توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 15%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207658 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۴) پهلے اور دوسرے خون ميں سے تهوڑی تهوڑی مقدار عادت ميں ہو ليکن پهلی مرتبہ کا جو خون عادت ميں ہو تين دن سے کم ہو تو ضروری ہے کہ دونوں خونوں کے دوران تروک حائض اور اعمال استحاضہ ميں جمع کرے اور درميانی پاکی کے دوران تروک حائض اور افعال طاہرہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۴ ٩٠ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر عادت ميں خون نہ دیکھے اور عادت کے علاوہ کسی اور وقت اپنے حيض کے ایام کی مقدار ميں خون دیکھے تو حيض کی علامات موجود ہونے کی صورت ميں اس خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩١ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت ميں خون دیکھے جو تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس خون کے ایام کی مقدار عادت کے ایام سے کم ہو یا زیادہ ہو اور پاک ہونے کے بعد دوبارہ عادت کے ایام کے برابر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو اگر ان دونوں خون اور درميان کی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب کو حيض قرار دے اور زیادہ ہونے کی صورت ميں عادت ميں دیکھے ہوئے خون کو حيض اور باقی خون کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٢ وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو جو خون عادت کے ایام ميں دیکھا ہو وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور جو خون عادت کے ایام کے بعد دیکھا ہے استحاضہ ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات ہوں مثلاً جس عورت کی عادت مهينے کی پهلی سے ساتویں تک ہو، اگر پهلی سے بارہویں تک خون دیکھے تو پهلے سات دن حيض ہيں اور بعد والے پانچ دن استحاضہ ہيں ۔

٢۔وقتيہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٣ وقتيہ عادت والی عورتوں کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) ایسی عورت ہے جو دو ماہ مسلسل وقت معين پر خون دیکھے اور چند دنوں کے بعد پاک ہو جائے ليکن خون دیکھنے کے دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں مساوی نہ ہو، مثلاً دو ماہ مسلسل پهلی تاریخ سے خون حيض دیکھے ليکن پهلے مهينے ساتویں اور دوسرے مهينے آٹھ ویں تاریخ کو خون سے پاک ہو، لہٰذا اس عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کی پهلی تاریخ کو اپنے حيض کی عادت کا پهلا دن قرار دے۔

(دوم) ایسی عورت ہے جو مسلسل دو ماہ وقت معين سے تين یا زیادہ دن خون دیکھنے کے بعد پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون والے تمام ایام اور درميانی پاکی کے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو ليکن دوسرے مهينے ميں پهلے کے مقابلے ميں کم یا زیادہ ہو مثلاً پهلے مهينے آٹھ دن اور دوسرے مهينے نو دن ہو۔ ایسی عورت کے لئے ضروری ہے کہ مهينے کے پهلے دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔

۸۱

مسئلہ ۴ ٩ ۴ وقتيہ عادت والی عورت اگر اپنی عادت کے وقت یا اس سے اتنا پهلے خون دیکھے کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت جلدی آگئی ہے یا ابتدا عادت ميں اتنی تاخير ہو کہ عرفاً کها جائے کہ اس کی عادت ميں تاخير ہوگئی ہے تو اگرچہ اس خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں تب بھی ضروری ہے کہ حائضہ کے احکام پر عمل کرے۔هاں، اگر بعد ميں مثلاً تين دن سے پهلے پاک ہونے کی وجہ سے معلوم ہو جائے کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا کرے۔

مسئلہ ۴ ٩ ۵ وقتيہ عادت والی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور حيض کی نشانيوں کے ذریعے حيض کو پہچان نہ سکتی ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين، چاہے پدری ہوں یا مادری اور چاہے زندہ ہوں یا مر چکی ہوں، کے ایامِ عادت کی مقدار کو اپنا حيض قرار دے اور اگر ان کی عادت چھ یا سات دن نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی عادت اور چھ یا سات دن کے درميان کی مدت ميں حيض اور استحاضہ دونوں کے احکام پر عمل کرے۔هاں، رشتہ دار خواتين کے حيض کی عادت کو اپنی عادت صرف اسی صورت ميں قرار دے سکتی ہے جب ان سب کے ایام حيض کی تعداد مساوی ہو۔ لہذا، اگر ان کے ایام حيض کی مقدار مساوی نہ ہو مثلاً بعض کی عادت پانچ دن اور دوسروں کی عادت سات دن ہو تو ان کی عادت کو اپنے لئے حيض قرار نہيں دے سکتی ہے ۔

مسئلہ ۴ ٩ ۶ جس وقتيہ عادت والی عورت نے اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو اپنا حيض قرار دیا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو دن ہر ماہ اس کی عادت کا پهلا دن ہو اس دن کو حيض کا پهلا دن قرار دے۔ مثلاً جو عورت ہر ماہ پهلی تاریخ کو خون دیکھتی ہو اور کبهی سات اور کبهی آٹھ تاریخ کو پاک ہوتی ہو اگر کسی مهينے بارہ دن خون دیکھے اور اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن ہو تو ضروری ہے کہ مهينے کے ابتدائی سات دنوں کو حيض اور باقی ایام کو استحاضہ قرار دے۔

مسئلہ ۴ ٩٧ جس عورت کو اپنی عادت رشتہ دار خواتين کی عادت کے مطابق قرار دینی ہے اگر اس کی رشتہ دار خواتين نہ ہوں یا ان کی عادت آپس ميں مساوی نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ہر مهينے خون دیکھنے کے دن سے چھ یا سات دن تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣۔عدديہ عادت والی عورت

مسئلہ ۴ ٩٨ عددیہ عادت والی خواتين کی دو قسميں ہيں :

(اوّل) وہ عورت ہے جس کے خون دیکھنے کے ایام کی تعداد مسلسل دو ماہ تک مساوی ہو ليکن خون دیکھنے کا وقت ایک نہ ہو تو اس صورت ميں جن ایام ميں خون دیکھا ہو وہ اس کی عادت ہيں ۔

مثلاً پهلے مهينے پهلی سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مهينے گيارہویں سے پندرہویں تک خون دیکھے تو اس کی عادت پانچ روز ہوگی۔

۸۲

(دوم) وہ عورت ہے جو مسلسل دو ماہ تک تين یا زیادہ دن خون دیکھے اور ایک یا زیادہ روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور پهلے مهينے خون دیکھنے کا وقت دوسرے مهينے سے فرق رکھتا ہو تو اگر جن ایام ميں خون دیکھا ہے ان کے ساته درميانی پاکی کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو اور ان کے ایام بھی دونوں مهينوں ميں برابر ہوں تو جن دنوں ميں خون دیکھا ہو اور جن دنوں ميں پاک رہی ہو سب کو اپنے حيض کی عادت قرار دے۔ البتہ یہ ضروری نہيں ہے کہ درميانی پاکی کے ایام دونوں مهينوں ميں برابر ہوں مثلاً اگر پهلے مهينے پهلی سے تيسری تاریخ تک خون دیکھنے کے بعد دو روز پاک رہے پھر دوبارہ تين دن خون دیکھے اور دوسرے ماہ گيارہویں سے تيرہویں تک خون دیکھے اور دو دن یا اس سے زیادہ یا کم روز پاک رہے اور دوبارہ خون دیکھے اور مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہے ۔

اسی طرح مثلاً اگر ایک ماہ ميں آٹھ روز خون دیکھے اور دوسرے ماہ چار دن خون دیکھے اور پاک ہو جائے اور دوبارہ خون دیکھے اور خون اور درميانی پاکی والے ایام کا مجموعہ آٹھ روز ہو تو اس کی عادت آٹھ روز ہوگی۔

مسئلہ ۴ ٩٩ عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی نشانيوں کے ساته اپنی عادت کے عدد سے کم یا زیادہ دن خون دیکھے جو دس دن سے زیادہ نہ ہو تو ان سب کو حيض قرار دے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر دیکھا ہوا تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ خون دیکھنے کی ابتدا سے اپنی حيض کی عادت کے عدد کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر دیکھا ہوا سارا خون ایک جيسا نہ ہو بلکہ چند روز خون حيض کی علامات کے ساته ہو اور چند روز استحاضہ کی علامات کے ساته تو اگر حيض کی نشانيوں والے خون کا عدد اس کی عادت کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر حيض کی علامات والا خون عادت کے عدد سے زیادہ ہو تو فقط عادت کی مقدار کو حيض قرار دے اور اس سے زیادہ جس ميں حيض کی علامات ہوں اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

اور اگر حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم نہ ہو ليکن اس کی عادت کے ایام سے کم ہو تو ضروری ہے کہ ان ایام کو حيض قرار دے اور اس کے بعد عادت کے عدد تک احتياط واجب کی بنا پر تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

۴ ۔ مضطربہ

مسئلہ ۵ ٠٠ مضطربہ یعنی وہ عورت جس نے چند ماہ خون دیکھا ہو اور اس کی عادت معين نہ ہوئی ہو یا اس کی عادت بگڑگئی ہو اور نئی عادت طے نہ ہوئی ہو۔ مضطربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور اگر تمام خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو اگر اس کی رشتہ دار عورتوں کی عادت چھ یا سات دن ہو تو ان ایام کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۳

اور اگر کم ہو مثلاً پانچ روز ہو تو ان کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ان کی عادت اور چھ یا سات روز کے درميان فرق ميں جو کہ ایک یا دو دن ہيں جو کام حائض پر حرام ہيں ترک کرے اور استحاضہ کے کام انجام دے۔

اور اگر اس کی رشتہ دار خواتين کی عادت سات دن سے زیادہ ہو مثلاً نو دن ہو تو چھ یا سات دنوں کو حيض قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر چھ یا سات اور ان کی عادت کے درميان فرق ميں جو کہ دو یا تين دن ہيں حائض پر حرام کاموں کو ترک کرے اور استحاضہ والے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٠١ مصظربہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے جن ميں چند دن حيض کی علامات اور چند دن استحاضہ کی علامات موجود ہوں تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ سب خون حيض ہے ۔ ہاں، اگرحيض کی علامات والے سارے خون کو حيض قرار نہ دیا جاسکتا ہو مثلاً پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته، پھر پانچ دن استحاضہ کی نشانيوں کے ساته اور پھر دوبارہ پانچ دن حيض کی نشانيوں کے ساته خون دیکھے ، تو اس صورت ميں اگر کيفيت یہ ہو کہ حيض کی نشانيوں والے دونوں خون کو حيض قرار دینا ممکن ہو، اس طرح سے کہ ان ميں سے ہر ایک تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو ضروری ہے کہ ان دونوں خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے اور درميان ميں جو خون حيض کی علامات کے ساته نہيں ہے اسے استحاضہ قرار دے اور اگر ان ميں سے فقط ایک کو حيض قرار دینا ممکن ہو تو پھر اسی کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۵ ۔مبتدئہ

مسئلہ ۵ ٠٢ مبتدئہ یعنی وہ عورت جس نے پهلی بار خون دیکھا ہو۔ ایسی عورت اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور سارا خون حيض کی علامات کے ساته ہو تو ضروری ہے کہ اپنی رشتہ دار خواتين کی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔ اگر اس کی کوئی رشتہ دار خاتون نہ ہو یا ان کی عادت مختلف ہو تو احتياط واجب کی بنا پر تين دن کو حيض قرار دے اور پهلے مهينے دس دن تک اور بعد والے مهينوں ميں چھ یا سات دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

مسئلہ ۵ ٠٣ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے اور ان ميں سے چند دن حيض کی علامات کے ساته اور باقی چند دن استحاضہ کی علامات کے ساته ہو تو اگر حيض کی علامات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ، ليکن اگر حيض کی علامات والا خون ختم ہونے کے بعد درميان ميں دس دن گزر نے سے پهلے دوبارہ حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے مثلاً پانچ دن سياہ خون، نو دن زرد خون اور دوبارہ پانچ دن سياہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ درميان والے خون کو استحاضہ قرار دے اور پهلے اور آخری خون ميں احتياط کرتے ہوئے تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کر کے۔

۸۴

مسئلہ ۵ ٠ ۴ مبتدئہ اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے کہ جس ميں چند دن حيض کی نشانياں اور باقی روز استحاضہ کی علامات ہوں اور حيض کی نشانيوں والا خون تين دن سے کم ہو تو تمام خون کو استحاضہ قرار دے۔

۶ ۔ ناسيہ

مسئلہ ۵ ٠ ۵ ناسيہ کی تين اقسام ہيں :

١) صرف عددیہ عادت والی عورت تھی اور عدد بھول گئی۔ اس صورت ميں اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو ضروری ہے کہ اسے حيض قرار دے اور اگر یہ مقدار چھ دن سے کم یا سات دن سے زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر حيض کی احتمالی مقدار اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، ان کے درميانی ایام ميں تروک حائض اور افعال مستحاضہ ميں جمع کرے۔

٢) صرف وقتيہ عادت والی عورت تھی اور وقت بھول گئی۔ تو اس صورت ميں اگر حيض کی علامات والا خون دیکھے جو تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب خون حيض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر اتنا معلوم ہو کہ ان ميں سے بعض اس کی عادت کے ایام ہی تهے تو ضروری ہے کہ تمام خون کے دوران تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے اگر چہ سب یا بعض خون ميں حيض کی علامات نہ ہوں۔ یهی حکم اس وقت ہے جب معلوم نہ ہو ليکن احتمال ہو کہ یہ خون ایامِ عادت ميں آیا ہے ۔

اور اگر ایامِ عادت ميں آنے کا احتمال بھی نہ ہو اور بعض ميں حيض اور بعض ميں استحاضہ کی علامات ہوں تو جس ميں حيض کی علامات ہوں اگر وہ تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو اس سب کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور جب تمام خون ميں حيض کی علامات ہوں اور وہ دس دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات روز تک حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

٣) وقتيہ و عددیہ عادت والی عورت تھی۔ اس کی تين صورتيں ہيں :

١) فقط وقت بھول گئی تو اس کا وظيفہ وهی ہے جو دوسری قسم ميں گزرا، سوائے یہ کہ خون علامات حيض کے ساته ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا اور دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت ميں اگر اس کی عادت چھ یا سات روز ہو تو اس کو حيض قرار دے اور اگر اس سے کم ہو یا زیادہ ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی عادت اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے، کے درميانی ایام ميں تروکِ حائض اور اعمالِ ستحاضہ ميں جمع کرے اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۵

٢) فقط عدد بھول گئی ہو تو اس صورت ميں وہ خون جو وقت ميں دیکھا ہو اس سے اتنی مقدار ميں جس کے بارے ميں یقين ہو کہ عادت سے کم نہيں ہے وہ حيض ہے اگر چہ اس ميں حيض کی علامات نہ ہوں اور اس کے بعد کے ایام ميں اگر حيض کی نشانيوں کے ساته ہو اور پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ نہ ہو توسارا کا سارا حيض ہے ، ليکن پهلے والے خون کے ساته مل کر دس دن سے زیادہ ہو نے کی صورت ميں جس مقدار کے بارے ميں عادت ہونے کا احتمال ہو اگر چھ

دن سے کم ہو تو اس مقدار کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس مقدار تک تروکِ حائض اور اعمالِ مستحاضہ ميں جمع کرے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو توچه یا سات روز ميں سے جسے اختيار کرے اس مقدار تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے لے کر دس دن گزرنے سے پهلے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

٣) وقت اور عدد دونوں بھول گئی ہو۔ اس صورت ميں اگر خون علامات کے ساته ہو اور تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو سب حيض ہے ،ليکن اگر دس دن سے زیادہ ہو اور جانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا ہے توجس مقدار کے عادت ہونے کا احتمال ہو وہ اگر چھ یا سات دن ہو تو اس کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور اگر چھ دن سے کم ہو تو اس کو حيض اور چھ یا سات ميں سے جسے اختيار کرے اس دن تک احتياط واجب ہے کہ حائض اور مستحاضہ کے وظائف کا خيال رکھے اور اگر سات دن سے زیادہ ہو تو چھ یا سات ميں سے جو اختيار کرے اس دن تک حيض اور اختيار کئے ہوئے عدد سے دس دن گزرنے تک اسی احتياط کا خيال رکھے۔

اور اگر خون کی صفات مختلف ہوں یعنی بعض ميں حيض کی صفات اور بعض ميں استحاضہ کی صفات ہوں تو حيض کی صفات والا خون تين دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہونے کی صورت ميں حيض ہے اور استحاضہ کی صفات والے خون کے بارے ميں اگرجانتی ہو کہ اس کی عادت کے ایام ميں نہيں آیا تو استحاضہ ہے اور اگر ایامِ حيض ميں آنے کا احتمال ہو تو ضروری ہے کہ حيض اور استحاضہ کے وظائف ميں احتياط کرتے ہوئے جمع کرے۔

حيض کے متفرق مسائل

مسئلہ ۵ ٠ ۶ مبتدئہ، مضطربہ، ناسيہ یا عددیہ عادت والی عورت اگر حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کردے اور جب معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ترک کی ہوئی عبادات کی قضا انجام دے اور اگر حيض کی علامات کے بغير خون دیکھے تو ضروری ہے کہ عبادات انجام دے، سوائے ناسيہ کے کہ اگر اسے عادت آجانے کا یقين ہو جائے تو جب تک عادت کے باقی ہونے کا احتمال دے ضروری ہے کہ عبادات کو ترک کرے۔

۸۶

مسئلہ ۵ ٠٧ حيض کی عادت والی عورت، چاہے وقتيہ عادت والی ہو یا عددیہ عادت والی یا وقتيہ و عددیہ عادت والی، اگر دو ماہ مسلسل اپنی عادت کے خلاف ایسا خون دیکھے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یا وقت اور دنوں کی تعداد دونوں مهينوں ميں ایک ہی ہو تو وهی اس کی نئی عادت بن جائے گی جو اس نے ان دو مهينوں ميں دیکھی ہے ۔ مثلاً اگر مهينے کے پهلے دن سے خون دیکھتی اور ساتویں دن پاک ہوتی تهی، پھر جب دو ماہ تک دس کو خون دیکھے اور سترہ کو پاک ہو تو دس سے سترہ تک اس کی عادت ہوگی۔

مسئلہ ۵ ٠٨ ایک مهينہ گزرنے کا مطلب خون دیکھنے کے بعد سے تيس دن گزرنا ہے ، نہ کہ مهينے کی پهلی سے آخری تاریخ۔

مسئلہ ۵ ٠٩ جو عورت عام طور پر مهينے ميں ایک مرتبہ خون دیکھتی ہو اگر ایک مهينے ميں دو مرتبہ خون دیکھے اور دونوں ميں حيض کی علامات موجود ہوں تو اگر درميان والے پاکی کے ایام دس دن سے کم نہ ہوں تو ضروری ہے کہ دونوں کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١٠ اگر تين یا اس سے زیادہ دن حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے اور بعد ميں دس دن یا اس سے زیادہ استحاضہ کی علامات کے ساته خون دیکھے پھر دوبارہ تين دن تک حيض کی علامات کے ساته خون دیکھے تو ضروری ہے کہ حيض کی علامات والے پهلے اور آخری خون کو حيض قرار دے۔

مسئلہ ۵ ١١ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور معلوم ہو کہ اندر خون نہيں ہے تو ضروری ہے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے، اگرچہ اسے گمان ہو کہ دس دن گزرنے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا، ليکن اگر یقين ہو کہ دس دن تمام ہونے سے پهلے دوبارہ خون آئے گا تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے۔

مسئلہ ۵ ١٢ اگر عورت دس دن سے پهلے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون موجود ہے تو ضروری ہے کہ احتياط کرے یا تهوڑی روئی اندر ڈال کر تهوڑی دیر صبر کرنے کے بعد نکالے اور احتياط مستحب ہے کہ اس کام کو کھڑے ہو کر اس طرح کرے کہ پيٹ دیوار سے لگا ہو اور ٹانگ دیوار پر بلند ہو۔اب اگر پاک ہو تو غسل کر کے اپنی عبادات انجام دے اور اگر پاک نہ ہو اگرچہ روئی زرد رطوبت سے آلودہ ہو تو اگر وہ عورت حيض کی عادت نہ رکھتی ہو یا اس کی عادت دس دن کی ہو تو ضروری ہے کہ صبرکرے۔ اب اگر دس دن سے پهلے پاک ہو جائے تو اس وقت غسل کرے اور اگر دسویں دن پاک ہوجائے یا اس وقت تک پاک نہ ہو تو دسویں دن کے شروع پر غسل کرے۔اور اگر اس کی عادت دس دن سے کم ہو، تو اگر جانتی ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پهلے یا دسویں دن پاک ہوجائے گی تو ضروری ہے کہ غسل نہ کرے اور اگر احتمال ہو کہ خون دس دن سے تجاوز کر جائے گا تو ایک دن عبادات کو ترک کرنا واجب ہے ، البتہ اس کے بعد ميں وہ مستحاضہ کے اعمال انجام دے سکتی ہے ،بلکہ احتياط مستحب ہے کہ دسویں دن تک تروک حائض اور اعمال مستحاضہ ميں جمع کرے۔ یہ حکم صرف اس عورت کے لئے ہے کہ جسے عادت سے پهلے مسلسل خون نہ آرہا ہو، ورنہ ضروری ہے کہ اپنی عادت کو حيض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

۸۷

مسئلہ ۵ ١٣ اگر بعض ایام کو حيض قرار دے کر عبادات ترک کرے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض نہيں تھا تو ضروری ہے کہ ان ایام ميں ترک کی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا انجام دے اور اگر حيض نہ ہونے کے گمان سے عبادات انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حيض تھا تو ان ایام ميں رکھے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے ۔

نفاس

مسئلہ ۵ ١ ۴ بچے کی پيدائش کے بعد، ولادت کی وجہ سے ماں جو خون دیکھتی ہے اگر دس دن سے پهلے یا دسویں دن بند ہو جائے تو نفاس ہے ۔ احتياط واجب کی بنا پر بچے کا پهلا حصہ باہر آنے کے ساته جو خون دیکھے ، اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ عورت کو نفاس کی حالت ميں ”نفساء“ کہتے ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١ ۵ بچے کا پهلا حصہ باہر آنے سے پهلے جو خون دیکھے ، وہ نفاس نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ١ ۶ ضروری نہيں ہے کہ بچے کی خلقت مکمل ہوئی ہو بلکہ اگر ناقص ہو تب بھی دس دن تک جو خون دیکھے نفاس ہے بشرطيکہ عرفاً کها جائے کہ اس نے بچے کو جنم دیا ہے ۔ ہاں، جب عرفی اعتبار سے شک ہو کہ اسے بچہ جننا کها جاسکتا ہے یا نہيں ، تو اس خون پر نفاس کے احکام نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۵ ١٧ ممکن ہے کہ خون نفاس ایک لمحہ سے زیادہ نہ آئے، ليکن دس دن سے زیادہ نہيں ہوسکتا۔

مسئلہ ۵ ١٨ جب تک شک ہو کہ کوئی چيز سقط ہوئی یا نہيں یا شک کرے کہ جو چيز سقط ہوئی ہے بچہ ہے یا نہيں ، تو تحقيق ضروری نہيں ہے اور جو خون خارج ہو رہا ہو وہ شرعاً خون نفاس نہيں ہے ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ تحقيق کرے۔

مسئلہ ۵ ١٩ نفساء کے لئے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف، خداوند متعال کے اسم مبارک اور دوسرے اسمائے حسنیٰ سے مس کرنا حرام ہے اور احتياط واجب کی بنا پران تمام کاموں کا جو حائضہ پر حرام ہيں ، یهی حکم ہے اور وہ تمام چيزیں جو حائضہ پر واجب ہيں نفساء پر بھی واجب ہيں ۔

مسئلہ ۵ ٢٠ حالت نفاس ميں عورت کو طلاق دینا باطل ہے اور اس کے ساته نزدیکی حرام ہے ، ليکن اگر اس کا شوہر اس سے نزدیکی کرے تو کفارہ نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢١ جب عورت نفاس سے اس طرح پاک ہو کہ اندر بھی خون باقی نہ رہے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور اپنی عبادات انجام دے۔ اب اگر دوبارہ خون دیکھے اور دونوںخون دیکھنے والے اور درميان کے طهارت والے ایام کا مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہو، تو اگر اس کی حيض کی عادت ہو اور یہ سارے ایام اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہوں، مثلاً اگر اس کی عادت چھ دن ہو اور چھ دن کے درميان دو دن پاک رہی ہو تو تمام چھ دن نفاس ہيں ۔ اس کے علاوہ باقی صورتوں ميں ، جن ایام ميں خون دیکھے وہ نفاس اور جن ایام ميں پاک رہی ہو ان ميں احتياط واجب کی بنا پر تروکِ نفساء اور اعمال طاہرہ ميں جمع کرے۔

۸۸

مسئلہ ۵ ٢٢ اگرعورت خونِ نفاس سے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اندر خون ہے تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ تهوڑی روئی اندر ڈال کر صبر کرے تاکہ اگر پاک ہو تو اپنی عبادات کے لئے غسل کرے۔

مسئلہ ۵ ٢٣ اگر عورت کا خون نفاس دس دن سے تجاوز کر جائے تو حيض کی عادت رکھنے کی صورت ميں عادت کے ایام کو نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے اور عادت نہ ہونے کی صورت ميں دس دن تک نفاس اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔اور احتياط مستحب ہے کہ جس کی عادت ہو وہ عادت کے بعد والے دن سے اور جس کی عادت نہ ہو وہ دسویں دن سے بچہ جننے کے اٹھ ارہویں دن تک نفساء کے حرام کاموں کو ترک کرے اور مستحاضہ کے کام انجام دے۔

مسئلہ ۵ ٢ ۴ جس عورت کی عادتِ حيض دس دن سے کم ہو اگر اپنی عادت سے زیادہ خون دیکھے تو اپنی عادت کے برابر ایام کو نفاس قرار دے اور اس کے بعد احتياط واجب کی بنا پر ایک روز اور عبادت ترک کرے اور باقی ایام ميں دسویں دن تک اس کی مرضی ہے کہ مستحاضہ کے احکام جاری کرے یا عبادت کو ترک کرے۔

اور اگر خون دس دن سے تجاوز کر جائے تو ضروری ہے کہ عادت کے بعد سے استحاضہ قرار دے اور ان ایام ميں جن عبادات کو ترک کيا ہو ان کی قضا کرے۔ مثلاً جس عورت کی عادت چھ دن ہو اگر چھ دن سے زیادہ خون دیکھے تو ضروری ہے کہ چھ دن کو نفاس قرار دے اور احتياط واجب کی بنا پر ساتویں دن بھی عبادات ترک کرے اور آٹھ ویں، نویں اور دسویں دن اختيار ہے کہ یا تو ان عبادات کو ترک کرے یا استحاضہ کے اعمال انجام دے اور اگر دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو اس کی عادت کے بعد والے دن سے استحاضہ ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢ ۵ حيض کی عادت رکھنے والی عورت اگر بچے کو جنم دینے کے بعد ایک مهينے یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو اس کی عادت کے ایام کی مقدار ميں نفاس ہے اور عادت کے بعد سے دس دن تک جو خون دیکھے استحاضہ ہے ، اگر چہ اس کی ماہانہ عادت کے ایام ميں ہو۔ مثلاً جس عورت کی عادت ہر مهينے کی بيسویں سے ستائيویں تک ہو اگر مهينے کی دسویں تاریخ کو جنم دے اور ایک ماہ یا زیادہ ایام مسلسل خون دیکھے تو سترہ تاریخ تک نفاس اور سترہ سے دس دن تک استحاضہ ہے حتی وہ خون بھی جو عادت ميں دیکھے ، جو بيسویں سے لے کر ستائيسویں تک ہے ۔

اور دس دن گزرنے کے بعد اگر ایسا خون دیکھے جو اس کی عادت ميں ہو تو حيض ہے چاہے علامات حيض ہوں یا نہ ہوں اور یهی حکم ہے اگر اس کی عادت کے ایام ميں نہ ہو ليکن حيض کی علامات موجود ہوں، ليکن اگر نہ عادت کے ایام ميں ہواور نہ ہی حيض کی علامات ہوں تو استحاضہ ہے ۔

۸۹

مسئلہ ۵ ٢ ۶ حيض ميں عدد کی عادت نہ رکھنے والی عورت اگر بچہ جننے کے بعد ایک ماہ یا زیادہ ایام تک مسلسل خون دیکھے تو پهلے دس دن نفاس اور دوسرے دس دن استحاضہ ہے اور جو خون اس کے بعد دیکھے اگر اس ميں حيض کی علامات ہوں یا اس کی عادت کے ایام ميں ہو تو حيض ہے اور اگر نہ ہو تو یہ بھی استحاضہ ہے ۔

غسلِ مسِ ميّت

مسئلہ ۵ ٢٧ اگر کوئی شخص کسی ایسے مردہ انسان کے بدن کومس کرے جو ٹھنڈا ہوچکا ہو اور جسے غسل نہ دیا گيا ہو، یعنی اپنے بدن کا کوئی حصّہ اس سے لگائے، تو اس کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ، خواہ اس نے نيند کی حالت ميں مردے کا بدن مس کيا ہو یا بيداری کے عالم ميں ، ارادی طور پر مس ہوا ہو یا غير ارای طور پر، حتی اگر اس کا ناخن یا ہڈی، مردے کے ناخن یا ہڈی سے مس ہو جائے تب بھی اس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر مردہ حيوان کو مس کرے تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٢٨ جس مردے کا تمام بدن ٹھنڈا نہ ہوا ہو، اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا خواہ اس کے بدن کا جو حصہ مس کيا ہو وہ ٹھنڈا ہوچکا ہو۔

مسئلہ ۵ ٢٩ اگر کوئی شخص اپنے بال مردے کے بدن سے لگائے یا اپنا بدن مردے کے بالوں سے لگائے یا اپنے بال مردے کے بالوں سے لگائے جب کہ بال اتنے ہوں کہ بدن کے تابع حساب ہوتے ہوں تو احتياط کی بنا پر غسل واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٠ مردہ بچے کو مس کرنے پر حتی ایسے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر جس کے چار مهينے پورے ہوچکے ہوں غسلِ مسِ ميت واجب ہے اور چار مهينے سے چھوٹے سقط شدہ بچے کو مس کرنے پر غسل واجب نہيں ہوتا مگر یہ کہ اس کے بدن ميں روح داخل ہوچکی ہو، لہٰذا اگر چار مهينے کا بچہ مردہ پيدا ہو اور اس کا بدن ٹھنڈا ہوچکا ہو اور وہ ماں کے ظاہری حصّے کو مس ہو جائے تو اس کی ماں کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣١ جو بچہ ماں کے مر جانے اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو جانے کے بعد پيدا ہو، اگر وہ ماں کے ظاہری حصے کو مس ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٢ اگر کوئی شخص ایک ایسی ميّت کو مس کرے جسے تين غسل مکمل طور پر دئے جاچکے ہوں تو اس پر غسل واجب نہيں ہوتا، ليکن اگر وہ تيسرا غسل مکمل ہونے سے پهلے اس کے بدن کے کسی حصّے کو مس کرے خواہ اس حصے کو تيسرا غسل دیا جاچکا ہو، اس شخص کے لئے غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٣ اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچہ، ميّت کو مس کرے تو دیوانے کے لئے عاقل ہونے اور بچے کے لئے بالغ ہونے کے بعد غسلِ مسِ ميت کرنا ضروری ہے اور اگر بچہ مميّز ہو اور غسلِ مس ميت بجالائے تو اس کا غسل صحيح ہوگا۔

۹۰

مسئلہ ۵ ٣ ۴ اگر کسی ایسے مردے کے بدن سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو ایک ایسا حصہ جدا ہو جائے جس ميں ہڈی ہو اور اس سے پهلے کہ اس حصّے کو غسل دیا جائے کوئی شخص اسے مس کرے تو احتياط کی بنا پر وہ غسلِ مسِ ميت کرے اور اگر وہ جدا ہونے والا حصہ بغير ہڈی کے ہو اس کو مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔هاں، اگر کسی زندہ انسان کے بدن سے کوئی حصہ جدا ہو توچاہے اس ميں ہڈی ہو اسے مس کرنے سے غسل واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ۵ ٣ ۵ بغير گوشت کی ہڈی کو مس کرنے سے جسے غسل نہ دیا گيا ہو، خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئی ہو یا زندہ شخص کے بدن سے، غسل واجب نہيں ہے ۔ اسی طرح مردہ یا زندہ کے بدن سے جدا ہونے والے دانتوں کو مس کرنے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣ ۶ غسلِ مسِ ميت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا ضروری ہے اور جس شخص نے غسلِ مسِ ميت کرليا ہو اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لئے وضو کرنا واجب نہيں ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔

مسئلہ ۵ ٣٧ اگر کوئی شخص کئی ميّتوں کو مس کرے یا ایک ميّت کو کئی بار مس کرے، تو ایک غسل کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٣٨ جس شخص نے ميّت کو مس کرنے کے بعد غسل نہ کيا ہو اس کے لئے مسجد ميں ٹہرنا، بيوی سے جماع کرنا اور واجب سجدہ والی سورتوں کی تلاوت کرنا منع نہيں ہے ليکن نماز اور اس جيس عبادات کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ۔

محتضر کے احکام

مسئلہ ۵ ٣٩ جو مسلمان محتضر ہو، یعنی جان کنی کی حالت ميں ہو، خواہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، احتياط واجب کی بنا پر بصورت امکان اسے پيٹھ کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ رخ ہوں۔ اگر مکمل طور پر اس طرح سے لٹانا ممکن نہ ہو تو احتياط مستحب کی بنا پر جهاں تک ممکن ہو اس حکم پر عمل کيا جائے۔ اسی طرح احتياط مستحب یہ ہے کہ جب اسے اس طرح سے لٹانا بالکل ناممکن ہو اسے قبلہ رخ بٹھ ا دیں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے سيدهے پهلو یا اُلٹے پهلو قبلہ رخ لٹایا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٠ احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو اس جگہ سے اٹھ ایا نہ جائے، اسے قبلہ رخ ہی لٹائيں۔ اسی طرح احتياط مستحب کی بنا پر غسل دیتے وقت بھی قبلہ رخ لٹایا جائے، ليکن غسل مکمل کرنے کے بعد مستحب ہے کہ اسے اس طرح لٹائيں جس طرح اسے نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہيں ۔

مسئلہ ۵۴ ١ محتضر کو قبلہ رخ لٹانا، احتياط کی بنا پر، ہر مسلمان پر واجب ہے اور اگر ممکن ہو تو محتضر سے اجازت لينا ضروری ہے اور اگر ممکن نہ ہو یا اس کی اجازت معتبر نہ ہو تو احتياط کی بنا پر اس کے ولی سے اجازت لينا چاہيے۔

۹۱

مسئلہ ۵۴ ٢ مستحب ہے کہ جو شخص جان کنی کی حالت ميں ہو اس کے سامنے شهادتين، بارہ اماموں عليهم السلام اقرار اور دوسرے عقائد حقہ کو اس طرح دهرایا جائے کہ وہ سمجھ لے۔ اسی طرح مستحب ہے ان مذکورہ چيزوں کو موت کے وقت تک تکرار کيا جائے۔ اور نيز دعائے فرج کو محتضر کے لئے تلقين کيا جائے۔

مسئلہ ۵۴ ٣ مستحب ہے کہ یہ دعا محتضر کو اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:

((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیَ الْکَثِيْرَ مِنْ مَعَاصِيْکَ وَاقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ مِنْ طَاعَتِکَ یَا مَنْ یَّقْبَلُ الْيَسِيْرَ وَ یَعْفُوْ عَن الْکَثِيْرَ، إِقْبَلْ مِنِّی الْيَسِيْرَ وَاعْفُ عَنِّی الْکَثِيْرَ، اِنَّکَ ا نَْٔتَ الْعَفُوُّ الْغَفُوْرُ، اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنِی فَاِنَّکَ رَحِيْمٌ ))

مسئلہ ۵۴۴ جس کی جان سختی سے نکل رہی ہو، اگر اس کے لئے تکليف کا باعث نہ ہو تو اسے اس جگہ لے جانا جهاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا، مستحب ہے ۔

مسئلہ ۵۴۵ محتضر کے سرہا نے سورہ مبارکہ یاسين، سورہ صافات، سورہ احزاب، آیت الکرسی، سورہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت اور سورہ بقرہ کی آخری تين آیات پڑھنا مستحب ہے ، بلکہ قرآن جتنا پڑھا جاسکے، پڑھا جائے۔

مسئلہ ۵۴۶ محتضر کو تنها چھوڑنا مکروہ ہے ۔ اور اسی طرح کسی چيز کا اس کے پيٹ پر رکھنا، جنب اور حائض کا اس کے قریب ہونا، زیادہ باتيں کرنا، رونا اور صرف عورتوں کو اس کے پاس چھوڑنا مکروہ ہے ۔

مرنے کے بعد کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٧ مرنے کے بعد مستحب ہے کہ ميّت کی آنکہيں اور ہونٹ بند کردئے جائيں اور اس کی ٹھ وڑی کو بانده دیا جائے۔ نيز اس کے ہاتھ اور پاؤں سيدهے کر دئے جائيں اور اس کے اُوپر کپڑا ڈال دیا جائے، جنازے ميں شرکت کے لئے مومنين کو اطلاع دی جائے۔

اگر موت رات کو واقع ہوئی ہو تو موت واقع ہونے والی جگہ پر چراغ جلایا جائے اور اسے دفن کرنے ميں جلدی کریں۔ ليکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقين نہ ہو تو انتظار کریں تا کہ صورتحال واضح ہو جائے۔ نيز اگر ميّت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پيٹ ميں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے ميں اتنا تاخير کریں کہ اس کا پهلو چاک کر کے بچے کو باہر نکال کر دوبارہ غسل کے لئے اس کا پهلو سی دیں اور بہتر یہ ہے کہ بچے کو باہر نکالنے کے لئے الٹا پهلو چاک کيا جائے۔

غسل، کفن، نماز اور دفن ميّت کے احکام

مسئلہ ۵۴ ٨ مسلمان کا غسل، حنوط، کفن، نماز ميّت اور دفن ہر مکلّف پر واجب ہے ۔ ہاں، اگر بعض افراد ان امور کو انجام دیں تو دوسروں سے یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو سب گناہ گارہوں گے۔

۹۲

مسئلہ ۵۴ ٩ اگر کوئی شخص تجهيز و تکفين کے کاموں ميں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے کوئی اقدام کرنا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر وہ ان کاموں کو ادهورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے ان کاموں کو پایہ تکميل تک پهنچائيں۔

مسئلہ ۵۵ ٠ اگر کسی شخص کو یقين ہو یا حجت شرعيہ رکھتا ہو کہ کوئی دوسرا ميّت کے کاموں ميں مشغول ہے تو اس پر واجب نہيں ہے کہ ميّت کے کاموں کے بارے ميں اقدام کرے، ليکن اگر اسے محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔

مسئلہ ۵۵ ١ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ ميّت کا غسل، حنوط، کفن، نماز یا دفن غلط طریقے سے ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے، ليکن اگر اسے باطل ہونے کا گمان ہو یا شک کرے کہ صحيح تھا یا نہيں ، تو اس صورت ميں اقدام کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٢ غسل، حنوط، کفن، نماز اور دفن کے لئے ميت کے ولی سے اجازت لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵ ٣ عورت کا ولی اس کا شوہر ہے اوراگر مرنے والی کسی کی بيوی نہ ہو یا مرنے والا کوئی مرد ہو تو مرنے والے کے مرد وارث اس کی وارث عورتوں پر مقدم ہيں ۔ مردوں ميں بھی جو ورثے کے اعتبار سے مقدم ہے ولی ہونے کے اعتبار سے بھی وهی مقدم ہے ۔

ليکن اگر مرنے والے کے رشتہ داروں ميں دو ایسے افراد موجود ہوں جن ميں سے ایک رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے جب کہ دوسرا ورثے کے اعتبار سے، مثلاً اگر ميت کا دادا بھی موجود ہو اور ميت کے بيٹے کا پوتا بھی تو احتياط واجب یہ ہے کہ جو ميراث کے اعتبار سے مقدم ہے ، وہ اس سے اجازت لے جو رشتے کے اعتبار سے مقدم ہے ۔

مسئلہ ۵۵۴ اگر کوئی شخص کهے کہ ميں ميّت کا ولی ہوں یا ميّت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ ميّت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کهے کہ تجهيز و تکفين کے کاموں کے لئے ميں اس کا وصی ہوں اور اس کے کهنے سے اطمينان حاصل ہو جائے یا ميّت اس کے اختيار ميں ہو یا دو عادل یا ایک ایسا قابل اعتمادشخص گواہی دے جس کی بات کے برخلاف کوئی ظن بھی نہ ہو، تو اس کی بات مان لينا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۵۵ اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن، دفن، اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے ہاتھ ميں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ولی سے بھی اجازت لے۔

اور جس شخص کو ميّت نے وصيت کی ہو وہ ميّت کی زندگی ميں وصی بننے سے منع کرسکتا ہے اور اگر قبول کرے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے ، ليکن اگر ميّت کی زندگی ميں منع نہ کرے یا اس کا انکار وصيت کرنے والے تک نہ پهنچ پائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اس وصيت پر عمل کرے۔

۹۳

غسل ميت کا طريقہ

مسئلہ ۵۵۶ واجب ہے کہ ميّت کو تين غسل دئے جائيں۔

(اوّل) ایسے پانی کے ساته جس ميں بيری کے پتے ملے ہوئے ہوں۔

(دوم) ایسے پانی کے ساته جس ميں کافور ملا ہوا ہو۔

(سوم) خالص پانی کے ساته۔

مسئلہ ۵۵ ٧ ضروری ہے کہ بيری اور کافور نہ اس قدر زیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اس قدر کم ہوں کہ یہ نہ کها جاسکے کہ بيری اور کافور اس پانی ميں ملائے گئے ہيں ۔

مسئلہ ۵۵ ٨ اگر بيری اور کافور اتنی مقدار ميں نہ مل سکيں جتنی کہ ضروری ہے تو احتياط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار ميّسر آئے پانی ميں ملا دی جائے۔

مسئلہ ۵۵ ٩ اگر کوئی شخص حج یا عمرے کے احرام کی حالت ميں مرجائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نہيں دے سکتے بلکہ اس کی بجائے خالص پانی سے غسل دینا ہوگا۔ مگر یہ کہ وہ حج کا احرام ہو اور سعی کو مکمل کرچکا ہو تو اس صورت ميں کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٠ اگر بيری اور کافور یا ان ميں سے کوئی ایک نہ مل سکے یا اس کا استعمال جائز نہ ہو مثال کے طور پر غصبی ہو، ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک کی بجائے جس کا ملنا ممکن نہ ہو احتياط واجب کی بنا پر ميت کو بدليت کے قصد سے خالص پانی سے غسل دیا جائے اور تيمم بھی اسی قصد کے ساته کرایا جائے۔

مسئلہ ۵۶ ١ جو شخص ميّت کو غسل دے ضروری ہے کہ وہ شيعہ اثناعشری، عاقل اور بنابر احتياط بالغ ہو اور مسائل غسل کو جانتا ہو اگر چہ ان مسائل کو غسل کے دوران سيکه رہا ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٢ جو شخص غسل دے ضروری ہے کہ قربت کی نيت، جيسا کہ وضو ميں بيان ہوچکا ہے اور اخلاص رکھتا ہو اور اسی نيّت کا تيسرے غسل تک باقی رہنا کافی ہے ۔

مسئلہ ۵۶ ٣ مسلمان کے بچے کو، خواہ وہ ولدالزنا ہی کيوں نہ ہو غسل دینا واجب ہے اور کافر اور اس کی اولاد کا غسل، حنوط، کفن و دفن جائز نہيں ہے ۔ جو شخص بچپن سے دیوانہ ہو اور دیوانگی کی حالت ميں ہی بالغ ہو جائے چنانچہ اس کے ماں باپ یا ان ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو یا کسی دوسری وجہ سے اسلام کے حکم ميں ہوں تو اس کو غسل دینا ضروری ہے ، ورنہ اسے غسل دینا جائز نہيں ہے ۔

۹۴

مسئلہ ۵۶۴ اگر ایک بچہ چار مهينے یا اس سے زیادہ کا ہو کر سقط ہو جائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے اور اگر چار مهينے سے کم ہو اور اس کے بدن ميں روح بھی داخل نہ ہوئی ہو، احتياط واجب کی بنا پر اسے ایک کپڑے ميں لپيٹ کر بغير غسل دئے دفن کر دیا جائے۔

مسئلہ ۵۶۵ مرد کا عورت کو غسل دینا اور عورت کا مرد کو غسل دینا جائز نہيں ہے اور باطل ہے ، ليکن بيوی اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل دے سکتا ہے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر اور شوہر اپنی بيوی کو غسل نہ دے۔

مسئلہ ۵۶۶ مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا ہے جو مميز نہ ہو اور عورت بھی اتنے چھوٹے بچے کو غسل دے سکتی ہے جو مميز نہ ہو۔ اگرچہ احتياط موکد یہ ہے کہ جو لڑکا یا لڑکی تين سال سے زیادہ عمر کے ہوں، تو لڑکے کو مرد اور لڑکی کو عورت غسل دے۔

مسئلہ ۵۶ ٧ اگر مرد کی ميّت کو غسل دینے کے لئے مرد نہ مل سکے تو وہ عورتيں جو اس کی قربت دار اور محرم ہوں مثلاً ماں، بهن، پهوپهی اور خالہ یا وہ عورتيں جو نکاح یا رضاعت کے سبب محرم ہوگئی ہوں اسے غسل دے سکتی ہيں ۔ اسی طرح اگر عورت کی ميّت کو غسل دینے کے لئے کوئی عورت نہ ہو تو جو مرد اس کے قرابت دار اور محرم ہوں یا نکاح یا رضاعت کے سبب اس کے محرم ہوگئے ہوں، اسے غسل دے سکتے ہيں ۔ ہاں، احتياط واجب کی بنا پر مماثل کے ہوتے ہوئے محرم کی باری نہيں آتی۔ لباس کے نيچے سے غسل دینا واجب نہيں ہے ، اگرچہ اس طرح غسل دینا احوط ہے ليکن ضروری ہے کہ شرمگاہ پر نظر نہ ڈاليں اور احتياط کی بنا پر شرمگاہ کو ڈهانپ ليں۔

مسئلہ ۵۶ ٨ اگر ميّت اور غسّال دونوں مرد ہوں یا دونوں عورت ہوں تو جائز ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن برہنہ ہو۔

مسئلہ ۵۶ ٩ بيوی اور شوہر کے علاوہ ميّت کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے اور جو شخص غسل دے رہا ہو اگر وہ اس پر نظر ڈالے تو گناہ گار ہے ليکن اس سے غسل باطل نہيں ہوتا۔

“ مسئلہ ۵ ٧٠ اگر ميّت کے بدن کا کوئی حصّہ نجس ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح مسئلہ” ٣٧٨

ميں بيان ہوچکا ہے پاک کيا جائے اور بہتر یہ ہے ہر عضو کو غسل دینے سے پهلے بلکہ ميّت کے پورے بدن کو غسل شروع ہونے سے پهلے دوسری نجاسات سے پاک کيا جائے۔

مسئلہ ۵ ٧١ غسلِ ميّت، غسل جنابت کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ جب تک ميّت کو غسل ترتيبی دینا ممکن ہو غسل ارتماسی نہ دیاجائے اور غسل ترتيبی ميں بھی ضروری ہے کہ دا هنی طرف کو بائيں طرف سے پهلے دهویا جائے۔ ہاں، یہ اختيار ہے کہ پانی اس کے بدن پر ڈاليں یا بدن کو پانی ميں ڈبو دیں۔

۹۵

مسئلہ ۵ ٧٢ جو شخص حيض یا جنابت کی حالت ميں مرجائے اسے غسلِ حيض یا غسلِ جنابت دینا ضروری نہيں ہے بلکہ اس کے لئے صرف غسلِ ميّت کافی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٣ ميّت کو غسل دینے کی اُجرت لينا جائز نہيں ہے اور اگر کوئی شخص اجرت لينے کے لئے ميّت کو غسل دے تو وہ غسل باطل ہے ، ليکن غسل کے غير ضروری ابتدائی کاموں کی اجرت لينا جائز ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۴ اگر پانی ميسر نہ ہو یا اس کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ ہو تو ضروری ہے کہ ہر غسلِ ميّت کے بدلے ایک تيمم کرائے اور احتياط واجب کی بنا پر ان تين غسلوں کی بجائے ایک اور تيمم بھی کرائے اور اگر تيمم کرانے والا ان تيمم ميں سے ایک ميں مافی الذمہ کی نيت کرے، یعنی نيت کرے کہ یہ تيمم اپنی شرعی ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے کروا رہا ہوں جو مجھ پر واجب ہے تو چوتھا تيمم ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧ ۵ جو شخص ميّت کو تيمم کرا رہا ہو اسے چاہيے کہ اپنے ہاتھ زمين پر مارے اور ميت کے چھرے اور ہاتھوں کی پشت پر پهيرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو ميّت کو اس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تيمم کرائے۔

کفن کے احکام

مسئلہ ۵ ٧ ۶ مسلمان ميّت کو تين کپڑوں کا کفن دینا ضروری ہے ، جنہيں لنگ، کرتہ اور چادر کها جاتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٧٧ لنگ اور کرتے کی واجب مقدار یہ ہے کہ عرفاً انہيں لنگ اور کرتہ کها جائے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ لنگ، ناف سے گھٹنوں تک اطراف بدن کو ڈهانپ لے اور افضل یہ ہے کہ سينے سے پاؤں تک پهنچے، جب کہ کرتے ميں ضروری ہے کہ کندہوں کے سروں سے احتياط واجب کی بنا پر آدهی پنڈليوں تک تمام بدن کو ڈهانپ دے اور افضل یہ ہے کہ پاؤں تک پهنچے۔

اورچادر کی لمبائی اتنا ہونا ضروری ہے کہ پاؤں اور سر کی طرف سے گِرہ دے سکيں اور اس کی چوڑائی اتنی ہونی چاہيے کہ اس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے پر آسکے۔

مسئلہ ۵ ٧٨ اگر وارث بالغ ہوں اور اس بات کی اجازت دیں کہ واجب کفن کی مقدار سے زیادہ جسے سابقہ مسئلہ ميں بيان کيا گيا ہے ، کو ان کے حصّے سے لے ليں تو کوئی اشکال نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفن کی واجب مقدار سے زیادہ کو نابالغ وارث کے حصّے سے نہ ليں۔

مسئلہ ۵ ٧٩ اگر کسی شخص نے وصيت کی ہو کہ کفن کی وہ مقدار جو افضل ہے اس کے تھائی مال سے لی جائے یا وصيت کی ہو کہ اس کا تھائی مال خود اس پر خرچ کيا جائے ليکن اس کے مصرف کا تعين نہ کيا ہو یا صرف اس کے کچھ حصّے کا مصرف معين کيا ہو تو کفن کی افضل مقدار کو اس کے تھائی مال سے ليا جاسکتا ہے ۔

۹۶

مسئلہ ۵ ٨٠ اگر مرنے والے نے یہ وصيت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تھائی مال سے ليا جائے اور اس کے اصل مال سے لينا چاہيں تو مسئلہ” ۵ ٧٨ “ ميں بيان کئے گئے طریقے پر عمل کریں۔

مسئلہ ۵ ٨١ عورت کے کفن کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اگر چہ عورت اپنا مال بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کوطلاق رجعی دی گئی ہو اور وہ عدت ختم ہونے سے پهلے مرجائے تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے، جيسا کہ طلاق کے احکام ميں ذکر آئے گا اور اگر شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو اس کے ولی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مال سے عورت کو کفن دے، اور احتياط واجب کی بنا پر نافرمان اور جس عورت سے عقد مو قٔت کيا گيا ہو تو اس کا کفن شوہر پر ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٢ ميّت کو کفن دینا اس کے قرابت داروں پر واجب نہيں ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگرميّت کا کوئی مال نہ ہو تو اسے وہ شخص کفن دے جس کے لئے ميّت کی زندگی ميں اس کے مخارج دینا ضروری تھا۔

مسئلہ ۵ ٨٣ واجب ہے کہ مجموعی طور پر کفن کے تين کپڑے اتنا باریک نہ ہوں کہ ميّت کا بدن نيچے سے نظر آئے، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ تينوں کپڑوں ميں سے ہر کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ ميّت کا بدن اس کے نيچے سے نظر آئے۔

مسئلہ ۵ ٨ ۴ غصب کی ہوئی چيز کا کفن دینا، خواہ کوئی دوسری چيز ميّسر نہ ہو،جائز نہيں ہے اور اگر ميّت کا کفن غصبی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو تو وہ کفن اس کے بدن سے اتار لينا چاہيے خواہ اس کو دفن بھی کيا جاچکا ہو۔ اسی طرح نجس مردار کی کھال کا کفن دینا اختياری حالت ميں جائز نہيں ہے ، بلکہ مجبوری کی حالت ميں بھی نجس مردار کی کھال کا کفن دینا محل اشکال ہے ۔ اسی طرح اختياری حالت ميں پاک مردار کی کھال کا کفن دینا بھی محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۵ ميّت کو نجس چيز، احتياط واجب کی بنا پر اس نجاست کے ساته جو نماز ميں معاف ہے ، اسی طرح خالص ریشم کے کپڑے کا یا ایسے کپڑے کا جس ميں دهاگا ریشم سے زیادہ نہ ہو اور احتياط واجب کی بنا پر زردوزی سے بنائے گئے کپڑے کا کفن دینا جائز نہيں ہے ۔هاں،مجبوری کی حالت ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨ ۶ ميّت کو حرام گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار کئے گئے کپڑے کا کفن دینااختياری حالت ميں احتياط واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم اس حلال گوشت جانور کی کهال سے کفن دینے کا ہے جسے شریعت کے مقررہ طریقے سے ذبح کيا گيا ہو۔ ہاں، حلال گوشت جانور کی اون یا بالوں سے تيار شدہ کفن دینے ميں کوئی حرج نہيں ، اگرچہ احتياط مستحب ہے کہ ان دو کا کفن بھی نہ دیا جائے۔

مسئلہ ۵ ٨٧ اگر ميّت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اسے دهونا یا اس طرح سے کاٹنا ممکن ہو کہ کفن ضائع نہ ہو تو ضروری ہے کہ اتنا مقدار کو جو نجس ہے دهویا یا کاٹا جائے، چاہے ميّت کو قبر ميں اتارا جاچکا ہو اور اگر

۹۷

اس کا دهونا یا کاٹنا ممکن نہ ہو ليکن تبدیل کرنا ممکن ہو ضروری ہے کہ اسے تبدیل کيا جائے۔ البتہ یہ حکم نجاست کی اتنی مقدار تک جو نماز ميں معاف ہے ،احتياط پر مبنی ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٨ اگر کوئی ایسا شخص جس نے حج یا عمرہ کا احرام بانده رکھا ہو مرجائے تو اسے دوسروں کی طرح کفن دینا ضروری ہے اور اس کا سر و چہرہ ڈهانپنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٨٩ انسان کے لئے اپنی زندگی ميں کفن تيار کرنا مستحب ہے اور جب بھی اس پر نظر ڈالے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے ۔

حنُوط کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٠ غسل کے بعد واجب ہے کہ ميّت کو حنوط کيا جائے یعنی اس کی پيشانی، دونوں ہتھيليوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹہوں پر کافور ملا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان مقامات پر کافور کی کچھ مقدار رکھی بھی جائے۔ اسی طرح مستحب ہے کہ ميّت کی ناک پر بھی کافور ملا جائے۔ ضروری ہے کہ کافور پسا ہوا اور تازہ ہو اور اگر پرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبو زائل ہوگئی ہو تو کافی نہيں ۔

مسئلہ ۵ ٩١ احتياط مستحب یہ ہے کہ کافور، پهلے ميّت کی پيشانی پر ملاجائے ليکن دوسرے مقامات پر ملنے ميں ترتيب نہيں ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٢ ميّت کو کفن پهنانے سے پهلے، کفن پهنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حُنوط کيا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩٣ اگر ایسا شخص جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام بانده رکھا ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا جائز نہيں ہے ، ليکن حج کے احرام ميں اگر سعی مکمل کرنے کے بعد مرے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۴ اگر ایسی عورت جس کا شوہر مرگيا ہو اور ابهی اس کی عدت باقی ہو، مرجائے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۵ ٩ ۵ احتياط واجب یہ ہے کہ ميّت کو مشک، عنبر، عود اور دوسری خوشبوئيں نہ لگائيں اور ان خوشبوؤں کو کافور کے ساته بھی نہ ملائيں۔

مسئلہ ۵ ٩ ۶ مستحب ہے کہ تربت سيدالشهداء امام حسين عليہ السلام کی کچھ مقدار کافور ميں ملائی جائے، ليکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نہيں لگاسکتے جهاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ خاک شفا اتنی زیادہ نہ ہو کہ جب کافور کے ساته مل جائے تو اسے کافور نہ کها جاسکے۔

مسئلہ ۵ ٩٧ اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی ہو تو حنوط ضروری نہيں اور اگر غسل کی ضرورت سے زیادہ ہو ليکن تمام سات اعضاء کے لئے کافی نہ ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ پهلے پيشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پرملا جائے۔

مسئلہ ۵ ٩٨ مستحب ہے کہ دو ترو تازہ ٹہنياں ميّت کے ساته قبر ميں رکھی جائيں۔

۹۸

نمازِ ميّت کے احکام

مسئلہ ۵ ٩٩ ہر مسلمان کی اور ایسے بچے کی ميّت پر جو اسلام کے حکم ميں ہو اور پورے چھ

سال کا ہوچکا ہو، نماز پڑھنا واجب ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٠ ایسے بچے کی ميّت پر جو چھ سال کا نہ ہوا ہو رجاء کی نيّت سے نماز پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن مردہ پيدا ہونے والے بچے پر نماز پڑھنا،مشروع نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠١ ميّت کی نماز، اسے غسل دینے، حنوط کرنے اور کفن پهنانے کے بعد پڑھنی چاہئے اور اگر ان امور سے پهلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایسا کرنا خواہ بھول چوک یا مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر ہی کيوں نہ ہو، کافی نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٢ جو شخص نمازِ ميّت پڑھنا چاہے ضروری نہيں کہ اس نے وضو یا غسل یا تيمم کر رکھا ہو اور اس کا بدن و لباس پاک ہو ں، بلکہ اگر اس کا لباس غصبی ہو تب بھی نمازِ ميّت کے لئے کوئی حرج نہيں ۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان تمام چيزوں کا لحاظ رکھے جو دوسری نماز وں ميں لازمی ہيں ، ليکن احتياطِ واجب کی بنا پر ان چيزوں سے پر هيز ضروری ہے جو اہل شرع کے درميا ن رائج نہيں ہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٣ جو شخص نمازِ ميّت پڑھ رہا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ قبلہ رخ ہو ۔ یہ بھی واجب ہے کہ ميّت کو نماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ ميّت کا سر نماز پڑھنے والے کے دائيں طرف اور پاؤں اس کے بائيں طرف ہو ں۔

مسئلہ ۶ ٠ ۴ احتياط مستحب کی بنا پر جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ غصبی نہ ہو، ليکن ضروری ہے کہ نماز پڑھنے کی جگہ ميّت کے مقام سے اونچی یا نيچی نہ ہو ۔هاں، اگر معمولی پستی یا بلندی ہو تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۵ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت سے دور نہ ہو، ليکن جو شخص نمازِ ميّت جماعت کے ساته پڑھ رہا ہو اور وہ ميّت سے دور ہو جب کہ صفيں آپس ميں متصل ہو ں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠ ۶ نمازپڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ميّت کے سامنے کهڑا ہو ليکن اگر نماز باجماعت پڑھی جائے اور جماعت کی صف ميّت کے دونوں طرف سے گزر جائے تو ان لوگوں کی نماز ميں جو ميّت کے سامنے نہ ہوں، کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ۶ ٠٧ ضروری ہے کہ ميّت اور نماز پڑھنے والے کے درميا ن پر دہ، دیوار یا کوئی ایسی چيز حائل نہ ہو ۔ ہاں، اگر ميّت تابوت یا اس جيسی کسی اور چيز ميں رکھی ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ۶ ٠٨ نمازپڑھتے وقت ضروری ہے کہ ميّت کی شرمگاہ ڈهکی ہو ئی ہو اور اگر اسے کفن پهنانا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی شرمگاہ کو، چاہے لکڑی کے تختے، اینٹ یا انهی جيسی کسی چيز سے ڈهانپ دیں۔

۹۹

مسئلہ ۶ ٠٩ نمازِ ميّت پڑھنے والے کا مومن ہونا ضروری ہے ۔ غير بالغ کی نماز اگر چہ صحيح ہے ليکن بالغين کی نماز کی جگہ نہيں لے سکتی۔ ضروری ہے کہ نمازِ ميّت کھڑے ہو کر، قربت کی نيت و اخلاص سے پڑھے۔ نيت کرتے وقت ميت کو معين کرے مثلاً نيت کرے: نماز پڑھتا ہو ں اس ميّت پر قربةً الی الله۔

مسئلہ ۶ ١٠ اگر کوئی کھڑے ہو کر نمازِ ميّت پڑھنے والا نہ ہو تو بيٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ۶ ١١ اگر مرنے والے نے وصيّت کی ہو کہ کوئی معين شخص اس کی نماز پڑھائے، احتياط مستحب ہے کہ وہ شخص ميّت کے ولی سے اجازت لے اور ولی بھی اجازت دے دے۔

مسئلہ ۶ ١٢ ميّت پر چند مرتبہ نماز پڑھنا جائز ہے ۔

مسئلہ ۶ ١٣ اگر ميّت کو جان بوجه کر یا بھول چوک کی وجہ سے یا کسی عذر کی بنا پر بغير نماز پڑھے دفن کر دیا جائے تو جب تک اس کا بدن متلاشی نہ ہو ا ہو واجب ہے کہ نمازِ ميّت کے سلسلے ميں مذکورہ شرائط کے ساته اس کی قبر پر نماز پڑہيں ۔یهی حکم اس وقت ہے جب اس پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہو ۔

نمازِ ميّت کا طريقہ

مسئلہ ۶ ١ ۴ نمازِ ميّت ميں پانچ تکبيریں ہيں اور اگر نماز پڑھنے والا اس ترتيب کے ساته پانچ تکبيریں کهے تو کافی ہے :

نيت کرنے اور پهلی تکبير کے بعد کهے:

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰه

دوسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّد

تيسری تکبير کے بعد کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُو مِْٔنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَات

چوتھی تکبير کے بعد اگر ميّت مرد ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذَا الْمَيِّت

اور اگر ميّت عورت ہے تو کهے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِهٰذِهِ الْمَيِّت

اس کے بعد پانچویں تکبير کهے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

مسئلہ ١ ۶ ٣٢ اگر اس چيز کا پتہ لگانے کے لئے کہ وقت ہے یا نہيں جستجو کرے اوریہ گمان حاصل کرنے کے بعدکہ غسل کے لئے وقت ہے ، اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تيمم کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ، اور اگر جستجو کئے بغير گمان کرے کہ وقت ہے اور اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تيمم کے ساته روزہ رکھ لے تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٣ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں جنب ہو اور جانتا ہو کہ اگر سوگيا تو صبح تک بيدار نہيں ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ غسل کئے بغير نہ سوئے اور اگر غسل سے پهلے سو جائے اور صبح تک بيدار نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہو جائيں گے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۴ جب بھی جنب ماہ رمضان کی کسی شب ميں بيدار ہو، اِس صورت ميں کہ اطمينان نہ رکھتا ہوکہ اذان صبح سے پهلے غسل کے لئے بيدار ہو سکے گا تو احتياط مستحب یہ ہے کہ غسل کرنے سے پهلے نہ سوئے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۵ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں جنب ہو اور یقين یا اطمينان رکھتا ہو کہ اگر سوگيا تو اذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوجائے گا، چنانچہ پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ بيدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور اس ارادے سے سو جائے اور اذانِ صبح تک سوتا رہے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۶ جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو اور اُسے علم ہو یا احتمال ہو کہ اگر سو گيا تو صبح کی اذان سے پهلے بيدار ہوجائے گا، اگر وہ اس بات سے غافل ہو کہ بيدار ہونے کے بعداس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، اس صورت ميں کہ وہ سوجائے اور صبح کی اذان تک سوتا رہے، تو بنا بر احتياط ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٧ جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو اور اُسے یقين ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ اگر سوگيا تو اذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوجائے گاليکن بيدار ہونے کے بعد وہ غسل نہ کرنا چاہتا ہو یا تردد کا شکار ہو کہ غسل کرے یا نہيں تو اس صورت ميں اگرسو جائے اور بيدار نہ ہو تواس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ اس پر واجب ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٨ اگر جنب ماہ رمضان کی کسی رات ميں سوکر بيدار ہوجائے اور اسے معلوم ہو یا اس بات کا احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوجائے تواذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوگا اورمصمم ارادہ بھی رکھتا ہوکہ بيدار ہونے کے بعد غسل کرے گا، چنانچہ دوبارہ سوجائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر دوسری نيند سے بيدار ہو اور تيسری مرتبہ کے لئے سوجائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہوتوضروری ہے کہ اِس دن کے روزے کی قضا کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے۔

۲۶۱

مسئلہ ١ ۶ ٣٩ محتلم ہونے کی صورت ميں پهلی نيند سے مراد، وہ نيند ہے کہ جس ميں بيدار ہونے کے بعد سوجائے، یعنی وہ نيند کہ جس ميں محتلم ہوا ہے پهلی نيند شمار نہيں ہوگی۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٠ اگر روزہ دار دن ميں محتلم ہوجائے تو فوری طور پر غسل کرنا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ١ اگر ماہ رمضان ميں اذانِ صبح کے بعد بيدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہو گيا ہے تو اگر چہ جانتا ہو کہ اذان سے پهلے محتلم ہوا تھا، اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٢ جو شخص ماہ رمضان کے روزے کی قضا رکھنا چاہتا ہو، اگر وہ اذانِ صبح تک جنب رہے خواہ جان بوجه کر نہ بھی ہو، اس کا روزہ باطل ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٣ جو شخص ماہ رمضان کا قضا روزہ رکھنا چاہتا ہو، اگر وہ اذانِ صبح کے بعد بيدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہوگيا ہے اور جانتا ہو کہ اذان سے پهلے محتلم ہوا ہے تو بنا بر احتياط اس کا روزہ باطل ہوگا، ليکن اگر روزے کی قضا کا وقت دوسرے ماہ رمضان کے آنے تک تنگ ہو، مثال کے طور پر رمضان کے پانچ روزے قضا ہوں اور رمضان آنے ميں محض پانچ دن رہ گئے ہوں تو بنا بر احتياطِ واجب اس دن روزہ رکھے اور ایک اور روزہ ماہ رمضان کے بعدبهی رکھے۔

مسئلہ ١ ۶۴۴ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوں کے علاوہ ایسے واجب روزوں ميں جن کا وقت معين نہ ہومثلاً کفارے کے روزے، جان بوجه کر اذانِ صبح تک جنابت کی حالت ميں رہے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس دن کے علاوہ کسی دوسرے دن روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۶۴۵ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور جان بوجه کر غسل نہ کرے یا اگر اُس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہے اوراگر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوتا اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ غسل کرلے۔

مسئلہ ١ ۶۴۶ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کے لئے وقت نہ رکھتی ہوتوضروری ہے کہ تيمم کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اذان صبح تک جاگتی رہے اور جس جنب شخص کی ذمہ داری تيمم ہو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٧ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح کے قریب حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور غسل اور تيمم ميں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہو تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

۲۶۲

مسئلہ ١ ۶۴ ٨ اگر عورت اذانِ صبح کے بعد حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے یا دن ميں کسی وقت خون حيض یا نفاس دیکھے اگر چہ مغرب کا وقت نزدیک ہو، اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٩ اگر عورت غسلِ حيض یا نفاس کرنا بھول جائے اور ایک یا کئی دنوں کے بعد اسے یاد آئے تو جو روزے اس نے رکھے ہوں وہ صحيح ہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٠ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور کوتاہی کرتے ہوئے اذانِ صبح تک غسل نہ کرے اُس کا روزہ باطل ہے ، ليکن اگر کوتاہی نہ کرے مثلاً زنانہ حمام کے ميسر ہونے کا انتظار کرے تو خواہ اس مدت ميں وہ تين بار سوئے اور اذان تک غسل نہ کرے تو تيمم کر لينے کی صورت ميں اس کا روزہ صحيح ہے اور اگر تيمم بھی ممکن نہ ہو تو اُس کا روزہ بغير تيمم کے بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ١ جو عورت استحاضہ کثيرہ کی حالت ميں ہو اگر وہ اپنے غسلوں کو احکام استحاضہ ميں گذری ہوئی تفصيل کے مطابق انجام دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے اور استحاضہ متوسطہ ميں اگر چہ غسل نہ کرے تب بھی اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٢ جس نے ميت کو مس کيا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ ميت کے بدن سے لگایا ہو تو وہ غسلِ مسِ ميت انجام دئے بغير روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر روزے کی حالت ميں بھی ميت کو مس کرے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

٨۔ حقنہ لينا

مسئلہ ١ ۶۵ ٣ بهنے والی چيز سے انيما لينا اگرچہ مجبوری اور علاج کے لئے ہو، روزے کو باطل کردیتا ہے ۔

٩۔ قے کرنا

مسئلہ ١ ۶۵۴ اگر روزے دار عمداً قے کرے اگر چہ بيماری یا ایسی ہی کسی چيز کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر بھولے سے یا بے اختيار قے کرے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۵۵ اگر رات ميں کوئی ایسی چيز کهالے کہ جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ اس کی وجہ سے دن ميں بے اختيار قے کردے گا تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶۵۶ اگر روزہ دار قے روک سکتا ہو تو ضرر اور مشقت نہ ہو نے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قے کو روکے۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٧ اگر مثلاً روزے دار کے حلق ميں مکهی چلی جائے اور قے کئے بغير اُسے باہر نکالنا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ باہر نکالے اور اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر ممکن نہ ہو تو اگر اسے نگلنا، کھانا کها جائے تو ضروری ہے کہ اُسے باہر نکالے اگرچہ قے کے ذریعے ہو اور اس کا روزہ باطل ہے اور اگر نگلنے کو کھانا نہ کها جائے تو ضروری ہے کہ باہر نہ نکالے اور اس کا روزہ صحيح ہے ۔

۲۶۳

مسئلہ ١ ۶۵ ٨ اگر بھولے سے کسی چيز کو نگل لے اور حلق سے گزر جائے اور پيٹ ميں پهنچنے سے پهلے اِس کو یاد آجائے کہ روزہ ہے تو اس کا باہر نکالناضروری نہيں ہے اور اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٩ اگر یقين ہو کہ ڈکار لينے کی وجہ سے کوئی چيز گلے سے باہر آجائے گی تو بنا بر احتياطِ واجب جان بوجه کر ڈکار نہ لے، ليکن اگر یقين نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٠ اگر ڈکار لينے سے کوئی چيز منہ ميں آجائے تو باہر اگل دینا ضروری ہے اور اگر بے اختيار اندر چلی جائے تو روزہ صحيح ہے ۔

روزہ باطل کر نے والی چيزوں کے احکام

مسئلہ ١ ۶۶ ١ اگر کوئی شخص جان بوجه کر اور اختيار سے روزہ باطل کر دینے والے کسی بھی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ ہاں، اگر جان بوجه کر نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر جنب سو جائے اور مسئلہ” ١ ۶ ٣ ۶ “ ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اذانِ صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٢ اگر روزہ دار بھولے سے روزہ باطل کرنے والے کاموں ميں سے کوئی کام انجام دے اور اس خيال سے کہ اس کا روزہ باطل ہوگيا ہے وہ عمداًدوبارہ ان ميں سے کسی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٣ اگر کوئی چيز زبردستی روزہ دار کے گلے ميں ڈال دی جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا، ليکن اگر اسے روزہ توڑنے پر مجبور کيا جائے مثلاًاس سے کها جائے:” اگر تم نے کھانا نہ کهایا تو ہم تمہيں جانی یا مالی نقصان پهنچائيں گے“ اور وہ نقصان سے بچنے کے ليے خود کوئی چيز کها لے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۶۴ ضروری ہے کہ روزہ دار ایسی جگہ نہ جائے جس کے بارے ميں جانتا ہو یا اطمينان رکھتا ہو کہ کوئی چيز اس کے حلق ميں ڈال دی جائے گی یا اسے اپنا روزہ باطل کرنے پر مجبور کيا جائے گا لہٰذا اگر وہ چلا جائے اور کوئی چيز اس کے گلے ميں ڈال دی جائے یا وہ خود مجبوری کی بنا پر روزہ باطل کرنے والے کسی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، بلکہ اگر صرف جانے کا ارادہ کرے اگرچہ نہ جائے اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

وہ چيزيں جو روزہ دار کے لئے مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۶۶۵ کچھ چيزیںروزہ دار کے لئے مکروہ ہيں جن ميں سے بعض یہ ہيں :

١) آنکہوں ميں دوائی ڈالنا اور سرمہ لگانا جب کہ ان کا مزہ یا بو حلق تک پهنچ جائے۔

٢) کسی بھی ایسے کا م کو انجام دینا جو کمزوری کا باعث ہو مثلاً خون نکالنا یا حمام جانا۔

۲۶۴

٣) ناس کھينچنا بشرطيکہ معلوم نہ ہو کہ حلق تک پهنچ جائے گی اور اگر معلوم ہو کہ حلق تک پهنچ جائے گی تو جائز نہيں ہے ۔

۴) خوشبودار جڑی بوٹيوں کوسونگهنا۔

۵) عورت کا پانی ميں بيٹھنا۔

۶) خشک چيز سے انيما کرنا۔

٧) بدن پر موجود لباس کو تر کرنا۔

٨) دانت نکالنا اور ہر وہ کا م جس کی وجہ سے منہ سے خون نکل آئے۔

٩) تر لکڑی سے مسواک کرنا۔

١٠ ) بلاوجہ پانی یا کوئی بهنے والی چيز منہ ميں ڈالنا۔

اور یہ بھی مکروہ ہے کہ انسان منی خارج کرنے کا ارادہ کئے بغير اپنی بيوی کا بوسہ لے یا اپنی شهوت کو ابهارنے والا کوئی بھی کام انجام دے اور اگر منی خارج کرنے کا ارادہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

قضا و کفارہ واجب ہونے کے مقامات مسئلہ ١ ۶۶۶ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو جائے اور مسئلہ” ١ ۶ ٣ ۶ “ ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق بيدار ہو کر دوبارہ سو جائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ صرف ا س روزے کی قضا کرے ليکن اگر روزہ دار مبطلاتِ روزہ ميں سے کوئی اور کام عمدا انجام دے جب کہ وہ جانتا ہو کہ یہ کام روزے کو باطل کر دیتا ہے تو قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہو جائيں گے۔ یهی حکم اس صورت ميں بھی ہے جب جانتا ہو کہ یہ کام حرام ہے چاہے یہ نہ جانتا ہو کہ یہ روزے کو باطل بھی کر دیتا ہے جيسے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام ميں سے کسی پر جھوٹ باندهنا۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٧ اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے مبطلاتِ روزہ ميں سے کسی کام کو اس عقيدے کے ساته کہ یہ عمل روزے کو باطل نہيں کرتا، انجام دے تو ا س پر کفارہ واجب نہيں ۔

روزے کا کفارہ

مسئلہ ١ ۶۶ ٨ ماہِ رمضان کا روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ:

١) ایک غلام کو آزاد کرے ،یا

٢) آنے والے مسئلے ميں بيان کردہ طریقے کے مطابق دو ماہ کے روزے رکھے ،یا

٣) ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا ہر فقير کو ایک مُد، جو تقریباًساڑھے سات سو گرام بنتا ہے گندم، آٹا، روٹی، کھجور یا ان جيسی کوئی کھانے کی چيز دے۔

۲۶۵

اور اگر یہ چيزیں ممکن نہ ہوں تو احتياطِ واجب کی بنا پر جس قدر ممکن ہو صدقہ دے اور استغفار بھی کرے اور اگر صدقہ دینا بھی ممکن نہ ہو تو استغفار کرے اگرچہ صرف ایک مرتبہ ”استغفراللّٰہ“کهے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب بھی ممکن ہو کفارہ بھی دے۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٩ جو شخص ماہِ رمضان کے کفارے ميں دو ماہ کے روزے رکھنا چاہتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مهينہ مکمل اور اگلے مهينے کا پهلا دن مسلسل روزے رکھے جب کہ باقی روزے اگر مسلسل نہ بھی ہوں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٠ جو شخص رمضان کے کفارے ميں دو ماہ کے روزے رکھنا چاہتا ہو ضروری ہے کہ ایسے وقت ميں شروع نہ کرے جب جانتا ہو کہ ایک مهينے اور ایک دن کے درميان عيدِ قربان کی طرح کوئی ایسا دن بھی ہے جس کا روزہ حرام ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧١ جس کے لئے مسلسل روزے رکھنا ضروری ہوں اگر درميان ميں بغير کسی عذر کے ایک دن روزہ نہ رکھے یا ایسے وقت روزے رکھنا شروع کرے جب جانتا ہو کہ درميان ميں ایک ایسا دن آرہا ہے کہ جس ميں روزہ رکھنا اس پر واجب ہے ، مثلاًوہ دن آرہا ہے جس ميں روزہ رکھنے کی نذر کر رکھی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ شروع سے روزے رکھے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٢ اگر ان دنوں ميں جب مسلسل روزے رکھنا ضروری ہيں ، بے اختيا ر کوئی عذر پيش آجائے جيسے حيض یا نفاس یا کسی بيماری ميں مبتلاہو جائے، تو عذر ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ باقی روزوں کو عذر ختم ہونے کے بعد بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٣ اگر کسی حرام چيز سے اپنے روزے کو باطل کر دے خواہ وہ چيز بذاتِ خود حرام ہوجيسے شراب اور زنا یا کسی وجہ سے حرام ہو گئی ہو جيسے اپنی حائضہ بيوی سے مقاربت کرنا تو احتياط کی بنا پر اس پر کفارہ جمع واجب ہو جائے گا یعنی ضروری ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، دو مهينے کے روزے رکھے اور ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا بھی کهلائے یا ان ميں سے ہر ایک کو ایک مُد طعام دے۔

اور اگر یہ تينوں اس کے لئے ممکن نہ ہوں تو ضروری ہے کہ ان ميں سے جو ممکن ہو انجام دے اور بنا بر احتياطِ واجب استغفار بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۴ اگر روزہ دار جان بوجه کر خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے جھوٹی بات منسوب کرے تو احتياط کی بنا پر کفارہ جمع اس پر واجب ہو جائے گا جس کی تفصيل گذشتہ مسئلے ميں بيان کی گئی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۵ اگر روزہ دار ماہِ رمضان کے ایک ہی دن ميں کئی بار جماع یا استمنا کرے تو بنا بر احتياط اس پر ہر مرتبہ کے لئے کفارہ واجب ہو جائے گا اور اگر اس کاجماع یا استمنا حرام ہو تو بنا بر احتياط ہر مرتبہ کيلئے ایک کفارہ جمع اس پر واجب ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۶ اگر روزہ دار ماہِ رمضان کے ایک دن ميں جماع اور استمنا کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو چند بار انجام دے تو ان سب کے لئے ایک کفارہ کافی ہے ۔

۲۶۶

مسئلہ ١ ۶ ٧٧ اگر روزہ دار جماع اور استمنا کے علاوہ روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں اپنے لئے حلال عورت سے جماع یا استمنا کرے تو پهلے کام کے لئے ایک کفارہ اور جماع یا استمنا کے لئے بنا بر احتياط ایک دوسرا کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٨ اگر روزہ دار جماع اور استمنا کے علاوہ کوئی اور ایسا حلال کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو انجام دے مثلاً پانی پئے پھر جماع یا استمنا کے علاوہ کوئی ایسا حرام کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو انجام دے مثلاًحرام کھانا کهالے تو ایک کفارہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٩ اگر روزے دار کے ڈکار لينے سے کوئی غذا اس کے منہ ميں آجائے اور وہ اسے عمداً نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب ڈکار لينے سے منہ ميں آنے والی چيز غذا کے مرحلے سے نکل چکی ہو اگرچہ اس صورت ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ کفارہ جمع دے اور اگر ڈکار لينے سے ایسی چيز منہ ميں آجائے کہ جس کا کھانا حرام ہے جيسے خون اور اسے عمداً نگل لے تو روزہ باطل ہے اور ضروری ہے کہ اس دن کی قضا کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر کفارہ جمع بھی دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٠ اگر نذر کرے کہ ایک معين دن روزہ رکھے گا اور اس دن جان بوجه کر اپنا روزہ باطل کردے تو ضروری ہے کہ کفارہ دے اور نذر توڑنے کا کفارہ وهی ہے جو قسم توڑنے کا کفارہ ہے جسے مسئلہ نمبر ” ٢٧٣ ۴ “ ميں بيان کيا جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٨١ اگر روز ہ د ارکسی ایسے شخص کے کهنے پر جس کا کهنا ہو کہ مغرب ہو گئی ہے جب کہ شرعاً اس شخص کی بات قابلِ اعتبار نہ ہو، افطار کرلے او ر بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب کا وقت نہيں ہوا تھا یا شک کرے کہ مغرب ہوئی تھی یا نہيں تو اس پر قضا اور کفارہ واجب ہو جائيں گے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٢ جو شخص جان بوجه کر اپنا روزہ توڑ دے اگر وہ ظہر کے بعد سفر کرے یا کفارے سے بچنے کے لئے ظہر سے پهلے سفر کرے تو اس سے کفارہ ساقط نہيں ہو گا اور ظہر سے پهلے سفر پيش آجانے پر بھی بنا بر اقویٰ یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٣ اگر جان بوجه کر اپنا روزہ توڑدے اور بعد ميں کوئی عذر جيسے حيض یا نفاس یا کوئی بيماری اسے لاحق ہو جائے تو بنا بر احتياط اس پر کفارہ واجب ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۴ اگر کسی کو یقين یا اطمينا ن ہو یا شرعی گواہی قائم ہو جائے کہ ماہِ رمضان کا پهلا دن ہے اور جان بوجه کر اپنے روزے کو باطل کر دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ شعبان کا آخری دن تھا تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۵ اگر انسان شک کرے کہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا شوال کی پهلی اور جان بوجھ کر اپنے روزے کو باطل کردے اور بعد ميں معلوم ہو کہ شوال کی پهلی تھی تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

۲۶۷

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۶ اگر روزہ دار رمضان ميں اپنی روزہ دار بيوی سے جماع کرے جبکہ اس نے بيوی کو جماع پر مجبور کيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے اور بنا بر احتيا ط اپنی بيوی کے روزے کا کفارہ دے اور اگر بيوی جماع پر راضی تھی تو ہر ایک پر ایک کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٧ اگر عورت اپنے روزے دار شوہر کو جماع کرنے پر مجبور کرے تو اس پر شوہر کے روزے کا کفارہ دینا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٨ اگر روزے دار ماہِ رمضان ميں اپنی بيوی کو جماع پر مجبور کرے اور جماع کے دوران عورت راضی ہو جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر مرد دو کفارے اور عورت ایک کفارہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٩ اگر روزے دار ماہِ رمضان ميں اپنی سوئی ہوئی روزہ دار بيوی سے جماع کرے تو اس پر ایک کفارہ واجب ہو گا جب کہ بيوی کا روزہ صحيح ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٠ اگر مرد اپنی بيوی کو یا بيوی اپنے شوہر کو جماع کے علاوہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اور کام انجام دینے پر مجبور کرے تو ان ميں سے کسی پر کفارہ واجب نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩١ جو شخص سفر یا بيماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ رہا ہو وہ اپنی روزے دار بيوی کو جماع پر مجبور نہيں کر سکتا، ليکن اگر مجبور کرے تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٢ ضروری ہے کہ انسان کفارے کی ادائيگی ميں کوتاہی نہ کرے، البتہ اسے فوراً ادا کرنا بھی ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٣ اگر انسان پر کفارہ واجب ہوئے چند سال گذر جائيں اور کفارہ انجا م نہ دیا ہو تو اس پر کسی چيز کا اضافہ نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۴ جو شخص ایک دن کے کفارے کے لئے ساٹھ فقيروں کو کھانا کهلانا چاہتا ہو، وہ یہ نہيں کر سکتا کہ ان ميں سے ایک فقير کو دو یا اس سے زیادہ بار پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا انہيں ایک مُد سے زیادہ طعام دے اور زیادہ کو کفارہ ميں شمار کرے۔ ہاں، وہ یہ کر سکتا ہے کہ فقير کو اس کے اہل و عيال کے ساته پيٹ بھر کر کھانا کهلائے جو چاہے چھوٹے ہی کيوں نہ ہوں ليکن عمر کے اعتبار سے اتنے ہوں کہ انہيں کهلانے کو کھانا کهلانا کها جاسکے یا بچے کے ولی کو بچے کے لئے ایک مُد دے دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۵ جس شخص نے ماہِ رمضان کا قضا روزہ رکھا ہو اگر وہ ظہر کے بعد عمداًروزہ توڑنے والا کوئی کام انجام دے تو ضروری ہے کہ دس فقيروں کو ایک ایک مُد طعام دے اور اگر یہ نہ کر سکتا ہو تو تين دن روزے رکھے جو بنا بر احتياط مسلسل ہوں۔

۲۶۸

وہ مقامات کہ جن ميں صرف روزے کی قضا واجبہے

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۶ چند صورتو ں ميں انسان پر روزے کی صرف قضا واجب ہے اور کفارہ واجب نہيں ہے :

١) ماہ رمضان کی رات ميں جنب ہو اور مسئلہ نمبر ” ١ ۶ ٣٨ “ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اذانِ صبح تک دوسری اور تيسری نيندسے بيدار نہ ہو۔

٢) روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو ليکن روزے کی نيت نہ کرے یا ریاکاری کرے، یا روزے سے نہ ہونے کا ارادہ کرے یا روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ کرے اور انجام نہ دے۔

٣) ماہ رمضان ميں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور اسی حالت ميں ایک یا چند دن روزہ رکھے۔

۴) ماہ رمضان ميں یہ جستجو کئے بغير کہ صبح ہوگئی ہے یا نہيں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی۔ اسی طرح اگر جستجو کرنے کے بعد یہ گمان ہو کہ صبح ہو گئی ہے یا شک کرے کہ صبح ہو ئی یا نہيں اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی تو اس روزے کی قضا اس پر واجب ہے ۔

۵) کسی کے یہ کهنے پر کہ صبح نہيں ہوئی انسان روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی۔

۶) کسی کے یہ کهنے پر کہ صبح ہوگئی ہے یقين نہ کرتے ہوئے یا اس خيال سے کہ وہ مذاق کر رہا ہے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو چکی تھی۔

٧) نا بينا یا اس جيسا کوئی شخص کسی اور کے کهنے پر افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تھی۔

٨) مطلع صاف ہو اور تاریکی کی وجہ سے اس یقين کے ساته کہ مغرب ہو گئی ہے افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تهی، ليکن اگر مطلع ابر آلود ہو اور اس گمان کے ساته کہ مغرب ہو گئی ہے افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تھی تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

٩) ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے یا بلاوجہ کلی کرے اور بے اختيار پانی منه کے اندر چلا جائے ليکن اگر بھول جائے کہ روزہ سے ہے اور پانی اندر لے جائے یا واجب نماز کے وضو کے لئے کلی کرے اور بے اختيار پانی اندر چلا جائے تو اس پر قضا واجب نہيں ۔

١٠ ) کوئی زبردستی یا مجبوری یا تقيہ کی وجہ سے افطار کرے۔

۲۶۹

مسئلہ ١ ۶ ٩٧ اگر پانی کے علاوہ کوئی اور چيز منہ ميں ڈالے اور وہ بے اختيار اندر چلی جائے یا پانی ناک ميں ڈالے اور بے اختيار اندر چلا جائے تو اس پر قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٨ روزہ دار کے لئے زیادہ ناک ميں پانی ڈالنا یا کلی کرنا مکروہ ہے اور اگر کلی کرنے کے بعد لعاب دهن کو نگلنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ اس سے پهلے تين مرتبہ لعاب دهن کو تهوک دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٩ اگر انسان جانتا ہو کہ کلی کرنے یا ناک ميں پانی ڈالنے کی وجہ سے بے اختيار یا بھولے سے پانی اس کے حلق ميں چلا جائے گا تو ضروری ہے کہ نہ کلی کرے اور نہ ناک ميں پانی ڈالے۔

مسئلہ ١٧٠٠ اگر ماہ رمضان ميں جستجو کرنے کے بعد اس یقين کے ساته کہ صبح نہيں ہوئی، روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تو قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٠١ اگر انسان شک کرے کہ مغرب ہو گئی ہے یا نہيں تو وہ افطار نہيں کر سکتا ہے ، ليکن اگر شک کرے کہ صبح ہوئی ہے یا نہيں تو جستجو سے پهلے بھی وہ روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے سکتا ہے ۔

قضا روزے کے احکام

مسئلہ ١٧٠٢ اگر دیوانہ عاقل ہو جائے تو دیوانگی کے وقت کے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٠٣ اگر کافر مسلمان ہو جائے تو کفر کے وقت کے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر کوئی مسلمان کافر ہو جائے تو جو روزے کفر کے زمانے ميں اس نے نہيں رکھے ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے اور اگر مسلمان بھی ہو جائے تو اسلام لانے کی وجہ سے اس پر سے کوئی چيز ساقط نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٧٠ ۴ جو روزہ انسان سے نشہ کی حالت ميں چھوٹ گيا ہو اس کی قضا ضروری ہے اگرچہ جس چيز کی وجہ سے اس پر نشہ طاری ہوا ہو اسے علاج کے لئے کهایا ہو۔

مسئلہ ١٧٠ ۵ اگر کسی عذر کی وجہ سے چند دن روزہ نہ رکھے اور بعد ميں شک کرے کہ اس کا عذر کس وقت ختم ہو ا تھا تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس زیادہ مقدار کے روزوں کی قضا کرے جس ميں روزے نہ رکھنے کا احتمال ہے ۔ مثلاًجس نے ماہ رمضان سے پهلے سفر کيا ہو اور نہ جانتا ہو کہ پانچویں رمضان کو پهنچا تھا یا چھٹی رمضان کو تو بنا بر احتياطِ واجب چھ روزے رکھے، ليکن جو شخص یہ نہ جانتا ہو کہ کس وقت عذر پيش آیا تھا تو وہ کم مقدار کی قضا کر سکتا ہے مثال کے طور پر ماہ رمضان کے آخر ی ایام ميں سفر کرے اور رمضان کے بعد لوٹے اور نہ جانتا ہو کہ پچيسویں رمضان کو سفر کيا تھا یا چھبيسویں کو تو وہ کم مقدار یعنی پانچ دن کی قضا پر اکتفا کر سکتا ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ زیادہ دنوں کی قضا کرے۔

۲۷۰

مسئلہ ١٧٠ ۶ جس پر چند رمضان کے مهينوں کے روزوں کی قضا ہو تو کسی کی بھی قضا پهلے انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، ليکن اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا آخری رمضان کے پانچ روزوںکی قضا اس پر ہو اور رمضان آنے ميں بھی پانچ دن رہ گئے ہوں تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ پهلے آخری رمضان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧٠٧ جس شخص پر کئی رمضان کے مهينوں کے روزوں کی قضا واجب ہو، اس کے لئے قضا کرتے وقت یہ معين کرنا ضروری نہيں ہے کہ یہ کس رمضان کے روزوں کی قضا ہے مگر یہ کہ دونوں روزوں ميں اثر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔

مسئلہ ١٧٠٨ انسان ماہِ رمضان کے قضا روزے ميں ظہر سے پهلے اپنا روزہ باطل کر سکتا ہے ، ليکن اگر قضا کرنے کا وقت تنگ ہو تو احتياطِ واجب کی بناپر اپنا روزہ باطل نہيں کر سکتا ۔

مسئلہ ١٧٠٩ جس نے کسی ميت کا قضا روزہ رکھا ہو احتياط مستحب یہ ہے کہ زوال کے بعد روزہ نہ توڑے۔

مسئلہ ١٧١٠ اگر بيماری، حيض یا نفاس کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اور رمضان کے مکمل ہونے سے پهلے یا رمضان ختم ہونے کے بعد اور قضا پر قدرت حاصل کرنے سے پهلے مر جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧١١ جس شخص نے بيمار ی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے ہو ں اور اس کی بيمار ی اگلے سال کے رمضان تک باقی رہے تو چھوڑے ہوئے روزوںکی قضا اس پر واجب نہيں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے، ليکن اگر اس نے کسی اور عذر مثلاًسفر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اور اس کا عذر اگلے رمضان تک باقی رہے تو ضروری ہے کہ چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقير کودے۔

مسئلہ ١٧١٢ اگر کوئی شخص بيمار ی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اور رمضان کے بعد اس کی بيماری تو ختم ہو جائے ليکن کوئی دوسرا عذر پيش آ جائے کہ جس کی وجہ سے اگلے رمضان تک روزے کی قضا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ نہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔

اسی طرح اگر اس نے ماہ رمضان ميں بيمار ی کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اور رمضان کے بعد اس کا عذر تو برطرف ہو جائے ليکن اگلے سال کے رمضان تک بيمار ی کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے تو ضروری ہے کہ نہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔ اور دونوں صورتوں ميں احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١٣ جو شخص ماہ رمضان ميں کسی عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے اور رمضا ن کے بعد عذر بر طرف ہوجانے کے باوجود اگلے سال کے رمضان تک عمداً ان روزوں کی قضا نہ کر ے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بھی کرے اور ہر دن کے لئے فقير کو ایک مد طعام بھی دے۔

۲۷۱

مسئلہ ١٧١ ۴ اگر روزوں کی قضا کرنے ميں اتنی کوتاہی کرے کہ وقت تنگ ہوجائے اور وقت کی تنگی ميں عذر پيش آ جائے تو ضروری ہے کہ قضا روزے رکھے اور ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ اسی طرح اگر عذر کے وقت پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ عذر کے زائل ہونے کے بعد اپنے روزوں کی قضا کرے گا ليکن اس سے پهلے کہ قضا کرے وقت کی تنگی ميں عذرپيش آجائے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بھی کرے اور ہر دن کے لئے احتياطِ واجب کی بنا پر ایک مدطعام بھی فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١ ۵ اگر کسی انسان کی بيماری کئی سال تک طولانی ہوجائے تو صحت یاب ہونے کے بعد ضروری ہے کہ آخری رمضان کے روزے قضا کرے اور پچهلے سالوں کے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١ ۶ جس شخص پر ہر دن کے لئے ایک مُد طعام فقير کو دینا ضروری ہو تو و ہ چند دنوں کا کفارہ ایک ہی فقير کو بھی دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧١٧ اگر رمضان کے قضا روزوں کو چند سالوں تک انجام نہ دے تو ضروری ہے کہ قضا کرے اور پهلے سال کی تاخير کی وجہ سے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے، البتہ بعد کے چند سالوں کی تاخير کی وجہ سے اس پر کوئی چيز واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧١٨ اگر رمضان کے روزے جان بوجه کر نہ رکھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بھی انجام دے اور ہر دن کے لئے یا ایک غلام کو آزاد کرے یا ساٹھ فقيروں کو طعام دے یا دو مهينے کے روزے رکھے اور اگر آئندہ رمضان تک ان روزوں کی قضا انجام نہ دے تو ہر دن کے لئے فقير کو ایک مد طعام بھی دے۔

مسئلہ ١٧١٩ اگر رمضان کا روزہ جان بوجه کر نہ رکھے اور دن ميں چند مرتبہ جماع یا استمنا کرے تو احتياطِ واجب کی بناپر ہر بار کے لئے کفارہ دے، ليکن اگر چند مرتبہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اورکام انجام دے مثلاًچند مرتبہ کھانا کھائے تو ایک کفارہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٠ باپ کے مرنے کے بعد ضروری ہے کہ اس کا بڑا بيٹا مسئلہ نمبر ” ١٣٩٨ “ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اس کے روزوں کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٧٢١ اگر باپ نے رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ مثلاًنذر کا روزہ نہ رکھا ہو تو واجب ہے کہ بڑا بيٹا اس کی بھی قضا کرے، ليکن اگر باپ کسی کے روزے رکھنے کے لئے اجير بنا ہو اور ان کو نہ رکھا ہو تو بڑے بيٹے پر اس کی قضا ضروری نہيں ۔

۲۷۲

مسافر کے روزوں کے احکام

مسئلہ ١٧٢٢ جس مسافر کی ذمہ داری ہے کہ چار رکعتی نمازوں کو سفر ميں دورکعت پڑھے، ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور جس مسافر کو اپنی نمازیں پوری پڑھنا ہيں ، مثلاًوہ شخص جس کا پيشہ ہی سفر کرنا ہو یا اس کا سفر گناہ کاسفر ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ سفر ميں روزہ رکھے۔

مسئلہ ١٧٢٣ ماہ رمضا ن ميں سفر کرنے ميں کوئی حرج نہيں ليکن مکروہ ہے ، چاہے روزے سے فرار کرنے کے لئے نہ ہو، مگر یہ کہ سفر اس کی ضرورت کی وجہ سے ہو یا جيسا کہ بعض روایتوں ميں آیا ہے حج یا عمرہ کے لئے ہو۔

مسئلہ ١٧٢ ۴ اگر ماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرا معين روزہ انسان پر واجب ہو جس کا تعلق حق الناس سے ہو مثلاً یہ کہ انسان اجير بنا ہو کہ کسی معين دن ميں روزہ رکھے گا تو وہ اس دن سفر نہيں کر سکتا۔ یهی حکم احتياطِ واجب کی بنا پر نذر کے علاوہ دوسرے واجب معين روزوں جيسے اعتکاف کے تيسرے دن کے روزے کا ہے ۔ ہاں، اگر کوئی روزہ نذر کی وجہ سے معين ہوا ہو تو اقوی یہ ہے کہ وہ اس دن سفر کر کے اس کے بجائے کسی اور دن روزہ رکھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٢ ۵ اگر کوئی روزہ رکھنے کی نذر کرے ليکن معين نہ کرے کہ کس دن روزہ رکھے گا تو اس روزے کو سفر ميں انجام نہيں دے سکتا، ليکن اگر نذر کرے کہ سفر ميں کسی معين دن روزہ رکھے گا تو ضروری ہے کہ اس روزے کو سفر ميں انجام دے ۔اسی طرح اگر نذر کرے کہ فلاں دن روزہ رکھے گا خواہ سفر ہو یا نہ ہو تو ضروری ہے کہ چاہے سفر ميں ہو اس دن روزہ رکھے۔

مسئلہ ١٧٢ ۶ مسافر طلب حاجت کی غرض سے تين د ن مدینہ منورہ ميں مستحب روزے رکھ سکتا ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ وہ تين دن بده، جمعرات اور جمعہ ہوں۔

مسئلہ ١٧٢٧ جو شخص نہ جانتا ہو کہ مسافر کا روزہ باطل ہے اگر وہ سفر ميں روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے مسئلہ معلوم ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن اگر مغرب تک معلوم نہ ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٨ اگر بھول جائے کہ وہ مسافر ہے یا بھول جائے کہ مسافر کا روزہ باطل ہے اور سفر ميں روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٩ اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر کرے تو ضروری ہے کہ اپنا روزہ پورا کرے اور اگر ظہر سے پهلے سفر کرے تو حد تر خص تک پهنچنے پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر اس سے پهلے روز ہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس پر کفارہ واجب ہو جائے گا۔

۲۷۳

مسئلہ ١٧٣٠ اگر مسافر ماہ رمضان ميں خواہ فجرسے پهلے ہی سفر ميں ہو یا روزے سے ہو اور سفر کرے، اگرظہر سے پهلے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا دس دن رہنے کا ارادہ ہو اور اس نے روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس دن روزہ رکھے اور اگر انجام دے دیا ہو تو اس دن کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧٣١ اگر مسافر ظہر کے بعد اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچے کہ جهاں وہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو اس دن کا روزہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٣٢ مسافر اور روزہ رکھنے سے معذور افراد کے لئے ماہِ رمضان کے دن ميں جماع کرنا، ضرورت سے زیادہ کھانا اور خود کو مکمل طور پر سيراب کرنا مکروہ ہے ۔

وہ افراد جن پر روزہ رکھنا واجب نهيں

مسئلہ ١٧٣٣ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو یااس کے لئے روزہ رکھنا مشقّت کا باعث ہو تو اس پر سے روزے کی ذمہ داری کو اٹھ ا ليا گيا ہے ۔ ہاں، دوسری صورت ميں ضروری ہے کہ ہر روزے کے بدلے ميں فدیہ دے جو کہ ایک مد طعام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ گندم دے۔

مسئلہ ١٧٣ ۴ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھے، اگر ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھنے پر قادر ہوجائے تو جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٣ ۵ اگر انسان کو ایسی بيماری ہو کہ اسے زیادہ پياس لگتی ہو اور اس کے لئے پياس کو برداشت کرنا ممکن نہ ہو یا باعث مشقت ہو تو اس سے روزے کی ذمہ داری کو اٹھ ا ليا گيا ہے ، ليکن دوسری صورت ميں ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے اور احتياط مستحب یہ هے کہ مجبوری سے زیادہ مقدار ميں پانی نہ پئے اور ماہ رمضان کے بعد اگر روزہ رکھنے پر قادر ہو جائے تو جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧٣ ۶ جس عورت کے وضع حمل کا وقت قریب ہو اور روزہ اس کے حمل یا خود اس عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کا روزہ صحيح نہيں اور پهلی صورت ميں ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ یهی حکم احتياط مستحب کی بنا پر دوسری صورت کے لئے ہے اور جو روزے نہيں رکھے ہيں ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧٣٧ جو عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور اس کا دودھ کم ہو خواہ وہ بچے کی ماں ہو یا دایہ ہو، اجرت کے ساته دودھ پلائے یا بغير اجرت کے، اگر روزہ اس بچے کے لئے یا خود اس عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس عورت کا روزہ صحيح نہيں ہے اور پهلی صورت ميں ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ یهی حکم احتياطِ مستحب کی بنا پر دوسری صورت کے لئے بھی

۲۷۴

ہے اور جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا ضروری ہے اور یہ حکم اس وقت ہے کہ جب بچے کے دودھ کے لئے کوئی اور طریقہ ميسر نہ ہو اور اگر ميسر ہو تو واجب ہے کہ وہ عورت روزہ رکھے۔

مهينے کی پهلی تاريخ ثابت ہونے کا طريقہ

مسئلہ ١٧٣٨ مهينے کی پهلی تاریخ چند چيزوں سے ثابت ہوتی ہے :

١) انسان خود چاند دیکھے ۔

٢) اتنے لوگ جن کے کهنے پر یقين یا اطمينان آجاتا ہے ، کہيں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے ۔ اسی طرح ہر وہ چيز جس کی وجہ سے یقين یا اطمينان حاصل ہو جائے۔

٣) دوعادل مرد کہيں کہ ہم نے ایک ہی رات ميں چاند دیکھا ہے ليکن اگر چاند کی خصوصيت ایک دوسرے سے مختلف بيان کریں تو مهينے کی پهلی تاریخ ثابت نہيں ہوتی۔ یهی حکم اس وقت ہے جب یہ دونوں تصدیق کے قابل نہ ہوں مثلاًجب مطلع صاف ہو، چاند دیکھنے والے افراد زیادہ ہو ں اور ان دو کے علاوہ باقی افراد کوشش کے باوجود نہ دیکھ پائيں۔

۴) ماہِ شعبان کی پهلی سے تيس دن گزر جائيں جس سے ماہِ رمضان کی پهلی ثابت ہو جاتی ہے اور ماہِ رمضان کی پهلی سے تيس دن گزر جائيں جس سے شوال کی پهلی ثابت ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ١٧٣٩ مهينے کی پهلی کا حاکم شرع کے حکم سے ثابت ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٠ مهينے کی پهلی نجوميوں کی پيشن گوئی سے ثابت نہيں ہوتی، ليکن اگر انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان حاصل ہو جائے تو اس پر عمل ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ١ چاند کا اونچاہونا یا دیر سے غروب ہونا اس بات کی دليل نہيں کہ گذشتہ رات مهينے کی پهلی رات تهی، ليکن اگر ظہر سے پهلے چاند نظر آئے تو یہ مهينے کا پهلا دن شمار ہو گا اور چاند کے گرد حلقے کے ذریعے پچهلی رات کا چاند رات ثابت ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٢ اگر کسی کے لئے ماہِ رمضان کی پهلی ثابت نہ ہو اور وہ روزہ نہ رکھے اور بعد ميں ثابت ہوجائے کہ گذشتہ رات ہی چاند رات تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٣ اگر کسی شہر ميں مهينے کی پهلی تاریخ ثابت ہوجائے تو دوسرے شهروں ميں بھی خواہ دور ہوں یا نزدیک، خواہ ان کا افق ایک ہو یا نہ ہو، رات مشترک ہونے کی صورت ميں چاند ثابت ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴۴ مهينے کی پهلی ٹيلی گرام سے ثابت نہيں ہوتی مگر یہ کہ انسان جانتا ہو کہ ٹيلی گرام، شرعی دليل کی بنياد پر کيا گيا ہے ۔

۲۷۵

مسئلہ ١٧ ۴۵ جس دن کے بارے ميں انسان کو معلوم نہ ہو کہ رمضان کا آخری دن ہے یا شوال کا پهلا دن، ضروری ہے کہ روزہ رکھے ليکن اگر مغرب سے پهلے معلوم ہو جائے کہ شوال کی پهلی ہے تو ضروری ہے کہ افطار کر لے۔

مسئلہ ١٧ ۴۶ اگر قيد ميں موجود شخص کے پاس ماہِ رمضان ثابت ہونے کا کوئی طریقہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنے گمان پر عمل کرے چاہے کسی بھی طریقے سے حاصل ہوا ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو جس مهينے کے متعلق احتمال ہو کہ ماہِ رمضان ہے ، صحيح ہے کہ روزہ رکھ لے، ليکن ضروری ہے کہ اس مهينے سے گيارہ مهينے گذرنے کے بعد دوبارہ ایک مهينہ روزہ رکھے اور اگر بعد ميں معلوم ہو جائے کہ جس چيز کا اس نے گمان کيا تھا یا جسے اختيار کيا تھا وہ ماہِ رمضان نہيں تھا تو اگر یہ معلوم ہو کہ ماہِ رمضان اس مهينے سے پهلے تھا تو یہ کافی ہوگا اور اگر معلوم ہو کہ ماہِ رمضان اس مهينے کے بعد تھا تو ضروری ہے کہ قضا کرے۔

حرام اور مکروہ روزے

مسئلہ ١٧ ۴ ٧ عيد فطر اور عيد قربان کے دن روزہ رکھنا حرام ہے ۔ نيز جس دن کے بارے ميں انسان کو معلوم نہ ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پهلی، اگر پهلی رمضان کی نيت سے روزہ رکھے تو حرام ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٨ اگر بيوی کے مستحب روزہ رکھنے کی وجہ سے شوهرکا حق ضائع ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ اگر شوہر کا حق ضائع نہ بھی ہوتب بھی شوہر کی اجازت کے بغيرمستحب روزہ نہ رکھے۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٩ اولاد کا مستحب روزہ رکھنا اگر ماں باپ کی اذیت کا سبب ہو تو حرام ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٠ اگر اولاد باپ کی اجازت کے بغير کوئی مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں باپ اسے منع کرے، اگر بچے کی مخالفت کرنا باپ کی اذیت کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ افطار کر لے۔ یهی حکم اس وقت ہے جب ماں اسے منع کرے اور اس کی مخالفت کرنا اذیت کا باعث ہو۔

مسئلہ ١٧ ۵ ١ جو شخص جانتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر نہيں اگرچہ ڈاکٹر کهے کہ نقصان دہ ہے ، ضروری ہے کہ روزہ رکھے اور جس شخص کو قابل ذکر ضرر کا یقين یا گمان ہو یا اس چيز کا خوف ہو جس کا خوف عقلا کے نزدیک صحيح ہوتو چاہے ڈاکٹر کهے کہ ضرر نہيں ہے ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اگر روزہ رکھ بھی لے تو صحيح نہيں ہے ، مگر یہ کہ روزہ اس کے لئے مضر نہ تھا او راس نے قصدِقربت کيا تھا کہ اس صورت ميں اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٢ اگر انسان کو احتمال ہو کہ روزہ اس کے لئے قابلِ ذکر ضرر کا باعث ہے اور اس احتمال کی وجہ سے اسے خوف ہو جائے، اگر اس کا احتمال عقلا کی نظر ميں صحيح ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اگر روزہ رکھ لے تو باطل ہو گا مگر یہ کہ روزہ مضر نہ ہو اور اس نے قصدِقربت کيا ہو۔

۲۷۶

مسئلہ ١٧ ۵ ٣ جس شخص کا عقيدہ یہ ہو کہ روزہ اس کے لئے قابل توجہ ضررکا باعث نہيں اگروہ روزہ رکھ لے اور مغرب کے بعد معلوم ہو کہ روزہ اس کے لئے قابلِ توجہ ضررکا باعث تھا تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٧ ۵۴ مذکورہ روزوں کے علاوہ اور حرام روزے بھی ہيں جنہيں مفصّل کتابوں ميں بيان کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵۵ عاشور کے دن کا روزہ بنا بر احتياطِ واجب جائز نہيں اور اس دن کا روزہ مکروہ ہے جس کے بارے ميں شک ہو کہ عرفہ کا دن ہے یا عيد قربان کا۔

مستحب روزے

مسئلہ ١٧ ۵۶ مذکورہ حرام اور مکروہ روزوں کے علاوہ سال کے تمام دنوں کا روزہ مستحب ہے ، جب کہ بعض ایام کے بارے ميں زیادہ تاکيد کی گئی ہے جن ميں سے بعض یہ ہيں :

١) ہر ماہ کی پهلی اور آخری جمعرات اور دسویں تاریخ کے بعد آنے والا پهلا بده اور اگر کوئی شخص یہ روزے نہ رکھے تو مستحب ہے کہ قضا کرے اور اگر بالکل روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو ١٢٫ ۶ ) سکہ دار چنے کے برابر چاندی فقير کو )

مستحب ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام یا پھر ۶ ۔ ١٢دے۔

٢) ہر مهينے کی تيرہویں، چودهویں اور پندرہویں تاریخ۔

٣) رجب اور شعبان کا پورا مهينہ، اور ان دو مهينوں ميں سے کچھ دن اگرچہ ایک ہی دن ہو۔

۴) عيد نوروز کا دن۔

۵) شوال کی چوتھی تاریخ سے نویں تاریخ تک کے ایام۔

۶) ذی القعدہ کی پچيسویں اور انتيسویں کا دن۔

٧) ذی الحجہ کی پهلی تاریخ سے نویں (روزِعرفہ )تک، ليکن اگر روزے کی کمزوری کی وجہ سے روزِعرفہ کی دعائيں نہ پڑھ سکے تو اس دن کا روزہ مکروہ ہے ۔

٨) عيد غدیر کا مبارک دن( ١٨ /ذی الحجہ )۔

٩) روزِمباہلہ ( ٢ ۴ / ذی الحجہ )۔

١٠ ) محرم کے پهلے، تيسرے اور ساتویں دن۔

١١ ) پيغمبر اکرم(ص) کی ولادت باسعادت کے دن ( ١٧ /ربيع الاول)۔

١٢) ١ ۵/ جمادی الاوّل کے دن۔

۲۷۷

١٣ )حضرت رسول اکرم(ص)کی بعثت کے دن ( ٢٧ /رجب)۔

اگر کوئی شخص مستحب روزہ رکھے تو اسے پورا کرنا واجب نہيں ،بلکہ اگر اس کا مومن بهائی اسے کھانے کی دعوت دے تو مستحب ہے کہ اس کی دعوت قبول کرلے اور دن ميں ہی چاہے ظہر کا وقت گذر چکا ہو روزہ افطار کر لے۔

وہ صورتيں جن ميں مبطلاتِ روزہ سے پرہيز مستحبہے

مسئلہ ١٧ ۵ ٧ چند افراد کے لئے مستحب ہے کہ ماہِ رمضان ميں چاہے روزے سے نہ ہوں، روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کریں:

١) وہ مسافر جس نے سفر ميں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دیا ہو اور ظہر سے پهلے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا دس دن قيام کا ارادہ ہو۔

٢) وہ مسافر جو ظہر کے بعد اپنے وطن یا ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں و ہ دس دن قيام کرنا چاہتا ہو۔

٣) وہ مریض جو ظہر کے بعد تندرست ہو جائے۔ یهی حکم ہے جب وہ ظهرسے پهلے تندرست ہو جائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو۔

۴) وہ عورت جو دن ميں کسی وقت حيض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٨ مستحب ہے کہ روزہ دار نمازمغرب وعشا کو افطار سے پهلے پڑھے، ليکن اگر کوئی دوسر ا شخص اس کا منتظر ہو یا وہ کھانے کی زیادہ خواہش رکھتا ہو کہ جس کی وجہ سے وہ قلبی توجہ کے ساته نمازنہ پڑھ سکتا ہو تو بہتر ہے کہ پهلے افطار کرے، ليکن جس قدر ممکن ہو نماز کو وقت فضيلت ميں پڑھے۔

اعتکاف

اعتکاف عبادات ميں سے ہے اور شرعاًاعتکاف یہ ہے کہ انسان قربة الی الله کی نيت سے مسجد ميں توقف وقيام کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کا قيام کسی عبادت مثلاًنمازکو انجام دینے کی نيت سے ہواور اعتکاف کے لئے کوئی خاص وقت معين نہيں ہے بلکہ جب بھی روزہ رکھنا صحيح ہے اعتکاف کرنا بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٩ اعتکا ف ميں کچھ چيزوں کا خيال رکھنا ضروری ہے :

١) اعتکاف کرنے والا عاقل ہو اور مميز بچے کا اعتکاف کرنا صحيح ہے ۔

٢) قصدِقربت جيسا کہ وضو کے باب ميں بيان کيا گيا ہے ۔

٣) روزہ، لہٰذا جس شخص کا روزہ باطل ہے جيسے وہ مسافر جس نے دس دن قيام کا ارادہ نہ کيا ہو، وہ اعتکاف نہيں کر سکتا۔

۴) یہ کہ مسجدالحرام، مسجدنبوی، مسجد کوفہ، مسجد بصرہ یا جامع مسجد ميں ہو۔

۲۷۸

۵) اس فرد کی اجازت سے ہو جس کی اجازت ضروری ہے ، لہٰذا بيوی کا اعتکاف شوہر کی اجازت کے بغير جب کہ شوہر کی حق تلفی ہو رہی ہو، صحيح نہيں ہے ۔

۶) تين دن اور اُن تين دنوں کے درميان کی دو راتيں اسی مسجد ميں گزارے جس ميں اعتکاف کر رہا ہے اور بغير کسی ضروری کا م کے مسجد سے باہر نہ جائے۔ البتہ مریض کی عيادت، تشييع جنازہ اور تجهيزِميت جيسے غسلِ ميت، نماز اور دفن کے لئے مسجدسے باہر جا سکتا ہے ۔

جن صورتوں ميں مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے ، اس کا م کی انجام دهی کے وقت سے زیادہ باہر نہ ٹھ هرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نزدیک ترین راستے سے مسجد کو لوٹے اور مسجد سے باہر نہ بيٹھے اور اگر بيٹھنے پر مجبور ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں سائے ميں نہ بيٹھے۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٠ اعتکاف شروع کرنے کے بعد اس کے واجب معين، مثلاًجب اس نے نذر کی ہو کہ کسی خاص وقت ميں اعتکاف کرے گا، نہ ہونے کی صورت ميں دو روز گذرنے سے پهلے وہ اعتکاف سے پلٹ سکتا ہے اور اسے توڑ سکتا ہے ، ليکن اگر نيت کے وقت ہی شرط لگا دی ہو کہ کوئی کام پيش آنے کی صورت ميں اس کو اعتکاف توڑ نے کا اختيار ہو تو دو دن گزرنے کے بعد بھی اعتکاف توڑ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ١ اعتکاف کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ خود کو چند چيزوں سے بچائے اور ان چيزوں کو انجام دینے سے اعتکاف باطل ہو جاتا ہے ،ليکن جماع کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کا ترک کرنا اس صورت ميں جبکہ اعتکاف واجب معين نہ ہو احتياط کی بنا پر ہے :

١) جماع کرنا اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ استمنا، عورت کو شهوت کے ساته مس کرنے اور شهوت کے ساته بوسہ لينے سے بھی اجتناب کرے۔

٢) خوشبو لگانا۔

٣) خرید وفروخت، کہ اس سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے البتہ سودا باطل نہيں ہوتا اور احتياط واجب یہ ہے کہ ہر قسم کی تجارت سے، چاہے مصالحت، مضاربہ اور اجارہ یا ان جيسی چيزوں کے ذریعے ہو، اجتناب کرے اور اگر کسی چيز کی خرید وفروخت پر مجبور ہو جائے اور اس کے لئے کوئی وکيل بھی نہ مل سکے تو جائز ہے ۔

۴) کسی پر غالب ہونے اور اپنے فضل کا اظهار کرنے کے لئے ممارات یعنی جدال کرنا، چاہے دنيوی امور ميں ہو یا اخروی امور ميں ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٢ اگر واجب اعتکاف ميں جان بوجه کر جماع کرے، چاہے دن ميں ہو یا رات ميں ، اس پر کفارہ واجب ہوجائے گا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلائے۔

۲۷۹

اور جماع کے علاوہ دوسرے ان امور کی ادائيگی سے جن سے بچنا ضروری ہے ، کفارہ واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٣ اگر اعتکاف کرنے والا غلطی سے اعتکاف باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس کے اعتکاف کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶۴ اگر مذکورہ بالا چيزوں ميں سے کسی کے ذریعے اعتکاف باطل کرے تو اعتکاف کے واجبِ غيرِ معين ہونے کی صورت ميں ، مثلًا جب اس نے وقت معين کئے بغير اعتکاف کرنے کی نذر کی ہو، ضروری ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے اور اگر اعتکاف واجب معين ہو مثلاًاس نے معين وقت ميں اعتکاف کرنے کی نذر کی ہو یا اعتکاف تو مستحب ہو ليکن اسے باطل کرنے والا کام دو دن گزرنے کے بعد انجام دیا ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور اگر دو دن مکمل ہونے سے پهلے اعتکاف مستحب کو باطل کيا ہو تو اس کی قضا نہيں ۔

مسئلہ ١٧ ۶۵ ایک اعتکاف سے دوسرے اعتکاف کی طرف نيت پهيرنا جائز نہيں ہے ، چاہے دونوں اعتکاف واجب ہوں، مثلاًایک نذر اور دوسرا قسم کے ذریعے خود پر واجب کيا ہو، یا دونوں مستحب ہوں، یا ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو، یا ایک خود کے لئے ہو اور دوسرے ميں کسی کا نائب یا اجير ہو، یا دونوںکسی کی نيابت ميں ہو ں۔

مسئلہ ١٧ ۶۶ اگر اعتکاف کرنے والا شخص غصبی قالين پر بيٹھے تو گنهگار ہے ليکن اس کا اعتکاف باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر کوئی شخص کسی جگہ سبقت کر کے اپنی جگہ بنا چکا ہو اور اعتکاف کرنے والا اس کی رضایت کے بغير اس سے وہ جگہ لے لے تو اس جگہ اس کا اعتکاف باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٧ اگر اعتکاف کرنے والے پر غسل واجب ہو جائے تو اگر مسجد ميں اس غسل کی ادائيگی ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو مسجد سے نکلنا جائزنہيں ہے جيسے غسلِ مس ميت انجام دینا، ليکن اگر اس غسل کو مسجد ميں کرنے ميں کوئی رکاوٹ ہو جيسے غسل جنابت جس کا لازمی نتيجہ یہ ہے کہ انسان جنابت کے ساته مسجد ميں رہے، تو ضروری ہے کہ مسجد سے نکلے ورنہ اس کا اعتکاف باطل ہو جائے گا۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511