توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207648 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ان كے اختيارات حوالے كيلئے جائيں(۱۲)

طبرى اس سلسلے ميں يوں لكھتا ہے :

طلحہ و زبير نے حضرت علىعليه‌السلام سے مطالبہ كيا كہ كوفہ اور بصرہ كى حكومت انھيں ديديں ، حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں جواب ديا كہ اگر تم دونوں ميرے پاس رہو اور خلافت و حكومت كو رونق بخشو تو اس سے كہيں زيادہ بہتر ہے كہ دور دراز علاقوں ميں جائو اور مجھ سے جدار ہو ، كيونكہ ميں تم لوگوں كے فراق سے احساس تنہائي اور دكھ محسوس كرونگا(۱۳)

جيسا كہ كہا گيا حضرت على نے طلحہ و زبير كى خواہش كے مطابق عہدہ و منصب ان كے حوالہ نہيں كيا اور معاملہ خلافت ميں اپنے ساتھ حصّہ دار اور شريك بھى قرارنہيں ديا ، يہ پہلى وجہ تھى كہ طلحہ و زبير خلافت سے ناراض ہو گئے اور اسى بات نے انھيں حكومت سے رنجيدہ بنايا كہ نتيجہ ميں انھوں نے بيعت توڑ دى اور اخرى جنگ جمل واقع ہوتى _

دوسرى وجہ جو طلحہ و زبير كے بيعت توڑنے كى باعث ہوئي اور انھيں ميدان جنگ ميں كھينچ لائي ، يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام بيت المال كو تمام مسلمانوں كے درميان مساويانہ تقسيم كرتے تھے ، اور كسى شخص كے بھى خصوصى امتياز كے قائل نہيں تھے يہاں تك كہ طلحہ و زبير بھى اس قانون سے مستثنى نہيں تھے ، ليكن يہ مساوات كى روح اور عادلانہ رويّہ ان دونوں كو ہضم نہ ہوسكا اور يہ لوگ بات كو برداشت نہ كرسكے ، يہاں تك كہ ان لوگوں نے حضرت علىعليه‌السلام پر شدّت كے ساتھ اعتراضات كئے اور مساوات كے خلاف ريشہ دوانيوں پر امادہ كيا _

_ابن الحديد كہتا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے بيت المال كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كيا اور ہر شخص كو تين دينار عطا كيا ، زمانہ خلافت عمر اور عثمان كے بر خلاف حضرت علىعليه‌السلام نے تمام عرب و عجم كے مسلمانوں كو برابر و يكساں قرار ديا _

_طلحہ و زبير نے حضرت علىعليه‌السلام كى اس مساوات پر اعتراض كرتے ہوئے اس عادلانہ بٹوارے كى مخالفت كى ، اور اپنا حصہ نہيں ليا _

_حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اپنے پاس بلايا بلاكر پوچھا اللہ كو حاضر و ناظر جان كر بتائو كہ تم ہى لوگ ميرے پاس

____________________

۱۲_ رسول اللہ نے بھى حريص اور رياست طلب افراد كو كوئي منصب اور عہدہ حوالہ نہيں كيا ، صحيح بخارى ج۴ ص ۱۵۶ ، صحيح مسلم ج۵ ص ۶

۱۳_ طبرى ج۵ ص ۱۵۳ ، تاريخ ابن كثير ج۷ ص ۱۲۷ _ ۱۲۸

۲۱

نہيں ائے تھے اور مجھ سے مطالبہ نہيں كيا تھا كہ خلافت كى باگ دوڑ اپنے ہاتھ ميں لے ليجئے حالانكہ ميں اسے قبول كرنے سے انكار كر رہا تھا اور ميں نے سخت نا پسند يدگى كا مظاہرہ كيا _

_جى ہاں

_كيا تم لوگوں نے بغير زور زبر دستى كے خود اپنے ہى اختيار سے ميرى بيعت نہيں كى تھى اور خلافت و حكومت كے معاملات ميرے حوالے نہيں كئے تھے

_جى ہاں

_پھر اخر كون سى ميرے اندر نا پسنديدہ بات تم نے ديكھى كہ ميرے اوپر اعتراض كر رہے ہو اور ميرى مخالفت كررہے ہو

_يا على آپ خود بہتر جانتے ہيں كہ ميں تمام مسلمانوں كے مقابلے ميں سابق الاسلام ہوں اور صاحب فضيلت ہوں ، ہم نے اس اميد پر آپ كى بيعت كى تھى كہ ميرے مشورہ كے بغير معاملات حكومت كے اہم كام نہيں كيجئے گا ليكن اب ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ ہمارے مشورہ كے بغير اہم كام كررہے ہيں اور بغير ہمارى اطلاع كے بيت المال مساويانہ تقسيم كر رہے ہيں

_اے طلحہ و زبير ؟ تم چھوٹى چھوٹى باتوں پر اعتراض كررہے ہو اور اہم امور و مصالح سے چشم پوشى كررہے ہو ، اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كرو شايد اللہ تمھارى توبہ قبول كر لے _

_اے طلحہ و زبير مجھے بتائو تو كہ كيا ميں نے جو تمھارا واجبى حق ہے ، اس سے محروم ركھا ہے ، تم پر ظلم و ستم روا ركھا ہے _

_معاذاللہ آپ سے كوئي ظلم نہيں ہوا ہے _

_ كيا بيت المال كى يہ دولت ميں نے اپنے لئے مخصوص كر لى ہے _

_كيا دوسروں سے زيادہ حق لے ليا ہے _

_نہيں ، خدا كى قسم ايسا كام آپ سے نہيں ہوا ہے _

_كيا كسى مسلمان كے بارے ميں تمھيں ايسى بات معلوم ہوئي ہے كہ جو ميں نہيں چاہتا ہوں يا اسے نافذ

۲۲

كرنے ميں سستى اور كمزورى دكھائي ہے _

_نہيں خدا كى قسم

_پھر تم نے ميرى حكومت ميں كيا بات ديكھى كہ مخالفت كررہے ہو اور اپنے كو مسلمانوں كے معاشرے سے الگ تھلگ كررہے ہو _

_ايك ہى چيز نے ہميں آپ سے رنجيدہ خاطر كيا ، اور حكومت سے بد ظن بنايا ہے كہ آپ نے خليفہ ء دوم عمر بن خطاب كى روش كى مخالفت كى ہے ، وہ بيت المال كى تقسيم كے وقت سابق الاسلام افراد اور صاحبان فضيلت لوگوں كا خيال ركھتے تھے ، اور ہر شخص كو اس كے مرتبہ و مقام كے لحاظ سے حصہ ديتے تھے _

ليكن آپ ہيں كہ تمام مسلمانوں كو مساوى قرار ديديا ہے اور ہمارے امتياز كو نظر انداز كيا ہے ، حالانكہ يہ مال و دولت ہمارى ہى تلواروں سے اور ہمارى ہى كوششوں اور جانبازيوں سے حاصل ہوا ہے ، كيسے جائز ہو گا كہ جن لوگوں نے ہمارى تلواروں كے خوف سے اسلام قبول كيا وہ ہمارے برابر ہو جائيں ؟

_تم نے معاملات خلافت ميں مشورے كى بات كہى توسن لو كہ مجھے خلافت سے ذرا بھى رغبت نہيں تمہيں نے مجھے اس كى طرف بلايا اور مجھے زبردستى مسند خلافت پر بيٹھا يا ميں نے بھى مسلمانوں كے اختلاف اور بكھرائو كے ڈر سے اس ذمہ دارى كو قبول كيا ، جس وقت ہم يہ ذمہ دارى قبول كررہے تھے تو عہد كيا تھا كہ كتاب خدا (قران ) اور سنت رسول ہى پر عمل كرونگا ہر مسئلہ كا حكم انھيں دونوں سے حاصل كرونگا مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت نہيں ہے تاكہ تمھارے خيالات سے امور خلافت ميںمدد حاصل كروں اسى قران و سنت نے مجھے دوسرے لوگوں كے استنداد سے بے نياز بنا ديا ہے ، ہاں ، اگر كسى دن كوئي اہم معاملہ پيش ائيگا كہ جس كے بارے ميں كوئي حكم قران و سنت ميں نہ ہو ، اور اپنے مشورے كا محتاج سمجھوں گا، تو تم سے مشورہ كرونگا ، اب رہى بيت المال كے مساويانہ تقسيم كى بات ، تو يہ بھى ميرى خاص روش نہيں ہے ميں پہلا شخص نہيں ہو ں كہ يہ رويّہ اپنايا ہو ، ميں اور تم رسول خدا كے زمانے ميں تھے ہم نے ان كا رويّہ ديكھا كہ ہميشہ بيت المال كو مساويانہ تقسيم كرتے تھے اور كسى شخص كے لئے ذرہ برابر امتياز كے قائل نہيں تھے _

۲۳

اس كے علاوہ اس مسئلہ كا حكم قران ميں بھى ايا ہے كہ ہم مساوات اور برابر كا برتائو كريں اور مہمل امتيازات كوٹھكرا ديں ، يہ قران تمھارے درميان ہے ، اس كے احكام ابدى ہيں اس ميں ذرہ برابر بھى باطل اور نا روابات شامل نہيں ہوئي ہے _

تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ يہ بيت المال تمھارى تلواروں سے حاصل ہوا اس طرح تمھارے امتياز كا لحاظ كيا جائے ، پچھلے زمانہ ميں ايسے لوگ تھے كہ جنھوں نے اپنے جان و مال سے اسلام كى مدد كى انھوں نے مال غنيمت حاصل كيا ، اس كے باوجود رسول خدا(ص) نے بيت المال كى تقسيم ميں ان كے لئے كوئي امتياز نہيں برتا ، ان كى سبقت اسلامى اور سخت جدوجہد اس كا باعث نہيں ہوتى كہ انھيں زيادہ حصہ ديديا جائے ، ہاں ، يہ جانبازى حتمى طور سے ان لوگوں كو اللہ كى بارگاہ ميں لائق توجہ قرار ديتى ہے وہ قيامت كے دن اپنے اس عمل كى جزا پائيں گے ، خدا جانتا ہے كہ ميں اس بارے ميں تمھارے اور تمام مسلمانوں كيلئے اتنا ہى جانتا ہوں ، خدا وند عالم ہم سب كو راہ راست كى ھدآیت كرے ، ہميں صبر عطا كرے ہمارى مددو نصرت كرے ، خدا وند عالم ان لوگوں پر رحمت نازل كرے جو حق كى حمآیت كرتے ہيں ظلم و ستم سے پر ہيز كرتے ہيں اور اس كيلئے برابر كو شاں ہيں _(۱)

طبرى نے بھى اس سلسلہ ميں لكھا ہے :

جب طلحہ تمام قسم كے امتياز سے مايوس ہو گئے تو يہ مشہور كہاوت زبان پر جارى كى _

مالنا من هذا الامر الا كلحسة الكلب انفه (ہميں تو اس كام ميں بس اتنا ہى فائدہ حاصل ہوا جتنا كتّا اپنى زبان سے چاٹنے ميں فائدہ محسوس كرتا ہے )(۲) ہاں ، ہم على كى خلافت سے نہ تو پيٹ بھر سكے اور نہ كوئي منصب پا سكے _

طلحہ و زبير حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كرنے كے بعد كسى منصب اور عہدہ كے منتظر تھے انھوں نے چار مہينے تك اس كا انتظار كيا وہ اس عرصے ميں حضرت على كى روش ديكھتے رہے كہ شايد وہ اپنا رويّہ بدل ديں ليكن انھوں نے كسى قسم كى نرمى يا اس رويّہ سے انحراف محسوس نہيں كيا كوئي تبديلى نہيں پائي اس طرح وہ عہدے اور منصب كے حصول سے قطعى مايوس ہوگئے ، ادھر انھيں اطلاع ملى كہ عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كى مخالفت كا پرچم مكّہ ميں لہرا ديا ہے تو انھوں نے پكا ارادہ كر ليا كہ عائشه كى مدد كرنے كيلئے مكہ جائيں ، وہ دل ميں يہى خيال لئے ہوئے حضرت امير المومنين كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور زيارت خانہء كعبہ كيلئے سفر كى اجازت چاہى حضرت علىعليه‌السلام نے بھى بظاہر ان سے اتفاق كيا اور سفر كى اجازت تو ديدى ليكن اپنے دوستوں سے فرمايا ، خدا كى قسم ان لوگوں كے

____________________

۱_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۷ ص ۳۹

۲_ طبرى ج۵ ص ۵۳

۲۴

سفر كا مقصد خانہ كعبہ كى زيارت نہيں ہے بلكہ انھوں نے زيارت كو بہانہ بنايا ہے بلكہ ان كا مقصد صرف بيعت توڑنا (غدارى اور بے وفائي كرنا ہے )

بہر صورت جب حضرت علىعليه‌السلام نے ان لوگوں كو سفر كى اجازت ديدى تو انھوں نے دوبارہ بيعت كى ، اور مكہ كى طرف جانے لگے وہاں مكہ ميں پہونچ كر حضرت كے مخالف گروہ عائشه كے لشكر ميں مل گئے(۳) _

لشكر كى تيّاري

جب مدينہ كے راستے ميں عائشه كو معلوم ہوا كہ لوگوں نے حضرت على كى بيعت كر لى ہے تو وہ مخالفت كا پكا ارادہ كر كے مكہ وآپس چلى گئيں اور وہاں مخالفت على كا پرچم لہرايا ، كھلم كھلا لوگوں كو آپ كى مخالفت پر ابھارا جب حضرت علىعليه‌السلام كى مخا لف پارٹيوں كو اس كى اطلاع ملى تو چاروں طرف سے عائشه كى طرف پہچنے لگے اور ان كے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير جو حضرت علىعليه‌السلام كى مساوات كے سخت مخالف تھے ، جيسا كہ گذشتہ فصل ميں بيان كيا گيا ، حضرت علىعليه‌السلام سے بيعت توڑ كر اور ان كى صحبت چھوڑ كر مكہ چل پڑے پھر وہ عائشه كے لشكر ميں شامل ہوگئے(۴)

ادھر بنى اميہ كو حضرت علىعليه‌السلام سے پرانى دشمنى تھى وہ اس موقعے كے انتظار ميں تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بغاوت كريں جب انھيں مخالفت عائشه كى خبر ملى تو وہ بھى مدينے سے مكہ گئے اور اس پرچم كے سايہ ميں پہنچ گئے جسے عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كى مخالفت كيلئے لہرايا تھا _

ادھر ان گورنروں اور عاملوں كى ٹولى تھى جو عثمان كے زمانہ ميں عہدہ پائے ہوئے تھے ، ان سب كو حضرت علىعليه‌السلام نے ايك كے بعد ايك معزول كيا اور معزول كر كے عہدوں سے ہٹا ديا يہ بھى مختلف شہروں سے بڑى بڑى دولت ليكر جو مسلمانوں كے بيت المال سے حاصل كى گئي تھى ، عائشه كے لشكر ميں جمع ہونے لگے ، اخر كا ر يہ تمام مختلف الخيال گروہ جن كے دماغ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف ايك مخصوص مقصد تھا چاروں طرف سے عائشه كے لشكر ميں شامل ہونے لگے _

____________________

۳_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۲۷ ، تاريخ ابن اعثم ص ۱۶۶ _ ۱۶۷

۴_ يہ دونوں عا ئشہ كے رشتہ دار تھے كيونكہ طلحہ ان كے خاندانى تھے اور زبير ان كى بہن كے شوہر تھے

۲۵

طبرى نے زہرى كا بيان نقل كيا ہے كہ :

طلحہ و زبير عثمان كے قتل ہونے كے چار مہينہ كے بعد مكہ ائے اور عبداللہ ابن عامر(۱) بھى ايا جو عثمان كى طرف سے بصرہ كا گورنر تھا اورحضرت علىعليه‌السلام نے اس كو معزول كر ديا تھا وہ ايك بہت بڑى دولت ليكر مكہ ايا ، ادھريعلى بن اميہ(۲) وہ بے حساب دولت ليكر چار سو اونٹوں كے ساتھ مكہ ميں وارد ہوا عبداللہ بن عامر نے بھى لشكر كى تيارى ميں چار لاكھ دينار زبير كو ديئے سپاہيوں كے ہتھيار كا انتظام كيا اور وہ مشہور اونٹ جس كو عسكر كہا جاتا ہے ، اور جسے اسّى دينار يا بقول مسعودى دو سو دينار ميں خريدا تھا ، عائشه كو ديا تاكہ جنگ ميں وہ اس پر سوار ہوں_

عائشه كا ھودج اسى اونٹ پر باندھا گيا ، عائشه كو اس پر بٹھايا گيا اس طرح على كى مخالفوں كى ٹولى مكہ ميں جمع ہوئي اور ايك زبر دست لشكر تيار ہوگيا اور لڑنے كيلئے چلا _

عراق كى طرف

طبرى كا بيان ہے كہ: عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كے مخالف گروہ كو مكہ ميں اپنے گرد جمع كر ليا اور اس طرح ايك بہت بڑا اور وسائل سے اراستہ لشكر بنا ليا اس كے بعد سرداران لشكر بھى جمع ہو كر گہار مچانے لگے _

ان ميں سے كچھ لوگوں نے كہا كہ ہميں سيدھے مدينے كيطرف چلنا چاہيئے اور اپنى اس طاقت اور لشكر سے على كے

____________________

۱_ عثمان كا خالہ زاد بھائي

۲_يعلى بن اميہ كى كنيت ابو صفوان اور ابو خالد تھى ، فتح مكہ ميں اسلام لايا جنگ حنين طائف اور تبوك ميں شركت كى عمر نے اس كو يمن كے ايك شہر كا حاكم بنا ديا تھا يعلى نے ايك چراگاہ وہا ں اپنے لئے مخصوص كر لى تھى عمر نے اس جرم كى باز پرس كيلئے مدينہ طلب كيا ليكن مدينہ پہونچنے سے پہلے ہى عمر قتل ہو گئے ، پھر عثمان نے اس كو صنعاء كا حكمراں بنايا اور حساس عہدہ حوالہ كيا اس طرح اس نے اس سے شديدوابستگى ظاہر كى جب مسلمانوں نے عثمان سے بغاوت كى تو وہ يہ مدد كرنے كيلئے صنعاء سے چلا راستہ ميں اپنى سوارى سے گرا اور اس كا گھٹنا ٹوٹ گيا ، عثمان كے قتل كے بعد وہ مكہ پہونچا اور اعلان كيا كہ جو بھى عثمان كے انتقام ميں اٹھے گا ميں اس كے ہتھيار اور اخراجات كا ذمہ دار بنوں گا اسى عہد كے مطابق اس نے چار ہزار درہم زبير كو ديئے اور قريش كے ستر سپاہيوں كو مسلح كيا مسلح كركے گھوڑے اور اونٹ ديئے اسى نے عا ئشہ كو وہ اونٹ حوالہ كيا تھا كہ جس پر وہ جنگ جمل ميں سوار ہوئي تھيں ، يعلى نے جنگ جمل سے ان اخراجات كے علاوہ خود بھى شركت كى ليكن جنگ كے بعد توبہ كر كے حضرت على كے صف ميں شامل ہو گيا وہ جنگ صفين ميں حضرت على كے لشكر ميں تھا ، يہ مطلب ہے اسكے ابن الوقت ہونے كا

۲۶

خلاف جنگ كرنا چاہيئے _

كچھ دوسروں نے رائے دى كہ ہم اس كمزور طاقت اور كم افراد كے ساتھ حضرت على كے لشكر كا مقابلہ نہيں كر سكتے اور نہ مركز اور اسلامى راجدھانى پر حملہ كر كے حكومت وقت سے جنگ كر سكتے ہيں (ہميں چاہيئے كہ پہلے شام كى طرف چليں اور معاويہ سے مدد طلب كريں ان سے فوجى كمك اور جنگى سازوسامان حاصل كريں اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كريں )

كچھ دوسروں نے يہ پيش كش كى كہ ہميں پہلے عراق كى طرف كوچ كرنا چاہيئے اور دو عراق كے بڑے شہروں كوفہ اور بصرہ كى طاقت جمع كرنى چاہيئے ، جہاں طلحہ اور زبير كے حمآیتى ہيں اس طرح ہم وسائل جنگى سے زيادہ تيار ہو جائينگے اس كے بعد ہم لوگوں كو مدينہ چل كر على سے جنگ كرنى چاہيئے _

سبھى اركان شورى نے اس رائے كو پسند كر كے تائيد كى ، اسى پر عائشه نے امادگى ظاہر كر كے اپنے فوجيوں كو تيار ہونے كا حكم ديا اور وہ سات سو جنگى سپاہيوں كے ساتھ مكہ سے عراق كيطرف چليں ، ليكن اثنائے راہ ميں چاروں طرف سے لوگ ان كے گرد جمع ہو كر ان كے لشكر ميں شامل ہونے لگے اخر كار اس فوج كى تعداد تين ھزار تك پہونچ گئي(۵)

ام سلمہ نے عائشه كو سمجھايا

ابن طيفوركا بيان ہے :

جس دن عائشه نے اپنے لشكر كے ساتھ بصرہ كى طرف حركت كى ام سلمى نے ان سے ملاقات كر كے كہا :

اے عائشه اللہ نے تمھيں پابند بنايا ہے اس كے حكم سے سرتابى نہ كرو اللہ نے اپنے پيغمبر(ص) اور تمھارے درميان اور لوگوں كے درميان حجاب كا احترام قرار ديا ہے ، وہ پردہ پھاڑ كر رسول(ص) كا احترام مت برباد كرو ، اللہ نے تمھيں گھر ميں بيٹھنے كا حكم ديا ہے اسے صحرا نوردى ميں مت بدل دو _

اے عائشه رسول(ص) خدا تمھيں بہت اچھى طرح پہچانتے تھے _

____________________

۵_طبرى ج۵ ص ۱۶۷

۲۷

تمھارى حيثيت سے بھر پور واقفيت ركھتے تھے اگر ايسے معاملات ميں تمہارى مداخلت بہتر ہوتى تو لازمى طور سے تمھيں كوئي حكم ديتے اور تم سے كوئي معاھدہ كرتے ،ليكن صورت حال يہ ہے كہ صرف يہى نہيں كہ انھوں نے اس بارے ميں تم كو كوئي حكم نہيں ديا ہے بلكہ ايسے اقدامات سے تمھيں منع كيا ہے _

اے عائشه اگر رسول خدا (ص) تمھيں اس طرح سفر كى حالت ميں ديكھيں تو انھيں تم كيا جواب دوگى ؟ خدا سے ڈرو ، اور خدا كے رسول سے حيا كرو كيونكہ خداوند عالم تمھارى اس روش كو ديكھ رہا ہے وہ تمھارے سارے اعمال كا نگراں ہے اور تمھارا چھوٹا سا عمل بھى رسول خدا(ص) سے پوشيدہ نہيں ہے _

اے عائشه تم نے جو راستہ اپنايا ہے يہ انسانيت سے گرا ہوا راستہ ہے كہ اگر ميں تمھارى جگہ پر ہوتى اور مجھے حكم ديا گيا ہوتا كہ جنت ميں جائوں تو مجھے شرم اتى كہ وہاں ميں رسول خدا(ص) سے ملاقات كروں گى ، تم بھى اپنى شرم و حيا ختم نہ كرو اور مرتے دم تك ايك گھر كے كونے ميں بيٹھى رہو تاكہ رسول اللہ تم سے راضى رہيں _

بعض مورخين كے بيان كے مطابق ام سلمى نے اخرميں يہ فرمايا كہ:

اے عائشه تمہارے بارے ميں جو كچھ ميں نے رسول اللہ سے سنا ہے ، اگر انھيں دہرائوں تو تم اس طرح تڑپنے لگوگى جيسے سانپ كا كاٹا تڑپتا ہے ، اور تم صدائے فرياد بلند كرنے لگوگى _

عائشه نے ام سلمى كا جواب ديا اے ام سلمى اگر چہ ميں نے ہميشہ تمھارى نصيحت مانى ہے ليكن ميں اس معاملہ ميں تمھارى بات نہيں مان سكتى ، كيونكہ يہ بہت مبارك سفر ہے جس كا ميں نے ارادہ كيا ہے ، ديكھو مسلمانوں كى دو پارٹيوں ميں اختلاف ہے اب ان ميں صلح و صفائي ہو جايئگى ، ميں ان اختلافات كو ختم كركے دم لونگى ،

نعم المطلع مطلعاًاصلحت فيه بين فئتين متناجزتين (۶) _

راستے كى باتيں

عائشه نے اپنے اس لشكر كو كوچ كا حكم ديا كہ جو حضرت علىعليه‌السلام كے مخالف گروہوں او ر پارٹيوں سے تشكيل پايا تھا اور عراق كى طرف چليں اس طويل راستے ميں بصرہ پہچنے تك ايسے واقعات و حوادث پيش ائے جنھيں يہاں پيش كيا جاتا ہے _

____________________

۶_ فائق زمخشرى ج۱ ص ۲۹۰ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۷۹ ، عقد الفريد ج۳ ص ۶۹ ، تاريخ يعقوبي

۲۸

پيش نمازى پر اختلاف

طبرى لكھتاہے :

جس وقت عائشه كا لشكر مكہ سے چلا شھركے باہر مروان نے نماز كيلئے اذان دى ، اس كے بعد طلحہ و زبير كے سامنے اكر بولا _

ميں تم دونوں ميں سے كس كو امير سمجھوں كہ جسے لوگوں كے سامنے پيش نمازى كيلئے متعارف كرائوں چونكہ طلحہ و زبير اپنے نظريہ كو ايك دوسرے كے سامنے واضح طور سے بيان نہيں كر سكتے تھے كہ اپنے كو اس مقام كيلئے پيش كريں ، ان دونوں كے بيٹوں نے اپنى رائے ظاہر كى ہر ايك اپنے بآپ كو پيش كرنے لگا عبداللہ نے اپنے بآپ زبير كو اور محمد نے بھى اپنے بآپ طلحہ كو پيش كيا ، اس طرح دونوں كے درميان اختلاف پيدا ہوگيا جب عائشه كو اس واقعہ كى اطلاع ملى تو وہ سمجھ گئيں كہ پيش نمازى كے بہانے سے نفاق اور اختلاف كا بيج لشكر كے درميان بويا جارہا ہے انھوں نے مروان كو اپنے پاس بلاكر كہا اے مروان تو كيا چاہتا ہے ؟اپنى اس حركت سے لشكر ميں اختلاف كيوں پيدا كررہا ہے نماز ميرے بھائي كا بيٹا عبداللہ ابن زبير پڑھائيگا عائشه كے فرمان كے مطابق جب تك لشكر بصرہ پہنچے عبداللہ نماز پڑھاتے رہے اور تمام لوگ انھيں كے پيچھے نماز پڑھتے رہے _

معاذ ابن عبداللہ نے جب پيش نمازى كے مسئلے ميں طلحہ و زبير كے درميان اختلاف ديكھا تو كہا :

خدا كى قسم ، اگر فتح اور كاميابى ہمارے حصہ ميں ائي تو مسئلہ خلافت ميں ہم لوگ سخت اختلاف كا شكار ہو جائيں گے

كيونكہ نہ تو زبير اس منصب سے دستبردار ہونگے كہ وہ طلحہ كو ديديں اور نہ طلحہ يہ منصب زبير كو دينگے(۷) _

انتظامى معاملات كا اختلاف

طبرى كا بيان ہے كہ جب عائشه كا لشكر ذات عرق پر پہنچا تو سعيدابن عاص(۸) جو بنى اميہ كے اشراف قريش ميں تھا اور عائشه كے لشكر كا فوجى تھا اس نے مروان اور اس كے ساتھيوں سے كہا كہ اگر واقعى تم خون عثمان كا انتقام لينا چاہتے ہو تو كہاں جارہے ہو ؟چونكہ عثمان كے قاتل تو اسى لشكر ميں موجود ہيں(۹)

____________________

۷_طبرى ص۱۶۸

۸_ سعيد ابن عاص يہ شخص بنى اميہ كا تيز طرار ادمى سمجھا جاتا تھا اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس كے بآپ كو جنگ بدر ميں قتل كيا تھا ، يہ عثمان كا منشى تھا اور عثمان كى طرف سے كوفے كا حكمراں تھا علىعليه‌السلام نے اس كو معزول كر ديا تھا

۹_ اس كا مطلب طلحہ زبير اور عا ئشہ سے تھا

۲۹

انھيں كو قتل كردو اور اپنے گھروں كو وآپس چلو ، حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كر كے اپنے كو موت كے منھ ميں كيوں جھونكا جائے ؟

مروان اور اسكے ساتھيوں نے جواب ديا ، ہم اس لئے جا رہے ہيں كہ طاقت حاصل كر سكيں اس طرح ہم عثمان كے تمام قاتلوں كو قتل كر سكيں گے _

اس كے بعد سعيد نے طلحہ و زبير سے ملاقات كى اور كہا ميرے ساتھ سچائي كے ساتھ ائو صحيح صحيح بات كہو كہ اگر اس جنگ ميں تمھيں فتح ملى تو حكومت و خلافت كو كس شخص كے حوالے كرو گے ؟

انھوں نے كہا ہم دونوں ميں سے جس كو بھى عوام چن ليں _

سعيد نے كہا :سچ ، اگر تم خون عثمان كے انتقام ميں اٹھے ہو تو كيا اچھا ہوتا كہ اس خلافت كو بھى انھيں كے بيٹوں كے حوالے كردو _

ان لوگوں نے جواب ديا ہم مہاجر ين كے بوڑھوں اور بزرگوں كو الگ كر ديں اور نا تجربہ كار جوانوں كو اس كام ميں لگا ديں ؟

سعيد نے كہا : ہم بھى نہيں چاہتے كہ خلافت خاندان عبد مناف سے ليكر دوسروں كے اختيار ميں ديديں(۱۰) يہ كہكر

وہاں سے چلا ايا _

عبداللہ ابن خالد اسيد بھى بنى اميہ سے تھا وہ لشكر سے الگ ہوگيا ، مغيرہ ابن شعبہ جو قبيلہ سقيف سے تھا ، جب اس نے اس حادثہ كا مشاہدہ كيا تو اپنے قبيلہ كے افراد سے پكار كر كہا جو بھى قبيلہ ثقيف كا ہے وہ وآپس ہو جائے ، وہ لوگ بھى جو راستے ميں ائے تھے وآپس ہوگئے(۱۱) اور بقيہ لشكر اگے بڑھتا رہا _

تيسرا اختلاف

طبرى اپنى بات اگے بڑھاتے ہوئے لكھتا ہے كہ امارت كے اس اختلاف كے بعد اور چند افرادكى وآپسى كے بعد عثمان كے دونوں فرزند وليد اور ابان بھى عائشه كے لشكر ميں تھے منزل ذات سے اگے بڑھے _

____________________

۱۰_ خاندان عبد مناف كى فرد ميں بنى ہاشم اور بنى اميہ شامل ہيں اس وقت علىعليه‌السلام خليفہ تھے اس لئے بنى اميہ كى فرد سعيد اس بات پر راضى نہيں تھا كہ خلافت بنى ہاشم سے نكل كر خاندان تيم ميں پہنچے اور طلحہ كو حاصل ہو يا زبير كو ملے كہ جو بنى اسد كے خاندان سے تھا

۱۱_ طبرى ج۵ ص۱۶۸ _ طبقات ج۵ ص۲۳

۳۰

ليكن لشكر ميں تيسرى بار بھى اختلاف پيدا ہو گيا كہ كچھ لوگ كہنے لگے كہ ہميں شام كيطرف چلنا چاہيئے اور كچھ لوگ عراق كى رائے دے رہے تھے اس بارے ميں زبير نے اپنے بيٹے عبداللہ اور طلحہ نے اپنے بيٹے علقمہ كو مجلس شورى ميں نامزد كيا ان دونوں نے اس بات پر اتفاق رائے كيا كہ ہم لوگوں كو عراق كى جانب چلنا چاہيئے ، اس طرح نظر ياتى اختلاف اور فوجى كشا كش ختم ہوئي(۱۲)

حوا ب كا واقعہ

چوتھا بھى پيش ايا ، جب عراق كے راستے ميں عائشه كا لشكر تھا اسى وقت اثنائے رائے ميں طلحہ و زبير كو معلوم ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام مدينہ سے چل چكيں ہيں اور وہ منزل ذيقار ميں پہنچ گئے ہيں ، اور كوفے كا راستہ ان پر بند ہو چكا ہے ،طلحہ و زبير نے كوفہ جانے كا خيال بدل ديا اور بے راہہ سے استفادہ كرتے ہوئے بصرے كى طرف چلنے لگے يہاں تك كہ وہ اس جگہ پہچے جس كا نام حوا ب تھا ، وہاں عائشه كے كانوںميں كتّوں كے بھونكنے كى اواز پہنچى _ انھوں نے پوچھا اس جگہ كا كيا نام ہے _

____________________

۱۲_ طبرى ج۵ ص ۱۶۸ ، طبقات ج۵ ص ۲۳

۳۱

لوگوں نے جواب ديا ، حوا ب

فوراً عائشه كو حضرت رسول (ص) اللہ كى حديث ياد اگئي كہ آپ نے اپنى ازواج سے كہا تھا كہ تم ميںسے ايك كو حوا ب كے كتّے بھونكيں گے اور ان ازواج كو منع كيا تھا _

عائشه كو اس حادثہ نے بے چين كر ديا كيونكہ انھيں حديث رسول ياد تھى وہ گھبراہٹ ميں كہنے لگيں انا للہ و انااليہ راجعون ، ہائے ميں وہى عورت ہوں كہ جس كى رسول خدا(ص) نے خبر دى تھى _

عائشه اس خيال كے اتے ہى اس سفر سے پلٹنے لگيں انھوں نے پكّا ارادہ كر ليا كہ ميں وآپس جائوں گى _

جب عبداللہ ابن زبير كو عائشه كے وآپسى كى اطلاع ہوئي تو ان كے پاس اكر حوا ب كے بارے ميں گفتگو كى اور يہ ظاہر كيا كہ جن لوگوں نے آپ كو بتايا ہے انھيں دھوكا ہوا ہے ، اس جگہ كا نام حوا ب نہيں ہے _

عبداللہ ابن زبير اس واقعے كے بعد ہميشہ عائشه كى نگرانى كرتے رہے كہ مبادا دوبارہ بھى كوئي شخص ان سے ملكر اس سفر سے موڑدے _

جى ہاں ، فرزند زبير نے حوا ب كے بعد سے عائشه كے ھودج كے پاس سائے كيطرح چلتے رہے يہاں تك كہ بصرہ وارد ہو گئے(۱۳) _

سرداران لشكر كى وضاحت

طبرى كا بيان ہے كہ :

عائشه كا لشكر مكے سے چل كر بصرہ كے نزديك پہنچا اور وہاں ايك مقام جس كا نام حفر ابو موسى تھا اتر پڑا عثمان ابن حنيف انصارى حضرت علىعليه‌السلام كى طرف سے بصرہ كے گورنر تھے جب انھيں واقعہ كى اطلاع ملى تو ابوالاسود دئيلى كو مامور كيا كہ لشكر عائشه ميں جاكر ان كے سرداروں سے ملاقات كريں اور ان كى خواہش و مقصد كى تحقيق كريں _

ابو الاسود نے اپنے كو عائشه كے لشكر ميں پہونچايا ، پہلے انھوں نے خود عائشه سے ملاقات كى اور پوچھا _

اے عائشه بصرہ انے كا مقصد كيا ہے _

عائشه نے جواب ديا عثمان كے خون كا ان كے قاتلوں سے انتقام لينے يہاں ائي ہوں

____________________

۱۳_ طبرى ج۵ ص۱۷۸ ، عبد اللہ بن سبا ج۱ ص ۱۰۰

۳۲

ابوالاسود نے كہا اے عائشه بصرہ ميں كوئي بھى عثمان كا قاتل نہيں ہے كہ آپ ان سے انتقام ليں _

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود تم ٹھيك كہتے ہو ، عثمان كے قاتل بصرے ميں نہيں ہيں اور ہم بھى يہاں اس لئے نہيں ا ئے ہيں كہ قاتلوں كو بصرہ ميں تلاش كريں بلكہ اس لئے ائے ہيں كہ اس شہر كے لوگوں سے مدد طلب كريں اور ان لوگوں كى مدد و حمآیت سے مدينہ كے قاتلان عثمان سے انتقام ليں جوحضرت علىعليه‌السلام كے ارد گرد ہيں _

اے ابو الاسود جس دن عثمان نے تمہيں تازيانے سے اذيت دى تھى تو مجھے دكھ ہوا تھا اور ميں نے صاف طور سے ان كے اوپر سخت اعتراض كيا ليكن تم لوگوں نے تو انھيں تلواروں سے قتل كيا يہ كيسے مناسب ہے كہ ميں خاموش رہ جائوں اور ان كى مظلوميت پر فرياد نہ كروں ، ان كا انتقام نہ لوں ؟

اے ابوالاسود نہيں ، ميں ہرگز خاموش نہيں رہونگى _

_ ابوالاسود نے كہا :اے عائشه آپ كو تلوار اور تازيانے سے كيا سروكار آپ تو رسول(ص) خدا كے حكم كے مطابق پردہ نشين ہيں آپ كى صرف يہى تكليف ہے كہ اپنے گھر ميں بيٹھى رہيں قران كى تلاوت كريں ، اور پروردگار كى عبادت بجالائيں ، اے عائشه اسلام ميں عورتوں پر جھاد نہيں ہے ، اس كے علاوہ خون عثمان كا انتقام تو تمھارا حق بھى نہيں ، حضرت على خون عثمان كے انتقام كا زيادہ حق ركھتے ہيں كيونكہ وہ رشتہ كے لحاظ سے تم سے زيادہ عثمان كے قريب ہيں كيونكہ دونوں ہى خاندان عبد مناف سے ہيں ، ليكن تم قبيلہ تيم سے ہو _

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود ميں اپنا ارادہ بدلوں گى نہيں ، اب اس راہ سے وآپس نہيں جائوں گى جب تك اپنا مقصد نہ حاصل كر لوں اور اپنے قيام كے نتيجہ تك نہ پہونچ جائوں _

اے ابوالاسود تم نے كہا عوتوں پر جنگ و جھاد نہيں ، كون سى جنگ ؟ اور كيسا جھاد ؟ كيا اس معاملے ميں جنگ و جھاد كى بھى بات ہے ، ميرى جو حيثيت ہے (كيا كسى كو جرائت ہو سكتى ہے كہ مجھ سے جنگ كرے )

ابوالاسود نے كہا: اے عائشه آپ كو دھوكا تو يہيں ہوا ہے كيونكہ آپ سے ايسى جنگ ہوگى كہ اس كا اسان ترين ميدان شعلوں سے بھرا ہوا اور كمر شكن ہوگا _

ابوالاسود نے يہيں بات ختم كردى ، پھر انھوں نے زبير سے ملاقات كى اور كہا:

۳۳

اے زبير وہ دن بھولا نہيں ہے جب لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كر لى تھى ، اور آپ قبضہ شمشير پر ہاتھ ركھ كر نعرہ لگا رہے تھے _

( كوئي شخص خلافت كيلئے على سے بہتر اور لائق نہيں ہے ، خلافت كا لباس صرف على كيلئے موزوں ہے ان كے علاوہ كسى كو زيب نہيں ديتا ، ليكن آج وہى شمشير آپ نے ہاتھ ميں ليكر انھيں على كے خلاف قيام كيا ہے _

اے زبير كہاں وہ دلسوزى اور طرفدارى ، اور كہاں يہ عداوت و مخالفت ؟

زبير نے ابوالاسود كے جواب ميں قتل عثمان كا مسئلہ پيش كيا _

_ابو الاسود نے كہا :ہم نے تو جيسا كہ سنا ہے قتل عثمان ميں آپ ہى لوگ شريك ہيں ، حضرت علىعليه‌السلام كو ذرہ برابر بھى اس كے قتل ميں دخل نہيں زبير نے كہا اے ابوالاسود ذرا طلحہ كے پاس جائو ، ديكھو وہ كيا كہتے ہيں _

ابوالاسود كا بيان ہے: كہ ميں طلحہ كے پاس گيا ليكن وہ بہت تند مزاج اور فتنہ انگيز تھے ، وہ بہت زيادہ جنگ كى باتيں كرتے رہے ميرى تمام نصيحتيں اور باتيں بے اثر رہيں(۱۴)

دوسرى روآیت كے مطابق ابوالاسود كا بيان ہے كہ ميں اور عمران ابن حصين بصرہ كے گورنر عثمان ابن حنيف كى طرف سے عائشه كے پاس گئے اور ان سے يہ وضاحت چاہى كہ _

اے عائشه كيا وجہ ہوئي كہ آپ يہاں تك پہنچ گئيں ، كيا آپ كے اس قيام اور سفر كے بارے ميں رسول(ص) خدا كا فرمان ہے يا آپ نے اپنى ذاتى رائے سے يہ اقدام كيا ہے _

عائشه نے كہا: اس بارے ميں ميرے پاس رسول(ص) خدا كا كوئي فرمان يا حكم نہيں ہے بلكہ جس دن سے عثمان قتل كئے گئے ميں نے ذاتى طور سے ان كے خون كا انتقام لينے كى ٹھان لى ، كيونكہ ہم عثمان كے زمانے ميں واضح طور سے ان پر اعتراض كيا كرتے تھے كہ مسلمانوں پر كيوں ظلم ڈھا رہے ہو ، انھيں تازيانے كيوں لگا رہے ہو ، عام زمينوں اور چرا گاہوں كو اپنے اور خاندان والوں كے مويشيوں كيلئے كيوں مخصوص كر لى ہے ، اس سفّاك اور ظالم وليد كو

____________________

۱۴_ الامامة و السياسة ج۱ ص ۵۷ ، شرح نہج البلاغہ ابى الحديد ج۲ ص ۸۱ ، طبرى ج۵ ص ۱۷۸

۳۴

جسے رسول(ص) خدا نے جلا وطن كيا تھا اور قران نے فاسق كا نام ديا(۱۵) ايسے شخص كو مسلمانوں كا حكمراں بنا ديا ، ہاں ، ہم نے يہ تمام باتيں اس كے كان ميں ڈاليں اس نے ميرى تمام باتيں مان ليں اپنے كارندوں كى حركات پر شر مندہ بھى ہوا ، اور اپنے توبہ سے اپنے كو پاك كر كے غلطيوں كى تلافى كى _

ليكن تم لوگوں نے اس كے توبہ كو ذرہ برابربھى اہميت نہيں دى ، تلواريں كھينچے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے اور اس كے گھر ميںاسے مظلوم اور بے گناہ قتل كرديا ، تم لوگ اسلامى سر زمين مدينہ كى عظمت اور خلافت كى شان و شوكت ، ماہ ذى الحجہ كى حرمت ان تمام چيزوں كو اسلام نے محترم قرار ديا ہے تم نے ان سبكو روند ڈالا ، كيسے اور كيوں ميں اس ظلم و ستم كے مقابلہ ميں خاموش رہوںاور اس سركشى اور زيادتى كے مقابلے ميںچپ بيٹھ جائوں_

ابو الاسود نے كہا: اے عائشه آپ كو تلوار اور تازيانے سے كيا سروكار ؟ كيا رسو ل (ص) خدا نے آپ كو ايسے معاملات ميں مداخلت سے منع نہيں كيا تھا ؟

انھوں نے آپ كے لئے گھر كى كوٹھى پسند نہيں كى تھى آپ اپنے شوہر كے حكم كے خلاف اپنے گھر سے باہر كيوں نكل ائيں اور مسلمانوں كے درميان فتنہ و ہنگامہ كھڑا كيا ؟

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود ، كون سا فتنہ و فساد ؟كيا كوئي ايسا بھى ہے جو مجھ سے جنگ كرے ؟ يا ميرے خلاف زبان كھولے كہ فتنہ و فساد پيدا ہو ؟ ہرگز ايسا واقعہ پيش نہيں ائيگا ميرے مقابلہ ميں ايسى حركت كى كسى كو جرائت نہيں ہو گى _

ابوالاسود نے كہا: اے عائشه اگر يہ مخالفت اور ہنگامہ ارائي اگے بڑھتى رہى تو لوگ آپ سے جنگ كرينگے اور ايك عظيم فتنہ برپا ہو جائيگا _

عائشه نے كہا: اے ابو الاسود ، اے قبيلہ عامر كے پست فطرت ، اے بنى عامر كے چھو كر ے بات كم كر ، كون شخص ہے جو زوجہ رسول سے جنگ كر سكے(۱۶)

____________________

۱۵_ سورہ حجرات آیت ۶

۱۶_ بلاغات النساء ص ۹ ، عقد الفريد ج۳ ص ۹۸ ، البيان والتبيين جاحظ ج۲ ص ۲۰۹

۳۵

ابو الاسود اور عائشه سے يہيں پر بات ختم ہو گئي ، ليكن عائشه نے ابو الاسود كى بات كا ذرا بھى اثر نہيں ليا ، اپنا ارادہ نہيں بدلا ، انھوں نے اپنے لشكر والوں كے ساتھ حفر ابو موسى سے اگے بڑھكر بصرہ كے نزديك ايك جگہ پڑا ئو ڈال ديا _

سردار ان لشكر نے تقريريں كيں

لشكر عائشه بصرہ پہنچ گيا اور شہر كے وسيع ميدان --''مربد''كو اپنى چھائونى بنايا _

عثمان ابن حنيف انصارى جوحضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ كے حكمراں تھے ، دوبارہ كچھ لوگوں كو مربدبھيجا ، تاكہ لشكر عائشه كا انتہائي مقصد دريافت كريں _

عائشه نے جب اپنى فوج ميں ايك بڑا اجتماع ديكھا اور بصرے والوں كو بھى ايك جگہ ديكھا تو موقعہ غينمت خيال كركے ان كے سامنے اس طرح تقرير كى _

اے لوگو امير المومنين عثمان اگر چہ حق و عدالت كے راستے سے منحرف ہوگئے تھے ، انھوں نے رسو ل خد(ص) ا كے اصحاب كو اذيت دى ، ناتجربہ كار اور فاسد جوانوں كو حكومت ديدى ، ايسے لوگوں كى حمآیت كى جن پر رسول خدا (ص) غضبناك تھے اور انھوں نے مسلمانوں كى ابادى سے جلا وطن كيا تھا ، عمومى چراگاہوں كو اپنے لئے اور بنى اميہ كيلئے خاص كر ليا تھا ليكن ان تمام باتوں كے با وجود جب لوگوں نے ان پر اعتراض كيا اور اس كے انجام گوش زد كئے تو انھوں نے لوگوں كى نصيحتوں سے سبق ليا اپنے خراب كرتوتوں سے پشيمانى كا اظہار كيا اور اپنے دامن الودہ كو اب توبہ سے دھو ڈالا ، اپنے كو گناہوں سے پاك كر ليا _

ليكن كچھ لوگوں نے ان كے توبہ كو وقعت نہيں دى ان كى پشيمانى پر اعتنا نہيں كيا اور انھيں قتل كر ڈالااور اس پاكيزہ شخص اور بے گناہ شخص كا خون بہا ڈالا اسے قتل كر كے بہت سے بڑے گناہوں سے اپنے كو الودہ كيا كيونكہ وہ خلافت كا مقدس لباس پہنے ہوئے تھے ، جس مہينے ميں جنگ اور خونريزى حرام ہے اسى ماہ ذى الحجہ ميں ، اور اس شہر ميں كہ جس كا احترام اسلام نے لازم قرار ديا ہے ، اسى شہر ميں قربانى كے اونٹ كى طرح انھيں قتل كر ڈالا ان كا خون زمين پر بہا ديا _

اے لوگو جان لو كہ قريش قتل عثمان كے اصل مجرم ہيں انھيں قتل كر كے خود اپنے تيروں كا نشانہ بنا ليا ہے اور اپنے مكّے خود اپنے منھ پر مارے ہيں قتل عثمان سے وہ اپنا مقصد نہ پائيں ان كى حالت كو كوئي فائدہ نہ ہو ، خدا كى قسم ان

۳۶

لوگوں كو افت گھير لے گى جو انھيں نيست و نابود كر ديگى انگاروں سے بھر پور افت ، انھيں جڑ سے اكھاڑنے والى ، ايسى افت كہ سوئے لوگوں كو جگا ديگى اور بيٹھے لوگوں كو اٹھا ديگى _

ہاں ، خدا ئے عادل اس بے حد ظلم كے مقابلے ميں ايسے لوگوں كو ان پر مسلط كر ديگا كہ ان پر ذرا بھى رحم نہ كرينگے اور انھيں بد ترين اور سخت عذابوں سے انھيں اذيت ديگا _

اے لوگو عثمان كا گناہ ايسا نہيں تھا جو ان كے قتل كو جائز بنادے پھر يہ كہ تم لوگوں نے ان سے توبہ كرنے كو كہا اس كے بعد ان كى توبہ كو وقعت ديئے بغير (ٹوٹ پڑے اور بے گناہ ان كا خون بہا ڈالا اس كے بعدتم نے لوگوں كے مشورہ كئے بغير على كى بيعت كر لى اور غاصبانہ طريقے سے انھيں كر سى خلافت پربٹھاديا ) تم لوگ سونچو كہ ميں تمھيں لوگوں كے فائدہ كيلئے عثمان كے حق ميں تمہارى ان شمشيروں سے جوان پر برسائي گئيں غضبناك نہيں ہو جائوں اور خاموش رہوں ؟

اے لوگو ہوش ميں ائو كيونكہ عثمان كو مظلوم اور بے گناہ قتل كيا گيا اب تم لوگ ان كے قاتلوں كو تلاش كرو ،جہاں بھى ان پر قابو پائو انھيں قتل كر ڈالو ، اس كے بعد ان لوگوں ميں سے جنھيںعمر نے خلافت كيلئے نامزد كيا تھا شورى كے ذريعے سے خليفہ منتخب كر لو ، ليكن ايسا نہيں ہونا چاہيئے كہ جس شخص نے عثمان كو قتل كيا(۱۷) وہ خلافت كے بارے ميں يا شورى ميں خليفہ معين كرنے كيلئے شامل ہو اور ذرا بھى مداخلت كرے(۱۸) زھرى كا بيان ہے كہ عائشه كى تقرير ختم ہوتے ہى طلحہ و زبيرنے بھى اٹھ كر لوگوں كے سامنے يہ تقرير كى _

اے لوگوں ، ہر گناہ كى توبہ ہے اور ہر گنہگار پشيمان ہونے كے بعد وہ پلٹتا ہے جس كے اثر سے وہ پاك اور مغفور ہو جاتا ہے ، عثمان بھى اگر چہ گنہگار تھے ليكن انكا گناہ توبہ اور امرزش كے قابل تھا ہم بھى كسى حيثيت سے ان كے قتل كا ارادہ نہيں ركھتے تھے ہم صرف يہ چاہتے تھے كہ ان كى سرزنش كريں اور اس طرح انھيں توبہ پر مجبور كريں ، ليكن كچھ نادان اور ھنگامہ پسند ادميوں نے انھيں قتل كرنے كا ارادہ كرليا اور ہمارے جيسے صلح و پسند (ملائم اور حليم لوگوں پر حاوى ہو گئے اور نتيجہ ميں انھيں قتل كر ڈالا )ابھى طلحہ و زبير كى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ بصرہ والے چاروں طرف

____________________

۱۷_قاتل عثمان سے ان كى مراد حضرت على ہيں

۱۸_ الامامة و السياسة ج۱ ص ۵۱ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۴۹۹

۳۷

سے اعتراض كرنے لگے اور چلانے لگے _ اے طلحہ تمھارا خط ہمارے پاس پہنچا تھا ، اس كا لہجہ بہت سخت تھا ، آج كى تمھارى بات سے اور اس خط كے مضمون سے كوئي مناسبت اور ميل نہيں ہے ،اس موقعہ پر زبير نے لوگوں كو مطمئن اور خاموش كرنے كيلئے كھڑے ہو كر تقرير شروع كر دى ، اور كہا اے لوگو :

ميں نے عثمان كے بارے ميں تمھيں كوئي خط نہيں لكھا اگر تمھارے پاس اس بارے ميں كوئي خط پہنچا ہے تو وہ دوسروں نے لكھا ہو گا _

اپنى پہلى بات كو زيادہ اب و تاب سے بيان كرنے لگے اور عثمان كى مظلوميت لوگوں كے سامنے زيادہ وضاحت سے بيان كى اس ضمن ميں حضرت على اور ان كے ماننے والوں كى شدت كے ساتھ تنقيد اور مذمت كى _(۱۹) _

__________________

۱۹_ طبرى ج۲ ص ۱۷۸

۳۸

مقرروں پر اعتراض

عائشه اور ان كے سرداران لشكر كى اتشيں تقريروں كے بعد جو مربد ميں ہوئي تھيں كچھ سامعين كھڑے ہو گئے اور انھوں نے واضح لفظوں ميں اعتراضات كئے _

طبرى نے ان تقريروں كو نقل كرنے كے بعد لكھا ہے كہ اسى موقعہ پر خاندان عبدالقيس كا ايك شخص كھڑا ہو كر بولا ، اے زبير خاموش ہو جا ، ميں بھى كچھ كہنا چاہتا ہوں اور جو كچھ لازم ہے وہ لوگوں تك پہونچانا چاہتا ہوں _

عبداللہ ابن زبير اس پر بپھر كر بولے ، اے مرد عبدى تيرى كيا حيثيت كہ بات كرے ليكن اس شخص نے ابن زبير كى سرزنش پر كوئي توجہ نہيں كى اور عائشه كے لشكر والوں سے كہنے لگا تم مہاجر ين كے گروہ ميںہو تم نے زندگى ميں عظيم فضيلت و افتخار حاصل كيا كيونكہ تم ہى تھے جنھوں نے رسول اكرم (ص) كى پہلى اواز پر لبيك كہى ، اور تمام لوگ تمھارے بعد تمھارى پيروى ميں اسلام سے وابستہ ہوئے ، اسے جان و دل سے قبول كيا اور جس وقت رسول(ص) خدا لقائے الہى سے جا ملے تمھيں لوگ تھے جنھوں نے آپنوں ميں سے ايك كا انتخاب كيا اور اسكى بيعت كى ، باوجود اس كے كہ تم نے اس انتخاب ميںہم سے مشورہ نہيں كيا اور ہمارى اطلاع كے بغيريہ اقدام كر ڈالا ، پھر بھى ہم نے تمھارى

۳۹

مخالفت نہيں كى ، تم جس بات كو پسند كرتے تھے ہم اس پر راضى رہے ان كى زندگى ختم ہوئي اور كسى شخص كو تمھارے درميان سے خلافت كيلئے چن ليا گيا تم لوگوں نے ہميں اطلاع ديئے بغير اس كى بيعت كرلى ہم نے بھى اسے مان ليا ، اور تمھارى خوشنودى خاطر كيلئے ہم نے اسكى بيعت كرلى ، اس نے بھى جب دنيا سے رخت سفر باندھا تو امارت و خلافت كو چھہ ادميوں كے درميان ڈال كر معاملہ شورى كے حولے كر ديا ، ان چھہ افراد ميں سے عثمان كو منتخب كر كے تم نے بيعت كر لى ليكن دير نہيں گذرى كہ تم نے اسكى روش كو نآپسند كيا ، اس كے كرتوتوں پر اعتراض كيا ، يہاں تك كہ تم نے اس كے خون سے اپنا ہاتھ رنگين كيا حالانكہ تم نے نہ اسكى خلافت ميں ہم سے مشورہ كيا تھا اور نہ قتل ميں ، وہيں تم لوگ على كے گھر پر چڑھ دوڑے ان سے حد سے زيادہ اصرار كيا يہاں تك كہ انكو زبردستى اس كام پر امادہ كيا اور انكى بيعت كرلى ، پيمان خلافت باندھ ليا ، يہ تمام باتيں تو ا ن لوگوں نے ہمارى اطلاع كے بغير اور ہمارے مشورے كے بغير انجام ديا ليكن اب ہم نہيں جانتے كہ كس دليل سے اسكے خلاف تم نے فتنہ ابھارا ہے اور ان سے امادہء جنگ ہو گئے ہو ؟

كيا حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كے مال و دولت ميں خيانت اور زيادتى كى ہے يا خلاف حق كوئي كام كيا ہے يا تم لوگوں كى پسند كے خلاف كسى عمل كے مرتكب ہوئے ہيں _

نہيں ، ہر گز نہيں ، حضرت علىعليه‌السلام كا دامن ان تمام باتوں سے پاك ہے _

پھر ہم لوگ ان پر كيا اعتراض كريں ؟ اور كيوں ان سے جنگ كريں ؟

ابھى اس شخص كى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ لشكر عائشه سے كچھ لوگ اسكى حق گوئي پر بھڑك اٹھے اور اسكے قتل كا ارادہ كيا اس شخص كے خاندان كے لوگ اور رشتہ دار اسكى مدد ميں كھڑے ہو گئے ، اسكى طرف سے دفاع كرنے لگے ، يہاں تك كہ وہ اپنى جان بچا كر لشكر كے درميان سے بھاگ گيا _

ليكن حادثہ يہيں پر ختم نہيں ہو گيا ، اور دوسرے دن عائشه كے لشكر اور اس شخص كے قبيلہ كے درميان جنگ ہوگئي اس شخص كے قبيلے كے ستر ادميوں كو ان لوگوں نے بزدلانہ طريقے سے قتل كر ديا(۲۰)

جس وقت يہ واقعہ امام نے سنا توبہت زيادہ غمگين ہوئے آپ نے ان لوگوں كى تعزيت ميں شعر اس مضمون

____________________

۲۰_ طبرى ج۵ ص ۱۷۸

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

مسئلہ ٢٢٣٣ اگر طبےب اپنے ہاتھوں سے مرےض کو دوا پلائے اور معالجہ ميں خطاء کرے اور مرےض کو نقصان پهنچے یا مرجائے تو طبےب ضامن ہے ، ليکن اگر کهے:”فلاں دوا فلاں مرض کے لئے فائدہ مند ہے “ اور دوا کے استعمال کو مرےض پر چھوڑ دے اور اُس دوا کے کھانے کی وجہ سے مرےض کو نقصان پهنچے یا وہ مر جائے تو طبےب ضامن نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢٣ ۴ جب طبےب مرےض سے کهے:”اگر تمہيں کوئی نقصان پهنچے تو ميں ضامن نہيں ہوں“ جب کہ اپنے کام ميں مهارت بھی رکھتا ہو اور اپنی احتياط بھی کی ہو اور مرےض کو نقصان پهنچے یا مر جائے تو ضامن نہيں ہے چاہے طبےب نے اپنے ہاتھوں سے دوا دی ہو۔

مسئلہ ٢٢٣ ۵ مستاجر اور اور اجارہ پر دینے والا دونوں ایک دوسرے کی رضایت کے ساته معاملہ ختم کرسکتے ہيں ۔ اسی طرح اگر اجارہ ميں شرط کریں کہ دونوں یا ان ميں سے کوئی ایک معاملہ ختم کرنے کا حق رکھتے ہوں تو وہ اجارہ کی قرارداد کے مطابق معاملہ کو ختم کر سکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٢٣ ۶ اگر مستاجر یا اجارہ پر دینے والا شخص اجارے کے بعد سمجھے کہ اس کے ساته دهوکہ ہوا ہے تو وہ اجارہ ختم کرسکتے ہيں ، ليکن اگر اجارہ کی قرارداد ميں شرط کرچکے ہوں کہ حتی دهوکے کی صورت ميں بھی کسی کو عقد اجارہ کو فسخ کرنے کا اختيار نہ ہو تو اجارہ ختم نہيں کرسکتے۔

مسئلہ ٢٢٣٧ اگر اجارہ پر دینے کے بعد اور قبضہ دینے سے پهلے کوئی شخص اس چيز کو غصب کرلے تو مستاجر اس اجارہ کو فسخ کرسکتا ہے اور وہ چيز جو اجارہ دینے والے کو دی ہے واپس لے سکتا ہے ۔ یہ بھی کر سکتا ہے کہ اجارہ کو فسخ نہ کرے اور جتنی مدت وہ چيز غاصب کے اختيار ميں رہی ہو معمول کے مطابق اس سے اجارہ وصول کرے جو کہ اجرت المثل ہے ۔ پس اگر ایک حیوان کو ایک مهينے کے لئے دس روپے اجارہ پر ليا تھا اور کسی نے دس روز کے لئے غصب کيا ہو اور اس دس روز کی اجرت المثل پندرہ روپے ہو تو وہ غاصب سے پندرہ روپے لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٣٨ اگراجارہ پر لی گئی چيز قبضہ ميں لے لے اور پھر کوئی اسے غصب کرلے تو اجارہ کو ختم نہيں کرسکتا، بلکہ فقط اتنا حق رکھتا ہے کہ اُس چيز کا کرايہ اجرت المثل کی مقدار ميں غاصب سے لے لے۔

مسئلہ ٢٢٣٩ اگر مدتِ اجارہ ختم ہونے سے پهلے مال کو مستاجر کے ہاتھوں فروخت کردے تو اجارہ ختم نہيں ہوتا اور مستاجر کے لئے اجارہ کا مال دینا ضروری ہے ۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب مال کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دے۔

مسئلہ ٢٢ ۴ ٠ اگر مدت اجارہ کی شروعات سے پهلے مال اس طرح خراب ہوجائے کہ اس سے کسی طرح سے فائدہ نہ اٹھ ایا جاسکے یا اس فائدے کے قابل نہ رہے جس کے لئے اجارہ پر دیا گيا تھا تو اجارہ باطل ہو جائے گا اور وہ رقمجو کہ مستاجر نے دی تھی مستاجر کو دوبارہ مل جائے گی اور اگر کيفيت یہ ہو کہ اس سے کچھ تهوڑا ہی فائدہ اٹھ ایا جا سکتا ہو تو وہ اجارہ ختم کرسکتا ہے ۔

۳۶۱

مسئلہ ٢٢ ۴ ١ اگر کسی جائيداد کو اجارہ پر لے جو اجارہ کی کچھ مدت گزرنے کے بعد اس طرح خراب ہوجائے کہ بالکل استفادہ کے قابل نہ رہے یا جس چيز کے لئے اجارہ پر دیا گيا تھا اس چيز کے لئے قابل استفادہ نہ رہے تو باقی ماندہ اجارہ کی مدت باطل ہوجائے گی اور وہ گذشتہ مدت کے اجارہ کو ختم کرکے اس کے بدلے اجرت المثل دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۴ ٢ اگر کوئی مکان جومثلاً دو کمرے والا ہو، کرائے پر دے اور اس کا ایک کمرہ خراب ہوجائے تو اس صورت ميں کہ وہ خصوصيت جو کہ ختم ہو چکی ہے مورد اجارہ نہ ہو اور فوراً اس کمرے کو بنادے اور کوئی استفادہ بھی ضائع نہ ہوا ہو تو اجارہ باطل نہيں ہوتا اور مستاجر اجارہ کو ختم نہيں کرسکتا، ليکن اگر اس کمرے کو بنانے ميں اتنی دیر لگ جائے کہ مستاجر کے استفادے کی کچھ مقدار ختم ہوجائے تو اس فوت شدہ استفادہ کی مقدار ميں اجارہ باطل ہوگا اور مستاجر پوری مدتِ اجارہ کو فسخ کرکے جتنا استفادہ اس نے کيا ہے اس کے بدلے اجرت المثل دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۴ ٣ اگر مال اجارہ پر لینے یا دینے والا مرجائے تو اجارہ باطل نہيں ہوتا۔ ہاں، اگر اجارہ پر دینے والے کا مکان اپنا نہ ہو مثلاً کسی دوسرے شخص نے اس کے لئے وصيت کی ہو کہ جب تک وہ زندہ ہے مکان کی آمدنی اس کا مال ہوگا تو اگر وہ مکان کرائے پر دے دے اور اجارہ کی مدت ختم ہونے سے پهلے مرجائے تو اس کے مرنے کے وقت سے اجارہ فضولی ہوگا اور اگر موجودہ مالک اجارہ کی بقيہ مدت کی اجازت دے دے تو اجارہ صحيح ہے اور اجارہ پر دینے والے کی موت کے بعد اجارہ کی باقی ماندہ مدت کی ملنے والی اجرت موجودہ مالک کو ملے گی۔

مسئلہ ٢٢ ۴۴ اگر کوئی کام کرانے والا شخص کسی معمار کو اس مقصد سے وکيل بنائے کہ وہ اس کے لئے کاریگر مهيا کردے تو معمار نے جو کچھ اس شخص سے ليا ہے اگر کاریگروں کو اس سے کم دے تو زائد مال اس پر حرام ہے اور ضروری ہے کہ وہ رقم مالک کو واپس کر دے، ليکن اگر معمار اجير بن جائے کہ عمارت کو مکمل کردے گا اور اپنے لئے يہ اختيار حاصل کرے کہ خود بنائے گا یا دوسرے سے بنوائے گا تو اس صورت ميں کہ کچھ کام خود کرے اور باقی کام دوسروں سے اس اجرت سے کم اجرت پر کروائے جس پر وہ خود اجير بنا ہے تو زائد رقم اس کے لئے حلال ہوگی۔

مسئلہ ٢٢ ۴۵ اگر کپڑا رنگنے والا طے کرے کہ مثلاً کپڑا نيل سے رنگے گا اور نيل کے بجائے کسی اور چيز سے رنگ دے تو اسے اجرت لینے کا حق نہيں ہے ۔

۳۶۲

جعالہ کے احکام

مسئلہ ٢٢ ۴۶ جعالہ سے مراد يہ ہے کہ انسان طے کرے کہ اس کے لئے انجام دئے جانے والے کام کے بدلے ميں معين شدہ مال دے گا مثلاً يہ کهے:”جو کوئی یا کوئی معين شخص میر ی گمشدہ چيز ڈهونڈ لائے گا ميں اسے دس روپے دوں گا یا گمشدہ چيز کا آدها دوں گا۔“

جو شخص يہ قرار داد باندهے اسے جاعل اور جو شخص وہ کام انجام دے اسے عامل کہتے ہيں ۔

جعالہ و اجارہ ميں بعض فرق ہيں ۔ ان ميں سے ایک يہ ہے کہ اجارے ميں صيغہ پڑھے جانے کے بعد اجير ضامن ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کام انجام دے اور وہ شخص بهی، جس نے اسے اجير بنایا تھا، اجرت کی بہ نسبت اجير کا مقروض بن جاتا ہے ، جب کہ جعالہ ميں چاہے عامل کوئی معين فرد ہو،اس کے پاس اختيار ہے کہ کام انجام نہ دے اور جب تک عامل کام انجام نہ دے جاعل اس کا مقروض نہيں ہوتا۔ دوسرا يہ کہ اجارے ميں قبول شرط ہے ليکن جعالہ ميں قبول شرط نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۴ ٧ جاعل کا عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے اور اپنے ارادے و اختيار سے بغير کسی ناحق زبردستی کے قرارداد باندهے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ شرعاً اپنے مال ميں تصرّف کرسکتا ہو، لہٰذا سفيہ یعنی جو اپنا مال فضول کاموں ميں خرچ کرتا ہو یا دیواليہ جو حاکم شرع کے حکم سے اپنے مال ميں تصرّف نہ کرسکتا ہو، کا جعالہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۴ ٨ جو کام جاعل کروانا چاہتا ہو ضروری ہے کہ بے فائدہ یا حرام یا ان واجبات ميں سے نہ ہو جن کا بلامعاوضہ بجا لانا شرعاً ضروری ہو،لہٰذا اگر کوئی کهے رات کے وقت جو تارےک جگہ پر جائے گا یا شراب پےئے گا یا واجب نماز پڑھے گا ميں اسے دس روپے دوں گا تو جعالہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۴ ٩ جس مال کے دئے جانے پر جعالہ کيا ہو، اگر اسے معين کرے مثلاً کهے:” جو کوئی میر ا گهوڑا ڈهونڈ کر لائے گا، يہ گندم اسے دوں گا،“ يہ بتانا ضروری نہيں ہے کہ گندم کهاں کی ہے اور اس کی قيمت کتنی ہے ۔ اسی طرح اگر مال کو معين نہ کرے مثلاً کهے:”جو کوئی میر ا گهوڑا ڈهونڈلائے اسے دس من گندم دوں گا،“ جعالہ صحيح ہے ، ليکن احتياط مو کٔد يہ ہے کہ اس کی پوری خصوصيات معين کرے۔

مسئلہ ٢٢ ۵ ٠ اگر جاعل کام کے لئے معين اجرت مقرر نہ کرے، مثلاً کهے:”جو شخص ميرے بچے کو ڈهونڈ کر لائے گا اسے ميں کچھ مال دوں گا“، ليکن اس کی مقدار معين نہ کرے، تو جب کوئی شخص اس کا کام انجام دے، ضروری ہے کہ اسے اتنی اجرت دے جتنا لوگوں کی نگاہوں ميں اس کے کام کی اہميت ہو۔

۳۶۳

مسئلہ ٢٢ ۵ ١ اگرعامل نے جاعل کی قرارداد سے پهلے وہ کام انجام دے دیا ہو یا قرارداد کے بعد اس نيت سے وہ کام انجام دے کہ اس کے بدلے رقم نہيں لے گا تو پھر وہ اجرت لینے کا حق نہيں رکھتا۔

مسئلہ ٢٢ ۵ ٢ عامل کے کام شروع کرنے سے پهلے جاعل، جعالہ کو منسوخ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۵ ٣ عامل کے کام شروع کرنے کے بعد اگر جاعل جعالہ منسوخ کرنا چاہے تو اس ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۵۴ عامل کام کو ادهورا چھوڑ سکتا ہے ليکن کام کو ادهورا چھوڑنے پر جاعل کو نقصان پهنچتا ہو تو ضروری ہے کہ کام کو مکمل کرے مثلاً کوئی شخص کهے:”جو کوئی میر ی آنکه کا آپرےشن کرے ميں اسے اس قدر معاوضہ دوں گا“ اور سرجن اس کا آپرےشن شروع کردے اور صورت يہ ہو کہ اگر آپرےشن مکمل نہ کرے تو آنکه ميں عےب پيدا ہوسکتا ہے ، تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرے او راگر ادهورا چھوڑدے تو جاعل سے اجرت لینے کا اسے کوئی حق نہيں ہے بلکہ عےب و نقصان کا ضامن بھی ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۵۵ اگرعامل کام ادهورا چھوڑدے اور وہ کام ایسا ہو جےسے گهوڑا ڈهونڈنا کہ جسے مکمل کئے بغير جاعل کو کوئی فائدہ نہ ہوتو عامل، جاعل سے کسی چيز کا مطالبہ نہيں کرسکتا اور اگر اجرت کو کام مکمل کرنے سے مشروط کردے تب بھی یهی حکم ہے مثلاً کهے:”جو کوئی میر ا لباس سےئے گا ميں اسے دس روپے دوں گا“، ليکن اگر اس کی مراد يہ ہو کہ جتنا کام کيا جائے اتنی اجرت دے گا تو پھر ضروری ہے کہ جتنا کام ہوا ہو اتنی اجرت عامل کو دے دے اگرچہ احتياط يہ ہے کہ دونوں مصالحت کے طور پر ایک دوسرے کو راضی کرليں۔

مزارعہ کے احکام

مسئلہ ٢٢ ۵۶ مزارعہ سے مراد يہ ہے کہ مالک یا وہ شخص جو مالک کے حکم ميں ہو مثال کے طور پر ولی یا مالکِ منفعت یا مالکِ انتفاع یا وہ شخص جس کا حق زمين سے متعلق ہوجيسے کسی زمين کے گرد سنگ چينی کی وجہ سے پيدا ہونے والا حق،کاشتکار سے معاہدہ کرے کہ اپنی زمين اس کے اختيار ميں دے تاکہ وہ اس ميں کاشتکاری کرے اور پيداوار کا کچھ حصہ مالک یا اس شخص کو دے جو مالک کے حکم ميں ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۵ ٧ مزارعہ ميں چند باتوں کا خيال رکھنا ضرور ی ہے :

١) مالک کی طرف سے ایجاب اور کاشتکار کی طرف سے قبول، اس طرح کہ زمين کا مالک کاشتکار سے کهے:”ميں نے زمين تمہيں کهيتی باڑی کے لئے دی “ اور کاشتکار بھی کهے: ”ميں نے قبول کيا “۔ یا بغير اس کے کہ زبانی کچھ کہيں مالک کاشتکار کو کهيتی باڑی کے ارادے سے زمين دے دے اور کاشتکار اسے اپنی تحویل ميں لے لے۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایجاب کاشتکار کی طرف سے اور قبول مالک کی طرف سے ہو۔

۳۶۴

٢) زمين کا مالک اور کاشتکار دونوں عاقل اور بالغ ہوں، کسی نے انہيں مزارعہ کے معاملے پر ناحق مجبور نہ کيا ہو اور مالک اپنے مال ميں تصرف سے شرعاً ممنوع نہ ہو جيسے سفيہ اور دیواليہ جسے حاکم شرع نے اپنے مال ميں تصرف کرنے سے روک دیا ہو۔ یهی حکم کاشتکار کے لئے اس وقت ہے جب مزارعہ کی وجہ سے اس کو اپنے مال ميں جو کہ ممنوع التصرف تھا،تصرف کرنا پڑے۔

٣) زمين کی پيداوار ميں دونوں مشترک ہوں، لہٰذا اگر شرط کریں کہ تمام پيداوار یا ابتدائی یا آخر کی فصل ان ميں سے کسی ایک کا مال ہو تو مزارعہ باطل ہے ۔

۴) زمين کی پيداوار ميں ہر ایک کا حصہ بطور مشاع مثلاً نصف یا ایک تھائی وغيرہ ہو۔ لہٰذا اگر مالک کهے:”اس زمين ميں کهيتی باڑی کرو اور جو تمهارا جی چاہے مجھے دے دینا،“ یا معين مقدار مثلاً پيداوار ميں سے دس من مالک یا کاشتکار کے لئے مقرر کریں تومزارعہ باطل ہے ۔

۵) جتنی مدت کے لئے زمين کاشتکار کے قبضے ميں رہنی ہو، ضروری ہے کہ اسے معين کریں اور ضروری ہے کہ وہ مدّت اتنی ہو کہ اس مدت ميں پيداوار حاصل ہونا ممکن ہو اور اگر مدت کی ابتدا ایک مخصوص دن سے اور مدت کا اختتام فصل تيار ہونے کو مقرر کردیں تو کافی ہے ۔

۶) زمين کاشت کے قابل ہو، اگر اس ميں کاشت کرنا ممکن نہ ہو ليکن ایسا کام کيا جاسکتا ہو جس سے کاشت ممکن ہوجائے تو مزارعہ صحيح ہے ۔

٧) اگر کسی مخصوص چيز کی کاشت دونوں کے مدّ نظر ہو تو کاشتکار جو چيز کاشت کرے اسے معين کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر کسی مخصوص چيز کی کاشت مدّنظر نہ ہو یا جو چيز کاشت کرنا چاہيں اس کا علم ہو تو اسے معين کرنا ضروری نہيں ہے ۔

٨) مالک،زمين کو معين کرے اس طرح کہ مورد نظر ٹکڑا مردّد نہ ہو اور ظاہر يہ ہے کہ معين جگہ ميں بطور کلی تعےین کرنا ،معين کرنے کے لئے کافی ہے اگرچہ زمين کے ٹکڑے آپس ميں مختلف ہوں۔

٩) جو اخراجات ان ميں سے ہر ایک کو کرنا ضروری ہيں انہيں معين کریں ليکن جو اخراجات ہر ایک کو کرنا ضروری ہوں اگر اس کا علم ہو تو معين کرنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٢٢ ۵ ٨ اگر مالک،کاشتکار سے طے کرے کہ جو کچھ زمين کی اصلاح اور آبادکاری ميں خرچ ہوگا اور جو مقدار ٹيکس کے طور پر دیناہوگی، اسے نکالنے کے بعد باقی کو اپنے درميان تقسےم کریں گے تو صحيح ہے ۔ اسی طرح اگر طے کرے کہ پيداوار کی کچھ مقدار اس کی ہوگی تو اگر جانتے ہوں کہ اس مقدار کو کم کرنے کے بعد کچھ باقی بچ جائے گا تو مزارعہ صحيح ہے ۔

۳۶۵

مسئلہ ٢٢ ۵ ٩ اگر مزارعہ کی مدت ختم ہوجائے اور فصل دستياب نہ ہو تو اگر مالک اس بات پر راضی ہو کہ اجرت پر یا بغيرا جرت کے، فصل اس کی زمين ميں کهڑی رہے اور کاشتکار بھی راضی ہو تو کوئی حرج نہيں اور اگر مالک راضی نہ ہو تو اس صورت ميں جب فصل کے زمين ميں باقی رہنے سے مالک کو کوئی نقصان نہ ہو، کوئی قابل ذکر منفعت بھی ضائع نہ ہورہی ہو اور فصل کی عدم دستيابی ميں کاشتکار کی کوتاہی بھی نہ ہو تو مالک کاشتکار کو زمين ميں سے فصل کاٹنے پر مجبور نہيں کرسکتا، بلکہ ضروری ہے کہ فصل تيار ہونے تک صبر کرے تاکہ کاشتکار کو نقصان نہ ہو اور کاشتکار کے لئے ضروری ہے کہ اس زیادہ مدت کے لئے زمين کو استعمال کرنے پر مالک کو اجرت المثل دے۔

مسئلہ ٢٢ ۶ ٠ اگر کوئی ایسی صورت پےش آجائے کہ زمين ميں کهيتی باڑی کرنا ممکن نہ ہو مثلا زمين کا پانی بند ہوجائے تو مزارعہ ختم ہوجاتا ہے اور اگرکاشتکار بلاوجہ کهيتی باڑی نہ کرے تو اگر زمين اس کے تصرف ميں رہی ہو اور مالک کا اس ميں کوئی تصرف نہ رہا ہو تو ضروری ہے کہ معمول کے مطابق مدت کا کرايہ مالک کو دے۔

مسئلہ ٢٢ ۶ ١ اگر مالک اور کاشتکار صيغہ پڑھ چکے ہوں تو ایک دوسرے کی رضامندی کے بغير مزارعہ منسوخ نہيں کرسکتے اور اسی طرح اگر مالک نے مزارعہ کے قصد سے کسی کو زمين دے دی ہو اور اس نے بھی تحویل لے لی ہو، تو ایک دوسرے کی رضامندی کے بغير مزارعہ منسوخ نہيں کرسکتے ليکن اگر مزارعہ کے معاہدے کے سلسلے ميں انہوں نے يہ شرط طے کی ہو کہ ان ميں سے دونوں یا کسی ایک کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہوگا تو جو معاہدہ انہوں نے کر رکھا ہو اس کے مطابق معاملہ فسخ کرسکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٢ ۶ ٢ اگر مزارعہ کے معاہدے کے بعد مالک یا کاشتکار مرجائے تو مزارعہ فسخ نہيں ہوتا بلکہ ان کے وارث ان کی جگہ لے ليتے ہيں ليکن اگر کاشتکار مرجائے اور انہوں نے يہ شرط رکھی ہو کہ کاشتکار خود کاشت کرے گا تو مزارعہ فسخ ہوجاتا ہے ۔ اس صورت ميں اگر پيداوار نمایاں ہوچکی ہو تو ضروری ہے کہ کاشتکار کا حصّہ اس کے ورثاء کو دیں اور جو دوسرے حقوق کاشتکار کو حاصل ہوں وہ بھی اس کے ورثاء کومیر اث ميں مل جاتے ہيں اور کاشت حاصل ہونے تک اس کا زمين ميں باقی رہنے کا وهی حکم ہے جو مسئلہ ” ٢٢ ۵ ٩ “ ميں بيان ہوچکا ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۶ ٣ اگر کاشت کے بعد پتہ چلے کہ مزارعہ باطل تھا تو جو بےج ڈالا گيا تھا اگر وہ مالک کا مال ہو توجو فصل ہاتھ آئے گی وہ بھی اسی کی ہوگی۔ اس صورت ميں مالک کے لئے ضروری ہے کہ کاشتکار کی اجرت، جو کچھ اس نے خرچ کيا ہو اور کاشکار کے حیوانوں اور دوسرے وسائل کا کرايہ دے۔

اور اگر بےج کاشتکار کا مال ہو تو فصل بھی اسی کی ہوگی اور ضروری ہے کہ زمين کا کرايہ اور جو کچھ مالک نے خرچ کيا ہو اور مالک کے وسائل کا کرايہ دے اور اس کاشتکاری ميں جو کام مالک نے انجام دیا ہو اس کی اجرت دے۔

۳۶۶

دونوں صورتوںميں اگر اجرت المثل اور جو خرچ کيا ہو وہ معاہدے کی مقدار سے زیادہ ہوں تو زیادہ کا استحقاق محل اشکال ہے اور احوط مصالحت ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۶۴ اگر بےج کاشتکار کا مال ہو اور کاشت کے بعد فریقین کو پتہ چلے کہ مزارعہ باطل تھا تو اگر مالک اور کاشتکار رضامند ہوں کہ اجرت پر یا بلا اجرت فصل زمين پر کهڑی رہے تو کوئی اشکال نہيں ہے اور اگر مالک راضی نہ ہو تو حکم وهی ہے جو مسئلہ ” ٢٢ ۵ ٩ “ ميں بيان ہوچکا ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۶۵ اگر پيداوار جمع کرنے اور مزارعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد کاشت کی جڑیں زمين ميں رہ جائيں اور د وسرے سال سرسبز ہوجائيں اور پيداوار دیں تو اگر مالک یا کاشتکار نے جڑوں ميں اشتراک کا معاہدہ نہ کيا ہو تو اگرچہ زمين کے مالک کی مالکيت دوسرے سال کی پيداوار کی بنسبت صحت سے خالی نہيں ہے ليکن احوط يہ ہے کہ اگر کاشتکار بےج کا مالک ہو تو آپس ميں مصالحت کریں۔

مضاربہ کے احکام

مضاربہ سے مراد يہ ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کو کوئی مال دے کہ وہ اس مال سے تجارت کرے اور اس تجارت سے ہونے والے منافع کو آپس ميں بطور مشاع یعنی نصف یا ثلث وغيرہ کے اعتبار سے تقسےم کریں۔

صاحب مال کو مالک اور تجارت کرنے والے کو عامل کہتے ہيں ۔ مضاربہ ميں ایجاب و قبول شرط ہے ، چاہے لفظ کے ذریعے ہو یا فعل کے ذریعے، مثال کے طور پر مالک مضاربہ کے عنوان سے عامل کو مال دے اور عامل مال لے کر اسے قبول کرے۔

مسئلہ ٢٢ ۶۶ مضاربہ کے صحيح ہونے کے لئے چند شرائط ضروری ہيں :

١) مالک اور عامل بالغ و عاقل اور مختار ہوں اور مالک سفاہت یا دیواليہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال ميں ممنوع التصرف نہ ہو اور سفيہ عامل کے ساته مضاربہ کا صحيح ہونا بھی محل اشکا ل ہے ۔

٢) مالک اور عامل ميں سے ہر ایک کے لئے نفع کی شرح معين ہو مثلاً نصف یا ایک تھائی یا ایک چوتھائی وغيرہ۔

٣) يہ کہ نفع مالک اور عامل کے درميان ہو پس اگر شرط کی جائے کہ اس نفع ميں سے کچھ مقدار ایسے شخص کے لئے ہو جو کام ميں شرےک نہ ہو تو مضاربہ باطل ہے ۔

۴) عامل تجارت کرسکتا ہو اگرچہ اس کے لئے دوسرے کی مدد لے۔

مسئلہ ٢٢ ۶ ٧ اقویٰ يہ ہے کہ مضاربہ کے صحيح ہونے کے لئے مال کا سونے یا چاندی کے سکوں کی شکل ميں ہونا ضروری نہيں بلکہ نوٹ جيسے دوسرے اموال سے انجام دینا بھی جائز ہے ليکن ایسا مال جو دوسرے کے ذمّے ہو مثال کے طور پر ایسا مال جو

۳۶۷

انسان کسی دوسرے سے قرض خواہ ہو، کے ساته جائز نہيں اور منافع سے مضاربہ کرنا مثال کے طور پر گھر کی سکونت سے مضاربہ، محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۶ ٨ مضاربہ کے صحيح ہونے کے لئے مال کا عامل کے تصرّف ميں ہونا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر مال مالک کے تصرّف ميں ہو اور عامل فقط معاملے کو انجام دے تو مضاربہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۶ ٩ اگر مضاربہ صحيح ہو تو مالک اور عامل نفع ميں شرےک ہوتے ہيں اور اگر صحت کے بعض شرائط کی عدم موجودگی کی وجہ سے مضاربہ فاسد ہو تو پورا نفع مالک کا مال ہے اور ضروری ہے کہ مالک عمل کی اجرت المثل،عامل کو دے اور اگراجرت المثل عامل کے لئے مقررہ حصّے سے زیادہ ہو تو احتياط واجب يہ ہے کہ عامل اور مالک اضافی مقدار ميں مصالحت کریں۔

مسئلہ ٢٢٧٠ مضاربہ ميں نقصان و ضرر مالک کے ذمّے ہے اور اگر يہ شرط کی جائے کہ نقصان عامل یا دونوں کے ذمّے ہوگا تو شرط باطل ہے ليکن اگر يہ شرط کی جائے کہ مالک کو کاروبار ميں ہونے والا نقصان عامل پورا کرے اور اپنے مال ميں سے مالک کو بخش دے تو یہ شرط صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٢٧١ مضاربہ جائز معاملات ميں سے ہے اور مالک یا عامل ميں سے کوئی ایک جس وقت چاہيں مضاربہ کو فسخ کرسکتے ہيں خواہ عمل شروع کرنے سے پهلے خواہ عمل انجام دینے کے بعد،خواہ نفع حاصل ہونے سے پهلے خواہ نفع حاصل ہونے کے بعد۔

مسئلہ ٢٢٧٢ عامل نے مالک سے جو مال ليا ہو اسے مالک کی اجازت کے بغير اپنے یا کسی دوسرے کے مال کے ساته مخلوط نہيں کرسکتا اگرچہ اس عمل سے مضاربہ باطل نہيں ہوتا ليکن اگر مال کو مخلوط کرے اور تلف ہوجائے تو عامل ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢٢٧٣ مالک خریدوفروخت ميں جن خصوصيات کو معين کرے مثلاً يہ کہ عامل معينہ چيز خریدے اور معينہ قيمت پر بيچے ضروری ہے کہ عامل ان پر عمل کرے ورنہ معاملہ فضولی ہوگا اور اس کا صحيح ہونا مالک کی اجازت پر موقوف ہے ۔

مسئلہ ٢٢٧ ۴ اگر مالک کسی معاملے ميں عامل کو سرمايہ کے اعتبار سے محدود اور مقید نہ کرے، توعامل جس طرح چاہے معاملہ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٧ ۵ اگر عامل ،مالک کی اجازت سے سفر کرے اور يہ شرط نہ کی گئی ہوکہ سفر کا خرچہ عامل کے ذمّے ہے تو سفر اور تجارت کے لئے خرچ ہونے والی رقم سرمائے سے اٹھ ائی جائے گی اور اگر عامل چند مختلف مالکوں کے لئے کام کرتا ہو تو ہر مالک کے کام کی نسبت خرچہ تقسےم ہوگا۔

مسئلہ ٢٢٧ ۶ کام ميں منافع ہونے کی صورت ميں عامل نے تجارت کے مقدماتی کاموں اور سفر کے خرچ کے لئے جو کچھ سرمائے سے ليا ہو،وہ رقم نفع سے نکال کر سرمايہ ميں ملائی جائے گی اور باقی بچنے والے نفع کو معاہدے کے مطابق تقسےم کریں گے۔

۳۶۸

مسئلہ ٢٢٧٧ مضاربہ ميں يہ شرط نہيں ہے کہ مالک ایک شخص ہو اور عامل بھی ایک شخص ہو بلکہ چند مالک اور ایک عامل یا چند عامل اور ایک مالک بھی ہوسکتا ہے ، چاہے ان چند عاملوں کے لئے نفع سے حاصل ہونے والا جو حصہ طے ہوا ہے وہ مساوی یا مختلف ہو۔

مسئلہ ٢٢٧٨ اگر دو شخص سرمائے ميں شرےک ہوں اور عامل ایک شخص ہو اور شرط کریں کہ مثلاً آدها نفع عامل کے لئے ہو اور باقی آدها دو مالکوں کے درميان بطور تفاضل ہو یعنی ایک کا حصہ دوسرے سے زیادہ ہو باوجود اس کے کہ دونوں کا سرمايہ برابر ہو یا شرط کریں کہ باقی آدها دو مالکوں کے درميان مساوی تقسےم ہوگا باوجود اس کے کہ ایک کا سرمايہ دوسرے سے زیادہ ہو مضاربہ باطل ہے ، مگر يہ کہ ان ميں سے کسی ایک کے لئے وہ زیادہ مقدار تجارت کے سلسلے ميں کسی کام کو انجام دینے کے عوض ميں ہو کہ اس صورت ميں صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٢٧٩ اگر مالک یا عامل مرجائے تو مضاربہ باطل ہوجاتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٨٠ جائز نہيں ہے کہ عامل نے جو سرمايہ مالک سے ليا ہو مالک کی اجازت کے بغير اس سرمايہ کے ساته کسی دوسرے شخص کے ساته مضاربہ کا معاہدہ کرے یا اس سرمائے کے ساته کام کسی دوسرے شخص کے سپرد کرے یا سرمائے کے ساته کسی اور کو تجارت کے لئے اجير کرے اور اگريہ تصرفات مالک کی اجازت کے بغير انجام پائيں اور مالک بھی اجازت نہ دے اور مال تلف ہوجائے عامل ضامن ہے ۔ ہاں، کام کے مقدمات کو انجام دینے کے لئے اجير لینے یا کسی کو وکيل بنانے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٢٨١ مالک اور عامل ميں سے ہر ایک دوسرے کے لئے شرعی طور پر جائز کام کی شرط کرسکتا ہے مثلاً ان ميں سے ایک دوسرے پر شرط کرے کہ مال دے یا کوئی کام انجام دے اور اس شرط کو پورا کرنا واجب ہے ،خواہ عامل تجارت اور کام انجام نہ دے یا انجام دیا ہو اور نفع حاصل نہ ہوا ہو۔

مسئلہ ٢٢٨٢ جيسے ہی تجارت ميں نفع حاصل ہو عامل کے لئے جو حصہ مقرر کيا گيا ہو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے اگرچہ ابهی نفع تقسےم نہ ہوا ہو ليکن جو بھی نقصان ہوا ہو اس کا جبران اور تلافی ہوگی اور معاملے ميں نفع حاصل ہونے کے وقت اگر مالک تقسےم کرنے پر راضی نہ ہوتو عامل کو حق نہيں ہے کہ مالک کو تقسےم پر مجبور کرے اور اگر عامل تقسےم کرنے پر راضی نہ ہو تو مالک اسے تقسےم قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٨٣ اگر نفع تقسےم کریں اور تقسےم کے بعد سرمائے ميں کوئی خسارہ وارد ہوجائے اور اس کے بعد کوئی نفع حاصل ہو جو خسارہ سے کم نہ ہو تو وہ خسارہ اس نفع سے ادا ہوگا اور اگر نفع خسارہ سے کم نہ ہو تو وہ خسارہ اس نفع سے ادا ہوگا اور اگر نفع خسارہ سے کم ہو تو ضروری ہے کہ عامل اس خسارہ کو جو نفع اس نے ليا ہے اس سے ادا کرے پس اگر خسارہ نفع سے کمتر ہو تو خسارہ سے بچنے والا مال اس کا ہوگا اور اگر خسارہ نفع سے زیادہ ہو تو نفع سے زیادہ مقدار عامل کے ذمّے نہيں ہے ۔

۳۶۹

مسئلہ ٢٢٨ ۴ جب تک مضاربہ کا معاہدہ باقی ہو سرمائے پر وارد ہونے والے خسارے کا جبران کام سے حاصل ہونے والے نفع سے ہوگا، خواہ نفع خسارہ سے پهلے ہوا ہو یا بعد ميں او راگرکام شروع کرنے سے پهلے خسارہ وارد ہو اور سرمائے کی کچھ مقدار تلف ہوجائے تو اس خسارے کا جبران نفع سے ہوگااور اگر پورا کا پورا سرمايہ تلف ہوجائے جب کہ کسی نے اسے تلف نہ کيا ہو تو مضاربہ باطل ہوجائے گا اور اگر کوئی اسے تلف کرے اور تلف کرنے والا اس کا عوض دے دے تو مضاربہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢٢٨ ۵ اگر عامل،مالک کے ساته يہ شرط کرے کہ سرمائے پر وارد ہونے والے خسارے کا جبران نفع سے نہ ہوگا، تو يہ شرط صحيح ہے اور عامل کے حصّے سے کم نہ ہوگا۔

مسئلہ ٢٢٨ ۶ مالک اور عامل، جےسا کہ پهلے بيان ہوچکا، جس وقت چاہيں مضاربہ کے معاہدے کو فسخ کرسکتے ہيں اگرچہ عمل انجام دینے کے بعد اور نفع حاصل ہونے سے پهلے ہو ليکن اگر عامل مالک کی اجازت سے سفر کرے اور سرمائے کی کچھ مقدار سفر پر خرچ کرے اورمضاربہ فسخ کرنا چاہے تو احتياط واجب يہ ہے کہ مالک کو راضی کرے۔

مسئلہ ٢٢٨٧ اگر نفع حاصل ہونے کے بعدمضاربہ فسخ ہو تو ضروری ہے کہ نفع معاہدے کے مطابق مالک اور عامل کے درميان تقسےم ہو اگر ان ميں سے کوئی ایک تقسےم کرنے پر راضی نہ ہو تو دوسرے کو حق حاصل ہے کہ اسے تقسےم پر مجبور کرے۔

مسئلہ ٢٢٨٨ اگر مضاربہ فسخ ہوجائے اور مضاربہ کا مال یا اس کی کچھ مقدار قرض ہو توضروری ہے کہ عامل اسے مقروض سے لے کر مالک کو لوٹادے۔

مسئلہ ٢٢٨٩ اگر مضاربہ کا سرمايہ عامل کے پاس ہو اور وہ مرجائے تو اگر معين طور پر معلوم ہو تو مالک کو دیا جائے گا اور اگر معين طور پر معلوم نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے قرعہ کے ذریعے معين کياجائے یا مالک عامل کے ورثاء کے ساته مصالحت کرے۔

مساقات اور مغارسہ کے احکام

مسئلہ ٢٢٩٠ اگر انسان کسی کے ساته معاہدہ کرے کہ پھل دار درختوں کو جن کا پھل خود اس کا مال ہو یا اس پھل پر اس کا اختيار ہو ایک مقررہ مدت کے لئے کسی دوسرے شخص کے سپرد کرے تاکہ وہ ان کی نگهداشت کرے اور انہيں پانی دے اور جتنی مقدار بطور مشاع آپس ميں طے کریں اس کے مطابق وہ ان درختوں کا پھل لے لے تو ایسا معاملہ مساقات کهلاتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٩١ بيد اور چنار جيسے درختوں ميں ، جو پھل نہيں دیتے، مساقات کا معاملہ صحيح نہيں ہے اور مهندی وغيرہ کے درخت ميں کہ جن کے پتے کام آتے ہيں ، محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٢٩٢ مساقات کے معاملے ميں صيغہ پڑھنا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر درخت کا مالک مساقات کی نيت سے اسے کسی کے سپرد کرے اور جس شخص کو کام کرنا ہو وہ بھی اسی نيت سے تحویل لے لے تو معاملہ صحيح ہے ۔

۳۷۰

مسئلہ ٢٢٩٣ مالک اور جو شخص درختوں کی نگهداشت کی ذمہ داری لے ضروری ہے کہ دونوں عاقل و بالغ ہوں اور کسی نے انہيں ناحق مجبور نہ کيا ہو اور نےز يہ کہ مالک شرعاً اپنے مال ميں ممنوع التصرف نہ ہو مثال کے طور پر سفيہ جو اپنے مال کو فضول کاموں ميں خرچ کرتا ہو اور دیواليہ جو حاکم شرع کے حکم سے اپنے مال ميں تصرف نہ کرسکتا ہو اور یهی حکم عامل کے لئے اس وقت ہے جب اس کے عمل سے اس کے مال ميں تصرف لازم آتا ہو۔

مسئلہ ٢٢٩ ۴ مساقات کی مدت کا معين ہونا ضروری ہے اور جس مدت ميں پھل دستياب ہوتے ہوں اس سے کم مدت نہ ہو اور اگراس کی ابتدا کو معين کریں اور اس کا اختتام اس وقت قراردیں جب اس سال کے پھل دستياب ہوں تو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٢٩ ۵ ضروری ہے کہ ہر فریق کا حصّہ پيداوار کا بطور مشاع نصف یا ایک تھائی وغيرہ ہو اور اگر يہ معاہدہ کریں کہ مثلاً سو من پھل مالک کے اور باقی کام کرنے والے کے،تو معاملہ باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٢٩ ۶ ضروری ہے کہ مساقات کا معاملہ پھل ظاہر ہونے سے پهلے طے کرليں یا پيداوار کے ظاہر ہونے کے بعد اس کے پکنے سے اتنا پهلے طے کرليں جب کہ ابهی آبياری جيسا کچھ ایسا کام باقی ہو جو درختوں کی نگهداشت اور پهلوں ميں اضافے کے لئے ضروری ہو۔ ان دو صورتوں کے علاوہ اگرچہ پھل توڑنے اور اس کی نگهداشت جيسے کام کی ضرورت ہو معاملہ صحيح نہيں ہے بلکہ اگر پهلوں کے زیادہ اور بہتر ہونے کے لئے آبياری کی ضرورت نہ ہوتو اگرچہ درخت کی نگهداشت کے لئے کوئی کام ضروری ہو پھر بھی معاملہ کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ٢٢٩٧ خربوزے اور کهیر ے جےسے پهلوں ميں ، جن کے پودوں کی جڑیں ثابت نہ ہوں، مساقات کا معاملہ محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٢٩٨ جو درخت بارش کے پانی یا زمين کی نمی سے استفادہ کرتا ہو اور جسے آبياری کی ضرورت نہ ہو ،اگر اسے پهلوں کے زیادہ یا بہتر ہونے کے لئے بيلچہ چلانے اور کهاد دینے جےسے کاموں کی ضرورت ہو تومساقات صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٢٩٩ دو افراد جنہوں نے مساقات کی ہو باہمی رضامندی سے معاملہ فسخ کرسکتے ہيں نےز اگر مساقات کے معاہدے کے ضمن ميں يہ شرط طے کریں کہ ان دونوں کو یا ان ميں سے کسی ایک کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہوگا تو ان کے طے کردہ معاہدے کے مطابق معاملہ فسخ کرنے ميں کوئی اشکال نہيں اور اگرمساقات کے معاملے ميں کوئی شرط طے کریں اور اس شرط پر عمل نہ ہو تو جس شخص کے فائدے کے لئے وہ شرط کی گئی ہو وہ معاملہ فسخ کرسکتا ہے اور شروط کے باقی موارد کی طرح طرفِ مقابل کو حاکم شرع کے ذریعہ شرط پر عمل کرنے پر مجبور بھی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٣٠٠ اگر مالک مرجائے تو مساقات کا معاملہ فسخ نہيں ہوتا بلکہ اس کے وارث اس کی جگہ پاتے ہيں ۔

۳۷۱

مسئلہ ٢٣٠١ درختوں کی پرورش جس شخص کے سپرد کی گئی ہواگر وہ مرجائے اور معاہدے ميں يہ شرط نہ کی گئی ہو کہ وہ خود درختوں کی پرورش کرے گا تو اس کے ورثاء اس کی جگہ لے ليتے ہيں اور اگر ورثاء خود درختوں کی پرورش کا کام انجام نہ دیں اور نہ ہی اس مقصد کے لئے کسی کو اجير مقرر کریں تو حاکم شرع مردے کے مال سے کسی کو اجير مقرر کرے گا اور اس سے جو آمدنی ہوگی اسے مردے کے ورثاء اور مالک کے درميان تقسيم کردے گا اور اگر یہ شرط کی گئی ہو کہ وہ خود درختوں کی پرورش کرے گا تو اس کے مرنے کے بعد معاملہ فسخ ہوجائے گا۔

مسئلہ ٢٣٠٢ اگر يہ شرط کی جائے کہ تمام پید وار مالک کا مال ہوگی تو مساقات باطل ہے ۔ ایسی صورت ميں پھل مالک کے ہوں گے اور کام کرنے والا اجرت طلب نہيں کرسکتا، ليکن اگر مساقات کسی اور وجہ سے باطل ہو تو ضروری ہے کہ مالک آبياری اور دوسرے کام کرنے کی اجرت درختوں کی پرورش کرنے والے کو معمول کے مطابق دے ليکن اگر معمول کے مطابق اجرت طے شدہ اجرت سے زیادہ ہو تو اس اضافی مقدار کی ادائيگی کا لازم ہونا محل اشکال ہے اور احوط صلح ہے ۔

مسئلہ ٢٣٠٣ اگر زمين دوسرے کے سپرد کردے تاکہ وہ اس ميں درخت لگائے اور جو کچھ حاصل ہو وہ دونوں کا ہو تو اس معاملے کو جسے مغارسہ کہتے ہيں اور یہ باطل ہے ۔ لہٰذا اگر درخت صاحب زمين کے تهے تو پرورش کے بعد بھی اسی کے ہوں گے اور ضروری ہے کہ پرورش کرنے والے کو اجرت دے، مگر يہ کہ وہ اجرت کام کرنے والے سے طے شدہ حصّے سے زیادہ ہو تو اس صورت ميں اضافی مقدار کی ادائيگی کالازم ہونا محل اشکال ہے اور احتياط صلح ميں ہے جب کہ اگر یہ درخت اس شخص کے ہيں جس نے ان کی تربيت کی تھی تو تربيت کے بعد بھی یہ اسی کے رہيں گے اور ان درختوں کو اکهاڑ بھی سکتا ہے ، ليکن انہيں اکهاڑنے سے جو گڑھے ہوں ضروری ہے ان گڑہوں کو پر کرے اور جس دن سے اس نے زمين ميں درخت کاشت کئے ہوں اس کا کرايہ زمين کے مالک کو دے مگر يہ کہ زمين کا کرايہ درختوں کی نگهداشت کے عوض مالک کے طے شدہ حصے سے زیادہ ہو کہ اس صورت ميں اضافی مقدار کی ادائيگی کا لازم ہونا محل اشکال ہے اور احوط صلح ہے ۔

اسی طرح مالک بھی اسے مجبور کرسکتا ہے کہ درختوں کو اکهاڑے اور اگر درخت اکهاڑنے سے ان ميں کوئی عےب پيدا ہو تو صاحب زمين کی ذمہ داری نہ ہوگی ليکن اگر صاحب زمين خود درختوں کو اکهاڑے اور ان ميں عےب پيدا ہو تو ضروری ہے کہ قيمت کے فرق کی مقدار درختوں کے مالک کو دے اور درختوں کا مالک اسے مجبور نہيں کرسکتا کہ اجارہ یا اجارے کے بغير درختوں کو زمين ميں باقی رہنے دے۔ اسی طرح صاحب زمين اسے مجبور نہيں کرسکتا کہ اجارہ یا اجارے کے بغير درختوں کو زمين ميں باقی رہنے دے۔

۳۷۲

وہ افراد جو اپنے مال ميں تصرف نهيں کرسکتے

مسئلہ ٢٣٠ ۴ جو بچہ بالغ نہ ہوا ہو وہ مال یا اپنی ذمہ داری پر مثال کے طور پر يہ کہ ضامن بنے یا قرض کرے یا اس طرح کے کاموں ميں شرعاً تصرف نہيں کرسکتا اور یهی حکم اپنے نفس ميں مالی تصرف کا بھی ہے مثال کے طور پرخود کو کرائے پر دے یا مضاربہ یا مزارعہ اور اس طرح کے کام کرے۔ ہاں، مال ميں اس کی وصيت کا حکم مسئلہ نمبر ” ٢٧ ۶ ١ “ ميں آئے گا۔

اور بلوغ کی نشانی ان تین چيزوںميں سے ایک ہے :

١) لڑکے ميں ناف کے نيچے اور شرم گاہ کے اوپر سخت بالوں کا اگنا۔

٢) منی کا خارج ہونا۔

٣) لڑکے ميں عمر کے پندرہ قمری سال پورے ہونا، اور لڑکی ميں عمر کے نو قمری سال پورے ہونا، اور جس لڑکی کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ نو سال پورے ہوچکے یا نہيں اسے حےض آنا۔

مسئلہ ٢٣٠ ۵ چھرے، ہونٹوں کے اوپر، سینے اور بغل کے نيچے سخت بالوں کا اگنا، آواز کا بهاری ہونا اور ایسی ہی دوسری علامات بالغ ہونے کی نشانياں نہيں ہيں مگر يہ کہ انسان ان کی وجہ سے بالغ ہونے کا یقین یا اطمينان کرلے۔

مسئلہ ٢٣٠ ۶ دیوانہ اپنے مال اور ذمہ داری ميں تصرف نہيں کرسکتا۔ اسی طرح اپنے نفس ميں مالی تصرفات کا بھی یهی حکم ہے اور سفيہ یعنی جو اپنے مال کو فضول کاموں ميں خرچ کرتا ہو اپنے مال اور ذمہ داری ميں مثال کے طور پر يہ کہ ضامن بنے یا قرض کرے اپنے ولی کے اذن یا اجازت کے بغير تصرف نہيں کرسکتا اور اسی طرح اپنے نفس ميں ولی کے اذن یا اجازت کے بغير مالی تصرف نہيں کرسکتا مثال کے طور پر يہ کہ خود کو کرائے پر دے یا مضاربہ یا مزارعہ کا عامل بنے اور اس طرح کے کام کرے اور دیواليہ یعنی جسے قرض خواہوں کے مطالبہ کی وجہ سے حاکم شرع نے اپنے مال ميں تصرف سے منع کيا ہو اپنے مال ميں قرض خواہوں کے اذن یا اجازت کے بغير تصرف نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢٣٠٧ جو شخص کبهی عاقل اور کبهی دیوانہ ہوجائے اس کا دیوانگی کی حالت ميں اپنے مال ميں تصرف کرنا صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٠٨ انسان کو اختيار ہے کہ مرض الموت کے عالم ميں اپنا مال اپنے آپ، عيال، مهمانوں اور ان کاموں پر جو فضول خرچی ميں شمار نہ ہوتے ہوں جتنا چاہے صرف کرے اور اگر اپنا مال کسی کو بخش دے یا قيمت سے سستا فروخت کرے اگرچہ ثلث مال سے زیادہ ہو اور ورثاء بھی اجازت نہ دیں اس کا تصّرف صحيح ہے ۔

۳۷۳

وکالت کے احکام

وکالت سے مراد يہ ہے کہ وہ کام جسے انسان خود انجام دینے کاحق رکھتا ہو اور اسے کرنے کے لئے اس کااپنا ہونا شرط نہ ہو اسے دوسرے کے سپرد کردے تاکہ وہ اس کی طرف سے اس کام کو نجام دے مثلاً کسی کو اپنا وکيل بنائے تاکہ وہ اس کا مکان بيچ دے یا کسی عورت سے اس کا نکاح کردے لہٰذا سفيہ چونکہ اپنے مال ميں تصرف کا حق نہيں رکھتا اس لئے وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغير اپنے مکان کو بيچنے کے لئے کسی کو وکيل نہيں بناسکتا اور اسی طرح دیواليہ جو حاکم شرع کے حکم سے اپنے مال ميں ممنوع التصرف ہوچکا ہو اپنے مال ميں تصرف کے لئے کسی کو وکيل نہيں بناسکتا مگر يہ کہ قرض خواہوں سے اذن یا اجازت لے لے۔

مسئلہ ٢٣٠٩ وکالت ميں صيغہ پڑھنا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر انسان دوسرے شخص کو سمجھادے کہ اس نے اسے وکيل مقرر کيا ہے اور وہ بھی سمجھا دے کہ اس نے وکيل بننا قبول کرليا ہے مثلاً وہ اپنا مال دوسرے کو دے کہ وہ اس کی طرف سے بيچ دے اور دوسرا شخص وہ مال لے لے تو وکالت صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣١٠ اگر انسان ایک ایسے شخص کو وکيل مقرر کرے جو دوسرے شہر ميں ہو اور اس کو وکالت نامہ بهےج دے اور وہ وکالت نامہ قبول کرلے تو اگرچہ وکالت نامہ اسے کچھ عرصے بعد ملے وکالت صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣١١ مو کٔل یعنی وہ شخص جو دوسرے کو وکيل بنائے اور وہ شخص جو وکيل بنے ضروری ہے کہ دونوں عاقل ہوں اور قصد و اختيار سے اقدام کریں اور کسی نے انہيں ناحق مجبور نہ کيا ہو اور مو کٔل کے لئے بالغ ہونا بھی ضروری ہے مگر یہ کہ اسے ان کاموں ميں جن کو ممےّز بچے کا انجام دینا صحيح ہو وکيل بنائے مثال کے طور پر دس سالہ بچہ جسے حق ہے کہ وصيت کرے۔

مسئلہ ٢٣١٢ جو کام انسان انجام نہ دے سکتا ہو یا شرعاً انجام نہ دینا چاہئے اسے انجام دینے کے لئے وہ دوسرے کا وکيل نہيں بن سکتا مثلاً جو شخص حج کا احرام بانده چکا ہو چونکہ ضروری ہے کہ نکاح کا صيغہ نہ پڑھے اس لئے وہ صيغہ نکاح پڑھنے کے لئے دوسرے کا وکيل نہيں بن سکتا۔

مسئلہ ٢٣١٣ اگر کوئی شخص اپنے تمام کام انجام دینے کے لئے دوسرے شخص کو وکيل بنائے تو صحيح ہے ليکن اگراپنے کاموں ميں سے ایک کام کرنے کے لئے دوسرے کو وکيل بنائے اور کام معين نہ کرے تو وکالت صحيح نہيں ہے ۔ ہاں اگر وکيل کو چند کاموں ميں سے ایک کام جس کا وہ انتخاب کرے انجام دینے کے لئے وکيل بنائے مثلاً اسے کهے: ”تم وکيل ہو کہ گھر کو فروخت کرنے یا کرائے پر دینے ميں جسے چاہو اختيار کرو“، تو وکالت صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣١ ۴ اگر وکيل کو معزول کردے یعنی کام سے برطرف کردے تو وکيل اطلاع مل جانے کے بعد اس کام کو انجام نہيں دے سکتا ليکن اگر اطلاع ملنے سے پهلے اس نے وہ کام کردیا ہو تو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣١ ۵ وکيل خود کو وکالت سے کنارہ کش کرسکتا ہے خواہ مو کِّٔل موجود نہ ہو۔

۳۷۴

مسئلہ ٢٣١ ۶ جو کام وکيل کے سپرد کيا گيا ہو اس کام کے لئے وہ کسی دوسرے کو وکيل مقرر نہيں کرسکتا ليکن اگر مو کِّٔل نے اجازت دی ہو کہ کسی کو وکيل کرے تو جس طرح اس نے کها ہو اسی طرح وہ عمل کرسکتا ہے ، لہٰذا اگر اس نے کها ہو ”میر ے لئے وکيل مقرر کرو“ تو ضروری ہے کہ اس کی طرف سے وکيل مقرر کرے ليکن کسی کو اپنی جانب سے وکيل مقرر نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢٣١٧ اگر وکيل مو کِّٔل کی اجازت سے کسی کو اس کا وکيل بنائے تو پهلا وکيل اس وکيل کو معزول نہيں کر سکتا اور اگر پهلا وکيل مرجائے یا مو کِّٔل اسے معزول کردے تو دوسرے وکيل کی وکالت باطل نہيں ہوتی۔

مسئلہ ٢٣١٨ اگر وکيل مو کِّٔل کی اجازت سے کسی کو خود اپنی طرف سے وکيل مقرر کرے تو مو کِّٔل اور پهلا وکيل اس وکيل کومعزول کرسکتے ہيں اور اگر پهلا وکيل مرجائے یا معزول ہوجائے تو دوسری وکالت باطل ہوجاتی ہے ۔

مسئلہ ٢٣١٩ اگر کسی کام کے لئے چند اشخاص کو وکيل مقرر کرے اور انہيں اجازت دے کہ ان ميں سے ہر ایک ذاتی طور پر اس کام کو انجام دے تو ان ميں سے ہر ایک اس کام کو انجام دے سکتا ہے اور اگران ميں سے کوئی ایک مرجائے تو دوسرے کی وکالت باطل نہيں ہوتی ليکن اگر يہ نہ کها ہو کہ سب مل کر یا عليحدہ عليحدہ انجام دیں یا کها ہو کہ سب مل کر انجام دیں، تو عليحدہ سے اسے انجام نہيں دے سکتے اور اگر ان ميں سے کوئی ایک مرجائے تو باقی اشخاص کی وکالت باطل ہوجاتی ہے ۔

مسئلہ ٢٣٢٠ اگر وکيل یا مو کِّٔل مرجائے تو وکالت باطل ہوجاتی ہے اور نےز جس چيز ميں تصرف کے لئے کسی شخص کو وکيل مقرر کيا جائے اگر وہ چيز تلف ہوجائے مثلاً جس بھیڑ کو بيچنے کے لئے کسی کو وکيل مقرر کيا ہو وہ بھیڑ مرجائے تو وکالت باطل ہوجائے گی اور ان ميں سے کوئی ایک دیوانہ یا بے ہوش ہوجائے تو وکالت کا اس طرح سے باطل ہو جانا کہ دیوانگی یا بے ہوشی سے افاقے کے بعد بھی عمل کو انجام نہ دے سکے اور اس کے لئے نئی توکيل کی ضرورت ہو، محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٣٢١ اگر انسان کسی کو ایک کام کے لئے وکيل مقرر کرے اور اسے کوئی چيز دینا طے کرے تو کام انجام پانے کے بعد ضروری ہے کہ وہ چيز اسے دے دے۔

مسئلہ ٢٣٢٢ جو مال وکيل کے اختيار ميں ہو اگر وہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ کرے اور جس تصرف کی اسے اجازت دی گئی ہو اس کے علاوہ اس ميں اور تصرف نہ کرے اور اتفاقاً وہ مال تلف ہوجائے تو اس کے لئے اس کاعوض دیناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٢٣ جو مال وکيل کے اختيار ميں ہو اگر وہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی برتے یا جس تصرف کی اجازت ہو اس کے علاوہ اس ميں کوئی اورتصرف کرے اور وہ مال تلف ہوجائے تو ضامن ہے ، لہٰذا اگر جس لباس کے لئے کها جائے کہ اسے بيچ دو اگر وہ اسے پهن لے اور وہ لباس تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

۳۷۵

مسئلہ ٢٣٢ ۴ اگر وکيل کو مال ميں جس تصرف کی اجازت دی گئی ہو اس کے علاوہ کوئی اور تصرف کرے مثلاً اسے جس لباس کے بيچنے کے لئے کها جائے وہ اسے پهن لے اور بعد ميں وہ تصرف کرے جس کی اسے اجازت دی گئی ہو تو وہ تصرف صحيح ہے ۔

قرض کے احکام

کسی مسلمان کو خصوصاً مومنین کو قرض دینا مستحب کاموں ميں سے ہے ۔ قرآن مجید ميں اس کے بارے ميں حکم ہوا ہے اور مو مٔنین کوقرض دینا خدا کو قرض دینا شمار کيا گيا ہے ، قرض دینے والے کو مغفرت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔ احادےث ميں بھی اس کے متعلق تاکید گئی ہے ۔ پیغمبر اکرم(ص) سے روایت ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بهائی کو قرض دے اس کے لئے ہر درہم کے مقابلے ميں احد کے پهاڑ کے وزن کے برابر رضویٰ اور طور سيناء کی پهاڑیوں جتنی نےکياں ہيں اور اگرمقروض سے نرمی برتے تو بغير حساب و عذاب اور برق رفتاری سے پل صراط سے گزرجائے گا اور اگر کسی سے اس کا مسلمان بهائی قرض مانگے اور وہ نہ دے تو خدائے عز و جل بهشت ا س پر حرام کردیتا ہے ۔ اور امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت ہے کہ اگر ميں قرض دوں تو میر ے لئے قرض دینا اس سے زیادہ پسندید ہ ہے کہ اس جےسا کوئی صدقہ دوں۔

مسئلہ ٢٣٢ ۵ قرض ميں صيغہ پڑھنا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر ایک شخص دوسرے کو کوئی چيز قرض کی نيت سے دے اور دوسرا بھی اسی نيت سے لے لے تو قرض صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣٢ ۶ جب قرض ميں مدت کی شرط نہ کی گئی ہو یا مدت مکمل ہوچکی ہو،تو جب بھی مقروض اپنا قرض ادا کرے ضروری ہے کہ قرض خواہ اسے قبول کرے۔

مسئلہ ٢٣٢٧ اگر قرض کے صيغے ميں قرض کی واپسی کی مدت معين کردی جائے تو قرض خواہ مدت کے ختم ہونے سے پهلے اپنے قرضے کی واپسی کا مطالبہ نہيں کرسکتا، ليکن اگر مدت معين نہ کی گئی ہو تو قرض خواہ جب بھی چاہے اپنے قرض کی واپسی کامطالبہ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٣٢٨ اگر قرض خواہ ،جب مطالبے کا حق رکھتا ہو، اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرے اور مقروض قرض ادا کرسکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ فوراً ادا کرے اور اگر تا خٔیر کرے تو گنهگار ہے ۔

مسئلہ ٢٣٢٩ اگر مقروض کے پاس اس کی شان کے مطابق ایک گھر ہو کہ جس ميں وہ رہتا ہو اور گھر کا سامان اور چيزیں جنہيں رکھنے پر مجبور ہے ، کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسری چيز نہ ہو تو قرض خواہ ا س سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہيں کرسکتا، بلکہ ضروری ہے کہ مقروض کے قرض ادا کرنے کے قابل ہونے تک صبر کرے۔

۳۷۶

مسئلہ ٢٣٣٠ جو شخص مقروض ہو اور اپنا قرض ادا نہ کرسکتا ہو تو اگر وہ کوئی ایسا کام کرسکتا ہو جس ميں اس کے لئے مشکل یا حرج نہ ہو تو واجب ہے کہ کام کرے اور اپنا قرض ادا کرے۔

مسئلہ ٢٣٣١ جس شخص کو اپنا قرض خواہ نہ مل سکے اور اس کے ملنے کی امید بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ قرضے کا مال قرض خواہ کی طرف سے فقير کو صدقہ دے دے اور احتياط واجب کی بنا پر حاکم شرع سے اجازت لے اور اگر اس کا قرض خواہ سید نہ ہو تو احتياط مستحب يہ ہے کہ اس کے قرضے کا مال سید فقير کو نہ دے۔

مسئلہ ٢٣٣٢ اگر ميت کا مال اس کے کفن و دفن کے واجب اخراجات اور قرض سے زیادہ نہ ہو تو اس کا مال انهی امور پر خرچ کرنا ضروری ہے اور اس کے وارث کو کچھ نہيں ملے گا۔

مسئلہ ٢٣٣٣ اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کے سکے قرض لے اور بعد ميں ان کی قيمت کم ہوجائے تو اگر وهی مقدار جو اس نے لی تھی واپس کردے تو کافی ہے اور اگر ان کی قيمت بڑھ جائے تو بھی ضروری ہے کہ اتنی ہی مقدار واپس کرے جو لی تھی ليکن دونوں صورتوں ميں اگر مقروض اور قرض خواہ کسی اور بات پر رضا مند ہوجائيں تو اس ميں کوئی اشکال نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٣ ۴ کسی شخص نے جو مال ليا ہو اگر تلف نہ ہوا ہو اور صاحب مال اس کا مطالبہ کرے تو احتياط مستحب يہ ہے کہ مقروض وهی مال مالک کو دے دے۔

مسئلہ ٢٣٣ ۵ اگر قرض دینے والا شرط کرے کہ وہ جتنی مقدار ميں مال دے رہا ہے اس سے زیادہ واپس لے گا مثلاً ایک من گندم دے اور شرط کرے کہ ایک من پانچ کيلو واپس لوں گا یا دس انڈے دے اور کهے کہ گيارہ انڈے واپس لوں گا تو يہ سود اور حرام ہے ، بلکہ اگر شرط کرے کہ مقروض اس کے لئے کوئی کام انجام دے یا جو چيز اس سے لی ہے اسے کسی چيز کے ساته ملا کر واپس دے مثلاً ایک روپيہ جو قرض ليا ہے اسے ایک ماچس کی ڈبياکے ساته واپس کرے تو بھی یہ سود اور حرام ہے ۔ اسی طرح اگر یہ شرط کرے کہ جو چيز قرض دے رہا ہے اسے مخصوص طریقے سے واپس لے گا مثلا بغير گهڑے سونے کی مقدار دے اور شرط کرے کہ گهڑا ہوا سونا واپس لے گا تب بھی يہ سود اور حرام ہے ۔ ہاں، اگر قرض خواہ کوئی شرط نہ لگائے بلکہ مقروض خود قرضے کی مقدار سے کچھ زیادہ واپس کرے تو کوئی حرج نہيں بلکہ ایسا کرنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٢٣٣ ۶ سود دینا سود لینے کی طرح حرام ہے اور اقویٰ يہ ہے کہ جو شخص سود پر قرض لے وہ اس کا مالک ہوجاتا ہے اگرچہ احوط يہ ہے کہ اس ميں تصرّف نہ کرے۔

مسئلہ ٢٣٣٧ اگر کوئی شخص گندم یا اس جیسی کوئی چيز سودی قرضے کے طور پر لے اور اسے کاشت کرے تو اقویٰ يہ ہے کہ وہ پيداوار کا مالک ہوجاتا ہے اگرچہ احوط يہ ہے کہ اس ميں تصرّف نہ کرے۔

۳۷۷

مسئلہ ٢٣٣٨ اگر کوئی شخص لباس خریدے اور اس کی قيمت کپڑے کے مالک کو سودی قرضے کے طور پر لی ہوئی رقم سے یا ایسی حلال رقم سے جو اس رقم کے ساته مخلوط ہے ، ادا کرے تو اس لباس کے پهننے اور اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی اشکال نہيں ۔ اسی طرح اگر بيچنے والے سے کهے: ”ميں يہ لباس اس مال سے خرید رہا ہوں“، تو اس کا بھی یهی حکم ہے اگرچہ احوط يہ ہے کہ اس لباس کو استعمال نہ کرے۔

مسئلہ ٢٣٣٩ اگر کوئی شخص کسی کو کچھ رقم دے کہ دوسرے شہر ميں اس کی جانب سے کم رقم لے تو اس ميں کوئی اشکال نہيں ہے اور اسے صرف برات کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٣ ۴ ٠ اگر کوئی شخص کسی کو قرض اس شرط پر دے کہ چند دن بعد دوسرے شہر ميں اس سے زیادہ لے گا مثلاً ٩٩٠ روپے دے کہ دس دن بعد دوسرے شہر ميں ہزار روپے لے گا تو يہ سود اور حرام ہے ،ليکن جو شخص زیادہ لے رہا ہو اگر وہ اس اضافی مقدار کے مقابلے ميں کوئی جنس دے یا کوئی کام کردے تو پھر کوئی اشکال نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۴ ١ اگر قرض خواہ کو کسی سے قرض واپس لینا ہو اور وہ چيز سونا یا چاندی یا ناپی یا تولی جانے والی جنس نہ ہو تو وہ شخص اس چيز کو مقروض یا کسی اور کے پاس کم قيمت پر بيچ کر اس کی قيمت نقد وصول کرسکتا ہے ۔ليکن اگر قرض کرنسی نوٹ ہوں تو ان کا اسی کرنسی کے نوٹوں ميں کم قيمت پر بيچنا محل اشکال ہے ۔ ہاں، کسی اور کرنسی مثلاً روپوں کو ڈالر ميں بيچنے ميں کوئی اشکال نہيں ہے ۔ اسی طرح مقروض کو دی ہوئی رقم ميں سے کچھ مبلغ کم کرکے باقی قرض نقد کی صورت ميں لے سکتا ہے ۔

حوالہ دينے کے احکام

مسئلہ ٢٣ ۴ ٢ اگر کوئی شخص اپنے قرض خواہ کو حوالہ دے کہ وہ اپنا قرض ایک اور شخص سے لے لے اور قرض خواہ اس بات کو قبول کرلے تو اس کے بعد جب یہ حوالہ بعد ميں آنے والی شرائط کے ساته محقق ہوجائے گا تو جس شخص کے نام حوالہ دیا گيا ہے وہ مقروض ہوجائے گا اور اس کے بعد قرض خواہ پهلے مقروض سے اپنے قرض کا مطالبہ نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢٣ ۴ ٣ ضروری ہے کہ مقروض اور قرض خواہ عاقل و بالغ ہوں۔ ضروری ہے کہ کسی نے انہيں ناحق مجبور نہ کيا ہو اور سفيہ، یعنی اپنا مال فضول کاموں ميں خرچ کرنے والے نہ ہوںمگر يہ کہ ولی سے اذن یا اجازت لے ليں۔ ہاں، اگر بری یعنی ایسے شخص کی طرف حوالہ دیا گيا ہو جو حوالہ دینے والے کا مقروض نہ ہو، جب کہ حوالہ دینے والا سفيہ ہو تو اس ميں کوئی اشکال نہيں ۔

اسی طرح شرط ہے کہ مقروض اور قرض خواہ دیواليہ ہونے کی وجہ سے حاکم شرع کے حکم سے اپنے اموال ميں ممنوع التصّرف نہ ہو چکے ہوں، ليکن اگر حوالہ بری کی طرف دیا گيا ہو جب کہ حوالہ دینے والا ممنوع التصرف ہو تو اس ميں کوئی اشکال نہيں ۔

۳۷۸

٢٣ ۴ ایسے شخص کے نام حوالہ دینا جو مقروض نہ ہو اسی صورت ميں صحيح ہے جب مسئلہ ۴

وہ قبول کرے اور اگر انسان جس شخص کا کسی جنس ميں مقروض ہو اسے کسی دوسری جنس کا حوالہ دینا چاہے مثلاً جو شخص جَو کا مقروض ہے گندم کا حوالہ دے تو جب تک قرض خواہ قبول نہ کرے حوالہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۴۵ انسان جب حوالہ دے تو ضروری ہے کہ وہ اس وقت مقروض ہو۔ لہٰذا اگر وہ کسی سے قرض لینا چاہتا ہو تو جب تک اس سے قرض نہ لے لے اسے کسی کے نام کا حوالہ نہيں دے سکتا کہ جو قرض اسے دے وہ اس شخص سے وصول کرلے۔

مسئلہ ٢٣ ۴۶ حوالہ دینے والے اور قرض خواہ کے لئے حوالے کی مقدار اور اس کی جنس کا جاننا ضروری ہے ، لہٰذا اگر مثال کے طور پر کوئی شخص دس من گندم اور دس روپے کا مقروض ہو اور اس سے کهے ”ان دو قرضوں ميں سے ایک فلاں شخص سے لے لو“ اور اس قرضے کو معين نہ کرے تو صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۴ ٧ اگر قرض واقعاً معين ہو ليکن حوالہ دینے کے وقت مقروض اورقرض خواہ کو اس کی مقدار یا جنس کا علم نہ ہو تو حوالہ صحيح ہے مثلاً اگر کسی کا قرضہ رجسٹر ميں لکھا ہو اور رجسٹر دےکهنے سے پهلے حوالہ دے اور بعد ميں رجسٹر دےکهے اور قرض خواہ اپنے قرض کی مقدار بتادے تو حوالہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۴ ٨ قرض خواہ کو اختيار ہے کہ حوالہ قبول نہ کرے اگرچہ جس کے نام حوالہ دیا جائے وہ فقير نہ ہو اور حوالہ کے ادا کرنے ميں کوتاہی بھی نہ کرے۔

مسئلہ ٢٣ ۴ ٩ جو شخص حوالہ دینے والے کا مقروض نہ ہو اور حوالہ قبول کرلے توحوالہ ادا کرنے سے پهلے حوالہ دینے والے سے حوالے کی مقدار کا مطالبہ نہيں کرسکتا اور اگر قرض خواہ اپنے قرض سے تهوڑی مقدار پر صلح کرلے تو حوالہ قبول کرنے والا حوالہ دینے والے سے فقط اتنی مقدار کا ہی مطالبہ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۵ ٠ حوالہ محقق ہونے کے بعد حوالہ دینے والا اور جس کے نام حوالہ دیا گيا ہے حوالہ منسوخ نہيں کرسکتے اور جب حوالہ دئے جانے کے وقت، جس کے نام حوالہ دیا گيا ہے وہ فقير نہ ہو، اگرچہ وہ بعد ميں فقير ہوجائے قرض خواہ بھی حوالہ منسوخ نہيں کرسکتا۔ اسی طرح ا گر حوالہ دئے جانے کے وقت فقير ہو ليکن قرض خواہ يہ بات جانتا ہو تب بھی یهی حکم ہے ۔ ہاں، اگر قرض خواہ کو علم نہ ہو کہ فقير ہے اور بعد ميں پتہ چلے کہ مالدار ہوگيا ہے تو قرض خواہ حوالہ منسوخ کرسکتا ہے اور اپنا قرضہ حوالہ دینے والے سے لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۵ ١ اگر مقروض، قرض خواہ اور جس کے نام حوالہ دیا گيا ہو، جب کہ اس کا قبول کرنا حوالہ کے صحيح ہونے ميں شرط ہو مثال کے طور پر جب وہ حوالہ دینے والے کا مقروض نہ ہو، یا ان ميں سے کوئی ایک اپنے لئے حوالہ منسوخ کرنے کے حق کی شرط کرے تو کئے گئے معاہدے کے مطابق وہ حوالہ منسوخ کرسکتا ہے ۔

۳۷۹

مسئلہ ٢٣ ۵ ٢ اگر حوالہ دینے والا خود قرض خواہ کا قرضہ ادا کردے، تو اگر يہ کام اس شخص کی درخواست پر ہوا ہو جس کے نام حوالہ دیا گيا تھا جب کہ وہ حوالہ دینے والے کا مقروض بھی ہو تو جو کچھ دیا ہے وہ اس سے لے سکتا ہے اور اگر اس کی درخواست کے بغير دیا ہو یا وہ حوالہ دینے والے کا مقروض نہ ہو تو پھر اس نے جو کچھ دیا ہو اس کا مطالبہ اس سے نہيں کرسکتا۔

رہن کے احکام

مسئلہ ٢٣ ۵ ٣ رہن يہ ہے کہ جس شخص کے ذمّے کسی کا کوئی مالی حق واجب الادا ہو وہ اپنے مال کی کچھ مقدار اس کے پاس گروی رکھوائے کہ اگر اس کا حق نہ دے تو صاحب حق اس گروی والی چيز سے حاصل کرسکے مثال کے طور پر مقروض اپنا کچھ مال گروی رکھوائے کہ قرض نہ دینے کی صورت ميں قرض خواہ اپنا قرض اس مال سے لے لے۔

مسئلہ ٢٣ ۵۴ رہن ميں صيغہ پڑھنا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر اپنا مال گروی رکھنے کی نيت سے قرض خواہ کو دے اور وہ اسی نيت سے لے لے تو رہن صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۵۵ ضروری ہے کہ گروی رکھوانے والا اور گروی رکھنے والا عاقل و بالغ ہوں، کسی نے انہيں ناحق مجبور نہ کيا ہو اور گروی رکھوانے والا دیواليہ اور سفيہ نہ ہو مگر يہ کہ دیواليہ کے قرض خواہوں اور سفيہ کے ولی کی اجازت یا اذن ہو اور سفيہ اور دیواليہ کے معنی مسئلہ ٢٣٠ ۶ “ ميں گذرچکے ہيں ۔ ”

مسئلہ ٢٣ ۵۶ انسان وہ مال گروی رکھ سکتا ہے جس ميں شرعاً تصرف کرسکتا ہو اور اگر کسی دوسرے کا مال اس کے اذن یا اجازت سے گروی رکھ دے تو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۵ ٧ جس چيز کو گروی رکھا جارہا ہو ضروری ہے کہ اس سے قرض کی مقدار کو حاصل کيا جا سکے چاہے وہ انسان کی ملکيت نہ ہوجيسے وہ زمين جس پر سنگ چينی کی وجہ سے انسان کا حق ہو۔ لہٰذا اگر شراب یا اس جیسی چيز کو گروی رکھے تو رہن باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۵ ٨ جس چيز کوگروی رکھا جارہاہے اس سے جوفائدہ ہوگا وہ اس چيز کے مالک کی ملکيت ہوگا اور ان مسائل ميں مالک سے مراد صاحب حق بھی ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۵ ٩ گروی رکھنے والے نے جو مال بطور گروی ليا ہو اس مال ميں اس کے مالک کی اجازت کے بغير تصرف نہيں کرسکتا اور اسی طرح مالک بھی اس مال ميں کوئی ایسا تصرف نہيں کر سکتا جو گروی رکھنے والے کے حق کے ساته منافات رکھتا ہو۔

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511