توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 11%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214230 / ڈاؤنلوڈ: 4727
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۴) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت ميں ہو ليکن پهلی مرتبہ کا جو خون عادت ميں ہو تين دن سے کم ہو تو ضروری ہے کہ دونوں خونوں کے دوران تروک حائض اور اعمال استحاضہ ميں جمع کرے اور درميانی پاکی کے دوران تروک حائض اور افعال طاہرہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٩٠ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر عادت ميں خون نہ دیکھے اور عادت کے علاوہ کسی اور وقت اپنے حيض کے ایام کی مقدار ميں خون دیکھے تو حيض کی علامات موجود ہونے کی صورت ميں اس خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩١ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت ميں خون دیکھے جو تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس خون کے ایام کی مقدار عادت کے ایام سے کم ہو یا زیادہ ہو اور پاک ہونے کے بعد دوبارہ عادت کے ایام کے برابر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو اگر ان دونوں خون اور درميان کی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب کو حيض قرار دے اور زیادہ ہونے کی صورت ميں عادت ميں دیکھے ہوئے خون کو حيض اور باقی خون کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٢ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو جو خون عادت کے ایام ميں دیکھا ہو وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور جو خون عادت کے ایام کے بعد دیکھا ہے استحاضہ ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات ہوں مثلاً جس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہو، اگر پهلی سے بارہویں تک خون دیکھے تو پهلے سات دن حيض ہيں اور بعد والے پانچ دن استحاضہ ہيں ۔

٢۔وقتيہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٣ وقتيہ عادت والی عورتوں کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) ایسی عورت ہے جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر خون دیکھے اور چند دنوں کے بعد پاک ہو جائے ليکن خون دیکھنے کے دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں مساوی نہ ہو، مثلاً دو ماہ مسلسل پهلی تاریخ سے خون حيض دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو، لہٰذا اس عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کی پهلی تاریخ کو اپنے حيض کی عادت کا پهلا دن قرار دے۔

(دوم) ایسی عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين سے تين یا زیادہ دن خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون والے تمام ایام اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو ليکن دوسرے مهينے ميں پهلے کے مقابلے ميں کم یا زیادہ ہو مثلاً پهلے مهينے آٹھ دن اور دوسرے مهينے نو دن ہو۔ ایسی عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کے پهلے دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔

۸۱

مسئلہ ۴ ٩ ۴ وقتيہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے وقت یا اس سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا ابتدا عادت ميں اتنی تاخير ہو کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت ميں تاخير ہوگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں مثلاً تين دن سے پهلے پاک ہونے کی وجہ سے معلوم ہو جائے کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٩ ۵ وقتيہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور حيض کی نشانيوں کے ذریعے حيض کو پہچان نہ سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين، چاہے پدری ہوں یا مادری اور چاہے زندہ ہوں یا مر چکی ہوں، کے ایامِ عادت کی مقدار کو اپنا حيض قرار دے اور اگر ان کی عادت چھ یا سات دن نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی عادت اور چھ یا سات دن کے درميان کی مدت ميں حيض اور استحاضہ دونوں کے احکام پر عمل کرے۔هاں، رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت کو اپنی عادت صرف اسی صورت ميں قرار دے سکتی ہے جب ان سب کے ایام حيض کی تعداد مساوی ہو۔ لہذا، اگر ان کے ایام حيض کی مقدار مساوی نہ ہو مثلاً بعض کی عادت پانچ دن اور دوسروں کی عادت سات دن ہو تو ان کی عادت کو اپنے لئے حيض قرار نہيں دے سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٩ ۶ جس وقتيہ عادت والی عورت نے اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو اپنا حيض قرار دیا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو دن ہر ماہ اس کی عادت کا پهلا دن ہو اس دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔ مثلاً جو عورت ہر ماہ پهلی تاریخ کو خون دیکھتی ہو اور کبهی سات اور کبهی آٹھ تاریخ کو پاک ہوتی ہو اگر کسی مهينے بارہ دن خون دیکھے اور اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن ہو تو ضروری ہے کہ مهينے کے ابتدائی سات دنوں کو حيض اور باقی ایام کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٧ جس عورت کو اپنی عادت رشتہ دار خواتين کی عادت کے مطابق قرار دینی ہے اگر اس کی رشتہ دار خواتين نہ ہوں یا ان کی عادت آپس ميں مساوی نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ہر مهينے خون دیکھنے کے دن سے چھ یا سات دن تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣۔عدديہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٨ عددیہ عادت والی خواتين کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) وہ عورت ہے جس کے خون دیکھنے کے ایام کی تعداد مسلسل دو ماہ تک مساوی ہو ليکن خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو تو اس صورت ميں جن ایام ميں خون دیکھا ہو وہ اس کی عادت ہيں ۔

مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مهينے گيارہویں سے پندرہویں تک خون دیکھے تو اس کی عادت پانچ روز ہوگی۔

۸۲

(دوم) وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک تين یا زیادہ دن خون دیکھے اور ایک یا زیادہ روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور پهلے مهينے خون دیکھنے کا وقت دوسرے مهينے سے فرق رکھتا ہو تو اگر جن ایام ميں خون دیکھا ہے ان کے ساته درميانی پاکی کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور ان کے ایام بھی دونوں مهينوں ميں برابر ہوں تو جن دنوں ميں خون دیکھا ہو اور جن دنوں ميں پاک رہی ہو سب کو اپنے حيض کی عادت قرار دے۔ البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ درميانی پاکی کے ایام دونوں مهينوں ميں برابر ہوں مثلاً اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھنے کے بعد دو روز پاک رہے پھر دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے ماہ گيارہویں سے تيرہویں تک خون دیکھے اور دو دن یا اس سے زیادہ یا کم روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہے ۔

اسی طرح مثلاً اگر ایک ماہ ميں آٹھ روز خون دیکھے اور دوسرے ماہ چار دن خون دیکھے اور پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہوگی۔

مسئلہ ۴ ٩٩ عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی نشانيوں کے ساته اپنی عادت کے عدد سے کم یا زیادہ دن خون دیکھے جو دس دن سے زیادہ نہ ہو تو ان سب کو حيض قرار دے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر دیکھا ہوا تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ خون دیکھنے کی ابتدا سے اپنی حيض کی عادت کے عدد کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر دیکھا ہوا سارا خون ایک جيسا نہ ہو بلکہ چند روز خون حيض کی علامات کے ساته ہو اور چند روز استحاضہ کی علامات کے ساته تو اگر حيض کی نشانيوں والے خون کا عدد اس کی عادت کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر حيض کی علامات والا خون عادت کے عدد سے زیادہ ہو تو فقط عادت کی مقدار کو حيض قرار دے اور اس سے زیادہ جس ميں حيض کی علامات ہوں اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

اور اگر حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس کی عادت کے ایام سے کم ہو تو ضروری ہے کہ ان ایام کو حيض قرار دے اور اس کے بعد عادت کے عدد تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

۴ ۔ مضطربہ

مسئلہ ۵ ٠٠ مضطربہ یعنی وہ عورت جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو اور اس کی عادت معين نہ ہوئی ہو یا اس کی عادت بگڑگئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو۔ مضطربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور اگر تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو اگر اس کی رشتہ دار عورتوں کی عادت چھ یا سات دن ہو تو ان ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۳

اور اگر کم ہو مثلاً پانچ روز ہو تو ان کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ان کی عادت اور چھ یا سات روز کے درميان فرق ميں جو کہ ایک یا دو دن ہيں جو کام حائض پر حرام ہيں ترک کرے اور استحاضہ کے کام انجام دے۔

اور اگر اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن سے زیادہ ہو مثلاً نو دن ہو تو چھ یا سات دنوں کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر چھ یا سات اور ان کی عادت کے درميان فرق ميں جو کہ دو یا تين دن ہيں حائض پر حرام کاموں کو ترک کرے اور استحاضہ والے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٠١ مصظربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے جن ميں چند دن حيض کی علامات اور چند دن استحاضہ کی علامات موجود ہوں تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ سب خون حيض ہے ۔ ہاں، اگرحيض کی علامات والے سارے خون کو حيض قرار نہ دیا جاسکتا ہو مثلاً پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته، پھر پانچ دن استحاضہ کی نشانيوں کے ساته اور پھر دوبارہ پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته خون دیکھے ، تو اس صورت ميں اگر کيفيت یہ ہو کہ حيض کی نشانيوں والے دونوں خون کو حيض قرار دینا ممکن ہو، اس طرح سے کہ ان ميں سے ہر ایک تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو ضروری ہے کہ ان دونوں خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے اور درميان ميں جو خون حيض کی علامات کے ساته نہيں ہے اسے استحاضہ قرار دے اور اگر ان ميں سے فقط ایک کو حيض قرار دینا ممکن ہو تو پھر اسی کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۵ ۔مبتدئہ

مسئلہ ۵ ٠٢ مبتدئہ یعنی وہ عورت جس نے پهلی بار خون دیکھا ہو۔ ایسی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور سارا خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔ اگر اس کی کوئی رشتہ دار خاتون نہ ہو یا ان کی عادت مختلف ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تين دن کو حيض قرار دے اور پهلے مهينے دس دن تک اور بعد والے مهينوں ميں چھ یا سات دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۵ ٠٣ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور ان ميں سے چند دن حيض کی علامات کے ساته اور باقی چند دن استحاضہ کی علامات کے ساته ہو تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ، ليکن اگر حيض کی علامات والا خون ختم ہونے کے بعد درميان ميں دس دن گزر نے سے پهلے دوبارہ حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے مثلاً پانچ دن سياہ خون، نو دن زرد خون اور دوبارہ پانچ دن سياہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ درميان والے خون کو استحاضہ قرار دے اور پهلے اور آخری خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے۔

۸۴

مسئلہ ۵ ٠ ۴ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے کہ جس ميں چند دن حيض کی نشانياں اور باقی روز استحاضہ کی علامات ہوں اور حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم ہو تو تمام خون کو استحاضہ قرار دے۔

۶ ۔ ناسيہ

مسئلہ ۵ ٠ ۵ ناسيہ کی تين اقسام ہيں :

١) صرف عددیہ عادت والی عورت تھی اور عدد بھول گئی۔ اس صورت ميں اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے اور اگر یہ مقدار چھ دن سے کم یا سات دن سے زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر حيض کی احتمالی مقدار اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، ان کے درميانی ایام ميں تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

٢) صرف وقتيہ عادت والی عورت تھی اور وقت بھول گئی۔ تو اس صورت ميں اگر حيض کی علامات والا خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب خون حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر اتنا معلوم ہو کہ ان ميں سے بعض اس کی عادت کے ایام ہی تهے تو ضروری ہے کہ تمام خون کے دوران تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے اگر چہ سب یا بعض خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں۔ یهی حکم اس وقت ہے جب معلوم نہ ہو ليکن احتمال ہو کہ یہ خون ایامِ عادت ميں آیا ہے ۔

اور اگر ایامِ عادت ميں آنے کا احتمال بھی نہ ہو اور بعض ميں حيض اور بعض ميں استحاضہ کی علامات ہوں تو جس ميں حيض کی علامات ہوں اگر وہ تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو اس سب کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور جب تمام خون ميں حيض کی علامات ہوں اور وہ دس دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات روز تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت تھی۔ اس کی تين صورتيں ہيں :

١) فقط وقت بھول گئی تو اس کا وظيفہ وهی ہے جو دوسری قسم ميں گزرا، سوائے یہ کہ خون علامات حيض کے ساته ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا اور دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت ميں اگر اس کی عادت چھ یا سات روز ہو تو اس کو حيض قرار دے اور اگر اس سے کم ہو یا زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی عادت اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، کے درميانی ایام ميں تروکِ حائض اور اعمالِ ستحاضہ ميں جمع کرے اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۵

٢) فقط عدد بھول گئی ہو تو اس صورت ميں وہ خون جو وقت ميں دیکھا ہو اس سے اتنی مقدار ميں جس کے بارے ميں یقين ہو کہ عادت سے کم نہيں ہے وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور اس کے بعد کے ایام ميں اگر حيض کی نشانيوں کے ساته ہو اور پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ نہ ہو توسارا کا سارا حيض ہے ، ليکن پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ ہو نے کی صورت ميں جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو اگر چھ

دن سے کم ہو تو اس مقدار کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس مقدار تک تروکِ حائض اور اعمالِ مستحاضہ ميں جمع کرے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو توچه یا سات روز ميں سے جسے اختيار کرے اس مقدار تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے لے کر دس دن گزرنے سے پهلے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

٣) وقت اور عدد دونوں بھول گئی ہو۔ اس صورت ميں اگر خون علامات کے ساته ہو اور تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ،ليکن اگر دس دن سے زیادہ ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا ہے توجس مقدار کے عادت ہونے کا احتمال ہو وہ اگر چھ یا سات دن ہو تو اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر چھ دن سے کم ہو تو اس کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جسے اختيار کرے اس دن تک احتياط واجب ہے کہ حائض اور مستحاضہ کے وظائف کا خيال رکھے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس دن تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے دس دن گزرنے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

اور اگر خون کی صفات مختلف ہوں یعنی بعض ميں حيض کی صفات اور بعض ميں استحاضہ کی صفات ہوں تو حيض کی صفات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہونے کی صورت ميں حيض ہے اور استحاضہ کی صفات والے خون کے بارے ميں اگرجانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا تو استحاضہ ہے اور اگر ایامِ حيض ميں آنے کا احتمال ہو تو ضروری ہے کہ حيض اور استحاضہ کے وظائف ميں احتياط کرتے ہوئے جمع کرے۔

حيض کے متفرق مسائل

مسئلہ ۵ ٠ ۶ مبتدئہ، مضطربہ، ناسيہ یا عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کردے اور جب معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا انجام دے اور اگر حيض کی علامات کے بغير خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات انجام دے، سوائے ناسيہ کے کہ اگر اسے عادت آجانے کا یقين ہو جائے تو جب تک عادت کے باقی ہونے کا احتمال دے ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کرے۔

۸۶

مسئلہ ۵ ٠٧ حيض کی عادت والی عورت، چاہے وقتيہ عادت والی ہو یا عددیہ عادت والی یا وقتيہ و عددیہ عادت والی، اگر دو ماہ مسلسل اپنی عادت کے خلاف ایسا خون دیکھے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یا وقت اور دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں ایک ہی ہو تو وهی اس کی نئی عادت بن جائے گی جو اس نے ان دو مهينوں ميں دیکھی ہے ۔ مثلاً اگر مهينے کے پهلے دن سے خون دیکھتی اور ساتویں دن پاک ہوتی تهی، پھر جب دو ماہ تک دس کو خون دیکھے اور سترہ کو پاک ہو تو دس سے سترہ تک اس کی عادت ہوگی۔

مسئلہ ۵ ٠٨ ایک مهينہ گزرنے کا مطلب خون دیکھنے کے بعد سے تيس دن گزرنا ہے ، نہ کہ مهينے کی پهلی سے آخری تاریخ۔

مسئلہ ۵ ٠٩ جو عورت عام طور پر مهينے ميں ایک مرتبہ خون دیکھتی ہو اگر ایک مهينے ميں دو مرتبہ خون دیکھے اور دونوں ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو اگر درميان والے پاکی کے ایام دس دن سے کم نہ ہوں تو ضروری ہے کہ دونوں کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١٠ اگر تين یا اس سے زیادہ دن حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور بعد ميں دس دن یا اس سے زیادہ استحاضہ کی علامات کے ساته خون دیکھے پھر دوبارہ تين دن تک حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ حيض کی علامات والے پهلے اور آخری خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١١ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور معلوم ہو کہ اندر خون نہيں ہے تو ضروری ہے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے، اگرچہ اسے گمان ہو کہ دس دن گزرنے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا، ليکن اگر یقين ہو کہ دس دن تمام ہونے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے۔

مسئلہ ۵ ١٢ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون موجود ہے تو ضروری ہے کہ احتياط کرے یا تهوڑی روئی اندر ڈال کر تهوڑی دیر صبر کرنے کے بعد نکالے اور احتياط مستحب ہے کہ اس کام کو کھڑے ہو کر اس طرح کرے کہ پيٹ دیوار سے لگا ہو اور ٹانگ دیوار پر بلند ہو۔اب اگر پاک ہو تو غسل کر کے اپنی عبادات انجام دے اور اگر پاک نہ ہو اگرچہ روئی زرد رطوبت سے آلودہ ہو تو اگر وہ عورت حيض کی عادت نہ رکھتی ہو یا اس کی عادت دس دن کی ہو تو ضروری ہے کہ صبرکرے۔ اب اگر دس دن سے پهلے پاک ہو جائے تو اس وقت غسل کرے اور اگر دسویں دن پاک ہوجائے یا اس وقت تک پاک نہ ہو تو دسویں دن کے شروع پر غسل کرے۔اور اگر اس کی عادت دس دن سے کم ہو، تو اگر جانتی ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پهلے یا دسویں دن پاک ہوجائے گی تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے اور اگر احتمال ہو کہ خون دس دن سے تجاوز کر جائے گا تو ایک دن عبادات کو ترک کرنا واجب ہے ، البتہ اس کے بعد ميں وہ مستحاضہ کے اعمال انجام دے سکتی ہے ،بلکہ احتياط مستحب ہے کہ دسویں دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔ یہ حکم صرف اس عورت کے لئے ہے کہ جسے عادت سے پهلے مسلسل خون نہ آرہا ہو، ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۷

مسئلہ ۵ ١٣ اگر بعض ایام کو حيض قرار دے کر عبادات ترک کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ان ایام ميں ترک کی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا انجام دے اور اگر حيض نہ ہونے کے گمان سے عبادات انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض تھا تو ان ایام ميں رکھے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے ۔

نفاس

مسئلہ ۵ ١ ۴ بچے کی پيدائش کے بعد، ولادت کی وجہ سے ماں جو خون دیکھتی ہے اگر دس دن سے پهلے یا دسویں دن بند ہو جائے تو نفاس ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر بچے کا پهلا حصہ باہر آنے کے ساته جو خون دیکھے ، اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ عورت کو نفاس کی حالت ميں ”نفساء“ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١ ۵ بچے کا پهلا حصہ باہر آنے سے پهلے جو خون دیکھے ، وہ نفاس نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ١ ۶ ضروری نہيں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہوئی ہو بلکہ اگر ناقص ہو تب بھی دس دن تک جو خون دیکھے نفاس ہے بشرطيکہ عرفاً کها جائے کہ اس نے بچے کو جنم دیا ہے ۔ ہاں، جب عرفی اعتبار سے شک ہو کہ اسے بچہ جننا کها جاسکتا ہے یا نہيں ، تو اس خون پر نفاس کے احکام نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١٧ ممکن ہے کہ خون نفاس ایک لمحہ سے زیادہ نہ آئے، ليکن دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتا۔

مسئلہ ۵ ١٨ جب تک شک ہو کہ کوئی چيز سقط ہوئی یا نہيں یا شک کرے کہ جو چيز سقط ہوئی ہے بچہ ہے یا نہيں ، تو تحقيق ضروری نہيں ہے اور جو خون خارج ہو رہا ہو وہ شرعاً خون نفاس نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ تحقيق کرے۔

مسئلہ ۵ ١٩ نفساء کے لئے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف، خداوند متعال کے اسم مبارک اور دوسرے اسمائے حسنیٰ سے مس کرنا حرام ہے اور احتياط واجب کی بنا پران تمام کاموں کا جو حائضہ پر حرام ہيں ، یهی حکم ہے اور وہ تمام چيزیں جو حائضہ پر واجب ہيں نفساء پر بھی واجب ہيں ۔

مسئلہ ۵ ٢٠ حالت نفاس ميں عورت کو طلاق دینا باطل ہے اور اس کے ساته نزدیکی حرام ہے ، ليکن اگر اس کا شوہر اس سے نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢١ جب عورت نفاس سے اس طرح پاک ہو کہ اندر بھی خون باقی نہ رہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اپنی عبادات انجام دے۔ اب اگر دوبارہ خون دیکھے اور دونوںخون دیکھنے والے اور درميان کے طهارت والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو اگر اس کی حيض کی عادت ہو اور یہ سارے ایام اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہوں، مثلاً اگر اس کی عادت چھ دن ہو اور چھ دن کے درميان دو دن پاک رہی ہو تو تمام چھ دن نفاس ہيں ۔ اس کے علاوہ باقی صورتوں ميں ، جن ایام ميں خون دیکھے وہ نفاس اور جن ایام ميں پاک رہی ہو ان ميں احتياط واجب کی بنا پر تروکِ نفساء اور اعمال طاہرہ ميں جمع کرے۔

۸۸

مسئلہ ۵ ٢٢ اگرعورت خونِ نفاس سے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون ہے تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ تهوڑی روئی اندر ڈال کر صبر کرے تاکہ اگر پاک ہو تو اپنی عبادات کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۵ ٢٣ اگر عورت کا خون نفاس دس دن سے تجاوز کر جائے تو حيض کی عادت رکھنے کی صورت ميں عادت کے ایام کو نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور عادت نہ ہونے کی صورت ميں دس دن تک نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔اور احتياط مستحب ہے کہ جس کی عادت ہو وہ عادت کے بعد والے دن سے اور جس کی عادت نہ ہو وہ دسویں دن سے بچہ جننے کے اٹھ ارہویں دن تک نفساء کے حرام کاموں کو ترک کرے اور مستحاضہ کے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٢ ۴ جس عورت کی عادتِ حيض دس دن سے کم ہو اگر اپنی عادت سے زیادہ خون دیکھے تو اپنی عادت کے برابر ایام کو نفاس قرار دے اور اس کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک روز اور عبادت ترک کرے اور باقی ایام ميں دسویں دن تک اس کی مرضی ہے کہ مستحاضہ کے احکام جاری کرے یا عبادت کو ترک کرے۔

اور اگر خون دس دن سے تجاوز کر جائے تو ضروری ہے کہ عادت کے بعد سے استحاضہ قرار دے اور ان ایام ميں جن عبادات کو ترک کيا ہو ان کی قضا کرے۔ مثلاً جس عورت کی عادت چھ دن ہو اگر چھ دن سے زیادہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ چھ دن کو نفاس قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ساتویں دن بھی عبادات ترک کرے اور آٹھ ویں، نویں اور دسویں دن اختيار ہے کہ یا تو ان عبادات کو ترک کرے یا استحاضہ کے اعمال انجام دے اور اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو اس کی عادت کے بعد والے دن سے استحاضہ ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢ ۵ حيض کی عادت رکھنے والی عورت اگر بچے کو جنم دینے کے بعد ایک مهينے یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو اس کی عادت کے ایام کی مقدار ميں نفاس ہے اور عادت کے بعد سے دس دن تک جو خون دیکھے استحاضہ ہے ، اگر چہ اس کی ماہانہ عادت کے ایام ميں ہو۔ مثلاً جس عورت کی عادت ہر مهينے کی بيسویں سے ستائيویں تک ہو اگر مهينے کی دسویں تاریخ کو جنم دے اور ایک ماہ یا زیادہ ایام مسلسل خون دیکھے تو سترہ تاریخ تک نفاس اور سترہ سے دس دن تک استحاضہ ہے حتی وہ خون بھی جو عادت ميں دیکھے ، جو بيسویں سے لے کر ستائيسویں تک ہے ۔

اور دس دن گزرنے کے بعد اگر ایسا خون دیکھے جو اس کی عادت ميں ہو تو حيض ہے چاہے علامات حيض ہوں یا نہ ہوں اور یهی حکم ہے اگر اس کی عادت کے ایام ميں نہ ہو ليکن حيض کی علامات موجود ہوں، ليکن اگر نہ عادت کے ایام ميں ہواور نہ ہی حيض کی علامات ہوں تو استحاضہ ہے ۔

۸۹

مسئلہ ۵ ٢ ۶ حيض ميں عدد کی عادت نہ رکھنے والی عورت اگر بچہ جننے کے بعد ایک ماہ یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو پهلے دس دن نفاس اور دوسرے دس دن استحاضہ ہے اور جو خون اس کے بعد دیکھے اگر اس ميں حيض کی علامات ہوں یا اس کی عادت کے ایام ميں ہو تو حيض ہے اور اگر نہ ہو تو یہ بھی استحاضہ ہے ۔

غسلِ مسِ ميّت

مسئلہ ۵ ٢٧ اگر کوئی شخص کسی ایسے مردہ انسان کے بدن کومس کرے جو ٹھنڈا ہوچکا ہو اور جسے غسل نہ دیا گيا ہو، یعنی اپنے بدن کا کوئی حصّہ اس سے لگائے، تو اس کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ، خواہ اس نے نيند کی حالت ميں مردے کا بدن مس کيا ہو یا بيداری کے عالم ميں ، ارادی طور پر مس ہوا ہو یا غير ارای طور پر، حتی اگر اس کا ناخن یا ہڈی، مردے کے ناخن یا ہڈی سے مس ہو جائے تب بھی اس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر مردہ حيوان کو مس کرے تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢٨ جس مردے کا تمام بدن ٹھنڈا نہ ہوا ہو، اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا خواہ اس کے بدن کا جو حصہ مس کيا ہو وہ ٹھنڈا ہوچکا ہو۔

مسئلہ ۵ ٢٩ اگر کوئی شخص اپنے بال مردے کے بدن سے لگائے یا اپنا بدن مردے کے بالوں سے لگائے یا اپنے بال مردے کے بالوں سے لگائے جب کہ بال اتنے ہوں کہ بدن کے تابع حساب ہوتے ہوں تو احتياط کی بنا پر غسل واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٠ مردہ بچے کو مس کرنے پر حتی ایسے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر جس کے چار مهينے پورے ہوچکے ہوں غسلِ مسِ ميت واجب ہے اور چار مهينے سے چھوٹے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر غسل واجب نہيں ہوتا مگر یہ کہ اس کے بدن ميں روح داخل ہوچکی ہو، لہٰذا اگر چار مهينے کا بچہ مردہ پيدا ہو اور اس کا بدن ٹھنڈا ہوچکا ہو اور وہ ماں کے ظاہری حصّے کو مس ہو جائے تو اس کی ماں کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣١ جو بچہ ماں کے مر جانے اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو جانے کے بعد پيدا ہو، اگر وہ ماں کے ظاہری حصے کو مس ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٢ اگر کوئی شخص ایک ایسی ميّت کو مس کرے جسے تين غسل مکمل طور پر دئے جاچکے ہوں تو اس پر غسل واجب نہيں ہوتا، ليکن اگر وہ تيسرا غسل مکمل ہونے سے پهلے اس کے بدن کے کسی حصّے کو مس کرے خواہ اس حصے کو تيسرا غسل دیا جاچکا ہو، اس شخص کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٣ اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچہ، ميّت کو مس کرے تو دیوانے کے لئے عاقل ہونے اور بچے کے لئے بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے اور اگر بچہ مميّز ہو اور غسلِ مس ميت بجالائے تو اس کا غسل صحيح ہوگا۔

۹۰

مسئلہ ۵ ٣ ۴ اگر کسی ایسے مردے کے بدن سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو ایک ایسا حصہ جدا ہو جائے جس ميں ہڈی ہو اور اس سے پهلے کہ اس حصّے کو غسل دیا جائے کوئی شخص اسے مس کرے تو احتياط کی بنا پر وہ غسلِ مسِ ميت کرے اور اگر وہ جدا ہونے والا حصہ بغير ہڈی کے ہو اس کو مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔هاں، اگر کسی زندہ انسان کے بدن سے کوئی حصہ جدا ہو توچاہے اس ميں ہڈی ہو اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ۵ ٣ ۵ بغير گوشت کی ہڈی کو مس کرنے سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو، خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئی ہو یا زندہ شخص کے بدن سے، غسل واجب نہيں ہے ۔ اسی طرح مردہ یا زندہ کے بدن سے جدا ہونے والے دانتوں کو مس کرنے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣ ۶ غسلِ مسِ ميت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا ضروری ہے اور جس شخص نے غسلِ مسِ ميت کرليا ہو اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لئے وضو کرنا واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٧ اگر کوئی شخص کئی ميّتوں کو مس کرے یا ایک ميّت کو کئی بار مس کرے، تو ایک غسل کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٨ جس شخص نے ميّت کو مس کرنے کے بعد غسل نہ کيا ہو اس کے لئے مسجد ميں ٹہرنا، بيوی سے جماع کرنا اور واجب سجدہ والی سورتوں کی تلاوت کرنا منع نہيں ہے ليکن نماز اور اس جيس عبادات کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ۔

محتضر کے احکام

مسئلہ ۵ ٣٩ جو مسلمان محتضر ہو، یعنی جان کنی کی حالت ميں ہو، خواہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، احتياط واجب کی بنا پر بصورت امکان اسے پيٹھ کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ رخ ہوں۔ اگر مکمل طور پر اس طرح سے لٹانا ممکن نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر جهاں تک ممکن ہو اس حکم پر عمل کيا جائے۔ اسی طرح احتياط مستحب یہ ہے کہ جب اسے اس طرح سے لٹانا بالکل ناممکن ہو اسے قبلہ رخ بٹھ ا دیں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے سيدهے پهلو یا اُلٹے پهلو قبلہ رخ لٹایا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٠ احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو اس جگہ سے اٹھ ایا نہ جائے، اسے قبلہ رخ ہی لٹائيں۔ اسی طرح احتياط مستحب کی بنا پر غسل دیتے وقت بھی قبلہ رخ لٹایا جائے، ليکن غسل مکمل کرنے کے بعد مستحب ہے کہ اسے اس طرح لٹائيں جس طرح اسے نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہيں ۔

مسئلہ ۵۴ ١ محتضر کو قبلہ رخ لٹانا، احتياط کی بنا پر، ہر مسلمان پر واجب ہے اور اگر ممکن ہو تو محتضر سے اجازت لينا ضروری ہے اور اگر ممکن نہ ہو یا اس کی اجازت معتبر نہ ہو تو احتياط کی بنا پر اس کے ولی سے اجازت لينا چاہيے۔

۹۱

مسئلہ ۵۴ ٢ مستحب ہے کہ جو شخص جان کنی کی حالت ميں ہو اس کے سامنے شهادتين، بارہ اماموں عليهم السلام اقرار اور دوسرے عقائد حقہ کو اس طرح دهرایا جائے کہ وہ سمجھ لے۔ اسی طرح مستحب ہے ان مذکورہ چيزوں کو موت کے وقت تک تکرار کيا جائے۔ اور نيز دعائے فرج کو محتضر کے لئے تلقين کيا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٣ مستحب ہے کہ یہ دعا محتضر کو اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:

((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیَ الْکَثِيْرَ مِنْ مَعَاصِيْکَ وَاقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ مِنْ طَاعَتِکَ یَا مَنْ یَّقْبَلُ الْيَسِيْرَ وَ یَعْفُوْ عَن الْکَثِيْرَ، إِقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ وَاعْفُ عَنِّی الْکَثِيْرَ، اِنَّکَ ا نَْٔتَ الْعَفُوُّ الْغَفُوْرُ، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنِی فَاِنَّکَ رَحِيْمٌ ))

مسئلہ ۵۴۴ جس کی جان سختی سے نکل رہی ہو، اگر اس کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو تو اسے اس جگہ لے جانا جهاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا، مستحب ہے ۔

مسئلہ ۵۴۵ محتضر کے سرہا نے سورہ مبارکہ یاسين، سورہ صافات، سورہ احزاب، آیت الکرسی، سورہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورہ بقرہ کی آخری تين آیات پڑھنا مستحب ہے ، بلکہ قرآن جتنا پڑھا جاسکے، پڑھا جائے۔

مسئلہ ۵۴۶ محتضر کو تنها چھوڑنا مکروہ ہے ۔ اور اسی طرح کسی چيز کا اس کے پيٹ پر رکھنا، جنب اور حائض کا اس کے قریب ہونا، زیادہ باتيں کرنا، رونا اور صرف عورتوں کو اس کے پاس چھوڑنا مکروہ ہے ۔

مرنے کے بعد کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٧ مرنے کے بعد مستحب ہے کہ ميّت کی آنکہيں اور ہونٹ بند کردئے جائيں اور اس کی ٹھ وڑی کو بانده دیا جائے۔ نيز اس کے ہاتھ اور پاؤں سيدهے کر دئے جائيں اور اس کے اُوپر کپڑا ڈال دیا جائے، جنازے ميں شرکت کے لئے مومنين کو اطلاع دی جائے۔

اگر موت رات کو واقع ہوئی ہو تو موت واقع ہونے والی جگہ پر چراغ جلایا جائے اور اسے دفن کرنے ميں جلدی کریں۔ ليکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقين نہ ہو تو انتظار کریں تا کہ صورتحال واضح ہو جائے۔ نيز اگر ميّت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے ميں اتنا تاخير کریں کہ اس کا پهلو چاک کر کے بچے کو باہر نکال کر دوبارہ غسل کے لئے اس کا پهلو سی دیں اور بہتر یہ ہے کہ بچے کو باہر نکالنے کے لئے الٹا پهلو چاک کيا جائے۔

غسل، کفن، نماز اور دفن ميّت کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٨ مسلمان کا غسل، حنوط، کفن، نماز ميّت اور دفن ہر مکلّف پر واجب ہے ۔ ہاں، اگر بعض افراد ان امور کو انجام دیں تو دوسروں سے یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو سب گناہ گارہوں گے۔

۹۲

مسئلہ ۵۴ ٩ اگر کوئی شخص تجهيز و تکفين کے کاموں ميں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے کوئی اقدام کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر وہ ان کاموں کو ادهورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے ان کاموں کو پایہ تکميل تک پهنچائيں۔

مسئلہ ۵۵ ٠ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا حجت شرعيہ رکھتا ہو کہ کوئی دوسرا ميّت کے کاموں ميں مشغول ہے تو اس پر واجب نہيں ہے کہ ميّت کے کاموں کے بارے ميں اقدام کرے، ليکن اگر اسے محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔

مسئلہ ۵۵ ١ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ ميّت کا غسل، حنوط، کفن، نماز یا دفن غلط طریقے سے ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے، ليکن اگر اسے باطل ہونے کا گمان ہو یا شک کرے کہ صحيح تھا یا نہيں ، تو اس صورت ميں اقدام کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٢ غسل، حنوط، کفن، نماز اور دفن کے لئے ميت کے ولی سے اجازت لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٣ عورت کا ولی اس کا شوہر ہے اوراگر مرنے والی کسی کی بيوی نہ ہو یا مرنے والا کوئی مرد ہو تو مرنے والے کے مرد وارث اس کی وارث عورتوں پر مقدم ہيں ۔ مردوں ميں بھی جو ورثے کے اعتبار سے مقدم ہے ولی ہونے کے اعتبار سے بھی وهی مقدم ہے ۔

ليکن اگر مرنے والے کے رشتہ داروں ميں دو ایسے افراد موجود ہوں جن ميں سے ایک رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے جب کہ دوسرا ورثے کے اعتبار سے، مثلاً اگر ميت کا دادا بھی موجود ہو اور ميت کے بيٹے کا پوتا بھی تو احتياط واجب یہ ہے کہ جو ميراث کے اعتبار سے مقدم ہے ، وہ اس سے اجازت لے جو رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے ۔

مسئلہ ۵۵۴ اگر کوئی شخص کهے کہ ميں ميّت کا ولی ہوں یا ميّت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ ميّت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کهے کہ تجهيز و تکفين کے کاموں کے لئے ميں اس کا وصی ہوں اور اس کے کهنے سے اطمينان حاصل ہو جائے یا ميّت اس کے اختيار ميں ہو یا دو عادل یا ایک ایسا قابل اعتمادشخص گواہی دے جس کی بات کے برخلاف کوئی ظن بھی نہ ہو، تو اس کی بات مان لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵۵ اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن، دفن، اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے ہاتھ ميں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ولی سے بھی اجازت لے۔

اور جس شخص کو ميّت نے وصيت کی ہو وہ ميّت کی زندگی ميں وصی بننے سے منع کرسکتا ہے اور اگر قبول کرے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر ميّت کی زندگی ميں منع نہ کرے یا اس کا انکار وصيت کرنے والے تک نہ پهنچ پائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس وصيت پر عمل کرے۔

۹۳

غسل ميت کا طريقہ

مسئلہ ۵۵۶ واجب ہے کہ ميّت کو تين غسل دئے جائيں۔

(اوّل) ایسے پانی کے ساته جس ميں بيری کے پتے ملے ہوئے ہوں۔

(دوم) ایسے پانی کے ساته جس ميں کافور ملا ہوا ہو۔

(سوم) خالص پانی کے ساته۔

مسئلہ ۵۵ ٧ ضروری ہے کہ بيری اور کافور نہ اس قدر زیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اس قدر کم ہوں کہ یہ نہ کها جاسکے کہ بيری اور کافور اس پانی ميں ملائے گئے ہيں ۔

مسئلہ ۵۵ ٨ اگر بيری اور کافور اتنی مقدار ميں نہ مل سکيں جتنی کہ ضروری ہے تو احتياط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار ميّسر آئے پانی ميں ملا دی جائے۔

مسئلہ ۵۵ ٩ اگر کوئی شخص حج یا عمرے کے احرام کی حالت ميں مرجائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نہيں دے سکتے بلکہ اس کی بجائے خالص پانی سے غسل دینا ہوگا۔ مگر یہ کہ وہ حج کا احرام ہو اور سعی کو مکمل کرچکا ہو تو اس صورت ميں کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٠ اگر بيری اور کافور یا ان ميں سے کوئی ایک نہ مل سکے یا اس کا استعمال جائز نہ ہو مثال کے طور پر غصبی ہو، ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کی بجائے جس کا ملنا ممکن نہ ہو احتياط واجب کی بنا پر ميت کو بدليت کے قصد سے خالص پانی سے غسل دیا جائے اور تيمم بھی اسی قصد کے ساته کرایا جائے۔

مسئلہ ۵۶ ١ جو شخص ميّت کو غسل دے ضروری ہے کہ وہ شيعہ اثناعشری، عاقل اور بنابر احتياط بالغ ہو اور مسائل غسل کو جانتا ہو اگر چہ ان مسائل کو غسل کے دوران سيکه رہا ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٢ جو شخص غسل دے ضروری ہے کہ قربت کی نيت، جيسا کہ وضو ميں بيان ہوچکا ہے اور اخلاص رکھتا ہو اور اسی نيّت کا تيسرے غسل تک باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٣ مسلمان کے بچے کو، خواہ وہ ولدالزنا ہی کيوں نہ ہو غسل دینا واجب ہے اور کافر اور اس کی اولاد کا غسل، حنوط، کفن و دفن جائز نہيں ہے ۔ جو شخص بچپن سے دیوانہ ہو اور دیوانگی کی حالت ميں ہی بالغ ہو جائے چنانچہ اس کے ماں باپ یا ان ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو یا کسی دوسری وجہ سے اسلام کے حکم ميں ہوں تو اس کو غسل دینا ضروری ہے ، ورنہ اسے غسل دینا جائز نہيں ہے ۔

۹۴

مسئلہ ۵۶۴ اگر ایک بچہ چار مهينے یا اس سے زیادہ کا ہو کر سقط ہو جائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے اور اگر چار مهينے سے کم ہو اور اس کے بدن ميں روح بھی داخل نہ ہوئی ہو، احتياط واجب کی بنا پر اسے ایک کپڑے ميں لپيٹ کر بغير غسل دئے دفن کر دیا جائے۔

مسئلہ ۵۶۵ مرد کا عورت کو غسل دینا اور عورت کا مرد کو غسل دینا جائز نہيں ہے اور باطل ہے ، ليکن بيوی اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل دے سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل نہ دے۔

مسئلہ ۵۶۶ مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا ہے جو مميز نہ ہو اور عورت بھی اتنے چھوٹے بچے کو غسل دے سکتی ہے جو مميز نہ ہو۔ اگرچہ احتياط موکد یہ ہے کہ جو لڑکا یا لڑکی تين سال سے زیادہ عمر کے ہوں، تو لڑکے کو مرد اور لڑکی کو عورت غسل دے۔

مسئلہ ۵۶ ٧ اگر مرد کی ميّت کو غسل دینے کے لئے مرد نہ مل سکے تو وہ عورتيں جو اس کی قربت دار اور محرم ہوں مثلاً ماں، بهن، پهوپهی اور خالہ یا وہ عورتيں جو نکاح یا رضاعت کے سبب محرم ہوگئی ہوں اسے غسل دے سکتی ہيں ۔ اسی طرح اگر عورت کی ميّت کو غسل دینے کے لئے کوئی عورت نہ ہو تو جو مرد اس کے قرابت دار اور محرم ہوں یا نکاح یا رضاعت کے سبب اس کے محرم ہوگئے ہوں، اسے غسل دے سکتے ہيں ۔ ہاں، احتياط واجب کی بنا پر مماثل کے ہوتے ہوئے محرم کی باری نہيں آتی۔ لباس کے نيچے سے غسل دینا واجب نہيں ہے ، اگرچہ اس طرح غسل دینا احوط ہے ليکن ضروری ہے کہ شرمگاہ پر نظر نہ ڈاليں اور احتياط کی بنا پر شرمگاہ کو ڈهانپ ليں۔

مسئلہ ۵۶ ٨ اگر ميّت اور غسّال دونوں مرد ہوں یا دونوں عورت ہوں تو جائز ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن برہنہ ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٩ بيوی اور شوہر کے علاوہ ميّت کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے اور جو شخص غسل دے رہا ہو اگر وہ اس پر نظر ڈالے تو گناہ گار ہے ليکن اس سے غسل باطل نہيں ہوتا۔

“ مسئلہ ۵ ٧٠ اگر ميّت کے بدن کا کوئی حصّہ نجس ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح مسئلہ” ٣٧٨

ميں بيان ہوچکا ہے پاک کيا جائے اور بہتر یہ ہے ہر عضو کو غسل دینے سے پهلے بلکہ ميّت کے پورے بدن کو غسل شروع ہونے سے پهلے دوسری نجاسات سے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ۵ ٧١ غسلِ ميّت، غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو غسل ترتيبی دینا ممکن ہو غسل ارتماسی نہ دیاجائے اور غسل ترتيبی ميں بھی ضروری ہے کہ دا هنی طرف کو بائيں طرف سے پهلے دهویا جائے۔ ہاں، یہ اختيار ہے کہ پانی اس کے بدن پر ڈاليں یا بدن کو پانی ميں ڈبو دیں۔

۹۵

مسئلہ ۵ ٧٢ جو شخص حيض یا جنابت کی حالت ميں مرجائے اسے غسلِ حيض یا غسلِ جنابت دینا ضروری نہيں ہے بلکہ اس کے لئے صرف غسلِ ميّت کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٣ ميّت کو غسل دینے کی اُجرت لينا جائز نہيں ہے اور اگر کوئی شخص اجرت لينے کے لئے ميّت کو غسل دے تو وہ غسل باطل ہے ، ليکن غسل کے غير ضروری ابتدائی کاموں کی اجرت لينا جائز ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۴ اگر پانی ميسر نہ ہو یا اس کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ ہو تو ضروری ہے کہ ہر غسلِ ميّت کے بدلے ایک تيمم کرائے اور احتياط واجب کی بنا پر ان تين غسلوں کی بجائے ایک اور تيمم بھی کرائے اور اگر تيمم کرانے والا ان تيمم ميں سے ایک ميں مافی الذمہ کی نيت کرے، یعنی نيت کرے کہ یہ تيمم اپنی شرعی ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے کروا رہا ہوں جو مجھ پر واجب ہے تو چوتھا تيمم ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۵ جو شخص ميّت کو تيمم کرا رہا ہو اسے چاہيے کہ اپنے ہاتھ زمين پر مارے اور ميت کے چھرے اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو ميّت کو اس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تيمم کرائے۔

کفن کے احکام

مسئلہ ۵ ٧ ۶ مسلمان ميّت کو تين کپڑوں کا کفن دینا ضروری ہے ، جنہيں لنگ، کرتہ اور چادر کها جاتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٧ لنگ اور کرتے کی واجب مقدار یہ ہے کہ عرفاً انہيں لنگ اور کرتہ کها جائے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ لنگ، ناف سے گھٹنوں تک اطراف بدن کو ڈهانپ لے اور افضل یہ ہے کہ سينے سے پاؤں تک پهنچے، جب کہ کرتے ميں ضروری ہے کہ کندہوں کے سروں سے احتياط واجب کی بنا پر آدهی پنڈليوں تک تمام بدن کو ڈهانپ دے اور افضل یہ ہے کہ پاؤں تک پهنچے۔

اورچادر کی لمبائی اتنا ہونا ضروری ہے کہ پاؤں اور سر کی طرف سے گِرہ دے سکيں اور اس کی چوڑائی اتنی ہونی چاہيے کہ اس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے پر آسکے۔

مسئلہ ۵ ٧٨ اگر وارث بالغ ہوں اور اس بات کی اجازت دیں کہ واجب کفن کی مقدار سے زیادہ جسے سابقہ مسئلہ ميں بيان کيا گيا ہے ، کو ان کے حصّے سے لے ليں تو کوئی اشکال نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفن کی واجب مقدار سے زیادہ کو نابالغ وارث کے حصّے سے نہ ليں۔

مسئلہ ۵ ٧٩ اگر کسی شخص نے وصيت کی ہو کہ کفن کی وہ مقدار جو افضل ہے اس کے تھائی مال سے لی جائے یا وصيت کی ہو کہ اس کا تھائی مال خود اس پر خرچ کيا جائے ليکن اس کے مصرف کا تعين نہ کيا ہو یا صرف اس کے کچھ حصّے کا مصرف معين کيا ہو تو کفن کی افضل مقدار کو اس کے تھائی مال سے ليا جاسکتا ہے ۔

۹۶

مسئلہ ۵ ٨٠ اگر مرنے والے نے یہ وصيت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تھائی مال سے ليا جائے اور اس کے اصل مال سے لينا چاہيں تو مسئلہ” ۵ ٧٨ “ ميں بيان کئے گئے طریقے پر عمل کریں۔

مسئلہ ۵ ٨١ عورت کے کفن کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اگر چہ عورت اپنا مال بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کوطلاق رجعی دی گئی ہو اور وہ عدت ختم ہونے سے پهلے مرجائے تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے، جيسا کہ طلاق کے احکام ميں ذکر آئے گا اور اگر شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو اس کے ولی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مال سے عورت کو کفن دے، اور احتياط واجب کی بنا پر نافرمان اور جس عورت سے عقد مو قٔت کيا گيا ہو تو اس کا کفن شوہر پر ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٢ ميّت کو کفن دینا اس کے قرابت داروں پر واجب نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگرميّت کا کوئی مال نہ ہو تو اسے وہ شخص کفن دے جس کے لئے ميّت کی زندگی ميں اس کے مخارج دینا ضروری تھا۔

مسئلہ ۵ ٨٣ واجب ہے کہ مجموعی طور پر کفن کے تين کپڑے اتنا باریک نہ ہوں کہ ميّت کا بدن نيچے سے نظر آئے، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ تينوں کپڑوں ميں سے ہر کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ ميّت کا بدن اس کے نيچے سے نظر آئے۔

مسئلہ ۵ ٨ ۴ غصب کی ہوئی چيز کا کفن دینا، خواہ کوئی دوسری چيز ميّسر نہ ہو،جائز نہيں ہے اور اگر ميّت کا کفن غصبی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو تو وہ کفن اس کے بدن سے اتار لينا چاہيے خواہ اس کو دفن بھی کيا جاچکا ہو۔ اسی طرح نجس مردار کی کھال کا کفن دینا اختياری حالت ميں جائز نہيں ہے ، بلکہ مجبوری کی حالت ميں بھی نجس مردار کی کھال کا کفن دینا محل اشکال ہے ۔ اسی طرح اختياری حالت ميں پاک مردار کی کھال کا کفن دینا بھی محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۵ ميّت کو نجس چيز، احتياط واجب کی بنا پر اس نجاست کے ساته جو نماز ميں معاف ہے ، اسی طرح خالص ریشم کے کپڑے کا یا ایسے کپڑے کا جس ميں دهاگا ریشم سے زیادہ نہ ہو اور احتياط واجب کی بنا پر زردوزی سے بنائے گئے کپڑے کا کفن دینا جائز نہيں ہے ۔هاں،مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۶ ميّت کو حرام گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار کئے گئے کپڑے کا کفن دینااختياری حالت ميں احتياط واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم اس حلال گوشت جانور کی کهال سے کفن دینے کا ہے جسے شریعت کے مقررہ طریقے سے ذبح کيا گيا ہو۔ ہاں، حلال گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار شدہ کفن دینے ميں کوئی حرج نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ ان دو کا کفن بھی نہ دیا جائے۔

مسئلہ ۵ ٨٧ اگر ميّت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اسے دهونا یا اس طرح سے کاٹنا ممکن ہو کہ کفن ضائع نہ ہو تو ضروری ہے کہ اتنا مقدار کو جو نجس ہے دهویا یا کاٹا جائے، چاہے ميّت کو قبر ميں اتارا جاچکا ہو اور اگر

۹۷

اس کا دهونا یا کاٹنا ممکن نہ ہو ليکن تبدیل کرنا ممکن ہو ضروری ہے کہ اسے تبدیل کيا جائے۔ البتہ یہ حکم نجاست کی اتنی مقدار تک جو نماز ميں معاف ہے ،احتياط پر مبنی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٨ اگر کوئی ایسا شخص جس نے حج یا عمرہ کا احرام بانده رکھا ہو مرجائے تو اسے دوسروں کی طرح کفن دینا ضروری ہے اور اس کا سر و چہرہ ڈهانپنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٩ انسان کے لئے اپنی زندگی ميں کفن تيار کرنا مستحب ہے اور جب بھی اس پر نظر ڈالے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے ۔

حنُوط کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٠ غسل کے بعد واجب ہے کہ ميّت کو حنوط کيا جائے یعنی اس کی پيشانی، دونوں ہتھيليوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹہوں پر کافور ملا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان مقامات پر کافور کی کچھ مقدار رکھی بھی جائے۔ اسی طرح مستحب ہے کہ ميّت کی ناک پر بھی کافور ملا جائے۔ ضروری ہے کہ کافور پسا ہوا اور تازہ ہو اور اگر پرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبو زائل ہوگئی ہو تو کافی نہيں ۔

مسئلہ ۵ ٩١ احتياط مستحب یہ ہے کہ کافور، پهلے ميّت کی پيشانی پر ملاجائے ليکن دوسرے مقامات پر ملنے ميں ترتيب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٢ ميّت کو کفن پهنانے سے پهلے، کفن پهنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حُنوط کيا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٣ اگر ایسا شخص جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام بانده رکھا ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا جائز نہيں ہے ، ليکن حج کے احرام ميں اگر سعی مکمل کرنے کے بعد مرے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۴ اگر ایسی عورت جس کا شوہر مرگيا ہو اور ابهی اس کی عدت باقی ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۵ احتياط واجب یہ ہے کہ ميّت کو مشک، عنبر، عود اور دوسری خوشبوئيں نہ لگائيں اور ان خوشبوؤں کو کافور کے ساته بھی نہ ملائيں۔

مسئلہ ۵ ٩ ۶ مستحب ہے کہ تربت سيدالشهداء امام حسين عليہ السلام کی کچھ مقدار کافور ميں ملائی جائے، ليکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نہيں لگاسکتے جهاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ خاک شفا اتنی زیادہ نہ ہو کہ جب کافور کے ساته مل جائے تو اسے کافور نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ۵ ٩٧ اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی ہو تو حنوط ضروری نہيں اور اگر غسل کی ضرورت سے زیادہ ہو ليکن تمام سات اعضاء کے لئے کافی نہ ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ پهلے پيشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پرملا جائے۔

مسئلہ ۵ ٩٨ مستحب ہے کہ دو ترو تازہ ٹہنياں ميّت کے ساته قبر ميں رکھی جائيں۔

۹۸

نمازِ ميّت کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٩ ہر مسلمان کی اور ایسے بچے کی ميّت پر جو اسلام کے حکم ميں ہو اور پورے چھ

سال کا ہوچکا ہو، نماز پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٠ ایسے بچے کی ميّت پر جو چھ سال کا نہ ہوا ہو رجاء کی نيّت سے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن مردہ پيدا ہونے والے بچے پر نماز پڑھنا،مشروع نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠١ ميّت کی نماز، اسے غسل دینے، حنوط کرنے اور کفن پهنانے کے بعد پڑھنی چاہئے اور اگر ان امور سے پهلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایسا کرنا خواہ بھول چوک یا مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر ہی کيوں نہ ہو، کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٢ جو شخص نمازِ ميّت پڑھنا چاہے ضروری نہيں کہ اس نے وضو یا غسل یا تيمم کر رکھا ہو اور اس کا بدن و لباس پاک ہو ں، بلکہ اگر اس کا لباس غصبی ہو تب بھی نمازِ ميّت کے لئے کوئی حرج نہيں ۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان تمام چيزوں کا لحاظ رکھے جو دوسری نماز وں ميں لازمی ہيں ، ليکن احتياطِ واجب کی بنا پر ان چيزوں سے پر هيز ضروری ہے جو اہل شرع کے درميا ن رائج نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٣ جو شخص نمازِ ميّت پڑھ رہا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ قبلہ رخ ہو ۔ یہ بھی واجب ہے کہ ميّت کو نماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ ميّت کا سر نماز پڑھنے والے کے دائيں طرف اور پاؤں اس کے بائيں طرف ہو ں۔

مسئلہ ۶ ٠ ۴ احتياط مستحب کی بنا پر جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ غصبی نہ ہو، ليکن ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ ميّت کے مقام سے اونچی یا نيچی نہ ہو ۔هاں، اگر معمولی پستی یا بلندی ہو تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۵ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت سے دور نہ ہو، ليکن جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو اور وہ ميّت سے دور ہو جب کہ صفيں آپس ميں متصل ہو ں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۶ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت کے سامنے کهڑا ہو ليکن اگر نماز باجماعت پڑھی جائے اور جماعت کی صف ميّت کے دونوں طرف سے گزر جائے تو ان لوگوں کی نماز ميں جو ميّت کے سامنے نہ ہوں، کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٧ ضروری ہے کہ ميّت اور نماز پڑھنے والے کے درميا ن پر دہ، دیوار یا کوئی ایسی چيز حائل نہ ہو ۔ ہاں، اگر ميّت تابوت یا اس جيسی کسی اور چيز ميں رکھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٨ نمازپڑھتے وقت ضروری ہے کہ ميّت کی شرمگاہ ڈهکی ہو ئی ہو اور اگر اسے کفن پهنانا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی شرمگاہ کو، چاہے لکڑی کے تختے، اینٹ یا انهی جيسی کسی چيز سے ڈهانپ دیں۔

۹۹

مسئلہ ۶ ٠٩ نمازِ ميّت پڑھنے والے کا مومن ہونا ضروری ہے ۔ غير بالغ کی نماز اگر چہ صحيح ہے ليکن بالغين کی نماز کی جگہ نہيں لے سکتی۔ ضروری ہے کہ نمازِ ميّت کھڑے ہو کر، قربت کی نيت و اخلاص سے پڑھے۔ نيت کرتے وقت ميت کو معين کرے مثلاً نيت کرے: نماز پڑھتا ہو ں اس ميّت پر قربةً الی الله۔

مسئلہ ۶ ١٠ اگر کوئی کھڑے ہو کر نمازِ ميّت پڑھنے والا نہ ہو تو بيٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ۶ ١١ اگر مرنے والے نے وصيّت کی ہو کہ کوئی معين شخص اس کی نماز پڑھائے، احتياط مستحب ہے کہ وہ شخص ميّت کے ولی سے اجازت لے اور ولی بھی اجازت دے دے۔

مسئلہ ۶ ١٢ ميّت پر چند مرتبہ نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ۶ ١٣ اگر ميّت کو جان بوجه کر یا بھول چوک کی وجہ سے یا کسی عذر کی بنا پر بغير نماز پڑھے دفن کر دیا جائے تو جب تک اس کا بدن متلاشی نہ ہو ا ہو واجب ہے کہ نمازِ ميّت کے سلسلے ميں مذکورہ شرائط کے ساته اس کی قبر پر نماز پڑہيں ۔یهی حکم اس وقت ہے جب اس پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہو ۔

نمازِ ميّت کا طريقہ

مسئلہ ۶ ١ ۴ نمازِ ميّت ميں پانچ تکبيریں ہيں اور اگر نماز پڑھنے والا اس ترتيب کے ساته پانچ تکبيریں کهے تو کافی ہے :

نيت کرنے اور پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰه

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّد

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَات

چوتھی تکبير کے بعد اگر ميّت مرد ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذَا الْمَيِّت

اور اگر ميّت عورت ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذِهِ الْمَيِّت

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام يہ سوچ رہے تھے كہ يہ عدل تو نہيں كہ انسان ان لوگوں سے ايثار كا سلوك كرے كہ جو اس قدر فرومايہ اور كم ظرف ہوں _دوسرے لفظوں ميں نيكى اچھى چيز ہے مگر جب محل پر ہو، يہ ٹھيك ہے كہ برائي كے جواب ميں نيكى كرنا مردان خدا كا طريقہ ہے ليكن وہاں كہ جہاں بروں كے لئے برائي كى تشويق كا باعث نہ ہو ''

فراق دوست ،زندگى كے سخت ترين ايام

اس موقع پر اس عالم بزرگوار نے حضرت موسى سے آخرى بات كہى كيونكہ گزشتہ تمام واقعات كى بناء پر انہيں يقين ہوگيا تھا كہ موسى ان كے كاموں كو برداشت نہيں كرسكتے لہذا فرمايا :'' لواب تمہارے اور ميرے درميان جدائي كا وقت آگيا ہے جلد ميں تمہيں ان امور كے اسرار سے آگاہ كروں گا كہ جن پر تم صبر نہ كرسكے''_(۱)

حضرت موسى نے بھى اس پر كوئي اعترا ض نہ كيا كيونكہ گزشتہ واقعے ميں يہى بات وہ خود تجويز كر چكے تھے يعنى خود حضرت موسى پر يہ حقيقت ثابت ہوچكى تھى كہ ان كا نباہ نہيں ہوسكتا ليكن پھر بھى جدائي كى خبر موسى كے دل پر ہتھوڑے كى ضرب كى طرح لگى ايسے استاد سے جدائي كہ جس كا سينہ مخزن اسرار ہو، جس كى ہمراہى باعث بركت ہو اور جس كى ہر بات ايك درس ہو، جس كا طرز عمل الہام بخش ہو، جس كى پيشانى سے نور خدا ضوفشاں ہو اور جس كا دل علم الہى كا گنجينہ ہو ايسے رہبر سے جدائي باعث رنج وغم تھى ليكن يہ ايك ايسى تلخ حقيقت تھى جو موسى كو بہرحال قبول كرنا تھى _

مشہور مفسر''ابوالفتوح رازي'' كہتے ہيں كہ ايك روايت منقول ہے :

لوگوں نے حضرت موسى سے پوچھا: آپ كى زندگى ميں سب سے بڑى مشكل كونسى تھي؟

حضرت موسى (ع) نے كہا : ميں نے بہت سختياں جھيلى ہيں (فرعون كے دور كى سختياں اور پھر بنى اسرائيل

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۷۸

۴۰۱

كے دور كى مشكلات كى طرف اشارہ ہے ) ليكن كسى مشكل اور رنج نے ميرے دل كو اتنا رنجور نہيں كيا جتنا حضرت خضرسے جدائي كى خبر نے _

ان واقعات كاراز

جب حضرت موسى اور حضرت خضر كا جدا ہونا طے پاگيا تو ضرورى تھا كہ يہ الہى استاد اپنے ان كاموں كے اسرار ظاہر كرے كہ حضرت موسى جنھيں گوارانہيں كرپائے تھے درحقيقت ان سے ہمراہى كا فائدہ حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہى تھا كہ وہ ان تين عجيب واقعات كا راز سمجھ ليں اور يہى راز بہت سے مسائل كى تفہيم كے لئے كليدبن سكتا تھا اور مختلف سوالوں كا جواب اس ميں پنہاں تھا _

حضرت خضر(ع) نے كشتى والے واقعے سے بات شروع كى اور كہنے لگے : ''ہاں ، تووہ كشتى والى بات يہ تھى كہ وہ چند غريب ومسكين افرادكى ملكيت تھى وہ اس سے دريا ميں كام كرتے تھے ميں نے سوچا كہ اس ميں كوئي نقص ڈال دوں كيونكہ ميں جانتا تھا كہ ايك ظالم بادشاہ ان كے پيچھے ہے اور وہ ہر صحيح سالم كشتى كو زبردستى ہتھياليتا ہے''_(۱)

گويا كشتى ميں سوارخ كرنا ظاہرا تو برالگتا تھا ليكن اس كام ميں ايك اہم مقصد پوشيدہ تھا اور وہ تھا كشتى كے غريب مالكوں كو ايك غاصب بادشاہ كے ظلم سے بچانا كيونكہ اس كے نزديك عيب دار كشتياں اس كے كام كى نہ تھيں اور ايسى كشتيوں پروہ قبضہ نہيں جماتا تھا خلاصہ يہ كہ يہ كام چند مسكينوں كے مفاد كى حفاظت كے لئے تھا اور اسے انجام پاناہى چاہئے تھا _

اس كے بعد حضرت خضر(ع) لڑكے قتل كے مسئلے كى طرف آتے ہيں كہتے ہيں : ''رہاوہ لڑكا، تو اس كے ماں باپ صاحب ايمان تھے ہميں يہ بات اچھى نہ لگى كہ وہ اپنے ماں باپ كو راہ ايمان سے بھٹكادے اور سركشى وكفر پر ابھارے _''(۲)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۷۹

(۲)سورہ كہف آيت۸۰

۴۰۲

بہرحال اس عالم نے اس لڑكے كو قتل كرديا اور اس لڑكے كے زندہ رہنے كى صورت ميں اس كے ماں باب كو آئندہ جو ناگوار واقعات پيش آنے والے تھے انہيں اس قتل كى دليل قرار ديا _

اس كے بعد مزيد فرمايا گيا ہے : ''ہم نے چاہا كہ ان كارب ان كو اس كے بدلے زيادہ پاك اور زيادہ پر محبت اولاد عطا فرمائے _''(۱)

آخرى اور تيسرے كام يعنى ديوار بنانے كے واقعے كا جواب ہے ،اس عالم نے اس واقعے كے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے كہا: رہى ديواركى بات _تو وہ اس شہر كے دو يتيم بچوں كى تھى اس ديوار كے نيچے ان كا خزانہ چھپا ہوا تھا اور ان كا باپ ايك نيك اور صالح شخص تھا ،تيرا پروردگار چاہتا تھا كہ وہ بالغ ہوجائيں اور اپنا خزانہ نكال ليں ،يہ تو تيرے رب كى طرف سے رحمت تھے_

اور ان كے نيك ماں باپ كى وجہ سے ميں مامور تھا كہ اس ديوار كو تعمير كروں كہ كہيں وہ گرنہ جائے اور خزانہ ظاہر ہوكر خطرے سے دوچار نہ ہوجائے_(۲)

لہذا انہوں نے كہا : اور ميں نے يہ كام خود سے نہيں كئے بلكہ اللہ كے حكم تحت انجام ديئے _(۳)

جى ہاں : يہ تھے ان كاموں كے راز كہ جن پرصبر كى تم ميں تاب نہيں تھى _(۴)(۵)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۸۱

(۲)سورہ كہف آيت۸۲

(۳)سورہ كہف آيت۸۲

(۴)سورہ كہف آيت۸۲

(۵)خضر كى ماموريت تشريعى تھى يا تكوينى ؟

يہ وہ اہم ترين مسئلہ ہے جس نے بزرگ علماء كو اپنى طرف متوجہ كيا ہے تين واقعات كہ جو اس عالم كے ہاتھوں انجام پائے ان پر حضرت موسى نے اعتراض كيا كيونكہ وہ باطن امر سے آگاہ نہ تھے ليكن بعد ميں استاد نے وضاحت كى تو مطمئن ہوگئے _ سوال يہ ہے كہ كيا واقعاً كسى كے مال ميں اس كى اجازت كے بغير نقص پيدا كيا جاسكتا ہے، كہ غاصب اسے لے نہ جائے _ اور كيا كسى لڑكے كو اس كام پر سزادى جاسكتى ہے جو وہ آئندہ ميں انجام دے گا؟ اور كيا ضرورى ہے كہ كسى كے مال كى حفاظت كے لئے ہم مفت زحمت برداشت كريں _؟

۴۰۳

ان سوالات كے جواب ميں ہمارے سامنے دوراستے ہيں : پہلايہ كہ ان امور كو ہم فقہى احكام اور شرعى قوانين كى روشنى ميں ديكھيں _بعض مفسرين نے يہى راستہ اختيا ر كيا ہے _ انہوں نے پہلے واقعے كو اہم اور اہم تر قوانين پر سمجھا ہے اور كہا ہے كہ مسلم ہے كہ سارى كشتى اور پورى كشتى كى حفاظت اہم كام تھا جبكہ جزوى نقص سے حفاظت زيادہ اہم نہيں تھا دوسرے لفظوں ميں حضرت خضر (ع) نے كم نقصان كے ذريعے زيادہ نقصان كو روكا، فقہى زبان ميں '' افسد كو فاسد سے دفع كيا'' خصوصا ًجبكہ يہ بات ان كے پيش نظر تھى كہ كشتى والوں كى باطن رضا مندى انہيں حاصل ہے كيونكہ اگر وہ اصل صورت حال سے آگاہ ہوجاتے تو اس كام پر راضى ہوجاتے (فقہى تعبير كے مطابق حضرت خضر (ع) كو اس مسئلے ميں '' اذن فحوى '' حاصل تھا)_ اس لڑكے كے بارے ميں مفسرين كا اصرار ہے كہ يقيناً وہ بالغ تھا اور وہ مرتد يا فاسد تھا لہذا وہ اپنے موجودہ اعمال كى وجہ سے جائز القتل تھا اور يہ جو حضرت خضراپنے اقدام كے لئے اس كے آئندہ جرائم كو دليل بناتے ہيں تو وہ اس بناء پر ہے كہ وہ كہنا چاہتے ہيں كہ يہ مجرم نہ صرف يہ كہ اس وقت اس كام ميں مبتلا ہے بلكہ آئندہ بھى اس سے بڑھ كر جرائم كا مرتكب ہوگا لہذا اس كاقتل قوانين شريعت كے مطابق تھا اور وہ اپنے افعال اورخود كردہ گناہوں كى وجہ سے جائز القتل تھا _ رہا تيسرا واقعہ تو كوئي شخص كسى پر يہ اعتراض نہيں كرسكتا كہ تم دوسرے كے لئے كيوں ايثار كرتے ہو اور اس كے اموال كو بچانے كے لئے كيوں بيگار اٹھاتے ہو،ہوسكتا ہے يہ ايثار واجب نہ ہو ليكن مسلم ہے كہ يہ اچھا كام ہے اور لائق تحسين ہے بلكہ ہوسكتا ہے كہ بعض مواقع پر سرحد وجوب تك پہنچ جائے مثلاً كسى يتيم بچے كا بہت سامال ضائع ہو رہا ہو اور تھوڑى سى زحمت كركے اسے بچايا جاسكے تو بعيد نہيں ہے كہ ايسے موقع پريہ كام واجب ہو _ دوسرا راستہ اس بنياد پر ہے كہ مذكورہ بالا تو ضيحات اگرچہ خزانے اور ديوار كے بارے ميں لائق اطمينان ہوں ليكن جو جوان مارا گيا اس كے بارے ميں مذكورہ وضاحتيں ظاہر قرآنى گفتگو سے مناسبت نہيں ركھتيں كيونكہ اس كے قتل كا قصدظاہرا اس كے آئندہ كا عمل قرار ديا گيا ہے نہ كہ موجودہ عمل _ كشتى كے بارے ميں بھى مذكورہ وضاحت كسى حدتك قابل بحث ہے _

لہذا ضرورى ہے كہ كوئي اور راہ اختيار كى جائے اور وہ يہ ہے :

اسى جہان ميں ہميں دو نظاموں سے سابقہ پڑتا ہے ايك نظام تكوين ہے اور دوسرا نظام تشريع يہ دونوں نظام اگرچہ كلى اصول ميں تو ہم آہنگ ہيں ليكن كبھى ايسا ہوتا ہے كہ جزئيات ميں ايك دوسرے سے مختلف ہوتے ہيں _

مثلا اللہ تعالى اپنے بندوں كى آزمائش خوف، اموال وثمرات كے نقصان ، اپنى اور عزيزوں كى موت اور قتل كے ذريعے كرتا ہے تاكہ يہ معلوم ہوكہ كون شخص ان حوادث ومصائب پر صبر وشكيبائي اختيار كرتا ہے _

تو كيا كوئي فقيہ بلكہ كوئي پيغمبر ايسا كرسكتا ہے _يعنى اموال ونفوس، ثمرات اور امن كو ختم كركے لوگوں كو آزمائے ؟

يا كبھى ايسا ہوتا ہے كہ اللہ تعالى اپنے بعض نبيوں اور صالح بندوں كو خبر دار كرنے اور انہيں تنبيہ كرنے كے لئے كسى ترك اولى پر بڑى مصيبتوں ميں گرفتار كرتاہے جيسا كہ حضرت يعقوب مصيبت ميں گرفتار ہوئے اس بات پر كہ انہوں نے بعض مساكين كى طرف كم توجہ دى يا حضرت يونس كو ايك معمولى ترك اولى پر مصيبت ميں گرفتار ہونا پڑا تو كيا كوئي حق ركھتا ہے كہ كسى كو سزا كے طور پر ايسا كرے يا يہ كہ ہم ديكھتے ہيں كبھى اللہ تعالى كسى انسان كى ناشكرى كى وجہ سے اس سے كوئي نعمت چھين ليتا ہے مثلاً كوئي شخص مال ملنے پر شكر ادا نہيں كرتا تو اس كا مال دريا ميں غرق ہوجاتاہے يا صحت پر شكر ادا نہيں كرتا تو اللہ تعالى اس سے صحت لے ليتا ہے تو كيا فقہى اور شرعى قوانين كى رو سے كوئي ايسا كرسكتا ہے كہ ناشكرى كى وجہ سے كسى كا مال ضائع كردے اور اس كى مثاليں مجموعى طور پر ظاہر كرتى ہيں كہ جہان آفرينش خصوصا خلقت انسان اس احسن نظام پر استوار ہے كہ اللہ نے انسان كو كمال تك پہنچا نے كے لئے كچھ تكوينى قوانين بنائے ہيں كہ جن كى خلاف ورزى سے مختلف نتائج مرتب ہوتے ہيں حالانكہ قانوں شريعت كے لحاظ سے ہم ان قوانين پر عمل نہيں كرسكتے _

۴۰۴

مثلاً كسى انسان كى انگلى ڈاكڑ اس لئے كاٹ سكتا ہے كہ زہراس كے دل كى طرف سرايت نہ كرجائے ليكن كيا كوئي شخص كسى انسان ميں صبر پيدا كرنے كے لئے يا كفران نعمت كى وجہ سے اس كى انگلى كاٹ سكتا ہے ؟(جبكہ يہ بات مسلم ہے كہ خدا ايسا كرسكتا ہے كيونكہ ايسا كرنا نظام احسن كے مطابق ہے )

اب جبكہ ثابت ہوگيا كہ ہم دو نظام ركھتے ہيں اور اللہ تعالى دونوں نظاموں پر حاكم ہے تو كوئي چيز مانع نہيں ہے كہ اللہ ايك گروہ كو نظام تشريعى كو عملى شكل دينے پر مامور كرے اورفرشتوں كے ايك گروہ يا بعض انسانوں كو (مثلا حضرت خضر كو )نظام تكوين كو عملى شكل دينے پر مامور كرے _

اللہ تعالى كے نظام تكوين كے لحاظ سے كوئي مانع نہيں كہ وہ كسى نابالغ بچے كو بھى كسى حادثے ميں مبتلا كر دے اور اس ميں اس كى جان چلى جائے كيونكہ ہوسكتا ہے اس كا وجود مستقبل كے لئے بہت بڑے خطرات كاباعث ہو، نيز كوئي مانع نہيں كہ اللہ مجھے آج كسى سخت بيمارى ميں مبتلا كردے ، اس طرح سے كہ ميں گھرسے باہر نہ نكل سكوں كيونكہ وہ چاہتا ہے _

۴۰۵

حضرت خضر كون تھے؟

جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ حضرت خضر(ع) كانام صراحت كے ساتھ قرآن ميں نہيں ليا گيا اور حضرت موسى كے دوست اور استاد كا ذكر ان الفاظ ميں كيا گيا ہے :''ہمارے بندوں ميں سے ايك بندہ جسے ہم نے اپنى رحمت عطا كى اور جسے ہم نے اپنے علم سے نوازا''_اس تعارف ميں ان كے مقام عبوديت كا تذكرہ ہے اور ان كے خاص علم كو واضح كيا گيا ہے لہذا ہم نے بھى عالم كے طور پر ان كا زيادہ ذكر كيا ہے_

ليكن متعدد روايات ميں اس عالم كا نام''خضر''بتايا گيا ہے_بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كا اصلى نام''بليا ابن ملكان''تھا اور''خضر''ان كا لقب تھاكيونكہ وہ جہاں كہيں قدم ركھتے ان كے قدموں كى بدولت زمين سر سبز ہوجاتى تھي_

دوسرے لفظوں ميں اس عالم ميں مامورين كا ايك گروہ باطن پر مامور ہے اور ايك گروہ ظاہر پر مامور ہے جو باطن پر مامور ہيں ان كے لئے اپنے اصول وضوابط اور پروگرام ہيں اور جو ظاہر پر مارمور ہيں ان كے لئے اپنے خاص اصول وضوابط ہے_

يہ ٹھيك ہے كہ ان دونوں پر وگراموں كا اصلى اور كلى مقصد انسان كو كمال كى طرف لے جانا ہے اس لحاظ سے دونوں ہم آہنگ ہيں ، شك نہيں كہ ان دونوں طريقوں ميں سے كسى ميں بھى كوئي خود سرى سے كوئي اقدام نہيں كرسكتا بلكہ ضرورى ہے كہ وہ حقيقى مالك وحاكم كى طرف سے مجاز ہو لہذا حضرت خضر عليہ السلام نے صراحت كے ساتھ اس حقيقت كو بيان كيا اور كہا:

ميں نے يہ كام حكم الہى كے مطابق اور اسى كے ضابطے اور طريقے كے مطابق انجام ديئےيں اس طرح ان اقدامات ميں جو ظاہرى تضاد نظر آتا ہے وہ ختم ہوجاتاہے _اور يہ ہم ديكھ رہے ہيں كہ حضرت موسى حضرت خضر كے كاموں كو برداشت نہيں كرپاتے تھے تو يہ اسى بناء پر تھا كہ ان كى ماموريت اور ذمہ دارى كا طريقہ جناب خضر(ع) كى ذمہ دارى كے راستے سے الگ تھا لہذا جب انہوں نے حضرت خضر كاكام ظاہراً شرعى قوانين كے خلاف ديكھا تو اس پر اعتراض كيا ليكن خضر نے ٹھنڈے دل سے اپنا كام جارى ركھا اور چونكہ يہ دو عظيم خدائي رہبر مختلف ذمہ داريوں كى بناء پر ہميشہ كے لئے اكٹھے نہيں رہ سكتے تھے لہذا حضرت خضرا نے كہا :

''يہ اب ميرے اور تمہارے جدا ہونے كا مرحلہ آگيا ہے ''_

۴۰۶

بعض نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ اس عالم كا نام''اليا(ع) س''ہے يہى سے يہ تصور پيدا ہوا كہ ہوسكتا ہے''الياس''اور''خضر''ايك ہى شخص كے دو نام ہوں ليكن مشہور و معروف مفسرين اور راويوں نے پہلى بات ہى بيان كى ہے_

واضح ہے كہ يہ بات كوئي خاص اہميت نہيں ركھتى كہ اس شخض كا نام كيا ہے_اہم بات يہ ہے كہ وہ ايك عالم ربانى تھے اور پروردگار كى خاص رحمت ان كے شامل حال تھي_وہ باطن اور نظا م تكوينى پر مامور تھے اور كچھ اسرار سے آگاہ تھے اور ايك لحاظ سے موسى (ع) بن عمران كے معلم تھے اگر چہ حضرت موسى عليہ السلام كئي لحاظ سے ان پر مقدم تھے_

يہ كہ وہ پيغمبر تھے يا نہيں _اس سلسلے ميں روايات مختلف ہيں _اصول كافى جلد اول ميں متعدد روايات ہيں كہ جو اس بات پر دلالت كرتى ہيں كہ وہ پيغمبر نہيں تھے بلكہ وہ''ذوالقرنين''اور''آصف ابن برخيا''كى طرح ايك عالم تھے_

جبكہ كچھ اور روايات ايسى بھى ہيں كہ جن سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ مقام نبوت كے حامل تھے اور زير نظر روايات ميں بھى بعض تعبيرات كا ظاہرى مفہوم بھى يہى ہے_كيونكہ ايك موقع پروہ كہتے ہيں :

''ميں نے يہ كام اپنى طرف سے نہيں كيا''_

ايك اور مقام پر كہتے ہيں :

''ہم چاہتے تھے كہ ايسا ہو''_

نيز بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايك لمبى عمر كے حامل تھے_(۱)

____________________

(۱)يہاں ايك سوال سامنے آتا ہے_ وہ يہ كہ كيا اس عالم بزرگوار كا واقعہ يہوديوں اور عيسائيوں كى كتابوں ميں بھى ہے؟

سوال كا جواب يہ ہے:

اگر كتب سے مراد كتب عہدين(توريت و انجيل)ہيں ،تو ان ميں تو نہيں ہے ليكن بعض يہودى علماء كى كتابيں كہ جو گيارہويں صدى عيسوى ميں مدون ہوئي ہيں ،ان ميں ايك داستان نقل ہوئي ہے كہ جو حضرت موسى عليہ السلام كى مذكورہ داستان سے كچھ مشابہت ركھتى ہے_اگر چہ اس داستان كے ہيرو''الياس''اور''يوشع بن لاوي''ہيں كہ جو تيسرى صدى عيسوى كے''تلمود''كے مفسرين ميں سے تھے_يہ داستان اور كئي پہلوئوں سے بھى موسى عليہ السلام و خضر عليہ السلام سے مختلف ہے_

مزيد وضاحت كے لئے تفسير نمونہ ج۷ص۱۷۱پر رجوع كريں

۴۰۷

خود ساختہ افسانے

حضرت موسى عليہ السلام اور حضرت خضر عليہ السلام كى داستان كى بنياد وہى ہے كہ جو كچھ قرآن ميں آيا ہے ليكن افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ اس سے منسلك كركے بہت سے افسانے گھڑلئے گئے ہيں _ ان افسانوں كو اس داستان كے ساتھ خلط ملط كرنے سے اصل داستان كى صورت بھى بگڑ جاتى ہے_ جاننا چاہئے كہ يہ كوئي پہلى داستان نہيں ہے كہ جس كے ساتھ يہ سلوك كيا گيا ہے اور بہت سى سچى داستانوں كے ساتھ يہى حال كيا گيا ہے_

لہذا حقيقت تك رسائي كے لئے قرآن كو بنياد قرار ديا جانا چاہئے جس ميں يہ داستا ن بيان ہوئي ہے_ يہاں تك كہ احاديث كو بھى اسى صورت ميں قبول كيا جاسكتا ہے جب وہ قرآن كے موافق ہوں _اگر كوئي حديث اس كے برخلاف ہو تو يقينا وہ قابل قبول نہيں ہے اور خوش قسمتى سے معتبر احاديث ميں ايسى كوئي حديث نہيں ہے_

علم موسى (ع) و خضر (ع) ،علم خدا كے مقابلہ ميں

پيغمبر اكرم (ص) سے منقول ہے:

''جس وقت موسى عليہ السلام خضر عليہ السلام سے ملے تو ايك پرندہ ان كے سامنے ظاہر ہوا_ اس نے پانى كا ايك قطرہ اپنى چونچ ميں ليا تو حضرت موسى عليہ السلام سے خضر عليہ السلام نے كہا:

جانتے ہو كہ پرندہ كيا كہتا ہے:

۴۰۸

موسى عليہ السلام نے كہا:كيا كہتا ہے؟

خضر عليہ السلام كہنے لگے: كہتا ہے:

''تيرا علم اور موسى كا علم، خدا كے علم كے مقابلے ميں اس قطرے كى طرح ہے جو ميں نے پانى سے چونچ ميں ليا ہے''_

وہ خزانہ كيا تھا؟

اس داستان كے بارے ميں ايك سوال اور بھى ہے اور وہ يہ كہ وہ خزانہ آخر كيا تھا جسے موسى عليہ السلام كے عالم دوست پوشيدہ ركھنا چاہتے تھے اور آخر اس با ايمان شخص يعنى يتيموں كے باپ نے يہ خزا نہ كيوں چھپا ديا تھا؟

بعض نے كہا ہے كہ وہ خزانہ مادى پہلو كى بجائے زيادہ معنوى پہلو ركھتا تھا_ بہت سى شيعہ سنى روايا ت كے مطابق وہ ايك تختى تھى جس پر حكمت آميز كلمات نقش تھے_ اس بارے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے كہ وہ حكمت آميز كلمات كيا تھے_

كتاب كافى ميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا:

يہ سونے چاندى كا خزانہ نہيں تھا_ يہ تو صرف ايك تختى تھى جس پر چار جملے ثبت تھے_

اللہ كے سوا كوئي معبود نہيں _

جو موت پر يقين ركھتا ہے وہ(بے ہودہ)نہيں ہنستا_

اور جسے اللہ كى طرف سے حساب كا يقين ہے(اوراسے جو ابدہى كى فكر ہے)وہ خوش نہيں رہتا_

اور جسے تقدير الہى كا يقين ہے وہ اللہ كے سوا كسى سے نہيں ڈرتا_

۴۰۹

اوربنى اسرائيل كى نافرماني اصحاب سبت،سنيچر كى چھٹي بنى اسرائيل كا ايك گروہ جو ايك سمندر (بظاہر بحيرہ احمر جو فلسطين كے پاس ہے)كے كنارے شہر''ايلہ''(جسے آج كل''ايلات''كہتے ہيں )ميں رہتے تھے،ان كى آزمائش كے لئے اللہ نے انہيں حكم ديا تھا كہ ہفتہ كے روز مچھلى كا شكار نہ كريں ،سارے دنوں ميں شكار كريں صرف ايك دن تعطيل كرديا كريں ليكن ان لوگوں نے اس حكم كى صريحاًمخالفت كى جس كے نتيجے ميں وہ درد ناك عذاب ميں مبتلا ہوئے جس كى تفصيل قرآن ميں بيان كى گئي ہے_

قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:''جو يہودى تمہارے زمانہ ميں موجود ہيں ان سے اس شہر كے ماجرے كے متعلق سوال كرو جو سمندر كے كنارے آباد تھا''_اور انہيں وہ زمانہ ياددلائو جبكہ وہ ہفتہ كے روز قانون الہى كى مخالفت كرتے تھے_''(۱)

كيونكہ ہفتہ كے روز ان كى تعطيل كا دن تھا جس ميں ان كو يہ حكم ملا تھا كہ اس روز وہ اپنا كاروبار ترك كرديں اور عبادت خدا ميں مشغول ہوں ليكن انہوں نے اس حكم كى طرف كوئي توجہ نہ دي_

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۶۲

۴۱۰

اس كے بعد قرآن كريم اس جملے كى جو اجمالى طور پر پہلے گزر چكا ہے اس طرح شرح كرتاہے كہ ياد كرو:'' جب ہفتہ كے دن مچھلياں پانى كے اوپر ظاہر ہوتى تھيں اور دوسرے دنوں ميں وہ كم دكھلائي ديتى تھيں ''_(۱)

يہ بات واضح ہے كہ جو لوگ سمندر كے كنارے زندگى بسر كرتے تھے ان كى خوراك اور آمدنى كا بڑا ذريعہ مچھلى كاشكار ہوتا ہے،اور چونكہ ہفتہ كے روز مسلسل تعطيل ان كے درميان رائج تھي، لہذا اس روز مچھلياں امن محسوس كرتى تھيں اور وہ گروہ در گروہ پانى كى سطح پر ظاہر ہوتى تھيں ليكن دوسرے دنوں ميں چونكہ ان كا شكار كيا جاتا تھا اس لئے وہ گہرے پانى ميں بھاگ جاتى تھيں _ بہر حال يہ كيفيت چاہے كسى فطرى امر كے نتيجہ ميں ہو يا كوئي خلاف معمول الہى بات ہو اس سے ان لوگوں كى آزمائش مطلوب تھى جيسا كہ قرآن بيان كرتا ہے:

''ہم نے اس طرح ان لوگوں كى آزمائش كى اس چيز كے ذريعے جس كى وہ مخالفت كرتے تھے''_(۲)

جس وقت بنى اسرائيل اس بڑى آزمائش سے دوچار ہوئے جو ان كى زندگى كے ساتھ وابستہ تھى تو وہ تين گروہوں ميں بٹ گئے:

اول:جن كى اكثريت تھي،وہ لوگ تھے جنہوں نے اس فرمان الہى كى مخالفت پر كمر باندھ لي_

دوم:جو حسب معمولى ايك چھوٹى اقليت پر مشتمل تھا وہ گروہ اول كے مقابلے ميں امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كى شرعى ذمہ دارى ادا كرتا تھا_

سوم:يہ وہ لوگ تھے جو ساكت اور غير جانبدار تھے_يہ نہ تو گنہگاروں كے ساتھ تھے اور نہ انہيں گناہوں سے منع كرتے تھے_

قرآن ميں اس گروہ نے دوسرے گروہ سے جو گفتگو كى ہے اسے نقل كيا گيا ہے_

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۶۲

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۶۳

۴۱۱

اس وقت كو ياد كرو جب ان ميں سے ايك گروہ نے دوسرے سے كہا:

تم ان لوگوں كو كيوں وعظ و نصيحت كرتے ہو جنہيں آخر كار خدا ہلاك كرنے والا ہے يا درد ناك عذاب ميں مبتلا كرنے والا ہے_

انہوں نے جواب ميں كہا:ہم اس لئے برائي سے منع كرتے ہيں كہ خدا كے سامنے اپنى ذمہ دارى كو ادا كرديں اور وہ اس بارے ہم سے كوئي باز پرس نہ كرے_

علاوہ ازيں شايد ان كے دلوں ميں ہمارى باتو ں كا كوئي اثر بھى ہوجائے اور وہ طغيان و سركشى سے ہاتھ اٹھاليں _(۱)

''آخر كار دنيا پرستى نے ان پر غلبہ كيا_اور انہوں نے خدا كے فرمان كو فراموش كرديا_ اس وقت ہم نے ان لوگوں كو جو لوگوں كو گناہ سے منع كرتے تھے،نجات دي،ليكن گناہگاروں كو ان كے گناہ كے سبب سخت عذاب ميں مبتلا كرديا''_(۲)

اس كے بعد انہيں سزاديئے جانے كى كيفيت اس طرح بيان فرمائي گئي ہے:''انہوں نے اس بات كے مقابلے ميں سركشى كى جس سے انہيں روكا گيا تھا_(لہذا)ہم نے ان سے كہا دھتكارے ہوئے بندروں كى شكل ميں ہوجائو''_(۳)

بنى اسرائيل نے كس طرح گناہ كيا تھا؟

اس امر ميں كہ بنى اسرائيل نے كس وقت قانون شكنى كي،مفسرين كے درميان بحث ہے_بعض روايات سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے ايك حيلہ اختيار كيا،انہوں نے سمندر كے كنارے بہت سے حوض بنالئے تھے اور انہيں نہروں كے ذريعے سمندر سے ملا ديا تھا_ہفتہ كے روز ان حوضوں كے راستے كھول ديتے تھے پانى كے ساتھ مچھلياں ان حوضوں كے اندر آجاتى تھيں ،غروب كے وقت جب واپس جانا چاہتى تھيں تو

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۶۴

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۶۵

(۳)سورہ اعراف آيت ۱۶۶

۴۱۲

واپسى كا راستہ بند كر ديتے تھے،جب اتوار كا دن ہوتا تھا تو پھر ان كا شكار كرليتے تھے اور يہ كہتے تھے كہ ہم نے ہفتہ كے روز شكار تھوڑى كيا ہے بلكہ ہم نے تو صرف انہيں حوضوں ميں محصور كرليا تھا اصل شكار تو اتواركے روز ہوا ہے_

بعض مفسرين نے يہ كہا ہے كہ وہ لوگ ہفتہ كے روز مچھلى پكڑنے كے كانٹوں كو دريا ميں ڈال ديتے تھے اس كے بعد جب اس ميں مچھلياں پھنس جاتى تھيں تو دوسرے روز انہيں نكال ليتے تھے اور اس حيلہ سے ان كا شكار كرتے تھے_

بعض روايات سے يہ بھى پتہ چلتا ہے كہ وہ بغير كسى حيلہ كے بروز شنبہ بڑى ڈھٹائي كے ساتھ شكار ميں مشغول ہوتے تھے_

ممكن ہے كہ يہ تمام روايات صحيح ہوں اس طرح كہ ابتدا ء ميں حوضوں يا قلابوں كے ذريعے حيلے سے شكار كرتے ہوں ،جب اس طرح سے ان كى نظر ميں گناہ كى اہميت كم ہوگئي ہو تو پھر انہوں نے اعلانيہ گناہ كرنا شروع كرديا ہو اور ہفتہ كے دن كى حرمت كو ضائع كركے مچھلى كى تجارت سے مالدار ہوگئے ہوں _(۱)

____________________

(۱)آيا يہ مسخ جسمانى تھايا روحاني؟

''مسخ''يا دوسرے لفظوں ميں ''انسانى شكل كا كسى حيوان كى شكل ميں تبديل ہو جانا''مسلمہ طور پر ايك خلاف معمول اور خلاف طبيعت بات ہے اگر چہ ميوٹيشن( mutation )بعض حيوانات كا دوسرے حيوانات كى شكل اختيار كرلينا نادر طور پر ديكھا گيا ہے اور سائنس ميں تكامل حيات كى بنياد بھى اس بات پر ركھى گئي ہے،ليكن ميوٹيشن( mutation )جہاں ديكھا گيا ہے وہ بہت نادر الموقع موارد ہيں ،وہ بھى حيوانات كى جزوى صفات ميں پايا جاتا ہے نہ كہ ان كى كلى صفات ميں ،بلكہ ايسا ہرگز نہيں ہواكہ ميوٹيشن( mutation )كى وجہ سے ايك حيوان اپنى نوع مثلاً بندر سے بكرى بن گيا ہو_ہاں يہ ممكن ہے كہ كسى حيوان كى خصوصيات دگر گوں ہو جائيں ،پھر يہ كہ يہ تبديلى اس كى نسل ميں پيدا ہوتى ہے نہ كہ جو حيوان پيدا ہوگيا ہے اس كى شكل يك بيك بدل گئي ہو،بنا بريں كسى انسان يا حيوان كى شكل كا بدل كر دوسرى نوع اختيار كرلينا ايك خلاف معمول بات ہے_

ہم نے بارہا يہ بات كہى ہے كہ كچھ مسائل ايسے بھى ہيں جو طبيعت اور عادت كے بر خلاف واقع ہوتے ہيں جو كبھى تو پيغمبروں كے معجزوں كى صورت ميں اور كبھى بعض خارق العادت كاموں كى صورت ميں بعض انسانوں سے ظاہر ہوتے ہيں ، -

۴۱۳

بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ

بنى اسرائيل ميں سے ايك شخص نا معلوم طور پر قتل ہو جاتا ہے _اس كے قاتل كا كسى طرح پتا نہيں چلتا_

تاريخ اور تفاسير سے جو كچھ ظاہر ہوتاہے وہ يہ ہے كہ قتل كا سبب مال تھا يا شادي_

بعض مفسرين كہتے ہيں كہ بنى اسرائيل ميں ايك ثروت مند شخص تھا_ اس كے پاس بے پناہ دولت تھي_اس دولت كا وارث اس كے چچا زاد بھائي كے علاوہ كوئي نہ تھا_وہ دولت مند كافى عمر رسيدہ ہوچكا تھا_اس كے چچازاد بھائي نے بہت انتظار كيا كہ وہ دنيا سے چلا جائے تاكہ اس كا وارث بن سكے ليكن اس كا انتظار بے نتيجہ رہا لہذا اس نے اسے ختم كردينے كا تہيہ كرليا _بالاخر اسے تنہائي ميں پاكر قتل كرديا اور اس كى لاش سڑك پر ركھ دى اور گريہ وزارى كرنے لگا اورحضرت موسى عليہ السلام كى بارگاہ ميں مقدمہ پيش كيا كہ بعض لوگوں نے ميرے چچا زاد بھائي كو قتل كرديا ہے_

۴۱۴

۴۱۵

۴۱۶

۴۱۷

سليمان (ع) اپنى فوجى طاقت كامظاہرہ ديكھتے ہيں

قرآن ميں موجود مختلف قرائن سے مجموعى طور پر نتيجہ نكلتا ہے كہ ايك روز حضرت سليمان(ع) اپنے تيز رفتار گھوڑوں كا معائنہ كررہے تھے كہ جنھيں ميدان جہاد كے لئے تيار كيا گيا تھا_ عصر كا وقت تھا_ مامورين مذكورہ گھوڑوں كے ساتھ مارچ كرتے ہوئے ان كے سامنے سے گزر رہے تھے_

ايك عادل اور با اثر حكمران كے لئے ضرورى ہے كہ اس كے پاس طاقتور فوج ہو اور اس زمانے ميں لشكر كے اہم ترين وسائل ميں سے تيز رفتار گھوڑے تھے لہذا حضرت سليمان(ع) كا مقام ذكر كرنے كے بعد نمونے كے طورپر گھوڑوں كا ذكر آيا ہے_

____________________

۴۱۸
۴۱۹

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511