توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207687 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بصرہ كو فتح نصيب ہوئي اخر كا ر صلح كے بعد ختم ہوئي _

۲_ لشكر عائشه نے معاہدہ صلح روند ڈالا ، ايك انتہائي تاريك رات ميں مسجد ، بيت المال اور دار الامارہ پر حملہ كر كے ايك دوسرى جنگ شروع كى اس موقع پر لشكر عائشه كو فتح ملى ، اس طرح حضرت علىعليه‌السلام كے گورنر كو بصرہ سے نكال بصرہ پر قبضہ كر ليا گيا _

۳_ حكيم بن جبلہ نے جو بصرہ كے مشہور بزرگ تھے ،جب لشكر عائشه كى زيادتى اور معاہدہ شكنى سنى تو اپنے قبيلے والوں كے ساتھ ان سے جنگ پر تيار ہو گئے ، اس طرح تيسرى جنگ شروع ہوئي ، اس ميں بھى بظاہر لشكر عائشه كو فتح ملى ، حكيم بن جبلہ كے قتل ہونے پر اس جنگ كا خاتمہ ہوا _

۴_ ايك دوسرى جنگ اور ہوئي جسے اخرى اور سب سے بڑى جنگ جمل كہنا چاہيئے ، يہ جنگ اس وقت شروع ہوئي جب حضرت علىعليه‌السلام بصرہ ميں وارد ہوئے ، اس جنگ ميں لشكر عائشه كو بد ترين شكست كا سامنا كرنا پڑا _

اس جنگ ميں عام دستور كے مطابق پر چم نہيں تھا ، ان كا پرچم وہى عائشه كا اونٹ تھا(۵) جو لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، اسكى حركت سے عائشه كى فوج ميں روح اور توانائي دوڑ جاتى تھى ، جب تك وہ اونٹ كھڑا رہا ، فوج عائشه ميں ذرا بھى كمزور ى اورضعف نہيں ديكھا گيا ، بغير كسى خوف و ہراس يااضطراب كے لشكر على سے جنگ كرتا رہا ، عائشه اس اونٹ پر سوار تھيں اور فوج كو احكامات صادر كر رہى تھيں ، حملہ كرنے كا حكم دے رہى تھيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ صورتحال ديكھى تو آپ نے بھى عمامہ مشكى(۶) كو سر پر ركھا اور اپنے لشكر كو تيار ہونے كا حكم ديا ، پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ :ميرے بابا على نے جنگ جمل ميں علم ميرے حوالے كيا ، آپ نے مجھے حملہ كرنے كا حكم ديا ، ميں نے قدم اگے بڑھايا ليكن اپنے سامنے لوہے ، نيزوں اور تلواروں كى ديوار ديكھى تو قدم رك گئے ، ميرے بابا نے دوبارہ مجھ سے فرمايا ، تيرى ماں تجھ پر روئے ، اگے بڑھ ، ميں نے پلٹ كر خدمت ميں

____________________

۵_ تاريخ بن اعثم ص۱۷۶ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ج۲ ص۸۱ ، اس فرق كے ساتھ كہ ابن ابى الحديد عا ئشہ كے اونٹ كو پرچم بتاتے ہيں ليكن ابن اعثم خود عاشئہ كو پرچم اور ان كے اونٹ كو علمدار لشكر قرار ديتے ہيں

۶_ يہ وہى عمامہ ہے جسے رسول خدا نے حضرت على كو عطا فرماياتھا ، اسكا نام سحاب تھا ، اس كے بارے ميں زيادہ توضيح مولف كى كتاب عبد اللہ بن سبا ميں ديكھى جا سكتى ہے

۱۲۱

عرض كى ، كيسے اگے بڑھوں ، كيونكہ لوگوں نے ميرے سامنے نيزوں اور تلواروں كى ديوار كھڑى كر ركھى ہے _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ: ابھى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ كسى نے اس تيزى سے جھپٹ كر ميرے ہاتھ سے پرچم لے ليا كہ اسے پہچان بھى نہ سكا ادھر ادھر ديكھا تو يكبارگى متوجہ ہوا كہ پرچم ميرے بابا على كے ہاتھ ميں ہے ، فوج كے اگے اگے سپاہ دشمن پر حملہ كر رہے ہيں اور يہ رجز پڑھ رہے ہيں _

اے عائشه ميرى نيكياں اور پچھلے سلوك نے تجھے مغرور بنا ديا ہے ، يہاں تك كہ تو مجھ سے بغاوت پر امادہ ہو گئي _

عائشه مغرور مت ہو ، يہ لوگ جو تيرے اردگرد ہيں يہ تيرے دشمن ہيں جو دوستى كے لباس ميں ہيں _

عائشه تيرے لئے موت اور سر افگندگى اس سے بہتر ہے كہ تو مسلمانوں اور اپنے بيٹوں كے درميان جنگ اور خونريزى بھڑكا رہى ہے(۷)

كہانى كعب بن سور كى عائشه كے اولين لجام بردار

(اونٹ كى لجام كعب كے ہاتھ ميں )

جيسا كہ ميں نے بيان كيا ، عائشه كى فوج كا پرچم ا ن كا اونٹ تھا جو بھى ا س كى لجام تھام ليتا وہ لشكر كا علمدار سمجھا جاتا ، وہ اپنے اس عہدے پر فخر و ناز كرتا ، اسے عظيم مرتبہ سمجھتا _

يہ منصب سب سے پہلے قاضى بصرہ كعب بن سور كو ملا(۱) ،جنگ شروع ہوئي اور بتدريج گرم تر ہوتى گئي ، اس موقع پر كعب بن سور نے قران گردن ميں حمائل كئے ، ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ہاتھ ميں اونٹ كى لجام تھامے ايك عجيب اور مضحكہ خيز حالت ميں لشكر كے اگے اگے چلنے لگے ، اتفاقا كسى نامعلوم شخص كا تير انھيں لگا اسى تير سے وہ لڑہك گئے ، اسطرح عائشه كے پہلے لجام بردار يا يوں كہا جائے كہ اولين علم بردار اپنے خون ميں نہا كر جان جان افريں كے سپردكر بيٹھے _

____________________

۷_ انت الذى قد غرك منى الحسنا

يا عيش ان القوم قوم اعدا

والخفض خير من قتال الابنا

۱۲۲

كعب بن سور كون ہے ؟

كعب بن سور(۸) خليفہ دوم عمر كے زمانے ميں قاضى بصرہ ہوئے ، وہ اس منصب پر جنگ جمل كے دن تك باقى رہے ، يہ ان لوگوں ميں تھے جنھيں جنگ جمل سے كوئي دلچسپى نہيں تھى ، نہ اسے صحيح سمجھتے تھے

جيسا كہ طبرى كا بيان ہے كہ: خود كعب كہتے تھے ، خدا كى قسم ، ميرا عقيدہ اس جنگ كے بارے ميں وہى ہے جو اس بڑھيا كا تھا جو اپنے بيٹے سے نصيحت كر رہى تھى ، بيٹے نہ لوگوں سے علحدہ رہو نہ اختلافات اور جنگوں ميں ان كا ساتھ دو _ ابن سعد يوں نقل كرتے ہيں كہ جب طلحہ و زبير و عائشه بصرہ ميں داخل ہوئے تو كعب بن سور نے جنگ اور فتنہ سے علحدگى اختيار كرنے كيلئے اپنے كو گھر كے اندر محصور كر ليا ، يہاں تك كہ كھانا پانى بھى روشندان سے پہونچايا جاتا تھا ، ا س طرح كعب بن سور نے عام لوگوں سے ملنا جلنا قطعى ختم كر ديا ، يہاں تك كہ لوگوں نے عائشه سے كہا كہ كعب بن سور كو حيرتناك معاشرتى اہميت حاصل ہے ،اگر وہ آپ كے ہم ركاب ہو كر جنگ ميں شركت كريں تو كئي ہزار افراد پر مشتمل قبيلہ ازد كى مدد بھى حاصل ہو جائے گى ، عائشه انكى حمآیت حاصل كرنے كيلئے ان كے گھر گئيں تاكہ اس بارے ،ميں بات كريں ، ليكن كعب نے خاطر خواہ جواب نہيں ديا ، عائشه نے اصرار كيا اور حد سے زيادہ منت سماجت كى ، يہاں تك كہ كہہ ديا كہ اے كعب كيا ميں تمھارى ماں نہيں ہوں ؟كيا تمھارى گردن پر ميرا حق مادرى نہيں ہے ؟الست امك ولى عليك حق عائشه كى جھنجھوڑنے والى باتوں سے كعب بہت زيادہ متاثر ہوئے اور عائشه كى موافقت و حمآیت پر امادہ ہو گئے_

____________________

۸_ كعب بن سور قبيلہ ازد كى فرد تھے زمانہ رسول ميں اسلام قبول كيا ليكن انحضرت كى صحبت نہيں پائي ، استيعاب ميں ہے ، ايك دن كعب عمر كے پاس بيٹھے تھے كہ ايك عورت نے ا كر كہا ، اے عمر ميرا شوھر دنيا كا سب سے بڑاعابد و زاہد ہے وہ رات بھر عبادت كرتا ہے ، اور دن بھر روزے ركھتا ہے ، عمر نے يہ سنكر اسكے شوھر كى تعريف كى اور اسكے لئے مغفرت طلب كى ، عورت كو شرم ائي كہ اس سے واضح اپنى بات كہے اور اندرونى بات بيان كرے ،كعب نے عمر سے كہا ، اے خليفہ وہ عورت آپ كے پاس اسلئے نہيں ائي تھى كہ آپ كى خوشنودى حاصل كرے اسكا مقصد تھا كہ وہ نماز روزے كرتا ہے ، اور حق زوجيت ادا نہيں كرتا ، عمر نے كعب كى بات سنى تو چونك پڑے حكم ديا عورت كو حاضر كيا جائے ، تحقيق سے معلوم ہوا كہ اس عورت كا مقصد يہى تھا ، انھوں نے كعب كى معاملہ فہمى ديكھ كر اس عورت كا فيصلہ انھيں كے حوالے كر ديا ، كعب نے كہايہ مرد اپنے اوقات چار حصوں ميں بانٹ دے ، ايك حصہ اپنے بيوى بچوں سے مخصوص كر ے ، بقيہ اوقات عبادت اور دوسرے كاموں ميں صرف كرے ، اس فيصلے سے عمر كو بڑى حيرت ہوئي اسى لئے شھر بصرہ كا انھيں جج بنا ديا ، يہاں تك كہ وہ جنگ جمل كے دن قتل ہوئے

۱۲۳

ابن سعد نے اس شخص كا نام نہيں بتايا ہے جس نے عائشه كو كعب سے ملاقات پر ابھارا ، ليكن عظيم شيعہ عالم شيخ مفيد نے اس پيشكش كى نسبت طلحہ و زبير كى طرف دى ہے _

ان كا بيان ہے كہ: منجملہ ان قبائل كے جنھوںنے طلحہ وزبير كى بيعت نہيں كى ، ايك قبيلہ ازد بھى تھا ، كيونكہ كعب بن سور جو قاضى بصرہ اور قبيلہ ازد كا رئيس بھى تھا ، اس نے طلحہ و زبير كى بيعت نہيں كى قبيلہ ازد والوں نے كعب كى پيروى كرتے ہوئے انكى بيعت نہيں كى طلحہ و زبير نے كسى كو كعب كے پاس بھيجكر حمآیت كرنے كى درخواست كى ليكن كعب نے انكار كرتے ہوئے كہا :

اج ہمارا برتائو يہ ہو گا كہ دونوں لشكر سے علحدہ رہونگا ، نہ تمھارى حمآیت ميں اقدام كروں گا نہ مخالفت ميں اقدام كرونگا ، طلحہ و زبير نے كعب كى بات نہيں مانى _ انہوں نے باہم رائے قائم كى كہ ہميں كعب كو كو غير جانبدار نہيں رہنے دينا چاہئے ، انھيں اپنى حمآیت پر امادہ كرنا چاہئے ، تاكہ اسكى طاقت سے استفادہ كيا جاسكے ، اگر وہ علحدہ رہا تو قبيلہ از د كے تمام افراد علحدہ رہيں گے ، اسى وجہ سے طلحہ و زبير كعب كے گھر گئے اور ملاقات كى اجازت مانگى كعب نے انھيں اجازت نہيں دى ، طلحہ و زبير وآپس ہو كر عائشه كے پاس گئے اور ان سے اس خطرناك مسئلے كے بارے ميں سمجھا كر رائے دى كہ خود وہى جاكر اسكى حمآیت طلب كريں عائشه نے پہلے كعب كے يہاں جانا مناسب نہيں سمجھا اور ايك شخص كو بھيج كر ملاقات كے لئے بلايا ، كعب نے عائشه كى دعوت ٹھكرا دى اور ملاقات سے انكار كيا ، جب طلحہ و زبير نے يہ صورتحال ديكھى تو عائشه كو اس بات پر امادہ كيا كہ وہ خود ہى كعب كے گھر پر چليں _

انھوں نے كہا كہ: اے عائشه اگر كعب نے ہمارى حمآیت نہيں كى تو يہ بات طئے ہے كہ بصرہ كا سب سے بڑا قبيلہ ازد ہمارى حمآیت نہيں كر يگا ، اسكے سوا كوئي چارہ نہيں كہ آپ خود مركب پر سوار ہو كر ان كے گھر چليں ، شايد آپ كى حيثيت كے احترام سے متاثر ہو كر آپ كى پيشكش كو نہ ٹھكرائے _

طلحہ و زبير نے باتيں اتنى زيادہ كر ڈاليں اتنا اصرار كيا كہ عائشه مجبور ہو كر خچر پر سوار ہوئيں اور بہت سے معززين بصرہ گردا گرد كعب كے گھر كى طرف چليں ، عائشه نے وہاں پر كعب سے بہت زيادہ اصرار كے ساتھ ا س طرح بات كى كہ گوشہ خانہ كا شخص ميدان جنگ ميں كھنچ كر اگيا ، بلكہ اپنے لشكركا پرچم بردار بنا ليا _

مبرد نے كامل ميں لكھا ہے كہ: جنگ جمل كے دن كعب نے قران گردن ميں حمائل كر كے اپنے تين يا چار

۱۲۴

بھائيوں كے ساتھ لشكر عائشه ميں شموليت اختيار كى ، دل و جان سے جنگ كرتے كرتے قتل ہوئے انكى ماں لاش پر اكر يہ اشعار پڑھنے لگيں

يا عين جودى بدمع سرب

على فتية من خيار العرب

و مالهم غير حين النفو

س اى امير قريش غلب(۹)

اے انكھ ، بہت زيادہ انسو ئوں كى بارش كر ان جوانوں پر جو عرب كے بہت اچھے شہسوار تھے

ايسے جوان جنھيں يہ تميز نہيں تھى كہ اس جنگ ميں قريش كے دواميروں ميں سے كو ن فتحياب ہو گا _

على كامياب ہوں گے ، يا طلحہ اور اسكے ساتھى ؟

ان جوانوں كى ماں نے اپنے اشعار ميں يہ سمجھا نا چاہا ہے كہ كعب اور اسكے بھائي دل سے تو غير جانبدارتھے ليكن عائشه كے اصرار نے انھيں ميدان جنگ ميں گھسيٹا اور موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا

اونٹ كى لجام قريش كے ہاتھ ميں

جب كعب بن سور قتل ہوئے تو سب سے پہلے قريش نے بڑھكر لجام تھامى اور وہ اونٹ كے لجام بردار بن گئے ، انھيں ميں ابو جھل كا (نواسہ )عبدالرحمن بن عتاب بھى تھا ، اس نے لجام تھام لى اور اونٹ كو كھينچتا پھر رہا تھا ، اور جنگ كرتے ہوئے يہ رجز پڑھ رہا تھا _

ميں ہوں عتاب كا فرزند ، ميرى تلوار كا نام ولول ہے _

اس اونٹ كى راہ ميں قتل ہونا ميرے لئے باعث فخر اور مائيہ شرافت ہے

انا بن عتاب و سيفى ولول

والموت عند الجمل المجلل

____________________

۹_اس بات كى تمام باتوں كے حوالے ، طبرى ج۵ ص۲۱۹ ، استيعاب ص۲۲۱ ، اسد الغابہ ج۳ ص۲۴۲ _ اصابہ ج۳ ص۲۹۷ ، نہج البلاغہ ج۲ ص۸۱ ، طبقات بن سعد ج۷ ص۹۴ ، تاريخ جمل شيخ مفيد ص۱۵۶ ، كامل بن اثير ج۳ ص۲۴۲

۱۲۵

عائشه كے دوسرے لجام بردار عبد الرحمن نے اسطرح اپنے رجز سے لشكر والوں كو جانبازى پر ابھارا ، خود بھى شديد جنگ كى ، اس اونٹ اور اسكے سوار كى جان و دل سے مدافعت كى ، اسى درميان حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر نے اس پر حملہ كر كے ہاتھ بدن سے جدا كر ديا ، اور اس طرح وہ قتل ہو گيا _

عبد الرحمن كے بعد قريش كے ستّر ادميوں نے اونٹ كى لجام ہاتھ ميں تھامى اور سب نے جان دى ، جو بھى لجام تھامتا فوراًہى تير و تلوار سے موت كے گھاٹ اتر جاتا يا اسكے ہاتھ كٹ جاتے

اونٹ كى لجام بنى ناجيہ كے ہاتھ ميں

قريش كے بعد خاندان ناجيہ اگے بڑھا اور سبقت كر كے لجام تھام لى ، عائشه كا طريقہ يہ تھا كہ جو بھى لجام تھا متا اسے پہچاننے كے لئے سوالات كرتيں ، يہ كون ہے ؟كہاں كا رہنے والا ہے ، كس قبيلے سے ہے_

جب خاندان ناجيہ نے لجام تھامى تو عائشه نے پوچھا ، يہ كون لوگ ہيں كس قبيلے سے ہيں جنھوں نے لجام تھام لى ہے ،كہا گيا بنى ناجيہ ہيں عائشه نے انھيں تشويق دلاتے ہوئے كہا : صبر و استقامت دكھائو جم كر لڑو كيونكہ ميں تمہارے قبيلے ميں غيرت و شجاعت ديكھ رہى ہوں ،تم تو قريش سے ہو عائشه نے يہ جملہ اس حساس موقع پر اسلئے كہا كہ بنى ناجيہ كا قريش كے قبيلے سے ہونے كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض ماہرين انساب انھيں قبيلہ ء قريش سے نہيں مانتے(۱۰) دوسرے يہ كہ بنى ناجيہ كى قبيلہ قريش سے بيگانگى اس قبيلے كے لئے باعث ننگ تھى جس كى وجہ سے معاشرے ميں وہ بد نام تھے ، يہى وجہ تھى كہ

____________________

۱۰_ بنى ناجيہ كے قرشى ہونے پر علماء انساب ميں اختلاف ہے ، كچھ لوگ كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ كى ماں كا نام ناجيہ تھا ، ماں كے نام سے يہ خاندان مشھور ہوا ، ناجيہ بھى لوى بن غالب كے بھائي سامہ كى بيوى تھى ، اخر كا ر ناجيہ كا بآپ سامہ اختلاف كى وجہ سے مكہ سے چلا گيا ، بحرين ميں رہتا تھا وہيں سانپ نے كاٹ ليا اور وہ مر گيا ، كچھ دوسرے ماھرين كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ قريش سے نہيں ہيں كيونكہ ناجيہ اگر چہ سامہ بن لوى قرشى كى بيوى تھى ليكن سامہ اسكا لڑكا نہيں تھا ، اس نے دوسرے مرد بحرينى سے شادى كى تھى جسكا نام حارث تھا ، وہ بچپن ميں يتيم ہو گيا ، ناجيہ اسے ليكر مكہ اگئي اور كعب سے كہا يہ آپ كے بھائي كا بيٹا ہے ، كعب نے قبول كر ليا اتفاقا ايك بحرينى نے اكر سارا واقعہ بيان كيا تو حارث نے چچا كى مخالفت كى وجہ سے بحرين وآپس گيا ، اسى لئے وہ قريشى نہيں ہے اغاني--:۱۰/۲۰۳_۲۰۵، شرح نہج البلاغہ :۳/۱۲۰_ ۱۲۱

۱۲۶

موقع شناس عائشه نے اس حساس موقع پر انھيں قبيلہ قريش سے ہونے كا اقرار كر كے تشويق دلائي ، اور جانبدارى و فدا كارى كيلئے ابھارا ، اس قبيلے كے معززين نے لجام تھام كر اپنى جان دى _

لجام قبيلہ ازد كے ہاتھوں

خاندان ضبہ كے افرادنے ايك ايك كر كے لجام تھا مى اور قتل ہو تے گئے ان كے بعد قبيلہ ازد والے اگے بڑھے اور لجام شتر ہاتھ ميں لى ، عائشه نے معمول كے مطابق پوچھا ، تم لوگ كس قبيلے سے ہو ، انھوں نے كہا ہم ازد سے ہيں ، عائشه نے كہا :

عائشه نے کہان : _ ہاں ازدى ازاد مرد ہيںجو شدائد ميں صبر كرتے ہيں ، اس جملے كا بھى اضافہ كيا كہ جب تك بنى ضبہ تھے ميں اپنے لشكر ميں فتحمندى كے اثار محسوس كر رہى تھى ليكن اب ان كے بعد ميں فتح سے نا اميد ہو چكى ہو ں _

عائشه نے ان جملوں سے قبيلہ ازد كو بھڑكا يا تاكہ وہ دل و جان سے جنگ كريں _

قبيلہ ازد ميں سب سے پہلے لجام عمر و بن اشرف ازدى نے تھامى ، وہ ايسا بہادر تھا كہ جو بھى اسكے قريب اتا ايك ہى ضرب ميں قتل ہو جاتا ، وہ لوگوں كو ہيجان ميں لانے كيلئے رجز پڑھ رہا تھا _

اے اماں جان ، اے بہترين مادر كيا آپ نہيں ديكھ رہى ہيں كہ آپ كے سامنے كيسے كيسے بہادر اپنى شجاعت كا مظاہرہ كر رہے ہيں كيسے كيسے مردان عظيم آپ كے احترام ميں نيزہ و تلوار چلا رہے ہيں ، آپ كى راہ جسموں كى تلاش ہو رہى ہے ، ہاتھ جدا ہو رہے ہيں ، مغز اور كھوپڑياں اڑرہى ہيں

(يا امنا يا خير ام نعلم اما ترين كم شجاعاً يكلم و تختلى ها مته و المعصم )

اتفاقاً اسى درميان جبكہ ابن اشرف رجز خوانى ميں مصروف تھا اسكے چچيرے بھائي حارث بن زھرہ ازدى نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے نكل كر اس پر حملہ كيا ، يہ دونوں بھائي آپس ميں گتھ گئے دونوں ميں اتنى تلواريں چليں كہ زمين پر گر گئے ، ان دونوں كى طاقت ازمائي كى اتنى گرد اڑى كہ مطلع غبار الودہ ہو گيا ، يہاں تك كہ دونوں ہى مر گئے ،

اسطرح عائشه كى لجام پكڑے ہوئے_ عمرو بن اشرف كے ساتھ قبيلہ ازد كے تيرہ افراد نے ايك كے بعد ايك اپنى جان ديدى(۱۱)

____________________

۱۱_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱ ، طبرى ج۵ ص ۲۱۱ ، كامل ابن اثير ج۳ ص ۹۸

۱۲۷

ايك عجيب داستان

مشہور مورخ مدائنى ا س طرح لكھتا ہے :

راوى كا بيان ہے كہ: ميں نے بصرہ ميں ايسے شخص كو ديكھا جس كے كان كٹے ہو ئے تھے ، ميں نے اس سے كان ضائع ہو نے كى وجہ پوچھى ، اس نے جواب ميں كہا كہ ميں جنگ جمل ختم ہونے كے بعد مقتولوں كے درميان قريب سے تماشہ ديكھ رہا تھا _

اس ہنگام ميرى نظر ايك ايسے شخص پر پڑى جسكى سانس چل رہى تھى ، وہ اپنے بدن كو حركت ديتے ہوئے يہ اشعار پڑھ رہا تھا _

ہمارى ماں عائشه نے ہميں موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا ،جبكہ ہم انكے فرمان سے منھ نہيں پھرا رہے تھے ، اور جاں بازى كے ساتھ ان كے سامنے بڑھ بڑھ كے جنگ كر رہے تھے يہاں تك كہ ہم موت سے سيراب ہوئے _

ہم قبيلہ ضبہ والوں نے اپنى ماں كے سامنے ا س طرح رزم ارائي كى كہ ان كے ساتھيوں كو اور ان كو دوسروں كے حمآیت كى ضرورت نہيں رہى _

ہم پر افسوس ہے كہ بنى تيم كے مٹھى بھر افراد جو غلاموں اور كنيزوں كى طرح تھے ہم نے ايسے ذليلوں كى اطاعت كى _

لقد ر او دتنا حومة الموت امنا

فلم ننصرف الاونحن رواء

لقد كان عن نصر ابن ضبة امه

و شيعتها مندوحة و غناء

اطعنا بنى تيم ابن مرة شقو _ة

و هل تيم الا اعبد و اماء

وہ شخص نزع كے عالم ميں اسى طرح اشعار پڑھتا رہا ، ميں نے حيرت سے پوچھا، اے شخص كيا يہ وقت شعر گنگنانے كا ہے ؟زبان پر كلمہ توحيد اور شھادتين جارى كرو لاالہ الااللہ كہو _

۱۲۸

اس نے مجھے جواب ديا ، اے فاحشہ كے جنے تو كيا بك رہا ہے ، تو چاہتا ہے كہ موت كے وقت ميں اظہار بيچارگى كروں ؟

ميں اس سے علحدہ ہونا چاہتا تھا كہ اس نے كہا :

مجھے كلمہ شھادتين پڑھائو ، ميں اسے شھادتين پڑھانے كيلئے قريب ہوا تو جھپٹ كر اس نے ميرا كان دانتوں سے دبا ليا ، اور جڑ سے اكھاڑ ڈالا _

ميں درد سے چلانے لگا ، برا بھلا كہنے لگا لعن طعن كرنے لگا تو بولا ، اس لعن طعن سے فائدہ كيا ہے ؟

اگر تم اپنى ماں كے پاس جانا اور وہ پوچھے كہ كس نے تمھارى يہ گت بنائي ہے تو جواب دينا كہ عمير بن اہلب ضبى نے ، اسى عمير نے جو عائشه جيسى عورت كے فريب كا شكار ہوا جو حكومت پر قبضہ كر كے امير المومنين بننا چاہتى تھى(۱۲)

طبرى نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ: ايك دوستدار على كا بيان ہے كہ ميں نے ميدان جنگ ميں ايك زخمى شخص كو ديكھا جو اپنے خون ميںنہايا ہوا تڑپ رہا تھا ،وہ اپنى اخرى سانسيں گن رہا تھا ليكن اسى حال ميں اشعار بھى گنگنا رہا تھا ، ميرے اوپر اسكى نظر پڑى تو بولا ، ائو ذرا مجھے كلمہ شھادتين پڑھا دو ميں اسكے پاس پہونچا ، پوچھا كس شھر اور قوم سے تمھارا تعلق ہے ؟ميں نے كہا ، كوفے كا باشندہ ہوں _

بولا ذرا اپنا سر ميرے قريب لائو تاكہ تمھارى بات اچھى طرح سنوں ، ميں نے قريب كيا تو جھپٹ كر دانت سے ميرے كان پكڑ لئے اور اسے جڑ سے اكھاڑ ڈالا(۱۳)

رجز خوانياں

ابن ابى الحديد معتزلى نے مدائنى اور واقدى كے حوالے سے لكھا ہے كہ: معركہ ارائيوں كى تاريخ ميں جنگ جمل سے زيادہ كوئي ايسى جنگ نہيں ہے جسميں اس سے زيادہ رجز خوانياں ہوئي ہوں ، زيادہ تر رجز بنى ضبہ اور بنى ازد نے پڑھے ، يہ دونوں قبيلے مہار شتر تھامے ہوئے حمآیت ميں رجز پڑ ھكر دوسروں كو جنگ پر ابھاررہے تھے ،ا س كے چند

____________________

۱۲_ مروج الذھب در حاشيہ كامل ج۵ ص ۱۹۹ ، كامل بن اثير ج۳ ص ۱۰۰

۱۳_ طبرى ج۵ ص ۲۱۳

۱۲۹

نمونے ملاحظہ ہوں _ ابن ابى الحديد بحوالہ واقدى و مدائنى نقل كرتا ہے كہ لشكر بصرہ عائشه كے اونٹ كے گرد حلقہ كئے ہوا تھا سبھى باہم ايك اواز اور ايك اھنگ كے ساتھ نعرے لگا رہے تھے _

اے عائشه اے مادر مہربان اپنے دل ميں ذرا بھى خوف و ہراس پيدا نہ كيجئے ، كيونكہ ہم اپنى تمام توانائيوں اور فدا كاريوں كے ساتھ آپ كے اونٹ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں ، ہم اسے ہر قسم كے خطرے سے بچائيں گے _

اماں جان جب تك دنيا قائم ہے كوئي بھى ہميں اس اونٹ كے اطراف سے نہيں ہٹا سكتا ، نہ ہميں منتشر كر كے آپ كو اكيلا كر سكتا ہے _

اماں جان كون سى طاقت تمہيں نقصان پہونچا سكتى ہے حالانكہ جنگجو اور بہادر آپ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں_

قبيلہ ہمدان كے شجاع مردبہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں اورقبيلہ ازد كے بہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں ، جنھيں زمانے كى سختيوں اورمصائب نے كبھى ہراساں نہيں كيا ابن ابى الحديد نے اس رجز كو نقل كرنے كے بعد كہا ہے كہ لشكر بصرہ سے ايك بوڑھا ، خوش وضع اور خوبصورت نكلا جسكے بدن پر جبہ بھى تھا اس نے بڑے جو شيلے انداز ميں قبيلہ ازد سے خطاب كيا _

اے قبيلہ ازد كے لوگواپنى مادر مہربان عائشه كى مدد كرو كيونكہ يہى حمآیت تمھارى نماز روزہ ہے ، ان كى تمام حيثيت كا احترام تمھارے اوپر واجب ہے ، ان كے حريم كا دفاع كرنے ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر دينا چاہئے ايسا نہ ہو كہ دشمنوں كى ٹولى تمھارے اوپر فتح پاليں كيونكہ اگر دشمن نے تم پر فتح پا لى تو تمھيں قيدى بنا لے گا اور تمھارے اوپر ہر طرح كا ظلم و ستم ڈھائے گا ، اسوقت تمھارے بوڑھے مرد و عورت پر بھى رحم نہ كرے گا ،اے جواں مردو اے شہ سوارو ، اے قبيلہ ازد والو ، چوكنّا رہو كہيں اس جنگ ميں تم لوگوں كو شكست و

۱۳۰

ہزيمت كا منھ نہ ديكھنا پڑے(۱۴)

يا امنا يكفيك منا دنوه ---لن يوخذ الدهر الخطام عنوه

و حولك اليوم رجال شنوه ---وحى همدان رجال الهبوه

والما لكيون القليلوا الكبوة ---والازد حى ليس فيهم نبوه

يا معشر الازد عليكم امكم ---فانها صلاتكم و صومكم

والحرمة العظمى التى تعمكم ---فاحضروها جدكم و حزمكم

لا يغلبن سم العدو سمكم ---ان العدو ان علا كم زمكم(۱۴)

مدائنى اور واقدى نے اس رجز كے ذيل ميں اس نكتے كى بھى نشاندہى كى ہے كہ اس رجز كا مضمون طلحہ و زبير كے اس تاريخى تقرير كى تائيد كرتا ہے جسميں انھوں نے كہا تھا _

اے بصرہ والو _ چوكنا رہو كہ اگر علىعليه‌السلام تمھارے اوپر فتحمند ہوئے تو تمہيں مليا ميٹ اور پامال كر ڈاليں گے ، تم ميں سے كسى كو بھى زندہ نہيں چھوڑيں گے ، اپنا تحفظ كرو ، اگر علىعليه‌السلام تم پر كامياب ہو گئے تو تمہارے مردوں كا احترام ختم كر ديں گے اور تمہارى عورتوں كو اسير كر ليں گے ، تمھارے بچوں كو تلوار كى باڑھ پر ركھ ليں گے ، تم پر لازم ہے كہ مردانہ وار قيام كرو ، تاكہ اپنے ناموس كا تحفظ كر سكو ، موت كو رسوائي پر ترجيح دو اور علىعليه‌السلام سے اسطرح جنگ كرو كہ انھيں اپنے وطن سے نكال باہر كر سكو ، ابو مخنف كا بيان ہے كہ جتنے بھى رجز خوان يا شاعر اس بارے ميں نغمہ سرا ہوئے ہيں ، ان ميں كوئي بھى اس بوڑھے سے بازى نہيں لے جا سكا ، جس كى بہترين شاعرى نے لوگوں كو جھنجوڑ كر ركھ ديا ، جس وقت بصرہ والوں نے اسكا رجز سنا تو تڑپ كر اپنى صفوں سے شديد تر حملہ كيا اور دوسروں سے زيادہ عائشه كے اونٹ كے گرد اكر صبر و استقامت دكھايا _

طبرى كا بيان:

جنگ جمل ميں عمر و بن يثربى نے اپنے قبيلہ ازد والوں كو اسطرح ابھاراو كہ ان ميں سے ايك كے بعد ايك لجام شتر تھامتے اور شديد تر جنگ كر كے اپنى مادر گرامى عائشه كا جان و دل سے دفاع كرتے رہے ، وہ اس

____________________

۱۴_ ان دونوں رجز كا متن شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۵۲_۲۵۶

۱۳۱

اس وقت يہ اشعار پڑھ رہے تھے _

ہم قبيلہ ضبہ والے ہيں ، تلوار اور موت سے نہيں ڈرتے _

دشمنوں كے سروں كو درخت كى طرح كاٹ ڈاليں گے ان كا خون سيلاب كى طرح بہا ديں گے ، اے مادر گرامى عائشه آپ ذرا بھى خوف نہ كيجئے كيونكہ آپ كے توانا اور شجاع بيٹے آپ كے گرد تلوار لئے كھڑے ہيں ، اے ہمارى ماں _ اے زوجہ رسول آپ ہى سر چشمہ رحمت و بركت ہيں ، آپ ہى عالمين كے پاك رہبر كى زوجہ ہيں(۱۵)

۴_ بنى ضبہ كا ايك جيالا عوف بن قطن لشكر عائشه سے نكلا اور چلانے لگا _

اے لوگو عثمان كا خون على اور ان كے فرزندوں كى گردن پر ہے _

يہ كہہ كر اس نے اونٹ كى لجام تھام لى اور جنگ كرنے لگا جنگ كرتے ہوئے وہ يہ رجز پڑھ رہا تھا اے ماں َ اے ہمارى ماں _ ميں وطن سے دور ہوں نہ تو قبر كا طلبگار ہوں نہ كفن كا يہيں سے عوف بن قطن حشر كے ميدان ميں اٹھے گا ہمارى زندگى يہيں ختم ہونا چاہيئے اور اسى بيابان سے صحرائے محشر ميں اٹھوں گا _

اگر آج علىعليه‌السلام ہمارے خونين پنجے سے چھٹكارا پا جائيں تو ہم بڑے ہى گھاٹے ميں رہيں گے اور اگر ان كے جگر گوشوںحسن و حسين كو زندگى كا خاتمہ نہ كر سكيں تو ہمارے لئے مناسب ہے كہ ہم مارے غم و اندوہ كے جان ديديں(۲) عوف بن قطن نے يہ رجز پڑھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر پر حملہ كيا ، سخت جنگ كرتے ہوئے قتل ہو گيا _

____________________

۱_ نحن بنو ضنبة لا نفر ---حتى نرى جما جما تخر

يخرمنا العلق المحمر ---كل بنيك بطل شجاع

يا امنا يا عيش لن تراعى ---يا امنا يا زوجة النبى

يا زوجة المبارك المهدى

۲_ يا ام يا ام خلاعنى الوطن ---لاابتغى القبرولا ابغى الكفن

من ها هنا محشر عوف ابن قطن ---ان فاتنا اليوم على فالغبن

او فاتنا ابناه حسين و حسن ---اذا ام بطول هم و حزن

۱۵_ شرح نهج البلاغه ج۱, ص, ۲۶۱,۲۶۲ تاريخ ابن اعشم

۱۳۲

۵_ ابو مخنف كا بيان ہے : بصرہ كا مشہور و رئيس اور دولتمند شخص عبد اللہ بن خلف خزاعى حكومت عمر و عثمان كے ايام ميں بيت المال كا محاسب تھا ، جنگ جمل كے موقع پر عائشه كے لشكر والوں كا ميز بان تھا وہ صف سے نكلا اور حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں كے سامنے اكر رسم كے مطابق اپنا مبارز طلب كيا ، اس نے ہانك لگائي كہ سوائے على كے كوئي دوسرا ميرے مقابلے ميں نہ ائے ، ہاں ، على ہى مجھ سے جنگ كيلئے ائيں تاكہ جنگ تمام كى جائے اور خونريزى ختم ہو پھر وہ حضرت علىعليه‌السلام كو للكارتے ہوئے بولا _

اے ابو تراب ميں ايك بالشت بڑھكرتمہارے سامنے ايا ہوں تم بھى جرائت پيدا كرو اور ميرا مقابلہ كرنے كيلئے ايك انگل اگے بڑھو ، اے على ، تمہارى عداوت ميرے سينے ميں بوجھ بنى ہوئي ہے ، تمھارى دشمنى سے ميرا سينہ دہك رہا ہے ، قدم اگے بڑھائو ، ذرا سامنے ائو كہ تمھارا خون بہا كر اپنے دل كى اگ ٹھنڈى كروں(۱) عبد اللہ يہ رجز پڑھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو مقابلے كيلئے پكارنے لگا امير المومنين حضرت علي(ع) نے لشكر سے نكل كر ميدان ميں قدم ركھا اور ايك ہى تلوار كى ضرب سے اسكا بھيجہ نكال كر زمين پر بہا ديا اور قتل كر ڈالا(۱۶)

عبداللہ اور مالك اشتر كى جنگ

طبرى نے خود عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ:

جنگ جمل ميں مجھے تلوار اور نيزے كے سيتنيس زخم لگے تھے _ اگر چہ اس دن ميرے لشكر كى كثرت تعداد كے اعتبار سے يہ حالت تھى سياہ پہاڑ نظر اتاتھا جو كسى بھى طاقت سے شكست كھانے والانہيںتھا اس حالت ميں ہميں ايسى شكست ہوئي جسكى مثال نظر نہيں اتى ابن زبير مزيدكہتے ہيں كہ اس جنگ ميںجو بھى اونٹ كى لجا م ہاتھ ميں ليتا تھاوہيں ڈھير ہو جاتا تھا _حالانكہ سينتيس زخم مير ے بدن پر تھے ميں نے اسى حالت ميں اونٹ كى مہار تھام لى _ عائشه نے پوچھا اونٹ كى مہار كس نے تھام لى ہے؟

ميں نے كہا _ميں عبداللہ بن زبير ہوں _

چونكہ عائشه ديكھ رہى تھيں كہ جس نے بھى مہار شتر ہاتھ ميں لى جان سے ہاتھ دھويا _بے اختيار صدائے فرياد بلند كى _ واثكل اسماء ہائے ميرى بہن اسماء اپنے فرزند كے سوگ ميں بيٹھ گئي_

____________________

۱_ ابا تراب ادن منى فترا ---و ان صدرى عليك غمرا

فاننى اليك شبرا

۱۶_شرح نهج البلغه ج۱, ۲۶۱,و فتوح ابن اعشم

۱۳۳

عبداللہ كہتے ہيںكہ اسى درميان ميرى نظر مالك اشتر پر پڑى ميں اسے پہچان كر اس سے گتھ گيا_ يہاں تك كہ دو نوں ہى زمين پر گر گئے_ميں چلّانے لگا _ لوگو _مالك كو قتل كردواسے قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے دونوں طرف كے لشكرسے ڈھير سارے افرادجمع ہو گئے_ہر ايك اپنے اپنے سپاہى كى دفاع ميںكوشش كر رہا تھا_ہم دو نوں ايك دوسرے كى دھينگا مشتى ميں ا س قدر تھك گئے تھے كہ ايك دوسرے سے علحدہ ہونے كے بعدميرى اتنى طاقت نہيںرہ گئي كہ اونٹ كى مہار تھام سكوںواقدى نے بھى مالك اشتر اورابن زبير كى جنگ كاحال يوں نقل كيا ہے عبداللہ جنگ كى غرض سے ميدان ميں ئے _حضرت علي(ع) كے لشكر كے مقابل كھڑے ہو كر اپنا مقابل طلب كيا_ان سے مقابلہ كے ليے مالك اشتر كھڑے ہوے_جب يہ دونوں جيالے ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے تو عائشه نے پوچھا_ عبداللہ سے مقابلہ كے لئے كون اياہے ؟ لوگوں نے كہا _ اشتر

عائشه نے اشتركانام سنكر بے اختيار نعرہ لگاياواثكل اسماء بالاخردونوں بہادروں ميں جنگ ہونے لگي_تلواريں ايك دوسرے سے ٹكرانے لگي_ايك دوسرے كے بدن زخموںسے چور ہونے لگے يہاں تك كہ تلواريں بيكار ہو گئيں_ مالك اشتر بوڑھے تھے اسى كے ساتھ بھوكے بھى تھے _ كيو نكہ وہ جنگ كے موقع پر تين دن برابر كھانا نہيں كھائے تھے _ اس حالت ميں بھى عبداللہ كو زمين پر گرا ديا_اور اس كے سينہ پر چڑھ بيٹھےاسى ھنگام دونوں طرف كے لشكرسے لوگ وہاں جمع ہو گئے _ عبداللہ كے ساتھى اسكى نجات كے لئے كوشاں تھے_

مالك اشتر كے ساتھى بھى انكے چھٹكارے كى كوشش كر رہے تھے_

داللہ بن زبير زور سے چلاّئے _ لوگوں _مالك اشتر كو قتل كر دوچاہے اسميںمجھے بھى قتل ہونا پڑے _

ليكن اس وقت دونوںطرف كے لشكر سے اتنے لوگ جمع ہو گئے تھے كہ ميدان كى حالت اشفتہ تھي_لوگ ان دونوں كى تشخيص كرنے سے قاصر تھے_اس وجہ سے ان دونوں كى جنگ طول پكڑتى گئي_

اخر كسى نہ كسى طرح عبداللہ بن زبيرنے اپنے كو مالك اشتر كے چنگل سے نكالا اور ميدان سے فرار كر گئے _

صاحب عقد الفريدنے اس واقعہ كے بعد عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ مالك اشتر نے مجھے دبوچكرگڑھے ميں ڈال ديااور كہا اے عبداللہ اگر تيرى رشتہ دارى رسول خدا(ص) سے نہ ہوتى تو تيرے بدن كے جوڑ جوڑ علحدہ كرديتا(۱۷)

____________________

۱۷_ عبد الله كے بآپ زبير كى ماں صفيه جناب رسول خدا(ص) كى پھو پھى تھى اسى رشته دارى كى وجه سے مالك اشتر نے ابن زبير كو قتل نہيں كيا

۱۳۴

طبرى نے علقمہ كا بيان نقل كيا ہے كہ ميں نے ايك دن مالك اشتر سے پوچھا_تم قتل عثمان كے مخالف تھے تم نے كيسے جنگ جمل ميں شركت كى جس مين ہزاروں افراد قتل كيے گئے مالك نے ميرا جواب ديا _ جب لشكرعائشه نے على كى بيعت كى اور پھر اپنى ہى بيعت توڑ دى تو ايسى بيعت شكنى اور على كى مخالفت نے مجھے اس جنگ ميں شريك ہونے پر امادہ كيا _ليكن ان ميں سب سے زيادہ گنہگار اور خطا كار عبداللہ بن زبير تھا _كيونكہ اسنے عائشه كو على سے جنگ پر ابھارا وہى تھا جس نے اپنے بآپ كو على سے جنگ كرنے كيلئے بھڑكايا عائشه اور زبير دونوں ہى جنگ سے دست بر دار ہو گئے تھے ان دونوں كو اسى ابن زبير نے دو بارہ ميدان جنگ ميں گھسيٹا _ ميں خدا سے دعا كر تا تھا كہ اسے قيدى بنالوںاور اسكے كرتوتوں كى سزا د وں_ خدا نے بھى ميرى دعا سن لى اور مو قع غنيمت ديكھ كر گھوڑے پر سوار ہوا_اور بھر پور قوّت كے ساتھ اس پر تلوار كى ضرب لگا كراسے گرا ديا اور ذلّت كى خا ك چٹائي_

ايك دن علقمہ نے مالك سے پوچھا_ كيا عبداللہ بن زبير نے كہا تھا كہ اقتلونى و مالكا_ ما لك كو قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے_ مالك نے جواب ديا _ نہيں _ يہ جملہ اسنے نہيںكہا تھا _كيونكہ ميں عبداللہ كو قتل نہ كرتا _ صرف ايك تلوار چلا كے ہاتھ روك ليا تھا _ ميرے دل ميں خيال ايااور ميرے جذبات ا س كے بارے ميں بھڑك اٹھے _ ا س كے بعد ميں نے ا س كے قتل كاارادہ بدل ديا _

ا س كے بعد مالك نے كہا:اصل ميںيہ جملہ مذكورہ عبدالرّحمان بن عتاب نے كہاتھا _اس دن وہ چلاّكر بولا _مجھے اور مالك دونوں كو قتل كر دوا س كا مقصد يہ تھا كہ مالك كو قتل كر دوچاہے ا س كے ساتھ مجھے بھى قتل ہونآپڑے _ليكن ميدان جنگ كى حالت ا س قدر درہم برہم تھى كہ عبداللہ كے ساتھيوں كو ميرى پہچان نہ ہوسكى _ورنہ مجھے تو قتل ہى كر ديتے _

۱۳۵

طبرى كا بيان ہے كہ: جنگ جمل ميں عبداللہ بن زبير كوبہت زيادہ زخم لگے تھے _اسنے اپنے كو مقتولوں كے درميان ڈا ل ديا تھا جنگ ختم ہونے كے بعد اسكا علاج معالجہ كيا گيا اور زخم ٹھيك ہو گئے _

جنگ جمل ميں عبداللہ اگر چہ قتل تو نہيں ہواليكن بے شمار زخموں كى وجہ سے دشمن سے مقابلہ اورجنگى طاقت ختم ہوگئي تھى اسطرح طلحہ وزبيركے بعد لشكر عائشه كاتيسرا سپہ سالار بھى بيكار ہو گيا _

ليكن كسى كے بھى بيكار ہو جانے سے لشكرعائشه ميںكسى قسم كى افرا تفرى نہيںپھيلى اور جنگ ختم نہيں ہوئي _كيونكہ اس جنگ ميں تمام لوگوں كى نظريں عائشه كے اونٹ پر تھيں _اسكے ارد گرد خون بہتے رہے_ اسكے قريب شہ سواروں كے سر گرتے رہے_اسى اونٹ كے اگے اگے بصرہ كے جيالے اور سر فروش خزاں رسيدہ پتّوں كى طرح گرتے رہے جب تك اونٹ كھڑا تھا _ چل پھر رہاتھا_جنگ و خونريزى جارى تھى ليكن اكيلے اونٹ كے گرتے ہى ' جى ہاں صرف اسى كے گرنے سے جنگ و خونريزى ختم ہو گئي _(۱۸)

جنگ اپنے شباب پر پہنچ گئي

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام كے ميمنہ لشكر نے عائشه كے ميسرئہ لشكر پر حملہ كيااور گھمسان كى جنگ ہو نے لگى عائشه كى فوج كے زيادہ قبيلہ ازد اور ضبّہ كے افراد تھے وہ پيچھے ہٹكر عائشه كى پناہ پكڑنے لگے ا س طرح وہ ہودج كے ارد گرد جمع ہو گئے(۱۹)

ابو مخنف كابيان ہے :

حضرت على نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ فوج دشمن كے ميسرئہ پر حملہ كريں _مالك نے ميسرئہ پر حملہ كيا توصفيں درہم برہم ہو گئيں اور فوجوں نے بھاگ كر عائشه كے پاس دم ليا ميسرئہ كى شكست سے قبيلہ ضبّہ، ازد ، عدى ، ناجيہ ، باہلہ وغيرہ كے تمام افرادنے ايك بار اونٹ كى طرف اپنى توجہ مبذول كى اب وہ اونٹ كى حفاظت كى طرف اپنى

____________________

۱۸_ طبرى ۵ _ ۲۱۰ _ ۲۱۱ _ ;۴ ;۲ شرح نہج البلا غہ ۸۷۱ شرح خطبہ كنتم حيندالمراتہ كے ذيل ميںكامل بن اثير ۳_۹۹ عقدالفريد ۴_ ۳۲۶ لجنتہ التاليف _ تاريخ بن اعثم _ مروج الذھب _

۱۹_ طبرى ج۵ ص ۲۰۷

۱۳۶

سارى توجّہ مركوز كرنے لگے فطرى طور سے لشكر على كے حملہ بھى اسى طرف مر كوز ہو گئے _ اور يہاں جنگ كا دائرہ تنگ ہو گيااور گھمسان كى جنگ اور خونريزى ہونے لگى _ ا س كا نتيجہ اخر يہ ہوا كہ عائشه كے لشكر كو شكست ہو گئي(۲۰)

مدائنى اور واقدى جيسے مشہور مورخوںنے بتاياہے كہ

لشكر عائشه كى صفيں لشكر على كے پے در پے حملوںسے درہم برہم ہو گئيں بہادروں نے ہر طرف سے لشكر عائشه كى طرف اپنى توجہ مركوز كى اونٹ اور ہو دج كو اپنے گھيرے ميں لے ليا_ اونٹ كے گرد زيادہ تربنى ضبّہ اور بنى ازدكے لوگ تھے _وہى سب سے زيادہ جانفشانى كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوںنے بھى اپنے حملہ اسى طرف موڑ دئے_

ايك چھوٹے سے دائرہ ميں جس كا محور عائشه كا اونٹ تھا اسى كا محاصرہ كر لياگيا _ حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے اپنے حملوں كا نشانہ عائشه ہى كے اونٹ كو بنا ليا _ عائشه كے ساتھى بھى شدّ ت كے ساتھ ا س كا دفاع كرنے لگے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے حملے اور لشكر عائشه كے دفاع كى وجہ سے اگ اور خون سے بھر پور جنگ شروع ہو گئي _سر گرنے لگے _بدن سروں سے جدا ہونے لگے ہاتھ كٹ كٹ كرہوا ميں لہرانے لگے _پيٹ پھٹنے لگے _ ليكن اس بھيانك صورتحال كے باوجوديہ دونوں قبيلہ چونٹيوں كى طرح اونٹ كے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے _ ا س قدر استقامت كا مظاہرہ كر رہے تھے كہ گھمسان كى جنگ ان ميںذرا بھى خوف وہراس پيدا نہيںكر سكى _ استقامت ميں ذرہ برابر بھى تزلزل پيدا نہ كر سكى _وہ ا ہنى ديوار كى طرح اپنى تمام قوتوں اور توانائيون كے ساتھ اونٹ كا دفاع كر رہے تھے كہ اچانك حضرت علىعليه‌السلام كى اواز بلند ہوئي _ آپ نے اپنے لشكر سے خطاب فرماياويلكم اعقرواالجمل فانه شيطان _

تم پر افسوس ہے_ اونٹ كو پئے كردو كيو نكہ يہ شيطان ہے _

تم پر افسوس ہے _ ان كآپر چم گرا دو اونٹ كو پئے كر دو كيونكہ يہ شيطان كى طرح بدبخت لوگوں كو اپنے گرد جمع كئے ہوا ہے _جب تك يہ كھڑا ہوا ہے فتنہ وخونريزى جارى رہے گى _ ان ميں كا ايك بھى شخص زندہ نہيں رہے گا_ اے لوگو اونٹ كو پئے كر دو اور اس تمام خونريزى كا خاتمہ كردو _

حضرت علىعليه‌السلام كے اس فرمان كے ساتھ ہى تلواريں بلند ہوئي اور مركزى نقطہ پرشديد حملے شروع ہوگئے _ يہاںتك كہ وہ [

____________________

۲۰_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۸۸

۱۳۷

منحوس اونٹ ڈھير ہو گيا _

تاريخ نگاروں كابيان ہے كہ :جنگ كا دائرہ تنگ تر ہو گيا تھا _جنگ اكيلے شتر عايشہ كے اطراف ميں سمٹ كر رہ گئي تھى _لوگ ا س طرح اسكے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے جيسے چكى كہ پائے گھومتے ہيںاونٹ كے اطراف عجيب ادھام كامنظر تھا _ جنگ پورے شباب پر ہونے لگى تھى لوگوں كا شور غوغا اور چيخ پكاراسكے ساتھ اونٹ كى بلبلاہٹ زيادہ ھنگامہ پيدا كر رہى تھى اسى ميںحتات مجاشعى نعرہ لگا رہا تھا _ اے لوگو اپنى ماں كى حمآیت كرو _ اے لوگوعائشه كادفاع كرو اپنى مادر كى نگہبانى كر تے رہو _ يہ ديكھو تمہارى ماں اب ہودج سے گرنے ہى والى ہيں _ اونٹ كے گرد ا س قدر وحشت برس رہى تھى كہ لوگ آپس ميںگتھ گئے تھے _ ايك دوسرے كو بغير پہچانے قتل كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھى دشمن كے لشكر پر حملہ كر رہے تھے جدھر حملہ كرتے دشمن كو پراكندہ كر ديتے ليكن پھر بھاگنے والے اونٹ كے گردجمع ہوجاتے يہاں تك كہ حضرت على نے نعرہ لگايا _ اے لوگو اونٹ پر تير برسائو _ اس ملعون اونٹ كومار كر گرا دو _حكم ملتے ہى تير اندازوں نے اونٹ پر تير بارانى شروع كر دى ليكن اونٹ كو ا س قدر ا ہنى ز رہوںاور مضبوط تختوں سے چھپايا گيا تھاكہ تيراونٹ كے بدن تك نہيں پہنچ رہا تھا اسكى سجاوٹ جيسے محكم قلعہ كى طرح تھى ذرہ برابر بھى اسے گزند نہيں پہنچ رہى تھى _ تيروں كى بارش تختوں پر جاكرجم جاتى تھى _ اونٹ پر اتنے تير لگے تھے كہ ساہى كى طرح نظر ارہا تھا _

دو لشكر كا شعار

جب عائشه كے ساتھيوں نے خطرہ كا احساس كيااور شكست نظر انے لگى اور لشكر على كى فتح حتمى طريقہ سے نظر انے لگى تو شعر اور رجزكے بجائے شعار لشكر كانعرہ لگانے لگے يالثارات عثمان (خون عثمان كا انتقام لينے والواٹھ كھڑے ہو ) سارے لشكر عائشه كا علامتى نعر ہ يہى تھا _ ان كے حلق سے يہى اوازنكل رہى تھى _ سبھى مل كر چلاّ رہے تھے _ يا لثا رات عثمان _ ان لوگوںكے مقابلہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھيوںنے بھى يامحمد (ص) كانعرہ لگانا شروع كيا _ ان كا شعار يہى تھا _

ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حكم دياكہ تم لوگ حضرت رسول خدا(ص) كے شعارسے استفادہ كرنے كے بجائے يامنصور امت(۲۱) كو اپنا جنگى نعرہ قراردو(۲۲)

____________________

۲۱_يہ شعار وہ ہے جب مسلمانوں نے حكم رسول كے مطابق بعض جنگوں ميں استفادہ كياتھا يہ دونوں فقرے دو لفظوں سے تشكيل پاتے ہيں ايك ہے يا منصور ( يعنى اے لوگو جو خدا كى مدد ونصرت تلے ہو )جملہ دوم ہے اصمت يعنى قتل كرو ا ن دونوں فقروں كا مجموعہ يہ معنى ديتا ہے كہ اے لوگوں جو خدا كى مدد ونصرت سے سرفراز ہو _ا ے لوگو ںجو حق پر ہو ان لوگو كو قتل كر دو جوظالم ہيں اور حق سے دور ہيں

۲۲_ شرح نھج البلاغہ ابى الحديد ۱ _ ۸۷

۱۳۸

جنگ كا خاتمہ

لشكر عائشه كے ايك سپاہى كا بيان ہے :

جنگ جمل ميں ہمارى پارٹى كو ايسى سخت شكست كا منھ ديكھنآپڑا جو اس سے پہلے ديكھى نہ گئي ،اس موقع پر عائشه ہود ج ميں سوار تھيں اور ا ن كا اونٹ متواترتيروں كى بارش سے خار پشت (ساہي) كى طرح ہو گيا تھا(۲۳)

اس بارے ميں ابو مخنف كا بيان ہے :

صرف اونٹ پر ہى تيروں كى بارش نہيں كى گئي _ بلكہ عائشه كا ہودج بھى تيروں كا نشانہ بنايا گيا _ تيروں كى بارش سے كجاوہ بھى كسى خارپشت(ساہي)كى طرح نظر ا رہا تھا _

ابو مخنف كہتا ہے : جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكى عائشه كا اونٹ ہى جنگ كا محور بناہوا ہے اور اسى كے ارد گردخون اچھل رہے ہيںاور ہاتھ كٹ رہے ہيںتو آپ نے عمّا ر ياسر اور مالك اشر كو حكم ديا كہ جاكر اس منحوس اونٹ كوپئے كردو كيونكہ ان لوگوں نے اسى كواپنے لئے قبلہ قرار دے لياہے _اور خانہ كعبہ كى طرح اسكا طواف كر رہے ہيں _ جب تك يہ اونٹ كھڑا ہے جنگ ختم نہيں ہوگى _ جب تك يہ اونٹ زندہ ہے لوگ ا س پروارى فدا ہوكر اپنا خون نثار كرتے رہيں گے(۲۴)

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام نے درميان لشكر بلند اواز سے فرمايا:

ا ے لوگو اپنا حملہ اونٹ پر مركوز كردواسے پئے كر دو حضرت كے فرمان كے مطابق آپ كے ايك جرى سپاہى نے صفوں كو توڑ كر اپنے كو عائشه كے اونٹ كے پاس پہنچا ديا _ اور اس پر تابڑ توڑ تلواريں مارنے لگا_ اونٹ نے ا س طرح سے نعرہ لگايا كہ ايسى چيخ كبھى نہ سنى گئي تھى _ اس موقع كو ابو مخنف نے بھى بيان كياہے كہ: جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكہ تمام قتل اور خونريزى اونٹ كے ہى ارد گردہو رہى ہے _ اور جب تك اونٹ زندہ ہے جنگ جارى رہے گى _ تو آپ نے اپنى فوج كوحكم ديا كہ اونٹ پر حملہ كردو _ خود آپ نے بھى تلوار ہاتھ ميں ليكراس اونٹ پر زبر دست حملہ كيا _ اس وقت اونٹ كى مہار قبيلہ ضبّہ كے ہاتھ ميں تھى _ ان كے اور لشكر على كے درميان گھمسان كى جنگ ہونے لگى _ جنگ كا بنى ضبّہ كى ہى طرف تھا _ اسى كے زيادہ تر لوگ مارے جانے لگے حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ ہمدان اورقبيلہ نخع كے ساتھ سخت حملہ كيا _ دشمن كے افراد كو پراكندہ اور منتشر كرديا _ اسى موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ نخع كے ايك شخص جس كا نام بجير تھا فرمايا _ اے بجير

____________________

۲۳_طبرى ج۵ ص ۲۱۸

۲۴_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱

۱۳۹

يہ اونٹ تمہارى زد پر ہے ا س كا كام تمام كردو _ بجير نے تيزى سے اس اونٹ كى ران پر تلوار چلا دى _اونٹ نے زبر دست نعرہ مارا _ اور زمين پر ڈھير ہوگيا _ جب اونٹ زمين پر گرا تو عائشه كے تمام فوجى جوچونٹيوں كى طرح ا س كا حصار كئے ہوئے تھے' تتر بتر ہوگئے _ سب نے فرار كاراستہ اختيار كيا _ حضرت علىعليه‌السلام نے بھى نعرہ لگايا _

اے لوگو ہودج كى طنابيں اور رسياں كاٹ دواور ہودج كو اونٹ سے الگ كر دو _ آپ كے سپاھيوں نے ہودج ہٹا ديا ،لوگو ںنے عائشه كے ہودج كو اغوش ميں ليكر حضرت كے حكم كے مطابق اونٹ كو قتل كيا اور پھر اسے ا گ ميں جلاديا اور خاك ہوا ميںاڑادى _ چونكہ امام كا يہ حكم تعجب انگيز تھا _ ا س لئے ا پ نے ا س كا حوالہ آیت قرانى سے ديتے ہوے فرمايا :

اے لوگو يہ اونٹ منحوس حيوان اور اگ برسانے والا تھا يہ بنى اسرائيل كے گوسالہ شباہت ركھتا تھا وہ بنى اسرائيل ميں اور يہ مسلمانوں كے درميان تھا _ جس نے دونوں كو بدبختى ميں پھنسايا _ حضرت موسى نے حكم ديا كہ اس گوسالہ كو اگ ميں جلا دواور اسكى خاك دريا ميں ڈال دو _پھر آپ نے اس آیت كى تلاوت كى جو موسى كى زبانى تھى _

ونظر الى الهك (۲۵)

ذرا ديكھو اپنے اس معبود كو جس پر تم وارى فدا كرتے تھے ميں كيسے اگ ميں جلارہا ہوں اور خاكستر كو سمندر ميں ڈال رہاہوں _

جى ہاں _ فساد كے مواد كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنا چاہيے _اور فتنہ واشوب كو اگ ميں جلا دينا چاہيے(۲۶)

عائشه سے كچھ باتيں

عائشه كى فوج كوشكست ہوئي اور پورے طور سے شكست كے بعد يہ خونريز جنگ جمل اختتام كوپہنچى اور اتش جنگ خاموش ہوگئي (ٹھنڈى پڑ گئي) اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے محمد بن ابى بكركومامورفرمايا كہ اپنى بہن عائشه كے لئے جاكر ايك خيمہ نصب كرواور ان كى دلجوئي كرواور ان سے پوچھوكہ جنگ ميں كوئي تير يا زخم لگا ہے كہ نہيں ؟

____________________

۲۵_ سورئہ طہ آیت ۹۰

۲۶_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۸۹

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

مسئلہ ٢ ۶ ١٢ اگر انسان کوئی چيزغصب کرلے تو ضروری ہے کہ اس کے مالک کو واپس کرے اور اگر وہ چيز تلف ہوجائے تو اس کا عوض دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٣ اگر غصب شدہ چيز سے کوئی نفع حاصل ہو مثلاً اگر غصب شدہ بھیڑ سے بچہ پيدا ہو تو وہ مالک کی ملکيت ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی نے مکان غصب کيا ہو تو اگرچہ اس ميں رہا ئش اختيار نہ کی ہو تب بھی اس کا کرايہ ادا کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ ۴ اگر کسی بچے یا دیوانے سے اس کے مال ميں سے کوئی چيز غصب کرلے تو ضروری ہے کہ اس کے ولی کو لوٹائے اور اگر تلف ہوگئی ہو تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ ۵ جب دو آدمی مل کر کسی چيز کو غصب کریں تو اگرہر شخص آدهے حصے پر مسلط ہو تو دونوں آدهے آدهے حصے کے ضامن ہيں اور اگر دونوں پورے پر مسلط ہوں تو ہر ایک پورے کا ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ ۶ اگر غصب شدہ چيز کسی اور چيز سے مخلوط کردے مثلاً غصب کئے ہوئے گندم کو جو سے مخلوط کردے تو اگر ان کو جدا کرنا ممکن ہو، چاہے باعث زحمت ہو، ضروری ہے کہ جدا کرکے مالک کو واپس کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٧ اگر انسان ایسی چيزغصب کرے جس ميں کوئی کام کيا گيا ہو مثلاً وہ سونا جس سے گوشوارہ بنایا گيا ہو اور اسے خراب کردے تو ضروری ہے کہ ا س کے مادّے کے ساته اس کام اور صفات کی قيمت بھی مالک کو دے اور اگر خرابی کے بعد مادّہ کی قيمت اس کی پهلی والی قيمت سے کم ہوگئی ہو تو ضروری ہے کہ دونوں قيمتوں کا فرق بھی ادا کرے اور اگر کهے کہ اسے پهلے کی طرح بنادیتا ہوں، تو مالک کے لئے قبول کرنا ضروری نہيں ہے اور مالک بھی اسے پهلے کی طرح کا بنانے پر مجبور نہيں کرسکتا ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٨ اگر غصب شدہ چيز کو اس طرح بدل دے کہ پهلے سے بہتر ہوجائے مثلاً غصب کئے ہوئے سونے کا گوشوارہ بنادے اور مالک کهے کہ اسی طرح واپس کرو، تو ضروری ہے کہ واپس دے دے اور اپنی محنت کی اجرت نہيں لے سکتا۔ اسی طرح مالک کی اجازت کے بغير یہ حق بھی نہيں رکھتا کہ اسے پهلی حالت ميں لے آئے اور اگر بغير اجازت اسے پهلی حالت ميں لے آئے تو اس صفت کی قيمت کا ضامن ہونا محل اشکال ہے اور احوط یہ ہے کہ مصالحت کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٩ اگر غصب شدہ چيز کو اس طرح بدل دے کہ وہ پهلے سے بہتر ہوجائے اور مالک کهے کہ اس کو پهلی صورت ميں تبدیل کرو تو واجب ہے کہ اسے پهلی شکل ميں لے آئے اور اگر تبدیلی کی وجہ سے اس کی قيمت پهلی قيمت سے کم ہوجائے تو ضروری ہے کہ قيمت کا فرق بھی مالک کو دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٠ اگر غصب کی ہوئی زمين ميں زراعت کرے یا درخت لگائے تو زراعت،درخت اور پھل اس کی ملکيت ہے ۔ ہاں، اگر مالک اپنی زمين ميں اس غاصب کی زراعت اور درخت رکھنے پر راضی نہ ہو تو ضروری ہے کہ غاصب فوراً اپنی زراعت اور

۴۲۱

درخت زمين سے اکهاڑ لے چاہے نقصان ہی کيوں نہ ہو اور ضروری ہے کہ جتنی مدت زراعت اور درخت اس زمين ميں رہے ہيں اس کا کرايہ ادا کرے بلکہ اس سے بھی پهلے کی مدت یعنی جب سے غصب کيا ہے اس وقت کا کرایہ بھی دے اور جو خرابياں زمين ميں پيدا ہوگئی ہيں انہيں ٹھ ےک کرے مثلاً درختوں کی جگہ پُر کرے اور اگر ان چيزوں کی وجہ سے زمين کی قيمت پهلے کی نسبت کم ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ اس کا فرق بھی دے اور غاصب، زمين کے مالک کو مجبور نہيں کرسکتا کہ زمين اسے بيچ دے یا کرائے پر دے اور زمين کا مالک بھی اس کو مجبور نہيں کرسکتا کہ يہ درخت اور زراعت اسے بيچ دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢١ اگر زمين کا مالک اس بات پر راضی ہو جائے کہ کهيتی اور درخت اس کی زمين پر باقی رہيں تو غصب کرنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ انہيں زمين سے اکهاڑے، ليکن ضروری ہے کہ غصب کرنے کے وقت سے راضی ہونے تک کا کرایہ زمين کے مالک کو دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٢ اگر غصب شدہ چيز تلف ہوجائے اور وہ چيز قےمی ہو یعنی ایسی ہو کہ اس صنف کی اشياء کی خصوصيات ميں ان کی اہميت اور عقلاء کی دلچسپی کے اعتبار سے معمولاً فرق موجود ہو جےسے حیوانات، تو ضروری ہے کہ اس کی قيمت ادا کرے اور اگر اس کی بازاری قيمت غصب سے لے کر ادا کرنے تک مختلف ہوں تو احتياط واجب کی بنا پر غصب سے لے کر تلف کی مدت تک کی قيمتوں ميں سے سب سے زیادہ والی قيمت ادا کرے اور احتياط مستحب ہے کہ غصب سے لے کر ادائيگی کرنے تک کی قيمتوں ميں سے سب سے زیادہ والی قيمت ادا کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٣ اگر غصب شدہ چيز تلف ہوجائے اور مثلی ہو یعنی اس صنف کی اشياء کی خصوصيات ميں ان کی اہميت اور عقلاء کی دلچسپی کے اعتبار سے معمولاً فرق موجود نہ ہو جےسے گندم و جو کی طرح دانے دار چيزیں تو نوعی اور صنفی خصوصيات ميں اسی غصب شدہ چيز کی مثل ادا کرے مثلاً اگر بارش سے سينچی گئی گندم غصب کرے تو اس کے بدلے پانی کے ذریعے سينچی گئی گندم نہيں دے سکتا۔ اسی طرح اگر بارش سے سينچی گئی اعلی گندم غصب کرے تو گھٹيا گندم نہيں دے سکتا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ۴ اگر بھیڑ جیسی کوئی چيز غصب کرے اور وہ تلف ہوجائے تو اگر اس کی بازاری قيمت تبدیل نہ ہوئی ہو ليکن جتنا عرصہ اس کے پاس رہی ہو اس عرصہ ميں صحت مندهوگئی ہو تو ضروری ہے کہ صحت مندبھیڑ کی قيمت دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ۵ اگر غصب شدہ چيز کو کوئی دوسرا اس سے غصب کرلے اور وہ چيز تلف ہوجائے تو مالک کو حق ہے کہ ان دونوں ميں سے جس سے چاہے پورے مال کا عوض یا بعض کا عوض لے سکتا ہے پس اگر پهلے غاصب سے عوض لے لے تو پهلے نے جو کچھ دیا ہے اس کا مطالبہ دوسرے سے بھی کرسکتا ہے ، البتہ اگر دوسرے سے عوض لے لے تو وہ پهلے سے مطالبہ نہيں کرسکتا ہے ۔

۴۲۲

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ۶ اگر خریدو فروخت ميں ایسا معاملہ واقع ہو جس ميں معاملہ کی شرائط ميں سے کوئی ایک شرط موجود نہ ہو جےسے جس چيز کی مقدار معلوم ہونا ضروری تھا اسے مقدار جانے بغير فروخت کرے تو معاملہ باطل ہے اور اگر بيچنے اور خریدنے والا معاملے سے قطع نظر کرتے ہوئے اس بات پر راضی ہوجائيں کہ ان ميں سے ہر ایک دوسرے کے مال ميں تصرف کرے تو اس ميں کوئی اشکال نہيں ہے ورنہ جو چيز انہوں نے ایک دوسرے سے لی ہے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کوواپس کردیں اور اگر ہر ایک کا مال دوسرے کے ہاتھ ميں تلف بھی ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے چاہے انہيں معاملے کے باطل ہونے کا معلوم تھا یا نہيں ، لہٰذا اگرتلف شدہ مال مثلی ہو تو اس کا مثل دے اور اگر قےمی ہو تو تلف ہوتے وقت کی قيمت دے اگرچہ احوط يہ ہے کہ مال ہاتھ ميں لینے سے لے کر تلف ہونے تک کی قيمتوں ميں سے سب سے زیادہ والی قيمت دے اور اس سے زیادہ احوط يہ ہے کہ مال ہاتھ ميں لینے سے لے کر قيمت ادا کرنے تک کی قيمتوں ميں سے سب سے زیادہ والی قيمت دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٧ جب بھی مال فروخت کرنے والے سے دیکھنے یا اپنے پاس رکھنے کے لئے مال لے تاکہ پسند آنے کی صورت ميں اسے خریدسکے اور يہ مال تلف ہوجائے تو اس مال کے عوض کے ضامن ہونے کا حکم لگانا محل اشکال ہے اور احوط يہ ہے کہ مصالحت کرے۔

گرا پڑا مال پانے کے احکام

مسئلہ ٢ ۶ ٢٨ اگر انسان کو حيوان کے علاوہ کوئی ایسا گراپڑا مال ملے جس ميں اس کے مالک کی شناخت کی کوئی علامت، چاہے اسی اعتبار سے کہ وہ مال چند معين افراد ميں سے ایک کا ہے ، موجود ۶ چنے کے برابر سکے دار چاندی سے کم ہو تو اس کے / نہ ہو اور اس کی قيمت ایک درہم یعنی ١٢لئے جائز ہے کہ اسے اٹھ ا کر اپنی ملکيت ميں لے لے اور اس کے مالک کے بارے ميں جستجو کرنا بھی ضروری نہيں ، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ مال اس کے مالک کی جانب سے کسی فقير کو صدقہ دے دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٩ اگر کوئی ایسا مال ملے جس ميں مالک کی کوئی نشانی ہو اور اس مال کی قيمت ایک درہم سے کم ہو تو اگر اس کا مالک معلوم ہو، چاہے اسی اعتبار سے کہ وہ مالک چند معين افراد ميں سے ایک ہے تو جب تک اس کی رضایت کا یقين نہ ہوجائے اس کی اجازت کے بغير نہيں اٹھ ا سکتا، جب کہ اگر اس کا مالک کسی بھی اعتبار سے معلوم نہ ہو تو اسے اپنے لئے اٹھ ا سکتا ہے ، البتہ احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کا مالک مل جانے کے بعد اگر وہ چيز باقی ہے تو وهی چيز ورنہ اس کا عوض مالک کو دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٠ اگر انسان کو مالک کی علامت رکھنے والی کوئی چيز ملے، چاہے اس کا مالک مسلمان ہو یا ایسا کافر ہو کہ جس کا مال محترم ہوتا ہے اور اس چيز کی قيمت بھی ایک درہم تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ چيز ملنے والے دن سے لے کر ایک سال تک لوگوں کے اجتماع کے مقام پر اس کے بارے ميں اعلان کرے۔

۴۲۳

مسئلہ ٢ ۶ ٣١ انسان اگر خود اعلان نہ کرنا چاہے تو کسی قابل اطمينان فرد سے کہہ کر بھی اعلان کروا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٢ اگر ایک سال تک اعلان کے باوجود مالک نہ ملے اور وہ مال بھی حرم مکہ کے علاوہ کسی اور مقام سے ملا ہو تو چاہے تو وہ اسے اپنے پاس سنبهال کر رکھ سکتا ہے کہ جب بھی اس کامالک ملے گا اسے دے دے گا اور چاہے تو اسے مالک کی طرف سے کسی فقير کو صدقہ دے دے یا خود اسے لے لے، ليکن جب بھی اس کا مالک ملے اس کا حق ہوگا کہ وہ یہ مال مانگ لے۔ البتہ اگر وہ مال حرم ميں ملا ہو تو ضروری ہے کہ اسے مالک کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٣ اگر انسان نے ایک سال تک اعلان کے بعد بھی اس چيز کا مالک نہ ملنے کی صورت ميں اپنے پاس اصل مالک کے لئے سنبهال کر رکھا ہو اور وہ چيز تلف ہوجائے تو اگر اس چيز کی حفاظت ميں کوتاہی بھی نہ کی ہو اور زیادہ روی بھی نہ کی ہوتو ضامن نہيں ہے ، ليکن اگر اسے اپنے لئے ليا ہو اور وہ چيز تلف ہوجائے تو مالک کے ملنے اور مطالبہ کرنے کی صورت ميں ضامن ہے ، جبکہ اگر مالک کی طرف سے صدقہ کرچکا ہو تو مالک کی مرضی ہے کہ وہ اس صدقہ پر راضی ہو جائے یا اپنے مال کا عوض صدقہ دینے والے سے لے لے اور صدقے کا ثواب صدقہ دینے والے کو مل جائے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ ۴ جس شخص کو مال ملا ہو اور اس نے مذکورہ طریقے کے مطابق اعلان نہ کروایا ہو تو گنهگار ہونے کے باوجود اس کی ذمہ داری ختم نہيں ہوئی اور ضروری ہے کہ بتلائے گئے طریقے پر عمل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ ۵ اگر کسی پاگل یا بچے کو کوئی ایسی چيز ملے جس کا اعلان کرنا ضروری ہے تو ولی اعلان کرنے کے مذکورہ طریقے پر عمل کر سکتا ہے ، ليکن اگر ولی وہ چيز اس پاگل یا بچے سے لے لے تو پھر اس پر اعلان کرنا واجب ہو جائے گا اور ایک سال گزرنے پر بھی اگر مالک نہ ملے تو ولی کو چاہئے کہ یا تو اس کو اصل مالک کے لئے سنبهال کر رکھے یا پاگل یا بچے کے لئے لے لے یا اصل مالک کی طرف سے صدقہ دے دے اور اگر بعد ميں اس کا مالک ملے اور صدقے پر راضی نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ولی اپنے مال ميں سے اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ ۶ اگر انسان اعلان کرنے کے سال کے دوران ہی مالک کے ملنے سے نا اميد ہوجائے تو ملے ہوئے مال کو اپنی کی ملکيت ميں لينا تو اشکال رکھتا ہے ليکن اگرچاہے تو اصل مالک کی طرف سے صدقہ دے سکتا ہے ، البتہ احتياط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٧ اگر اعلان کے سال کے دوران ہی مال تلف ہوجائے جب کہ مال کی حفاظت کرنے ميں کوتاہی یا زیادہ روی کی ہو تو ضامن ہے ورنہ ضامن نہيں ۔

۴۲۴

مسئلہ ٢ ۶ ٣٨ اگر ایسا مال ملے جس کی قيمت تو ایک درہم تک پهنچ جاتی ہو ليکن اس کی پہچان ممکن نہ ہو، مثلاً اس ميں علامت تو ہو ليکن ایسی جگہ سے ملی ہو کہ یقين ہو کہ وہاں اعلان کرنے سے اس کا مالک نہيں ملے گا، یا سرے سے اس ميں کوئی علامت ہی نہ ہو تو پهلے دن سے ہی اس کے مالک کی طرف سے صدقہ دے سکتا ہے جو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے ہو۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٩ اگر انسان کو کوئی چيز ملے جسے اپنی سمجھ کر اٹھ الے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وہ اس کی نہيں تھی تو گذشتہ مسائل ميں گمشدہ چيزوں کے بارے ميں بتلائے گئے سارے احکام اس پر لاگو ہوںگے۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ٠ اعلان کرتے وقت ضروری نہيں ہے کہ ملنے والی چيز کی جنس کا بھی تذکرہ کرے ، بلکہ اگر اتنا بھی کہہ دے کہ مجھے ایک چيز ملی ہے تو کافی ہے مگر یہ کہ جس کی وہ چيز ہے اس پر تاثير کے اعتبار سے جنس کا اعلان کئے بغير کوئی فائدہ نہ ہو۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ١ اگر کسی کو کوئی چيز ملے اور دوسرا کهے کہ یہ ميری ہے اوراس ميں موجود نشانيوں کا تذکرہ بھی کردے تب بھی صرف اسی صورت ميں اسے وہ چيز دے سکتا ہے جب اسے اطمينان ہوجائے کہ یہ اس کی ہے ۔ البتہ ان علامتوں کا تذکرہ ضروری نہيں ہے جن کی طرف عام طور پر مال کے مالک کی بھی توجہ نہيں ہوتی۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ٢ اگر کسی کو ملی ہوئی چيز کی قيمت ایک درہم تک پهنچ رہی ہو ليکن وہ شخص اعلان نہ کرے بلکہ اسے مسجد وغيرہ ميں رکھ دے اور وہ چيز تلف ہوجائے یا کوئی اور شخص اسے اٹھ ا لے تو ضامن وهی شخص ہوگا جسے وہ چيز ملی تھی۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ٣ اگر انسان کو پھل اور سبزیجات وغيرہ جيسی کوئی چيز ملے جو ایک سال تک باقی رہنے کے قابل نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جب تک انہيں کوئی نقصان نہ پهنچے، سنبهال کر رکھے۔ اب اگر اس کا مالک نہ ملے تو حاکم شرع یا اس کے وکيل کی اجازت سے اور اگر ان ميں سے کوئی نہ ہوتو ممکنہ صورت ميں دو عادل مومنين کی اجازت سے اس کی قيمت معلوم کرکے اسے بيچ دے یا خود خرید لے اور اس کی قيمت سنبهال کر رکھ دے اور احتياط واجب یہ ہے کہ چيز ملنے سے ایک سال تک اعلان کرے اور اگر اس کا مالک نہ ملے تو مسئلہ نمبر ٢ ۶ ٣٢ ميں ذکر شدہ طریقے پر عمل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۴۴ جو چيز انسان کو پڑی ہوئی ملی ہو اور وہ وضو و نماز کے وقت انسان کے پاس ہو تو اگر انسان کا ارادہ یہ ہو کہ اس کے مالک کو ڈهونڈ کر اسے دے دے گا تو کوئی حرج نہيں ورنہ اس چيز ميں تصرف کرنا چاہے اپنے پاس رکھنے کا تصرف ہی ہو، حرام ہے ، البتہ صرف اس لئے کہ وہ چيز اس کے پاس ہے اس کے وضو و نماز باطل نہيں ہو جائيں گے۔

مسئلہ ٢ ۶۴۵ اگر کسی شخص کا جوتا چوری ہو جائے اور اس کی جگہ اسے دوسرا جوتا پڑا ہوا ملے اور اسے یقين ہوجائے یا قرائن سے اطمينان آجائے کہ چھوڑا ہوا جوتا اسی جوتا اٹھ انے والے شخص کا ہے اور وہ اس بات پر بھی راضی ہے کہ یہ شخص اپنے جوتے کے عوض اس کا جوتا اٹھ الے، تو یہ شخص اپنے جوتے کے عوض ميں وہ جوتا اٹھ ا سکتا ہے ۔یهی حکم اس وقت بھی ہوگا جب

۴۲۵

اسے معلوم ہو کہ اس کا جوتا ناحق اور ظلم کرتے ہوئے اٹھ ایا گيا ہے ، البتہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ چھوڑے ہوئے جوتے کی قيمت اس کے اپنے جوتے سے زیادہ نہ ہو ورنہ قيمت کی اضافی مقدار ميں مجھول المالک کا حکم جاری ہوگا۔مذکورہ دوصورتوںکے علاوہ چھوڑے ہوئے جوتے ميں مجھول المالک کا حکم جاری ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۴۶ اگر انسان کے پاس مجھول المالک کا مال ہویعنی معلوم نہ ہو کہ اس کا مالک، چاہے چند معين کے افراد کے درميان ہی سهی، کون ہے اور اس مال کو گرا پڑا مال نہ کها جا سکے تو ضروری ہے کہ اس کے مالک کے بارے ميں اس وقت تک جستجو کرے جب تک اس کے ملنے سے نا اميد نہ ہو جائے اور مایوسی کے بعد ضروری ہے کہ اسے فقرا کو صدقے کے طور پر دے دے جو کہ احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے ہواور اگر بعد ميں اس کا مالک مل بھی جائے تو ضامن نہيں ہے ۔

جانوروں کو ذبح اور شکار کرنے کے احکام

مسئلہ ٢ ۶۴ ٧ اگر حلال گوشت جانور کو ، چاہے جنگلی ہو یا پالتو، گردن سے یا کسی اور طریقہ سے جس کی تفصيل بعد ميں آئے گی، تذکيہ کيا جائے تو جان نکلنے کے بعد اس کا بدن پاک اور مندرجہ ذیل موارد کے سوا گوشت حلال ہے :

١) ایسا حلال گوشت چار پايہ اور اس کی نسل جس کے ساته کسی بالغ شخص نے بد فعلی کی ہو۔ اگر بد فعلی کرنے والا نابالغ ہو تو بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

٢) وہ حیوان جو انسانی نجاست کھانے کا عادی ہو جب کہ شریعت ميں معين شدہ طریقے کے مطابق اس کا استبرا نہ کيا گيا ہو۔

٣) وہ بکری کا بچہ جس کی ہڈیاں سو رٔنی کا دودھ پی کر مضبوط ہوئی ہوں۔ اور اس کی نسل احتياط واجب کی بنا پر بھیڑ کے بچے کا بھی یهی حکم ہے ۔

۴) وہ بکری یا بھيڑ کا بچہ جس نے سو رٔنی کا دودھ پيا ہو ليکن اس کی ہڈیاں اس سے مضبوط نہ ہوئی ہوں جبکہ شریعت ميں معين طریقے کے مطابق ان کا استبرا نہ کيا گيا ہو۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ٨ حلال گوشت جنگلی جانور مثلاً هرن، چکور اور پهاڑی بکری اور ایسے حلال گوشت جانور جو پالتو ہوں ليکن کسی وجہ سے جنگلی بن گئے ہوں مثلاً وہ پالتو گائے اور اونٹ جو بهاگ جانے کی وجہ سے جنگلی ہو گئے ہوں، اگر ان کو آئندہ ذکر ہونے والے طریقے کے مطابق شکار کيا جائے تو وہ پاک اور حلال ہيں البتہ حلال گوشت پالتو جانور مثلاً پالتو بھیڑ ،بکری ، مرغی اور وہ حلال گوشت جنگلی جانور جو تربيت کرنے سے پالتو ہوگيا ہے ،شکار کرنے کی وجہ سے پاک اور حلال نہيں ہوتے۔

۴۲۶

مسئلہ ٢ ۶۴ ٩ حلال گوشت جنگلی جانور اسی صورت ميں شکار کرنے سے پاک اور حلال ہوتا ہے جب وہ بهاگ یا اڑ سکتا ہو لہٰذا هرن کا بچہ جو بهاگ نہيں سکتا یا چکور کا بچہ جو اڑ نہيں سکتا، شکار کرنے سے پاک اور حلال نہيں ہوگا اور اگرہرن اور اس کے نہ بهاگ سکنے والے بچے کو ایک ہی تیر سے شکار کریں تو هرن حلال اور بچہ حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۵ ٠ اگر مچھلی جےسا خون جهندہ نہ رکھنے والا حلال گوشت جانور، آئندہ بيان کئے جانے والے تذکيہ کے طریقے کے علاوہ کسی اور وجہ سے مرجائے تو پاک ہے ليکن اس کا کھانا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۵ ١ اگر سانپ جےسے خون جهندہ نہ رکھنے والے حرام گوشت جانور کو ذبح کيا جائے تو حلال نہيں ہوگا ليکن اس کا مردار پاک ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۵ ٢ کتّا اور سورذبح یا شکار کرنے سے پاک نہيں ہوتے اور ان کا گوشت کھانا بھی حرام ہے ۔ اور وہ حرام گوشت جانور جو بھیڑ ئے اور چيتے کی طرح درندے اور گوشت خور ہيں اگر انہيں آئندہ بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق ذبح کيا جائے یا تیر وغيرہ سے ان کا شکار کيا جائے تو وہ پاک ہيں ليکن ان کا گوشت حلال نہيں ہوگا اور اگر شکاری کتے کے ذریعے ان کا شکار کيا جائے تو ان کا پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۵ ٣ ہاتھی،رےچه،اور بندر کو اگر آئندہ بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق ذبح یا تیر وغيرہ سے شکار کيا جائے تو پاک ہيں ليکن چوهے جےسے چھوٹے جانور جو زمين کے اندر رہتے ہيں اگر وہ خون جهندہ رکھتے ہوں اور ان کی جلد قابل استفادہ نہ ہو، ذبح یا شکار کرنے سے پاک نہيں ہوتے ہيں اور اگر ان کی کھال قابل استفادہ ہو تو ان کا پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۵۴ اگر زندہ جانور کے شکم سے مردہ بچہ باہر نکلے یا نکالا جائے تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے ۔

جانوروں کے ذبح کرنے کا طريقہ

مسئلہ ٢ ۶۵۵ حیوان کو ذبح کرنے کا طریقہ يہ ہے کہ اس کی گردن ميں موجود مری یعنی کھانے کی نالی، حلقوم یعنی سانس کی نالی اور اس پر محيط دو بڑی رگوں کو جنہيں چار رگ کها جاتا ہے ، گلے کے ابهار کی نچلی جانب سے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے اور انہيں صرف کھول دینا کافی نہيں ہوگا ۔

مسئلہ ٢ ۶۵۶ اگر چار رگوں ميں سے بعض کو کاٹ دیں اور حیوان کے مرنے تک صبر کریں اور اس کے بعد باقی کو کاٹيں تو حلال اور پاک نہيں ہوگا اور یهی حکم احتياط واجب کی بنا پر اس وقت بھی ہے جب چاروں رگوں کو جانور کے مرنے سے پهلے کاٹيں ليکن ان کو معمول کے مطابق ایک ساته نہ کاٹيں۔

۴۲۷

مسئلہ ٢ ۶۵ ٧ اگر بکری کی گردن کے کچھ حصے کو بھيڑیا اس طرح نوچ لے کہ چار رگيں باقی ہوں یا بدن کے کسی حصے کو نوچ لے ليکن بکری زندہ ہو تو بعد ميں آنے والی شرائط کے مطابق ذبح کرنے کی صورت ميں حلال اور پاک ہوجائے گی اور اگر بکری کی گردن اس طرح نوچے کہ گردن کی جن چار رگوں کو کاٹنا ضروری ہے وہ باقی نہ بچيں تو يہ بکری حرام ہوجائے گی۔ ہاں، اگر کچھ رگوں کو اس طرح نوچے کہ اس سے اوپر یا نيچے سے اس رگ کو کاٹنا ممکن ہو تو اس حیوان کا حلال ہونا محل اشکال ہے ۔

جانور ذبح کرنے کی شرائط

مسئلہ ٢ ۶۵ ٨ جانور ذبح کرنے کی چندشرائط ہيں :

١) جانور ذبح کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلمان مرد،عورت یا مسلمان کا ممےز بچہ ہو جو اچھائی اور برائی کو سمجھتا ہے اور اگر کفار،نواصب،خوارج اور وہ غلات جو کافر کے حکم ميں ہيں جيسے حضرت امیر المومنین عليہ السلام کو خدا ماننے والے افراد، حیوان کو ذبح کریں تو وہ حیوان حلال نہيں ہوگا۔

٢) حیوان کا گلا کسی لوهے کی چيز سے ذبح کریں اور لوہا نہ ملنے کی صورت ميں شےشے یا تيز پتّھر جیسی تيز دهار والی چيز سے چار رگوں کو کاٹا جاسکتا ہے ليکن اس صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جانور ایسی حالت ميں ہو کہ اگر اسے ذبح نہ کيا جائے تو مرجائے یا کسی وجہ سے اس کو ذبح کرنا ضروری ہو۔

٣) ذبح کرتے وقت جانور کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ ہو اور جو شخص جانتا ہو کہ جانور کو روبقبلہ ذبح کرنا ضروری ہے اگر عمداً جانور کو روبقبلہ نہ کرے تو جانور حرام ہوجائے گا۔

هاں، اگر بھول جائے یا مسئلہ نہ جانتا ہو یا قبلہ معين کرنے ميں غلطی کرے یا قبلہ کی سمت نہ جانتا ہو یا جانور کو قبلہ رخ نہ کرسکتا ہو اور ذبح کرنا ضروری ہو تو کوئی اشکال نہيں ہے ۔

۴) جب جانور کو ذبح کرنے لگے یا چھری اس کی گردن پر رکھے تو ذبح کرنے کی نيت سے خدا کا نام لے اور بسم الله یا الله اکبر اور ان جےسے ذکر کافی ہيں بلکہ صرف الله کهنا بھی کافی ہے اور اگر ذبح کے قصدکے بغير خدا کا نام لے تو يہ حیوان پاک نہيں ہوگا اور اس کا گوشت حرام ہے ليکن اگر بھول کر خدا کا نام نہ لے تو اشکال نہيں اور احتياط مستحب ہے کہ جب بھی یاد آئے خدا کا نام لے اور کهے: ”بِسْمِ اللّٰہِ عَلیٰ اَوَّلِہ وَ (عَلیٰ) آخِرِہ“۔

۵) حیوان ذبح ہونے کے بعد حرکت کرے اگرچہ وہ اپنی آنکه یا دم جیسی چيز کو حرکت دے یا اپنے پاؤں زمين پر مارے اور يہ حکم اس وقت ہے جب ذبح کرتے وقت جانور کا زندہ ہونا مشکوک ہو ورنہ ضروری نہيں ہے ۔ يہ بھی واجب ہے کہ اس حيوان کے بدن سے اس کے اعتبار سے معمول اور متعارف مقدار ميں خون نکلے۔

۴۲۸

۶) احتياط واجب کی بنا پر پرندوں کے علاوہ باقی جانوروں ميں روح نکلنے سے پهلے جانور کی گردن جدا نہ کرے بلکہ يہ کام پرندوں ميں بھی محل اشکال ہے ۔ ليکن اگر غفلت یا چاقو کے تيز ہونے کی وجہ سے سر جدا ہوجائے تو اشکال نہيں ہے ۔

اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر اس سفيد رگ کو بھی جو گردن کے مهروں سے دم تک جاتی ہے اور جسے حرام مغز کہتے ہے ، عمداً جدا نہ کرے ۔

٧) احتياط واجب کی بنا پر ذبح کرنے کی جگہ سے ذبح کرے اور گدّی سے ذبح نہ کرے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے کہ چاقو رگوں کے نيچے گهونپ کر باہر کی جانب رگوں کو جدا کرے۔

اونٹ نحر کرنے کا طريقہ

مسئلہ ٢ ۶۵ ٩ اگر اونٹ کو نحر کرنا چاہيں تاکہ مرنے کے بعد پاک اور حلال ہو تو ضروری ہے کہ حیوان ذبح کرنے کی شرائط کے ساته لوهے کی چھری یا لوهے کی کوئی اور چيز جو تيز ہو، سینہ اور گردن کے درميانی حصے ميں گهونپ دے۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٠ جب چھری اونٹ کی گردن ميں گهونپناچاہيں تو بہتر ہے کہ اونٹ کهڑا ہو ليکن اگر اس نے اپنے زانو زمين پر رکھے ہوں یا پهلو کے بل اس طرح ليٹا ہوا ہو کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ روبقبلہ ہو اور اس کی گردن کی نشيب والی جگہ ميں چھری گهونپ دی جائے تو کوئی اشکال نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ١ اگر اونٹ کی گردن کے نشيب ميں چھرا گهونپنے کے بجائے اسے ذبح کریں یا بکری اور گائے جےسے جانوروں کو ذبح کرنے کے بجائے نحر کریں تو ان کا گوشت حرام اور بدن نجس ہے ، ليکن اگر ذبح کرنے کے بعد اونٹ زندہ ہو اور اس کی گردن کے نشيب والے حصے ميں چھرا گهونپ دیا جائے تو اس کا گوشت حلال اور بدن پاک ہے اور اگر بکری اور گائے جےسے جانور کو نحر کرنے کے بعد مرنے سے پهلے ذبح کردیا جائے تو حلال اور پاک ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٢ اگر حیوان سرکش ہو جائے اور اس کو شریعت کے معين شدہ طریقہ سے ذبح کرنا ممکن نہ ہو یا کنویں ميں گرنے کی وجہ سے احتمال ہو کہ وہيں مرجائے گا اور اس کو وہاں شرعی طریقہ سے ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو اس کے جس حصے کو بھی تلوار،نےزہ یا خنجر جیسی چيز سے زخم لگایا جائے اور اسی زخم کی وجہ سے مرجائے تو حلال ہوجائے گا اور اس کا روبقبلہ ہونا ضرورری نہيں ہے ليکن ضروری ہے کہ حیوان ذبح کرنے کی دوسری شرائط موجود ہوں۔

۴۲۹

وہ چيزيں جو حےوان ذبح کرتے وقت مستحب ہيں

مسئلہ ٢ ۶۶ ٣ حیوان ذبح کرنے ميں چند چيزیں مستحب ہيں :

١) بکرا ذبح کرتے وقت اس کے آگے کی دو اور پےچهے کی ایک ٹانگ باندهی جائے اور گائے ذبح کرتے وقت اس کی چاروں پیر بندهے ہوئے ہوں اور دم کهلی ہو اور بیٹھے ہوئے اونٹ کو نحر کرتے وقت اس کے دونوں اگلے پیر نيچے سے زانو یا بغل کے نيچے تک ایک دوسرے سے بندهے ہوئے ہوں اور پےچهے والے پیر کهلے رہيں اور مستحب ہے کہ پرندے کو ذبح کرنے کے بعد چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ پهڑپهڑا سکے۔

٢) جانور کو ذبح کرنے والا شخص قبلہ رخ ہو۔

٣) جانور کو ذبح کرنے سے پهلے اس کے سامنے پانی رکھا جائے۔

۴) ایسا انتظام کریں کہ جانور کو تکلےف کم سے کم ہو، مثلاً چھری اچھی طرح تيز کریں اور جانور کو جلدی جلدی ذبح کریں۔

وہ چيزیں جو جانور کو ذبح کرنے ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ٢ ۶۶۴ چند چيزیں جانور ذبح کرنے ميں مکروہ ہيں :

١) بنا بر مشهور روح نکلنے سے پهلے حیوان کی کھال اُتارنا اور احتياط واجب یہ ہے کہ اس کام کو ترک کردیا جائے۔

٢) جانور کو ایسی جگہ ذبح کرنا جهاں اس جےسا کوئی دوسرا جانور اسے دےکه رہا ہو جےسے بھیڑ ،بکری اور اونٹ کو دوسرے بھیڑ ،بکری اور اونٹ کے سامنے ذبح کرنا جبکہ وہ اسے دےکه رہے ہوں۔

٣) حيوان کو رات کے وقت ذبح کرنا، مگر یہ کہ اس کے مرجانے کا خوف ہو۔ یهی حکم جمعہ کے دن زوال سے پهلے کا ہے ، البتہ اگر ضروری ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

۴) انسان اپنے پالے ہوئے جانور کو خود ذبح کرے۔

اسلحہ سے شکار کرنے کے احکام

مسئلہ ٢ ۶۶۵ اگر حلال گوشت رکھنے والے جنگلی جانور کا اسلحے سے شکار کيا جائے اور وہ مرجائے تو پانچ شرائط کے ساته وہ حلال ہوجاتا ہے اور اس کا بدن پاک ہوتا ہے :

١) شکار ميں استعمال کيا جانے والا اسلحہ چھری اور تلوار کی طرح کاٹنے والا ہو یا نيزے اور تير کی طرح تيز ہو۔ اگر جال لکڑی یا پتّھر وغيرہ سے جانور کا شکار کيا جائے تو جانور پاک نہيں ہوتااور اس کا کھانا بھی حرام ہے ۔اگر جانور کو گولی سے شکار کيا جائے اور گولی ایسی تيز ہو کہ جانور کے بدن ميں گهس جائے اور اسے چير دے تو جانور پاک اور حلال ہے ليکن اگر گولی تيز نہ ہو بلکہ پریشر کی وجہ

۴۳۰

سے جانور کے بدن ميں گهس کر اسے ماردے یا اپنی حرارت کی وجہ سے جانور کے بدن کو جلادے اور جانور اس وجہ سے مر جائے تو جانور کا پاک اور حلال ہونا محل اشکال ہے ۔

٢) شکاری مسلمان ہو یا مسلمان کا ایسا بچہ ہو جو اچھے اور برے کی پہچان رکھتا ہو۔ لہٰذا کفار یا وہ افراد جو کافر کے حکم ميں ہيں جيسے نواصب، خوارج یا غلات مثلاً وہ افراد جو امير المومنين عليہ السلام کو خدا مانتے ہيں ، اگر کسی جانور کو شکار کریں تو وہ جانور حلال نہيں ہوگا۔

٣) اسلحہ حيوان کو شکار کرنے کے لئے ہی استعمال کيا گيا ہو۔ لہٰذا اگر کسی جگہ کا نشانہ ليا ہو اور اتفاقاً کسی جانور کو لگ جائے تو وہ جانور پاک نہيں ہوگااور اس کا کھانا بھی حرام ہوگا۔

۴) اسلحہ استعمال کرتے وقت خدا کا نام لے۔ اگر جان بوجه کر خدا کا نام نہ لے تو شکار حلال نہيں ہوگا۔ ہاں، اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

۵) جانور کے پاس اس وقت پهنچے جب یا جانور مر چکا ہو یا اس کو ذبح کرنے کا وقت نہ بچا ہو۔ ہاں، اگر اتنا وقت بچا ہو اور اسے ذبح نہ کرے یهاں تک کہ جانور مر جائے تو شکار حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۶۶ اگر دو آدمی شکار کریں جب کہ ان ميں سے ایک قصد کرے اور دوسرا نہ کرے یا ایک مسلمان ہو اور دوسرا کافر یا ان ميں سے ایک خدا کا نام لے اور دوسرا عمداً خدا کا نام نہ لے تو جانور حلال نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٧ اگر جانور گولی لگنے کے بعد پانی ميں گر جائے اور انسان جانتا ہو کہ جانور گولی اور پانی دونوں کی وجہ سے مرا ہے تو جانور حلال نہيں ہوگابلکہ اگر یہ یقين نہ ہو کہ جانور صرف گولی کی وجہ سے مرا ہے تو بھی حلال نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٨ اگر غصبی کتے یا اسلحے سے جانور کا شکار کرے تو شکار حلال بھی ہوگا اور اس کی ملکيت ميں بھی آجائے گاليکن ایک تو وہ گنهگار ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اسلحہ یا کتے کی اجرت اس کے مالک کو دے۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٩ اگر تلوار یا کسی بھی ایسی چيز سے جس سے شکار صحيح ہے ، مسئلہ نمبر ٢ ۶۶۵

ميں ذکر شدہ تمام شرائط کے ساته کسی جانور کا شکار کرے اور حيوان کے اس طرح دو ٹکڑے کردے کہ جانور کا سر اور گردن ایک حصے ميں آجائے اور وہ جانور کے پاس اس وقت پهنچے جب جانور مر چکا ہو تو دونوں حصے حلال ہوں گے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب جانور زندہ ہو ليکن اس کوذبح کرنے کا وقت نہ بچا ہو۔ ليکن اگر ذبح کرنے کا وقت بچا ہو اور یہ ممکن ہو کہ جانور ابهی کچھ دیر اور زندہ رہے گاتو جس حصے ميں سر اور گردن نہيں ہيں وہ حصہ تو حرام ہے اور سرو گردن والے حصے کو اگر شریعت ميں مقررہ طریقے کے مطابق ذبح کر دیا جائے تو حلال ورنہ حرام ہے ۔

۴۳۱

مسئلہ ٢ ۶ ٧٠ اگر لکڑی، پتّھر یا اور کسی ایسی چيز سے جس سے شکار صحيح نہيں ہے جانور کے دو حصے کردے تو سروگردن کے بغير والا حصہ تو حرام ہے اور جس حصے ميں سر و گردن ہے اگر وہ حصہ زندہ ہو اور اس بات کا امکان ہو کہ جانور ابهی کچھ دیر اور زندہ رہے گا اور اس کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ذبح کر دیا جائے تو وہ حصہ حلال ہو گا ورنہ وہ بھی حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧١ اگر کسی جانور کے بدن سے شکار یا ذبح کرنے کے بعد زندہ بچہ نکلے تو شریعت کے مقرر کردہ طریقے سے ذبح کردینے پر وہ بچہ حلال ورنہ حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧٢ اگر کسی جانور کا شکار کيا جائے یا اسے ذبح کيا جائے اور اس کے بدن سے مردہ بچہ نکلے تو اگر اس بچے کی خلقت مکمل ہو چکی ہو اور اس کے بدن پر بال یا اون آ چکے ہوں اور اس کے مرنے کا سبب بھی اس کی ماں کا شکار ہوجانا یا ذبح ہوجانا ہو اور اس بچے کو ماں کے پيٹ سے نکالنے ميں معمول سے زیادہ تاخير بھی نہ کی گئی ہو تو وہ بچہ پاک اورحلال ہوگا۔

شکاری کتے کے ساته شکار کرنا

مسئلہ ٢ ۶ ٧٣ کتا اگر کسی حلال گوشت جنگلی جانور کا شکار کرے تو چھ شرائط کے ساته وہ جانور پاک اور حلال ہوگا:

١) کتے کی تربيت اس انداز سے کی گئی ہو کہ جب بھی اسے شکار کے لئے بھيجا جائے چلا جائے اور جب بھی اسے روک ليا جائے رک جائے۔ اور احتياط واجب کی بنا پر اس کی عادت یہ ہو کہ مالک کے پهنچنے سے پهلے شکار کو نہ کهاتا ہو ليکن اگر وہ خون پينے کا عادی ہو یا کبهی کبهی گوشت کهاتا ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

٢) اسے شکار کے لئے بھيجا جائے ۔ لہٰذا اگر کتا خود سے شکار کے پيچهے جائے اور اس کا شکار کرلے تو اس کا کھانا حرام ہے ، بلکہ اگر کتا خود سے شکار کے لئے جائے اور پيچهے سے مالک آواز لگائے تاکہ کتا اور رفتار سے شکار تک پهنچے اور کتا بھی مالک کی آواز کی وجہ سے تيزی دکھائے، پھر بھی احتياط واجب یہ ہے کہ اس شکار کو نہ کهایا جائے۔

٣) کتے کو شکار پر بھيجنے والا یا مسلمان ہو یا مسلمان کا ایسا بچہ ہو جو بهلے برے کی تميز رکھتا ہو۔لہٰذا اگر کافر، ناصبی، خارجی یا ایسا غالی جو کافر کے حکم ميں ہو، کتے کو شکار پر بھيجے تو اس کتے کا کيا ہوا شکار حرام ہے ۔

۴) کتے کو بھيجتے وقت خدا کا نام لے ۔ لہٰذا اگر جان بوجه کر خدا کا نام نہ لے تو وہ شکار حرام ہے ۔ ہاں، اگر نام لينا بھول جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

۵) شکار کيا ہوا جانور کتے کے دانتوں سے لگے ہوئے زخم کی وجہ سے مرے۔ لہٰذا اگر کتا شکار کا گلا گهونٹ دے یا شکار بهاگنے کی وجہ سے یا خوف کے مارے مر جائے تو حلال نہ ہوگا۔

۴۳۲

۶) کتے کو شکار پر بھيجنے والا خود شکار کے پاس اس وقت پهنچے جب شکار مر چکا ہو یا زندہ تو ہو ليکن اتنا وقت نہ ہو کہ اسے ذبح کيا جا سکے، البتہ اس کی شرط یہ ہے کہ اس نے شکار کے پاس جانے ميں سستی نہ کی ہو۔ لہٰذا گر شکار کے پاس اس وقت پهنچے جب اسے ذبح کرنے جتنا وقت باقی ہو اور وہ اس کوذبح نہ کرے یهاں تک کہ وہ جانور مر جائے تو وہ شکار حلال نہ ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ۴ کتے کو شکار پر بھيجنے والااگر اس وقت پهنچے جب اسے ذبح کرنا ممکن تو ہو ليکن مثلاً چاقو نکالنے یا ایسے ہی کسی کام ميں سستی برتے بغير ہی وقت گزر جائے اور جانور مر جائے تو وہ حلال ہے ۔ ہاں، اگر اس کے پاس کوئی ایسی چيز ہی نہ ہو جس سے حيوان کو ذبح کيا جاسکے اور حيوان مر جائے تو وہ حلال نہ ہوگا۔ البتہ اگر ایسی صورتحال ميں کتے کو اس پر چھوڑ دے کہ وہ اسے مار دے تو حلال ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ۵ اگر کچھ کتوں کو بھيجے جو مل کر جانور کا شکار کریں، جب کہ ان سب ميں مسئلہ نمبر ٢ ۶ ٧٣ ميں بيان شدہ شرائط موجود ہوں تو شکار حلال ہوگا اور اگر ان ميں سے ایک ميں بھی وہ ساری شرائط نہ ہوں تو شکار حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ۶ اگر کتے کو کسی جانور کے شکار کے لئے بھيجے اور کتا کسی اور جانور کا شکار کر لے تو وہ جانور حلال اور پاک ہوگا۔نيز اگر اس جانور کے ساته کسی اور جانور کا شکار کر لے تو دونوں حلال اور پاک ہوں گے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧٧ اگر چند افراد مل کر کتے کو شکار کے لئے بھيجيں اور ان ميں سے ایک بھی کافر ہو یا اس پر کافر کے احکام جاری ہوتے ہوں تو وہ شکار حرام ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب ان ميں سے کوئی جان بوجه کر خدا کا نام نہ لے اور اگر بھيجے جانے والے کتوں ميں سے ایک بھی تربيت شدہ نہ ہو جيسا کہ مسئلہ نمبر ٢ ۶ ٧٣ ميں بتایا گيا ہے ، تو وہ شکار حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧٨ اگر شکاری کتے کے علاوہ کوئی جانور جيسے باز یا کوئی اور جانور کسی جانور کا شکار کرے تو وہ شکار حلال نہيں ہے ۔ ہاں، اگر اس جانورکے پاس ایسے وقت ميں پهنچ جائے کہ ابهی حيوان زندہ ہو اور شریعت کی معين کردہ طریقے کے مطابق اسے ذبح کر دیا جائے تو وہ جانور حلال ہوگا۔

مچهلی کا شکار

مسئلہ ٢ ۶ ٧٩ اگر چھلکوں والی مچھلی کو پانی سے اس وقت نکال ليا جائے جب وہ ابهی زندہ ہواور پانی سے باہر آکر مرے تو وہ پاک ہے اور اس کا کھانا حلال ہے ۔جبکہ اگر پانی ميں مر جائے تو پاک ہے ليکن اس کا کھانا حرام ہے ۔هاں، اگر مچهيرے کے جال ميں مر جائے تو اس کا کھانا حلال ہے ۔

البتہ بغير چھلکوں کی مچھلی حرام ہے ، چاہے اسے پانی سے زندہ ہی نکالا جائے اور پانی سے باہر جان دے ۔

۴۳۳

مسئلہ ٢ ۶ ٨٠ اگر مچھلی پانی سے باہر آگرے یا موج اسے پانی سے باہر اچھال دے یا پانی زمين ميں چلا جائے اور مچھلی رہ جائے اور کوئی شخص اس کے مرنے سے پهلے اسے ہاتھ یا کسی اور وسيلے سے پکڑ لے تو مرنے کے بعد وہ مچھلی حلال ہوگی۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨١ مچهيرے کا مسلمان ہونا یا مچھلی پکڑتے وقت اس پر خدا کا نام لينا ضروری نہيں ۔

هاں، یہ ضروری ہے کہ مسلمان نے اسے مچھلی پکڑتے ہوئے دیکھا ہو یا کسی اور طریقے سے اسے یقين ہو یا اس کے پاس شرعی دليل ہو کہ مچھلی کو پانی سے زندہ حالت ميں پکڑا گيا ہے یا پانی کے اندر ہی مچهيرے کے جال ميں مری ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨٢ ایسی مردہ مچھلی جس کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ اسے پانی سے زندہ پکڑا گيا ہے یا مردہ، اگر کسی مسلمان کے ہاتھ ميں ہو تو حلال ہے اور اگر کسی کافر کے ہاتھ ميں ہو جب کہ اس نے اسے کسی مسلمان سے نہ ليا ہو توچاہے وہ یہ کهے کہ ميں نے اسے زندہ پکڑا ہے ، حرام ہے ، مگر یہ کہ شرعی گواہی آجائے یا کوئی قابل اعتماد شخص جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، اس بات کی گواہی دے کہ اسے اس نے پانی سے زندہ پکڑا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨٣ زندہ مچھلی کھانا جائز ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ اس سے پرہيز کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ۴ اگر زندہ مچھلی کو بهونا جائے یا پانی سے باہر، جان دینے سے پهلے ہی اسے مار دیا جائے تو اسے کھانا جائز ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اسے کھانے سے پرہيز کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ۵ اگر مچھلی کو پانی کے باہر دو حصوں ميں کاٹ دیا جائے اور اس کا ایک حصہ اسی کيفيت ميں جب ابهی زندہ ہو پانی ميں گر جائے تو احتياط کی بنا پر پانی سے باہر رہ جانے والے حصے کو کھانا جائز نہيں ۔

ٹڈی کا شکار

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ۶ اگر ٹڈی کو ہاتھ سے یا کسی اور طریقے سے زندہ پکڑ ليا جائے تو وہ مرجانے کے بعد حلال ہوجاتی ہے ۔یہ ضروری نہيں ہے کہ اسے پکڑنے والا مسلمان ہو یا اسے پکڑتے وقت خدا کانام لے۔ البتہ اگر کسی کافر کے ہاتھ ميں مردہ ٹڈی ہو جسے اس نے کسی مسلمان سے نہ ليا ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس نے اسے زندہ پکڑا ہے یا نہيں تو وہ حرام ہے چاہے کافر کا کهنا ہو کہ اس نے اسے زندہ پکڑا ہے ، مگر یہ کہ اس مسلمان کے پاس شرعی گواہی آجائے یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، گواہی دے دے کہ کافر نے اسے زندہ پکڑا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨٧ ایسی ٹڈی کھانا حرام ہے جس کے پر نہ نکلے ہوں اور ابهی پرواز کے قابل نہ ہوئی ہو۔

۴۳۴

کھانے پینے کی چيزوں کے احکام

مسئلہ ٢ ۶ ٨٨ گھریلو مرغی،کبوتر اور مختلف قسم کی چڑیوں کا گوشت حلال ہے ۔ اور بلبل، مینا اور چنڈول چڑیوں ہی کی اقسام ہيں ۔

چمگادڑ، مور، کوّے کی تمام اقسام اور ہر وہ پرندہ جو شاہے ن، عقاب اور باز کی مانند پنجے رکھتا ہو یا اڑتے وقت پروں کو حرکت کم دیتا ہو اور سید ها زیادہ رکھتا ہو ان کا گوشت حرام ہے ۔ اسی طرح ہر اس پرندے کا گوشت بھی حرام ہے جس کا پوٹا، سنگدانہ اور پاؤں کی پشت کا کانٹا نہ ہو ليکن اگر يہ معلوم ہو کہ اڑتے وقت اس کا پروں کو حرکت دینا سید ها رکھنے کے مقابلے ميں زیادہ ہے تو اس صورت ميں اس کا گوشت حلال ہے ۔

اور ابابيل اور هد هد کو مارنا اور ان کا گوشت کھانا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨٩ اگر زندہ جانور کے جسم سے ایک ایسے حصّے کو جدا کيا جائے جو روح رکھتا ہو جےسے چربی یا گوشت تو وہ حصّہ نجس اور حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٠ حلال گوشت حیوانات کے کچھ اجزا حرام ہيں اور ان کی تفصيل کچھ اس طرح ہے :

١) خون

٢) فضلہ(پاخانہ)

٣) عضو تناسل

۴) شرمگاہ

۵) بچہ دانی

۶) غدود

٧) بيضے

٨) وہ چيزجو بهےجے ميں ہوتی ہے اور چنے کے دانے کی شکل کی ہوتی ہے ۔

٩) حرام مغز جو رےڑھ کی ہڈی ميں ہوتا ہے

١٠ ) پِتّہ

١١ ) تلی

۴۳۵

١٢ ) مثانہ(پيشاب کی تهيلی)

١٣ ) آنکه کا ڈهيلا احتياط واجب کی بنا پر اس چربی سے جو رےڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف ہوتی ہے اور اس چيز سے جو سُم کے درميان ميں ہوتی ہے ، جسے ذات الاشاجع کہتے ہيں ، اجتناب کرے۔ يہ احتياط چربی ميں زیادہ تاکید کے ساته ہے ۔ اور پرندوں ميں خون و فضلہ جو کہ یقیناً حرام ہيں ، کے علاوہ مذکورہ بالا اشياء ميں سے جو بھی چيز موجود ہو، احتياط واجب يہ ہے کہ ا س کے کھانے سے پرہےز کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩١ حرام گوشت جانور کا پيشاب پینا حرام ہے ۔ یهی حکم حلال گوشت جانور کے پيشاب کا ہے اور ہر اس چيز کا کھانا و پینا جائز نہيں ہے جس سے انسان کی طبےعت نفرت کرے، ليکن ضرورت پڑنے پر اونٹ،گائے اور بھیڑ کے پيشاب کو بےماری سے شفا کی خاطر پینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٢ مٹی کھانا حرام ہے اور اسی طرح سے احتياط واجب کی بنا پر زمين کے دیگر اجزاءمثلاً خاک،ریت اور پتّھر کا کھانا بھی حرام ہے ، البتہ داغستان کی مٹی اور ارمنی مٹی کو علاج کی غرض سے کھانے ميں اس صورت ميں کوئی حرج نہيں جب علاج اسے کھانے ميں ہی منحصر ہو۔ علاج کی غرض سے تربت حضرت سید الشهداء عليہ السلام کی اتنی تهوڑی مقدار کھانے ميں کوئی حرج نہيں ہے جو ایک معمولی چنے کی مقدار سے زیادہ نہ ہو اور بہتر يہ ہے کہ تربت کو مثلاً پانی ميں حل کرليا جائے تاکہ مٹی ختم ہوجائے اور پھر بعد ميں اس پانی کو پی ليا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٣ ناک کا پانی اور سینہ کے بلغم وغيرہ جو منہ ميں آجائيں اس کا نگلنا حرام نہيں ہے ۔

اسی طرح جو غذا خلال کرتے وقت دانتوں کے درميان سے نکلے اگر طبےعت انسان اس سے نفرت نہ کرے تو اس کے نگلنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩ ۴ ایسی چيز کا کھانا جو انسان کی موت کا سبب بنے یا انسان کے لئے سخت نقصان کا باعث ہو حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩ ۵ گهوڑے، خچر اور گدهے کے گوشت کا کھانا مکروہ ہے اور اگر کوئی ان سے وطی کرلے تو خود وہ حیوان، اس کی نسل اور اس کے دودھ کا پینا حرام ہوجاتا ہے اور پيشاب اور ليد نجس ہوجاتی ہے اور ضروری ہے کہ ایسے جانوروں کو دوسرے شہر ميں لے جاکر بيچ ڈالا جائے اور وطی کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ اس جانور کی قيمت اس کے مالک کو دے اور اگر حلال گوشت جانور مثلاً گائے یا بھیڑ سے وطی کی جائے تو ان کا پيشاب اور گوبر نجس ہوجاتا ہے اور اس کے گوشت کا کھانا اور دودھ کا پینا بھی حرام ہے اور اسی طرح اس کی نسل کا حکم ہے اور ضروری ہے کہ فوراً اس حیوان کو قتل کرکے جلادیا جائے اور وطی کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ اس جانور کی قيمت اس کے مالک کو دے۔

۴۳۶

مسئلہ ٢ ۶ ٩ ۶ اگر بکری کا دودھ پيتا بچہ سو رٔنی کا دودھ اتنی مقدار ميں پی لے کہ اس کی ہڈیاں اس کے دودھ سے مضبوط ہوجائيں تو وہ خود اور اس کی نسل حرام ہوجاتی ہے اور احتياط واجب کی بنا پر شیر خوار بھيڑکے بچے کابهی یهی حکم ہے ۔ ہاں، اس مقدار سے کم پینے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر اس وقت حلال ہوگا جب اس کا استبرا کيا جائے۔ ان جانوروں کا استبرا يہ ہے کہ سات دن تک بکری یا بھیڑ کے تهنوں سے دودھ پيئيں اور اگر انہيں دودھ کی احتياج نہ ہو تو سات دن تک گهاس کهائيں۔

اس حیوان کا بھی گوشت حرام ہے جس نے انسانی نجاست کھانے کی عادت کرلی ہو اور اگر اس کا استبرا کيا جائے تو حلال ہوجاتا ہے اور اس کے استبرا کی کےفيت مسئلہ نمبر ٢٢ ۶ ميں بيان کی جاچکی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٧ شراب او دیگر منشيات کا پیناحرام ہے ۔ اس کی مذمت ميں بہت سی روایات آئی ہيں اور ان ميں سے بعض کا مضمون تقرےباً يہ ہے کہ: پروردگار کی نافرمانی نشہ آور چيز پینے سے زیادہ کسی دوسری چيز سے نہيں ہوئی ہے ۔ امام جعفرصادق عليہ السلام سے پوچها گيا کہ شراب کا پینا زیادہ گناہ کا سبب بنتا ہے یا نماز کا ترک کرنا؟ آپ عليہ السلام نے فرمایا شراب کا پینا اس لئے کہ شراب پینے والے کی ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ اپنے پروردگار کو نہيں پہچانتا۔

حضرت رسول اکرم(ص) سے مروی ہے کہ شراب ہر گناہ کی ابتدا ہے ۔

بعض روایتوں ميں شراب پینے کو زنا اور چوری سے زیادہ بدتر شمار کيا گيا ہے اور خدا نے شراب کو اس لئے حرام کيا ہے کہ يہ ام الخبائث اور ہر برائی کی ابتدا ہے ۔

شراب پینے والا اپنی عقل کهو بیٹھ تا ہے ، اس لئے اسے اپنے پروردگار کی پہچان نہيں رہتی اور وہ ہر طرح کے گناہ کا ارتکاب، کسی بھی عزت کی پامالی، کسی بھی قرےبی رشتہ دار سے قطع رحم اور کسی بھی برائی کو انجام دے دیتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٨ ایسے دستر خوان پر بیٹھنا جهاں شراب پی جارہی ہو اس وقت حرام ہے جب انسان کو انہيں کا ایک فرد سمجھا جائے اور ایسے دستر خوان سے کوئی چيز کھانا بھی حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٩ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو جو بهوک یا پياس کے سبب قرےب المرگ ہو روٹی اور پانی دے اور اس کو مرنے سے بچائے۔

۴۳۷

کھانے اور پینے کے مستحبات اور مکروهات

وہ روایات جن پر فتوی دینے کے سلسلے ميں اعتماد کيا گيا ہے گرچہ وہ مستحب اور مکروہ شرعی کو بيان نہيں کررہی ہيں بلکہ اس فائدہ اور نقصان کو بيان کررہی ہيں جو ان امور(یعنی مستحب کے بجالانے اور مکروہ سے بچنے) پر مترتب ہوتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٧٠٠ کھانا کھانے کے سلسلے ميں چند چيزیں مستحب ہيں

١)کھانا کھانے سے پهلے دونوں ہاتھ دهوئے۔

٢)کھانا کهالینے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ دهوئے اور رومال سے خشک کرے۔

٣)ميزبان سب سے پهلے کھانا کھانا شروع کرے اور سب کے بعد کھانے سے ہاتھ کهینچے اور کھانا کھانے سے قبل سب سے پهلے ميزبان اپنے ہاتھ دهوئے اور اس کے بعد جو شخص اس کے دائيں طرف بیٹھ ا ہو وہ دهوئے اور اسی طرح سلسلہ وار دهوئيں یهاںتک کہ نوبت اس شخص تک آجائے جو اس کے بائيں طرف بیٹھ ا ہو اور کھانا کھانے کے بعد جو شخص ميزبان کے دائيں طرف بیٹھ ا ہو سب سے پهلے وہ ہاتھ دهوئے اور اسی طرح دهوتے چلے جائيں یهاں تک کہ نوبت ميزبان تک پهنچ جائے۔

۴) کھانا کھانے کی ابتدا ميں بسم الله الرحمن الرحےم پڑھے ليکن اگر دسترخوان پر کئی قسم کے کھانے ہوں تو ان ميں سے ہر غذا کی ابتدا ميں بسم الله پڑھنا مستحب ہے ۔

۵) کھانا سیدہے ہاتھ سے کھائے۔

۶) تین انگلیوں یا اس سے زیادہ سے کھائے اور دو انگلیوں سے نہ کھائے۔

٧)اگر چند لوگ ایک دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو ہر ایک اپنے سامنے سے کھائے۔

٨)چهوٹے چھوٹے لقمہ بنائے۔

٩)دستر خوان پر زیادہ دیر بیٹھے اور کھانا کھانے کو طول دے۔

١٠ )کھانے کو اچھی طرح چبائے۔

١١ )کھانا کهالینے کے بعد پروردگار کی حمد کرے۔

١٢ )انگلیوں کو چاٹے۔

١٣ )کھانا کهالینے کے بعد مسواک کرے ،البتہ انار،رےحان اور سرکنڈہ کی لکڑی سے اور کھجور کے درخت کے پتے سے خلال نہ کرے۔

۴۳۸

١ ۴ ) جو غذا دسترخوان سے باہر گرجائے اسے جمع کرے اور کهالے اگر جنگل ميں کھانا کھائے تو مستحب ہے کہ جو کچھ گرے اسے پرندوں اور جانوروں کے لئے چھوڑ دے۔

١ ۵ ) دن اور رات کی ابتدا ميں کھانا کھائے اور دن کے درميان اور رات کے درميان ميں کھانا نہ کھائے۔

١ ۶ ) کھانا کھانے کے بعد پيٹھ کے بل لیٹے اور دایاں پاؤں بائيں پاؤں پر رکھے۔

١٧ )کھانا شروع کرتے وقت اور کهالینے کے بعد نمک چکهے۔

١٨ )پھل کھانے سے پهلے انہيں پانی سے دهولے۔

مسئلہ ٢٧٠١ کھانا کھاتے وقت چند چيزیں مکروہ ہيں :

١) بهرے پيٹ پر کھاناکھانا۔

٢)بہت زیادہ کھانا۔

٣)کھانا کھاتے وقت دوسروں کے منہ کی طرف دےکهنا۔

۴) گرم کھانا کھانا۔

۵) جو چيز کهایا پی رہا ہو اسے پهونک مارنا۔

۶) دسترخوان پر روٹی رکھ دینے کے بعد کسی اور چيز کا انتظار کرنا۔

٧)روٹی کو چھری سے کاٹنا۔

٨)روٹی کو کھانے کے برتن کے نيچے رکھنا۔

٩)ہڈی سے چپکے ہوئے گوشت کو یوں کھانا کہ ہڈی پر بالکل گوشت باقی نہ رہے۔

١٠ )پھل کا چھلکا اتارنا۔

١١ )پھل پورا کھانے سے پهلے پهینک دینا۔

مسئلہ ٢٧٠٢ پانی پینے ميں چند چيزیں مستحب ہيں :

١)پانی چوسنے کے طرز پر پئے۔

٢)دن ميں کھڑے ہوکر پئے۔

٣)پانی پینے سے پهلے بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم اور پینے کے بعد الحمدُ لِلّٰہ کهے۔

۴) پانی تین سانسوں ميں پئے۔

۴۳۹

۵) پانی خواہش کے ساته پئے۔

۶) پانی پینے کے بعد حضرت امام حسین عليہ السلام اور ان کے اہل بيت عليهم السلام کو یاد کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بهےجے۔

مسئلہ ٢٧٠٣ زیادہ پانی پینا ،مرغن کھانے کے بعد پانی پینا،اور رات کو کھڑے ہو کر پانی پینا مذموم شمار کيا گيا ہے ۔ نےز بائيں ہاتھ سے پانی پینا اور اسی طرح کوزے کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے اور اس جگہ سے پینا جهاں کوزے کا دستہ ہو مذموم شمار کيا گيا ہے ۔

نذر و عهد کے احکام

مسئلہ ٢٧٠ ۴ نذر يہ ہے کہ انسان خدا (کی رضا) کے لئے اپنے آپ پر واجب کرلے کہ وہ کسی اچھے کام کو بجالائے گا اور کوئی ایسا کام جس کا نہ کرنابہتر ہو ترک کردے گا۔

مسئلہ ٢٧٠ ۵ نذر ميں ضروری ہے کہ صيغہ پڑھا جائے اور عربی ميں پڑھنا ضروری نہيں ہے پس اگر انسان یوں کهے ”اگر میر ا مرےض صحت یاب ہوگيا تو الله تعالیٰ کے لئے مجھ پر ضروری ہے کہ ميں دس روپے فقير کودوں“ تو اس کی نذر صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧٠ ۶ نذر کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ و عاقل ہو اور اپنے اراداہ و اختيار سے نذر کرے۔ لہذا، اگر کوئی غصے ميں آنے کے سبب بے اختيار نذر کرے یا اسے نذر کرنے پر مجبور کيا جائے تو اس کی نذر صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٠٧ مُفَلَّس یعنی جس شخص کوحاکم شرع نے اپنے اموال ميں تصرف سے روک دیا ہو یا سفيہ یعنی وہ شخص جو اپنے مال کو فضول کاموں ميں خرچ کرتا ہے ، اگرنذر کرے کہ کسی فقير کو مال دیں گے تو نذر صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٠٨ اگر شوہر اپنی بيوی کو نذر کرنے سے روکے تو وہ ایسے کسی کام کی نذر نہيں کرسکتی ہے جس کا پورا کرنا شوہر کے حقوق کے منافی ہو بلکہ اس صورت ميں شوہر کی اجازت کے بغير نذر باطل ہے اور ایسی نذر کے صحيح ہونے ميں اشکال ہے جو عورت اپنے مال ميں شوہر کی اجازت کے بغير کرے جب کہ نذر حج،زکات، ماں باپ سے حسن سلوک اور رشتہ داروں سے صلہ رحم کے علاوہ ہو۔

مسئلہ ٢٧٠٩ اگر عورت شوہر کی اجازت سے نذر کرے تو شوہر نہ ہی اس کی نذر کو ختم کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے نذر پر عمل کرنے سے روک سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٧١٠ اگر بیٹا باپ کی اجازت کے بغير یا باپ کی اجازت سے نذر کرے تو ضروری ہے کہ اسے پورا کرے ليکن اگر ماں باپ اس عمل کو بجالانے سے روک دیں جس کی اس نے نذر کی ہو تو اس کی نذر صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧١١ انسان اس کام کے لئے نذر کرسکتا ہے جس کا انجام دینا اس کے لئے ممکن ہو لہٰذا اگر کوئی شخص مثلاً پید ل کربلا نہ جاسکتا ہو اور پید ل کربلا جانے کی نذر کرے تو اس کی نذر صحيح نہيں ہے ۔

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511