توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207726 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تمام مہمان چپ بیٹھے تھے کسی نے بھی اس آسمانی دعوت کو جواب نہیں دیا: صرف حضرت علی (ع) کہ جن کی عمر تقریباً چودہ سال کی تھی اٹھے اور کہا اے خدا کے رسول(ص) : میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی نصرت و مدد کروں_ پیغمبر اسلام (ص) نے محبت کے انداز میں حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا اور پھر اپنی گفتگو کو دوبارہ حاضرین کے لئے دہرایا اور آخر میں دوبارہ پوچھا کون میرے اس کام میں مدد کرنے کے لئے تیار ہے تا کہ میرا بھائی اور وزیر اور وصی او رجانشین اور خلیفہ ہو؟ اس دفعہ بھی پیغمبر اسلام (ص) کی آسمانی دعوت کا کسی نے جواب نہیں دیا تمام چپ بیٹھے رہے_

حضرت علی علیہ السلام نے اس سکوت کوتوڑتے ہوئے محکم ارادے اور جذبے بھرے انداز میں کہا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی اعانت کروں پیغمبر اسلام (ص) نے محبت بھری نگاہ اس فداکار نوجوان پر ڈالی اور اپنی بات کا تیسری بار پھر تکرار کیا اور کہا_ اے میرے رشتہ دارو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں تمہارے لئے لایا ہوں مجھے محکم ہوا ہے کہ تمہیں خداپرستی اور توحید کی دعوت دوں کون ہے کہ اس کام میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی اور وزیر، وصی، اور جانشین و خلیفہ ہو اس دفعہ بھی تمام خاموش تھے فقط حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان سے اٹھے اور محکم ارادے سے کہا یا رسول اللہ(ص) میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں آپ(ص) کے تمام کاموں میں مدد کروں گا اس وقت مہمانوں کی حیرت زدگی کے عالم میں پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا

۱۲۱

اور ان کے مدد کے معاہدہ اور پیمان کو قبول فرمایا اور مہمانوں میں اعلان کیا_ کہ یہ نوجوان میرا بھائی میرا وزیر میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس پر عمل کرو بہت سے مہمان ناراض ہوئے وہ وہاں سے اٹھے اور پیغمبر اسلام(ص) کی باتوں کا مزاق اڑانے لگے اور ابوطالب (ع) سے کہنے لگے کہ آج سے علی علیہ السلام تمہارا حاکم ہوگیا ہے_ محمد(ص) نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنوں اور اس پر عمل کرو اور اس کی پیروی کرو_

سوالات

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو ابتداء میں اسلام کے لئے کیسے مدعو کرتے تھے اور کتنے عرصہ تک ایسا کرتے رہے؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو کس غرض اور ہدف کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان سے کیا چاہتے تھے؟

۳)___ تین سال کے بعد اللہ تعالی کا آپ(ص) کو کیا حکم ملا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حکم کی تعمیل کے لئے کیا کیا ؟

۵)___ جب مہمان گھر سے باہر نکلتے تھے تو ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے نیز انہوں نے ابولہب سے کیا کہا؟

۶)___ دوسرے دن کی مجلس میں پیغمبر (ص) نے اپنے رشتہ داروں سے کیا فرمایا تھا اور ان سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا ؟

۱۲۲

۷)___ کس نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعو کا مثبت جواب دیا اور کیا کہا؟

۸)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کا تعارف کس عنوان سے کرایا؟

۹)___ مہمانوں نے حضرت رسول (ص) کی بات کا کیا مطلب سمجھا اور اسے جناب ابوطالب (ع) سے کس انداز میں کہنا شروع کیا؟

اپنے دوستوں کو بلایئےہ واقعہ کو سنایئےور اس موضوع پر ان سے گفتگو کیجئے تا کہ اس پیغام کے پہنچانے میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں؟

۱۲۳

پندرہواں سبق

صبر و استقامت

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور جو تھے بھی ان کی اکثریت فقیر، کا رکن اور مزدور قسم کے لوگوں کی تھی لیکن اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) پر صحیح اور پختہ ایمان لاچکے تھے_ اللہ پر ایمان کو قیمتی سرمایہ جانتے تھے دین اسلام کی عظمت کے قائل تھے اور اس عظیم دین اسلام کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے تھے اور اسلام کی ترقی کے لئے جان کی قربانی تک پیش کردیتے اور استقامت دکھلاتے تھے وہ صحیح بامراد، مستقل مزاج اور فدا ہونے والے انسان تھے_

مكّہ کے طاقتور اور بت پرست نئے نئے مسلمان ہونے والوں کا مذاق اڑاتے اور گالیاں دیتے اور ناروا کلمات کہتے تھے ان کو بہت سخت کاموں پر لگاتے اور انہیں تکلیفیں پہنچاتے تا کہ دین اسلام

۱۲۴

سے دست بردار اور کافر ہوجائیں_ لوہے کی زرہ ان کے بدن پر پہناتے اور پہاڑ اور میدان کے درمیان تپتے سورج کے سامنے کھڑا کئے رکھتے زرہ گرم ہوجاتی اور ان کے جسم کو جلا ڈالتی پھر ان کو اسی حالت میں پتھروں اور گرم ریت پر گھیسٹتے اور کہتے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو اور محمد(ص) کو ناروا اور ناسزا کلمات کہو تا کہ ہم تمہیں ایسے شکنجہ میں نہ ڈالیں لیکن وہ فداکار مسلمان تھے لہذا وہ سخت شکنجوں کو برداشت کرتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے انہوں نے اتنا صبر اور استقامت کا ثبوت دیا کہ مكّہ کے بہانہ باز بت پرست تھک گئے اور اپنی کمزوری اور پریشانی کا اظہار کیا ان بہادر مسلمانوں کا ایمان اور ان کی استقامت تھی کہ جس نے اسلام کو نابود ہونے سے محفوظ رکھا عمّار ایسے ہی بہادر مسلمانوں میں ایک تھے ظالم بت پرست انہیں اور ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سميّہ کو پکڑ کر شہر سے باہر لے جاتے اور گرم و جلا دینے والی ریت پر مكّہ کے اطراف میں دوپہر کے وقت مختلف اذیتیں دیتے عمّار کی ماں کہ جس پر ہمارے بہت درود و سلام ہوں پہلی عورت ہیں جو اسلام کے راستے میں شہید ہوئیں جب پیغمبر(ص) ان کی دردناک اذیتوں سے مطلع ہوتے اور ان فداکار مسلمانوں کا دفاع نہ کرسکتے تھے تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور فرماتے کہ صبر و استقامت سے کام لو اپنے ایمان اور عقیدہ کو محفوظ رکھو کیونکہ سب کو آخرت ہی کی طرف لوٹنا ہے اور تمہارے لئے اللہ کا وعدہ بہشت بریں ہے یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے آخر کار تم ہی کامیاب

۱۲۵

ہوگے بلال بھی ان بہادر اور فداکار مسلمانوں میں سے ایک تھے وہ دین اسلام کو اپی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے ظالم انسان انھیں دوپہر کے وقت جلتی دھوپ میں ریت پر لٹاتے اور بہت بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتے تھے اور ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں اور خدا و پیغمبر اسلام (ص) کو ناسزا کلمات کہیں اور بتوں کی عظمت بیان کریں لیکن وہ بجائے اس کے کہ اسلام کا انکار کرتے اور بتوں کی تعریف کرتے ہمیشہ یہی کہتے تھے، احد، احد، یعنی ایک خدا، ایک خدا، صمد، صمد، یعنی بے نیاز اور محتاجوں کی پناہ گاہ خدا_

اسلام کے فدائیوں نے تکلیفیں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس طرح دین اسلام کی حفاظت کی اور اسے ہم تک پہنچایا_ اب دین اسلام کے راستے میں ہماری فداکاری اور جہاد کاوقت ہے دیکھیں کس طرح ہم اتنی بڑی ذمہ داری سے عہدہ براء ہوتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ وہ مسلمانوں جو صحیح ایمان لائے تھے ان کی صفات کیسی تھیں؟

۲)___ بت پرست مسلمانوں کو کیوں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچاتے تھے؟

۱۲۶

۳)___ صبر کا کیا مطلب ہے ان سچّے مسلمانوں کا دین کے راستے میں صبر کس طرح تھا؟

۴)___ اسلام میں پہلے شہدی کا نام کیا ہے اور وہ کس طرح شہید ہوا؟

۴)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ان فداکار مسلمانوں سے کیا فرمایا اور ان کی کیسے دلجوئی کی؟

۵)___ بلال کون تھے بت پرست ان سے کیا چاہتے تھے اور وہ جواب میں کیا کہتے تھے؟

۷)___ دین اسلام کو صحیح مسلمانوں نے کس طرح حفاظت کی؟

۸)___ اسلام کے قوانین کی حفاظت اور اس کے دفاع کے بارے میں ہماری کیا ذمّہ داری ہے؟

۱۲۷

سولہواں سبق

دین اسلام کا تعارف

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی مكّہ کے بت پرست ان مسلمانوں سے دشمنی اور مخالفت کرتے تھے اور انھیں تکلیف پہنچاتے تھے مسلمانوں کے پاس چونکہ قدرت اور طاقت نہ تھی وہ ان بت پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے انہوںیہی بہتر سمجھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں تا کہ ملک میں دین اسلام پر آزادانہ عمل کرسکیں اسی نظریہ کے تحت گروہ در گروہ کشتی پر سوار ہوتے اور مخفی طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے_

حبشہ کا بادشاہ نجّاشی تھا (نجّاشی حبشہ کے چند ایک بادشاہوں کا لقب تھا) یہ عیسائی تھا مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے باخبر ہوا تو ان کو مہربانی اور خوش اخلاقی سے پناہ دی_ جب مكّہ کے بت پرستوں کو

۱۲۸

مسلمانوں کے ہجرت کرجانے کی اطلاع ملی تو بہت ناراض اور غضبناک ہوئے دو آدمیوں کو بہت قیمتی تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کو وہاں سے پکڑ کر مكّہ واپس لے آئیں_ وہ دو آدمی حبشہ آئے اور نجاشی کے پاس گئے اور اس کی تعظیم بجالائے اور اسے تحائف پیش کئے نجّاشی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دیدار کے لئے شہر مكّہ سے آئے ہیں ہمارے نادان جوانوں میں سے ایک تعداد ہمارے دین سے خارج ہوگئی ہے اور ہمارے بتوں کی پرستش سے ہاتھ اٹھایا ہے یہ آپ کے ملک میں بھاگ کر آگئے ہیںمكّہ کے اشراف اور سردار آپ سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردیں تا کہ ان کو ہم اپنے شہر لے جائیں اور انہیں سزا و تنبیہ کریں، نجّاشی نے ان دونوں سے کہا کہ مجھے تحقیق کرنی ہوگی اس کے بعد نجّاشی نے مسلمانوں کو اپنے محل میں دعوت دی اور عیسائی علماء کے سامنے ان سے سوالات کئے نجّاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ تمہارا اس سے پہلے کیا دین تھا اب تمہارا کیا دین ہے کیوں ہمارے ملک میں ہجرت کی ہے جناب جعفر ابن ابی طالب (ع) نے جو ایک فداکار او رمومن جو ان تھے جواب دیا کہ ہمارے شہر میں طاقت ور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں وہاں کے لوگ بت پرست ہیں مردار گوشت کھاتے ہیں برے اور ناپسندیدہ کام انجام دیتے ہیں اپنوں کے ساتھ باوفا اور مہربان نہیں ہیں_ ہمسایوں کو تکلیف دیتے ہیں ان حالات میں اللہ تعالی نے ہمارے لئے ایک پیغمبر جو ہمارے در میان سچائی اور امانت میں مشہور ہے بھیجا ہے وہ ہمارے لئے

۱۲۹

اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام لایا ہے، دین اسلام اس وقت نجّاشی نے اپنی جگہ س حرکت اور تھوڑاسا آگے بڑھا تا کہ غور سے سنے کہ دین اسلام کیا ہے اور کیا کہتا ہے_

جناب جعفر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے اور ایک نگاہ عیسائی علماء کی طرف کی اور کہا کہ دین اسلام ہمیں کہتا ہے کہ بت پرستی نہ کرو اور ایک خدا کی عبادت کرو اور صرف اسی کے حکم کو قبول کرو دین اسلام ہمیں کہتا ہے: سچّے بنو_ امانت دار بنو وفادار ہوجاؤ رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی کرو_ کسی کا رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی نہ کرو، کسی کو گالیاں نہ دو، لغو اور بیہودہ کلام نہ کرو، یتیم کا مال ظلم سے نہ کھاؤ نماز پڑھو، اور اپنے مال کا کچھ حصّہ اچھے کاموں میں خرچ کرو نجاشی اور عیسائی علماء خوب غور سے سن رہے تھے اور آپ کی گفتگو سے لذّت حاصل کر رہے تھے لیکن وہ دو آدمی غصّے سے اپنے ہونٹوں کو چبا رہے تھے اور غصّے کے عالم میں مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے_

جناب جعفر نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا_ اے حبشہ کے بادشاہ دین اسلام کو حضرت محمد(ص) اللہ کی طرف سے لائے ہیں ہم نے اسے قبول کیا ہے اور خدا و اس کے پیغمبر(ص) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمان ہوگئے ہیں مكّہ کے بت پرست اس سے ناراض ہوئے اور جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی اور اذیتیں دیں_ ہم مجبور ہوئے کہ اپنے شہر سے ہجرت کر کے اس ملک میں پناہ لیں تا

۱۳۰

کہ اللہ تعالی کی عبادت کرسکیں اور اپنے مذہب کے اعمال اور عبادات کو آزادنہ طور پر بجالاسکیں_

نجاشی حضرت جعفر کی گفتگو سن کر خوش ہوا اور کہا کہ تمہارے پیغمبر(ص) کے کلام اور جناب عیسی علیہ السلام کے کلام کا سرچشمہ ایک ہے دونوں اللہ کے کلام ہیں تم اس ملک میں آزاد ہو تو اپنے دین کے اعمال کو اور عبادت کو آزادانہ طور سے انجام دے سکتے ہو اور دین اسلام پر باقی رہو واقعی کتنا اچھا دین ہے_

اس کے بعد ان دو بت پرستوں کو آوازدی اور کہا کہ میں رشوت نہیں لیتا جو چیزیں تم لائے تھے انھیں اٹھا لو اور جلدی یہاں سے چلے جاؤ_

یقین جانو کہ میں مسلمانوں کو تمہارے حوالہ نہیں کروں گا جتنا جلدی ہو مكّہ لوٹ جاؤ_

وہ دو آدمی تحائف کو لیکر شرمندہ باہر نکلے اور مكّہ کی طرف چلے گئے_

سوالات

۱)___ ہجرت کے کیا معنی ہیں مسلمانوں نے کیوں ہجرت کی_

۲)___ حبشہ کے بادشاہ کیا دین تھا اور مسلمانوں کو کیوں واپس نہ کیا؟

۱۳۱

۳)___ جعفر کون تھے انہوں نے عیسائی علماء کے سامنے پیغمبر(ص) اور دین اسلام کے متعلق کیا گفتگو کی؟

۴)___ اگر آپ سے دین اسلام اور پیغمبر(ص) کے بارے میں سوال کیا جائے تو کیا جواب دیں گے؟ اسلام اور پیغمبر(ص) کا کیسے تعارف کروائیں گے؟

۵)___ نجّاشی نے جناب جعفر کی گفتگو سننے کے بعد کیا کہا_ بت پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کیا ان کے تحائف کو قبول کرلیا_ اور کیوں؟

۱۳۲

سترہواں سبق

مظلوم کا دفاع

ایک بوڑھا آدمی کسی بیابان میں رہتا تھا اونٹوں کی پرورش اور نگہبانی کرتا تھا اونٹوں کو شہروں میں لے جا کر بیجتا اور اس سے اپنے گھر بار اور بچّوں کی ضروریات خریدتا تھا ایک دفعہ اونٹوں کو لیکر مکہ گیا_ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے اور اونٹوں کی قیمت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اچانک ابوجہل آیا اور دوسروں کی پرواہ کئے بغیر اس بوڑھے آدمی سے کہا کہ اونٹ صرف مجھے فروخت کرنا صرف مجھے سمجھ گئے دوسروں نے جب ابوجہل کی سخت لہجے میں بات سنی تو سب وہاں سے چلے گئے اور اسے اس بوڑھے اونٹ فروش کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا ابوجہل نے کہا کہ اونٹ میرے گھر لے آؤ اس بوڑھے آدمی نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اونٹ اس کے گھر پہنچا دیئےور روپیہ کا تقاضہ کیا ابوجہل نے بلند آواز سے

۱۳۳

کہا کون سا روپیہ میں اس شہر کا سردار ہوں اگر چاہتے ہو پھر مكّہ آؤ اور اونٹ فروخت کرو تو پھر تمہیں چاہیے کہ اونٹوں کا روپیہ مجھ سے نہ لو سمجھ گئے بوڑھے آدمی نے کہا کہ یہی اونٹ میرا سارا سرمایہ ہے میں نے اس کی پرورش اور حفاظت میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اس سرمایہ سے چاہتا تھا کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روزی مہيّا کروں اس لئے تمہیں زیب نہیں دیتا کہ میں خالی ہاتھ لوٹ جاؤں اور تمام زندگی اور کام سے رہ جاؤں چونکہ ابوجہل ایک ظالم اورخودپسند آدمی تھا بجائے اس کے کہ اس کا حق ادا کرتا غضبناک ہو کر کہا کہ تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے بہت جلدی یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ کوڑوں سے تیرا جواب دوں گا سمجھ گئے اس بوڑھے آدمی نے دیکھا کہ اگر تھوڑی دیر اور بیٹھتا ہوں تو ممکن ہے کہ مار بھی کھاؤں مجبور ہوکر وہ اس ظالم بے رحم کے گھر سے اٹھ کر چلا گیا راستے میں اپنے واقعہ کو چند گزرنے والوں سے بیان کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کو تیار نہ ہوا بلکہ وہ جواب دیتے کہ ابوجہل ہمارا شہری ہے وہ قریش میں سے طاقت ور آدمی ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا وہ بوڑھا آدمی گلی کوچہ میں سرگردان جارہا تھا کہ مسجد الحرام تک پہنچ گیا وہاں قریش کی عمومی مجلس میں ابوجہل کی شکایت کی دو آدمیوں نے از راہ مذاق اس بوڑھے آدمی سے کہا اس آدمی کو دیکھو_ یہ محمد(ص) ہے اس نے کہنا شروع کیا ہے کہ میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں وہ ابوجہل کا دوست ہے وہ تیرا حق ابوجہل سے لے سکتا ہے جاؤ اس کے پاس وہ جھوٹ

۱۳۴

بول رہے تھے ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست نہ تھے بلکہ اس کے اور اس کے کاموں کے دشمن تھے خدا نے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا تھا تا کہ وہ ظالموں کے دشمن رہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کریں اور بہادر نیک لوگوں کی مدد سے ظالموں اور خودپسندوں کو ختم کریں خدا نے حضرت محمد(ص) کو لوگوں کی رہبری کے لئے بھیجا تھا تا کہ اجتماع میں عدل اور انصاف کو برقرار رکھیں اور لوگ آزادانہ خدا کی پرستش کریں وہ جھوٹ بول رہے تھے لیکن بوڑھا مظلوم انسان ان کی باتوں کو صحیح خیال کر رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ واقعی حضرت محمد(ص) ابوجہل کے دوست ہیں لہذا وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس آیا تا کہ آپ(ص) سے مدد کرنے کی درخواست کرے جو لوگ قریش کی عمومی مجلس میں بیٹھے ہوے تھے ہنس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے اور کہتے تھے کون ہے جو ابوجہل سے بات کرسکتا ہے وہ قریش کا طاقتور انسان ہے کسی میں جرات نہیںکہ اس کی مخالفت کرے ابوجہل محمد(ص) کو بھی مارے گا اور وہ شرمندہ واپس لوٹیں گے وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس پہنچا اور اپنی سرگزست بیان کی اور آپ سے مدد چاہی حضرت محمد(ص) نے اس کی شکایت کو غور سے سنا اور فرمایا کہ میرے ساتھ آو وہ بوڑھا آدمی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ابوجہل کے گھر پہنچا کچھ آڈمی تھوڑے فاصلے پر ان کے پیچھے ہولئے تا کہ دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ابوجہل کے گھر پہنچے اونٹوں کی آواز اوبجہل کے گھر سے سنائی دے رہی تھی پیغمبر اسلام (ص) نے دروازہ کھٹکھٹایا ابوجہل نے سخت لہجے میں کہا کہ

۱۳۵

کون ہے دروازہ کھولو محمد(ص) ہوں: بوڑھے آدمی نے جب ابوجہل کی سخت آواز سنی تو چند قدم پیچھے ہٹ کر علیحدہ کھڑا ہوگیا ابوجہل نے دروازہ کھولا_ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جائزہ لیا اور پھر تیز نگاہ سے اسے دیکھا اور سخت غصّے کی حالت میں فرمایا اے ابوجہل کیوں کیوں کھڑے ہو جلدی کرو اس کے پیسے دو ابوجہل گھر گیا جو لوگ دور کھڑے تھے انہوں نے گمان کیا کہ ابوجہل اندر گیا ہے تا کہ چابک یا تلوار اٹھالائے گا لیکن ان کی امید کے برعکس وہ پریشان حالت میں گھر سے باہر آیا اور لرزتے ہاتھ سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بوڑھے آدمی کو دے دی بوڑھے آدمی نے وہ تھیلی لے لی_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس سے فرمایا کہ تھیلی کو کھولو اور روپیہ گن کر دیکھو کہیں کم نہ ہوں اس بوڑھے آدمی نے روپیہ گنا اور کہا کہ پورے ہیں اس نے پیغمبر اسلام(ص) کا شکریہ ادا کیا جو لوگ دور سے اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے تھے انہوں نے تعجب کیا اس کے بعد جب ابوجہل کو دیکھا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ محمد(ص) سے ڈرگیا تھا کتنا ڈرپوک ہے تو ابوجہل نے جواب میں کہا وہ جب میرے گھر آئے اور غصّے سے مجھے دیکھ کر روپیہ دینے کے لئے کہا تو اس قدر خوف اور اضطراب مجھ پر طاری ہوا کہ میں مجبور ہوگیا کہ ان کے حکم پر عمل کروں اور اونٹوں کی قیمت ادا کروں اگر تم میری جگہ ہوتے تو اس کے سوا کوئی چارہ تمہارے لئے بھی نہ ہوتا_

اس دن کے بعد جب بھی ابوجہل اور اشراف مكّہ اکٹھے مل کر

۱۳۶

بیٹھتے اور حضرت محمد(ص) اور آپ کے اصحاب کے متعلق گفتگو کرتے تو کہتے کہ محمد(ص) کے پیروکاروں کو اتنی تکلیفیں دیں گے وہ محمد(ص) کو تنہا چھوڑدیںگے اور دین اسلام سے دست پردار ہوجائیں گے محمد(ص) کو اتنا تنگ کریں گے کہ پھر وہ ہم سے مقابلہ نہ کرسکیں گے اور کمزوروں کا حق ہم سے وصول نہ کرسکیں گے آپ کی سمجھے ہیں کیا تکلیف دینے اور اذیتیں پہنچانے سے سچے مسلمانوں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا تھا؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پھر پیغمبر اسلام(ص) نے مظلوموں کی مدد نہیں کی ...؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیاہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست تھے خدا نے آپ(ص) کو کس غرض کے لئے پیغمبری کے لئے چنا تھا؟

۲)___ لوگوں نے اس بوڑھے آدمی کی مدد کیوں نہ کی؟

۳)___ جب وہ آدمی لوگوں سے مدد مانگتا تھا تو اس کو کیا جواب ملتا تھا اور کیا ان کا جواب درست تھا اور اگر درست نہیں تھا تو کیوں؟

۴)___ اگر کوئی تم سے مدد طلب کرے تو اسے کیا جواب دوگے؟

۵)___ تم نے آج تک کسی مظلوم کی مدد کی ہے اور کسی طرح بیان کیجئے؟

۱۳۷

۶)___ ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل سے کیسے پیش آئے اور اس سے کیا فرمایا؟

۷)___ پیغمبر اسلام(ص) کے اس کردار سے آپ کیا درس لیتے ہیں اور کس طرح پیغمبر(ص) کے اس کردار کی آپ پیروری کریں گے؟

۸)___ بت پرستوں نے کیوں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے کا ارادہ کیا تھا؟

۱۳۸

اٹھارہواں سبق

خدا کا آخری پیغمبر حضرت محمد(ص)

اللہ تعالی نے جب سے محمد مصطفی (ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انہیں اپنا آخری پیغمبر قرار دیا ہے ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس ابتدائی دعوت کے وقت سے اللہ تعالی کے حکم سے خود کو آخری نبی ہونے کا اعلان کردیا تھا یعنی اعلان کیا تھا کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تمام وہ لوگ جو ابتداء اسلام میں آنحضرت(ص) پر ایمان لائے تھے اور مسلمان ہوئے تھے جانتے تھے کہ آپ خدا کے آخری پیغمبر ہیں قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے_

حضرت محمد مصطفی (ص) کو آخری پیغمبر بتلایا ہے قرآن فرماتا ہے کہ محمد(ص) رسول خدا اور خاتم النبین ہیں لہذا جو مسلمان ہیں اور قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں حضرت محمد(ص) کو اللہ کا آخری پیغمبر تسلیم کرتے ہیں_

۱۳۹

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام کا آئین اتنا دقیق اور کامل ہے کہ حق طلب انسانوں کو ہمیشہ اور ہر وقت سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے وہ خدا جو تمام انسانوں کی ضروریات کو تمام زبانوں میں جانتا تھا قرآن کے تربیتی پروگرام کو اس طرح دقیق اور کامل و منظّم کیا ہے کہ انسان کے کمال کی ضروریات مہيّا کردی ہیں اسی لئے جتنا بھی انسان ترقی کرجائے اور اس کے علم و کمال میں زیادتی ہوجائے پھر بھی قرآن کا جو اللہ کا کلام اور اس کی طرف سے ہدایت ہے اسی طرح محتاج ہے جس طرح اللہ کی دوسری مخلوقات جیسے پانی، سورج، ہوا، و غیرہ ہمیشہ او رہر حالت میں محتاج ہیں_

انسان کی اسلامی تربیت کا آئین قرآن میں ہے اور قرآن آسمانی کتابوں کی آخری کتاب ہے اور دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے کہ جس کی خداوند عالم نے فداکار مسلمانوں کی مدد سے محافظت کی ہے اور ہم تک پہنچایا ہے یہ عظیم کتاب انسان کی تربیت کا کامل ترین آئین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری آسمانی دین اور ہمارے پیغمبر(ص) کو آخری پیغام لے آنے والا بتلایا ہے_

ان مطالب کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملے مکمل کیجئے

۱)___ اللہ تعالی نے جب سے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انھیں___ دیا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

مسئلہ ٢ ۶ ١٢ اگر انسان کوئی چيزغصب کرلے تو ضروری ہے کہ اس کے مالک کو واپس کرے اور اگر وہ چيز تلف ہوجائے تو اس کا عوض دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٣ اگر غصب شدہ چيز سے کوئی نفع حاصل ہو مثلاً اگر غصب شدہ بھیڑ سے بچہ پيدا ہو تو وہ مالک کی ملکيت ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی نے مکان غصب کيا ہو تو اگرچہ اس ميں رہا ئش اختيار نہ کی ہو تب بھی اس کا کرايہ ادا کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ ۴ اگر کسی بچے یا دیوانے سے اس کے مال ميں سے کوئی چيز غصب کرلے تو ضروری ہے کہ اس کے ولی کو لوٹائے اور اگر تلف ہوگئی ہو تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ ۵ جب دو آدمی مل کر کسی چيز کو غصب کریں تو اگرہر شخص آدهے حصے پر مسلط ہو تو دونوں آدهے آدهے حصے کے ضامن ہيں اور اگر دونوں پورے پر مسلط ہوں تو ہر ایک پورے کا ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ ۶ اگر غصب شدہ چيز کسی اور چيز سے مخلوط کردے مثلاً غصب کئے ہوئے گندم کو جو سے مخلوط کردے تو اگر ان کو جدا کرنا ممکن ہو، چاہے باعث زحمت ہو، ضروری ہے کہ جدا کرکے مالک کو واپس کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٧ اگر انسان ایسی چيزغصب کرے جس ميں کوئی کام کيا گيا ہو مثلاً وہ سونا جس سے گوشوارہ بنایا گيا ہو اور اسے خراب کردے تو ضروری ہے کہ ا س کے مادّے کے ساته اس کام اور صفات کی قيمت بھی مالک کو دے اور اگر خرابی کے بعد مادّہ کی قيمت اس کی پهلی والی قيمت سے کم ہوگئی ہو تو ضروری ہے کہ دونوں قيمتوں کا فرق بھی ادا کرے اور اگر کهے کہ اسے پهلے کی طرح بنادیتا ہوں، تو مالک کے لئے قبول کرنا ضروری نہيں ہے اور مالک بھی اسے پهلے کی طرح کا بنانے پر مجبور نہيں کرسکتا ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٨ اگر غصب شدہ چيز کو اس طرح بدل دے کہ پهلے سے بہتر ہوجائے مثلاً غصب کئے ہوئے سونے کا گوشوارہ بنادے اور مالک کهے کہ اسی طرح واپس کرو، تو ضروری ہے کہ واپس دے دے اور اپنی محنت کی اجرت نہيں لے سکتا۔ اسی طرح مالک کی اجازت کے بغير یہ حق بھی نہيں رکھتا کہ اسے پهلی حالت ميں لے آئے اور اگر بغير اجازت اسے پهلی حالت ميں لے آئے تو اس صفت کی قيمت کا ضامن ہونا محل اشکال ہے اور احوط یہ ہے کہ مصالحت کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٩ اگر غصب شدہ چيز کو اس طرح بدل دے کہ وہ پهلے سے بہتر ہوجائے اور مالک کهے کہ اس کو پهلی صورت ميں تبدیل کرو تو واجب ہے کہ اسے پهلی شکل ميں لے آئے اور اگر تبدیلی کی وجہ سے اس کی قيمت پهلی قيمت سے کم ہوجائے تو ضروری ہے کہ قيمت کا فرق بھی مالک کو دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٠ اگر غصب کی ہوئی زمين ميں زراعت کرے یا درخت لگائے تو زراعت،درخت اور پھل اس کی ملکيت ہے ۔ ہاں، اگر مالک اپنی زمين ميں اس غاصب کی زراعت اور درخت رکھنے پر راضی نہ ہو تو ضروری ہے کہ غاصب فوراً اپنی زراعت اور

۴۲۱

درخت زمين سے اکهاڑ لے چاہے نقصان ہی کيوں نہ ہو اور ضروری ہے کہ جتنی مدت زراعت اور درخت اس زمين ميں رہے ہيں اس کا کرايہ ادا کرے بلکہ اس سے بھی پهلے کی مدت یعنی جب سے غصب کيا ہے اس وقت کا کرایہ بھی دے اور جو خرابياں زمين ميں پيدا ہوگئی ہيں انہيں ٹھ ےک کرے مثلاً درختوں کی جگہ پُر کرے اور اگر ان چيزوں کی وجہ سے زمين کی قيمت پهلے کی نسبت کم ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ اس کا فرق بھی دے اور غاصب، زمين کے مالک کو مجبور نہيں کرسکتا کہ زمين اسے بيچ دے یا کرائے پر دے اور زمين کا مالک بھی اس کو مجبور نہيں کرسکتا کہ يہ درخت اور زراعت اسے بيچ دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢١ اگر زمين کا مالک اس بات پر راضی ہو جائے کہ کهيتی اور درخت اس کی زمين پر باقی رہيں تو غصب کرنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ انہيں زمين سے اکهاڑے، ليکن ضروری ہے کہ غصب کرنے کے وقت سے راضی ہونے تک کا کرایہ زمين کے مالک کو دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٢ اگر غصب شدہ چيز تلف ہوجائے اور وہ چيز قےمی ہو یعنی ایسی ہو کہ اس صنف کی اشياء کی خصوصيات ميں ان کی اہميت اور عقلاء کی دلچسپی کے اعتبار سے معمولاً فرق موجود ہو جےسے حیوانات، تو ضروری ہے کہ اس کی قيمت ادا کرے اور اگر اس کی بازاری قيمت غصب سے لے کر ادا کرنے تک مختلف ہوں تو احتياط واجب کی بنا پر غصب سے لے کر تلف کی مدت تک کی قيمتوں ميں سے سب سے زیادہ والی قيمت ادا کرے اور احتياط مستحب ہے کہ غصب سے لے کر ادائيگی کرنے تک کی قيمتوں ميں سے سب سے زیادہ والی قيمت ادا کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٣ اگر غصب شدہ چيز تلف ہوجائے اور مثلی ہو یعنی اس صنف کی اشياء کی خصوصيات ميں ان کی اہميت اور عقلاء کی دلچسپی کے اعتبار سے معمولاً فرق موجود نہ ہو جےسے گندم و جو کی طرح دانے دار چيزیں تو نوعی اور صنفی خصوصيات ميں اسی غصب شدہ چيز کی مثل ادا کرے مثلاً اگر بارش سے سينچی گئی گندم غصب کرے تو اس کے بدلے پانی کے ذریعے سينچی گئی گندم نہيں دے سکتا۔ اسی طرح اگر بارش سے سينچی گئی اعلی گندم غصب کرے تو گھٹيا گندم نہيں دے سکتا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ۴ اگر بھیڑ جیسی کوئی چيز غصب کرے اور وہ تلف ہوجائے تو اگر اس کی بازاری قيمت تبدیل نہ ہوئی ہو ليکن جتنا عرصہ اس کے پاس رہی ہو اس عرصہ ميں صحت مندهوگئی ہو تو ضروری ہے کہ صحت مندبھیڑ کی قيمت دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ۵ اگر غصب شدہ چيز کو کوئی دوسرا اس سے غصب کرلے اور وہ چيز تلف ہوجائے تو مالک کو حق ہے کہ ان دونوں ميں سے جس سے چاہے پورے مال کا عوض یا بعض کا عوض لے سکتا ہے پس اگر پهلے غاصب سے عوض لے لے تو پهلے نے جو کچھ دیا ہے اس کا مطالبہ دوسرے سے بھی کرسکتا ہے ، البتہ اگر دوسرے سے عوض لے لے تو وہ پهلے سے مطالبہ نہيں کرسکتا ہے ۔

۴۲۲

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ۶ اگر خریدو فروخت ميں ایسا معاملہ واقع ہو جس ميں معاملہ کی شرائط ميں سے کوئی ایک شرط موجود نہ ہو جےسے جس چيز کی مقدار معلوم ہونا ضروری تھا اسے مقدار جانے بغير فروخت کرے تو معاملہ باطل ہے اور اگر بيچنے اور خریدنے والا معاملے سے قطع نظر کرتے ہوئے اس بات پر راضی ہوجائيں کہ ان ميں سے ہر ایک دوسرے کے مال ميں تصرف کرے تو اس ميں کوئی اشکال نہيں ہے ورنہ جو چيز انہوں نے ایک دوسرے سے لی ہے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کوواپس کردیں اور اگر ہر ایک کا مال دوسرے کے ہاتھ ميں تلف بھی ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے چاہے انہيں معاملے کے باطل ہونے کا معلوم تھا یا نہيں ، لہٰذا اگرتلف شدہ مال مثلی ہو تو اس کا مثل دے اور اگر قےمی ہو تو تلف ہوتے وقت کی قيمت دے اگرچہ احوط يہ ہے کہ مال ہاتھ ميں لینے سے لے کر تلف ہونے تک کی قيمتوں ميں سے سب سے زیادہ والی قيمت دے اور اس سے زیادہ احوط يہ ہے کہ مال ہاتھ ميں لینے سے لے کر قيمت ادا کرنے تک کی قيمتوں ميں سے سب سے زیادہ والی قيمت دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٧ جب بھی مال فروخت کرنے والے سے دیکھنے یا اپنے پاس رکھنے کے لئے مال لے تاکہ پسند آنے کی صورت ميں اسے خریدسکے اور يہ مال تلف ہوجائے تو اس مال کے عوض کے ضامن ہونے کا حکم لگانا محل اشکال ہے اور احوط يہ ہے کہ مصالحت کرے۔

گرا پڑا مال پانے کے احکام

مسئلہ ٢ ۶ ٢٨ اگر انسان کو حيوان کے علاوہ کوئی ایسا گراپڑا مال ملے جس ميں اس کے مالک کی شناخت کی کوئی علامت، چاہے اسی اعتبار سے کہ وہ مال چند معين افراد ميں سے ایک کا ہے ، موجود ۶ چنے کے برابر سکے دار چاندی سے کم ہو تو اس کے / نہ ہو اور اس کی قيمت ایک درہم یعنی ١٢لئے جائز ہے کہ اسے اٹھ ا کر اپنی ملکيت ميں لے لے اور اس کے مالک کے بارے ميں جستجو کرنا بھی ضروری نہيں ، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ مال اس کے مالک کی جانب سے کسی فقير کو صدقہ دے دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢٩ اگر کوئی ایسا مال ملے جس ميں مالک کی کوئی نشانی ہو اور اس مال کی قيمت ایک درہم سے کم ہو تو اگر اس کا مالک معلوم ہو، چاہے اسی اعتبار سے کہ وہ مالک چند معين افراد ميں سے ایک ہے تو جب تک اس کی رضایت کا یقين نہ ہوجائے اس کی اجازت کے بغير نہيں اٹھ ا سکتا، جب کہ اگر اس کا مالک کسی بھی اعتبار سے معلوم نہ ہو تو اسے اپنے لئے اٹھ ا سکتا ہے ، البتہ احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کا مالک مل جانے کے بعد اگر وہ چيز باقی ہے تو وهی چيز ورنہ اس کا عوض مالک کو دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٠ اگر انسان کو مالک کی علامت رکھنے والی کوئی چيز ملے، چاہے اس کا مالک مسلمان ہو یا ایسا کافر ہو کہ جس کا مال محترم ہوتا ہے اور اس چيز کی قيمت بھی ایک درہم تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ چيز ملنے والے دن سے لے کر ایک سال تک لوگوں کے اجتماع کے مقام پر اس کے بارے ميں اعلان کرے۔

۴۲۳

مسئلہ ٢ ۶ ٣١ انسان اگر خود اعلان نہ کرنا چاہے تو کسی قابل اطمينان فرد سے کہہ کر بھی اعلان کروا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٢ اگر ایک سال تک اعلان کے باوجود مالک نہ ملے اور وہ مال بھی حرم مکہ کے علاوہ کسی اور مقام سے ملا ہو تو چاہے تو وہ اسے اپنے پاس سنبهال کر رکھ سکتا ہے کہ جب بھی اس کامالک ملے گا اسے دے دے گا اور چاہے تو اسے مالک کی طرف سے کسی فقير کو صدقہ دے دے یا خود اسے لے لے، ليکن جب بھی اس کا مالک ملے اس کا حق ہوگا کہ وہ یہ مال مانگ لے۔ البتہ اگر وہ مال حرم ميں ملا ہو تو ضروری ہے کہ اسے مالک کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٣ اگر انسان نے ایک سال تک اعلان کے بعد بھی اس چيز کا مالک نہ ملنے کی صورت ميں اپنے پاس اصل مالک کے لئے سنبهال کر رکھا ہو اور وہ چيز تلف ہوجائے تو اگر اس چيز کی حفاظت ميں کوتاہی بھی نہ کی ہو اور زیادہ روی بھی نہ کی ہوتو ضامن نہيں ہے ، ليکن اگر اسے اپنے لئے ليا ہو اور وہ چيز تلف ہوجائے تو مالک کے ملنے اور مطالبہ کرنے کی صورت ميں ضامن ہے ، جبکہ اگر مالک کی طرف سے صدقہ کرچکا ہو تو مالک کی مرضی ہے کہ وہ اس صدقہ پر راضی ہو جائے یا اپنے مال کا عوض صدقہ دینے والے سے لے لے اور صدقے کا ثواب صدقہ دینے والے کو مل جائے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ ۴ جس شخص کو مال ملا ہو اور اس نے مذکورہ طریقے کے مطابق اعلان نہ کروایا ہو تو گنهگار ہونے کے باوجود اس کی ذمہ داری ختم نہيں ہوئی اور ضروری ہے کہ بتلائے گئے طریقے پر عمل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ ۵ اگر کسی پاگل یا بچے کو کوئی ایسی چيز ملے جس کا اعلان کرنا ضروری ہے تو ولی اعلان کرنے کے مذکورہ طریقے پر عمل کر سکتا ہے ، ليکن اگر ولی وہ چيز اس پاگل یا بچے سے لے لے تو پھر اس پر اعلان کرنا واجب ہو جائے گا اور ایک سال گزرنے پر بھی اگر مالک نہ ملے تو ولی کو چاہئے کہ یا تو اس کو اصل مالک کے لئے سنبهال کر رکھے یا پاگل یا بچے کے لئے لے لے یا اصل مالک کی طرف سے صدقہ دے دے اور اگر بعد ميں اس کا مالک ملے اور صدقے پر راضی نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ولی اپنے مال ميں سے اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ ۶ اگر انسان اعلان کرنے کے سال کے دوران ہی مالک کے ملنے سے نا اميد ہوجائے تو ملے ہوئے مال کو اپنی کی ملکيت ميں لينا تو اشکال رکھتا ہے ليکن اگرچاہے تو اصل مالک کی طرف سے صدقہ دے سکتا ہے ، البتہ احتياط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٧ اگر اعلان کے سال کے دوران ہی مال تلف ہوجائے جب کہ مال کی حفاظت کرنے ميں کوتاہی یا زیادہ روی کی ہو تو ضامن ہے ورنہ ضامن نہيں ۔

۴۲۴

مسئلہ ٢ ۶ ٣٨ اگر ایسا مال ملے جس کی قيمت تو ایک درہم تک پهنچ جاتی ہو ليکن اس کی پہچان ممکن نہ ہو، مثلاً اس ميں علامت تو ہو ليکن ایسی جگہ سے ملی ہو کہ یقين ہو کہ وہاں اعلان کرنے سے اس کا مالک نہيں ملے گا، یا سرے سے اس ميں کوئی علامت ہی نہ ہو تو پهلے دن سے ہی اس کے مالک کی طرف سے صدقہ دے سکتا ہے جو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے ہو۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣٩ اگر انسان کو کوئی چيز ملے جسے اپنی سمجھ کر اٹھ الے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وہ اس کی نہيں تھی تو گذشتہ مسائل ميں گمشدہ چيزوں کے بارے ميں بتلائے گئے سارے احکام اس پر لاگو ہوںگے۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ٠ اعلان کرتے وقت ضروری نہيں ہے کہ ملنے والی چيز کی جنس کا بھی تذکرہ کرے ، بلکہ اگر اتنا بھی کہہ دے کہ مجھے ایک چيز ملی ہے تو کافی ہے مگر یہ کہ جس کی وہ چيز ہے اس پر تاثير کے اعتبار سے جنس کا اعلان کئے بغير کوئی فائدہ نہ ہو۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ١ اگر کسی کو کوئی چيز ملے اور دوسرا کهے کہ یہ ميری ہے اوراس ميں موجود نشانيوں کا تذکرہ بھی کردے تب بھی صرف اسی صورت ميں اسے وہ چيز دے سکتا ہے جب اسے اطمينان ہوجائے کہ یہ اس کی ہے ۔ البتہ ان علامتوں کا تذکرہ ضروری نہيں ہے جن کی طرف عام طور پر مال کے مالک کی بھی توجہ نہيں ہوتی۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ٢ اگر کسی کو ملی ہوئی چيز کی قيمت ایک درہم تک پهنچ رہی ہو ليکن وہ شخص اعلان نہ کرے بلکہ اسے مسجد وغيرہ ميں رکھ دے اور وہ چيز تلف ہوجائے یا کوئی اور شخص اسے اٹھ ا لے تو ضامن وهی شخص ہوگا جسے وہ چيز ملی تھی۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ٣ اگر انسان کو پھل اور سبزیجات وغيرہ جيسی کوئی چيز ملے جو ایک سال تک باقی رہنے کے قابل نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جب تک انہيں کوئی نقصان نہ پهنچے، سنبهال کر رکھے۔ اب اگر اس کا مالک نہ ملے تو حاکم شرع یا اس کے وکيل کی اجازت سے اور اگر ان ميں سے کوئی نہ ہوتو ممکنہ صورت ميں دو عادل مومنين کی اجازت سے اس کی قيمت معلوم کرکے اسے بيچ دے یا خود خرید لے اور اس کی قيمت سنبهال کر رکھ دے اور احتياط واجب یہ ہے کہ چيز ملنے سے ایک سال تک اعلان کرے اور اگر اس کا مالک نہ ملے تو مسئلہ نمبر ٢ ۶ ٣٢ ميں ذکر شدہ طریقے پر عمل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۴۴ جو چيز انسان کو پڑی ہوئی ملی ہو اور وہ وضو و نماز کے وقت انسان کے پاس ہو تو اگر انسان کا ارادہ یہ ہو کہ اس کے مالک کو ڈهونڈ کر اسے دے دے گا تو کوئی حرج نہيں ورنہ اس چيز ميں تصرف کرنا چاہے اپنے پاس رکھنے کا تصرف ہی ہو، حرام ہے ، البتہ صرف اس لئے کہ وہ چيز اس کے پاس ہے اس کے وضو و نماز باطل نہيں ہو جائيں گے۔

مسئلہ ٢ ۶۴۵ اگر کسی شخص کا جوتا چوری ہو جائے اور اس کی جگہ اسے دوسرا جوتا پڑا ہوا ملے اور اسے یقين ہوجائے یا قرائن سے اطمينان آجائے کہ چھوڑا ہوا جوتا اسی جوتا اٹھ انے والے شخص کا ہے اور وہ اس بات پر بھی راضی ہے کہ یہ شخص اپنے جوتے کے عوض اس کا جوتا اٹھ الے، تو یہ شخص اپنے جوتے کے عوض ميں وہ جوتا اٹھ ا سکتا ہے ۔یهی حکم اس وقت بھی ہوگا جب

۴۲۵

اسے معلوم ہو کہ اس کا جوتا ناحق اور ظلم کرتے ہوئے اٹھ ایا گيا ہے ، البتہ اس صورت ميں ضروری ہے کہ چھوڑے ہوئے جوتے کی قيمت اس کے اپنے جوتے سے زیادہ نہ ہو ورنہ قيمت کی اضافی مقدار ميں مجھول المالک کا حکم جاری ہوگا۔مذکورہ دوصورتوںکے علاوہ چھوڑے ہوئے جوتے ميں مجھول المالک کا حکم جاری ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۴۶ اگر انسان کے پاس مجھول المالک کا مال ہویعنی معلوم نہ ہو کہ اس کا مالک، چاہے چند معين کے افراد کے درميان ہی سهی، کون ہے اور اس مال کو گرا پڑا مال نہ کها جا سکے تو ضروری ہے کہ اس کے مالک کے بارے ميں اس وقت تک جستجو کرے جب تک اس کے ملنے سے نا اميد نہ ہو جائے اور مایوسی کے بعد ضروری ہے کہ اسے فقرا کو صدقے کے طور پر دے دے جو کہ احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے ہواور اگر بعد ميں اس کا مالک مل بھی جائے تو ضامن نہيں ہے ۔

جانوروں کو ذبح اور شکار کرنے کے احکام

مسئلہ ٢ ۶۴ ٧ اگر حلال گوشت جانور کو ، چاہے جنگلی ہو یا پالتو، گردن سے یا کسی اور طریقہ سے جس کی تفصيل بعد ميں آئے گی، تذکيہ کيا جائے تو جان نکلنے کے بعد اس کا بدن پاک اور مندرجہ ذیل موارد کے سوا گوشت حلال ہے :

١) ایسا حلال گوشت چار پايہ اور اس کی نسل جس کے ساته کسی بالغ شخص نے بد فعلی کی ہو۔ اگر بد فعلی کرنے والا نابالغ ہو تو بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

٢) وہ حیوان جو انسانی نجاست کھانے کا عادی ہو جب کہ شریعت ميں معين شدہ طریقے کے مطابق اس کا استبرا نہ کيا گيا ہو۔

٣) وہ بکری کا بچہ جس کی ہڈیاں سو رٔنی کا دودھ پی کر مضبوط ہوئی ہوں۔ اور اس کی نسل احتياط واجب کی بنا پر بھیڑ کے بچے کا بھی یهی حکم ہے ۔

۴) وہ بکری یا بھيڑ کا بچہ جس نے سو رٔنی کا دودھ پيا ہو ليکن اس کی ہڈیاں اس سے مضبوط نہ ہوئی ہوں جبکہ شریعت ميں معين طریقے کے مطابق ان کا استبرا نہ کيا گيا ہو۔

مسئلہ ٢ ۶۴ ٨ حلال گوشت جنگلی جانور مثلاً هرن، چکور اور پهاڑی بکری اور ایسے حلال گوشت جانور جو پالتو ہوں ليکن کسی وجہ سے جنگلی بن گئے ہوں مثلاً وہ پالتو گائے اور اونٹ جو بهاگ جانے کی وجہ سے جنگلی ہو گئے ہوں، اگر ان کو آئندہ ذکر ہونے والے طریقے کے مطابق شکار کيا جائے تو وہ پاک اور حلال ہيں البتہ حلال گوشت پالتو جانور مثلاً پالتو بھیڑ ،بکری ، مرغی اور وہ حلال گوشت جنگلی جانور جو تربيت کرنے سے پالتو ہوگيا ہے ،شکار کرنے کی وجہ سے پاک اور حلال نہيں ہوتے۔

۴۲۶

مسئلہ ٢ ۶۴ ٩ حلال گوشت جنگلی جانور اسی صورت ميں شکار کرنے سے پاک اور حلال ہوتا ہے جب وہ بهاگ یا اڑ سکتا ہو لہٰذا هرن کا بچہ جو بهاگ نہيں سکتا یا چکور کا بچہ جو اڑ نہيں سکتا، شکار کرنے سے پاک اور حلال نہيں ہوگا اور اگرہرن اور اس کے نہ بهاگ سکنے والے بچے کو ایک ہی تیر سے شکار کریں تو هرن حلال اور بچہ حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۵ ٠ اگر مچھلی جےسا خون جهندہ نہ رکھنے والا حلال گوشت جانور، آئندہ بيان کئے جانے والے تذکيہ کے طریقے کے علاوہ کسی اور وجہ سے مرجائے تو پاک ہے ليکن اس کا کھانا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۵ ١ اگر سانپ جےسے خون جهندہ نہ رکھنے والے حرام گوشت جانور کو ذبح کيا جائے تو حلال نہيں ہوگا ليکن اس کا مردار پاک ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۵ ٢ کتّا اور سورذبح یا شکار کرنے سے پاک نہيں ہوتے اور ان کا گوشت کھانا بھی حرام ہے ۔ اور وہ حرام گوشت جانور جو بھیڑ ئے اور چيتے کی طرح درندے اور گوشت خور ہيں اگر انہيں آئندہ بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق ذبح کيا جائے یا تیر وغيرہ سے ان کا شکار کيا جائے تو وہ پاک ہيں ليکن ان کا گوشت حلال نہيں ہوگا اور اگر شکاری کتے کے ذریعے ان کا شکار کيا جائے تو ان کا پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۵ ٣ ہاتھی،رےچه،اور بندر کو اگر آئندہ بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق ذبح یا تیر وغيرہ سے شکار کيا جائے تو پاک ہيں ليکن چوهے جےسے چھوٹے جانور جو زمين کے اندر رہتے ہيں اگر وہ خون جهندہ رکھتے ہوں اور ان کی جلد قابل استفادہ نہ ہو، ذبح یا شکار کرنے سے پاک نہيں ہوتے ہيں اور اگر ان کی کھال قابل استفادہ ہو تو ان کا پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۵۴ اگر زندہ جانور کے شکم سے مردہ بچہ باہر نکلے یا نکالا جائے تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے ۔

جانوروں کے ذبح کرنے کا طريقہ

مسئلہ ٢ ۶۵۵ حیوان کو ذبح کرنے کا طریقہ يہ ہے کہ اس کی گردن ميں موجود مری یعنی کھانے کی نالی، حلقوم یعنی سانس کی نالی اور اس پر محيط دو بڑی رگوں کو جنہيں چار رگ کها جاتا ہے ، گلے کے ابهار کی نچلی جانب سے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے اور انہيں صرف کھول دینا کافی نہيں ہوگا ۔

مسئلہ ٢ ۶۵۶ اگر چار رگوں ميں سے بعض کو کاٹ دیں اور حیوان کے مرنے تک صبر کریں اور اس کے بعد باقی کو کاٹيں تو حلال اور پاک نہيں ہوگا اور یهی حکم احتياط واجب کی بنا پر اس وقت بھی ہے جب چاروں رگوں کو جانور کے مرنے سے پهلے کاٹيں ليکن ان کو معمول کے مطابق ایک ساته نہ کاٹيں۔

۴۲۷

مسئلہ ٢ ۶۵ ٧ اگر بکری کی گردن کے کچھ حصے کو بھيڑیا اس طرح نوچ لے کہ چار رگيں باقی ہوں یا بدن کے کسی حصے کو نوچ لے ليکن بکری زندہ ہو تو بعد ميں آنے والی شرائط کے مطابق ذبح کرنے کی صورت ميں حلال اور پاک ہوجائے گی اور اگر بکری کی گردن اس طرح نوچے کہ گردن کی جن چار رگوں کو کاٹنا ضروری ہے وہ باقی نہ بچيں تو يہ بکری حرام ہوجائے گی۔ ہاں، اگر کچھ رگوں کو اس طرح نوچے کہ اس سے اوپر یا نيچے سے اس رگ کو کاٹنا ممکن ہو تو اس حیوان کا حلال ہونا محل اشکال ہے ۔

جانور ذبح کرنے کی شرائط

مسئلہ ٢ ۶۵ ٨ جانور ذبح کرنے کی چندشرائط ہيں :

١) جانور ذبح کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلمان مرد،عورت یا مسلمان کا ممےز بچہ ہو جو اچھائی اور برائی کو سمجھتا ہے اور اگر کفار،نواصب،خوارج اور وہ غلات جو کافر کے حکم ميں ہيں جيسے حضرت امیر المومنین عليہ السلام کو خدا ماننے والے افراد، حیوان کو ذبح کریں تو وہ حیوان حلال نہيں ہوگا۔

٢) حیوان کا گلا کسی لوهے کی چيز سے ذبح کریں اور لوہا نہ ملنے کی صورت ميں شےشے یا تيز پتّھر جیسی تيز دهار والی چيز سے چار رگوں کو کاٹا جاسکتا ہے ليکن اس صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جانور ایسی حالت ميں ہو کہ اگر اسے ذبح نہ کيا جائے تو مرجائے یا کسی وجہ سے اس کو ذبح کرنا ضروری ہو۔

٣) ذبح کرتے وقت جانور کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ ہو اور جو شخص جانتا ہو کہ جانور کو روبقبلہ ذبح کرنا ضروری ہے اگر عمداً جانور کو روبقبلہ نہ کرے تو جانور حرام ہوجائے گا۔

هاں، اگر بھول جائے یا مسئلہ نہ جانتا ہو یا قبلہ معين کرنے ميں غلطی کرے یا قبلہ کی سمت نہ جانتا ہو یا جانور کو قبلہ رخ نہ کرسکتا ہو اور ذبح کرنا ضروری ہو تو کوئی اشکال نہيں ہے ۔

۴) جب جانور کو ذبح کرنے لگے یا چھری اس کی گردن پر رکھے تو ذبح کرنے کی نيت سے خدا کا نام لے اور بسم الله یا الله اکبر اور ان جےسے ذکر کافی ہيں بلکہ صرف الله کهنا بھی کافی ہے اور اگر ذبح کے قصدکے بغير خدا کا نام لے تو يہ حیوان پاک نہيں ہوگا اور اس کا گوشت حرام ہے ليکن اگر بھول کر خدا کا نام نہ لے تو اشکال نہيں اور احتياط مستحب ہے کہ جب بھی یاد آئے خدا کا نام لے اور کهے: ”بِسْمِ اللّٰہِ عَلیٰ اَوَّلِہ وَ (عَلیٰ) آخِرِہ“۔

۵) حیوان ذبح ہونے کے بعد حرکت کرے اگرچہ وہ اپنی آنکه یا دم جیسی چيز کو حرکت دے یا اپنے پاؤں زمين پر مارے اور يہ حکم اس وقت ہے جب ذبح کرتے وقت جانور کا زندہ ہونا مشکوک ہو ورنہ ضروری نہيں ہے ۔ يہ بھی واجب ہے کہ اس حيوان کے بدن سے اس کے اعتبار سے معمول اور متعارف مقدار ميں خون نکلے۔

۴۲۸

۶) احتياط واجب کی بنا پر پرندوں کے علاوہ باقی جانوروں ميں روح نکلنے سے پهلے جانور کی گردن جدا نہ کرے بلکہ يہ کام پرندوں ميں بھی محل اشکال ہے ۔ ليکن اگر غفلت یا چاقو کے تيز ہونے کی وجہ سے سر جدا ہوجائے تو اشکال نہيں ہے ۔

اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر اس سفيد رگ کو بھی جو گردن کے مهروں سے دم تک جاتی ہے اور جسے حرام مغز کہتے ہے ، عمداً جدا نہ کرے ۔

٧) احتياط واجب کی بنا پر ذبح کرنے کی جگہ سے ذبح کرے اور گدّی سے ذبح نہ کرے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے کہ چاقو رگوں کے نيچے گهونپ کر باہر کی جانب رگوں کو جدا کرے۔

اونٹ نحر کرنے کا طريقہ

مسئلہ ٢ ۶۵ ٩ اگر اونٹ کو نحر کرنا چاہيں تاکہ مرنے کے بعد پاک اور حلال ہو تو ضروری ہے کہ حیوان ذبح کرنے کی شرائط کے ساته لوهے کی چھری یا لوهے کی کوئی اور چيز جو تيز ہو، سینہ اور گردن کے درميانی حصے ميں گهونپ دے۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٠ جب چھری اونٹ کی گردن ميں گهونپناچاہيں تو بہتر ہے کہ اونٹ کهڑا ہو ليکن اگر اس نے اپنے زانو زمين پر رکھے ہوں یا پهلو کے بل اس طرح ليٹا ہوا ہو کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ روبقبلہ ہو اور اس کی گردن کی نشيب والی جگہ ميں چھری گهونپ دی جائے تو کوئی اشکال نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ١ اگر اونٹ کی گردن کے نشيب ميں چھرا گهونپنے کے بجائے اسے ذبح کریں یا بکری اور گائے جےسے جانوروں کو ذبح کرنے کے بجائے نحر کریں تو ان کا گوشت حرام اور بدن نجس ہے ، ليکن اگر ذبح کرنے کے بعد اونٹ زندہ ہو اور اس کی گردن کے نشيب والے حصے ميں چھرا گهونپ دیا جائے تو اس کا گوشت حلال اور بدن پاک ہے اور اگر بکری اور گائے جےسے جانور کو نحر کرنے کے بعد مرنے سے پهلے ذبح کردیا جائے تو حلال اور پاک ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٢ اگر حیوان سرکش ہو جائے اور اس کو شریعت کے معين شدہ طریقہ سے ذبح کرنا ممکن نہ ہو یا کنویں ميں گرنے کی وجہ سے احتمال ہو کہ وہيں مرجائے گا اور اس کو وہاں شرعی طریقہ سے ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو اس کے جس حصے کو بھی تلوار،نےزہ یا خنجر جیسی چيز سے زخم لگایا جائے اور اسی زخم کی وجہ سے مرجائے تو حلال ہوجائے گا اور اس کا روبقبلہ ہونا ضرورری نہيں ہے ليکن ضروری ہے کہ حیوان ذبح کرنے کی دوسری شرائط موجود ہوں۔

۴۲۹

وہ چيزيں جو حےوان ذبح کرتے وقت مستحب ہيں

مسئلہ ٢ ۶۶ ٣ حیوان ذبح کرنے ميں چند چيزیں مستحب ہيں :

١) بکرا ذبح کرتے وقت اس کے آگے کی دو اور پےچهے کی ایک ٹانگ باندهی جائے اور گائے ذبح کرتے وقت اس کی چاروں پیر بندهے ہوئے ہوں اور دم کهلی ہو اور بیٹھے ہوئے اونٹ کو نحر کرتے وقت اس کے دونوں اگلے پیر نيچے سے زانو یا بغل کے نيچے تک ایک دوسرے سے بندهے ہوئے ہوں اور پےچهے والے پیر کهلے رہيں اور مستحب ہے کہ پرندے کو ذبح کرنے کے بعد چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ پهڑپهڑا سکے۔

٢) جانور کو ذبح کرنے والا شخص قبلہ رخ ہو۔

٣) جانور کو ذبح کرنے سے پهلے اس کے سامنے پانی رکھا جائے۔

۴) ایسا انتظام کریں کہ جانور کو تکلےف کم سے کم ہو، مثلاً چھری اچھی طرح تيز کریں اور جانور کو جلدی جلدی ذبح کریں۔

وہ چيزیں جو جانور کو ذبح کرنے ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ٢ ۶۶۴ چند چيزیں جانور ذبح کرنے ميں مکروہ ہيں :

١) بنا بر مشهور روح نکلنے سے پهلے حیوان کی کھال اُتارنا اور احتياط واجب یہ ہے کہ اس کام کو ترک کردیا جائے۔

٢) جانور کو ایسی جگہ ذبح کرنا جهاں اس جےسا کوئی دوسرا جانور اسے دےکه رہا ہو جےسے بھیڑ ،بکری اور اونٹ کو دوسرے بھیڑ ،بکری اور اونٹ کے سامنے ذبح کرنا جبکہ وہ اسے دےکه رہے ہوں۔

٣) حيوان کو رات کے وقت ذبح کرنا، مگر یہ کہ اس کے مرجانے کا خوف ہو۔ یهی حکم جمعہ کے دن زوال سے پهلے کا ہے ، البتہ اگر ضروری ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

۴) انسان اپنے پالے ہوئے جانور کو خود ذبح کرے۔

اسلحہ سے شکار کرنے کے احکام

مسئلہ ٢ ۶۶۵ اگر حلال گوشت رکھنے والے جنگلی جانور کا اسلحے سے شکار کيا جائے اور وہ مرجائے تو پانچ شرائط کے ساته وہ حلال ہوجاتا ہے اور اس کا بدن پاک ہوتا ہے :

١) شکار ميں استعمال کيا جانے والا اسلحہ چھری اور تلوار کی طرح کاٹنے والا ہو یا نيزے اور تير کی طرح تيز ہو۔ اگر جال لکڑی یا پتّھر وغيرہ سے جانور کا شکار کيا جائے تو جانور پاک نہيں ہوتااور اس کا کھانا بھی حرام ہے ۔اگر جانور کو گولی سے شکار کيا جائے اور گولی ایسی تيز ہو کہ جانور کے بدن ميں گهس جائے اور اسے چير دے تو جانور پاک اور حلال ہے ليکن اگر گولی تيز نہ ہو بلکہ پریشر کی وجہ

۴۳۰

سے جانور کے بدن ميں گهس کر اسے ماردے یا اپنی حرارت کی وجہ سے جانور کے بدن کو جلادے اور جانور اس وجہ سے مر جائے تو جانور کا پاک اور حلال ہونا محل اشکال ہے ۔

٢) شکاری مسلمان ہو یا مسلمان کا ایسا بچہ ہو جو اچھے اور برے کی پہچان رکھتا ہو۔ لہٰذا کفار یا وہ افراد جو کافر کے حکم ميں ہيں جيسے نواصب، خوارج یا غلات مثلاً وہ افراد جو امير المومنين عليہ السلام کو خدا مانتے ہيں ، اگر کسی جانور کو شکار کریں تو وہ جانور حلال نہيں ہوگا۔

٣) اسلحہ حيوان کو شکار کرنے کے لئے ہی استعمال کيا گيا ہو۔ لہٰذا اگر کسی جگہ کا نشانہ ليا ہو اور اتفاقاً کسی جانور کو لگ جائے تو وہ جانور پاک نہيں ہوگااور اس کا کھانا بھی حرام ہوگا۔

۴) اسلحہ استعمال کرتے وقت خدا کا نام لے۔ اگر جان بوجه کر خدا کا نام نہ لے تو شکار حلال نہيں ہوگا۔ ہاں، اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

۵) جانور کے پاس اس وقت پهنچے جب یا جانور مر چکا ہو یا اس کو ذبح کرنے کا وقت نہ بچا ہو۔ ہاں، اگر اتنا وقت بچا ہو اور اسے ذبح نہ کرے یهاں تک کہ جانور مر جائے تو شکار حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۶۶ اگر دو آدمی شکار کریں جب کہ ان ميں سے ایک قصد کرے اور دوسرا نہ کرے یا ایک مسلمان ہو اور دوسرا کافر یا ان ميں سے ایک خدا کا نام لے اور دوسرا عمداً خدا کا نام نہ لے تو جانور حلال نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٧ اگر جانور گولی لگنے کے بعد پانی ميں گر جائے اور انسان جانتا ہو کہ جانور گولی اور پانی دونوں کی وجہ سے مرا ہے تو جانور حلال نہيں ہوگابلکہ اگر یہ یقين نہ ہو کہ جانور صرف گولی کی وجہ سے مرا ہے تو بھی حلال نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٨ اگر غصبی کتے یا اسلحے سے جانور کا شکار کرے تو شکار حلال بھی ہوگا اور اس کی ملکيت ميں بھی آجائے گاليکن ایک تو وہ گنهگار ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اسلحہ یا کتے کی اجرت اس کے مالک کو دے۔

مسئلہ ٢ ۶۶ ٩ اگر تلوار یا کسی بھی ایسی چيز سے جس سے شکار صحيح ہے ، مسئلہ نمبر ٢ ۶۶۵

ميں ذکر شدہ تمام شرائط کے ساته کسی جانور کا شکار کرے اور حيوان کے اس طرح دو ٹکڑے کردے کہ جانور کا سر اور گردن ایک حصے ميں آجائے اور وہ جانور کے پاس اس وقت پهنچے جب جانور مر چکا ہو تو دونوں حصے حلال ہوں گے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب جانور زندہ ہو ليکن اس کوذبح کرنے کا وقت نہ بچا ہو۔ ليکن اگر ذبح کرنے کا وقت بچا ہو اور یہ ممکن ہو کہ جانور ابهی کچھ دیر اور زندہ رہے گاتو جس حصے ميں سر اور گردن نہيں ہيں وہ حصہ تو حرام ہے اور سرو گردن والے حصے کو اگر شریعت ميں مقررہ طریقے کے مطابق ذبح کر دیا جائے تو حلال ورنہ حرام ہے ۔

۴۳۱

مسئلہ ٢ ۶ ٧٠ اگر لکڑی، پتّھر یا اور کسی ایسی چيز سے جس سے شکار صحيح نہيں ہے جانور کے دو حصے کردے تو سروگردن کے بغير والا حصہ تو حرام ہے اور جس حصے ميں سر و گردن ہے اگر وہ حصہ زندہ ہو اور اس بات کا امکان ہو کہ جانور ابهی کچھ دیر اور زندہ رہے گا اور اس کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ذبح کر دیا جائے تو وہ حصہ حلال ہو گا ورنہ وہ بھی حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧١ اگر کسی جانور کے بدن سے شکار یا ذبح کرنے کے بعد زندہ بچہ نکلے تو شریعت کے مقرر کردہ طریقے سے ذبح کردینے پر وہ بچہ حلال ورنہ حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧٢ اگر کسی جانور کا شکار کيا جائے یا اسے ذبح کيا جائے اور اس کے بدن سے مردہ بچہ نکلے تو اگر اس بچے کی خلقت مکمل ہو چکی ہو اور اس کے بدن پر بال یا اون آ چکے ہوں اور اس کے مرنے کا سبب بھی اس کی ماں کا شکار ہوجانا یا ذبح ہوجانا ہو اور اس بچے کو ماں کے پيٹ سے نکالنے ميں معمول سے زیادہ تاخير بھی نہ کی گئی ہو تو وہ بچہ پاک اورحلال ہوگا۔

شکاری کتے کے ساته شکار کرنا

مسئلہ ٢ ۶ ٧٣ کتا اگر کسی حلال گوشت جنگلی جانور کا شکار کرے تو چھ شرائط کے ساته وہ جانور پاک اور حلال ہوگا:

١) کتے کی تربيت اس انداز سے کی گئی ہو کہ جب بھی اسے شکار کے لئے بھيجا جائے چلا جائے اور جب بھی اسے روک ليا جائے رک جائے۔ اور احتياط واجب کی بنا پر اس کی عادت یہ ہو کہ مالک کے پهنچنے سے پهلے شکار کو نہ کهاتا ہو ليکن اگر وہ خون پينے کا عادی ہو یا کبهی کبهی گوشت کهاتا ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

٢) اسے شکار کے لئے بھيجا جائے ۔ لہٰذا اگر کتا خود سے شکار کے پيچهے جائے اور اس کا شکار کرلے تو اس کا کھانا حرام ہے ، بلکہ اگر کتا خود سے شکار کے لئے جائے اور پيچهے سے مالک آواز لگائے تاکہ کتا اور رفتار سے شکار تک پهنچے اور کتا بھی مالک کی آواز کی وجہ سے تيزی دکھائے، پھر بھی احتياط واجب یہ ہے کہ اس شکار کو نہ کهایا جائے۔

٣) کتے کو شکار پر بھيجنے والا یا مسلمان ہو یا مسلمان کا ایسا بچہ ہو جو بهلے برے کی تميز رکھتا ہو۔لہٰذا اگر کافر، ناصبی، خارجی یا ایسا غالی جو کافر کے حکم ميں ہو، کتے کو شکار پر بھيجے تو اس کتے کا کيا ہوا شکار حرام ہے ۔

۴) کتے کو بھيجتے وقت خدا کا نام لے ۔ لہٰذا اگر جان بوجه کر خدا کا نام نہ لے تو وہ شکار حرام ہے ۔ ہاں، اگر نام لينا بھول جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

۵) شکار کيا ہوا جانور کتے کے دانتوں سے لگے ہوئے زخم کی وجہ سے مرے۔ لہٰذا اگر کتا شکار کا گلا گهونٹ دے یا شکار بهاگنے کی وجہ سے یا خوف کے مارے مر جائے تو حلال نہ ہوگا۔

۴۳۲

۶) کتے کو شکار پر بھيجنے والا خود شکار کے پاس اس وقت پهنچے جب شکار مر چکا ہو یا زندہ تو ہو ليکن اتنا وقت نہ ہو کہ اسے ذبح کيا جا سکے، البتہ اس کی شرط یہ ہے کہ اس نے شکار کے پاس جانے ميں سستی نہ کی ہو۔ لہٰذا گر شکار کے پاس اس وقت پهنچے جب اسے ذبح کرنے جتنا وقت باقی ہو اور وہ اس کوذبح نہ کرے یهاں تک کہ وہ جانور مر جائے تو وہ شکار حلال نہ ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ۴ کتے کو شکار پر بھيجنے والااگر اس وقت پهنچے جب اسے ذبح کرنا ممکن تو ہو ليکن مثلاً چاقو نکالنے یا ایسے ہی کسی کام ميں سستی برتے بغير ہی وقت گزر جائے اور جانور مر جائے تو وہ حلال ہے ۔ ہاں، اگر اس کے پاس کوئی ایسی چيز ہی نہ ہو جس سے حيوان کو ذبح کيا جاسکے اور حيوان مر جائے تو وہ حلال نہ ہوگا۔ البتہ اگر ایسی صورتحال ميں کتے کو اس پر چھوڑ دے کہ وہ اسے مار دے تو حلال ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ۵ اگر کچھ کتوں کو بھيجے جو مل کر جانور کا شکار کریں، جب کہ ان سب ميں مسئلہ نمبر ٢ ۶ ٧٣ ميں بيان شدہ شرائط موجود ہوں تو شکار حلال ہوگا اور اگر ان ميں سے ایک ميں بھی وہ ساری شرائط نہ ہوں تو شکار حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ۶ اگر کتے کو کسی جانور کے شکار کے لئے بھيجے اور کتا کسی اور جانور کا شکار کر لے تو وہ جانور حلال اور پاک ہوگا۔نيز اگر اس جانور کے ساته کسی اور جانور کا شکار کر لے تو دونوں حلال اور پاک ہوں گے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧٧ اگر چند افراد مل کر کتے کو شکار کے لئے بھيجيں اور ان ميں سے ایک بھی کافر ہو یا اس پر کافر کے احکام جاری ہوتے ہوں تو وہ شکار حرام ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب ان ميں سے کوئی جان بوجه کر خدا کا نام نہ لے اور اگر بھيجے جانے والے کتوں ميں سے ایک بھی تربيت شدہ نہ ہو جيسا کہ مسئلہ نمبر ٢ ۶ ٧٣ ميں بتایا گيا ہے ، تو وہ شکار حرام ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٧٨ اگر شکاری کتے کے علاوہ کوئی جانور جيسے باز یا کوئی اور جانور کسی جانور کا شکار کرے تو وہ شکار حلال نہيں ہے ۔ ہاں، اگر اس جانورکے پاس ایسے وقت ميں پهنچ جائے کہ ابهی حيوان زندہ ہو اور شریعت کی معين کردہ طریقے کے مطابق اسے ذبح کر دیا جائے تو وہ جانور حلال ہوگا۔

مچهلی کا شکار

مسئلہ ٢ ۶ ٧٩ اگر چھلکوں والی مچھلی کو پانی سے اس وقت نکال ليا جائے جب وہ ابهی زندہ ہواور پانی سے باہر آکر مرے تو وہ پاک ہے اور اس کا کھانا حلال ہے ۔جبکہ اگر پانی ميں مر جائے تو پاک ہے ليکن اس کا کھانا حرام ہے ۔هاں، اگر مچهيرے کے جال ميں مر جائے تو اس کا کھانا حلال ہے ۔

البتہ بغير چھلکوں کی مچھلی حرام ہے ، چاہے اسے پانی سے زندہ ہی نکالا جائے اور پانی سے باہر جان دے ۔

۴۳۳

مسئلہ ٢ ۶ ٨٠ اگر مچھلی پانی سے باہر آگرے یا موج اسے پانی سے باہر اچھال دے یا پانی زمين ميں چلا جائے اور مچھلی رہ جائے اور کوئی شخص اس کے مرنے سے پهلے اسے ہاتھ یا کسی اور وسيلے سے پکڑ لے تو مرنے کے بعد وہ مچھلی حلال ہوگی۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨١ مچهيرے کا مسلمان ہونا یا مچھلی پکڑتے وقت اس پر خدا کا نام لينا ضروری نہيں ۔

هاں، یہ ضروری ہے کہ مسلمان نے اسے مچھلی پکڑتے ہوئے دیکھا ہو یا کسی اور طریقے سے اسے یقين ہو یا اس کے پاس شرعی دليل ہو کہ مچھلی کو پانی سے زندہ حالت ميں پکڑا گيا ہے یا پانی کے اندر ہی مچهيرے کے جال ميں مری ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨٢ ایسی مردہ مچھلی جس کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ اسے پانی سے زندہ پکڑا گيا ہے یا مردہ، اگر کسی مسلمان کے ہاتھ ميں ہو تو حلال ہے اور اگر کسی کافر کے ہاتھ ميں ہو جب کہ اس نے اسے کسی مسلمان سے نہ ليا ہو توچاہے وہ یہ کهے کہ ميں نے اسے زندہ پکڑا ہے ، حرام ہے ، مگر یہ کہ شرعی گواہی آجائے یا کوئی قابل اعتماد شخص جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، اس بات کی گواہی دے کہ اسے اس نے پانی سے زندہ پکڑا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨٣ زندہ مچھلی کھانا جائز ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ اس سے پرہيز کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ۴ اگر زندہ مچھلی کو بهونا جائے یا پانی سے باہر، جان دینے سے پهلے ہی اسے مار دیا جائے تو اسے کھانا جائز ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اسے کھانے سے پرہيز کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ۵ اگر مچھلی کو پانی کے باہر دو حصوں ميں کاٹ دیا جائے اور اس کا ایک حصہ اسی کيفيت ميں جب ابهی زندہ ہو پانی ميں گر جائے تو احتياط کی بنا پر پانی سے باہر رہ جانے والے حصے کو کھانا جائز نہيں ۔

ٹڈی کا شکار

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ۶ اگر ٹڈی کو ہاتھ سے یا کسی اور طریقے سے زندہ پکڑ ليا جائے تو وہ مرجانے کے بعد حلال ہوجاتی ہے ۔یہ ضروری نہيں ہے کہ اسے پکڑنے والا مسلمان ہو یا اسے پکڑتے وقت خدا کانام لے۔ البتہ اگر کسی کافر کے ہاتھ ميں مردہ ٹڈی ہو جسے اس نے کسی مسلمان سے نہ ليا ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس نے اسے زندہ پکڑا ہے یا نہيں تو وہ حرام ہے چاہے کافر کا کهنا ہو کہ اس نے اسے زندہ پکڑا ہے ، مگر یہ کہ اس مسلمان کے پاس شرعی گواہی آجائے یا ایک قابل اعتماد شخص جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، گواہی دے دے کہ کافر نے اسے زندہ پکڑا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨٧ ایسی ٹڈی کھانا حرام ہے جس کے پر نہ نکلے ہوں اور ابهی پرواز کے قابل نہ ہوئی ہو۔

۴۳۴

کھانے پینے کی چيزوں کے احکام

مسئلہ ٢ ۶ ٨٨ گھریلو مرغی،کبوتر اور مختلف قسم کی چڑیوں کا گوشت حلال ہے ۔ اور بلبل، مینا اور چنڈول چڑیوں ہی کی اقسام ہيں ۔

چمگادڑ، مور، کوّے کی تمام اقسام اور ہر وہ پرندہ جو شاہے ن، عقاب اور باز کی مانند پنجے رکھتا ہو یا اڑتے وقت پروں کو حرکت کم دیتا ہو اور سید ها زیادہ رکھتا ہو ان کا گوشت حرام ہے ۔ اسی طرح ہر اس پرندے کا گوشت بھی حرام ہے جس کا پوٹا، سنگدانہ اور پاؤں کی پشت کا کانٹا نہ ہو ليکن اگر يہ معلوم ہو کہ اڑتے وقت اس کا پروں کو حرکت دینا سید ها رکھنے کے مقابلے ميں زیادہ ہے تو اس صورت ميں اس کا گوشت حلال ہے ۔

اور ابابيل اور هد هد کو مارنا اور ان کا گوشت کھانا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨٩ اگر زندہ جانور کے جسم سے ایک ایسے حصّے کو جدا کيا جائے جو روح رکھتا ہو جےسے چربی یا گوشت تو وہ حصّہ نجس اور حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٠ حلال گوشت حیوانات کے کچھ اجزا حرام ہيں اور ان کی تفصيل کچھ اس طرح ہے :

١) خون

٢) فضلہ(پاخانہ)

٣) عضو تناسل

۴) شرمگاہ

۵) بچہ دانی

۶) غدود

٧) بيضے

٨) وہ چيزجو بهےجے ميں ہوتی ہے اور چنے کے دانے کی شکل کی ہوتی ہے ۔

٩) حرام مغز جو رےڑھ کی ہڈی ميں ہوتا ہے

١٠ ) پِتّہ

١١ ) تلی

۴۳۵

١٢ ) مثانہ(پيشاب کی تهيلی)

١٣ ) آنکه کا ڈهيلا احتياط واجب کی بنا پر اس چربی سے جو رےڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف ہوتی ہے اور اس چيز سے جو سُم کے درميان ميں ہوتی ہے ، جسے ذات الاشاجع کہتے ہيں ، اجتناب کرے۔ يہ احتياط چربی ميں زیادہ تاکید کے ساته ہے ۔ اور پرندوں ميں خون و فضلہ جو کہ یقیناً حرام ہيں ، کے علاوہ مذکورہ بالا اشياء ميں سے جو بھی چيز موجود ہو، احتياط واجب يہ ہے کہ ا س کے کھانے سے پرہےز کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩١ حرام گوشت جانور کا پيشاب پینا حرام ہے ۔ یهی حکم حلال گوشت جانور کے پيشاب کا ہے اور ہر اس چيز کا کھانا و پینا جائز نہيں ہے جس سے انسان کی طبےعت نفرت کرے، ليکن ضرورت پڑنے پر اونٹ،گائے اور بھیڑ کے پيشاب کو بےماری سے شفا کی خاطر پینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٢ مٹی کھانا حرام ہے اور اسی طرح سے احتياط واجب کی بنا پر زمين کے دیگر اجزاءمثلاً خاک،ریت اور پتّھر کا کھانا بھی حرام ہے ، البتہ داغستان کی مٹی اور ارمنی مٹی کو علاج کی غرض سے کھانے ميں اس صورت ميں کوئی حرج نہيں جب علاج اسے کھانے ميں ہی منحصر ہو۔ علاج کی غرض سے تربت حضرت سید الشهداء عليہ السلام کی اتنی تهوڑی مقدار کھانے ميں کوئی حرج نہيں ہے جو ایک معمولی چنے کی مقدار سے زیادہ نہ ہو اور بہتر يہ ہے کہ تربت کو مثلاً پانی ميں حل کرليا جائے تاکہ مٹی ختم ہوجائے اور پھر بعد ميں اس پانی کو پی ليا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٣ ناک کا پانی اور سینہ کے بلغم وغيرہ جو منہ ميں آجائيں اس کا نگلنا حرام نہيں ہے ۔

اسی طرح جو غذا خلال کرتے وقت دانتوں کے درميان سے نکلے اگر طبےعت انسان اس سے نفرت نہ کرے تو اس کے نگلنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩ ۴ ایسی چيز کا کھانا جو انسان کی موت کا سبب بنے یا انسان کے لئے سخت نقصان کا باعث ہو حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩ ۵ گهوڑے، خچر اور گدهے کے گوشت کا کھانا مکروہ ہے اور اگر کوئی ان سے وطی کرلے تو خود وہ حیوان، اس کی نسل اور اس کے دودھ کا پینا حرام ہوجاتا ہے اور پيشاب اور ليد نجس ہوجاتی ہے اور ضروری ہے کہ ایسے جانوروں کو دوسرے شہر ميں لے جاکر بيچ ڈالا جائے اور وطی کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ اس جانور کی قيمت اس کے مالک کو دے اور اگر حلال گوشت جانور مثلاً گائے یا بھیڑ سے وطی کی جائے تو ان کا پيشاب اور گوبر نجس ہوجاتا ہے اور اس کے گوشت کا کھانا اور دودھ کا پینا بھی حرام ہے اور اسی طرح اس کی نسل کا حکم ہے اور ضروری ہے کہ فوراً اس حیوان کو قتل کرکے جلادیا جائے اور وطی کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ اس جانور کی قيمت اس کے مالک کو دے۔

۴۳۶

مسئلہ ٢ ۶ ٩ ۶ اگر بکری کا دودھ پيتا بچہ سو رٔنی کا دودھ اتنی مقدار ميں پی لے کہ اس کی ہڈیاں اس کے دودھ سے مضبوط ہوجائيں تو وہ خود اور اس کی نسل حرام ہوجاتی ہے اور احتياط واجب کی بنا پر شیر خوار بھيڑکے بچے کابهی یهی حکم ہے ۔ ہاں، اس مقدار سے کم پینے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر اس وقت حلال ہوگا جب اس کا استبرا کيا جائے۔ ان جانوروں کا استبرا يہ ہے کہ سات دن تک بکری یا بھیڑ کے تهنوں سے دودھ پيئيں اور اگر انہيں دودھ کی احتياج نہ ہو تو سات دن تک گهاس کهائيں۔

اس حیوان کا بھی گوشت حرام ہے جس نے انسانی نجاست کھانے کی عادت کرلی ہو اور اگر اس کا استبرا کيا جائے تو حلال ہوجاتا ہے اور اس کے استبرا کی کےفيت مسئلہ نمبر ٢٢ ۶ ميں بيان کی جاچکی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٧ شراب او دیگر منشيات کا پیناحرام ہے ۔ اس کی مذمت ميں بہت سی روایات آئی ہيں اور ان ميں سے بعض کا مضمون تقرےباً يہ ہے کہ: پروردگار کی نافرمانی نشہ آور چيز پینے سے زیادہ کسی دوسری چيز سے نہيں ہوئی ہے ۔ امام جعفرصادق عليہ السلام سے پوچها گيا کہ شراب کا پینا زیادہ گناہ کا سبب بنتا ہے یا نماز کا ترک کرنا؟ آپ عليہ السلام نے فرمایا شراب کا پینا اس لئے کہ شراب پینے والے کی ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ اپنے پروردگار کو نہيں پہچانتا۔

حضرت رسول اکرم(ص) سے مروی ہے کہ شراب ہر گناہ کی ابتدا ہے ۔

بعض روایتوں ميں شراب پینے کو زنا اور چوری سے زیادہ بدتر شمار کيا گيا ہے اور خدا نے شراب کو اس لئے حرام کيا ہے کہ يہ ام الخبائث اور ہر برائی کی ابتدا ہے ۔

شراب پینے والا اپنی عقل کهو بیٹھ تا ہے ، اس لئے اسے اپنے پروردگار کی پہچان نہيں رہتی اور وہ ہر طرح کے گناہ کا ارتکاب، کسی بھی عزت کی پامالی، کسی بھی قرےبی رشتہ دار سے قطع رحم اور کسی بھی برائی کو انجام دے دیتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٨ ایسے دستر خوان پر بیٹھنا جهاں شراب پی جارہی ہو اس وقت حرام ہے جب انسان کو انہيں کا ایک فرد سمجھا جائے اور ایسے دستر خوان سے کوئی چيز کھانا بھی حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩٩ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو جو بهوک یا پياس کے سبب قرےب المرگ ہو روٹی اور پانی دے اور اس کو مرنے سے بچائے۔

۴۳۷

کھانے اور پینے کے مستحبات اور مکروهات

وہ روایات جن پر فتوی دینے کے سلسلے ميں اعتماد کيا گيا ہے گرچہ وہ مستحب اور مکروہ شرعی کو بيان نہيں کررہی ہيں بلکہ اس فائدہ اور نقصان کو بيان کررہی ہيں جو ان امور(یعنی مستحب کے بجالانے اور مکروہ سے بچنے) پر مترتب ہوتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٧٠٠ کھانا کھانے کے سلسلے ميں چند چيزیں مستحب ہيں

١)کھانا کھانے سے پهلے دونوں ہاتھ دهوئے۔

٢)کھانا کهالینے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ دهوئے اور رومال سے خشک کرے۔

٣)ميزبان سب سے پهلے کھانا کھانا شروع کرے اور سب کے بعد کھانے سے ہاتھ کهینچے اور کھانا کھانے سے قبل سب سے پهلے ميزبان اپنے ہاتھ دهوئے اور اس کے بعد جو شخص اس کے دائيں طرف بیٹھ ا ہو وہ دهوئے اور اسی طرح سلسلہ وار دهوئيں یهاںتک کہ نوبت اس شخص تک آجائے جو اس کے بائيں طرف بیٹھ ا ہو اور کھانا کھانے کے بعد جو شخص ميزبان کے دائيں طرف بیٹھ ا ہو سب سے پهلے وہ ہاتھ دهوئے اور اسی طرح دهوتے چلے جائيں یهاں تک کہ نوبت ميزبان تک پهنچ جائے۔

۴) کھانا کھانے کی ابتدا ميں بسم الله الرحمن الرحےم پڑھے ليکن اگر دسترخوان پر کئی قسم کے کھانے ہوں تو ان ميں سے ہر غذا کی ابتدا ميں بسم الله پڑھنا مستحب ہے ۔

۵) کھانا سیدہے ہاتھ سے کھائے۔

۶) تین انگلیوں یا اس سے زیادہ سے کھائے اور دو انگلیوں سے نہ کھائے۔

٧)اگر چند لوگ ایک دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو ہر ایک اپنے سامنے سے کھائے۔

٨)چهوٹے چھوٹے لقمہ بنائے۔

٩)دستر خوان پر زیادہ دیر بیٹھے اور کھانا کھانے کو طول دے۔

١٠ )کھانے کو اچھی طرح چبائے۔

١١ )کھانا کهالینے کے بعد پروردگار کی حمد کرے۔

١٢ )انگلیوں کو چاٹے۔

١٣ )کھانا کهالینے کے بعد مسواک کرے ،البتہ انار،رےحان اور سرکنڈہ کی لکڑی سے اور کھجور کے درخت کے پتے سے خلال نہ کرے۔

۴۳۸

١ ۴ ) جو غذا دسترخوان سے باہر گرجائے اسے جمع کرے اور کهالے اگر جنگل ميں کھانا کھائے تو مستحب ہے کہ جو کچھ گرے اسے پرندوں اور جانوروں کے لئے چھوڑ دے۔

١ ۵ ) دن اور رات کی ابتدا ميں کھانا کھائے اور دن کے درميان اور رات کے درميان ميں کھانا نہ کھائے۔

١ ۶ ) کھانا کھانے کے بعد پيٹھ کے بل لیٹے اور دایاں پاؤں بائيں پاؤں پر رکھے۔

١٧ )کھانا شروع کرتے وقت اور کهالینے کے بعد نمک چکهے۔

١٨ )پھل کھانے سے پهلے انہيں پانی سے دهولے۔

مسئلہ ٢٧٠١ کھانا کھاتے وقت چند چيزیں مکروہ ہيں :

١) بهرے پيٹ پر کھاناکھانا۔

٢)بہت زیادہ کھانا۔

٣)کھانا کھاتے وقت دوسروں کے منہ کی طرف دےکهنا۔

۴) گرم کھانا کھانا۔

۵) جو چيز کهایا پی رہا ہو اسے پهونک مارنا۔

۶) دسترخوان پر روٹی رکھ دینے کے بعد کسی اور چيز کا انتظار کرنا۔

٧)روٹی کو چھری سے کاٹنا۔

٨)روٹی کو کھانے کے برتن کے نيچے رکھنا۔

٩)ہڈی سے چپکے ہوئے گوشت کو یوں کھانا کہ ہڈی پر بالکل گوشت باقی نہ رہے۔

١٠ )پھل کا چھلکا اتارنا۔

١١ )پھل پورا کھانے سے پهلے پهینک دینا۔

مسئلہ ٢٧٠٢ پانی پینے ميں چند چيزیں مستحب ہيں :

١)پانی چوسنے کے طرز پر پئے۔

٢)دن ميں کھڑے ہوکر پئے۔

٣)پانی پینے سے پهلے بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم اور پینے کے بعد الحمدُ لِلّٰہ کهے۔

۴) پانی تین سانسوں ميں پئے۔

۴۳۹

۵) پانی خواہش کے ساته پئے۔

۶) پانی پینے کے بعد حضرت امام حسین عليہ السلام اور ان کے اہل بيت عليهم السلام کو یاد کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بهےجے۔

مسئلہ ٢٧٠٣ زیادہ پانی پینا ،مرغن کھانے کے بعد پانی پینا،اور رات کو کھڑے ہو کر پانی پینا مذموم شمار کيا گيا ہے ۔ نےز بائيں ہاتھ سے پانی پینا اور اسی طرح کوزے کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے اور اس جگہ سے پینا جهاں کوزے کا دستہ ہو مذموم شمار کيا گيا ہے ۔

نذر و عهد کے احکام

مسئلہ ٢٧٠ ۴ نذر يہ ہے کہ انسان خدا (کی رضا) کے لئے اپنے آپ پر واجب کرلے کہ وہ کسی اچھے کام کو بجالائے گا اور کوئی ایسا کام جس کا نہ کرنابہتر ہو ترک کردے گا۔

مسئلہ ٢٧٠ ۵ نذر ميں ضروری ہے کہ صيغہ پڑھا جائے اور عربی ميں پڑھنا ضروری نہيں ہے پس اگر انسان یوں کهے ”اگر میر ا مرےض صحت یاب ہوگيا تو الله تعالیٰ کے لئے مجھ پر ضروری ہے کہ ميں دس روپے فقير کودوں“ تو اس کی نذر صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧٠ ۶ نذر کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ و عاقل ہو اور اپنے اراداہ و اختيار سے نذر کرے۔ لہذا، اگر کوئی غصے ميں آنے کے سبب بے اختيار نذر کرے یا اسے نذر کرنے پر مجبور کيا جائے تو اس کی نذر صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٠٧ مُفَلَّس یعنی جس شخص کوحاکم شرع نے اپنے اموال ميں تصرف سے روک دیا ہو یا سفيہ یعنی وہ شخص جو اپنے مال کو فضول کاموں ميں خرچ کرتا ہے ، اگرنذر کرے کہ کسی فقير کو مال دیں گے تو نذر صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٠٨ اگر شوہر اپنی بيوی کو نذر کرنے سے روکے تو وہ ایسے کسی کام کی نذر نہيں کرسکتی ہے جس کا پورا کرنا شوہر کے حقوق کے منافی ہو بلکہ اس صورت ميں شوہر کی اجازت کے بغير نذر باطل ہے اور ایسی نذر کے صحيح ہونے ميں اشکال ہے جو عورت اپنے مال ميں شوہر کی اجازت کے بغير کرے جب کہ نذر حج،زکات، ماں باپ سے حسن سلوک اور رشتہ داروں سے صلہ رحم کے علاوہ ہو۔

مسئلہ ٢٧٠٩ اگر عورت شوہر کی اجازت سے نذر کرے تو شوہر نہ ہی اس کی نذر کو ختم کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے نذر پر عمل کرنے سے روک سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٧١٠ اگر بیٹا باپ کی اجازت کے بغير یا باپ کی اجازت سے نذر کرے تو ضروری ہے کہ اسے پورا کرے ليکن اگر ماں باپ اس عمل کو بجالانے سے روک دیں جس کی اس نے نذر کی ہو تو اس کی نذر صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧١١ انسان اس کام کے لئے نذر کرسکتا ہے جس کا انجام دینا اس کے لئے ممکن ہو لہٰذا اگر کوئی شخص مثلاً پید ل کربلا نہ جاسکتا ہو اور پید ل کربلا جانے کی نذر کرے تو اس کی نذر صحيح نہيں ہے ۔

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511