توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207758 / ڈاؤنلوڈ: 4351
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸

1135۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

1136۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

1137۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

1138۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

۱۹۹

1139۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

مسئلہ ٢٧١٢ اگر کوئی شخص کسی حرام یا مکروہ کام کو بجالانے یا کسی واجب یا مستحب کام کو ترک کرنے کی نذر کرے تو اس کی نذر صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧١٣ اگر کوئی شخص کسی مباح کام کو بجالانے یا ترک کرنے کی نذر کرے جبکہ اس کام کا بجالانا یا ترک کرنا ہر اعتبار سے مساوی ہو تو اس کی نذر صحيح نہيں ہے ، اور اگر اس کام کا بجالانا ایک لحاظ سے بہتر ہو اورانسان اسی لحاظ کا قصد کرتے ہوئے نذر کرے مثلاً يہ نذر کرے کہ غذا تناول کروں گا تاکہ عبادت ميں توانائی مل سکے تو اس کی نذر صحيح ہے اور اسی طرح اگر اس کام کو ترک کرنا ایک لحاظ سے بہتر ہو اور انسان اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے نذر کرے کہ اس کام کو ترک کردوں گا مثلاً چونکہ تمباکو صحت کے لئے نقصان دہ ہے اس لئے نذرکرے کہ اسے استعمال نہيں کرے گا تو اس کی نذر صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧١ ۴ اگر انسان نذر کرے کہ اپنی واجب نمازوں کو ایسی جگہ پڑھے گا جهاں بغير کسی وجہ کے نماز پڑھنے سے ثواب ميں اضافہ نہيں ہوتا ہے مثلاً يہ کہ نذر کرے کہ نماز کمرے ميں پڑھے گا تو اگر وہاں نماز پڑھنا کسی لحاظ سے بہتر ہو مثلاً يہ کہ کمرے ميں تنهائی ہے جس کی وجہ سے حضور قلب پيدا ہوگا تو اس کی نذر اس لحاظ کو مدنظر رکھنے کی وجہ سے صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧١ ۵ اگر انسان کسی عمل کو بجالانے کی نذر کرے تو جس طرح نذر کی ہو اسی طریقے سے بجالانا ضروری ہے ۔ لہٰذا اگر نذر کرے کہ مهينے کی پهلی تارےخ کو صدقہ دے گایا روزہ رکھے گا تو اگر اس دن سے پهلے یا بعد ميں اس عمل کو بجالائے تو يہ کافی نہيں ہے اور اسی طرح اگر نذر کرے کہ جب اس کا مرےض صحت یاب ہوجائے گا تو وہ صدقہ دے گاتو اگر مرےض کی صحت یابی سے پهلے صدقہ دے دے تو يہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧١ ۶ اگر روزہ رکھنے کی نذر کرے ليکن اس کا وقت معين نہ کرے پس اگر ایک دن روزہ رکھ لے تو يہ کافی ہے اور اگر نماز پڑھنے کی نذر کرے اور اس کی تعداد اور خصوصيات معين نہ کرے تو ایک دو رکعتی نماز پڑھ لينا کافی ہے اور اگر صدقہ دینے کی نذر کرے اور صدقہ کی جنس اور مقدار معين نہ کرے تو اگر ایک ایسی چيز دے دے کہ کها جائے کہ صدقہ دے دیا ہے تو پھر ا س نے اپنی نذر کو پورا کرليا ہے اور اگر نذر کرے کہ قربةً الی الله کوئی کام بجالائے گا تو ایک نماز بجالانے سے یا ایک روزہ رکھنے سے یا کوئی چيز صدقہ دینے سے نذر پوری ہو جائے گی۔

مسئلہ ٢٧١٧ اگر کوئی شخص کسی مخصوص دن ميں روزہ رکھنے کی نذر کرے تو اسی دن روزہ رکھنا ضروری ہے اور جان بوجه کر اس دن روزہ نہ رکھنے کی صورت ميں قضا کے علاوہ کفارہ بھی دینا ضرروی ہے اور يہ کفارہ قسم توڑنے کا کفّارہ ہے جسے مسئلہ نمبر ٢٧٣ ۴ ميں بيان کيا جائے گا ليکن اس دن وہ اس بات کا اختيار رکھتا ہے کہ سفر پر چلا جائے اور روزہ نہ رکھے اور اگر اس دن سفر کی حالت ميں ہو تو ضروری نہيں ہے کہ کسی مقام پر دس دن ٹھ هرنے کا ارادہ کرے اور روزہ رکھے اور اگر سفر یا مرض کی وجہ سے

۴۴۱

روزہ نہ رکھے تو قضا کرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر حےض کی وجہ سے روزہ نہ رکھے تو احتياط واجب کی بنا ء پر قضا کرنا ضروری ہے اور بھر حال دونوں صورتوں ميں کفّارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧١٨ اگر انسان حالت اختيار ميں اپنی نذر پر عمل نہ کرے تو کفّارہ دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٧١٩ اگر انسان يہ نذر کرے کہ ایک وقت معين تک کسی عمل کو انجام نہيں دے گاتو اس وقت معين کے گذرنے کے بعد وہ اس عمل کو بجا لا سکتا ہے ور اگر بھولے سے یا مجبوراً وقت معين کے گذرنے سے پهلے اس عمل کو انجام دے دے تو کوئی حرج نہيں ہے ليکن يہ پھر بھی ضروری رہے گا کہ اس وقت تک اس عمل کو انجام نہ دے اور اگر معينہ وقت کے گذرنے سے پهلے دوبارہ بغير کسی عذر کے اس عمل کو انجام دے تو کفّارہ دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٧٢٠ اگر کوئی شخص کسی عمل کو انجام نہ دینے کی نذر کرے ليکن کوئی وقت معين نہ کيا ہو تو اگر بھولے سے یا مجبوراً یا غفلت کی وجہ سے اس عمل کو انجام دے دے تو اس پر کفّارہ واجب نہيں ہے ليکن بعد ميں جب بھی اختياراً اس عمل کو بجالائے تو کفّارہ دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٧٢١ اگر کوئی شخص نذر کرے کہ ہر ہفتے ایک معين دن مثلاً ہر جمعہ کو روزہ رکہوں گا تو اگر اس جمعہ کو عید فطر یا قربان آجائے یا جمعہ کے دن کوئی عذر پےش آجائے مثلاً سفر کرلے یا مرےض ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھے اور اس کی قضا بجالائے اور اگر حےض کی وجہ سے روزہ نہ رکھے تو احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢٧٢٢ اگر کوئی شخص نذر کرے کہ ایک معينہ مقدار ميں صدقہ دے گاپس اگر وہ صدقہ دینے سے پهلے مرجائے تو اس کے مال ميں سے اتنی مقدار صدقہ دینا ضروری نہيں ، ليکن بالغ ورثاء

کے لئے احتياط مستحب يہ ہے کہ وہ اپنے حصے ميں سے اتنی مقدار ميت کی طرف سے صدقہ دے دیں۔

مسئلہ ٢٧٢٣ اگر کوئی شخص کسی خاص فقير کو صدقہ دینے کی نذر کرے تو وہ صدقہ کسی اور شخص کو نہيں دے سکتا اور اگر وہ فقير مر جائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کے ورثاء کو دے۔

مسئلہ ٢٧٢ ۴ اگر کوئی شخص نذر کرے کہ ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی ایک مثلاً حضرت امام حسین عليہ السلام کی زیارت کرے گا تواگر وہ کسی دوسرے امام عليہ السلام کی زیارت کے لئے جائے تو يہ کافی نہيں ہے اور اگر کسی عذر کے سبب اس امام عليہ السلام کی زیارت کو نہ جاسکے تو اس پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٢ ۵ اگر کوئی شخص زیارت کی نذر کرے اور زیارت کے غسل اور نماز کی نذر نہ کرے تو اس کے لئے انہيں بجالانا ضروری نہيں ہے ۔

۴۴۲

مسئلہ ٢٧٢ ۶ اگر کوئی شخص ائمہ عليهم السلام یا ان کی اولاد ميں سے کسی ایک کے حرم کے لئے مال خرچ کرنے کی نذر کرے اور کوئی خاص مَصرف مد نظر نہ رکھے تو ضروری ہے کہ اس مال کو حرم کی تعمیر ،روشنی اور قالین وغيرہ جيسے امور پر خرچ کرے۔

مسئلہ ٢٧٢٧ اگر کوئی شخص خود امام عليہ السلام کے لئے کوئی چيز نذر کرے تو جس مدّ ميں خرچ کرنے کا قصد کيا ہو اسی ميں خرچ کرنا ضروری ہے اور اگر معين مَصرف کا قصد نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ ایسی جگہ خرچ کرے جس کی امام عليہ السلام سے نسبت ہو مثلاً اس امام عليہ السلام کے تنگ دست زائرین پر خرچ کرے یا اس امام عليہ السلام کے حرم کے اخراجات ميں صرف کردے مثلاً تعمیر وغيرہ ميں یا ایسی جگہ خرچ کرے جو امام عليہ السلام کی تعظےم و تکرےم کا سبب بنے اور احتياط مستحب يہ ہے کہ اس کے ثواب کو بھی اسی امام عليہ السلام کے لئے هديہ کردے اور اگر کوئی چيز کسی امام عليہ السلام کی اولاد کے لئے نذر کرے تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢٧٢٨ جس بھیڑ کو صدقہ کے لئے یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی ایک کے لئے نذر کيا گيا ہو اگر وہ نذر کے مصرف ميں لائے جانے سے پهلے دودھ دے دے یا بچہ جنے تو نذر کرنے والا اس دودھ اور بچے کا مالک ہوگا البتہ بھیڑ کی اون اور جس مقدار ميں وہ فربہ ہوجائے وہ نذر کا حصہ ہے ۔

مسئلہ ٢٧٢٩ جب بھی کوئی شخص يہ نذر کرے کہ اگر مرےض تندرست ہوگيا یا اس کا مسافر واپس آگيا تو وہ ایک کام کو انجام دے گا۔ پس اگر پتہ چلے کہ نذر کرنے سے پهلے ہی مرےض تندرست ہوگيا ہے یا مسافر واپس آگيا ہے تو نذر پر عمل کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٣٠ اگر ماں یا باپ نذر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی سید سے کریں گے تو مکلف ہونے کے بعد لڑکی اس بارے ميں خود مختار ہے اور والدین کی نذر کی کوئی اہميت نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٣١ جب بھی کوئی شخص خدا سے عهد کرے کہ اگر اس کی شرعی حاجت پوری ہوجائے تو وہ کوئی نےک عمل انجام بجالائے گا تو حاجت کے پورا ہوجانے کے بعد نےک عمل کا انجام دینا ضروری ہے ۔ نےز اگر وہ کوئی حاجت نہ ہوتے ہوئے عهد کرے کہ عمل خیر کو بجالائے گا تو اس عمل کا بجالانا اس پر واجب ہوجائے گا۔ یهی حکم احتياط واجب کی بنا پر دونوں صورتوں ميں اس وقت بھی ہے جب وہ ایک مباح عمل ہو۔

مسئلہ ٢٧٣٢ عهد ميں بھی نذر کی طرح صيغہ پڑھا جائے گا اور ضروری ہے کہ جس چيز کا عهد کيا گيا ہو وہ مرجوح(ہر وہ کام جس کا نہ کرنا بہتر ہو) نہ ہو ليکن جس چيز کا عهد کياگيا ہو اس کا راجح ہونا(ہر وہ کام جس کا انجام دینا اس کے ترک کرنے سے بہتر ہو) جس طرح کہ مشهور علما کا نظريہ ہے ،محل اشکال ہے ۔

۴۴۳

مسئلہ ٢٧٣٣ اگر کوئی شخص اپنے عهد پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے کفّارہ دینا ضروری ہے یعنی ایک غلام آزاد کرے یا ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا دو مهينہ مسلسل روزہ رکھے۔

قسم کھانے کے احکام

مسئلہ ٢٧٣ ۴ اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ کسی کام کو انجام دے گا یا کسی کام کو ترک کرے گا مثلاً قسم کھائے کہ روزہ رکھے گا یا تمباکو استعمال نہيں کرے گا، تو اگر جان بوجه کر مخالفت کرے تو کفارہ دینا ضروری ہے یعنی ایک غلام آزاد کرے یا دس فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا دس فقيروں کو لباس پهنائے اور اگر ان ميں سے کسی ایک کو بھی انجام نہ دے سکتا ہو تو تين روز مسلسل روزہ رکھے۔

مسئلہ ٢٧٣ ۵ قسم کے لئے چند شرائط ہيں :۔

١) ضروری ہے کہ قسم کھانے والا بالغ و عاقل ہو اور اپنے ارادہ و اختيار کے ساته قسم کھائے۔ لہٰذا بچے، پاگل، مست اور اس شخص کا قسم کھانا صحيح نہيں ہے جسے مجبور کيا گيا ہو اور اگر کوئی شخص غصے کے عالم ميں بغير کسی ارادے کے قسم کھائے تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ سفيہ اور مفَلَّس کا قسم کھانا اُس صورت ميں صحيح نہيں ہے جب اس کی وجہ سے مال ميں تصرف کرنا ضروری ہو رہا ہو۔

٢) ضروری ہے کہ انسان جس کام کو انجام دینے کی قسم کها رہا ہو وہ حرام یا مکروہ نہ ہو اور جس کو ترک کرنے کی قسم کها رہا ہو واجب یا مستحب نہ ہو۔ اور کسی ایسی قسم پر عمل واجب ہونا محل اشکال ہے جو کسی ایسے مباح کام کے بارے ميں ہو جس کا انجام دینا یا نہ دینا دین و دنيا ميں کوئی فائدہ نہ رکھتا ہو ۔

٣) قسم کھانے والا الله تعالیٰ کے ناموں ميں سے کسی ایسے نام کی قسم کھائے جو اس کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لئے استعمال نہ ہوتا ہو مثلاً خدا اور الله۔ اور اگر کسی ایسے نام کی قسم کھائے جو غير خدا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہو ليکن خدا کے لئے اس قدر استعمال ہوتا ہو کہ جب بھی کوئی وہ نام لے تو خدا کی ذات ذهن ميں آتی ہو مثلاً اگر کوئی خالق اور رازق کی قسم کھائے تو یہ قسم بھی صحيح ہے بلکہ اگر کسی ایسے نام کی قسم کھائے جو خدا اور غير خدا دونوں کے لئے بولا جاتا ہو اور خدا کا قصد کرے تب بھی احتياط واجب یہ ہے کہ اس قسم پر عمل کرے۔

۴) قسم کھانے والا قسم کے الفاظ زبان پر لائے اور اگر قسم کو لکھے یا دل ميں ارادہ کرے تو یہ صحيح نہيں ہے ليکن اگر گونگا شخص اشارے سے قسم کھائے تو صحيح ہے ۔

۴۴۴

۵) قسم پر عمل کرنا اس کے لئے ممکن ہو اور اگر قسم کھانے کے وقت عمل کرنا ممکن ہو ليکن بعد ميں عاجز ہو جائے تو اس وقت سے اس کی قسم ختم ہو جائے گی اور اگر نذر یا قسم یا عهد پر عمل کرنا ناقابل برداشت مشقت کا باعث بنے تو بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢٧٣ ۶ اگر باپ بيٹے کو یا شوہر بيوی کو قسم کھانے سے روکے تو ان کی قسم صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٣٧ اگر بيٹا باپ کی اجازت کے بغير اور بيوی شوہر کی اجازت کے بغير قسم کھائے تو باپ اور شوہر ان کی قسم توڑ سکتے ہيں بلکہ ظاہر یہ ہے کہ باپ اور شوہر کی اجازت کے بغير ان کی قسميں صحيح نہيں ہيں ۔

مسئلہ ٢٧٣٨ اگر انسان بھولے سے، مجبوری ميں یا غفلت کی وجہ سے اپنی قسم پر عمل نہ کرے تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے اور اگر اسے مجبور کيا جائے کہ وہ اپنی قسم پر عمل نہ کرے تو بھی اس کے لئے یهی حکم ہے اور وہ قسم جو وسواسی شخص کهاتا ہے مثلاً یہ کهے کہ والله ميں ابهی نماز ميں مشغول ہوتا ہوں اور وسواس کی وجہ سے مشغول نہ ہوسکے تو اگر اس کا وسواس اس قسم کا ہو کہ قسم پر عمل نہ کرنا اس کے اختيار ميں نہ ہو تو اس پر کوئی کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧٣٩ اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ ميں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے پس اگر اس کی بات سچی ہو تو اس کا قسم کھانا مکروہ ہے اور اگر اس کی بات جھوٹی ہو تو اس کا قسم کھانا حرام ہے اور یہ بڑے گناہوںميں سے ہے ۔ ليکن اگر وہ اپنے آپ کو یا کسی مسلمان کو ظالم کے شر سے نجات دلانے کی خاطر جھوٹی قسم کھائے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے بلکہ بعض اوقات تو جھوٹی قسم کھانا واجب ہو جاتا ہے ۔

هاں اگر توریہ کرسکتا ہو یعنی قسم کھاتے وقت اس طرح نيت کرے کہ جھوٹ نہ ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ توریہ کرے مثلاً اگر ظالم شخص کسی کو اذیت پہچانا چاہے اور انسان سے پوچهے کہ کيا تم نے فلاں شخص کو دیکھا ہے ؟ اور انسان نے اسے ا یک گهنٹہ پهلے دیکھا ہو تو وہ کهے کہ ميں نے اسے نہيں دیکھا ہے اور ارادہ یہ کرے کہ پانچ منٹ پهلے نہيں دیکھا ہے ۔

احکام وقف

مسئلہ ٢٧ ۴ ٠ اگر کوئی شخص کسی چيز کو وقف کر دے تو وہ خود یا دوسرے افراد نہ ہی اس چيز کو بخش سکتے ہيں اور نہ ہی اسے بيچ سکتے ہيں اور کوئی بھی اس وقف شدہ مال ميں سے ميراث نہيں پاتا۔ ليکن بعض صورتوں ميں کہ جن کا ذکر مسئلہ نمبر ٢١٢٢ اور ٢١٢٣ ميں ہوچکا ہے وقف شدہ چيز کا بيچنا صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴ ١ وقف کا صيغہ عربی زبان ميں پڑھنا ضروری نہيں بلکہ اگر کوئی شخص مثال کے طور پر یوں کهے ”ميں نے اپنے گھر کو وقف کر دیا“ تو یہ کافی ہے ۔ اسی طرح عمل سے بھی وقف ثابت ہو جاتا ہے مثلاً کوئی شخص وقف کی نيت اور ارادے سے چٹائی مسجد ميں ڈال دے یا کسی عمارت کو مسجد کے ارادے سے بنائے۔ اور عمومی وقف شدہ چيزیں مثلاً مسجد اور مدرسہ یا وہ چيز

۴۴۵

جو فقراء یا سادات وغيرہ کے لئے وقف کی جائے، ایسے وقف کے صحيح ہونے کے لئے کسی کے قبول کرنے کی شرط نہيں ہے بلکہ ایسے وقف ميں جو مخصوص لوگوں کے لئے ہو مثلاً اولاد کے لئے ان ميں بھی اقوی یہ ہے کہ قبول کرنا معتبر نہيں ہے گرچہ احتياط قبول کرنے ميں ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴ ٢ اگر کوئی شخص اپنی کسی چيز کو وقف کرنے کے لئے معين کرے اور وقف کا صيغہ پڑھنے سے پهلے ارادہ بدل دے یا مر جائے تو وقف واقع نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢٧ ۴ ٣ جو شخص کسی مال کو وقف کر رہا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مال کو وقف کا صيغہ پڑھنے کے وقت سے ہميشہ کے لئے وقف کر دے اور اگر مثال کے طور پر یہ کهے کہ یہ مال ميرے مرنے کے بعد وقف ہے تو یہ صحيح نہيں ہے کيونکہ وقف کے پڑھے جانے کے وقت سے اس کی موت تک یہ چيز وقف نہيں ہوئی ہے اور اگر یہ کهے کہ یہ مال دس سال تک وقف ہے اور پھر نہيں ہے یا یہ کهے کہ یہ مال دس سال تک وقف ہے پھر پانچ سال وقف نہيں ہے پھر دوبارہ وقف ہو جائے گا تو بھی صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴۴ خصوصی وقف (جس ميں وقف خاص افراد کے لئے ہو) اس وقت صحيح ہوگا جب وقف کرنے والا مال کو اُن افراد کے سپرد کر دے جن کے لئے وقف کيا گيا ہے یا ان کے وکيل یا ولی کے سپرد کر دے ليکن اگر کسی چيز کو اپنے نابالغ بچوں کے لئے وقف کرے اور پھر ان کی جانب سے (بطور ولی) اس چيز کو اپنی تحویل اور اختيار ميں لے لے تو وقف صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴۵ عمومی وقف شدہ چيزوں مثلاً مدارس و مساجد وغيرہ ميں قبضہ دینے کی شرط نہيں ہے گرچہ احوط ہے ۔ قبضہ لينے کا مطلب یہ کہ مثلاً مسجد کے وقف ميں کوئی ایک شخص وہاں نماز پڑھے یا قبرستان کے وقف ميں کوئی شخص وہاں دفن ہو جائے۔

مسئلہ ٢٧ ۴۶ وقف کرنے والے کا بالغ ہونا ضروری ہے اور ایسے مميز بچے کا وقف کرنا جسے ولی کی جانب سے اجازت ہو جب کہ وقف ميں مصلحت ہو اور وقف شدہ چيز کی مقدار معمول کے مطابق ہو تو ایسے وقف کا صحيح ہونا بعيد نہيں ہے ۔ اسی طرح ضروری ہے کہ وقف کرنے والا عاقل ہواور ارادہ کے ساته وقف کرے اور یہ بھی کہ کسی نے اسے مجبور نہ کيا ہو اور شرعاً وہ اپنے مال ميں تصرف کرنے کا حق رکھتا ہو۔لہٰذا سفيہ یعنی وہ شخص جو اپنے مال کو فضول کاموں ميں خرچ کرتا ہے اور اسی طرح مُفَلَّس یعنی وہ شخص جسے حاکم شرع نے اپنے مال ميں تصرف کرنے سے روک دیا ہو، اگر یہ لوگ کسی چيز کو وقف کریں تو یہ وقف نافذالعمل نہيں ہوگا مگر یہ کہ ولی یا اس کے قرض خواہ اسے اجازت دے دیں۔

۴۴۶

مسئلہ ٢٧ ۴ ٧ اگر کوئی شخص کسی مال کو ماں کے بطن ميں موجود بچے کے لئے جو ابهی دنيا ميں نہ آیا ہو وقف کرے تو اس وقف کے صحيح ہونے ميں اشکال ہے ليکن اگر کوئی مال ایسے لوگوں کے لئے وقف کيا جائے جو ابهی موجود ہوں اور پھر اِن کے بعد اُن لوگوں کے لئے وقف کيا جائے جو بعد ميں پيدا ہوںگے تو اگر چہ وقف کرتے وقت ماں کے بطن ميں بھی موجود نہ ہوں پھر بھی وقف صحيح ہے مثلاً اگر کوئی شخص کسی چيز کو اپنی اولاد کے لئے وقف کرے کہ ان کے بعد اس کے پوتوں کے لئے وقف ہوگی اور ہر گروہ کے بعد آنے والا گروہ اس وقف سے استفادہ کرے تو وہ وقف صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴ ٨ اگر کوئی شخص کسی چيز کو اپنے آپ پر وقف کرے مثلاً کوئی دکان وقف کر دے تا کہ اس کی آمدنی اس کے مرنے کے بعد اس کے مقبرے پر خرچ کی جائے تو یہ وقف صحيح نہيں ہے ليکن اگر مثال کے طور پر وہ کوئی مال فقراء کے لئے وقف کردے اور پھر خود بھی فقير ہو جائے تو وقف کے منافع سے استفادہ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴ ٩ اگر وقف کرنے والا وقف شدہ چيز کے لئے کسی کو متولی بنائے تو اس شے کا اختيار اسی متولی کے لئے ہے جسے وقف کرنے والے نے معين کيا ہے اور اگر کسی کو متولی نہ بنائے اور مال کو مخصوص افراد مثلاً اپنی اولاد کے لئے وقف کيا ہو تو بالغ ہونے کی صورت ميں وہ لوگ اس سے استفادہ کرنے ميں خود مختار ہيں اور اگر نابالغ ہوں تو اس سلسلے ميں اختيار ان کے ولی کے پاس ہوگا ليکن ایسے تصرفات ميں حاکِم شرع کی اجازت ضروری ہے جن کا تعلق وقف شدہ چيز کی بہتری یا آئندہ نسلوں کی بهلائی سے ہو۔

مسئلہ ٢٧ ۵ ٠ اگر مثال کے طور پر کوئی شخص کسی مال کو فقراء یا سادات کے لئے وقف کرے یا اس نيت سے وقف کرے کہ اس سے ملنے والا نفع بطور خيرات دیا جائے تو اگر اس نے وقف شدہ چيز کے لئے متولی معين نہ کيا ہو تو اس کا اختيار حاکِم شرع کو ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۵ ١ اگر کوئی شخص کسی جگہ کو مخصوص افراد مثلاً اپنی اولاد کے لئے وقف کرے کہ ایک پشت کے بعد دوسری پشت اس سے استفادہ کرتی رہے تو اگر وقف کا متولی اس مال کو کرائے پر دے دے اور مر جائے تو اجارہ باطل نہيں ہوتا ہے ۔ ليکن اگر اس جگہ کا کوئی متولی نہ ہو اور جن افراد کے لئے وقف کيا گيا ہو ان ميں سے پهلا گروہ اس مال کو کرائے پر دے دے اور کرائے کی مدت کے مابين وہ گروہ مرجائے تو اگر دوسرا گروہ اس اجارے کے جاری رہنے کی اجازت نہ دے تو اجارہ باطل ہو جائے گا اور اگر کرایہ دار نے پوری مدت کا کرایہ ادا کر رکھا ہو تو پهلے گروہ کی موت کے وقت سے اجارے کی مدت کے خاتمے تک کا کرایہ وہ اُن کے مال ميں سے لے سکتا ہے ۔

۴۴۷

مسئلہ ٢٧ ۵ ٢ اگر وقف شدہ جائيداد خراب ہو جائے تب بھی وہ وقف شدہ ہی رہتی ہے مگر یہ کہ وقف کسی خاص مقصد کے لئے کيا گيا ہو۔ ایسی صورت ميں اس مقصد کے فوت ہوتے ہی وقف ختم ہو جائے گا جيسے کسی گھر کو رہنے کے لئے وقف کيا جائے پس جيسے ہی یہ مقصد فوت ہوگا وقف باطل ہو جائے گا اور اس چيز کو وقف کرنے والے یا اس کے نہ ہونے کی صورت ميں اس کے ورثاء کی طرف پلٹا دیا جائے گا ۔

مسئلہ ٢٧ ۵ ٣ اگر کسی جائيداد کا کچھ حصّہ بطور مشاع وقف شدہ ہو اور کچھ حصہ وقف نہ ہو تو اگر اس وقف شدہ حصّے کا کوئی معين متولی ہو تو وہ اور غير وقف شدہ حصّہ کا مالک اہل خبرہ کی رائے کے مطابق اس جگہ کی تقسيم کرسکتے ہيں اور متولی نہ ہونے کی صورت ميں حاکم شرع اور غير وقف شدہ حصّہ کا مالک اس جگہ کو تقسيم کریں گے۔

مسئلہ ٢٧ ۵۴ اگر وقف شدہ چيز کا متولی اس ميں خيانت کرے تو حاکم شرع اس کے ساته ایک امين شخص کو معين کرے گا جو اسے خيانت کرنے سے روکے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو حاکم شرع اس متولی کے بجائے کسی دیانتدار متولی کو معين کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۵۵ جو قالين امام بارگاہ کے لئے وقف کی گئی ہو اسے نماز پڑھنے کے لئے مسجد ميں نہيں لے جایا جاسکتا ہے گرچہ وہ مسجد امام بارگاہ کے قریب ہی ہو۔

مسئلہ ٢٧ ۵۶ اگر کسی جائيداد کو مسجد کی مرمت کے لئے وقف کرے جب کہ اس مسجد کو مرمت کی ضرورت نہ ہو اور توقع بھی نہ ہو کہ مسجد کو مرمت کی ضرورت پڑے گی اس طرح سے کہ اس جائيداد کی آمدنی کو مسجد کی مرمت کے لئے سنبهالنا غير عقلائی ہو تو ایسے وقف کا صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۵ ٧ اگر کوئی شخص کسی جائيداد کو وقف کرے تا کہ اس کی آمدنی کو مسجد کی مرمت پر خرچ کيا جائے اور امام جماعت اور مسجد کے موذن کو دیا جائے تو اگر معلوم ہو یا اطمينان ہو کہ ہر ایک کے لئے کتنی مقدار معين کی ہے تو اس طریقے سے استعمال کرنا ضروری ہے اور اگر یقين یا اطمينان نہ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے مسجد کی مرمت کرائی جائے اور اگر کچھ بچ جائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ امام جماعت اور موذن اس رقم کی تقسيم ميں ایک دوسرے سے مصالحت کرليں۔

وصيت کے احکام

مسئلہ ٢٧ ۵ ٨ وصيت یہ ہے کہ انسان تاکيد کرے کہ اس کے مرنے کے بعداس کے لئے فلاں فلاں کام کئے جائيں یایہ کهے کہ اس کے مرنے کے بعداس کے مال کی کچھ مقدار فلاں شخص کی ملکيت ہوگی یا یہ کہ یوں کهے کہ اس کے مال کی کچھ مقدار کا کسی کو مالک بنا دیا جائے یااسے وقف کردیاجائے یانيک کاموں ميں صرف کياجائے یااپنی اولادکے لئے اوران لوگوں کے لئے جواس کی کفالت ميں ہوں کسی شخص کونگراں اورسرپرست مقررکرے۔جس شخص کووصيت کی جائے اسے وصی کہتے ہيں ۔

۴۴۸

مسئلہ ٢٧ ۵ ٩ جوشخص بول نہ سکتاہواگروہ اشارے سے اپنامقصدسمجھادے تووہ هرکام کے لئے وصيت کرسکتاہے بلکہ جوشخص بول سکتاہواگروہ بھی اس طرح اشارے سے وصيت کرے کہ اس کامقصدسمجھ ميں آجائے تووصيت صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ ٠ اگرایسی تحریرملے جس پرمرنے والے کے دستخط یا مہر ثبت ہو تو اگروہ تحریرمرنے والے کے مقصد کو سمجھا رہی ہو اور یہ معلوم ہو کہ اس نے یہ تحریر وصيت کی غرض سے لکھی ہے تواس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ ١ ضروری ہے کہ وصيت کرنے والا عاقل ہواور اسے وصيت کرنے پرمجبورنہ کيا گيا ہو۔ دس سالہ بچے کی وصيت اس کے ایک تھائی مال ميں اس وقت نافذالعمل ہوگی جب وہ مميزهو،اس کی وصيت عقلائی ہواوروصيت رشتہ داروں یانيک کا موں کے بارے ميں ہو اور احتياط واجب یہ ہے کہ سات سالہ مميزبچے کی وصيت پرکسی ایسے مصرف ميں جومناسب ہواس کے مال کی کچھ مقدار کوخرچ کرکے وصيت پرعمل کياجائے۔ سفيہ کی وصيت پر عمل کرنا اگر مال ميں تصرف پرموقوف ہوتواس کی وصيت نافذنہيں ہوگی ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ ٢ جس شخص نے خودکشی کے قصدسے مثلااپنے آپ کوزخمی کرلياہویازهرکھالياہواوراسی کے سبب وہ مر جائے اس کی وصيت اپنے مال کے بارے ميں صحيح نہيں ہے ۔ البتہ اگر اس کام سے پهلے ہی وصيت کر چکا ہو تو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ ٣ اگر انسان وصيت کرے کہ اس کے مال ميں سے ایک چيز کسی دوسرے کی ہوگی تو اس صورت ميں جب کہ وہ دوسرا شخص و صيت کو قبول کرلے خواہ اس کا قبول کرنا وصيت کرنے والے کی زندگی ميں ہی کيوں نہ ہو وہ وصيت کرنے والے کے مرنے کے بعد اس چيز کا مالک بنے گا بلکہ ظاہر یہ ہے کہ قبول کرنے کوئی شرط نہيں ہے ۔ ہاں، اگر وہ وصيت کو ٹھ کرا دے تو یہ چيز وصيت کے نافذهونے ميں رکاوٹ ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶۴ جب بھی انسان اپنے آپ ميں موت کی نشانياںدیکھے تو ضروری ہے کہ لوگوں کی امانتو ں کے سلسلے ميں اپنی اس ذمہ داری کے مطابق عمل کرے جومسئلہ نمبر ٢٣٩ ۵ ميں بيان کيا گيا ہے اور اگر لوگوں کا مقروض ہو اور قرض واپس کرنے کا وقت آچکا ہو اور قرض خواہ مطالبہ بھی کررہا ہو تو ضروری ہے کہ انہيں قرضہ اداکردے اور اگروہ خود قرضہ اداکرنے کے قابل نہ ہو یا قرض کی ادائيگی کا وقت نہ آیا ہو یا قرض خواہ ابهی مطالبہ نہ کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ اس بات کا اطمينان حاصل کرے کہ قرض ادا کر دیا جائے گا چاہے اس کے لئے وصيت کرے اور اس پر کسی کو گواہ بنائے۔

مسئلہ ٢٧ ۶۵ جو شخص اپنے آپ ميں موت کی نشانياںدیکھ رہا ہو اگر زکات وخمس اور ردّمظالم اس کے ذمے واجب الادا ہو ں اور وہ انہيں فوراً ادا نہ کرسکتا ہو تو اگر اس کے پاس اپنا مال ہو یا احتمال ہو کہ کوئی دوسر اشخص ان چيزوں کی ادائيگی کر دے گا تواس کے لئے ضروری ہے کہ وصيت کرے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

۴۴۹

مسئلہ ٢٧ ۶۶ جو شخص اپنے آپ ميں موت کی نشانياں دیکھ رہا ہو اگر اس کی نماز اور روزے قضاہوئے ہوں توضروری ہے کہ ان کے بجالانے کے بارے ميں وصيت کرے مثلایہ کہ وصيت کرے کہ اس کے مال سے ان عبادات کی ادائيگی کے لئے کسی کو اجير بنایا جائے اور اگر مال نہ ہو ليکن اس بات کا احتمال ہو کہ کوئی شخص بلا معاوضہ ان عبادات کو بجالائے گا تب بھی اس کے لئے وصيت کرنا ضروری ہے اوراگر اس کی قضانمازیں اورروزے اسی تفصيل کے مطابق جو مسئلہ نمبر ١٣٩٨ ميں گزری ،بڑے بيٹے پر ہوں تواسے اطلاع دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ ٧ جو شخص اپنے آپ ميں موت کی نشانياں دیکھ رہا ہواگر اس کا مال کسی کے پاس ہو یا ایسی جگہ چھپا یا ہو جس کا ورثاء کو علم نہ ہوتو اگر لا علمی کی وجہ سے ورثاء کا حق ضائع ہورہا ہو تو ضروری ہے کہ انہيں اطلاع دے اوراپنے نابالغ بچوں کے لئے نگراں اور سر پرست مقررکرنا ضروری نہيں ہے ليکن اس صورت ميں جب کہ نگران کے نہ ہونے سے بچوں کا مال ضا یع ہورہا ہو یا خود بچے ضائع ہو رہے ہوں توضروری ہے کہ ان کے لئے ایک امين نگران کو مقررکرے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ ٨ ضروری ہے کہ وصی عاقل ہو اور احوط یہ ہے کہ بالغ بھی ہو ليکن اگر کسی نابالغ کو وصی کے ساته اس طرح ملا دیا جائے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد اس وصی کے ساته شامل ہوکر کاموں کی انجام دے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔اورمسلمان کے وصی کامسلمان ہونااس وقت ضروری ہے جب وصی بنناکسی دوسرے مسلمان پرحق ولایت ثابت کررہا ہوجيسے موصی کے نابالغ مسلمان بچوں کانگراں اورولی بننا۔

اور ان امورميں جووصيت کرنے والے کے علاوہ کسی اورسے متعلق ہوں،جيسے واجبات کی ادائيگی اورنابالغ بچوں کے مال ميں تصرف وغيرہ ، وصی کاقابل اطمينان ہوناضروری ہے ۔ ليکن وہ امورجوموصی سے مربوط ہوں اورواجبات ميں سے نہ ہوں جيسے موصی کایہ وصيت کرناکہ اس کے ایک تھائی مال کونيک کاموں ميں خرچ کياجائے ، ایسے امورميں وصی کاقابل اطمينان ہوناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ ٩ اگرکوئی شخص کچھ لوگوں کواپناوصی معين کرے تواگراس نے اجازت دی ہوکہ ان ميں سے هرایک اکيلا بھی وصيت پرعمل کرسکتاہے توضروری نہيں ہے کہ وہ وصيت انجام دینے ميں ایک دوسرے سے اجازت ليں اوراگروصيت کرنے والے نے ایسی کوئی اجازت نہ دی ہوتوخواہ اس نے سب کومل کروصيت پرعمل کرنے کوکهاہویانہ کها ہو، سب کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی رائے کے مطابق وصيت پرعمل کریں اوراگرکسی شرعی عذر نہ ہونے کے باوجودوہ لوگ ایک ساته وصيت پرعمل کرنے پرتيارنہ ہوں توحاکم شرع انہيں اس کام پر مجبور کرے گا اور اگر وہ لوگ حاکم شرع کی اطاعت نہ کریں یاکوئی عذرشرعی رکھتے ہوں توحاکم شرع ان ميں سے کسی ایک شخص کے بجائے دوسرے کومعين کرے گا۔

۴۵۰

مسئلہ ٢٧٧٠ اگرکوئی شخص اپنی وصيت سے پلٹ جائے مثلا پهلے کهے کہ اس کاایک تھائی مال فلاں شخص کودے دیاجائے اوربعدميں کهے کہ اسے نہ دیاجائے تووصيت باطل ہوجاتی ہے اوراگرکوئی شخص اپنی وصيت ميں تبدیلی کرے مثلاپهلے ایک شخص کواپنے بچوں کانگراں بنائے اوربعدميں کسی اورکونگراں مقررکرے تواس کی پهلی وصيت باطل ہوجائے گی اورضروری ہے کہ اس کی دوسری وصيت پرعمل کياجائے ۔

مسئلہ ٢٧٧١ اگروصيت کرنے والاکوئی ایساکام کرے جس سے پتہ چلے کہ وہ اپنی وصيت سے منصرف ہوگياہے یاکوئی ایساکام کرے جواس کی وصيت کے منافی ہوتووصيت باطل ہوجائیگی۔

مسئلہ ٢٧٧٢ اگرکوئی شخص وصيت کرے کہ ایک معين چيزکسی شخص کو دے دی جائے اوربعد ميں وصيت کرے کہ اس چيزکانصف حصہ کسی اورکودیاجائے توضروری ہے کہ اس چيزکے دوحصے کئے جائيں اوران دونوں اشخاص ميں سے هرایک کوایک حصہ دیاجائے ۔

مسئلہ ٢٧٧٣ اگرکوئی شخص اپنے مال کی کچھ مقدار مرض الموت ميں کسی کو بخش دے اور وصيت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد بھی ایک مقدار کسی کو دی جائے توضروری ہے کہ وہ مال جواس نے بخشا تھا اسے اصل مال سے نکاليں جيسا کہ مسئلہ نمبر ٢٣٠٨ ميں گذر چکا ہے ، ليکن جس مال کے بارے ميں وصيت کی تھی اسے ایک تھائی مال سے نکالاجائے۔

مسئلہ ٢٧٧ ۴ اگرکوئی شخص و-صيت کرے کہ اس کے مال کاتيسراحصہ بيچا نہ جائے اوراس سے حاصل ہونے والی آمدنی کوکسی کام ميں خرچ کياجائے تواس کے کهنے کے مطابق عمل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٧٧ ۵ اگرکوئی شخص مرض الموت ميں کهے کہ وہ اتنی مقدارميں کسی شخص کامقروض ہے تواگراس پریہ تهمت لگائی جا ئے کہ اس نے یہ بات ورثاء کونقصان پهنچانے کے لئے کی ہے تو اس نے قرضے کی جو مقدار معين کی ہے وہ اس کے مال کے تيسرے حصے سے دی جائے گی اوراگراس پریہ تهمت نہ لگائی جائے تواس کااقرارنافذهے اورقرضہ اس کے اصل مال سے ادا کيا جائے گا ۔

مسئلہ ٢٧٧ ۶ جس شخص کے بارے ميں انسان وصيت کرے کہ کوئی چيزاسے دی جائے اس کاوصيت کرنے کے وقت موجودهونا ضروری نہيں ہے لہذااگرکوئی انسان وصيت کرے کہ فلاں چيزاس بچے کودے دی جائے جس کے بارے ميں ممکن ہوکہ فلاں عورت اس سے حاملہ ہوجائے گی تو اگروہ بچہ موصی کی موت کے بعد موجود ہو تو ضروری ہے کہ وہ چيزاسے دی جائے اوراگروہ بچہ موجود نہ ہوتواس صورت ميں جبکہ موصی کی وصيت یادوسرے قرائن سے یہ سمجھ ميں آرہا ہو کہ موصی کی نگاہ ميں بچہ کی عدم موجودگی کی صورت ميں اس مال کوایک دوسرے مصرف ميں خرچ کرناضروری ہے تو موصی کی نظرکے مطابق عمل کياجائے ورنہ وصيت باطل ہوجائے گی اورمال ورثاء کومنتقل ہوجائے گا اوراگریہ وصيت کرے کہ اس کے مال ميں سے کوئی چيزکسی

۴۵۱

دوسرے شخص کی ہوگی پس اگروہ شخص موصی کے مرنے کے وقت موجودهوتووصيت صحيح ہے ورنہ باطل ہوجائے گی اوروصيت شدہ مال ورثاء کی جانب منتقل ہوجائے گا ۔

مسئلہ ٢٧٧٧ اگرانسان کوپتہ چلے کہ کسی نے اسے وصی بنایاہے ميت کے کفن ودفن کے مسئلے کے علاوہ جس کاحکم مسئلہ نمبر ۵۵۵ ميں بيان ہوچکاہے ، تو اگروہ موصی کواطلاع دے دے کہ وہ اس کی وصيت پرعمل کر نے کے لئے تيار نہيں ہے توضروری نہيں ہے کہ وہ اس کے مرنے کے بعدوصيت پرعمل کرے ليکن اگرموصی کے مرنے سے پهلے انسان کویہ پتہ نہ چلے کہ اسے وصی بنایاہے یاپتہ چل جائے ليکن موصی کواس بات کی اطلاع نہ دے کہ وہ وصيت پرعمل کرنے کے لئے تيار نہيں ہے تواگروصيت پرعمل کرناباعث مشقت نہ ہوتوضروری ہے کہ اس کی وصيت کوانجام دے اوراگروصی، موصی کے مرنے سے پهلے اس وقت اس جانب متوجہ ہوجب مرض کی شدت یا کسی دوسری رکاوٹ کی بنا پرموصی کسی اورکووصی نہ بناسکتاہوتواحتيا ط کی بنا پرضروری ہے کہ وصيت کوقبول کرلے۔

مسئلہ ٢٧٧٨ اگرموصی کاانتقال ہوجائے تووصی وصيت کے کاموں کی انجام دهی کے لئے کسی دوسرے شخص کومعين کرکے خودان کاموں سے کنارہ کشی اختيارنہيں کرسکتاہے ہاں اگروصی یہ جانتاہوکہ مرنے والے کامقصودیہ نہيں تھاکہ وصی بذات خودان کاموں کوانجام دے بلکہ اس کامقصودفقط یہ تھاکہ کام کردئے جائيں تواپنی طرف سے کسی دوسرے شخص کووکيل مقررکرسکتاہے ۔

مسئلہ ٢٧٧٩ اگرکوئی شخص دوافرادکواکهٹے وصی بنائے تواگران دونوں ميں سے ایک مرجائے یاپاگل ہوجائے توحاکم شرع اس کے بجائے کسی دوسرے شخص کومعين کرے گااوراگردونوں مرجائيں یاپاگل ہوجائيں توحاکم شرع دوسرے دواشخاص کومعين کرے گاليکن اگرایک شخص وصيت پرعمل کرسکتاہوتودواشخاص کامعين کرنالازم نہيں ہے ۔ یهی حکم اس صورت ميں بھی ہے جب ان دونوں ميں سے کوئی ایک یادونوں کافرہوجائيں جب کہ وصی بننے کے نتيجے ميں وصی، ولی بھی بن رہا ہو مثلا نابالغ بچوں کی نگرانی اس کے ذمے آرہی ہو۔

مسئلہ ٢٧٨٠ اگروصی اکيلا یا دوسرے سے مددلينے کے باوجود ميت کے کام انجام نہ دے سکے توحاکم شرع اس کی مددکرنے کے لئے ایک اورشخص کومعين کرے گا۔

مسئلہ ٢٧٨١ اگرميت کے مال کی کچھ مقدارتلف ہوجائے تواگروصی نے اس کی حفاظت ميں کوتاہی کی ہومثلاغيرمحفوظ جگہ پرمال کو رکھ دیا ہو یا زیادہ روی کی ہو مثلاً مرنے والے نے وصيت کی ہوکہ مال کی اتنی مقدارفلاں شهرکے فقراء کودے دے اوروہ مال کودوسرے شهرلے جائے اورراستے ميں مال تلف ہوجائے تووہ ضامن ہے اوراگرحفاظت ميں کوتاہی یا زیادہ روی نہ کی ہو تو وہ ضامن نہيں ۔

۴۵۲

مسئلہ ٢٧٨٢ جب بھی انسان کسی شخص کووصی مقررکرے اوریہ کهے کہ اس کے مرجانے کی صورت ميں فلاں شخص وصی ہوگاتوپهلے وصی کے مرنے کے بعددوسرے وصی پرلازم ہے کہ وہ ميت کے کام کوانجام دے ۔

مسئلہ ٢٧٨٣ استطاعت کی وجہ سے واجب ہونے والا حج اور ایسا قرضہ اور حقوق مثلا خمس، زکوٰة اور ردّ مظالم، جن کااداکرناميت کے لئے واجب ہو، انہيں ميت کے اصل مال سے دیناضروری ہے اگرچہ ميت نے ان چيزوں کے بارے ميں وصيت نہ کی ہواوراگروصيت کی ہوکہ ایک تھائی مال سے انہيں اداکياجائے تووصيت پرعمل کرناضروری ہے اوراگرایک تھائی مال کافی نہ ہوتواصل مال سے نکال لياجائے گا۔

مسئلہ ٢٧٨ ۴ اگرميت کامال قرضے، واجب حج اور واجب الادا حقوق کی ادائيگی کے بعد بچ جائے تو اگر اس نے وصيت کی ہوکہ اس کاایک تھائی مال یااس کی کچھ مقدارکوایک معين مصر ف ميں استعمال کياجائے تواس وصيت پرعمل کرناضروری ہے اوراگروصيت نہ کی ہوتوجوکچه بچے وہ ورثاءکامال ہے ۔

مسئلہ ٢٧٨ ۵ جن اموال کے بارے ميں ميت نے وصيت کی ہو اگر وہ اس کے ایک تھائی مال سے زیادہ ہو تو مال کے تيسرے حصّے سے زیادہ کے بارے ميں اس کی وصيت اس صورت ميں صحيح ہے جب ورثاء کوئی ایسی بات کہيں یا ایسا کام کریں کہ معلوم ہو جائے کہ انہوں نے وصيت کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے اور ان کا صرف راضی ہونا کافی نہيں ہے اور اگر وہ موصی کے مرنے کے کچھ عرصے کے بعد اجازت دیں تو بھی صحيح ہے اور اگر بعض ورثاء اجازت دے دیں اور بعض اجازت نہ دیں تو جنہوں نے اجازت دی ہے ان کے حصّوں کی حدتک وصيت نافذ العمل ہے ۔

مسئلہ ٢٧٨ ۶ جن اموال کے بارے ميں ميت نے وصيت کی ہو اگر وہ اس کے ایک تھائی مال سے زیادہ ہو اور اس کے مرنے سے پهلے ورثاء وصيت پر عمل کرنے کی اجازت دے دیں تو اس کے مرنے کے بعد اپنی اجازت سے نہيں پھر سکتے۔

مسئلہ ٢٧٨٧ اگر مرنے والا وصيت کرے کہ اس کے مال کے ایک تھائی حصّے سے خمس و زکات یا اس کا کوئی اور قرضہ ادا کيا جائے اور اس کی قضا نمازوں اور روزوں کے لئے اجير مقرر کيا جائے اور کوئی مستحب کام مثلاً فقيروں کو کھانا بھی دیا جائے تو ضروری ہے کہ پهلے اس کا قرضہ ایک تھائی مال سے ادا کيا جائے اور اگر کچھ بچ جائے تو روزوں اور نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جائے اور اگر پھر بھی کچھ بچ جائے تو جو مستحب کام اس نے معين کيے ہوں اس پر خرچ کيا جائے اور اگر اس کے مال کا ایک تھائی حصّہ صرف اس کے قرضے کے برابر ہو اور ورثاء بھی ایک تھائی مال سے زیادہ خرچ کرنے کی اجازت نہ دیں تو پھر ایک تھائی مال کو قرض، نمازوں اور روزوں کے مابين تقسيم کيا جائے گا اور مالی واجبات ميں کم پڑجانے والی مقدار کو اصل ترکہ ميں سے نکالا جائے گا۔

۴۵۳

مسئلہ ٢٧٨٨ اگر کوئی شخص وصيت کرے کہ اس کا قرضہ ادا کيا جائے اور اس کی نمازوں اور روزوں کے لئے اجير مقرر کيا جائے اور کوئی مستحب کام بھی انجام دیا جائے تو اگر اس نے یہ وصيت نہ کی ہو کہ یہ کام ایک تھائی مال ميں سے کئے جائيں تو ضروری ہے کہ اس کا قرضہ اس کے اصل مال ميں سے دیا جائے اور پھر جو کچھ بچ جائے اس کا ایک تھائی حصّہ نماز روزوں کی ادائيگی اور مستحب کام کے لئے استعمال کيا جائے اور اگر ایک تھائی مال ان کاموں کے لئے کافی نہ ہو تو ورثاء کی اجازت کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس کی وصيت پر عمل کيا جائے۔ اور اگر ورثاء اجازت نہ دیں تو ضروری ہے کہ نماز اور روزوں کی اجرت ایک تھائی مال سے ادا کی جائے اور پھر اگر کچھ بچ جائے تو وصيت کرنے والے نے جن مستحب کاموں کا کها ہے اس پر خرچ کيا جائے۔

مسئلہ ٢٧٨٩ اگر کوئی شخص کهے کہ مرنے والے نے وصيت کی تھی کہ اتنی رقم مجھے دے دی جائے تو اگر دو عادل مرد اس کے قول کی تصدیق کریں یا وہ قسم کھائے اور ایک عادل مرد بھی اس کے قول کی تصدیق کرے یا ایک عادل مرد اور دو عادل عورتيں یا چار عادل عورتيں اس کے قول کی گواہی دیں تو جتنی مقدار وہ طلب کر رہا ہو اسے دینا ضروری ہے اور اگر صرف ایک عادل عورت گواہی دے تو جس چيز کا وہ مطالبہ کر رہا ہو اس کا ایک چوتھائی حصّہ اسے دینا ضروری ہے اور اگر دو عادل عورتيں گواہی دیں تو ضروری ہے کہ مطلوبہ مقدار کا آدها حصّہ اور اگر تين عورتيں گواہی دیں تو تين چوتھائی حصّہ اسے دے دیا جائے اور اگر دو کتابی کافر مرد جو اپنے مذهب ميں عادل ہوں اس کے قول کی تصدیق کریں تو اس صورت ميں جب کہ مرنے والا وصيت کرنے پر مجبور ہوگيا ہو اور عادل مرد اور عورتيں بھی وصيت کے وقت موجود نہ ہوں ضروری ہے کہ مطلوبہ شے اسے دے دی جائے۔

مسئلہ ٢٧٩٠ اگر کوئی شخص کهے کہ ميں ميت کا وصی ہوں کہ اس کے مال کو کسی کام ميں خرچ کروں یا یہ کهے کہ ميت نے مجھے اپنے بچوں کا نگراں بنایا تھا تو ضروری ہے کہ اس کا قول اسی وقت قبول کيا جائے جب دو عادل مرد اس کے قول کی تصدیق کریں۔

مسئلہ ٢٧٩١ مشهور یہ ہے کہ : ”اگر مرنے والا وصيت کرے کہ اس کے مال کی اتنی مقدار فلاں شخص کی ہوگی اور وہ شخص وصيت کو قبول کرنے یا ٹھ کرانے سے پهلے مرجائے تو جب تک اس کے ورثاء وصيت کو ٹھ کرا نہ دیں وہ اس چيز کو قبول کرسکتے ہيں “۔ ليکن بعيد نہيں ہے کہ وہ شحص اگر وصيت کرنے والے کے بعد مرا ہو تو اس کے وارثوں کو وہ چيز ميراث ميں مل جائے۔ البتہ یہ حکم اس صورت ميں ہے جب وصيت کرنے والا اپنی وصيت سے پلٹ نہ گيا ہو ورنہ اس شخص کے ورثاء کا کوئی حق اس چيز پر نہيں رہے گا۔

۴۵۴

وراثت کے احکام

مسئلہ ٢٧٩٢ جن افرادکورشتہ داری کی وجہ سے ميراث ملتی ہے ان کے تين گروہ ہيں :

”پهلاگروہ “:ميت کے باپ ،ماں اوراولادہيں اوراولادنہ ہونے کی صورت ميں اولادکی اولادجهاںتک یہ سلسلہ نيچے چلاجائے۔ ان ميں سے جودوسرے کے مقابلے ميں ميت سے زیادہ قریب ہواسے ميراث ملے گی اورجب تک اس گروہ ميں سے ایک شخص بھی موجودهودوسرے گرو ہ کوميراث نہيں ملتی ہے ۔

”دوسراگروہ“: دادا،دادی ،نانا،نانی،بهن اوربهائی ہيں اوربهن اوربهائی نہ ہونے کی صورت ميں ان کی اولاداوراولادميں سے جوبهی ميت سے قریب ترہواسے ميراث ملتی ہے ۔اورجب تک اس گروہ ميں سے ایک شخص بھی موجودهوتيسرے گروہ کوميراث نہيں ملتی ہے ۔

”تيسراگروہ “: چچا،پهوپهی ،ماموں ،خالہ اوران کی اولادهے ۔اورجب تک ميت کے چچاو ںٔ ،پهوپهيوں ،مامو ؤں اورخالاو ںٔ ميں سے ایک شخص بھی زندہ ہوان کی اولاد کوميراث نہيں ملتی ہے ليکن اگرميت کے وارث صرف ایک پدری چچااورایک پدری ومادری چچاکابيٹاہوتوپدری ومادری چچازادبهائی کوميراث ملے گی اورپدری چچاکوميراث نہيں ملے گی ۔اس صورت کے علاوہ ميں احتياط واجب یہ ہے کہ مصالحت سے تقسيم کی جائے خصوصاجب ان دونوں کے ساته دوماموں یاخالہ ہوں۔

مسئلہ ٢٧٩٣ اگرميت کے چچا،پهوپهی ،ماموں ،خالہ اوران کی اولاد در اولاد ميں سے کوئی بھی زندہ نہ ہوتوميت کے ماں باپ کے چچا،پهوپهی ،ماموں اورخالہ کوميراث ملے گی اوراگریہ نہ ہوں توان کی اولادکوميراث ملے گی اوراگریہ بھی نہ ہوں توميت کے دادا،دادی، نانااور نانی کے چچا،پهوپهی ،ماموںاورخالہ کوميراث ملے گی اوراگریہ بھی نہ ہوں توان کی اولادکوميراث ملے گی ۔

مسئلہ ٢٧٩ ۴ شوهراوربيوی عنقریب ذکرہونے والی تفصيل کے مطابق ایک دوسرے سے ميراث پاتے ہيں ۔

پهلے گروہ کی ميراث

مسئلہ ٢٧٩ ۵ اگرپهلے گروہ ميں ميت کاصرف ایک ہی وارث ہومثلاماں ،باپ ،اکلوتا بيٹا، یا بيٹی ہوں توميت کا تمام مال اسے ملتاہے اوراگربيٹے یا بيٹياں وارث ہوں تو مال کو یوں تقسيم کيا جائے کہ ہر بيٹے کو بيٹی سے دگنا حصہ ملے۔

مسئلہ ٢٧٩ ۶ اگرميت کے وارث فقط باپ اورماں ہوں تومال کے تين حصے ہوں گے۔دوحصے باپ کواورایک حصہ ماں کو ملے گا ليکن اگر ميت کے ایسے دوبهائی یاچاربهنيں یاایک بهائی اوردوبهنيں ہوں کہ جوسب کے سب مسلمان ،آزاداورایک باپ کی اولادہوں خواہ ان کی ماں مشترک ہو یا عليحدہ عليحدہ ہواوران ميں سے کوئی حمل کی صورت ميں نہ ہو تواگرچہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے ان لوگوں کوميراث نہيں ملے گی ليکن ان کی وجہ سے ماں کومال کاچھٹاحصہ اورباقی باپ کوملتاہے ۔

۴۵۵

مسئلہ ٢٧٩٧ اگرميت کے وارث فقط ماں باپ ہوں اوراکلوتی بيٹی ہواورسابقہ مسئلہ ميں ذکرشدہ شرائط کے ساته اس کے دوبهائی ،چاربهنيں یاایک بهائی اوردوبهنيں نہ ہوں تومال کے پانچ حصے کرکے ماں باپ کوایک ایک اوربيٹی کوتين حصے دئے جائيں گے اوراگرگذشتہ مسئلے ميں ذکرشدہ شرائط کے ساته دوبهائی ،چاربهنيں یاایک بهائی موجودہوں توماں کے مال کے چھ حصے کرکے ماں باپ کوایک ایک ،بيٹی کوتين اورآخری حصے کے چارحصے کرکے تين حصے بيٹی کو اور ایک حصہ باپ کو دیاجائے گا۔یعنی حقيقت ميں ترکہ کے چوبيس حصے ہوں گے جن ميں سے پندرہ حصے بيٹی کو،پانچ حصے باپ کواورچارحصے ماں کومليں گے ۔اگرچہ احتياط مو کٔد ہے کہ باپ اور بيٹی کی رضایت سے ترکہ کے پانچ حصے کئے جائيں ۔

مسئلہ ٢٧٩٨ اگرميت کے وارث فقط ماںباپ اوراکلوتابيٹاہوں تومال کے چھ حصے کرکے ماں باپ کو ایک ایک اوربيٹے کو چارحصے مليں گے اوراگرصرف لڑکے یاصرف لڑکيا ں ہوں تویہ چار حصے ان ميں برابرتقسيم کئے جائيں گے اوراگر لڑکے اورلڑکياں دونوں ہوں توان چارحصوں کو ان کے درميان اس طرح تقسيم کياجائے گاکہ ہر لڑکے کو لڑکی سے دگنا ملے ۔

مسئلہ ٢٧٩٩ اگرميت کے وارث ماں یا باپ اوراکلوتابيٹایابيٹے ہوں تومال کے چھ حصے کرکے ایک حصہ ماں یاباپ اورپانچ حصے بيٹے کو دئے جائيں گے اوراگر چند بيٹے ہوں تو ان پانچ حصوں کوان کے درميان برابرتقسيم کردیا جائے گا۔

مسئلہ ٢٨٠٠ اگرميت کے وارث فقط باپ یاماں اورایک بيٹا اور ایک بيٹی ہوں تومال کے چھ

حصے کرکے ایک حصہ ماں یا باپ کو ملے گااورباقی اس طرح تقسيم کياجائے گا کہ بيٹے کو بيٹی سے دگنا ملے ۔

مسئلہ ٢٨٠١ اگرميت کے وارث فقط ماں یاباپ اوراکلوتی لڑکی ہوں تو مال کے چار حصے کر کے ایک حصہ ماں یاباپ کو اورباقی اکلوتی بيٹی کودیاجائے گا۔

مسئلہ ٢٨٠٢ اگرميت کے ورثاء ميں فقط ماں یاباپ اوربيٹياں ہوں تو مال کے پانچ حصے کرکے ماں یاباپ کوایک اورچارحصے بيٹياں آپس ميں برابر تقسيم کریں گی۔

مسئلہ ٢٨٠٣ اگرميت کی اولادنہ ہوتواس کے بيٹے کی اولاد چاہے وہ بيٹی ہی کيوں نہ ہو ميت کے بيٹے کاحصہ اوربيٹی کی اولاد چاہے وہ بيٹا ہی کيوں نہ ہوميت کی بيٹی کاحصہ ليں گے مثلاًميت کاایک نواسہ اورایک پوتی ہوتومال کے تين حصے کرکے ایک حصہ نواسے کواوردوحصے پوتی کودئے جائيں گے ۔

دوسرے گروہ کی ميراث

مسئلہ ٢٨٠ ۴ دوسرے گروہ کے وہ افرادجورشتہ داری کی وجہ سے کسی سے ميراث ليتے ہيں ان ميں ميت کے دادا، دادی، نانا، نانی، بهائی اوربهنيں ہيں ۔اوراگربهائی بهنيں نہ ہوں توان کی اولاد اور اولاد در اولاد کو ميراث ملے گی۔

۴۵۶

مسئلہ ٢٨٠ ۵ اگرميت کاوارث فقط ایک بهائی یابهن ہوتوسارامال اسے ملے گا۔اگرمادری وپدری بهنيں یابهائی ہوں توان ميں مال کوبطورمساوی تقسيم کياجائے گا اور اگر مادری وپدری بهنيں اوربهائی دونوں ہوںتو هربهائی کوبهن کادگنا حصہ ملے گا۔مثال کے طور پراگرميت کے مادری وپدری دوبهائی اورایک بهن ہوں تومال کے پانچ حصے کرکے هربهائی کودواوربهن کوایک حصہ ملے گا۔

مسئلہ ٢٨٠ ۶ اگرميت کے پدری ومادری بهائی بهن ہوں تو صرف پدری بهائی بهنوں کوميراث نہيں ملے گی۔ اوراگرپدری ومادری بهن بهائی نہ ہوں تواگرصرف ایک پدری بهائی یابهن ہوتوسارامال اسے ملے گااوراگرچندپدری بهائی یاپدری بهنيں ہوں تومال ان ميں برابرتقسيم ہوگا۔اوراگرپدری بهائی اوربهنيں دونوں ہوں توهربهائی کوبهن سے دگنا ملے گا۔

مسئلہ ٢٨٠٧ اگرميت کے ورثاء ميں سے فقط ایک مادری بهن یابهائی یعنی ان کااورميت کاباپ جدا ہو، موجود ہو تو سارا مال اسے ملے گااوراگرمادری بهنيں یابهائی ہوں یادونوںہوں تومال ان ميں مساوی طورپرتقسيم ہوگا۔

مسئلہ ٢٨٠٨ اگرميت کے مادری وپدری بهائی بهن ،پدری بهائی بهن اورایک مادری بهائی یابهن ہوتوپدری بهائی بهن کوميراث نہيں ملے گی اورمال کے چھ حصے کرکے ان ميں سے ایک حصہ مادری بهن بهائی اپنے درميان مساوی طورپرتقسيم کریں گے اورباقی پدری ومادر ی بهائی بهنوں کواسی طرح دیاجائے گاکہ هربهائی کوبهن کادگنا حصہ ملے ۔

مسئلہ ٢٨٠٩ اگرميت کے پدری ومادری بهائی بهن ،پدری بهائی بهن اورچندمادری بهائی اوربهنيں ہوں توپدری بهائی اور بهن کوميراث نہيں ملے گی اورمال کے تين حصے کرکے ایک حصہ مادری بهن بهائيوں ميں مساوی طورپرتقسيم کياجائے گااورباقی پدری ومادری بهائی بهنوں کے درميان اس طرح تقسيم کياجائے گاکہ هربهائی کوبهن سے دگنا ملے۔

مسئلہ ٢٨١٠ اگرميت کے ورثاء ميں فقط پدری بهائی بهن اورایک مادری بهائی یابهن ہوتومال کے چھ حصے کرکے ایک حصہ مادری بهائی یابهن کواورباقی پدری بهائی بهنوں ميں اس طرح تقسيم کياجائے گاکہ هربهائی کوبهن کادگنا ملے گا۔

مسئلہ ٢٨١١ اگرميت کے وارث فقط پدری بهن بهائی اورمادری بهائی بهن ہوں تومال کے تين حصے کرکے ایک حصہ مادری بهن بهائيوں ميں مساوی طورپرتقسيم کياجائے گااور باقی پدری بهائی بهنوں کواس طرح دیاجائے گاکہ هربهائی کوبهن کادگنا حصہ ملے ۔

مسئلہ ٢٨١٢ اگرميت کے ورثاء ميں فقط بهائی بهن اوربيوی ہی ہوں توبيوی کواس کے حصہ کی ميراث ملے گی جس کی تفصيل آ ئندہ بيان ہوگی اوربهائی بهنوںکوسابقہ مسائل کی روشنی ميں ان کے حصے کی ميراث ملے گی اوراگرعورت مرجائے اوراس کے وارث فقط بهائی بهن اورشوهرہوںتوآدهی ميراث شوهرکوملے گی ۔اور بهائی بهنوں کوسابقہ مسائل کی تفصيل کے مطابق ميراث دی جائے گی البتہ بيوی یاشوهرکوميراث ملنے کی وجہ سے مادری بهائی بهائی بهنوں کی ميراث ميں کمی نہيں کی جائے گی بلکہ پدری ومادری یاپدری بهائی بهنوں کے حصے ميں کمی واقع ہوگی۔ مثلااگرميت کے وارث کے شوهر،مادری بهائی بهن اورمادری وپدر ی بهن بهائی ہوں توآدهامال شوهرکوملے گااوراصل مال کاتيسراحصہ مادری بهائی بهنوں کودیاجائے گااورباقی مال پدری ومادری بهائی بهنوں کاحصہ ہے

۴۵۷

لہذااگرسارامال مثلاً چھ روپيہ ہوتوتين روپے شوهرکواوردوروپے مادری بهائی بهنوں کواورایک روپيہ پدری ومادری بهن بهائيوں کودیاجائے گا۔

مسئلہ ٢٨١٣ اگرميت کے بهائی بهن نہ ہوں توان کاحصہ ان کی اولادميں تقسيم ہوگااورمادری بهن بهائيوں کاحصہ ان کی اولادکے درميان برابرتقسيم کياجائے گااورپدری ومادری اورپدری بهائی بهنوں کی اولادميں ان کاحصہ اس طرح تقسيم ہوگاکہ هربهائی کوبهن کادگنا ملے ۔اگرچہ احتياط یہ ہے کہ آپس ميں مصالحت کی جائے ۔

مسئلہ ٢٨١ ۴ اگرميت کے ورثاء ميں دادا،دادی،نانااورنانی ميں سے صرف ایک ہی زندہ ہوتوسارامال اسے ملے گا۔ ميت کے دادااورناناکے ہوتے ہوئے اس کے پرنانااورپرداداکوميراث نہيں ملے گی اوراگرميت کے وارث فقط دادا اور دادی ہوں تومال کے تين حصيہوں گے جن ميں سے دوحصے داداکواورایک حصہ دادی کودیاجائے گا اور اگر وارث فقط نانا اور نانی ہوں توان کے درميان مال کوبطورمساوی تقسيم کياجائے گا۔

مسئلہ ٢٨١ ۵ اگرميت کے ورثاء ميں دادا یا دادی ميں سے ایک اورنانا یا نانی ميں سے بھی ایک زندہ ہوتومال کے تين حصے کرکے دوحصے دادایادادی کواورایک حصہ نانایانانی کوملے گا۔

مسئلہ ٢٨١ ۶ اگردادا،دادی ،نانااورنانی ميت کے وارث ہوں تومال کے تين حصے کرکے ایک حصہ نانانانی ميں مساوی طورپراوردوحصے دادادادی کواوراس طرح دئے جائيں گے کہ داداکودادی سے دگنا زیادہ ملے گا۔

مسئلہ ٢٨١٧ اگرميت کے وارث فقط بيوی ،دادا،دادی،نانااورنانی ہوں توبيوی کواس کا حصہ ملے گاجس کی تفصيل آئندہ بيان ہوگی اوراصل مال کاتيسراحصہ نانانانی کے درميان برابرتقسيم کياجائے گااورباقی دادادادی کے درميان اس طرح تقسيم کياجائے گاکہ داداکودادی کادگنا حصہ ملے گا۔اوراگروارث شوهر،دادا،دادی،نانااورنانی ہوں توشوهرکوآدهامال اوردادا،دادی ،نانااورنانی کوسابقہ تفصيل کے مطابق ميراث دی جائے گی۔

مسئلہ ٢٨١٨ جب ایک بهائی یابهن ،یاچند بهائی یا بهنيں اوردادا یا دادی یا نانا یا نانی یا ان ميں سے چند وارث بنيں تواس کی چند صورتيں ہيں :

١) سب مادری ہوں یعنی نانا،نانی اورمادری بهن بهائی ہوں تواس صورت ميں ان کے درميان مال کوبرابرتقسيم کيا جائے گا اگرچہ ان ميں کچھ مرد اور کچھ عورتيں ہوں ۔

٢) سب پدری ہوں اس صورت ميں اگرسب عورتيں یاسب مردہوں توبهی مال سب ميں برابرتقسيم کياجائے گا اور اگر مرد و عورت دونوں ہوں تو ہر مرد کو عورت سے دگنا ملے گا۔

۴۵۸

٣) دادادادی ہوںاورپدر ی ومادری بهائی بهن ہوں اس کاحکم سابقہ صورت والاہے جوکہ مسئلہ ٢٨٠٩ ميں بيان کيا گياہے کہ اگرپدری بهائی یابهن پدری ومادری بهائی یابهن کے ساته جمع ہوجائيں توپدری بهائی بهنوں کوميراث نہيں ملتی ہے ۔

۴) دادا،دادی،نانااورنانی ميں سے بعض ہوں چاہے سب مردہوں یاعورتيں یادونوں ہوں اوراسی طرح بهائی اوربهنيں بھی ہوں تواس صورت ميں مادری رشتہ داروں یعنی مادری بهائی ،بهن ،نانااورنانی جوبهی ہوں ان کوترکہ کا تيسرا حصہ ملے گا جو اِن ميں مساوی طور پر تقسيم کياجائے گااگرچہ بعض مرداوربعض عورتيں ہوں اورپدری رشتہ داروں کوترکہ کے تين حصوں ميں سے باقی دوحصے اس طرح دئے جائيں گے کہ ہر مرد کو عورت کادگنا ملے اوراگرسب مرد یا عورتيں ہوں توا ن کے درميان برابرتقسيم کيا جائے گا۔

۵) دادایادادی اورمادری بهائی یابهن وارث بنيں تواس صورت ميں اگربهائی یابهن ایک ہی ہو تواسے مال کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر زیادہ ہو تو مال کاتيسراحصہ سب ميں برابرتقسيم کياجائے گااوردونوں صورتوں ميں باقی مال دادا یا دادی کاہے اوراگردونوں زندہ ہوں تودادا کو دادی سے دگنا ملے گا۔

۶) نانا یا نانی اور پدری بهائی وارث بنيں تواس صورت ميں نانایانانی کے لئے تيسراحصہ ہے اگرچہ ان ميں سے صرف ایک ہی زندہ ہواورباقی دوحصے بهائی کے لئے ہيں اگرچہ ایک ہی بهائی ہواوراگرنانا یا نانی کے ساته پدری بهن وارث بنے توایک ہی بهن ہو تواسے آدها مال ملے گا اوراگر متعدد ہوں توتمام مال کادوتهائی انہيں ملے گا اور دونوں صورتوں ميں ناناکے لئے ایک تھائی ہے ۔لہذاگرایک بهن ہوفریضہ مال اداکرنے کے بعد چھٹاحصہ اضافی بچے گا۔اور اقویٰ یہ ہے کہ یہ حصہ بهن کوملے گااگرچہ احوط یہ ہے کہ مصالحت کی جائے ۔

٧) نانا،نانی ميں سے کوئی ایک یادادا اور دادی ميں سے کوئی ایک یا ان کے ساته پدری بهائی یابهنيں وارث ہوں خواہ وہ ایک ہو یا کئی ہوںتواس صورت ميں نانا یا نانی کے لئے تيسراحصہ ہے جو ان دونوں کے زندہ ہونے کی صورت ميں دونوں ميں برابرتقسيم ہوجائے گا چاہے یہ مرد اور عورت ہونے کے اعتبار سے مختلف ہوں اورباقی دوحصے دادا،دادی اور پدری بهائی بهن کے لئے ہيں جو مردوں اور عورتوں کے جمع ہونے کی صورت ميں مردوں کو عورتوں کا دگنا اور صرف مرد یا صرف عورتيں ہونے کی صورت ميں برابرتقسيم کياجائے گا۔اوراگران دادااورنانایادادی اورنانی کے ساته مادری بهائی یابهنيں وارث ہوں تو مادری رشتہ داروں یعنی نانا،نانی اورمادری بهن بهائيوں کے لئے تيسراحصہ ہے جوسب ميں برابرتقسيم کياجائے گا اگرچہ بعض مرداوربعض عورتيں ہوں اوردادا،دادی کوباقی دوحصے مليں گے اورمختلف ہونے کی صورت ميں مردوں کودگنا اورایک صنف ہونے کی صورت ميں سب کوبرابرملے گا۔

۴۵۹

٨) پدری بهائی بهن ،مادری بهائی بهن اوردادااوردادی وارث ہوں تواس صورت ميں اگرایک مادری بهن یا بهائی ہو تواسے اصل ترکہ ميں سے چھٹاحصہ ملے گا اورایک سے زیادہ ہوتوترکہ کاتيسراحصہ سب ميں برابرتقسيم کياجائے گا اور باقی پدری بهائيوں یابهنوں اور دادا یا دادی کے لئے ہے ۔

لہذااگرسب ایک صنف ہوں تومساوی تقسيم ہوگا ورنہ مردکوعورت سے دگنا ملے گا۔اگران بهائی اوربهنوں کے ساته نانایانانی ہوںتونانایانانی ، مادری بهائی یابهنوں کے درميان تيسراحصہ برابرتقسيم کياجائے گااورپدری بهائی بهنوں کے لئے دوتهائی ہے کہ اگرسب ایک صنف سے ہوں تو برابر تقسيم ہوگااور مختلف ہونے کی صورت ميں مردوں کودگنا ملے گا۔

مسئلہ ٢٨١٩ جب ميت کے بهائی یابهن ہوںتوان کی اولادکوميراث نہيں ملے گی ليکن یہ حکم اس وقت جاری نہيں ہوگاجب ان کوميراث دینے سے بهائی یابهن کے حصہ ميں کمی نہ آتی ہو۔مثلااگرميت کاپدری بهائی اورنانازندہ ہوں توپدری بهائی کودو تھائی اور ناناکوایک تھائی ميراث ملے گی اوراس صورت ميں اگرميت کے مادری بهائی کا بيٹا بھی ہو توبهائی کابيٹااورنانا اس تيسرے حصے ميں شریک ہوں گے ۔

تيسرے گروہ کی ميراث

مسئلہ ٢٨٢٠ تيسرے گروہ ميں چچا،پهوپهی ،ماموں ،خالہ اوران کی اولاد سابقہ تفصيل کے مطابق اس صورت ميں ميراث ليں گے جب پهلے اوردوسرے گروہ ميں سے ميراث کاکوئی حق دارموجود نہ ہو۔

مسئلہ ٢٨٢١ اگرميت کاوارث صرف ایک چچایاپهوپهی توسارامال اسے ملے گاچاہے یہ وارث ميت کے باپ کا پدری ومادری یا صرف پدری یا صرف مادری رشتہ دار ہو اور اگر چند چاچے یاپهوپهياں وارث ہوں اورسب مادری و پدری یا صرف پدری ہوں توسارامال ان ميں برابرتقسيم کياجائے گااوراگرچچے اورپهوپهياں دونوں ہوں اورسب پدری ومادری یاپدری ہوں توچچاکوپهوپهی کادگنا ملے گا۔مثلااگرورثاء ميں دوچاچے اورایک پهوپهی ہوں تومال کے پانچ حصے کرکے ایک حصہ پهوپهی کواورباقی چارحصے دوچاچوں ميں برابرتقسيم کئے جائيں گے ۔

مسئلہ ٢٨٢٢ اگرميت کے وارث صرف چندمادری چاچے یامادری پهوپهياں ہوں توان ميں مال کوبرابرتقسيم کياجائے گا۔ليکن اگرمادری چچااورپهوپهی دونوں وارث ہوں احتياط واجب کی بنا پرمال کی تقسيم ميں مصالحت کریں ۔

مسئلہ ٢٨٢٣ اگرميت کے وارث چچااورپهوپهی ہوں اوران ميں سے بعض پدری، بعض مادری اوربعض پدری اورمادری ہوں توپدری چچااورپهوپهی کوميراث نہيں ملے گی ۔لہذااگرميت کاایک مادری چچا یا پهوپهی ہو تو بنا بر مشهور، مال کے چھ حصوں ميں سے ایک حصہ مادری چچا یا پهوپهی کو اور باقی پدری ومادری چچااورپهوپهی کو دیا جائے گا۔

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511