توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207675 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

۵) ان آیات ميں سے کسی آیت کا پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیات چار سورتوں ميں ہيں :

١) قرآن مجيد کی ٣٢ ویں سورہ (الٓمٓ تنزیل) ٢) قرآن مجيد کی ۴ ١ ویں سورہ(حٰمٓ سجدہ)

٣) قرآن مجيد کی ۵ ٣ ویں سورہ (والنجم) ۴) قرآن مجيدکی ٩ ۶ ویں سورہ (إقرا)

اور بنابر احتياط واجب ان چار سورتوں کا بقيہ حصہ پڑھنے سے پرہيز کرے۔ یهاں تک کہ بِسْم اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم کو ان سوروں کو قصد سے، بلکہ ان کے بعض حصوں کو ان سوروں کے قصد سے پڑھنے سے بھی پرہيز کرے۔

وہ چيزيں جو جنب شخص پر مکروہ ہيں

مسئلہ ٣ ۶ ٢ نو چيزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہيں :

١-٢)کھانا اور پينا، ليکن وضو کرلے یا ہاتھ دهو لے تو مکروہ نہيں ہے ۔ ،

٣) ان سوروں کی سات سے زیادہ آیات کی تلاوت کرنا جن ميں واجب سجدہ نہيں ہے ۔

۴) بدن کا کوئی حصہ قرآن کی جلد، حاشيے یا حروف قرآن کی درميانی جگہوں سے مس کرنا۔

۵) قرآ ن ساته رکھنا۔

۶) سونا، ليکن اگر وضو کرلے یا پانی نہ ہونے کے باعث غسل کے بدلے تيمم کرلے تو مکروہ نہيں ۔

٧) مهندی اور اس جيسی چيزوں سے خضاب کرنا۔

٨) بدن پر تيل ملنا۔

٩) محتلم ہونے، یعنی نيند ميں منی نکلنے کے بعد جماع کرنا۔

غسل جنابت

مسئلہ ٣ ۶ ٣ غسل جنابت بذات خود مستحب ہے اور ان واجبات کی وجہ سے واجب ہوجاتاہے جن کے لئے طهارت شرط ہے ۔ ہاں، نماز ميت، سجدہ سهو سوائے اس سجدہ سهوکے جو بھولے ہوئے تشهد کے لئے ہوتا ہے ، سجدہ شکر اور قرآن کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶۴ یہ ضروری نہيں کہ غسل کرتے وقت نيت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے یا مستحب، بلکہ اگر قصد قربت (جس کی تفصيل وضو کے احکام ميں گزر چکی ہے )اور خلوص کے ساته غسل کرے تو کافی ہے ۔

۶۱

مسئلہ ٣ ۶۵ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا اس بات پر شرعی دليل قائم ہوجائے کہ نما زکا وقت داخل ہو چکاہے اور واجب کی نيت سے غسل کرلے، ليکن اس کا ارادہ وجوب سے مقيد نہ ہو اور بعد ميں معلوم ہو کہ غسل وقت سے پهلے کر ليا ہے تو اس کا غسل صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶۶ غسل چاہے واجب ہو یا مستحب دو طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے :

١)ترتيبی ٢) ارتماسی

غسل ترتيبی

مسئلہ ٣ ۶ ٧ غسل ترتيبی ميں غسل کی نيت سے پهلے سر اور گردن اور بعد ميں بدن دهونا ضروری ہے اور بنابر احتياط واجب بدن کو پهلے دائيں طرف اور بعد ميں بائيں طرف سے دهوئے۔ اگر جان بوجه کر یا بھولے سے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے سر کو بدن کے بعد دهوئے تو یہ دهونا کافی ہوگا ليکن بدن کو دوبارہ دهونا ضروری ہے اور اگر دائيں طرف کو بائيں طرف کے بعد دهوئے تو بنابر احتياط واجب بائيں طرف کو دوبارہ دهوئے۔ پانی کے اندر تينوں اعضاء کو غسل کی نيت سے حرکت دینے سے غسل ترتيبی کا ہوجانا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٣ ۶ ٨ بنا بر احتياط واجب آدهی ناف اور آدهی شرمگاہ کو دائيں طرف اور آدهی کو بائيں طرف کے ساته دهوئے اور بہتر یہ ہے کہ تمام ناف اور تمام شرمگاہ کو دونوں اطراف کے ساته دهوئے۔

مسئلہ ٣ ۶ ٩ اس بات کا یقين پيدا کرنے کے لئے کہ تينوں حصوں یعنی سر وگردن، دائيں طرف اور بائيںطرف کو اچھی طرح دهو ليا ہے ، جس حصے کو دهو ئے اس کے ساته دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دهولے، بلکہ احتياط مستحب یہ ہے کہ گردن کے دائيں کے طرف کے پورے حصے کو بدن کے دائيں حصے اور گردن کے بائيں طرف کے پورے حصے کو بدن کے بائيں حصے کے ساته دهوئے۔

مسئلہ ٣٧٠ اگرغسل کرنے بعد معلوم ہو کہ بدن کاکچه حصہ نہيں دهلاہے اورمعلوم نہ ہوکہ وہ حصہ سر، دائيں جانب یا بائيں جانب ميں سے کس جانب ہے توسر کودهوناضروری نہيں اوربائيں جانب ميں جس حصے کے نہ دهلنے کا احتمال ہو اسے دهونا ضروری ہے اور دائيں جانب ميں جس حصے کے نہ دهلنے کا احتمال ہو احتياط کی بنا پر اسے بائيں جانب سے پهلے دهوئے۔

مسئلہ ٣٧١ اگرغسل کر نے کے بعدمعلوم ہو کہ بدن کا کچھ حصہ نہيں د هلا تو اگروہ حصہ بائيں جانب ميں ہو تو فقط اس حصے کو دهونا کافی ہے اور اگرو ہ حصہ دائيں جانب ہو تو اس حصے کو دهونے کے بعد احتياط واجب کی بنا پر بائيں جانب کو بھی دهوئے اور اگروہ حصہ سر وگردن ميں ہو تو اس حصے کو دهونے کے بعد بدن دهوئے اوراحتياط واجب کی بنا پر دائيں جانب کو بائيں جانب سے پهلے دهوئے۔

۶۲

مسئلہ ٣٧٢ اگرکوئی شخص غسل مکمل ہونے سے پهلے بائيں جانب کی کچھ مقدار دهلنے ميں شک کرے تو فقط اس مقدار کو دهونا کافی ہے ليکن اگربائيں جانب کی کچھ مقدار دهونے کے بعد دائيں جانب کی کچھ مقدار دهلنے ميں شک کر ے تو احتياط واجب کی بنا پراسے دهونے کے بعد بائيں جانب بھی دهوئے اور اگربدن کود ہوناشروع کرنے بعد سروگردن کی کچھ مقدار کے دهلنے ميں شک کرے تو شک کی کوئی حيثيت نہيں ہے اور اس کاغسل صحيح ہے ۔

غسل ارتماسی

مسئلہ ٣٧٣ پورے بدن کوپانی ميں ڈبو دینے سے غسل ارتماسی ہوجاتاہے اورجب پهلے سے جسم کاکچه حصہ پانی ميں موجودهواور پھرباقی جسم کوپانی ميں ڈبوئے توغسل ارتماسی صحيح ہونے ميں اشکال ہے اوراحتياط واجب کی بنا پراس طرح غسل کرے کہ عرفاًکهاجائے کہ پورا بدن ایک ساته پانی ميں ڈوباہے۔

مسئلہ ٣٧ ۴ - غسل ارتماسی ميں احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے کہ جسم کاپهلا حصہ پانی ميں داخل ہونے سے لے کر آخری حصے کے داخل ہونے تک غسل کی نيت کوباقی رکھے۔

مسئلہ ٣٧ ۵ اگرغسل ارتماسی کے بعدمعلوم ہوکہ بدن کے کسی حصے تک پانی نہيں پهنچاہے توچاہے اسے وہ جگہ معلوم ہویانہ ہو، دوبارہ غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٧ ۶ اگرغسل ترتيبی کے لئے وقت نہ ہوليکن ارتماسی کے لئے وقت ہوتوضروری ہے کہ غسل ارتماسی کرے۔

مسئلہ ٣٧٧ جس شخص نے حج یاعمرے کااحرام باندهاہو وہ غسل ارتماسی نہيں کرسکتا اور روزہ دارکے غسل ارتماسی کرنے کاحکم مسئلہ نمبر” ١ ۶ ٢ ۵ “ ميں آئے گا۔

غسل کے احکام

مسئلہ ٣٧٨ غسل ارتماسی یاترتيبی سے پهلے پورے بدن کاپاک ہونالازم نہيں بلکہ غسل کی نيت سے معتصم پانی ميں غوطہ لگانے یااس پانی کوبدن پرڈالنے سے بدن پاک ہوجائے توغسل صحيح ہے اورمعتصم اس پانی کوکہتے ہيں جو نجاست سے فقط مل جانے سے نجس نہيں ہوتا، جيسے بارش کاپانی،کراورجاری پانی۔

مسئلہ ٣٧٩ حرام سے جنب ہونے والااگرگرم پانی سے غسل کرے توپسينہ آنے کے باوجوداس کاغسل صحيح ہے اوراحتياط مستحب ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔

۶۳

مسئلہ ٣٨٠ اگرغسل ميں بدن کاکوئی حصہ دهلنے سے رہ جائے توغسل ارتماسی باطل ہے اورغسل ترتيبی کاحکم مسئلہ نمبر ” ٣٧١ “ ميں گذرچکاہے۔ ہاں، وہ حصے جنہيں عرفاً باطن سمجھا جاتا ہے جيسے ناک اورکان کے اندرونی حصے، ان کودهوناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٨١ جس حصے کے بارے ميں شک ہو کہ بدن کا ظاہری حصہ ہے یا باطنی حصہ، اگرمعلوم ہوکہ پهلے ظاہر تھا تو اسے دهوناضروری ہے اور اگر معلوم ہو کہ ظاہر نہيں تھا تو دهونا ضروری نہيں ہے اور اگر گذشتہ حالت معلوم نہ ہو تو بنا براحتياط واجب اسے دهوئے۔

مسئلہ ٣٨٢ اگرگوشوارہ اوراس جيسی چيزوں کے سوراخ اس قدر کشادہ ہوں کہ سوراخ کااندرونی حصہ ظاہر شمار ہوتا ہو تو اسے دهوناضروری ہے اوراس صورت کے علاوہ اسے دهوناضروری نہيں ۔

مسئلہ ٣٨٣ هروہ چيزجوپانی پهنچنے ميں رکاوٹ بنتی ہواسے بدن سے صاف کرناضروری ہے اوراگراس چيزکے صاف ہونے کایقين کئے بغيرغسل ارتماسی کرے تو دوبارہ غسل کرناضروری ہے اوراگرغسل ترتيبی کرے تواس کاحکم مسئلہ نمبر ” ٣٧٢ “ ميں گذرچکاہے۔

مسئلہ ٣٨ ۴ اگرغسل کرتے ہوئے شک کرے کہ پانی پهنچنے ميں رکاوٹ بننے والی کوئی چيزاس کے بدن پرہے یا نہيں توضروری ہے کہ تحقيق کرے یهاں تک کہ اسے اطمينان ہوجائے کہ اس کے بدن پرکوئی رکاوٹ نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٨ ۵ بدن کاجزشمارہونے والے چھوٹے چھوٹے بالوں کوغسل ميں دهوناضروری ہے اورلمبے بالوں کا دهونا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر پانی کسی طریقے سے بال ترکئے بغيرکھال تک پهنچ جائے توغسل صحيح ہے ،ليکن اگربال گيلے کئے بغيرکھال تک پانی پهنچاناممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ بدن تک پانی پهنچانے کے لئے ان بالوں کوبهی دهوئے۔

مسئلہ ٣٨ ۶ وضوصحيح ہونے کی تمام گذشتہ شرائط غسل صحيح ہونے ميں بھی شرط ہيں ، جيسے پانی کا پاک اورمباح ہونا، ليکن غسل ميں ضروری نہيں ہے کہ بدن کو اوپر سے نيچے کی جانب دهویا جائے اور اس کے علاوہ غسل ترتيبی ميں ایک حصہ د ہونے کے فوراًبعد دوسراحصہ دهونا بھی ضروری نہيں ہے ، لہٰذا اگرسرو گردن دهونے کے بعد وقفہ کرے اورکچه دیر بعد بدن دهوئے یادایاںحصہ دهوئے پھر کچھ دیر صبرکرنے کے بعد بایاں حصہ دهوئے توکوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، جو شخص پيشاب وپاخانہ روکنے پر قدرت نہ رکھتاہو اگرغسل کر نے اورنماز پڑھنے کی مدت تک روک سکے تو ضروری ہے کہ فوراًغسل مکمل کرے اور اس کے بعدفوراً نماز بھی پڑھے۔

مسئلہ ٣٨٧ جو شخص حمام کے مالک کی اجرت نہ د ینے کا ارادہ رکھتا ہو یا اس کی اجازت لئے بغيرادهار کی نيت سے حمام ميں غسل کرے تواگرچہ بعدميں حمام کے مالک کوراضی کرلے، اس کاغسل باطل ہے ۔

۶۴

مسئلہ ٣٨٨ اگرحمام کا مالک حمام ميں ادهار غسل کرنے پر راضی ہو ليکن کوئی شخص اس کا ادهار ادا نہ کرنے یا مال حرام سے ادا کرنے کے ارادے سے غسل کرے تو اس کاغسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٨٩ اگرحمام کے مالک کو ایسے مال سے اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کيا گيا ہو تو یہ حرام ہے اوراس کاغسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٩٠ اگرحمام ميں حوض کے پانی ميں پاخانے کے مقام کو صاف کرے اورغسل کرنے سے پهلے شک کرے کہ اس وجہ سے اب مالک غسل کرنے پر راضی ہے یا نہيں تو اس کا غسل باطل ہے ، مگر یہ کہ غسل کرنے سے پهلے حمام کے مالک کوراضی کرلے۔

مسئلہ ٣٩١ اگرشک کرے کہ غسل کيا یا نہيں تو ضروری ہے کہ غسل کرے، ليکن اگرغسل کرنے کے بعد اس کے صحيح ہونے ميں شک کرے تواگر احتمال دے کہ غسل کرتے وقت متوجہ تھا تو اس کا غسل صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٩٢ اگرغسل کے دوران پيشاب جيسا کوئی حدث اصغر صادر ہو تو احتياط واجب کی بنا پرغسل مکمل کرنے کے بعد غسل کا اعادہ کرنے کے ساته ساته وضو بھی کرے مگر یہ کہ غسل ترتيبی سے غسل ارتماسی کی طرف عدول کرلے۔

مسئلہ ٣٩٣ اگر وقت تنگ ہونے کی وجہ سے مکلف کی ذمہ داری تيمم کرنا تھی ليکن وہ اس خيال سے کہ غسل اور نمازکے لئے وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے جنابت سے طهارت حاصل کرنے یاقرآن پڑھنے وغيرہ کے ارادے سے غسل کيا ہو تو صحيح ہے ، ليکن اگرموجودہ نمازپڑھنے کے لئے اس طرح کے ارادے سے غسل کرے کہ اگریہ نماز واجب نہ ہوتی تو اس کا غسل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا تو اس صورت ميں اس کا غسل باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٩ ۴ جو شخص جنب ہوا ہو اور اس نے نماز پڑھی ہو، اگر شک کرے کہ اس نے غسل کيا ہے یا نہيں تو اگر احتمال دے کہ نماز شروع کرتے وقت اس جانب متوجہ تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن بعد والی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نمازکے بعد حدث اصغر صادر ہوا ہو تو ضروری ہے کہ وضو بھی کرے اور پڑھی ہوئی نماز کو بھی وقت باقی ہونے کی صورت ميں دهرائے اور اگر وقت گذر چکا ہو تو اس کی قضا کرے۔

مسئلہ ٣٩ ۵ جس پرچندغسل واجب ہوں وہ ان کو عليحدہ عليحدہ انجام دے سکتا ہے ، ليکن پهلے غسل کے بعد باقی غسلوں کے لئے وجوب کی نيت نہ کرے اوراسی طرح سب کی نيت سے ایک غسل بھی کرسکتاہے ، بلکہ اگران ميں سے کسی خاص غسل کی نيت کرے تو باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے ۔

۶۵

مسئلہ ٣٩ ۶ اگر بدن پر کسی جگہ قرآنی آیت یاخداوند متعال کا نام لکھا ہو اور غسل ترتيبی کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ پانی اس طرح بدن پر ڈالے کہ اس حصے سے بدن کا کوئی حصہ مس نہ ہو اور اگر ترتيبی وضو کرناچاہے اوراعضائے وضو پرکہيں آیت قرآنی لکھی ہو تب بھی یهی حکم ہے اور اگر خدوند متعال کا نام ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پریهی حکم ہے اورغسل ووضوميں انبياء، ائمہ اورحضرت زهراء ع کے ناموں کے سلسلے ميں احتياط کا خيال رکھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٣٩٧ جس شخص نے غسل جنابت کيا ہو ضروری ہے کہ وہ نمازکے لئے وضو نہ کرے، بلکہ استحاضہ متوسطہ کے غسل کے علاوہ واجب غسلوں اور مسئلہ نمبر ” ۶۵ ٠ “ ميں آنے والے مستحب غسلوں کے ساته بھی بغير وضو نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ وضو بھی کرے۔

استحاضہ

عورت کو آنے والے خونوں ميں سے ایک خون استحاضہ ہے اورجس عورت کوخون استحاضہ آئے اسے مستحاضہ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٣٩٨ خون استحاضہ اکثر اوقات زرد اور سرد ہوتا ہے اور شدت اورجلن کے بغيرآنے کے علاوہ گاڑھا بھی نہيں ہوتا ہے ليکن ممکن ہے کبهی سياہ یا سرخ اور گرم وگاڑھا ہو اور شدت وجلن کے ساته آئے۔

مسئلہ ٣٩٩ استحاضہ کی تين قسميں ہيں : قليلہ،متوسطہ اورکثيرہ۔

استحاضہ قليلہ: یہ ہے کہ جو روئی عورت اپنے ساته رکھتی ہے خون فقط اس کے اوپر والے حصے کو آلودہ کرے اوراندر تک سرایت نہ کرے۔

استحاضہ متوسطہ: یہ ہے کہ خون روئی ميں سرایت کرجائے چاہے کسی ایک کونے ميں هی، ليکن عورتيں خون سے بچنے کے لئے عموماً جو کپڑا یا اس جيسی چيز باندهتی ہيں ، اس تک نہ پهنچے۔

استحاضہ کثيرہ: یہ ہے کہ خون روئی ميں سرایت کرکے کپڑے تک پهنچ جائے۔

۶۶

احکام استحاضہ

مسئلہ ۴ ٠٠ استحاضہ قليلہ والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ ہر نمازکے لئے وضوکرے اور احتياط واجب کی بنا پر روئی تبدیل کرے اور اگر شرمگاہ کے ظاہری حصے پر خون لگا ہو تو اسے پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠١ استحاضہ متوسطہ والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ ہر نمازِ صبح کے لئے غسل کرے اور دوسری صبح تک سابقہ مسئلے ميں مذکورہ استحاضہ قليلہ کے وظيفے پرعمل کرے اورجب بھی نمازِ صبح کے علاوہ کسی دوسری نماز سے پهلے یہ صورت حال پيش آئے تواس نمازکے لئے غسل کرے اوردوسری صبح تک اپنی نمازوں کے لئے استحاضہ قليلہ والے کام انجام دے۔

جس نماز سے پهلے غسل ضروری تھا اگر عمداً یا بھول کر غسل نہ کرے تو بعد والی نماز سے پهلے غسل کرے، چاہے خون آرہا ہو یا رک چکا ہو۔

مسئلہ ۴ ٠٢ استحاضہ کثيرہ والی عورت کے لئے سابقہ مسئلے ميں استحاضہ متوسطہ کے مذکورہ احکام پر عمل کرنے کے علاوہ احتياط واجب کی بنا پر ہر نماز کے لئے کپڑے کو تبدیل یا پاک کر نا بھی ضروری ہے اورضروری ہے کہ ایک غسل نمازظہر وعصر کے لئے اور ایک نماز مغرب وعشا کے لئے انجام دے اور نماز ظہر وعصر اوراسی طرح مغرب وعشا کے درميان وقفہ نہ کرے اور اگر وقفہ کردے تو دوسری نماز چاہے عصر ہو یا عشاء، اس کے لئے غسل کرے اور استحاضہ کثيرہ ميں غسل، وضو کی جگہ کافی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠٣ اگر خون استحاضہ وقتِ نماز سے پهلے بھی آیا ہو تو اگر عورت نے اس خون کے لئے وضو یا غسل نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ نماز سے پهلے وضو یا غسل کرے اگر چہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔

مسئلہ ۴ ٠ ۴ جس مستحاضہ متوسطہ کے لئے وضواور غسل ضروری ہے ، ان دونوںميں سے جسے بھی پهلے انجام دے صحيح ہے ، ليکن بہترہے کہ پهلے وضوکرے۔هاں، مستحاضہ کثيرہ اگروضوکرناچاہے توضروری ہے کہ غسل سے پهلے کرے۔

مسئلہ ۴ ٠ ۵ مستحاضہ قليلہ اگر نماز صبح کے بعد متوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز ظہر وعصر کے لئے غسل کرے اوراگر نماز ظہر وع-صر کے بعد متوسطہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب وعشا کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۴ ٠ ۶ اگرمستحاضہ قليلہ یامتوسطہ نماز صبح کے بعدکثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ ایک غسل نماز ظہر وعصر کے لئے اور ایک غسل نماز مغرب وعشا کے لئے کرے اور اگر نماز ظہر وعصر کے بعد کثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب وعشا کے لئے غسل کرے۔

۶۷

مسئلہ ۴ ٠٧ مستحاضہ کثيرہ یامتوسطہ جب نماز کا وقت داخل ہونے تک اپنی حالت پرباقی ہو، اگرنمازکاوقت داخل ہونے سے پهلے نمازکے لئے غسل کرے توباطل ہے ليکن اذانِ صبح سے تهوڑی دیرپهلے جائزهے کہ قصدرجاء سے غسل کرکے نمازشب پڑھے اورطلوع فجرکے بعداحتياط واجب کی بنا پرنمازِصبح کے لئے غسل کااعادہ کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٠٨ مستحاضہ عورت پرنمازیوميہ ،جس کاحکم گذرچکاہے ،کے علاوہ هرواجب ومستحب نماز کے لئے ضروری ہے کہ مستحاضہ کے لئے ذکرشدہ تمام کاموں کوانجام دے اورمستحاضہ کثيرہ وضوبهی کرے۔ اسی طرح اگرپڑھی ہوئی نمازیوميہ کو احتياطاً دوبارہ پڑھنا چاہے یافرادیٰ پڑھی ہوئی نمازیوميہ کوباجماعت پڑھناچاہے تب بھی یهی حکم ہے اوراگراس نمازکوایسی فریضہ یوميہ کے وقت ميں پڑھناچاہے جس کے لئے غسل کياہے تواحتياط واجب کی بنا پردوبارہ غسل کرے۔هاں، اگرنمازکے فوراً بعدنمازاحتياط،بھولاہواسجدہ ،بھولاہواتشهد یا تشهد بھولنے کی وجہ سے واجب ہونے والا سجدہ سهو انجام دے تو استحاضہ والے کام انجام دیناضروری نہيں ہيں اورنمازکے سجدہ سهوکے لئے استحاضہ کے کام بجالانا ضروری نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۴ ٠٩ جس مستحاضہ کاخون رک گياہواس کے لئے فقط پهلی نمازکے لئے مستحاضہ والے کام کرناضروری ہيں اوربعدوالی نمازوں کے لئے لازم نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۴ ١٠ اگرمستحاضہ کواپنے استحاضہ کی قسم معلوم نہ ہو تونماز پڑھتے وقت ضروری ہے کہ یااحتياط کے مطابق عمل کرے یااپنے استحاضہ کی تحقيق کرے مثلاتهوڑی روئی شرمگاہ ميں داخل کرنے کے بعدنکالے اوراستحاضہ کی تينوں قسموں ميں سے اپنے استحاضہ کی قسم معلوم ہونے کے بعداس قسم کے وظيفے پرعمل کرے، ليکن اگریہ جانتی ہوکہ جس وقت تک وہ نمازپڑھے گی اس کے استحاضہ ميں تبدیلی واقع نہ ہوگی تووہ نمازکاوقت داخل ہونے سے پهلے بھی اپنے استحا ضہ کی تحقيق کرسکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١١ اگرمستحاضہ اپنے استحاضہ کی تحقيق کئے بغيرنمازميں مشغول ہوجائے تواگرقصدقربت ہو اور اس نے اپنے وظيفے کے مطابق عمل کياہو، مثلاًاس کااستحاضہ قليلہ ہو اور اس نے استحاضہ قليلہ کے وظيفے کے مطابق عمل کيا ہو تو اس کی نمازصحيح ہے اوراگرقصدقربت نہ ہویااپنے وظيفے کے مطابق عمل نہ کياہومثلاً اس کااستحاضہ متوسطہ ہواوراس نے استحاضہ قليلہ کے وظيفے پرعمل کياہوتواس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ١٢ اگرمستحاضہ اپنے استحاضہ کی تحقيق نہ کرسکتی ہو اور نہ ہی یہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ کس قسم کاہے تواحتياط واجب یہ ہے کہ زیادہ والا وظيفہ انجام دے تاکہ یقين ہوجائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری انجام دے دی ہے ، مثلااگرنہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ قليلہ ہے یامتوسطہ تواستحاضہ متوسطہ والے کاموں کوانجام دے اوراگرنہ جانتی ہوکہ اس کااستحاضہ متوسطہ ہے یاکثيرہ تواستحاضہ کثيرہ والے کام انجام دینے کے علاوہ هرنمازکيلئے وضو بھی کرے، ليکن اگرجانتی ہوکہ پهلے اس کااستحاضہ کس قسم کاتهاضروری ہے کہ اس قسم کے وظيفہ کے مطابق عمل کرے۔

۶۸

مسئلہ ۴ ١٣ اگرخون استحاضہ ابتدائی مرحلہ ميں اندرہی موجودہواورباہرنہ آئے توعورت کے غسل یاوضوکوباطل نہيں کرتااوراگرخون کی تهوڑی سی مقداربهی باہرآجائے تووضواورغسل کوباطل کردیتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١ ۴ اگر مستحاضہ عورت نماز کے بعد اپنی تحقيق کرے اور خون نہ ہو تو اگرچہ جانتی ہو کہ خون دوبار ہ آئے گا تب بھی اسی پهلے والے وضوسے نماز پڑھ سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ١ ۵ مستحاضہ اگرجانتی ہوکہ جب سے اس نے وضویاغسل شروع کياہے خون باہرنہيں آیاہے تووہ نماز کو اس وقت تک مو خٔرکرسکتی ہے جب تک اسے اس حالت کے باقی رہنے کاعلم ہو۔

مسئلہ ۴ ١ ۶ اگرمستحاضہ جانتی ہوکہ نماز کا وقت گذرنے سے پهلے مکمل طورپرپاک ہوجائے گی یانمازپڑھنے کی مقدارميں اس کاخون رک جائے گا توضروری ہے کہ صبرکرے اورنمازاس وقت پڑھے جب پاک ہو۔

مسئلہ ۴ ١٧ اگروضواورغسل کے بعدخون باہرآنارک جائے اورمستحاضہ جانتی ہوکہ اگرنمازميں اتنی تاخير کرے کہ جس وقت ميں وضو، غسل اور اس کے بعد نماز ادا کی جا سکے، تو مکمل پاک ہوجائے گی توضروری ہے کہ نمازميں تاخير کرے اور جب مکمل پاک ہوجائے تو دوبارہ وضو اور غسل کرکے نماز پڑھے اوراگر وقت نماز تنگ ہوجائے تودوبارہ وضو اور غسل کرناضروری نہيں ہے ، بلکہ احتياط واجب کی بنا پرغسل کی نيت سے اوراسی طرح وضوکی نيت سے تيمم کرکے نمازپڑھے۔

مسئلہ ۴ ١٨ مستحاضہ کثيرہ اورمتوسطہ جب مکمل طورپرخون سے پاک ہوجائے توضروری ہے کہ غسل کرے، ليکن اگرجانتی ہوکہ آخری نمازکے لئے غسل شروع کرنے کے بعدسے خون نہيں آیاہے اوروہ مکمل پاک ہوگئی ہے تودوبارہ غسل کرنالازم نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴ ١٩ مستحاضہ قليلہ ،متوسطہ اورکثيرہ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وظيفہ پرعمل کرنے کے بعدنمازميں تاخير نہ کرے سوائے اس مورد کے جو مسئلہ نمبر” ۴ ١ ۵ “ ميں گذرچکا ہے ، ليکن نمازسے پهلے اذان واقامت کهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اورنمازميں قنوت اوراس جيسے دوسرے مستحب کام بھی انجام دے سکتی ہے اوراگرنمازکے واجب اجزاء کی مقدارميں پاک ہوتواحتياط مستحب ہے کہ مستحبات کوترک کرے۔

مسئلہ ۴ ٢٠ -اگرمستحاضہ اپنے وضویاغسل کے وظيفے اور نمازکے درميان وقفہ کردے توضروری ہے کہ اپنے وظيفے کے مطابق دوبارہ وضویاغسل کرکے بلافاصلہ نمازميں مشغول ہوجائے، سوائے اس کے کہ جانتی ہوکہ اس حالت پر باقی ہے جومسئلہ نمبر ” ۴ ١ ۵ “ ميں گذرچکی ہے ۔

۶۹

مسئلہ ۴ ٢١ اگرخونِ استحاضہ کااخراج مسلسل جاری رہے اورمنقطع نہ ہوتوضررنہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ غسل کے بعدخون کوباہرآنے سے روکے اورلاپرواہی کرنے کی صورت ميں خون باہرآجائے توضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے اوراگرنمازبهی پڑھ لی ہوتودوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ۴ ٢٢ اگرغسل کرتے ہوئے خون نہ رکے توغسل صحيح ہے ليکن اگرغسل کے دوران استحاضہ متوسطہ کثيرہ ہو جائے تو شروع سے غسل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢٣ احتياط مستحب ہے کہ مستحاضہ، روزے والے پورے دن ميں جتنا ممکن ہوخون کو باہر آنے سے روکے۔

مسئلہ ۴ ٢ ۴ مستحاضہ کثيرہ کاروزہ اس حالت ميں صحيح ہے جب وہ دن کی نمازوں کے واجب غسل انجام دے اوراسی طرح احتياط واجب کی بنا پرجس دن روزہ رکھنے کا ارادہ ہو اس سے پهلے والی رات ميں نماز مغرب و عشا کے لئے بھی غسل کرے۔

مسئلہ ۴ ٢ ۵ اگرنمازعصرکے بعدمستحاضہ ہوجائے اورغروب تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢ ۶ اگرمستحاضہ قليلہ، نمازسے پهلے متوسطہ یاکثيرہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ مستحاضہ متوسطہ یاکثيرہ کے سلسلے ميں مذکورہ احکام پر عمل کرے اوراگراستحاضہ متوسطہ کثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ مستحاضہ کثيرہ کے کام انجام دے۔ لہٰذا اگر استحاضہ متوسطہ کے لئے غسل کياہوتواس کافائدہ نہيں ہے اورکثيرہ کے لئے دوبارہ غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٢٧ اگرنمازکے دوران مستحاضہ متوسطہ، کثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور استحاضہ کثيرہ کا غسل اوراس کے دوسرے کام انجام دے کردوبارہ نمازپڑھے اوراحتياط مستحب کی بنا پرغسل سے پهلے وضوکرے اور اگر غسل کے لئے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضوکرکے غسل کے بدلے تيمم کرے اوراگرتيمم کيلئے بھی وقت نہ ہوتو احتياط واجب کی بنا پراسی حالت ميں نمازتمام کرے، ليکن وقت ختم ہونے کے بعدقضاکرناضروی ہے ۔

اسی طرح اگرنمازکے دوران مستحاضہ قليلہ، متوسطہ یاکثيرہ ہوجائے توضروری ہے کہ نمازتوڑ دے اور مستحاضہ متوسطہ یا کثيرہ کے وظائف انجام دے۔

مسئلہ ۴ ٢٨ اگرنمازکے دوران خون رک جائے اورمستحاضہ کومعلوم نہ ہوکہ اندربهی بند ہوا یا نہيں اور نماز کے بعد معلوم ہوکہ بندهوگياتهاتووضواورغسل ميں سے جو وظيفہ تھااسے انجام دے کردوبارہ نمازپڑھے۔

۷۰

مسئلہ ۴ ٢٩ اگرمستحاضہ کثيرہ، متوسطہ ہوجائے توضروری ہے کہ پهلی نمازکيلئے کثيرہ والے اوربعدوالی نمازوں کے لئے متوسطہ والے کام انجام دے، مثلا اگرنماز ظهرسے پهلے مستحاضہ کثيرہ، متوسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز ظہر کے لئے غسل کرے اور نماز عصر، مغرب اورعشا کے لئے وضو کرے، ليکن اگر نماز ظہر کے لئے غسل نہ کرے اورفقط نماز عصر پڑھنے کا وقت باقی ہو تونماز عصرکے لئے غسل کرناضروری ہے اور اگر نماز عصر کے لئے بھی غسل نہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگر اس کے لئے بھی غسل نہ کرے اورفقط نمازعشا پڑھنے کاوقت ہو تو نماز عشا کے لئے غسل کرناضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣٠ اگرہرنمازسے پهلے مستحاضہ کثيرہ کا خون رک جاتا ہو اور دوبارہ آجاتاہوتوخون رکنے کے وقت ميں اگر غسل کرکے نمازپڑھی جا سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اس وقت کے دوران ہی غسل کرکے نمازپڑھے اوراگرخون رکنے کا وقفہ اتناطویل نہ ہوکہ طهارت کرکے نمازپڑھ سکے تووهی ایک غسل کافی ہے اوراگرغسل اورنمازکے کچھ حصے کے لئے وقت ہو تو احتياط واجب کی بناپراس وقت ميں غسل کرے نمازپڑھے۔

مسئلہ ۴ ٣١ اگرمستحاضہ کثيرہ، قليلہ ہوجائے توضروری ہے کہ پهلے نمازکے لئے کثيرہ والے اوربعدوالی نمازوں کے لئے قليلہ والے کام انجام دے اوراگرمستحاضہ متوسطہ، قليلہ ہوجائے توبهی ضروری ہے کہ پهلی نمازکے لئے متوسطہ کے وظيفے اور بعد والی نمازوں کے لئے قليلہ کے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ۴ ٣٢ اگرمستحاضہ اپنے واجب وظيفے ميں سے کوئی ایک کام بھی ترک کرے تواس کی نمازباطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣٣ جس مستحاضہ نے نمازکے لئے وضویاغسل کياہے احتياط واجب کی بنا پر حالت اختيار ميں اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن کی عبارت سے مس نہيں کرسکتی اور اضطرار کی صورت ميں جائز ہے ، ليکن احتياط کی بنا پر وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣ ۴ جس مستحاضہ نے اپناواجب غسل انجام دیاہے اس کے لئے مسجد ميں جانا،مسجدميں ٹہرنا، واجب سجدے والی آیت کی تلاوت کرنااوراس کے شوهرکے لئے اس سے نزدیکی کرنا حلال ہے ، اگرچہ اس نے نماز ادا کرنے کے لئے انجام دئے جانے والے دوسرے کام مثلاً روئی اور کپڑا تبدیل کرنے کا کام انجام نہ دیا ہو اور بنا بر اقویٰ یہ سارے کام غسل کے بغيربهی جائز ہيں اگرچہ ترک کرنا احوط ہے ۔

مسئلہ ۴ ٣ ۵ اگرمستحاضہ کثيرہ اورمتوسطہ نمازکے وقت سے پهلے واجب سجدے والی آیت پڑھنا،مسجدجانایااس کاشوهراس سے نزدیکی کرناچاہے تو احتياط مستحب ہے کہ وہ عورت غسل کرلے۔

مسئلہ ۴ ٣ ۶ مستحاضہ پرنمازآیات واجب ہے اورنمازآیات کے لئے بھی وہ تمام کام ضروری ہيں جونمازیوميہ کے لئے گزرچکے ہيں اوراحتياط کی بنا پرمستحاضہ کثيرہ وضوبهی کرے۔

۷۱

مسئلہ ۴ ٣٧ جب بھی مستحاضہ پرنمازیوميہ کے اوقات ميں نمازآیات واجب ہوجائے اور دونوں نمازوں کو بلافاصلہ پڑھنا چاہے تب بھی ضروری ہے کہ یوميہ اورآیات دونوں نمازوں کے لئے عليٰحدہ عليٰحدہ مستحاضہ کے وظائف پر عمل کرے۔

مسئلہ ۴ ٣٨ مستحاضہ کے لئے ضروری ہے کہ قضا نمازوں کی ادائيگی پاک ہونے تک مو خٔرکردے اورقضاکے لئے وقت تنگ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ هرقضانمازکے لئے ادانمازکے واجبات بجالائے۔

مسئلہ ۴ ٣٩ اگرعورت جانتی ہوکہ اسے آنے والاخون زخم کاخون نہيں ہے اورشرعاً اس پرحيض ونفاس کا حکم بھی نہيں ہے توضروری ہے کہ استحاضہ کے احکام پر عمل کرے، بلکہ اگر شک ہو کہ خون استحاضہ ہے یادوسرے خونوں سے کوئی تو ان کی علامت نہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پراستحاضہ کے کام انجام دے۔

حيض

حيض وہ خون ہے جو غالباً ہر مهينے چند دنوں کے لئے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتا ہے ۔

عورت کو جب حيض کا خون آئے تو اسے حائض کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۴۴ ٠ حيض کا خون عموماً گاڑھا و گرم ہوتا ہے اور اس کا رنگ سياہ یا سرخ ہوتا ہے ۔ یہ شدت اور تهوڑی سی جلن کے ساته خارج ہوتا ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ١ ساٹھ برس پورے کرنے کے بعد عورت یائسہ ہو جاتی ہے ، چنانچہ اس کے بعد اسے جو خون آئے وہ حيض نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ پچاس سال مکمل ہوجانے کے بعدسے ساٹھ سال کی عمر پوری ہونے تک یائسہ اور غير یائسہ دونوں کے احکام پر عمل کرے چاہے قریشی ہو یا غير قریشی، لہٰذا اس دوران اگر علاماتِ حيض کے ساته یا ایامِ عادت ميں خون آئے تو احتياط واجب کی بنا پر ان کاموں کو ترک کر دے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔

مسئلہ ۴۴ ٢ اگر کسی لڑکی کو نو سال کی عمر تک پهنچنے سے پهلے خون آئے تو وہ حيض نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ٣ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو بھی حيض آنا ممکن ہے اور حاملہ وغير حاملہ کے درميان احکامِ حيض ميں کوئی فرق نہيں ہے ۔هاں، اگر حاملہ عورت اپنی عادت کے ایام شروع ہونے کے بيس روز بعد حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو احتياط واجب کی بنا پر اس کے لئے ضروری ہے کہ حائضہ پر حرام کاموں کو ترک کردے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

مسئلہ ۴۴۴ جس لڑکی کو معلوم نہ ہو کہ وہ نو سال کی ہو چکی ہے یا نہيں ، اگر اسے ایسا خون آئے جس ميں حيض کی علامات نہ ہوں تو وہ حيض نہيں ہے اور اگر اس خون ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو وہ حيض ہے اور شرعاً اس کی عمر پورے نو سال ہوگئی ہے ۔

۷۲

مسئلہ ۴۴۵ جس عورت کو شک ہو کہ یائسہ ہوگئی ہے یا نہيں ، اگر وہ خون دیکھے اور نہ جانتی ہو کہ یہ حيض ہے یا نہيں تو اس کی ذمہ داری ہے کہ خود کو یائسہ نہ سمجھے۔

مسئلہ ۴۴۶ حيض کی مدت تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتی۔

مسئلہ ۴۴ ٧ حيض کے لئے ضروری ہے کہ پهلے تين دن لگاتار آئے، لہٰذا اگر مثال کے طور پر کسی عورت کو دو دن خون آئے پھر ایک دن نہ آئے اور پھر ایک دن خون آجائے تو وہ حيض نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ دوسری صورت جيسی صورتحال ميں ان کاموں کو ترک کردے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجا لائے۔

مسئلہ ۴۴ ٨ حيض کی ابتدا ميں خون کا باہر آنا ضروری ہے ، ليکن یہ ضروری نہيں کہ پورے تين دن خون نکلتا رہے، بلکہ اگر شرم گاہ ميں بھی خون موجود ہو تو کافی ہے ۔هاں، خون کا رحم ميں ہونا کافی نہيں ہے ، البتہ اگر تين دنوں ميں تهوڑے سے وقت کے لئے کوئی عورت پاک ہو بھی جائے جيسا کہ عورتوں کے درميان معمول ہے تب بھی وہ حيض ہے ۔

مسئلہ ۴۴ ٩ ضروری نہيں ہے کہ عورت پهلی اور چوتھی رات کو بھی خون دیکھے ليکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اور تيسری رات کو خون منقطع نہ ہو۔ پس اگر پهلے دن اذانِ صبح کے وقت سے تيسرے دن غروب آفتاب تک متواتر خون آتا رہے اور کسی وقت قطع نہ ہو تو بغير کسی اشکال کے وہ حيض ہے ۔ اسی طرح سے اگر پهلے دن دوپہر سے خون آنا شروع ہو اور چوتھے دن اسی وقت قطع ہو تو وہ بھی حيض ہے ، ليکن اگر طلوعِ آفتاب سے شروع ہو کر تيسرے دن غروب تک رہے تو احتياط واجب کی بنا پر ان کاموں کو ترک کر دے جنہيں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

مسئلہ ۴۵ ٠ اگر کوئی عورت تين دن متواتر علامات حيض کے ساته یا عادت کے ایام ميں خون دیکھے اور پاک ہوجائے، چنانچہ اگر وہ دوبارہ علاماتِ حيض کے ساته یا عادت کے ایام ميں خون دیکھے تو جن دنوں ميں وہ خون دیکھے اور جن دنوں ميں وہ پاک ہو، ان تمام دنوں کو ملاکر اگر دس دنوں سے زیادہ نہ ہوں تو جن دنوں ميں وہ پاک تهی، وہ بھی حيض ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ١ اگر کسی عورت کو تين دن سے زیادہ اور دس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ خون پهوڑے یا زخم کا ہے یا حيض کا، تو اگر خون ميں علامات حيض موجود ہوں یا ایام عادت ہوں تو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے۔ اس صورت کے علاوہ اگر جانتی ہو کہ سابقہ حالت طهارت تھی یا سابقہ حالت کو نہ جانتی ہو تو اپنے آپ کو پاک سمجھے اور اگر جانتی ہو کہ سابقہ حالت حيض تھی تو جهاں تک سابقہ حالت کے تمام خون اور مشکوک خون کا شرعاً حيض ہونا ممکن ہو، اسے حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴۵ ٢ اگر کوئی عورت خون دیکھے جسے تين دن نہ گزرے ہوں اور جس کے بارے ميں اسے علم نہ ہو کہ زخم کا خون ہے یا حيض کا اور ایامِ عادت ميں نہ ہو اور اس ميں صفات حيض نہ ہوں، تواگر سابقہ حالت حيض ہو جيسا کہ سابقہ مسئلے ميں بيان ہوچکا، تو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عبادات کو بجالائے۔

۷۳

مسئلہ ۴۵ ٣ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے شک ہو کہ یہ خون حيض ہے یا استحاضہ ، تو اس ميں حيض کی شرائط موجود ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴۵۴ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حيض ہے یا بکارت کا خون ، توضروری ہے کہ یااپنے بارے ميں تحقيق کرے یعنی روئی کی کچھ مقدار شرمگاہ ميں رکھے اور تهوڑی دیر انتظار کرے پھر روئی باہر نکالے، پس اگر خون روئی کے اطراف ميں لگا ہو تو خون بکارت ہے اور اگر خون ساری روئی تک پهنچ چکا ہو تو حيض ہے اور یا احتياط کرتے ہوئے ان کاموں کو بھی ترک کرے جو حائضہ پر حرام ہيں اور ان اعمال کو بھی انجام دے جو پاک عورت پر واجب ہيں ۔

مسئلہ ۴۵۵ اگر کسی عورت کو تين دن سے کم خون آئے اور پاک ہو جائے اور پھر تين دن تک ایام عادت یا علاماتِ حيض کے ساته آئے تو دوسرا خون حيض ہے اور پهلا خون اگرچہ ایام عادت ميں ہو حيض نہيں ہے ۔

حائضہ کے احکام

مسئلہ ۴۵۶ حائضہ پر چند چيزیں حرام ہيں :

اوّل: نماز جيسی عبادات جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم کرنا پڑتا ہے ۔ ان عبادات کے حرام ہونے سے مراد یہ ہے کہ انہيں حکمِ خدا کی بجاآوری اور مطلوبيتِ شرعی کے قصد سے انجام دینا جائز نہيں ہے ۔ ليکن نماز ميت جيسی عبادات جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم ضروری نہيں ہے ، انہيں انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

دوم:احکامِ جنابت ميں مذکورہ تمام چيزیں جو مجنب پر حرام ہيں ۔

سوم:فرج ميں جماع جو کہ مرد و عورت دونوں پر حرام ہے چاہے ختنہ گاہ کی مقدار سے بھی کم دخول ہو اور منی بھی نہ نکلے اور احتياط واجب کی بنا پر حائضہ کے ساته پشت کی جانب سے بھی وطی کرنے ميں اجتناب کرے۔ ہاں، حائضہ سے نزدیکی کے علاوہ بوسہ دینے اور چھيڑ چھاڑ جيسی لذت حاصل کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ٧ جماع کرنا ان ایام ميں بھی حرام ہے جب عورت کا حيض قطعی نہ ہو ليکن اس پر شرعاً خون کو حيض سمجھنا ضروری ہو، لہٰذا جو عورت دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور آئندہ آنے والے حکم کی بنا پر ان ميں سے اپنی رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت والے ایام کو حيض قرار دینا ضروری ہو تو ان ایام ميں اس کا شوہر اس سے نزدیکی نہيں کرسکتا ہے ۔

۷۴

مسئلہ ۴۵ ٨ اگر مرد بيوی سے حالت حيض ميں نزدیکی کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر ایام حيض کے پهلے حصے ميں اٹھ ارہ، دوسرے حصّے ميں نو اور تيسرے حصے ميں ساڑے چار چنے کے برابر سکہ دار سونا بطور کفارہ ادا کرے۔ مثلاً جس عورت کو چھ دن حيض آتا ہو اگر اس کا شوہر پهلی اور دوسری رات یا دن ميں اس سے جماع کرے تو اٹھ ارہ چنے کے برابر سونا، تيسری اور چوتھی رات یا دن ميں نَو چنے اور پانچویں اور چھٹی رات یا دن ميں نزدیکی کرے تو ساڑھے چار چنے کے برابر سونا دے اور عورت پر کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۵ ٩ احتياط مستحب کی بنا پر حائضہ کے ساته پشت کی جانب سے نزدیکی کرنے کا کفارہ سابقہ مسئلے کے مطابق ادا کرے۔

مسئلہ ۴۶ ٠ اگر سکہ دار سونا نہ ہو تو اس کی قيمت ادا کرے اور اگر اس کی قيمت ميں ، جماع کرتے وقت اور فقير کو ادا کرتے وقت اختلاف ہو تو فقير کو ادا کرتے وقت کی قيمت حساب کرے۔

مسئلہ ۴۶ ١ اگر کوئی اپنی بيوی کے ساته ایام حيض کے پهلے، دوسرے اور تيسرے ہر حصے ميں جماع کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر ہر حصّے کا کفارہ دے جو مجموعاً ساڑھے اکتيس چنے ہيں ۔

مسئلہ ۴۶ ٢ اگر حائضہ سے متعدد بار نزدیکی کرے تو احتياط مستحب ہے کہ ہر جماع کے لئے عليحدہ کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶ ٣ اگر مرد نزدیکی کے دوران مطلع ہو جائے کہ بيوی حائضہ ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ فوراً اس سے جدا ہو جائے اور اگر جدا نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶۴ اگرمرد حائضہ عورت سے زنا کرے یا نامحرم حائضہ کو بيوی سمجھ کر اس کے ساته جماع کرے تو احتياط مستحب کی بنا پر کفارہ دے۔

مسئلہ ۴۶۵ جو شخص کفارہ دینے کی قدرت نہ رکھتا ہو احتياط مستحب کی بنا پر ایک فقير کو صدقہ دے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو استغفار کرے۔

مسئلہ ۴۶۶ اگر کوئی شخص جاہل قاصر ہونے کی وجہ سے یا بھول کر اپنی بيوی سے حالت حيض ميں نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ، ليکن جاہل مقصر ميں محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٧ اگر بيوی کو حائضہ سمجھتے ہوئے اس سے نزدیکی کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حائضہ نہيں تھی تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٨ اگر عورت کو حالت حيض ميں طلاق دے تو جيسا کہ طلاق کے احکام ميں بتایا جائے گا، ایسی طلاق باطل ہے ۔

مسئلہ ۴۶ ٩ گر عورت خود کے بارے ميں حائضہ ہونے یا پاک ہونے کی خبر دے تو قبول کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٠ اگر عورت نماز پڑھتے ہوئے حائضہ ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۷۵

مسئلہ ۴ ٧١ اگر عورت نماز پڑھتے ہوئے شک کرے کہ حائضہ ہوئی یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ، ليکن اگر نماز کے بعد معلوم ہو کہ نماز کے دوران حائضہ ہوگئی تھی تو اس حالت ميں پڑھی ہوئی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٢ خون حيض سے پاک ہونے کے بعد اگر نماز اور دوسری عبادتيں جن کے لئے وضو، غسل یا تيمم ضروری ہوتا ہے ، انجام دینا چاہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط مستحب ہے کہ غسل سے پهلے وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۴ ٧٣ حيض سے پاک ہونے کے بعد اگر چہ غسل نہ کيا ہو، عورت کو طلاق دینا صحيح ہے اور اس وقت اس کا شوہر اس سے جماع بھی کرسکتا ہے ، ليکن جماع ميں احتياط واجب کی بنا پرضروری ہے شرمگاہ دهونے کے بعدهو اور احتياط مستحب ہے کہ غسل سے پهلے، خصوصاً جب شدید خواہش نہ ہو، مجامعت نہ کرے۔ ہاں، مسجد ميں ٹھ هرنے اور قرآن کے حروف کو مس کرنے جيسے کام جو حائضہ پر حرام تهے، جب تک غسل نہ کرے حلال نہيں ہوں گے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۴ اگر اتنا پانی نہ ہو جس سے وضو اور غسل دونوں کئے جا سکيں ليکن صرف غسل کرنے کے لئے کافی ہو تو غسل کرنا ضروری ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر وضوکے بدلے تيمم کرے اور اگر صرف وضو کرنے کے لئے پانی ہو اور غسل کے لئے نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور غسل کے بدلے تيمم کرے اور اگر وضو اور غسل دونوں کے لئے پانی نہ ہو تو غسل اور وضو کے بدلے ایک ایک تيمم کرے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۵ عورت نے جو نمازیں حالت حيض ميں ترک کی ہيں ان کی قضا نہيں ہے اور نماز آِیات کا حکم مسئلہ نمبر ” ١ ۵ ١ ۴ “ ميں آئے گا، جب کہ رمضان کے روزوں کی قضا کرناضروری ہے ۔هاں، معين نذر والے روزے یعنی نذر کی ہو کہ مثلاً فلاں دن روزہ رکہوں گی اور اسی دن حائضہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٧ ۶ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد عورت جانتی ہو کہ اگر دیر کی تو حائضہ ہو جائے گی تو ضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اور اگر احتمال ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۴ ٧٧ اگر عورت اوّل وقت ميں نماز پڑھنے ميں تاخير کرے اور اتنا وقت گذر جائے کہ وہ اپنے حال کے اعتبار سے ایک شرائط رکھنے والی اور مبطلات سے محفوظ نماز انجام دے سکتی ہو اور حائضہ ہو جائے تو اس نماز کی قضا واجب ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت بھی ہے جب وقت اتنا گذرا ہو کہ صرف حدث سے طهارت، چاہے تيمم کے ذ ریعے ہی سهی، کے ساته نماز ادا کر سکتی ہو، جب کہ اس کے لئے نماز کی باقی شرائط مثلاً ستر پوشی یا خبث سے طهارت کا انتظام کرنا ممکن نہ ہو۔

مسئلہ ۴ ٧٨ اگر عورت نماز کے آخر وقت ميں خون سے پاک ہو جائے اور ابهی اتنا وقت باقی ہو کہ غسل کرکے ایک یا ایک سے زیادہ رکعت نماز پڑھی جا سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس کی قضا ضروری ہے ۔

۷۶

مسئلہ ۴ ٧٩ اگر حيض سے پاک ہونے کے بعد عورت کے پاس نماز کے وقت ميں غسل کرنے کی گنجائش نہ ہو، ليکن تيمم کرکے وقت نماز ميں نماز پڑھ سکتی ہو تو احتياط واجب ہے کہ تيمم کر کے نماز پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت ميں اس پر قضا نہيں ہے ۔ البتہ اگر کسی اور وجہ سے اس کی شرعی ذمہ داری تيمم ہو مثلاً اس کے لئے پانی مضر ہو تو واجب ہے کہ تيمم کر کے نماز پڑھے اور نہ پڑھنے کی صورت ميں قضا واجب ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨٠ اگر حيض سے پاک ہونے کے بعد عورت شک کرے کہ نماز کے لئے وقت ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنی نماز پڑھے۔

مسئلہ ۴ ٨١ اگر اس خيال سے کہ نماز کے مقدمات فراہم کر کے ایک رکعت نماز کے لئے بھی وقت نہيں ہے ، نماز نہ پڑھے، پھر بعد ميں معلوم ہو کہ وقت تھا تو اس نماز کی قضا کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۴ ٨٢ مستحب ہے کہ حائضہ، نماز کے وقت ميں خود کو خون سے پاک کرے، روئی اور کپڑے کو تبدیل کرے، وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتی ہو تو تيمم کرکے کسی پاک جگہ رو بقبلہ ہو کر بيٹھے اور نماز کی مقدار ميں ذکر، تسبيح تهليل اور حمد الٰهی ميں مشغول ہو۔

مسئلہ ۴ ٨٣ حائضہ کے لئے مهندی اور اس جيسی چيز سے خضاب کرنا اور بدن کے کسی حصے کو قرآن کے الفاظ کے درميانی حصّوں سے مس کرنا مکروہ ہے ۔هاں، قرآن ساته رکھنے اور پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

حائضہ عورتوں کی اقسام

مسئلہ ۴ ٨ ۴ حائضہ عورتوں کی چھ قسميں ہيں :

(اوّل) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين پر خون دیکھے اور اس کے ایام حيض کی تعداد بھی دونوں مهينوں ميں مساوی ہو مثلاً مسلسل دو ماہ مهينے کی پهلی سے ساتویں تک خون دیکھے ۔

(دوم) و قتيہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک وقت معين پر خون دیکھے ليکن دونوں مهينوں ميں اس کے ایام حيض کی تعداد برابر نہ ہو مثلاً مسلسل دو ماہ پهلی سے خون دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو۔

۷۷

(سوم) عددیہ عادت والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے ایام حيض کی تعداد مسلسل دو ماہ ایک دوسرے کے برابر ہو ليکن ان دونوںمهينوں ميں خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تک اور دوسرے مهينے بارہ سے سترہ تاریخ تک خون دیکھے ۔

اورایک مهينے ميں دو مرتبہ مساوی ایام ميں خون دیکھنے سے عادت طے ہونا محل اشکال ہے ، مثلاً مهينے کی ابتدا ميں پانچ روز اور دس یا زیادہ دنوں بعد دوبارہ پانچ روز خون دیکھے ۔

(چهارم) مضطربہ: یہ وہ عورت ہے جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو ليکن اس کی عادت ہی معين نہ ہوئی ہو یا پرانی عادت بگڑ گئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو ۔

(پنجم) مبتدئہ: یہ وہ عورت ہے جس نے پهلی مرتبہ خون دیکھا ہو۔

(ششم)ناسيہ: یہ وہ عورت ہے جو اپنی عادت بھول گئی ہو ان ميں سے ہر ایک کے مخصوص احکام ہيں جو آئندہ مسائل ميں بيان ہوں گے۔

١۔وقتيہ و عدديہ عادت والی عورت مسئلہ ۴ ٨ ۵ وقتيہ و عددیہ عادت والی خواتين کی دو اقسام ہيں :

(اوّل) وہ عورت جو مسلسل دو ماہ وقت معين پر حيض دیکھے اور وقت معين پر پاک ہو جائے مثلاً مسلسل دو ماہ پهلی سے خون دیکھے اور ساتویں کو پاک ہو جائے۔ لہٰذا اس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہے ۔

(دوم) وہ عورت جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر حيض دیکھے اور تين یا اس سے زیادہ دن گزرنے کے بعد ایک دن یا زیادہ ایام پاک رہے اور پھر دوبارہ حيض دیکھے ليکن خون والے اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مهينوں ميں خون والے اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ برابر ہو۔ لہٰذا اس کی عادت ان تمام ایام کی ہے کہ جن ميں خون دیکھا اور جن ميں پاک رہی ہے ، البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ دونوں مهينوں ميں درميانی پاکی کے ایام مساوی ہوں، مثلا اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھے اور پھر تين دن پاک گزرنے کے بعد دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے مهينے تين دن خون دیکھنے کے بعد تين دن سے کم یا زیادہ پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ نو دن ہو تو اس صورت ميں پورے نو دن حيض ہيں اور اس عورت کی عادت نو دن ہے ۔

۷۸

مسئلہ ۴ ٨ ۶ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے ایام ميں یا عادت سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے سلسلے ميں مذکورہ احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا مثلاً تين دن پورے ہونے سے پهلے پاک ہو جائے تو ضروری ہے کہ جن عبادتوں کو ترک کيا تھا ان کی قضا کرے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب ایام عادت کی ابتدا ميں تاخير سے خون دیکھے ليکن عادت سے باہر نہ ہو، البتہ اگر ایام عادت کے تمام ہونے کے بعد خون دیکھے اور اس ميں حيض کی کوئی علامت نہ ہو تو اگر ایام عادت کے ختم ہونے کے دو یا زیادہ دنوں کے بعد ہو تو حيض نہيں ہے اور اگردو دن سے کم مدت ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٨٧ وقتيہ اور عددیہ عادت والی عورت اگر عادت کے تمام ایام کے ساته ساته عادت سے پهلے والے ایام ميں حيض کی علامات کے ساته یا اس طرح خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت پهلے آگئی ہے اور عادت کے بعد کے ایام ميں بھی حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور یہ سب مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر زیادہ ہو تو فقط عادت والا خون حيض ہے اور اس سے پهلے اور بعد والا استحاضہ ہے ۔ لہٰذا عادت سے پهلے اور بعد والے ایام ميں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا ضروری ہے ۔

اگر عادت کے تمام ایام کے ساته عادت سے پهلے والے ایام ميں حيض کی علامات کے ساته یا اس طرح کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت پهلے آگئی ہے ، خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو فقط عادت کے ایام حيض ہيں اور عادت سے پهلے والا خون استحاضہ ہے ۔ لہٰذا ان ایام ميں ترک کی ہوئی عبادات کی قضا ضروری ہے ۔

اگر عادت کے تمام ایام کے ساته ساته عادت کے بعد بھی حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تو احتياط واجب کی بنا پر عادت کے بعد والے ایام ميں تروک حائض اور افعال استحاضہ ميں جمع کرے، البتہ اگر مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو جائے تو عادت والے ایام حيض اور باقی استحاضہ ہيں ۔

۷۹

مسئلہ ۴ ٨٨ وقتيہ اور عددیہ عادت والی عورت اگر عادت کے کچھ دن اور عادت سے اتنا پهلے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا عادت سے پهلے حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو عادت کے ایام ميں آئے ہوئے خون کے ساته عادت سے پهلے والے جن ایام کا مجموعہ اس کی عادت کے برابر ہو وہ حيض ہے بشرطيکہ عادت سے پهلے والے خون کے بارے ميں عرفاً کها جاتا ہو کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا اس ميں حيض کی علامات ہوں اور ان سے پهلے والے ایام کو استحاضہ شمار کرے۔

اور اگر عادت کے کچھ دن اور اس کے بعد چند دن خون دیکھے جو مجموعی طور پر دس دن سے زیادہ نہ ہو اور عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات بھی موجود ہوں تو سب کا سب حيض ہے اور اگر عادت کے بعد والے خون ميں حيض کی علامات موجود نہ ہوں، تو عادت اور اس کے بعد والے جتنے ایام مل کر عادت کے دنوں کی تعداد بنتی ہوان کو حيض قرار دے اور اس کے بعد دسویں دن تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے ۔ ہاں، اگر سب مل کر دس دن سے زیادہ ہو تو عادت کی مقدار کے ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٨٩ جو عورت عادت والی ہو، اگر تين دن یا اس زیادہ خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور دونوں خونوں کے درميان دس دن سے کم فاصلہ ہو اور خون دیکھنے والے ایام کے ساته درميان ميں پاک رہنے والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ ہو مثلاً پانچ دن خون دیکھے پھر پانچ دن پاک رہے اور دوبارہ پانچ دن خون دیکھے تو اس کی چند صورتيں ہيں :

١) پهلی مرتبہ دیکھا ہوا سارا خون عادت کے ایام ميں ہو اور پاک ہونے کے بعد جو دوسرا خون دیکھا ہو وہ عادت کے دنوں ميں نہ ہو، اس صورت ميں پهلے والے سارے خون کو حيض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔ یهی حکم ہے جب پهلے خون کی کچھ مقدار عادت ميں اور کچھ مقدار عادت سے پهلے دیکھے بشرطيکہ خون عادت سے اتنا پهلے دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا حيض کی علامات کے ساته ہو، چاہے عادت سے پهلے ہو یا عادت کے بعد ہو۔

٢) پهلا خون عادت کے ایام ميں نہ ہو اور دوسرے خون ميں سے سارا یا کچھ خون پهلی صورت ميں مذکورہ طریقے کے مطابق عادت کے دنوں ميں ہو تو ضروری ہے کہ دوسری مرتبہ کے سارے خون کو حيض اور پهلے خون کو استحاضہ قرار دے۔

٣) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت کے ایام ميں ہو اور پهلی مرتبہ کا جو خون عادت کے ایام ميں ہو وہ تين دن سے کم نہ ہو تو اس صورت ميں یہ مقدار درميانی پاکی اور دوسری مرتبہ کے عادت ميں آئے ہوئے خون کے ساته اگر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو حيض ہے ، جب کہ پهلے خون ميں سے عادت سے پهلے والا اور دوسرے ميں سے عادت کے بعد والا خون استحاضہ ہے مثلاً اگر اس کی عادت مهينے کی تيسری سے دسویں تک ہو تو جب مهينے کی پهلی سے چھٹی تک خون دیکھے پھر دو دن پاک رہے اس کے بعد پندرہویں تک خون دیکھے تو تين سے دس تک حيض ہے اور پهلے، دوسرے اور گيارہ سے پندرہ تک استحاضہ ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسئلہ ١ ۴ ٨٧ اگر امام غلطی سے ایسی رکعت ميں قنوت پڑھ لے جس ميں قنوت نہيں ہے یا جس رکعت ميں تشهد نہيں ہے اس ميں تشهد پڑھنے ميں مشغول ہو جائے تو ضروری ہے کہ ماموم قنوت اور تشهد نہ پڑھے ليکن وہ امام سے پهلے رکوع ميں نہيں جا سکتا اور امام سے پهلے قيام نہيں کرسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ انتظار کرے تاکہ امام کا قنوت اور تشهد تمام ہوجائے اور اپنی بقيہ نماز کو امام کے ساته پڑھے۔

نمازجماعت ميں امام اور ماموم کا وظيفہ

مسئلہ ١ ۴ ٨٨ اگر ماموم ایک مرد ہو تو احتياط واجب کی بنا پر وہ امام کی دائيں طرف کهڑا ہو اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا چند عورتيں ہوں تو مرد دائيں طرف اور بقيہ عورتيں امام کے پيچهے کهڑی ہو ں اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتيں ہوں تومرد امام کے پيچهے اور عورتيں مردوں کے پيچهے کهڑی ہوں اور اگر ایک یا چند عورتيں ہوں تو امام کے پيچهے کهڑی ہوں اور ایک عورت ہونے کی صورت ميں مستحب ہے کہ امام کے پيچهے دائيں سمت ميں اس طرح کهڑی ہو کہ اس کی سجدے کی جگہ امام کے گھٹنوں یا قدم کے مقابل ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٨٩ اگر ماموم اور امام دونوں عورتيں ہوں تو احتياط واجب یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے برابر ميں کهڑی ہوں اور امام ان سے آگے نہ ہو۔

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مستحب ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩٠ مستحب ہے کہ امام صف کے درميان ميں کهڑا ہو اور صاحبان علم، کمال اور تقویٰ پهلی صف ميں کھڑے ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩١ مستحب ہے کہ جماعت کی صفيں منظّم ہو ں اور ایک صف ميں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درميان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کاندهے ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٢ مستحب ہے کہ ”قد قامت الصلاة“ کهنے کے بعد مامومين کھڑے ہوجائيں۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٣ مستحب ہے کہ امام اس ماموم کی حالت دیکھ کرنماز پڑھائے جو مامومين ميں سب سے زیادہ ضعيف ہو اور قنوت، رکو ع،اور سجدے کو طول نہ دے، ليکن اگر جانتا ہو کہ تمام مامومين طول دینے کی طرف مائل ہيں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۴ مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد،سورہ،اور بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار نماز ميں اپنی آواز اتنی اونچی کرے کہ دوسرے مامومين سن ليں، ليکن ضروری ہے کہ اپنی آواز حد سے زیادہ اونچی نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۵ اگر امام کو رکوع کے دوران یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی ماموم ابهی ابهی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کواپنے معمول سے دگنا طول دے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے، اگرچہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی اور بھی اقتدا کے لئے آیا ہے ۔

۲۴۱

وہ چيزيں جو نمازجماعت ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۴ ٩ ۶ اگر جماعت کی صفوں کے درميان جگہ خالی ہو تو مکروہ ہے کہ انسان اکيلا کهڑا ہو۔

مسئلہ ١ ۴ ٩٧ ماموم کا اذکارِ نماز کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ ٨ جس مسافر کونماز ظهر،عصراور عشا دو رکعت پڑھنا ہيں ، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر نہيں ہے مکروہ ہے او رجو شخص مسافر نہيں اس کے لئے کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو مسافر ہو مکروہ ہے ۔

نماز آيات

مسئلہ ١ ۴ ٩٩ نماز آیات کہ جس کے پڑھنا کا طریقہ بعد ميں بيان ہوگا چار چيزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے :

١) سورج گرہن ۔

٢) چاند گرہن۔ اگر چہ ان کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور اس کی وجہ سے کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

٣) زلزلہ، اگرچہ کوئی خوف زدہ بھی نہ ہوا ہو۔

۴) گرج چمک اور سرخ وسياہ آندهی اور ان جيسی دوسری آسمانی نشانياں، اس صورت ميں کہ اکثر لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائيں۔ جها ں تک زمينی حادثات کا تعلق ہے جيسے کہ دریا کا پانی خشک ہوجانا اور پهاڑ کا گرنا جو کہ اکثر لوگوں کہ خوف زدہ ہونے کاباعث ہوتاہے ، تو ان ميں نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٠ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگروہ ایک سے زیادہ ہو جائيں تو ضروری ہے کہ انسان ان ميں سے ہر ایک کے لئے نمازآیات پڑھے۔ مثلاً سورج گرہن بھی ہو اور زلزلہ بھی آجائے تو ضروری ہے کہ ایک نمازآیات سورج گرہن کے لئے اور ایک نماز آیات زلزلے کے لئے پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠١ جس شخص پر ایک سے زیادہ نماز آیا ت کی قضا واجب ہو خواہ وہ ایک چيز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ تين مرتبہ سورج گرہن ہوا ہو اور اس شخص نے تينوں مرتبہ نماز آیات نہ پڑھی ہو، یا چند چيزوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں جيسے کہ سورج گرہن بھی ہوا ہو اور چاند گرہن بهی، ا ن کی قضا بجا لاتے وقت ضروری نہيں ہے کہ وہ شخص یہ معين کرے کہ کون سی نماز کی قضا کر رہا ہوں، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگرچہ اجمالا ہی سهی، انہيں معين کرے مثلاًیہ نيت کرے کہ جو پهلی نماز آیات یا دوسری نماز آیات جو مجھ پر واجب ہوئی تھی اس کی قضا بجا لا رہا ہوں۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٢ جن چيزوں کی وجہ سے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ کسی جگہ واقع ہوجائيں تو صرف اسی جگہ کے لوگوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نہيں ہے ۔

۲۴۲

مسئلہ ١ ۵ ٠٣ سورج یا چاند کو گرہن لگنے کی صورت ميں نمازآیا ت پڑھنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج یا چاند کو گهن لگنا شروع ہوجائے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب سورج یا چاند مکمل طور پر گرہن سے نکل آئيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اتنی تاخير نہ کرے کہ سور ج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع ہوجائيں، بلکہ گرہن کی ابتدا ميں ہی نماز آیات پڑھنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۴ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے ميں اتنی تاخير کرے کہ چاند یا سورج گرہن سے نکلنا شروع ہو جائيں تو اس کی نمازادا ہے ، ليکن پورا سورج یاچاند،گرہن سے نکل جانے کی صورت ميں اس کی نمازقضا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۵ اگر چاند گرہن یا سورج گرہن کی مدت ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم ہو تو نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔اسی طرح اگر گرہن کی مدت ایک رکعت سے زیادہ ہو اور انسان نمازنہ پڑھے یهاں تک کہ ایک رکعت کے برابر یا اس سے بھی کم وقت باقی رہ گيا ہو تب بھی نماز آیات واجب اور ادا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠ ۶ انسان کے لئے واجب ہے کہ زلزلہ،گرج چمک اور انهی جيسی دوسری چيزوں کے وقوع کے وقت نماز آیات پڑھے اور ضروری ہے کہ نماز کو اتنی دیر سے نہ پڑھے کہ عرفا لوگ اسے تاخير کہيں اور تاخير کرنے کی صورت ميں اپنی نماز پڑھے ليکن احتياط واجب کی بنا پر ادا یا قضا کی نيت نہ کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٧ اگر کسی شخص کو سورج یا چاند گرہن لگنا معلوم نہ ہو اور ان کے گرہن سے نکلنے کے بعد پتہ چلے کہ پورے چاند یا سورج کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات کی قضا بجا لائے، ليکن اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی کچھ مقدار کو گرہن لگا تھا تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٨ اگر کچھ لوگ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان پيدا نہ ہو اور اس گروہ ميں سے کوئی ایسا شخص موجودنہ ہو جس کا شرعی طورپر کوئی اعتبار ہو او رانسان نماز آیات نہ پڑھے اور بعد ميں یہ معلوم ہوکہ ان لوگوںنے صحيح کها تھا تو پورے چاند یاسورج کو گرہن لگنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ نماز آیات بجا لائے، ليکن اگر ان کے کچھ حصے کو گرہن لگا ہو تو نماز آیات پڑھنا ضروری نہيں ہے ۔اسی طرح اگر دو اشخاص کہ جن کے عادل ہونے کا علم نہ ہو یا ایک شخص کہ جس کے قابل اعتماد ہونے کا علم نہ ہو، اگر یہ کہيں کہ سورج یاچاند کو گرہن لگا ہے اور بعد ميں معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں عادل تهے یا وہ ایک شخص ایسا قابل اعتماد تھا کہ جس کے قول کے بر خلاف بات کاگمان نہ تھا تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٠٩ اگر انسان کو ان لوگوں کے کهنے سے جو علمی قاعدے کی رو سے چاند گرہن یا سورج گرہن کے بارے ميں بتاتے ہيں ، اطمينان پيدا ہوجائے کہ سورج یا چاند گهن ہوا ہے تو ضروری هے _کہ نماز آیات پڑھے۔ نيز اگر وہ لوگ یہ کہيں کہ فلاں وقت

۲۴۳

سورج یا چاند کو گهن لگے گا اور فلاں وقت تک رہے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمينان پيدا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے اطمينان پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٠ اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ جو نماز آیات پڑھی تھی وہ باطل تھی تو اسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور وقت گذرنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١١ اگر پنجگانہ نمازوں کے اوقات ميں کسی شخص پر نماز آیات بھی واجب ہو جائے اور دونوں نمازوں کے لئے وقت وسيع ہو تو وہ پهلے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر ان دونوں ميں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو جس نماز کا وقت تنگ ہو ضروری ہے کہ اسے پهلے پڑھے اور اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پهلے یوميہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٢ اگر کسی شخص کو پنجگانہ نمازوں کے د رميان یہ معلوم ہو جائے کہ نماز آیات کا وقت تنگ ہے اور نماز پنجگانہ کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مکمل کرنے کے بعد نماز آیات پڑھے اور اگر نماز یوميہ کا وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ دے اور پهلے نماز آیات پڑھے اور اس کے بعد نماز یوميہ بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٣ اگر نماز آیات کے دوران کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یوميہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ وہ نماز آیات کو چھوڑ دے اور نماز یوميہ شروع کر دے اور نماز مکمل کرنے کے بعد، کوئی ایسا کام انجام دینے سے پهلے جو نماز کو باطل کر دیتا ہوضروری ہے کہ نماز آیات جهاں سے چھوڑی تھی وہيں سے مکمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۴ اگر کسی عورت کے حيض یا نفاس کی حالت ميں سورج یا چاند کو گهن لگ جائے تو اس پر نماز آیات اورا س کی قضا واجب نہيں ہے ليکن غير موقت جيسے کہ زلزلہ اور گرج چمک ميں عورت کے پاک ہونے کے بعد ادا یا قضا کی نيت کے بغير نماز آیات بجالانا ضروری ہے ۔

نماز آيات کا طريقہ

مسئلہ ١ ۵ ١ ۵ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت ميں پانچ رکوع ہيں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان نيت کرنے کے بعد تکبيرة الاحرام کهے اور ایک مرتبہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے سر اٹھ الے اور دوبارہ ایک مرتبہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح پانچ رکوع کرے اور پانچویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دو سجدے کرے اور کهڑا ہوجائے اور دوسری رکعت کو بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشهد پڑھ کر سلام پهيرے۔

مسئلہ ١ ۵ ١ ۶ نماز آیات ميں الحمد پڑھنے کے بعد انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک سورے کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے، پھر رکوع سے اٹھ کر الحمد پڑھے بغير اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع ميں چلا جائے اور اسی طرح یہ عمل دهراتا رہے۔ یهاں تک کہ پانچویں رکوع سے پهلے سورہ مکمل کر لے۔

۲۴۴

مثلا سورہ قل ہو اللّٰہ احد کی نيت سے ”بسم الله الرحمن الرحيم “پڑھے اور رکوع ميں جائے اور اس کے بعد کهڑا ہوجائے اور ”قل ہو اللّٰہ احد “ کهے اور دوبارہ رکوع ميں جائے اور رکوع کے بعد کهڑا ہوا ور ”الله الصمد “ کهے پھر رکوع ميں جائے اور کهڑا ہوا اور ”لم یلد ولم یولد“ کهے اور رکوع ميں چلا جائے اور رکوع سے سر اٹھ ا لے اور ”ولم یکن لہ کفوا احد“ کهے اور اس کے بعد پانچویں رکوع ميں چلا جائے، رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد دوسجدے کرے۔ دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجا لائے اور دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھ کر نماز مکمل کرے۔ نيز یہ بھی جائز ہے کہ ایک سورے کو پانچ سے کم حصوں ميں تقسيم کرے ليکن جب بھی سورہ مکمل کرے ضروری ہے کہ بعد والی رکوع سے پهلے الحمد پڑھے اور اس کے بعد ایک سورہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٧ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت ميں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت ميں ایک دفعہ الحمد اور سورے کو پانچ حصوں ميں تقسيم کردے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ١٨ جو چيزیں پنجگانہ نماز ميں واجب اور مستحب ہيں وہ نماز آیات ميں بھی واجب اور مستحب ہيں البتہ اگر نماز آیات جماعت کے ساته ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کے بجائے تين دفعہ بطور رجاء ”الصلاة“کها جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ١٩ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ پانچویں اور دسویں رکوع سے سر اٹھ انے کے بعد ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ پڑھے۔ نيز ہر رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبير کهنا مستحب ہے ، ليکن پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبير کهنا مستحب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٠ مستحب ہے کہ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھ ویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھا جائے اور اگر صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ ليا جائے تب بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢١ اگر کوئی شخص نمازآیات ميں شک کرے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے اور کسی نتيجے پر نہ پهنچے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٢ اگر شک کرے کہ پهلی رکعت کے آخری رکوع ميں ہے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع ميں اور کسی نتيجے پر نہ پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔هاں، اگر رکوع کی تعداد ميں شک کرے تو کم پر بنا رکھے مگر یہ کہ شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ کہ اس صورت ميں اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھکا نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس رکوع کے لئے جھک گيا تھا اسے بجا لائے اور اگر سجدے ميں جانے کے لئے جھک جانے کے بعد اور سجدے ميں پهنچنے سے پهلے شک ہوا ہو تواحتياط واجب کی بنا پر واپس پلٹ آئے اور رکوع بجا لائے اور نماز مکمل کر کے دوبارہ بجا لائے، ليکن اگر سجدے ميں پهنچ گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مْسئلہ ١ ۵ ٢٣ نماز آیات کا ہر رکوع ایک رکن ہے اور اگر ان ميں عمدا یا سهواً کمی یابيشی ہو جائے تو نماز باطل ہے ۔

۲۴۵

عيد فطر و عيدقربان کی نمازيں

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۴ امام عليہ السلام کے زمانے ميں عيد فطر وعيد قربان کی نمازیں واجب ہيں اور ضروری ہے کہ یہ نمازیں جماعت کے ساته پڑھی جائيں ليکن ہمارے زمانے ميں جب کہ امام عصر عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ، یہ نمازیں مستحب ہيں اور باجماعت اور فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہيں ۔هاں، با جماعت پڑھنے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر نمازیوں کی تعدادپانچ افراد سے کم نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۵ عيد فطر وعيد قربان کی نماز کا وقت عيد کے روز طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٢ ۶ عيد قربان کی نماز سور ج چڑھ آنے کے بعد مستحب ہے اور عيد فطر ميں مستحب ہے کہ سور ج چڑھ آنے کے بعد افطار کيا جائے اور احتياط واجب کی بنا پر فطرہ دینے کے بعد نماز عيد ادا کی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٧ عيد فطر وقربان کی نمازدو رکعت ہے جس کی پهلی رکعت ميں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ پانچ تکبيریں کهے اور ہر تکبير کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک قنوت پڑھے ۔ پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے اور دوسجدوں کے بعد اٹھ کهڑا ہو۔ دوسری رکعت ميں چار تکبيریںکهے اور ہر تکبير کے بعد ایک قنوت پڑھے، پانچویں تکبير کہہ کر رکوع ميں چلا جائے، رکوع کے بعد دوسجدے بجا لائے اور تشهد و سلام پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٢٨ عيد فطر وقربا ن کی نماز کے قنوت ميں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے ، ليکن بہتر ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب مصباح المتهجد ميں نقل کی ہے ، پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰهُمَّ ا هَْٔلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلَ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ ا هَْٔلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ وَ ا هَْٔلَ التَّقْویٰ وَ الْمَغْفِرَةِا سَْٔئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْداً وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَيْرٍ ا دَْٔخَلْتَ فِيْهِ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُل سُوْءٍ ا خَْٔرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّدًا وَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ، اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ ا سَْٔئَلُکَ خَيْرَ مَا سَئَلَکَ بِه عِبَادُک الصَّالِحُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الصَّالِحُوْنَ (الْمُخْلِصُوْنَ، الْمُخْلَصُوْنَ)

اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ وہ دعا جو شيخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب ميں معتبر سند کے ساته ذکر کی ہے ، اسے پڑھا جائے۔ وہ دعا یہ ہے :

۲۴۶

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللَّهُمَّ اَنْتَ ا هَْٔلُ الْکِبْرِیَاءِوَالْعَظَمَةِ وَ ا هَْٔلُ الْجُوْدِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْقُدْرَةِ وَ السُّلْطَانِ وَ الْعِزَّةِ، ا سَْٔئَلُکَ فِیْ هٰذَا الْيَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَه لِلْمُسْلِمِيْنَ عِيْدًا وَّ لِمُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه ذُخْراً وَّ مَزِیْداً، ا سَْٔئَلُکَ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ا نَْٔ تُصَلِّیَ عَلیٰ مَلاَئِکَتِکَ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ ا نَْٔبِيَائِکَ الْمُرْسَلِيْنَ وَ ا نَْٔ تَغْفِرَ لَنَا وَ لِجَمِيْعِ الْمُوْ مِٔنِيْنَ وَ الْمُوْ مِٔنَاتِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَات اْلا حَْٔيَاءِ مِنْهُمْ وَ اْلا مَْٔوَاتِ، ا لٔلّٰهُمَّ إِنیِّ ا سَْٔئَلُکَ مِنْ خَيْرِ مَا سَئَلَکَ عِبَادُکَ الْمُرْسَلُوْنَ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِه عِبَادُکَ الْمُخْلَصُوْنَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَوَّلُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ آخِرُه وَ بَدِیْعُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مُنْتَهَاهُ وَ عَالِمُ کُلِّ شَيْیٍ وَّ مَعَادُه وَ مَصِيْر کُلِّ شَيْیٍ إِلَيْهِ وَ مَرَدُّه وَ مُدَبِّرُ اْلاُمُوْرِ وَ بَاعِثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ، قَابِلُ الْاَعْمَالِ مُبْدِی الْخَفِيَّاتِ مُعْلِنُ السَّرَائِرِ، اَللّٰهُ اَکْبَر عَظِيْمُ الْمَلَکُوْتِ شَدِیْدُ الْجَبَرُوْتِ حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ دَائِمٌ لاَّ یَزُوْلُ إِذَا قَضیٰ اَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَيَکُوْنُ، اَللّٰهُ اَکْبَر خَشَعَتْ لَکَ الْاَصْوَاتُ وَ عَنَتْ لَکَ الْوُجُوْهُ وَ حَارَتْ دُوْنَکَ الْاَبْصَارُ وَ کَلَّتِ الْاَلْسُنُ عَنْ عَظَمَتِکَ وَ النَّوَاصِیَ کُلُّهَا بِيَدِکَ وَ مَقَادِیْرُ الْاُمُوْرِ کُلُّهَا اِلَيْکَ، لاَ یَقْضِیْ فِيْهَا غَيْرُکَ وَ لاَ یَتِمُّ مِنْهَا شَيْیءٌ دُوْنَکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَحَاطَ بِکُلِّ شَيْیٍ حِفْظُکَ وَ قَهَرَ کُلَّ شَيْیٍ عِزُّکَ وَ نَفَذَ کّلَّ شَيْیٍ اَمْرُکَ وَ قَامَ کُلُّ شَيْیٍ بِکَ وَ تَوَاضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِعَظَمَتِکَ وَ ذَلَّ کُل شَيْیٍ لِعِزَّتِکَ وَ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَيْیٍ لِقُدْرَتِکَ وَ خَضَعَ کُلُّ شَيْیٍ لِمُلْکِکَ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ

مسئلہ ١ ۵ ٢٩ امام عصر (عجل الله تعالی فرجہ)کے زمانہ غيبت ميں اگر نماز عيد جماعت سے پڑھی جائے تو احتياط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد دو خطبے پڑھے جائيں اور بہتر یہ ہے کہ عيد فطر کے خطبے ميں فطرے کے احکام بيان ہوں اور عيد قربان ميں قربانی کے احکام بيان ہوں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٠ عيد کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہيں ہے ليکن بہتر ہے کہ پهلی رکعت ميں الحمد کے بعدسورہ سبح اسم ربک الاعلیٰ (سورہ: ٨٧ )پڑھا جائے اور دوسری رکعت ميں سورہ والشمس (سورہ : ٩١ )پڑھا جائے اور سب سے افضل یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ والشمس اور دوسری رکعت ميں سورہ غاشيہ (سورہ: ٨٨ )پڑھا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣١ نماز عيد صحر ا ميں پڑھنا مستحب ہے ، ليکن مکہ مکرمہ ميں مستحب ہے کہ مسجد الحرام ميں پڑھی جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٢ مستحب ہے کہ امام جماعت اور مامو م نماز سے پهلے غسل کریں اور روئی سے بُنا ہوا سفيد عمامہ سر پر باندہيں کہ جس کا ایک سرا سينے پر اور دوسرا سرا دونوں شانوں کے درميان ہو اور مستحب ہے کہ نمازکے لئے پيدل، ننگے پير اور باوقار طریقے سے جایا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٣ مستحب ہے کہ عيد کی نمازميں زمين پر سجدہ کيا جائے، تکبيریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کيا جائے اورامام جماعت بلند آواز سے قرائت کرے۔

۲۴۷

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۴ مستحب ہے کہ عيد فطر کی رات کو مغرب وعشا کی نماز کے بعد اور عيد فطر کے دن نماز صبح کے بعد یہ تکبيریں کهی جائيں :

اَللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَاهدَانَا ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۵ عيد قربان ميں دس نمازوں کے بعد جن ميں سے پهلی نماز، عيد کے دن کی نماز ظہر ہے اور آخری نماز بارہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ، ان تکبيرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلہ ميں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اَللّٰهُ اَکْبَرُ عَلیٰ مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَا اَبْلَانَا “ کهے، ليکن اگر عيد قربان کے موقع پر انسان منیٰ ميں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبيریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن ميں سے پهلی نماز عيد کے دن کی نمازظہر ہے اور آخری تيرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ ۶ احتياط مستحب ہے کہ عورتيں نماز عيد پڑھنے کے لئے نہ جائيں، ليکن یہ احتياط عمر رسيدہ عورتوں کے لئے نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٧ نماز عيد ميں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کے لئے ضروری ہے کہ الحمد اورسورہ کے علاوہ نماز کے باقی اذکار خود پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٨ اگر ماموم اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبيریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع ميں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبيریں اور قنوت اس نے امام کے ساته نہيں پڑہيں انہيں پڑھے اور امام کے ساته رکوع ميں مل جائے اور اگر ہر قنوت ميں ایک مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “ یا ایک مرتبہ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ کہہ دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٣٩ اگر کوئی شخص نماز عيد ميں اس وقت پهنچے جب امام رکوع ميں ہو تووہ نيت کر کے اور پهلی تکبير کہہ کر رکوع ميں جاسکتا ہے اگر چہ احتياط یہ ہے کہ نماز کو رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٠ اگر نماز عيد ميں آخری رکعت کا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور اس نے کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر اس کو بجا لائے اور اگروہ کسی اور رکعت کا سجدہ بھول گيا ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی قضا بجا لائے۔

اسی طرح کسی بھی صورت ميں اگر اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے لئے نماز پنجگانہ ميں ، چاہے احتياط کی بنا پر، سجدہ سهو لازم ہے تواحتياط واجب کی بنا پر دو سجدہ سهو بجا لائے۔

۲۴۸

نماز کے لئے اجير بنانا

مسئلہ ١ ۵۴ ١ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جنہيں اس نے اپنی زندگی ميں انجام نہ دیا ہو کسی دوسرے شخص کو اجير بنا یا جاسکتا ہے ، یعنی اسے اجرت دی جائے تاکہ وہ انہيں بجا لائے اور اگر کوئی شخص بغير اجرت لئے ان عبادات کو بجا لائے تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٢ انسان بعض مستحب کاموں مثلا روضہ رسول(ص) کی زیارت یا قبور ائمہ عليهم السلام کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجير بن سکتا ہے اس معنیٰ ميں کہ اجارہ ميں ان اشخاص کی طرف سے ان مخصوص کاموں ميں نيابت کا قصد رکھتا ہو، چنانچہ یہ شخص انہيں کاموں کو بغير اجرت لئے بھی انجام دے سکتا ہے ۔ نيز یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مردہ یا زندہ اشخاص کو هدیہ کر دے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٣ جو شخص ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کے مسائل ميں یا تو وہ خود مجتهد ہو یا نماز، تقليد کے مطابق صحيح طریقے سے ادا کرسکے یا احتياط پر عمل کرسکے۔

مسئلہ ١ ۵۴۴ ضروری ہے کہ اجير نيت کرتے وقت ”ميت “ کو معين کرے۔هاں، یہ ضروری نہيں ہے ميت کا نام جانتا ہو، پس اگر وہ نيت کرے کہ یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے ميں اجير ہوا ہوں تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۵ ضروری ہے کہ اجير جو عمل بجا لائے اس کے لئے نيت کرے کہ جو کچھ ميت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجير کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب ميت کو هدیہ کرے تو یہ کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۴۶ ضروری ہے کہ اجير کسی ایسے شخص کو مقرر کيا جائے جس کے بارے ميں جانتے ہوں یا ان کے پاس شرعی حجت ہو کہ وہ عمل کو بجالائے گا مثلاً وہ اطمينان رکھتے ہوں یا دو عادل شخص یا ایک قابل اطمينان شخص جس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو،خبر دیں کہ وہ عمل کو بجا لائے گا۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٧ جس شخص کو ميت کی نمازوں کے لئے اجير بنایا جائے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ عمل کو بجا نہيں لایا ہے یا باطل طریقے سے بجا لایا ہے تو ضروری ہے دوبارہ کسی شخص کو اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٨ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اجير نے عمل انجام دیا ہے یا نہيں تو اگر وہ قابل اطمينان ہو اور یہ کهے کہ ميں نے انجام دے دیا ہے یا کوئی شرعی گواہی یا کسی ایسے قابل اعتماد شخص کا قول موجود ہو کہ جس کے قول کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو کافی ہے اور اگر وہ شک کرے کہ اس اجير کا عمل صحيح تھا یا نہيں تو وہ اس کے عمل کو صحيح سمجھ لے۔

مسئلہ ١ ۵۴ ٩ جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلا تيمم کر کے یا بيٹھ کر نمازپڑھتا ہو اسے ميت کی نمازوں کے لئے اجير مقرر نہيں کيا جاسکتا خواہ ميت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا ہوئی ہوں۔

۲۴۹

مسئلہ ١ ۵۵ ٠ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے اجير بن سکتے ہيں ۔نيز نماز کو بلند یا آهستہ آواز سے پڑھنے ميں ضروری ہے کہ اجير اپنے وظيفے پر عمل کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميت کی قضا نمازوں ميں ترتيب واجب نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ ترتيب کا خيال رکھا جائے، ليکن اُن نمازوں ميں ترتيب ضروری ہے کہ جن کی ادا ميں ترتيب ضروری ہے مثلا ایک دن کی نماز ظہر وعصر یا مغرب وعشا۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٢ اگر اجير کے ساته طے کيا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے مگر یہ کہ اس عمل کے صحيح نہ ہونے کا علم رکھتا ہو کہ اس صورت ميں اس عمل کے لئے اجير نہيں بن سکتا اور اگر کچھ طے نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظيفے کے مطابق بجالائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظيفے اور ميت کے وظيفے ميں سے جو بھی احتياط کے زیادہ قریب ہو اسی پر عمل کرے، مثلاً اگر ميت کا وظيفہ تين مرتبہ تسبيحات اربعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکليف ایک بار پڑھنا ہو تو تين بار پڑھے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٣ اگر اجير کے ساته یہ طے نہ کيا جائے کہ نماز کے مستحبات کتنی مقدار ميں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عموماً جتنے مستحبات نماز ميں پڑھے جاتے ہيں انہيں بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۴ اگر انسان ميت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجير مقرر کرے تو جو کچھ مسئلہ ١ ۵۵ ١ ميں بتایا گيا ہے اس کی بنا پر ضروری نہيں کہ وہ ہر اجير کے لئے وقت معين کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵۵ اگر کوئی شخص اجير بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال ميں ميت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پهلے مر جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کے لئے جن کے بارے ميں علم ہوکہ وہ انہيں بجا نہيں لایا، کسی اور شخص کو اجير مقرر کيا جائے اور جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ وہ انہيں بجانہيں لایا تھا احتياط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجير مقرر کيا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۵۶ جس شخص کو ميت کی قضا نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہوتو اگر اس کے ساته یہ طے کيا گيا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا اور وہ ان کے بجالانے پر قادر بھی تھا تو اجارہ کا معاملہ صحيح ہے اور اجرت دینے والا باقی نمازوں کی اجرت المثل واپس لے سکتا ہے یا اجارہ کو فسخ کرتے ہوئے اس مقدار کی اجرت المثل جو ادا ہو چکی ہے ، دے کر باقی مقدار کی اجرت واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ ان نمازوں کی ادائيگی پر قادر نہيں تھا تو مرنے کے بعد والی نمازوں ميں اجارہ باطل ہے اور اجرت دینے والا باقی ماندہ نمازوں کی اجرت مُسمّی لے سکتا ہے یا پهلے والی مقدار کے اجارہ کو فسخ کرتے ہو ئے اس مقدار کی اجرت المثل ادا کرسکتا ہے اور اگر یہ طے نہ کيا گيا

۲۵۰

ہو کہ وہ خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجير کے ورثاء اس کے مال سے کسی اور کو اجير بنائيں، ليکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٧ اگر اجير ميت کی قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مر جائے اور اس کی اپنی بھی نمازیں قضا ہوئی ہوں تو سابقہ مسئلے ميں جو طریقہ بتایا گيا ہے اس پر عمل کرنے کے بعداگر اس کے مال سے کچھ بچے تو اس صورت ميں کہ جب اس نے وصيت کی ہو اور اس کی نمازوں کی اجرت اس کے تمام مال کے تيسرے حصے سے زیاہ ہوتو ورثاء کے اجازت دینے کی صورت ميں اس کی تمام نمازوں کے لئے اجير مقرر کيا جا سکتا ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت ميں اس کے مال کا تيسرا حصہ اس کی نمازوں پر خرچ کریں۔

روزے کے احکام

روزہ یہ ہے کہ انسان اذانِ صبح سے مغرب تک، ان چيزوں سے کہ جن کا بيان بعدميں آئے گا، قصد قربت،جس کا بيان وضو کے مسائل ميں گزرچکا اور اخلاص کے ساته، پرہيز کرے۔

اس مسئلے اور بعد ميں آنے والے مسائل ميں احتياط واجب کی بنا پر مغرب سے مراد وہ وقت ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد مشرق کی جانب سے نمودار ہونے والی سرخی انسان کے سر کے اوپر سے گزر جائے۔

نيت

مسئلہ ١ ۵۵ ٨ روزے کی نيت ميں ضروری نہيں ہے کہ انسان نيت کے الفاظ کو دل سے گزارے یا مثلاً یہ کهے کہ ميں کل روزہ رکہوں گا، بلکہ اگر صرف یهی ارادہ رکھتا ہو کہ قربت کی نيت اور اخلاص کے ساته اذان صبح سے مغرب تک، ان کاموں کو انجام نہ دے گا جو روزے کو باطل کر دیتے ہيں تو کافی ہے ۔ اور یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ اس پوری مدت ميں روزے سے تھا ضروری ہے کہ اذانِ صبح سے کچھ دیر پهلے اور مغرب کے کچھ دیر بعد بھی روزے کو باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۵۵ ٩ انسان ماہ رمضان کی ہر رات ميں اس کے اگلے دن کے روزے کی نيت کر سکتا ہے اور اسی طرح مهينے کی پهلی رات کو ہی سارے روزوں کی نيت بھی کر سکتا ہے اورپہر دوبارہ ہر رات نيت دهرانا ضروری نہيں ہے اور اسی نيت پر باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٠ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کا وقت پهلی رات ميں ، رات کی ابتدا سے اذان صبح تک ہے اور پهلی رات کے علاوہ دوسری راتوںميں رات کی ابتدا سے پهلے بھی نيت کی جاسکتی ہے ، مثلاً پهلے دن عصر کے وقت نيت کرے کہ اگلے دن قربة الی الله روزہ رکھے گا اور اسی نيت پر باقی رہے اگر چہ اذان صبح کے بعد تک سوتا رہے۔

۲۵۱

مسئلہ ١ ۵۶ ١ مستحب روزے کی نيت کا وقت رات کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے کہ سورج غروب ہونے ميں نيت کرنے کی مقدار کا وقت باقی رہ جائے، پس اگر اس وقت تک روزے کو باطل کر دینے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور مستحب روزے کی نيت کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن اگر سورج غروب ہوجائے تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٢ جو شخص روزے کی نيت کئے بغير اذان صبح سے پهلے سوجائے، اگر ظہر سے پهلے بيدار ہو اور روزے کی نيت کرے تو اگر اس کا روزہ ایسا واجب روزہ ہوکہ جس کا وقت معين ہے ، چاہے ماہ رمضان کا روزہ یا ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ، جيسے اس نے نذر کی ہو کہ کسی معين دن روزہ رکھے گا، تو روزے کا صحيح ہونا محل اشکال ہے اور اگر اس کا روزہ ایسا واجب ہو کہ جس کا وقت معين نہ ہو تو روزہ صحيح ہے ۔

اور اگر ظہر کے بعد بيدار ہو تو واجب روزے کی نيت نہيں کر سکتا ہے چاہے واجب غير معين ہو، ليکن ماہ رمضان کی قضا ميں ظہر سے عصر تک نيت کا جائز نہ ہونا احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٣ جو شخص ماہ رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معين کرے، مثلاً نيت کرے کہ قضا، نذر یا کفارے کا روزہ رکھتا ہوں، ليکن ماہ رمضان ميں یہ ضروری نہيں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے کی نيت کرے، بلکہ اگر اسے علم نہ ہو کہ رمضان ہے یا بھول جائے اورکسی دوسرے روزے کی نيت کرلے تب بھی وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۴ اگر کوئی جانتا ہو کہ ماہ رمضان ہے اور جان بوجه کر رمضان کے علاوہ کسی اور روزے کی نيت کرلے تو وہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہيں ہوگا اور اسی طرح بنابر احتياط واجب جس روزے کی نيت کی ہے وہ بھی روزہ شمار نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵۶۵ اگر پهلے روزے کی نيت سے روزہ رکھے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسری یاتيسری تاریخ تھی تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶۶ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے اور بے ہوش ہوجائے اور دن ميں کسی وقت ہوش آئے تو بنابر احتياط واجب ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کو پورا کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٧ اگر اذان صبح سے پهلے نيت کرے پھر اس پر نشہ طاری ہو جائے اور دن ميں ہوش آئے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٨ اگر اذانِ صبح سے پهلے نيت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بيدار ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵۶ ٩ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے تو اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دیا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اور اگر ظہر سے پهلے متوجہ ہو اور اس نے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۲۵۲

مسئلہ ١ ۵ ٧٠ اگر بچہ ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے بالغ ہو جائے تو اس دن کا روزہ رکھنا اس پر ضروری ہے اور اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس پر روزہ واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ظہر سے پهلے بالغ ہو اور اس نے روزے کی نيت کر رکھی ہو تو روزہ پورا کرے اور اگر نيت نہ بھی کی ہو اورروزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو نيت کرے اور روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧١ جو شخص کسی ميت کے روزے اجرت لے کر رکھ رہا ہواس کے لئے مستحب روزہ رکھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن جس شخص کے ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں وہ مستحب روزے نہيں رکھ سکتا اوراگر رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ اس کے ذمّے ہو پھر بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

اور اگر بھولے سے مستحب روزہ رکھ لے اور ظہر سے پهلے متوجہ ہوجائے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہے ليکن وہ اپنی نيت کو غير معين واجب روزے کی طرف پلٹا سکتا ہے ، جب کہ معين واجب روزے کی طرف نيت کو پلٹانا محل اشکال ہے اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو تو وہ اپنی نيت کو واجب روزے کی طرف نہيں پلٹاسکتا اگر چہ واجب غير معين ہی کيوں نہ ہو اور یہ حکم ماہِ رمضان کے قضا روزوں ميں زوال کے بعد سے عصر تک احتياط واجب کی بناپر ہے ۔هاں، اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٢ اگر کسی شخص پر رمضان کے علاوہ کوئی معين روزہ واجب ہو مثلاً نذر کی ہو کہ مقررہ دن روزہ رکہوں گا اور جان بوجه کر اذانِ صبح تک نيت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے تو اگرچہ ظہر سے پهلے یاد آجائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، بنا بر احتياط اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٣ اگر غير معين واجب روزے مثلاً کفارے کے روزے کے لئے، ظہر کے نزدیک تک عمداً نيت نہ کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ اگر نيت سے پهلے پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہيں رکھے گا یا متردد ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو اور ظہر سے پهلے نيت کر لے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۴ اگر کوئی کافر ماہ رمضان ميں ظہر سے پهلے مسلمان ہوجائے تو چاہے اس نے اذان صبح سے اس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو، پھر بھی اس کا روزہ صحيح نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۵ اگر کوئی مریض ماہ رمضان کے دن کے وسط ميں ظہر سے پهلے یا اس کے بعد تندرست ہو جائے تو اِس دن کا روزہ اس پر واجب نہيں ہے خواہ اُس وقت تک روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔

۲۵۳

مسئلہ ١ ۵ ٧ ۶ جس دن کے بارے ميں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا تو اُس پر واجب نہيں کہ وہ اس دن روزہ رکھے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نيت نہيں کر سکتا، نہ ہی یہ نيت کر سکتا ہے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ اور اگر رمضان نہيں تو قضا یا اس جيسا کوئی اور روزہ رکھ رہا ہوں، بلکہ ضروری ہے کہ کسی واجب روزے مثلاً قضا کی نيت کرلے یا مستحب روزے کی نيت کرے۔ چنانچہ بعد ميں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔ ہاں، اگر وہ یہ نيت کرے کہ جس چيز کا اسے حکم دیا گيا ہے اس کو انجام دے رہا ہوں اور بعد ميں معلوم ہو کہ رمضان تھا تو یہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٧ جس دن کے بارے ميں شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پهلا دن، اگر اُس دن قضا یا اس کی مانند کوئی واجب یا مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نيت کرے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٨ اگر کسی واجب معين روزے ميں جيسے ماہ رمضان کے روزے ميں انسان اپنی نيت سے کہ مبطلات روزہ سے خدا کی خاطر بچے، پلٹ جائے یا پلٹنے کے بارے ميں متردد ہو یا یہ نيت کرے کہ روزہ توڑنے والی چيزوں ميں سے کسی کو انجام دے یا متردد ہو کہ ایسی کوئی چيز انجام دے یا نہ دے تو اُس کا روزہ باطل ہے ، اگرچہ جو ارادہ کيا ہو اُس سے توبہ بھی کرے اور نيت کو روزے کی طرف بھی پهير دے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دے۔

مسئلہ ١ ۵ ٧٩ وہ بات جس کے بارے ميں پچهلے مسئلے ميں بتایا گيا کہ واجب معين روزے کو باطل کردیتی ہے ،غير معين واجب روزے مثلاً کفارے یا غير معين نذر کے روزے کو باطل نہيں کرتی، لہٰذا اگر ظہر سے پهلے دوبارہ اپنی نيت کو روزے کی طرف پهير دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مبطلاتِ روزہ

مسئلہ ١ ۵ ٨٠ نو چيزیں روزے کو باطل کر دیتی ہيں ، اگر چہ ان ميں سے بعض چيزوںسے روزہ احتياط کی بنا پر باطل ہوتا ہے :

ا ) کھانا اور پينا

٢ ) جماع

٣ ) استمنا۔ استمنا یہ ہے کہ انسان اپنے یا کسی دوسرے کے ساته جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس کی منی خارج ہو جائے۔

۴ ) خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

۵ ) احتياط واجب کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا۔

۲۵۴

۶ ) پورے سر کو پانی ميں ڈبونا۔

٧ ) اذانِ صبح تک جنابت حيض یا نفا س پر باقی رہنا۔

٨ٌ) کسی بهنے والی چيز سے انيما کرنا۔

٩ ) قے کرنا۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کھانا اور پينا

مسئلہ ١ ۵ ٨١ اگر روزہ دار اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر کوئی چيز کھائے یا پئے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا، خواہ وہ ایسی چيز ہو جسے عموماً کهایا یا پيا جاتا ہو جيسے روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کهایا یا پيا نہ جاتا ہو جيسے مٹی اور درخت کا شيرہ، خواہ کم ہو یا زیادہ، حتی اگر تری کو منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ ميں لے جائے اور نگل لے تو روزہ باطل ہو جائے گا، سوائے ا س کے کہ یہ تری تهوک سے مل کر اِس طرح ختم ہو جائے کہ پھر اسے باہر کی تری نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٢ اگرکھانا کھانے کے دوران معلوم ہو جائے کہ صبح ہو گئی ہے توضروری ہے کہ لقمہ اگل دے اور اگر عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب ہو جائے گاجس کی تفصيلات آگے آئيںگی۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٣ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چيز کها یا پی لے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۴ دوا کی جگہ استعمال ہونے والے یا عضو کو بے حس کردینے والے انجکشن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ روزہ دار اُس انجکشن سے پرہيز کرے کہ جو پانی اور غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۵ اگر روزہ دار دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی چيز کو اپنے روزے کی طرف متوجہ ہونے کے باوجود عمداً نگل لے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ ۶ روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ اذان سے پهلے اپنے دانتوں ميں خلال کرے، ليکن اگر جانتا ہو یا اطمينان ہو کہ جو غذا دانتوں کے درميان ميں رہ گئی ہے وہ دن ميں اندر چلی جائے گی، چنانچہ وہ خلال نہ کرے اور وہ چيز پيٹ کے اندر چلی جائے تو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٧ لعاب دهن کو نگلنا، اگرچہ کهٹائی یا اس کی مانند چيزوں کے تصور سے منہ ميں جمع ہوجائے، روزے کو باطل نہيں کرتا۔

۲۵۵

مسئلہ ١ ۵ ٨٨ سر اور سينے کے بلغم کو نگلنے ميں ، جب تک کہ وہ منہ کے اندر والے حصے تک نہ پهنچے، کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر منہ ميں آجائيں تو احتياط واجب یہ ہے کہ انہيں نہ نگلا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨٩ اگر روزہ دار اِس قدر پياسا ہوجائے کہ اسے خوف ہو کہ وہ پياس کی وجہ سے مر جائے گا تو اس پر اتنا پانی پينا واجب ہے کہ مرنے سے نجات مل جائے، ليکن اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اگر رمضان ہو تو باقی دن روزہ باطل کر دینے والے کاموں سے پرہيز ضروری ہے ۔ اِسی طرح اگر اُسے خوف ہو کہ پانی نہ پينے کی وجہ سے اُسے قابلِ ذکر ضرر پهنچے گا یا پانی نہ پينا اُس کے لئے ایسی مشقّت کا باعث بنے گا جوعرفاً قابل برداشت نہ ہو تو اِن دو صورتوں ميں اِس قدر پانی پی سکتا ہے کہ اُس کا ضرر اور مشقّت دور ہو جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٠ بچے یا پرندے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا اور ان جيسی چيزوں کو چکهنا جو عام طور پر حلق تک نہيں پهنچتيں، اگر چہ اتفاق سے حلق تک پهنچ جائيں روزہ کو باطل نہيں کرتا، ليکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو یا مطمئن ہو کہ حلق تک پهنچ جائيں گی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور حلق تک پهنچنے کی صورت ميں اس پر کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ ١ ۵ ٩١ انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہيں چھوڑ سکتا، ليکن اگر کمزوری اِس حد تک ہو کہ روزہ دار کے لئے عام طور پر قابل برداشت نہ ہو تو پھرروزہ چھوڑ دینے ميں کوئی حرج نہيں ۔

٢۔ جماع

مسئلہ ١ ۵ ٩٢ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے اگر چہ صرف ختنہ گاہ کے برابر داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو۔ اوربيوی کے علاوہ کسی اور سے جماع کی صورت ميں اگر منی خارج نہ ہو تو یہ حکم احتياط کی بنا پر ہے ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٣ اگر ختنہ گاہ سے کم مقدار داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۴ اگر کوئی شخص عمداً جماع کرے اورختنہ گاہ کے برابر داخل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہواور پھر شک کرے کہ اُس مقدار کے برابر دخول ہوا ہے یا نہيں تو اُس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا ضروری ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ باقی دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيزکرے، ليکن کفارہ واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۵ اگر بھول جائے کہ روز ے سے ہے اور جماع کرلے یا بے اختيار جماع کرے تواس کا روزہ باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر دوران جماع اُسے یاد آجائے یا اُسے اختيار حاصل ہو جائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع کو ترک کردے اور اگر ترک نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۶

٣۔ استمنا

مسئلہ ١ ۵ ٩ ۶ اگر روزہ دار استمنا کرے، یعنی جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرے کہ اُس کی منی خارج ہو، تو اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٧ اگر بے اختيار، انسان کی منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٨ جو روزہ دار جانتا ہو کہ اگر دن ميں سو گيا تومحتلم ہو جائے گا یعنی نيند ميں اس کے جسم سے منی خارج ہو جائے گی، تو اُس کے لئے سونا جائز ہے اور اگر محتلم ہو جائے تو اُس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔هاں، احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ نہ سوئے خصوصاً جب نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکليف بھی نہ ہو۔

مسئلہ ١ ۵ ٩٩ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کی حالت ميں نيند سے بيدار ہوجائے تو اس کو خارج ہونے سے روکناواجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٠ جب روزہ دار محتلم ہوجائے تو وہ پيشاب اور استبرا کر سکتا ہے اگرچہ وہ جانتا ہو کہ پيشاب اور استبرا کی وجہ سے باقی ماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔

مسئلہ ١ ۶ ٠١ جو روزہ دار محتلم ہو گيا ہو اگر وہ جانتا ہو کہ نالی ميں منی باقی رہ گئی ہے اورغسل سے پهلے پيشاب نہ کرنے کی صورت ميں غسل کے بعد منی خارج ہوگی تو بناء بر احتياط واجب ضروری ہے کہ غسل سے پهلے پيشاب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٢ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ عمداً منی خارج کرنا روزے کو باطل کر دیتا ہے ، اگر منی کے باہر آنے کی نيت سے مثلاً بيوی سے هنسی مذاق اور چھيڑ چھاڑ کرے تو چاہے منی خارج نہ بھی ہو اُس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور ضروری ہے کہ قضا کرے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرنا بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٣ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کا ارادہ کئے بغير مثال کے طور پر اپنی بيوی سے چھيڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے، چنانچہ اگر اطمينان رکھتا ہو کہ اُس سے منی خارج نہ ہوگی اگر چہ اتفاق سے منی خارج ہو بھی جائے تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اطمينان نہ ہو تو منی خارج ہونے کی صورت ميں اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۴ ۔ خدا اور رسول صلی الله عليہ و آلہ سے جهوٹ منسوب کرنا

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۴ اگر روزہ دار زبان سے، لکھ کر، اشارے سے یا کسی اور طریقے سے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے عمداً کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ فوراً یہ کہہ دے کہ ميں نے جھوٹ کها ہے یا توبہ کرلے، اُس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ جب کهباقی انبياء (علی نبينا و آلہ و عليهم السلام )اور ان کے اوصياء کی طرف جھوٹی نسبت دینا احتياطِ واجب کی بنا پر روزے کو باطل کر دیتا ہے ، مگر یہ کہ ان سے دی ہوئی یہ جھوٹی نسبت الله تعالیٰ سے منسوب ہو جائے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۷

یهی حکم حضرت زهرا عليها السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینے کا ہے سوائے اس کہ کے یہ جھوٹی نسبت خدا، رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام ميں سے کسی سے منسوب ہو جائے، کہ اس صورت ميں روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۵ اگر کوئی ایسی حدیث نقل کرنا چاہے جس کے متعلق نہ جانتا ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ اور اُس حدیث کے معتبر ہونے پر دليل بھی نہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جو اِس حدیث کا راوی ہے یا مثال کے طور پرجس کتاب ميں یہ حدیث تحریر ہے ، اس کا حوالہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ ۶ اگر کسی روایت کو سچ سمجھتے ہوئے، خدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ جھوٹ تھی تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٧ جو شخص جانتا ہو کہ خدا، پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا روزے کو باطل کردیتا ہے اگر کسی چيز کو جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ جھوٹ ہے ، ان حضرات سے منسوب کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ جو کچھ کها تھا سچ تھا تو بھی اس کا روزہ باطل ہے اور بنا بر احتياطِ واجب بقيہ دن روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٨ کسی دوسرے کے گڑھے ہوئے جھوٹ کو اگر جان بوجه کر خدا، پيغمبر صلی الله

عليہ و آلہ وسلم اور ائمہ عليهم السلام سے منسوب کرے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر جس نے جھوٹ گڑھا ہے اس کا قول نقل کرے تو روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٠٩ اگر روزہ دار سے پوچها جائے کہ آیا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی ایک امام عليہ السلام نے اس طرح فرمایا ہے ، اور وہ جواب ميں جان بوجه کر ہاں کی جگہ نہيں اور نہيں کی جگہ ہاں کهے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٠ اگرخدا یا پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا کسی امام عليہ السلام سے کوئی سچ بات نقل کرے، بعد ميں کهے کہ ميں نے جھوٹ کها تھا یا رات کو ان حضرات سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے اور اگلے دن روزے کے عالم ميں کهے کہ جو ميں نے کل رات کها تھا وہ سچ ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۵ ۔ غبار حلق تک پهنچانا

مسئلہ ١ ۶ ١١ احتياط کی بنا پر غبار کا حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خوا ہ غبار اس چيز کاہو جس کا کھانا حلال ہے جيسے آٹا یا ایسی چيز کا ہو جس کا کھانا حرام ہے جيسے مٹی۔

مسئلہ ١ ۶ ١٢ اگر ہوا کی وجہ سے کوئی غبار پيدا ہو اور انسان متوجہ ہونے کے باوجود دهيان نہ رکھے اور غبار حلق تک پهنچ جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

۲۵۸

مسئلہ ١ ۶ ١٣ احتياطِ واجب یہ ہے کہ روزہ دارگاڑھی بهاپ اور سگریٹ و تمباکو جيسی چيزوں کا دهواں بھی حلق تک نہ پهنچائے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۴ اگر دهيان نہ رکھے اور غبار، دهواں، گاڑھی بهاپ یا اس جيسی چيزیں حلق ميں داخل ہوجائيںتو اگر اسے یقين یا اطمينان تھا کہ یہ چيزیں حلق ميں نہ پهنچيں گی تو اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر اسے گمان تھا کہ یہ حلق تک نہيں پهنچيں گی تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ١ ۵ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور دهيان نہ رکھے یا بے اختيار غبار یا اس جيسی چيز اُس کے حلق تک پهنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

۶ ۔ سر کو پانی ميں ڈبونا

مسئلہ ١ ۶ ١ ۶ اگر روزہ دار جان بوجه کر سارا سر پانی ميں ڈبودے تو اگرچہ باقی بدن پانی سے باہر رہے، اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، ليکن اگر سارا بدن پانی ميں ڈوب جائے اور سر کا کچھ حصہ باہر رہے تو روزہ باطل نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٧ اگر آدهے سر کو ایک بار اور اس کے دوسرے آدهے حصے کو دوسری بار پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ١٨ اگر شک کرے کہ پورا سر پانی کے نيچے چلا گيا ہے یا نہيں تو اس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر سارا سر ڈبونے کی نيت سے پانی کے نيچے چلا جائے اور شک کرے کہ پورا سر پانی ميں ڈوبا یا نہيں تو اس کا روزہ باطل ہوگا اگر چہ کفارہ نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ١٩ اگر پورا سر پانی کے نيچے چلا جائے ليکن بالوں کی کچھ مقدار باہر رہ جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٠ پانی کے علاوہ دیگربهنے والی چيزوں مثلاً دودھ اور آب مضاف ميں سر کو ڈبونا روزے کو باطل نہيں کرتا اور احتياطِ واجبيہ ہے کہ سر کو عرق گلاب ميں ڈبونے سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢١ اگر روزہ دار بے اختيار پانی ميں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی ميں ڈوب جائے یا وہ بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٢ اگر روزہ دار یہ سمجھ کر اپنے آپ کو پانی ميں گرادے کہ اس کا سر پانی ميں نہيں ڈوبے گا ليکن اس کا سارا سر پانی ميں ڈوب جائے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٣ اگر بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر کو پانی ميں ڈبودے یا کوئی دوسرا شخص زبردستی اس کا سر پانی ميں ڈبودے، چنانچہ اگر پانی کے اندر اُسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا وہ شخص اپنا ہاتھ ہٹالے تو ضروری ہے کہ اِسی وقت فوراً سر کو باہر نکالے اور اگر باہر نہ نکالے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

۲۵۹

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۴ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور غسل کی نيت سے سر کو پانی ميں ڈبودے تو اُس کا روزہ اور غسل دونوں صحيح ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ روزے سے ہے جان بوجه کر غسل کے لئے اپنا سر پانی ميں ڈبودے تو اگر اُس کا روزہ رمضان کا ہو تو اس کاروزہ اور غسل دونوں باطل ہيں اور رمضان کے قضا روزے کے لئے بھی جسے اپنے لئے انجام دے رہا ہو، احتياط کی بنا پر زوال کے بعد یهی حکم ہے ، ليکن اگر مستحب روزہ ہو یا کوئی اور واجب روزہ ہو خواہ واجب معين ہو جيسے کہ کسی معين دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہو، خواہ واجب غير معين ہو جيسے کفارے کا روزہ، تو اس صورت ميں اُس کا غسل صحيح ہے اور روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٢ ۶ اگر روزہ دار کسی شخص کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی ميں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا خواہ اس شخص کوڈوبنے سے بچانا واجب ہی کيوں نہ ہو۔

٧۔ جنابت، حيض اور نفاس پر اذان صبح تک باقی رہنا

مسئلہ ١ ۶ ٢٧ اگر جنب جان بوجه کر ماہ رمضان ميں اذان صبح تک غسل نہ کرے یا اگر اس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بعد ميں آئے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٨ اگر جنب ماہ رمضان اور اس کی قضا کے علاوہ مستحبی یا واجب روزوں ميں کہ جن کا وقت معين ہو جان بوجه کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ واجب روزے ميں جان بوجه کر حالتِ جنابت پر باقی نہ رہے۔

مسئلہ ١ ۶ ٢٩ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے یهاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے تواحتياطِ واجب کی بنا پرضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٠ اگرجنب ماہ رمضان ميں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد یاد آئے توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر کئی دنوں بعد یاد آئے تو جتنے دن جنب ہونے کا یقين تھا ان کی قضا کرے، مثال کے طور پر اگر وہ نہ جانتا ہو کہ تين دن جنب تھا یا چار دن ؟ تو ضروری ہے کہ تين دن کے روزوں کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣١ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں غسل اور تيمم ميں سے کسی کا وقت نہ رکھتا ہو اگر وہ اپنے آپ کو جنبکرے تو اس کا روزہ باطل ہو گا اور اس پر قضا اور کفارہ واجب ہيں ، ليکن جس کی ذمہ داری غسل ہو، اگر تيمم کرنے کے لئے وقت رکھتا ہو چنانچہ اپنے آپ کو جنب کرے تو بنا بر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ تيمم کرکے روزہ رکھے اوراس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511