توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207735 / ڈاؤنلوڈ: 4350
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۴) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت ميں ہو ليکن پهلی مرتبہ کا جو خون عادت ميں ہو تين دن سے کم ہو تو ضروری ہے کہ دونوں خونوں کے دوران تروک حائض اور اعمال استحاضہ ميں جمع کرے اور درميانی پاکی کے دوران تروک حائض اور افعال طاہرہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٩٠ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر عادت ميں خون نہ دیکھے اور عادت کے علاوہ کسی اور وقت اپنے حيض کے ایام کی مقدار ميں خون دیکھے تو حيض کی علامات موجود ہونے کی صورت ميں اس خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩١ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت ميں خون دیکھے جو تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس خون کے ایام کی مقدار عادت کے ایام سے کم ہو یا زیادہ ہو اور پاک ہونے کے بعد دوبارہ عادت کے ایام کے برابر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو اگر ان دونوں خون اور درميان کی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب کو حيض قرار دے اور زیادہ ہونے کی صورت ميں عادت ميں دیکھے ہوئے خون کو حيض اور باقی خون کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٢ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو جو خون عادت کے ایام ميں دیکھا ہو وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور جو خون عادت کے ایام کے بعد دیکھا ہے استحاضہ ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات ہوں مثلاً جس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہو، اگر پهلی سے بارہویں تک خون دیکھے تو پهلے سات دن حيض ہيں اور بعد والے پانچ دن استحاضہ ہيں ۔

٢۔وقتيہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٣ وقتيہ عادت والی عورتوں کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) ایسی عورت ہے جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر خون دیکھے اور چند دنوں کے بعد پاک ہو جائے ليکن خون دیکھنے کے دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں مساوی نہ ہو، مثلاً دو ماہ مسلسل پهلی تاریخ سے خون حيض دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو، لہٰذا اس عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کی پهلی تاریخ کو اپنے حيض کی عادت کا پهلا دن قرار دے۔

(دوم) ایسی عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين سے تين یا زیادہ دن خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون والے تمام ایام اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو ليکن دوسرے مهينے ميں پهلے کے مقابلے ميں کم یا زیادہ ہو مثلاً پهلے مهينے آٹھ دن اور دوسرے مهينے نو دن ہو۔ ایسی عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کے پهلے دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔

۸۱

مسئلہ ۴ ٩ ۴ وقتيہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے وقت یا اس سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا ابتدا عادت ميں اتنی تاخير ہو کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت ميں تاخير ہوگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں مثلاً تين دن سے پهلے پاک ہونے کی وجہ سے معلوم ہو جائے کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٩ ۵ وقتيہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور حيض کی نشانيوں کے ذریعے حيض کو پہچان نہ سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين، چاہے پدری ہوں یا مادری اور چاہے زندہ ہوں یا مر چکی ہوں، کے ایامِ عادت کی مقدار کو اپنا حيض قرار دے اور اگر ان کی عادت چھ یا سات دن نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی عادت اور چھ یا سات دن کے درميان کی مدت ميں حيض اور استحاضہ دونوں کے احکام پر عمل کرے۔هاں، رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت کو اپنی عادت صرف اسی صورت ميں قرار دے سکتی ہے جب ان سب کے ایام حيض کی تعداد مساوی ہو۔ لہذا، اگر ان کے ایام حيض کی مقدار مساوی نہ ہو مثلاً بعض کی عادت پانچ دن اور دوسروں کی عادت سات دن ہو تو ان کی عادت کو اپنے لئے حيض قرار نہيں دے سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٩ ۶ جس وقتيہ عادت والی عورت نے اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو اپنا حيض قرار دیا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو دن ہر ماہ اس کی عادت کا پهلا دن ہو اس دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔ مثلاً جو عورت ہر ماہ پهلی تاریخ کو خون دیکھتی ہو اور کبهی سات اور کبهی آٹھ تاریخ کو پاک ہوتی ہو اگر کسی مهينے بارہ دن خون دیکھے اور اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن ہو تو ضروری ہے کہ مهينے کے ابتدائی سات دنوں کو حيض اور باقی ایام کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٧ جس عورت کو اپنی عادت رشتہ دار خواتين کی عادت کے مطابق قرار دینی ہے اگر اس کی رشتہ دار خواتين نہ ہوں یا ان کی عادت آپس ميں مساوی نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ہر مهينے خون دیکھنے کے دن سے چھ یا سات دن تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣۔عدديہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٨ عددیہ عادت والی خواتين کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) وہ عورت ہے جس کے خون دیکھنے کے ایام کی تعداد مسلسل دو ماہ تک مساوی ہو ليکن خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو تو اس صورت ميں جن ایام ميں خون دیکھا ہو وہ اس کی عادت ہيں ۔

مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مهينے گيارہویں سے پندرہویں تک خون دیکھے تو اس کی عادت پانچ روز ہوگی۔

۸۲

(دوم) وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک تين یا زیادہ دن خون دیکھے اور ایک یا زیادہ روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور پهلے مهينے خون دیکھنے کا وقت دوسرے مهينے سے فرق رکھتا ہو تو اگر جن ایام ميں خون دیکھا ہے ان کے ساته درميانی پاکی کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور ان کے ایام بھی دونوں مهينوں ميں برابر ہوں تو جن دنوں ميں خون دیکھا ہو اور جن دنوں ميں پاک رہی ہو سب کو اپنے حيض کی عادت قرار دے۔ البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ درميانی پاکی کے ایام دونوں مهينوں ميں برابر ہوں مثلاً اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھنے کے بعد دو روز پاک رہے پھر دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے ماہ گيارہویں سے تيرہویں تک خون دیکھے اور دو دن یا اس سے زیادہ یا کم روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہے ۔

اسی طرح مثلاً اگر ایک ماہ ميں آٹھ روز خون دیکھے اور دوسرے ماہ چار دن خون دیکھے اور پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہوگی۔

مسئلہ ۴ ٩٩ عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی نشانيوں کے ساته اپنی عادت کے عدد سے کم یا زیادہ دن خون دیکھے جو دس دن سے زیادہ نہ ہو تو ان سب کو حيض قرار دے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر دیکھا ہوا تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ خون دیکھنے کی ابتدا سے اپنی حيض کی عادت کے عدد کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر دیکھا ہوا سارا خون ایک جيسا نہ ہو بلکہ چند روز خون حيض کی علامات کے ساته ہو اور چند روز استحاضہ کی علامات کے ساته تو اگر حيض کی نشانيوں والے خون کا عدد اس کی عادت کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر حيض کی علامات والا خون عادت کے عدد سے زیادہ ہو تو فقط عادت کی مقدار کو حيض قرار دے اور اس سے زیادہ جس ميں حيض کی علامات ہوں اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

اور اگر حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس کی عادت کے ایام سے کم ہو تو ضروری ہے کہ ان ایام کو حيض قرار دے اور اس کے بعد عادت کے عدد تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

۴ ۔ مضطربہ

مسئلہ ۵ ٠٠ مضطربہ یعنی وہ عورت جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو اور اس کی عادت معين نہ ہوئی ہو یا اس کی عادت بگڑگئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو۔ مضطربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور اگر تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو اگر اس کی رشتہ دار عورتوں کی عادت چھ یا سات دن ہو تو ان ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۳

اور اگر کم ہو مثلاً پانچ روز ہو تو ان کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ان کی عادت اور چھ یا سات روز کے درميان فرق ميں جو کہ ایک یا دو دن ہيں جو کام حائض پر حرام ہيں ترک کرے اور استحاضہ کے کام انجام دے۔

اور اگر اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن سے زیادہ ہو مثلاً نو دن ہو تو چھ یا سات دنوں کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر چھ یا سات اور ان کی عادت کے درميان فرق ميں جو کہ دو یا تين دن ہيں حائض پر حرام کاموں کو ترک کرے اور استحاضہ والے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٠١ مصظربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے جن ميں چند دن حيض کی علامات اور چند دن استحاضہ کی علامات موجود ہوں تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ سب خون حيض ہے ۔ ہاں، اگرحيض کی علامات والے سارے خون کو حيض قرار نہ دیا جاسکتا ہو مثلاً پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته، پھر پانچ دن استحاضہ کی نشانيوں کے ساته اور پھر دوبارہ پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته خون دیکھے ، تو اس صورت ميں اگر کيفيت یہ ہو کہ حيض کی نشانيوں والے دونوں خون کو حيض قرار دینا ممکن ہو، اس طرح سے کہ ان ميں سے ہر ایک تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو ضروری ہے کہ ان دونوں خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے اور درميان ميں جو خون حيض کی علامات کے ساته نہيں ہے اسے استحاضہ قرار دے اور اگر ان ميں سے فقط ایک کو حيض قرار دینا ممکن ہو تو پھر اسی کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۵ ۔مبتدئہ

مسئلہ ۵ ٠٢ مبتدئہ یعنی وہ عورت جس نے پهلی بار خون دیکھا ہو۔ ایسی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور سارا خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔ اگر اس کی کوئی رشتہ دار خاتون نہ ہو یا ان کی عادت مختلف ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تين دن کو حيض قرار دے اور پهلے مهينے دس دن تک اور بعد والے مهينوں ميں چھ یا سات دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۵ ٠٣ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور ان ميں سے چند دن حيض کی علامات کے ساته اور باقی چند دن استحاضہ کی علامات کے ساته ہو تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ، ليکن اگر حيض کی علامات والا خون ختم ہونے کے بعد درميان ميں دس دن گزر نے سے پهلے دوبارہ حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے مثلاً پانچ دن سياہ خون، نو دن زرد خون اور دوبارہ پانچ دن سياہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ درميان والے خون کو استحاضہ قرار دے اور پهلے اور آخری خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے۔

۸۴

مسئلہ ۵ ٠ ۴ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے کہ جس ميں چند دن حيض کی نشانياں اور باقی روز استحاضہ کی علامات ہوں اور حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم ہو تو تمام خون کو استحاضہ قرار دے۔

۶ ۔ ناسيہ

مسئلہ ۵ ٠ ۵ ناسيہ کی تين اقسام ہيں :

١) صرف عددیہ عادت والی عورت تھی اور عدد بھول گئی۔ اس صورت ميں اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے اور اگر یہ مقدار چھ دن سے کم یا سات دن سے زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر حيض کی احتمالی مقدار اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، ان کے درميانی ایام ميں تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

٢) صرف وقتيہ عادت والی عورت تھی اور وقت بھول گئی۔ تو اس صورت ميں اگر حيض کی علامات والا خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب خون حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر اتنا معلوم ہو کہ ان ميں سے بعض اس کی عادت کے ایام ہی تهے تو ضروری ہے کہ تمام خون کے دوران تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے اگر چہ سب یا بعض خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں۔ یهی حکم اس وقت ہے جب معلوم نہ ہو ليکن احتمال ہو کہ یہ خون ایامِ عادت ميں آیا ہے ۔

اور اگر ایامِ عادت ميں آنے کا احتمال بھی نہ ہو اور بعض ميں حيض اور بعض ميں استحاضہ کی علامات ہوں تو جس ميں حيض کی علامات ہوں اگر وہ تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو اس سب کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور جب تمام خون ميں حيض کی علامات ہوں اور وہ دس دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات روز تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت تھی۔ اس کی تين صورتيں ہيں :

١) فقط وقت بھول گئی تو اس کا وظيفہ وهی ہے جو دوسری قسم ميں گزرا، سوائے یہ کہ خون علامات حيض کے ساته ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا اور دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت ميں اگر اس کی عادت چھ یا سات روز ہو تو اس کو حيض قرار دے اور اگر اس سے کم ہو یا زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی عادت اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، کے درميانی ایام ميں تروکِ حائض اور اعمالِ ستحاضہ ميں جمع کرے اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۵

٢) فقط عدد بھول گئی ہو تو اس صورت ميں وہ خون جو وقت ميں دیکھا ہو اس سے اتنی مقدار ميں جس کے بارے ميں یقين ہو کہ عادت سے کم نہيں ہے وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور اس کے بعد کے ایام ميں اگر حيض کی نشانيوں کے ساته ہو اور پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ نہ ہو توسارا کا سارا حيض ہے ، ليکن پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ ہو نے کی صورت ميں جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو اگر چھ

دن سے کم ہو تو اس مقدار کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس مقدار تک تروکِ حائض اور اعمالِ مستحاضہ ميں جمع کرے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو توچه یا سات روز ميں سے جسے اختيار کرے اس مقدار تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے لے کر دس دن گزرنے سے پهلے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

٣) وقت اور عدد دونوں بھول گئی ہو۔ اس صورت ميں اگر خون علامات کے ساته ہو اور تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ،ليکن اگر دس دن سے زیادہ ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا ہے توجس مقدار کے عادت ہونے کا احتمال ہو وہ اگر چھ یا سات دن ہو تو اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر چھ دن سے کم ہو تو اس کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جسے اختيار کرے اس دن تک احتياط واجب ہے کہ حائض اور مستحاضہ کے وظائف کا خيال رکھے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس دن تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے دس دن گزرنے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

اور اگر خون کی صفات مختلف ہوں یعنی بعض ميں حيض کی صفات اور بعض ميں استحاضہ کی صفات ہوں تو حيض کی صفات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہونے کی صورت ميں حيض ہے اور استحاضہ کی صفات والے خون کے بارے ميں اگرجانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا تو استحاضہ ہے اور اگر ایامِ حيض ميں آنے کا احتمال ہو تو ضروری ہے کہ حيض اور استحاضہ کے وظائف ميں احتياط کرتے ہوئے جمع کرے۔

حيض کے متفرق مسائل

مسئلہ ۵ ٠ ۶ مبتدئہ، مضطربہ، ناسيہ یا عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کردے اور جب معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا انجام دے اور اگر حيض کی علامات کے بغير خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات انجام دے، سوائے ناسيہ کے کہ اگر اسے عادت آجانے کا یقين ہو جائے تو جب تک عادت کے باقی ہونے کا احتمال دے ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کرے۔

۸۶

مسئلہ ۵ ٠٧ حيض کی عادت والی عورت، چاہے وقتيہ عادت والی ہو یا عددیہ عادت والی یا وقتيہ و عددیہ عادت والی، اگر دو ماہ مسلسل اپنی عادت کے خلاف ایسا خون دیکھے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یا وقت اور دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں ایک ہی ہو تو وهی اس کی نئی عادت بن جائے گی جو اس نے ان دو مهينوں ميں دیکھی ہے ۔ مثلاً اگر مهينے کے پهلے دن سے خون دیکھتی اور ساتویں دن پاک ہوتی تهی، پھر جب دو ماہ تک دس کو خون دیکھے اور سترہ کو پاک ہو تو دس سے سترہ تک اس کی عادت ہوگی۔

مسئلہ ۵ ٠٨ ایک مهينہ گزرنے کا مطلب خون دیکھنے کے بعد سے تيس دن گزرنا ہے ، نہ کہ مهينے کی پهلی سے آخری تاریخ۔

مسئلہ ۵ ٠٩ جو عورت عام طور پر مهينے ميں ایک مرتبہ خون دیکھتی ہو اگر ایک مهينے ميں دو مرتبہ خون دیکھے اور دونوں ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو اگر درميان والے پاکی کے ایام دس دن سے کم نہ ہوں تو ضروری ہے کہ دونوں کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١٠ اگر تين یا اس سے زیادہ دن حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور بعد ميں دس دن یا اس سے زیادہ استحاضہ کی علامات کے ساته خون دیکھے پھر دوبارہ تين دن تک حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ حيض کی علامات والے پهلے اور آخری خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١١ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور معلوم ہو کہ اندر خون نہيں ہے تو ضروری ہے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے، اگرچہ اسے گمان ہو کہ دس دن گزرنے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا، ليکن اگر یقين ہو کہ دس دن تمام ہونے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے۔

مسئلہ ۵ ١٢ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون موجود ہے تو ضروری ہے کہ احتياط کرے یا تهوڑی روئی اندر ڈال کر تهوڑی دیر صبر کرنے کے بعد نکالے اور احتياط مستحب ہے کہ اس کام کو کھڑے ہو کر اس طرح کرے کہ پيٹ دیوار سے لگا ہو اور ٹانگ دیوار پر بلند ہو۔اب اگر پاک ہو تو غسل کر کے اپنی عبادات انجام دے اور اگر پاک نہ ہو اگرچہ روئی زرد رطوبت سے آلودہ ہو تو اگر وہ عورت حيض کی عادت نہ رکھتی ہو یا اس کی عادت دس دن کی ہو تو ضروری ہے کہ صبرکرے۔ اب اگر دس دن سے پهلے پاک ہو جائے تو اس وقت غسل کرے اور اگر دسویں دن پاک ہوجائے یا اس وقت تک پاک نہ ہو تو دسویں دن کے شروع پر غسل کرے۔اور اگر اس کی عادت دس دن سے کم ہو، تو اگر جانتی ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پهلے یا دسویں دن پاک ہوجائے گی تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے اور اگر احتمال ہو کہ خون دس دن سے تجاوز کر جائے گا تو ایک دن عبادات کو ترک کرنا واجب ہے ، البتہ اس کے بعد ميں وہ مستحاضہ کے اعمال انجام دے سکتی ہے ،بلکہ احتياط مستحب ہے کہ دسویں دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔ یہ حکم صرف اس عورت کے لئے ہے کہ جسے عادت سے پهلے مسلسل خون نہ آرہا ہو، ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۷

مسئلہ ۵ ١٣ اگر بعض ایام کو حيض قرار دے کر عبادات ترک کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ان ایام ميں ترک کی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا انجام دے اور اگر حيض نہ ہونے کے گمان سے عبادات انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض تھا تو ان ایام ميں رکھے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے ۔

نفاس

مسئلہ ۵ ١ ۴ بچے کی پيدائش کے بعد، ولادت کی وجہ سے ماں جو خون دیکھتی ہے اگر دس دن سے پهلے یا دسویں دن بند ہو جائے تو نفاس ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر بچے کا پهلا حصہ باہر آنے کے ساته جو خون دیکھے ، اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ عورت کو نفاس کی حالت ميں ”نفساء“ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١ ۵ بچے کا پهلا حصہ باہر آنے سے پهلے جو خون دیکھے ، وہ نفاس نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ١ ۶ ضروری نہيں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہوئی ہو بلکہ اگر ناقص ہو تب بھی دس دن تک جو خون دیکھے نفاس ہے بشرطيکہ عرفاً کها جائے کہ اس نے بچے کو جنم دیا ہے ۔ ہاں، جب عرفی اعتبار سے شک ہو کہ اسے بچہ جننا کها جاسکتا ہے یا نہيں ، تو اس خون پر نفاس کے احکام نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١٧ ممکن ہے کہ خون نفاس ایک لمحہ سے زیادہ نہ آئے، ليکن دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتا۔

مسئلہ ۵ ١٨ جب تک شک ہو کہ کوئی چيز سقط ہوئی یا نہيں یا شک کرے کہ جو چيز سقط ہوئی ہے بچہ ہے یا نہيں ، تو تحقيق ضروری نہيں ہے اور جو خون خارج ہو رہا ہو وہ شرعاً خون نفاس نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ تحقيق کرے۔

مسئلہ ۵ ١٩ نفساء کے لئے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف، خداوند متعال کے اسم مبارک اور دوسرے اسمائے حسنیٰ سے مس کرنا حرام ہے اور احتياط واجب کی بنا پران تمام کاموں کا جو حائضہ پر حرام ہيں ، یهی حکم ہے اور وہ تمام چيزیں جو حائضہ پر واجب ہيں نفساء پر بھی واجب ہيں ۔

مسئلہ ۵ ٢٠ حالت نفاس ميں عورت کو طلاق دینا باطل ہے اور اس کے ساته نزدیکی حرام ہے ، ليکن اگر اس کا شوہر اس سے نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢١ جب عورت نفاس سے اس طرح پاک ہو کہ اندر بھی خون باقی نہ رہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اپنی عبادات انجام دے۔ اب اگر دوبارہ خون دیکھے اور دونوںخون دیکھنے والے اور درميان کے طهارت والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو اگر اس کی حيض کی عادت ہو اور یہ سارے ایام اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہوں، مثلاً اگر اس کی عادت چھ دن ہو اور چھ دن کے درميان دو دن پاک رہی ہو تو تمام چھ دن نفاس ہيں ۔ اس کے علاوہ باقی صورتوں ميں ، جن ایام ميں خون دیکھے وہ نفاس اور جن ایام ميں پاک رہی ہو ان ميں احتياط واجب کی بنا پر تروکِ نفساء اور اعمال طاہرہ ميں جمع کرے۔

۸۸

مسئلہ ۵ ٢٢ اگرعورت خونِ نفاس سے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون ہے تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ تهوڑی روئی اندر ڈال کر صبر کرے تاکہ اگر پاک ہو تو اپنی عبادات کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۵ ٢٣ اگر عورت کا خون نفاس دس دن سے تجاوز کر جائے تو حيض کی عادت رکھنے کی صورت ميں عادت کے ایام کو نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور عادت نہ ہونے کی صورت ميں دس دن تک نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔اور احتياط مستحب ہے کہ جس کی عادت ہو وہ عادت کے بعد والے دن سے اور جس کی عادت نہ ہو وہ دسویں دن سے بچہ جننے کے اٹھ ارہویں دن تک نفساء کے حرام کاموں کو ترک کرے اور مستحاضہ کے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٢ ۴ جس عورت کی عادتِ حيض دس دن سے کم ہو اگر اپنی عادت سے زیادہ خون دیکھے تو اپنی عادت کے برابر ایام کو نفاس قرار دے اور اس کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک روز اور عبادت ترک کرے اور باقی ایام ميں دسویں دن تک اس کی مرضی ہے کہ مستحاضہ کے احکام جاری کرے یا عبادت کو ترک کرے۔

اور اگر خون دس دن سے تجاوز کر جائے تو ضروری ہے کہ عادت کے بعد سے استحاضہ قرار دے اور ان ایام ميں جن عبادات کو ترک کيا ہو ان کی قضا کرے۔ مثلاً جس عورت کی عادت چھ دن ہو اگر چھ دن سے زیادہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ چھ دن کو نفاس قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ساتویں دن بھی عبادات ترک کرے اور آٹھ ویں، نویں اور دسویں دن اختيار ہے کہ یا تو ان عبادات کو ترک کرے یا استحاضہ کے اعمال انجام دے اور اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو اس کی عادت کے بعد والے دن سے استحاضہ ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢ ۵ حيض کی عادت رکھنے والی عورت اگر بچے کو جنم دینے کے بعد ایک مهينے یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو اس کی عادت کے ایام کی مقدار ميں نفاس ہے اور عادت کے بعد سے دس دن تک جو خون دیکھے استحاضہ ہے ، اگر چہ اس کی ماہانہ عادت کے ایام ميں ہو۔ مثلاً جس عورت کی عادت ہر مهينے کی بيسویں سے ستائيویں تک ہو اگر مهينے کی دسویں تاریخ کو جنم دے اور ایک ماہ یا زیادہ ایام مسلسل خون دیکھے تو سترہ تاریخ تک نفاس اور سترہ سے دس دن تک استحاضہ ہے حتی وہ خون بھی جو عادت ميں دیکھے ، جو بيسویں سے لے کر ستائيسویں تک ہے ۔

اور دس دن گزرنے کے بعد اگر ایسا خون دیکھے جو اس کی عادت ميں ہو تو حيض ہے چاہے علامات حيض ہوں یا نہ ہوں اور یهی حکم ہے اگر اس کی عادت کے ایام ميں نہ ہو ليکن حيض کی علامات موجود ہوں، ليکن اگر نہ عادت کے ایام ميں ہواور نہ ہی حيض کی علامات ہوں تو استحاضہ ہے ۔

۸۹

مسئلہ ۵ ٢ ۶ حيض ميں عدد کی عادت نہ رکھنے والی عورت اگر بچہ جننے کے بعد ایک ماہ یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو پهلے دس دن نفاس اور دوسرے دس دن استحاضہ ہے اور جو خون اس کے بعد دیکھے اگر اس ميں حيض کی علامات ہوں یا اس کی عادت کے ایام ميں ہو تو حيض ہے اور اگر نہ ہو تو یہ بھی استحاضہ ہے ۔

غسلِ مسِ ميّت

مسئلہ ۵ ٢٧ اگر کوئی شخص کسی ایسے مردہ انسان کے بدن کومس کرے جو ٹھنڈا ہوچکا ہو اور جسے غسل نہ دیا گيا ہو، یعنی اپنے بدن کا کوئی حصّہ اس سے لگائے، تو اس کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ، خواہ اس نے نيند کی حالت ميں مردے کا بدن مس کيا ہو یا بيداری کے عالم ميں ، ارادی طور پر مس ہوا ہو یا غير ارای طور پر، حتی اگر اس کا ناخن یا ہڈی، مردے کے ناخن یا ہڈی سے مس ہو جائے تب بھی اس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر مردہ حيوان کو مس کرے تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢٨ جس مردے کا تمام بدن ٹھنڈا نہ ہوا ہو، اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا خواہ اس کے بدن کا جو حصہ مس کيا ہو وہ ٹھنڈا ہوچکا ہو۔

مسئلہ ۵ ٢٩ اگر کوئی شخص اپنے بال مردے کے بدن سے لگائے یا اپنا بدن مردے کے بالوں سے لگائے یا اپنے بال مردے کے بالوں سے لگائے جب کہ بال اتنے ہوں کہ بدن کے تابع حساب ہوتے ہوں تو احتياط کی بنا پر غسل واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٠ مردہ بچے کو مس کرنے پر حتی ایسے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر جس کے چار مهينے پورے ہوچکے ہوں غسلِ مسِ ميت واجب ہے اور چار مهينے سے چھوٹے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر غسل واجب نہيں ہوتا مگر یہ کہ اس کے بدن ميں روح داخل ہوچکی ہو، لہٰذا اگر چار مهينے کا بچہ مردہ پيدا ہو اور اس کا بدن ٹھنڈا ہوچکا ہو اور وہ ماں کے ظاہری حصّے کو مس ہو جائے تو اس کی ماں کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣١ جو بچہ ماں کے مر جانے اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو جانے کے بعد پيدا ہو، اگر وہ ماں کے ظاہری حصے کو مس ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٢ اگر کوئی شخص ایک ایسی ميّت کو مس کرے جسے تين غسل مکمل طور پر دئے جاچکے ہوں تو اس پر غسل واجب نہيں ہوتا، ليکن اگر وہ تيسرا غسل مکمل ہونے سے پهلے اس کے بدن کے کسی حصّے کو مس کرے خواہ اس حصے کو تيسرا غسل دیا جاچکا ہو، اس شخص کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٣ اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچہ، ميّت کو مس کرے تو دیوانے کے لئے عاقل ہونے اور بچے کے لئے بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے اور اگر بچہ مميّز ہو اور غسلِ مس ميت بجالائے تو اس کا غسل صحيح ہوگا۔

۹۰

مسئلہ ۵ ٣ ۴ اگر کسی ایسے مردے کے بدن سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو ایک ایسا حصہ جدا ہو جائے جس ميں ہڈی ہو اور اس سے پهلے کہ اس حصّے کو غسل دیا جائے کوئی شخص اسے مس کرے تو احتياط کی بنا پر وہ غسلِ مسِ ميت کرے اور اگر وہ جدا ہونے والا حصہ بغير ہڈی کے ہو اس کو مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔هاں، اگر کسی زندہ انسان کے بدن سے کوئی حصہ جدا ہو توچاہے اس ميں ہڈی ہو اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ۵ ٣ ۵ بغير گوشت کی ہڈی کو مس کرنے سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو، خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئی ہو یا زندہ شخص کے بدن سے، غسل واجب نہيں ہے ۔ اسی طرح مردہ یا زندہ کے بدن سے جدا ہونے والے دانتوں کو مس کرنے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣ ۶ غسلِ مسِ ميت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا ضروری ہے اور جس شخص نے غسلِ مسِ ميت کرليا ہو اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لئے وضو کرنا واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٧ اگر کوئی شخص کئی ميّتوں کو مس کرے یا ایک ميّت کو کئی بار مس کرے، تو ایک غسل کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٨ جس شخص نے ميّت کو مس کرنے کے بعد غسل نہ کيا ہو اس کے لئے مسجد ميں ٹہرنا، بيوی سے جماع کرنا اور واجب سجدہ والی سورتوں کی تلاوت کرنا منع نہيں ہے ليکن نماز اور اس جيس عبادات کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ۔

محتضر کے احکام

مسئلہ ۵ ٣٩ جو مسلمان محتضر ہو، یعنی جان کنی کی حالت ميں ہو، خواہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، احتياط واجب کی بنا پر بصورت امکان اسے پيٹھ کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ رخ ہوں۔ اگر مکمل طور پر اس طرح سے لٹانا ممکن نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر جهاں تک ممکن ہو اس حکم پر عمل کيا جائے۔ اسی طرح احتياط مستحب یہ ہے کہ جب اسے اس طرح سے لٹانا بالکل ناممکن ہو اسے قبلہ رخ بٹھ ا دیں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے سيدهے پهلو یا اُلٹے پهلو قبلہ رخ لٹایا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٠ احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو اس جگہ سے اٹھ ایا نہ جائے، اسے قبلہ رخ ہی لٹائيں۔ اسی طرح احتياط مستحب کی بنا پر غسل دیتے وقت بھی قبلہ رخ لٹایا جائے، ليکن غسل مکمل کرنے کے بعد مستحب ہے کہ اسے اس طرح لٹائيں جس طرح اسے نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہيں ۔

مسئلہ ۵۴ ١ محتضر کو قبلہ رخ لٹانا، احتياط کی بنا پر، ہر مسلمان پر واجب ہے اور اگر ممکن ہو تو محتضر سے اجازت لينا ضروری ہے اور اگر ممکن نہ ہو یا اس کی اجازت معتبر نہ ہو تو احتياط کی بنا پر اس کے ولی سے اجازت لينا چاہيے۔

۹۱

مسئلہ ۵۴ ٢ مستحب ہے کہ جو شخص جان کنی کی حالت ميں ہو اس کے سامنے شهادتين، بارہ اماموں عليهم السلام اقرار اور دوسرے عقائد حقہ کو اس طرح دهرایا جائے کہ وہ سمجھ لے۔ اسی طرح مستحب ہے ان مذکورہ چيزوں کو موت کے وقت تک تکرار کيا جائے۔ اور نيز دعائے فرج کو محتضر کے لئے تلقين کيا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٣ مستحب ہے کہ یہ دعا محتضر کو اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:

((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیَ الْکَثِيْرَ مِنْ مَعَاصِيْکَ وَاقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ مِنْ طَاعَتِکَ یَا مَنْ یَّقْبَلُ الْيَسِيْرَ وَ یَعْفُوْ عَن الْکَثِيْرَ، إِقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ وَاعْفُ عَنِّی الْکَثِيْرَ، اِنَّکَ ا نَْٔتَ الْعَفُوُّ الْغَفُوْرُ، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنِی فَاِنَّکَ رَحِيْمٌ ))

مسئلہ ۵۴۴ جس کی جان سختی سے نکل رہی ہو، اگر اس کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو تو اسے اس جگہ لے جانا جهاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا، مستحب ہے ۔

مسئلہ ۵۴۵ محتضر کے سرہا نے سورہ مبارکہ یاسين، سورہ صافات، سورہ احزاب، آیت الکرسی، سورہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورہ بقرہ کی آخری تين آیات پڑھنا مستحب ہے ، بلکہ قرآن جتنا پڑھا جاسکے، پڑھا جائے۔

مسئلہ ۵۴۶ محتضر کو تنها چھوڑنا مکروہ ہے ۔ اور اسی طرح کسی چيز کا اس کے پيٹ پر رکھنا، جنب اور حائض کا اس کے قریب ہونا، زیادہ باتيں کرنا، رونا اور صرف عورتوں کو اس کے پاس چھوڑنا مکروہ ہے ۔

مرنے کے بعد کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٧ مرنے کے بعد مستحب ہے کہ ميّت کی آنکہيں اور ہونٹ بند کردئے جائيں اور اس کی ٹھ وڑی کو بانده دیا جائے۔ نيز اس کے ہاتھ اور پاؤں سيدهے کر دئے جائيں اور اس کے اُوپر کپڑا ڈال دیا جائے، جنازے ميں شرکت کے لئے مومنين کو اطلاع دی جائے۔

اگر موت رات کو واقع ہوئی ہو تو موت واقع ہونے والی جگہ پر چراغ جلایا جائے اور اسے دفن کرنے ميں جلدی کریں۔ ليکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقين نہ ہو تو انتظار کریں تا کہ صورتحال واضح ہو جائے۔ نيز اگر ميّت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے ميں اتنا تاخير کریں کہ اس کا پهلو چاک کر کے بچے کو باہر نکال کر دوبارہ غسل کے لئے اس کا پهلو سی دیں اور بہتر یہ ہے کہ بچے کو باہر نکالنے کے لئے الٹا پهلو چاک کيا جائے۔

غسل، کفن، نماز اور دفن ميّت کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٨ مسلمان کا غسل، حنوط، کفن، نماز ميّت اور دفن ہر مکلّف پر واجب ہے ۔ ہاں، اگر بعض افراد ان امور کو انجام دیں تو دوسروں سے یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو سب گناہ گارہوں گے۔

۹۲

مسئلہ ۵۴ ٩ اگر کوئی شخص تجهيز و تکفين کے کاموں ميں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے کوئی اقدام کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر وہ ان کاموں کو ادهورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے ان کاموں کو پایہ تکميل تک پهنچائيں۔

مسئلہ ۵۵ ٠ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا حجت شرعيہ رکھتا ہو کہ کوئی دوسرا ميّت کے کاموں ميں مشغول ہے تو اس پر واجب نہيں ہے کہ ميّت کے کاموں کے بارے ميں اقدام کرے، ليکن اگر اسے محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔

مسئلہ ۵۵ ١ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ ميّت کا غسل، حنوط، کفن، نماز یا دفن غلط طریقے سے ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے، ليکن اگر اسے باطل ہونے کا گمان ہو یا شک کرے کہ صحيح تھا یا نہيں ، تو اس صورت ميں اقدام کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٢ غسل، حنوط، کفن، نماز اور دفن کے لئے ميت کے ولی سے اجازت لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٣ عورت کا ولی اس کا شوہر ہے اوراگر مرنے والی کسی کی بيوی نہ ہو یا مرنے والا کوئی مرد ہو تو مرنے والے کے مرد وارث اس کی وارث عورتوں پر مقدم ہيں ۔ مردوں ميں بھی جو ورثے کے اعتبار سے مقدم ہے ولی ہونے کے اعتبار سے بھی وهی مقدم ہے ۔

ليکن اگر مرنے والے کے رشتہ داروں ميں دو ایسے افراد موجود ہوں جن ميں سے ایک رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے جب کہ دوسرا ورثے کے اعتبار سے، مثلاً اگر ميت کا دادا بھی موجود ہو اور ميت کے بيٹے کا پوتا بھی تو احتياط واجب یہ ہے کہ جو ميراث کے اعتبار سے مقدم ہے ، وہ اس سے اجازت لے جو رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے ۔

مسئلہ ۵۵۴ اگر کوئی شخص کهے کہ ميں ميّت کا ولی ہوں یا ميّت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ ميّت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کهے کہ تجهيز و تکفين کے کاموں کے لئے ميں اس کا وصی ہوں اور اس کے کهنے سے اطمينان حاصل ہو جائے یا ميّت اس کے اختيار ميں ہو یا دو عادل یا ایک ایسا قابل اعتمادشخص گواہی دے جس کی بات کے برخلاف کوئی ظن بھی نہ ہو، تو اس کی بات مان لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵۵ اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن، دفن، اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے ہاتھ ميں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ولی سے بھی اجازت لے۔

اور جس شخص کو ميّت نے وصيت کی ہو وہ ميّت کی زندگی ميں وصی بننے سے منع کرسکتا ہے اور اگر قبول کرے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر ميّت کی زندگی ميں منع نہ کرے یا اس کا انکار وصيت کرنے والے تک نہ پهنچ پائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس وصيت پر عمل کرے۔

۹۳

غسل ميت کا طريقہ

مسئلہ ۵۵۶ واجب ہے کہ ميّت کو تين غسل دئے جائيں۔

(اوّل) ایسے پانی کے ساته جس ميں بيری کے پتے ملے ہوئے ہوں۔

(دوم) ایسے پانی کے ساته جس ميں کافور ملا ہوا ہو۔

(سوم) خالص پانی کے ساته۔

مسئلہ ۵۵ ٧ ضروری ہے کہ بيری اور کافور نہ اس قدر زیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اس قدر کم ہوں کہ یہ نہ کها جاسکے کہ بيری اور کافور اس پانی ميں ملائے گئے ہيں ۔

مسئلہ ۵۵ ٨ اگر بيری اور کافور اتنی مقدار ميں نہ مل سکيں جتنی کہ ضروری ہے تو احتياط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار ميّسر آئے پانی ميں ملا دی جائے۔

مسئلہ ۵۵ ٩ اگر کوئی شخص حج یا عمرے کے احرام کی حالت ميں مرجائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نہيں دے سکتے بلکہ اس کی بجائے خالص پانی سے غسل دینا ہوگا۔ مگر یہ کہ وہ حج کا احرام ہو اور سعی کو مکمل کرچکا ہو تو اس صورت ميں کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٠ اگر بيری اور کافور یا ان ميں سے کوئی ایک نہ مل سکے یا اس کا استعمال جائز نہ ہو مثال کے طور پر غصبی ہو، ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کی بجائے جس کا ملنا ممکن نہ ہو احتياط واجب کی بنا پر ميت کو بدليت کے قصد سے خالص پانی سے غسل دیا جائے اور تيمم بھی اسی قصد کے ساته کرایا جائے۔

مسئلہ ۵۶ ١ جو شخص ميّت کو غسل دے ضروری ہے کہ وہ شيعہ اثناعشری، عاقل اور بنابر احتياط بالغ ہو اور مسائل غسل کو جانتا ہو اگر چہ ان مسائل کو غسل کے دوران سيکه رہا ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٢ جو شخص غسل دے ضروری ہے کہ قربت کی نيت، جيسا کہ وضو ميں بيان ہوچکا ہے اور اخلاص رکھتا ہو اور اسی نيّت کا تيسرے غسل تک باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٣ مسلمان کے بچے کو، خواہ وہ ولدالزنا ہی کيوں نہ ہو غسل دینا واجب ہے اور کافر اور اس کی اولاد کا غسل، حنوط، کفن و دفن جائز نہيں ہے ۔ جو شخص بچپن سے دیوانہ ہو اور دیوانگی کی حالت ميں ہی بالغ ہو جائے چنانچہ اس کے ماں باپ یا ان ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو یا کسی دوسری وجہ سے اسلام کے حکم ميں ہوں تو اس کو غسل دینا ضروری ہے ، ورنہ اسے غسل دینا جائز نہيں ہے ۔

۹۴

مسئلہ ۵۶۴ اگر ایک بچہ چار مهينے یا اس سے زیادہ کا ہو کر سقط ہو جائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے اور اگر چار مهينے سے کم ہو اور اس کے بدن ميں روح بھی داخل نہ ہوئی ہو، احتياط واجب کی بنا پر اسے ایک کپڑے ميں لپيٹ کر بغير غسل دئے دفن کر دیا جائے۔

مسئلہ ۵۶۵ مرد کا عورت کو غسل دینا اور عورت کا مرد کو غسل دینا جائز نہيں ہے اور باطل ہے ، ليکن بيوی اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل دے سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل نہ دے۔

مسئلہ ۵۶۶ مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا ہے جو مميز نہ ہو اور عورت بھی اتنے چھوٹے بچے کو غسل دے سکتی ہے جو مميز نہ ہو۔ اگرچہ احتياط موکد یہ ہے کہ جو لڑکا یا لڑکی تين سال سے زیادہ عمر کے ہوں، تو لڑکے کو مرد اور لڑکی کو عورت غسل دے۔

مسئلہ ۵۶ ٧ اگر مرد کی ميّت کو غسل دینے کے لئے مرد نہ مل سکے تو وہ عورتيں جو اس کی قربت دار اور محرم ہوں مثلاً ماں، بهن، پهوپهی اور خالہ یا وہ عورتيں جو نکاح یا رضاعت کے سبب محرم ہوگئی ہوں اسے غسل دے سکتی ہيں ۔ اسی طرح اگر عورت کی ميّت کو غسل دینے کے لئے کوئی عورت نہ ہو تو جو مرد اس کے قرابت دار اور محرم ہوں یا نکاح یا رضاعت کے سبب اس کے محرم ہوگئے ہوں، اسے غسل دے سکتے ہيں ۔ ہاں، احتياط واجب کی بنا پر مماثل کے ہوتے ہوئے محرم کی باری نہيں آتی۔ لباس کے نيچے سے غسل دینا واجب نہيں ہے ، اگرچہ اس طرح غسل دینا احوط ہے ليکن ضروری ہے کہ شرمگاہ پر نظر نہ ڈاليں اور احتياط کی بنا پر شرمگاہ کو ڈهانپ ليں۔

مسئلہ ۵۶ ٨ اگر ميّت اور غسّال دونوں مرد ہوں یا دونوں عورت ہوں تو جائز ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن برہنہ ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٩ بيوی اور شوہر کے علاوہ ميّت کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے اور جو شخص غسل دے رہا ہو اگر وہ اس پر نظر ڈالے تو گناہ گار ہے ليکن اس سے غسل باطل نہيں ہوتا۔

“ مسئلہ ۵ ٧٠ اگر ميّت کے بدن کا کوئی حصّہ نجس ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح مسئلہ” ٣٧٨

ميں بيان ہوچکا ہے پاک کيا جائے اور بہتر یہ ہے ہر عضو کو غسل دینے سے پهلے بلکہ ميّت کے پورے بدن کو غسل شروع ہونے سے پهلے دوسری نجاسات سے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ۵ ٧١ غسلِ ميّت، غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو غسل ترتيبی دینا ممکن ہو غسل ارتماسی نہ دیاجائے اور غسل ترتيبی ميں بھی ضروری ہے کہ دا هنی طرف کو بائيں طرف سے پهلے دهویا جائے۔ ہاں، یہ اختيار ہے کہ پانی اس کے بدن پر ڈاليں یا بدن کو پانی ميں ڈبو دیں۔

۹۵

مسئلہ ۵ ٧٢ جو شخص حيض یا جنابت کی حالت ميں مرجائے اسے غسلِ حيض یا غسلِ جنابت دینا ضروری نہيں ہے بلکہ اس کے لئے صرف غسلِ ميّت کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٣ ميّت کو غسل دینے کی اُجرت لينا جائز نہيں ہے اور اگر کوئی شخص اجرت لينے کے لئے ميّت کو غسل دے تو وہ غسل باطل ہے ، ليکن غسل کے غير ضروری ابتدائی کاموں کی اجرت لينا جائز ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۴ اگر پانی ميسر نہ ہو یا اس کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ ہو تو ضروری ہے کہ ہر غسلِ ميّت کے بدلے ایک تيمم کرائے اور احتياط واجب کی بنا پر ان تين غسلوں کی بجائے ایک اور تيمم بھی کرائے اور اگر تيمم کرانے والا ان تيمم ميں سے ایک ميں مافی الذمہ کی نيت کرے، یعنی نيت کرے کہ یہ تيمم اپنی شرعی ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے کروا رہا ہوں جو مجھ پر واجب ہے تو چوتھا تيمم ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۵ جو شخص ميّت کو تيمم کرا رہا ہو اسے چاہيے کہ اپنے ہاتھ زمين پر مارے اور ميت کے چھرے اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو ميّت کو اس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تيمم کرائے۔

کفن کے احکام

مسئلہ ۵ ٧ ۶ مسلمان ميّت کو تين کپڑوں کا کفن دینا ضروری ہے ، جنہيں لنگ، کرتہ اور چادر کها جاتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٧ لنگ اور کرتے کی واجب مقدار یہ ہے کہ عرفاً انہيں لنگ اور کرتہ کها جائے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ لنگ، ناف سے گھٹنوں تک اطراف بدن کو ڈهانپ لے اور افضل یہ ہے کہ سينے سے پاؤں تک پهنچے، جب کہ کرتے ميں ضروری ہے کہ کندہوں کے سروں سے احتياط واجب کی بنا پر آدهی پنڈليوں تک تمام بدن کو ڈهانپ دے اور افضل یہ ہے کہ پاؤں تک پهنچے۔

اورچادر کی لمبائی اتنا ہونا ضروری ہے کہ پاؤں اور سر کی طرف سے گِرہ دے سکيں اور اس کی چوڑائی اتنی ہونی چاہيے کہ اس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے پر آسکے۔

مسئلہ ۵ ٧٨ اگر وارث بالغ ہوں اور اس بات کی اجازت دیں کہ واجب کفن کی مقدار سے زیادہ جسے سابقہ مسئلہ ميں بيان کيا گيا ہے ، کو ان کے حصّے سے لے ليں تو کوئی اشکال نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفن کی واجب مقدار سے زیادہ کو نابالغ وارث کے حصّے سے نہ ليں۔

مسئلہ ۵ ٧٩ اگر کسی شخص نے وصيت کی ہو کہ کفن کی وہ مقدار جو افضل ہے اس کے تھائی مال سے لی جائے یا وصيت کی ہو کہ اس کا تھائی مال خود اس پر خرچ کيا جائے ليکن اس کے مصرف کا تعين نہ کيا ہو یا صرف اس کے کچھ حصّے کا مصرف معين کيا ہو تو کفن کی افضل مقدار کو اس کے تھائی مال سے ليا جاسکتا ہے ۔

۹۶

مسئلہ ۵ ٨٠ اگر مرنے والے نے یہ وصيت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تھائی مال سے ليا جائے اور اس کے اصل مال سے لينا چاہيں تو مسئلہ” ۵ ٧٨ “ ميں بيان کئے گئے طریقے پر عمل کریں۔

مسئلہ ۵ ٨١ عورت کے کفن کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اگر چہ عورت اپنا مال بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کوطلاق رجعی دی گئی ہو اور وہ عدت ختم ہونے سے پهلے مرجائے تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے، جيسا کہ طلاق کے احکام ميں ذکر آئے گا اور اگر شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو اس کے ولی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مال سے عورت کو کفن دے، اور احتياط واجب کی بنا پر نافرمان اور جس عورت سے عقد مو قٔت کيا گيا ہو تو اس کا کفن شوہر پر ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٢ ميّت کو کفن دینا اس کے قرابت داروں پر واجب نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگرميّت کا کوئی مال نہ ہو تو اسے وہ شخص کفن دے جس کے لئے ميّت کی زندگی ميں اس کے مخارج دینا ضروری تھا۔

مسئلہ ۵ ٨٣ واجب ہے کہ مجموعی طور پر کفن کے تين کپڑے اتنا باریک نہ ہوں کہ ميّت کا بدن نيچے سے نظر آئے، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ تينوں کپڑوں ميں سے ہر کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ ميّت کا بدن اس کے نيچے سے نظر آئے۔

مسئلہ ۵ ٨ ۴ غصب کی ہوئی چيز کا کفن دینا، خواہ کوئی دوسری چيز ميّسر نہ ہو،جائز نہيں ہے اور اگر ميّت کا کفن غصبی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو تو وہ کفن اس کے بدن سے اتار لينا چاہيے خواہ اس کو دفن بھی کيا جاچکا ہو۔ اسی طرح نجس مردار کی کھال کا کفن دینا اختياری حالت ميں جائز نہيں ہے ، بلکہ مجبوری کی حالت ميں بھی نجس مردار کی کھال کا کفن دینا محل اشکال ہے ۔ اسی طرح اختياری حالت ميں پاک مردار کی کھال کا کفن دینا بھی محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۵ ميّت کو نجس چيز، احتياط واجب کی بنا پر اس نجاست کے ساته جو نماز ميں معاف ہے ، اسی طرح خالص ریشم کے کپڑے کا یا ایسے کپڑے کا جس ميں دهاگا ریشم سے زیادہ نہ ہو اور احتياط واجب کی بنا پر زردوزی سے بنائے گئے کپڑے کا کفن دینا جائز نہيں ہے ۔هاں،مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۶ ميّت کو حرام گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار کئے گئے کپڑے کا کفن دینااختياری حالت ميں احتياط واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم اس حلال گوشت جانور کی کهال سے کفن دینے کا ہے جسے شریعت کے مقررہ طریقے سے ذبح کيا گيا ہو۔ ہاں، حلال گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار شدہ کفن دینے ميں کوئی حرج نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ ان دو کا کفن بھی نہ دیا جائے۔

مسئلہ ۵ ٨٧ اگر ميّت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اسے دهونا یا اس طرح سے کاٹنا ممکن ہو کہ کفن ضائع نہ ہو تو ضروری ہے کہ اتنا مقدار کو جو نجس ہے دهویا یا کاٹا جائے، چاہے ميّت کو قبر ميں اتارا جاچکا ہو اور اگر

۹۷

اس کا دهونا یا کاٹنا ممکن نہ ہو ليکن تبدیل کرنا ممکن ہو ضروری ہے کہ اسے تبدیل کيا جائے۔ البتہ یہ حکم نجاست کی اتنی مقدار تک جو نماز ميں معاف ہے ،احتياط پر مبنی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٨ اگر کوئی ایسا شخص جس نے حج یا عمرہ کا احرام بانده رکھا ہو مرجائے تو اسے دوسروں کی طرح کفن دینا ضروری ہے اور اس کا سر و چہرہ ڈهانپنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٩ انسان کے لئے اپنی زندگی ميں کفن تيار کرنا مستحب ہے اور جب بھی اس پر نظر ڈالے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے ۔

حنُوط کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٠ غسل کے بعد واجب ہے کہ ميّت کو حنوط کيا جائے یعنی اس کی پيشانی، دونوں ہتھيليوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹہوں پر کافور ملا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان مقامات پر کافور کی کچھ مقدار رکھی بھی جائے۔ اسی طرح مستحب ہے کہ ميّت کی ناک پر بھی کافور ملا جائے۔ ضروری ہے کہ کافور پسا ہوا اور تازہ ہو اور اگر پرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبو زائل ہوگئی ہو تو کافی نہيں ۔

مسئلہ ۵ ٩١ احتياط مستحب یہ ہے کہ کافور، پهلے ميّت کی پيشانی پر ملاجائے ليکن دوسرے مقامات پر ملنے ميں ترتيب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٢ ميّت کو کفن پهنانے سے پهلے، کفن پهنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حُنوط کيا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٣ اگر ایسا شخص جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام بانده رکھا ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا جائز نہيں ہے ، ليکن حج کے احرام ميں اگر سعی مکمل کرنے کے بعد مرے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۴ اگر ایسی عورت جس کا شوہر مرگيا ہو اور ابهی اس کی عدت باقی ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۵ احتياط واجب یہ ہے کہ ميّت کو مشک، عنبر، عود اور دوسری خوشبوئيں نہ لگائيں اور ان خوشبوؤں کو کافور کے ساته بھی نہ ملائيں۔

مسئلہ ۵ ٩ ۶ مستحب ہے کہ تربت سيدالشهداء امام حسين عليہ السلام کی کچھ مقدار کافور ميں ملائی جائے، ليکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نہيں لگاسکتے جهاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ خاک شفا اتنی زیادہ نہ ہو کہ جب کافور کے ساته مل جائے تو اسے کافور نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ۵ ٩٧ اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی ہو تو حنوط ضروری نہيں اور اگر غسل کی ضرورت سے زیادہ ہو ليکن تمام سات اعضاء کے لئے کافی نہ ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ پهلے پيشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پرملا جائے۔

مسئلہ ۵ ٩٨ مستحب ہے کہ دو ترو تازہ ٹہنياں ميّت کے ساته قبر ميں رکھی جائيں۔

۹۸

نمازِ ميّت کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٩ ہر مسلمان کی اور ایسے بچے کی ميّت پر جو اسلام کے حکم ميں ہو اور پورے چھ

سال کا ہوچکا ہو، نماز پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٠ ایسے بچے کی ميّت پر جو چھ سال کا نہ ہوا ہو رجاء کی نيّت سے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن مردہ پيدا ہونے والے بچے پر نماز پڑھنا،مشروع نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠١ ميّت کی نماز، اسے غسل دینے، حنوط کرنے اور کفن پهنانے کے بعد پڑھنی چاہئے اور اگر ان امور سے پهلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایسا کرنا خواہ بھول چوک یا مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر ہی کيوں نہ ہو، کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٢ جو شخص نمازِ ميّت پڑھنا چاہے ضروری نہيں کہ اس نے وضو یا غسل یا تيمم کر رکھا ہو اور اس کا بدن و لباس پاک ہو ں، بلکہ اگر اس کا لباس غصبی ہو تب بھی نمازِ ميّت کے لئے کوئی حرج نہيں ۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان تمام چيزوں کا لحاظ رکھے جو دوسری نماز وں ميں لازمی ہيں ، ليکن احتياطِ واجب کی بنا پر ان چيزوں سے پر هيز ضروری ہے جو اہل شرع کے درميا ن رائج نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٣ جو شخص نمازِ ميّت پڑھ رہا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ قبلہ رخ ہو ۔ یہ بھی واجب ہے کہ ميّت کو نماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ ميّت کا سر نماز پڑھنے والے کے دائيں طرف اور پاؤں اس کے بائيں طرف ہو ں۔

مسئلہ ۶ ٠ ۴ احتياط مستحب کی بنا پر جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ غصبی نہ ہو، ليکن ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ ميّت کے مقام سے اونچی یا نيچی نہ ہو ۔هاں، اگر معمولی پستی یا بلندی ہو تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۵ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت سے دور نہ ہو، ليکن جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو اور وہ ميّت سے دور ہو جب کہ صفيں آپس ميں متصل ہو ں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۶ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت کے سامنے کهڑا ہو ليکن اگر نماز باجماعت پڑھی جائے اور جماعت کی صف ميّت کے دونوں طرف سے گزر جائے تو ان لوگوں کی نماز ميں جو ميّت کے سامنے نہ ہوں، کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٧ ضروری ہے کہ ميّت اور نماز پڑھنے والے کے درميا ن پر دہ، دیوار یا کوئی ایسی چيز حائل نہ ہو ۔ ہاں، اگر ميّت تابوت یا اس جيسی کسی اور چيز ميں رکھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٨ نمازپڑھتے وقت ضروری ہے کہ ميّت کی شرمگاہ ڈهکی ہو ئی ہو اور اگر اسے کفن پهنانا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی شرمگاہ کو، چاہے لکڑی کے تختے، اینٹ یا انهی جيسی کسی چيز سے ڈهانپ دیں۔

۹۹

مسئلہ ۶ ٠٩ نمازِ ميّت پڑھنے والے کا مومن ہونا ضروری ہے ۔ غير بالغ کی نماز اگر چہ صحيح ہے ليکن بالغين کی نماز کی جگہ نہيں لے سکتی۔ ضروری ہے کہ نمازِ ميّت کھڑے ہو کر، قربت کی نيت و اخلاص سے پڑھے۔ نيت کرتے وقت ميت کو معين کرے مثلاً نيت کرے: نماز پڑھتا ہو ں اس ميّت پر قربةً الی الله۔

مسئلہ ۶ ١٠ اگر کوئی کھڑے ہو کر نمازِ ميّت پڑھنے والا نہ ہو تو بيٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ۶ ١١ اگر مرنے والے نے وصيّت کی ہو کہ کوئی معين شخص اس کی نماز پڑھائے، احتياط مستحب ہے کہ وہ شخص ميّت کے ولی سے اجازت لے اور ولی بھی اجازت دے دے۔

مسئلہ ۶ ١٢ ميّت پر چند مرتبہ نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ۶ ١٣ اگر ميّت کو جان بوجه کر یا بھول چوک کی وجہ سے یا کسی عذر کی بنا پر بغير نماز پڑھے دفن کر دیا جائے تو جب تک اس کا بدن متلاشی نہ ہو ا ہو واجب ہے کہ نمازِ ميّت کے سلسلے ميں مذکورہ شرائط کے ساته اس کی قبر پر نماز پڑہيں ۔یهی حکم اس وقت ہے جب اس پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہو ۔

نمازِ ميّت کا طريقہ

مسئلہ ۶ ١ ۴ نمازِ ميّت ميں پانچ تکبيریں ہيں اور اگر نماز پڑھنے والا اس ترتيب کے ساته پانچ تکبيریں کهے تو کافی ہے :

نيت کرنے اور پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰه

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّد

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَات

چوتھی تکبير کے بعد اگر ميّت مرد ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذَا الْمَيِّت

اور اگر ميّت عورت ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذِهِ الْمَيِّت

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

چھٹی شرط

مسئلہ ٨ ۴ ٠ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے مرد کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو۔ احتياط واجب کی بنا پر ٹوپی اور ازار بند کا بھی یهی حکم ہے اور نماز کے علاوہ بھی خالص ریشم کا لباس پهننا مردوں کے لئے حرام ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ١ اگر لباس کا تمام استریا اس کا کچھ حصّہ خالص ریشم کا ہو تو مرد کے لئے اس کا پهننا حرام اور اس کے ساته نماز پڑھنا باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٢ جس لباس کے بارے ميں یہ علم نہ ہو کہ خالص ریشم کا ہے یا کسی اور چيز کا بنا ہوا ہے تو اس کا پهننا جائز ہے اور اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴ ٣ ریشمی رومال یا اس جيسی کوئی چيز مرد کی جيب ميں ہو تو کوئی حرج نہيں ہے اور وہ نماز کو باطل نہيں کرتی۔

مسئلہ ٨ ۴۴ عورت کے لئے نماز ميں یا اس کے علاوہ ریشمی لباس پهنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۵ مجبوری کی حالت ميں غصبی، خالص ریشمی یا زردوزی کا لباس پهننے ميں کوئی حرج نہيں ۔ نيز جو شخص یہ لباس پهننے پر مجبور ہو اور آخر وقت تک پهننے کے لئے اس کے پاس کوئی دوسرا لباس نہ ہو تو وہ ان کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۴۶ اگر کسی شخص کے پاس غصبی لباس اور مردار کے اجزاء سے بنے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس، آخر وقت تک نہ ہو اور یہ لباس پهننے پر مجبور بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوںکی طرح مسئلہ ” ٨٠٣ “ ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٧ اگر کسی شخص کے پاس حرام گوشت جانور کے اجزاء سے تيار کئے گئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو، چنانچہ اگر وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور ہو تو اس لباس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٨ اگر کسی مرد کے پاس خالص ریشم یا زردوزی کئے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس آخری وقت تک نہ ہو اور وہ اس لباس کو پهننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھے۔

مسئلہ ٨ ۴ ٩ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی چيز نہ ہو جس سے وہ اپنی شرمگاہ کو نماز ميں ڈهانپ سکے تو واجب ہے کہ اس کا انتظام کرے، چاہے کرائے پر لے یا خریدے، ليکن اگر اس پر اس کی حيثيت سے زیادہ پيسے خرچ ہوتے ہوں یا اتنا خرچہ اس کے حال کے اعتبار سے نقصان دہ ہو تو اسے لينا ضروری نہيں ہے اور وہ برہنہ لوگوں کے لئے بتائے گئے احکام کے مطابق نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ نقصان برداشت کرے اور شرمگاہ ڈهانپ کر نماز پڑھے۔

۱۴۱

مسئلہ ٨ ۵ ٠ جس شخص کے پاس لباس نہ ہو، اگر کوئی دوسرا شخص اسے لباس بخش دے یا ادهار دے دے تو اگر اس لباس کا قبول کرنا اس کے لئے حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے قبول کرے، بلکہ اگر اُدهار لينے یا بخشش کے طور پر طلب کرنے ميں اس کے لئے کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اُدهار مانگے یا بخشش کے طور پر طلب کرے۔

مسئلہ ٨ ۵ ١ ایسے لباس کا پهننا جس کا کپڑا، رنگ یا سلائی اسے پهننے والے کے لئے رائج نہ ہو، تو اگر اسے پهننا اس کی توهين، بدنامی یا لوگوں کی جانب سے انگلياں اٹھ انے کا باعث ہو تو اسے پهننا حرام ہے اور اگر ایسے لباس سے نماز ميں شرمگاہ کو چھپا ئے تو بعيد نہيں کہ اس کا حکم، غصبی لباس کا حکم ہوجس کا تذکرہ مسئلہ” ٨٢١ “ ميں کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٢ اگر مرد، زنانہ لباس پهنے یا عورت، مردانہ لباس پهنے اور اسے اپنا لباس قرار دے تو احتياط کی بنا پر اس کا پهننا حرام ہے اور نماز ميں اس لباس کے ساته شرمگاہ ڈهانپنا احتياط کی بنا پر بطلان کا باعث ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٣ جس شخص کے لئے ليٹ کر نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اس کا لحاف حرام گوشت جانور کے اجزا سے بنا ہو تو اس ميں نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر اس کا گدّا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنا ہو جسے خود سے لپيٹ لے یا نجس ہو یا نمازی کے مرد ہونے کی صورت ميں ریشم یا زردوزی کيا ہوا ہو تو احتياط واجب کی بناپر اس ميں نماز نہ پڑھے۔

جن صورتوںميں نمازی کا بدن اور لباس پاک ہونا ضروری نہيں مسئلہ ٨ ۵۴ تين صورتوں ميں ، جن کی تفصيل بعد ميں بيان کی جائے گی، اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے :

١) اس کے بدن کے زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کی وجہ سے اس کے لباس یا بدن پر خون لگ جائے۔

٢) اس کے بدن یا لباس پر درہم کی مقدار سے کم خون لگا ہو۔ درہم کی وہ مقدار جس سے کم مقدار نماز ميں معاف ہے ، تقریباً شهادت والی انگلی کی اُوپر والی پور کے برابر ہے ۔

٣) نجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔

اس کے علاوہ ایک اور صورت ميں اگر نمازی کا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ اس کا چھوٹا لباس مثلاً موزہ اور ٹوپی نجس ہو۔

ان چاروں صورتوں کے تفصيلی احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٨ ۵۵ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر زخم، جراحت(گهاؤ) یا پهوڑے کا خون ہو، چنانچہ اگر بدن اور لباس کا پاک کرنا یا لباس تبدیل کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے تکليف کا باعث ہو تو جب تک زخم یا جراحت یا پھوڑا ٹھيک نہ ہو جائے اس خون کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر اس کے بدن یا لباس پر ایسی پيپ ہو جو خون کے ساته نکلی ہو یا ایسی دوائی ہوجو زخم پر لگائی گئی ہو اور نجس ہوگئی ہو، اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

۱۴۲

مسئلہ ٨ ۵۶ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر ایسی جراحت یا زخم کا خون ہو جو جلدی ٹھيک ہو جاتا ہو اور اسے پاک کرنا عام طور پر لوگوں کے لئے آسان ہو اور ایک درہم کی مقدار سے کم بھی نہ ہو اور اس کے ساته نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٧ اگر بدن یا لباس کی ایسی جگہ جو زخم سے کچھ فاصلے پر ہو زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر بدن یا لباس کی وہ جگہ جو عموما زخم کی رطوبت سے آلودہ ہو جاتی ہو اس زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۵ ٨ اگر کسی شخص کے بدن یا لباس کو اس بواسير سے جس کے مسّے باہر نہ ہوں یا اس زخم سے جو منہ اور ناک وغيرہ کے اندر ہو خون لگ جائے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کے ساته نماز پڑھ سکتا ہے ، البتہ اس بواسير کے خون کے ساته نماز پڑھنا بلااشکال جائز ہے جس کے مسّے مقعد کے باہر ہوں۔

مسئلہ ٨ ۵ ٩ جس شخص کے بدن پر زخم ہو اگر وہ اپنے بدن یا لباس پر ایسا خون دیکھے جو ایک درہم یا اس سے زیادہ ہو اور نہ جانتا ہو کہ یہ خون زخم کا ہے یا کوئی اور خون ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٠ اگر کسی شخص کے بدن پر چند زخم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہوں کہ ایک زخم شمار ہوں تو جب تک وہ زخم ٹھيک نہ ہو جائيں ان کے خون کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر وہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہوں کہ ان ميں سے ہر زخم عليحدہ زخم شمار ہو تو جو زخم ٹھيک ہو جائے، اگر اس کا خون ایک درہم سے کم نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے لئے بدن اور لباس کوپاک کرے۔

مسئلہ ٨ ۶ ١ اگر نمازی کے بدن یا لباس پر سوئی کی نوک کے برابر بھی حيض، کتے، سوّر، کافر غير کتابی، مردار یا حرام گوشت جانور کا خون لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر نفاس اور استحاضہ کے خون کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن کوئی دوسرا خون مثلاً ایسے انسان کا خون جو نجس العين نہيں ہے یا حلال گوشت جانور کا خون، اگرچہ بدن یا لباس کے کئی حصّوں پر لگا ہو اور اس کی مجموعی مقدار ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٢ جو خون بغير استر کے کپڑے پر گرے اور دوسری طرف جاپهنچے وہ ایک خون شمار ہوتا ہے ، ليکن اگر کپڑے کی دوسری طرف الگ خون سے آلودہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کو عليحدہ خون شمار کيا جائے، پس اگر وہ خون جو کپڑے کے سامنے کے رخ اور پچهلی طرف ہے ، مجموعی طور پر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

۱۴۳

مسئلہ ٨ ۶ ٣ اگر استر والے کپڑے پر خون گرے اور اس کے استر تک پهنچ جائے یا استر پر گرے اور کپڑے تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ ہر خون کو الگ شمار کيا جائے، لہٰذا اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے اور اگر درہم یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساته نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۴ اگر بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم خون ہواور کوئی ایسی رطوبت اس سے آلگے جس سے اس کے اطراف آلودہ ہو جائيں تو اس کے ساته نماز باطل ہے ، خواہ خون اور وہ رطوبت ایک درہم کے برابر نہ ہوں، ليکن اگر رطوبت فقط خون سے ملے اور اس کے اطراف کو آلودہ نہ کرے تو اس کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶۵ اگر بدن یا لباس پر خون نہ ہو ليکن رطوبت کے ساته خون سے لگنے کی وجہ سے نجس ہو جائيں تو خواہ نجس ہونے والی مقدار ایک درہم سے کم ہو، اس کے ساته نماز نہيں پڑھی جاسکتی۔

مسئلہ ٨ ۶۶ اگر بدن یا لباس پر جو خون ہو اس کی مقدار ایک درہم سے کم ہو اور کوئی دوسری نجاست اس سے آلگے مثلاً پيشاب کا ایک قطرہ اس پر جاگرے اور وہ بدن یا لباس سے لگ جائے تو اس کے ساته نماز پڑھنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٧ اگر نمازی کا چھوٹا لباس مثلاً ٹوپی اور موزہ جس سے شرمگاہ کو نہ ڈهانپا جاسکتا ہو نجس ہو جائے اور نمازی کے لباس ميں دوسرے موانع نہ ہوں مثلاً مردار یا نجس العين یا حرام گوشت جانور کے اجزاء سے نہ ہو تو اس کے ساته نماز صحيح ہے ۔ نيز نجس انگوٹھی کے ساته نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٨ نجس چيز مثلاً رومال، چابی اور نجس چاقو کا نمازی کے پاس ہونا جائز ہے ۔

مسئلہ ٨ ۶ ٩ اگر بدن یا لباس پر لگے ہوئے خون کے بارے ميں یہ تو معلوم ہوکہ درہم سے کم ہے ليکن یہ احتمال بھی ہو کہ یہ ایسا خون ہے جونماز ميں معاف نہيں ہے تو اس خون کے ساته نماز پڑھنا جائز ہے اور اسے نماز کے لئے پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧٠ اگربدن یا لباس پر لگا ہوا خون درہم سے کم ہو ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ یہ خون معاف نہيں ہے اور نماز پڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ یہ خون معاف نہيں تھا تو نماز دهرانا ضروری نہيں هے۔ اسی طرح اگر ایک درہم سے کم سمجھتے ہوئے نمازپڑھ لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ درہم کے برابر یا اس سے زیادہ تھا تو اس صورت ميں بھی نماز دهرانا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧١ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مستحب ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

تحت الحنک کے ساته عمامہ، عبا، سفيد اور پاکيزہ ترین لباس پهننا، خوشبو کا استعمال کرنا اور عقيق کی انگوٹھی پهننا۔

۱۴۴

نمازی کے لباس ميں مکروہ چيزیں

مسئلہ ٨٧٢ کچھ چيزیں نمازی کے لباس ميں مکروہ ہيں ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

سياہ لباس، ميلا یاتنگ لباس پهننا، شرابی اور نجاست سے پرہيز نہ کرنے والے کا لباس پهننا اور لباس کے بٹن کا کهلا ہونا۔

اور احتياط واجب یہ ہے کہ ایسے لباس یا انگوٹھی کے ساته نماز نہ پڑھے جس پر جاندار کی صورت کا عکس ہو۔

نماز پڑھنے کی جگہ

جس جگہ نماز پڑھی جائے اس کی سات شرائط ہيں :

پهلی شرط

وہ جگہ مباح ہو ۔

مسئلہ ٨٧٣ جو شخص غصبی جگہ ميں نماز پڑھ رہا ہو تو اعضائے سجدہ کی جگہ غصبی ہو نے کی صورت ميں اس کی نمازباطل ہے ، اگر چہ قالين، کمبل یا ان جيسی کسی چيز پر کهڑا ہو۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر تخت یا اس جيسی کسی چيز پر نماز پڑھنے کا بھی یهی حکم ہے ، ليکن غصبی خيمے اور غصبی چھت کے نيچے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۴ جس ملکيت سے فائدہ اٹھ انا کسی اور کا حق ہے اس ميں صاحبِ حق کی اجازت کے بغير نماز پڑھنا باطل ہے ، مثلاًکرائے کے گھر ميں کرائے دار کی رضایت کے بغير مالک مکان یا کوئی اور شخص نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

اسی طرح اگر ميت نے اپنے مال کا تيسرا حصہ کسی جگہ خرچ کرنے کی وصيت کی ہو تو جب تک ترکہ سے تيسرا حصہ جدا نہ کر ليا جائے مرحوم کی ملک پر نماز نہيں پڑھی جا سکتی ہے ۔

هاں، جس جگہ پر کسی کا کوئی حق ہو اور اس جگہ نماز پڑھنا صاحب حق کے اختيار ميں رکاوٹ کا باعث ہو مثلًا ایسی زمين پر نماز پڑھنا جس پر کسی نے پتّھر چن دئے ہوں، صاحب حق کی اجازت کے بغير باطل ہے جب کہ اس صورت کے علاوہ ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ مثلاًرہن رکھوانے والے کی اجازت سے اس زمين پر نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے جو کسی کے پاس رہن رکھوائی گئی ہو اگرچہ جس کے پاس وہ زمين رہن رکھی گئی ہو اس ميں نماز پڑھنے پرراضی نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧ ۵ اگر کوئی مسجدميں بيٹھے ہوئے کسی شخص کی جگہ غصب کر کے وہاں نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٧ ۶ جس جگہ کے غصبی ہونے کا علم نہ ہو اور وہاں نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ سجدہ کرنے کی جگہ غصبی تھی تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۴۵

البتہ اگر کسی جگہ کے غصبی ہونے کو بھول کر نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ ہاں، اگر خود نے کسی جگہ کو غصب کيا ہو اور بھول کر وہاں نمازپڑھے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی تھی تواس کی نماز باطل ہے جب کہ اگر توبہ کر چکا تھا تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٧ ایسی جگہ نماز پڑھنا جهاں اعضائے سجدہ رکھنے کی جگہ غصبی ہو اور جانتا بھی ہو کہ یہ جگہ غصبی ہے ، باطل ہے ۔ اگرچہ اسے نماز کے باطل ہونے کا حکم معلوم نہ ہو۔

مسئلہ ٨٧٨ جو شخص سواری کی حالت ميں واجب نماز پڑھنے پر مجبور ہو تو اگر سواری کا جانور یا اس کی زین غصبی ہو اور اسی جانور یا زین پر سجدہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ یهی حکم اس جانور پر مستحب نمازپڑھنے کا ہے ۔ ہاں، اگر جانور کی نعل غصبی ہو تو نماز کا باطل ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٨٧٩ جو شخص کسی ملکيت ميں دوسرے کے ساته شریک ہو تو جب تک اس کا حصہ جدا نہ ہو جائے اس وقت تک اس ملکيت ميں اپنے شریک کی رضایت کے بغير نہ تصرف کر سکتا ہے نہ نماز پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٨٨٠ جس مال کا خمس نہ نکالا ہو اگر عين اسی مال سے ملکيت خریدے تو اس ملکيت ميں تصرف حرام ہے اور نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨١ اگر کوئی شخص اپنی ملکيت ميں نماز پڑھنے کی اجازت دے اور انسان جانتا ہو کہ دل سے راضی نہيں ہے تو اس کی ملکيت ميں نماز باطل ہے اوراگر اجازت نہ دے ليکن انسان کو یقين ہو کہ راضی ہے تو نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٨٢ جس مرنے والے کے ذمہ خمس یا زکات واجب الادا ہو جبکہ اس کا ترکہ خمس یا زکات کی واجب الادا مقدار سے زیادہ نہ ہو تو اس ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کے واجبات ادا کر دئے جائيں یا حاکم شرع کی اجازت سے ضمانت لے لی جائے تو ورثاء

کی اجازت سے ميت کے ترکے ميں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٣ جو مرنے والا لوگوں کا مقروض ہو اور اس کا ترکہ قرض کی مقدار سے زیادہ نہ ہو تو قرض خواہ کی اجازت کے بغير ميت کے ترکے ميں تصرف کرنا حرام اور اس ميں نماز باطل ہے ، ليکن اگر اس کا قرض ادا کرنے کی ضمانت لے لی جائے اور قرض خواہ بھی راضی ہوجائے تو ورثا کی اجازت سے اس ميں تصرف کرنا جائز ہے اور نماز بھی صحيح ہے ۔

۱۴۶

مسئلہ ٨٨ ۴ اگر ميت مقروض نہ ہو ليکن اس کے ورثا ميں سے کوئی نابالغ، دیوانہ یا لاپتہ ہو تو اس کے ترکے ميں اس کے ولی کی اجازت کے بغير تصرف کرنا حرام اورنماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۵ کسی کی ملکيت ميں نماز پڑھنا اس صورت ميں جائز ہے کہ جب انسان کے پاس شرعی دليل ہو یا اسے یقين ہو کہ مالک اس جگہ نماز پڑھنے پر راضی ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب مالک اِس طرح کے تصرف کی اجازت دے کہ جسے عرفی اعتبار سے نمازپڑھنے کی اجازت بھی سمجھا جائے، مثلاًکسی کو اپنی ملکيت ميں بيٹھنے اور ليٹنے کی اجازت دے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے نمازپڑھنے کی اجازت بھی دے دی ہے ۔

مسئلہ ٨٨ ۶ مسئلہ نمبر ” ٢٧٧ “ميں گزری ہوئی تفصيل کے مطابق وسيع اراضی ميں نماز پڑھنے کے لئے مالک کی اجازت ضروری نہيں ہے ۔

دوسری شرط

مسئلہ ٨٨٧ واجب نماز ميں ضروری ہے کہ نمازی کی جگہ اتنی متحرک نہ ہو کہ نمازی کے بدن کے ساکن رہنے اور اختياری حالت ميں پڑھی جانے والی نماز کے افعال کی ادائيگی ميں رکاوٹ بن جائے۔

هاں، اگر وقت تنگ ہونے یا کسی اور وجہ سے کسی ایسی جگہ مثلاًبس، کشتی یا ٹرین وغيرہ ميں نماز پڑھنے پر مجبور ہو جائے تو ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک بدن کے سکون اور قبلے کا خيال رکھے اور اگر یہ سواریاں قبلے کی سمت سے ہٹ جائيں تو خود قبلے کی طرف گهوم جائے۔

مسئلہ ٨٨٨ کهڑی ہوئی بس، کشتی، ٹرین یا ان جيسی چيزوں ميں نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٨٨٩ گندم وجوَ کے ڈهير یا ان جيسی کسی اور چيز پر جو بدن کو ساکن نہ رہنے دے، نماز باطل ہے ۔

۱۴۷

تيسری شرط

مسئلہ ٨٩٠ ضروری ہے کہ ایسی جگہ پر نماز پڑھے جهاںنماز مکمل کرنے کا احتمال ہو اور اگر ہوا، بارش، لوگوں کے هجوم یا ان جيسے اسباب کی وجہ سے اطمينان ہو کہ اس جگہ نماز مکمل نہيں کر سکے گا تو اگرچہ اتفاقاً وہاں نماز مکمل کر لے پھر بھی اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٨٩١ اگر ایسی جگہ نماز پڑھے جهاں ٹہرنا حرام ہے مثلاًایسی چھت کے نيچے جو گرنے ہی والی ہے تو اگرچہ وہ گنهگار ہے ليکن اس کی نمازصحيح ہے ۔

مسئلہ ٨٩٢ جس چيز کی توهين حرام ہے اگر اس پر اٹھنا بيٹھنا اس کی توهين کا باعث ہو مثلاًقالين کا وہ حصہ جس پر الله کا نام لکھا ہو، اس پر نمازپڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط کی بنا پر باطل بھی ہے ۔

چوتھی شرط

نماز پڑھنے کی جگہ چھت نيچی ہونے کی وجہ سے اتنی چھوٹی نہ ہو کہ سيدها کهڑا نہ ہو سکے اور اسی طرح مکان کے تنگ ہونے کی وجہ سے جگہ اتنی تنگ نہ ہو کہ رکوع اور سجود انجام نہ دے سکے۔

مسئلہ ٨٩٣ اگر ایسی جگہ نمازپڑھنے پر مجبور ہو جائے جهاں کسی طرح کهڑا نہ ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ بيٹھ کر نماز پڑھے اوراگر رکوع اور سجود کی ادائيگی ممکن نہ ہو تو ان کے لئے سر سے اشارہ کرے۔

مسئلہ ٨٩ ۴ پيغمبراکرم(ص) اور ائمہ اطهار عليهم السلام کی قبورمطہر سے آگے بڑھ کر نماز پڑھنااگر بے حرمتی کا سبب ہو تو حرام اور باطل ہے بلکہ بے حرمتی نہ ہونے کی صورت ميں بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔ ہاں، اگر نماز کے وقت کوئی چيزمثلاًدیوار، اس کے اور قبر کے درميان ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن قبر مطہر پر بنے ہوئے صندوق، ضریح اور اس پر پڑے ہوئے کپڑے کا فاصلہ کافی نہيں ہے ۔

پانچويں شرط

مسئلہ ٨٩ ۵ یہ کہ نمازپڑھنے کی جگہ اگر نجس ہو تو اتنی تر نہ ہو کہ نماز کو باطل کرنے والی نجاست نمازی کے بدن یا لباس تک سرایت کر جائے۔ ہاں، سجدے کے لئے پيشانی رکھنے کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور اگر وہ نجس ہو تو اس کے خشک ہونے کی صورت ميں بھی نماز باطل ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ بالکل نجس نہ ہو۔

۱۴۸

چھٹی شرط

ضروری ہے کہ نماز پڑھتے وقت مرداور عورت کے درميان کم ازکم ایک بالشت کا فاصلہ ہو، جب کہ شہر مکہ کے علاوہ کسی بھی مقام پر دس ذراع سے کم کے فاصلے ميں نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٨٩ ۶ اگر عورت مذکورہ فاصلے سے کم فاصلے پر مردکے برابر یا اس سے آگے نماز پڑھے اور دونوں ایک ساته نماز شروع کریں تو ضروری ہے کہ دونوں دوبارہ نماز پڑہيں ۔ اسی طرح اگر ایک نے دوسرے سے پهلے نماز شروع کی ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٨٩٧ اگر ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوئے مرد اور عورت یا مرد سے آگے کهڑی ہوئی عورت اور مرد کے درميان دیوار، پردہ یا کوئی ایسی چيز ہو کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکيں تو دونوں کی نمازميں کوئی حرج نہيں اگر چہ ان کے درميان مذکورہ مقدار سے بھی کم فاصلہ ہو۔

ساتويں شرط

ضروری ہے کہ نمازی کی پيشانی رکھنے کی جگہ، اس کے پاؤں کی انگليوں کے سرے اور بنا بر احتياط واجب گھٹنے رکھنے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگليوں کی مقدار سے زیادہ نيچی یا اونچی نہ ہو اور اس کی تفصيل سجدے کے احکام ميں آئے گی۔

مسئلہ ٨٩٨ نامحرم مرد اور عورت کا ایسی جگہ اکهٹا ؟؟؟هونا جهاں کوئی دوسرا نہ ہو اور نہ ہی آ سکتا ہو جبکہ اس صورت ميں انہيں گناہ ميں مبتلا ہونے کا احتمال ہو، جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ نماز نہ پڑہيں ۔

مسئلہ ٨٩٩ جهاں سِتار یااس جيسی چيزیں بجائی جاتی ہوں وہاں نماز پڑھنے سے نماز باطل نہيں ہوتی ہے ، ليکن ان چيزوں کو سننا حرام ہے ۔ یهی حکم وہاں ٹھ هرنے کا ہے سوائے اس شخص کے لئے جو اس عمل کو روکنے کے لئے وہاں ٹہرا ہو۔

مسئلہ ٩٠٠ اختياری حالت ميں خانہ کعبہ کی چھت پر واجب نماز پڑھنا جائز نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی واجب نماز نہ پڑھے ليکن مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٠١ خانہ کعبہ کے اندر مستحب نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے بلکہ خانہ کعبہ کے اندر ہر گوشے کے سامنے دو رکعت نمازپڑھنا مستحب ہے ۔

۱۴۹

وہ مقامات جهاں نمازپڑھنا مستحب ہے

مسئلہ ٩٠٢ اسلام کی مقدس شریعت ميں مسجد ميں نماز پڑھنے کی بہت تاکيد کی گئی ہے ۔ تمام مساجد ميں سب سے بہتر مسجدالحرام ہے ۔ اس کے بعد مسجد نبوی صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور پھر مسجدکوفہ کا درجہ ہے ۔ ان کے بعد مسجدبيت المقدس، شہر کی جامع مسجد، محلہ کی مسجداو ر بازار کی مسجد کا درجہ بالترتيب ہے ۔

مسئلہ ٩٠٣ خواتين کے لئے اپنے گھر ميں بلکہ کوٹہر ی اور پيچهے والے کمرے ميں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۴ ائمہ عليهم السلام کے حرم مطہر ميں نماز پڑھنا مستحب ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق حضرت امير المومنين عليہ السلام اورسيد الشهداعليهم السلام کے حرم ميں نماز مسجدسے افضل ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۵ مسجد ميں زیادہ جانا اور جس مسجد ميں نماز ی نہ ہوتے ہوں وہاں جانا مستحب ہے اور مسجد کے پڑوسی کے لئے بغير کسی عذر کے مسجد کے علاوہ کسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٠ ۶ انسان کے لئے مستحب ہے کہ مسجد ميں نہ جانے والے کے ساته کھانا نہ کھائے، کاموں ميں اس سے مشورہ نہ لے، اس کا ہمسایہ نہ بنے، اس سے لڑکی نہ لے اور نہ ہی اسے لڑکی دے۔

وہ مقامات جهاں نماز پڑھنا مکروہ ہے

مسئلہ ٩٠٧ چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ ان ميں سے چند یہ ہيں :

١) حمام ميں

٢) نمک زار ميں

٣) انسان کے سامنے

۴) کهلے ہوئے دروازے کے سامنے

۵) سڑک اور گلی کوچوں ميں جب کہ وہاں سے گزرنے والوں کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو اور اگر تکليف کا باعث ہو توحرام ہے ۔

۶) آگ اور چراغ کے سامنے

٧) باورچی خانے ميں اور ہر اس جگہ جهاں آتش دان ہو

٨) کنویں اور پيشاب کے جمع ہونے کی جگہ کے سامنے

٩) جاندار کی تصویر اور مجسمے کے سامنے مگر یہ کہ ان پر پردہ ڈال دیا جائے

۱۵۰

١٠ ) جس کمرے ميں کوئی جنب ہو

١١ ) جهاں جاندار کی تصویر ہو اگرچہ نماز ی کے سامنے نہ ہو

١٢ ) قبر کے سامنے

١٣ ) قبر کے اوپر

١ ۴ ) دو قبروں کے درميان

١ ۵ ) قبرستان ميں

مسئلہ ٩٠٨ لوگوں کی گذر گاہ پر یا کسی کے سامنے نمازپڑھنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اپنے سامنے کوئی چيز رکھے جو اگر لکڑی یا رسی بھی ہو تو کافی ہے ۔

مسجد کے احکام

مسئلہ ٩٠٩ مسجد کی زمين، چھت کا اندرونی اور اوپری حصہ اور مسجد کی دیوار کا اندر والا حصہ نجس کرنا حرام ہے اور جس شخص کو بھی اس کے نجس ہونے کا علم ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کو فوراً پاک کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسجد کی دیوار کا باہر والا حصہ بھی نجس نہ کرے اور اگر نجس ہو جائے تو نجاست کودور کرے۔

مسئلہ ٩١٠ اگر مسجد پاک نہ کرسکتا ہو یا پاک کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہو اور کوئی مددگار نہ ملے تو اس پر مسجد پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن جو شخص مسجد کو پاک کر سکتا ہو اور احتمال ہو کہ وہ مسجد کوپاک کر دے گاتو اس کو اطلاع دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩١١ اگر مسجد کی کوئی ایسی جگہ نجس ہو جائے جسے کهودے یا توڑے بغير پاک کرنا ممکن نہ ہو تو اگر اس کی توڑ پهوڑ مکمل اور وقف کو نقصان پهنچانے والی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس جگہ کو کهودا یا توڑا جائے۔ اور کهودی ہوئی جگہ کو پرُ کرنا او ر توڑی ہوئی جگہ کو دوبارہ بنانا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر مسجد کی اینٹ جيسی کوئی چيز نجس ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اسے پاک کر کے پرانی جگہ پر لگا دیا جائے۔

مسئلہ ٩١٢ اگر مسجد غصب کر کے اس پر گھر یا گھر جيسی عمارت بنالی جائے تو بنا بر احتياط اسے نجس کرنا حرام ہے اور پاک کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن ٹوٹی ہوئی مسجد کو نجس کرنا اگرچہ اس ميں کوئی نمازنہ پڑھتا ہو، جائز نہيں ہے اور پاک کرنا ضروری ہے

مسئلہ ٩١٣ ائمہ عليهم السلام کے روضوں کو نجس کرنا حرام ہے اور نجس ہونے کے بعد اگر نجس چھوڑنے سے بے احترامی ہوتی ہو تو انہيں پاک کر نا واجب ہے ۔ بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تو بھی احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کرے۔

۱۵۱

مسئلہ ٩١ ۴ مسجد کی چٹائی نجس کرنا حرام ہے اور نجس کرنے والے کے لئے احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور باقی افراد کے لےے احتياط مستحب ہے کہ اسے پاک کریں، ليکن اگر چٹائی کا نجس رہنا مسجد کی بے احترامی ہوتو ضروری ہے کہ اسے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ٩١ ۵ اگر بے احترامی ہوتی ہوتو مسجدميں کسی عين نجس یا نجس شدہ چيز کو لے جاناحرام ہے ، بلکہ اگر بے احترامی نہ ہو تب بھی احتياط مستحب ہے کہ عين نجس کو مسجد ميں نہ لے جائے۔

مسئلہ ٩١ ۶ مسجد ميں مجالس کے ليے شاميانہ لگانے، فرش بچهانے، سياہ چيزیں آویزاں کرنے اور چائے کا سامان لے جانے ميں جبکہ مسجد کو نقصان نہ پهنچے اور نماز پڑھنے ميں کسی رکاوٹ کا باعث نہ بنے، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩١٧ احتياط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے اور انسان اور جاندار کے نقش سے مزین کر نا جائز نہيں ہے اور بيل بوٹوں جيسی بے جان چيزوں سے مزین کر نا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩١٨ اگر مسجد ٹوٹ جائے تو بھی نہ اسے فروخت کيا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکيت یا سڑک ميں شامل کيا جا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٩١٩ مسجد کے دروازے، کهڑکيا ں اور دوسری چيزوں کو فروخت کرنا حرام ہے اور اگر مسجد ٹوٹ جائے تو ضروری ہے کہ ان چيزوں کواس مسجد کی تعمير ميں استعمال کيا جائے اور جو چيزیں اس مسجد کے کام کی نہ ہوںانہيں دوسری مسجد ميں استعمال کيا جائے، ليکن اگر کسی بھی مسجد کے کام نہ آئيں تو جو چيزیں مسجد کا جزء شمار نہ ہوتی ہوں اور مسجد کے لئے وقف کی گئی ہو ں انہيں حاکم شرع کی اجازت سے فروخت کيا جاسکتا ہے اور اگر ممکن ہو تو ان کی قيمت بھی اسی مسجد، ورنہ کسی اور مسجد کی تعمير ميں خرچ کی جائے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تواسے دوسرے نيک کاموں ميں خرچ کيا جائے۔

مسئلہ ٩٢٠ مسجد کی تعمير اورمرمت مستحب ہے اور اگر ٹوٹی ہوئی مسجد کی مرمت ممکن نہ ہو تو اسے توڑکر دوبارہ بنایا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ضرورت ہو تونماز کی گنجائش بڑھانے کے لئے اس مسجد کوبهی جو نہ ٹوٹی ہو، توڑ کر دوبارہ بنایا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ٩٢١ مسجدکو صاف کرنا اور اس ميں چراغ روشن کرنا مستحب ہے اور مسجد جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ خوشبو لگائے، پاکيزہ اور قيمتی لباس پهنے، اپنے جوتو ںکو دیکھ لے کہ اس کہ نيچے والے حصے ميں نجاست تو نہيں ہے ، مسجد ميں داخل ہوتے وقت پهلے سيدها پاؤں اور باہر نکلتے وقت پهلے الٹا پاؤں اٹھ ائے اور مستحب ہے کہ سب سے پهلے مسجد ميں آئے اور سب سے آخر ميں باہر جائے۔

مسئلہ ٩٢٢ جب انسان مسجد ميں جائے تو مستحب ہے کہ دو رکعت نمازتحيت، مسجد کے احترام ميں پڑھے اور اگر واجب یا کوئی مستحب نماز بھی پڑھ لے تو کافی ہے ۔

۱۵۲

مسئلہ ٩٢٣ مسجد ميں بغير کسی مجبوری کے سونا، دنياوی امور کے بارے ميں گفتگو کرنا، کسی دستکاری ميں مشغول رہنا اور ایسے شعر پڑھنا جس ميں نصيحت اور اس جيسی چيز نہ ہو مکروہ ہے ۔

اسی طرح مسجد ميں تهوکنا، ناک کی غلاظت وبلغم پھينکنا، کسی کهوئے ہوئے کو ڈهونڈنا اور اپنی آواز بلند کرنا بھی مکروہ ہے ليکن اذان کے لئے آواز بلند کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٢ ۴ بچوں اور دیوانوں کو مسجد ميں آنے دینا مکروہ ہے اور پياز یا لهسن جيسی چيز کھائے ہوئے شخص کے لئے کہ جس کے منہ کی بو سے لوگوں کو اذیت ہوتی ہو، مسجدميں جانا مکروہ ہے ۔

اذان اور اقامت

مسئلہ ٩٢ ۵ مرد اور عورت کے لئے مستحب ہے کہ واجب یوميہ نمازوں سے پهلے اذان اور اقامت کہيں جب کہ یوميہ نمازوں کے علاوہ دوسری واجب نمازوں اور مستحب نمازوں کے لئے جائز نہيں ہے ، ليکن جب عيد فطر یا عيد قربان کی نماز جماعت سے پڑھی جا رہی ہو تو مستحب ہے کہ تين مرتبہ الصلاة کہہ کر پکارا جائے اور ان دو نمازوں کے علاوہ کسی نماز مثلًانماز آیات ميں اگر جماعت سے پڑھی جائے تو رجاء کها جائے۔

مسئلہ ٩٢ ۶ مستحب ہے کہ نومولود کے دائيں کان ميں اذان اور بائيں کان ميں اقامت کهے اوریہ ولادت کے پهلے روز بہتر ہے ۔

مسئلہ ٩٢٧ اذان کے اٹھ ارہ جملے ہيں :

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ چار مرتبہا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہحَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ دومرتبہلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه دو مرتبہ اور اقامت کے سترہ جملے ہيں :

یعنی اول سے دو مرتبہا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ اور آخر سے ایک مرتبہلاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه کم ہو جائيں گے اورحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ کے بعد ضروری ہے کہ دو مرتبہقَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ کا اضافہ کرے۔

مسئلہ ٩٢٨ا شَْٔهَدُ ا نََّٔ عَلِيًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ اذان واقامت کا جز نہيں ہے ليکن چونکہ حضرت علی عليہ السلا م کی ولایت دین کی تکميل کرتی ہے لہٰذا اس کی گواہی ہر مقام پر او را شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰه کے جملے کے بعد خدا سے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے ۔

۱۵۳

اذان اور اقامت کا ترجمہ

ا لَٔلّٰهُ ا کَْٔبَرُ الله توصيف کئے جانے سے بالا تر ہےا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہےا شَْٔهَدُ ا نََّٔ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ گواہی دیتا ہوں کہ محمدبن عبد الله(ص) الله کے رسول ہيںحَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ نماز کے لئے جلدی کرو حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ کاميابی کی طرف جلدی کروحَیَّ عَلیٰ خَيْرِ الْعَمَلِ بہترین کام کی طرف جلدی کرو قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ یقينانماز قائم ہو گئیلَاَ ا لِٰٔهَ ا لِٔاَّ اللّٰه الله کے سوا کوئی معبود نہيں ہے مسئلہ ٩٢٩ ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے جملوں کے درميان زیادہ فاصلہ نہ دے اور اگر ان کے درميان معمول سے زیادہ فاصلہ کر دے تو ضروری ہے کہ شروع سے کهے۔

مسئلہ ٩٣٠ اگر اذان اور اقامت کہتے وقت آواز کو گلے ميں گهمائے تو اگر یہ غنا اور گلوکاری ہو جائے یعنی لهو ولعب کی محفلوں سے مخصوص گانے کے انداز ميں اذان اور اقامت کهے تو حرام ہے اور اگر غنا اور گلوکاری نہ ہو تو مکروہ ہے ۔

مسئلہ ٩٣١ دو نماز وں ميں اذان جائزنہيں ہے :

١) ميدان عرفات ميں روز عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کے دن، نماز عصر ميں ۔

٢) شب بقر عيد کی نماز عشا ميں اس شخص کے لئے جو مشعر الحرام ميں ہو۔

یہ دو اذانيں اس صورت ميں جائز نہيں ہيں جب ان ميں سے پهلے پڑھی ہوئی نمازميں فاصلہ بالکل نہ ہو یا اتنا کم فاصلہ ہو کہ عرفاً یہ کها جائے کہ دو نمازیں ساته ميں پڑھی ہيں ۔

مسئلہ ٩٣٢ اگر نمازجماعت کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہو تو اس جماعت کے ساته نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت نہ کهے۔

مسئلہ ٩٣٣ اگر نماز جماعت پڑھنے مسجد ميں جائے اور دیکھے کہ نماز ختم ہو چکی ہے ليکن صفيں ابهی تک نہ بگڑی ہوں اور لوگ بھی متفرق نہ ہوئے ہوں توآنے والے مسئلے ميں بيان شدہ شرائط کے ساته اپنے لئے اذان اور اقامت نہيں کہہ سکتا۔

مسئلہ ٩٣ ۴ جهاں جماعت ہو رہی ہو یا جماعت مکمل ہوئے زیادہ وقت نہ گزرا ہو اور صفيں نہ بگڑی ہوں اگر کوئی وہاں فرادیٰ یا باجماعت نماز پڑھنا چاہے تو چھ شرائط کے ساته اس سے اذان اور اقامت ساقط ہو جائے گی (اور یہ سقوط، عزیمت کے عنوان سے ہے یعنی اذان اور اقامت جائز نہيں ہے :

١) جماعت مسجد ميں ہو پس اگر مسجد ميں نہ ہو تو اذان اور اقامت ساقط نہيں ہوگی۔

٢) اس نماز کے لئے اذان اور اقامت کهی گئی ہوں۔

۱۵۴

٣) جماعت باطل نہ ہو۔

۴) جماعت اور اس شخص کی نماز ایک ہی جگہ پر ہو، لہٰذا اگر مثال کے طور پر جماعت مسجد کے اندر ہو اور وہ چھت پر نماز پڑھنا چاہے تو اس سے اذان اور اقامت ساقط نہ ہونگی۔

۵) نماز جماعت اور ا س کی نمازدونوں ادا ہوں۔

۶) نمازجماعت اور اس شخص کی نمازکا وقت مشترک ہو۔ مثلا دونوں نماز یں ظہر ہو ں یا عصر ہوں یا نماز جماعت ظہر ہو اور وہ نماز عصر پڑھے یا اسے نمازظہر پڑھنی ہو اور جماعت عصر ہو۔

مسئلہ ٩٣ ۵ اگر گذشتہ مسئلے کی تيسری شرط ميں شک کرے یعنی شک کرے کہ نمازجماعت صحيح تھی یا نہيں تو اس سے اذان واقامت ساقط ہے ليکن اگر صفوں کے بگڑنے یا دوسری شرائط کے حاصل ہونے ميں شک کرے تو اگر سابقہ حالت معلوم ہو تو اسی حالت کے مطابق عمل کرے مثلاًاگر رات کی تاریکی ميں شک کرے کہ صفيں بگڑی ہيں یا نہيں تو سمجھے کہ صفيں اپنی حالت پر باقی ہيں اور اذان اور اقامت نہ کهے اور اگر شک کرے کہ اس جماعت کے لئے اذان واقامت کهی گئی ہے یا نہيں تو سمجھے کہ نہيں کهی گئی ہے اور اذان واقامت مستحب کی نيت سے کهے اور اگر حالت سابقہ معلوم نہ ہوتو رجاء اذان واقامت کهے۔

مسئلہ ٩٣ ۶ دوسرے کی اذان کی آوازسننے والے کے لئے ہر سنے ہوئے جملے کو دهرانا مستحب ہے او راقامت سننے والا حی علی الصلاةسے قد قامت الصلاة تک کے جملے کو رجاء دهرائے اور باقی جملات کو ذکر کی نيت سے کهنا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩٣٧ جس نے دوسرے کی اذان و اقامت سنی ہو اور نمازپڑھنا چاہے تو اگر دوسرے کی اذان واقامت اور اس کی نماز کے درميان زیادہ فاصلہ نہ ہو تو یہ شخص اذان واقامت کو ترک کر سکتا ہے چاہے اس نے دوسرے کی اذان واقامت کے ساته تکرار کی ہو یا نہ کی ہو۔

مسئلہ ٩٣٨ اگر مردکسی عورت کی اذان سنے تو اس سے اذان ساقط نہيں ہوتی چاہے اس نے لذت کے قصد سے سنی ہو یا قصدِلذت کے بغير سنی ہو۔

مسئلہ ٩٣٩ نماز جماعت کی اذان واقامت کهنے والے کے لئے ضروری ہے مرد ہو، ليکن خواتين کی نماز جماعت ميں کسی عورت کا اذان واقامت کهنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٠ ضروری ہے کہ اقامت، اذان کے بعد ہو اور اگر اذان سے پهلے کهے تو صحيح نہيں ہے اور اقامت ميں کھڑے ہو کر کهنا اور( وضو، غسل یا تيمم کے ذریعے) باطهارت ہونا بھی شرط ہے ۔

۱۵۵

مسئلہ ٩ ۴ ١ اگر اذان واقامت کے جملات ترتيب بدل کر کهے مثلاًحی علی الفلاح کو حی علی الصلاة سے پهلے کهے تو ضروری ہے کہ جهاں سے ترتيب بگڑی ہے وہيں سے دوبارہ کهے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٢ ضروری ہے کہ اذان واقامت کے درميان فاصلہ نہ دے اور اگر اتنا فاصلہ دے کہ کهی ہوئی اذان کو اس اقامت کی اذان نہ کها جا سکے تو دوبارہ اذان واقامت کهنا مستحب ہے اور اگر اذان واقامت کے بعد نمازميں اتنا فاصلہ دے دے کہ یہ دونوں اس نماز کی اذان واقامت نہ کهی جا سکيں تو بھی اس نمازکے لےے اذان واقامت کو دهرانا مستحب ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٣ ضروری ہے کہ اذان واقامت صحيح عربی ميں کهی جائيں، لہٰذا اگر غلط عربی ميں کهے یا ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف ادا کرے یا مثلاًاردو زبان ميں ترجمہ کهے تو صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۴ ضروری ہے کہ اذان واقامت وقت داخل ہونے کے بعد کهے، لہٰذا اگر عمداًیا بھول کر وقت سے پهلے کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۵ اگر اقامت کهنے سے پهلے شک کرے کہ اذان کهی یا نہيں تو اذان کهے ليکن اگر اقامت شروع کرنے کے بعد اذان کے بارے ميں شک کرے تو اذان کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴۶ اگر اذان اور اقامت کے دوران کوئی جملہ کهنے سے پهلے شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها یا نہيں تو جس جملے کے بارے ميں شک ہو اسے کهے ليکن اگر کوئی جملہ کہتے وقت شک کرے کہ اس سے پهلے والا جملہ کها ہے یا نہيں تو اسے کهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٧ اذان کہتے وقت مستحب ہے :

اذان دینے والا قبلہ رخ ہو بالخصوص اذان ميں شهادت کے جملے ادا کرتے وقت اس کی زیادہ تاکيد ہے ، وضو یا غسل کيا ہوا ہو،دو انگلياں دونوں کانوں ميں رکھے، اونچی آواز سے اذان دے اور اسے کھينچے، اذان کے جملات کے درميان تهوڑا سا فاصلہ دے اور اذا ن کے جملات کے دوران بات نہ کرے۔

مسئلہ ٩ ۴ ٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ اقامت کہتے وقت اس کا بدن ساکن ہو اور اسے اذان کے مقابلے ميں آهستہ آواز ميں کهے اور اس کے جملوں کو ایک دوسرے سے نہ ملائے، ليکن اقامت کے جملوں کے درميان اتنا فاصلہ نہ دے جتنا اذان کے جملوں کے درميا ن دیتا ہے ۔

مسئلہ ٩ ۴ ٩ مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کے درميان تهوڑی دیر کے لئے بيٹھ کر یا دو رکعت نماز پڑ ه کر یا بات کرے یا تسبيح پڑھ کر فاصلہ دے۔ليکن نمازصبح کی اذان اور اقامت کے درميا ن بات چيت کرنا مکروہ ہے ۔

۱۵۶

مسئلہ ٩ ۵ ٠ مستحب ہے کہ جس شخص کو اطلاعی اذان دینے پر معين کياجائے وہ عادل وو قت شناس ہو،اس کی آواز بلند ہو اوراونچی جگہ پر اذان دے۔

واجباتِ نماز

واجباتِ نماز گيارہ ہيں :

١)نيت

٢)قيا م یعنی کهڑا ہونا

٣)تکبيرةالاحرام یعنی نماز کی ابتدا ميں الله اکبر کهنا

۴) رکوع

۵) سجود

۶) قرائت

٧)ذکر

٨)تشهد

٩)سلام

١٠ )ترتيب

١١ )موالات یعنی اجزائے نماز کا پے در پے بجا لانا

مسئلہ ٩ ۵ ١ واجباتِ نماز ميں سے بعض رکن ہيں یعنی اگر انسان انہيں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا جان بوجه کر ہو یا غلطی سے،نماز باطل ہو جاتی ہے ۔جب کہ باقی واجبا ت رکن نہيں ہيں یعنی اگر وہ غلطی کی بنا پر چھوٹ جایئں تو نماز باطل نہيں ہوتی۔

نماز کے واجباتِ رکنی پانچ ہيں :

١) نيت

٢) تکبيرة الاحرام

٣)قيام متصل بہ رکوع،یعنی رکوع ميں جانے سے پهلے کا قيام

۴) رکوع

۱۵۷

۵) ہر رکعت کے دو سجدے اور جهاں تک واجبات نماز کو زیادہ کرنے کا تعلق ہے تو اگر زیادتی عمداہو تو بغيرکسی شرط کے نماز باطل ہے ۔ ہاں، اگر جاہل قاصر جان بوجه کر تکبيرة الاحرام کو زیادہ کرے تو اس کی نماز کا باطل ہونا محلِ اشکال ہے اور اگر زیادتی غلطی سے ہوئی ہو تو چنانچہ زیادتی رکوع کی ہو یا ایک ہی رکعت کے دو سجدوں کی ہو تو نماز باطل ہے ورنہ باطل نہيں ۔

نيت

مسئلہ ٩ ۵ ٢ ضروری ہے کہ انسان نماز کو قربت کی نيت سے جيسا کہ وضو کے مسائل ميں بيان ہو چکا ہے اور اخلاص کے ساته بجا لائے۔ اور نيت کو اپنے دل سے گزارنا یا اپنی زبان پر جاری کرنا،مثلاً یہ کهنا:”چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں خداوندمتعال کے حکم کی بجا آوری کے لئے “،ضروری نہيں بلکہ نماز احتياط ميں نيت کو زبان سے ادا کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٣ اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نماز ميں نيت کرے کہ چار رکعت نماز پڑھتا ہوں اور معين نہ کرے کہ ظہر ہے یا عصر،نہ اجمالی طور پر اور نہ ہی تفصيلی طور پر تو ا س کی نماز باطل ہے ۔

اجمالی نيت سے مراد یہ ہے کہ مثلاًنمازِ ظہر کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے مجھ پر واجب ہوئی ہے اس کو انجام دے رہا ہوں یا مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر نماز ظہر کی قضا واجب ہے اور وہ ظہر کے وقت ميں اس قضا نماز یا ظہر کی ادا نمازکوپڑھناچاہے توضروری ہے کہ جو نماز پڑھے اسے اجمالاہی سهی نيت ميں معين کرے مثلاًنمازِ ظہر کی قضا کے لئے یہ نيت کرے کہ جو نماز پهلے ميری ذمہ داری ہے اسے انجام دے رہا ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۴ ضروری ہے کہ انسان شروع سے آخر تک نماز کی نيت پر قائم رہے،پس اگر وہ نماز ميں اس طرح غافل ہو جائے کہ اگر کوئی پوچهے کہ وہ کيا کر رہا ہے اور ا س کی سمجھ ميں نہ آئے کہ وہ کيا جواب دے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵۵ ضروری ہے کہ انسان صرف خدا کے لئے نماز پڑھے،لہٰذا جو شخص ریا کرے یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے اس کی نماز باطل ہے خواہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے ہو یا خدا اور لوگ دونو ں اس کی نظر ميں ہوں۔

مسئلہ ٩ ۵۶ اگر کوئی شخص نماز کا کچھ حصہ بھی خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ،بلکہ اگر نماز تو خدا کے لئے پڑھے ليکن لوگوں کو دکھانے کے لئے کسی خاص جگہ مثلاًمسجد ميں پڑھے یا کسی خاص وقت مثلاًاول وقت ميں پڑھے یا کسی خاص طریقے سے مثلاًباجماعت پ-ڑھے تب بھی اس کی نماز باطل ہے اور احتياط واجب کی بنا پروہ مستحبات، مثلاًقنوت بھی کہ جن کے لئے نماز ظرف کی حيثيت رکھتی ہے ،اگر خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے بجا لائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۵۸

تکبيرةالاحرام

مسئلہ ٩ ۵ ٧ ہر نماز کی ابتدا ميں ”اللّٰہ اکبر“ کهنا واجب اور رکن ہے اور ضروری ہے کہ انسان لفظ” اللّٰہ“ اور لفظ”اکبر“ کے حروف اور” اللّٰہ اکبر“ کے دو لفظ پے درپے کهے۔یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دو لفظ صحيح عربی ميں کهے جائيںاور اگر کوئی شخص غلط عربی ميں کهے یا اس کا ترجمہ زبان پر جاری کرے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۵ ٨ احتياط واجب یہ ہے کہ انسان نماز کی تکبيرة الاحرام کو اس سے پهلے پڑھی جانے والی چيز مثلاًاقامت یا تکبير سے پهلے پ-ڑھی جانے والی دعا سے نہ ملائے۔

مسئلہ ٩ ۵ ٩ احتياط مستحب یہ ہے کہ انسان اللّٰہ اکبر کو اس کے بعد پڑھی جانے والی چيز مثلاًبِسم اللّٰہ الرَّحمنِ الَّرحيم سے نہ ملائے ليکن اگر ملا کر پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اکبر کے ’را‘ پر پيش دے(یعنی اکبرُپڑھے)۔

مسئلہ ٩ ۶ ٠ تکبيرةالاحرام کہتے وقت ضروری ہے کہ انسان کا بدن ساکن ہو اور اگر جان بوجه کر اس حالت ميں کہ جب بدن حرکت ميں ہو تکبيرة الاحرام کهے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ١ ضروری ہے کہ تکبير،الحمد،سورہ،ذکر اور دعا اتنی آواز سے پڑھے کہ خود سن سکے اور اگر ا ونچا سننے، بهرہ ہونے یا شوروغل کی وجہ سے نہ سن سکے تو ضروری ہے کہ اس طرح کهے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تو سن ليتا۔

مسئلہ ٩ ۶ ٢ اگر کوئی شخص گونگا ہو، یا زبان ميں کوئی ایسی بيماری ہو کہ جس کی وجہ سے صحيح طریقے سے”اللّٰہ اکبر“ نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح بھی کہہ سکتا ہو کهے اور اگر بالکل نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل ميں پڑھے، تکبير کے لئے اپنی زبان کو حرکت دے اور انگلی سے اشارہ بھی کرے۔

مسئلہ ٩ ۶ ٣ انسان کے لئے مستحب ہے کہ تکبيرة الاحرام کهنے سے پهلے یہ کهے :

یَا مُحْسِنُ قَدْ اَتَاکَ الْمُسِیْءُ وَ قَدْ اَمَرْتَ الْمُحْسِنَ اَنْ یَتَجَاوَزَ عَنِ الْمُسِیْءِ اَنْتَ الْمُحْسِنُ وَ اَنَا الْمُسِیْءُ فَبِحَق مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ تَجَاوَزْ عَنْ قَبِيْحِ مَا تَعْلَمُ مِنِّی ۔

ترجمہ :اے اپنے بندوں پر احسان کرنے والے خد ا! بندہ گنهگار تير ی بارگاہ ميں آیا ہے اور تو نے نيک لوگوں کو گنهگاروں سے در گزرکرنے کا حکم دیا ہے ۔تو احسان کرنے والا اور ميں نافرمان ہوں، لہٰذا محمد و آلِ محمد کے حق کا واسطہ، اپنی رحمت محمدوآلِ محمدپرنازل کر اور مجھ سے سر زد ہونے والی برائيوں سے جنہيں تو جانتا ہے در گزر فرما۔

مسئلہ ٩ ۶۴ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز کی پهلی تکبيراور دوران نماز دوسری تکبيریں کہتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرے۔

۱۵۹

مسئلہ ٩ ۶۵ اگر کوئی شک کرے کہ تکبيرة الاحرام کهی ہے یا نہيں تو اگر وہ قرائت کی کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکاہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ابهی کوئی چيز شروع نہيں کی تو تکبيرة الاحرام کهنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶۶ اگر تکبيرة الاحرام کهنے کے بعد شک کرے کہ اسے صحيح ادا کيا یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے خواہ وہ کوئی چيز پڑھنے ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز مکمل کرنے کے بعد اسے دهرائے۔

قيام(کھڑا ہونا )

مسئلہ ٩ ۶ ٧ تکبيرةالاحرام کہتے وقت قيا م اور رکوع سے پهلے والا قيام جسے”قيام متصل بہ رکوع “کها جاتا ہے رکن ہيں ، ليکن ان دو کے علاوہ مثلاًحمد وسورہ پڑھتے وقت قيام اور رکوع کے بعد کا قيام رکن نہيں ہے ،لہذ ا اگر کوئی شخص بھولے سے اسے تر ک کر دے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٨ تکبيرةالاحرام کهنے سے پهلے اور اس کے بعد تهوڑی دیر کے لئے کهڑا ہونا واجب ہے تاکہ یقين ہو جائے کہ تکبيرة الاحرام قيام کی حالت ميں کهی گئی ہے ۔

مسئلہ ٩ ۶ ٩ اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے اور الحمد وسورہ کے بعد بيٹھ جائے اور پھر اسے یاد آئے کہ رکوع نہيں کيا تو ضروری ہے کہ کهڑ اہو جائے اور رکوع ميں جائے اور اگر سيدها کهڑا ہوئے بغير جھکے ہونے کی حالت ميں ہی رکوع کی طرف پلٹ آئے تو چونکہ قيام متصل بہ رکوع بجا نہيں لایا، اس لئے اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ٩٧٠ جب ایک شخص تکبيرةالاحرام یا قرائت کے لئے کهڑ ا ہو تو ضروری ہے کہ بدن کو حرکت نہ دے، کسی طرف نہ جھکے اور احتياط واجب کی بنا پر اختيار کی حالت ميں کسی جگہ ٹيک نہ لگائے، ليکن اگر مجبوری ہو یا رکوع کے لئے جھکتے ہو ئے پاؤں کو حرکت دے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧١ اگر اس قيام کی حالت ميں کہ جو تکبيرة الاحرام یا قرائت کے وقت واجب ہے کوئی شخص بھولے سے بدن کو حرکت دے یا کسی طرف جھک جائے یا کسی جگہ ٹيک لگائے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٢ احتياط واجب یہ ہے کہ قيام کی حالت ميں انسان کے دونوں پاؤںزمين پر ہوں ليکن یہ ضروری نہيں کہ بدن کا بوجه بھی دونوں پاؤں پر ہو لہذ ا اگر ایک پاؤں پر بھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٩٧٣ جو شخص ٹھيک طور پر کهڑا ہو سکتا ہو اگر وہ اپنے پاؤں اتنے کهلے رکھے کہ اسے کهڑا ہونا نہ کها جا سکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اسی طرح اگر معمول کے خلاف کهڑا ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511