توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 7%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214310 / ڈاؤنلوڈ: 4737
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۴) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت ميں ہو ليکن پهلی مرتبہ کا جو خون عادت ميں ہو تين دن سے کم ہو تو ضروری ہے کہ دونوں خونوں کے دوران تروک حائض اور اعمال استحاضہ ميں جمع کرے اور درميانی پاکی کے دوران تروک حائض اور افعال طاہرہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٩٠ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر عادت ميں خون نہ دیکھے اور عادت کے علاوہ کسی اور وقت اپنے حيض کے ایام کی مقدار ميں خون دیکھے تو حيض کی علامات موجود ہونے کی صورت ميں اس خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩١ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت ميں خون دیکھے جو تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس خون کے ایام کی مقدار عادت کے ایام سے کم ہو یا زیادہ ہو اور پاک ہونے کے بعد دوبارہ عادت کے ایام کے برابر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو اگر ان دونوں خون اور درميان کی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب کو حيض قرار دے اور زیادہ ہونے کی صورت ميں عادت ميں دیکھے ہوئے خون کو حيض اور باقی خون کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٢ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو جو خون عادت کے ایام ميں دیکھا ہو وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور جو خون عادت کے ایام کے بعد دیکھا ہے استحاضہ ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات ہوں مثلاً جس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہو، اگر پهلی سے بارہویں تک خون دیکھے تو پهلے سات دن حيض ہيں اور بعد والے پانچ دن استحاضہ ہيں ۔

٢۔وقتيہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٣ وقتيہ عادت والی عورتوں کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) ایسی عورت ہے جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر خون دیکھے اور چند دنوں کے بعد پاک ہو جائے ليکن خون دیکھنے کے دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں مساوی نہ ہو، مثلاً دو ماہ مسلسل پهلی تاریخ سے خون حيض دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو، لہٰذا اس عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کی پهلی تاریخ کو اپنے حيض کی عادت کا پهلا دن قرار دے۔

(دوم) ایسی عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين سے تين یا زیادہ دن خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون والے تمام ایام اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو ليکن دوسرے مهينے ميں پهلے کے مقابلے ميں کم یا زیادہ ہو مثلاً پهلے مهينے آٹھ دن اور دوسرے مهينے نو دن ہو۔ ایسی عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کے پهلے دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔

۸۱

مسئلہ ۴ ٩ ۴ وقتيہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے وقت یا اس سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا ابتدا عادت ميں اتنی تاخير ہو کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت ميں تاخير ہوگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں مثلاً تين دن سے پهلے پاک ہونے کی وجہ سے معلوم ہو جائے کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٩ ۵ وقتيہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور حيض کی نشانيوں کے ذریعے حيض کو پہچان نہ سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين، چاہے پدری ہوں یا مادری اور چاہے زندہ ہوں یا مر چکی ہوں، کے ایامِ عادت کی مقدار کو اپنا حيض قرار دے اور اگر ان کی عادت چھ یا سات دن نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی عادت اور چھ یا سات دن کے درميان کی مدت ميں حيض اور استحاضہ دونوں کے احکام پر عمل کرے۔هاں، رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت کو اپنی عادت صرف اسی صورت ميں قرار دے سکتی ہے جب ان سب کے ایام حيض کی تعداد مساوی ہو۔ لہذا، اگر ان کے ایام حيض کی مقدار مساوی نہ ہو مثلاً بعض کی عادت پانچ دن اور دوسروں کی عادت سات دن ہو تو ان کی عادت کو اپنے لئے حيض قرار نہيں دے سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٩ ۶ جس وقتيہ عادت والی عورت نے اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو اپنا حيض قرار دیا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو دن ہر ماہ اس کی عادت کا پهلا دن ہو اس دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔ مثلاً جو عورت ہر ماہ پهلی تاریخ کو خون دیکھتی ہو اور کبهی سات اور کبهی آٹھ تاریخ کو پاک ہوتی ہو اگر کسی مهينے بارہ دن خون دیکھے اور اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن ہو تو ضروری ہے کہ مهينے کے ابتدائی سات دنوں کو حيض اور باقی ایام کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٧ جس عورت کو اپنی عادت رشتہ دار خواتين کی عادت کے مطابق قرار دینی ہے اگر اس کی رشتہ دار خواتين نہ ہوں یا ان کی عادت آپس ميں مساوی نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ہر مهينے خون دیکھنے کے دن سے چھ یا سات دن تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣۔عدديہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٨ عددیہ عادت والی خواتين کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) وہ عورت ہے جس کے خون دیکھنے کے ایام کی تعداد مسلسل دو ماہ تک مساوی ہو ليکن خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو تو اس صورت ميں جن ایام ميں خون دیکھا ہو وہ اس کی عادت ہيں ۔

مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مهينے گيارہویں سے پندرہویں تک خون دیکھے تو اس کی عادت پانچ روز ہوگی۔

۸۲

(دوم) وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک تين یا زیادہ دن خون دیکھے اور ایک یا زیادہ روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور پهلے مهينے خون دیکھنے کا وقت دوسرے مهينے سے فرق رکھتا ہو تو اگر جن ایام ميں خون دیکھا ہے ان کے ساته درميانی پاکی کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور ان کے ایام بھی دونوں مهينوں ميں برابر ہوں تو جن دنوں ميں خون دیکھا ہو اور جن دنوں ميں پاک رہی ہو سب کو اپنے حيض کی عادت قرار دے۔ البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ درميانی پاکی کے ایام دونوں مهينوں ميں برابر ہوں مثلاً اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھنے کے بعد دو روز پاک رہے پھر دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے ماہ گيارہویں سے تيرہویں تک خون دیکھے اور دو دن یا اس سے زیادہ یا کم روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہے ۔

اسی طرح مثلاً اگر ایک ماہ ميں آٹھ روز خون دیکھے اور دوسرے ماہ چار دن خون دیکھے اور پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہوگی۔

مسئلہ ۴ ٩٩ عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی نشانيوں کے ساته اپنی عادت کے عدد سے کم یا زیادہ دن خون دیکھے جو دس دن سے زیادہ نہ ہو تو ان سب کو حيض قرار دے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر دیکھا ہوا تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ خون دیکھنے کی ابتدا سے اپنی حيض کی عادت کے عدد کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر دیکھا ہوا سارا خون ایک جيسا نہ ہو بلکہ چند روز خون حيض کی علامات کے ساته ہو اور چند روز استحاضہ کی علامات کے ساته تو اگر حيض کی نشانيوں والے خون کا عدد اس کی عادت کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر حيض کی علامات والا خون عادت کے عدد سے زیادہ ہو تو فقط عادت کی مقدار کو حيض قرار دے اور اس سے زیادہ جس ميں حيض کی علامات ہوں اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

اور اگر حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس کی عادت کے ایام سے کم ہو تو ضروری ہے کہ ان ایام کو حيض قرار دے اور اس کے بعد عادت کے عدد تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

۴ ۔ مضطربہ

مسئلہ ۵ ٠٠ مضطربہ یعنی وہ عورت جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو اور اس کی عادت معين نہ ہوئی ہو یا اس کی عادت بگڑگئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو۔ مضطربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور اگر تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو اگر اس کی رشتہ دار عورتوں کی عادت چھ یا سات دن ہو تو ان ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۳

اور اگر کم ہو مثلاً پانچ روز ہو تو ان کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ان کی عادت اور چھ یا سات روز کے درميان فرق ميں جو کہ ایک یا دو دن ہيں جو کام حائض پر حرام ہيں ترک کرے اور استحاضہ کے کام انجام دے۔

اور اگر اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن سے زیادہ ہو مثلاً نو دن ہو تو چھ یا سات دنوں کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر چھ یا سات اور ان کی عادت کے درميان فرق ميں جو کہ دو یا تين دن ہيں حائض پر حرام کاموں کو ترک کرے اور استحاضہ والے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٠١ مصظربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے جن ميں چند دن حيض کی علامات اور چند دن استحاضہ کی علامات موجود ہوں تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ سب خون حيض ہے ۔ ہاں، اگرحيض کی علامات والے سارے خون کو حيض قرار نہ دیا جاسکتا ہو مثلاً پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته، پھر پانچ دن استحاضہ کی نشانيوں کے ساته اور پھر دوبارہ پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته خون دیکھے ، تو اس صورت ميں اگر کيفيت یہ ہو کہ حيض کی نشانيوں والے دونوں خون کو حيض قرار دینا ممکن ہو، اس طرح سے کہ ان ميں سے ہر ایک تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو ضروری ہے کہ ان دونوں خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے اور درميان ميں جو خون حيض کی علامات کے ساته نہيں ہے اسے استحاضہ قرار دے اور اگر ان ميں سے فقط ایک کو حيض قرار دینا ممکن ہو تو پھر اسی کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۵ ۔مبتدئہ

مسئلہ ۵ ٠٢ مبتدئہ یعنی وہ عورت جس نے پهلی بار خون دیکھا ہو۔ ایسی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور سارا خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔ اگر اس کی کوئی رشتہ دار خاتون نہ ہو یا ان کی عادت مختلف ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تين دن کو حيض قرار دے اور پهلے مهينے دس دن تک اور بعد والے مهينوں ميں چھ یا سات دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۵ ٠٣ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور ان ميں سے چند دن حيض کی علامات کے ساته اور باقی چند دن استحاضہ کی علامات کے ساته ہو تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ، ليکن اگر حيض کی علامات والا خون ختم ہونے کے بعد درميان ميں دس دن گزر نے سے پهلے دوبارہ حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے مثلاً پانچ دن سياہ خون، نو دن زرد خون اور دوبارہ پانچ دن سياہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ درميان والے خون کو استحاضہ قرار دے اور پهلے اور آخری خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے۔

۸۴

مسئلہ ۵ ٠ ۴ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے کہ جس ميں چند دن حيض کی نشانياں اور باقی روز استحاضہ کی علامات ہوں اور حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم ہو تو تمام خون کو استحاضہ قرار دے۔

۶ ۔ ناسيہ

مسئلہ ۵ ٠ ۵ ناسيہ کی تين اقسام ہيں :

١) صرف عددیہ عادت والی عورت تھی اور عدد بھول گئی۔ اس صورت ميں اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے اور اگر یہ مقدار چھ دن سے کم یا سات دن سے زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر حيض کی احتمالی مقدار اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، ان کے درميانی ایام ميں تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

٢) صرف وقتيہ عادت والی عورت تھی اور وقت بھول گئی۔ تو اس صورت ميں اگر حيض کی علامات والا خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب خون حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر اتنا معلوم ہو کہ ان ميں سے بعض اس کی عادت کے ایام ہی تهے تو ضروری ہے کہ تمام خون کے دوران تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے اگر چہ سب یا بعض خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں۔ یهی حکم اس وقت ہے جب معلوم نہ ہو ليکن احتمال ہو کہ یہ خون ایامِ عادت ميں آیا ہے ۔

اور اگر ایامِ عادت ميں آنے کا احتمال بھی نہ ہو اور بعض ميں حيض اور بعض ميں استحاضہ کی علامات ہوں تو جس ميں حيض کی علامات ہوں اگر وہ تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو اس سب کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور جب تمام خون ميں حيض کی علامات ہوں اور وہ دس دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات روز تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت تھی۔ اس کی تين صورتيں ہيں :

١) فقط وقت بھول گئی تو اس کا وظيفہ وهی ہے جو دوسری قسم ميں گزرا، سوائے یہ کہ خون علامات حيض کے ساته ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا اور دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت ميں اگر اس کی عادت چھ یا سات روز ہو تو اس کو حيض قرار دے اور اگر اس سے کم ہو یا زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی عادت اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، کے درميانی ایام ميں تروکِ حائض اور اعمالِ ستحاضہ ميں جمع کرے اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۵

٢) فقط عدد بھول گئی ہو تو اس صورت ميں وہ خون جو وقت ميں دیکھا ہو اس سے اتنی مقدار ميں جس کے بارے ميں یقين ہو کہ عادت سے کم نہيں ہے وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور اس کے بعد کے ایام ميں اگر حيض کی نشانيوں کے ساته ہو اور پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ نہ ہو توسارا کا سارا حيض ہے ، ليکن پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ ہو نے کی صورت ميں جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو اگر چھ

دن سے کم ہو تو اس مقدار کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس مقدار تک تروکِ حائض اور اعمالِ مستحاضہ ميں جمع کرے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو توچه یا سات روز ميں سے جسے اختيار کرے اس مقدار تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے لے کر دس دن گزرنے سے پهلے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

٣) وقت اور عدد دونوں بھول گئی ہو۔ اس صورت ميں اگر خون علامات کے ساته ہو اور تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ،ليکن اگر دس دن سے زیادہ ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا ہے توجس مقدار کے عادت ہونے کا احتمال ہو وہ اگر چھ یا سات دن ہو تو اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر چھ دن سے کم ہو تو اس کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جسے اختيار کرے اس دن تک احتياط واجب ہے کہ حائض اور مستحاضہ کے وظائف کا خيال رکھے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس دن تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے دس دن گزرنے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

اور اگر خون کی صفات مختلف ہوں یعنی بعض ميں حيض کی صفات اور بعض ميں استحاضہ کی صفات ہوں تو حيض کی صفات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہونے کی صورت ميں حيض ہے اور استحاضہ کی صفات والے خون کے بارے ميں اگرجانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا تو استحاضہ ہے اور اگر ایامِ حيض ميں آنے کا احتمال ہو تو ضروری ہے کہ حيض اور استحاضہ کے وظائف ميں احتياط کرتے ہوئے جمع کرے۔

حيض کے متفرق مسائل

مسئلہ ۵ ٠ ۶ مبتدئہ، مضطربہ، ناسيہ یا عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کردے اور جب معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا انجام دے اور اگر حيض کی علامات کے بغير خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات انجام دے، سوائے ناسيہ کے کہ اگر اسے عادت آجانے کا یقين ہو جائے تو جب تک عادت کے باقی ہونے کا احتمال دے ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کرے۔

۸۶

مسئلہ ۵ ٠٧ حيض کی عادت والی عورت، چاہے وقتيہ عادت والی ہو یا عددیہ عادت والی یا وقتيہ و عددیہ عادت والی، اگر دو ماہ مسلسل اپنی عادت کے خلاف ایسا خون دیکھے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یا وقت اور دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں ایک ہی ہو تو وهی اس کی نئی عادت بن جائے گی جو اس نے ان دو مهينوں ميں دیکھی ہے ۔ مثلاً اگر مهينے کے پهلے دن سے خون دیکھتی اور ساتویں دن پاک ہوتی تهی، پھر جب دو ماہ تک دس کو خون دیکھے اور سترہ کو پاک ہو تو دس سے سترہ تک اس کی عادت ہوگی۔

مسئلہ ۵ ٠٨ ایک مهينہ گزرنے کا مطلب خون دیکھنے کے بعد سے تيس دن گزرنا ہے ، نہ کہ مهينے کی پهلی سے آخری تاریخ۔

مسئلہ ۵ ٠٩ جو عورت عام طور پر مهينے ميں ایک مرتبہ خون دیکھتی ہو اگر ایک مهينے ميں دو مرتبہ خون دیکھے اور دونوں ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو اگر درميان والے پاکی کے ایام دس دن سے کم نہ ہوں تو ضروری ہے کہ دونوں کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١٠ اگر تين یا اس سے زیادہ دن حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور بعد ميں دس دن یا اس سے زیادہ استحاضہ کی علامات کے ساته خون دیکھے پھر دوبارہ تين دن تک حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ حيض کی علامات والے پهلے اور آخری خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١١ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور معلوم ہو کہ اندر خون نہيں ہے تو ضروری ہے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے، اگرچہ اسے گمان ہو کہ دس دن گزرنے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا، ليکن اگر یقين ہو کہ دس دن تمام ہونے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے۔

مسئلہ ۵ ١٢ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون موجود ہے تو ضروری ہے کہ احتياط کرے یا تهوڑی روئی اندر ڈال کر تهوڑی دیر صبر کرنے کے بعد نکالے اور احتياط مستحب ہے کہ اس کام کو کھڑے ہو کر اس طرح کرے کہ پيٹ دیوار سے لگا ہو اور ٹانگ دیوار پر بلند ہو۔اب اگر پاک ہو تو غسل کر کے اپنی عبادات انجام دے اور اگر پاک نہ ہو اگرچہ روئی زرد رطوبت سے آلودہ ہو تو اگر وہ عورت حيض کی عادت نہ رکھتی ہو یا اس کی عادت دس دن کی ہو تو ضروری ہے کہ صبرکرے۔ اب اگر دس دن سے پهلے پاک ہو جائے تو اس وقت غسل کرے اور اگر دسویں دن پاک ہوجائے یا اس وقت تک پاک نہ ہو تو دسویں دن کے شروع پر غسل کرے۔اور اگر اس کی عادت دس دن سے کم ہو، تو اگر جانتی ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پهلے یا دسویں دن پاک ہوجائے گی تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے اور اگر احتمال ہو کہ خون دس دن سے تجاوز کر جائے گا تو ایک دن عبادات کو ترک کرنا واجب ہے ، البتہ اس کے بعد ميں وہ مستحاضہ کے اعمال انجام دے سکتی ہے ،بلکہ احتياط مستحب ہے کہ دسویں دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔ یہ حکم صرف اس عورت کے لئے ہے کہ جسے عادت سے پهلے مسلسل خون نہ آرہا ہو، ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۷

مسئلہ ۵ ١٣ اگر بعض ایام کو حيض قرار دے کر عبادات ترک کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ان ایام ميں ترک کی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا انجام دے اور اگر حيض نہ ہونے کے گمان سے عبادات انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض تھا تو ان ایام ميں رکھے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے ۔

نفاس

مسئلہ ۵ ١ ۴ بچے کی پيدائش کے بعد، ولادت کی وجہ سے ماں جو خون دیکھتی ہے اگر دس دن سے پهلے یا دسویں دن بند ہو جائے تو نفاس ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر بچے کا پهلا حصہ باہر آنے کے ساته جو خون دیکھے ، اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ عورت کو نفاس کی حالت ميں ”نفساء“ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١ ۵ بچے کا پهلا حصہ باہر آنے سے پهلے جو خون دیکھے ، وہ نفاس نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ١ ۶ ضروری نہيں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہوئی ہو بلکہ اگر ناقص ہو تب بھی دس دن تک جو خون دیکھے نفاس ہے بشرطيکہ عرفاً کها جائے کہ اس نے بچے کو جنم دیا ہے ۔ ہاں، جب عرفی اعتبار سے شک ہو کہ اسے بچہ جننا کها جاسکتا ہے یا نہيں ، تو اس خون پر نفاس کے احکام نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١٧ ممکن ہے کہ خون نفاس ایک لمحہ سے زیادہ نہ آئے، ليکن دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتا۔

مسئلہ ۵ ١٨ جب تک شک ہو کہ کوئی چيز سقط ہوئی یا نہيں یا شک کرے کہ جو چيز سقط ہوئی ہے بچہ ہے یا نہيں ، تو تحقيق ضروری نہيں ہے اور جو خون خارج ہو رہا ہو وہ شرعاً خون نفاس نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ تحقيق کرے۔

مسئلہ ۵ ١٩ نفساء کے لئے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف، خداوند متعال کے اسم مبارک اور دوسرے اسمائے حسنیٰ سے مس کرنا حرام ہے اور احتياط واجب کی بنا پران تمام کاموں کا جو حائضہ پر حرام ہيں ، یهی حکم ہے اور وہ تمام چيزیں جو حائضہ پر واجب ہيں نفساء پر بھی واجب ہيں ۔

مسئلہ ۵ ٢٠ حالت نفاس ميں عورت کو طلاق دینا باطل ہے اور اس کے ساته نزدیکی حرام ہے ، ليکن اگر اس کا شوہر اس سے نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢١ جب عورت نفاس سے اس طرح پاک ہو کہ اندر بھی خون باقی نہ رہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اپنی عبادات انجام دے۔ اب اگر دوبارہ خون دیکھے اور دونوںخون دیکھنے والے اور درميان کے طهارت والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو اگر اس کی حيض کی عادت ہو اور یہ سارے ایام اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہوں، مثلاً اگر اس کی عادت چھ دن ہو اور چھ دن کے درميان دو دن پاک رہی ہو تو تمام چھ دن نفاس ہيں ۔ اس کے علاوہ باقی صورتوں ميں ، جن ایام ميں خون دیکھے وہ نفاس اور جن ایام ميں پاک رہی ہو ان ميں احتياط واجب کی بنا پر تروکِ نفساء اور اعمال طاہرہ ميں جمع کرے۔

۸۸

مسئلہ ۵ ٢٢ اگرعورت خونِ نفاس سے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون ہے تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ تهوڑی روئی اندر ڈال کر صبر کرے تاکہ اگر پاک ہو تو اپنی عبادات کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۵ ٢٣ اگر عورت کا خون نفاس دس دن سے تجاوز کر جائے تو حيض کی عادت رکھنے کی صورت ميں عادت کے ایام کو نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور عادت نہ ہونے کی صورت ميں دس دن تک نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔اور احتياط مستحب ہے کہ جس کی عادت ہو وہ عادت کے بعد والے دن سے اور جس کی عادت نہ ہو وہ دسویں دن سے بچہ جننے کے اٹھ ارہویں دن تک نفساء کے حرام کاموں کو ترک کرے اور مستحاضہ کے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٢ ۴ جس عورت کی عادتِ حيض دس دن سے کم ہو اگر اپنی عادت سے زیادہ خون دیکھے تو اپنی عادت کے برابر ایام کو نفاس قرار دے اور اس کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک روز اور عبادت ترک کرے اور باقی ایام ميں دسویں دن تک اس کی مرضی ہے کہ مستحاضہ کے احکام جاری کرے یا عبادت کو ترک کرے۔

اور اگر خون دس دن سے تجاوز کر جائے تو ضروری ہے کہ عادت کے بعد سے استحاضہ قرار دے اور ان ایام ميں جن عبادات کو ترک کيا ہو ان کی قضا کرے۔ مثلاً جس عورت کی عادت چھ دن ہو اگر چھ دن سے زیادہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ چھ دن کو نفاس قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ساتویں دن بھی عبادات ترک کرے اور آٹھ ویں، نویں اور دسویں دن اختيار ہے کہ یا تو ان عبادات کو ترک کرے یا استحاضہ کے اعمال انجام دے اور اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو اس کی عادت کے بعد والے دن سے استحاضہ ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢ ۵ حيض کی عادت رکھنے والی عورت اگر بچے کو جنم دینے کے بعد ایک مهينے یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو اس کی عادت کے ایام کی مقدار ميں نفاس ہے اور عادت کے بعد سے دس دن تک جو خون دیکھے استحاضہ ہے ، اگر چہ اس کی ماہانہ عادت کے ایام ميں ہو۔ مثلاً جس عورت کی عادت ہر مهينے کی بيسویں سے ستائيویں تک ہو اگر مهينے کی دسویں تاریخ کو جنم دے اور ایک ماہ یا زیادہ ایام مسلسل خون دیکھے تو سترہ تاریخ تک نفاس اور سترہ سے دس دن تک استحاضہ ہے حتی وہ خون بھی جو عادت ميں دیکھے ، جو بيسویں سے لے کر ستائيسویں تک ہے ۔

اور دس دن گزرنے کے بعد اگر ایسا خون دیکھے جو اس کی عادت ميں ہو تو حيض ہے چاہے علامات حيض ہوں یا نہ ہوں اور یهی حکم ہے اگر اس کی عادت کے ایام ميں نہ ہو ليکن حيض کی علامات موجود ہوں، ليکن اگر نہ عادت کے ایام ميں ہواور نہ ہی حيض کی علامات ہوں تو استحاضہ ہے ۔

۸۹

مسئلہ ۵ ٢ ۶ حيض ميں عدد کی عادت نہ رکھنے والی عورت اگر بچہ جننے کے بعد ایک ماہ یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو پهلے دس دن نفاس اور دوسرے دس دن استحاضہ ہے اور جو خون اس کے بعد دیکھے اگر اس ميں حيض کی علامات ہوں یا اس کی عادت کے ایام ميں ہو تو حيض ہے اور اگر نہ ہو تو یہ بھی استحاضہ ہے ۔

غسلِ مسِ ميّت

مسئلہ ۵ ٢٧ اگر کوئی شخص کسی ایسے مردہ انسان کے بدن کومس کرے جو ٹھنڈا ہوچکا ہو اور جسے غسل نہ دیا گيا ہو، یعنی اپنے بدن کا کوئی حصّہ اس سے لگائے، تو اس کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ، خواہ اس نے نيند کی حالت ميں مردے کا بدن مس کيا ہو یا بيداری کے عالم ميں ، ارادی طور پر مس ہوا ہو یا غير ارای طور پر، حتی اگر اس کا ناخن یا ہڈی، مردے کے ناخن یا ہڈی سے مس ہو جائے تب بھی اس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر مردہ حيوان کو مس کرے تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢٨ جس مردے کا تمام بدن ٹھنڈا نہ ہوا ہو، اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا خواہ اس کے بدن کا جو حصہ مس کيا ہو وہ ٹھنڈا ہوچکا ہو۔

مسئلہ ۵ ٢٩ اگر کوئی شخص اپنے بال مردے کے بدن سے لگائے یا اپنا بدن مردے کے بالوں سے لگائے یا اپنے بال مردے کے بالوں سے لگائے جب کہ بال اتنے ہوں کہ بدن کے تابع حساب ہوتے ہوں تو احتياط کی بنا پر غسل واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٠ مردہ بچے کو مس کرنے پر حتی ایسے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر جس کے چار مهينے پورے ہوچکے ہوں غسلِ مسِ ميت واجب ہے اور چار مهينے سے چھوٹے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر غسل واجب نہيں ہوتا مگر یہ کہ اس کے بدن ميں روح داخل ہوچکی ہو، لہٰذا اگر چار مهينے کا بچہ مردہ پيدا ہو اور اس کا بدن ٹھنڈا ہوچکا ہو اور وہ ماں کے ظاہری حصّے کو مس ہو جائے تو اس کی ماں کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣١ جو بچہ ماں کے مر جانے اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو جانے کے بعد پيدا ہو، اگر وہ ماں کے ظاہری حصے کو مس ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٢ اگر کوئی شخص ایک ایسی ميّت کو مس کرے جسے تين غسل مکمل طور پر دئے جاچکے ہوں تو اس پر غسل واجب نہيں ہوتا، ليکن اگر وہ تيسرا غسل مکمل ہونے سے پهلے اس کے بدن کے کسی حصّے کو مس کرے خواہ اس حصے کو تيسرا غسل دیا جاچکا ہو، اس شخص کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٣ اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچہ، ميّت کو مس کرے تو دیوانے کے لئے عاقل ہونے اور بچے کے لئے بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے اور اگر بچہ مميّز ہو اور غسلِ مس ميت بجالائے تو اس کا غسل صحيح ہوگا۔

۹۰

مسئلہ ۵ ٣ ۴ اگر کسی ایسے مردے کے بدن سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو ایک ایسا حصہ جدا ہو جائے جس ميں ہڈی ہو اور اس سے پهلے کہ اس حصّے کو غسل دیا جائے کوئی شخص اسے مس کرے تو احتياط کی بنا پر وہ غسلِ مسِ ميت کرے اور اگر وہ جدا ہونے والا حصہ بغير ہڈی کے ہو اس کو مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔هاں، اگر کسی زندہ انسان کے بدن سے کوئی حصہ جدا ہو توچاہے اس ميں ہڈی ہو اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ۵ ٣ ۵ بغير گوشت کی ہڈی کو مس کرنے سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو، خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئی ہو یا زندہ شخص کے بدن سے، غسل واجب نہيں ہے ۔ اسی طرح مردہ یا زندہ کے بدن سے جدا ہونے والے دانتوں کو مس کرنے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣ ۶ غسلِ مسِ ميت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا ضروری ہے اور جس شخص نے غسلِ مسِ ميت کرليا ہو اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لئے وضو کرنا واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٧ اگر کوئی شخص کئی ميّتوں کو مس کرے یا ایک ميّت کو کئی بار مس کرے، تو ایک غسل کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٨ جس شخص نے ميّت کو مس کرنے کے بعد غسل نہ کيا ہو اس کے لئے مسجد ميں ٹہرنا، بيوی سے جماع کرنا اور واجب سجدہ والی سورتوں کی تلاوت کرنا منع نہيں ہے ليکن نماز اور اس جيس عبادات کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ۔

محتضر کے احکام

مسئلہ ۵ ٣٩ جو مسلمان محتضر ہو، یعنی جان کنی کی حالت ميں ہو، خواہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، احتياط واجب کی بنا پر بصورت امکان اسے پيٹھ کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ رخ ہوں۔ اگر مکمل طور پر اس طرح سے لٹانا ممکن نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر جهاں تک ممکن ہو اس حکم پر عمل کيا جائے۔ اسی طرح احتياط مستحب یہ ہے کہ جب اسے اس طرح سے لٹانا بالکل ناممکن ہو اسے قبلہ رخ بٹھ ا دیں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے سيدهے پهلو یا اُلٹے پهلو قبلہ رخ لٹایا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٠ احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو اس جگہ سے اٹھ ایا نہ جائے، اسے قبلہ رخ ہی لٹائيں۔ اسی طرح احتياط مستحب کی بنا پر غسل دیتے وقت بھی قبلہ رخ لٹایا جائے، ليکن غسل مکمل کرنے کے بعد مستحب ہے کہ اسے اس طرح لٹائيں جس طرح اسے نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہيں ۔

مسئلہ ۵۴ ١ محتضر کو قبلہ رخ لٹانا، احتياط کی بنا پر، ہر مسلمان پر واجب ہے اور اگر ممکن ہو تو محتضر سے اجازت لينا ضروری ہے اور اگر ممکن نہ ہو یا اس کی اجازت معتبر نہ ہو تو احتياط کی بنا پر اس کے ولی سے اجازت لينا چاہيے۔

۹۱

مسئلہ ۵۴ ٢ مستحب ہے کہ جو شخص جان کنی کی حالت ميں ہو اس کے سامنے شهادتين، بارہ اماموں عليهم السلام اقرار اور دوسرے عقائد حقہ کو اس طرح دهرایا جائے کہ وہ سمجھ لے۔ اسی طرح مستحب ہے ان مذکورہ چيزوں کو موت کے وقت تک تکرار کيا جائے۔ اور نيز دعائے فرج کو محتضر کے لئے تلقين کيا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٣ مستحب ہے کہ یہ دعا محتضر کو اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:

((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیَ الْکَثِيْرَ مِنْ مَعَاصِيْکَ وَاقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ مِنْ طَاعَتِکَ یَا مَنْ یَّقْبَلُ الْيَسِيْرَ وَ یَعْفُوْ عَن الْکَثِيْرَ، إِقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ وَاعْفُ عَنِّی الْکَثِيْرَ، اِنَّکَ ا نَْٔتَ الْعَفُوُّ الْغَفُوْرُ، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنِی فَاِنَّکَ رَحِيْمٌ ))

مسئلہ ۵۴۴ جس کی جان سختی سے نکل رہی ہو، اگر اس کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو تو اسے اس جگہ لے جانا جهاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا، مستحب ہے ۔

مسئلہ ۵۴۵ محتضر کے سرہا نے سورہ مبارکہ یاسين، سورہ صافات، سورہ احزاب، آیت الکرسی، سورہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورہ بقرہ کی آخری تين آیات پڑھنا مستحب ہے ، بلکہ قرآن جتنا پڑھا جاسکے، پڑھا جائے۔

مسئلہ ۵۴۶ محتضر کو تنها چھوڑنا مکروہ ہے ۔ اور اسی طرح کسی چيز کا اس کے پيٹ پر رکھنا، جنب اور حائض کا اس کے قریب ہونا، زیادہ باتيں کرنا، رونا اور صرف عورتوں کو اس کے پاس چھوڑنا مکروہ ہے ۔

مرنے کے بعد کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٧ مرنے کے بعد مستحب ہے کہ ميّت کی آنکہيں اور ہونٹ بند کردئے جائيں اور اس کی ٹھ وڑی کو بانده دیا جائے۔ نيز اس کے ہاتھ اور پاؤں سيدهے کر دئے جائيں اور اس کے اُوپر کپڑا ڈال دیا جائے، جنازے ميں شرکت کے لئے مومنين کو اطلاع دی جائے۔

اگر موت رات کو واقع ہوئی ہو تو موت واقع ہونے والی جگہ پر چراغ جلایا جائے اور اسے دفن کرنے ميں جلدی کریں۔ ليکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقين نہ ہو تو انتظار کریں تا کہ صورتحال واضح ہو جائے۔ نيز اگر ميّت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے ميں اتنا تاخير کریں کہ اس کا پهلو چاک کر کے بچے کو باہر نکال کر دوبارہ غسل کے لئے اس کا پهلو سی دیں اور بہتر یہ ہے کہ بچے کو باہر نکالنے کے لئے الٹا پهلو چاک کيا جائے۔

غسل، کفن، نماز اور دفن ميّت کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٨ مسلمان کا غسل، حنوط، کفن، نماز ميّت اور دفن ہر مکلّف پر واجب ہے ۔ ہاں، اگر بعض افراد ان امور کو انجام دیں تو دوسروں سے یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو سب گناہ گارہوں گے۔

۹۲

مسئلہ ۵۴ ٩ اگر کوئی شخص تجهيز و تکفين کے کاموں ميں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے کوئی اقدام کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر وہ ان کاموں کو ادهورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے ان کاموں کو پایہ تکميل تک پهنچائيں۔

مسئلہ ۵۵ ٠ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا حجت شرعيہ رکھتا ہو کہ کوئی دوسرا ميّت کے کاموں ميں مشغول ہے تو اس پر واجب نہيں ہے کہ ميّت کے کاموں کے بارے ميں اقدام کرے، ليکن اگر اسے محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔

مسئلہ ۵۵ ١ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ ميّت کا غسل، حنوط، کفن، نماز یا دفن غلط طریقے سے ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے، ليکن اگر اسے باطل ہونے کا گمان ہو یا شک کرے کہ صحيح تھا یا نہيں ، تو اس صورت ميں اقدام کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٢ غسل، حنوط، کفن، نماز اور دفن کے لئے ميت کے ولی سے اجازت لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٣ عورت کا ولی اس کا شوہر ہے اوراگر مرنے والی کسی کی بيوی نہ ہو یا مرنے والا کوئی مرد ہو تو مرنے والے کے مرد وارث اس کی وارث عورتوں پر مقدم ہيں ۔ مردوں ميں بھی جو ورثے کے اعتبار سے مقدم ہے ولی ہونے کے اعتبار سے بھی وهی مقدم ہے ۔

ليکن اگر مرنے والے کے رشتہ داروں ميں دو ایسے افراد موجود ہوں جن ميں سے ایک رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے جب کہ دوسرا ورثے کے اعتبار سے، مثلاً اگر ميت کا دادا بھی موجود ہو اور ميت کے بيٹے کا پوتا بھی تو احتياط واجب یہ ہے کہ جو ميراث کے اعتبار سے مقدم ہے ، وہ اس سے اجازت لے جو رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے ۔

مسئلہ ۵۵۴ اگر کوئی شخص کهے کہ ميں ميّت کا ولی ہوں یا ميّت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ ميّت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کهے کہ تجهيز و تکفين کے کاموں کے لئے ميں اس کا وصی ہوں اور اس کے کهنے سے اطمينان حاصل ہو جائے یا ميّت اس کے اختيار ميں ہو یا دو عادل یا ایک ایسا قابل اعتمادشخص گواہی دے جس کی بات کے برخلاف کوئی ظن بھی نہ ہو، تو اس کی بات مان لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵۵ اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن، دفن، اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے ہاتھ ميں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ولی سے بھی اجازت لے۔

اور جس شخص کو ميّت نے وصيت کی ہو وہ ميّت کی زندگی ميں وصی بننے سے منع کرسکتا ہے اور اگر قبول کرے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر ميّت کی زندگی ميں منع نہ کرے یا اس کا انکار وصيت کرنے والے تک نہ پهنچ پائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس وصيت پر عمل کرے۔

۹۳

غسل ميت کا طريقہ

مسئلہ ۵۵۶ واجب ہے کہ ميّت کو تين غسل دئے جائيں۔

(اوّل) ایسے پانی کے ساته جس ميں بيری کے پتے ملے ہوئے ہوں۔

(دوم) ایسے پانی کے ساته جس ميں کافور ملا ہوا ہو۔

(سوم) خالص پانی کے ساته۔

مسئلہ ۵۵ ٧ ضروری ہے کہ بيری اور کافور نہ اس قدر زیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اس قدر کم ہوں کہ یہ نہ کها جاسکے کہ بيری اور کافور اس پانی ميں ملائے گئے ہيں ۔

مسئلہ ۵۵ ٨ اگر بيری اور کافور اتنی مقدار ميں نہ مل سکيں جتنی کہ ضروری ہے تو احتياط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار ميّسر آئے پانی ميں ملا دی جائے۔

مسئلہ ۵۵ ٩ اگر کوئی شخص حج یا عمرے کے احرام کی حالت ميں مرجائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نہيں دے سکتے بلکہ اس کی بجائے خالص پانی سے غسل دینا ہوگا۔ مگر یہ کہ وہ حج کا احرام ہو اور سعی کو مکمل کرچکا ہو تو اس صورت ميں کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٠ اگر بيری اور کافور یا ان ميں سے کوئی ایک نہ مل سکے یا اس کا استعمال جائز نہ ہو مثال کے طور پر غصبی ہو، ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کی بجائے جس کا ملنا ممکن نہ ہو احتياط واجب کی بنا پر ميت کو بدليت کے قصد سے خالص پانی سے غسل دیا جائے اور تيمم بھی اسی قصد کے ساته کرایا جائے۔

مسئلہ ۵۶ ١ جو شخص ميّت کو غسل دے ضروری ہے کہ وہ شيعہ اثناعشری، عاقل اور بنابر احتياط بالغ ہو اور مسائل غسل کو جانتا ہو اگر چہ ان مسائل کو غسل کے دوران سيکه رہا ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٢ جو شخص غسل دے ضروری ہے کہ قربت کی نيت، جيسا کہ وضو ميں بيان ہوچکا ہے اور اخلاص رکھتا ہو اور اسی نيّت کا تيسرے غسل تک باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٣ مسلمان کے بچے کو، خواہ وہ ولدالزنا ہی کيوں نہ ہو غسل دینا واجب ہے اور کافر اور اس کی اولاد کا غسل، حنوط، کفن و دفن جائز نہيں ہے ۔ جو شخص بچپن سے دیوانہ ہو اور دیوانگی کی حالت ميں ہی بالغ ہو جائے چنانچہ اس کے ماں باپ یا ان ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو یا کسی دوسری وجہ سے اسلام کے حکم ميں ہوں تو اس کو غسل دینا ضروری ہے ، ورنہ اسے غسل دینا جائز نہيں ہے ۔

۹۴

مسئلہ ۵۶۴ اگر ایک بچہ چار مهينے یا اس سے زیادہ کا ہو کر سقط ہو جائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے اور اگر چار مهينے سے کم ہو اور اس کے بدن ميں روح بھی داخل نہ ہوئی ہو، احتياط واجب کی بنا پر اسے ایک کپڑے ميں لپيٹ کر بغير غسل دئے دفن کر دیا جائے۔

مسئلہ ۵۶۵ مرد کا عورت کو غسل دینا اور عورت کا مرد کو غسل دینا جائز نہيں ہے اور باطل ہے ، ليکن بيوی اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل دے سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل نہ دے۔

مسئلہ ۵۶۶ مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا ہے جو مميز نہ ہو اور عورت بھی اتنے چھوٹے بچے کو غسل دے سکتی ہے جو مميز نہ ہو۔ اگرچہ احتياط موکد یہ ہے کہ جو لڑکا یا لڑکی تين سال سے زیادہ عمر کے ہوں، تو لڑکے کو مرد اور لڑکی کو عورت غسل دے۔

مسئلہ ۵۶ ٧ اگر مرد کی ميّت کو غسل دینے کے لئے مرد نہ مل سکے تو وہ عورتيں جو اس کی قربت دار اور محرم ہوں مثلاً ماں، بهن، پهوپهی اور خالہ یا وہ عورتيں جو نکاح یا رضاعت کے سبب محرم ہوگئی ہوں اسے غسل دے سکتی ہيں ۔ اسی طرح اگر عورت کی ميّت کو غسل دینے کے لئے کوئی عورت نہ ہو تو جو مرد اس کے قرابت دار اور محرم ہوں یا نکاح یا رضاعت کے سبب اس کے محرم ہوگئے ہوں، اسے غسل دے سکتے ہيں ۔ ہاں، احتياط واجب کی بنا پر مماثل کے ہوتے ہوئے محرم کی باری نہيں آتی۔ لباس کے نيچے سے غسل دینا واجب نہيں ہے ، اگرچہ اس طرح غسل دینا احوط ہے ليکن ضروری ہے کہ شرمگاہ پر نظر نہ ڈاليں اور احتياط کی بنا پر شرمگاہ کو ڈهانپ ليں۔

مسئلہ ۵۶ ٨ اگر ميّت اور غسّال دونوں مرد ہوں یا دونوں عورت ہوں تو جائز ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن برہنہ ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٩ بيوی اور شوہر کے علاوہ ميّت کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے اور جو شخص غسل دے رہا ہو اگر وہ اس پر نظر ڈالے تو گناہ گار ہے ليکن اس سے غسل باطل نہيں ہوتا۔

“ مسئلہ ۵ ٧٠ اگر ميّت کے بدن کا کوئی حصّہ نجس ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح مسئلہ” ٣٧٨

ميں بيان ہوچکا ہے پاک کيا جائے اور بہتر یہ ہے ہر عضو کو غسل دینے سے پهلے بلکہ ميّت کے پورے بدن کو غسل شروع ہونے سے پهلے دوسری نجاسات سے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ۵ ٧١ غسلِ ميّت، غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو غسل ترتيبی دینا ممکن ہو غسل ارتماسی نہ دیاجائے اور غسل ترتيبی ميں بھی ضروری ہے کہ دا هنی طرف کو بائيں طرف سے پهلے دهویا جائے۔ ہاں، یہ اختيار ہے کہ پانی اس کے بدن پر ڈاليں یا بدن کو پانی ميں ڈبو دیں۔

۹۵

مسئلہ ۵ ٧٢ جو شخص حيض یا جنابت کی حالت ميں مرجائے اسے غسلِ حيض یا غسلِ جنابت دینا ضروری نہيں ہے بلکہ اس کے لئے صرف غسلِ ميّت کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٣ ميّت کو غسل دینے کی اُجرت لينا جائز نہيں ہے اور اگر کوئی شخص اجرت لينے کے لئے ميّت کو غسل دے تو وہ غسل باطل ہے ، ليکن غسل کے غير ضروری ابتدائی کاموں کی اجرت لينا جائز ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۴ اگر پانی ميسر نہ ہو یا اس کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ ہو تو ضروری ہے کہ ہر غسلِ ميّت کے بدلے ایک تيمم کرائے اور احتياط واجب کی بنا پر ان تين غسلوں کی بجائے ایک اور تيمم بھی کرائے اور اگر تيمم کرانے والا ان تيمم ميں سے ایک ميں مافی الذمہ کی نيت کرے، یعنی نيت کرے کہ یہ تيمم اپنی شرعی ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے کروا رہا ہوں جو مجھ پر واجب ہے تو چوتھا تيمم ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۵ جو شخص ميّت کو تيمم کرا رہا ہو اسے چاہيے کہ اپنے ہاتھ زمين پر مارے اور ميت کے چھرے اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو ميّت کو اس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تيمم کرائے۔

کفن کے احکام

مسئلہ ۵ ٧ ۶ مسلمان ميّت کو تين کپڑوں کا کفن دینا ضروری ہے ، جنہيں لنگ، کرتہ اور چادر کها جاتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٧ لنگ اور کرتے کی واجب مقدار یہ ہے کہ عرفاً انہيں لنگ اور کرتہ کها جائے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ لنگ، ناف سے گھٹنوں تک اطراف بدن کو ڈهانپ لے اور افضل یہ ہے کہ سينے سے پاؤں تک پهنچے، جب کہ کرتے ميں ضروری ہے کہ کندہوں کے سروں سے احتياط واجب کی بنا پر آدهی پنڈليوں تک تمام بدن کو ڈهانپ دے اور افضل یہ ہے کہ پاؤں تک پهنچے۔

اورچادر کی لمبائی اتنا ہونا ضروری ہے کہ پاؤں اور سر کی طرف سے گِرہ دے سکيں اور اس کی چوڑائی اتنی ہونی چاہيے کہ اس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے پر آسکے۔

مسئلہ ۵ ٧٨ اگر وارث بالغ ہوں اور اس بات کی اجازت دیں کہ واجب کفن کی مقدار سے زیادہ جسے سابقہ مسئلہ ميں بيان کيا گيا ہے ، کو ان کے حصّے سے لے ليں تو کوئی اشکال نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفن کی واجب مقدار سے زیادہ کو نابالغ وارث کے حصّے سے نہ ليں۔

مسئلہ ۵ ٧٩ اگر کسی شخص نے وصيت کی ہو کہ کفن کی وہ مقدار جو افضل ہے اس کے تھائی مال سے لی جائے یا وصيت کی ہو کہ اس کا تھائی مال خود اس پر خرچ کيا جائے ليکن اس کے مصرف کا تعين نہ کيا ہو یا صرف اس کے کچھ حصّے کا مصرف معين کيا ہو تو کفن کی افضل مقدار کو اس کے تھائی مال سے ليا جاسکتا ہے ۔

۹۶

مسئلہ ۵ ٨٠ اگر مرنے والے نے یہ وصيت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تھائی مال سے ليا جائے اور اس کے اصل مال سے لينا چاہيں تو مسئلہ” ۵ ٧٨ “ ميں بيان کئے گئے طریقے پر عمل کریں۔

مسئلہ ۵ ٨١ عورت کے کفن کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اگر چہ عورت اپنا مال بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کوطلاق رجعی دی گئی ہو اور وہ عدت ختم ہونے سے پهلے مرجائے تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے، جيسا کہ طلاق کے احکام ميں ذکر آئے گا اور اگر شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو اس کے ولی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مال سے عورت کو کفن دے، اور احتياط واجب کی بنا پر نافرمان اور جس عورت سے عقد مو قٔت کيا گيا ہو تو اس کا کفن شوہر پر ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٢ ميّت کو کفن دینا اس کے قرابت داروں پر واجب نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگرميّت کا کوئی مال نہ ہو تو اسے وہ شخص کفن دے جس کے لئے ميّت کی زندگی ميں اس کے مخارج دینا ضروری تھا۔

مسئلہ ۵ ٨٣ واجب ہے کہ مجموعی طور پر کفن کے تين کپڑے اتنا باریک نہ ہوں کہ ميّت کا بدن نيچے سے نظر آئے، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ تينوں کپڑوں ميں سے ہر کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ ميّت کا بدن اس کے نيچے سے نظر آئے۔

مسئلہ ۵ ٨ ۴ غصب کی ہوئی چيز کا کفن دینا، خواہ کوئی دوسری چيز ميّسر نہ ہو،جائز نہيں ہے اور اگر ميّت کا کفن غصبی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو تو وہ کفن اس کے بدن سے اتار لينا چاہيے خواہ اس کو دفن بھی کيا جاچکا ہو۔ اسی طرح نجس مردار کی کھال کا کفن دینا اختياری حالت ميں جائز نہيں ہے ، بلکہ مجبوری کی حالت ميں بھی نجس مردار کی کھال کا کفن دینا محل اشکال ہے ۔ اسی طرح اختياری حالت ميں پاک مردار کی کھال کا کفن دینا بھی محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۵ ميّت کو نجس چيز، احتياط واجب کی بنا پر اس نجاست کے ساته جو نماز ميں معاف ہے ، اسی طرح خالص ریشم کے کپڑے کا یا ایسے کپڑے کا جس ميں دهاگا ریشم سے زیادہ نہ ہو اور احتياط واجب کی بنا پر زردوزی سے بنائے گئے کپڑے کا کفن دینا جائز نہيں ہے ۔هاں،مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۶ ميّت کو حرام گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار کئے گئے کپڑے کا کفن دینااختياری حالت ميں احتياط واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم اس حلال گوشت جانور کی کهال سے کفن دینے کا ہے جسے شریعت کے مقررہ طریقے سے ذبح کيا گيا ہو۔ ہاں، حلال گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار شدہ کفن دینے ميں کوئی حرج نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ ان دو کا کفن بھی نہ دیا جائے۔

مسئلہ ۵ ٨٧ اگر ميّت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اسے دهونا یا اس طرح سے کاٹنا ممکن ہو کہ کفن ضائع نہ ہو تو ضروری ہے کہ اتنا مقدار کو جو نجس ہے دهویا یا کاٹا جائے، چاہے ميّت کو قبر ميں اتارا جاچکا ہو اور اگر

۹۷

اس کا دهونا یا کاٹنا ممکن نہ ہو ليکن تبدیل کرنا ممکن ہو ضروری ہے کہ اسے تبدیل کيا جائے۔ البتہ یہ حکم نجاست کی اتنی مقدار تک جو نماز ميں معاف ہے ،احتياط پر مبنی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٨ اگر کوئی ایسا شخص جس نے حج یا عمرہ کا احرام بانده رکھا ہو مرجائے تو اسے دوسروں کی طرح کفن دینا ضروری ہے اور اس کا سر و چہرہ ڈهانپنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٩ انسان کے لئے اپنی زندگی ميں کفن تيار کرنا مستحب ہے اور جب بھی اس پر نظر ڈالے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے ۔

حنُوط کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٠ غسل کے بعد واجب ہے کہ ميّت کو حنوط کيا جائے یعنی اس کی پيشانی، دونوں ہتھيليوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹہوں پر کافور ملا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان مقامات پر کافور کی کچھ مقدار رکھی بھی جائے۔ اسی طرح مستحب ہے کہ ميّت کی ناک پر بھی کافور ملا جائے۔ ضروری ہے کہ کافور پسا ہوا اور تازہ ہو اور اگر پرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبو زائل ہوگئی ہو تو کافی نہيں ۔

مسئلہ ۵ ٩١ احتياط مستحب یہ ہے کہ کافور، پهلے ميّت کی پيشانی پر ملاجائے ليکن دوسرے مقامات پر ملنے ميں ترتيب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٢ ميّت کو کفن پهنانے سے پهلے، کفن پهنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حُنوط کيا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٣ اگر ایسا شخص جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام بانده رکھا ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا جائز نہيں ہے ، ليکن حج کے احرام ميں اگر سعی مکمل کرنے کے بعد مرے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۴ اگر ایسی عورت جس کا شوہر مرگيا ہو اور ابهی اس کی عدت باقی ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۵ احتياط واجب یہ ہے کہ ميّت کو مشک، عنبر، عود اور دوسری خوشبوئيں نہ لگائيں اور ان خوشبوؤں کو کافور کے ساته بھی نہ ملائيں۔

مسئلہ ۵ ٩ ۶ مستحب ہے کہ تربت سيدالشهداء امام حسين عليہ السلام کی کچھ مقدار کافور ميں ملائی جائے، ليکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نہيں لگاسکتے جهاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ خاک شفا اتنی زیادہ نہ ہو کہ جب کافور کے ساته مل جائے تو اسے کافور نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ۵ ٩٧ اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی ہو تو حنوط ضروری نہيں اور اگر غسل کی ضرورت سے زیادہ ہو ليکن تمام سات اعضاء کے لئے کافی نہ ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ پهلے پيشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پرملا جائے۔

مسئلہ ۵ ٩٨ مستحب ہے کہ دو ترو تازہ ٹہنياں ميّت کے ساته قبر ميں رکھی جائيں۔

۹۸

نمازِ ميّت کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٩ ہر مسلمان کی اور ایسے بچے کی ميّت پر جو اسلام کے حکم ميں ہو اور پورے چھ

سال کا ہوچکا ہو، نماز پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٠ ایسے بچے کی ميّت پر جو چھ سال کا نہ ہوا ہو رجاء کی نيّت سے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن مردہ پيدا ہونے والے بچے پر نماز پڑھنا،مشروع نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠١ ميّت کی نماز، اسے غسل دینے، حنوط کرنے اور کفن پهنانے کے بعد پڑھنی چاہئے اور اگر ان امور سے پهلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایسا کرنا خواہ بھول چوک یا مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر ہی کيوں نہ ہو، کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٢ جو شخص نمازِ ميّت پڑھنا چاہے ضروری نہيں کہ اس نے وضو یا غسل یا تيمم کر رکھا ہو اور اس کا بدن و لباس پاک ہو ں، بلکہ اگر اس کا لباس غصبی ہو تب بھی نمازِ ميّت کے لئے کوئی حرج نہيں ۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان تمام چيزوں کا لحاظ رکھے جو دوسری نماز وں ميں لازمی ہيں ، ليکن احتياطِ واجب کی بنا پر ان چيزوں سے پر هيز ضروری ہے جو اہل شرع کے درميا ن رائج نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٣ جو شخص نمازِ ميّت پڑھ رہا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ قبلہ رخ ہو ۔ یہ بھی واجب ہے کہ ميّت کو نماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ ميّت کا سر نماز پڑھنے والے کے دائيں طرف اور پاؤں اس کے بائيں طرف ہو ں۔

مسئلہ ۶ ٠ ۴ احتياط مستحب کی بنا پر جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ غصبی نہ ہو، ليکن ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ ميّت کے مقام سے اونچی یا نيچی نہ ہو ۔هاں، اگر معمولی پستی یا بلندی ہو تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۵ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت سے دور نہ ہو، ليکن جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو اور وہ ميّت سے دور ہو جب کہ صفيں آپس ميں متصل ہو ں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۶ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت کے سامنے کهڑا ہو ليکن اگر نماز باجماعت پڑھی جائے اور جماعت کی صف ميّت کے دونوں طرف سے گزر جائے تو ان لوگوں کی نماز ميں جو ميّت کے سامنے نہ ہوں، کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٧ ضروری ہے کہ ميّت اور نماز پڑھنے والے کے درميا ن پر دہ، دیوار یا کوئی ایسی چيز حائل نہ ہو ۔ ہاں، اگر ميّت تابوت یا اس جيسی کسی اور چيز ميں رکھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٨ نمازپڑھتے وقت ضروری ہے کہ ميّت کی شرمگاہ ڈهکی ہو ئی ہو اور اگر اسے کفن پهنانا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی شرمگاہ کو، چاہے لکڑی کے تختے، اینٹ یا انهی جيسی کسی چيز سے ڈهانپ دیں۔

۹۹

مسئلہ ۶ ٠٩ نمازِ ميّت پڑھنے والے کا مومن ہونا ضروری ہے ۔ غير بالغ کی نماز اگر چہ صحيح ہے ليکن بالغين کی نماز کی جگہ نہيں لے سکتی۔ ضروری ہے کہ نمازِ ميّت کھڑے ہو کر، قربت کی نيت و اخلاص سے پڑھے۔ نيت کرتے وقت ميت کو معين کرے مثلاً نيت کرے: نماز پڑھتا ہو ں اس ميّت پر قربةً الی الله۔

مسئلہ ۶ ١٠ اگر کوئی کھڑے ہو کر نمازِ ميّت پڑھنے والا نہ ہو تو بيٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ۶ ١١ اگر مرنے والے نے وصيّت کی ہو کہ کوئی معين شخص اس کی نماز پڑھائے، احتياط مستحب ہے کہ وہ شخص ميّت کے ولی سے اجازت لے اور ولی بھی اجازت دے دے۔

مسئلہ ۶ ١٢ ميّت پر چند مرتبہ نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ۶ ١٣ اگر ميّت کو جان بوجه کر یا بھول چوک کی وجہ سے یا کسی عذر کی بنا پر بغير نماز پڑھے دفن کر دیا جائے تو جب تک اس کا بدن متلاشی نہ ہو ا ہو واجب ہے کہ نمازِ ميّت کے سلسلے ميں مذکورہ شرائط کے ساته اس کی قبر پر نماز پڑہيں ۔یهی حکم اس وقت ہے جب اس پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہو ۔

نمازِ ميّت کا طريقہ

مسئلہ ۶ ١ ۴ نمازِ ميّت ميں پانچ تکبيریں ہيں اور اگر نماز پڑھنے والا اس ترتيب کے ساته پانچ تکبيریں کهے تو کافی ہے :

نيت کرنے اور پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰه

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّد

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَات

چوتھی تکبير کے بعد اگر ميّت مرد ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذَا الْمَيِّت

اور اگر ميّت عورت ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذِهِ الْمَيِّت

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

۱۰۰

اور بہتر یہ ہے کہ پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَرْسَلَه بِالْحَقِّ بَشِيْراً وَّ نَذِیْرا بَيْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّارْحَمْ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ کَاَفْضَلِ مَا صَلَّيْتَ وَ بَارَکْتَ وَ تَرَحَّمْتَ عَلیٰ اِبْرَاهِيْمَ وَ آلِ اِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ وَّ صَلِّ عَلیٰ جَمِيْعِ الْاَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِيْنَ و الشُّهَدَاءِ وَالصِّدِّیْقِيْنَ وَ جَمِيْعِ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْن

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ الْاَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَالْاَمْوَاتِ تَابِعْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُم بِالْخَيْرَاتِ إِنَّکَ مُجِيْبُ الدَّعَوَاتِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر

اگر ميّت مرد ہو تو چوتھی تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذَا عَبْدُکَ وَ ابْنُ عَبْدِکَ وَ ابْنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنْتَ خَيْرُ مَنْزُوْلٍ بِه اَللّٰهُمَّ اِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهُ اِلا خَيْراً وَّ ا نَْٔتَ اَعْلَمُ بِه مِنَّا اَللّٰهُمَّ اِنْ کَانَ مُحْسِناً فَزِدْ فِی اِحْسَانِه وَ اِنْ کَانَ مُسِئْياً فَتَجَاوَزْ عَنْهُ وَ اغْفِرْ لَه اَللّٰهُمَّ اجْعَله عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّيِّيْنَ وَ اخْلُفْ عَلٰی اهله فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْهُ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

ليکن اگر ميّت عورت ہو تو چوتھی تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذِه اَمَتُکَ وَ ابْنَةُ عَبْدِکَ وَ ابْنةُ اَمَتِکَ نَزَلَتْ بِکَ وَاَنْتَ خَيْرُ مَنْزُوْلٍ بِه اَللّٰهُمَّ اِنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْهَا اِلا خَيْراً وَّ ا نَْٔتَ اَعْلَمُ بِهَا مِنَّا اَللّٰهُمَّ اِنْ کَانَتْ مُحْسِنَةً فَزِدْ فِی اِحْسَانِهَا وَ اِنْ کَانَتْ مُسِيْئَةً فَتَجَاوَزْ عَنْهَا وَ اغْفِرْ لَهَا اَللّٰهُم اجْعَلْهَا عِنْدَکَ فِیْ اَعْلیٰ عِلِّيِّيْنَ وَ اخْلُفْ عَلٰی اهلها فِی الْغَابِرِیْنَ وَارْحَمْها بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْن

مسئلہ ۶ ١ ۵ ضروری ہے کہ تکبيریں اور دعائيں یکے بعد دیگرے اس طرح پڑہيں کہ نماز اپنی شکل نہ کهو دے۔

مسئلہ ۶ ١ ۶ جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو خواہ مقتدی ہی کيوں نہ ہو اس کے لئے تکبيریں اور دعائيں پڑھنا ضروری ہے ۔

۱۰۱

نمازِ ميّت کے مستحبات

مسئلہ ۶ ١٧ چند چيزیں نمازِ ميّت ميں مستحب ہيں :

١) جو شخص نمازِ ميّت پڑھے وہ وضو یا غسل یا تيمم کرے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ تيمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرنا ممکن نہ ہو یا اس بات کا خدشہ ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے گا تو نماز ميں شریک نہ ہو سکے گا۔

٢) اگر ميّت مرد ہو تو امام یا جو شخص اکيلا ميّت پر نماز پڑھ رہا ہو ميّت کے شکم کے سامنے کهڑا ہو اور اگر ميّت عورت ہو تو اس کے سينے کے سامنے کهڑا ہو ۔

٣) نماز ننگے پاؤں پڑھے۔

۴) ہر تکبير ميں ہاتھوں کو بلند کرے۔

۵) ميّت اور نماز ی کے درميا ن فاصلہ اتنا کم ہو کہ اگر ہو ا نماز ی کے لباس کو حرکت دے تو وہ جنازے کو چھو جائے۔

۶) نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھی جائے۔

٧) امام تکبيریں اور دعائيں بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آهستہ پڑہيں ۔

٨) نماز جماعت ميں مقتدی اگر چہ ایک شخص ہی کيوں نہ، ہو امام کے پيچهے کهڑا ہو ۔

٩) نماز پڑھنے والا ميّت اور مومنين کے لئے کثرت سے دعا کرے۔

١٠ ) نماز کو ایسی جگہ پڑہيں جهاں نمازِ ميّت کے لئے لوگ زیا دہ جاتے ہو ں۔

١١ ) اگر حائضہ عورت نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھے تو ایک صف ميں اکيلی کهڑی ہو ۔

مسئلہ ۶ ١٨ مسجدوں ميں نمازِ ميّت پڑھنا مکروہ ہے ليکن مسجد الحرام ميں پڑھنا مکروہ نہيں ہے ۔

دفن کے احکام مسئلہ ۶ ١٩ ميّت کو اس طرح زمين ميں دفن کرنا واجب ہے کہ اس کی بو باہر نہ آئے اور درندے بھی اس کا بدن باہر نہ نکال سکيں اور اگر اس بات کا خوف ہو کہ جانور اس کا بدن باہر نکا ل ليں گے تو قبر کو اینٹوں اور اس جيسی چيزوں سے پختہ کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٠ اگر ميّت کو زمين ميں دفن کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے دفن کرنے کی بجائے کسی ایسی تعمير شدہ جگہ یا تابوت ميں رکھا جائے جس سے دفن کا مقصد حاصل ہو سکے۔

مسئلہ ۶ ٢١ ميّت کو قبر ميں دائيں پهلو اس طرح لٹانا ضروری ہے کہ اس کے بدن کا سامنے والا حصّہ قبلہ رخ ہو۔

۱۰۲

مسئلہ ۶ ٢٢ اگر کوئی شخص کشتی ميں مرجائے اور اس کی ميت کے خراب ہو نے کا امکا ن نہ ہو اور اسے کشتی ميں رکھنے ميں کوئی امر مانع نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کریں تا کہ خشکی تک پهنچ کر اسے زمين ميں دفن کریں، ورنہ ضروری ہے کہ اسے کشتی ميں غسل دیں، حنوط کریں اور کفن پهنائيں اور نمازِ ميّت پڑھنے کے بعد اسے مرتبان ميں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیں اور اسے سمندر ميں ڈال دیں اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ جهاں تک ممکن ہو قبلہ رخ ہو نے کا خيا ل رکہيں ۔

اور اگر ممکن نہ ہو تو کوئی بهاری چيز اس کے پاؤں ميں بانده کر سمندر ميں ڈال دیں اور ممکنہ صورت ميں اسے ایسی جگہ ڈاليں جهاں جانور اسے فوراً لقمہ نہ بناليں۔

مسئلہ ۶ ٢٣ اگر اس بات کا خوف ہو کہ دشمن قبر کهود کر ميّت کو باہر نکا ل لے گا اور کا ن یا ناک یا دوسرے اعضاء کاٹ لے گا، تو اگر ممکن ہو تو سابقہ مسئلے ميں بيا ن کئے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر ميں ڈال دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢ ۴ اگر ميّت کو سمندر ميں ڈالنا یا اس کی قبر پختہ کرنا ضروری ہو تو اس کے اخراجات ميّت کے اصل مال سے لئے جائيں گے۔

مسئلہ ۶ ٢ ۵ اگر کوئی کا فر عورت مرجائے اور اس کے پيٹ ميں مرا ہو ا بچہ ہو اور اس بچے کا باپ مسلمان ہو تو اس عورت کو قبر ميں بائيں پهلو قبلے کی طرف پيٹھ کر کے لٹانا ضروری ہے تا کہ بچے کا منہ قبلے کی طرف ہو اور اگر پيٹ ميں موجود بچے کے بدن ميں ابهی جان نہ پڑی ہو تب بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢ ۶ مسلمان کو کفار کے قبرستان ميں دفن کرنا اور کا فر کو مسلمانوں کے قبرستان ميں دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٧ مسلمان کو ایسی جگہ جهاں اس کی بے حرمتی ہو تی ہو مثلاً جهاں کوڑا کرکٹ اور گندگی پھينکی جاتی ہو، دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٨ ميّت کو غصبی زمين یا ایسی زمين ميں جو دفن کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کے لئے وقف کی گئی ہو، دفن کرنا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٢٩ ميّت کو کسی دوسرے مردے کی قبر ميں دفن کرنا، جب کہ اس وجہ سے غير کے حق ميں تصرف ہو رہا ہو یا ایسی قبر کو کهودنا پڑ رہا ہو جس ميں ميّت ابهی باقی ہے یا ميّت کی بے حرمتی ہو رہی ہو، جائز نہيں ہے ۔هاں، اس کے علاوہ صورتو ں ميں مثلاً قبر پر انی ہو گئی ہو اور پهلی ميّت کا نشان باقی نہ رہا ہو یا قبر پهلے ہی کهودی جا چکی ہو، تو دفن کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٣٠ ميّت سے جدا ہو نے والی چيز اگر اس کے بدن کا حصّہ ہو تو ضروری ہے کہ ميّت کے ساته دفن ہو اور اگر بال، ناخن اور دانت ہو ں تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ميّت کے ساته دفن ہو ں اور جو ناخن اور دانت انسان کی زندگی ميں ہی اس سے جدا ہو جائيں انہيں دفن کرنا مستحب ہے ۔

۱۰۳

مسئلہ ۶ ٣١ اگر کوئی شخص کنویں ميں مرجائے اور اسے باہر نکا لنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ کنویں کا منہ بند کر کے اس کنویں کو ہی اس کی قبر قرار دیں۔

مسئلہ ۶ ٣٢ اگر بچہ ماں کے پيٹ ميں مرجائے اور اس کا پيٹ ميں رہنا ماں کی زندگی کے لئے خطرناک ہو تو ضروری ہے کہ اسے آسان ترین طریقے سے باہر نکا ليں اور اگر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر مجبور ہو ں تو ایسا کرنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ۔هاں، یہ ضروری ہے کہ اگر اس عورت کا شوہر اہل فن ہو تو وہ بچے کو باہر نکا لے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی اہل فن عورت کے ذریعے نکا ليں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایسا محرم مرد نکا لے جو اہل فن ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو نامحرم مرد جو اہل فن ہو بچے کو باہر نکا لے اور اگر ایسا شخص بھی موجود نہ ہو تو پھر جو اہل فن نہ ہو، بتائی گئی ترتيب کا خيا ل رکھتے ہو ئے بچے کو باہر نکا ل سکتا ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣٣ اگر ماں مرجائے اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو، تو چاہے اس بچے کے زندہ رہنے کی اميد نہ ہو تب بھی ضروری ہے کہ ان اشخاص کے ذریعے جن کا ذکر سابقہ مسئلے ميں ہو چکا ہے ، ترتيب کا لحاظ رکھتے ہو ئے اس کے پيٹ کی اس جگہ کو چاک کریں جو بچے کی سلامتی کے لئے بہتر ہو اور بچے کو باہر نکا ليں اور ميت کو غسل دینے کے لئے اس جگہ کو دوبارہ ٹانکے لگا دیں۔

دفن کے مستحبات

مسئلہ ۶ ٣ ۴ مستحب ہے کہ قبر کو ایک متو سط انسان کے قد کے لگ بھگ کهودیں اور ميّت کو نزدیکی ترین قبرستان ميں دفن کریں، مگر یہ کہ دور والا قبرستان کسی وجہ سے بہتر ہو مثلاً وہاں نيک لوگ دفن کئے گئے ہو ں یا لوگ وہاں اہل قبور پر فاتحہ پڑھنے زیا دہ جاتے ہو ں۔

یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ کو قبر سے چند گز دور زمين پر رکھ دیں اور تين دفعہ ميں تهوڑا تهوڑا کر کے قبر کے نزدیک لے جائيں اور ہر مرتبہ زمين پر رکہيں اور پھر اٹھ اليں اور چوتھی مرتبہ قبر ميں اتار دیں اور اگر ميّت مرد ہو تو تيسری دفعہ زمين پر اس طرح رکہيں کہ اس کا سر قبر کی نچلی طرف ہو اور چوتھی دفعہ سر کی طرف سے قبر ميں داخل کریں۔ اور اگر ميّت عورت ہو تو تيسری دفعہ اسے قبر کے قبلے کی طرف رکہيں اور پهلو کی طرف سے قبر ميں اتار دیں اور قبر ميں اتارتے وقت ایک کپڑا قبر کے اُوپر تان ليں۔

یہ بھی مستحب ہے کہ جنازہ آرام کے ساته تابوت سے نکا ليں اور قبر ميں داخل کریں۔ اسی طرح وہ دعائيں جنہيں پڑھنے کے لئے کها گيا ہے دفن کرنے سے پهلے اور دفن کرتے وقت پڑہيں ۔ ميّت کو قبر ميں رکھنے کے بعد اس کے کفن کی گرہيں کھول دیں، اس کا رخسار زمين پر رکھ دیں، اس کے سر کے نيچے مٹی کا تکيہ بنا دیں، اس کی پيٹھ کے نيچے کچی اینٹيں یا ڈهيلے رکھ دیں تا کہ ميّت چت نہ ہو جائے اور اس سے پهلے کہ قبر بند کریں، کوئی ایک شخص اپنا دایا ں ہاتھ ميّت کے دائيں کندهے پر مارے، بایا ں ہاتھ زور سے ميّت کے بائيں کندهے پر رکھے، منہ اس کے کا ن کے قریب لے جائے، اسے زور سے حرکت دے اور تين دفعہ کهے:

۱۰۴

إِسْمَعْ إِفْهَمْ یَا فلان ابن فلان اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام لے، مثلاً اگر اس کا اپنا نام محمد اور اس کے باپ کا نام علی ہو تو تين دفعہ کهے:

إِسْمَعْ إِفْهَمْ یَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلی اس کے بعد کهے:

هَلْ ا نَْٔتَ عَلَی الَعَهْدِ الَّذِیْ فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ مِنْ شَهَادَةِ ا نَْٔ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَ ا نََّٔ مُحَمَّدا صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ عَبْدُه وَ رَسُوْلُه وَ سَيِّدُ النَّبِيِّيْنَ وَ خَاتَمُ الْمُرْسَلِيْنَ وَ اَنَّ عَلِياًّ اَمِيْرُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ سَيِّدُ الْوَصِيِّيْن وَ اِمَامٌ افْتَرَضَ اللّٰهُ طَاعَتَه عَلَی الْعَالَمِيْنَ وَاَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ وَ عَلِیَّ بَنَ الْحُسَيْنِ و مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ جَعْفَرَ بْن مُحَمَّدٍ وَّ مُوْسَی بْنَ جَعْفَرٍ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُوْسٰی وَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَّ عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ وَّالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ وَّالْقَائِمَ الْحُجَّةَ الْمَهْدِیَّ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اَئِمَّةُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ حُجَجُ اللّٰهِ عَلَی الْخَلْقِ اَجْمَعِيْنَ وَاَئِمَّتُکَ اَئِمَّةُ هُدیً ا بَْٔرَارٌ یَا فلان بن فلان اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام لے اور اس کے بعد کهے:

اِذَا اَتَاکَ الْمَلَکَانِ الْمُقَرَّبَانِ رَسُوْلَيْنِ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ وَ سَئَلاَ کَ عَنْ رَبِّکَ وَ عَنْ نَّبِيِّکَ و عَنْ دِیْنِکَ وَ عَنْ کِتَابِکَ وَ عَنْ قِبْلَتِکَ وَ عَنْ اَئِمَّتِکَ فَلاَ تَخَفْ وَلاَ تَحْزَنْ وَ قُلْ فِی جَوَابِهِمَا اَللّٰهُ رَبِّی وَ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ نَبِيِّیْ وَالْاِسْلاَمُ دِیْنِیْ وَالْقُرْآنُ کِتَابِیْ وَالْکَعْبَةُ قِبْلَتِیْ وَ اَمِيْرُالْمُوْمِنِيْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب اِمَامِیْ وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْمُجْتَبیٰ اِمَامِیْ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِیٍّ الشَّهِيْدُ بِکَرْبَلاَ اِمَامِیْ وَ عَلِیٌّ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ اِمَامِیْ و مُحَمَّدٌ الْبَاقِرُ اِمَامِیْ وَ جَعْفَرٌ الصَّادِقُ اِمَامِیْ وَ مُوْسَی الْکَاظِمُ اِمَامِیْ وَ عَلِیٌّ الرِّضَا اِمَامِیْ وَ مُحَمَّدٌ الْجَوَادُ اِمَامِی وَعَلِیٌّ الْهَادِیْ اِمَامِیْ وَ الْحَسَنُ الْعَسْکَرِیْ اِمَامِیْ وَالْحُجَّةُ الْمُنْتَظَرُ اِمَامِیْ هٰؤُلاَءِ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اَئِمَّتِیْ وَ سَادَتِی وَ قَادَتِیْ وَ شُفَعَائِیْ بِهِمْ ا تََٔوَلیّٰ وَ مِنْ اَعْدَائِهِمْ ا تََٔبَرَّءُ فِی الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ثُمَّ اعْلَمْ یَا فلان بن فلان

اور فلان ابن فلان کی جگہ ميّت اور اس کے باپ کا نام ليںاور اس کے بعد کهے:

اَنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ نِعْمَ الرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ نِعْمَ الرَّسُوْلُ وَاَنَّ عَلِیَّ بْنَ ا بَِٔی طَالِبٍ وَّ اَوْلاَدَهُ الْمَعْصُوْمِيْنَ الْاَئِمَّةَ الْاِثْنٰی عَشَرَ نِعْمَ الْا ئَِٔمَّةُ وَ اَنَّ مَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ حَقٌّ و اَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَّ سُؤَالَ مُنْکَرٍ وَّ نَکِيْرٍ فِی الْقَبْرِ حَقٌّ وَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَّ النُّشُوْرَ حَقٌّ وَّ الصِّرَاطَ حَقٌّ وَّ الْمِيْزَانَ حَقٌّ و تَطَایُرَ الْکُتُبِ حَقٌّ وَّ اَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لاَّ رَیْبَ فِيْهَا وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْر پھر کهے:

ا فََٔهِمْتَ یَا فلان اور فلان کی جگہ ميّت کا نام لے اور اس کے بعد کهے:

ثَبَّتَکَ اللّٰهُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ وَ هَدَاکَ اللّٰهُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ عَرَّفَ اللّٰهُ بَيْنَکَ وَ بَيْنَ ا ؤَْلِيَائِکَ فِی مُسْتَقَر مِّنْ رَّحَمْتِه

۱۰۵

اس کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ وَاصْعَدْ بِرُوْحِه اِلَيْکَ وَ لَقَّه مِنْکَ بُرها ناً اَللّٰهُمَّ عَفْوَکَ عَفْوَک

مسئلہ ۶ ٣ ۵ مستحب ہے کہ جو شخص ميّت کو قبر ميں اُتارے وہ با طهارت، برہنہ سر اور ننگے پاؤں ہو، ميّت کی پائنتی کی طرف سے قبر سے باہر نکلياور مستحب ہے کہ قبر سے باہر آنے کے بعد کهے:

اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبّ الْعَالَمِيْنَ اَللّٰهُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَه فِی اَعْلٰی عِلِّيِّيْنَ وَاخْلُفْ عَلیٰ عَقِبِه فِی الْغَابِرِیْنَ (وَعِنْدَکَ نَحْتَسِبُه) یَا رَبَّ الْعَالَمِيْن اور مستحب ہے کہ ميّت کے عزیز و اقرباء کے علاوہ جو لوگ موجود ہو ں وہ ہاتھ کی پشت سے قبر پر مٹی ڈاليں۔یہ بھی مستحب ہے کہ اگر ميّت عورت ہو تو اس کا محرم اسے قبر ميں اُتارے اور اگر کوئی محرم نہ ہو تو اس کے عزیز و اقرباء اسے قبر ميں اُتاریں۔

مسئلہ ۶ ٣ ۶ مستحب ہے کہ قبر مربع یا مربع مستطيل بنائی جائے، اسے زمين سے تقریباً چار انگليوں کے برابر اٹھ ایا جائے اور اس پر کوئی نشانی رکھی جائے تاکہ پهنچاننے ميں غلطی نہ ہو ۔ قبر پر پانی چھڑکا جائے اور پانی چھڑکنے کے بعد جو لوگ موجود ہو ں وہ اپنے ہاتھ قبر پر رکہيں ، انگلياں کھول کر قبر کی مٹی ميں گاڑیں اور سات دفعہ سورہ مبارکہ انا انزلناہ پڑہيں ، ميّت کے لئے طلب مغفرت کریں اور وارد شدہ دعائيں پڑہيں ، مثال کے طور پر یہ دعا:

اَللّٰهُمَّ جَافِ الْاَرْضَ عَنْ جَنْبَيْهِ وَاصْعَدْ (صَعِّدْ) رُوْحَه اِلیٰ اَرْوَاحِ الْمُوْمِنِيْنَ فِی عِلِّيِّيْنَ وَاَلْحِقْهُ بِالصَّالِحِيْن

مسئلہ ۶ ٣٧ مستحب ہے کہ تشييع جنازہ کے لئے آئے ہو ئے لوگوں کے چلے جانے کے بعد ميّت کا ولی یا وہ شخص جسے ولی اجازت دے ميّت کو ان دعاؤں کی تلقين کرے جو بتائی گئی ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٣٨ مستحب ہے کہ دفن کے بعد ميّت کے پسماندگان کو پر سہ دیا جائے، ليکن اگر اتنی مدت گذر چکی ہو کہ پر سہ دینے سے ان کا دکه تازہ ہو جائے تو پر سہ نہ دینا بہتر ہے ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ ميّت کے اہل خانہ کے لئے تين دن تک کھانا بھيجا جائے اور ان کے پاس بيٹھ کر کھانا کھانا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ۶ ٣٩ مستحب ہے کہ انسان عزیز و اقرباء کی موت پر خصوصاً بيٹے کی موت پر صبر کرے، جب بھی ميّت کو یاد کرے( اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيه رَاجِعُوْنَ ) پڑھے، ميّت کے لئے قرآن کی تلاوت کرے، قبر کو پختہ بنائے تا کہ جلدی خراب نہ ہو اور ماں باپ کی قبر پر خداوند متعال سے حاجات طلب کرے۔

مسئلہ ۶۴ ٠ کسی کی موت پر انسان کے لئے اپنے چھرے و بدن کو زخمی کرنا یا اپنے آپ کو نقصان پهنچانا، جب کہ اس کی وجہ سے قابل ذکر نقصان پهنچ رہا ہو، جائز نہيں ہے ۔ اگر چہ ضرر نہ بھی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ترک کرے۔

۱۰۶

مسئلہ ۶۴ ١ احتياط واجب کی بنا پر باپ اور بهائی کے علاوہ کسی اور کی موت پر گریبان چاک کرنا جائز نہيں ہے ليکن باپ اور بهائی کی مصيبت ميں ایسا کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶۴ ٢ اگر عورت ميّت کے سوگ ميں اپنا چہرہ زخمی کر کے خون آلود کرلے یا بال نوچے تو احتياط مستحب کی بنا پر ایک غلام آزاد کرے یا دس فقيروں کو کھانا کهلائے یا انہيں کپڑے پهنائے۔ اسی طرح اگر مرد اپنی بيوی یا فرزند کی موت پر اپنا گریبان چاک کرے یا لباس پهاڑے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶۴ ٣ احتياط مستحب یہ ہے کہ ميّت پر روتے وقت آواز زیا دہ بلند نہ کی جائے۔

نمازِ وحشت

مسئلہ ۶۴۴ مستحب ہے کہ ميّت کے دفن کے بعد پهلی رات کو اس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے۔ اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پهلی رکعت ميں سورہ حمد کے بعد ایک دفعہ آیت الکرسی اور دوسری رکعت ميں سورہ حمد کے بعد دس دفعہ سورہ انا انزلناہ پڑھا جائے اور نماز کے سلام کے بعد کها جائے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ ابْعَثْ ثَوَابَهَا اِلیٰ قَبْرِ فُلان اور لفظ فلان کی بجائے ميّت کا نام ليا جائے۔

مسئلہ ۶۴۵ ميّت کے دفن کے بعد پهلی رات کو کسی بھی وقت نمازِ وحشت پڑھی جاسکتی ہے ، ليکن بہتر یہ ہے کہ اوّل شب ميں نماز عشا کے بعد پڑھی جائے۔

مسئلہ ۶۴۶ اگرميّت کو کسی دور کے شہر لے جانا ہو یا کسی اور وجہ سے اس کے دفن ميں تاخير ہو جائے تو نمازِ وحشت کو دفن کی پهلی رات تک ملتو ی کرنا ضروری ہے ۔

نبشِ قبر

مسئلہ ۶۴ ٧ کسی مسلمان کی قبر نبش کرنا، یعنی اس کی قبر کو کھولنا، خواہ وہ بچہ یا دیوانہ ہی کيوں نہ ہو حرام ہے ۔ ہاں، اگر اس کا بدن ختم ہو چکا ہو اور ہڈیا ں مٹی بن چکی ہو ں تو پھر کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶۴ ٨ امام زادگان، شهدا، علما اور اس کے علاوہ ہر اس مقام پر جهاں قبر کھولنا بےحرمتی کا باعث ہو، حرام ہے ، خواہ انہيں فوت ہو ئے سالهاسال گزرچکے ہو ں۔

مسئلہ ۶۴ ٩ چند صورتو ں ميں قبر کا کھولنا حرام نہيں ہے :

١) ميّت کو غصبی زمين ميں دفن کيا گيا ہو اور زمين کا مالک اس کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہو ۔

٢) کفن یا کوئی اور چيز جوميّت کے ساته دفن کی گئی ہو غصبی ہو اور اس کا مالک اس بات پر رضامند نہ ہو کہ وہ قبر ميں رہے۔

۱۰۷

اور اسی طرح اگر خود ميّت کے مال ميں سے کوئی چيز جو اس کے ورثاء کو ملی ہو اس کے ساته دفن ہو گئی ہو اور وارث اس بات پر راضی نہ ہو ں کہ وہ چيز قبر ميں رہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، مگر یہ کہ اس چيز کی قيمت کم ہو تو اس صورت ميں قبر کا کھولنا محل اشکا ل ہے ۔

٣) قبر کا کھولنا ميّت کی بے حرمتی کا سبب نہ ہو، جب کہ ميّت کو بغير غسل کے یا کفن پهنائے بغير دفن کيا گيا ہو یا معلوم ہو جائے کہ ميّت کا غسل باطل تھا یا اسے شرعی احکام کے مطابق کفن نہيں دیا گيا تھا یا قبر ميں قبلہ رخ نہيں لٹایا گيا تھا۔

۴) ایسا حق ثابت کرنے کے لئے ميت کا بدن دیکھنا چاہيں جوميت کے احترام سے زیا دہ اہم ہو۔

۵) ميّت کو ایسی جگہ دفن کيا گيا ہو جهاں اس کی بے حرمتی ہو تی ہو مثلاً اسے کا فروں کے قبرستان ميں یا ایسی جگہ دفن کيا گيا ہو جهاں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھينکا جاتا ہو ۔

۶) کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبر کھولی جائے جس کی اہميت قبر کھولنے سے زیا دہ ہو، مثلاً زندہ بچے کو ایسی حاملہ عورت کے پيٹ سے نکا لنا مطلوب ہو جسے دفن کر دیا گيا ہو ۔

٧) اس بات کا خوف ہو کہ ميّت کو درندہ چير پهاڑ ڈالے گا یا سيلاب اسے بهالے جائے گا یا اسے دشمن نکا ل لے گا۔

٨) ميّت کے بدن کا کوئی ایسا حصہ دفن کرنا چاہيں جو اس کے ساته دفن نہ ہو سکا ہو، ليکن احتياطِ واجب یہ ہے کہ بدن کے اس حصّے کو قبر ميں اس طرح رکہيں کہ ميّت کا بدن نظر نہ آئے۔

مستحب غسل

مسئلہ ۶۵ ٠ اسلام کی مقدس شریعت ميں بہت سے غسل مستحب ہيں جن ميں سے کچھ یہ ہيں :

١) غسلِ جمعہ: اس کا وقت صبح کی اذان کے بعد سے ظہر تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ ظہر کے قریب بجالایا جائے اور اگر کوئی شخص ظہر تک انجام نہ دے تو بہتر ہے کہ ادا و قضا کی نيت کئے بغير غروب آفتاب تک بجالائے اور اگر جمعہ کے دن غسل نہ کرے تو مستحب ہے کہ ہفتے کے دن صبح سے غروب آفتاب تک اس کی قضا بجالائے اور جو شخص جانتا ہو کہ اسے جمعہ کے دن پانی ميسر نہ ہو گا تو وہ رجاء جمعرات کے دن غسل انجام دے سکتا ہے ۔

مستحب ہے کہ انسان غسل جمعہ کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد وَّاجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّا بِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْن

۱۰۸

٢) ماہ رمضان کی پهلی، سترہو یں، انيسویں، اکيسویں، تيئيسویں اور چوبيسویں رات کا غسل۔

٣) عيدالفطر اور عيد قربان کے دن کا غسل۔ ان کا وقت صبح کی اذان سے غروب آفتاب تک ہے ، اگر چہ احوط یہ ہے کہ ظہر سے غروب کے وقت تک رجاء کی نيت سے بجالائے اور بہتر یہ ہے کہ نماز عيد سے پهلے کيا جائے۔

۴) عيدالفطر کی رات کا غسل ۔ اس کا وقت غروب کے بعد ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ رات کی باقی مدت ميں اذانِ صبح تک رجاء کی نيت سے بجا لائے۔

۵) ماہ ذی الحجہ کے آٹھ ویں اور نویں دن کا غسل اور احوط یہ ہے کہ نویں دن کا غسل زوال کے وقت کيا جائے۔

۶) اس شخص کا غسل جس نے سورج گرہن کے وقت عمداً نماز آیا ت نہ پڑھی ہو جب کہ سورج کو مکمل گرہن لگا ہو۔

٧) اس شخص کا غسل جس نے اپنے بدن کا کوئی حصہ ایسی ميّت سے مس کيا ہو جسے غسل دیا جاچکا ہو ۔

٨) احرام کا غسل۔

٩) حرم خدا ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١٠ ) مکہ مکرمہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١١ ) خانہ کعبہ کی زیا رت کا غسل۔

١٢ ) کعبہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١٣ )نحر، ذبح اور حلق (بال مونڈنے) کے لئے غسل۔

١ ۴ ) مدینہ منورہ ميں داخل ہو نے کا غسل۔

١ ۵ ) حرمِ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں داخل ہو نے کا غسل(اور اس کی حدود، عائراور وعيرنامی دو پهاڑیوں کے درميان ہے )۔

١ ۶ ) پيغمبر اکرم(ص) کی قبر مطہر سے وداع کا غسل۔

١٧ )دشمن کے ساته مباہلہ کرنے کا غسل۔

١٨ )نوزائدہ بچے کو غسل دینا۔

١٩ ) استخارہ کرنے کا غسل۔

٢٠ )طلب باران کا غسل۔

٢١ ) مکمل سورج گرہن کے وقت کا غسل۔

۱۰۹

٢٢ )حضرت سيدالشهداء عليہ السلام کی نزدیک سے زیا رت کا غسل۔

٢٣ )فسق اور کفر سے تو بہ کا غسل۔

مسئلہ ۶۵ ١ فقهاء نے مستحب غسلوں کے باب ميں بہت سے غسلوں کو ذکر فرمایا ہے جن ميں سے چند یہ ہيں :

١) رمضان المبارک کی تمام طاق راتو ں کا غسل اور اس کی آخری دهائی کی تمام راتو ں کا غسل اور اس کی تيئيسویں رات کے آخری حصّے ميں دوسرا غسل۔

٢) ماہ ذی الحجہ کے چوبيسویں دن کا غسل۔

٣) عيد نوروز کے دن، پندرہو یں شعبان، نویں اور سترہو یں ربيع الاوّل اور ذی القعدہ کے پچيسویں دن کا غسل۔

۴) اس عورت کا غسل جس نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے خوشبو استعمال کی ہو ۔

۵) اس شخص کا غسل جو مستی کی حالت ميں سوگيا ہو ۔

۶) اس شخص کا غسل جو کسی سولی چڑھے ہو ئے انسان کو دیکھنے گيا ہو اور اسے دیکھا بھی ہو، ليکن اگر اتفاقاً یا مجبوری کی حالت ميں نظر کی ہو یا مثال کے طور پر گواہی دینے گيا ہو تو غسل مستحب نہيں ہے ۔

٧) مسجد نبوی صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں داخل ہو نے کا غسل

٨) دور یا نزدیک سے معصومين عليهم السلام کی زیا رت کے لئے غسل۔

٩) عيد غدیر کے دن کا غسل۔

ليکن احوط یہ ہے کہ یہ تمام غسل رجاء کی نيت سے بجالائے جائيں۔

مسئلہ ۶۵ ٢ ان مستحب غسلوں کے ساته جن کا ذکر مسئلہ ” ۶۵ ٠ “ ميں کيا گيا ہے انسان ایسے کا م جن کے لئے وضو ضروری ہے مثلاً نماز، انجام دے سکتا ہے ليکن جو غسل رجاء کی نيت سے کئے جائيں وہ وضو کی جگہ کافی نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶۵ ٣ اگر کسی شخص کے ذمے کئی مستحب غسل ہو ں اور وہ سب کی نيت کر کے ایک غسل کرلے تو کافی ہے ۔

تيمم

سات صورتو ں ميں وضواورغسل کے بجائے تيمم کرناضروری ہے :

تيمم کی پهلی صورت

١) یہ کہ وضویا غسل کے لئے ضروری مقدارميں پانی مهيا کرناممکن نہ ہو۔

۱۱۰

مسئلہ ۶۵۴ اگر انسان آبادی ميں ہو تو ضروری ہے کہ وضواورغسل کا پانی مهيا کرنے کے لئے اتنی جستجوکرے کہ اس کے ملنے سے نااميد ہو جائے اوراگر بيا بان ميں ہو تو ناہموار زمين ميں پر انے زمانے ميں کمان سے پھينکے جانے والے ایک تير کی پروازکے برابراور ہموار زمين ميں دوبارپھينکے جانے والے تيرکے فاصلے کے برابر جستجو کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر یہ جستجودائرے کی شکل ميں ہو جس کا مرکز پانی ڈهونڈنے کی ابتدائی جگہ اور درميا نی فاصلہ تيرکی پر واز کے برابرہو ۔

مسئلہ ۶۵۵ اگر چاراطراف ميں سے بعض ہمواراوربعض ناہموارہو ں تو ضرورری ہے کہ جوطرف ہموارہو اس ميں دوتيروں کی پر واز کے برابراورجوطرف ناہموارہو اس ميں ایک تيرکی پر واز کے برابرمذکورہ بالامسئلے ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق جستجوکرے۔

مسئلہ ۶۵۶ جس طرف پانی کے نہ ہو نے کا یقين یا شرعی گواہی موجود ہو اس طرف تلاش کرناضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶۵ ٧ اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ نہ ہو اورپانی مهيا کرنے کے لئے اس کے پاس وقت ہو، اگر یقين یا شرعی گواہی ہو کہ جس فاصلے تک پانی تلاش کرناضروری ہے اس سے دورپانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ پانی حاصل کرنے کے لئے وہاں جائے، بشرطيکہ وہاں جانامشقت وضررکا باعث نہ ہو اوراگر پانی موجودهو نے کا گمان ہو، خواہ اس کا گمان قوی ہی کيوںنہ ہو جب تک اطمينان حاصل نہ ہو، جاناضروری نہيں ہے ، ليکن احوط ہے ۔

مسئلہ ۶۵ ٨ ضروری نہيں کہ انسان خودپانی کی تلاش ميں جائے بلکہ کسی اورایسے شخص کوبھيج سکتاہے جس کے کهنے پر اسے اطمينان ہو ۔ اسی طرح کسی ایسے شخص کو بھی بھيج سکتا ہے جو ثقہ ہو اور اس کے قول کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو، چاہے اس کے بتانے سے اطمينان بھی حاصل نہ ہو ۔ ان دونوں صورتو ں ميں ایک شخص کا چند اشخاص کی طرف سے جاناکافی ہے ۔

مسئلہ ۶۵ ٩ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے سامان سفر ميں یا پڑاو ڈالنے کی جگہ پر یا قافلے ميں پانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ اس قدر جستجوکرے کے اسے پانی نہ ہو نے کا یقين یا اطمينان ہو جائے یا اس کے حصول سے نااميد ہو جائے۔

مسئلہ ۶۶ ٠ اگرشخص نماز کے وقت سے پهلے، تلاش کرنے کے باوجود پانی حاصل نہ کرپائے اورنماز کے وقت تک وہيں رہے، چنانچہ اسے احتما ل ہو کہ اس جگہ پانی مل جائے گا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پهلے کی جستجوپر اکتفانہ کرے، سوائے اس کے کہ وقت نماز داخل ہو نے سے کچھ پهلے اول وقت کی فضيلت کو پانے کے لئے جستجو کی ہو ۔

مسئلہ ۶۶ ١ اگر نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعدجستجوکے باوجود پانی حاصل نہ کرپائے اوربعدوالی نماز کے وقت تک اسی جگہ رہے، چنانچہ اگر احتما ل دے کہ اب وہاں پانی مل جائے گا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش ميں جائے۔

۱۱۱

مسئلہ ۶۶ ٢ اگر کسی شخص کے پاس نماز کے لئے وقت تنگ ہو یا اسے چور، ڈاکویا درندے سے جان یا اس کی حيثيت کے مطابق خاطر خواہ مال کا خوف ہو یا پانی کی تلاش اتنی کٹھن ہو کہ اس کی سختی کوبرداشت کرنا حرج کا باعث ہو تو جستجو ضروری نہيں ۔

مسئلہ ۶۶ ٣ اگر کوئی شخص پانی تلاش نہ کرے یهاں تک کہ نماز کا وقت تنگ ہو جائے تو اگر چہ وہ گنهگار ہے ، ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے ، چاہے بعد ميں معلوم ہو جائے کہ اگر پانی تلاش کرتاتو مل جاتا اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کی قضا بھی بجالائے۔

مسئلہ ۶۶۴ جس شخص کو یقين ہو کہ پانی نہيں ملے گا، چنانچہ پانی کی تلاش ميں نہ جائے اور تيمم کرکے نماز پڑھ لے اوربعد ميں معلوم ہو کہ اگر پانی تلاش کرتاتو پانی مل جاتا، اگر وقت باقی ہو تو وضوکرکے دوبارہ نماز پڑھناضروری ہے ۔

مسئلہ ۶۶۵ اگر کسی شخص کوپانی تلاش کرنے پر نہ ملے اورتيمم کے ساته نماز پڑھ لے اورنماز پڑھنے کے بعدمعلوم ہو کہ جهاں اس نے پانی تلاش کيا تھا وہاں پانی موجود تھا، تو اگر وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ وضوکرکے دوبارہ نماز پڑھے ورنہ اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ۶۶۶ جس شخص کو یقين ہو کہ نماز کا وقت تنگ ہے اگر وہ پانی تلاش کئے بغير تيمم کے ساته نماز پڑھ لے اور نماز پڑھنے کے بعد اور وقت گزرنے سے پهلے اسے پتہ چلے کہ پانی تلاش کرنے کے لئے اس کے پاس وقت تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے اور اگر وقت گزرنے کے بعد معلوم ہو تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶۶ ٧ اگر نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعد کسی شخص کا وضو باقی ہو اور جانتا ہو یا شرعی دليل مثلاً اطمينان وغيرہ ہو کہ اگر اس نے اپناوضوباطل کردیا تو دوبارہ وضو کرنے کے لئے پانی نہيں ملے گا یا وضو نہيں کر پائے گا تو اس صورت ميں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو اور اس کے لئے کسی حرج و ضرر کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے باطل نہ کرے۔

ليکن ایساشخص یہ جانتے ہو ئے بھی کہ غسل نہ کرپائے گااپنی بيوی سے جماع کرسکتاہے۔

مسئلہ ۶۶ ٨ اگر کوئی شخص نماز کے وقت سے پهلے باوضو ہو اور اسے معلوم ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کردیا تو دوبارہ پانی مهيا کرنا اس کے لئے ممکن نہيں ہو گا تو اس صورت ميں اگر وہ اپنا وضو بغير کسی حرج یا ضرر کے برقرار رکھ سکتا ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنا وضو باطل نہ کرے۔

مسئلہ ۶۶ ٩ جب کسی کے پاس فقط وضویا غسل کی مقدارميں پانی ہو اور وہ جانتا ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ اگر اسے گرادے تو پانی نہيں مل سکے گا تو اگر نماز کا وقت داخل ہو گيا ہو تو یہ پانی گراناجائز نہيں ہے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پهلے بھی نہ گرائے۔

۱۱۲

مسئلہ ۶ ٧٠ اگر کوئی شخص جانتا ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ پانی حاصل نہ کرسکے گا، نماز کا وقت داخل ہو نے کے بعدکسی ضرروحرج کے بغيراس کے لئے وضو باطل کرنا جائز نہيں یا جوپانی اس کے پاس ہے ، اسے گرانا جائز نہيں ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔

تيمم کی دوسری صورت

مسئلہ ۶ ٧١ اگر کوئی شخص کمزوری یا چور، ڈاکو اور جانور وغيرہ کے خوف سے یا کنویں سے پانی نکا لنے کے وسائل نہ ہو نے کی وجہ سے پانی حاصل نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔ اسی طرح اگر پانی مهيا کرنے یا اسے استعمال کرنے ميں اسے اتنی تکليف اٹھ انی پڑے جو ناقابل برداشت ہو تو اس صورت ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٢ اگر کسی شخص کے لئے، کنویں سے پانی نکا لنے کے لئے ڈول اوررسّی وغيرہ ضروری ہو ں اوروہ مجبور ہو کہ انہيں خریدے یا کرائے پر حاصل کرے تو خواہ ان کی قيمت عام بهاو سے کئی گنا زیا دہ ہی کيوں نہ ہو، ضروری ہے کہ مهيا کرے۔ اسی طرح اگر پانی اپنی قيمت سے مهنگا بيچا جارہا ہو تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر ان چيزوں کو مهيا کرنے کے لئے اتنا زیا دہ پيسے دینے پڑرہے ہو ں جو عسرو حرج کا باعث ہو ں تو ان چيزوں کا مهيا کرنا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٣ اگر کوئی شخص پانی مهيا کرنے کے لئے قرض لينے پر مجبور ہو تو ضروری ہے کہ قرض کرے، ليکن جو شخص جانتا ہو یا اسے اطمينان ہو کہ وہ قرضے کی ادائيگی نہ کرسکے گا تو اس کے لئے قرض لينا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧ ۴ اگر کنواں کهودنے ميں کوئی حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ انسان پانی مهيا کرنے کے لئے کنواں کهودے۔

مسئلہ ۶ ٧ ۵ اگر کوئی شخص بغير احسان کے کچھ پانی دے تو اسے قبول کرنا ضروری ہے ۔

تيمم کی تيسری صورت

مسئلہ ۶ ٧ ۶ اگر کسی شخص کو پانی استعمال کرنے سے اپنی جان کا خوف ہو یا بدن ميں کوئی بيماری یا عيب پيدا ہونے یا بيماری کے طولانی یا شدید ہو جانے یا علاج ميں دشواری پيدا ہو نے کا خوف ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تيمم کرے، ليکن اگر گرم پانی اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو گرم پانی سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۶ ٧٧ ضروری نہيں ہے کہ انسان کو یقين ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے ، بلکہ یهی کہ اسے خوف ہو کہ پانی اس کے لئے ضرر رکھتاہے اور یہ خوف عام لوگوں کی نظرميں صحيح ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٧٨ اگر کوئی شخص درد چشم ميں مبتلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

۱۱۳

مسئلہ ۶ ٧٩ اگر کوئی شخص ضرر کے یقين یا خوف کی وجہ سے تيمم کرے اور نماز سے پهلے اس بات کا پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ نہيں تو اس کا تيمم باطل ہے اور اگر اس بات کا پتہ نماز کے بعد اور وقت گزرنے سے پهلے چلے تو وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھناضروری ہے اور اگر وقت باقی نہ ہو تو قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٨٠ اگر کسی شخص کویقين یا اطمينان ہو کہ پانی اس کے لئے مضرنہيں ہے اورغسل یا وضوکرلے، بعدميں اسے پتہ چلے کہ پانی اس کے لئے مضرتها، تو اگر ضرر اتنا زیا دہ ہو کہ اس کا اقدام حرام ہو تو وضو اور غسل دونوں باطل ہيں ۔

تيمم کی چوتھی صورت

مسئلہ ۶ ٨١ جس شخص کویہ خوف ہو کہ پانی سے وضویا غسل کرلينے کے بعدان ميں سے کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، تو ضروری ہے کہ وہ تيمم کرے:

١) یہ کہ وہ خود ابهی یا بعدميں ایسی پيا س ميں مبتلا ہو جائے گا جواس کی هلاکت یا بيماری کا سبب ہو گی یا اس کا برداشت کرنااس کے لئے سخت حرج کا باعث ہو گا۔

٢) اسے خوف ہو کہ جن افراد کی حفاظت کرنااس پر واجب ہے ، وہ پيا س سے هلاک یا بيمار ہو جائيں گے۔

٣) یہ کہ کسی انسان یا حيوان کی هلاکت یا بيماری یا بيتابی جواسے گراںگزرتی ہو کا خوف ہو یا اس حيوان کی هلاکت سے اُسے خاطر خواہ نقصان ہو۔

مسئلہ ۶ ٨٢ اگر کسی شخص کے پاس پاک پانی کے علاوہ جو وضو اور غسل کے لئے ہو، نجس پانی کی اتنی مقداربهی موجود ہو جو اس کے اور اس کے ساتهيوں کے پينے کے لئے کافی ہو، ليکن ان کے لئے پانی کی نجاست ثابت ہو اور نجس پانی پينے سے پر هيز بھی کرتے ہو ں تو ضروری ہے کہ پاک پانی کوپينے کے لئے رکھ لے اورتيمم کے ساته نماز پڑھے۔ ہاں، اگر بچے یا حيوان کوپانی دیناچاہے تو ضروری ہے کہ انہيں نجس پانی د ے اورپاک پانی کے ساته وضو یا غسل کرے۔

تيمم کی پانچويں صورت

مسئلہ ۶ ٨٣ اگر کسی شخص کا بدن یا لباس نجس ہو اوراس کے پاس اتنی مقدارميں پانی ہو کہ اس سے وضویا غسل کرنے کی صورت ميں بدن یا لباس دهونے کے لئے پانی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ بدن یا لباس دهوئے اورتيمم کرکے نماز پڑھے، ليکن اگر اس کے پاس ایسی کوئی چيزنہ ہو جس پر تيمم کرے تو ضروری ہے کہ پانی کووضویا غسل کے لئے استعمال کرے اورنجس بدن یا لباس کے ساته نماز پڑھے۔

۱۱۴

تيمم کی چھٹی صورت

مسئلہ ۶ ٨ ۴ اگر کسی شخص کے پاس ایسے پانی یا برتن کے علاوہ کوئی دوسرا پانی یا برتن نہ ہو کہ جس کا استعمال کرنا حرام ہے ، مثلااس کے پاس موجودپانی یا برتن غصبی ہو اوراس کے سواکوئی دوسراپانی یا برتن نہ ہو تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کے بجائے تيمم کرے۔

تيمم کی ساتو يں صورت

مسئلہ ۶ ٨ ۵ جب وقت اتناتنگ ہو کہ اگر ایک شخص وضویا غسل کرے تو ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ شخص تيمم کرے۔ ہاں، اگر وضو یا غسل کے لئے تيمم جتنا وقت ہی صرف ہو تو اس صورت ميں ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرے۔

مسئلہ ۶ ٨ ۶ اگر کوئی شخص جان بوجه کرنماز پڑھنے ميں اتنی تاخيرکرے کہ وضویا غسل کا وقت باقی نہ رہے تو وہ گنهگار ہو گا، ليکن تيمم کے ساته اس کی نماز صحيح ہے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا وضو یا غسل کے ساته انجام دے۔

مسئلہ ۶ ٨٧ اگر کسی کوشک ہو کہ وضو یا غسل کرنے کی صورت ميں نماز کا وقت باقی رہے گا یا نہيں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٨٨ اگر کسی شخص نے وقت کی تنگی کی وجہ سے تيمم کيا ہو اورنماز کے بعدوضوکرسکنے کے باوجود نہ کرے یهاں تک کہ اس کے پاس موجودپانی ضائع ہو جائے اور اس وجہ سے اس کی ذمہ داری تيمم کرنا قرار پائے تو ضروری ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے دوبارہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٨٩ اگر کسی شخص کے پاس پانی موجود ہو ليکن وقت تنگ ہو نے کے باعث تيمم کرکے نماز پڑھنے لگے اورنماز کے دوران اس کے پاس موجودپانی ضائع ہو جائے اور اس کی ذمہ داری تيمم کرنا بن جائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ بعد کی نماز وں کے لئے دوبارہ تيمم کرے۔

مسئلہ ۶ ٩٠ اگر کسی شخص کے پاس اتنا وقت ہو کہ وضو یا غسل کرکے نماز کو اس کے مستحب اعمال مثلاً اقامت اورقنوت کے بغير پڑھ سکے، تو ضروری ہے غسل یا وضو کرے اور نماز کو مستحب اعمال کے بغير بجا لائے، بلکہ اگر سورہ پڑھنے جتنا وقت بھی نہ بچتا ہو تب بھی ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرکے بغير سورہ کے نماز پڑھے۔

۱۱۵

وہ چيزيں جن پر تيمم کرناصحيحہے

مسئلہ ۶ ٩١ مٹی، ریت، ڈهيلے، پتّھر اورہر اس چيزپر تيمم کرنا صحيح ہے جسے عرف عام ميں زمين کے اجزاء سے سمجھاجاتاہو، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ مٹی کے ہو تے ہو ئے کسی دوسری چيزپر تيمم نہ کيا جائے اوراگر مٹی نہ ہو تو ریت یا ڈهيلے پر اور اگر ریت اور ڈهيلا بھی نہ ہو تو پھر پتّھر پر تيمم کيا جائے۔

مسئلہ ۶ ٩٢ جپسم اورچونے کے پتّھرپر تيمم کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب کی بنا پر اگر ممکن ہو تو چونے اور جپسم کے پکے ہوئے پتّھراورپکی اینٹ پر تيمم نہ کرے۔هاں، فيروزے اور عقيق جيسے پتّھروں پر تيمم جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩٣ اگر کسی شخص کو مٹی، ریت، ڈهيلے، پتّھر حتیٰ جپسم اور چونے کے پتّھر بھی نہ مل سکيں، تو ضروری ہے کہ قالين اور کپڑوں پر موجود گرد و غبارپر تيمم کرے اور اگر گرد و غبار بھی نہ مل سکے تو ضروری ہے کہ تر مٹی پر تيمم کرے اور اگر تر مٹی بھی نہ مل سکے تو مستحب یہ ہے کہ تيمم کے بغيرنماز پڑھے ليکن بعد ميں اس نماز کی قضا پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩ ۴ اگر کوئی شخص قالين اور اس جيسی دوسری چيزوں کو جهاڑ کر مٹی مهيا کرسکتا ہو تو اس کا گر د و غبار پر تيمم کرنا باطل ہے اور اگر مٹی کو خشک کرکے اس سے سوکهی مٹی حاصل کرسکتاہو تو گيلی مٹی پر تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩ ۵ جس شخص کے پاس پانی نہ ہو ليکن برف موجود ہو اور اسے پگهلانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے پگهلا کر پانی بنائے اور اس سے وضو یا غسل کرے اور اگر ایساکرنا ممکن نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ا یسی چيزبهی نہ ہو جس پر تيمّم کر نا صحيح ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ برف کے ساته اعضاءِ وضو یا غسل کو تر کرکے نماز پڑھے ليکن ضروری ہے کہ اس نمازکی قضابهی پڑھے۔

مسئلہ ۶ ٩ ۶ اگر مٹی اور ریت کے ساته سوکهی گهاس کی طرح کی کوئی چيزهو ئی ہو جس پر تيمم کرناباطل ہو تو اس پر تيمم نہيں کرسکتا، ليکن اگر وہ چيزاتنی کم ہو کہ اسے مٹی یا ریت ميں نہ ہو نے کے برابرسمجھا جائے تو اس مٹی یا ریت پر تيمم صحيح ہے ۔

مسئلہ ۶ ٩٧ اگر ایک شخص کے پاس کوئی ایسی چيز نہ ہو جس پر تيمم کيا جاسکے اور اس کا خریدنا یا کسی طرح حاصل کرنا ممکن ہو اور حرج کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ خرید کریا ایسے ہی کسی طریقے سے مهيا کرے۔

مسئلہ ۶ ٩٨ مٹی کی دیوار پر تيمم کرنا صحيح ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ خشک زمين یا خشک مٹی کے ہو تے ہو ئے ترزمين یا ترمٹی پر تيمم نہ کيا جائے۔

مسئلہ ۶ ٩٩ انسان جس چيز پر تيمم کرے اس کا پاک ہوناضروری ہے اور اگر اس کے پاس ایسی کوئی پاک چيزنہ ہو جس پر تيمم کرنا صحيح ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر اس نجس چيز پر تيمم کرے اور نماز پڑھے اور ضروری ہے کہ بعدميں اس کی قضابجالائے۔

مسئلہ ٧٠٠ اگر کسی شخص کویقين ہو کہ ایک چيز پر تيمم کرناصحيح ہے اور اس پر تيمم کرلے اور بعدميں معلوم ہو کہ اس چيز پر تيمم کرنا باطل تھا تو جو نماز یں اس تيمم کے ساته پڑھی ہيں انہيں دوبارہ پڑھناضروری ہے ۔

۱۱۶

مسئلہ ٧٠١ وہ چيز جس پر تيمم کيا جائے اور وہ جگہ جهاں وہ چيز رکھی ہو، ضروری ہے کہ غصبی نہ ہو ں، پس اگر غصبی مٹی پر تيمم کرے یا اپنی مٹی بغيراجازت کے دوسرے کی ملکيت ميں رکھے اور اس پر تيمم کرے تو اس کا تيمم باطل ہے ، ليکن خود تيمم کرنے والے کی جگہ کا غصبی نہ ہوناتيمم کے صحيح ہو نے ميں معتبرنہيں ہے ۔

مسئلہ ٧٠٢ غصب کی ہو ئی فضاميں تيمم کرنا، مثال کے طورپر اگر کوئی شخص اپنی زمين ميں اپنے ہاتھ مٹی پر مارے اور پھراجازت کے بغيردوسرے کی زمين ميں داخل ہو کرہا تہوں کوپيشانی پر پهيرے، تو بنا براحتياط اس کا تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٠٣ غصبی چيزپر یا ایسی چيزپر جوغصبی جگہ رکھی ہوئی ہو، خواہ نہ جانتا ہو کہ غصبی ہے ، تيمم کرنا باطل ہے ۔ غصبی فضاميں تيمم کرنے کا بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

البتہ اگر بھول جائے یا غصب سے غافل ہو تو صحيح ہے ، سوائے اس کے کہ خودغاصب ہو اور غصب سے تو بہ نہ کی ہو کہ اس صورت ميں اگر اس کا تيمم غصبی چيزپر یا اس چيزپر ہو جو غصبی جگہ رکھی ہو تو باطل ہے ، جب کہ اگر تو بہ کرچکا ہو تو احتياط کی بنا پر باطل ہے ۔

مسئلہ ٧٠ ۴ جوشخص غصبی جگہ ميں قيد ہو اور اس جگہ کا پانی اور مٹی دونوں غصبی ہو ں تو ضروری ہے کہ تيمم کرکے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٧٠ ۵ جس چيزپر تيمم کيا جائے، احتياطِ واجب کی بنا پر ممکنہ صورت ميں ضروری ہے کہ اس پر گرد و غبار موجود ہو جو ہاتھوں پر لگ جائے اور اس ميں ہاتھ مارنے کے بعدمستحب ہے کہ ہاتھوں کوجهاڑے۔

مسئلہ ٧٠ ۶ گڑھے والی زمين، راستے پر بيٹھی ہوئی مٹی اور ایسے نمکزار پرجس پر نمک کی تہہ نہ جمی ہو، تيمم کرنا مکروہ ہے اور اگر اس پر نمک کی تہہ جم گئی ہو تو باطل ہے ۔

وضو يا غسل کے بدلے تيمم کرنے کا طريقہ

مسئلہ ٧٠٧ وضو یا غسل کے بدلے کئے جانے والے تيمم ميں چارچيزیں واجب ہيں :

١) نيت۔

٢) دونوں ہتھيليوں کوایسی چيزپر مارناجس پر تيمم کرناصحيح ہو اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ دونوں ہتھيليوں کوایک ساته مارے۔

٣) دونوں ہتھيليوں کوپوری پيشانی اور پيشانی کے دونوں طرف، جهاں سرکے بال اگتے ہيں ، سے لے کربهنوو ںٔ اور ناک کے اوپر تک پهيرنااور احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہاتھ بهنوو ںٔ پر بھی پهيرے جائيں۔

۴) بائيں ہتھيلی کودائيں ہاتھ کی تمام پشت پر اور اس کے بعددائيں ہتھيلی کوبائيں ہاتھ کی تمام پشت پر پهيرنا۔

۱۱۷

مسئلہ ٧٠٨ احتياط مستحب یہ ہے کہ تيمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے، اس طرح سے کيا جائے کہ ایک دفعہ ہاتھوں کوزمين پر مارنے کے بعد پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے۔ اس کے بعد ایک دفعہ پھر زمين پر ہاتھ مارے اور ہاتھوں کی پشت کا مسح کرے۔

تيمم کے احکام

مسئلہ ٧٠٩ اگر ایک شخص پيشانی اور ہاتھوں کی پشت کے ذراسے حصے کا بھی مسح نہ کرے تو تيمم باطل ہے ، چاہے عمدًامسح نہ کيا ہو یا مسئلہ نہ جانتاہو یا بھول گيا ہو۔ البتہ بہت زیادہ باریک بينی بھی ضروری نہيں بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ یہ کها جاسکے کہ پوری پيشانی اور دونوں ہاتھوں کی مکمل پشت کا مسح ہو چکا ہے ۔

مسئلہ ٧١٠ یہ یقين حاصل کرنے کے لئے کہ ہاتھ کی تمام پشت پر مسح کرليا ہے ، ضروری ہے کہ کلائی سے کچھ اوپر والے حصے کا بھی مسح کرے، ليکن انگليوں کے درميا ن مسح کرناضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٧١١ ضروری ہے کہ پيشانی اور ہاتھوں کی پشت کا مسح اوپر سے نيچے کی جانب کرے اور ان افعال کو پے در پے انجام دے اور اگر ان کے درميا ن اتنافاصلہ دے کہ لوگ یہ نہ کہيں کہ تيمم کررہاہے تو تيمم باطل ہے ۔

مسئلہ ٧١٢ نيت کرتے وقت یہ معين کرناضروری ہے کہ اس کا تيمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے اور اگر غسل کے بدلے ہو تو اس غسل کوبهی معين کرے۔ ہاں، اجمالاًمعين کرنا بهی، مثلاً یہ نيت کہ یہ تيمم اس چيزکے بدلے ہے جوپهلے واجب ہو ئی یا بعد ميں ، کافی ہے ۔

اور اگر اس پر ایک ہی تيمم واجب ہو اور نيت کرے کہ ميں اپنی اس وقت کی ذمہ داری انجام دے رہا ہو ں، تو صحيح ہے ، چاہے اس ذمہ داری کی پہچان ميں غلطی کرے۔

مسئلہ ٧١٣ احتياط مستحب کی بنا پر تيمم ميں پيشانی، ہتھيليوں اور ہاتھوں کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٧١ ۴ ضروری ہے کہ انسان تيمم کے لئے انگوٹھی اتاردے اور اگر پيشانی یا ہاتھوں کی پشت یا ہتھيليوں پر کوئی رکا وٹ ہو مثلاًان پر کوئی چيزچپکی ہو ئی ہو تو اسے ہٹادے۔

مسئلہ ٧١ ۵ اگر پيشانی یا ها تہوں کی پشت پر زخم ہو اور اس پر کپڑایا کوئی اور ایسی چيز بندهی ہو جسے کھولا نہ جا سکتا ہو تو ضرور ی ہے کہ اس کے اوپر ہاتھ پهيرے۔ اسی طرح اگر ہتھيلی زخمی ہو اور اس پر کپڑایا پٹی وغيرہ بندهی ہو جسے کھولانہ جاسکتاہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ہاتھوں کواسی پٹی سميت اس چيزپر مارے جس پر تيمم کرناصحيح ہے اور پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور ہاتھوں کی پشت سے بھی تيمم کرے۔

۱۱۸

مسئلہ ٧١ ۶ اگر پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر بال ہو ں تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر سرکے بال پيشانی پر آگرے ہو ں تو ضروری ہے کہ انہيں پيچهے ہٹادے۔

مسئلہ ٧١٧ اگر کسی شخص کواحتمال ہو کہ پيشانی یا ہتھيليوںيا ہاتھوں کی پشت پر کوئی رکا وٹ ہے اور یہ احتمال عام لوگوں کی نظرميں بجا ہو تو ضروری ہے کہ جستجوکرے تاکہ اسے یقين یا اطمينان ہو جائے کہ رکا وٹ موجود نہيں ہے ، بلکہ اگر ایک ایساقابل اعتماد شخص بھی اس رکا وٹ کے نہ ہونے کی خبردے، جس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، تو کافی ہے ۔

مسئلہ ٧١٨ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو، اگر وہ خودتيمم نہ کرسکتاہو، حتیٰ کہ مٹی پر ہاتھ رکھ کربهی، تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے کی مدد لے اور اگر کسی کی مددسے بھی تيمم نہيں کرسکتا تو ضروی ہے کہ نائب لے اور نائب کے لئے ضروری ہے کہ اسے خوداس کے ہاتھوں کے ساته تيمم کرائے اور اگر ایساکرناممکن نہ ہو تو نائب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں کواس چيزپر مارے جس پر تيمم کرناصحيح ہو اور پھراس کی پيشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور ضروری ہے کہ تيمم کی نيت وہ خودکرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نائب بھی نيت کرے۔

مسئلہ ٧١٩ اگر کوئی شخص تيمم کے دوران شک کرے کہ اس کا کچھ حصہ بھول گيا ہے یا نہيں اور اس حصے کا موقع گزرگيا ہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کا تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢٠ اگر کسی شخص کوبائيں ہاتھ کا مسح کرنے کے بعدشک ہو کہ آیا اس نے تيمم درست کيا ہے یا نہيں جب کہ احتمال دے کہ مسح کرتے وقت متو جہ تھاتو اس کا تيمم صحيح ہے اور اگر اس کا شک خود بائيں ہاتھ کے مسح کے بارے ميں ہو تو ضروری ہے کہ اس کا مسح کرے، مگریہ کہ جس عمل ميں طهارت شرط ہو اس ميں داخل ہو چکا ہو یا تسلسل ختم ہو گيا ہو اور اگر بائيں ہاتھ کے مسح کے صحيح ہو نے ميں شک ہو تو اس کا تيمم صحيح ہے ۔

مسئلہ ٧٢١ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو وہ نماز کے وقت سے پهلے نماز کے لئے تيمم نہيں کرسکتا، ليکن اگر کسی اور واجب کا م یا مستحب کا م کے لئے تيمم کرے اور نماز کے وقت تک عذرباقی رہے جب کہ آخروقت تک عذر زائل ہونے سے مایوس ہو تو اسی تيمم کے ساته نماز پڑھ سکتاہے ، ورنہ محل اشکا ل ہے ۔

مسئلہ ٧٢٢ جس شخص کا وظيفہ تيمم ہو اگر آخروقت تک عذر زائل ہونے سے مایوس ہو تو وقت وسيع ہو نے کی صورت ميں تيمم کے ساته نماز پڑھ سکتاہے ، ليکن اگر مایوس نہ ہو تو ضروری ہے کہ انتظار کرے، اگر عذربرطرف ہو جائے تو وضو یا غسل کے ساته نماز پڑھے ورنہ تنگی ؤقت ميں تيمم کے ساته نماز اداکرے۔

۱۱۹

مسئلہ ٧٢٣ جوشخص وضو یا غسل نہ کرسکتاہو اوراسے یقين یا اطمينان ہو کہ اس کا عذربرطرف ہو جائے گا، تو اپنی قضا نماز وں کوتيمم کے ساته نہيں پڑھ سکتا ور نہ پڑھ سکتاہے ، ليکن اگر بعدميں اس کا عذربرطرف ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کودوبارہ غسل یا وضو کے ساته اداکرے۔

مسئلہ ٧٢ ۴ جو شخص وضو یا غسل نہ کرسکتا ہو، اگر آخروقت تک عذرکے برطرف ہو نے سے مایوس ہو تو جن نوافل کا وقت معين ہے انہيں تيمم کے ساته پڑھ سکتاہے اور اگر مایوس نہ ہو احتياطِ واجب یہ ہے کہ ان نوافل کوان کے آخری وقت ميں بجالائے۔

مسئلہ ٧٢ ۵ جس شخص کا وظيفہ احتياطِ واجب کی بنا پر غسلِ جبيرہ اور تيمم ہو اگر وہ غسل اور تيمم کے بعدنماز پڑھے اور نماز کے بعداس سے حدثِ اصغر صادر ہو مثلااگر وہ پيشاب کرے تو بعدکی نماز وں کے لئے احتياطاً تيمم کرے اور وضو بھی کرے اور اگر حدث نماز سے پهلے صادر ہو تو اس نماز کے لئے بھی وضو کرکے تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢ ۶ اگر کوئی شخص پانی نہ ملنے یا کسی اور عذرکی وجہ سے تيمم کرے تو عذرکے برطرف ہو نے کے بعداس کا تيمم باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ٧٢٧ جوچيزیں وضو کوباطل کرتی ہيں وہ وضو کے بدلے کئے ہو ئے تيمم کوبهی باطل کرتی ہيں اور جوچيزیں غسل کوباطل کرتی ہيں وہ غسل کے بدلے کئے گئے تيمم کوبهی باطل کرتی ہيں ۔

مسئلہ ٧٢٨ جوشخص غسل نہ کرسکتاہو اور اس پر چندغسل واجب ہو ں، اگر ان ميں سے ایک غسل جنابت ہو تو غسل جنابت کے بدلے ایک تيمم باقی سب کے لئے کافی ہے اور اگر غسل جنابت کے علاوہ ہوں تو ضروری ہے کہ هرایک کے بدلے ایک تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٢٩ جوشخص غسل نہ کرسکتاہو اگر وہ کوئی ایساکا م انجام دیناچاہے جس کے لئے غسل واجب ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تيمم کرے اور جو شخص وضو نہ کرسکتا ہو اگر وہ کوئی ایساکا م کرنا چاہے جس کے لئے وضو واجب ہے تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے تيمم کرے۔

مسئلہ ٧٣٠ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تيمم کرے تو نماز کے لئے وضو کرناضروری نہيں ہے ، ليکن اگر دوسرے غسلوں کے بدلے تيمم کرے تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے ایک اور تيمم کرے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511