توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207759 / ڈاؤنلوڈ: 4351
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸

1135۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

1136۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

1137۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

1138۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

۱۹۹

1139۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

اوراگریہ نہ ہوں پدری چچااورپهوپهی کودیاجائے گاليکن احيتاط واجب کی بنا پرپانچ حصوں ميں سے ایک حصے ميں چچا و پهوپهی پدرو مادری یا پدری چچاوپهوپهی ،مادری چچاوپهوپهی سے مصالحت کریں اوراگرمادری چچااورپهوپهی دونوں ہوں تومال کے تين حصے کرکے دوحصے مادری وپدری چچاوپهوپهی کو اوراگریہ نہ ہوں توپدری چچاوپهوپهی کودئے جائيں گے اورایک حصہ مادری چچااورپهوپهی کودیاجائے گااورتمام صورتوں ميں پدری ومادری چچااورپدری چچا کو پدری ومادری یاپدری پهوپهی سے دگنا دیاجائے گااوراحتياط واجب یہ ہے کہ مادری چچااورپهوپهی ایک دوسرے کے ساته مصالحت کریں۔

مسئلہ ٢٨٢ ۴ اگرميت کے وارث صرف ایک ماموں یا ایک خالہ ہوں توسارامال انہيں ملے گا اوراگرماموں اورخالہ دونوں ہوں اورسب پدری ومادری یاپدری یامادری ہوں توبنا بر مشهورمال ان کے درميان برابرتقسيم کياجائے گا۔ليکن احتياط واجب ہے کہ خالہ اورماموں تقسيم ميں ایک دوسرے سے مصالحت کریں ۔

مسئلہ ٢٨٢ ۵ اگرميت کے وارث صرف ایک مادری ماموں یاخالہ اورپدری ومادری خالہ اورماموں ہوں اورپدری مادری ماموں وخالہ نہ ہونے کی صورت ميں پدری خالہ اورماموں ہوں تو مشهور یہ ہے :”مال کے چھ حصوں ميں سے ایک حصہ مادری ماموں یاخالہ کواورباقی پدری ومادری یاپدری خالہ اور ماموں کودیاجائے گااورجب مادری خالہ اورماموں دونوں ہوں تومال کے تين حصوں ميں سے ایک حصہ مادری ماموں اورخالہ کواوردوحصے پدری ومادری خالہ ،ماموں یا پدری خالہ اورماموں کودئے جائيں گے“۔ ليکن احتياط واجب ہے کہ دونوں صورتوں ميں مادری رشتہ دار، پدری رشتہ داروں سے اسی طرح ماموں اورخالہ بھی ایک دوسرے سے مصالحت کریں ۔

مسئلہ ٢٨٢ ۶ اگرميت کے وارث ایک یاچند ماموں یاایک یا چند خالہ یاماموں وخالہ اورایک یاچندچچایاایک یاچندپهوپهياں یاچچاوپهوپهياں ہوں تو مال کے تين حصوں ميں سے ایک حصہ ماموں یاخالہ یادونوں کو اور باقی چچا،پهوپهی یادونوں کوملے گا۔

مسئلہ ٢٨٢٧ اگرميت کے وارث ایک ماموں یاایک خالہ اورچچااورپهوپهی ہوں تواگرچچااورپهوپهی پدری و مادری یاپدری ہوتو مال کے تين حصوں ميں سے ایک حصہ ماموں یاخالہ کواورباقی دوحصہ مال کے تين حصہ کر کے دوحصے چچا کو اور ایک حصہ پهو پهی کو دیں گے لہذااس (ترکہ )مال کے نوحصے ہوںگے جن ميں سے تين ماموں یاخالہ کو اور چار حصے چچا کو اور دو حصے پهوپهی کو دیں گے ۔

مسئلہ ٢٨٢٨ اگرميت کے وارث ایک ماموں یا خالہ اورایک مادری چچا یا پهوپهی اور پدری و مادری یا پدری چچا اور پهوپهی ہوں توما ل کے تين حصے کرکے ایک حصہ ماموں یاخالہ کو دئے جائيںگے اور مشهوریہ ہے کہ:”باقی دو حصوں کے چھ حصے کرکے ایک مادری چچا یا پهوپهی کو اور باقی پدری ومادری یاپدری چچا و پهوپهی کو اس طرح دیں گے کہ چچا کو پهوپهی کا دگنا ملے۔ لہٰذا اگرمال کے نوحصے کریں توتين حصے ماموں یاخالہ کواورایک حصہ مادری چچا یا پهوپهی کواورباقی پانچ حصے پدری ومادری یا پدری چچا و پهوپهی کو دیں گے ليکن احتياط واجب ہے کہ پدری چچاوپهوپهی پانچویں حصے ميں مادری چچاوپهوپهی سے صلح کرليں ۔

۴۶۱

مسئلہ ٢٨٢٩ اگرميت کے ورثاء ميں کچھ پدری ومادری یاپدری یامادری ماموں اورخالہ ہوں اورچچااورپهوپهی بھی ہوں تومال کے تين حصوں ميں سے دوحصے چچاوپهوپهی کودیں گے اور اگرچچاوپهوپهی پدری ومادری یاپدری ہوں توچچاکوپهوپهی سے دگنا ملے گااوراگرمادری ہوں تواحتياط واجب کی بنا پرتقسيم ميں آپس ميں مصالحت کریں اورباقی ایک تھائی ماموں اورخالاو ںٔ کوملے گااوراحتياط واجب کی بنا پرتقسيم ميں مصالحت کریں ۔

مسئلہ ٢٨٣٠ اگرميت کے وارث مادری ماموں یاخالہ اورچندپدری ومادری ماموں یا خالہ یا پدری ماموں اور خالہ جبکہ پدری و مادری ماموں و خالہ نہ ہوں اور اس کے چچاو پهوپهی ہوں تومال کے تين حصے کرکے دوحصے سابقہ دستورکے مطابق چچااورپهوپهی کے درميان تقسيم ہوں گے اوربچاہواایک حصہ بھی سابقہ دستورکے مطابق تقسيم ہوگا۔

مسئلہ ٢٨٣١ اگرميت کے چچا،پهوپهی ،ماموں اورخالہ نہ ہوں توجومقدار چچا و پهوپهی کو ملتی ہے ان کی اولاد کو اور جو مقدار ماموں اورخالہ کوملتی ہے ان کی اولادکودی جائے گی ۔

مسئلہ ٢٨٣٢ اگرميت کے وارث اس کے باپ کاچچا،پهوپهی، ماموں ،خالہ اور اس کی ماں کاچچا، پهوپهی، ماموں اورخالہ ہوں تو مال کے تين حصے ہوں گے۔ مشهور یہ ہے کہ :”ان ميں سے ایک حصہ ميت کی ماں کے چچا،پهوپهی ،ماموں اورخالہ کے درميان مساوی تقسيم ہوگااورباقی دوحصوں کے تين حصے کرے ایک تھائی ميت کے باپ کے ماموں اورخالہ کے درميان برابرتقسيم ہوگااورباقی دوحصے ميت کے باپ کے چچااورپهوپهی کواس طرح دیں گے کہ چچاکوپهوپهی کادگنا ملے “۔ ليکن احتياط واجب ہے کہ ميت کی ماں کے چچا،پهوپهی ،ماموں اورخالہ اصل مال کے تيسرے حصے ميں ایک دوسرے سے مصالحت کریں ۔اوراسی طرح باپ کے ماموں اورخالہ دوتهائی کے تيسرے حصے ميں اورميت کے باپ کے چچااورپهوپهی ،تقسيم ميں مسئلہ نمبر ٢٨٢٣ کے طریقے کے مطابق عمل کریں ۔

مياں بيوی کی ميراث

مسئلہ ٢٨٣٣ اگربيوی مرجائے اور اس کی کوئی اولادنہ ہو تو آدها حصہ شوہر کو اور باقی دوسرے وارثوں کوملے گا اوراگر اس موجودہ شوہر یا دوسرے شوهرسے اولادهو توسارے مال کاچوتھائی حصہ شوہر کو اور باقی دوسرے ورثاء کو ملے گا۔

مسئلہ ٢٩٣ ۴ اگرمردمرجائے اوراس کی کوئی اولادنہ ہوتوما ل کاچوتھائی حصہ بيوی کواورباقی دوسرے ورثہ کوملے گا اور اگراس بيوی یا دوسری بيوی سے اولادهو تومال کاآٹھ واں حصہ بيوی اورباقی دوسرے ورثہ کو ملے گااوربيوی کو زمين، گهر، باغ، کهيتی اوردوسری زمينوں سے ميراث نہيں ملے گی اورنہ ہی ان کی قيمت سے اورزمين پربنی عمارت اوردرختوں سے ميراث ملے گی ليکن اگرباقی ورثہ عمارت اوردرخت کی قيمت دیناچاہيں توعورت کے لئے اسے قبول کرنا ضروری ہے اورباغ ،زراعت اوردوسری زمينوں پر موجود درخت، زراعت وعمارت کابهی یهی حکم ہے ۔

۴۶۲

مسئلہ ٢٩٣ ۵ جن چيزوں سے بيوی کوميراث نہيں ملتی جيسے گهرکی زمين، اگران ميں تصرف کرناچاہے توضروری ہے کہ دوسرے ورثہ سے اجازت حاصل کرے۔ اسی طرح دوسرے ورثہ عورت کے حصے، مثلاً عمارت اوردرخت ميں سے اس کاحق دئے بغير، چاہے اس حق کی قيمت ادا کرکے ہی سهی، بيوی کی اجازت کے بغيراس ميں تصرف نہ کریں۔

مسئلہ ٢٩٣ ۶ اگرعمارت، درخت اور ان جيسی چيزوںکی قيمت لگانا چاہيں تاکہ قيمت سے عورت کا حصہ ادا کيا جائے توفرض کياجائے کہ اگریہ چيزیں خراب ہونے تک اجارے پر دئے بغير، اس زمين ميں باقی رہيں تواس کی کياقيمت ہے ۔ اس قيمت سے عورت کاحصہ دیاجائے گا۔

مسئلہ ٢٩٣٧ کاریزے کے جاری ہونے کی جگہ اوران جيسی چيزیں زمين کے حکم ميں ہيں اوراینٹيں اوراس جيسی چيزیں جواس ميں استعمال کی گئی ہوں عمارت کے حکم ميں ہيں ۔

مسئلہ ٢٩٣٨ اگرميت کی بيویاں ایک سے زیادہ ہوں اوراولادنہ ہوتومال کاچوتھاحصہ اوراگراولادهوتوآٹھ واں حصہ سابقہ طریقے کے مطابق سب بيویوں ميں برابرتقسيم کياجائے گااگرچہ شوہر نے سب یابعض بيویوں کے ساته نزدیکی نہ کی ہو۔ ليکن اگراس نے مرض الموت ميں کسی عورت سے شادی کی ہواورنزدیکی کئے بغيرمرگياہوتواس عورت کوميراث اورمهردونوں نہيں مليں گے ۔

مسئلہ ٢٨٣٩ اگرعورت مرض الموت ميں شادی کرکے مرجائے توشوهرکواس سے ميراث ملے گی اگرچہ شوہر نے نزدیکی نہ کی ہو۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٠ اگربيوی کواحکام طلاق ميں گذری ہوئی ترتيب کے مطابق طلاق رجعی دے اوروہ عدت کے دوران مرجائے توشوهرکواس سے ميراث ملے گی اوراگرشوهرعدت کے دوران مرجائے تو بيوی کوبهی اس سے ميراث ملے گی ليکن اگرعدہ ختم ہونے کے بعدیاطلاق بائن کے عدہ ميں ان ميں سے کوئی مرجائے تودوسرے کوميراث نہيں ملے گی ۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ١ اگرشوهرنے مرض ميں بيوی کوطلاق دی ہواوربارہ قمری مهينہ گزرنے سے پهلے مرجائے توعورت کوتين شرائط کے ساته ميراث ملے گی :

١) اس مدت ميں شادی نہ کی ہواوراگرشادی کی ہوتواحتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ آپس ميں صلح کریں۔

٢) شوهرسے انس نہ ہونے کی وجہ سے اسے طلاق دینے کے لئے مال نہ دیاہوبلکہ اگر کچھ مال نہ بھی دیا ہو ليکن طلاق بيوی کے تقاضے کی وجہ سے ہوتوبهی اسے ميراث ملنامحل اشکال ہے ۔

٣) شوهرنے جس مر ض ميں عورت کوطلاق دی ہواس مرض کے دوران ،اس مرض یا کسی اوروجہ سے مرجائے لہذا وہ اگراس مرض سے صحت یاب ہوجائے یاکسی اوروجہ سے اس کا انتقال ہوجائے توبيوی کوميراث نہيں ملے گی ۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٢ شوهرنے اپنی بيوی کے پهننے کے لئے جوکپڑے مهياکئے ہوں وہ شوهرکے مرنے کے بعدشوہر کامال ہے ، اگرچہ بيوی ان کپڑوں کوپهن چکی ہو۔

۴۶۳

ميراث کے متفرق مسائل

مسئلہ ٢٨ ۴ ٣ اگرباپ مرجائے تو اس کا قرآن ،انگوٹھی ،تلواراورپهنے ہوئے کپڑے بڑے بيٹے کے ہيں ۔ اگرشروع والی تين چيزیں ایک سے زیادہ ہوں مثلادوقرآن یادوانگوٹھی تواحتياط واجب ہے کہ بڑابيٹاان ميں دوسرے ورثاء کے ساته مصالحت کرے۔ اسی طرح کتاب ،اونٹ کے پالان ،سواری کے اونٹ اورتلوارکے علاوہ باقی اسلحہ ميں احتياط واجب یہ ہے کہ مصالحت کرے ۔

مسئلہ ٢٨ ۴۴ اگرميت کے ایک سے زیادہ بڑے بيٹے ہوں مثلادوبيویوں سے ایک ساته دوبيٹے پيداہوئے ہوں توسابقہ مسئلہ ميں جوچيزیں بيان ہوئی ہيں دونوں آپس ميں برابرتقسيم کریں گے ۔

مسئلہ ٢٨ ۴۵ اگرميت مقروض ہواوراس کاقرضہ مال کے برابریازیادہ ہوتوجن چيزوں کے بارے ميں بيان ہواکہ بڑے بيٹے کی ہيں ضروری ہے کہ ميت کے قرض ميں اداکر دی جائيں اوراگرقرض مال سے کم ہوتوضروری ہے کہ جوچيزیں بڑے بيٹے کوملتی ہيں ان سے قرض کوتناسب کے لحاظ سے اداکياجائے۔ مثلااگراس کے سارے مال کی ماليت ساٹھ روپے ہوں اوران ميں سے بيس روپے ان چيزوں کی ماليت ہوجوبڑے بيٹے کوملی ہيں اورقرض تيس روپے ہو تو ضروری ہے کہ بڑابيٹااپنے اختصاصی حصے ميں سے دس روپے قر ض کی بابت اداکرے ۔

مسئلہ ٢٨ ۴۶ مسلمان کوکافرسے ميراث ملتی ہے ليکن کافرکومسلمان سے ميراث نہيں ملتی ہے چاہے وہ مرنے والے کاباپ یابيٹا ہی کيوں نہ ہو۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٧ اگرکوئی اپنے رشتہ دار کو عمدا اور ناحق قتل کرے تو قاتل، مقتول سے ميراث نہيں پاتا ہے ۔ ليکن اگرخطا کرتے ہوئے قتل کرے مثلا اگر ہوا ميں پتّھر پھينکے اوراتفاقاًاس کے کسی رشتہ دارکولگ جائے اوروہ مرجائے تواس کوميراث ملے گی ليکن قتل کی دیت ميں سے ميراث لينامحل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٨ جب بھی ميراث تقسيم کرناچاہيں تواس بچے کے لئے جو شکم مادرميں ہوکہ اگرزندہ پيداہوتو اس کوميراث ملے گی۔ تو اگر شکم ميں ایک سے زیاد ہ بچوں کااحتمال نہ ہو توضروری ہے کہ ایک حصہ عليٰحدہ رکھاجائے اوراحتياط واجب کی بنا پرایک لڑکے کے حصہ کوعليٰحدہ رکھاجائے اورباقی مال کوورثہ آپس ميں تقسيم کریں ليکن اگر عقلائی احتمال اس بات کا ہو کہ پيٹ ميں ایک سے زیادہ بچے ہوں گے تو بنابر احتياط ضروری ہے کہ جتنا احتمال ہے اتنا حصہ عليحدہ رکھ دیا جائے اور باقی مال آپس ميں تقسيم کرليں مگر یہ کہ وثوق اوراطمينا ن ہوکہ محتمل کاحق ضائع نہيں ہوگاتواس صورت ميں وہ ایک سے زائدحصے کوآپس ميں تقسيم کرسکتے ہيں ۔

۴۶۴

ملحقات

بينک سے مربوط مسائل

بينک کی دو قسميں ہيں :( ١)اسلامی بینک( ٢)غیر اسلامی بینک اسلامی بينک کی تین صورتيں ہيں :

١) پرائيویٹ بینک

٢) سرکاری بینک

٣) سرکاری اور عوامی مشترکہ بینک اظہر يہ ہے کہ سرکاری اور مشترکہ بینکوں سے جائز معاملات کرنا صحيح ہے گرچہ احوط ہے کہ ان دونوں بینکوں سے رقم نکالنے اور اسے استعمال کرنے کے سلسلے ميں حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

مسئلہ ٢٨ ۴ ٩ اسلامی بینکوں سے سود و فائدہ کی شرط کے ساته قرض لینا یا انہيں قرض دینا سود اور حرام ہے ليکن انسان چند صورتوں پر عمل کرکے اپنے آپ کو سود سے بچا سکتا ہے مثلاً قرض لینے والا بينک یا اس کے وکيل سے کوئی چيز بازاری بهاؤ سے ایک خاص فيصد مثلاً ١٠ یا ٢٠ فيصد زیادہ قيمت پر خریدے اور يہ شرط رکھے کہ بينک اس کی مطلوبہ رقم ایک خاص مدت تک اسے بطور قرض دے گا یا مثلاً يہ کہ بينک یا اس کے وکيل کو کوئی چيز بازاری بهاؤ سے ایک خاص فيصد کمتر قيمت پر بيچے اور شرط رکھے کہ بينک اس کی مطلوبہ رقم ایک خاص مدت تک اسے بطور قرض دے گا۔

اسی طرح بينک کو قرضہ دینے کے سلسلے ميں بھی اسی طریقے پر عمل کرسکتا ہے مثلاً يہ کہ بينک کوئی چيز بازاری قيمت سے زیادہ پر اس شخص سے خرید لے یا کوئی چيز بازاری بهاؤ سے کم قيمت پر اسے بيچ دے اور يہ شرط رکھے کہ وہ شخص ایک خاص مدت تک بينک کو قرضہ دے گا۔

یهی نتائج اجارہ، مصالحت اور قرض کی شرط والے هبہ سے بھی حاصل کئے جاسکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٨ ۵ ٠ سابقہ مسئلہ ميں بيان ہوا کہ بينک کو قرض دینے کا حکم بينک سے قرض لینے کی مانند ہے اور اگر قرض کی قرارداد ميں سود وفائدہ کی شرط ہو تو يہ ربا اور حرام ہے اور اس سلسلے ميں جمع کروائی ہو یعنی ایسے اکاؤنٹ ميں جس Fixed Deposit Account ميں فرق نہيں ہے کہ رقم ميں پےسہ رکھوانے والا معاملے کے مطابق ایک خاص مدت تک اپنی رقم کو استعمال نہيں کرسکتا ہے یا ميں یعنی ایسے اکاؤنٹ ميں جس ميں پےسہ رکھوانے والا ہر وقت اپنی رقم کو Current Account

استعمال کرسکتا ہے البتہ اگر سود کی شرط نہ لگائے اور اپنے آپ کو سود کی رقم کا حقدار نہ سمجھے تو اگرچہ بينک اسے سود دے پھر بھی ایسے بينک ميں رقم رکھوانا جائز ہے ۔

۴۶۵

مسئلہ ٢٨ ۵ ١ غیر اسلامی بینکوں سے جن کا سرمايہ کافروں کا ہوتا ہے رقم لینے ميں کوئی حرج نہيں ہے چاہے سرمايہ سرکاری ہو یا پرائيویٹ اور اسی طرح ان ميں رقم رکھوانا اور سود لینا بھی جائز ہے ۔ اسی طرح سود کی رقم کو استنقاذ کے عنوان سے بھی لے سکتا ہے ۔

ايل سی (لیٹر آف کریڈٹ)

ایل سی کی دو قسميں ہيں برائے امپورٹ L/C ١) ایل سی جو شخص بيرونی ممالک سے کوئی چيز امپورٹ کرنا چاہے تو قواعد کے مطابق اس کے لئے کھولنے کے بعد بينک کی ذمہ L/C کھولے اور L/C ضروری ہے کہ اپنے ملک کی کسی ایک بينک ميں داری ہے کہ جب خریدار اور بيچنے والے کے درميان خط و کتابت یا خریدار کے ملک ميں موجود بيچنے والے نمائندے سے رابطہ کے ذریعے معاملہ واقع ہوجائے تو بيچنے والے کی جانب سے موصول شدہ رسید جو کہ جنس کی مقدار اور کوالٹی کے اعتبار سے تمام خصوصيات کو بيان کررہی ہو، Invoice

اس کی بابت بيچنے والے کو اسی کے ملک ميں موجود بينک کے ذریعے اتنی رقم کی ادائیگی کردے جس پر طرفین متفق ہوں اور اس اقدام کے ذریعے بينک خریدار سے اشياء کی پوری قيمت کا کچھ فيصد مثلاً ١٠ یا ٢٠ فيصد وصول کرے گا اور پھر بيچنے والے کو معاملہ پورا ہونے کی خبر دے گا تاکہ بيچنے والا جنس کی قيمت کی وصولی کے لئے ان اشياء سے متعلقہ دستاویز بينک کے سپرد کرے اور پھر بينک ان دستاویز کو تحویل ميں لینے کے بعد جو ان تمام خصوصيات کے مطابق ہوں جن پر کھلتے وقت اتفاق کيا تھا بيچنے والے کو پوری ادائیگی کردیگا۔ L/C طرفین نے ایل سی

٢)برائے ایکسپورٹ L/C ایل سی

جو شخص کسی چيز کو بيرون ملک ایکسپورٹ کرنا چاہے تو قواعد کے مطابق ضروری ہے کہ کھولے تاکہ بينک ایکسپورٹ کے L/C بيرون ملک موجود خریدار اپنے ملک کی کسی بينک ميں ایل سی کھولنے کے مذکورہ مراحل کو طے کرنے کے بعد ایکسپورٹ کرنے والے شخص سے L/C لئے ایل سی رابطہ کرے اور جنس کو خریدار کے اور اس کی قيمت کو بيچنے والے کے سپرد کرے۔

کھولنے کا طریقہ کار ایک L/C لہٰذا امپورٹ اور ایکسپورٹ کے سلسلے ميں بينک کے ایل سی ہی ہے ۔اور بعض اوقات چيز کا ایکسپورٹریا اس کا نمائندہ اور وکيل، امپورٹر سے معاملہ طے کرنے سے پهلے ہی اشياء کی دستاویزات کو جو اُن کی قسم،مقدار،کوالٹی اور دیگر مشخصات پر مشتمل ہوتی ہيں بينک کے سپرد کردیتا ہے اور بينک کو وکيل بناتا ہے کہ جو شخص بھی ان اشياء کو خریدنا چاہے ان دستاویزات کو اس کے سامنے پےش کرے اور اگر خریدار معين شدہ قيمت پر راضی ہوجائے تو اس سے کھولنے کا تقاضا کرے اور بينک بھی اسی ترتےب سے جسے بيان کيا گيا چيز کو خریدار L/C ایل سی کے اور قيمت کو بيچنے والے کے سپرد کرنے کے مراحل کو انجام دیتا ہے ۔

۴۶۶

L/C کا کھولنا اور بينک کے لئے ایل سی L/C کا کھولنا

مسئلہ ٢٨ ۵ ٢ بينک ميں ایل سی دیگر ذمہ داریوں کو انجام دینا جائز ہے ۔

کھولنے اور اس سے متعلقہ ذمہ L/C مسئلہ ٢٨ ۵ ٣ بينک کے لئے جائز ہے کہ وہ ایل سی کهلوانے والے سے وصول کرے۔ L/C داریوں کو انجام دینے کے لئے ایک مخصوص رقم کھولنا اور ایک مخصوص رقم کی وصولی کو چند موضوعات L/C شرعی اعتبار سے ایل سی پر تطبیق کيا جاسکتا ہے کہ ان ميں سے تین عناوین کو بيان کيا جارہا ہے ۔

کھولنے L/C کھولنے والا بينک کو ایل سی L/C ١) اجارہ کے عنوان سے ہو یعنی ایل سی L/C کے لئے اجير بنائے اور مطلوبہ جنس کی قيمت کا ایک خاص فيصد جس پر بينک اور ایل سی کھولنے والا متفق ہوں اجرت کے طور پر بينک کو ادا کرے۔

کھولنے والا بينک کے ساته طے کرے کہ L/C ٢) جعالہ کے عنوان سے ہو یعنی ایل سی کھولے تو وہ ایک مخصوص رقم بينک کو ادا کرے گا اور بينک ایل L/C اگر بينک اس کے لئے ایل سی کھولنے کے بعد حق رکھتا ہے کہ و ہ مخصوص رقم اس سے لے لے۔ L/C سی کھولی جائے، اس طرح سے کہ بينک درخواست شدہ L/C ٣) خرید وفروخت کے عنوان سے رقم کو فارن کرنسی کی صورت ميں جنس بيچنے والے کے مُلک کی کرنسی ميں اسے ادائیگی کرے گا کھولنے والے امپورٹر سے اس کے مُلک ميں رائج کرنسی ميں عوض وصول کرے گا L/C اور ایل سی اور پھر اس فارن کرنسی کو اپنا فائدہ رکھتے ہوئے اضافی قيمت پر امپورٹر کو اس کے ملک کی کرنسی کے عوض بيچ دے گا۔اب چونکہ یہ معاملہ دو الگ کرنسيوں ميں ہوا ہے لہذااس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

بينک کا مال کی حفاظت کرنا

بعض اوقات بينک امپورٹر کے اکاو نٔٹ ميں مال کی حفاظت کرتا ہے ، اس طرح سے کہ امپورٹر اور ایکسپورٹر کے مابین معاملہ طے پاجانے، درخواست شدہ رقم کی ایکسپورٹر کو ادائیگی اور جنس اور اس کی دستاویزات، امپورٹر کے مُلک ميں بھيجنے اور بينک کی طرف سے امپورٹر کو جنس کی وصولی کی اطلاع دینے کے بعد،جب امپورٹر جنس وصول کرنے ميں تاخیر کرتا ہے تو بينک امپورٹر کے اکاؤنٹ ميں جنس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے بدلے ایک معين رقم وصول کرتا ہے ۔

جب کہ بعض اوقات بينک ایکسپورٹر کے حساب ميں مال کی حفاظت کرتا ہے ، اس طرح سے کہ کروا دیتا ہے اور دستاویزات بينک کو Load ایکسپورٹر کسی سابقہ معاہدہ اور معاملہ کے بغير مال بهےج دیتا ہے تاکہ بينک اسے مُلک کے تاجروں کے سامنے پےش کرے ليکن (جب تک)کوئی اسے نہيں خریدتا ہے ، بينک اس مال کی ایکسپورٹر کے حساب ميں حفاظت کرتا ہے اور اس کے بدلے ميں ایک معين اجرت اس سے ليتا ہے ۔

۴۶۷

مسئلہ ٢٨ ۵۴ مذکورہ دونوں صورتوں ميں یعنی چاہے بينک امپورٹر کے لئے جنس کی حفاظت کرے یا ایکسپورٹر کے لئے، اگر مال کی حفاظت کی اجرت لینا معاملہ کے ضمن ميں شرط کے طور پر ہو، چاہے يہ شرط ارتکازی ہو یعنی طرفین کے ذهن ميں ہو اور وہ اس شرط سے غافل نہ ہوں جيسا کہ ان جےسے معاملات ميں رائج ہے یا يہ کہ مال کی حفاظت امپورٹر یا ایکسپورٹر کی درخواست اور کهنے سے بينک نے کی ہو تو بينک کے لئے اجرت لینا جائز ہے ليکن ان دونوں صورتوں کے علاوہ بينک حق نہيں رکھتا ہے کہ مال کی حفاظت کے سلسلے ميں کوئی چيز بطور اجرت وصول کرے۔اور اگر اور دستاویز کا بهےجنا امپورٹر اور ایکسپورٹر کے مابین سابقہ Loading بينک کی طرف سے مال کی معاہدہ کے سبب ہو اور بينک دستاویزات کی وصولی کے بارے ميں اطلاع امپورٹر کو دے دے اور وہ دستاویزات نہ لے تو بينک اپنے حق کو یعنی ایکسپورٹر کو جو مطلوبہ رقم ادا کی ہے ،اسے حاصل کرنے کے لئے اپنے اُن اختيارات سے فائدہ اٹھ اتے ہوئے جو ان جےسے موارد ميں ایکسپورٹر بينک کو دیتا ہے ،جنس کسی اور کو بيچ سکتا ہے ۔

بينک گارنٹی

بعض اوقات کوئی شخص حکومت یا بعض لوگوں کے لئے کسی کام کو انجام دینے کا ٹھ ےکہ قبول کرتا ہے جےسے مدرسہ یا هسپتال کی عمارت بنانا یا سڑک بنانا وغيرہ اور معاہدہ کے ضمن ميں ٹھ ےکہ دینے والا ٹھ ےکید ار سے ایک معين رقم کی بينک گارنٹی کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اطمينان حاصل کرسکے کہ ٹھ ےکید ار اپنے وعدہ کے مطابق کام انجام دے گا لہٰذا اگر وہ پورے کام یا معاہدہ کی شرائط کو انجام نہ دے تو اس بينک گارنٹی سے متوقع نقصان کا ازالہ کرسکے اور معين رقم کو حاصل کرسکے اور اس مقصد کے لئے ٹھ ےکید ار بينک سے رابطہ کرتا ہے اور بينک سے درخواست کرتا ہے کہ جاری کرے اور بينک ضروری شرائط کے Guaranty Letter ٹھ ےکہ دینے والے کی مطلوبہ رقم کا جاری کردیتا ہے اور ٹھ ےکید ار سے Guaranty Letter مهيا ہونے کے بعد ٹھ ےکید ار کے لئے جاری کرنے کے عوض ضمانت شدہ رقم کی نسبت سے اجرت وصول کرتا ہے ۔ Guaranty Letter

مسئلہ ٢٨ ۵۵ بينک گارنٹی کا معاہدہ ہر اس چيز سے ہوجاتا ہے جو اس پر دلالت کرے، چاہے لفظی ہو جےسے زبانی ایجاب و قبول یا عملی ہو جو اس پر دلالت کرے۔ اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کہ ضامن ٹھ ےکہ دینے والے سے وعدہ کرے کہ ٹھ ےکید ار ضمانت شدہ رقم ادا کرے گا یا ٹھ يکيدار سے يہ وعدہ کرے کہ ٹھ ےکہ دینے والا اپنے وعدوں اور شرائط کو پورا کرے گا اور وعدہ خلافی کی صورت ميں ضمانت شدہ رقم ادا کرے گا۔

۴۶۸

مسئلہ ٢٨ ۵۶ اگر ٹھ ےکید ار معاہدہ کی خلاف ورزی کرے تو اس پر واجب ہے کہ اپنی لگائی ہوئی شرط یعنی ضمانت شدہ رقم کی ادائیگی کو پورا کرے جبکہ يہ شرط معاہدہ کے ضمن ميں رکھی Guaranty Letter گئی ہو اور اگر ضمانت شدہ رقم کی اد ائیگی نہ کرے تو ٹھ ےکہ دینے والے کا اجراء ٹھ ےکید ار Guaranty Letter جاری کرنے والے بينک سے رابطہ کرے گا اور چونکہ کی درخواست پر ہوا ہے لہٰذا وہ بينک کا ضامن ہوگا اور جو کچھ بينک ادا کرے گا ٹھ ےکید ار پر اس رقم کی ادائیگی ضروری ہے ا ور بينک حق رکھتا ہے کہ اس سے مطالبہ کرے اور وصول کرے۔

جاری کرنے کے عوض ٹھ ےکید ار سے جو معين Guaranty Letter مسئلہ ٢٨ ۵ ٧ بينک اجرت ليتا ہے وہ جائز ہے اور بينک کا ٹھ ےکید ار سے معاملہ چند طریقوں سے صحيح ہوسکتا ہے ۔ ان ميں سے ایک يہ ہے کہ معاملہ اجارہ کی صورت ميں ہو یعنی ٹھ ےکيدار بينک کو مذکورہ کام کے لئے ایک معين رقم پر اجير بنائے یا يہ کہ جعالہ کی صورت ميں ہو یعنی ٹھ ےکہ دار مذکورہ کام کی انجام دهی کے عوض ادا کرنے والے کمےشن کو جعل قرار دے جُعل یعنی وہ رقم جو عقد جعالہ ميں کسی کام کے عوض قرار دی جاتی ہے ۔

حصص کی فروخت ( shares )

کی Notes اپنے حصص اور با قيمت دستاویز Share Holder Companies بعض اوقات فروخت کے لئے بينک کو وسيلہ قرار دیتے ہيں اور بينک اپنے واسطہ بننے کی طے شدہ اجرت لے کر حصص اور دستاویزات کی فروخت کے لئے اقدام کرتا ہے ۔

Share مسئلہ ٢٨ ۵ ٨ يہ معاہدہ بينک کے ساته جائز ہے چاہے اجارے کی صورت ميں ہو یعنی کمپنياں بينک کو حصص اور با قيمت اسناد کی فروخت کے سلسلے ميں معين رقم کی ادائیگی Holder

پابند Share Holder Company کے عوض اجير بنائے اور چاہے جعالہ کی صورت ميں ہو یعنی ہوجائے کہ اگر بينک اس کے لئے يہ کام انجام دے تو اس رقم کو اسے ادا کرے گا اور دونوں صورتوں ميں بينک کو يہ حق حاصل ہے کہ مذکورہ کام کو انجام دینے کے بعد معينہ اجرت وصول کرے۔

۴۶۹

کے حصص کی خرید و فروخت جائز ہے Share Holders Companies مسئلہ ٢٨ ۵ ٩ميں سودی معاملات جےسے حرام معاملات انجام نہ پاتے ہوں اور جو Companies بشرطیکہ ان حرام معاملات کو انجام دیتی ہوں ان کے حصص کی خریدوفروخت اس صورت ميں جائز Companies نہيں ہے جب حرام معاملہ سے حاصل شدہ منافع کمپنی کے سرمايہ کا حصہ ہوں اور اس صورت کے علاوہ صرف حصص کی خریدوفروخت جائز ہے البتہ ضروری ہے کہ اس کمپنی کے حرام منافع سے بچا جائے۔

اندرونی اور بيرونی حوالے کے احکام) Drarft

ڈرافٹ کی چند قسميں ہيں :

یعنی وہ شخص جس کا بينک ميں اکاؤنٹ ہو اور بينک سے معاملے کے Client ١) يہ کہ لئے بينک سے رابطہ کرتا ہو کی بينک ميں رقم موجود ہو اور وہ بينک سے تقاضا کرے کہ اس کے چےک یا حوالہ کو اندرون یا بيرون مُلک موجود کسی ایک بينک کے ذمہ جاری کرے یا تقاضا کرے کہ اس کی رقم بينک ہی کے دوسرے شہر ميں موجود کسی دوسری برانچ یا بيرون مُلک موجود برانچ کو ادا اپنی رقم مطلوبہ مقام سے وصول کرے اور بينک اس بات کاحق رکھتا ہے کہ اس Client کرے اور پھر سے اجرت وصول کرے اور اس اجرت لینے کو اس طریقے سے صحيح کها Client کام کے لئے نے رقم Client جاسکتا ہے کہ چونکہ بينک کے لئے ضروری نہيں ہے کہ وہ اس مقام کے علاوہ جهاں جمع کروائی تھی کسی دوسری برانچ ميں رقم کی ادائیگی کرے۔ لہٰذا اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کو رقم کی ادائیگی Clinet لے تاکہ Comission کی خاطر بينک کے لئے جائز ہے کہ وہ اجرت کسی دوسرے شہر یا مُلک ميں کرے۔

کی بينک ميں کوئی رقم موجود نہ ہو اور بينک اس کے لئے چےک Client ٢) يہ کہ کی Client یا ڈرافٹ جاری کرے تاکہ اندرون مُلک یا بيرون مُلک موجود وہ بينک جس کا Cheaque

کو قرضہ دے یا يہ کہ بينک دوسری برانچ کے سربراہ سے Client بينک سے حساب و کتاب ہو اس کو قرضہ دے۔ يہ کام (درحقیقت) بينک کا اپنے کسی حساب و کتاب والی Client درخواست کرے کہ کو قرضہ دے رہے ہيں وکيل بنانا ہے کہ Client بينک کو یا اپنی دوسری برانچ کے سربراہ کو جو کو قرضہ دے یا يہ کہ خود اس شخص کو وکيل بنانا ہے کہ رقم وصول کرے اور بطور قرض اس client

۴۷۰

رقم کا مالک بن جائے اور اس وکيل بنانے کی خدمات دینے کے لئے بينک ا س شخص سے اجرت لے سکتا ہے ۔ Comission

اور اگر بيرون مُلک بينک ميں جس رقم کا حوالہ دے وہ اُسی ملک کی کرنسی ميں ہو اور اسی طریقہ سے جس کا ذکر کيا گيا بينک سے وہ رقم اپنے لئے بطور قرض وصول کرے تو بينک Client

سے مطالبہ کرے اور بينک یہ بھی کرسکتا Client کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسی بيرونی کرنسی کا کے client لے کر اپنے اس حق کو چھوڑ دے یا یہ کہ اس غیر مُلکی کرنسی کو Comission ہے کہ ملک کی مقامی کرنسی ميں ہی کچھ زیادہ قيمت پر تبدیل کرلے۔

٣) یہ کہ کوئی شخص اپنے شہر ميں موجود بينک کو رقم دے تاکہ اسی کے برابر رقم اندرون مُلک یا بيرون ملک موجود اس بينک سے حساب و کتاب رکھنے والے بينک سے وصول کرسکے مثلاً رقم نجف اشرف ميں بينک ميں جمع کروائے تاکہ بغداد ميں وصول کرسکے یا شام و لبنان یا کسی اور ملک ميں وصول کرسکے اور بينک اسی کام کے لئے کچھ پےسے زیادہ لے تو یہ بينک کا کام اور مذکورہ رقم کا لینا جائز ہے اور کچھ رقم زیادہ لینے کا صحيح ہونا اس اعتبار سے ہے کہ قرض ميں حرام سود وہ اضافی رقم ہے جو قرض ہے اور جسے قرض دینے والا مقروض سے ليتا ہے ليکن اگر مقروض، قرضہ دینے والے سے اضافی رقم لے تو جائز ہے اور اگر وہ دونوں الگ الگ کرنسياںہوں مثلاً ایر انی تومان اور عراقی دینار تو بينک یہ بھی کر سکتا ہے کہ فارن کرنسی کو کچھ زیادہ قيمت پر لوکل کرنسی ميں کو بيچ دے ۔ client

۴) يہ کہ کوئی شخص بينک کی کسی ایک برانچ سے کوئی رقم لے اور بينک سے درخواست کرے کہ وہ کسی دوسری برانچ ميں اس رقم کی ادائیگی کرے گا، جب کہ اس سلسلے ميں بينک نے نہ درخواست کی تھی نہ ہی اسے ضروری قراردیا تھا اور بينک اس درخواست کو قبول کرنے کے لئے ایک مخصوص رقم اس شخص سے لے تو اس اضافی رقم کا لینا ان دو طریقوں ميں سے کسی ایک طریقے سے جائز ہے ۔

الف) اگر وہ دو رقم دو جنس سے ہوں مثلاً يہ کہ کوئی شخص بينک سے ایر انی ریال لے اور اس کے عوض ميں بينک اس سے ایر انی ریال کے علاوہ کسی دوسری کرنسی ميں رقم وصول کرے۔اس صورت ميں بينک اس شخص سے اس فارن کرنسی کو ایک اضافی رقم کے ساته اس رقم سے تبدیل کرے گا جو اسے دی تھی۔

۴۷۱

ب)چونکہ بينک پر شرعاً ضروری نہيں ہے کہ جو رقم اسے دی تھی وہ کسی دوسرے مقام پر اس سے وصول کرے اور بينک کو يہ حق حاصل ہے کہ اس شخص کی درخواست کو قبول نہ کرے پس وصول کرسکتا ہے ۔ comission بينک اپنے اس حق سے دستبرداری کے سبب اس شخص سے مسئلہ ٢٨ ۶ ٠ بينک ڈرافٹ کی مختلف اقسام اور ان کی فقهی موضوعات پر تطبیق کے سلسلے ميں جو کچھ بيان ہوا وہ تمام احکام لوگوں کے بارے ميں بھی جاری ہوں گے مثلاً يہ کہ کوئی شخص کسی ودسرے شخص کو کسی مقام پر رقم دے تاکہ کسی دوسرے مقام پر وهی رقم یا اس کے برابر رقم وصول کرسکے اور وہ دوسرا شخص کچھ رقم اضافی لے یا يہ کہ کسی شخص سے کسی مقام پر کچھ رقم لے اور اس کے برابر رقم اضافی رقم کے ساته کسی دوسرے شہر یا ملک ميں ادا کرے۔

مسئلہ ٢٨ ۶ ١ اس سلسلے ميں فرق نہيں ہے کہ حوالہ کرنے والا جس شخص یا بينک کی طرف حوالہ کررہا ہو اس کے پاس اس کی رقم ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں ميں حوالہ کرنا صحيح ہے ۔

بينک کے انعامات

a/c بعض اوقات بينک لوگوں کو اس بات کا شوق و ترغيب دلانے کے لئے کہ وہ بينک ميں اپنا زیادہ مقدار ميں رقم بينک ميں جمع کروائيں، کسی انعام کا a/c holders کھوليں یا بينک کے موجودہ اعلان کرتے ہيں جو قرعہ اندازی کے ذریعے اس شخص کو دیتے ہيں جس کے نام قرعہ نکل آئے۔

مسئلہ ٢٨ ۶ ٢ بينک کے انعامات کی دو قسميں ہيں :

١) يہ کہ قرعہ اندازی بينک پر لازم نہ ہو بلکہ وہ فقط شوق دلانے کی خاطر قرعہ اندازی کررہا ہو۔ ایسی صورت ميں يہ قرعہ اندازی والا طریقہ جائز ہے اور جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ انعام لے سکتا ہے اگرچہ بينک کے سرکاری یا مشترکہ ہو نے کی صورت ميں احتياط یہ ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے انعام ليا جائے۔

٢) يہ قرعہ اندازی شرط کے طور پر ہو اوربينک پر لازم ہو اور بينک اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے قرعہ اندازی کروائے کہ ایسی صورت ميں قرعہ اندازی کا عمل جائز نہيں ہے اور جس کے نام قرعہ نکل آئے اس کے لئے انعام لینا بھی جائز نہيں ہے ۔

بينک کا پرونوٹ ( ١)کی وصولی اور اسے کےش کرنا

کے پرونوٹ Clients یا Account Holders يہ بھی ہے کہ وہ اپنے service بينک کی ایک وصول کرتا ہے ۔ اس کی کيفيت یہ ہوتی ہے کہ بينک ادائیگی کے مقررہ وقت سے پهلے پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص کو بينک ميں اس پرونوٹ کی موجودگی،اسکا سیر یل نمبر اس کی رقم کی مقدار اور ادائیگی کے مقررہ وقت کے بارے ميں اطلاع دیتا ہے تاکہ وہ

۴۷۲

مقررہ وقت پر ادائیگی کے لئے کے اکاؤنٹ ميں Client تيار ہوجائے اور بينک پرونوٹ کی وصولی کے بعد، اس ميں موجود رقم اپنے کے لئے بينک service منتقل کردیتا ہے یا نقدکی صورت ميں اسے ادا کردیتا ہے اور اس وصول کرتا ہے ۔ Comission جو چيک بينک کے پاس رکھوائيں انہيں وصول clients يہ بھی ہے کہ service بينک کی ایک کرتا ہے ،اور بينک اس سرویس کے عوض کميشن ليتا ہے ۔

کی چند صورتيں ہيں : Comission مسئلہ ٢٨ ۶ ٣ پرونوٹ کی وصولی اور ١)پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص کی بينک ميں رقم جمع ہے اور اس پرونوٹ ميں لکھا ہوا ہے کہ قرض خواہ وقت مقررہ پر بينک سے رابطہ کرے گا اور بينک پرونوٹ کی رقم قرض دار کے اکاؤنٹ سے نکال کر قرض خواہ کو بصورت نقد ادا کرے گا یا قرض خواہ کے اکاؤنٹ ميں منتقل کردے گااور اس کام کا مطلب يہ ہے کہ پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص نے اپنے قرض خواہ کو بينک کے حوالہ کردیا ہے اور چونکہ اس کی بينک ميں رقم جمع ہے اور بينک اس کی مقروض ہے لہٰذا حوالہ صحيح ہے اور بينک کے قبول کرنے کی ضرورت نہيں ہے ۔اس صورت ميں جبکہ بينک قرض لینا جائز نہيں ہے ۔ Comission کی رقم ادا کررہا ہے اس کے لئے ٢)پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص کی بينک ميں کوئی رقم جمع نہ ہو اور بينک اس کا مقروض نہ ہو ا ور وہ پرونوٹ کی رقم کو بينک کی طرف حوالہ کرے تو اس کام کا مطلب یہ ہے کہ یہ حوالہ بری الذمّہ شخص یعنی وہ شخص جو حوالہ کرنے والا کا مقروض نہيں ہے ،کی طرف ہے ۔ یہ حوالہ جائز ہے اور بينک اس حوالہ کو قبول کرتا ہے اور اس کی رقم کی ادائیگی کرتا ہے اور حوالہ قبول کرنے کے عوض پرونوٹ کی ادائیگی کرنے والے شخص سے کمےشن وصول کرتا ہے اور يہ لینا بھی جائز ہے ۔ Comission خود اپنے پرونوٹ کو جو کسی جانب سے حوالہ نہيں ہوا ہے رقم کی Account Holder (٣وصولی کے لئے بينک کے سپرد کرے اور اس کام کو جعالہ کے عنوان سے انجام دیا جاسکتا ہے اور جُعل یعنی وہ چنر جو جعالہ ميں عوض کے طور پر قرار دی جاتی ہے کے عنوان سے کمےشن کی وصولی بھی جائز ہے بشرطیکہ بينک کی مداخلت فقط قرضہ کی رقم کی وصولی کے لئے ہو ليکن اگر کو بھی قرار دیا گيا ہو تو بينک ایسا کام نہيں کرسکتا۔ down payment اس قرضہ پر سود اور

فارن کرنسی کی خريدوفروخت

مسئلہ ٢٨ ۶۴ فارن کرنسی کی خریدوفروخت مثلاً دینار کو تومان کے عوض بيچنا، خواہ قيمت خرید سے زیادہ، کم یا مساوی قيمت پر بيچاجائے، جائز ہے اور اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کہ سودا فوری نوعيت کا ہو یا مدت دار ہو۔

۴۷۳

Current Account

جس شخص کا بينک ميں کرنٹ اکاؤنٹ ہو اور اُس نے اپنے اکاؤنٹ ميں رقم جمع کروائی ہو، اسے بينک ميں اپنی موجودہ رقم کی حد تک رقم نکالنے کا حق ہے ، ليکن بعض اوقات بينک اپنے پر اعتماد کی وجہ سے اس کے حساب ميں رقم نہ ہونے کے باوجود بھی ایک معين Account Holder کها جاتا ہے اور بينک اس معين رقم کو قرض دے over draft رقم نکالنے کی اجازت دیتا ہے اور اسے کر منافع حاصل کرتا ہے ۔ يہ قرض دینا اورفائدہ لینا جائز نہيں ہے ۔

پرونوٹس (هنڈی) کی خريدوفروخت

کسی بھی چيز کی ماليت دو ميں سے کسی ایک سبب کی بنا پر ہوتی ہے :

١)وہ چيز ایسے فوائد اور خصوصيات کی حامل ہو جس کے باعث عقلا اس کی طرف رغبت کریں جےسے کھانے پینے اور پهننے اوڑھنے کی چيزیں۔

٢) کوئی ایسی ذات جو خود صاحبِ اعتبار ہواس چيز کے لئے ماليت کااعتبار کرے، جيسے جن کے لئے حکومتيں ماليت کا اعتبار کرتی ہيں ۔ stamp کرنسی نوٹ اور مسئلہ ٢٨ ۶۶ بيع (خریدو فروخت)اور قرض ميں موضوع اور حکم کے اعتبار سے چند فرق ہيں :

١)موضوع کے اعتبار سے بيع یہ ہے کہ کسی عين کو اضافے ميں عوض کے ساته تبدیل کر دیا جائے، چاہے وہ اضافہ ملکيت ہو یا حق۔ جب کہ قرض یہ ہے کہ کسی عين کو مقروض کی ملکيت ميں دے دیا جائے اور مقروض اس عين کے مثلی ہونے کی صورت ميں اس کی مثل کا اور قيمی ہونے کی صورت ميں اس کی قيمت کا ضامن ہوتا ہے ۔

جبکہ احکام کے اعتبار سے بھی ان دونوں ميں کچھ فرق ہيں جن ميں سے چند کی طرف اشارہ کيا جارہا ہے :

١)بيع اور قرض ميں سود کا معيار الگ ہے ۔ قرض ميں کسی طرح کے اضافے کی بھی شرط لگائی جائے وہ سود اور حرام ہے ۔ جبکہ بيع ميں سود یہ ہے کہ خریدی اور بيچی جانے والی چيز ایک ہی جنس سے ہوں اور انہيں وزن یا پيمانے سے بيچا جائے، تو جو اضافہ ہوگا وہ سود اور حرام ہوگا۔

لہٰذا اگر ایک جنس سے نہ ہوں یا انہيں پيمانے یا وزن سے نہ بيچا جائے تواضافی مقدار حرام نہ ہوگی، جيسے وہ اجناس جنہيں گن کربيچا جاتا ہے ۔

٢)اگر بيع ميں سودی معاملہ ہو تو معاملہ باطل ہوجاتا ہے اور عين و عوض ایک دوسرے کی ملکيت ميں منتقل ہی نہيں ہوتے جبکہ قرض ميں سودی قرض کے باوجود قرض باطل نہيں ہوتااور قرض لينے والا، قرض کے طور پر لی ہوئی مقدار کا مالک بن جاتا ہے ۔ ہاں، قرض خواہ اس شرط شدہ اضافی مقدار کا مالک نہيں بنتا۔

۴۷۴

مسئلہ ٢٨ ۶ ٧ تمام کاغذی نوٹ مثلاً عراقی دینار، امریکن ڈالر، روپيہ وغيرہ ماليت رکھتے ہيں ، اس اعتبار سے کہ ہر ملک کی طرف سے ان کے ملک ميں رائج کرنسی نوٹوںکے لئے ماليت کا اعتبار کر دیاگيا ہے جو پورے ملک ميں قابل قبول اور رائج ہوتا ہے اور اسی لئے ان نوٹوں کو ماليت مل جاتی ہے ۔ جبکہ یہ ممالک جب چاہيں ان نوٹوںکو ماليت اور اعتبار سے گرا سکتے ہيں ۔

یہ بھی طے ہے کہ یہ نوٹ وزن یا پيمانے سے فروخت نہيں ہوتے ہيں ۔ اسی لئے بعض فقهاءرضوان الله تعالی عليهم نے فرمایا ہے کہ:” ان نوٹوں کو انہيں کے جنس کی نوٹوں سے اضافے کے ساته عوض کرنا بھی جائز ہے ۔ اسی طرح ان نوٹوں کو جب کہ یہ کسی کے ذمے قرض کی صورت ميں ہوں، کم یا زیادہ نقد پر بيچنا بھی جائز ہے “۔ليکن اعتباری ماليت والی چيزوںکا معاملہ جنہيں گن کر خرید وفروخت کياجاتاہے ، اگر اسی کی جنس سے کم یا زیادہ پر بيچا جائے، محل اشکال ہے ۔

هاں، اگرکم مقدار کا مالک زیادہ مقدار کے مالک سے اس بات پر مصالحت کرلے کہ زیادہ مقدار والا اپنی مقدار اسے بخش دے اور وہ بھی اپنی کم مقدارزیادہ مقدار والے کو بخش دے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔مثلاً نوسو روپے کا مالک مصالحت کی نيت سے ہزار روپے والے سے کهے:”ميں تم سے اس بات پر مصالحت کرتا ہوں کہ تم ہزار روپے مجھے بخش دو اور ميں نوسو روپے تمہيں بخش دوں“۔

مسئلہ ٢٨ ۶ ٨ ریال والے پرونوٹ جو لوگوں اور تاجروں ميں رائج ہيں اور ان سے معاملہ بھی کياجاتا ہے ، یہ کرنسی نوٹ کی طرح نہيں ہيں جن کے خود کے لئے ماليت کا اعتبار کياگيا ہو، بلکہ یہ ایک طرح سے اس قرضے کی سند کے طور پر ہوتا ہے جو پرونوٹ پر سائن کرنے والے ذمہ دار شخص کے ذمے واجب الادا ہوتا ہے ۔ لہٰذا جب خریدار، بيچنے والے کو پرونوٹ دیتا ہے تو حقيقتاً اس نے خریدی ہوئی چيزکی قيمت نہيں دی ہوتی ہے ، اسی لئے اگریہ پرونوٹ بيچنے والے کے پاس جل جائے یا گم ہوجائے تو بيچنے والے کا کچھ بھی مال ضائع نہيں ہوا ہے اور خریدار بھی بری الذمہ نہيں ہوجاتا۔

جبکہ اگر قيمت کے طور پر کرنسی نوٹ دئے ہوتے اور بيچنے والے کے پاس سے گم ہوگئے ہوتے تو یهی مانا جاتا کہ اسی کا نقصان ہوا ہے اور وهی اس کا ذمہ دار ہے ۔

مسئلہ ٢٨ ۶ ٩ پرونوٹ کی دو اقسام ہيں :

١)وہ جو واقعی قرض کا ثبوت ہو۔ یعنی پرونوٹ پر سائن کرنے والا شخص پرونوٹ ميں لکھی ہوئی مقدار کا واقعاً مقروض ہو اور پرونوٹ در حقيقت اس کے لئے ایک سند کی مانند ہو۔

٢)در حقيقت کوئی قرض نہ ہو بلکہ اس کی صرف ایک کاغذی حيثيت ہو۔

۴۷۵

پهلی صورت ميں جبکہ پرونوٹ کا مالک اس پرونوٹ کی بنياد پر ایک مدت دار قرض کا قرض خواہ ہے ، وہ اس پرونوٹ کو اس صورت ميں اس کی اصل مقدار سے کم یا زیادہ پر بيچ سکتا ہے کہ جب کہ کرنسی مختلف ہو یعنی روپے کو ڈالر ميں بيچا جارہا ہو اور خود قيمت کو ادهار نہ رکھا جا رہا ہو۔ليکن اگر کرنسياں مختلف نہ ہوں مثلاً روپے کے پرونوٹ کو روپے اور ڈالر کے پرونوٹ کو ڈالر کے عوض بيچا جا رہا ہو تو اس کا جائز ہونا محل اشکال ہے ۔هاں، اگر مسئلہ نمبر ٢٨ ۶ ٧ ميں بيان کئے گئے طریقے کے مطابق مصالحت کا معاملہ کيا جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

دوسری صورت ميں جو کہ کاغذی پرونوٹ ہے ، پرونوٹ کا مالک اسے کسی اور کے ہاتھ نہيں بيچ سکتااس لئے کہ پرونوٹ سائن کرنے والے کے ذمے حقيقتاً کوئی قرض واجب الادا نہيں ہے ، بلکہ یہ پرونوٹ اس لئے دیا گيا ہے کہ پرونوٹ کا مالک اس سے فائدہ اٹھ ا سکے۔ اس طرح کے پرونوٹ سے شرعی اعتبار سے فائدہ اٹھ انے کا طریقہ یہ ہے کہ پرونوٹ سائن کرنے والا شخص اس شخص کو وکالت دے جسے اس نے پرونوٹ لکھ کر دیا ہے ، کہ پرونوٹ کی مقدار کو جو مثلاً ۵ ٠ امریکی ڈالر ہے اور جو ٣٠٠٠ روپئے کے برابر ہے ، اس کی ماليت سے کم مقدار مثلاً ٢ ۵ ٠٠ روپئے پر پرونوٹ سائن کرنے والے کے کھاتے ميں بينک کو بيچ دے اوراس کے پاس یہ وکالت بھی ہو کہ ان ٢ ۵ ٠٠ پاکستانی روپوں کو اس سائن کرنے والے کی طرف سے اپنے آپ کو پھر سے ۵ ٠ امریکی ڈالر کے عوض بيچ دے۔ اس کا نتيجہ یہ ہوگا کہ پرونوٹ کا مالک ، پرونوٹ سائن کرنے والے کا اتنی مقدار ميں مقروض ہوجائے گا جتنی مقدار ميں پرونوٹ سائن کرنے والا بينک کا مقروض بنا ہے ، یعنی ۵ ٠ امریکی ڈالر۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بينک پرونوٹ کے مالک کو پرونوٹ ميں لکھی ہوئی مقدارقرض دے دے اور پرونوٹ کے طور پر service charges کا مالک بينک کی جانب سے کسی پيشگی شرط کے بغير کچھ مقدار بينک کے رجسٹر ميں لکھی ہوئی مقدار کے مطابق اس وقت ادا کرے جب وہ یہ قرضہ لوٹائے گا۔ ليکن کی چاہے ضمنی طور پر ہی سهی شرط لگائی گئی ہو تویہ سودی قرضہ بن service charges اگر ان جائے گا۔وہ شخص جس نے پرونوٹ کی ذمہ داری لی تھی پرونوٹ سے فائدہ اٹھ انے والے شخص سے رجوع کرسکتا ہے اور تمام پرونوٹ کی رقم لے سکتا ہے کيونکہ فائدہ اٹھ انے والے شخص نے بينک کو پرونوٹ کی ذمہ داری والے شخص کے لئے حوالہ دیا ہے ۔

Bank Service

بينکنگ کے کاروبار کی دو قسميں ہيں :

١)ایسے کام جن کا تعلق سودی معاملات سے ہے ۔ ایسے کاموں ميں حصہ لينا جائز نہيں ہے اور ميں نوکری کر رہا ہے تو وہ اس کام کے لئے تنحواہ نہيں department اگر کوئی شخص کسی ایسے لے سکتا۔

۴۷۶

٢)ایسے کام جن کا سود سے کوئی تعلق نہيں ہے ۔ ان کاموں کے انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے اور اس کی اجرت لينا بھی جائز ہے ۔

بيمہ کے احکام

بےمہ، در حقيقت کمپنی اور پالےسی ہولڈر کے مابین اس بات پر معاہدہ ہوتا ہے کہ پالےسی ہولڈر، بےمہ کمپنی کو مال کی ادائیگی کرے گا خواہ وہ خودِ مال ہو یا کسی چيز کی منفعت ہو یا کوئی کام کاج کی صورت ميں ہو اور اسی طرح خواہ اس کی ادائیگی ےکمشت ہو یا اقساط کی صورت ميں ہو اور اس کے عوض بےمہ کمپنی معاملہ کی طے شدہ صورت کے مطابق اسے یا کسی اور کو پهنچنے والے نقصان کی ادائیگی کی ذمہ دار ہوگی۔

مسئلہ ٢٨٧٠ بےمہ کی کئی قسميں ہيں جےسے زندگی کا بےمہ،سلامتی کا بےمہ،مال کا بےمہ اور چونکہ ان تمام قسموں کا حکم ایک ہے لہٰذا انواع و اقسام کے بيان کی ضرورت نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٨٧١ بےمہ معاملات ميں سے ہے اور ایجاب و قبول سے ثابت ہوجاتا ہے مثلاً يہ کہ بےمہ کرنے والا کهے:”ميں ا س بات کا پابند ہوں کہ اتنی مقدار ميں مال کی ادائیگی کی صورت ميں (تمهاری) جان یا مال کو پهنچنے والے نقصان کا ازالہ کروں گا“ اور وہ شخص جو بےمہ کروانا چاہتا ہے کهے کہ: ”ميں نے قبول کيا“ یا یوں کہ بےمہ کروانے والا کهے: ”ميں اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ جان و مال کے نقصان کے ازالہ کے بدلہ ميں معين مقدار ميں مال کی ادائیگی کروں گا“ اور بےمہ کرنے والا قبول کرے۔

یہ معاملہ بھی دوسرے معاملات کی مانند قول و عمل، دونوں سے ثابت ہوجاتا ہے اور اس معاملے ميں معاملات کے عمومی شرائط جےسے بالغ اور عاقل ہونا،ارادہ ہونا، زبردستی کا نہ ہونا،معاملہ کے طرفین کا سفيہ یا مفلس نہ ہونا، معتبر ہيں ۔یہ بھی ضروری ہے کہ جس چيز کا بےمہ کيا جائے مثلاً جان یا مال اور جان یا مال کا بےمہ جن ممکنہ خطرات سے کيا جارہا ہو، معين ہوں۔ اسی طرح مال کی ادائیگی اگر اقساط کی صورت ميں ہو تو ماہانہ یا سالانہ قسط اور بےمہ کی ابتدا اور انتها کا وقت بھی معين ہو۔

مسئلہ ٢٨٧٢ بيمہ کی تمام قراردادوں کی اقسام کو بيمہ کرنے والے کی طرف سے اس بات کی ذمہ داری لينا کہ بيمہ ہونے والے کو نقصان کی صورت ميں وہ ادائيگی کا پابند رہے گا کرسکتے ہيں گرچہ احتياط یہ ہے کہ جو بيمہ ہوا ہے وہ معين مال کو بيمہ کرنے والے سے اس بات کی شرط کرتے ہوئے کہ نقصان کی صورت ميں وہ ادائيگی کرے گا صلح کرے اور بيمہ کرنے والے پر نقصان کا جبران کرنا واجب ہوجائے گا، اور اسی طرح جب معين مال بيمہ کرنے والے کی طرف سے عين ہو بيمہ کی قرار داد کو نقصان کی صورت ميں بيمہ کرنے والے کی ادائيگی کو هبہ مشروط قرار دیا جاسکتا ہے کہ بيمہ کرنے والے پر اس شرط کی پابندی واجب ہے ۔

۴۷۷

مسئلہ ٢٨٧٣ عقد بيمہ نقصان کی صورت ميں صلح ہو یا هبہ مشروط، خسارت کی صورت ميں اگر بيمہ کرنے والا ادائيگی نہ کرے اور شرط پر عمل نہ کرے،تو بيمہ ہونے والا شرط کی مخالفت ہونے کی صورت ميں اختيار رکھتا ہے کہ صلح یا هبہ کو فسخ کرے اور جو کچھ پهلے بيمہ کی اقساط ادا کرچکا ہے واپس لے لے۔

مسئلہ ٢٨٧ ۴ بيمہ کی قرار داد کے مطابق بيمہ ہونے والا اگر قسطوں کو ادا نہ کرے تو بيمہ کرنے والے پر خسارت کا ازالہ کرنا واجب نہيں اور بيمہ ہونے والا جن اقساط کی ادائيگی کرچکا ہے ان کو واپس لينے کا حق نہيں رکھتا۔

مسئلہ ٢٨٧ ۵ بيمہ کی قرار دار صحيح ہونے کے لئے معين مدت معتبر نہيں ہے کہ یک سالہ ہو یا دوسالہ بلکہ جو قرار داد ان دونوں کے درميان ہوئی ہے مدت اسی کے تابع ہے ۔

مسئلہ ٢٨٧ ۶ اگر چند سرمایہ گذار کسی کمپنی کی بنياد رکہيں اور ان ميں سے سب یا کوئی ایک سرمایہ گذار شرکت کی قرار داد کے ضمن ميں دوسروں پر شرط رکھے کہ اگر اس کو جانی یا مالی معينہ خسارت ہو اور حادثہ کی نوعيت تعيين کرے، حادثہ کے وقوع کی صورت ميں جب تک شرکت کی قرارداد باقی ہو واجب ہے کمپنی اس شرط پر عمل کرے اور اس کی خسارت کا ازالہ اپنے فائدہ سے کرے۔

پگڑی کے احکام

رائج معاملات ميں سے ایک پگڑی ہے اور پگڑی يہ ہے کہ کرائے پر حاصل کی ہوئی چيز کو خالی کرنے اور اسے کسی اور کے حوالے کرنے کا حق مستاجر کے پاس ہو یا کرايہ زیادہ کرنے اور کرائے پر دی ہوئی چيز کو واپس لینے کا حق مالک کو نہ ہو۔

مسئلہ ٢٨٧٧ اس معاملہ کا صحيح ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ مستاجر کے لئے کوئی حق ثابت ہو اور يہ حق مکان اور دوکان کرائے پر لینے سے حاصل نہيں ہوتا ہے اگرچہ اجارے کی مدت طویل ہو یا کاروبار و کام کی نوعيت یا مستاجر کی شخصيت اس جگہ کی قيمت یا اس ميں لوگوں کی توجهات کے اضافے کا باعث بنتی ہو اگرچہ عرف اور حکومتی قانون کی نگاہ ميں مستاجر کو حقدارسمجھا جاتاہے ليکن یہ صحيح نہيں ہے اس طریقہ سے اجارے پر لی ہوئی چيز ميں اجارے کی مدت ختم ہونے کے بعد مستاجر کا ہر تصرف حرام ہے اور مستاجر کے ہاتھ ميں يہ چيز اور اس کے تمام فائدے ظلم کے عنوان سے ہيں اور وہ اس کا ضامن ہے اور مستاجر کا اس جگہ کو کسی دوسرے شخص کو کرائے پر دینا فضولی ہے اور اگر مالک اس کی اجازت نہ دے توفاسد ہے ۔

البتہ شرط مشروع کے ذریعے اس حق کو مستاجر کے لئے ثابت کيا جاسکتا ہے ۔ جےسے عقد اجارہ کے ضمن ميں شرط کردی جائے، چاہے اجارے پر دینے والا شرط قبول کرنے کے لئے رقم وصول کرے یا نہ کرے، کہ اجارہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس جگہ کو اسی مستاجر کو یا جسے مستاجر معين کرے اور اسی طرح ہر اس مستاجر کو جسے اس پهلے والے مستاجر نے معين کيا ہو، کو پهلے والے کرائے پر اجارہ دے گا۔ تو اس صورت ميں حق شرط کے تقاضے کے مطابق ہر کرائے دار پگڑی لے کر اس جگہ کو چھوڑ سکتا

۴۷۸

ہے اور موجر کو شرط پوری کرنے کے وجوب کے تقاضے کے مطابق يہ حق نہيں پهنچتا ہے کہ وہ پهلے مستاجر کو یا جس کو اس نے معين کيا ہو یا ہر وہ مستاجر جسے پهلے والے مستاجر نے معين کيا ہو، کو کرائے پر دینے سے روک لے۔

مسئلہ ٢٨٧٨ اگر عقد اجارہ ميں شرط رکھی جائے کہ مستاجر پرانے کرائے پر اجارہ کی تجدید کرکے جب تک چاہے رہ سکتا ہے تو مستاجر گھر خالی کرنے کے لئے پگڑی لے سکتا ہے اگرچہ موجر پابند نہيں ہے کہ پگڑی دینے والے کو کرائے پر دے۔

قاعدہ الزام کی بعض فروعات

مسئلہ ٢٨٧٩ اہل سنت کے چند علما کے علاوہ اکثر کے نزدےک عقد نکاح کے صحيح ہونے کے لئے گواہوں کا حاضر ہونا شرط ہے اور حنفی،حنبلی اور شافعی صيغہ نکاح کے اجرا کے وقت کو گواہوں کے حاضر ہونے کا وقت مانتے ہيں اور مالکی نے اس وقت کو دخول سے پهلے تک وسعت دی ہے ، جب کہ يہ شرط علمائے اماميہ کے نزدےک معتبر نہيں ہے لہٰذا اگر کوئی سنّی شخص جو اپنے مشهور علما کا تابع ہو، گواہوں کی غیر حاضری ميں نکاح کرے تو اس کے مذهب کے مطابق یہ عقد باطل ہے اور وہ عورت اس کی بيوی نہيں بنی۔ اس صورت حال ميں شيعہ مذهب رکھنے والا مرد قاعدہ الزام کی رو سے اس عورت سے شادی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨٠ اہل سنت کے علما کے فتوے کے مطابق کوئی شخص ایک وقت ميں پهوپهی،بهتےجی اور خالہ ،بهانجی کو اپنی زوجيت ميں نہيں رکھ سکتا ہے اور وہ دونوں ميں سے کسی ایک سے شادی کرسکتا ہے ۔ لہٰذا اگر دونوں سے ایک ساته عقد کرے تو دونوں عقد باطل ہيں اور اگر ایک ساته نہ ہو تو دوسرا عقد باطل ہے ليکن علمائے اماميہ کے نزدےک پهوپهی یا خالہ کی اجازت سے دونوں کے ساته عقد صحيح ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی سنی پهوپهی اور بهتےجی یا خالہ اوربهانجی سے ایک ساته عقد کرے تو دونوں عقد باطل ہيں ا ور شےعہ قاعدہ الزام کی رو سے دونوں ميں سے کسی کے ساته بھی عقد کرسکتا ہے اور اگر دونوں عقد ایک ساته نہ ہوں تو شےعہ دوسری سے عقد کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨١ اہل سنت کے نزدےک جس یائسہ عورت یا نابالغ لڑکی کے ساته اس کے شوہر نے جماع کيا ہو اگر اسے طلاق دی جائے تو اس پر عدت رکھنا واجب ہے اگرچہ نابالغ لڑکی کے بارے ميں اہل سنت کے بعض علما تفصيل کے قائل ہيں ليکن مذهب تشےع ميں یائسہ اور نابالغ لڑکی پر طلاق کی صورت ميں عدت واجب نہيں ہے ۔

اس بنا پر اہل سنت پابند ہيں کہ عدت کے احکام کی رعایت کریں پس اگر یائسہ عورت یا نابالغ لڑکی سنّی سے شےعہ ہوجائے تو اس پر عدت رکھنا لازم نہيں ہے اور اگر طلاق رجعی ہو تو جائز ہے کہ عدت کے ایام کا نفقہ سنّی شوہر سے مانگے اور جائز ہے کہ ان ایام ميں دوسرے شخص سے عقد کرے۔ اسی طرح اگر سنی مرد شےعہ ہوجائے تو اس کے لئے طلاق شدہ یائسہ عورت اور نابالغ لڑکی کی بهن سے شادی کرنا جائز ہے جبکہ وہ مذهب اہل سنت کے مطابق ابهی تک عدت ميں ہيں ۔ اور اس پر عورت کے عدت کے احکام کا خيال رکھنا ضروری نہيں ہے ۔

۴۷۹

مسئلہ ٢٨٨٢ اگر سنی مرد دو عادل گواہوں کی غیر موجودگی ميں اپنی بیوی کو طلاق دے یا اپنی بیوی کے بدن کے کسی جزء مثلاً اپنی بیوی کی انگلی کو طلاق دے تو ان کے مذهب کے مطابق يہ طلاق صحيح ہے ليکن مذهب اماميہ کے مطابق باطل ہے اس بنا پر شےعہ مرد قاعدہ الزام کی رو سے اس طلاق یافتہ عورت کی عدت تمام ہونے کے بعد اس سے عقد کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨٣ اگر سنی مرد اپنی حائضہ بیوی کو طلاق دے یا ان طهارت کے دنوں ميں اسے طلاق دے جس ميں اس سے جماع کيا ہو تو اس کے مذهب کے مطابق يہ طلاق صحيح ہے ليکن مذهب اماميہ کے مطابق باطل ہے لہٰذا شےعہ مرد قاعدہ الزام کی رو سے عدت تمام ہونے کے بعد اس عورت سے عقد کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨ ۴ ابوحنےفہ اور اہل سنت کے بعض دوسرے فقهاء کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو زبردستی دهمکی کی وجہ سے طلاق دے تو ان کے مذهب کے مطابق يہ طلاق صحيح ہے ليکن مذهب اماميہ کے نزدےک باطل ہے ۔ لہٰذا جس عورت کو جبر و اکراہ کی وجہ سے طلاق دی گئی ہو اور وہ عورت ابوحنےفہ یا اس کے ہم نظريہ لوگوں کی پیر وکار ہو تو شےعہ مر دقاعدہ الزام کی رو سے عدت تمام ہونے کے بعد اس عورت سے شادی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨ ۵ اگر کوئی سنی مرد قسم کھائے کہ ميں فلاں کام نہيں کروں گا اور انجام دیا تو میر ی بیوی مطلقہ ہوجائے گی تو اگر يہ کام انجام دے تو اس کے مذهب کے مطابق اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی اور شےعہ مذهب کے نزدےک طلاق والی قسم منعقد نہيں ہوتی۔ لہٰذا قاعدہ الزام کی رو سے شےعہ مرد کے لئے عدت تمام ہونے کے بعد اس عورت سے شادی کرنا جائز ہے ۔ اسی طرح مذهب اہل سنت ميں لکھ کر طلاق دینا جائز ہے اور شےعہ مذهب ميں لکھ کر طلاق دینے سے واقع نہيں ہوتی۔ لہٰذا قاعدہ الزام کی رو سے جس عورت کو لکھ کر طلاق دی گئی ہو شےعہ مرد عدت ختم ہونے کے بعد اس سے شادی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٨٨ ۶ ابن قدامہ کے نقل کے مطابق ابوحنےفہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چيز کو بيچنے والے کی جانب سے اس چيز کی خصوصيات سن کر خریدے جبکہ اس نے خود اس چيز کو نہ دےکها ہو اور پھر بعد ميں دےکهے تو اگرچہ وہ چيز ان خصوصيات کی حامل ہو جنہيں بيچنے والے نے بتایا تھا پھر بھی خریدار کے لئے خيار رویت ثابت ہے جبکہ مذهب اماميہ ميں اس مورد ميں خيار رویت نہيں ہے پس اس بنا پر اگر کوئی شےعہ کسی ابوحنےفہ کے پیر وکار بيچنے والے سے کوئی چيز اس طرح خریدے کہ وہ بيچنے والا اس کی خصوصيات کو بيان کرے اور يہ شےعہ دےکهے بغير خریدے اور پھر بعد ميں دےکهے تو قاعدہ الزام کی رو سے اس شےعہ کے لئے خيار رویت ثابت ہو جائے گا۔

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511