توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 7%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207712 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

مسئلہ ٢٣ ۶ ٠ فقهاء اعلی الله مقامهم کی ایک جماعت نے فرمایا ہے : ” قرض خواہ نے جو مال بطور گروی ليا ہو اگر اس کے مالک کی اجازت سے بيچ دے تو اس کا عوض گروی کے مال کی مثل ہے اور یهی حکم اس وقت ہے کہ جب اس کے مالک کی اجازت کے بغير بيچ دے اور مقروض بعد ميں اجازت دے“، ليکن يہ حکم محل اشکال ہے مگر يہ کہ عقد کے ضمن ميں ، چاہے اسی بيع ميں ، شرط رکھ

دے کہ مقروض عوض کو گروی رکھے گا، کہ اس صورت ميں اس پر واجب ہے کہ شرط پوری کرے، یا شرط رکھ دے کہ عوض بھی گروی ہوگا کہ اس صورت ميں خود شرط کی وجہ سے عوض گروی ہوجائے گی۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ١ جس وقت مقروض کو قرض ادا کردینا چاہئے اگر قرض خواہ اس وقت مطالبہ کرے اور مقروض نہ دے تو اس صورت ميں اگر قرض خواہ اسے بيچنے اور اس سے اپنا قرضہ وصول کرنے کی وکالت رکھتا ہو تو وہ گروی مال کو فروخت کرکے اپنا قرضہ وصول کرسکتا ہے ، جب کہ اگر قرض خواہ وکالت نہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ مقروض سے اجازت لے اوراگر اس تک دسترسی نہ رکھتا ہو تو حاکم شرع سے اجازت لے اور اگر حاکم شرع تک بھی رسائی نہ ہو تو عادل مو مٔنین سے اجازت لے اور ہر صورت ميں اگر کوئی چيز بچ جائے تو ضروری ہے کہ وہ مقروض کو دے۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ٢ اگر مقروض کے پاس اس مکان کے علاوہ جو اس کی شان کے مطابق ہو اور جس ميں وہ رہتا ہو اور گھر کا سامان اور دوسری چيزیں جن کو رکھنے پر مجبور ہو، کے سواکوئی چيز نہ ہو تو قرض خواہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ نہيں کرسکتا، ليکن مقروض نے جو مال بطور گروی دیا ہو اگرچہ مکان اور سامان ہی کیوں نہ ہو قرض خواہ اسے بيچ کر اپنا قرض وصول کرسکتا ہے ۔

ضمانت کے احکام

مسئلہ ٢٣ ۶ ٣ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا قرضہ ادا کرنے کے لئے ضامن بننا چاہے تو اس کا ضامن بننا اس وقت صحيح ہوگا جب وہ کسی لفظ سے، چاہے عربی زبان ميں نہ ہو یا کسی عمل سے قرض خواہ کو سمجھادے کہ ميں تمهارے قرض کی ادائیگی کے لئے ضامن بن گيا ہوں اور قرض خواہ اسے قبول کرلے اور مقروض کا رضامند ہونا شرط نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۶۴ ضامن اور قرض خواہ دونوں کے لئے ضروری ہے کہ عاقل و بالغ ہوں اور کسی نے انہيں ناحق مجبور نہ کيا ہو اور سفيہ و دیواليہ نہ ہوں مگر سفيہ کے ولی اور قرض خواہوں کے اذن یا اجازت سے۔

مقروض ميں ان شرائط کا ہونا ضروری نہيں ہے ، لہٰذا اگر ضامن بنے کہ بچے،یا دیوانے یا سفيہ یا دیواليہ کا قرض ادا کرے گا تو صحيح ہے ۔

۳۸۱

مسئلہ ٢٣ ۶۵ جب کوئی شخص ضامن بننے کے لئے کوئی شرط رکھے مثلاً کهے: ”اگر مقروض نے تمهارا قرض ادا نہ کيا تو ميں ضامن ہوں“ تو اس کے ضامن ہونے ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۶۶ انسان جس شخص کے قرض کی ضمانت دے رہا ہے ضروری ہے کہ وہ مقروض ہو، لہٰذا اگرکوئی شخص کسی سے قرض لینا چاہتا ہو تو جب تک وہ قرض نہ لے لے اس وقت تک کوئی شخص اس کا ضامن نہيں بن سکتا۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ٧ انسان اسی صورت ميں ضامن بن سکتا ہے جب قرض خواہ،مقروض اور قرض کی جنس فی الواقع معين ہوں، لہٰذا اگر دو اشخاص کسی ایک شخص کے قرض خواہ ہوں اور انسان کهے:

”ميں ضامن ہوں کہ تم ميں سے ایک کا قرض ادا کردوں گا“، تو چونکہ اس نے معين نہيں کيا کہ کس کو قرض ادا کرے گا اس لئے اس کا ضامن بننا باطل ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کو دو اشخاص سے قرض وصول کرنا ہو اور کوئی شخص کهے: ”ميں ضامن ہوں کہ ان دو ميں سے ایک کا قرض ادا کردوں گا“، تو چونکہ اس نے معين نہيں کيا کہ ان دونوں ميں سے کس کا قرض ادا کرے گااس لئے اس کا ضامن بننا باطل ہے اور اسی طرح اگر کسی نے ایک دوسرے شخص سے مثال کے طور پر دس من گندم اور دس روپے لینے ہوں اور کوئی شخص کهے: ”ميں تمهارے دونوں قرضوں ميں سے ایک کی ادائیگی کا ضامن ہوں“، اور معين نہ کرے کہ گندم کا ضامن ہے یا روپوں کے لئے تو يہ ضمانت صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ٨ اگر قرض خواہ اپنا قرض ضامن کو بخش دے تو ضامن مقروض سے کوئی چيز نہيں لے سکتا اور اگر وہ قرضے کی کچھ مقدار بخش دے تو ضامن اس مقدار کا بھی مطالبہ نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ٩ اگر کوئی شخص کسی کا قرضہ ادا کرنے کے لئے ضامن بن جائے تو پھر وہ ضامن ہونے سے انکار نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢٣٧٠ احتياط واجب کی بنا پر ضامن اور قرض خواہ يہ شرط نہيں کرسکتے کہ جس وقت چاہيں ضامن کی ضمانت منسوخ کردیں۔

مسئلہ ٢٣٧١ اگر انسان ضامن بننے کے وقت قرض خواہ کا قرضہ ادا کرنے کے قابل ہو تو خواہ وہ بعد ميں فقير ہوجائے قرض خواہ اس کی ضمانت منسوخ کرکے پهلے مقروض سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہيں کرسکتا۔ یهی حکم اس وقت ہے جب ضمانت دیتے وقت ضامن قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو ليکن قرض خواہ يہ بات جانتے ہوئے اس کے ضامن بننے پر راضی ہوجائے۔

مسئلہ ٢٣٧٢ اگر انسان ضامن بنتے وقت قرض خواہ کا قرضہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور قرض خواہ اس وقت نہ جانتا ہوا ور بعد ميں صورت حال سے واقف ہو تو اس کی ضمانت منسوخ کرسکتا ہے ، ليکن اس سے پهلے کہ قرض خواہ کی صورت حال معلوم ہو ضامن قرضے کی ادائیگی پر قادر ہوجائے، پھر اگر قرض خواہ اس کی ضمانت منسوخ کرنا چاہے تو اس ميں اشکال ہے ۔

۳۸۲

مسئلہ ٢٣٧٣ اگر کوئی شخص مقروض کی اجازت کے بغير ا س کا قرضہ ادا کرنے کے لئے ضامن بن جائے تو وہ مقروض سے کچھ نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ٢٣٧ ۴ اگر کوئی شخص مقروض کی اجازت سے اس کے قرضے کی ادائیگی کا ضامن بنے تو جس مقدار کے لئے ضامن بنا ہو اسے ادا کرنے کے بعد مقروض سے اس کا مطالبہ کرسکتا ہے ليکن جس جنس کا وہ مقروض تھا اگر اس کے بجائے کوئی اور جنس قرض خواہ کو دے تو جو چيز دی ہو اس کا مطالبہ مقروض سے نہيں کرسکتا مثلاً اگر مقروض کو دس من گندم دینے ہوں اور ضامن دس من چاول دے دے تو ضامن مقروض سے دس من چاول کا مطالبہ نہيں کرسکتا ليکن اگر مقروض خود چاول دینے پر رضا مند ہوجائے تو پھر کوئی اشکال نہيں ۔

کفالت کے احکام

مسئلہ ٢٣٧ ۵ کفالت سے مراد يہ ہے کہ انسان یہ بات اپنے ذمہ لے کہ جس وقت قرض خواہ چاہے گا وہ مقروض کو اس کے حوالے کردے گا اور جو شخص اس طرح کی ذمہ داری قبول کرے اسے کفيل کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٣٧ ۶ کفالت اس وقت صحيح ہے جب کفيل کسی بھی الفاظ ميں خواہ عربی زبان کے نہ ہوں یا کسی عمل سے قرض خواہ کو يہ بات سمجھادے کہ ميں ذمہ ليتا ہوں کہ جس وقت تم چاہو گے ميں مقروض کو تمهارے حوالے کردوں گا اور قرض خواہ یا اس کا ولی بھی اس بات کو قبول کرلے۔

مسئلہ ٢٣٧٧ کفيل کے لئے ضروری ہے کہ عاقل و بالغ ہو، مال ميں تصرف لازم آنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ سفيہ اور دیواليہ نہ ہو مگر سفيہ کے ولی اور قرض خواہوں کے اذن یا اجازت کے بعد، اسے کفيل بننے پر ناحق مجبور نہ کيا گيا ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ جس کا کفيل بنے اسے حاضر کرسکے۔

مسئلہ ٢٣٧٨ ان پانچ چيزوں ميں سے کوئی ایک کفالت کو کالعدم کردیتی ہے :

١) کفيل مقروض کو قرض خواہ کے حوالے کردے یا مقروض خود اپنے آپ کو قرض خواہ کے حوالے کردے،یا کوئی تيسرا شخص مقروض کو قرض خواہ کے حوالے کرے اور وہ قبول کرے۔

٢) قرض خواہ کا قرضہ ادا کردیا جائے۔

٣) قرض خواہ اپنے قرضے سے دستبردار ہوجائے یا کسی دوسرے کو بےع یا صلح یا حوالہ یا اس طرح کے طریقوں سے منتقل کردے۔

۴) مقروض مرجائے۔

۳۸۳

۵) قرض خواہ کفيل کو کفالت سے بری الذمہ قرار دے دے۔

مسئلہ ٢٣٧٩ اگر کوئی شخص مقروض کو زبردستی یا مکاری سے قرض خواہ سے آزاد کرادے اور قرض خواہ کی مقروض تک پهنچ نہ ہو تو جس شخص نے اسے آزاد کرایا ہو ضروری ہے کہ وہ مقروض کو قرض خواہ کے حوالے کردے اور اگر حوالے نہ کرے تو ضروری ہے کہ اس کا قرض ادا کرے۔

امانت کے احکام

مسئلہ ٢٣٨٠ اگر ایک شخص کوئی مال کسی کو دے اور کهے: ”تمهارے پاس امانت رہے“، اور وہ قبول کرے یا کوئی لفظ کهے بغير صاحب مال اس شخص کو سمجھادے کہ وہ اسے مال حفاظت کے لئے دے رہا ہے اور وہ بھی حفاظت کے مقصد سے لے لے تو ضروری ہے کہ وہ آنے والے امانت کے احکام پر عمل کریں۔

مسئلہ ٢٣٨١ امانت دار اور وہ شخص جو مال بطور امانت دے دونوں کا عاقل ہونا ضروری ہے ۔

لہٰذا اگر کوئی شخص کسی مال کو دیوانے کے پاس امانت کے طور پر رکھے یا دیوانہ کوئی مال کسی کے پاس امانت کے طور پر رکھے تو صحيح نہيں ہے ۔

جو شخص اپنے مال کو امانت رکھوائے اس کا بالغ ہونا ضروری ہے اور سمجھ دار بچہ کسی دوسرے کے مال کو اس کی اجازت سے کسی کے پاس امانت رکھے تو جائز ہے اور سمجھ دار بچے کے پاس امانت رکھوانا جب کہ وہ اس کی حفاظت کرسکتا ہو اور امانت کی حفاظت کرے اور بچے کے مال ميں تصر ف لا زم نہ آتا ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

شرط ہے کہ جو شخص اپنا مال امانت رکھوائے سفيہ اور دیواليہ نہ ہو مگر سفيہ کے ولی اور دیواليہ کے قرض خواہوں کے اذن یا اجازت کے بعد، ليکن سفيہ اور دیواليہ کے پاس امانت رکھوانا جب کہ اس سے ان کا اپنے مال ميں تصرف لازم نہ آتا ہو کوئی حرج نہيں ہے اور لازم آنے کی صورت ميں ولی اور قرض خواہوں کے اذن یا اجازت کے بعد کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٣٨٢ اگر کوئی شخص بچے سے کوئی چيز اس کے مالک کی اجازت کے بغير بطور امانت قبول کرلے تو ضروری ہے کہ وہ چيز اس کے مالک کو دے دے اور اگر وہ چيز خود بچے کی ہو اور ولی نے اسے کسی کے پاس امانت رکھوانے کی اجازت نہ دی ہو تو ضروری ہے کہ وہ چيز بچے کے ولی تک پهنچائے اور اگر اس مال کے پہچانے ميں کوتاہی کرے اور وہ مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے اور اگر امانت رکھوانے والا دیوانہ ہو تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢٣٨٣ جو شخص امانت کی حفاظت نہ کرسکتا ہو اگر امانت رکھوانے والا اس کی اس حالت سے باخبر نہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ شخص امانت قبول نہ کرے۔

۳۸۴

مسئلہ ٢٣٨ ۴ اگر انسان صاحب مال کو سمجھائے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کے لئے تيار نہيں اور صاحب مال پھر بھی مال چھوڑ کر چلا جائے اور وہ مال تلف ہوجائے تو جس شخص نے امانت قبول نہ کی ہو وہ ذمہ دار نہيں ہے ليکن احتياط مستحب يہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس مال کی حفاظت کرے۔

مسئلہ ٢٣٨ ۵ جو شخص کسی کے پاس کوئی چيز بطور امانت رکھوائے وہ جس وقت چاہے امانت واپس لے سکتا ہے اور اسی طرح امانت لینے والا بھی جب چاہے صاحب مال کو امانت لوٹا سکتاہے۔

مسئلہ ٢٣٨ ۶ اگر کوئی شخص امانت کی نگهداشت سے منصرف ہوجائے اور امانت داری منسوخ کردے تو ضروری ہے کہ جس قدر جلدهوسکے مال اس کے مالک یا وکيل یا اس کے ولی کو پهنچادے یا انہيں اطلاع دے کہ مال کی رکھوالی کے لئے تيار نہيں ہے اور اگر بغير عذر کے مال ان تک نہ پهنچائے یا اطلاع بھی نہ دے اور مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢٣٨٧ جو شخص امانت قبول کرے اگر اس کے پاس اسے رکھنے کے لئے مناسب جگہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کے لئے مناسب جگہ مهيا کرے اور امانت کی اس طرح رکھوالی کرے کہ لوگ يہ نہ کہيں کہ اس نے رکھوالی کرنے ميں کوتاہی کی اور اگر غیر مناسب جگہ ميں رکھے اور امانت تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢٣٨٨ جس شخص نے امانت قبول کی ہو اگرتعدّی کرے یعنی زیاہ روی کرے مثال کے طور پر جو سواری اس کے پاس امانت ہو اس کے مالک کی اجازت کے بغير اس پر سواری کرے، یا تفرےط کرے یعنی اس امانت کی رکھوالی ميں کوتاہی کرے مثال کے طور پر اسے ایسی جگہ رکھے جهاں وہ ایسی غیر محفوظ ہو کہ کوئی خبر پائے تو لے جائے، تو وہ ضامن ہے اور اگر تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض اگر مثلی ہے تو مثل اور اگر قےمی ہے تو اس کی قيمت ادا کرے اور ان دو صورتوں کے علاوہ ضامن نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٨٩ اگر صاحب مال اپنے مال کی نگهداشت کے لئے کوئی جگہ معين کرے اور جس شخص نے امانت قبول کی ہو اس سے کهے کہ مال کی حفاظت حتما اسی جگہ کرنا اور اگر ضائع ہوجانے کا احتمال ہو تب بھی تم اسے کہيں اور نہ لے جانا تو اسے کسی اور جگہ لے جانا جائز نہيں ہے اور اگر لے جائے تو ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩٠ اگر صاحب مال اپنے مال کی نگهداشت کے لئے کوئی جگہ معين کرے اور امانت قبول کرنے والا يہ جانتا ہو کہ وہ جگہ صاحب مال کی نظر ميں کوئی خصوصيت نہيں رکھتی بلکہ محفوظ جگہوں ميں سے ایک ہے تو وہ اس مال کو کسی ایسی جگہ جو زیادہ محفوظ ہو یا پهلی جگہ جتنی محفوظ ہو لے جاسکتا ہے اور اگر مال وہاں تلف ہوجائے تو ضامن نہيں ہے ۔

۳۸۵

مسئلہ ٢٣٩١ اگر صاحب مال دیوانہ ہوجائے تو جس شخص نے امانت قبول کی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ فوراً امانت اس کے ولی کو پهنچائے یا اس کے ولی کو اطلاع دے اور اگر کسی شرعی عذر کے بغير مال اس کے ولی کو نہ پهنچائے اور اسے اطلاع دینے ميں بھی کوتاہی کرے اور مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢٣٩٢ اگر صاحب مال مرجائے تو امانت دار کے لئے ضروری ہے کہ فوراً مال اس کے وارث تک پهنچائے یا اس کے وارث کو اطلاع دے اور اگر کسی شرعی عذر کے بغير مال اس کے وارث کو نہ پهنچائے یا اس کو اطلاع دینے ميں کوتاہی کرے اور مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے ليکن اگریہ جاننے کے لئے کہ جو شخص کہتا ہے کہ ميں ميت کا وارث ہوں واقعاً ٹھ ےک کہتا ہے یا نہيں ،یا ميت کا کوئی اور بھی وارث ہے یا نہيں مال نہ دے اور اطلاع دینے ميں بھی کوتاہی کرے اور مال تلف ہوجائے تو وہ ذمہ دار نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩٣ اگر صاحب مال مرجائے اور اس کے کئی وارث ہوں تو جس شخص نے امانت قبول کی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ مال تمام ورثاء کو دے یا اس شخص کو دے جسے باقی ورثاء نے مال لینے پر ما مٔور کيا ہو لہٰذا اگر وہ دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغير تمام مال کسی ایک وارث کو دے دے تو دوسروں کے حصوں کا ذمہ دار ہے اور اگر مرنے والا مال سے متعلق وصی معين کر چکا ہو تو اس کی اجازت بھی شرط ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩ ۴ جس شخص نے امانت قبول کی ہو اگر وہ مر جائے یا دیوانہ ہوجائے تو اس کے وارث یا ولی کے لئے ضروری ہے کہ جس قدر جلد ہوسکے صاحب مال کو اطلاع دے یا امانت اس تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢٣٩ ۵ اگر امانت دار اپنے آپ ميں موت کی نشانياں دےکهے اگر اسے اطمينان ہو کہ امانت اس کے مالک تک پهنچ جائے گی مثال کے طور پر اس کا وارث امین ہو اور امانت کے بارے ميں اسے اطلاع ہوا ور اسی طرح اگر اسے اطمينان ہو کہ امانت کا مالک اس کے ورثاء کے پاس امانت کے رہنے پر راضی ہے تو ضروری نہيں کہ امانت کو اس کے مالک یا وکيل یا ولی تک پهنچائے یا وصيت کرے اگرچہ احوط يہ ہے کہ امانت کو اس کے مالک یا وکيل یا ولی تک پهنچائے اور اگر ممکن نہ ہو تو امانت حاکم شرع کو دے دے۔

اس صورت کے علاوہ جس طرح ممکن ہو حق کو اس کے مالک یا وکيل یا ولی تک ضرور پهنچائے اور اگر ممکن نہ ہو تو وصيت کرے اور گواہ بنائے اور وصی اور گواہ کو صاحب مال کا نام،مال کی جنس وخصوصيات اور جگہ بتائے۔

مسئلہ ٢٣٩ ۶ اگر امانت دار اپنے آپ ميں موت کی نشانياں دےکهے اور سابقہ مسئلے ميں بيان کی گئی ذمہ داری پر عمل نہ کرے اور وہ امانت ضائع ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے،اگرچہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ کی ہو اور صحت یاب ہوجائے یا کچھ مدت کے بعد پشےمان ہو اور وصيت کرے اور چاہے مال بھی وصيت کے بعد تلف ہوجائے۔

۳۸۶

احکام عاريہ

مسئلہ ٢٣٩٧ عاریہ یہ ہے کہ انسان اپنا مال دوسرے کو دے تا کہ وہ بغير کسی عوض کے اس سے استفادہ کرے۔

مسئلہ ٢٣٩٨ عاریہ ميں صيغہ پڑھنا ضروری نہيں ہے اور اگر مثال کے طور پر کوئی شخص عاریہ کے قصد سے کسی کو لباس دے اور وہ بھی اسی قصد سے لے تو عاریہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩٩ غصبی چيز کا یا اس چيز کا بطور عاریہ دینا جو انسان کی ملکيت ميں ہو ليکن اس سے حاصل ہونے والی منفعت پر کسی اور شخص کا حق ہو یا اس کی ملکيت ميں ہو مثلاً یہ کہ اس نے وہ چيز کرایہ پر دے رکھی ہو، اسی صورت ميں صحيح ہے جب غصبی چيز کا مالک یا وہ شخص جو عاریہ دی جانے والی چيز کی منفعت کا مالک ہے یا اس پر اس کا حق ہے اس کے عاریہ دئے جانے پر راضی ہو جائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٠ جس چيز کی منفعت انسان کی ملکيت ميں ہو مثلاً اس چيز کو کرائے پر لے رکھا ہو، اسے کسی ایسے شخص کو جو اس مال پر قابل اطمينان ہو یا مالک کی اجازت سے بطور عاریہ دے سکتا ہے ليکن اگر اجارہ ميں یہ شرط رکھی ہو کہ خود وہ شخص اس مال سے استفادہ کرے گا تو اسے کسی دوسرے شخص کو بطور عاریہ نہيں دے سکتاہے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠١ دیوانے اور بچے کا اپنے مال کو بطور عاریہ دینا صحيح نہيں ہے ۔ اسی طرح سفيہ اور مُفلس کا اپنے مال کو عاریہ دینا (بهی) صحيح نہيں ہے مگر یہ کہ سفيہ کا ولی اور وہ اشخاص جو مُفلس سے قرض خواہ ہوں وہ اس بات کی اجازت دے دیں اور اگر ولی اس بات ميں مصلحت سمجھتا ہو کہ جس شخص کا وہ ولی ہے اس کا مال عاریہ پر دے دے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٢ جس شخص نے کوئی چيز عاریةً لی ہو اگر وہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ کرے اور اس سے معمول سے زیادہ استفادہ بھی نہ کرے اور اتفاقاً وہ چيز تلف ہو جائے تو وہ شخص ضامن نہيں ہے ليکن اگر فریقين آپس ميں شرط رکہيں کہ اگر وہ چيز تلف ہوجائے تو عاریہ لينے والا ذمہ دار ہوگا یا جو چيز بطور عاریہ لی گئی ہو وہ سونا یا چاندی ہو تو عاریہ لينے والے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٣ اگر کوئی شخص سونا یا چاندی بطور عاریہ لے اور یہ شرط رکھے کہ تلف ہونے کی صورت ميں وہ ذمہ دار نہيں ہوگا۔ پس اگر تلف ہو جائے تو وہ شخص ذمہ دار نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠ ۴ اگر عاریہ دینے والا مرجائے تو عاریہ لينے والے کی وهی ذمہ داری ہے جسے مسئلہ نمبر ٢٣٩٢ ميں بيان کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠ ۵ اگر عاریہ دینے والے کی کيفيت ایسی ہو جائے کہ وہ شرعا اپنے مال ميں تصرف نہ “ کرسکتا ہو مثلاً دیوانہ ہو جائے تو عاریہ لينے والے کی ذمہ داری وهی ہے جسے مسئلہ نمبر ” ٢٣٩١ميں بيان کيا گيا ہے ۔

۳۸۷

مسئلہ ٢ ۴ ٠ ۶ عاریہ عقد جائز ہے اور عاریہ دینے اور لينے والا دونوں، کسی وقت بھی عاریہ کو ختم کرنے کا اختيار رکھتے ہيں ۔ لہذا، عاریہ دینے والا کسی بھی وقت دی ہوئی چيز واپس لے سکتا ہے مگر اس مقام پر جهاں زمين کو ميت کے دفن کرنے کی غرض سے عاریہ پر دیا گيا ہو کہ وہاں ميت کے دفن ہونے کے بعد قبر کهود کر زمين کو واپس نہيں لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٧ ایسی چيز کا بطور عاریہ دینا باطل ہے جس سے حلال طریقے سے استفادہ نہ ہوسکتا ہو مثلاً لهو و لعب اور قمار بازی کے آلات۔ اسی طرح کھانے اور پينے کے لئے سونے یا چاندی کے برتن کا بطور عاریہ دینا، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ دیگر کاموں کے لئے حتی سجاوٹ کی خاطر بھی دینا صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٨ بھيڑوں کو ان کے دودھ اور اون سے استفادہ کرنے کے لئے اور نر حيوان کو مادہ حيوان سے ملانے کے لئے عاریةً دینا صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٩ اگر چيز کو عاریةً لينے والا اسے اس کے مالک یا مالک کے وکيل یا ولی کو دے دے اور پھر وہ چيز تلف ہو جائے تو عاریہ لينے والا ضامن نہيں ہے ليکن اگر وہ مال کے مالک یا اس کے وکيل یا ولی کی اجازت کے بغير مال کو کسی دوسری جگہ لے جائے تو اگر چہ وہ جگہ ایسی ہو جهاں مال کا مالک عموماً اسے لے جاتا ہو مثلاً یہ کہ گهوڑے کو ایسے اصطبل ميں باندهے جو اس کے مالک نے اس کے لئے بنایا تھا، پھر بھی وہ ضامن ہے اور تلف ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٠ اگر کوئی شخص کسی نجس چيز کو ایسے کام کے لئے عاریہ دے جس ميں طهارت شرط ہو مثلاً نجس برتن بطور عاریہ دے تا کہ اس ميں کھانا کهایا جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جو شخص اس چيز کو عاریہ لے رہا ہو اسے اس کے نجس ہونے کے بارے ميں بتا دے اور اگر نجس لباس کو نماز پڑھنے کے لئے بطور عاریہ دے تو ضروری نہيں ہے کہ اس کے نجس ہونے کے بارے ميں اطلاع دے مگر یہ کہ لباس کو عاریةً لينے والا چاہتا ہو کہ واقعی پاک لباس ميں نماز پڑھے کہ اس صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ لباس کے نجس ہونے کے بارے ميں اطلاع دے دے۔

مسئلہ ٢ ۴ ١١ جو چيز کسی شخص نے عاریةً لی ہو اسے وہ اس کے مالک کی اجازت کے بغير کسی دوسرے کو اجارے پر یا عاریةً نہيں دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٢ جو چيز کسی نے عاریةً لی ہو اگر وہ اسے مالک کی اجازت سے کسی اور شخص کو عاریةً دے دے تو اگر وہ شخص جس نے پهلے وہ چيز عاریةً لی تھی مرجائے یا پاگل ہو جائے تو دوسرا عاریہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٣ اگر انسان جانتا ہو کہ جو مال اس نے عاریةً ليا ہے وہ غصبی ہے تو ضروری ہے کہ اسے اس کے اصل مالک تک پهنچائے اور عاریہ دینے والے کو وہ چيز واپس نہيں دے سکتا ہے ۔

۳۸۸

مسئلہ ٢ ۴ ١ ۴ اگر انسان ایسے مال کو بطور عاریہ لے جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ وہ غصبی ہے اور اس سے فائدہ اٹھ ائے اور اس سے وہ مال تلف ہو جائے تو مالک اس مال کا عوض اور وہ فائدہ جو عاریہ لينے والے نے اٹھ ایا ہے اس کا عوض خود اس عاریہ لينے والے سے یا مال غصب کرنے والے سے طلب کرسکتا ہے اور اگر مالک عاریہ لينے والے سے عوض لے تو وہ جو کچھ مالک کو دے اس کا مطالبہ عاریہ دینے والے سے نہيں کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ١ ۵ اگر انسان نہ جانتا ہو کہ جس مال کو بطور عاریہ ليا ہوا ہے وہ غصبی ہے اور مال اس سے تلف ہو جائے تو اگر مال کا مالک اس کا عوض اس سے لے لے تو وہ بھی جو کچھ مال کے مالک کو دیا ہے اس کا مطالبہ عاریہ دینے والے سے کرسکتا ہے ليکن اگر وہ چيز جسے بطور عاریہ ليا ہو سونا یا چاندی ہو یا عاریہ دینے والے نے شرط رکھی ہو کہ اگر وہ چيز تلف ہو جائے تو اس کا عوض دے تو پھر جو کچھ اس نے مال کے مالک کو دیا ہو اس کا مطالبہ عاریہ دینے والے سے نہيں کرسکتا ہے ۔

هبہ کے احکام

هبہ یہ ہے کہ انسان کوئی عوض لئے بغير، کسی کو کسی چيز کا مالک بنا دے۔ ضروری ہے کہ جو چيز اس طرح بخشی گئی ہو وہ چاہے مشاع طور پر ہی سهی ليکن عين ہو، منفعت نہ ہو۔ اس سے فرق نہيں پڑتا کہ وہ چيز خارج ميں موجود ہو یا ذمّے پر ہو۔ ہاں، ذمّے پر موجود ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ جس کے ذمّے پر ہے اس کے علاوہ کسی اور کو بخشے اور اگر اسی کو بخش دے جس کے ذمّے پر ہے تو پھر وہ بری الذمہ ہوجائے گا اور بخشنے والا دوبارہ بخشی ہوئی چيز کو واپس نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ٢ ۴ ١ ۶ هبہ ميں ایجاب و قبول ضروری ہے ، چاہے اسے الفاظ کے ذریعے انجام دیا جائے مثلاً کهے:”یہ کتاب ميں نے تمہيں بخش دی،“ اور جسے کتاب بخشی گئی ہے وہ کهے:”ميں نے اسے قبول کيا،“ اور چاہے عمل کے ذریعے اسے انجام دیا جائے مثلاً کتاب کو بخشنے کی نيت سے کسی کو دے اور وہ بھی اسے قبول کرنے کی نيت سے لے لے۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٧ ضروری ہے کہ هبہ کرنے والا بالغ و عاقل ہو، اپنے ارادے سے هبہ کرے، اسے هبہ کرنے پر مجبور نہ کيا گيا ہو، سفيہ یا دیواليہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال ميں ممنوع التصرف نہ ہو چکا ہو اور جو مال بخش رہا ہے اس کا مالک ہو یا اس مال پر ولایت رکھتا ہو، ورنہ هبہ ”فضولی“کهلائے گا اور اس کے صحيح ہونے کے لئے صاحبِ اختيار فرد کی اجازت ضروری ہوگی۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٨ هبہ ميں قبضہ ميں لينا ضروری ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کو کوئی چيز بخشے تو جب تک دوسرا شخص اسے اپنے قبضے ميں نہ لے لے هبہ محقق نہيں ہوتا۔جسے مال بخشا گيا ہو ضروری ہے کہ وہ اسے هبہ کرنے والے کی اجازت سے اپنے قبضے ميں لے، ليکن اگر مال پهلے ہی سے اس کے تصرف ميں ہو جسے بخشا جا رہا ہو تو قبضے کے لئے یهی کافی ہے ۔

۳۸۹

غير قابلِ انتقال چيزیں، مثلاً زمين اور گھر کا قبضہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ تصرف کی راہ ميں موجود رکاوٹوں کو ہٹا دے اورمال کا اختيار اس کے ہاتھ ميں دے دے جسے بخشا گيا ہے ، جب کہ قابل انتقال چيزوں ميں قبض کا مطلب یہ ہے کہ مال دوسرے کو دے دے اور دوسرا بھی اسے لے لے۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٩ اگر مال کسی ایسے فرد کو دے جو ابهی بالغ نہ ہوا ہو یا دیوانہ ہو تو ضروری ہے کہ ان کا ولی اسے قبول کرے اور اس مال کا قبضہ لے۔ ہاں، اگر خود ولی ان کو کوئی ایسی چيز بخشے جو اس ولی کے ہاتھ ميں ہو تو قبضہ لينے کے لئے اس کا ولی کے ہاتھ ميں ہونا ہی کافی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٠ اگر اپنے ارحام یعنی رشتہ داروں ميں سے کسی کو کوئی چيز هبہ کرے تو اس کا قبضہ دے دینے کے بعد دوبارہ ان سے واپس نہيں لے سکتا۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب هبہ کرنے والا هبہ لينے والے پر کوئی شرط لگائے جس پر عمل ہو جائے یا هبہ لينے والا هبہ کے عوض ميں کوئی چيز هبہ کرنے والے کو دے دے۔

مذکورہ مقامات کے علاوہ اگر هبہ دی گئی چيز عيناً باقی ہو تو اسے واپس لے سکتا ہے ۔ ہاں، اگر وہ چيز تلف ہوچکی ہو یا اسے کسی اور کو منتقل کيا جاچکا ہو یا اس ميں کوئی تبدیلی رونما ہوچکی ہو مثلاً وہ کوئی کپڑا ہو جسے رنگا جا چکا ہوتو پھر واپس نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢١ هبہ لازم ہونے کے احکام ميں مياں اور بيوی کا شمار رشتہ داروں ميں نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٢ اگر کوئی مال کسی کو بخشے اور اس کے ضمن ميں شرط لگائے کہ وہ بھی کوئی مال اسے دے یا اس کے لئے کوئی جائز کام انجام دے تو جس شخص کے لئے شرط لگائی گئی ہو ضروری ہے کہ وہ اس شرط پر عمل کرے اور هبہ کرنے والا اس شرط پر عمل درآمد سے پهلے هبہ دینے سے پلٹ سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر جس پر شرط لگائی گئی ہو وہ شرط پر عمل نہ کرے یا نہ کرسکے تو بھی هبہ کرنے والا پلٹ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٣ اگر هبہ کرنے والا یا جسے مال هبہ کيا گيا ہے ، قبضہ لينے سے پهلے مرجائے تو هبہ باطل ہوجاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢ ۴ اگر هبہ کرنے والا قبضہ دینے کے بعد مرجائے تو اس کے وارث اس هبہ کو واپس نہيں لے سکتے۔ اسی طرح اگر وہ شخص مرجائے جسے هبہ کيا گيا ہے تو بھی هبہ کرنے والا اسے واپس نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢ ۵ هبہ سے جس طرح الفاظ کے ذریعے پلٹا جا سکتاہے مثلاً یہ کہہ کر:”ميں اپنی کی ہوئی بخشش سے پلٹتا ہوں،“ اسی طرح عمل کے ذریعے بھی یہ بات سمجھائی جا سکتی ہے ، مثلاً پلٹنے کے ارادے سے دوسرے شخص سے هبہ کی ہوئی چيز واپس لے لے یا وهی چيز هبہ سے پلٹنے کے ارادے سے کسی اور کے حوالے کردے۔

رجوع یعنی پلٹنے کے وقوع پذیر ہونے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ جسے هبہ کيا گيا تھا اسے بھی معلوم ہو کہ هبہ دینے والا اب اپنے هبہ سے پلٹ چکاہے۔

۳۹۰

مسئلہ ٢ ۴ ٢ ۶ جو مال کسی کو بخشا جائے اور هبہ لينے والے کی ملکيت ميں اس ميں کوئی ایسا اضافہ ہو جو عليحدہ سے ہو یا عليحدہ کيا جا سکتا ہو، مثلاً بکری هبہ ميں دی ہوجو بچہ جنے یا درخت پر پھل لگ جائيں تو یہ هبہ لينے والے کا مال ہی سمجھے جائيں گے اور هبہ دینے والا اگر ان مثالوں ميں اپنے هبہ کو واپس لينا چاہے تو بکری کا بچہ یا پھل واپس نہيں لے سکتا۔

نکاح کے احکام

عقد ازدواج کے ذریعے عورت اور مرد ایک دوسرے پر حلال ہو جاتے ہيں ۔ عقد کی دو قسميں ہيں :

١) عقد دائمی ٢) عقد موقت یا غير دائمی عقد دائمی وہ عقد ہے کہ جس ميں ازدواج کے لئے کسی مدت کا تعين نہ ہو اور جس عورت سے اس قسم کا عقد کيا جائے اسے دائمہ کہتے ہيں ۔

اور عقد غير دائمی یہ ہے کہ جس ميں ازدواج کی مدت معين ہو مثلاً عورت سے ایک گهنٹے یا ایک دن یا ایک مهينہ یا ایک سال یا اس سے زیادہ مدت کے لئے عقد کيا جائے، ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ عقد کی مدت عورت اور مرد کی عمر سے یا ان ميں سے کسی ایک کی عمر سے زیادہ نہ ہو اور جس عورت سے اس قسم کا عقد کيا جائے اسے متعہ کها جاتا ہے ۔

عقد کے احکام

مسئلہ ٢ ۴ ٢٧ ازدواج چاہے دائمی ہو یا غير دائمی اس ميں صيغہ پڑھنا ضروری ہے اور فقط مرد اور عورت کا راضی ہونا کافی نہيں ہے ۔ عقد کا صيغہ مرد اور عورت اگر چاہيں تو خود بھی پڑھ سکتے ہيں یا کسی اور کو وکيل بناسکتے ہيں جو ان کی طرف سے پڑھے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٨ وکيل کا مرد ہونا ضروری نہيں ہے بلکہ عورت بھی عقد کا صيغہ پڑھنے کے لئے کسی دوسرے کی جانب سے وکيل ہوسکتی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٩ عورت اور مرد جب تک اس بات کا یقين یا اطمينان پيدا نہ کرليں کہ ان کے وکلاء نے صيغہ پڑھ ليا ہے اس وقت تک نکاح کے احکام اور آثار کو جاری نہيں کرسکتے ہيں اور اس بات کا گمان کہ وکيل نے صيغہ پڑھ ليا ہوگا کافی نہيں ہے اور اگر وکيل کہہ دے کہ ميں نے صيغہ پڑھ ليا ہے تو اس صورت ميں کافی ہے کہ وہ قابل بهروسہ ہواور اس کی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہویا اس کے قول سے اطمينان حاصل ہوجائے۔ ان دو مذکورہ صورتوں کے علاوہ اس کی خبر پر اکتفا کرنے ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣٠ اگر عورت کسی کو وکيل مقرر کرے اور اس سے کهے کہ تم ميرا عقد دس دن کے لئے فلاں شخص کے ساته پڑھ دو اور دس دن کی ابتدا کو معين نہ کرے تو وہ وکيل جن دس دنوں کے لئے چاہے اسے اس مرد کے عقد ميں لاسکتا ہے ، ليکن اگر وکيل کو معلوم ہو کہ عورت کا مقصد کسی خاص دن یا گهنٹے کا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ عورت کے قصد کے مطابق صيغہ پڑھے۔

۳۹۱

مسئلہ ٢ ۴ ٣١ عقد دائمی یا غير دائمی کا صيغہ پڑھنے کے لئے ایک ہی شخص دونوں کی طرف سے وکيل بن سکتا ہے اور انسان یہ بھی کرسکتا ہے کہ عورت کی طرف سے وکيل بن جائے اور اس سے خود ہی دائمی یا غير دائمی عقد کرے۔ ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ عقد دو اشخاص پڑہيں مخصوصاً اس صورت ميں جب انسان اپنے آپ سے عقد کرنے کے لئے وکيل بنا ہو۔

عقد دائمی پڑھنے کا طريقہ

مسئلہ ٢ ۴ ٣٢ اگر عورت اور مرد خود اپنے دائمی عقد کا صيغہ پڑہيں اور پهلے عورت کهے:”زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْم ،“یعنی ميں نے معين شدہ مہر پر اپنے آپ کو تمهاری زوجہ بنایا اور اس کے بعد عرفاً بلا فاصلہ مرد کهے:”قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْم،“ یعنی ميں نے معين شدہ مہر پر ازدواج کو قبول کيا یا کهے:”قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ“ اور اسی ازدواج کا قصد کرے جس کا مہر معين ہوچکا ہو تو عقد صحيح ہے ۔اور اگر وہ کسی دوسرے کو وکيل مقرر کریں جو ان کی طرف سے صيغہ عقد پڑہيں تو اگر مثال کے طور پر مرد کا نام احمد اور عورت کا نام فاطمہ ہو اور عورت کا وکيل کهے:

زَوَّجْتُ مُوَکِّلَتِیْ فَاطِمَةَ مُوَکِّلَکَ اَحْمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ

اور اس کے بعد عرفی موالات کے ختم ہوئے بغير مرد کا وکيل کهے:

قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ لِمُوَکِّلِیْ اَحْمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ

تو عقد صحيح ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ عورت کا وکيل یوں کهے:

زَوَّجْتُ مُوَکِّلَکَ اَحْمَدَ مُوَکِّلَتِیْ فاَطِمَةَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ “۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ مرد کے الفاظ عورت کے الفاظ کے مطابق ہوں مثلاً اگر عورت ”زَوَّجْتُ“ کهے تو مرد بھی ”قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ “ کهے، اگرچہ ”قَبِلْتُ النِّکَاحَ“ کهنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ہے ۔

عقد غير دائمی کے پڑھنے کا طريقہ

مسئلہ ٢ ۴ ٣٣ اگر خود عورت اور مرد چاہيں تو غير دائمی عقد کا صيغہ عقد کی مدت اور مہر معين کرنے کے بعد پڑھ سکتے ہيں ۔ لہٰذا اگر عورت کهے:”زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ فِی الْمُدَّةِ الْمَعْلُوْمَةِ عَلی الْمَهْرِالْمَعْلُوْمِ “ اور اس کے بعد عرفی موالات کے ختم ہوئے بغير مرد کهے:”قَبِلْتُ هٰکَذَا “ تو عقد صحيح ہے ۔

اور اگر وہ کسی اور شخص کو وکيل بنائيں اور پهلے عورت کا وکيل مرد کے وکيل سے کهے:”زَوَّجْتُ مُوَکِّلَتِیْ مُوَکِّلَکَ فِی الْمُدَّةِ الْمَعْلُوْمَةِ عَلَی الْمَهر الْمَعْلُوْمِ، “ پھر عرفی موالات کے ختم ہوئے بغير مرد کا وکيل کهے: ”قَبِلْتُ لِمُوَکِّلِیْ هٰکَذَا “ تو عقد صحيح ہوگا۔

۳۹۲

عقد کے شرائط

مسئلہ ٢ ۴ ٣ ۴ عقد ازدواج کی چند شرطيں ہيں :

١) بنا بر احتياط واجب عقد کا صيغہ، صحيح عربی ميں پڑھا جائے اور اگر خود مرد اور عورت صحيح عربی ميں صيغہ نہ پڑھ سکتے ہوں تو عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان ميں بھی پڑھ

سکتے ہيں ، مگر ضروری ہے کہ ایسے الفاظ کہيں جو ”زَوَّجْتُ“ و ”قَبِلْتُ“ کے معنی کو سمجھا دیں، ا گرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو کسی ایسے شخص کو اپنا وکيل بنائيںجو صحيح عربی پڑھ سکتا ہو ۔

٢) مرد اور عورت یا ان کے وکيل جو صيغہ پڑھ رہے ہوں وہ ١نشاء کا قصد رکھتے ہوں یعنی اگر خود مرد اور عورت صيغہ پڑھ رہے ہوں تو عورت کا”زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ“ کهنا اس قصد سے ہو کہ وہ خود کو اس مرد کی بيوی قرار دے اور مرد کا ”قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ“ کهنا اس قصد سے ہو کہ وہ اس کا اپنی بيوی بننا قبول کرے اور اگر مرد اور عورت کے وکيل صيغہ پڑھ رہے ہوں تو ”زَوَّجْتُ“ اور ”قَبِلْتُ“کهنے سے ان کا قصد یہ ہو کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے انہيں وکيل بنایا ہے ایک دوسرے کے مياں بيوی بن جائيں۔

٣) جو شخص صيغہ پڑھ رہا ہو اس کا عاقل ہونا ضروری ہے اور جو شخص بالغ نہ ہو ليکن انشاء عقد کرسکتا ہو اگر وہ ولی کے اذن یا اس کی اجازت کے بغير اپنے لئے صيغہ پڑھ لے تو یہ باطل ہے ، البتہ ولی کی اجازت کے ساته کوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، اگر کسی اور کا وکيل بن کر صيغہ پڑھے تو اس کا عقد صحيح ہے ۔

۴) اگر عورت اور مرد کے وکيل یا ولی صيغہ پڑھ رہے ہوں تو وہ عقد کے وقت عورت اور مرد کو معين کرليں مثلاً ان کے نام ليں یا ان کی طرف اشارہ کریں۔ پس جس شخص کی کئی لڑکياں ہوں اگر وہ کسی مرد سے کهے:”زَوَّجْتُکَ اِحْدیٰ بَنَاتِی“ یعنی ميں نے اپنی بيٹيوں ميں سے ایک کو تمهاری بيوی بنایا اور مرد کهے:”قَبِلْتُ“ یعنی قبول کيا تو چونکہ عقد کرتے وقت لڑکی کو معين نہيں کيا گيا لہٰذا عقد باطل ہے ۔

۵) عورت اور مرد ازدواج پر راضی ہوں اور اگر عورت ظاہر ميں ناپسندیدگی سے اجازت دے اور معلوم ہو کہ دل سے راضی ہے تو عقد صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣ ۵ اگر عقد ميں ایک حرف بھی غلط پڑھا جائے اس طرح کہ اس کا مطلب بدل جائے تو عقد باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣ ۶ جو شخص عربی زبان کے قواعدسے واقف نہ ہو اگر صيغہ عقد کو صحيح طرح پڑھے اور عقد ميں موجود ہر لفظ کے معنی جانتا ہو اور ہر لفظ سے اس کے معنی کا قصد کرے تو وہ عقد پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣٧ اگر کسی عورت کا عقد کسی مرد کے ساته ان کی اجازت کے بغير کر دیا جائے اور بعد ميں عورت اور مرد اس عقد کی اجازت دے دیں تو عقد صحيح ہے ۔

۳۹۳

مسئلہ ٢ ۴ ٣٨ اگر عورت اور مرد دونوں کو یا ان ميں سے کسی ایک کو ازدواج پر مجبور کيا جائے تو اس صورت ميں کہ عقد خود انہوںنے پڑھا ہو اگر عقد پڑھے جانے کے بعد راضی ہو جائيں تو عقد صحيح ہے اور اگر کسی اور نے پڑھا ہو تو اجازت دینے سے مثلاً یہ کہہ دینے سے کہ ہم اس عقد سے راضی ہيں ، عقد صحيح ہو جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣٩ باپ اور دادا اپنے نابالغ فرزند کا یا دیوانے فرزند کا جو دیوانگی کی حالت ميں بالغ ہوا ہو عقد کرسکتے ہيں اور بچہ، بالغ ہونے کے بعد، جب کہ پاگل، عاقل ہونے کے بعد اگر اس عقد ميں جو اس کے لئے کيا گيا تھا کوئی خرابی نہ پائے تو اسے ختم نہيں کرسکتا ہے اور اگر خرابی پائے تو اسے اس عقد کو برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا اختيار ہے ۔ ہاں، اس صورت ميں کہ نابالغ لڑکے اور لڑکی کا باپ ان کا ایک دوسرے سے عقد کر دیں اور وہ بالغ ہونے کے بعد اس کی اجازت نہ دیں تو طلاق یا عقد جدید کے ذریعے احتياط ترک نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ٠ جو لڑکی بالغ ہوچکی ہو اور رشيدہ ہو یعنی اپنی مصلحت کی پہچان رکھتی ہو، اگر شادی کرنا چاہے اور کنواری ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کے لئے باپ یا دادا سے اجازت لينا ضروری ہے جب کہ ماں یا بهائی کی اجازت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ١ اگر لڑکی کنواری نہ ہو یا کنواری ہو ليکن باپ یا دادا سے اجازت لينا ممکن نہ ہو یا باعث حرج ہو اور لڑکی کو شادی کی احتياج ہو تو باپ یا دادا سے اجازت لينا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ٢ اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ بچے کی شادی کردیں تو لڑکے پر بالغ ہونے کے بعد اس عورت کا خرچہ دینا ضروری ہے ۔ البتہ بالغ ہونے سے پهلے کے اخراجات کے سلسلے ميں جب کہ اس زمانے ميں عورت اس کی خواہشات کے لئے حاضرہو اورلڑکا بھی لذت حاصل کر سکتا ہو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ مصالحت کر کے یا کسی اور طریقے سے اپنے بری الذمہ ہونے کا یقين حاصل کرے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ٣ اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ لڑکے کی شادی کر دیں تو اگر لڑکا عقد کے وقت مال رکھتا ہو تو وہ عورت کے مہر کا مقروض ہے اور اگر وہ عقد کے وقت مال نہ رکھتا ہو تو اس کے باپ یا دادا کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کا مہر دیں۔

وہ عيوب جن کی وجہ سے عقد فسخ کيا جاسکتا ہے

مسئلہ ٢ ۴۴۴ اگر مرد کو عقد کے بعد پتہ چلے کہ عورت ميں مندرجہ ذیل عيبوں ميں سے کوئی عيب موجود ہے تو وہ عقد کو فسخ کرسکتا ہے ۔

١) پاگل پن

٢) کوڑھ پن (جذام)

۳۹۴

٣) برص (سفيد داغ)

۴) اندهاپن

۵) اپاہج ہونا یا مفلوج ہونا مگر یہ کہ اس کے کسی عضو کا مفلوج ہونا اس قسم کا ہو کہ اسے عرفاً عيب شمار نہ کيا جائے۔

۶) افضاء یعنی اس کے پيشاب اور حيض کا مخرج یا حيض اور پاخانے کا مخرج ایک ہوگيا ہو۔

٧) عورت کی شرمگاہ ميں ایسا گوشت یا ہڈی ہوجو جماع سے مانع ہو۔

مسئلہ ٢ ۴۴۵ اگر عورت کو عقد کے بعد پتہ چلے کہ اس کا شوہر عقد سے پهلے دیوانہ رہا ہے یا آلہ تناسل نہيں رکھتا ہے یا عقد کے بعد ليکن مجامعت سے پهلے آلہ تناسل کٹ جائے یا یہ جان لے کہ اسے کوئی ایسی بيماری ہے جس کی وجہ سے مجامعت پر قادر نہيں ہے گرچہ یہ مرض عقد کے بعد اور نزدیکی کرنے سے پهلے ہی لاحق ہوا ہو، ان تمام صورتوں ميں عقد کو ختم کرسکتی ہے مگر اس صورت ميں جب کہ شوہر اس سے تعلقات قائم نہيں کرسکتا ہے ضروری ہے کہ عورت حاکم شرع کی طرف رجوع کرے اور حاکم شوہر کو ایک سال کی مهلت دے گا پس اگر اس مدت ميں شوہر اس عورت سے یا کسی اور عورت سے تعلقات قائم کرنے پر قدرت پيدا نہ کرے تو اس کے بعد عورت عقد فسخ کرسکتی ہے ۔

اور اگر مرد عقد کے بعد پاگل ہو جائے، چاہے نزدیکی سے پهلے ہو یا بعد ميں ، احتياط واجب کی بنا پر عورت طلاق کے بغير عليحدگی اختيار نہيں کرسکتی ہے اور اگر مرد کا آلہ تناسل نزدیکی کرنے کے بعد کٹ جائے یا نزدیکی کے بعد کوئی ایسا مرض پيدا ہو جائے کہ اب نزدیکی نہ کرسکے تو ایسی صورت ميں عورت عقد کو فسخ کرنے کا حق نہيں رکھتی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۴۶ اگر عورت کو عقد کے بعد پتہ چلے کہ اس کے شوہر کے تخم نکال دئے گئے ہيں تو اگر اس امر کو عورت پر مخفی رکھا گيا ہو اور اسے دهوکا دیا گيا ہو وہ عقد کو ختم کرسکتی ہے اور اگر اسے دهوکا نہ دیا گيا ہو اور وہ عقد کو ختم کرنا چاہے تو طلاق کے ذریعے احتياط کو ترک نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ٧ اگر عورت اس بنا پر عقد ختم کردے کہ مرد مجامعت پر قادر نہيں تو شوہر کے لئے آدها مہر دینا ضروری ہے ليکن اگر ان کے علاوہ دوسرے مذکورہ نقائص ميں سے کسی ایک کی بنا پر مرد یا عورت عقد ختم کریں تو اگر مرد نے عورت سے مجامعت نہ کی ہو تو کوئی چيز بھی اس پر واجب نہيں ہے اور اگر تعلقات قائم کرلئے ہوں تو ضروری ہے کہ پورا مہر دے۔ ہاں، اگر خود عورت نے مرد کو دهوکا دیا ہو تو اس صورت ميں مرد پر کوئی چيز دینا واجب نہيں ہے ۔

وہ عورتيں جن سے ازدواج حرام ہے

مسئلہ ٢ ۴۴ ٨ محرم عورتوں مثلاً ماں، بهن، بيٹی، پهوپهی، خالہ، بهتيجی، بهانجی اور ساس کے ساته ازدواج حرام ہے ۔

۳۹۵

مسئلہ ٢ ۴۴ ٩ اگر کوئی شخص کسی عورت سے عقد کرے تو خواہ اس سے مجامعت نہ بھی کرے اس عورت کی ماں، نانی اور دادی اور جتنا سلسلہ اوپر چلاجائے سب عورتيں اس مرد کی محرم ہو جاتی ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٠ اگر کوئی شخص کسی عورت سے عقد کرے اور اس کے ساته مجامعت کرے تو پھر اس عورت کی لڑکی، نواسی، پوتی اور جتنا سلسلہ نيچے چلا جائے سب عورتيں اس مرد کی محرم ہو جاتی ہيں خواہ وہ عقد کے وقت موجود ہوں یا بعد ميں پيدا ہوں۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ١ اگر کسی مرد نے ایک عورت کے ساته عقد کيا ہو ليکن مجامعت نہ کی ہو تو جب تک وہ عورت اس کے عقد ميں ہے اس وقت تک وہ اس عورت کی بيٹی سے ازدواج نہيں کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٢ انسان کی پهوپهی اور خالہ اور اس کے باپ کی پهوپهی اور خالہ اور دادا کی پهوپهی اور خالہ اور دادی کی پهوپهی اور خالہ اور ماں کی پهوپهی اور خالہ اور نانا یا نانی کی پهوپهی اور خالہ اور جس قدر یہ سلسلہ اوپر چلا جائے سب اس کی محرم ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٣ شوہر کا باپ اور دادا اور جس قدر یہ سلسلہ اوپر چلا جائے اور شوہر کا بيٹا، پوتا اور نواسا اور جس قدر یہ سلسلہ نيچے چلا جائے خواہ وہ عقد کے وقت دنيا ميں موجود ہوں یا بعد ميں پيدا ہوں سب عورت کے محرم ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴۵۴ اگر کوئی شخص کسی عورت سے عقد کرے تو خواہ وہ عقد دائمی ہو یا غير دائمی جب تک وہ عورت اس کے عقد ميں ہے وہ اس کی بهن کے ساته عقد نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢ ۴۵۵ اگر کوئی شخص اس ترتيب کے مطابق جس کا ذکر کتاب طلاق ميں کيا جائے گا اپنی بيوی کو طلاق رجعی دے تو وہ عدت کے دوران اس کی بهن سے عقد نہيں کرسکتا ہے اور اسی طرح سے جب وہ متعہ کی عدت گذار رہی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ، ليکن طلاق بائن کی عدت کے دوران اس کی بهن سے عقد کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵۶ انسان اپنی بيوی کی اجازت کے بغير اس کی بهانجی یا بهتيجی سے ازدواج نہيں کرسکتا ہے ليکن اگر وہ بيوی کی اجازت کے بغير ان سے عقد کرلے اور بعد ميں بيوی اجازت دے دے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٧ اگر بيوی کو پتہ چلے کہ اس کے شوہر نے اس کی بهانجی یا بهتيجی سے عقد کرليا ہے اور کچھ نہ کهے، جب کہ اس کی خاموشی اس کی رضامندی کی دليل نہ بنے۔ پس اگر بعد ميں راضی نہ ہو تو ان کا عقد باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٨ اگر انسان اپنی خالہ زاد بهن سے عقد کرنے سے پهلے اس کی ماںسے زنا کرے تو پھر وہ اپنی خالہ زاد بهن سے عقد نہيں کرسکتا ہے اور احتياط واجب کی بنا پر پهوپهی زاد بهن کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٩ اگر کوئی شخص اپنی پهوپهی زاد بهن یا خالہ زاد بهن سے شادی کرے اور اس سے مجامعت کرنے کے بعد اس کی ماں سے زنا کرے تو یہ کام ان کی جدائی کا سبب نہيں ہوگا، ليکن اگر اس سے مجامعت کرنے سے پهلے اس کی ماں سے زنا کرلے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اسے طلاق دے کر اس سے جدا ہو جائے۔

۳۹۶

مسئلہ ٢ ۴۶ ٠ اگر کوئی شخص اپنی پهوپهی یا خالہ کے علاوہ کسی اور عورت سے زنا کرے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کی بيٹی سے عقد نہ کرے اور اگر کسی عورت سے عقد کرنے کے بعد اس سے مجامعت کرنے سے پهلے اس کی ماں سے زنا کرے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اسے طلاق دے کر اس سے جدا ہو جائے۔ ہاں، اگر اس سے مجامعت کرنے کے بعد اس کی ماں سے زنا کرے تو اس عورت سے جدائی اختيار کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ١ مسلمان عورت اپنے آپ کو کافر کے عقد ميں نہيں لاسکتی ہے اور مسلمان مرد بھی اہل کتاب کے علاوہ کافرہ عورتوں سے عقد نہيں کرسکتا ہے ، ليکن اہل کتاب عورتوں مثلاً یهود و نصاریٰ سے متعہ کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان سے دائمی ازدواج نہ کيا جائے ۔

اور بعض فرقے مثلاً خوارج، غُلاة اور نواصب جو اگرچہ کفّار کے حکم ميں ہيں ليکن اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہيں ، مسلمان عورتيں یا مرد ان کے ساته دائمی یا غير دائمی عقد نہيں کرسکتے۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٢ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو طلاق رجعی کی عدت ميں ہو تو بنا بر احتياط وہ عورت اس شخص پر حرام ہو جاتی ہے اور اگر کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو متعہ یا طلاقِ بائن یا وفات کی عدت ميں ہو تو بعد ميں اس کے ساته عقد کرسکتا ہے ۔ طلاق رجعی، طلاق بائن، عدہ متعہ اور عدہ وفات کے معنی طلاق کے احکام ميں آئيں گے۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٣ اگر انسان کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو شوہر نہ رکھتی ہو اور عدت ميں بھی نہ ہو تو بعد ميں اس عورت سے عقد کرسکتا ہے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ ایسی عورت سے جس کا زنا کروانا آشکار ہو،جب تک کہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس نے توبہ کرلی ہے شادی نہ کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اس عورت کے خونِ حيض آ نے تک صبر کرے اور پھر اس سے شادی کرے۔ ہاں، اگر کوئی دوسرا شخص اس عورت سے شادی کرنا چاہے تو یہ احتياط مستحب ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶۴ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے عقد کرے جو دوسرے کی عدت ميں ہو تو اگر مرد اور عورت دونوں یا ان ميں سے کوئی ایک جانتا ہو کہ عورت کی عدت ختم نہيں ہوئی ہے اور یہ بھی جانتے ہوں کہ عدت کے دوران عورت سے عقد کرنا حرام ہے تو اگر چہ مرد نے عقد کے بعد اس عورت سے مجامعت نہ بھی کی ہو، وہ عورت ہميشہ کے لئے اس پر حرام ہوجائے گی۔

مسئلہ ٢ ۴۶۵ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے عقد کرے جو دوسرے کی عدت ميں ہو اور اس سے مجامعت کرے تو خواہ اسے یہ علم نہ ہو کہ وہ عورت عدت ميں ہے یا نہ جانتا ہو کہ عدت کے دوران ميں عورت سے عقد حرام ہے ، وہ عورت ہميشہ کے لئے اس پر حرام ہو جائے گی۔

۳۹۷

مسئلہ ٢ ۴۶۶ اگر کوی شخص یہ جانتے ہوئے کہ عورت شوہر دار ہے اور اس سے عقد کرنا حرام ہے اس سے شادی کرے تو ضروری ہے کہ اس سے عليحدگی اختيار کرلے اور وہ اس پر ہميشہ کے لئے حرام ہو جائے گی اور اگر اس شخص کو علم نہ ہو کہ یہ عورت شوہر دار ہے ليکن اس نے عقد کے بعد اس سے مجامعت کی ہو تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٧ اگر شوہر دار عورت زنا کرے تو اپنے شوہر پر حرام نہيں ہوگی۔ پس اگر وہ عورت توبہ نہ کرے اور اپنے کام پر باقی رہے تو بہتر یہ ہے کہ اس کا شوہر اسے طلاق دے دے ليکن ہر صورت ميں شوہر پر مہر دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٨ طلاق یافتہ عورت اور وہ عورت جو متعہ ميں رہی ہو اور اس کے شوہر نے متعہ کی مدت بخش دی ہو یا مدت ختم ہوگئی ہو تو اگر وہ کچھ مدت کے بعد دوسرا شوہر کرے اور بعد ميں شک کرے کہ آیادوسرے شوہر سے عقد کے وقت پهلے شوہر کی عدت ختم ہوئی تھی یا ختم نہيں ہوئی تھی تو اگر اس حالت ميں احتمال ہو کہ عقد کے وقت وہ عدت سے غافل نہيں تھی تو یہ دوسرا عقد صحيح ہے ورنہ اس کا صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٩ جس شخص نے کسی لڑکے کے ساته لواط کيا ہو اگر وہ لواط کرنے والا بالغ ہو تو اس لڑکے کی ماں، بهن اور بيٹی لواط کرنے والے پر حرام ہيں ۔ اسی طرح احتياط کی بنا پر اس لڑکے کی نانی اور نواسی بھی حرام ہوجاتی ہے ۔ جب کہ اگر لواط کروانے والا بالغ ہو یا لواط کرنے والا بالغ نہ ہو اور عقد ہو جائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ عورت مرد سے طلاق کے ذریعے عليحدگی اختيار کرے۔

یهی حکم نانی یا نواسی سے کئے جانے والے عقد کے لئے ہے ۔ ہاں، اگر انسان گمان یا شک کرے کہ دخول ہوا ہے یا نہيں تو وہ عورتيں حرام نہيں ہوں گی ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٠ اگر کوئی شخص کسی لڑکے کی ماں یا بهن سے شادی کرے اور شادی کے بعد اس لڑکے سے لواط کرے تو وہ عورتيں اس پر حرام نہيں ہوں گی اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنی زوجہ سے طلاق کے ذریعے عليحدگی اختيار کرلے مخصوصاً جب اس کی زوجہ اس لڑکے کی بهن ہو اور اگر اغلام کرنے والا اپنی بيوی کو طلاق دے دے تو احتياط واجب یہ ہے کہ دوبارہ اس سے ازدواج نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧١ ساگر کوئی شخص احرام کی حالت ميں کسی عورت سے عقد کرے تو اس کا عقد باطل ہے اور اگر جانتا تھا کہ احرام کی حالت ميں شادی کرنا حرام ہے تو وہ عورت اس پر ہميشہ کے لئے حرام ہو جائے گی۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٢ جو عورت احرام کی حالت ميں ہو اگر وہ کسی ایسے مرد سے عقد کرے جو احرام کی حالت ميں نہ ہو تو اس کا عقد باطل ہے اور اگر عورت پهلے سے جانتی تھی کہ احرام کی حالت ميں عقد کرنا حرام ہے تو احتياط کی بنا پر وہ مرد ہميشہ کے لئے اس پر حرام ہو جائے گا۔

۳۹۸

مسئلہ ٢ ۴ ٧٣ اگر مرد طواف النساء کو جو حج اور عمرہ مفردہ کے اعمال ميں سے ایک عمل ہے بجا نہ لائے تو اس کی بيوی اوردوسری عورتيں جو احرام کے سبب اس پر حرام ہوئيں تہيں اس کے لئے حلال نہيں ہوں گی۔ اسی طرح اگر عورت طواف النساء نہ کرے تو مرد اس کے لئے حلال نہيں ہوگا، ليکن اگر یہ لوگ بعد ميں طواف النساء انجام دے دیں تو حلال ہو جائيں گے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧ ۴ جس نابالغ لڑکی سے عقد کيا گيا ہو اس کے بالغ ہونے تک اس سے مجامعت کرنا حرام ہے ، ليکن اگر کوئی شخص لڑکی کے نو سال مکمل ہونے سے پهلے اس سے مجامعت کرے تو لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اس سے مجامعت حرام نہيں ہے خواہ وہ افضاء ہوچکی ہو۔ (افضا کے معنی مسئلہ نمبر ٢ ۴۴۴ ميں بتائے جاچکے ہيں )

مسئلہ ٢ ۴ ٧ ۵ وہ آزاد عورت جسے اس کے شوہر نے تين مرتبہ طلاق دے دی ہو، اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے ليکن اگر ان شرائط کے ساته کسی دوسرے مرد سے شادی کرے جو طلاق کے احکام ميں آئيں گے تو پھر دوسرے شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد اور اس کی عدت گزر جانے کے بعد پهلا شوہر دوبارہ اس سے عقد کرسکتا ہے ۔

دائمی عقد کے احکام

مسئلہ ٢ ۴ ٧ ۶ جس عورت کا دائمی عقد ہو جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغير گھر سے باہر نہ نکلے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کی ہر جائز لذت کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے خود کوشوہر کے سامنے پيش کردے اور بغير کسی شرعی عذر کے شوہر کو مجامعت سے نہ روکے اور اگر وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو بجالائے تو اس کی غذا، لباس، رہا ئش اور اس کے علاوہ ہر وہ چيز جس کی اسے ضرورت ہے اس کا متعارف مقدار ميں مهيا کرنا شوہر پر واجب ہے اور اگر شوہر ان چيزوں کو فراہم نہ کرے تو چاہے ان چيزوں کو مهيا کرنے کی قدرت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو وہ بيوی کامقروض ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٧ اگر عورت ان کاموں ميں جن کا ذکر سابقہ مسئلے ميں ہوا ہے اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرے تو وہ گنهگار ہے اور وہ غذا، لباس،رہا ئش، دیگر ضروریات اور ہم بستر ہونے کا حق نہيں رکھتی، ليکن اس کا مہر ضایع نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٨ مرد کو یہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ بيوی کو گھر کے کام انجام دینے پر مجبور کرے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٩ بيوی کے سفر کے اخراجات اگر وطن ميں رہنے کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو ان کا دینا شوہر پر واجب نہيں ہے مگر ایسا سفر ہو جس کے اخراجات عرف ميں اُس کا نفقہ شمار ہوتے ہوں مثلاً یہ کہ وہ بيمار ہو اور علاج کے لئے سفر کرنا ضروری ہو کہ اس صورت ميں سفر کے اخراجات متعارف مقدار ميں شوہر پر واجب ہوں گے۔ اسی طرح اگر شوہر بيوی کو سفر پر لے جانا چاہتا ہو تب بھی یهی حکم ہے ۔

۳۹۹

مسئلہ ٢ ۴ ٨٠ جس عورت کے اخراجات اس کے شوہر کے ذمے ہوں اور شوہر اسے خرچہ نہ دے تو مطالبہ کرنے اور شوہر کے منع کرنے کے بعد وہ اپنا خرچہ اس کی اجازت کے بغير اس کے مال سے لے سکتی ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس سلسلے ميں حاکم شرع سے اجازت لے لے اور اگر اس کے لئے شوہر کے مال سے ليناممکن نہ ہو اور امور حسبيّہ کے متولی کے ذریعے شوہر کو مجبور کرنا بھی ممکن نہ ہو، تو اگراپنی معاش کا بندوبست خود کرنے پر مجبور ہو تو جس وقت وہ اپنی معاش کا بندوبست کرنے ميں مشغول ہو اس وقت ميں شوہر کی اطاعت اس پر واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨١ احتياط واجب کی بنا پر مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر چار راتوں ميں سے ایک رات اپنی دائمی منکوحہ بيوی کے پاس رہے اور اگر دو بيویاں رکھتا ہو اور ایک کے پاس ایک رات گذاری ہے تو اس پر واجب ہے کہ چار راتوں ميں سے کوئی ایک رات دوسری کے پاس بھی گذارے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨٢ مرد کے لئے جائز نہيں ہے کہ وہ اپنی دائمی جوان بيوی سے چار ماہ سے زیادہ مدت تک مجامعت نہ کرے اور احتياط واجب کی بنا پر اگر بيوی جوان نہ ہو تب بھی یهی حکم ہے مگر یہ کہ بيوی راضی ہو یا یہ کہ مرد کے لئے مجامعت ضرر یا حرج کا باعث ہو جب کہ یہ ضرر و حرج عورت کے لئے پيش آنے والے ضرر یا حرج سے ٹکرا نہ رہا ہو یا یہ کہ عورت اس کی نافرمان ہو یا یہ کہ عقد کے وقت عورت کے ساته شرط کی گئی ہو کہ مجامعت کا اختيار مرد کے پاس ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨٣ اگر دائمی عقد ميں مہر معين نہ کيا جائے تو عقد صحيح ہے اور اگر مرد عورت کے ساته مجامعت کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا مہر اسی جيسی عورتوں کے مہر کے مطابق دے دے، البتہ اگر متعہ ميں مہر معين نہ کيا جائے تو عقد باطل ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ۴ اگر دائمی عقد پڑھتے وقت مہر دینے کی مدت معين نہ کی جائے تو عورت مہر لينے سے پهلے شوہر کو مجامعت کرنے سے روک سکتی ہے قطع نظر اس کے کہ مرد مہر دینے پر قادر ہو یا نہ ہو ليکن اگر وہ مہر لينے سے پهلے مجامعت پر راضی ہو جائے اور شوہر اس سے مجامعت کرے تو بعد ميں وہ بغير شرعی عذر کے شوہر کو مجامعت کرنے سے نہيں روک سکتی ہے ۔

متعہ (ازدواج موقت)

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ۵ عورت کے ساته متعہ کرنا اگرچہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ بھی ہو تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ۶ احتياط واجب یہ ہے کہ مرد نے جس عورت سے متعہ کيا ہو اس کے ساته چار مهينے سے زیادہ مجامعت ترک نہ کرے مگر یہ کہ وہ راضی ہو جائے۔

۴۰۰

مسئلہ ٢ ۴ ٨٧ جس عورت کے ساته متعہ کيا جا رہا ہو اگر وہ عقد ميں یہ شرط عائد کرے کہ شوہر اس سے مجامعت نہ کرے تو عقد اور اس کی عائد کردہ شرط صحيح ہے اور شوہر اس سے فقط دوسری لذتيں حاصل کرسکتا ہے ، ليکن اگر وہ بعد ميں راضی ہو جائے تو شوہر اس سے مجامعت کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨٨ جس عورت کے ساته متعہ کيا گيا ہو خواہ وہ حاملہ بھی ہو جائے تب بھی خرچہ لينے کا حق نہيں رکھتی ہے مگر یہ کہ اس نے عقد متعہ یا کسی دوسرے لازم عقد ميں اس بات کی شرط رکھ دی ہو، اسی طرح اس وقت خرچ لينے کا حق رکھتی ہے جب کسی عقد جائز ميں شرط رکھی ہو بشرطيکہ وہ عقد جائز باقی رہے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨٩ جس عورت کے ساته متعہ کيا گيا ہو وہ ہم بستری کا حق نہيں رکھتی ہے اور شوہر سے ميراث بھی نہيں پاتی ہے اور شوہر بھی اس سے ميراث نہيں پاتا ہے مگر یہ کہ ميراث پانے کی شرط عائد کی ہو تو اس صورت ميں جس نے ایسی شرط عائد کی ہو وہ ميراث پاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٠ جس عورت سے متعہ کيا گيا ہو اگرچہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خرچ اور ہم بستری کا حق نہيں رکھتی اس کا عقد صحيح ہے اور اس وجہ سے کہ وہ ان امور سے ناواقف تھی اس کا شوہر پر کوئی حق پيدا نہيں ہوتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩١ جس عورت سے متعہ کيا گيا ہو وہ شوہر کی اجازت کے بغير گھر سے باہر نکل سکتی ہے ليکن اگر اس کے باہر نکلنے سے شوہر کا حق ضایع ہو رہا ہو تو اس کا باہر نکلنا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٢ اگر کوئی عورت کسی مرد کو وکيل بنائے کہ معين مدت اور معين رقم کے عوض اس کا خود اپنے ساته متعہ پڑھے اور وہ مرد اس کا دائمی عقد اپنے ساته پڑھ لے یا معينہ مدت یا مقررہ مہر کے علاوہ پر عقد متعہ پڑھ دے تو پتہ چلنے پر اگر عورت اس کی اجازت دے دے تو عقد صحيح ہے ورنہ باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٣ اگر باپ یا دادا محرم بن جانے کی غرض سے کسی لڑکی کا عقد تهوڑی مدت کے لئے مثلاً ایک گهنٹے کے لئے اپنے ایسے بيٹے سے کر دیں جو لذت حاصل کرنے کی صلاحيت رکھتا ہو تو یہ عقد صحيح ہے اور باپ یا دادا اس بيٹے کے فائدہ و مصلحت کا خيال رکھتے ہوئے عقد کی مدت عورت کو بخش سکتے ہيں ۔ اسی طرح باپ یا دادا محرم بن جانے کی غرض سے کسی شخص کا عقد اپنی ایسی نابالغ بيٹی سے کرسکتے ہيں جس سے لذت اٹھ ائی جاسکتی ہو اور دونوں صورتوں ميں ضروری ہے کہ عقد کی وجہ سے نابالغ بچے کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پهنچے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ۴ اگر باپ یا دادا اپنی لڑکی کا عقد محرم بن جانے کی خاطر کسی سے کر دیں جب کہ وہ لڑکی دوسری جگہ پر ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرگئی ہے تو اگر وہ لڑکی عقد کی مدت ميں اس قابل ہو کہ اس سے لذت اٹھ ائی جاسکے تو ظاہراً محرم بننا حاصل ہو

۴۰۱

جائے گا۔ ہاں، اگر بعد ميں پتہ چلے کہ وہ لڑکی زندہ نہيں تھی تو عقد باطل ہے اور وہ لوگ جو عقد کی وجہ سے بظاہر محرم بن گئے تهے نامحرم ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ۵ اگر مرد غير دائمی ازدواج کی مدت عورت کو بخش دے تو اگر اس نے اس کے ساته مجامعت کی ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام چيزیں جن کا عهد کيا تھا اسے دے دے اور اگر اس نے اس کے ساته مجامعت نہ کی ہو تو ضروری ہے کہ ان چيزوں کی آدهی مقدار اسے دے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ تمام چيزیں دے دے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ۶ مرد کے لئے جائز ہے کہ جس عورت کے ساته اس نے پهلے متعہ کيا ہو اور عقد کی مدت تمام ہوگئی ہو یا اس نے مدت بخش دی ہو ليکن عدت کی مدت ابهی پوری نہ ہوئی ہو، اس سے دائمی عقد کرلے یا دوبارہ متعہ کرلے۔

نگاہ کرنے کے احکام

مسئلہ ٢ ۴ ٩٧ مرد کے لئے نامحرم عورت کے بدن اور اس کے بال کو دیکھنا حرام ہے خواہ ایسا کرنا لذت کے قصد سے ہو یا نہ ہو اور خواہ ایسا کرنا حرام ميں پڑنے کے خوف کے ساته ہو یا نہ ہو اور مرد کے لئے اس کے چھرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جب کہ ایسا کرنا لذت کے ساته ہو یا حرام ميں پڑنے کے خوف کے ساته ہو، حرام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ قصدِ لذت اور حرام ميں پڑنے کے خوف کے بغير بھی اس کے چھرے اور کلائيوں تک ہاتھوں کو نہ دیکھے ۔ اسی طرح عورت کا نامحرم مرد کے بدن کو دیکھنا بھی حرام ہے سوائے ان مقامات کے کہ شریعت کے پيروکار اور دیندار اشخاص کی روش یہ ہو کہ وہ انہيں نہ چھپا تے ہوں جيسے سر، چہرہ ، گردن، ہاتھ اور پنڈليوں تک پاؤں، کہ ان مقامات کا دیکھنا عورت کے لئے قصدِ لذت اور حرام ميں پڑنے کے خوف کے بغير جائز ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٨ وہ عورتيں کہ جنہيں اگر نامحرم سے اپنے بدن کو نہ چھپا نے پر روکا جائے تو اُن پر کچھ اثر نہ ہو چاہے کافر ہوں یا مسلمان ان کے بدن کے ایسے حصّوں کو دیکھنا جنہيں عام طور پر چھپا نے کی عادت نہ رکھتی ہوں جب کہ یہ دیکھنا قصدِ لذت اور حرام ميں پڑنے کے خوف کے ساته نہ ہو تو جائز ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٩ عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بال اور بدن کو نامحرم مرد سے چھپا ئے اور اس صورت ميں جب کہ عورت اپنے آپ کو دکھانا چاہتی ہو اور مرد بھی لذت کے ساته دیکھ رہا ہو اس پر چھرے اور ہاتھوں کو کلائيوں تک بھی چھپا نا واجب ہے اور اسی طرح اس صورت ميں بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے جب عورت تو دکهاوے کا قصد نہ رکھتی ہو مگر مرد لذت کے قصد سے دیکھ رہا ہو۔اور سر اور بالوں کو نابالغ لڑکے سے چھپا نا واجب نہيں ہے مگر اس صورت ميں جب کہ اس نابالغ لڑکے کی شهوت کے ابهرنے کا باعث بن رہا ہو احتياط واجب یہ ہے کہ اس سے بھی سر اور بالوں کو چھپا ئے۔

۴۰۲

مسئلہ ٢ ۵ ٠٠ کسی شخص کی شرمگاہ دیکھنا حتی مميّز بچہ جو برے بهلے کی تميز رکھتا ہو اس کی شرمگاہ دیکھنا بھی حرام ہے ، اگرچہ ایسا کرنا شيشے کے پيچهے سے یا آئينے ميں یا صاف پانی وغيرہ ميں ہی کيوں نہ ہو اور مياں اور بيوی ایک دوسرے کا پورا بدن دیکھ سکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠١ جو مرد اور عورت آپس ميں محرم ہوں وہ قصدِ لذت کے بغير شرمگاہ کے علاوہ ایک دوسرے کا پورا بدن دیکھ سکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠٢ ایک مرد کا دوسرے مرد کے بدن کو اور ایک عورت کا دوسری عورت کے بدن کو قصدِ لذت سے دیکھنا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠٣ نامحرم عورت کی تصویر دیکھنا جب کہ انسان اسے جانتا ہو اور وہ ان خواتين ميں سے ہو جنہيں اگر نامحرم کے سامنے دکهاوا کرنے سے روکا جائے تو قبول کرلے، بنابر احتياط جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ ۴ اگر ایک عورت کسی دوسری عورت یا اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی شرمگاہ کو دهونا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہاتھ پر کوئی چيز لپيٹ لے تا کہ اس کا ہاتھ دوسری عورت یا مرد کی شرمگاہ تک نہ پهنچے اور اگر کوئی مرد کسی دوسرے مرد یا اپنی بيوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کی شرمگاہ کو دهونا چاہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ ۵ اگر عورت کسی نامحرم مرد سے علاج کروانے پر مجبور ہو اور مرد بھی علاج کرنے ميں مجبور ہو کہ اسے دیکھے اور اس کے بدن کو ہاتھ لگائے تو یہ جائز ہے ليکن اگر دیکھ کر علاج کرسکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہاتھ نہ لگائے اور اگر ہاتھ لگاکر علاج کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے نہ دیکھے اور ہر صورت ميں اگر دستانے پهن کر علاج کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ ہاتھ سے علاج نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ ۶ اگر انسان کسی سے علاج کروانے پر مجبور ہو جائے اور وہ شخص بھی علاج کرنے کے لئے اس کی شرمگاہ دیکھنے کے علاوہ کو ئی چارہ کار نہ رکھتا ہو تو بنا بر احتياط واجب اسے چاہئے کہ آئينہ ميں دیکھ کر اس کا علاج کرے، ليکن اگر شرمگاہ کو دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو یا آئينہ ميں دیکھ کر علاج کرنا مشقت کا باعث بن رہا ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

شادی کے مختلف مسائل

مسئلہ ٢ ۵ ٠٧ جو شخص بيوی کے نہ ہونے کی وجہ سے فعلِ حرام ميں مبتلا ہو جائے اس پر شادی کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠٨ اگر شوہر عقد ميں یہ شرط عائد کرے کہ عورت کنواری ہو اور عقد کے بعد معلوم ہو جائے یا خود عورت اقرار کرلے یا دوعادل مردوں کی گواہی سے ثابت ہو جائے کہ عقد سے پهلے ہی کسی سے مجامعت کے سبب اس کی بکارت زائل ہوچکی تھی تو اگرچہ مرد کے لئے خيارِ فسخ کے ثابت ہونے کا احتمال موجود ہے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ اگر عقد کو فسخ کرے تو طلاق بھی دے اور مرد کنواری اور غير کنواری عورت کے مہر کے مابين فرق کی نسبت کو دیکھتے ہوئے مقررہ مہر ميں سے اسی نسبت کے مطابق لے سکتا ہے خواہ وہ عقد فسخ کردے یا اس پر باقی رہے۔

۴۰۳

مسئلہ ٢ ۵ ٠٩ نامحرم مرد اور عورت کا کسی ایسے خلوت کے مقام پر رہنا کہ جهاں کوئی دوسرا یهاں تک کہ مميّز بچہ بھی نہ ہو، حرام کے ارتکاب کے احتمال کی صورت ميں جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٠ اگر کوئی مرد عورت کا مہر عقد ميں معين کر دے اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ مہر نہيں دے گا اور عورت کا عقد پر راضی ہونا اس کے مہر دینے کے ارادے پر موقوف نہ ہو تو عقد صحيح ہے ليکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہر دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ١١ وہ مسلمان جو دین اسلام کو چھوڑ کر کافر ہوجائے مرتد کهلاتا ہے ۔ (کفر کے معنیٰ مسئلہ نمبر ١٠٧ ميں گذرچکے ہيں )

اور مرتد کی دو قسميں ہيں :

١) فطری ٢) ملی مرتد فطری اسے کہتے ہيں جو ایسے ماں باپ سے پيدا ہوا ہو جو دونوں یا ان ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو اور پھر یہ شخص بالغ اور عقل کے کامل ہونے کے بعد اپنے اختيار سے دین اسلام کو ترک کردے۔

اور مرتد ملّی اسے کہتے ہيں جو کافر ماں باپ سے پيدا ہوا ہو اور پھر مسلمان ہونے کے بعد دوبارہ اسلام کو ترک کر دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٢ اگر عورت شادی کے بعد مرتد ہو جائے پس اگر اس کے شوہر نے اس کے ساته جماع نہ کيا ہو تو اس کا عقد باطل ہو جاتا ہے اور کوئی عدت بھی نہيں ہے اور اگر جماع کيا ہو ليکن نو سال پورے نہ ہوئے ہوں یا یہ کہ یائسہ ہو تو بھی یهی حکم ہے ۔ ہاں، اگر نو سال پورے ہوگئے ہوں اور یائسہ بھی نہ ہو (جس کے معنی مسئلہ نمبر ۴۴ ١ ميں گذر چکے ہيں ) تو ضروری ہے کہ اسی طریقے کے مطابق عدت گذارے جو طلاق کے احکام ميں بيان کيا جائے گا اور اگر عدت کے آخر تک مرتد رہے تو عقد باطل ہے اور اگر عدت کے دوران مسلمان ہو جائے تو عقد کے باقی رہنے ميں اشکال ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر مرد اس کے ساته رہنا چاہے تو دوبارہ عقد کرے اور اگر اس سے عليحدگی اختيار کرنا چاہے تو اسے طلاق دے دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٣ وہ مرد جس کے ماں باپ ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو اگر وہ مرتد ہو جائے تو اس کی بيوی اس پر حرام ہو جاتی ہے اور ضروری ہے کہ وفات کی عدت کے برابر عدت رکھے جس کا بيان طلاق کے احکام ميں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۵ ١ ۴ وہ مرد جو غير مسلم والدین سے پيدا ہو ليکن بعد ميں مسلمان ہو گيا ہو اور شادی کے بعد مرتد ہوجائے تو اگر اس نے اپنی بيوی سے جماع نہ کيا ہو یا اس کی بيوی کے نو سال مکمل نہ ہوئے ہوں یا اس کی بيوی یائسہ ہو تو عقد باطل ہو جائے گا اور اُسے عدت رکھنے کی ضرورت نہيں اور اگر جماع کرنے کے بعد مرتد ہو جائے اور اس کی بيوی کے نو سال پورے ہوگئے ہوں اور وہ یائسہ بھی نہ ہو تو اس عورت کے لئے ضروری ہے کہ طلاق کی عدت کے برابر کہ جس کا ذکر احکام طلاق ميں آئے گا عدت رکھے اور اگر عدت تمام ہونے تک مسلمان نہ ہو تو عقد باطل ہے اور اگر عدت تمام ہونے سے پهلے مسلمان ہو جائے تو عقد کا باقی رہنا محل اشکال ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر بيوی کے ساته رہنا چاہتا ہو تو دوبارہ عقد کرے اور اگر عليحدگی اختيار کرنا چاہے تو طلاق دے دے۔

۴۰۴

مسئلہ ٢ ۵ ١ ۵ اگر عورت عقد ميں مرد کے ساته یہ شرط رکھے کہ وہ اسے شہر سے باہر نہيں لے جائے گا اور مرد بھی اس شرط کو قبول کرلے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے رضامندی کے بغير شہر سے باہر نہ لے جائے۔

مسئلہ ٢ ۵ ١ ۶ اگر عورت کی پهلے شوہر سے ایک بيٹی ہو تو دوسرا شوہر اس لڑکی کا عقد اپنے اس بيٹے سے کرسکتا ہے جو اس بيوی سے نہ ہو اور اگر مرد کسی لڑکی کا عقد اپنے بيٹے سے کرے تو اس لڑکی کی ماں سے خود شادی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٧ اگر کوئی عورت زنا کے سبب حاملہ ہو جائے تو اس صورت ميں جب کہ وہ عورت یا وہ مرد جس نے اس سے زنا کيا ہو یا وہ دونوں مسلمان ہوں اس عورت کے لئے بچہ گرانا جائز نہيں ہے اور اگر مسلمان نہ ہوں تو بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٨ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے جو نہ شوہر دار ہو اور نہ ہی کسی کی عدت ميں ہو، زنا کرے تو اگر اس طریقے کے مطابق استبرا کرنے کے بعد جس کا ذکر مسئلہ ٢ ۴۶ ٣ ميں ہوا ہے اس عورت سے عقد کرے اور پھر ان سے کوئی بچہ پيدا ہو تو اگر نہ جانتے ہوں کہ بچہ حلال نطفے سے ہے یا حرام نطفے سے تو وہ بچہ بغير اشکال کے حلال زادہ ہے ليکن اگر استبرا کرنے سے پهلے عقد کيا ہو اور پھر جماع کيا ہو تو اس ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٩ اگر مرد کو معلوم نہ ہو کہ عورت عدت ميں ہے اور وہ اس سے شادی کرلے تو اگر عورت کو بھی اس بارے ميں علم نہ ہو اور ان کا بچہ پيدا ہو تو وہ حلال زادہ ہے اور شرعاً ان دونوں کا فرزند ہوگا، ليکن اگر عورت جانتی ہو کہ وہ عدت ميں ہے تو شرعاً بچہ باپ کا فرزند ہوگا اور جو شخص عدت ميں ہونے کا یقين رکھتا ہو اور اس کے پورا ہونے کے بارے ميں مشکوک ہو وہ اسی شخص کے حکم ہے جو جانتا ہے کہ وہ عدت ميں ہے اور ہر صورت ميں ان کا عقد باطل ہے اور وہ ایک دوسرے پر حرام ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٠ اگر کوئی عورت کهے کہ ميں یائسہ ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا کهنا قبول نہ کيا جائے ليکن اگر کهے کہ ميں شوهردار نہيں ہوں تو اس کی بات قبول کی جائے گی۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢١ اگر عورت کهے کہ ميں شوهردار نہيں ہوں اور کوئی شخص اس سے شادی کرلے اور پھر بعد ميں کوئی کهے کہ اس عورت کا شوہر موجود ہے پس اگر شرعاً اس کی بات ثابت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی بات کو قبول نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٢ جب تک لڑکا یا لڑکی دو سال کے نہ ہو جائيں ان کا باپ انہيں ان کی ماں سے جدا نہيں کرسکتا ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ لڑکی کو سات سال تک اس کی ماں سے جدا نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٣ اگر شادی کی درخواست کرنے والا لڑکا دینداری اور اخلاق ميں اچھا ہو تو مستحب ہے کہ بالغ لڑکی کی شادی کرنے ميں جلدی کی جائے ۔

۴۰۵

مسئلہ ٢ ۵ ٢ ۴ اگر بيوی شوہر کے ساته اس شرط پر اپنے مہر کی مصالحت کرے کہ وہ دوسری شادی نہيں کرے گا تو بيوی بعد ميں مہر نہيں لے سکتی ہے اور شوہر پر بھی واجب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢ ۵ جو شخص ولدالزنا ہو اگر وہ کسی عورت سے شادی کرلے اور اس کا بچہ پيدا ہو تو وہ حلال زادہ ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢ ۶ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان المبارک کے روزوں ميں یا حيض کی حالت ميں اپنی بيوی سے مجامعت کرے تو وہ گنهگار ہے ليکن اگر اس مجامعت کے نتيجے ميں ان کا کوئی بچہ پيدا ہو تو وہ حلال زادہ ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٧ جس عورت کو یقين ہو کہ اس کا شوہر مثلاً سفر ميں مرگيا ہے اگر وہ وفات کی عدت، جس کی مقدار احکامِ طلاق ميں بتائی جائے گی، کے بعد شادی کرے و بعد ازاں اس کا پهلا شوہر سفر سے واپس آجائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے شوہر سے جدا ہو جائے اور وہ پهلے شوہر پر حلال ہوگی ليکن اگر دوسرے شوہر نے اس سے مجامعت کی ہو تو عورت پر عدت گذارنا ضروری ہے اور دوسرے شوہر پر ضروری ہے کہ اس جيسی عورتوں کے مہر کے مطابق اسے مہر ادا کرے ليکن عدت کے زمانے کا خرچہ دوسرے شوہر کے ذمے نہيں ہے ۔

رضاعت (دودھ پلانے) کے احکام

مسئلہ ٢ ۵ ٢٨ اگر کوئی عورت ایک بچے کو ان شرائط کے ساته دودھ پلائے جو مسئلہ ٢ ۵ ٣٨ ميں ذکر کی جائيں گی تو وہ بچہ مندرجہ ذیل لوگوں کا محرم بن جاتا ہے :

١) خود وہ عورت اور اسے رضاعی ماں کہتے ہيں ۔

٢) عورت کا شوہر جس کی بدولت دودھ ہے اور اسے رضاعی باپ کہتے ہيں ۔

٣) اس عورت کے ماں باپ چاہے یہ سلسلہ کتنا ہی اُوپر چلا جائے اور خواہ وہ اس عورت کے رضاعی ماں باپ ہی کيوں نہ ہوں۔

۴) اس عورت کے وہ بچے جو پيدا ہوچکے ہيں یا بعد ميں پيدا ہوں۔

۵) اس عورت کے بچوں کی اولاد خواہ یہ سلسلہ کتنا ہی نيچے چلا جائے اور خواہ وہ اولاد اس کے بچوں سے وجود ميں آئی ہو یا انہوں نے دودھ پلایا ہو۔

۶) اس عورت کی بهنيں اور بهائی خواہ وہ رضاعی ہی ہوں یعنی دودھ پينے کی وجہ سے اس عورت کے بهن بهائی بن گئے ہوں۔

٧) اس عورت کا چچا اور پهوپهی خواہ وہ رضاعی ہی کيوں نہ ہوں۔

٨) اس عورت کا ماموں اور اس کی خالہ خواہ وہ رضاعی ہی کيوں نہ ہوں۔

۴۰۶

٩) اس عورت کے اس شوہر کی اولاد جس کی بدولت دودھ ہے جهاں تک بھی یہ سلسلہ نيچے چلا جائے اور اگر چہ اس کی اولاد رضاعی ہی کيوں نہ ہو۔

١٠ ) اس عورت کے اس شوہر کے ماں باپ جس کی بدولت دودھ ہے جهاں تک بھی یہ سلسلہ اُوپر چلا جائے اور اگر چہ وہ ماں باپ رضاعی ہوں۔

١١ ) اس عورت کے اس شوہر کے بهن بهائی جس کی بدولت دودھ ہے گرچہ اس کے رضاعی بهن بهائی ہی کيوں نہ ہوں۔

١٢ ) اس عورت کے اس شوہر کے چچا، پهوپهی، ماموں اور خالہ جس کی بدولت دودھ ہے جهاں تک بھی یہ سلسلہ اُوپر چلا جائے خواہ وہ رضاعی ہی ہوں۔

اور ان کے علاوہ کئی اور لوگ بھی دودھ پلانے کی وجہ سے محرم بن جاتے ہيں جن کا ذکر آئندہ مسائل ميں کيا جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٩ اگر کوئی عورت کسی بچے کو ان شرائط کے ساته دودھ پلائے جن کا ذکر مسئلہ ٢ ۵ ٣٨ ميں کيا جائے گا تو اس بچے کا باپ اس عورت کی نسبی لڑکيوں سے شادی نہيں کرسکتا ہے ۔ ہاں، اس کا اس عورت کی رضاعی لڑکيوں سے شادی کرنا جائز ہے گرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اُن سے بھی شادی نہ کرے اور وہ ان لڑکيوں سے بھی شادی نہيں کرسکتا ہے جو اس عورت کے اس شوہر کی بيٹياں ہيں کہ اس عورت کا دودھ جس کی بدولت ہے ، خواہ وہ بيٹياں نسبی ہوں یا رضاعی اور ان دونوں صورتوں ميں اگر اس وقت (یعنی اس عورت کے بچے کو دودھ پلانے کے وقت) ان ميں سے کوئی عورت اس کی بيوی ہو تو اس کا عقد باطل ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٠ اگر کوئی عورت کسی بچے کو ان شرائط کے ساته دودھ پلائے جن کا ذکر مسئلہ ٢ ۵ ٣٨ ميں کيا جائے گا تو اس عورت کا وہ شوہر کہ دودھ جس کی بدولت ہے وہ اس بچے کی بهنوں کا محرم نہيں بنتا ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ ان سے شادی نہ کرے۔ نيز شوہر کے رشتہ دار بھی اس بچے کے بهائی بهنوں کے محرم نہيں بن جاتے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣١ اگر کوئی عورت ایک بچے کو دودھ پلائے تو وہ اس کے بهائيوں کی محرم نہيں بن جاتی ہے اور اس عورت کے رشتہ دار بھی اس بچے کے بهائی بهنوں کے محرم نہيں بنتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٢ اگر کوئی شخص اس عورت سے جس نے کسی لڑکی کو پورا دودھ پلایا ہو، شادی کرے اور اس سے جماع کرلے تو پھر وہ اس لڑکی سے عقد نہيں کرسکتاہے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٣ اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے شادی کرلے تو پھر وہ اس عورت سے شادی نہيں کرسکتا ہے جس نے اس لڑکی کو پورا دودھ پلایا ہو۔

۴۰۷

مسئلہ ٢ ۵ ٣ ۴ انسان کسی ایسی لڑکی سے شادی نہيں کرسکتا جسے اس کی ماں یا دادی نے پورا دودھ پلایا ہو۔ نيز اگر کسی شخص کی سوتيلی ماں نے اس شخص کے باپ کی بدولت موجود دودھ کسی لڑکی کو پلایا ہو تو یہ شخص اس لڑکی سے شادی نہيں کرسکتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی شير خوار بچی سے عقد کرے اور اس کے بعد اس کی ماں یا دادی اس شيرخوار بچی کو دودھ پلا دے یا اس کی سوتيلی ماں اس کے باپ کی بدولت موجود دودھ اس بچی کو پلا دے تو عقد باطل ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣ ۵ کوئی شخص اس لڑکی سے شادی نہيں کرسکتا جسے اس شخص کی بهن یا بهابهی نے جب کہ دودھ بهائی کی بدولت ہو ، پورا دودھ پلایا ہو۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب اس شخص کی بهانجی، بهتيجی یا بهن یا بهائی کی نواسی یا پوتی نے اس لڑکی کو دودھ پلایا ہو۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣ ۶ اگر کوئی عورت اپنی بيٹی کے بچے یعنی اپنے نواسے یا نواسی کو پورا دودھ پلائے تو اس عورت کی بيٹی اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی اور اگر وہ عورت اُس بچے کو دودھ پلائے جو اس کی بيٹی کے شوہر کی دوسری بيوی سے پيدا ہوا ہو تب بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر کوئی عورت اپنے بيٹے کے بچے یعنی پوتے یا پوتی کو دودھ پلائے تو اس کی بهو جو کہ دودھ پيتے بچے کی ماں ہے ، اپنے شوہر پر حرام نہيں ہوگی۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٧ اگر کسی لڑکی کی سوتيلی ماں اُس لڑکی کے شوہر کے بچے کو اس لڑکی کے باپ

کی بدولت موجود دودھ پلائے تو وہ لڑکی اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے خواہ وہ بچہ اسی لڑکی کے بطن سے ہو یا کسی دوسری عورت کے بطن سے ہو۔

دودھ پلانے کے ذريعے محرم بننے کی شرائط

مسئلہ ٢ ۵ ٣٨ محرم بننے کے لئے دودھ پلانے کی آٹھ شرائط ہيں :

١) بچہ زندہ عورت کا دودھ پئے۔لہٰذا اگر بچہ مردہ عورت کے سينے سے دودھ پئے تو اس کا کوئی فائدہ نہيں ۔

٢) عورت کا دودھ ولادت کی وجہ سے ہو اور حرام کا نہ ہو۔لہٰذا اگر زنا کی وجہ سے عورت کی چھاتی ميں دودھ آجائے اور کسی بچے کو پلائے تو اس سے وہ بچہ کسی کا محرم نہيں بن سکتا۔

٣) بچہ چھاتی سے ہی دودھ پئے، لہٰذا گر دودھ صرف اس کے گلے ميں انڈیل دیا جائے تو کوئی فائدہ نہيں ۔

۴) خالص ددوه پئے جو کسی اور چيز سے ملا ہوا نہ ہو۔

۵) دودھ ایک ہی شوہر کا ہو۔لہٰذا اگر دودھ پلانے والی عورت کو طلاق دے دی جائے، پھر وہ دوسری شادی کرلے اور اس سے حاملہ ہوجائے اور زچگی سے پهلے تک پهلے شوہر والا دودھ باقی ہو اور مثلاً آٹھ مرتبہ زچگی سے پهلے، پهلے شوہر والا دودھ اور سات مرتبہ زچگی کے بعد دوسرے شوہر والا دودھ کسی بچے کو پلائے تو یہ بچہ کسی کا محرم نہيں بنے گا۔

۴۰۸

۶) بچہ دودھ کی قے نہ کردے اور اگر قے کردے تو احتياط واجب کی بنا پر وہ افراد جو دودھ

پلانے کی وجہ سے اس کے محرم بنيں گے اس سے شادی نہ کریں اور نہ ہی اس پرمحرمانہ نظر ڈاليں۔

٧) پندرہ بار یا ایک شب و روز سير ہو کر اس طرح دودھ پئے کہ جس کا ذکر اگلے مسئلے ميں آئے گا یا اتنا دودھ اسے پلائے کہ کها جائے کہ اس دودھ سے اس کی ہڈیاں مضبوط ہوئی ہيں اور اس کے بدن پر گوشت چڑھا ہے ۔ اگر دس بار اس کو دودھ پلائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ دودھ پينے کی وجہ سے جو اس کے محرم بنتے ہيں ، وہ اس سے شادی نہ کریں، اور محرمانہ نظر بھی اس پرنہ ڈاليں۔

٨) بچہ دو سال کا نہ ہو چکا ہو۔ لہٰذا اگر دو سالہ ہو جانے کے بعد کسی عورت کا دودھ پئے تو اس وجہ سے کسی کا محرم نہيں بنے گا، بلکہ اگر مثلاً دو سال مکمل ہونے سے پهلے آٹھ مرتبہ اور دوسال مکمل ہونے کے بعد سات مرتبہ دودھ پئے تو بھی کسی کا محرم نہيں بنے گا۔ ہاں، اگر دودھ پلانے والی عورت کے زچگی کے بعد سے دو سال گزر چکے ہوں اور ابهی اسے دودھ آتا ہو اور کسی بچے کو دودھ پلائے تو وہ بچہ مذکورہ افراد کامحرم بن جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٩ ضروری ہے کہ بچہ ایک روز و شب ميں کوئی غذا نہ کھائے یا کسی اور کا دودھ

نہ پئے ۔ ہاں، اگر اتنی مختصر غذا کھائے کہ اسے درميان ميں غذا کھانا نہ کها جا سکے تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح ضروری ہے کہ پندرہ مرتبہ ایک ہی عورت کا دودھ پئے اور اس پندرہ مرتبہ کے درميان کسی اور عورت کا دودھ نہ پئے۔ ہر مرتبہ ميں بغير کسی فاصلے کے مکمل سير ہو کر دودھ پئے۔

هاں، اگر درميان ميں سانس لينے کے لئے رکے یا کچھ صبر کرے ، اتنا کہ پهلی مرتبہ چھاتی منہ ميں لينے سے لے کر سير ہونے تک عرفاً یہ کها جائے کہ اس نے حقيقتاً ایک ہی بار دودھ پيا ہے ، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٠ اگرعورت اپنے شوہر کا دودھ کسی بچے کو پلائے، پھر دوسری شادی کرے اور دوسرے شوہر کا دودھ کسی اور بچے کو پلائے تو یہ دونوں بچے آپس ميں محرم نہيں بنتے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ آپس ميں شادی نہ کریں، ليکن ایک دوسرے کو محرمانہ نگاہوں سے نہيں دیکھ سکتے۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ١ اگر عورت ایک ہی شوہر کا دودھ چند بچوں کو پلائے تو یہ سارے بچے آپس ميں اور اس عورت اور اس کے شوہر کے محرم بن جاتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٢ اگر کسی مرد کی چند بيویاں ہوں اور ان ميں سے ہر ایک، مذکورہ شرائط کے ساته ایک ایک بچے کودودھ پلائے،تو یہ سارے بچے آپس ميں ، اس مرد اور اس کی تمام بيویوں کے محرم بن جائيں گے۔

۴۰۹

مسئلہ ٢ ۵۴ ٣ اگر کسی کی دودھ پلانے والی دو بيویاں ہوں اور ان ميں سے ایک، ایک بچے کو آٹھ مرتبہ اور دوسری سات مرتبہ دودھ پلائے تو وہ بچہ کسی کا محرم نہيں بنے گا۔

مسئلہ ٢ ۵۴۴ اگر عورت ایک شوهرکے دودھ سے ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو مکمل دودھ

پلائے تو لڑکی کے بهائی بهن ، لڑکے کے بهائی بهن کے محرم نہيں بنتے۔

مسئلہ ٢ ۵۴۵ انسان اپنی بيوی کی اجازت کے بغير اس کے رضاعی بهائی یا بهن کی بيٹی سے شادی نہيں کر سکتا۔ اسی طرح اگر مرد کسی لڑکے سے لواط کرے تواس کی رضاعی بهن، بيٹی یا ماں اور احتياط واجب کی بنا پر اس کی رضاعی دادی یا نواسی سے ازدواج نہيں کرسکتا۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت بھی ہے جب لواط کرنے والا بالغ نہ ہو یا جس سے لواط کيا گيا ہو وہ بالغ ہو۔ اور جن مقامات پر احتياط کا تذکرہ کياگيا اگر لواط کے بعد شادی ہوئی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ طلاق دے دے۔

مسئلہ ٢ ۵۴۶ جس عورت نے کسی کے بهائی کو دودھ پلایا ہو وہ خود اس کی محرم نہيں بنتی اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اس سے ازدواج نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٧ انسان بيک وقت دو بهنوں سے شادی نہيں کر سکتا چاہے وہ رضاعی بهنيں ہی ہوں۔ اگر کوئی شخص دو عورتوں سے شادی کرلے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ آپس ميں بهنيں ہيں تو اگر دونوں کے ساته ایک ساته شادی کيا ہو تو اختيار ہے کہ ان ميں سے جس کو چاہے اختيار کرے اور اگر ایک وقت ميں نہ ہو تو پهلا عقد درست ہوگا اور دوسرا باطل۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٨ اگر عورت اپنے شوہر کا دودھ مندرجہ ذیل افراد ميں سے کسی کو پلائے تواس کا شوہر اس پر حرام نہيں ہوتا اگرچہ بہتر ہے کہ احتياط کرے:

١) اپنے بهائی یا بهن کو۔

٢) اپنے چچا، پهوپهی، ماموں یا خالہ کو۔

٣) اپنے چچا زاد یا ماموں زاد کو۔

۴) اپنے بهائی کے بچے کو۔

۵) اپنے دیور یا نند کو۔

۶) اپنی بهن کے بچے یا شوہر کی بهن کے بچے کو۔

٧) شوہر کے چچا، پهوپهی، ماموں یا خالہ کو۔

۴۱۰

٨) اپنے شوہر کی کسی اور بيوی کے نواسے، نواسی، پوتے یا پوتی کو۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٩ اگر کوئی عورت کسی شخص کی پهوپهی زاد یا خالہ زاد بهن کود وده پلائے تووہ اس شخص کی محرم نہيں بنتی، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس سے شادی نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٠ جس شخص کی دو بيویاں ہوں اگر ان ميں سے ایک دوسری کے چچا زاد کو دودھ

پلائے تو جس عورت کے چچا زاد کو دودھ پلایا ہے وہ اپنے شوہر پر حرام نہيں ہوتی۔

دودھ پلانے کے آداب

مسئلہ ٢ ۵۵ ١ بچے کو دودھ پلانے کے لئے اس کی ماں سے بہتر کوئی نہيں ۔ اور سزاوار ہے کہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لئے اپنے شوہر سے اجرت نہ لے اور اچھا ہے کہ شوہر اجرت دے دے اور اگر ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لئے دایہ سے زیادہ اجرت طلب کرے تو شوہر اس سے بچہ لے کر دایہ کو دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٢ مستحب ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کے لئے جس دایہ کا انتخاب کيا جائے وہ اثناءعشری، صاحب عقل و عفت اور خوبصورت ہو۔ مکروہ ہے کہ دایہ کم عقل، بدصورت، بد اخلاق یا زنازادی ہو۔یہ بھی مکروہ ہے کہ کسی ایسی عورت کو دایہ بنایا جائے جس نے حرام کا بچہ جنا ہوا ہو۔

دودھ پلانے کے مختلف مسائل

مسئلہ ٢ ۵۵ ٣ احتياط مستحب یہ ہے کہ عورتيں ہر بچے کو دودھ نہ پلائيں، کيونکہ ممکن ہے کہ بعد ميں بھول جائيں کہ کس کس کو دودھ پلایا ہے اور نتيجتاً دو محرم آپس ميں شادی کر ليں۔

مسئلہ ٢ ۵۵۴ سزاوار ہے کہ جو افراد رضاعی رشتہ دار ہوں وہ ایک دوسرے کا احترام کریں ليکن یہ ایک دوسرے سے ميراثنہيں پاتے اور انسان کے اپنے رشتہ د اروں پر جو حقوق ہوتے ہيں ان کے حقدار بھی نہيں ہوتے۔

مسئلہ ٢ ۵۵۵ مستحب ہے کہ بچے کو پورے دوسال دودھ پلایا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵۵۶ اگر دودھ پلانے کی وجہ سے شوہر کا حق ضائع نہ ہورہا ہو تو عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغير بھی دوسروں کے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے ۔ ہاں، کسی ایسے بچے کو دودھ پلانا جائز نہيں ہے کہ جس کو د وده پلانے کے نتيجے ميں وہ خود اپنے شوہر پر حرام ہو جائے۔

۴۱۱

البتہ مشهور علما اعلی الله مقامهم کا یہ فرمانامحل اشکال ہے کہ:”اگر شوہر نے کسی شير خوار بچی سے عقد کيا ہو توضروری ہے کہ اس کی بيوی اسے دودھ نہ پلائے کيونکہ اگر اسے دودھ پلائے گی تو خود اپنے شوہر کی ساس بن جائے گی اور نتيجتاً اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی۔“هاں، وہ شير خوار بچی اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی، چاہے دودھ اسی شوہر کا ہو یا کسی اور کا جبکہ شوہر اس سے دخول کر چکا ہو۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٧ فقهاء اعلی الله مقامهم کی ایک جماعت نے فتوی دیا ہے :”اگر کوئی چاہے کہ اس کی بهابهی اس کی محرم بن جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی شير خوار بچی سے مثلاً دو دن کے لئے متعہ کرے اور ان دنوں ميں اس کی بهابهی مسئلہ نمبر ٢ ۵ ٣٨ ميں بيان شدہ شرائط کے مطابق اس بچی کو دودھ پلائے، اس طرح وہ اس کی رضاعی ساس بن جائے گی۔“ليکن یہ فتوی اشکال سے خالی نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٨ اگر مرد کسی عورت سے عقد کرنے سے پهلے کهے کہ رضاعی ہونے کی وجہ سے یہ عورت اس پر حرام ہوچکی ہے ، مثلاًکهے:”ميں نے اس کی ماں کا دودھ پيا ہوا ہے ۔“ تو اگر اس کی بات کی تصدیق ممکن ہو تو وہ اس عورت سے شادی نہيں کر سکتا اور اگر شادی کے بعد یہ بات کهے اور عورت بھی اس کی بات کو قبول کرلے تو عقد باطل ہوگا۔ تو اگر مرد نے اس عورت سے نزدیکی نہ کی ہو یا کی ہو ليکن نزدیکی کے وقت عورت جانتی ہو کہ وہ اس مرد پر حرام ہے تو عورت مہر کی حقدار نہ ہوگی، جبکہ اگر نزدیکی کے بعد معلوم ہوکہ وہ اس مرد پر حرام تھی تو مردکے لئے ضروری ہے کہ اس عورت کو وہ مہر دے جو اس جيسی عورتوں کا ہوتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٩ اگر عورت عقد سے پهلے کهے : ”ميں دودھ پينے کی وجہ سے فلاں مرد پر حرام ہوچکی ہوں۔“ اور اس کی تصدیق کرنا ممکن ہو تو وہ اس مرد سے شادی نہيں کر سکتی ا ور اگر عقد کے بعد یہ بات کهے تو اس کا حکم وهی ہے جو مرد کے عقد کے بعد کهنے کا تھا جس کا حکم پچهلے مسئلے ميں بيان کيا جا چکا۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٠ وہ دودھ پلانا جو محرم بننے کا سبب ہوتا ہے ، دو طریقوں سے ثابت ہوجاتا ہے :

١) یقين یا اطمينان پيدا ہوجائے۔

٢) دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتيںيا چار عادل عورتيں گواہی دیں، ليکن ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک دودھ پلانے کی شرائط کی گواہی بھی دیں، مثلاً گواہی دیں کہ ہم نے دیکھا کہ اس بچے نے ٢ ۴ گهنٹے اس عورت کی چھاتی سے دودھ پيا ہے اور درميان ميں کوئی اور چيز بھی نہيں کهائی اور اسی طرح کی باقی شرائط کی بھی تشریح کریں جن کا ذکر مسئلہ نمبر ٢ ۵ ٣٨ ميں کيا گيا۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ١ اگر شک ہو کہ بچے نے اتنا دودھ پيا ہے یا نہيں کہ جس بنا پر وہ محرم بن جائے یا گمان ہو کہ اتنا دودھ پی چکا ہے تو وہ بچہ کسی کا محرم نہيں بنتا اگرچہ بہتر یہ ہے کہ احتياط کی جائے۔

۴۱۲

طلاق کے احکام

مسئلہ ٢ ۵۶ ٢ جو مرد اپنی بیوی کو طلاق دے ضروری ہے کہ بالغ ہو اگرچہ دس سالہ لڑکے کا طلاق دینا صحتسے خالی نہيں ہے ليکن ضروری ہے کہ احتياط کی رعایت کی جائے اور(ضروری ہے کہ) عاقل ہو اور اپنے اختيار سے طلاق دے اور اگر اسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کيا جائے اور طلاق دے تو طلاق باطل ہے اورطلاق دینے کا ارادہ بھی ضروری ہے لہٰذا اگر طلاق کا صيغہ مزاحا کهے تو طلاق صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٣ ضروری ہے کہ عورت طلاق کے وقت حےض و نفاس کے خون سے پاک ہو اور شوہر نے اس پاکی ميں اس کے ساته نزدےکی نہ کی ہو اور ان دو شرائط کی تفصيل آئندہ مسائل ميں بيان ہوگی۔

مسئلہ ٢ ۵۶۴ عورت کو تین صورتوں ميں حےض و نفاس کی حالت ميں طلاق دینا صحيح ہے :

١) اس کے شوہر نے نکاح کے بعد اس سے نزدےکی نہ کی ہو۔

٢) معلوم ہو کہ حاملہ ہے اور اگر معلوم نہ ہو اور اس کو اس کا شوہر حےض کی حالت ميں طلاق دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حاملہ تھی تو احتياط واجب ہے کہ اسے دوبارہ طلاق دے۔

٣) غائب ہونے کی وجہ سے مرد معلوم نہ کرسکتا ہو کہ اس کی بیوی حےض و نفاس سے پاک ہے یا نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۶۵ اگر عورت کو خون حےض سے پاک سمجھتے ہوئے طلاق دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ طلاق دیتے وقت وہ حالت حےض ميں تھی تو اس کی طلاق باطل ہے اور اگر اسے حالت حےض ميں سمجھتے ہوئے طلاق دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ پاک تھی تو طلاق صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۶۶ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس کی بیوی حالت حےض یا نفاس ميں ہے اگر وہ غائب ہوجائے مثلاً سفر پر چلا جائے اور طلاق دینا چاہے اور اس کی حالت پر اطلاع حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ جب تک اسے اپنی بیوی کے پاک ہونے کا یقین یا اطمينان نہ ہو جائے صبر کرے اور بعد ميں اسے طلاق دے۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٧ اگر کوئی غائب شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اگر اپنی بیوی کے بارے ميں معلوم کرسکتا ہو کہ حےض یا نفاس کی حالت ميں ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ جس طریقے سے بھی اسے یقین یا اطمينان حاصل ہو اس کے ذریعے معلوم کرے اور اگر معلوم نہ کرسکتا ہو تو اپنی غيبت کے ایک مهينے بعد اسے طلاق دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٨ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جبکہ وہ حےض و نفاس سے پاک ہو ہم بستری کرے اور اسے طلاق دینا چاہے تو ضروری ہے کہ اتنا انتظار کرے کہ وہ دوبارہ حےض دےکهنے کے بعد پاک ہوجائے ليکن وہ بیوی جو نو سال کی نہ ہوئی ہو یا معلوم ہو

۴۱۳

کہ حاملہ ہے اگر ان کو نزدےکی کرنے کے بعد طلاق دے تو اشکال نہيں ہے اور اگر یائسہ ہو تب بھی یهی حکم ہے اور یائسہ کے معنی مسئلہ نمبر ۴۴ ١ ميں بيان ہو چکے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٩ اگر ایسی عورت سے ہم بستری کرے جو حےض و نفاس سے پاک ہو اور اس پاکی کے دوران اسے طلاق دے دے تو اگر بعد ميں معلوم ہوجائے کہ بوقت طلاق حاملہ تھی تو احتياط واجب کی بنا پر اسے دوبارہ طلاق دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٠ اگر ایسی عورت سے ہم بستری کرے جو حےض ونفاس سے پاک ہو اور پھر غائب ہوجائے مثلاً سفر کرے تو اگر سفر ميں اسے طلاق دینا چاہے اور اس کی حالت کے بارے ميں اطلاع حاصل نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ ایک مهينہ صبر کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧١ اگر مرد اپنی ایسی بیوی کو طلاق دینا چاہے جسے پيدائشی طور پر یا کسی عارضی وجہ سے حےض نہ آتا ہو تو جب سے اس نے اس عورت سے ہمبستری کی ہے تین ماہ تک اس سے ہم بستری کرنے سے اپنے آپ کو روکے رکھے اور اس کے بعد اس کو طلاق دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٢ ضروری ہے کہ طلاق صحيح عربی صيغے اور لفظ ”طالق“ سے پڑھی جائے اور دو عادل مرد اسے سنيں اور اگر شوہر خود صيغہ طلاق جاری کرنا چاہے اور اس کی بیوی کا نام مثلا فاطمہ ہو تو یوں کهے ”زَوْجَتِیْ فَاطِمَةُ طَالِقٌ“ یعنی میر ی بیوی فاطمہ آزاد ہے اور اگر کسی دوسرے کو وکيل کرے تو وہ وکيل کهے ”زَوْجَةُ موَکِّلِی فَاطِمَةُ طَالِقٌ“ اور جب عورت معين ہو تو نام ذکر کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٣ جس عورت کے ساته متعہ کيا گيا ہو مثلاً ایک ماہ یا ایک سال کے لئے اس سے عقد کيا گيا ہو تو اس کی طلاق نہيں ہے اور اس کی جدائی اس طرح ہے کہ یا مدت تمام ہوجائے یا مرد اسے مدت بخش دے مثلاً کهے ميں نے تجهے مدت بخشی اور گواہ قرار دینا اور عورت کا حےض و نفاس سے پاک ہونا لازم نہيں ہے ۔

طلاق کی عدت

مسئلہ ٢ ۵ ٧ ۴ نو سال سے کم عمر عورت اور یائسہ عورت کی کوئی عدت نہيں ہے ، یعنی اگرچہ شوہر نے اس سے ہم بستری کی ہو وہ طلاق کے فوراً بعد ہی کسی سے شادی کرسکتی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧ ۵ جس عورت کی عمر نو سال ہوگئی ہو اور وہ یائسہ بھی نہ ہو اگر اس کا شوہر اس سے ہم بستری کرے اور طلاق دے دے تو طلاق کے بعد ضروری ہے کہ عدت رکھے اور ایسی آزاد عورت کی عدت جو مستقےم اور متعارف طریقے پر حےض دےکهتی ہو یعنی ایسی عورت نہيں ہے جو تین یا چار مهينے ميں ایک بار حےض دےکهتی ہے ، یہ ہے کہ جب وہ طهارت کے عالم ميں ہو اور

۴۱۴

اس پاکی کے دوران اس کے شوہر نے اس سے ہمبستری نہ کی ہو اور اس پاکی ميں ہی طلاق دے دے جب کہ وہ طلاق کے بعد بھی چاہے ایک لمحہ ہی سهی، پاک رہی ہو، تو اس کی عدت يہ ہے کہ اتنا صبر کرے کہ دوبارہ حےض دےکهنے کے بعد پاک ہوجائے اور جےسے ہی تےسرا حےض دےکهے اس عورت کی عدت تمام ہوجائے گی۔ لہٰذا اب وہ نکاح کرسکتی ہے ليکن اگر اس سے نزدےکی کئے بغير طلاق دی ہو تو عدت نہيں ہے یعنی وہ فوراً نکاح کرسکتی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧ ۶ جس عورت کو حےض نہ آتا ہو اور اس کی عمر ان عورتوں کی عمر ہو جن کو حےض آتا ہے تو اگر اس کا شوہر ہم بستری کرنے کے بعد اس کو طلاق دے تو ضروری ہے کہ طلاق سے تین مهينے تک عدت رکھے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٧ جس عورت کی عدت تین ماہ ہو اگر اسے ابتدائے ماہ ميں ہی طلاق دی جائے تو تین قمری مهينے یعنی جب سے چاند نظر آیا ہے اس وقت سے لے کر تین ماہ تک عدت رکھے اور اگر مهينے کے درميان اسے طلاق ہوئی ہو تو مهينے کے باقی ایام، اس کے بعد دو مهينے اور اس کے علاوہ جتنے دن پهلے ماہ سے کم تهے اتنے چوتھے مهينے سے گذارے اور احتياط واجب کی بنا پر چوتھے مهينے اتنے دن عدت رکھے کہ ان کامجموعہ پهلے مهينے کے ناقص دنوں کے ساته تےس ہوجائے،مثلا بےسویں دن غروب کے وقت طلاق دے اور يہ مهينہ انتےس دن کا ہو تو ضروری کہ اس ماہ کے باقی نو دن، اس کے بعد دو ماہ اور پھر چوتھے مهينے کے بےس اور احتياط واجب کی بنا پرچوتھے مهينے کے اکےس دن عدت ميں گذارے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٨ اگر حاملہ عورت کو طلاق دی جائے اور اس کا بچہ زنا سے نہ ہو تو اس کی عدت بچہ پيدا ہونا یا ساقط ہونا ہے ۔ لہٰذا اگر مثلاً طلاق کے ایک گهنٹہ بعد اس کا بچہ پيدا ہو تو اس کی عدت تمام ہوجائے گی۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٩ جس عورت کی عمر نو سال ہوجائے اور وہ یائسہ نہ ہو اور اس کا مثلاً ایک ماہ یا ایک سال کے لئے متعہ ہوجائے تو اگر اس کا شوہر اس سے ہم بستری کرلے اور اس کی مدت پوری ہوجائے یا شوہر اسے مدت بخش دے تو ضروری ہے کہ دو حےض کی مقدار ميں عدت رکھے اور نکاح نہ کرے اور حےض نہ آتا ہو تو پینتالےس روز عدت رکھے اور اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت يہ ہے کہ بچہ پيداہوجائے یا ساقط ہوجائے اور احتياط مستحب يہ ہے کہ بچہ جننے اور پینتالےس دن ميں سے جو زیادہ ہو اتنی مدت تک عدت ميں رہے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨٠ طلاق کی عدت اس وقت شروع ہوتی ہے جب طلاق کا صيغہ مکمل ہوجائے چاہے عورت کو معلوم ہو کہ اسے طلا ق ہوئی ہے یا معلوم نہ ہو۔ لہٰذا اگر عدت تمام ہونے کے بعد اسے معلوم ہو کہ اسے طلاق دے دی گئی تھی تو ضروری نہيں ہے کہ دوبارہ عدت رکھے۔

۴۱۵

اس عورت کی عدت جس کا شوهر مر گيا ہو

مسئلہ ٢ ۵ ٨١ جس عورت کا شوہر مر گيا ہو اگر حاملہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ چار مهينے دس دن عدت رکھے یعنی نکاح کرنے سے گرےز کرے چاہے اس کے شوہر نے اس سے نزدےکی کی ہو یا نہ کی ہو اور چاہے نابالغ ہو یا بالغ ہو اور چاہے یائسہ ہو یا یائسہ نہ ہو اور چاہے اس کا عقد نکاح دائمی ہو یا موقت ہو۔اور اگر حاملہ ہو تو ضروری ہے کہ بچہ متولد ہونے تک عدت رکھے، ليکن اگر چار ماہ اور دس دن گزرنے سے پهلے ہی اس کا بچہ متولد ہوجائے تو ضروری ہے کہ شوہر کی وفات سے چار مهينے دس دن تک عدت رکھے۔اور اسے وفات کی عدت کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨٢ آزاد عورت جو عدہ وفات ميں ہو اس پر بدن اور لباس ميں زینت حرام ہے مثلا سرمہ لگانا،عطر استعمال کرنا اور رنگین لباس پهننا۔ البتہ یہ حکم نابالغ اور پاگل عورت پر نہيں ہے اور ولی پر انہيں روکنا واجب نہيں ہے اور جس عورت سے متعہ کيا گيا ہو اور اس کی مدت دو دن یا اس سے کم ہو اس پر زینت کرنا حرام نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨٣ اگر عورت کو یقین ہو کہ شوہر مر گيا ہے اور وہ عدت پوری کرنے کے بعد نکاح کرے پھر معلوم ہو کہ اس کا شوہر بعد ميں مرا تھا تو ضروری ہے کہ دوسرے شوہر سے جدا ہوجائے اور حاملہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر بچہ پيدا ہونے تک جو طلاق کی عدت ہوتی ہے ، دوسرے شوہر کے لئے طلاق کی عدت رکھے اور اس کے بعد پهلے شوہر کے لئے وفات کی عدت رکھے جبکہ اگر حاملہ نہ ہو تو پهلے شوہر کے لئے عدت وفات اور بعد ميں دوسرے شوہر کے لئے وطی بالشبهہ کی عدت رکھے جو کہ طلاق کی عدت کی طرح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ۴ وفات کی عدت کی ابتدا اس وقت سے ہوتی ہے جب عورت کو شوہر کے مرنے کی اطلاع ملے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ۵ اگر عورت کهے کہ اس کی عدت مکمل ہوگئی ہے تو اس کی بات قبول کی جائے گی بشرطیکہ طلاق یا شوہر کے مرنے کے بعد اتنا عرصہ گزرگيا ہو کہ جس عرصہ ميں عدت کا مکمل ہونا ممکن ہو۔

طلاق بائن اور طلاق رجعی

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ۶ طلاق بائن وہ طلاق ہے جس ميں مرد اپنی بيوی کو طلاق دینے کے بعد رجوع کرنے کا حق نہيں رکھتا ہے یعنی اسے عقد نکاح کے بغير اپنے پاس پلٹا نہيں سکتا ہے اور اس کی پانچ قسميں ہيں :

١) اس عورت کی طلاق جس کے نو سال مکمل نہ ہوئے ہوں ٢) یائسہ عورت کی طلاق ٣) اس عورت کی طلاق جس کے شوہر نے نکاح کے بعد اس سے نزدےکی نہ کی ہو ۴) اس عورت کی تےسری طلاق جسے تین دفعہ طلاق دی گئی ہو ۵) طلاق خلع و مبارات ان کے احکامات بعد ميں ذکر ہوں گے اور ان کے علاوہ طلاق رجعی ہے یعنی جب تک عورت عدت ميں ہے اس کا شوہر رجوع کرسکتا ہے ۔

۴۱۶

مسئلہ ٢ ۵ ٨٧ جس نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دی ہو اس پر حرام ہے کہ اسے اس گھر سے نکالے جس ميں طلاق کے وقت موجود تھی ليکن بعض صورتوں ميں جےسے فحاشی اور عورت کے زنا کرنے کی صورت ميں اسے گھر سے باہر نکالنے ميں اشکال نہيں ہے اور عورت پر بھی حرام ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغير غیر ضروری کاموں کے لئے گھر سے باہر نکلے۔

رجوع کرنے کے احکام

مسئلہ ٢ ۵ ٨٨ طلاق رجعی ميں مرد دو طرح سے اپنی بیوی کی طرف رجوع کرسکتا ہے :

١) کوئی ایسا لفظ کهے کہ جس سے اس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ اسے اپنی زوجيت ميں پلٹا رہا ہے نہ يہ کہ خبردے کہ اس نے اسے اپنی زوجيت ميں پلٹا ليا ہے ۔

٢) رجوع کے قصد سے کوئی ایسا کام کرے جس سے معلوم ہوجائے کہ اس نے رجوع کرليا ہے جےسے چھونا اور بوسہ لینا۔اور نزدےکی کرنے سے بھی رجوع متحقق ہوجاتا ہے اور اگر چہ قصد رجوع سے نہ ہو۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨٩ رجوع کرنے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ مرد گواہ رکھے ليکن گواہ رکھنا افضل ہے اور اسی طرح عورت کو بھی خبر دینا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر کسی کے علم ميں لائے بغير رجوع کرے تب بھی اس کا رجوع صحيح ہے اور اگر دعویٰ کرے کہ ميں نے رجوع کرليا ہے تو اگر عدت ميں ہو تو ثابت کرنا لازم نہيں ہے اور اگر عدت تمام ہونے کے بعد ہو تو ضروری ہے کہ ثابت کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩٠ جس مرد نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دی ہو اگر بیوی سے مال لے کر اس بات پر صلح کرلے کہ رجوع نہيں کرے گا تو واجب ہے کہ صلح کی قرارداد کے مطابق عمل کرے، ليکن اگر رجوع کرے تو رجوع صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩١ اگر آزاد عورت کو دو مرتبہ طلاق دے اور ہر مرتبہ رجوع کرے یا اسے دو مرتبہ طلاق دے کر ہر مرتبہ اس سے عقد کرے یا ایک طلاق کے بعد رجوع اور دوسری کے بعد عقد کرے تو تےسری طلاق کے بعد عورت اس پر حرام ہوجائے گی ليکن اگر تےسری طلاق کے بعد کسی اور مرد سے نکاح کرے تو چند شرائط کے ساته پهلا شوہر حلال ہوجائے گا یعنی اب اس سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے اور وہ شرائط درج ذیل ہيں :

١) دوسرے شوہر کے ساته عقد دائمی کرے اور اگر مدت والا عقد(متعہ) کرے مثلاً ایک مهينہ یا ایک سال کے لئے عقد کرے اور اس سے جدا ہوجائے تو پهلاشوہر اس سے عقد نہيں کرسکتا ہے ۔

٢) دوسرا شوہر اس کے ساته آگے سے نزدےکی کرے اور اس طرح دخول کرے کہ دونوں جماع کی لذت محسوس کریں۔

٣) دوسرا شوہر اسے طلاق دے یا مر جائے۔

۴۱۷

۴) دوسرے شوہر کی عدت طلاق یا عدت وفات تمام ہوجائے۔

۵) احتياط واجب کی بنا پر دوسرا شوہر بالغ ہو۔

طلاق خلع

مسئلہ ٢ ۵ ٩٢ جس عورت کو اپنے شوہر سے کراہت ہو اور خوف ہو کہ وہ اس کے واجب حقوق کی رعایت نہ کرسکے گی اور حرام ميں مبتلا ہوجائے گی اور وہ اپنے شوہر کو مہر یا کوئی دوسرا مال بخشے کہ وہ اسے طلاق دے دے تو اس طلاق کو طلاق خلع کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩٣ اگر شوہر خود طلاق خلع کا صيغہ پڑھنا چاہے تو مثلاً اگر اس کی بیوی کا نام فاطمہ ہو تو ما ل لینے کے بعد کهے: ”زَوْجَتِی فٰاطِمَةُ خَلَعْتُهٰا عَلٰی مٰا بَذَلَتْ “ یعنی میر ی بیوی فاطمہ کو اس مال کے بدلے جو اس نے دیا ہے طلاق خلع دیتاہوں۔

اور احتياط مستحب کی بنا پر خلع پر مشتمل جملے کے بعد ”هِیَ طَالِقٌ“ بھی کهے، البتہ بیوی معين ہونے کی صورت ميں نام لینا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩ ۴ اگر عورت کسی کو وکيل کرے کہ اس کا مہر شوہر کو بخشے اور شوہر بھی اسی کو وکيل بنائے کہ اس کی بيوی کو طلاق دے تو اگر مثلاً شوہر کا نام محمد اور بیوی کا نام فاطمہ ہو تو وکيل طلاق کا صيغہ اس طرح پڑھے: ”عَنْ مُوَکِّلَتِی فاٰطِمَةَ بَذَلَتُ مَهْرہا لِمُوَکِّلِی مُحَمَّدٍ لِےَخْلَعَهَا عَلَيہ“ اور اس کے بعد فوراً بعد احتيا ط کی بنا پر موالات عرفی ختم ہونے سے پهلے کهے: ”زَوْجَةُ مُوَکِّلِی خَلَعْتُهَا عَلیٰ مَا بَذَلَتْ“ اور اگر عورت کسی کو وکيل کرے کہ مہر کے علاوہ کوئی چيز شوہر کو بخشے تاکہ وہ طلاق دے تو ضروری ہے کہ وکيل”مَهْرہا “ کے لفظ کے بجائے اس چيز کو ذکر کرے، مثلاً اگر ہزار روپے دئے ہوں تو ضروری ہے کہ کهے: ”بَذَلْتُ اَلْفَ رُوْبِيَةٍ“

طلاق مبارات

مسئلہ ٢ ۵ ٩ ۵ اگر مياں بیوی دونوں ایک دوسرے سے کراہيت رکھتے ہوں اور بیوی مرد کو طلاق دینے کے لئے مال دے تو اس طلاق کو مبارات کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩ ۶ اگر شوہر مبارات کا صيغہ جاری کرنا چاہے اور مثلاً ا س کی بیوی کا نام فاطمہ ہو تو کهے: ”بَارَا تُْٔ زَوْجَتِیْ فَاطِمَةَ عَلٰی مَا بَذَلَتْ فَهِیَ طَالِقٌ“ یعنی ميں اور میر ی بیوی فاطمہ اس مال کے بدلے ميں جو اس نے مجھے دیا ہے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہيں تو وہ آزاد ہے ، اور اگر کسی اور کو وکيل کرے تو ضروری ہے کہ وکيل کهے ”بَارَا تُْٔ زَوْجَةَ مُوَکِّلِیْ فَاطِمَةَ عَلٰی مَا بَذَلَتْ فَهِیَ طَالِقٌ “ یا کهے: ”عَنْ قِبَلِ مُوَکِّلِیْ بَارَا تُْٔ زَوْجَتَهُ فَاطِمَةَ عَلیٰ مَا بَذَلَتْ فَهِیَ طَالِقٌ “ اور ذکر کئے گئے صيغوں ميں ”فَهی طَالِقٌ“ کو ذکر کرنے کا لزوم احتياط واجب کی بنا پر ہے اور اگر ”عَلیٰ مَا بَذَلَتْ “ کے بجائے ”بِمَا بَذَلَتْ “کهے تو بھی کوئی حرج نہيں ہے ۔

۴۱۸

مسئلہ ٢ ۵ ٩٧ ضروری ہے کہ طلاق خلع و مبارات کے صيغے صحيح عربی ميں پڑھے جائيں، ليکن اگر عورت شوہر کو اپنا مال بخشنے کے لئے اردو ميں کهے: ”ميں نے طلاق حاصل کرنے کے لئے فلاں مال تمہيں بخش دیا“ تو کوئی حرج نہيں ہے اور اگر مرد عربی ميں طلاق نہ دے سکتا ہو تو احتياط واجب ہے کہ وکيل کرے اور اگر وکيل بھی نہ کرسکتا ہو تو جس لفظ سے بھی جو عربی صيغے کے مترادف ہو طلاق خلع یا مبارات دے، صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩٨ اگر عورت طلاقِ خلع کی عدت کے دوران اپنا مال واپس مانگ لے تو شوہر رجوع کرسکتا ہے اور عقد کے بغير اسے دوبارہ اپنی زوجہ بنا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩٩ شوہر جو مال طلاق مبارات کے لئے ليتا ہے ضروری ہے کہ مہر سے زیادہ نہ ہو ليکن اگر طلاق خلع ميں مهرسے زیادہ ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

طلاق کے متفرق احکام

مسئلہ ٢ ۶ ٠٠ اگر نا محرم عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر اس سے نزدےکی کرے تو ضروری ہے کہ عورت عدت رکھے چاہے عورت کو معلوم ہو کہ اس کا شوہر نہيں ہے یا گمان ہو کہ اس کا شوہر ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠١ اگر ایسی عورت سے زنا کرے جس کے بارے ميں معلوم ہو کہ وہ اس کی بیوی نہيں ہے تو اس کے لئے عدت رکھنا ضروری نہيں ہے ، چاہے اسے معلوم ہو کہ يہ میر ا شوہر نہيں ہے یا گمان ہو کہ شوهرہے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٢ اگر کوئی مرد کسی عورت کو دهوکہ دے کر اپنے شوہر سے طلاق دلوائے اور وہ عورت اس کی بیوی بن جائے تو طلاق اور عقد صحيح ہيں ليکن دونوں نے گناہ عظےم کيا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٣ جب بھی عورت عقد کے ضمن ميں شوہر سے شرط کرے کہ اگر شوہر سفر پرجائے یا چھ مهينے تک اسے خرچہ نہ دے تو اس کو طلاق کا حق حاصل ہوگا تو يہ شرط باطل ہے ليکن اگر شرط کرے کہ اگر شوہر سفر پر جائے یا چھ مهينے کا خرچہ نہ دے تو اس کی جانب سے بیوی اپنی طلاق کے لئے وکيل ہوگی اور کيفيت یہ ہو کہ طلاق مشروط ہو، وکالت مشروط نہ ہو تو شرط صحيح ہے اور جب شرط حاصل ہوجائے اور خود کو طلاق دے تو طلاق صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠ ۴ جس عورت کا شوہر گم ہوگيا ہو اگر وہ دوسرے شخص سے نکاح کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ عادل مجتهد کے پاس جائے اور اس کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠ ۵ جو شخص دائمی پاگل ہو اس کے باپ اور دادا مصلحت کا خيال رکھتے ہوئے اس کی بیوی کو طلاق دے سکتے ہيں ۔

۴۱۹

مسئلہ ٢ ۶ ٠ ۶ باپ اور دادا اپنے نابالغ بچے کی دائمی بیوی کو طلاق نہيں دے سکتے ہيں اور اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ بچے کا کسی عورت سے متعہ کریں تو بچے کی مصلحت کا خيال رکھتے ہوئے اس عورت کی مدت بخش سکتے ہيں اگرچہ بچے کے بالغ ہونے کا کچھ زمانہ متعہ کی مدت کا ہو جےسے چودہ سالہ بچے کا کسی عورت سے دو سال کے لئے متعہ کيا گيا ہو۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٧ اگر مرد کے لئے شریعت کے معين کردہ طریقے سے دو افراد کی عدالت ثابت ہو جائے اور ان کے سامنے عورت کو طلاق دے تو جس شخص کے نزدےک ان کی عدالت ثابت نہ ہو وہ شخص بھی عدت تمام ہونے کے بعد اس عورت سے اپنا یا کسی اور کا عقد کرسکتا ہے ،اگرچہ احتياط مستحب يہ ہے کہ وہ اس عورت سے نکاح نہ کرے اور نہ ہی کسی اور کے ساته اس کا نکاح کروائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٨ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بتائے بغير طلاق دے تو اگر اس کا خرچہ اسی طرح دیتا رہے جےسے اس کے بیوی ہوتے وقت دیتا تھا اور مثلاً ایک سال کے بعد کهے کہ ميں ایک سال پهلے تجهے طلاق دے چکا ہوں اور شرعاً ثابت بھی کردے تو جس عرصہ ميں وہ اس کی بیوی نہيں تهی، اس عرصہ ميں دیا ہوا نفقہ اگر عورت نے استعمال نہ کيا ہو تو اس کا مطالبہ کرسکتا ہے ليکن وہ چيزیں جو يہ استعمال کرچکی ہے ان کا مطالبہ نہيں کرسکتا۔

غصب کے احکام

غصب يہ ہے کہ انسان ظلم کرتے ہوئے کسی کے مال یا حق پر مسلط ہوجائے۔ ایسا کرنا بڑے گناہوں ميں سے ہے کہ اگر کوئی انجام دے تو قيامت کے دن سخت عذاب ميں مبتلا ہوگا۔پیغمبر اکرم(ص) سے مروی ہے کہ جو بھی کسی سے ایک بالشت زمين غصب کرے تو اس زمين کو اس کے سات طبقوں کے ساته طوق کی مانند اس کی گردن ميں ڈال دیا جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٩ اگر انسان عام لوگوں کے لئے بنائی گئی مسجد،مدرسہ،پل اور دوسری جگہوں سے لوگوں کو استفادہ نہ کرنے دے تو اس نے ان کا حق غصب کياہے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب کوئی شخص مسجد ميں اپنے لئے کسی جگہ کا انتخاب کرے اور دوسرا شخص اسے اس جگہ سے استفادہ نہ کرنے دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٠ جو شخص کوئی چيز قرض خواہ کے پاس گروی رکھواتا ہے ضروری ہے کہ وہ چيزاسی کے پاس رہے تاکہ قرضہ ادا نہ کرنے کی صورت ميں وہ اپنا قرضہ اس سے حاصل کرلے، لہٰذا اگر قرضہ ادا کرنے سے پهلے اس سے وہ چيز چھین لے تو اس نے اس کا حق غصب کيا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١١ جو مال کسی کے پاس گروی رکھا گيا ہو اگر کوئی تےسرا شخص اسے غصب کرلے تو اس چيز کا مالک اور قرض خواہ دونوں ہی غصب کرنے والے سے اس چيز کا مطالبہ کرسکتے ہيں ۔ اب اگر وہ چيز ا س سے لے ليں تو پھر بھی وہ گروی ہی رہے گی اور اگر وہ چيز تلف ہوگئی ہو اور اس کا معاوضہ ليں تو وہ معاوضہ بھی اس چيزکی طرح گروی رہے گا۔

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511