی ہو اور حائضہ ہو جائے تو اس نماز کی قضا واجب ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت بھی ہے جب وقت اتنا گذرا ہو کہ صرف حدث سے طهارت، چاہے تيمم کے ذ ریعے ہی سهی، کے ساته نماز ادا کر سکتی ہو، جب کہ اس کے لئے نماز کی باقی شرائط مثلاً ستر پوشی یا خبث سے طهارت کا انتظام کرنا ممکن نہ ہو۔

مسئلہ ۴ ٧٨ اگر عورت نماز کے آخر وقت ميں خون سے پاک ہو جائے اور ابهی اتنا وقت باقی ہو کہ غسل کرکے ایک یا ایک سے زیادہ رکعت نماز پڑھی جا سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس کی قضا ضروری ہے ۔

۷۶

مسئلہ ۴ ٧٩ اگر حيض سے پاک ہونے کے بعد عورت کے پاس نماز کے وقت ميں غسل کرنے کی گنجائش نہ ہو، ليکن تيمم کرکے وقت نماز ميں نماز پڑھ سکتی ہو تو احتياط واجب ہے کہ تيمم کر کے نماز پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت ميں اس پر قضا نہيں ہے ۔ البتہ اگر کسی اور وجہ سے اس کی شرعی ذمہ داری تيمم ہو مثلاً اس کے لئے پانی مضر ہو تو واجب ہے کہ تيمم کر کے نماز پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت ميں قضا واجب ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨٠ اگر حيض سے پاک ہونے کے بعد عورت شک کرے کہ نماز کے لئے وقت ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنی نماز پڑھے۔

مسئلہ ۴ ٨١ اگر اس خيال سے کہ نماز کے مقدمات فراہم کر کے ایک رکعت نماز کے لئے بھی وقت نہيں ہے ، نماز نہ پڑھے، پھر بعد ميں معلوم ہو کہ وقت تھا تو اس نماز کی قضا کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨٢ مستحب ہے کہ حائضہ، نماز کے وقت ميں خود کو خون سے پاک کرے، روئی اور کپڑے کو تبدیل کرے، وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتی ہو تو تيمم کرکے کسی پاک جگہ رو بقبلہ ہو کر بيٹھے اور نماز کی مقدار ميں ذکر، تسبيح تهليل اور حمد الٰهی ميں مشغول ہو۔

مسئلہ ۴ ٨٣ حائضہ کے لئے مهندی اور اس جيسی چيز سے خضاب کرنا اور بدن کے کسی حصے کو قرآن کے الفاظ کے درميانی حصّوں سے مس کرنا مکروہ ہے ۔هاں، قرآن ساته رکھنے اور پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

حائضہ عورتوں کی اقسام

مسئلہ ۴ ٨ ۴ حائضہ عورتوں کی چھ قسميں ہيں :

(اوّل) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين پر خون دیکھے اور اس کے ایام حيض کی تعداد بھی دونوں مهينوں ميں مساوی ہو مثلاً مسلسل دو ماہ مهينے کی پهلی سے ساتویں تک خون دیکھے ۔

(دوم) و قتيہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک وقت معين پر خون دیکھے ليکن دونوں مهينوں ميں اس کے ایام حيض کی تعداد برابر نہ ہو مثلاً مسلسل دو ماہ پهلی سے خون دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو۔

۷۷

(سوم) عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے ایام حيض کی تعداد مسلسل دو ماہ ایک دوسرے کے برابر ہو ليکن ان دونوںمهينوں ميں خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تک اور دوسرے مهينے بارہ سے سترہ تاریخ تک خون دیکھے ۔

اورایک مهينے ميں دو مرتبہ مساوی ایام ميں خون دیکھنے سے عادت طے ہونا محل اشکال ہے ، مثلاً مهينے کی ابتدا ميں پانچ روز اور دس یا زیادہ دنوں بعد دوبارہ پانچ روز خون دیکھے ۔

(چهارم) مضطربہ: یہ وہ عورت ہے جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو ليکن اس کی عادت ہی معين نہ ہوئی ہو یا پرانی عادت بگڑ گئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو ۔

(پنجم) مبتدئہ: یہ وہ عورت ہے جس نے پهلی مرتبہ خون دیکھا ہو۔

(ششم)ناسيہ: یہ وہ عورت ہے جو اپنی عادت بھول گئی ہو ان ميں سے ہر ایک کے مخصوص احکام ہيں جو آئندہ مسائل ميں بيان ہوں گے۔

١۔وقتيہ و عدديہ عادت والی عورت مسئلہ ۴ ٨ ۵ وقتيہ و عددیہ عادت والی خواتين کی دو اقسام ہيں :

(اوّل) وہ عورت جو مسلسل دو ماہ وقت معين پر حيض دیکھے اور وقت معين پر پاک ہو جائے مثلاً مسلسل دو ماہ پهلی سے خون دیکھے اور ساتویں کو پاک ہو جائے۔ لہٰذا اس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہے ۔

(دوم) وہ عورت جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر حيض دیکھے اور تين یا اس سے زیادہ دن گزرنے کے بعد ایک دن یا زیادہ ایام پاک رہے اور پھر دوبارہ حيض دیکھے ليکن خون والے اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مهينوں ميں خون والے اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ برابر ہو۔ لہٰذا اس کی عادت ان تمام ایام کی ہے کہ جن ميں خون دیکھا اور جن ميں پاک رہی ہے ، البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ دونوں مهينوں ميں درميانی پاکی کے ایام مساوی ہوں، مثلا اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھے اور پھر تين دن پاک گزرنے کے بعد دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے مهينے تين دن خون دیکھنے کے بعد تين دن سے کم یا زیادہ پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ نو دن ہو تو اس صورت ميں پورے نو دن حيض ہيں اور اس عورت کی عادت نو دن ہے ۔

۷۸

مسئلہ ۴ ٨ ۶ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے ایام ميں یا عادت سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے سلسلے ميں مذکورہ احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا مثلاً تين دن پورے ہونے سے پهلے پاک ہو جائے تو ضروری ہے کہ جن عبادتوں کو ترک کيا تھا ان کی قضا کرے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب ایام عادت کی ابتدا ميں تاخير سے خون دیکھے ليکن عادت سے باہر نہ ہو، البتہ اگر ایام عادت کے تمام ہونے کے بعد خون دیکھے اور اس ميں حيض کی کوئی علامت نہ ہو تو اگر ایام عادت کے ختم ہونے کے دو یا زیادہ دنوں کے بعد ہو تو حيض نہيں ہے اور اگردو دن سے کم مدت ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٨٧ وقتيہ اور عددیہ عادت والی عورت اگر عادت کے تمام ایام کے ساته ساته عادت سے پهلے والے ایام ميں حيض کی علامات کے ساته یا اس طرح خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت پهلے آگئی ہے اور عادت کے بعد کے ایام ميں بھی حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور یہ سب مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر زیادہ ہو تو فقط عادت والا خون حيض ہے اور اس سے پهلے اور بعد والا استحاضہ ہے ۔ لہٰذا عادت سے پهلے اور بعد والے ایام ميں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا ضروری ہے ۔

اگر عادت کے تمام ایام کے ساته عادت سے پهلے والے ایام ميں حيض کی علامات کے ساته یا اس طرح کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت پهلے آگئی ہے ، خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو فقط عادت کے ایام حيض ہيں اور عادت سے پهلے والا خون استحاضہ ہے ۔ لہٰذا ان ایام ميں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا ضروری ہے ۔

اگر عادت کے تمام ایام کے ساته ساته عادت کے بعد بھی حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تو احتياط واجب کی بنا پر عادت کے بعد والے ایام ميں تروک حائض اور افعال استحاضہ ميں جمع کرے، البتہ اگر مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو جائے تو عادت والے ایام حيض اور باقی استحاضہ ہيں ۔

۷۹

مسئلہ ۴ ٨٨ وقتيہ اور عددیہ عادت والی عورت اگر عادت کے کچھ دن اور عادت سے اتنا پهلے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا عادت سے پهلے حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو عادت کے ایام ميں آئے ہوئے خون کے ساته عادت سے پهلے والے جن ایام کا مجموعہ اس کی عادت کے برابر ہو وہ حيض ہے بشرطيکہ عادت سے پهلے والے خون کے بارے ميں عرفاً کها جاتا ہو کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا اس ميں حيض کی علامات ہوں اور ان سے پهلے والے ایام کو استحاضہ شمار کرے۔

اور اگر عادت کے کچھ دن اور اس کے بعد چند دن خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو اور عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات بھی موجود ہوں تو سب کا سب حيض ہے اور اگر عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات موجود نہ ہوں، تو عادت اور اس کے بعد والے جتنے ایام مل کر عادت کے دنوں کی تعداد بنتی ہوان کو حيض قرار دے اور اس کے بعد دسویں دن تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے ۔ ہاں، اگر سب مل کر دس دن سے زیادہ ہو تو عادت کی مقدار کے ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٨٩ جو عورت عادت والی ہو، اگر تين دن یا اس زیادہ خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور دونوں خونوں کے درميان دس دن سے کم فاصلہ ہو اور خون دیکھنے والے ایام کے ساته درميان ميں پاک رہنے والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو مثلاً پانچ دن خون دیکھے پھر پانچ دن پاک رہے اور دوبارہ پانچ دن خون دیکھے تو اس کی چند صورتيں ہيں :

١) پهلی مرتبہ دیکھا ہوا سارا خون عادت کے ایام ميں ہو اور پاک ہونے کے بعد جو دوسرا خون دیکھا ہو وہ عادت کے دنوں ميں نہ ہو، اس صورت ميں پهلے والے سارے خون کو حيض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔ یهی حکم ہے جب پهلے خون کی کچھ مقدار عادت ميں اور کچھ مقدار عادت سے پهلے دیکھے بشرطيکہ خون عادت سے اتنا پهلے دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا حيض کی علامات کے ساته ہو، چاہے عادت سے پهلے ہو یا عادت کے بعد ہو۔

٢) پهلا خون عادت کے ایام ميں نہ ہو اور دوسرے خون ميں سے سارا یا کچھ خون پهلی صورت ميں مذکورہ طریقے کے مطابق عادت کے دنوں ميں ہو تو ضروری ہے کہ دوسری مرتبہ کے سارے خون کو حيض اور پهلے خون کو استحاضہ قرار دے۔

٣) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت کے ایام ميں ہو اور پهلی مرتبہ کا جو خون عادت کے ایام ميں ہو وہ تين دن سے کم نہ ہو تو اس صورت ميں یہ مقدار درميانی پاکی اور دوسری مرتبہ کے عادت ميں آئے ہوئے خون کے ساته اگر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو حيض ہے ، جب کہ پهلے خون ميں سے عادت سے پهلے والا اور دوسرے ميں سے عادت کے بعد والا خون استحاضہ ہے مثلاً اگر اس کی عادت مهينے کی تيسری سے دسویں تک ہو تو جب مهينے کی پهلی سے چھٹی تک خون دیکھے پھر دو دن پاک رہے اس کے بعد پندرہویں تک خون دیکھے تو تين سے دس تک حيض ہے اور پهلے، دوسرے اور گيارہ سے پندرہ تک استحاضہ ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

مسئلہ ٢١٢٨ ایک سال کا پھل اس کے کونپل بننے سے پهلے،کسی چيز کو ساته ملا ئے بغير فروخت کرنا جائز نہيں ہے ،البتہ دو یا اس سے زیادہ سالوں کا پھل فروخت کرنایا کسی چيز کو ساته ملاتے ہوئے ایک سال کا پھل فروخت کرنا جائزهے،اور احتياط مستحب یہ ہے کہ پھل کے کونپل بن جانے کے بعد اس سے پهلے کہ پھول گرے اور پھل اپنے ابتدائی مرحلے ميں داخل ہو،بيچنے کے ليے اس کے ساته زمين سے ہی حاصل ہونے والی کوئی چيز مثلاً سبزیجات یا کوئی اور مال ملا کر بيچا جائے یا ایک سال سے زیادہ کا پھل بيچا جائے۔

مسئلہ ٢١٢٩ درخت پر لگی ہوئی کھجور اگر لال یا پيلی ہو چکی ہو تو اسے بيچنے ميں کوئی حرج نہيں ،ليکن اس کی قيمت اسی درخت پر لگی ہوئی کھجور کو قرار نہيں دیا جا سکتا۔ اسی طرح احتياط واجب یہ ہے کہ کسی اور کھجور کو بھی چاہے معين ہو یا ذمے پر،اس کا عوض قرار نہ دیا جائے۔

البتہ اگر کسی شخص کے پاس ایک کھجور کا درخت کسی دوسرے کے گھر ميں ہو تو درخت کا مالک اگر ان کھجوروں کی مقدار کا اندازہ لگا کر اس گھر کے مالک کو بيچ دے اور اس کا عوض بھی کھجوریں ہی قرار دے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢١٣٠ کهيرے،بينگن اور سبزیاں جن کی سال ميں کئی فصليں اترتی ہيں ،ان کو ظاہر ونمایاں ہو جانے کے بعد یہ طے کرتے ہوئے کہ خریدار سال ميں ان کی کتنی فصليں اتارے گا،بيچنا جائز ہے ۔

مسئلہ ٢١٣١ اگر گند م او ر جوَ کے خوشے کو دانہ پڑنے کے بعد گندم اور جوَ کے علاوہ کسی اور چيز کے عوض فروخت کيا جائے تو کوئی حرج نہيں ،البتہ اسی خوشے سے حاصل ہونے والے گندم یا جوَکے عو ض ميں بيچنا جائز نہيں ۔اسی طرح احتياطِ واجب کی بنا پر اس خوشے کی جوَ یا گندم کے علاوہ کسی اور جوَ یا گندم کے عو ض بيچنا بهی،چاہے جوَ یا گندم معين ہو یا نہ ہو، جائز نہيں ہے ۔

نقد اور ادهار

مسئلہ ٢١٣٢ اگر کسی چيز کو نقد فروخت کيا جائے تو خریدار اور فروخت کرنے والا ایک دوسرے سے چيز اور رقم کا مطالبہ کر کے اپنی تحویل ميں لے سکتے ہيں ۔

اور اموال کو تحویل ميں دینا، خواہ منقول ہوں یاغير منقو ل، یہ ہے کہ دوسرے کے تصرف ميں موجود رکاوٹوں کو برطرف کر دیاجائے۔

مسئلہ ٢١٣٣ ادهار سودے ميں ضروری ہے کہ مدت مکمل طور پر معلوم ہو، لہٰذا اگر کسی چيز کو فروخت کرے کہ فصل کی کٹائی کے وقت اس کی رقم لے تو چونکہ مدت مکمل طور پر معين نہيں ہوئی لہٰذا سودا باطل ہو گا۔

۳۴۱

مسئلہ ٢١٣ ۴ اگر کسی چيز کو ادهار پر فروخت کرے تو طے شدہ مدت کے ختم ہونے سے پهلے اس کی قيمت کا خریدار سے مطالبہ نہيں کر سکتا۔ ہاں، اگر خریدار مر جائے اور اس کا اپنا مال ہو تو فروخت کرنے والامدت کے ختم ہونے سے پهلے اس کے وارثوں سے قيمت کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٣ ۵ اگر کسی چيز کو ادهار پر فروخت کرے تو طے شدہ مدت ختم ہونے کے بعد خریدار سے اس کا مطالبہ کر سکتا ہے ، ليکن اگر خریدار قيمت ادا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ یا اسے مهلت دے اور یا پھرمعاملے کو ختم کردے اور اگر بيچی گئی چيز موجود ہو تو اسے واپس لے لے۔

مسئلہ ٢١٣ ۶ اگر کسی ایسے شخص کو ادهار بيچے جو چيز کی قيمت نہ جانتا ہو اور نہ ہی اس کی قيمت اس کو بتائے تو سودا باطل ہو گا،ليکن اگر کسی ایسے شخص کو جو چيز کی نقد قيمت کو جانتاہو ادهار دے اور مهنگی قيمت لگائے مثلاً کهے کہ اس ادهار ميں دی ہوئی چيز کی قيمت نقد قيمت سے ایک روپے پر دس پيسے کے حساب سے زیادہ لوں گا اور خریدار قبول کر لے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢١٣٧ جس شخص نے کسی چيز کو ادهار پر فروخت کياہو اور اس کی رقم لينے کی مدت کو طے کر ليا ہو اگر مثلاًآدهی مدت گزرنے کے بعد خریدار سے کهے کہ قيمت کی اتنی مقدار مجھے نقد دے دواور باقی تمہيں معاف کرتا ہوں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

معاملہ سلف

مسئلہ ٢١٣٨ معامل ۂ سلف یہ ہے کہ خریدار نقد رقم دے کر کسی چيز کو بيچنے والے کے ذمہ پر خریدے کہ کچھ مدت کے بعد اس چيز کو بيچنے والے سے لے۔یہ سودا ادهار سودے کے بالکل برعکس ہے ۔

اور اگر خریدار کهے:” ميں یہ رقم دیتا ہوں تاکہ مثلاچھ مهينے کے بعد فلاں چيز کو لوں کہ جو تمهارے ذمہ پر ہے “ اور فروخت کرنے والا کهے:” ميں نے قبول کيا“یا فروخت کرنے والا رقم لے کر کهے:” ميں فلاں چيز کو اپنے ذمہ پر فروخت کرتا ہوں کہ چھ ماہ بعد تمہيں دوں“، تو یہ سودا صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢١٣٩ اگر سونے یا چاندی کو خواہ وہ رقم کی صورت ميں ہو یا نہ ہو بطورِ سلف فروخت کرے اور اس کی قيمت ميں سونا یا چاندی ہی لے، چاہے وہ رقم کی صورت ميں ہو یا نہ ہو ،سودا باطل ہو گا ۔ ليکن اگر کسی چيز یا ایسی رقم کو جو سونے یا چاندی کی صورت ميں نہ ہو بطور سلف فروخت کرے اور اس کی قيمت ميں کوئی چيز یا سونا چاندی لے تو خواہ وہ رقم کی صورت ميں ہو یا نہ ہو، سودا صحيح ہو گا ۔

۳۴۲

معاملہ سلف کے شرائط

مسئلہ ٢١ ۴ ٠ معامل ۂ سلف کے سات شرائط ہيں :

١) ان خصوصيا ت کو معين کيا جائے جو چيز کی قيمت پر اثر انداز ہوتی ہيں اور ان خصوصيات کا اس طرح معين کرنا کہ عرفِ عام ميں یہ کها جائے کہ اس کی خصوصيا ت معلوم ہو گئی ہيں ، کافی ہے اور ان چيز وں ميں کہ جن کی صفات اور خصوصيات دیکھے بغير معين نہيں ہو سکتی ہيں جيسے جواہرات اور اس جيسی چيزیں ، معاملہ سلف صحيح نہيں ہے ۔

٢) خریدار اور بيچنے والے کے ایک دوسرے سے الگ ہونے سے پهلے خریدار مکمل قيمت بيچنے والے کو ادا کرے یا بيچنے والا قيمت کی مقدار ميں خریدار کا مقروض ہو اور اس کا قرضہ نقد رقم یا ایسے ادهار کی صورت ميں ہو جس کی مدت پوری ہو چکی ہو اور اپنے اس قرض کو چيز کی قيمت کے طور پر حساب کرے اور بيچنے والا بھی اس حساب کو قبول کرے۔

اور اگر قيمت کا کچھ ادا کرے تو صرف اس قيمت کی بہ نسبت سودا صحيح ہو گا اور بيچنے والے کو یہ اختيار ہو گا کہ سودا ختم کر دے۔

٣) مدت کو اس طرح معين کيا جائے کہ مکمل طور پر معلوم ہو ،لہٰذا اگر مثلاًکهے کہ فصل کی کٹائی کے وقت چيزکو تمهارے حوالے کروں گا تو چونکہ مدت مکمل طور پر معلوم نہيں ہوئی ہے ، لہٰذا سودا باطل ہو گا۔

۴) چيز تحویل ميں دینے کے لئے معين کيا جانے والا وقت ایسا ہو کہ بيچنے والا اس وقت چيز کو تحویل ميں دے سکے۔

۵) چيزکا قبضہ دینے کی جگہ، اس صورت ميں معين ہونا ضروری ہے کہ جب جگہوں کا مختلف ہونا قبضہ دینے ميں دشواری یا مالی نقصان کا سبب ہو، ليکن اگر قرائن سے اس کی جگہ معلوم ہو تو اس جگہ کا نام لينا ضروری نہيں ۔

۶) چيز کی مقدار کو وزن، پيمانہ، گنتی یا ان جيسی چيزوں سے معين کيا جائے اور ان چيزوں کو بھی بطورِ سلف فروخت کرنے ميں کوئی حرج نہيں جنہيں عام طور پر دیکھ کر خریدا جاتاہے ، بشرطيکہ اخروٹ اور انڈے کی بعض اقسام کی طرح اس کے افراد ميں اس قدر کم فرق ہو جسے لوگ اہميت نہيں دیتے ۔

٧) جس چيز کو فروخت کيا جارہا ہو اگر وہ ان چيزوں سے ہو کہ جنہيں وزن یا پيمانے سے فروخت کيا جاتا ہے تو اس کا عوض اسی چيز سے نہ ہو مثلاًگندم کو گندم کے عوض بطور سلف فروخت نہيں کيا جاسکتا ۔

معاملہ سلف کے احکام

مسئلہ ٢١ ۴ ١ جس چيز کو انسان نے بطور سلف خریدا ہو اسے مدت پوری ہونے سے پهلے بيچنے والے کے علاوہ کسی اور شخص کے ہاتھ نہيں بيچ سکتا ہے اور اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر بيچنے والے کو بھی نہيں بيچ سکتا ہے ۔ ہاں، مدت پوری ہونے کے

۳۴۳

بعد اس چيز کو بيچنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، اگرچہ خریدار نے مطلوبہ چيز اپنے قبضے ميں نہ لی ہو، ليکن اگر بيچنے والے کو قيمت کی جنس سے ہی بيچے تو ضروری ہے کہ چيز کی قيمت سے زیادہ پر نہ بيچے۔ ناپ یا تول کر بيچی جانے والی اشياء کو قبضے ميں لینے سے پهلے بيچنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر سرمايہ سے زیادہ پر نہ بيچے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۴ ٢ اگر بيچنے والا اُس چيز کوجس کا سودا بطور سلف ہوا ہو، وقت مقررہ ميں خریدار کے سپرد کردے تو خریدار کے لئے اس کا قبول کرنا ضروری ہے اور اگر جس چيز کا سودا ہوا ہو اس سے بہتر چيز دے جس کا شمار اسی جنس سے ہو تو بھی خریدار کے لئے قبول کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۴ ٣ اگر بيچنے والا، جس چيز کا سودا ہوا ہو اس سے گھٹيا چيز دے تو خریدار کو اختيار ہے کہ وہ قبول نہ کرے۔

مسئلہ ٢١ ۴۴ اگر بيچنے والا اُس چيز کے علاوہ کوئی دوسری چيز دے جس کا سودا ہوا تھا تو خریدار کے راضی ہونے کی صورت ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۴۵ جس چيز کو بطورِ سلف بيچا گيا ہو، اگر وہ اس وقت نایاب ہوجائے جب اسے خریدار کے سپرد کرنا ضروری ہو اور بيچنے والے کے لئے مهيا کرنا ممکن نہ رہے تو خریدار کو اختيار ہے کہ یا تو چيز کے دستياب ہونے تک صبر کرے یا سودا فسخ کرکے اپنی رقم واپس لے لے۔

مسئلہ ٢١ ۴۶ اگر کوئی شخص کسی چيز کو بيچے اور يہ طے پائے کہ کچھ عرصے کے بعد چيز دے گا اور رقم بھی کچھ عرصہ کے بعد لے گا تو سودا باطل ہے ۔

سونے و چاندی کی سونے و چاندی کے عوض فروخت

مسئلہ ٢١ ۴ ٧ اگر سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض بيچا جائے خواہ وہ سکّے کی صورت ميں ہو یا نہ ہو، اگر ان ميں سے ایک کا وزن دوسرے سے زیادہ ہو توسودا حرام اور باطل ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۴ ٨ اگر سونے کو چاندی کے عوض یا چاندی کو سونے کے عوض بيچا جائے تو سودا صحيح ہے اور ضروری نہيں ہے کہ دونوں کا وزن مساوی ہو۔

مسئلہ ٢١ ۴ ٩ اگر سونے یا چاندی کو سونے یا چاندی کے عوض بيچا جائے تو بيچنے والے اور خریدنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پهلے چيز اور اس کے عوض کا تبادلہ کرليں اور اگر معاملہ شدہ جنس کی کچھ مقدار کا بھی تبادلہ نہ کریں تو ایسی صورت ميں سودا باطل ہے ۔

۳۴۴

مسئلہ ٢١ ۵ ٠ اگر بيچنے والے یا خریدنے والے ميں سے کوئی ایک طے شدہ مال پورا پورا دوسرے کے سپرد کردے ليکن دوسرا کچھ مقدار حوالے کرے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائيں تو اگرچہ اتنی مقدار کی نسبت سودا صحيح ہے ، ليکن جس کو پورا مال نہ ملا ہو وہ سودا فسخ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵ ١ اگر کان ميں موجود چاندی کی مٹی کو خالص چاندی سے اور اسی طرح کان ميں موجود سونے کی مٹی کو خالص سونے سے بيچا جائے تو سودا باطل ہے ، مگر يہ کہ بيچنے والا جانتا ہو کہ مٹی ميں موجود سونے یا چاندی کی مقدار خالص سونے یا چاندی کے برابر ہے ۔ ہاں، چاندی کی مٹی کو سونے کے عوض اور سونے کی مٹی کو چاندی کے عوض بيچنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

وہ مقامات جهاں انسان معاملہفسخ (ختم) کر سکتاہے

مسئلہ ٢١ ۵ ٢ سودا فسخ کرنے کے حق کو ”خيار“ کہتے ہيں ۔ خریدار اور بيچنے والے کو گيارہ صورتوں ميں سودا فسخ کرنے کا اختيار ہے :

١) خریدار اور بيچنے والا سودے کے بعد ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں اگرچہ اس مقام سے باہر آگئے ہوں جهاں معاملہ طے پایا تھا۔ اس خيار کو ”خيارِ مجلس“ کها جاتا ہے ۔

٢) خریدار یا بيچنے والے کو خریدوفروخت یا اس کے علاوہ کسی چيز ميں دهوکا ہواہو۔ اس خيار کو ”خيارِ غبن“ کہتے ہيں ۔

٣) سودے ميں طے کيا جائے کہ ایک خاص مدت تک دونوں یا کسی ایک کو سودا فسخ کرنے کا اختيار ہے اور اس خيار کو ”خيارِ شرط“ کہتے ہيں ۔

۴) فریقین ميں سے کوئی اپنے مال کو اس کی اصلی حالت سے بہتر بتائے اور اس طرح پےش کرے کہ لوگوں کی نظروں ميں مال کی قيمت بڑھ جائے۔ اس خيار کو ”خيارِ تدلےس“ کہتے ہيں ۔

۵) فریقین ميں سے ایک فریق دوسرے کے ساته شرط باندهے کہ وہ ایک کام بجا لائے گا اور اس شرط پر عمل نہ ہو یا يہ شرط کی جائے کہ وہ مال چند خصوصيات کا حامل ہو اور وہ خصوصيت اس مال ميں نہ پائی جائے، ان دونوں صورتوں ميں شرط کرنے والا سودا فسخ کرسکتا ہے ۔

اس خيار کو ”خيارِ تخلّف شرط“ کہتے ہيں ۔

۶) چيز یا اس کے عوض ميں عےب ہو۔ اس خيار کو ”خيارِ عےب“ کہتے ہيں ۔

٧) معلوم ہوجائے کہ فریقین نے جس چيز کا سودا کيا تھا اس کی کچھ مقدار دوسرے شخص کا مال ہے ۔اس صورت ميں اگر اس مقدار کا مالک اس سودے پر راضی نہ ہو تو خریدار سودا فسخ کرسکتا ہے یا اگر اتنی مقدار کا عوض دے چکا ہو تو اسے واپس لے سکتا

۳۴۵

ہے اور اس کی دو قسميں ہيں :

١لف) وہ معين مقدار بطورِ مشاع ہو۔ یهاں ”خيارِ شرکت“ کا مقام ہے ۔

ب) وہ معين مقدار جداگانہ ہو۔ یهاں ”خيارِ تبعضِ صفقہ“ کا مقام ہے ۔

٨) مال کا بيچنے والا مال جو کہ معين ہے اور ذمہ پر نہيں ہے ، کی خصوصيات کو خریدار کے سامنے بيان کرے جب کہ خریدار نے اس مال کو نہ دےکها ہو اور بعد ميں معلوم ہو کہ چيز وےسی نہيں ہے جیسی بتلائی گئی تھی۔ اس صورت ميں خریدار سودا فسخ کرسکتا ہے ۔ اس خيار کو ”خيارِ رویت“کہتے ہيں ۔

٩) خریدار خریدی ہوئی چيز کی قيمت تین روز تک نہ دے جب کہ اس نے دیر سے ادائیگی کی کوئی شرط بھی نہ رکھی ہو۔ اس صورت ميں اگر بيچنے والے نے مال خریدار کے سپرد نہ کيا ہو تو سودا فسخ کرسکتا ہے ، ليکن اگر خریدی ہوئی شَے بعض ایسے پهلوں کی طرح ہو جو ایک دن پڑے رہنے سے خراب ہوجاتے ہيں تو ایسی صورت ميں اگر رات تک ادائیگی نہ کرے جب کہ شرط بھی نہ رکھی ہو کہ دیر سے قيمت ادا کرے گا تو بيچنے والا سودا فسخ کرسکتا ہے ۔ اسے ”خيارِ تاخیر “ کہتے ہيں ۔

١٠ ) جو شخص کوئی حیوان خریدے، تین روز تک سودا فسخ کرسکتا ہے اور اگر کسی چيز کو حيوان کے بدلے بيچا ہو تو بيچنے والا تین روز تک سودا فسخ کرسکتا ہے ۔ اسے ”خيار حیوان“ کہتے ہيں ۔

١١ ) بيچنے والا اس چيز کا قبضہ نہ دے سکے جسے بيچ چکا ہو، مثلاً جس گهوڑے کو بيچا ہو وہ بهاگ جائے، تو اس صورت ميں خریدار سودا فسخ کرسکتا ہے ۔ اسے ”خيارِ تعذرِ تسلےم“ کہتے ہيں ۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٢١ ۵ ٣ اگر خریدار چيز کی قيمت سے واقف نہ ہو یا سودا کرتے وقت غفلت برتے اور رائج قيمت سے زیادہ پر خریدلے، پس اگر اتنا مهنگا خریدا ہو کہ لوگ اسے اہميت دیتے ہوں اور چھوٹ نہ برتتے ہوں تو خریدار سودا فسخ کرسکتا ہے ۔

اسی طرح اگر بيچنے والا قيمت سے واقف نہ ہو یا سودے کے وقت غفلت برتے اور رائج قيمت سے کم پر فروخت کردے، پس اگر لوگ اسے اہميت دیتے ہوں اور چھوٹ نہ برتتے ہوں تو بيچنے والا سودا فسخ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵۴ ” بیعِ شرط“ ميں ، مثال کے طور پر ایک لاکه روپے کا مکان ۵ ٠ ،ہزار روپے ميں بيچ دیا جائے اور طے کيا جائے کہ اگر بيچنے والا مقررہ مدت تک رقم پلٹادے تو سودا فسخ کرسکتا ہے ، اگر خریدار اور بيچنے والا خریدنے اور بيچنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو سودا صحيح ہے ۔

۳۴۶

مسئلہ ٢١ ۵۵ ” بیعِ شرط“ ميں اگر بيچنے والے کو اطمينان ہو کہ خواہ وہ مقررہ مدت ميں رقم واپس نہ بھی کرے تب بھی خریدار املاک اسے واپس کردے گا تو سودا صحيح ہے ، ليکن اگر وہ مدت ختم ہونے تک رقم واپس نہ کرے تو وہ خریدار سے املاک کی واپسی کا مطالبہ نہيں کرسکتا ہے اور اگر خریدار مقررہ مدت آجانے کے بعدمرجائے تو اس کے ورثاء سے املاک کی واپسی کا مطالبہ نہيں کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵۶ اگر مثلاًاعلیٰ قسم کی چائے کو معمولی قسم کی چائے کے ساته ملادے اور اسے اعلی قسم کی چائے کے نام پر فروخت کرے اور خریدنے والا یہ بات نہ جانتاہو تو وہ سودا توڑ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵ ٧ اگر سودا اس مال پر ہو کہ جو خارج ميں ہے ،نہ کہ ذمہ پر اور پھر خریدار کو پتہ چلے کہ اس مال ميں کوئی عيب ہے مثلا کوئی جانور خریدے اور معلوم ہوکہ اس کی ایک آنکه نہيں ہے ، تواگر وہ عيب سودے سے پهلے مال ميں تھا ليکن اسے اس بات کا علم نہيں تھا تو وہ سودا توڑ کر بيچنے والے کو وہ مال لوٹا سکتاہے اور اگر واپس کرنا ممکن نہ ہو مثلاًاس مال ميں کوئی تبدیلی واقع ہوگئی ہو یا وہ مال ميں کوئی ایسا تصرف کر چکا ہو جو مال کو واپس کرنے ميں رکاوٹ ہو تو اس صورت ميں مال کی سالم اور معيوب حالتوں کی قيمت کو معين کيا جائے اور بيچنے والے کو دی جانے والی رقم سے سالم اور معيوب حالت کی قيمتوں کے فرق کی مقدار نسبت کے اعتبار سے واپس لے لے۔مثال کے طور پر جس مال کو چار روپے ميں خریدا ہو اور پتہ چلے کہ وہ معيوب ہے تو اس صورت ميں کہ اس کے سالم کی قيمت آٹھ روپے ہو اور اس کے معيوب کی قيمت چھ روپے ہو، تو چونکہ سالم اور معيوب کی قيمتوں کا ۴) یعنی ایک / ۴) ہے ، تو وہ دی ہوئی رقم کا ایک چوتھائی( ١ / فرق نسبت کے اعتبار سے ایک چو تھائی( ١روپيہ بيچنے والے سے لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵ ٨ اگر فروخت کرنے والے کو پتہ چلے کہ اس معين خارجی ميں کہ جس کے عوض اپنا مال فروخت کيا تھا ، کوئی عيب ہے ۔ تو اگر وہ عيب سودے سے پهلے عوض ميں تھا اور وہ نہيں جانتا تھا تو وہ سودا توڑ کر یہ عوض اس کے مالک کو لوٹا سکتا ہے اور اگر تبدیلی یا ایسے تصرف کی وجہ سے جو لوٹانے ميں رکاوٹ ہو ، نہ لوٹا سکتا ہو تو وہ سالم اور معيوب کی قيمت کے فرق کی نسبت کو سابقہ مسئلے ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق لے سکتاہے۔

مسئلہ ٢١ ۵ ٩ اگر سودا ہونے کے بعد اور مال سپرد کرنے سے پهلے اس ميں کوئی عيب پيدا ہوجائے تو خریدار سودا توڑ سکتاہے۔اسی طرح اگر مال کے عوض ميں سودا ہونے کے بعد اور قبضہ سے پهلے کوئی عيب پيدا ہوجائے تو بيچنے والا سودا توڑ سکتاہے ۔ليکن اگر قيمت کا فرق لينا چاہيں تو یہ جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٠ اگر سودے کے بعد مال کے عيب کا علم ہوجائے توفوری طور پر سودا توڑنا ضروری نہيں بلکہ بعد ميں بھی سودا توڑنے کا حق رکھتا ہے ۔ اگر چہ احوط یہ ہے کہ تاخير نہ کی جائے۔

۳۴۷

مسئلہ ٢١ ۶ ١ جب کوئی چيز خریدنے کے بعد اس کے عيب کا علم ہو تو اگرچہ بيچنے والا موجود نہ ہو وہ سودا توڑ سکتا ہے ۔ باقی خيارات ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٢ چار صورتوں ميں خریدار، مال ميں موجود عيب کی وجہ سے نہ سودا توڑ سکتا ہے اور نہ ہی قيمتوں کا فرق لے سکتاہے :

١) خریدتے وقت ہی وہ مال کے عيب سے واقف ہو ۔

٢) مال کے عيب پر راضی ہوجائے۔

٣) سودے کے وقت کهے:”اگر مال ميں کوئی عيب ہوگا تو ميں واپس نہيں دوں گا اور قيمت کا فرق بھی نہيں لوں گا“۔

۴) فروخت کرنے والا سودے کے وقت کهے ”ميں اس مال کو اس ميں موجود ہر عيب کے ساته فروخت کرتا ہوں“، ليکن اگر عيب کو معين کر دے او ر کهے: ” ميں مال کو اس عيب کے ساته فروخت کرتاہوں“ اور بعد ميں معلوم ہوکہ کوئی اور عيب بھی ہے تو خریدار اس عيب کی خاطر جسے فروخت کرنے والے نے معين نہيں کيا تھا ، مال کو واپس کر سکتا ہے اور اگر واپس نہ کرسکے تو قيمت کا فرق لے لے۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٣ چند صورتوں ميں ، جس شخص کے پاس معيوب مال پهنچا ہو، معاملہ کو عيب کی وجہ سے فسخ نہيں کر سکتا بلکہ صرف قيمت کے فرق کا مطالبہ کر سکتاہے :

١) جب عين مال تلف ہو چکا ہو۔

٢) جب وہ چيزاس کی ملکيت سے نکل چکی ہو، مثلاً کسی کو وہ چيز بيچ چکا ہو یا بخش چکا ہو۔

٣) وہ مال تبدیل ہو چکا ہو، مثلاً جو کپڑا خریدا ہو اسے کاٹ چکا ہو یا اسے رنگ کروا چکا ہو۔

۴) اس صورت ميں کہ اگرچہ وہ چيز اس کی ملکيت سے باہر نہ گئی ہو ليکن اس پر کوئی معاملہ انجام پا چکا ہو مثلاً اسے کرائے پر دے چکا ہو یا گروی رکھوا چکا ہو۔

۵) قبضہ لينے کے بعد اس ميں کوئی عيب پيدا ہو چکا ہو، ليکن اگر خریدی ہوئی چيز معيوب حيوان ہو اور تين دن گزرنے سے پهلے اس ميں کوئی اور عيب پيدا ہوجائے تو چاہے اس پر قبضہ کر چکا ہو، پھر بھی خيارِحيوان کا حق رکھنے کے اعتبار سے سودا توڑ سکتا ہے ۔ یهی حکم اس صورت ميں ہے کہ جب خيارِ شرط کے اعتبار سے فسخ کا حق رکھتا ہو۔

مسئلہ ٢١ ۶۴ اگر انسان کے پاس کوئی ایسا مال ہو جسے اس نے خود نے نہ دیکھا ہو، بلکہ کسی اور نے اس کی خصوصيات اسے بتائی ہوں اور وہ وهی خصوصيات خریدنے والے کو بتا کر مال بيچ دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ اس کامال اس سے بہتر تھا تو وہ معاملہ ختم کر سکتا ہے ۔

۳۴۸

خريد و فروخت کے متفرق مسائل

مسئلہ ٢١ ۶۵ اگر بيچنے والا اپنی چيز کی قيمتِ خرید، گاہک کو بتائے تو ضروری ہے کہ ان تمام چيزوں کا تذکرہ کرے جن کی وجہ سے قيمت کم یا زیادہ ہوتی ہے ، چاہے اسی قيمت پر یا اس سے کم پر بيچے، مثلاً بتائے کہ ادهار خریدی ہے یا نقد، لہٰذا اگر بعض خصوصيات کا تذکرہ نہ کرے اور بعد ميں گاہک کو معلوم ہو تو وہ سودا ختم کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۶۶ اگر انسان کسی چيز کی قيمت معين کرتے ہوئے کسی کو دے اور کهے: ”یہ چيز اس قيمت پر بيچ دو اور اس سے جتنا مهنگا بيچو وہ تمهارے کام کی اجرت ہے “۔ تو وہ شخص جتنی زیادہ قيمت پر بھی بيچے، سب کا سب اصل مالک کا مال ہے اور اجارہ باطل ہے ۔ ہاں، بيچنے والا، مشهور قول کی بنا پر، اپنے کام کی اجرت المثل اصل مالک سے لے سکتا ہے ، ليکن اگر اجرت المثل بيچنے والے کے راضی ہونے والی مقدار سے زیادہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اضافی مقدار ميں اصل مالک کے ساته مصالحت کرے۔ ہاں، اگر بطور جعالہ معاملہ کرے اور کهے:”اگر تم نے اس سے زیادہ قيمت پر بيچ دیا تو اضافی مقدار تمهاری ہوگی“، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٧ اگر قصائی نر جانور کا گوشت بيچے اور اس کی جگہ مادہ کا گوشت دے تو گنهگار ہے اور اگر گوشت کو معين بھی کيا ہو اور کها ہو کہ ميں یہ نر جانور کا گوشت بيچ رہا ہوں تو گاہک معاملہ فسخ کر سکتا ہے ، جب کہ اگر اسے معين نہ کيا ہو تو گاہک کے اس گوشت پر راضی نہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اسے نر کا گوشت دے۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٨ اگر خریدار کپڑے والے سے کهے:”مجھے ایسا کپڑا چاہئے جس کا رنگ پکا ہو“، تو اگرکپڑے والا اسے کچے رنگ کا کپڑا بيچ دے تو گاہک سودا ختم کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٩ سودے ميں قسم کھانا، اگر سچی ہو تو مکروہ ہے اور جھوٹ ہو تو حرام ہے ۔

شراکت کے احکام

مسئلہ ٢١٧٠ شراکت یہ ہے کہ ایک مال کے، چاہے وہ مال عين ہو یا ذمہ، مشاع طور پرنصف، ثلث یا اسی طرح کی نسبت کے اعتبار سے، دو یا دوسے زیادہ مالک ہوں۔

شراکت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہيں : غير اختيار ی وجہ جيسے وراثت۔

اختياری وجہ، چاہے وہ وجہ کوئی خارجی عمل ہو مثلاً دو افراد مل کر کوئی مال حيازت کے ذریعے اپنی ملکيت ميں ليں یا کوئی عقد، مثلاً دو افراد جو دو عليحدہ عليحدہ مال کے مالک ہوں، دونوں ميں سے ہر ایک اپنے آدهے مال کا مشاع طور پر دوسرے کے آدهے مشاع سے خرید و فروخت یا مصالحت وغيرہ کے ذریعے معاوضہ کرے۔

۳۴۹

اسی طرح دومالوں کے آپس ميں اس طرح مل جانے سے بھی کہ ان دونوں کے درميان فرق باقی نہ رہے، شراکت حاصل ہو جاتی ہے ، چاہے وہ دونوں مال ایک ہی جنس سے ہوں یا دو الگ الگ اجناس سے۔اور عقدی شراکت، جس کے احکام بيان کئے جائيں گے، یہ ہے کہ دو یا اس سے زیادہ افراد آپس ميں قرار داد طے کریں کہ مشترک مال سے معاملہ کيا جائے اور نفع و نقصان ميں سب آپس ميں شریک ہوں۔

مسئلہ ٢١٧١ اگر دو یا زیادہ افراد اپنے کام سے ملنے والی مزدوری ميں شراکت کریں، مثلا اگر چندمزدور آپس ميں طے کریں کہ ہميں جتنی بھی مزدوری ملے گی آپس ميں تقسيم کر ليں گے تو یہ شراکت صحيح نہيں ہے ۔ ہاں، اگر ان ميں سے ہر ایک آپس ميں اس بات پر مصالحت کر لے کہ ایک معينہ مدت تک اپنی آدهی کمائی اور اس کی آدهی کمائی آپس ميں بانٹ ليں اور وہ بھی اسے قبول کر لے تو وہ اپنی مزدوریوں ميں شریک ہو جائيںگے۔

اور اگر کسی عقدِ لازم کے ضمن ميں یہ شرط رکہيں کہ دونوںميں سے ہر ایک اپنی آدهی مزدوری دوسرے کو دے تو اگرچہ آپس ميں شریک نہ بنيںگے ليکن ضروری ہے کہ شرط پر عمل کریں۔یهی حکم اس وقت ہے جب عقدِ جائز کے ضمن ميں شرط رکھی ہو، البتہ اس وقت تک جب تک عقد باقی ہو۔

مسئلہ ٢١٧٢ اگر دو افراد آپس ميں اس طرح شراکت کریں کہ دونوں ميں سے ہر ایک اپنے اعتبار سے ایک چيز خریدے، ليکن اس چيز کو استعمال کرنے ميں جو دونوں نے عليحدہ عليحدہ خریدی ہے آپس ميں شریک ہوں، تو یہ صحيح نہيں ہے ۔ ہاں، اگر دونوںميں سے ہر ایک دوسرے کو وکيل بنا دے کہ جو چيز تم نقد یا ادهار ، ما فی الذمہ پر خریدوگے، اس ميں سے ایک مشاع نسبت مثلاً نصف یا ثلث، ميرے ذمّے پر خریدو اور پھر دونوں اس طرح ایک چيز اپنے اور اپنے شریک کے لئے خریدیں کہ دونوں پر اس کی قيمت ادا کرنا ضروری ہوجائے، تو شراکت صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢١٧٣ شراکت کے عقد کے ذریعے شریک بننے والوںکے لئے ضروری ہے کہ عاقل و بالغ ہوں، ارادے و اختيار سے آپس ميں شراکت کریں اور اپنے مال ميں تصرف کر سکتے ہوں۔ لہٰذا سفيہ، یعنی وہ شخص جو اپنا مال بے کار کاموںميں استعمال کرتا ہے ،چونکہ اپنے مال ميں تصرف کا حق نہيں رکھتا، اگرشراکت کرے تو صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١٧ ۴ اگر شراکت کی قرارداد ميں یہ شرط رکہيں کہ کام کرنے والا، زیادہ کام کرنے والا یا جس کے کام کی اہميت زیادہ ہے ، زیادہ منافع کا حقدار ہو تو ضروری ہے کہ شرط کے مطابق اسے زیادہ منافع دیا جائے، ليکن اگر شرط رکہيں کہ جو کام نہيں کرتا، یا کم کام کرتا ہے یا جس کے کام کی اہميت زیادہ نہيں ہے ، وہ زیادہ منافع لے تو یہ شرط باطل ہے ۔ ہاں، اگر یہ شرط رکہيں کہ اضافی مقدار اس کی ملکيت ميں دے دی جائے تو یہ شرط صحيح ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ۔

۳۵۰

مسئلہ ٢١٧ ۵ اگر یہ طے کریں کہ سارا نفع ایک شخص کا ہو یا سارا نقصان کوئی ایک برداشت کرے تو یہ قرارداد باطل ہے اور شراکت کا صحيح ہونا بھی محل اشکال ہے ، ليکن اگر یہ شرط کریں کہ ایک فرد جتنے نفع کا مالک بنے گا سارا اپنے شریک کو دے دے گا یا سارے ضرر ميں سے جتنا حصہ شریک کا ہوگا، اپنے مال سے اس کی ملکيت ميں دے گا تو شراکت صحيح ہے اور شرط پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢١٧ ۶ اگر یہ شرط نہ رکھی گئی ہو کہ کسی ایک شریک کا زیادہ منافع ہوگا تو دونوں کا سرمایہ مساوی ہونے کی صورت ميں وہ نفع و نقصان ميں برابر کے شریک ہوں گے،جب کہ اگر ان کا سرمایہ مساوی نہ ہو تو نفع نقصان بھی سرمائے کی مقدار کے اعتبار سے ہوگا، مثلاً اگر دو افراد شراکت کریں جن ميں سے ایک کا سرمایہ دوسرے کے مقابلے ميں دگنا ہو، تو منافع یا ضرر ميں بھی اس کا حصہ دو برابر ہوگا، خواہ دونوں نے برابر کام کيا ہو یا کسی ایک نے کم کام کيا ہو یا بالکل کام نہ کيا ہو۔

مسئلہ ٢١٧٧ اگر شراکت کی قرارداد ميں شرط کریں کہ خرید و فروخت دونوں مل کر کریں گے یا دونوں عليحدہ عليحدہ معاملہ کریں گے یا دونوںميں سے صرف کوئی معاملہ کرے گا تو شرط پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢١٧٨ اگر یہ طے نہ کيا جائے کہ دونوں ميں سے کون سرمائے سے خرید و فروخت کرے گا تودونوںميں سے کوئی بھی دوسرے کی اجازت کے بغير اس سرمائے سے سودا نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ٢١٧٩ اس شریک کے لئے، جس کے اختيار ميں شراکت کا سرمایہ ہے ، ضروری ہے کہ شراکت کی قرارداد پر عمل کرے، مثلاً اگر طے ہوا ہو کہ خریداری ادهار پر ہوگی یا ہر چيز نقد بيچی جائے گی یا یہ کہ خریداری کسی خاص جگہ سے ہوگی تو ضروری ہے کہ اسی طریقے سے عمل کرے۔ہاں، اگر اس سے کوئی بات بطور خاص طے نہ کی ہوتو ضروری ہے کہ معمول کے مطابق معاملہ کرے اور اگر سفر پر شراکت کا مال ساته لے جانے کا معمول نہ ہو یا مال کے لئے خطرے کا احتمال ہو تو ساته لے کر نہ جائے۔

مسئلہ ٢١٨٠ جو شریک شراکت کے مال سے خرید و فروخت کرتا ہو، اگر قرارداد کی خلاف ورزی کرے یا قرارداد نہ ہونے کی صورت ميں معمول کے خلاف عمل کرے، ان دوصورتوں ميں دوسرے شریک کے حصے کی بہ نسبت معاملہ فضولی ہوگا، لہٰذا اگر شریک اس کی اجازت نہ دے تووہ اپنا عين مال یا عين مال کے تلف ہوجانے کی صورت ميں اپنے مال کا عوض لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٨١ جو شرےک شرکت کے سرمائے سے معاملہ کرتا ہے اگر افراط نہ کرے اور سرمائے کی دےکه بهال ميں کوتاہی نہ کرے اور اتفاقاً سرمائے کی کچھ مقدار یا تمام کا تمام سرمايہ تلف ہوجائے تو ضامن نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١٨٢ جو شرےک شرکت کے سرمائے سے معاملہ کرتا ہے اگر کهے کہ سرمايہ تلف ہوگيا ہے اور حاکم شرع کے سامنے قسم کھائے تو اس کی بات قبول کرنا ضروری ہے ۔

۳۵۱

مسئلہ ٢١٨٣ اگر تمام شرکاء جنہوں نے ایک دوسرے کو تصرف کی اجازت دی ہو اجازت واپس لے ليں تو ان شرکاء ميں سے کوئی بھی شراکت کے مال ميں تصرف نہيں کرسکتا اور اگر ان ميں سے کوئی ایک اپنی اجازت سے پلٹ جائے تو دوسرے شرےک تصرف کا حق نہيں رکھتے، ليکن جو شرےک اپنی اجازت سے پلٹ گيا ہے وہ شرکت کے مال ميں تصرف کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٨ ۴ جب بھی شرکاء ميں سے کوئی شرےک تقا ضا کرے کہ شرکت کے سرمائے کو تقسےم کردیا جائے، اگرچہ شراکت مدت والی ہو، دوسروں کے لئے ضروری ہے کہ مان ليں، سوائے اس صورت ميں کہ جب تقسےم، مشترک مال کے علاوہ کسی اور مال کے ضمےمے کی محتاج ہو، جسے ”قسمت ردّ“ کہتے ہيں یا تقسےم سے شرکاء کو قابل ذکر نقصان پهنچ رہا ہو۔

مسئلہ ٢١٨ ۵ اگر شرکاء ميں سے کوئی ایک مرجائے یا دیوانہ یا بے ہوش ہوجائے تو دوسرے شرکاء، شرا کت کے مال ميں تصرف نہيں کرسکتے۔ یهی حکم اس وقت ہے جب شرکاء ميں سے کوئی ایک سفيہ ہوجائے یعنی اپنے مال کو بے کار کاموں ميں صرف کرے یا حاکم شرع اسے دیواليہ ہونے کی وجہ سے ممنوع التصرف کردے۔

مسئلہ ٢١٨ ۶ اگر کوئی شرےک اپنے لئے کوئی چيز ادهار خریدے تو نفع اور نقصان اس کے ذمہ ہے ليکن اگر شرکت کے لئے خریدے اور شرکت کا اطلاق ادهار والے معاملات کو بھی شامل کر رہا ہو تو نفع اور نقصان ميں تمام شرکاء شرےک ہونگے۔ یهی حکم اس وقت ہے کہ جب شراکت کی قرارداد ميں ادهار معاملات شامل نہ ہوں ليکن وہ شرکت کے لئے ادهار پر خرید لے اور دوسرا شریک اس کی اجازت دے دے۔

مسئلہ ٢١٨٧ اگر شراکت کے سرمائے سے کوئی معاملہ کئے جانے کے بعد معلوم ہو کہ شرکت باطل تهی، تو اگر صورت یہ ہو کہ معاملے کی اجازت ميں شراکت کے صحيح ہونے کی قيد نہ ہو یعنی اگر شرکاء کو معلوم ہوتا کہ شرکت صحيح نہيں ہے تب بھی ایک دوسرے کے مال ميں تصرف پر راضی ہوتے تو معاملہ صحيح ہے اور اس معاملے سے حاصل ہونے والا مال سب کا ہوگا۔ ہاں، اگر ا س طرح نہ ہو تو جو لوگ دوسروں کے تصرف کرنے پرراضی نہ تهے اگر معاملے کی اجازت دیں تو معاملہ صحيح ورنہ باطل ہوگا اور هرصورت ميں فقهاء اعلی الله مقامهم کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ ”ان ميں سے جس نے بھی شراکت کے لئے کوئی کام کيا ہے ، اگر بلا معاوضہ کام کرنے کے ارادے سے نہ کيا ہو تو اپنی محنت کی معمول کے مطابق اجرت دوسرے شرکاء سے اپنے کام کی نسبت کے اعتبار سے لے سکتا ہے “، ليکن ظاہر يہ ہے کہ اجازت نہ دینے کی صورت ميں اجرت کے مستحق نہ ہوں گے اور اجازت کی صورت ميں اجرت کا مستحق ہونا محل اشکال ہے اور احوط مصالحت ہے ۔

۳۵۲

مصالحت کے احکام

مسئلہ ٢١٨٨ صُلح یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے شخص کے ساته اس بات پر اتفاق کرے کہ اپنے مال یامنافع سے کچھ مقدار اس کی ملکيت ميں دے دے یا اس کے لئے مباح کردے یا اپنا قرض یا حق معاف کردے تاکہ دوسرا بھی اس کے عوض اپنے مال یا منافع کی کچھ مقدار اسے دے دے یا اس کے لئے مباح کردے یا قرض یا حق سے دستبردار ہوجائے۔ اور مذکورہ چيزوں ميں سے کسی پر کوئی عوض لئے بغير مصالحت کرنا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢١٨٩ عقد صلح ميں ضروری ہے کہ طرفين ميں سے ہر ایک عاقل و بالغ ہوں، مصالحت کا قصد رکھتے ہوں اور کسی نے انہيں مصالحت کرنے پر ناحق مجبور نہ کيا ہو۔هاں، اگر زبردستی کی گئی ہو اور بعد ميں وہ راضی ہوجائيں تو صلح نافذ ہوگی۔ اسی طرح ضروری ہے کہ سفيہ اور دیواليہ ہونے کی وجہ سے حاکم شرع کی طرف سے ممنوع التصرف نہ ہوں۔

مسئلہ ٢١٩٠ ضروری نہيں ہے کہ صلح کا صيغہ عربی زبان ميں پڑھا جائے بلکہ جن الفاظ سے بھی پتہ چلے کہ فریقین نے آپس ميں مصالحت کی ہے وہ مصالحت صحيح ہے ۔ اسی طرح معاطات، بلکہ مصالحت کے ارادے سے اگر ایک دے اور دوسرا لے لے تو مصالحت ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ٢١٩١ اگر کوئی شخص اپنی بھیڑ یں چرواہے کو دے تاکہ وہ مثلاً ایک سال ان کی دےکه بهال کرے اور ان کا دودھ سے استعمال کرے اور گهی کی کچھ مقدار مالک کو دے تو اگر چرواہے کی محنت اور اس گهی کے مقابلے ميں جو بھيڑوں کے دودھ سے نہ بنا ہو، وہ شخص اپنی بھيڑوں کے دودھ پر مصالحت کرلے تو کوئی حرج نہيں ہے ، بلکہ اگر بھیڑ وں کو ایک سال کے لئے چرواہے کو کرایہ پر دے تاکہ وہ ان کا دودھ استعمال کرے اور اس کے عوض گهی کی معينہ مقدار اُسے دے دے جوکرایہ دی ہوئی بھیڑ وں کے دودھ سے نہ بنا ہو تو اس ميں بھی کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١٩٢ اگرکوئی شخص اپنے قرض یا حق کے بدلے کسی دوسرے سے مصالحت کرنا چاہے تو يہ مصالحت اس صورت ميں صحيح ہے کہ جب دوسرا اسے قبول کرلے۔ ہاں، اگر اپنے قرض یا حق سے دستبردار ہونا چاہے تو دوسرے کا قبول کرنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٢١٩٣ اگر مقروض اپنے قرضے کی مقدار جانتا ہو جب کہ قرض خواہ کو اس کا علم نہ ہو تو اگر اس مقدار سے کم پر مصالحت کرے مثلاً اس کو پچاس روپے لینے ہوں اور دس روپے پر مصالحت کرے تو اضافی رقم مقروض کے لئے حلال نہيں ہے ، مگر یہ کہ اپنے قرضے کی مقدار کے متعلق قرض خواہ کو بتائے اور اسے راضی کرلے یا صورت ایسی ہو کہ اگر قرض خواہ کو قرضے کی مقدار کا علم ہو تا تب بھی وہ اس مقدار یعنی دس روپے پر مصالحت کرليتا۔

۳۵۳

مسئلہ ٢١٩ ۴ اگر دو اشخاص دو ایسی چيزوں کے سلسلے ميں جو ایک ہی جنس سے ہوں اور جن کے وزن معلوم ہوں آپس ميں مصالحت کریں تو احتياط واجب يہ ہے کہ ایک چيز کا وزن دوسری چيز سے زیادہ نہ ہواور اگر ان کا وزن معلوم نہ ہو تو اگرچہ اس بات کا احتمال ہو کہ ایک چيز کا وزن دوسری چيز سے زیادہ ہے اور وہ مصالحت کرليں تو مصالحت صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢١٩ ۵ اگر دو اشخاص کو ایک شخص سے قرضہ وصول کرنا ہو یا دو اشخاص کو دوسرے دو اشخاص سے کچھ لینا ہو اور اپنی اپنی طلب پر ایک دوسرے سے مصالحت کرنا چاہتے ہوں اور دونوں کی طلب ایک ہی جنس سے ہو اور ایک وزن ہو مثلاًدونوں کو دس من گندم لینی ہو تو ان کی مصالحت صحيح ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب طلب کی جنس ایک نہ ہو مثلاً ایک نے دس من چاول اور دوسرے نے بارہ من گندم لینی ہو تب بھی مصالحت صحيح ہے ليکن اگر ان کی طلب ایک ہی جنس کی ہو اور وہ ایسی چيز ہو جس کا سودا عموماً تول کر یا ناپ کر کيا جاتا ہے تو اگر ان کا وزن یا پےمانہ ےکساں نہ ہو تو ان کی مصالحت ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢١٩ ۶ اگر کسی شخص کو کسی دوسرے سے اپنا قرضہ کچھ مدت کے بعد واپس لینا ہو اور وہ مقروض کے ساته مقررہ مدت سے پهلے معين مقدار سے کم پر مصالحت کرے اور اس کا مقصد يہ ہو کہ اپنے قرضے کا کچھ حصہ معاف کردے اور باقی نقد لے لے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١٩٧ اگر دو اشخاص کسی چيز پر آپس ميں مصالحت کرليں تو ایک دوسرے کی رضامندی سے اس صلح کو توڑ سکتے ہيں ۔ اسی طرح اگر صلح کے ضمن ميں دونوں کو یا کسی ایک کو معاملہ فسخ کرنے کا حق دیا گيا ہو تو جو شخص وہ حق رکھتا ہو، صلح کو فسخ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٩٨ جب تک خریدار اور بيچنے والا ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں معاملہ کو فسخ کرسکتے ہيں ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایک جانور خریدے تو وہ تین دن تک معاملہ فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ اسی طرح اگر خریدار خریدی ہوئی جنس کی قيمت تین دن تک نہ دے اور جنس کا قبضہ نہ لے تو بيچنے والا معاملہفسخ کرسکتا ہے ، ليکن جو شخص کسی مال پر مصالحت کرے وہ ان تین وں صورتوں ميں مصالحت فسخ کرنے کا حق نہيں رکھتا۔ ہاں، اگر مصالحت کادوسرا فریق مصالحت کا مال دینے ميں غیر معمولی تاخیر کرے تو اس صورت ميں مصالحت فسخ کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح باقی خيارات ميں بهی، جن کا ذکر خریدوفروخت کے احکام ميں آیا ہے ، مصالحت فسخ کی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ٢١٩٩ جو چيز بذریعہ مصالحت ملے اگر وہ عےب دار ہو تو مصالحت فسخ کی جاسکتی ہے ، ليکن اگر بے عےب اور عےب دار کے مابین قيمت کا فرق لینا چاہے تو اس ميں اشکال ہے ۔

۳۵۴

مسئلہ ٢٢٠٠ اگر کوئی شخص اپنے مال پر دوسرے سے مصالحت کرے اور اس کے ساته شرط کرے کہ جس چيز پر ميں نے تجه سے مصالحت کی ہے میر ے مرنے کے بعد مثلاً تو اسے وقف کردے گا اور دوسرا شخص بھی اس کو قبول کرے تو اس شرط پر عمل ضروری ہے ۔

کرائے کے احکام

مسئلہ ٢٢٠١ کوئی چيز کرائے پر دینے والے اور کرائے پر لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ و عاقل ہوںاور کسی نے انہيں ناحق اس پر مجبور نہ کيا ہو۔ ہاں، اگر زبردستی ہو ليکن معاملے کے بعد وہ راضی ہو جائيں تو کرائے کا معاملہ صحيح ہے ۔ يہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مال ميں حق تصرف رکھتے ہوں، لہٰذا سفيہ اور وہ شخص جو دیواليہ ہونے کی وجہ سے حاکم شرع کی طرف سے اپنے مال ميں ممنوع التصرف ہوچکا ہو، اپنے ولی یا قرض خواہوں کی اجازت کے بغير کوئی چيز نہ کرائے پر لے سکتے ہيں اور نہ کرائے پر دے سکتے ہيں ۔ ہاں، وہ شخص جو دیواليہ ہوچکا ہے اپنے آپ کو اور اپنی خدمات کو کرايہ پر دے سکتا ہے اور اس کے لئے اجازت لينے کی ضرورت نہيں ۔

مسئلہ ٢٢٠٢ انسان دوسرے کی طرف سے وکيل بن کر اس کا مال کرائے پر دے سکتا ہے یا اس کے لئے کوئی چيز کرائے پر لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٠٣ اگر بچے کا ولی یا سرپرست، اس کا مال کرائے پر دے یا بچے کو کسی کا اجير مقرر کردے تو کوئی حرج نہيں ۔

اور اگر بچے کے بالغ ہونے کے بعد کی کچھ مدت کو بھی اجارے کی مدت کا حصہ قرار دیا جائے تو بچہ بالغ ہونے کے بعد باقی ماندہ اجارہ فسخ کرسکتا ہے ، ليکن اگر بچے کے بالغ ہونے کے بعد کی کچھ مدت کو اجارہ کی مدت کا حصہ بنانے ميں کوئی ایسی مصلحت ہو جس کا خيال رکھنا شرعا واجب ہو تو بالغ ہونے کے بعد کی مدت کے لئے بھی اجارہ نافذ ہوگا اور احتياط واجب يہ ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے ہو۔

مسئلہ ٢٢٠ ۴ جس نابالغ بچے کا سرپرست نہ ہو اسے عادل مجتهد کی اجازت کے بغير اجارے پر نہيں ليا جاسکتا اور جس شخص کی رسائی عادل مجتهد تک نہ ہو وہ چند عادل مومنين سے اجازت لے کر بچے کو اجارے پر لے سکتا ہے اور اگر چند نہ ہوں تو ایک عادل مومن کی اجازت بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ٢٢٠ ۵ اجارہ دینے اور لینے والے کے لئے ضروری نہيں کہ صيغہ عربی زبان ميں پڑہيں ، بلکہ اگر مالک کسی سے کهے کہ: ”ميں نے اپنا مال تمہيں اجارے پر دیا“ اور دوسرا کهے کہ:”ميں نے قبول کيا“، تو اجارہ صحيح ہے ، بلکہ اگر وہ زبان سے کچھ نہ کہيں اور مالک اپنا مال اجارے کے قصد سے مستاجر کو دے اور وہ بھی اجارے کے قصد سے لے تو اجارہ صحيح ہوگا۔

۳۵۵

مسئلہ ٢٢٠ ۶ اگر کوئی شخص چاہے کہ اجارے کا صيغہ پڑھے بغير کوئی کام کرنے کے لئے اجير بن جائے تو جےسے ہی وہ کام کرنے ميں مشغول ہوگا اجارہ صحيح ہوگا۔

مسئلہ ٢٢٠٧ جوشخص بول نہ سکتا ہو اگر وہ اشارے سے سمجھادے کہ اس نے کوئی جائيداد اجارے پر دی یا لی ہے تو اجارہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٢٠٨ اگر کوئی شخص ایک جائيداد اجارے پر لے اور اس کا مالک يہ شرط لگائے کہ صرف وهی اس سے استفادہ کرسکتا ہے اور کسی دوسرے کو منتقل نہيں کرسکتا تو مستاجر اسے کسی دوسرے کو استعمال کے لئے اجارہ پر نہيں دے سکتا۔ ہاں، اگر شرط کرے کہ منفعت سے خود فائدہ اٹھ ائے گا تو مستاجر چاہے تو کسی دوسرے کو بھی اس صورت ميں اجارہ پر دے سکتا ہے کہ خود ہی اس منفعت سے فائدہ اٹھ ائے۔

مثلاً کوئی شخص مکان کرائے پر لے اور کسی ایسے شخص کو کرائے پر دے جسے شرط یا ایسی ہی کسی چيز سے پابند کر چکا ہو کہ وہ اس کے لئے بھی رہا ئش کا بندوبست کرے گا اور پھر وہ شخص اسی گھر ميں اسے رہنے کی جگہ دے دے یا مثلاً عورت کوئی گھر کرائے پر لے ا ور پھر اپنے شوہر کو کرائے پر دے دے اور شوہر اُس عورت کو اُسی گھر ميں رکھے۔

ایسی صورت ميں جب مستاجر کے لئے وهی چيز کسی اور کو کرائے پر دینا جائز ہے ، اگر وہ مکان،دکان یا کشتی اور اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر کمرہ اور چکّی کو لی گئی مقدار سے زیادہ مقدار پر کرائے پر دینا چاہے تو ضروری ہے کہ اس ميں کوئی کام مثلاً مرمت اور سفيدی وغيرہ کرادے یا اس جنس کے علاوہ کسی اور جنس کے بدلے کرائے پر دے جس پر اس نے خود اسے کرائے پر ليا ہے مثلاً اگر روپے کے بدلے کرائے پر ليا ہے تو گندم یا کسی اور چيز کے بدلے کرائے پر دے۔

مسئلہ ٢٢٠٩ اگر اجير کسی انسان سے شرط کرے کہ وہ صرف اسی کا کام کرے گا اور کسی کا کام نہيں کرے گا تو اسے کسی دوسرے شخص کو بطور اجارہ نہيں دیا جاسکتا۔ ہاں، اگر شرط کرے کہ اس کے کام سے خود فائدہ اٹھ ائے جيسا کہ پچهلے مسئلے ميں بيان کيا جا چکاہے تو اُسے دوسرے کواجا رہ پر دے سکتے ہيں ۔

اور اس صورت ميں کہ جب دوسرے کو اجارے پر دے سکتا ہے ، اگر اسی چيز پر اجارے پر دے جس پر خود اجارے پر ليا تھا تو زیادہ قيمت نہيں لے سکتا، ليکن اگر کسی اور چيز پر اجارے پر دے تو زیادہ لے سکتا ہے ۔

اور اگر کوئی شخص خود کو کسی کا اجير بنائے تو اس کام کی انجام دهی کے لئے کسی اور شخص کو کم قيمت پر اجيرنہيں بنا سکتا۔ ہاں، اگر خود کچھ کام انجام دے چکا ہو تو پھر کسی دوسرے کو کم اجرت پر اجير بنا سکتا ہے ۔

۳۵۶

مسئلہ ٢٢١٠ اگر کوئی شخص مکان، دکان، کشتی، اجير اور اسی طرح بنا بر احتياط واجب کمرے و چکّی کے علاوہ کوئی اور چيز اجارہ کرے اور مالک نے اُس سے يہ شرط نہ کی ہو کہ کسی اور کو اجارہ پر نہ دینا تو جس مقدار پر اس نے وہ چيز کرائے پر لی ہو اگر اس سے زیادہ پر کسی کو کرائے پر دے دے تو بھی کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٢١١ اگر کوئی شخص مکان یا دکان مثال کے طور پر ایک سال کے لئے سو روپے کرایہ پر لے اور اس کا آدها حصّہ خود استعمال کرے تو باقی آدها حصہ سو روپے کرائے پر دے سکتا ہے ، ليکن اگر ا س آدهے کو اس مقدار سے زیادہ کرائے پر دینا چاہے جس پر اس نے خود ليا ہے ، مثلا ١٢٠ روپے کرايہ پر دینا چاہے تو ضروری ہے کہ اس ميں کوئی کام مثلاً مرمت کا کام انجام دیا ہو یا اجارے کی جنس کے علاوہ کسی اور چيز کے عوض کرائے پر دے۔

کرائے پر دئے جانے والے مال کے شرائط

مسئلہ ٢٢١٢ جو مال اجارہ پر دیا جائے اس کے چند شرائط ہيں :

١) وہ مال معين ہو، لہذااگر کوئی شخص کهے کہ ميں نے اپنے مکانات ميں سے ایک مکان تمہيں کرائے پر دیا تو يہ صحيح نہيں ہے ۔

٢) مستاجرمال کو دےکه لے یا اجارہ پر دینے والا شخص اپنے مال کی خصوصيات اس طرح بيان کرے کہ اس کے بارے ميں مکمل معلومات حاصل ہو جائيں۔

٣) اجارہ پر دئے جانے والا مال دوسرے فریق کے سپرد کرنا ممکن ہو، لہٰذا بهاگے ہوئے گهوڑے کو اجارہ پر دینا باطل ہے ، مگر یہ کہ مستاجر کے لئے اس پر تسلط حاصل کرنا ممکن ہو۔

۴) اس مال سے استفادہ کرنا اس کے ختم یا کالعدم ہوجانے پر موقوف نہ ہو، لہٰذا روٹی،پهلوں اور دوسری کھانے والی اشياء کو، جن سے فائدہ اٹھ انا ان کے ختم ہوجانے پر ہی موقو ف ہے ، اجارہ پر دینا باطل ہے ۔

۵) مال سے وہ فائدہ اٹھ انا ممکن ہو جس کے لئے کرائے پر دیا جائے، لہٰذا ایسی زمين کا زراعت کے لئے کرائے پر دینا جس کے لئے بارش کا پانی کافی نہ ہو اور دوسرے کسی پانی سے بھی اس کی سنچائی ممکن نہ ہو ، باطل ہے ۔

۶) جو چيز کرائے پر دی جارہی ہو وہ کرائے پر دینے والے کا اپنا مال ہو اوراگر کسی دوسرے کا مال کرائے پر دیا جائے تو معاملہ اس صورت ميں صحيح ہے کہ جب ا س مال کا مالک اجازت دے دے۔

مسئلہ ٢٢١٣ درخت کا اس مقصد سے کرائے پر دینا کہ اس کے پھل سے فائدہ اٹھ ایا جائے گا، جب کہ فی الحال اس ميں پھل نہ لگے ہوں، کوئی حرج نہيں ہے ۔ جانور کو اس کے دودھ کے لئے کرائے پر دینے کا بھی یهی حکم ہے ۔

۳۵۷

مسئلہ ٢٢١ ۴ عورت اس مقصد کے لئے اجير بن سکتی ہے کہ اس کے دودھ سے فائدہ اٹھ ایا جائے اور اس کے لئے شوہر سے اجازت لينا ضروری نہيں ، ليکن اگر اس کے دودھ پلانے سے شوہر کی حق تلفی ہوتی ہو تو پھر اس کی اجازت کے بغير عورت اجير نہيں بن سکتی۔

کرائے پر دئے جانے والے مال سے فائدہ اٹھ انے کے شرائط

مسئلہ ٢٢١ ۵ جس استفادہ کے لئے مال کرائے پر دیا جاتا ہے اس کی چار شرطيں ہيں :

١) حلال ہو، لہٰذا دکان کو شراب بيچنے کے لئے کرايہ پر دینا اور اسی طرح شراب کی حمل و نقل کے لئے وسائل کرايہ پر دینا باطل ہے ۔

٢) ان کاموں کے لئے پےسہ خرچ کرنا سفاہت اور غیر عقلائی نہ ہو۔ اسی طرح وہ عمل شریعت ميں بغير کسی اجرت کے انجام دینا واجب نہ ہو، لہٰذا ميت کی تجهيز کے لئے اجير ہونا جائز نہيں ۔

٣) اگر کرايہ پر دی جانے والی چيز سے کئی فائدے اٹھ انا ممکن ہوں تو ضروری ہے کہ ان فائدوں کو جو مستاجر اٹھ ائے گا معين کریں، مثلاً حیوان جو سواری اور وزن اٹھ انے کے لئے استعمال ہوتا ہے ، معين کریں کہ فقط سواری کے لئے ہے یا فقط وزن اٹھ انے کے لئے ہے یا تمام فائدوں کے لئے۔

۴) فائدہ اٹھ انے کی مدت معين کرے۔ ہاں، اگر مدت معلوم نہ ہو ليکن تعین عمل سے جهالت دور ہوجائے تو کافی ہے ، جےسے کسی کو دس روز تک کپڑے سینے کے لئے کرائے پر بلائيں یا درزی سے طے کریں کہ معين لباس کو مخصوص طریقے سے سےئے۔

مسئلہ ٢٢١ ۶ اگر اجارہ کی مدت کی شروعات کو معين نہ کریں تواس کی ابتدا معاہدہ واقع ہونے کے بعد سے ہے ۔

مسئلہ ٢٢١٧ اگر مثلاً گھر کو ایک سال کے لئے کرائے پر دیا جائے اور اس کی شروعات کو معاہدے کے ایک ماہ بعد قرار دیا جائے تو اجارہ صحيح ہے ، اگرچہ معاہدے کے وقت گھر دوسرے کے اجارے پر ہو۔

مسئلہ ٢٢١٨ اگر مدتِ اجارہ کو طے نہ کرے اور کهے :”جب بھی گھر ميں رہو گے گھر کا کرایہ ماہانہ دس روپے ہے “، تو اجارہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢١٩ اگر مستاجر سے کهے : ”گہر کو ماہانہ دس روپے کرایہ پر تمہيں دیا“ یا کهے : ”گہر کو ایک مهينہ کے لئے دس روپے ميں تمہيں کرایہ پر دیا اور اس کے بعد تم جتنا بھی رہو ہر مهينے کا کرایہ د س روپے ہے “، تو اس صورت ميں کہ اجارہ کی شروعات کو معين کردیں یا (اس کی ابتداء) معلوم ہو تو پهلے مهينے کا اجارہ صحيح ہے ۔

۳۵۸

مسئلہ ٢٢٢٠ وہ گھر جهاں مثلاً زائرین و مسافرین رہتے ہيں اور معلوم نہيں کہ کتنا رہيں گے، اگر اجارہ کی صورت ميں قرارداد اس طرح رکہيں کہ مثلاً ہر روز ایک روپيہ دیں گے تو چونکہ اجارہ کی مدت طے نہيں کی، پهلی رات کے علاوہ کا اجارہ صحيح نہيں ہے اور مالک پهلی رات کے بعد جب چاہے ان کو نکال سکتا ہے ۔هاں، پهلی رات کے بعد مالک کی اجازت سے گھر کو استعمال کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

کرايہ کے مختلف مسائل

مسئلہ ٢٢٢١ جو مال مستاجر کرائے کے طور پر دے رہا ہو وہ مال معلوم ہونا چاہئے، لہٰذا اگر ایسی چيزیں ہوں جن کا لین دین تول کر کيا جاتا ہے مثلاً گندم تو ان کا وزن معلوم ہونا چاہئے اور اگر ایسی چيزیں ہوں جن کا لین دین گن کر کيا جاتا ہے مثلاً رائج الوقت سکّے تو ان کا عدد معلوم ہواور اگر وہ چيزیں گهوڑے اور بھیڑ کی طرح ہوں تو ضروری ہے کہ کرایہ پر دینے والا انہيں دےکه لے یا مستاجر ان کی خصوصيات بتادے۔

مسئلہ ٢٢٢٢ اگر زمين زراعت کے لئے اجارہ پر دی جائے اور اس کی اجرت اسی زمين یا کسی ایسی زمين کی فصل کو قرار دیا جائے جو اس وقت موجود نہ ہو تو اجارہ صحيح نہيں ہے اور اگر مال اجارہ بالفعل موجود ہو یا ما فی الذمہ پر اجارہ کيا جائے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢٢٣ جس نے کوئی چيز کرائے پر دی ہو جب تک چيز کا قبضہ نہ دے دے اجرت کے مطالبے کا حق نہيں رکھتا، سوائے اس کے کہ شرط رکھی ہو کہ قبضہ دینے سے پهلے اجارہ دیا جائے۔

اسی طرح اگر کسی کام کے لئے اجير ہوا ہو تو اس کام کے انجام دینے سے پهلے اجرت کے مطالبے کا حق نہيں رکھتا مگر يہ کہ کام سے پهلے اجرت دینے کی شرط کرلی ہو یا معمول ہی اسی طرح کا ہو جےسے حج، قضا نماز یا روزے کے لئے کسی کو اجير بنانا۔

مسئلہ ٢٢٢ ۴ جب اجارہ پر دی گئی چيز کاقبضہ دے دے، اگرچہ مستاجر قبضہ نہ لے یا قبضہ تو لے ليکن مدت کے اختتام تک فائدہ نہ اٹھ ائے تو ضروری ہے کہ کرایہ ادا کرے۔

مسئلہ ٢٢٢ ۵ اگر انسان اس طرح اجير بنے کہ معين روز ميں کوئی کام انجام دے گا اور وہ اس روز کام کرنے کے لئے حاضر ہو تو جس نے اسے اجير کيا ہے ضروری ہے کہ اس کی مزدوری اسے دے چاہے اس سے کام نہ لے مثلاً اگر درزی کو کسی خاص دن کام پر بلائے اور درزی بھی آجائے تو اگرچہ اسے سينے کے لئے کپڑا نہ دے، پھر بھی اجرت دینا ضروری ہے ، چاہے درزی بےکار بيٹھا رہے اور چاہے اپنے یا کسی دوسرے کے لئے کام کررہا ہو۔

۳۵۹

مسئلہ ٢٢٢ ۶ اگر اجارہ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد معلوم ہو کہ اجارہ باطل تھا تومستاجر کے لئے ضروری ہے کہ اجرت المثل دے، ليکن اگر اجرت المثل اُس مقدار سے زیادہ ہو جو اجارہ ميں معين کی گئی تھی تو اگر اجارہ دینے والا خود صاحب مال یا اُس کا وکيل ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ طے شدہ مقدار سے زائد ميں مصالحت ہو۔ اسی طرح اگر اجارہ کی کچھ مدت گزرنے کے بعد معلوم ہو کہ اجارہ باطل تھا تو گزری ہوئی مدت کے بارے ميں بھی یهی حکم جاری ہوگا۔

مسئلہ ٢٢٢٧ اگر کرائے پر لی ہوئی چيز تلف ہوجائے، تو اگر اس کی دےکه بهال ميں کوتاہی نہ کی ہو اور اس سے فائدہ اٹھ انے ميں افراط سے کام نہ ليا ہو تو ضامن نہيں ہے ۔ نےز مثلاً اگر کپڑے درزی کو دئے ہوں اور وہ اُس سے ضائع ہوجائيں جب کہ درزی نے افراط نہ کيا ہو اور اس کی دےکه بهال ميں بھی لاپرواہی نہ کی ہو تو ضامن نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢٢٨ جب بھی صنعت گر کسی لی ہوئی چيز کو ضائع کرے تو ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢٢٢٩ اگر قصائی حیوان کو ذبح کرے اور حرام کردے، چاہے مزدوری لی ہو یا مفت ميں ذبح کيا ہو، ضروری ہے کہ اس کی قيمت صاحب حیوان کو دے۔

مسئلہ ٢٢٣٠ اگر حیوان کرائے پر لے اور معين کرے کہ کتنا وزن اس پر رکھا جائے گا، اگر اس مقدار سے زیادہ وزن رکھا جائے اور وہ حیوان مر جائے یا معیوب ہوجائے تو ضامن ہے ۔ اسی طرح اگر وزن کی مقدار معين نہ کی ہو ليکن معمول سے زیادہ وزن لادنے سے حیوان مر جائے یا معیوب ہوجائے پھر بھی ضامن ہے اور دونوں صورتوں ميں جهاں زائد مقدار کا استعمال کيا گيا ہے اجرت المثل دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٢٣١ اگر حیوان کو کسی ایسے سامان کے لئے اجارہ کيا جائے جو ٹوٹنے والا ہو، اگر وہ حیوان پهسل جائے یا بهاگ جائے اور سامان ٹوٹ جائے تو صاحب حیوان ضامن نہ ہوگا، ليکن اگر حیوان کو مارنے یا اس جيسی کسی دوسری وجہ سے جس کی اجازت مالک نے نہيں دی تھی کوئی ایسا کام کرے جس سے حیوان زمين پر گر جائے اورسامان توڑ دے تو ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢٢٣٢ اگر کوئی شخص کسی بچے کا اس کے ولی کی اجازت سے ختنہ کرے اور اس بچہ کو ضرر پهنچے یا وہ مر جائے چنانچہ اگر معمول سے زیادہ کاٹا ہو تو ضامن ہے ۔ ہاں، اگر معمول سے زیادہ نہ کاٹا ہو، ولی کی طرف سے بچے کے لئے نقصان دہ ہونے یا نہ ہونے کی پہچان کی ذمہ داری اسے نہ سونپی گئی ہو، اپنے کام ميں مهارت بھی رکھتا ہو اور علاج ميں کوتاہی بھی نہ کی ہو تو ضرر کی صورت ميں ضامن نہ ہونا محل اشکال ہے ، سوائے اس کے کہ ولی سے اس بات کی برائت لے لی ہو، البتہ تلف کی صورت ميں اگر ولی سے برائت نہ لی ہو تو ضامن ہے ۔

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511