توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207704 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسئلہ ١ ۴ ٨٧ اگر امام غلطی سے ایسی رکعت ميں قنوت پڑھ لے جس ميں قنوت نہيں ہے یا جس رکعت ميں تشهد نہيں ہے اس ميں تشهد پڑھنے ميں مشغول ہو جائے تو ضروری ہے کہ ماموم قنوت اور تشهد نہ پڑھے ليکن وہ امام سے پهلے رکوع ميں نہيں جا سکتا اور امام سے پهلے قيام نہيں کرسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام کا قنوت اور تشهد تمام ہوجائے اور اپنی بقيہ نماز کو امام کے ساته پڑھے۔

نمازجماعت ميں امام اور ماموم کا وظيفہ

مسئلہ ١ ۴ ٨٨ اگر ماموم ایک مرد ہو تو احتياط واجب کی بنا پر وہ امام کی دائيں طرف کهڑا ہو اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا چند عورتيں ہوں تو مرد دائيں طرف اور بقيہ عورتيں امام کے پيچهے کهڑی ہو ں اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتيں ہوں تومرد امام کے پيچهے اور عورتيں مردوں کے پيچهے کهڑی ہوں اور اگر ایک یا چند عورتيں ہوں تو امام کے پيچهے کهڑی ہوں اور ایک عورت ہونے کی صورت ميں مستحب ہے کہ امام کے پيچهے دائيں سمت ميں اس طرح کهڑی ہو کہ اس کی سجدے کی جگہ امام کے گھٹنوں یا قدم کے مقابل ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٩ اگر ماموم اور امام دونوں عورتيں ہوں تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے برابر ميں کهڑی ہوں اور امام ان سے آگے نہ ہو۔

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مستحب ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩٠ مستحب ہے کہ امام صف کے درميان ميں کهڑا ہو اور صاحبان علم، کمال اور تقویٰ پهلی صف ميں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩١ مستحب ہے کہ جماعت کی صفيں منظّم ہو ں اور ایک صف ميں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درميان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کاندهے ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٢ مستحب ہے کہ ”قد قامت الصلاة“ کهنے کے بعد مامومين کھڑے ہوجائيں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٣ مستحب ہے کہ امام اس ماموم کی حالت دیکھ کرنماز پڑھائے جو مامومين ميں سب سے زیادہ ضعيف ہو اور قنوت، رکو ع،اور سجدے کو طول نہ دے، ليکن اگر جانتا ہو کہ تمام مامومين طول دینے کی طرف مائل ہيں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۴ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد،سورہ،اور بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار نماز ميں اپنی آواز اتنی اونچی کرے کہ دوسرے مامومين سن ليں، ليکن ضروری ہے کہ اپنی آواز حد سے زیادہ اونچی نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۵ اگر امام کو رکوع کے دوران یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی ماموم ابهی ابهی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کواپنے معمول سے دگنا طول دے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے، اگرچہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی اور بھی اقتدا کے لئے آیا ہے ۔

۲۴۱

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۶ اگر جماعت کی صفوں کے درميان جگہ خالی ہو تو مکروہ ہے کہ انسان اکيلا کهڑا ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٧ ماموم کا اذکارِ نماز کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ جس مسافر کونماز ظهر،عصراور عشا دو رکعت پڑھنا ہيں ، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہيں ہے مکروہ ہے او رجو شخص مسافر نہيں اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے ۔

نماز آيات

مسئلہ ١ ۴ ٩٩ نماز آیات کہ جس کے پڑھنا کا طریقہ بعد ميں بيان ہوگا چار چيزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :

١) سورج گرہن ۔

٢) چاند گرہن۔ اگر چہ ان کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور اس کی وجہ سے کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

٣) زلزلہ، اگرچہ کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

۴) گرج چمک اور سرخ وسياہ آندهی اور ان جيسی دوسری آسمانی نشانياں، اس صورت ميں کہ اکثر لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائيں۔ جها ں تک زمينی حادثات کا تعلق ہے جيسے کہ دریا کا پانی خشک ہوجانا اور پهاڑ کا گرنا جو کہ اکثر لوگوں کہ خوف زدہ ہونے کاباعث ہوتاہے ، تو ان ميں نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٠ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگروہ ایک سے زیادہ ہو جائيں تو ضروری ہے کہ انسان ان ميں سے ہر ایک کے لئے نمازآیات پڑھے۔ مثلاً سورج گرہن بھی ہو اور زلزلہ بھی آجائے تو ضروری ہے کہ ایک نمازآیات سورج گرہن کے لئے اور ایک نماز آیات زلزلے کے لئے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠١ جس شخص پر ایک سے زیادہ نماز آیا ت کی قضا واجب ہو خواہ وہ ایک چيز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ تين مرتبہ سورج گرہن ہوا ہو اور اس شخص نے تينوں مرتبہ نماز آیات نہ پڑھی ہو، یا چند چيزوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ سورج گرہن بھی ہوا ہو اور چاند گرہن بهی، ا ن کی قضا بجا لاتے وقت ضروری نہيں ہے کہ وہ شخص یہ معين کرے کہ کون سی نماز کی قضا کر رہا ہوں، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگرچہ اجمالا ہی سهی، انہيں معين کرے مثلاًیہ نيت کرے کہ جو پهلی نماز آیات یا دوسری نماز آیات جو مجھ پر واجب ہوئی تھی اس کی قضا بجا لا رہا ہوں۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٢ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ کسی جگہ واقع ہوجائيں تو صرف اسی جگہ کے لوگوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہيں ہے ۔

۲۴۲

مسئلہ ١ ۵ ٠٣ سورج یا چاند کو گرہن لگنے کی صورت ميں نمازآیا ت پڑھنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج یا چاند کو گهن لگنا شروع ہوجائے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب سورج یا چاند مکمل طور پر گرہن سے نکل آئيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی تاخير نہ کرے کہ سور ج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع ہوجائيں، بلکہ گرہن کی ابتدا ميں ہی نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۴ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ چاند یا سورج گرہن سے نکلنا شروع ہو جائيں تو اس کی نمازادا ہے ، ليکن پورا سورج یاچاند،گرہن سے نکل جانے کی صورت ميں اس کی نمازقضا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۵ اگر چاند گرہن یا سورج گرہن کی مدت ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔اسی طرح اگر گرہن کی مدت ایک رکعت سے زیادہ ہو اور انسان نمازنہ پڑھے یهاں تک کہ ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم وقت باقی رہ گيا ہو تب بھی نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۶ انسان کے لئے واجب ہے کہ زلزلہ،گرج چمک اور انهی جيسی دوسری چيزوں کے وقوع کے وقت نماز آیات پڑھے اور ضروری ہے کہ نماز کو اتنی دیر سے نہ پڑھے کہ عرفا لوگ اسے تاخير کہيں اور تاخير کرنے کی صورت ميں اپنی نماز پڑھے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ادا یا قضا کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٧ اگر کسی شخص کو سورج یا چاند گرہن لگنا معلوم نہ ہو اور ان کے گرہن سے نکلنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے چاند یا سورج کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا بجا لائے، ليکن اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی کچھ مقدار کو گرہن لگا تھا تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٨ اگر کچھ لوگ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان پيدا نہ ہو اور اس گروہ ميں سے کوئی ایسا شخص موجودنہ ہو جس کا شرعی طورپر کوئی اعتبار ہو او رانسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد ميں یہ معلوم ہوکہ ان لوگوںنے صحيح کها تھا تو پورے چاند یاسورج کو گرہن لگنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز آیات بجا لائے، ليکن اگر ان کے کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات پڑھنا ضروری نہيں ہے ۔اسی طرح اگر دو اشخاص کہ جن کے عادل ہونے کا علم نہ ہو یا ایک شخص کہ جس کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو، اگر یہ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور بعد ميں معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں عادل تهے یا وہ ایک شخص ایسا قابل اعتماد تھا کہ جس کے قول کے بر خلاف بات کاگمان نہ تھا تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٩ اگر انسان کو ان لوگوں کے کهنے سے جو علمی قاعدے کی رو سے چاند گرہن یا سورج گرہن کے بارے ميں بتاتے ہيں ، اطمينان پيدا ہوجائے کہ سورج یا چاند گهن ہوا ہے تو ضروری هے _کہ نماز آیات پڑھے۔ نيز اگر وہ لوگ یہ کہيں کہ فلاں وقت

۲۴۳

سورج یا چاند کو گهن لگے گا اور فلاں وقت تک رہے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمينان پيدا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اطمينان پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ جو نماز آیات پڑھی تھی وہ باطل تھی تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور وقت گذرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١١ اگر پنجگانہ نمازوں کے اوقات ميں کسی شخص پر نماز آیات بھی واجب ہو جائے اور دونوں نمازوں کے لئے وقت وسيع ہو تو وہ پهلے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر ان دونوں ميں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو جس نماز کا وقت تنگ ہو ضروری ہے کہ اسے پهلے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے یوميہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٢ اگر کسی شخص کو پنجگانہ نمازوں کے د رميان یہ معلوم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور نماز پنجگانہ کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرنے کے بعد نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یوميہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ دے اور پهلے نماز آیات پڑھے اور اس کے بعد نماز یوميہ بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٣ اگر نماز آیات کے دوران کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یوميہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ وہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور نماز یوميہ شروع کر دے اور نماز مکمل کرنے کے بعد، کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہوضروری ہے کہ نماز آیات جهاں سے چھوڑی تھی وہيں سے مکمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۴ اگر کسی عورت کے حيض یا نفاس کی حالت ميں سورج یا چاند کو گهن لگ جائے تو اس پر نماز آیات اورا س کی قضا واجب نہيں ہے ليکن غير موقت جيسے کہ زلزلہ اور گرج چمک ميں عورت کے پاک ہونے کے بعد ادا یا قضا کی نيت کے بغير نماز آیات بجالانا ضروری ہے ۔

نماز آيات کا طريقہ

مسئلہ ١ ۵ ١ ۵ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت ميں پانچ رکوع ہيں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نيت کرنے کے بعد تکبيرة الاحرام کهے اور ایک مرتبہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے سر اٹھ الے اور دوبارہ ایک مرتبہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح پانچ رکوع کرے اور پانچویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دو سجدے کرے اور کهڑا ہوجائے اور دوسری رکعت کو بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشهد پڑھ کر سلام پهيرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۶ نماز آیات ميں الحمد پڑھنے کے بعد انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک سورے کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے اٹھ کر الحمد پڑھے بغير اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح یہ عمل دهراتا رہے۔ یهاں تک کہ پانچویں رکوع سے پهلے سورہ مکمل کر لے۔

۲۴۴

مثلا سورہ قل ہو اللّٰہ احد کی نيت سے ”بسم الله الرحمن الرحيم “پڑھے اور رکوع ميں جائے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور ”قل ہو اللّٰہ احد “ کهے اور دوبارہ رکوع ميں جائے اور رکوع کے بعد کهڑا ہوا ور ”الله الصمد “ کهے پھر رکوع ميں جائے اور کهڑا ہوا اور ”لم یلد ولم یولد“ کهے اور رکوع ميں چلا جائے اور رکوع سے سر اٹھ ا لے اور ”ولم یکن لہ کفوا احد“ کهے اور اس کے بعد پانچویں رکوع ميں چلا جائے، رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دوسجدے کرے۔ دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ نيز یہ بھی جائز ہے کہ ایک سورے کو پانچ سے کم حصوں ميں تقسيم کرے ليکن جب بھی سورہ مکمل کرے ضروری ہے کہ بعد والی رکوع سے پهلے الحمد پڑھے اور اس کے بعد ایک سورہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٧ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت ميں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت ميں ایک دفعہ الحمد اور سورے کو پانچ حصوں ميں تقسيم کردے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ١٨ جو چيزیں پنجگانہ نماز ميں واجب اور مستحب ہيں وہ نماز آیات ميں بھی واجب اور مستحب ہيں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساته ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کے بجائے تين دفعہ بطور رجاء ”الصلاة“کها جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٩ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ پانچویں اور دسویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ پڑھے۔ نيز ہر رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبير کهنا مستحب ہے ، ليکن پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبير کهنا مستحب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٠ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھ ویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھا جائے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ ليا جائے تب بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢١ اگر کوئی شخص نمازآیات ميں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور کسی نتيجے پر نہ پهنچے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٢ اگر شک کرے کہ پهلی رکعت کے آخری رکوع ميں ہے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع ميں اور کسی نتيجے پر نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں، اگر رکوع کی تعداد ميں شک کرے تو کم پر بنا رکھے مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ کہ اس صورت ميں اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھکا نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس رکوع کے لئے جھک گيا تھا اسے بجا لائے اور اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھک جانے کے بعد اور سجدے ميں پهنچنے سے پهلے شک ہوا ہو تواحتياط واجب کی بنا پر واپس پلٹ آئے اور رکوع بجا لائے اور نماز مکمل کر کے دوبارہ بجا لائے، ليکن اگر سجدے ميں پهنچ گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مْسئلہ ١ ۵ ٢٣ نماز آیات کا ہر رکوع ایک رکن ہے اور اگر ان ميں عمدا یا سهواً کمی یابيشی ہو جائے تو نماز باطل ہے ۔

۲۴۵

عيد فطر و عيدقربان کی نمازيں

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۴ امام عليہ السلام کے زمانے ميں عيد فطر وعيد قربان کی نمازیں واجب ہيں اور ضروری ہے کہ یہ نمازیں جماعت کے ساته پڑھی جائيں ليکن ہمارے زمانے ميں جب کہ امام عصر عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ، یہ نمازیں مستحب ہيں اور باجماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہيں ۔هاں، با جماعت پڑھنے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نمازیوں کی تعدادپانچ افراد سے کم نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۵ عيد فطر وعيد قربان کی نماز کا وقت عيد کے روز طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۶ عيد قربان کی نماز سور ج چڑھ آنے کے بعد مستحب ہے اور عيد فطر ميں مستحب ہے کہ سور ج چڑھ آنے کے بعد افطار کيا جائے اور احتياط واجب کی بنا پر فطرہ دینے کے بعد نماز عيد ادا کی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٧ عيد فطر وقربان کی نمازدو رکعت ہے جس کی پهلی رکعت ميں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبيریں کهے اور ہر تکبير کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک قنوت پڑھے ۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے اور دوسجدوں کے بعد اٹھ کهڑا ہو۔ دوسری رکعت ميں چار تکبيریںکهے اور ہر تکبير کے بعد ایک قنوت پڑھے، پانچویں تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے، رکوع کے بعد دوسجدے بجا لائے اور تشهد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٨ عيد فطر وقربا ن کی نماز کے قنوت ميں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے ، ليکن بہتر ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب مصباح المتهجد ميں نقل کی ہے ، پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ا هَْٔلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ ا هَْٔلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ وَ ا هَْٔلَ التَّقْویٰ وَ الْمَغْفِرَةِا سَْٔئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْداً وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَيْرٍ ا دَْٔخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُل سُوْءٍ ا خَْٔرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ ا سَْٔئَلُکَ خَيْرَ مَا سَئَلَکَ بِه عِبَادُک الصَّالِحُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ (الْمُخْلِصُوْنَ، الْمُخْلَصُوْنَ)

اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب ميں معتبر سند کے ساته ذکر کی ہے ، اسے پڑھا جائے۔ وہ دعا یہ ہے :

۲۴۶

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللَّهُمَّ اَنْتَ ا هَْٔلُ الْکِبْرِیَاءِوَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلُ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْقُدْرَةِ وَ السُّلْطَانِ وَ الْعِزَّةِ، ا سَْٔئَلُکَ فِیْ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْدًا وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ مَزِیْداً، ا سَْٔئَلُکَ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مَلاَئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ ا نَْٔبِيَائِکَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ ا نَْٔ تَغْفِرَ لَنَا وَ لِجَمِيْعِ الْمُوْ مِٔنِيْنَ وَ الْمُوْ مِٔنَاتِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَات اْلا حَْٔيَاءِ مِنْهُمْ وَ اْلا مَْٔوَاتِ، ا لٔلّٰهُمَّ إِنیِّ ا سَْٔئَلُکَ مِنْ خَيْرِ مَا سَئَلَکَ عِبَادُکَ الْمُرْسَلُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِه عِبَادُکَ الْمُخْلَصُوْنَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَوَّلُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ آخِرُه وَ بَدِیْعُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مُنْتَهَاهُ وَ عَالِمُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مَعَادُه وَ مَصِيْر کُلِّ شَيْیٍ إِلَيْهِ وَ مَرَدُّه وَ مُدَبِّرُ اْلاُمُوْرِ وَ بَاعِثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ، قَابِلُ الْاَعْمَالِ مُبْدِی الْخَفِيَّاتِ مُعْلِنُ السَّرَائِرِ، اَللّٰهُ اَکْبَر عَظِيْمُ الْمَلَکُوْتِ شَدِیْدُ الْجَبَرُوْتِ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ دَائِمٌ لاَّ یَزُوْلُ إِذَا قَضیٰ اَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ، اَللّٰهُ اَکْبَر خَشَعَتْ لَکَ الْاَصْوَاتُ وَ عَنَتْ لَکَ الْوُجُوْهُ وَ حَارَتْ دُوْنَکَ الْاَبْصَارُ وَ کَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ عَظَمَتِکَ وَ النَّوَاصِیَ کُلُّهَا بِيَدِکَ وَ مَقَادِیْرُ الْاُمُوْرِ کُلُّهَا اِلَيْکَ، لاَ یَقْضِیْ فِيْهَا غَيْرُکَ وَ لاَ یَتِمُّ مِنْهَا شَيْیءٌ دُوْنَکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَحَاطَ بِکُلِّ شَيْیٍ حِفْظُکَ وَ قَهَرَ کُلَّ شَيْیٍ عِزُّکَ وَ نَفَذَ کّلَّ شَيْیٍ اَمْرُکَ وَ قَامَ کُلُّ شَيْیٍ بِکَ وَ تَوَاضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِعَظَمَتِکَ وَ ذَلَّ کُل شَيْیٍ لِعِزَّتِکَ وَ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَيْیٍ لِقُدْرَتِکَ وَ خَضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِمُلْکِکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ

مسئلہ ١ ۵ ٢٩ امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ)کے زمانہ غيبت ميں اگر نماز عيد جماعت سے پڑھی جائے تو احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جائيں اور بہتر یہ ہے کہ عيد فطر کے خطبے ميں فطرے کے احکام بيان ہوں اور عيد قربان ميں قربانی کے احکام بيان ہوں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٠ عيد کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہيں ہے ليکن بہتر ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد کے بعدسورہ سبح اسم ربک الاعلیٰ (سورہ: ٨٧ )پڑھا جائے اور دوسری رکعت ميں سورہ والشمس (سورہ : ٩١ )پڑھا جائے اور سب سے افضل یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ والشمس اور دوسری رکعت ميں سورہ غاشيہ (سورہ: ٨٨ )پڑھا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣١ نماز عيد صحر ا ميں پڑھنا مستحب ہے ، ليکن مکہ مکرمہ ميں مستحب ہے کہ مسجد الحرام ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٢ مستحب ہے کہ امام جماعت اور مامو م نماز سے پهلے غسل کریں اور روئی سے بُنا ہوا سفيد عمامہ سر پر باندہيں کہ جس کا ایک سرا سينے پر اور دوسرا سرا دونوں شانوں کے درميان ہو اور مستحب ہے کہ نمازکے لئے پيدل، ننگے پير اور باوقار طریقے سے جایا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٣ مستحب ہے کہ عيد کی نمازميں زمين پر سجدہ کيا جائے، تکبيریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کيا جائے اورامام جماعت بلند آواز سے قرائت کرے۔

۲۴۷

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۴ مستحب ہے کہ عيد فطر کی رات کو مغرب وعشا کی نماز کے بعد اور عيد فطر کے دن نماز صبح کے بعد یہ تکبيریں کهی جائيں :

اَللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَاهدَانَا ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۵ عيد قربان ميں دس نمازوں کے بعد جن ميں سے پهلی نماز، عيد کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری نماز بارہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ، ان تکبيرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ ميں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَا اَبْلَانَا “ کهے، ليکن اگر عيد قربان کے موقع پر انسان منیٰ ميں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبيریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن ميں سے پهلی نماز عيد کے دن کی نمازظہر ہے اور آخری تيرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۶ احتياط مستحب ہے کہ عورتيں نماز عيد پڑھنے کے لئے نہ جائيں، ليکن یہ احتياط عمر رسيدہ عورتوں کے لئے نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٧ نماز عيد ميں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لئے ضروری ہے کہ الحمد اورسورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٨ اگر ماموم اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبيریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع ميں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبيریں اور قنوت اس نے امام کے ساته نہيں پڑہيں انہيں پڑھے اور امام کے ساته رکوع ميں مل جائے اور اگر ہر قنوت ميں ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “ یا ایک مرتبہ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کہہ دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٩ اگر کوئی شخص نماز عيد ميں اس وقت پهنچے جب امام رکوع ميں ہو تووہ نيت کر کے اور پهلی تکبير کہہ کر رکوع ميں جاسکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ نماز کو رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٠ اگر نماز عيد ميں آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر اس کو بجا لائے اور اگروہ کسی اور رکعت کا سجدہ بھول گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجا لائے۔

اسی طرح کسی بھی صورت ميں اگر اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے لئے نماز پنجگانہ ميں ، چاہے احتياط کی بنا پر، سجدہ سهو لازم ہے تواحتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۴۸

نماز کے لئے اجير بنانا

مسئلہ ١ ۵۴ ١ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جنہيں اس نے اپنی زندگی ميں انجام نہ دیا ہو کسی دوسرے شخص کو اجير بنا یا جاسکتا ہے ، یعنی اسے اجرت دی جائے تاکہ وہ انہيں بجا لائے اور اگر کوئی شخص بغير اجرت لئے ان عبادات کو بجا لائے تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٢ انسان بعض مستحب کاموں مثلا روضہ رسول(ص) کی زیارت یا قبور ائمہ عليهم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجير بن سکتا ہے اس معنیٰ ميں کہ اجارہ ميں ان اشخاص کی طرف سے ان مخصوص کاموں ميں نيابت کا قصد رکھتا ہو، چنانچہ یہ شخص انہيں کاموں کو بغير اجرت لئے بھی انجام دے سکتا ہے ۔ نيز یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو هدیہ کر دے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٣ جو شخص ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کے مسائل ميں یا تو وہ خود مجتهد ہو یا نماز، تقليد کے مطابق صحيح طریقے سے ادا کرسکے یا احتياط پر عمل کرسکے۔

مسئلہ ١ ۵۴۴ ضروری ہے کہ اجير نيت کرتے وقت ”ميت “ کو معين کرے۔هاں، یہ ضروری نہيں ہے ميت کا نام جانتا ہو، پس اگر وہ نيت کرے کہ یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے ميں اجير ہوا ہوں تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۵ ضروری ہے کہ اجير جو عمل بجا لائے اس کے لئے نيت کرے کہ جو کچھ ميت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجير کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب ميت کو هدیہ کرے تو یہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۶ ضروری ہے کہ اجير کسی ایسے شخص کو مقرر کيا جائے جس کے بارے ميں جانتے ہوں یا ان کے پاس شرعی حجت ہو کہ وہ عمل کو بجالائے گا مثلاً وہ اطمينان رکھتے ہوں یا دو عادل شخص یا ایک قابل اطمينان شخص جس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو،خبر دیں کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٧ جس شخص کو ميت کی نمازوں کے لئے اجير بنایا جائے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ عمل کو بجا نہيں لایا ہے یا باطل طریقے سے بجا لایا ہے تو ضروری ہے دوبارہ کسی شخص کو اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٨ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اجير نے عمل انجام دیا ہے یا نہيں تو اگر وہ قابل اطمينان ہو اور یہ کهے کہ ميں نے انجام دے دیا ہے یا کوئی شرعی گواہی یا کسی ایسے قابل اعتماد شخص کا قول موجود ہو کہ جس کے قول کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو کافی ہے اور اگر وہ شک کرے کہ اس اجير کا عمل صحيح تھا یا نہيں تو وہ اس کے عمل کو صحيح سمجھ لے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٩ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلا تيمم کر کے یا بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اسے ميت کی نمازوں کے لئے اجير مقرر نہيں کيا جاسکتا خواہ ميت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔

۲۴۹

مسئلہ ١ ۵۵ ٠ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے اجير بن سکتے ہيں ۔نيز نماز کو بلند یا آهستہ آواز سے پڑھنے ميں ضروری ہے کہ اجير اپنے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميت کی قضا نمازوں ميں ترتيب واجب نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ترتيب کا خيال رکھا جائے، ليکن اُن نمازوں ميں ترتيب ضروری ہے کہ جن کی ادا ميں ترتيب ضروری ہے مثلا ایک دن کی نماز ظہر وعصر یا مغرب وعشا۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٢ اگر اجير کے ساته طے کيا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے مگر یہ کہ اس عمل کے صحيح نہ ہونے کا علم رکھتا ہو کہ اس صورت ميں اس عمل کے لئے اجير نہيں بن سکتا اور اگر کچھ طے نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظيفے کے مطابق بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظيفے اور ميت کے وظيفے ميں سے جو بھی احتياط کے زیادہ قریب ہو اسی پر عمل کرے، مثلاً اگر ميت کا وظيفہ تين مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکليف ایک بار پڑھنا ہو تو تين بار پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٣ اگر اجير کے ساته یہ طے نہ کيا جائے کہ نماز کے مستحبات کتنی مقدار ميں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات نماز ميں پڑھے جاتے ہيں انہيں بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۴ اگر انسان ميت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجير مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميں بتایا گيا ہے اس کی بنا پر ضروری نہيں کہ وہ ہر اجير کے لئے وقت معين کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵۵ اگر کوئی شخص اجير بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال ميں ميت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پهلے مر جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کے لئے جن کے بارے ميں علم ہوکہ وہ انہيں بجا نہيں لایا، کسی اور شخص کو اجير مقرر کيا جائے اور جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ وہ انہيں بجانہيں لایا تھا احتياط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۶ جس شخص کو ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہوتو اگر اس کے ساته یہ طے کيا گيا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا اور وہ ان کے بجالانے پر قادر بھی تھا تو اجارہ کا معاملہ صحيح ہے اور اجرت دینے والا باقی نمازوں کی اجرت المثل واپس لے سکتا ہے یا اجارہ کو فسخ کرتے ہوئے اس مقدار کی اجرت المثل جو ادا ہو چکی ہے ، دے کر باقی مقدار کی اجرت واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ ان نمازوں کی ادائيگی پر قادر نہيں تھا تو مرنے کے بعد والی نمازوں ميں اجارہ باطل ہے اور اجرت دینے والا باقی ماندہ نمازوں کی اجرت مُسمّی لے سکتا ہے یا پهلے والی مقدار کے اجارہ کو فسخ کرتے ہو ئے اس مقدار کی اجرت المثل ادا کرسکتا ہے اور اگر یہ طے نہ کيا گيا

۲۵۰

ہو کہ وہ خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجير کے ورثاء اس کے مال سے کسی اور کو اجير بنائيں، ليکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٧ اگر اجير ميت کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس کی اپنی بھی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سابقہ مسئلے ميں جو طریقہ بتایا گيا ہے اس پر عمل کرنے کے بعداگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اس صورت ميں کہ جب اس نے وصيت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت اس کے تمام مال کے تيسرے حصے سے زیاہ ہوتو ورثاء کے اجازت دینے کی صورت ميں اس کی تمام نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جا سکتا ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت ميں اس کے مال کا تيسرا حصہ اس کی نمازوں پر خرچ کریں۔

روزے کے احکام

روزہ یہ ہے کہ انسان اذانِ صبح سے مغرب تک، ان چيزوں سے کہ جن کا بيان بعدميں آئے گا، قصد قربت،جس کا بيان وضو کے مسائل ميں گزرچکا اور اخلاص کے ساته، پرہيز کرے۔

اس مسئلے اور بعد ميں آنے والے مسائل ميں احتياط واجب کی بنا پر مغرب سے مراد وہ وقت ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مشرق کی جانب سے نمودار ہونے والی سرخی انسان کے سر کے اوپر سے گزر جائے۔

نيت

مسئلہ ١ ۵۵ ٨ روزے کی نيت ميں ضروری نہيں ہے کہ انسان نيت کے الفاظ کو دل سے گزارے یا مثلاً یہ کهے کہ ميں کل روزہ رکہوں گا، بلکہ اگر صرف یهی ارادہ رکھتا ہو کہ قربت کی نيت اور اخلاص کے ساته اذان صبح سے مغرب تک، ان کاموں کو انجام نہ دے گا جو روزے کو باطل کر دیتے ہيں تو کافی ہے ۔ اور یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت ميں روزے سے تھا ضروری ہے کہ اذانِ صبح سے کچھ دیر پهلے اور مغرب کے کچھ دیر بعد بھی روزے کو باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٩ انسان ماہ رمضان کی ہر رات ميں اس کے اگلے دن کے روزے کی نيت کر سکتا ہے اور اسی طرح مهينے کی پهلی رات کو ہی سارے روزوں کی نيت بھی کر سکتا ہے اورپہر دوبارہ ہر رات نيت دهرانا ضروری نہيں ہے اور اسی نيت پر باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٠ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کا وقت پهلی رات ميں ، رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہے اور پهلی رات کے علاوہ دوسری راتوںميں رات کی ابتدا سے پهلے بھی نيت کی جاسکتی ہے ، مثلاً پهلے دن عصر کے وقت نيت کرے کہ اگلے دن قربة الی الله روزہ رکھے گا اور اسی نيت پر باقی رہے اگر چہ اذان صبح کے بعد تک سوتا رہے۔

۲۵۱

مسئلہ ١ ۵۶ ١ مستحب روزے کی نيت کا وقت رات کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے کہ سورج غروب ہونے ميں نيت کرنے کی مقدار کا وقت باقی رہ جائے، پس اگر اس وقت تک روزے کو باطل کر دینے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور مستحب روزے کی نيت کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن اگر سورج غروب ہوجائے تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٢ جو شخص روزے کی نيت کئے بغير اذان صبح سے پهلے سوجائے، اگر ظہر سے پهلے بيدار ہو اور روزے کی نيت کرے تو اگر اس کا روزہ ایسا واجب روزہ ہوکہ جس کا وقت معين ہے ، چاہے ماہ رمضان کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ، جيسے اس نے نذر کی ہو کہ کسی معين دن روزہ رکھے گا، تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکال ہے اور اگر اس کا روزہ ایسا واجب ہو کہ جس کا وقت معين نہ ہو تو روزہ صحيح ہے ۔

اور اگر ظہر کے بعد بيدار ہو تو واجب روزے کی نيت نہيں کر سکتا ہے چاہے واجب غير معين ہو، ليکن ماہ رمضان کی قضا ميں ظہر سے عصر تک نيت کا جائز نہ ہونا احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٣ جو شخص ماہ رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معين کرے، مثلاً نيت کرے کہ قضا، نذر یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں، ليکن ماہ رمضان ميں یہ ضروری نہيں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے کی نيت کرے، بلکہ اگر اسے علم نہ ہو کہ رمضان ہے یا بھول جائے اورکسی دوسرے روزے کی نيت کرلے تب بھی وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۴ اگر کوئی جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجه کر رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی نيت کرلے تو وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہيں ہوگا اور اسی طرح بنابر احتياط واجب جس روزے کی نيت کی ہے وہ بھی روزہ شمار نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۵ اگر پهلے روزے کی نيت سے روزہ رکھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسری یاتيسری تاریخ تھی تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶۶ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے اور بے ہوش ہوجائے اور دن ميں کسی وقت ہوش آئے تو بنابر احتياط واجب ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کو پورا کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٧ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے پھر اس پر نشہ طاری ہو جائے اور دن ميں ہوش آئے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٨ اگر اذانِ صبح سے پهلے نيت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بيدار ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٩ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دیا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اور اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۲۵۲

مسئلہ ١ ۵ ٧٠ اگر بچہ ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے بالغ ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنا اس پر ضروری ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس پر روزہ واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ظہر سے پهلے بالغ ہو اور اس نے روزے کی نيت کر رکھی ہو تو روزہ پورا کرے اور اگر نيت نہ بھی کی ہو اورروزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو نيت کرے اور روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧١ جو شخص کسی ميت کے روزے اجرت لے کر رکھ رہا ہواس کے لئے مستحب روزہ رکھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن جس شخص کے ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں وہ مستحب روزے نہيں رکھ سکتا اوراگر رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ اس کے ذمّے ہو پھر بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظہر سے پهلے متوجہ ہوجائے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ليکن وہ اپنی نيت کو غير معين واجب روزے کی طرف پلٹا سکتا ہے ، جب کہ معين واجب روزے کی طرف نيت کو پلٹانا محل اشکال ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو وہ اپنی نيت کو واجب روزے کی طرف نہيں پلٹاسکتا اگر چہ واجب غير معين ہی کيوں نہ ہو اور یہ حکم ماہِ رمضان کے قضا روزوں ميں زوال کے بعد سے عصر تک احتياط واجب کی بناپر ہے ۔هاں، اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٢ اگر کسی شخص پر رمضان کے علاوہ کوئی معين روزہ واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ مقررہ دن روزہ رکہوں گا اور جان بوجه کر اذانِ صبح تک نيت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے تو اگرچہ ظہر سے پهلے یاد آجائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، بنا بر احتياط اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٣ اگر غير معين واجب روزے مثلاً کفارے کے روزے کے لئے، ظہر کے نزدیک تک عمداً نيت نہ کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ اگر نيت سے پهلے پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہيں رکھے گا یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پهلے نيت کر لے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۴ اگر کوئی کافر ماہ رمضان ميں ظہر سے پهلے مسلمان ہوجائے تو چاہے اس نے اذان صبح سے اس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، پھر بھی اس کا روزہ صحيح نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۵ اگر کوئی مریض ماہ رمضان کے دن کے وسط ميں ظہر سے پهلے یا اس کے بعد تندرست ہو جائے تو اِس دن کا روزہ اس پر واجب نہيں ہے خواہ اُس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔

۲۵۳

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۶ جس دن کے بارے ميں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا تو اُس پر واجب نہيں کہ وہ اس دن روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نيت نہيں کر سکتا، نہ ہی یہ نيت کر سکتا ہے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ اور اگر رمضان نہيں تو قضا یا اس جيسا کوئی اور روزہ رکھ رہا ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ کسی واجب روزے مثلاً قضا کی نيت کرلے یا مستحب روزے کی نيت کرے۔ چنانچہ بعد ميں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔ ہاں، اگر وہ یہ نيت کرے کہ جس چيز کا اسے حکم دیا گيا ہے اس کو انجام دے رہا ہوں اور بعد ميں معلوم ہو کہ رمضان تھا تو یہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٧ جس دن کے بارے ميں شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا دن، اگر اُس دن قضا یا اس کی مانند کوئی واجب یا مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٨ اگر کسی واجب معين روزے ميں جيسے ماہ رمضان کے روزے ميں انسان اپنی نيت سے کہ مبطلات روزہ سے خدا کی خاطر بچے، پلٹ جائے یا پلٹنے کے بارے ميں متردد ہو یا یہ نيت کرے کہ روزہ توڑنے والی چيزوں ميں سے کسی کو انجام دے یا متردد ہو کہ ایسی کوئی چيز انجام دے یا نہ دے تو اُس کا روزہ باطل ہے ، اگرچہ جو ارادہ کيا ہو اُس سے توبہ بھی کرے اور نيت کو روزے کی طرف بھی پهير دے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٩ وہ بات جس کے بارے ميں پچهلے مسئلے ميں بتایا گيا کہ واجب معين روزے کو باطل کردیتی ہے ،غير معين واجب روزے مثلاً کفارے یا غير معين نذر کے روزے کو باطل نہيں کرتی، لہٰذا اگر ظہر سے پهلے دوبارہ اپنی نيت کو روزے کی طرف پهير دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مبطلاتِ روزہ

مسئلہ ١ ۵ ٨٠ نو چيزیں روزے کو باطل کر دیتی ہيں ، اگر چہ ان ميں سے بعض چيزوںسے روزہ احتياط کی بنا پر باطل ہوتا ہے :

ا ) کھانا اور پينا

٢ ) جماع

٣ ) استمنا۔ استمنا یہ ہے کہ انسان اپنے یا کسی دوسرے کے ساته جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے۔

۴ ) خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

۵ ) احتياط واجب کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا۔

۲۵۴

۶ ) پورے سر کو پانی ميں ڈبونا۔

٧ ) اذانِ صبح تک جنابت حيض یا نفا س پر باقی رہنا۔

٨ٌ) کسی بهنے والی چيز سے انيما کرنا۔

٩ ) قے کرنا۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کھانا اور پينا

مسئلہ ١ ۵ ٨١ اگر روزہ دار اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر کوئی چيز کھائے یا پئے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا، خواہ وہ ایسی چيز ہو جسے عموماً کهایا یا پيا جاتا ہو جيسے روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کهایا یا پيا نہ جاتا ہو جيسے مٹی اور درخت کا شيرہ، خواہ کم ہو یا زیادہ، حتی اگر تری کو منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ ميں لے جائے اور نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا، سوائے ا س کے کہ یہ تری تهوک سے مل کر اِس طرح ختم ہو جائے کہ پھر اسے باہر کی تری نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٢ اگرکھانا کھانے کے دوران معلوم ہو جائے کہ صبح ہو گئی ہے توضروری ہے کہ لقمہ اگل دے اور اگر عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب ہو جائے گاجس کی تفصيلات آگے آئيںگی۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٣ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چيز کها یا پی لے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۴ دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حس کردینے والے انجکشن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اُس انجکشن سے پرہيز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۵ اگر روزہ دار دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی چيز کو اپنے روزے کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۶ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ اذان سے پهلے اپنے دانتوں ميں خلال کرے، ليکن اگر جانتا ہو یا اطمينان ہو کہ جو غذا دانتوں کے درميان ميں رہ گئی ہے وہ دن ميں اندر چلی جائے گی، چنانچہ وہ خلال نہ کرے اور وہ چيز پيٹ کے اندر چلی جائے تو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٧ لعاب دهن کو نگلنا، اگرچہ کهٹائی یا اس کی مانند چيزوں کے تصور سے منہ ميں جمع ہوجائے، روزے کو باطل نہيں کرتا۔

۲۵۵

مسئلہ ١ ۵ ٨٨ سر اور سينے کے بلغم کو نگلنے ميں ، جب تک کہ وہ منہ کے اندر والے حصے تک نہ پهنچے، کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر منہ ميں آجائيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ انہيں نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٩ اگر روزہ دار اِس قدر پياسا ہوجائے کہ اسے خوف ہو کہ وہ پياس کی وجہ سے مر جائے گا تو اس پر اتنا پانی پينا واجب ہے کہ مرنے سے نجات مل جائے، ليکن اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر رمضان ہو تو باقی دن روزہ باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز ضروری ہے ۔ اِسی طرح اگر اُسے خوف ہو کہ پانی نہ پينے کی وجہ سے اُسے قابلِ ذکر ضرر پهنچے گا یا پانی نہ پينا اُس کے لئے ایسی مشقّت کا باعث بنے گا جوعرفاً قابل برداشت نہ ہو تو اِن دو صورتوں ميں اِس قدر پانی پی سکتا ہے کہ اُس کا ضرر اور مشقّت دور ہو جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٠ بچے یا پرندے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا اور ان جيسی چيزوں کو چکهنا جو عام طور پر حلق تک نہيں پهنچتيں، اگر چہ اتفاق سے حلق تک پهنچ جائيں روزہ کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو یا مطمئن ہو کہ حلق تک پهنچ جائيں گی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور حلق تک پهنچنے کی صورت ميں اس پر کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ ١ ۵ ٩١ انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہيں چھوڑ سکتا، ليکن اگر کمزوری اِس حد تک ہو کہ روزہ دار کے لئے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھرروزہ چھوڑ دینے ميں کوئی حرج نہيں ۔

٢۔ جماع

مسئلہ ١ ۵ ٩٢ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے اگر چہ صرف ختنہ گاہ کے برابر داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔ اوربيوی کے علاوہ کسی اور سے جماع کی صورت ميں اگر منی خارج نہ ہو تو یہ حکم احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٣ اگر ختنہ گاہ سے کم مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۴ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اورختنہ گاہ کے برابر داخل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہواور پھر شک کرے کہ اُس مقدار کے برابر دخول ہوا ہے یا نہيں تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا ضروری ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ باقی دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيزکرے، ليکن کفارہ واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۵ اگر بھول جائے کہ روز ے سے ہے اور جماع کرلے یا بے اختيار جماع کرے تواس کا روزہ باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر دوران جماع اُسے یاد آجائے یا اُسے اختيار حاصل ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع کو ترک کردے اور اگر ترک نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۶

٣۔ استمنا

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۶ اگر روزہ دار استمنا کرے، یعنی جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اُس کی منی خارج ہو، تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٧ اگر بے اختيار، انسان کی منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٨ جو روزہ دار جانتا ہو کہ اگر دن ميں سو گيا تومحتلم ہو جائے گا یعنی نيند ميں اس کے جسم سے منی خارج ہو جائے گی، تو اُس کے لئے سونا جائز ہے اور اگر محتلم ہو جائے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔هاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نہ سوئے خصوصاً جب نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکليف بھی نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٩ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کی حالت ميں نيند سے بيدار ہوجائے تو اس کو خارج ہونے سے روکناواجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٠ جب روزہ دار محتلم ہوجائے تو وہ پيشاب اور استبرا کر سکتا ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ پيشاب اور استبرا کی وجہ سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔

مسئلہ ١ ۶ ٠١ جو روزہ دار محتلم ہو گيا ہو اگر وہ جانتا ہو کہ نالی ميں منی باقی رہ گئی ہے اورغسل سے پهلے پيشاب نہ کرنے کی صورت ميں غسل کے بعد منی خارج ہوگی تو بناء بر احتياط واجب ضروری ہے کہ غسل سے پهلے پيشاب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٢ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ عمداً منی خارج کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے ، اگر منی کے باہر آنے کی نيت سے مثلاً بيوی سے هنسی مذاق اور چھيڑ چھاڑ کرے تو چاہے منی خارج نہ بھی ہو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور ضروری ہے کہ قضا کرے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرنا بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٣ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کا ارادہ کئے بغير مثال کے طور پر اپنی بيوی سے چھيڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے، چنانچہ اگر اطمينان رکھتا ہو کہ اُس سے منی خارج نہ ہوگی اگر چہ اتفاق سے منی خارج ہو بھی جائے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اطمينان نہ ہو تو منی خارج ہونے کی صورت ميں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۴ ۔ خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ سے جهوٹ منسوب کرنا

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۴ اگر روزہ دار زبان سے، لکھ کر، اشارے سے یا کسی اور طریقے سے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے عمداً کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ فوراً یہ کہہ دے کہ ميں نے جھوٹ کها ہے یا توبہ کرلے، اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ جب کهباقی انبياء (علی نبينا و آلہ و عليهم السلام )اور ان کے اوصياء کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتياطِ واجب کی بنا پر روزے کو باطل کر دیتا ہے ، مگر یہ کہ ان سے دی ہوئی یہ جھوٹی نسبت الله تعالیٰ سے منسوب ہو جائے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۷

یهی حکم حضرت زهرا عليها السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے کا ہے سوائے اس کہ کے یہ جھوٹی نسبت خدا، رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی سے منسوب ہو جائے، کہ اس صورت ميں روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۵ اگر کوئی ایسی حدیث نقل کرنا چاہے جس کے متعلق نہ جانتا ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ اور اُس حدیث کے معتبر ہونے پر دليل بھی نہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جو اِس حدیث کا راوی ہے یا مثال کے طور پرجس کتاب ميں یہ حدیث تحریر ہے ، اس کا حوالہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۶ اگر کسی روایت کو سچ سمجھتے ہوئے، خدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ جھوٹ تھی تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٧ جو شخص جانتا ہو کہ خدا، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا روزے کو باطل کردیتا ہے اگر کسی چيز کو جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ جھوٹ ہے ، ان حضرات سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ جو کچھ کها تھا سچ تھا تو بھی اس کا روزہ باطل ہے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٨ کسی دوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کو اگر جان بوجه کر خدا، پيغمبر صلی الله

عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر جس نے جھوٹ گڑھا ہے اس کا قول نقل کرے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٩ اگر روزہ دار سے پوچها جائے کہ آیا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی ایک امام عليہ السلام نے اس طرح فرمایا ہے ، اور وہ جواب ميں جان بوجه کر ہاں کی جگہ نہيں اور نہيں کی جگہ ہاں کهے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٠ اگرخدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی امام عليہ السلام سے کوئی سچ بات نقل کرے، بعد ميں کهے کہ ميں نے جھوٹ کها تھا یا رات کو ان حضرات سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اور اگلے دن روزے کے عالم ميں کهے کہ جو ميں نے کل رات کها تھا وہ سچ ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۵ ۔ غبار حلق تک پهنچانا

مسئلہ ١ ۶ ١١ احتياط کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خوا ہ غبار اس چيز کاہو جس کا کھانا حلال ہے جيسے آٹا یا ایسی چيز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جيسے مٹی۔

مسئلہ ١ ۶ ١٢ اگر ہوا کی وجہ سے کوئی غبار پيدا ہو اور انسان متوجہ ہونے کے باوجود دهيان نہ رکھے اور غبار حلق تک پهنچ جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۸

مسئلہ ١ ۶ ١٣ احتياطِ واجب یہ ہے کہ روزہ دارگاڑھی بهاپ اور سگریٹ و تمباکو جيسی چيزوں کا دهواں بھی حلق تک نہ پهنچائے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۴ اگر دهيان نہ رکھے اور غبار، دهواں، گاڑھی بهاپ یا اس جيسی چيزیں حلق ميں داخل ہوجائيںتو اگر اسے یقين یا اطمينان تھا کہ یہ چيزیں حلق ميں نہ پهنچيں گی تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اسے گمان تھا کہ یہ حلق تک نہيں پهنچيں گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۵ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور دهيان نہ رکھے یا بے اختيار غبار یا اس جيسی چيز اُس کے حلق تک پهنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

۶ ۔ سر کو پانی ميں ڈبونا

مسئلہ ١ ۶ ١ ۶ اگر روزہ دار جان بوجه کر سارا سر پانی ميں ڈبودے تو اگرچہ باقی بدن پانی سے باہر رہے، اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، ليکن اگر سارا بدن پانی ميں ڈوب جائے اور سر کا کچھ حصہ باہر رہے تو روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٧ اگر آدهے سر کو ایک بار اور اس کے دوسرے آدهے حصے کو دوسری بار پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٨ اگر شک کرے کہ پورا سر پانی کے نيچے چلا گيا ہے یا نہيں تو اس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر سارا سر ڈبونے کی نيت سے پانی کے نيچے چلا جائے اور شک کرے کہ پورا سر پانی ميں ڈوبا یا نہيں تو اس کا روزہ باطل ہوگا اگر چہ کفارہ نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ١٩ اگر پورا سر پانی کے نيچے چلا جائے ليکن بالوں کی کچھ مقدار باہر رہ جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٠ پانی کے علاوہ دیگربهنے والی چيزوں مثلاً دودھ اور آب مضاف ميں سر کو ڈبونا روزے کو باطل نہيں کرتا اور احتياطِ واجبيہ ہے کہ سر کو عرق گلاب ميں ڈبونے سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢١ اگر روزہ دار بے اختيار پانی ميں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی ميں ڈوب جائے یا وہ بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٢ اگر روزہ دار یہ سمجھ کر اپنے آپ کو پانی ميں گرادے کہ اس کا سر پانی ميں نہيں ڈوبے گا ليکن اس کا سارا سر پانی ميں ڈوب جائے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٣ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے یا کوئی دوسرا شخص زبردستی اس کا سر پانی ميں ڈبودے، چنانچہ اگر پانی کے اندر اُسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا وہ شخص اپنا ہاتھ ہٹالے تو ضروری ہے کہ اِسی وقت فوراً سر کو باہر نکالے اور اگر باہر نہ نکالے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

۲۵۹

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۴ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور غسل کی نيت سے سر کو پانی ميں ڈبودے تو اُس کا روزہ اور غسل دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر غسل کے لئے اپنا سر پانی ميں ڈبودے تو اگر اُس کا روزہ رمضان کا ہو تو اس کاروزہ اور غسل دونوں باطل ہيں اور رمضان کے قضا روزے کے لئے بھی جسے اپنے لئے انجام دے رہا ہو، احتياط کی بنا پر زوال کے بعد یهی حکم ہے ، ليکن اگر مستحب روزہ ہو یا کوئی اور واجب روزہ ہو خواہ واجب معين ہو جيسے کہ کسی معين دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہو، خواہ واجب غير معين ہو جيسے کفارے کا روزہ، تو اس صورت ميں اُس کا غسل صحيح ہے اور روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۶ اگر روزہ دار کسی شخص کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا خواہ اس شخص کوڈوبنے سے بچانا واجب ہی کيوں نہ ہو۔

٧۔ جنابت، حيض اور نفاس پر اذان صبح تک باقی رہنا

مسئلہ ١ ۶ ٢٧ اگر جنب جان بوجه کر ماہ رمضان ميں اذان صبح تک غسل نہ کرے یا اگر اس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بعد ميں آئے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٨ اگر جنب ماہ رمضان اور اس کی قضا کے علاوہ مستحبی یا واجب روزوں ميں کہ جن کا وقت معين ہو جان بوجه کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ واجب روزے ميں جان بوجه کر حالتِ جنابت پر باقی نہ رہے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٩ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے یهاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے تواحتياطِ واجب کی بنا پرضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٠ اگرجنب ماہ رمضان ميں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد یاد آئے توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر کئی دنوں بعد یاد آئے تو جتنے دن جنب ہونے کا یقين تھا ان کی قضا کرے، مثال کے طور پر اگر وہ نہ جانتا ہو کہ تين دن جنب تھا یا چار دن ؟ تو ضروری ہے کہ تين دن کے روزوں کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣١ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں غسل اور تيمم ميں سے کسی کا وقت نہ رکھتا ہو اگر وہ اپنے آپ کو جنبکرے تو اس کا روزہ باطل ہو گا اور اس پر قضا اور کفارہ واجب ہيں ، ليکن جس کی ذمہ داری غسل ہو، اگر تيمم کرنے کے لئے وقت رکھتا ہو چنانچہ اپنے آپ کو جنب کرے تو بنا بر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اوراس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

اوراگریہ نہ ہوں پدری چچااورپهوپهی کودیاجائے گاليکن احيتاط واجب کی بنا پرپانچ حصوں ميں سے ایک حصے ميں چچا و پهوپهی پدرو مادری یا پدری چچاوپهوپهی ،مادری چچاوپهوپهی سے مصالحت کریں اوراگرمادری چچااورپهوپهی دونوں ہوں تومال کے تين حصے کرکے دوحصے مادری وپدری چچاوپهوپهی کو اوراگریہ نہ ہوں توپدری چچاوپهوپهی کودئے جائيں گے اورایک حصہ مادری چچااورپهوپهی کودیاجائے گااورتمام صورتوں ميں پدری ومادری چچااورپدری چچا کو پدری ومادری یاپدری پهوپهی سے دگنا دیاجائے گااوراحتياط واجب یہ ہے کہ مادری چچااورپهوپهی ایک دوسرے کے ساته مصالحت کریں۔

مسئلہ ٢٨٢ ۴ اگرميت کے وارث صرف ایک ماموں یا ایک خالہ ہوں توسارامال انہيں ملے گا اوراگرماموں اورخالہ دونوں ہوں اورسب پدری ومادری یاپدری یامادری ہوں توبنا بر مشهورمال ان کے درميان برابرتقسيم کياجائے گا۔ليکن احتياط واجب ہے کہ خالہ اورماموں تقسيم ميں ایک دوسرے سے مصالحت کریں ۔

مسئلہ ٢٨٢ ۵ اگرميت کے وارث صرف ایک مادری ماموں یاخالہ اورپدری ومادری خالہ اورماموں ہوں اورپدری مادری ماموں وخالہ نہ ہونے کی صورت ميں پدری خالہ اورماموں ہوں تو مشهور یہ ہے :”مال کے چھ حصوں ميں سے ایک حصہ مادری ماموں یاخالہ کواورباقی پدری ومادری یاپدری خالہ اور ماموں کودیاجائے گااورجب مادری خالہ اورماموں دونوں ہوں تومال کے تين حصوں ميں سے ایک حصہ مادری ماموں اورخالہ کواوردوحصے پدری ومادری خالہ ،ماموں یا پدری خالہ اورماموں کودئے جائيں گے“۔ ليکن احتياط واجب ہے کہ دونوں صورتوں ميں مادری رشتہ دار، پدری رشتہ داروں سے اسی طرح ماموں اورخالہ بھی ایک دوسرے سے مصالحت کریں ۔

مسئلہ ٢٨٢ ۶ اگرميت کے وارث ایک یاچند ماموں یاایک یا چند خالہ یاماموں وخالہ اورایک یاچندچچایاایک یاچندپهوپهياں یاچچاوپهوپهياں ہوں تو مال کے تين حصوں ميں سے ایک حصہ ماموں یاخالہ یادونوں کو اور باقی چچا،پهوپهی یادونوں کوملے گا۔

مسئلہ ٢٨٢٧ اگرميت کے وارث ایک ماموں یاایک خالہ اورچچااورپهوپهی ہوں تواگرچچااورپهوپهی پدری و مادری یاپدری ہوتو مال کے تين حصوں ميں سے ایک حصہ ماموں یاخالہ کواورباقی دوحصہ مال کے تين حصہ کر کے دوحصے چچا کو اور ایک حصہ پهو پهی کو دیں گے لہذااس (ترکہ )مال کے نوحصے ہوںگے جن ميں سے تين ماموں یاخالہ کو اور چار حصے چچا کو اور دو حصے پهوپهی کو دیں گے ۔

مسئلہ ٢٨٢٨ اگرميت کے وارث ایک ماموں یا خالہ اورایک مادری چچا یا پهوپهی اور پدری و مادری یا پدری چچا اور پهوپهی ہوں توما ل کے تين حصے کرکے ایک حصہ ماموں یاخالہ کو دئے جائيںگے اور مشهوریہ ہے کہ:”باقی دو حصوں کے چھ حصے کرکے ایک مادری چچا یا پهوپهی کو اور باقی پدری ومادری یاپدری چچا و پهوپهی کو اس طرح دیں گے کہ چچا کو پهوپهی کا دگنا ملے۔ لہٰذا اگرمال کے نوحصے کریں توتين حصے ماموں یاخالہ کواورایک حصہ مادری چچا یا پهوپهی کواورباقی پانچ حصے پدری ومادری یا پدری چچا و پهوپهی کو دیں گے ليکن احتياط واجب ہے کہ پدری چچاوپهوپهی پانچویں حصے ميں مادری چچاوپهوپهی سے صلح کرليں ۔

۴۶۱

مسئلہ ٢٨٢٩ اگرميت کے ورثاء ميں کچھ پدری ومادری یاپدری یامادری ماموں اورخالہ ہوں اورچچااورپهوپهی بھی ہوں تومال کے تين حصوں ميں سے دوحصے چچاوپهوپهی کودیں گے اور اگرچچاوپهوپهی پدری ومادری یاپدری ہوں توچچاکوپهوپهی سے دگنا ملے گااوراگرمادری ہوں تواحتياط واجب کی بنا پرتقسيم ميں آپس ميں مصالحت کریں اورباقی ایک تھائی ماموں اورخالاو ںٔ کوملے گااوراحتياط واجب کی بنا پرتقسيم ميں مصالحت کریں ۔

مسئلہ ٢٨٣٠ اگرميت کے وارث مادری ماموں یاخالہ اورچندپدری ومادری ماموں یا خالہ یا پدری ماموں اور خالہ جبکہ پدری و مادری ماموں و خالہ نہ ہوں اور اس کے چچاو پهوپهی ہوں تومال کے تين حصے کرکے دوحصے سابقہ دستورکے مطابق چچااورپهوپهی کے درميان تقسيم ہوں گے اوربچاہواایک حصہ بھی سابقہ دستورکے مطابق تقسيم ہوگا۔

مسئلہ ٢٨٣١ اگرميت کے چچا،پهوپهی ،ماموں اورخالہ نہ ہوں توجومقدار چچا و پهوپهی کو ملتی ہے ان کی اولاد کو اور جو مقدار ماموں اورخالہ کوملتی ہے ان کی اولادکودی جائے گی ۔

مسئلہ ٢٨٣٢ اگرميت کے وارث اس کے باپ کاچچا،پهوپهی، ماموں ،خالہ اور اس کی ماں کاچچا، پهوپهی، ماموں اورخالہ ہوں تو مال کے تين حصے ہوں گے۔ مشهور یہ ہے کہ :”ان ميں سے ایک حصہ ميت کی ماں کے چچا،پهوپهی ،ماموں اورخالہ کے درميان مساوی تقسيم ہوگااورباقی دوحصوں کے تين حصے کرے ایک تھائی ميت کے باپ کے ماموں اورخالہ کے درميان برابرتقسيم ہوگااورباقی دوحصے ميت کے باپ کے چچااورپهوپهی کواس طرح دیں گے کہ چچاکوپهوپهی کادگنا ملے “۔ ليکن احتياط واجب ہے کہ ميت کی ماں کے چچا،پهوپهی ،ماموں اورخالہ اصل مال کے تيسرے حصے ميں ایک دوسرے سے مصالحت کریں ۔اوراسی طرح باپ کے ماموں اورخالہ دوتهائی کے تيسرے حصے ميں اورميت کے باپ کے چچااورپهوپهی ،تقسيم ميں مسئلہ نمبر ٢٨٢٣ کے طریقے کے مطابق عمل کریں ۔

مياں بيوی کی ميراث

مسئلہ ٢٨٣٣ اگربيوی مرجائے اور اس کی کوئی اولادنہ ہو تو آدها حصہ شوہر کو اور باقی دوسرے وارثوں کوملے گا اوراگر اس موجودہ شوہر یا دوسرے شوهرسے اولادهو توسارے مال کاچوتھائی حصہ شوہر کو اور باقی دوسرے ورثاء کو ملے گا۔

مسئلہ ٢٩٣ ۴ اگرمردمرجائے اوراس کی کوئی اولادنہ ہوتوما ل کاچوتھائی حصہ بيوی کواورباقی دوسرے ورثہ کوملے گا اور اگراس بيوی یا دوسری بيوی سے اولادهو تومال کاآٹھ واں حصہ بيوی اورباقی دوسرے ورثہ کو ملے گااوربيوی کو زمين، گهر، باغ، کهيتی اوردوسری زمينوں سے ميراث نہيں ملے گی اورنہ ہی ان کی قيمت سے اورزمين پربنی عمارت اوردرختوں سے ميراث ملے گی ليکن اگرباقی ورثہ عمارت اوردرخت کی قيمت دیناچاہيں توعورت کے لئے اسے قبول کرنا ضروری ہے اورباغ ،زراعت اوردوسری زمينوں پر موجود درخت، زراعت وعمارت کابهی یهی حکم ہے ۔

۴۶۲

مسئلہ ٢٩٣ ۵ جن چيزوں سے بيوی کوميراث نہيں ملتی جيسے گهرکی زمين، اگران ميں تصرف کرناچاہے توضروری ہے کہ دوسرے ورثہ سے اجازت حاصل کرے۔ اسی طرح دوسرے ورثہ عورت کے حصے، مثلاً عمارت اوردرخت ميں سے اس کاحق دئے بغير، چاہے اس حق کی قيمت ادا کرکے ہی سهی، بيوی کی اجازت کے بغيراس ميں تصرف نہ کریں۔

مسئلہ ٢٩٣ ۶ اگرعمارت، درخت اور ان جيسی چيزوںکی قيمت لگانا چاہيں تاکہ قيمت سے عورت کا حصہ ادا کيا جائے توفرض کياجائے کہ اگریہ چيزیں خراب ہونے تک اجارے پر دئے بغير، اس زمين ميں باقی رہيں تواس کی کياقيمت ہے ۔ اس قيمت سے عورت کاحصہ دیاجائے گا۔

مسئلہ ٢٩٣٧ کاریزے کے جاری ہونے کی جگہ اوران جيسی چيزیں زمين کے حکم ميں ہيں اوراینٹيں اوراس جيسی چيزیں جواس ميں استعمال کی گئی ہوں عمارت کے حکم ميں ہيں ۔

مسئلہ ٢٩٣٨ اگرميت کی بيویاں ایک سے زیادہ ہوں اوراولادنہ ہوتومال کاچوتھاحصہ اوراگراولادهوتوآٹھ واں حصہ سابقہ طریقے کے مطابق سب بيویوں ميں برابرتقسيم کياجائے گااگرچہ شوہر نے سب یابعض بيویوں کے ساته نزدیکی نہ کی ہو۔ ليکن اگراس نے مرض الموت ميں کسی عورت سے شادی کی ہواورنزدیکی کئے بغيرمرگياہوتواس عورت کوميراث اورمهردونوں نہيں مليں گے ۔

مسئلہ ٢٨٣٩ اگرعورت مرض الموت ميں شادی کرکے مرجائے توشوهرکواس سے ميراث ملے گی اگرچہ شوہر نے نزدیکی نہ کی ہو۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٠ اگربيوی کواحکام طلاق ميں گذری ہوئی ترتيب کے مطابق طلاق رجعی دے اوروہ عدت کے دوران مرجائے توشوهرکواس سے ميراث ملے گی اوراگرشوهرعدت کے دوران مرجائے تو بيوی کوبهی اس سے ميراث ملے گی ليکن اگرعدہ ختم ہونے کے بعدیاطلاق بائن کے عدہ ميں ان ميں سے کوئی مرجائے تودوسرے کوميراث نہيں ملے گی ۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ١ اگرشوهرنے مرض ميں بيوی کوطلاق دی ہواوربارہ قمری مهينہ گزرنے سے پهلے مرجائے توعورت کوتين شرائط کے ساته ميراث ملے گی :

١) اس مدت ميں شادی نہ کی ہواوراگرشادی کی ہوتواحتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ آپس ميں صلح کریں۔

٢) شوهرسے انس نہ ہونے کی وجہ سے اسے طلاق دینے کے لئے مال نہ دیاہوبلکہ اگر کچھ مال نہ بھی دیا ہو ليکن طلاق بيوی کے تقاضے کی وجہ سے ہوتوبهی اسے ميراث ملنامحل اشکال ہے ۔

٣) شوهرنے جس مر ض ميں عورت کوطلاق دی ہواس مرض کے دوران ،اس مرض یا کسی اوروجہ سے مرجائے لہذا وہ اگراس مرض سے صحت یاب ہوجائے یاکسی اوروجہ سے اس کا انتقال ہوجائے توبيوی کوميراث نہيں ملے گی ۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٢ شوهرنے اپنی بيوی کے پهننے کے لئے جوکپڑے مهياکئے ہوں وہ شوهرکے مرنے کے بعدشوہر کامال ہے ، اگرچہ بيوی ان کپڑوں کوپهن چکی ہو۔

۴۶۳

ميراث کے متفرق مسائل

مسئلہ ٢٨ ۴ ٣ اگرباپ مرجائے تو اس کا قرآن ،انگوٹھی ،تلواراورپهنے ہوئے کپڑے بڑے بيٹے کے ہيں ۔ اگرشروع والی تين چيزیں ایک سے زیادہ ہوں مثلادوقرآن یادوانگوٹھی تواحتياط واجب ہے کہ بڑابيٹاان ميں دوسرے ورثاء کے ساته مصالحت کرے۔ اسی طرح کتاب ،اونٹ کے پالان ،سواری کے اونٹ اورتلوارکے علاوہ باقی اسلحہ ميں احتياط واجب یہ ہے کہ مصالحت کرے ۔

مسئلہ ٢٨ ۴۴ اگرميت کے ایک سے زیادہ بڑے بيٹے ہوں مثلادوبيویوں سے ایک ساته دوبيٹے پيداہوئے ہوں توسابقہ مسئلہ ميں جوچيزیں بيان ہوئی ہيں دونوں آپس ميں برابرتقسيم کریں گے ۔

مسئلہ ٢٨ ۴۵ اگرميت مقروض ہواوراس کاقرضہ مال کے برابریازیادہ ہوتوجن چيزوں کے بارے ميں بيان ہواکہ بڑے بيٹے کی ہيں ضروری ہے کہ ميت کے قرض ميں اداکر دی جائيں اوراگرقرض مال سے کم ہوتوضروری ہے کہ جوچيزیں بڑے بيٹے کوملتی ہيں ان سے قرض کوتناسب کے لحاظ سے اداکياجائے۔ مثلااگراس کے سارے مال کی ماليت ساٹھ روپے ہوں اوران ميں سے بيس روپے ان چيزوں کی ماليت ہوجوبڑے بيٹے کوملی ہيں اورقرض تيس روپے ہو تو ضروری ہے کہ بڑابيٹااپنے اختصاصی حصے ميں سے دس روپے قر ض کی بابت اداکرے ۔

مسئلہ ٢٨ ۴۶ مسلمان کوکافرسے ميراث ملتی ہے ليکن کافرکومسلمان سے ميراث نہيں ملتی ہے چاہے وہ مرنے والے کاباپ یابيٹا ہی کيوں نہ ہو۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٧ اگرکوئی اپنے رشتہ دار کو عمدا اور ناحق قتل کرے تو قاتل، مقتول سے ميراث نہيں پاتا ہے ۔ ليکن اگرخطا کرتے ہوئے قتل کرے مثلا اگر ہوا ميں پتّھر پھينکے اوراتفاقاًاس کے کسی رشتہ دارکولگ جائے اوروہ مرجائے تواس کوميراث ملے گی ليکن قتل کی دیت ميں سے ميراث لينامحل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٨ جب بھی ميراث تقسيم کرناچاہيں تواس بچے کے لئے جو شکم مادرميں ہوکہ اگرزندہ پيداہوتو اس کوميراث ملے گی۔ تو اگر شکم ميں ایک سے زیاد ہ بچوں کااحتمال نہ ہو توضروری ہے کہ ایک حصہ عليٰحدہ رکھاجائے اوراحتياط واجب کی بنا پرایک لڑکے کے حصہ کوعليٰحدہ رکھاجائے اورباقی مال کوورثہ آپس ميں تقسيم کریں ليکن اگر عقلائی احتمال اس بات کا ہو کہ پيٹ ميں ایک سے زیادہ بچے ہوں گے تو بنابر احتياط ضروری ہے کہ جتنا احتمال ہے اتنا حصہ عليحدہ رکھ دیا جائے اور باقی مال آپس ميں تقسيم کرليں مگر یہ کہ وثوق اوراطمينا ن ہوکہ محتمل کاحق ضائع نہيں ہوگاتواس صورت ميں وہ ایک سے زائدحصے کوآپس ميں تقسيم کرسکتے ہيں ۔

۴۶۴

ملحقات

بينک سے مربوط مسائل

بينک کی دو قسميں ہيں :( ١)اسلامی بینک( ٢)غیر اسلامی بینک اسلامی بينک کی تین صورتيں ہيں :

١) پرائيویٹ بینک

٢) سرکاری بینک

٣) سرکاری اور عوامی مشترکہ بینک اظہر يہ ہے کہ سرکاری اور مشترکہ بینکوں سے جائز معاملات کرنا صحيح ہے گرچہ احوط ہے کہ ان دونوں بینکوں سے رقم نکالنے اور اسے استعمال کرنے کے سلسلے ميں حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٩ اسلامی بینکوں سے سود و فائدہ کی شرط کے ساته قرض لینا یا انہيں قرض دینا سود اور حرام ہے ليکن انسان چند صورتوں پر عمل کرکے اپنے آپ کو سود سے بچا سکتا ہے مثلاً قرض لینے والا بينک یا اس کے وکيل سے کوئی چيز بازاری بهاؤ سے ایک خاص فيصد مثلاً ١٠ یا ٢٠ فيصد زیادہ قيمت پر خریدے اور يہ شرط رکھے کہ بينک اس کی مطلوبہ رقم ایک خاص مدت تک اسے بطور قرض دے گا یا مثلاً يہ کہ بينک یا اس کے وکيل کو کوئی چيز بازاری بهاؤ سے ایک خاص فيصد کمتر قيمت پر بيچے اور شرط رکھے کہ بينک اس کی مطلوبہ رقم ایک خاص مدت تک اسے بطور قرض دے گا۔

اسی طرح بينک کو قرضہ دینے کے سلسلے ميں بھی اسی طریقے پر عمل کرسکتا ہے مثلاً يہ کہ بينک کوئی چيز بازاری قيمت سے زیادہ پر اس شخص سے خرید لے یا کوئی چيز بازاری بهاؤ سے کم قيمت پر اسے بيچ دے اور يہ شرط رکھے کہ وہ شخص ایک خاص مدت تک بينک کو قرضہ دے گا۔

یهی نتائج اجارہ، مصالحت اور قرض کی شرط والے هبہ سے بھی حاصل کئے جاسکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٨ ۵ ٠ سابقہ مسئلہ ميں بيان ہوا کہ بينک کو قرض دینے کا حکم بينک سے قرض لینے کی مانند ہے اور اگر قرض کی قرارداد ميں سود وفائدہ کی شرط ہو تو يہ ربا اور حرام ہے اور اس سلسلے ميں جمع کروائی ہو یعنی ایسے اکاؤنٹ ميں جس Fixed Deposit Account ميں فرق نہيں ہے کہ رقم ميں پےسہ رکھوانے والا معاملے کے مطابق ایک خاص مدت تک اپنی رقم کو استعمال نہيں کرسکتا ہے یا ميں یعنی ایسے اکاؤنٹ ميں جس ميں پےسہ رکھوانے والا ہر وقت اپنی رقم کو Current Account

استعمال کرسکتا ہے البتہ اگر سود کی شرط نہ لگائے اور اپنے آپ کو سود کی رقم کا حقدار نہ سمجھے تو اگرچہ بينک اسے سود دے پھر بھی ایسے بينک ميں رقم رکھوانا جائز ہے ۔

۴۶۵

مسئلہ ٢٨ ۵ ١ غیر اسلامی بینکوں سے جن کا سرمايہ کافروں کا ہوتا ہے رقم لینے ميں کوئی حرج نہيں ہے چاہے سرمايہ سرکاری ہو یا پرائيویٹ اور اسی طرح ان ميں رقم رکھوانا اور سود لینا بھی جائز ہے ۔ اسی طرح سود کی رقم کو استنقاذ کے عنوان سے بھی لے سکتا ہے ۔

ايل سی (لیٹر آف کریڈٹ)

ایل سی کی دو قسميں ہيں برائے امپورٹ L/C ١) ایل سی جو شخص بيرونی ممالک سے کوئی چيز امپورٹ کرنا چاہے تو قواعد کے مطابق اس کے لئے کھولنے کے بعد بينک کی ذمہ L/C کھولے اور L/C ضروری ہے کہ اپنے ملک کی کسی ایک بينک ميں داری ہے کہ جب خریدار اور بيچنے والے کے درميان خط و کتابت یا خریدار کے ملک ميں موجود بيچنے والے نمائندے سے رابطہ کے ذریعے معاملہ واقع ہوجائے تو بيچنے والے کی جانب سے موصول شدہ رسید جو کہ جنس کی مقدار اور کوالٹی کے اعتبار سے تمام خصوصيات کو بيان کررہی ہو، Invoice

اس کی بابت بيچنے والے کو اسی کے ملک ميں موجود بينک کے ذریعے اتنی رقم کی ادائیگی کردے جس پر طرفین متفق ہوں اور اس اقدام کے ذریعے بينک خریدار سے اشياء کی پوری قيمت کا کچھ فيصد مثلاً ١٠ یا ٢٠ فيصد وصول کرے گا اور پھر بيچنے والے کو معاملہ پورا ہونے کی خبر دے گا تاکہ بيچنے والا جنس کی قيمت کی وصولی کے لئے ان اشياء سے متعلقہ دستاویز بينک کے سپرد کرے اور پھر بينک ان دستاویز کو تحویل ميں لینے کے بعد جو ان تمام خصوصيات کے مطابق ہوں جن پر کھلتے وقت اتفاق کيا تھا بيچنے والے کو پوری ادائیگی کردیگا۔ L/C طرفین نے ایل سی

٢)برائے ایکسپورٹ L/C ایل سی

جو شخص کسی چيز کو بيرون ملک ایکسپورٹ کرنا چاہے تو قواعد کے مطابق ضروری ہے کہ کھولے تاکہ بينک ایکسپورٹ کے L/C بيرون ملک موجود خریدار اپنے ملک کی کسی بينک ميں ایل سی کھولنے کے مذکورہ مراحل کو طے کرنے کے بعد ایکسپورٹ کرنے والے شخص سے L/C لئے ایل سی رابطہ کرے اور جنس کو خریدار کے اور اس کی قيمت کو بيچنے والے کے سپرد کرے۔

کھولنے کا طریقہ کار ایک L/C لہٰذا امپورٹ اور ایکسپورٹ کے سلسلے ميں بينک کے ایل سی ہی ہے ۔اور بعض اوقات چيز کا ایکسپورٹریا اس کا نمائندہ اور وکيل، امپورٹر سے معاملہ طے کرنے سے پهلے ہی اشياء کی دستاویزات کو جو اُن کی قسم،مقدار،کوالٹی اور دیگر مشخصات پر مشتمل ہوتی ہيں بينک کے سپرد کردیتا ہے اور بينک کو وکيل بناتا ہے کہ جو شخص بھی ان اشياء کو خریدنا چاہے ان دستاویزات کو اس کے سامنے پےش کرے اور اگر خریدار معين شدہ قيمت پر راضی ہوجائے تو اس سے کھولنے کا تقاضا کرے اور بينک بھی اسی ترتےب سے جسے بيان کيا گيا چيز کو خریدار L/C ایل سی کے اور قيمت کو بيچنے والے کے سپرد کرنے کے مراحل کو انجام دیتا ہے ۔

۴۶۶

L/C کا کھولنا اور بينک کے لئے ایل سی L/C کا کھولنا

مسئلہ ٢٨ ۵ ٢ بينک ميں ایل سی دیگر ذمہ داریوں کو انجام دینا جائز ہے ۔

کھولنے اور اس سے متعلقہ ذمہ L/C مسئلہ ٢٨ ۵ ٣ بينک کے لئے جائز ہے کہ وہ ایل سی کهلوانے والے سے وصول کرے۔ L/C داریوں کو انجام دینے کے لئے ایک مخصوص رقم کھولنا اور ایک مخصوص رقم کی وصولی کو چند موضوعات L/C شرعی اعتبار سے ایل سی پر تطبیق کيا جاسکتا ہے کہ ان ميں سے تین عناوین کو بيان کيا جارہا ہے ۔

کھولنے L/C کھولنے والا بينک کو ایل سی L/C ١) اجارہ کے عنوان سے ہو یعنی ایل سی L/C کے لئے اجير بنائے اور مطلوبہ جنس کی قيمت کا ایک خاص فيصد جس پر بينک اور ایل سی کھولنے والا متفق ہوں اجرت کے طور پر بينک کو ادا کرے۔

کھولنے والا بينک کے ساته طے کرے کہ L/C ٢) جعالہ کے عنوان سے ہو یعنی ایل سی کھولے تو وہ ایک مخصوص رقم بينک کو ادا کرے گا اور بينک ایل L/C اگر بينک اس کے لئے ایل سی کھولنے کے بعد حق رکھتا ہے کہ و ہ مخصوص رقم اس سے لے لے۔ L/C سی کھولی جائے، اس طرح سے کہ بينک درخواست شدہ L/C ٣) خرید وفروخت کے عنوان سے رقم کو فارن کرنسی کی صورت ميں جنس بيچنے والے کے مُلک کی کرنسی ميں اسے ادائیگی کرے گا کھولنے والے امپورٹر سے اس کے مُلک ميں رائج کرنسی ميں عوض وصول کرے گا L/C اور ایل سی اور پھر اس فارن کرنسی کو اپنا فائدہ رکھتے ہوئے اضافی قيمت پر امپورٹر کو اس کے ملک کی کرنسی کے عوض بيچ دے گا۔اب چونکہ یہ معاملہ دو الگ کرنسيوں ميں ہوا ہے لہذااس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

بينک کا مال کی حفاظت کرنا

بعض اوقات بينک امپورٹر کے اکاو نٔٹ ميں مال کی حفاظت کرتا ہے ، اس طرح سے کہ امپورٹر اور ایکسپورٹر کے مابین معاملہ طے پاجانے، درخواست شدہ رقم کی ایکسپورٹر کو ادائیگی اور جنس اور اس کی دستاویزات، امپورٹر کے مُلک ميں بھيجنے اور بينک کی طرف سے امپورٹر کو جنس کی وصولی کی اطلاع دینے کے بعد،جب امپورٹر جنس وصول کرنے ميں تاخیر کرتا ہے تو بينک امپورٹر کے اکاؤنٹ ميں جنس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے بدلے ایک معين رقم وصول کرتا ہے ۔

جب کہ بعض اوقات بينک ایکسپورٹر کے حساب ميں مال کی حفاظت کرتا ہے ، اس طرح سے کہ کروا دیتا ہے اور دستاویزات بينک کو Load ایکسپورٹر کسی سابقہ معاہدہ اور معاملہ کے بغير مال بهےج دیتا ہے تاکہ بينک اسے مُلک کے تاجروں کے سامنے پےش کرے ليکن (جب تک)کوئی اسے نہيں خریدتا ہے ، بينک اس مال کی ایکسپورٹر کے حساب ميں حفاظت کرتا ہے اور اس کے بدلے ميں ایک معين اجرت اس سے ليتا ہے ۔

۴۶۷

مسئلہ ٢٨ ۵۴ مذکورہ دونوں صورتوں ميں یعنی چاہے بينک امپورٹر کے لئے جنس کی حفاظت کرے یا ایکسپورٹر کے لئے، اگر مال کی حفاظت کی اجرت لینا معاملہ کے ضمن ميں شرط کے طور پر ہو، چاہے يہ شرط ارتکازی ہو یعنی طرفین کے ذهن ميں ہو اور وہ اس شرط سے غافل نہ ہوں جيسا کہ ان جےسے معاملات ميں رائج ہے یا يہ کہ مال کی حفاظت امپورٹر یا ایکسپورٹر کی درخواست اور کهنے سے بينک نے کی ہو تو بينک کے لئے اجرت لینا جائز ہے ليکن ان دونوں صورتوں کے علاوہ بينک حق نہيں رکھتا ہے کہ مال کی حفاظت کے سلسلے ميں کوئی چيز بطور اجرت وصول کرے۔اور اگر اور دستاویز کا بهےجنا امپورٹر اور ایکسپورٹر کے مابین سابقہ Loading بينک کی طرف سے مال کی معاہدہ کے سبب ہو اور بينک دستاویزات کی وصولی کے بارے ميں اطلاع امپورٹر کو دے دے اور وہ دستاویزات نہ لے تو بينک اپنے حق کو یعنی ایکسپورٹر کو جو مطلوبہ رقم ادا کی ہے ،اسے حاصل کرنے کے لئے اپنے اُن اختيارات سے فائدہ اٹھ اتے ہوئے جو ان جےسے موارد ميں ایکسپورٹر بينک کو دیتا ہے ،جنس کسی اور کو بيچ سکتا ہے ۔

بينک گارنٹی

بعض اوقات کوئی شخص حکومت یا بعض لوگوں کے لئے کسی کام کو انجام دینے کا ٹھ ےکہ قبول کرتا ہے جےسے مدرسہ یا هسپتال کی عمارت بنانا یا سڑک بنانا وغيرہ اور معاہدہ کے ضمن ميں ٹھ ےکہ دینے والا ٹھ ےکید ار سے ایک معين رقم کی بينک گارنٹی کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اطمينان حاصل کرسکے کہ ٹھ ےکید ار اپنے وعدہ کے مطابق کام انجام دے گا لہٰذا اگر وہ پورے کام یا معاہدہ کی شرائط کو انجام نہ دے تو اس بينک گارنٹی سے متوقع نقصان کا ازالہ کرسکے اور معين رقم کو حاصل کرسکے اور اس مقصد کے لئے ٹھ ےکید ار بينک سے رابطہ کرتا ہے اور بينک سے درخواست کرتا ہے کہ جاری کرے اور بينک ضروری شرائط کے Guaranty Letter ٹھ ےکہ دینے والے کی مطلوبہ رقم کا جاری کردیتا ہے اور ٹھ ےکید ار سے Guaranty Letter مهيا ہونے کے بعد ٹھ ےکید ار کے لئے جاری کرنے کے عوض ضمانت شدہ رقم کی نسبت سے اجرت وصول کرتا ہے ۔ Guaranty Letter

مسئلہ ٢٨ ۵۵ بينک گارنٹی کا معاہدہ ہر اس چيز سے ہوجاتا ہے جو اس پر دلالت کرے، چاہے لفظی ہو جےسے زبانی ایجاب و قبول یا عملی ہو جو اس پر دلالت کرے۔ اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کہ ضامن ٹھ ےکہ دینے والے سے وعدہ کرے کہ ٹھ ےکید ار ضمانت شدہ رقم ادا کرے گا یا ٹھ يکيدار سے يہ وعدہ کرے کہ ٹھ ےکہ دینے والا اپنے وعدوں اور شرائط کو پورا کرے گا اور وعدہ خلافی کی صورت ميں ضمانت شدہ رقم ادا کرے گا۔

۴۶۸

مسئلہ ٢٨ ۵۶ اگر ٹھ ےکید ار معاہدہ کی خلاف ورزی کرے تو اس پر واجب ہے کہ اپنی لگائی ہوئی شرط یعنی ضمانت شدہ رقم کی ادائیگی کو پورا کرے جبکہ يہ شرط معاہدہ کے ضمن ميں رکھی Guaranty Letter گئی ہو اور اگر ضمانت شدہ رقم کی اد ائیگی نہ کرے تو ٹھ ےکہ دینے والے کا اجراء ٹھ ےکید ار Guaranty Letter جاری کرنے والے بينک سے رابطہ کرے گا اور چونکہ کی درخواست پر ہوا ہے لہٰذا وہ بينک کا ضامن ہوگا اور جو کچھ بينک ادا کرے گا ٹھ ےکید ار پر اس رقم کی ادائیگی ضروری ہے ا ور بينک حق رکھتا ہے کہ اس سے مطالبہ کرے اور وصول کرے۔

جاری کرنے کے عوض ٹھ ےکید ار سے جو معين Guaranty Letter مسئلہ ٢٨ ۵ ٧ بينک اجرت ليتا ہے وہ جائز ہے اور بينک کا ٹھ ےکید ار سے معاملہ چند طریقوں سے صحيح ہوسکتا ہے ۔ ان ميں سے ایک يہ ہے کہ معاملہ اجارہ کی صورت ميں ہو یعنی ٹھ ےکيدار بينک کو مذکورہ کام کے لئے ایک معين رقم پر اجير بنائے یا يہ کہ جعالہ کی صورت ميں ہو یعنی ٹھ ےکہ دار مذکورہ کام کی انجام دهی کے عوض ادا کرنے والے کمےشن کو جعل قرار دے جُعل یعنی وہ رقم جو عقد جعالہ ميں کسی کام کے عوض قرار دی جاتی ہے ۔

حصص کی فروخت ( shares )

کی Notes اپنے حصص اور با قيمت دستاویز Share Holder Companies بعض اوقات فروخت کے لئے بينک کو وسيلہ قرار دیتے ہيں اور بينک اپنے واسطہ بننے کی طے شدہ اجرت لے کر حصص اور دستاویزات کی فروخت کے لئے اقدام کرتا ہے ۔

Share مسئلہ ٢٨ ۵ ٨ يہ معاہدہ بينک کے ساته جائز ہے چاہے اجارے کی صورت ميں ہو یعنی کمپنياں بينک کو حصص اور با قيمت اسناد کی فروخت کے سلسلے ميں معين رقم کی ادائیگی Holder

پابند Share Holder Company کے عوض اجير بنائے اور چاہے جعالہ کی صورت ميں ہو یعنی ہوجائے کہ اگر بينک اس کے لئے يہ کام انجام دے تو اس رقم کو اسے ادا کرے گا اور دونوں صورتوں ميں بينک کو يہ حق حاصل ہے کہ مذکورہ کام کو انجام دینے کے بعد معينہ اجرت وصول کرے۔

۴۶۹

کے حصص کی خرید و فروخت جائز ہے Share Holders Companies مسئلہ ٢٨ ۵ ٩ميں سودی معاملات جےسے حرام معاملات انجام نہ پاتے ہوں اور جو Companies بشرطیکہ ان حرام معاملات کو انجام دیتی ہوں ان کے حصص کی خریدوفروخت اس صورت ميں جائز Companies نہيں ہے جب حرام معاملہ سے حاصل شدہ منافع کمپنی کے سرمايہ کا حصہ ہوں اور اس صورت کے علاوہ صرف حصص کی خریدوفروخت جائز ہے البتہ ضروری ہے کہ اس کمپنی کے حرام منافع سے بچا جائے۔

اندرونی اور بيرونی حوالے کے احکام) Drarft

ڈرافٹ کی چند قسميں ہيں :

یعنی وہ شخص جس کا بينک ميں اکاؤنٹ ہو اور بينک سے معاملے کے Client ١) يہ کہ لئے بينک سے رابطہ کرتا ہو کی بينک ميں رقم موجود ہو اور وہ بينک سے تقاضا کرے کہ اس کے چےک یا حوالہ کو اندرون یا بيرون مُلک موجود کسی ایک بينک کے ذمہ جاری کرے یا تقاضا کرے کہ اس کی رقم بينک ہی کے دوسرے شہر ميں موجود کسی دوسری برانچ یا بيرون مُلک موجود برانچ کو ادا اپنی رقم مطلوبہ مقام سے وصول کرے اور بينک اس بات کاحق رکھتا ہے کہ اس Client کرے اور پھر سے اجرت وصول کرے اور اس اجرت لینے کو اس طریقے سے صحيح کها Client کام کے لئے نے رقم Client جاسکتا ہے کہ چونکہ بينک کے لئے ضروری نہيں ہے کہ وہ اس مقام کے علاوہ جهاں جمع کروائی تھی کسی دوسری برانچ ميں رقم کی ادائیگی کرے۔ لہٰذا اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کو رقم کی ادائیگی Clinet لے تاکہ Comission کی خاطر بينک کے لئے جائز ہے کہ وہ اجرت کسی دوسرے شہر یا مُلک ميں کرے۔

کی بينک ميں کوئی رقم موجود نہ ہو اور بينک اس کے لئے چےک Client ٢) يہ کہ کی Client یا ڈرافٹ جاری کرے تاکہ اندرون مُلک یا بيرون مُلک موجود وہ بينک جس کا Cheaque

کو قرضہ دے یا يہ کہ بينک دوسری برانچ کے سربراہ سے Client بينک سے حساب و کتاب ہو اس کو قرضہ دے۔ يہ کام (درحقیقت) بينک کا اپنے کسی حساب و کتاب والی Client درخواست کرے کہ کو قرضہ دے رہے ہيں وکيل بنانا ہے کہ Client بينک کو یا اپنی دوسری برانچ کے سربراہ کو جو کو قرضہ دے یا يہ کہ خود اس شخص کو وکيل بنانا ہے کہ رقم وصول کرے اور بطور قرض اس client

۴۷۰

رقم کا مالک بن جائے اور اس وکيل بنانے کی خدمات دینے کے لئے بينک ا س شخص سے اجرت لے سکتا ہے ۔ Comission

اور اگر بيرون مُلک بينک ميں جس رقم کا حوالہ دے وہ اُسی ملک کی کرنسی ميں ہو اور اسی طریقہ سے جس کا ذکر کيا گيا بينک سے وہ رقم اپنے لئے بطور قرض وصول کرے تو بينک Client

سے مطالبہ کرے اور بينک یہ بھی کرسکتا Client کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسی بيرونی کرنسی کا کے client لے کر اپنے اس حق کو چھوڑ دے یا یہ کہ اس غیر مُلکی کرنسی کو Comission ہے کہ ملک کی مقامی کرنسی ميں ہی کچھ زیادہ قيمت پر تبدیل کرلے۔

٣) یہ کہ کوئی شخص اپنے شہر ميں موجود بينک کو رقم دے تاکہ اسی کے برابر رقم اندرون مُلک یا بيرون ملک موجود اس بينک سے حساب و کتاب رکھنے والے بينک سے وصول کرسکے مثلاً رقم نجف اشرف ميں بينک ميں جمع کروائے تاکہ بغداد ميں وصول کرسکے یا شام و لبنان یا کسی اور ملک ميں وصول کرسکے اور بينک اسی کام کے لئے کچھ پےسے زیادہ لے تو یہ بينک کا کام اور مذکورہ رقم کا لینا جائز ہے اور کچھ رقم زیادہ لینے کا صحيح ہونا اس اعتبار سے ہے کہ قرض ميں حرام سود وہ اضافی رقم ہے جو قرض ہے اور جسے قرض دینے والا مقروض سے ليتا ہے ليکن اگر مقروض، قرضہ دینے والے سے اضافی رقم لے تو جائز ہے اور اگر وہ دونوں الگ الگ کرنسياںہوں مثلاً ایر انی تومان اور عراقی دینار تو بينک یہ بھی کر سکتا ہے کہ فارن کرنسی کو کچھ زیادہ قيمت پر لوکل کرنسی ميں کو بيچ دے ۔ client

۴) يہ کہ کوئی شخص بينک کی کسی ایک برانچ سے کوئی رقم لے اور بينک سے درخواست کرے کہ وہ کسی دوسری برانچ ميں اس رقم کی ادائیگی کرے گا، جب کہ اس سلسلے ميں بينک نے نہ درخواست کی تھی نہ ہی اسے ضروری قراردیا تھا اور بينک اس درخواست کو قبول کرنے کے لئے ایک مخصوص رقم اس شخص سے لے تو اس اضافی رقم کا لینا ان دو طریقوں ميں سے کسی ایک طریقے سے جائز ہے ۔

الف) اگر وہ دو رقم دو جنس سے ہوں مثلاً يہ کہ کوئی شخص بينک سے ایر انی ریال لے اور اس کے عوض ميں بينک اس سے ایر انی ریال کے علاوہ کسی دوسری کرنسی ميں رقم وصول کرے۔اس صورت ميں بينک اس شخص سے اس فارن کرنسی کو ایک اضافی رقم کے ساته اس رقم سے تبدیل کرے گا جو اسے دی تھی۔

۴۷۱

ب)چونکہ بينک پر شرعاً ضروری نہيں ہے کہ جو رقم اسے دی تھی وہ کسی دوسرے مقام پر اس سے وصول کرے اور بينک کو يہ حق حاصل ہے کہ اس شخص کی درخواست کو قبول نہ کرے پس وصول کرسکتا ہے ۔ comission بينک اپنے اس حق سے دستبرداری کے سبب اس شخص سے مسئلہ ٢٨ ۶ ٠ بينک ڈرافٹ کی مختلف اقسام اور ان کی فقهی موضوعات پر تطبیق کے سلسلے ميں جو کچھ بيان ہوا وہ تمام احکام لوگوں کے بارے ميں بھی جاری ہوں گے مثلاً يہ کہ کوئی شخص کسی ودسرے شخص کو کسی مقام پر رقم دے تاکہ کسی دوسرے مقام پر وهی رقم یا اس کے برابر رقم وصول کرسکے اور وہ دوسرا شخص کچھ رقم اضافی لے یا يہ کہ کسی شخص سے کسی مقام پر کچھ رقم لے اور اس کے برابر رقم اضافی رقم کے ساته کسی دوسرے شہر یا ملک ميں ادا کرے۔

مسئلہ ٢٨ ۶ ١ اس سلسلے ميں فرق نہيں ہے کہ حوالہ کرنے والا جس شخص یا بينک کی طرف حوالہ کررہا ہو اس کے پاس اس کی رقم ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں ميں حوالہ کرنا صحيح ہے ۔

بينک کے انعامات

a/c بعض اوقات بينک لوگوں کو اس بات کا شوق و ترغيب دلانے کے لئے کہ وہ بينک ميں اپنا زیادہ مقدار ميں رقم بينک ميں جمع کروائيں، کسی انعام کا a/c holders کھوليں یا بينک کے موجودہ اعلان کرتے ہيں جو قرعہ اندازی کے ذریعے اس شخص کو دیتے ہيں جس کے نام قرعہ نکل آئے۔

مسئلہ ٢٨ ۶ ٢ بينک کے انعامات کی دو قسميں ہيں :

١) يہ کہ قرعہ اندازی بينک پر لازم نہ ہو بلکہ وہ فقط شوق دلانے کی خاطر قرعہ اندازی کررہا ہو۔ ایسی صورت ميں يہ قرعہ اندازی والا طریقہ جائز ہے اور جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ انعام لے سکتا ہے اگرچہ بينک کے سرکاری یا مشترکہ ہو نے کی صورت ميں احتياط یہ ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے انعام ليا جائے۔

٢) يہ قرعہ اندازی شرط کے طور پر ہو اوربينک پر لازم ہو اور بينک اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے قرعہ اندازی کروائے کہ ایسی صورت ميں قرعہ اندازی کا عمل جائز نہيں ہے اور جس کے نام قرعہ نکل آئے اس کے لئے انعام لینا بھی جائز نہيں ہے ۔

بينک کا پرونوٹ ( ١)کی وصولی اور اسے کےش کرنا

کے پرونوٹ Clients یا Account Holders يہ بھی ہے کہ وہ اپنے service بينک کی ایک وصول کرتا ہے ۔ اس کی کيفيت یہ ہوتی ہے کہ بينک ادائیگی کے مقررہ وقت سے پهلے پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص کو بينک ميں اس پرونوٹ کی موجودگی،اسکا سیر یل نمبر اس کی رقم کی مقدار اور ادائیگی کے مقررہ وقت کے بارے ميں اطلاع دیتا ہے تاکہ وہ

۴۷۲

مقررہ وقت پر ادائیگی کے لئے کے اکاؤنٹ ميں Client تيار ہوجائے اور بينک پرونوٹ کی وصولی کے بعد، اس ميں موجود رقم اپنے کے لئے بينک service منتقل کردیتا ہے یا نقدکی صورت ميں اسے ادا کردیتا ہے اور اس وصول کرتا ہے ۔ Comission جو چيک بينک کے پاس رکھوائيں انہيں وصول clients يہ بھی ہے کہ service بينک کی ایک کرتا ہے ،اور بينک اس سرویس کے عوض کميشن ليتا ہے ۔

کی چند صورتيں ہيں : Comission مسئلہ ٢٨ ۶ ٣ پرونوٹ کی وصولی اور ١)پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص کی بينک ميں رقم جمع ہے اور اس پرونوٹ ميں لکھا ہوا ہے کہ قرض خواہ وقت مقررہ پر بينک سے رابطہ کرے گا اور بينک پرونوٹ کی رقم قرض دار کے اکاؤنٹ سے نکال کر قرض خواہ کو بصورت نقد ادا کرے گا یا قرض خواہ کے اکاؤنٹ ميں منتقل کردے گااور اس کام کا مطلب يہ ہے کہ پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص نے اپنے قرض خواہ کو بينک کے حوالہ کردیا ہے اور چونکہ اس کی بينک ميں رقم جمع ہے اور بينک اس کی مقروض ہے لہٰذا حوالہ صحيح ہے اور بينک کے قبول کرنے کی ضرورت نہيں ہے ۔اس صورت ميں جبکہ بينک قرض لینا جائز نہيں ہے ۔ Comission کی رقم ادا کررہا ہے اس کے لئے ٢)پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص کی بينک ميں کوئی رقم جمع نہ ہو اور بينک اس کا مقروض نہ ہو ا ور وہ پرونوٹ کی رقم کو بينک کی طرف حوالہ کرے تو اس کام کا مطلب یہ ہے کہ یہ حوالہ بری الذمّہ شخص یعنی وہ شخص جو حوالہ کرنے والا کا مقروض نہيں ہے ،کی طرف ہے ۔ یہ حوالہ جائز ہے اور بينک اس حوالہ کو قبول کرتا ہے اور اس کی رقم کی ادائیگی کرتا ہے اور حوالہ قبول کرنے کے عوض پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص سے کمےشن وصول کرتا ہے اور يہ لینا بھی جائز ہے ۔ Comission خود اپنے پرونوٹ کو جو کسی جانب سے حوالہ نہيں ہوا ہے رقم کی Account Holder (٣وصولی کے لئے بينک کے سپرد کرے اور اس کام کو جعالہ کے عنوان سے انجام دیا جاسکتا ہے اور جُعل یعنی وہ چنر جو جعالہ ميں عوض کے طور پر قرار دی جاتی ہے کے عنوان سے کمےشن کی وصولی بھی جائز ہے بشرطیکہ بينک کی مداخلت فقط قرضہ کی رقم کی وصولی کے لئے ہو ليکن اگر کو بھی قرار دیا گيا ہو تو بينک ایسا کام نہيں کرسکتا۔ down payment اس قرضہ پر سود اور

فارن کرنسی کی خريدوفروخت

مسئلہ ٢٨ ۶۴ فارن کرنسی کی خریدوفروخت مثلاً دینار کو تومان کے عوض بيچنا، خواہ قيمت خرید سے زیادہ، کم یا مساوی قيمت پر بيچاجائے، جائز ہے اور اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کہ سودا فوری نوعيت کا ہو یا مدت دار ہو۔

۴۷۳

Current Account

جس شخص کا بينک ميں کرنٹ اکاؤنٹ ہو اور اُس نے اپنے اکاؤنٹ ميں رقم جمع کروائی ہو، اسے بينک ميں اپنی موجودہ رقم کی حد تک رقم نکالنے کا حق ہے ، ليکن بعض اوقات بينک اپنے پر اعتماد کی وجہ سے اس کے حساب ميں رقم نہ ہونے کے باوجود بھی ایک معين Account Holder کها جاتا ہے اور بينک اس معين رقم کو قرض دے over draft رقم نکالنے کی اجازت دیتا ہے اور اسے کر منافع حاصل کرتا ہے ۔ يہ قرض دینا اورفائدہ لینا جائز نہيں ہے ۔

پرونوٹس (هنڈی) کی خريدوفروخت

کسی بھی چيز کی ماليت دو ميں سے کسی ایک سبب کی بنا پر ہوتی ہے :

١)وہ چيز ایسے فوائد اور خصوصيات کی حامل ہو جس کے باعث عقلا اس کی طرف رغبت کریں جےسے کھانے پینے اور پهننے اوڑھنے کی چيزیں۔

٢) کوئی ایسی ذات جو خود صاحبِ اعتبار ہواس چيز کے لئے ماليت کااعتبار کرے، جيسے جن کے لئے حکومتيں ماليت کا اعتبار کرتی ہيں ۔ stamp کرنسی نوٹ اور مسئلہ ٢٨ ۶۶ بيع (خریدو فروخت)اور قرض ميں موضوع اور حکم کے اعتبار سے چند فرق ہيں :

١)موضوع کے اعتبار سے بيع یہ ہے کہ کسی عين کو اضافے ميں عوض کے ساته تبدیل کر دیا جائے، چاہے وہ اضافہ ملکيت ہو یا حق۔ جب کہ قرض یہ ہے کہ کسی عين کو مقروض کی ملکيت ميں دے دیا جائے اور مقروض اس عين کے مثلی ہونے کی صورت ميں اس کی مثل کا اور قيمی ہونے کی صورت ميں اس کی قيمت کا ضامن ہوتا ہے ۔

جبکہ احکام کے اعتبار سے بھی ان دونوں ميں کچھ فرق ہيں جن ميں سے چند کی طرف اشارہ کيا جارہا ہے :

١)بيع اور قرض ميں سود کا معيار الگ ہے ۔ قرض ميں کسی طرح کے اضافے کی بھی شرط لگائی جائے وہ سود اور حرام ہے ۔ جبکہ بيع ميں سود یہ ہے کہ خریدی اور بيچی جانے والی چيز ایک ہی جنس سے ہوں اور انہيں وزن یا پيمانے سے بيچا جائے، تو جو اضافہ ہوگا وہ سود اور حرام ہوگا۔

لہٰذا اگر ایک جنس سے نہ ہوں یا انہيں پيمانے یا وزن سے نہ بيچا جائے تواضافی مقدار حرام نہ ہوگی، جيسے وہ اجناس جنہيں گن کربيچا جاتا ہے ۔

٢)اگر بيع ميں سودی معاملہ ہو تو معاملہ باطل ہوجاتا ہے اور عين و عوض ایک دوسرے کی ملکيت ميں منتقل ہی نہيں ہوتے جبکہ قرض ميں سودی قرض کے باوجود قرض باطل نہيں ہوتااور قرض لينے والا، قرض کے طور پر لی ہوئی مقدار کا مالک بن جاتا ہے ۔ ہاں، قرض خواہ اس شرط شدہ اضافی مقدار کا مالک نہيں بنتا۔

۴۷۴

مسئلہ ٢٨ ۶ ٧ تمام کاغذی نوٹ مثلاً عراقی دینار، امریکن ڈالر، روپيہ وغيرہ ماليت رکھتے ہيں ، اس اعتبار سے کہ ہر ملک کی طرف سے ان کے ملک ميں رائج کرنسی نوٹوںکے لئے ماليت کا اعتبار کر دیاگيا ہے جو پورے ملک ميں قابل قبول اور رائج ہوتا ہے اور اسی لئے ان نوٹوں کو ماليت مل جاتی ہے ۔ جبکہ یہ ممالک جب چاہيں ان نوٹوںکو ماليت اور اعتبار سے گرا سکتے ہيں ۔

یہ بھی طے ہے کہ یہ نوٹ وزن یا پيمانے سے فروخت نہيں ہوتے ہيں ۔ اسی لئے بعض فقهاءرضوان الله تعالی عليهم نے فرمایا ہے کہ:” ان نوٹوں کو انہيں کے جنس کی نوٹوں سے اضافے کے ساته عوض کرنا بھی جائز ہے ۔ اسی طرح ان نوٹوں کو جب کہ یہ کسی کے ذمے قرض کی صورت ميں ہوں، کم یا زیادہ نقد پر بيچنا بھی جائز ہے “۔ليکن اعتباری ماليت والی چيزوںکا معاملہ جنہيں گن کر خرید وفروخت کياجاتاہے ، اگر اسی کی جنس سے کم یا زیادہ پر بيچا جائے، محل اشکال ہے ۔

هاں، اگرکم مقدار کا مالک زیادہ مقدار کے مالک سے اس بات پر مصالحت کرلے کہ زیادہ مقدار والا اپنی مقدار اسے بخش دے اور وہ بھی اپنی کم مقدارزیادہ مقدار والے کو بخش دے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔مثلاً نوسو روپے کا مالک مصالحت کی نيت سے ہزار روپے والے سے کهے:”ميں تم سے اس بات پر مصالحت کرتا ہوں کہ تم ہزار روپے مجھے بخش دو اور ميں نوسو روپے تمہيں بخش دوں“۔

مسئلہ ٢٨ ۶ ٨ ریال والے پرونوٹ جو لوگوں اور تاجروں ميں رائج ہيں اور ان سے معاملہ بھی کياجاتا ہے ، یہ کرنسی نوٹ کی طرح نہيں ہيں جن کے خود کے لئے ماليت کا اعتبار کياگيا ہو، بلکہ یہ ایک طرح سے اس قرضے کی سند کے طور پر ہوتا ہے جو پرونوٹ پر سائن کرنے والے ذمہ دار شخص کے ذمے واجب الادا ہوتا ہے ۔ لہٰذا جب خریدار، بيچنے والے کو پرونوٹ دیتا ہے تو حقيقتاً اس نے خریدی ہوئی چيزکی قيمت نہيں دی ہوتی ہے ، اسی لئے اگریہ پرونوٹ بيچنے والے کے پاس جل جائے یا گم ہوجائے تو بيچنے والے کا کچھ بھی مال ضائع نہيں ہوا ہے اور خریدار بھی بری الذمہ نہيں ہوجاتا۔

جبکہ اگر قيمت کے طور پر کرنسی نوٹ دئے ہوتے اور بيچنے والے کے پاس سے گم ہوگئے ہوتے تو یهی مانا جاتا کہ اسی کا نقصان ہوا ہے اور وهی اس کا ذمہ دار ہے ۔

مسئلہ ٢٨ ۶ ٩ پرونوٹ کی دو اقسام ہيں :

١)وہ جو واقعی قرض کا ثبوت ہو۔ یعنی پرونوٹ پر سائن کرنے والا شخص پرونوٹ ميں لکھی ہوئی مقدار کا واقعاً مقروض ہو اور پرونوٹ در حقيقت اس کے لئے ایک سند کی مانند ہو۔

٢)در حقيقت کوئی قرض نہ ہو بلکہ اس کی صرف ایک کاغذی حيثيت ہو۔

۴۷۵

پهلی صورت ميں جبکہ پرونوٹ کا مالک اس پرونوٹ کی بنياد پر ایک مدت دار قرض کا قرض خواہ ہے ، وہ اس پرونوٹ کو اس صورت ميں اس کی اصل مقدار سے کم یا زیادہ پر بيچ سکتا ہے کہ جب کہ کرنسی مختلف ہو یعنی روپے کو ڈالر ميں بيچا جارہا ہو اور خود قيمت کو ادهار نہ رکھا جا رہا ہو۔ليکن اگر کرنسياں مختلف نہ ہوں مثلاً روپے کے پرونوٹ کو روپے اور ڈالر کے پرونوٹ کو ڈالر کے عوض بيچا جا رہا ہو تو اس کا جائز ہونا محل اشکال ہے ۔هاں، اگر مسئلہ نمبر ٢٨ ۶ ٧ ميں بيان کئے گئے طریقے کے مطابق مصالحت کا معاملہ کيا جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

دوسری صورت ميں جو کہ کاغذی پرونوٹ ہے ، پرونوٹ کا مالک اسے کسی اور کے ہاتھ نہيں بيچ سکتااس لئے کہ پرونوٹ سائن کرنے والے کے ذمے حقيقتاً کوئی قرض واجب الادا نہيں ہے ، بلکہ یہ پرونوٹ اس لئے دیا گيا ہے کہ پرونوٹ کا مالک اس سے فائدہ اٹھ ا سکے۔ اس طرح کے پرونوٹ سے شرعی اعتبار سے فائدہ اٹھ انے کا طریقہ یہ ہے کہ پرونوٹ سائن کرنے والا شخص اس شخص کو وکالت دے جسے اس نے پرونوٹ لکھ کر دیا ہے ، کہ پرونوٹ کی مقدار کو جو مثلاً ۵ ٠ امریکی ڈالر ہے اور جو ٣٠٠٠ روپئے کے برابر ہے ، اس کی ماليت سے کم مقدار مثلاً ٢ ۵ ٠٠ روپئے پر پرونوٹ سائن کرنے والے کے کھاتے ميں بينک کو بيچ دے اوراس کے پاس یہ وکالت بھی ہو کہ ان ٢ ۵ ٠٠ پاکستانی روپوں کو اس سائن کرنے والے کی طرف سے اپنے آپ کو پھر سے ۵ ٠ امریکی ڈالر کے عوض بيچ دے۔ اس کا نتيجہ یہ ہوگا کہ پرونوٹ کا مالک ، پرونوٹ سائن کرنے والے کا اتنی مقدار ميں مقروض ہوجائے گا جتنی مقدار ميں پرونوٹ سائن کرنے والا بينک کا مقروض بنا ہے ، یعنی ۵ ٠ امریکی ڈالر۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بينک پرونوٹ کے مالک کو پرونوٹ ميں لکھی ہوئی مقدارقرض دے دے اور پرونوٹ کے طور پر service charges کا مالک بينک کی جانب سے کسی پيشگی شرط کے بغير کچھ مقدار بينک کے رجسٹر ميں لکھی ہوئی مقدار کے مطابق اس وقت ادا کرے جب وہ یہ قرضہ لوٹائے گا۔ ليکن کی چاہے ضمنی طور پر ہی سهی شرط لگائی گئی ہو تویہ سودی قرضہ بن service charges اگر ان جائے گا۔وہ شخص جس نے پرونوٹ کی ذمہ داری لی تھی پرونوٹ سے فائدہ اٹھ انے والے شخص سے رجوع کرسکتا ہے اور تمام پرونوٹ کی رقم لے سکتا ہے کيونکہ فائدہ اٹھ انے والے شخص نے بينک کو پرونوٹ کی ذمہ داری والے شخص کے لئے حوالہ دیا ہے ۔

Bank Service

بينکنگ کے کاروبار کی دو قسميں ہيں :

١)ایسے کام جن کا تعلق سودی معاملات سے ہے ۔ ایسے کاموں ميں حصہ لينا جائز نہيں ہے اور ميں نوکری کر رہا ہے تو وہ اس کام کے لئے تنحواہ نہيں department اگر کوئی شخص کسی ایسے لے سکتا۔

۴۷۶

٢)ایسے کام جن کا سود سے کوئی تعلق نہيں ہے ۔ ان کاموں کے انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے اور اس کی اجرت لينا بھی جائز ہے ۔

بيمہ کے احکام

بےمہ، در حقيقت کمپنی اور پالےسی ہولڈر کے مابین اس بات پر معاہدہ ہوتا ہے کہ پالےسی ہولڈر، بےمہ کمپنی کو مال کی ادائیگی کرے گا خواہ وہ خودِ مال ہو یا کسی چيز کی منفعت ہو یا کوئی کام کاج کی صورت ميں ہو اور اسی طرح خواہ اس کی ادائیگی ےکمشت ہو یا اقساط کی صورت ميں ہو اور اس کے عوض بےمہ کمپنی معاملہ کی طے شدہ صورت کے مطابق اسے یا کسی اور کو پهنچنے والے نقصان کی ادائیگی کی ذمہ دار ہوگی۔

مسئلہ ٢٨٧٠ بےمہ کی کئی قسميں ہيں جےسے زندگی کا بےمہ،سلامتی کا بےمہ،مال کا بےمہ اور چونکہ ان تمام قسموں کا حکم ایک ہے لہٰذا انواع و اقسام کے بيان کی ضرورت نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٨٧١ بےمہ معاملات ميں سے ہے اور ایجاب و قبول سے ثابت ہوجاتا ہے مثلاً يہ کہ بےمہ کرنے والا کهے:”ميں ا س بات کا پابند ہوں کہ اتنی مقدار ميں مال کی ادائیگی کی صورت ميں (تمهاری) جان یا مال کو پهنچنے والے نقصان کا ازالہ کروں گا“ اور وہ شخص جو بےمہ کروانا چاہتا ہے کهے کہ: ”ميں نے قبول کيا“ یا یوں کہ بےمہ کروانے والا کهے: ”ميں اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ جان و مال کے نقصان کے ازالہ کے بدلہ ميں معين مقدار ميں مال کی ادائیگی کروں گا“ اور بےمہ کرنے والا قبول کرے۔

یہ معاملہ بھی دوسرے معاملات کی مانند قول و عمل، دونوں سے ثابت ہوجاتا ہے اور اس معاملے ميں معاملات کے عمومی شرائط جےسے بالغ اور عاقل ہونا،ارادہ ہونا، زبردستی کا نہ ہونا،معاملہ کے طرفین کا سفيہ یا مفلس نہ ہونا، معتبر ہيں ۔یہ بھی ضروری ہے کہ جس چيز کا بےمہ کيا جائے مثلاً جان یا مال اور جان یا مال کا بےمہ جن ممکنہ خطرات سے کيا جارہا ہو، معين ہوں۔ اسی طرح مال کی ادائیگی اگر اقساط کی صورت ميں ہو تو ماہانہ یا سالانہ قسط اور بےمہ کی ابتدا اور انتها کا وقت بھی معين ہو۔

مسئلہ ٢٨٧٢ بيمہ کی تمام قراردادوں کی اقسام کو بيمہ کرنے والے کی طرف سے اس بات کی ذمہ داری لينا کہ بيمہ ہونے والے کو نقصان کی صورت ميں وہ ادائيگی کا پابند رہے گا کرسکتے ہيں گرچہ احتياط یہ ہے کہ جو بيمہ ہوا ہے وہ معين مال کو بيمہ کرنے والے سے اس بات کی شرط کرتے ہوئے کہ نقصان کی صورت ميں وہ ادائيگی کرے گا صلح کرے اور بيمہ کرنے والے پر نقصان کا جبران کرنا واجب ہوجائے گا، اور اسی طرح جب معين مال بيمہ کرنے والے کی طرف سے عين ہو بيمہ کی قرار داد کو نقصان کی صورت ميں بيمہ کرنے والے کی ادائيگی کو هبہ مشروط قرار دیا جاسکتا ہے کہ بيمہ کرنے والے پر اس شرط کی پابندی واجب ہے ۔

۴۷۷

مسئلہ ٢٨٧٣ عقد بيمہ نقصان کی صورت ميں صلح ہو یا هبہ مشروط، خسارت کی صورت ميں اگر بيمہ کرنے والا ادائيگی نہ کرے اور شرط پر عمل نہ کرے،تو بيمہ ہونے والا شرط کی مخالفت ہونے کی صورت ميں اختيار رکھتا ہے کہ صلح یا هبہ کو فسخ کرے اور جو کچھ پهلے بيمہ کی اقساط ادا کرچکا ہے واپس لے لے۔

مسئلہ ٢٨٧ ۴ بيمہ کی قرار داد کے مطابق بيمہ ہونے والا اگر قسطوں کو ادا نہ کرے تو بيمہ کرنے والے پر خسارت کا ازالہ کرنا واجب نہيں اور بيمہ ہونے والا جن اقساط کی ادائيگی کرچکا ہے ان کو واپس لينے کا حق نہيں رکھتا۔

مسئلہ ٢٨٧ ۵ بيمہ کی قرار دار صحيح ہونے کے لئے معين مدت معتبر نہيں ہے کہ یک سالہ ہو یا دوسالہ بلکہ جو قرار داد ان دونوں کے درميان ہوئی ہے مدت اسی کے تابع ہے ۔

مسئلہ ٢٨٧ ۶ اگر چند سرمایہ گذار کسی کمپنی کی بنياد رکہيں اور ان ميں سے سب یا کوئی ایک سرمایہ گذار شرکت کی قرار داد کے ضمن ميں دوسروں پر شرط رکھے کہ اگر اس کو جانی یا مالی معينہ خسارت ہو اور حادثہ کی نوعيت تعيين کرے، حادثہ کے وقوع کی صورت ميں جب تک شرکت کی قرارداد باقی ہو واجب ہے کمپنی اس شرط پر عمل کرے اور اس کی خسارت کا ازالہ اپنے فائدہ سے کرے۔

پگڑی کے احکام

رائج معاملات ميں سے ایک پگڑی ہے اور پگڑی يہ ہے کہ کرائے پر حاصل کی ہوئی چيز کو خالی کرنے اور اسے کسی اور کے حوالے کرنے کا حق مستاجر کے پاس ہو یا کرايہ زیادہ کرنے اور کرائے پر دی ہوئی چيز کو واپس لینے کا حق مالک کو نہ ہو۔

مسئلہ ٢٨٧٧ اس معاملہ کا صحيح ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ مستاجر کے لئے کوئی حق ثابت ہو اور يہ حق مکان اور دوکان کرائے پر لینے سے حاصل نہيں ہوتا ہے اگرچہ اجارے کی مدت طویل ہو یا کاروبار و کام کی نوعيت یا مستاجر کی شخصيت اس جگہ کی قيمت یا اس ميں لوگوں کی توجهات کے اضافے کا باعث بنتی ہو اگرچہ عرف اور حکومتی قانون کی نگاہ ميں مستاجر کو حقدارسمجھا جاتاہے ليکن یہ صحيح نہيں ہے اس طریقہ سے اجارے پر لی ہوئی چيز ميں اجارے کی مدت ختم ہونے کے بعد مستاجر کا ہر تصرف حرام ہے اور مستاجر کے ہاتھ ميں يہ چيز اور اس کے تمام فائدے ظلم کے عنوان سے ہيں اور وہ اس کا ضامن ہے اور مستاجر کا اس جگہ کو کسی دوسرے شخص کو کرائے پر دینا فضولی ہے اور اگر مالک اس کی اجازت نہ دے توفاسد ہے ۔

البتہ شرط مشروع کے ذریعے اس حق کو مستاجر کے لئے ثابت کيا جاسکتا ہے ۔ جےسے عقد اجارہ کے ضمن ميں شرط کردی جائے، چاہے اجارے پر دینے والا شرط قبول کرنے کے لئے رقم وصول کرے یا نہ کرے، کہ اجارہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس جگہ کو اسی مستاجر کو یا جسے مستاجر معين کرے اور اسی طرح ہر اس مستاجر کو جسے اس پهلے والے مستاجر نے معين کيا ہو، کو پهلے والے کرائے پر اجارہ دے گا۔ تو اس صورت ميں حق شرط کے تقاضے کے مطابق ہر کرائے دار پگڑی لے کر اس جگہ کو چھوڑ سکتا

۴۷۸

ہے اور موجر کو شرط پوری کرنے کے وجوب کے تقاضے کے مطابق يہ حق نہيں پهنچتا ہے کہ وہ پهلے مستاجر کو یا جس کو اس نے معين کيا ہو یا ہر وہ مستاجر جسے پهلے والے مستاجر نے معين کيا ہو، کو کرائے پر دینے سے روک لے۔

مسئلہ ٢٨٧٨ اگر عقد اجارہ ميں شرط رکھی جائے کہ مستاجر پرانے کرائے پر اجارہ کی تجدید کرکے جب تک چاہے رہ سکتا ہے تو مستاجر گھر خالی کرنے کے لئے پگڑی لے سکتا ہے اگرچہ موجر پابند نہيں ہے کہ پگڑی دینے والے کو کرائے پر دے۔

قاعدہ الزام کی بعض فروعات

مسئلہ ٢٨٧٩ اہل سنت کے چند علما کے علاوہ اکثر کے نزدےک عقد نکاح کے صحيح ہونے کے لئے گواہوں کا حاضر ہونا شرط ہے اور حنفی،حنبلی اور شافعی صيغہ نکاح کے اجرا کے وقت کو گواہوں کے حاضر ہونے کا وقت مانتے ہيں اور مالکی نے اس وقت کو دخول سے پهلے تک وسعت دی ہے ، جب کہ يہ شرط علمائے اماميہ کے نزدےک معتبر نہيں ہے لہٰذا اگر کوئی سنّی شخص جو اپنے مشهور علما کا تابع ہو، گواہوں کی غیر حاضری ميں نکاح کرے تو اس کے مذهب کے مطابق یہ عقد باطل ہے اور وہ عورت اس کی بيوی نہيں بنی۔ اس صورت حال ميں شيعہ مذهب رکھنے والا مرد قاعدہ الزام کی رو سے اس عورت سے شادی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨٠ اہل سنت کے علما کے فتوے کے مطابق کوئی شخص ایک وقت ميں پهوپهی،بهتےجی اور خالہ ،بهانجی کو اپنی زوجيت ميں نہيں رکھ سکتا ہے اور وہ دونوں ميں سے کسی ایک سے شادی کرسکتا ہے ۔ لہٰذا اگر دونوں سے ایک ساته عقد کرے تو دونوں عقد باطل ہيں اور اگر ایک ساته نہ ہو تو دوسرا عقد باطل ہے ليکن علمائے اماميہ کے نزدےک پهوپهی یا خالہ کی اجازت سے دونوں کے ساته عقد صحيح ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی سنی پهوپهی اور بهتےجی یا خالہ اوربهانجی سے ایک ساته عقد کرے تو دونوں عقد باطل ہيں ا ور شےعہ قاعدہ الزام کی رو سے دونوں ميں سے کسی کے ساته بھی عقد کرسکتا ہے اور اگر دونوں عقد ایک ساته نہ ہوں تو شےعہ دوسری سے عقد کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨١ اہل سنت کے نزدےک جس یائسہ عورت یا نابالغ لڑکی کے ساته اس کے شوہر نے جماع کيا ہو اگر اسے طلاق دی جائے تو اس پر عدت رکھنا واجب ہے اگرچہ نابالغ لڑکی کے بارے ميں اہل سنت کے بعض علما تفصيل کے قائل ہيں ليکن مذهب تشےع ميں یائسہ اور نابالغ لڑکی پر طلاق کی صورت ميں عدت واجب نہيں ہے ۔

اس بنا پر اہل سنت پابند ہيں کہ عدت کے احکام کی رعایت کریں پس اگر یائسہ عورت یا نابالغ لڑکی سنّی سے شےعہ ہوجائے تو اس پر عدت رکھنا لازم نہيں ہے اور اگر طلاق رجعی ہو تو جائز ہے کہ عدت کے ایام کا نفقہ سنّی شوہر سے مانگے اور جائز ہے کہ ان ایام ميں دوسرے شخص سے عقد کرے۔ اسی طرح اگر سنی مرد شےعہ ہوجائے تو اس کے لئے طلاق شدہ یائسہ عورت اور نابالغ لڑکی کی بهن سے شادی کرنا جائز ہے جبکہ وہ مذهب اہل سنت کے مطابق ابهی تک عدت ميں ہيں ۔ اور اس پر عورت کے عدت کے احکام کا خيال رکھنا ضروری نہيں ہے ۔

۴۷۹

مسئلہ ٢٨٨٢ اگر سنی مرد دو عادل گواہوں کی غیر موجودگی ميں اپنی بیوی کو طلاق دے یا اپنی بیوی کے بدن کے کسی جزء مثلاً اپنی بیوی کی انگلی کو طلاق دے تو ان کے مذهب کے مطابق يہ طلاق صحيح ہے ليکن مذهب اماميہ کے مطابق باطل ہے اس بنا پر شےعہ مرد قاعدہ الزام کی رو سے اس طلاق یافتہ عورت کی عدت تمام ہونے کے بعد اس سے عقد کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨٣ اگر سنی مرد اپنی حائضہ بیوی کو طلاق دے یا ان طهارت کے دنوں ميں اسے طلاق دے جس ميں اس سے جماع کيا ہو تو اس کے مذهب کے مطابق يہ طلاق صحيح ہے ليکن مذهب اماميہ کے مطابق باطل ہے لہٰذا شےعہ مرد قاعدہ الزام کی رو سے عدت تمام ہونے کے بعد اس عورت سے عقد کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨ ۴ ابوحنےفہ اور اہل سنت کے بعض دوسرے فقهاء کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو زبردستی دهمکی کی وجہ سے طلاق دے تو ان کے مذهب کے مطابق يہ طلاق صحيح ہے ليکن مذهب اماميہ کے نزدےک باطل ہے ۔ لہٰذا جس عورت کو جبر و اکراہ کی وجہ سے طلاق دی گئی ہو اور وہ عورت ابوحنےفہ یا اس کے ہم نظريہ لوگوں کی پیر وکار ہو تو شےعہ مر دقاعدہ الزام کی رو سے عدت تمام ہونے کے بعد اس عورت سے شادی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨ ۵ اگر کوئی سنی مرد قسم کھائے کہ ميں فلاں کام نہيں کروں گا اور انجام دیا تو میر ی بیوی مطلقہ ہوجائے گی تو اگر يہ کام انجام دے تو اس کے مذهب کے مطابق اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی اور شےعہ مذهب کے نزدےک طلاق والی قسم منعقد نہيں ہوتی۔ لہٰذا قاعدہ الزام کی رو سے شےعہ مرد کے لئے عدت تمام ہونے کے بعد اس عورت سے شادی کرنا جائز ہے ۔ اسی طرح مذهب اہل سنت ميں لکھ کر طلاق دینا جائز ہے اور شےعہ مذهب ميں لکھ کر طلاق دینے سے واقع نہيں ہوتی۔ لہٰذا قاعدہ الزام کی رو سے جس عورت کو لکھ کر طلاق دی گئی ہو شےعہ مرد عدت ختم ہونے کے بعد اس سے شادی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨ ۶ ابن قدامہ کے نقل کے مطابق ابوحنےفہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چيز کو بيچنے والے کی جانب سے اس چيز کی خصوصيات سن کر خریدے جبکہ اس نے خود اس چيز کو نہ دےکها ہو اور پھر بعد ميں دےکهے تو اگرچہ وہ چيز ان خصوصيات کی حامل ہو جنہيں بيچنے والے نے بتایا تھا پھر بھی خریدار کے لئے خيار رویت ثابت ہے جبکہ مذهب اماميہ ميں اس مورد ميں خيار رویت نہيں ہے پس اس بنا پر اگر کوئی شےعہ کسی ابوحنےفہ کے پیر وکار بيچنے والے سے کوئی چيز اس طرح خریدے کہ وہ بيچنے والا اس کی خصوصيات کو بيان کرے اور يہ شےعہ دےکهے بغير خریدے اور پھر بعد ميں دےکهے تو قاعدہ الزام کی رو سے اس شےعہ کے لئے خيار رویت ثابت ہو جائے گا۔

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511