قرآن کریم اردو میں

قرآن کریم اردو میں  7%

قرآن کریم اردو میں  : مولانا ذيشان حيدر جوادی
زمرہ جات: متن قرآن اور ترجمہ

قرآن کریم اردو میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 82 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55538 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
قرآن کریم اردو میں

قرآن کریم اردو میں

اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

سورہ حج

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

(۱) لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی شے ہے

(۲) جس دن تم دیکھو گے کہ دودھ پلانے والی عورتیں اپنے دودھ پیتے بچوّں سے غافل ہوجائیں گی اور حاملہ عورتیں اپنے حمل کو گرادیں گی اور لوگ نشہ کی حالت میں نظر آئیں گے حالانکہ وہ بدمست نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا

(۳) اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بغیر جانے بوجھے خدا کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کا اتباع کرلیتے ہیں

(۴) ان کے بارے میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو شیطان کو اپنا دوست بنائے گا شیطان اسے گمراہ کردے گا اور پھر جہنمّ کے عذاب کی طرف رہنمائی کردے گا

(۵) اے لوگو اگر تمہیں دوبارہ اٹھائے جانے میں شبہ ہے تو یہ سمجھ لو کہ ہم نے ہی تمہیں پہلے خاک سے بنایا ہے پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جس میں سے کوئی مکمل ہوجاتا ہے اور کوئی ناقص ہی رہ جاتا ہے تاکہ ہم تمہارے اوپر اپنی قدرت کو واضح کردیں ہم جس چیز کو جب تک چاہتے ہیں رحم میں رکھتے ہیں اس کے بعد تم کو بچہ بناکر باہر لے آتے ہیں پھر زندہ رکھتے ہیں تاکہ جوانی کی عمر تک پہنچ جاؤ اور پھر تم میں سے بعض کو اٹھالیا جاتا ہے اور بعض کو پست ترین عمر تک باقی رکھا جاتا ہے تاکہ علم کے بعد پھر کچھ جاننے کے قابل نہ رہ جائے اور تم زمین کو مردہ دیکھتے ہو پھر جب ہم پانی برسادیتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اور ہر طرح کی خوبصورت چیز اگانے لگتی ہے

(۶) یہ اس لئے ہے کہ وہ اللہ خدائے برحق ہے اور وہی مفِدوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے

(۷) اور قیامت یقینا آنے والی ہے اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اور اللہ قبروں سے مفِدوں کو اٹھانے والا ہے

(۸) اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو علم و ہدایت اور کتابِ لَنیر کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث کرتے ہیں

(۹) وہ غرور سے منہ پھرائے ہوئے ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی راسِ خدا سے گمراہ کرسکیں تو ایسے اشخاص کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ہم انہیں جہنمّ کا مزہ چکھائیں گے

(۱۰) یہ اس بات کی سزا ہے جو تم پہلے کرچکے ہو اور خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے

(۱۱) اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی عبادت ایک ہی رخ پراور مشروط طریقہ سے کرتے ہیں کہ اگر ان تک خیر پہنچ گیا تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی مصیبت چھوگئی تو دین سے پلٹ جاتے ہیں یہ دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ میں ہیں اور یہی خسارہ کھلا ہوا خسارہ ہے

(۱۲) یہ اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہی دراصل بہت دور تک پھیلی ہوئی گمراہی ہے

(۱۳) یہ ان کو پکارتے ہیں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ قریب تر ہے وہ ان کے بدترین سرپرست اور بدترین ساتھی ہیں

(۱۴) بیشک اللہ ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی کہ اللہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے

(۱۵) جس شخص کا خیال یہ ہے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا اسے چاہئے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان کی طرف بڑھے اور پھر اس رسی کو کاٹ دے اور پھر دیکھے کہ اس کی ترکیب اس چیز کو دور کرسکتی ہے یا نہیں جس کے غصّہ میں وہ مبتلا تھا

(۱۶) اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو واضح نشانیوں کی شکل میں نازل کیا ہے اور اللہ جس کو چاہتاہے ہدایت دے دیتا ہے

(۱۷) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے یہودیت اختیار کی یا ستارہ پرست ہوگئے یا نصرانی اور آتش پرست ہوگئے یا مشرک ہوگئے ہیں خدا قیامت کے دن ان سب کے درمیان یقینی فیصلہ کردے گا کہ اللہ ہر شے کا نگراں اور گواہ ہے

(۱۸) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جس قدر بھی صاحبانِ عقل و شعور ہیں اور آفتاب و ماہتاب اور ستارے ,پہاڑ ,درخت ,چوپائے اور انسانوں کی ایک کثرت سب ہی اللہ کے لئے سجدہ گزار ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا ہے اور ظاہر ہے کہ جسے خدا ذلیل کرنا چاہے اسے کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے کہ یقینا اللہ جو چاہتا ہے وہ کرسکتا ہے

(۱۹) یہ مومن و کافر دو باہمی دشمن ہیں جنہوں نے پروردگار کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا ہے پھر جو لوگ کافر ہیں ان کے واسطے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے اور ان کے سروں پر گرما گرم پانی انڈیلا جائے گا

(۲۰) جس سے ان کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے اور ان کی جلدیں سب گل جائیں گی

(۲۱) اور ان کے لئے لوہے کے گرز مہیاّ کئے گئے ہیں

(۲۲) جب یہ جہنمّ کی تکلیف سے نکل بھاگنا چاہیں گے تو دوبارہ اسی میں پلٹا دیئے جائیں گے کہ ابھی اور جہنمّ کا مزہ چکّھو

(۲۳) بیشک اللہ صاحبان ایمان اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں میں داخل کرتا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوتی ہیں انہیں ان جنتوں میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس اس جنّت میں ریشم کا لباس ہوگا

(۲۴) اور انہیں پاکیزہ قول کی طرف ہدایت دی گئی ہے اور انہیں خدائے حمید کے راستہ کی طرف رہنمائی کی گئی ہے

(۲۵) بیشک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے اور مسجد الحرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے تمام انسانوں کے لئے برابر سے قرار دیا ہے چاہے وہ مقامی ہوں یا باہر والے اور جو بھی اس مسجد میں ظلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے گا ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے

(۲۶) اور اس وقت کو یاد دلائیں جب ہم نے ابراہیم علیہ السّلام کے لئے بیت اللہ کی جگہ مہیا کی کہ خبردار ہمارے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والے ,قیام کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنادو

(۲۷) اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہوکر آئیں گے

(۲۸) تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کئے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ

(۲۹) پھر لوگوں کو چاہئے کہ اپنے بدن کی کثافت کو دور کریں اور اپنی نذروں کو پورا کریں اور اس قدیم ترین مکان کا طواف کریں

(۳۰) یہ ایک حکم خدا ہے اور جو شخص بھی خدا کی محترم چیزوں کی تعظیم کرے گا وہ اس کے حق میں پیش پروردگار بہتری کا سبب ہوگی اور تمہارے لئے تمام جانور حلال کردیئے گئے ہیں علاوہ ان کے جن کے بارے میں تم سے بیان کیا جائے گا لہذا تم ناپاک بتوں سے پرہیز کرتے رہو اور لغو اور مہمل باتوں سے اجتناب کرتے رہو

(۳۱) اللہ کے لئے مخلص اور باطل سے کترا کر رہو اور کسی طرح کا شرک اختیار نہ کرو کہ جو کسی کو اس کا شریک بناتا ہے وہ گویا آسمان سے گر پڑتا ہے اور اسے پرندہ اچک لیتا ہے یا ہوا کسی دور دراز جگہ پر لے جاکر پھینک دیتی ہے

(۳۲) یہ ہمارا فیصلہ ہے اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی

(۳۳) تمہارے لئے ان قربانی کے جانوروں میں ایک مقررہ مدّت تک فائدے ہی فائدے ہیں اس کے بعد ان کی جگہ خانہ کعبہ کے پاس ہے

(۳۴) اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو

(۳۵) جن کے سامنے ذکر خدا آتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اور وہ جو مصیبت پر صبر کرنے والے اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور ہم نے جو رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرنے والے ہیں

(۳۶) اور ہم نے قربانیوں کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے لہذا اس پر کھڑے ہونے کی حالت ہی میں نام خدا کا ذکر کرو اور اس کے بعد جب اس کے تمام پہلو گر جائیں تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے سب غریبوں کو کھلاؤ کہ ہم نے انہیں تمہارے لئے لَسّخر کردیا ہے تاکہ تم شکر گزار بندے بن جاؤ

(۳۷) خدا تک ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون اس کی بارگاہ میں صرف تمہارا تقویٰ جاتا ہے اور اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارا تابع بنادیا ہے کہ خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو

(۳۸) بیشک اللہ صاحبانِ ایمان کی طرف سے دفاع کرتا ہے اور یقینا اللہ خیانت کرنے والے کافروں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے

(۳۹) جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارہی ہے انہیں ان کی مظلومیت کی بنائ پر جہاد کی اجازت دے دی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے

(۴۰) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال دیئے گئے ہیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا ہوتا تو تمام گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی جاتیں اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحبِ قوت بھی ہے اور صاحبِ عزّت بھی ہے

(۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کیً اور زکوِٰ ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے

(۴۲) اور پیغمبر علیہ السّلام اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے قوم نوح ,قوم عاد اور قوم ثمود نے یہی کام کیا تھا

(۴۳) اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے بھی

(۴۴) اور اصحاب مدین نے بھی اور موسٰی کو بھی جھٹلایا گیا ہے تو ہم نے کفار کو مہلت دے دی اور پھر اس کے بعد انہیں اپنی گرفت میں لے لیا تو سب نے دیکھ لیا کہ ہمارا عذاب کیسا ہوتا ہے

(۴۵) غرض کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تباہ و برباد کردیا کہ وہ ظالم تھیں تو اب وہ اپنی چھتوں کے بل الٹی پڑی ہیں اور ان کے کنویں معطل پڑے ہیں اور ان کے مضبوط محل بھی مسمار ہوگئے ہیں

(۴۶) کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ ان کے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سن سکتے اس لئے کہ درحقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر پائے جاتے ہیں

(۴۷) پیغمبر علیہ السّلام یہ لوگ آپ سے عذاب میں عجلت کا تقاضا کررہے ہیں حالانکہ خدا اپنے وعدہ کے خلاف ہرگز نہیں کرسکتا ہے اور آپ کے پروردگار کے نزدیک ایک دن بھی ان کے شمار کے ہزار سال کے برابر ہوتا ہے

(۴۸) اور کتنی ہی بستیاں تھیں جنہیں ہم نے مہلت دی حالانکہ وہ ظالم تھیں پھر ہم نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور بالآخر سب کی بازگشت ہماری ہی طرف ہے

(۴۹) آپ کہہ دیجئے کہ انسانو ! میں تمہارے لئے صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں

(۵۰) پھر جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے مغفرت اور بہترین رزق ہے

(۵۱) اور جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کے بارے میں کوشش کی کہ ہم کو عاجز کردیں وہ سب کے سب جہنمّ میں جانے والے ہیں

(۵۲) اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھر خدا نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنادیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے

(۵۳) تاکہ وہ شیطانی القائ کو ان لوگوں کے لئے آزمائش بنادے جن کے قلوب میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوگئے ہیں اور ظالمین یقینا بہت دور رس نافرمانی میں پڑے ہوئے ہیں

(۵۴) اور اس لئے بھی کہ صاحبانِ علم کو معلوم ہوجائے کہ یہ وحی پروردگار کی طرف سے برحق ہے اور اس طرح وہ ایمان لے آئیں اور پھر ان کے دل اس کی بارگاہ میں عاجزی کا اظہار کریں اور یقینا اللہ ایمان لانے والوں کو سیدھے ر استہ کی طرف ہدایت کرنے والا ہے

(۵۵) اور یہ کفر اختیار کرنے والے ہمیشہ اس کی طرف سے شبہ ہی میں رہیں گے یہاں تک کہ اچانک ان کے پاس قیامت آجائے یا کسی منحوس دن کا عذاب وارد ہوجائے

(۵۶) آج کے دن ملک اللہ کے لئے ہے اور وہی ان سب کے درمیان فیصلہ کرے گا پھر جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال کئے وہ نعمتوں والی جنّت میں رہیں گے

(۵۷) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کے لئے نہایت درجہ کا رسوا کن عذاب ہے

(۵۸) اور جن لوگوں نے راسِ خدا میں ہجرت کی اور پھر قتل ہوگئے یا انہیں موت آگئی تو یقینا خدا انہیں بہترین رزق عطا کرے گا کہ وہ بیشک بہترین رزق دینے والا ہے

(۵۹) وہ انہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جسے وہ پسند کرتے ہوں گے اور اللہ بہت زیادہ جاننے والا اور برداشت کرنے والا ہے

(۶۰) یہ سب اپنے مقام پر ہے لیکن اس کے بعد جو دشمن کو اتنی ہی سزادے جتنا کہ اسے ستایا گیا ہے اور پھربھی اس پر ظلم کیا جائے تو خدا اس کی مدد ضرور کرے گا کہ وہ یقینا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے

(۶۱) یہ سب اس لئے ہے کہ خدا رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اللہ بہت زیادہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے

(۶۲) یہ اس لئے ہے کہ خدا ہی یقینا برحق ہے اور اس کے علاوہ جس کو بھی یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور اللہ بہت زیادہ بلندی والا اور بزرگی اور عظمت والا ہے

(۶۳) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا تو اس سے زمین سرسبز وشاداب ہوجاتی ہے یقینا اللہ بہت زیادہ مہربان اور حالات کی خبر رکھنے والا ہے

(۶۴) آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے سب اسی کے لئے ہے اور یقینا وہ سب سے بے نیاز اور قابلِ حمد و ستائش ہے

(۶۵) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو لَسّخر کردیا ہے اور کشتیاں بھی دریا میں اسی کے حکم سے چلتی ہیں اور وہی آسمانوں کو روکے ہوئے ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر زمین پر نہیں گر سکتا ہے-اللہ اپنے بندوں پر بڑا شفیق اور مہربان ہے

(۶۶) وہی خدا ہے جس نے تم کو حیات دی ہے اور پھر موت دے گا اور پھر زندہ کرے گا مگر انسان بڑا انکار کرنے والا اور ناشکرا ہے

(۶۷) ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں

(۶۸) اور اگر یہ آپ سے جھگڑا کریں تو کہہ دیجئے کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے

(۶۹) اللہ ہی تمہارے درمیان روزِ قیامت ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن باتوں میں تم اختلاف کررہے ہو

(۷۰) کیا تمہیں نہیں معلوم ہے کہ اللہ زمین اور آسمان کی تمام باتوں کو خوب جانتا ہے اور یہ سب باتیں کتاب میں محفوظ ہیں اور سب باتیں خدا کے لئے بہت آسان ہیں

(۷۱) اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جن کے بارے میں نہ خدا نے کوئی دلیل نازل کی ہے اور نہ خود انہیں کوئی علم ہے اور ظالمین کے لئے واقعا کوئی مددگار نہیں ہے

(۷۲) اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ کفر اختیار کرنے والوں کے چہرہ پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ وہ ان تلاوت کرنے والوں پر حملہ کربیٹھیں تو کہہ دیجئے کہ میں اس سے بدتر بات کے بارے میں بتلا رہا ہوں اور وہ جہنمّ ہے جس کا خدا نے کافروں سے وعدہ کیا ہے اور وہ بہت برا انجام ہے

(۷۳) انسانوں تمہارے لئے ایک مثل بیان کی گئی ہے لہذا اسے غور سے سنو-یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو یہ سب مل بھی جائیں تو ایک مکھی نہیں پیدا کرسکتے ہیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے ہیں کہ طالب اور مطلوب دونوں ہی کمزور ہیں

(۷۴) افسوس کہ ان لوگوں نے خدا کی واقعی قدر نہیں پہچانی اور بیشک اللہ بڑا قدرت والا اور سب پر غالب ہے

(۷۵) اللہ ملائکہ اور انسانوں میں سے اپنے نمائندے منتخب کرتا ہے اور وہ بڑا سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے

(۷۶) وہ ان کے سامنے اور پبُ پشت کی تمام باتوں کو جانتا ہے اور تمام امور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں

(۷۷) ایمان والو ! رکوع کروً سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور کارخیر انجام دو کہ شاید اسی طرح کامیاب ہوجاؤ اور نجات حاصل کرلو

(۷۸) اور اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین میں کوئی زحمت نہیں قرار دی ہے یہی تمہارے بابا ابراہیم علیہ السّلام کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی مسلم اور اطاعت گزار رکھا ہے تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو لہذا اب تم نماز قائم کرو زکوِٰ اداکرو اور اللہ سے باقاعدہ طور پر وابستہ ہوجاؤ کہ وہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے

سورہ مؤمنون

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

(۱) یقینا صاحبانِ ایمان کامیاب ہوگئے

(۲) جو اپنی نمازوں میں گڑگڑانے والے ہیں

(۳) اور لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں

(۴) اور زکوِ ادا کرنے والے ہیں

(۵) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں

(۶) علاوہ اپنی بیویوں اور اپنے ہاتھوں کی ملکیت کنیزوں کے کہ ان کے معاملہ میں ان پر کوئی الزام آنے والا نہیں ہے

(۷) پھر اس کے علاوہ جو کوئی اور راستہ تلاش کرے گا وہ زیادتی کرنے والا ہوگا

(۸) اور جو مومنین اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا لحاظ رکھنے والے ہیں

(۹) اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہیں

(۱۰) درحقیقت یہی وہ وارثان هجنتّ ہیں

(۱۱) جو فردوس کے وارث بنیں گے اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں

(۱۲) اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے

(۱۳) پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بناکر رکھا ہے

(۱۴) پھر نطفہ کوعلقہ بنایا ہے اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیاں پیدا کی ہیں اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ہے پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ہے تو کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے

(۱۵) پھر اس کے بعد تم سب مرجانے والے ہو

(۱۶) پھر اس کے بعد تم روز هقیامت دوبارہ اٹھائے جاؤ گے

(۱۷) اور ہم نے تمہارے اوپر تہ بہ تہ سات آسمان بنائے ہیں اور ہم اپنی مخلوقات سے غافل نہیں ہیں

(۱۸) اور ہم نے آسمان سے ایک مخصوص مقدار میں پانی نازل کیا ہے اور پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیا ہے جب کہ ہم اس کے واپس لے جانے پر بھی قادر تھے

(۱۹) پھر ہم نے اس پانی سے تمہارے لئے خرمے اور انگور کے باغات پیدا کئے ہیں جن میں بہت زیادہ میوے پائے جاتے ہیں اور تم ان ہی میں سے کچھ کھا بھی لیتے ہو

(۲۰) اور وہ درخت پیدا کیا ہے جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے اس سے تیل بھی نکلتا ہے اور وہ کھانے والوں کے لئے سالن بھی ہے

(۲۱) اور بیشک تمہارے لئے ان جانوروں میں بھی عبرت کا سامان ہے کہ ہم ان کے شکم میں سے تمہارے سیراب کرنے کا انتظام کرتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں بہت سے فوائد ہیں اور ان میں سے بھی تم کھاتے ہو

(۲۲) اور تمہیں ان جانوروں پر اور کشتیوں پر سوار کیا جاتا ہے

(۲۳) اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا کہ قوم والو خدا کی عبادت کرو کہ تمہارے لئے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو تم اس سے کیوں نہیں ڈرتے ہو

(۲۴) ان کی قوم کے کافر رؤسائ نے کہا کہ یہ نوح تمہارے ہی جیسے انسان ہیں جو تم پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ خدا چاہتا تو ملائکہ کو بھی نازل کرسکتا تھا. یہ تو ہم نے اپنے باپ دادا سے کبھی نہیں سنا ہے

(۲۵) درحقیقت یہ ایک ایسے انسان ہیں جنہیں جنون ہوگیا ہے لہذا چند دن ان کے حالات کا انتظار کرو

(۲۶) تو نوح نے دعا کی کہ پروردگار ان کی تکذیب کے مقابلہ میں میری مدد فرما

(۲۷) تو ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ ہماری نگاہ کے سامنے اور ہمارے اشارہ کے مطابق کشتی بناؤ اور پھر جب ہمارا حکم آجائے اور تنور ابلنے لگے تو اسی کشتی میں ہر جوڑے میں سے دو دو کو لے لینا اور اپنے اہل کو لے کر روانہ ہوجانا علاوہ ان افراد کے جن کے بارے میں پہلے ہی ہمارا فیصلہ ہوچکا ہے اور مجھ سے ظلم کرنے والوں کے بارے میں گفتگو نہ کرنا کہ یہ سب غرق کردیئے جانے والے ہیں

(۲۸) اس کے بعد جب تم اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر اطمینان سے بیٹھ جانا تو کہنا کہ شکر ہے اس پروردگار کا جس نے ہم کو ظالم قوم سے نجات دلادی ہے

(۲۹) اور یہ کہنا کہ پروردگار ہم کو بابرکت منزل پر اتارنا کہ تو بہترین اتارنے والا ہے

(۳۰) اس امر میں ہماری بہت سی نشانیاں ہیں اور ہم تو بس امتحان لینے والے ہیں

(۳۱) اس کے بعد پھر ہم نے دوسری قوموں کو پیدا کیا

(۳۲) اور ان میں بھی اپنے رسول کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی خدا نہیں ہے تو کیا تم پرہیزگار نہ بنو گے

(۳۳) تو ان کی قوم کے ان رؤسائ نے جنہوں نے کفر اختیار کیا تھا اور آخرت کی ملاقات کا انکار کردیا تھا اور ہم نے انہیں زندگانی دنیا میں عیش و عشرت کا سامان دے دیا تھا وہ کہنے لگے کہ یہ تو تمہارا ہی جیسا ایک بشر ہے جو تم کھاتے ہو وہی کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو وہی پیتا بھی ہے

(۳۴) اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے بشر کی اطاعت کرلی تو یقینا خسارہ اٹھانے والے ہوجاؤ گے

(۳۵) کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور خاک اور ہڈی ہوجاؤ گے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤ گے

(۳۶) حیف صد حیف تم سے کس بات کا وعدہ کیا جارہا ہے

(۳۷) یہ تو صرف ایک زندگانی دنیا ہے جہاں ہم مریں گے اور جئیں گے اور دوبارہ زندہ ہونے والے نہیں ہیں

(۳۸) یہ ایک ایسا آدمی ہے جو خدا پر بہتان باندھتا ہے اور ہم اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں

(۳۹) اس رسول نے کہا کہ پروردگار تو ہماری مدد فرما کہ یہ سب ہماری تکذیب کررہے ہیں

(۴۰) ارشاد ہوا کہ عنقریب یہ لوگ پشیمان ہوجائیں گے

(۴۱) نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ایک برحق چنگھاڑنے اپنی گرفت میں لے لیا اور ہم نے انہیں کوڑا کرکٹ بنادیا کہ ظالم قوم کے لئے ہلاکت اور بربادی ہی ہے

(۴۲) پھر اس کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو ایجاد کیا

(۴۳) کوئی امتّ نہ اپنے مقررہ وقت سے آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے

(۴۴) اس کے بعد ہم نے مسلسل رسول بھیجے اور جب کسی امتّ کے پاس کوئی رسول آیا تو اس نے رسول کی تکذیب کی اور ہم نے بھی سب کو عذاب کی منزل میں ایک کے پیچھے ایک لگادیا اور سب کو ایک افسانہ بناکر چھوڑ دیا کہ ہلاکت اس قوم کے لئے ہے جو ایمان نہیں لاتی ہے

(۴۵) پھر ہم نے موسٰی اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا

(۴۶) فرعون اور اس کے زعمائ مملکت کی طرف تو ان لوگوں نے بھی استکبار کیا اور وہ تو تھے ہی اونچے قسم کے لوگ

(۴۷) تو ان لوگوں نے کہہ دیا کہ کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم خود ہماری پرستش کررہی ہے

(۴۸) یہ کہہ کر دونوں کو جھٹلا دیا اور اس طرح ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئے

(۴۹) اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی کہ شاید اس طرح لوگ ہدایت حاصل کرلیں

(۵۰) اور ہم نے ابن مریم اور ان کی والدہ کو بھی اپنی نشانی قرار دیا اور انہیں ایک بلندی پر جہاں ٹھہرنے کی جگہ بھی تھی اور چشمہ بھی تھا پناہ دی

(۵۱) اے میرے رسولو ! تم پاکیزہ غذائیں کھاؤ اور نیک کام کرو کہ میں تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہوں

(۵۲) اور تمہارا سب کا دین ایک دین ہے اور میں ہی سب کا پروردگار ہوں لہذا بس مجھ سے ڈرو

(۵۳) پھر یہ لوگ آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور ہر گروہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہے اسی پر خوش اور مگن ہے

(۵۴) اب آپ انہیں ایک مدتّ کے لئے اسی گمراہی میں چھوڑ دیں

(۵۵) کیا ان کا خیال یہ ہے کہ ہم جو کچھ مال اور اولاد دے رہے ہیں

(۵۶) یہ ان کی نیکیوں میں عجلت کی جاری ہے نہیں ہرگز نہیں انہیں تو حقیقت کا شعور بھی نہیں ہے

(۵۷) بیشک جو لوگ خوف پروردگار سے لرزاں رہتے ہیں

(۵۸) اور جو اپنے پروردگار کی نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں

(۵۹) اور جو کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہیں بناتے ہیں

(۶۰) اور وہ لوگ جو بقدر امکان راسِ خدا میں دیتے رہتے ہیں اور انہیں یہ خوف لگا رہتا ہے کہ پلٹ کر اسی کی بارگاہ میں جانے والے ہیں

(۶۱) یہی وہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں اور سب کے آگے نکل جانے والے ہیں

(۶۲) اور ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ہیں اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا ہے

(۶۳) بلکہ ان کے قلوب اس کی طرف سے بالکل جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کے پاس دوسرے قسم کے اعمال ہیں جنہیں وہ انجام دے رہے ہیں

(۶۴) یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے مالداروں کو عذاب کی گرفت میں لے لیا تو اب سب فریاد کررہے ہیں

(۶۵) اب آج واویلا نہ کرو آج ہماری طرف سے کوئی مدد نہیں کی جائے گی

(۶۶) جب ہماری آیتیں تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو تم الٹے پاؤں واپس چلے جارہے تھے

(۶۷) اکڑتے ہوئے اور قصہّ کہتے اور بکتے ہوئے

(۶۸) کیا ان لوگوں نے ہماری بات پر غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی چیز آگئی ہے جو ان کے باپ دادا کے پاس بھی نہیں آئی تھی

(۶۹) یا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا ہی نہیں ہے اور اسی لئے انکار کررہے ہیں

(۷۰) یا ان کا کہنا یہ ہے کہ رسول میں جنون پایا جاتا ہے جب کہ وہ ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے

(۷۱) اور اگر حق ان کی خواہشات کا اتباع کرلیتا تو آسمان و زمین اور ان کے مابین جو کچھ بھی ہے سب برباد ہوجاتا بلکہ ہم نے ان کو ان ہی کا ذکر عطا کیا ہے اور یہ اپنے ہی ذکر سے اعراض کئے ہوئے ہیں

(۷۲) تو کیا آپ ان سے اپنا خرچ مانگ رہے ہیں ہرگز نہیں خدا کا دیا ہوا خراج آپ کے لئے بہت بہتر ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے

(۷۳) اور آپ تو انہیں سیدھے راستہ کی دعوت دینے والے ہیں

(۷۴) اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہیں وہ سیدھے راستہ سے ہٹے ہوئے ہیں

(۷۵) اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف کو دور بھی کردیں تو بھی یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہوتے جائیں گے

(۷۶) اور ہم نے انہیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں

(۷۷) یہاں تک کہ ہم نے شدید عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اسی میں مایوس ہوکر بیٹھ رہے

(۷۸) وہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں مگر تم بہت کم شکریہ ادا کرتے ہو

(۷۹) اور اسی نے تمہیں ساری زمین میں پھیلادیا ہے اور اسی کی بارگاہ میں تم اکٹھا کئے جاؤ گے

(۸۰) وہی وہ ہے جو حیات وموت کا دینے والا ہے اور اسی کے اختیار میں دن اور رات کی آمدورفت ہے تو تم عقل کیوں نہیں استعمال کرتے ہو

(۸۱) بلکہ ان لوگوں نے بھی وہی کہہ دیا جو ان کے پہلے والوں نے کہا تھا

(۸۲) کہ اگر ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈی ہوگئے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں

(۸۳) بیشک ایسا ہی وعدہ ہم سے بھی کیا گیا ہے اور ہم سے پہلے والوں سے بھی کیا گیا ہے لیکن یہ صرف پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں

(۸۴) تو ذرا آپ پوچھئے کہ یہ زمین اور اس کی مخلوقات کس کے لئے ہے اگر تمہارے پاس کچھ بھی علم ہے

(۸۵) یہ فورا کہیں گے کہ اللہ کے لئے ہے تو کہئے کہ پھر سمجھتے کیوں نہیں ہو

(۸۶) پھر مزید کہئے کہ ساتوں آسمان اور عرش اعظم کامالک کون ہے

(۸۷) تو یہ پھر کہیں گے کہ اللہ ہی ہے تو کہئے کہ آخر اس سے ڈرتے کیوں نہیں ہو

(۸۸) پھر کہئے کہ ہر شے کی حکومت کس کے اختیار میں ہے کہ وہی پناہ دیتا ہے اور اسی کے عذاب سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے اگر تمہارا پاس کوئی بھی علم ہے

(۸۹) تو یہ فورا جواب دیں گے کہ یہ سب اللہ کے لئے ہے تو کہئے کہ آخر پھر تم پر کون سا جادو کیا جارہا ہے

(۹۰) بلکہ ہم ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور یہ سب جھوٹے ہیں

(۹۱) یقینا خدا نے کسی کو فرزند نہیں بنایا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے ورنہ ہر خدا اپنی مخلوقات کو لے کر الگ ہوجاتا اور ہر ایک دوسرے پر برتری کی فکر کرتا اور کائنات تباہ و برباد ہوجاتی-اللرُ ان تمام باتوں سے پاک و پاکیزہ ہے

(۹۲) وہ حاضر و غائب سب کا جاننے والا ہے اور ان سب کے شرک سے بلند و بالاتر ہے

(۹۳) اور آپ کہئے کہ پروردگار اگر جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا ہے مجھے دکھا بھی دینا

(۹۴) تو پروردگار مجھے اس ظالم قوم کے ساتھ نہ قرار دینا

(۹۵) اور ہم جس عذاب کا ان سے وعدہ کررہے ہیں اسے آپ کو دکھادینے کی قدرت بھی رکھتے ہیں

(۹۶) اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعہ رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں

(۹۷) اور کہئے کہ پروردگار میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں

(۹۸) اور اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس آجائیں

(۹۹) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے

(۱۰۰) شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ه برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے

(۱۰۱) پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ رشتہ داریاں ہوں گی اور نہ آپس میں کوئی ایک دوسرے کے حالات پوچھے گا

(۱۰۲) پھر جن کی نیکیوں کا پلہّ بھاری ہوگا وہ کامیاب اور نجات پانے والے ہوں گے

(۱۰۳) اور جن کی نیکیوں کا پلہّ ہلکا ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے اور وہ جہنم ّ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں

(۱۰۴) جہنمّ کی آگ ان کے چہروں کو جھلس دے گی اور وہ اسی میں منہ بنائے ہوئے ہوں گے

(۱۰۵) کیا ایسا نہیں ہے کہ جب ہماری آیتیں تمہاری سامنے پڑھی جاتی تھیں تو تم ان کی تکذیب کیا کرتے تھے

(۱۰۶) وہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ہم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ ہوگئے تھے

(۱۰۷) پروردگار اب ہمیں جہنمّ سے نکال دے اس کے بعد دوبارہ گناہ کریں تو ہم واقعی ظالم ہیں

(۱۰۸) ارشاد ہوگا کہ اب اسی میں ذلتّ کے ساتھ پڑے رہو اور بات نہ کرو

(۱۰۹) ہمارے بندوں میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جن کا کہنا تھا کہ پروردگار ہم ایمان لائے ہیں لہذا ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہم پر رحم فرما کہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے

(۱۱۰) تو تم لوگوں نے ان کو بالکل مذاق بنالیا تھا یہاں تک کہ اس مذاق نے تمہیں ہماری یاد سے بالکل غافل بنادیا اور تم ان کا مضحکہ ہی اڑاتے رہ گئے

(۱۱۱) آج کے دن ہم نے ان کو یہ جزا دی ہے کہ وہ سراسر کامیاب ہیں

(۱۱۲) پھر خدا پوچھے گا کہ تم روئے زمین پر کتنے سال رہے

(۱۱۳) وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا اس کا بھی ایک ہی حصہّ اسے تو شمار کرنے والوں سے دریافت کرلے

(۱۱۴) ارشاد ہوگا کہ بیشک تم بہت مختصر رہے ہو اور کاش تمہیں اس کا ادراک ہوتا

(۱۱۵) کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے

(۱۱۶) پس بلند و بالا ہے وہ خدا جو بادشاہ برحق ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ عرش کریم کا پروردگار ہے

(۱۱۷) اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو پکارے گا جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے تو اس کا حساب پروردگار کے پاس ہے اور کافروں کے لئے نجات بہرحال نہیں ہے

(۱۱۸) اور پیغمبر علیہ السّلام آپ کہئے کہ پروردگار میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم کر کہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے

چھٹی حدیث

( ۶) عن علی بن ابی طالب ( علیه السلام) قال:قال لی رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)یوم فتحتُ خَیبرَیاعلیّ لولاان تقول فیک طوائف من اُمّتی ما قالت النّصاریٰ فی عیسیٰ بن مریم لقلتُ فیک الیوم مقٰالاً لاٰ تمرُّ بملاءٍ من المسلمین الاّ و أخذُوا تُراب نَعلَیک و فضلَ طهورک یستشفون به ولٰکن حسبُک اَن تکون منّی واَنا منک ترثنی واَرثک وانت منّی بمنزلة هٰارون من موسیٰ الاّ اَنّه لانبیّ بعدی واَنت تُؤَدّی دینی وتقٰاتل علیٰ سنّتی واَنت فی الاخرة اقرب النّاس منّی وانّک غداً علی الحوض خلیفتی تذوذ عنه المنافقین

وانّک اوّل مَن یردُ علیَّ الحوض وانّک اوّل داخلٍ یدخلُ الجنّة من امّتی وانّ شیعتک علیٰ منٰابر من نور رواء مرویّین مبیضّة وجوههم حولی اشفعُ لهم فیکونون غداً فی الجنّة جیرانی وانّ عدوّک غداًظماءً مظمَئین مسودّةً وجوههم مقمحین

یا علیّ حربک حربی و سلمک سلمی وعلانیتک علانیتی وسریرة صدرک کسریرة صدری وانت باب علمی وانّ ولدک ولدی ولحمک لحمی ودمُک دمی وانّ الحقّ معک والحقّ علیٰ لسانک مانطقت فهو الحقّ وفی قلبک وبین عینیک والایمان مخٰالط لحمک ودمک کمٰا خٰالط لحمی و دمی

وانّ اللّه عزّوجلّ امرنی ان اُبشّرک :اَنت و عترتک ومحبیک فی الجنّة وانّ عدوّک فی النّار یا علیّ لاٰ یردُ الحوض مبغض لک ولاٰ یغیب عنه محبّ لک قال: قال علیّ (علیه السلام)فخررت ساجداًللّه سبحانه وتعٰالیٰ و حمدته علیٰ ما انعم به علیّ من الاسلام والقران وحبّبنی الی خاتم النبیّین وسیّد المرسلین( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ جب میں نے خیبر فتح کیا تو اس دن رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) نے فرمایا اے علی( علیہ السلام ) اگرمجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تیرے بارے میں امت میں سے بعض وہی کہیں گے جو نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کہا تھا توآج میں آپ کے بارے میں کہتااور تو مسلمانوں کے کسی گروہ کے پاس سے نہ گزرتا مگر یہ کہ تیرے قدمو ں کی خاک اور تیرے وضو کے بچے ہوئے پانی کو اٹھا تے اوراسے اپنے لئے شفا سمجھتے لیکن تیرے لئے یہی کافی ہے کہ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں تو مجھ سے ارث لے گا اور میں تجھ سے ارث لونگا اور تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا تو میرے دین و قرض کو ادا کریگا ۔ اور میری سنت پر جہاد کریگا اور آخرت میں تو سب سے زیاد ہ نزدیک تر ہوگا مجھ سے اور حوض کو ثر پر میرا جانشین ہو گا اور منافقوں کو حوض کوثر سے دور کرے گا اور تو سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا ۔

اور تو سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا تو سب سے پہلے میری امت میں بہشت میں داخل ہو گا اور تیرے شیعہ قیامت کے دن نورکے ممبروں پر سیراب ا ورحشاش وبشاش نورانی چہرے کے ساتھ میرے گرد ہونگے میں ان کی شفاعت کرونگا اور جنت میں میرے پڑوسی ہونگے ۔ اور تیرے دشمن قیامت کے دن بھوکے وپیاسے اور تھکے ہوئے سیاہ چہرے کے ساتھ سر جھکائے ہوئے اور گردن میں طوق و زنجیر پہنے ہوئے ہونگے ۔ اے علی (علیہ السلام ) تیرے ساتھ جنگ کر نا میرے ساتھ جنگ کرنا ہے تیرے ساتھ صلح کرنا میرے ساتھ صلح کرنا ہے تیرا ظاہر میرا ظاہر ہے تیرا باطن میرا باطن ہے تو میرے علم کا باب ہے تیرے بیٹے میرے بیٹے ہیں تیرا گوشت میرا گوشت ہے تیرا خون میرا خون ہے حق تیرے ساتھ ہے اور جو بھی تو کہے گا حق ہوگا تیرے د ل میں حق ہے تیری دونوں آنکھوں کے درمیان میں حق ہے اور تیرے گوشت میں ایمان مخلوط ہو چکا ہے تیرے خون میں حق مخلوط ہو چکا ہے جس طرح میرے گوشت و خون میں ایمان مخلوط ہو چکا ہے خدا فرماتا ہے میں تمہیں خوشخبری دوں تو اور تیری رعیت اور تیرے شیعہ جنت میں ہونگے اور تیرے دشمن جہنم میں ہونگے اے علی (علیہ السلام ) جو بھی تجھ سے دشمنی کرتا ہے حوض کوثر پر حاضر ووارد نہیں ہو سکتا اور تیرا محب حوض کوثر سے غایب نہیں ہو سکتا حضرت علی (علیہ السلام ) نے خدا کا شکر کرتے ہوئے سجدہ کیا اور خدا کی حمد بجالائے کیونکہ خداوند عالم نے حضرت علی(علیہ السلام ) پر اسلام اور قرآن سے بہت زیادہ انعامات فرمائے اور مجھے حضرت خاتم النبین اور سیدالمرسلین سے محبت کرنے والا بنایا ہے(۱)

____________________

(۱) (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۹ ص۱۶۸خطبہ ۱۵۴)

ساتھویں حدیث

( ۷) قال النبی( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ّ : لواجتمع النّا س علیٰ حبّ علیّ لمٰا خلق اللّه النّار

ترجمہ:حضرت رسول گرامی اسلام نے فرمایا اگر تمام لوگ علی (علیہ السلام ) کی محبت پر جمع ہو جاتے تو خداوند عالم جہنم کو خلق نہ فرماتا ۔(۱)

____________________

(۱) ( احقا الحق سیوطی در ذیل اللئالی ص۶۲ )

آٹھویں حدیث

( ۸) حدّ ثنامحمد بن علیّ مٰا جیلویه ، قال حدّ ثنی عمی عن المعلیٰ بن خنیس قال سمعت ابٰا عبد اللّه (علیه السلام ) یقول: لیس النّاصب من نصب لنا اهل البیت لاَنّک لاٰ تجد احداً یقول انا ابغض محمداً وآل محمدٍ ولٰکن النّاصب من نصب لکم وهو یعلم اَنّکم تتوالونا وتتبرّوءُ ن من اعدائنا و قال (علیه السلام)من اَشبع عدوّاً لنا فقد قتل ولیّاً لنٰا

ترجمہ:

معلی بن خنیس کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر الصادق ( علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اس کو ناصبی نہیں کہتے کیونکہ کوئی شخص اپنے آپ کو محمد ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) وآل بیت محمد کا دشمن نہیں کہتا لیکن ناصبی وہ ہے کہ جو تم شیعوں سے دشمنی رکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ تم (شیعہ )ہم اھل بیت سے محبت کرتے ہوئے اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہو،پھر حضرت نے فرمایا جو بھی کسی ہمارے دشمن کو کھانا کھلائے گا گو یا ہمارے کسی شیعہ کو اس نے قتل کیا ۔(۱)

____________________

(۱) ( صفات شیخ صدوق ص۹ ج۱۷) ترجمہ:

نویں حدیث

( ۹) عدّة من اصحٰابنا ، عن سهل بن زیٰاد ، عن محمّد بن الحسن بن شمّون عن عبد اللّه بن عبد الرّحمٰن ، عن عبد اللّه بن قاسم عن عمرو بن ابی المقدام ، عن ابی عبد اللّه ( علیه السلام) مثله وزٰاد فیه ألاٰ وانّ لکلّ شیءٍ جوهراً و جوهرُ ولدآدم محمد(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ونحن و شیعتنا بعدنٰا ، حبّذا شیعتنٰا مٰا أقربهم من عرش اللّه عزّوجلّ وأحسن صنع اللّه الیهم یوم القیامة واللّه لولاٰ ان یتعٰاظم النّاس ذٰلک او یدخلهم زهو لسلّمت علیهم الملآئکة قبلاً واللّه مٰا من عبدٍ من شیعتنا یتلو القرآن فی صلاٰ ته الاّ وله بکلّ حرفٍ ماءة حسنة ولا قرأ فی صلاته جٰالساً قائماً الاّ وله بکلّ حرفٍ خمسون حسنة ولاٰ فی غیر صلٰاة الاّ وله بکلّ حرفٍ عشر حسنٰات وانّ للصّامت من شیعتنا لأجر من قرأ القرآن ممّن خٰالفه ، أنتم واللّه علیٰ فرشکم نیٰام ،لکم اجر المجٰاهدین

وانتم واللّه فی صلاٰ تکم لکم اجر الصّافین فی سبیله ، انتم واللّه الّذین قال اللّه عزّوجلّ،

،، ونزعنٰا مٰافی صدورهم من غلٍّ اخواناً علی سُرُرٍمتقٰابلین ،، انّمٰا شیعتنا أصحاب الاربعة الاَعین عینان فی الرّاس و عینان فی القلب اَلاٰ والخلٰائق کلّهم کذٰلک الاّ اأنَّ اللّه عزّوجلّ فتح ابصارکم واعمیٰ أبصٰارهم

ترجمہ:

عمر بن ابی المقداد امام صادق ( علیہ السلام ) سے روایت کرتا ہے کہ امام جعفر صادق( علیہ السلام) نے فرمایا جان کو ہر چیز کیلئے جوھر ہوتا ہے اور حضرت آدم کی اولاد کاگوہر حضرت محمد ہیں اور ان کے بعدہم اھل بیت اور ہمارے شیعہ ہیں اور خوش خبری ہو شیعوں کیلئے کہ کتنا خدا کے عرش کے نزدیک ہیں اور قیامت کے دن خدا ان سے بہت اچھا سلوک کریگا اور اگر ہمارے شیعہ کو تکبّر و فخر اورخود پسندی لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو خدا کی قسم اللہ کے پاک ملائکہ اس دنیا میں ان کے سامنے آکر سلام کرتے خدا کی قسم جب بھی ہمارے شیعوں میں سے کوئی بھی نماز کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو خدا ہر حرف کے بدلے اسے ایک سو نیکی عطا فر ماتا ہے اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو ہر حرف کے بدلے پچاس نیکیا عطا کرتا ہے اور جو بھی نماز کے علاوہ باقی حالات میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو خدا ہر حرف کے بدلے اسے دس نیکیاں عطا کرتا ہے اور اگر کوئی خاموش رہتا ہے تو بھی خدا اسے ہمارے مخالف کے قرآن پڑھنے کے برابر نیکیاں و اجر عطا کرتا ہے ، اور خدا کی قسم ہمارے شیعہ اپنے بستر پر سو رہے ہوتے ہیں خدا انکو مجاھدین فی سبیل اللہ کے برابر اجر عطا کرتا ہے۔

اور نماز کی صفوں میں تمہیں راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کہ صفوں کے برابر ثواب عطا کرتا ہے تم لوگ خدا کی قسم وہ لوگ ہو کہ خدا تمہارے بارے میں فرماتا ہے

(ہم نے ان کے دلوں سے کینہ و نفرت کو نکا ل لیا ہے اور بھائیوں کی طرح تخت پر ایک دوسرے کے برابر بیٹھے ہیں )(۱)

خداکی قسم ہمارے شیعوں کی چار آنکھیں ہیں دو ظاہر ی آنکھیں ہیں اور دو دل کی آنکھیں ہیں اور جان لو ہمارے شیعہ سب کے سب ایسے ہیں اور خدا نے تمہاری آنکھوں کو دیکھنے والا او ر حق کو قبول کرنے والا بنایا ہے لیکن تمہارے دشمنوں کی آنکھوں کو اندھا کر دیا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہیں ۔(۲)

____________________

(۱)حجر آیت ۴۷

(۲) الروضہ من الکافی ج۲ ص ج ۲۶

دسویں حدیث

( ۱۰) عن ابی جعفر محمّد بن علیّ البٰاقر (علیہ السلام)عن ابیہ عن جدّہ (علیھم السلام) قال خرج رسول اللّہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ذات یوم وھو راکب و خرج علیّ ( علیہ السلام) وھو یمشی فقٰال لہ یٰا ابا الحسن امّاان ترکب واما ان تنصرف، فانّ اللہ عزّوجلّ امرنی اَن ترکب اذٰا رکبت و تمشی اذٰا مشیت و تجلس اذٰا جلست الاّ اَن یکون حد من حدود اللّہ لابدّ لک من القیام والقعود فیہ ومٰا اکرمنی اللّہ بکٰرامۃ الاّ وقد اکرمک بمثلھا و خصّنی بالنّبوّۃ والرّسالۃ و جعلک ولیّ فی ذٰلک تقوم فی حدودہ و فی صعب اأمورہ والّذی بعث محمّداً بالحقّ نبیّاً مٰا آمن بی من انکرک ولاٰ أقرّبی من جحدک ولاٰ آمن باللّہ من کفر بک

وانّ فضلک لمن فضلی وان فضلی لک للفضل اللّہ وھو قول ربّی عزّوجلّ قل بفضل اللّہ وبرحمتہ فبذٰلک فلیفرحوا ھو خیر ممّٰایجمعون ففضل اللّہ نبوّۃنبیّکم ورحمتہ ولایۃ علی بن ابیطالب (علیہ السلام ) فبذٰلک قال بالنّبوّۃِ والولاٰیۃ فلیفرحوا یعنی الشیعۃ ھو خیر ممّٰا یجمعون یعنی مُخٰالفیھم من الا ھل والمٰال ولوالد فی دٰار دنیا واللّہ یا علیّ مٰا خُلقت الاّٰ لیعبد ( لتعبد) ربّک ولیعرف بک معٰالم الدّین ویصلح بک دارس السّبیل ولقد ضلّ من ضلّ عنک ولن یھدی الی اللّہ عزّوجلّ من لم یھتد الیک والیٰ ولاٰیتک وھو قول ربّی عزّوجلّ وانّی لغفّار لمن تاب وآمن وعمل صٰالحاً ثمّ اھتدیٰ یعنی الی ولاٰ یتک ولقد أمرنی ربّی تبٰارک وتعٰالیٰ أن افترض من حقّک مٰا افترضہ من حقّی وانّ حقّک لمفروض علیٰ من آمن و لولاٰک لم یعرف حزب اللّہ وبک یعرف عدوّ اللّہ ومن لم یلقہ بولاٰیتک لم یلقہ بشیءٍ ولقد أنزل اللّہ عزّوجلّ الیّ یا ایّھا الرّسول بلّغ مٰا انزل الیک من ربّک یعنی فی ولاٰیتک یا علیّ و ان لم تفعل فمٰابلّغت رسٰالتہ ولو لم ابلغ مٰا امرت بہ من ولاٰیتک لحبط عملی

ومن لقی اللّہ عزّ وجلّ بغیر ولاٰیتک فقد حبط عملہ وعد ینجز لی ومٰا أقول الاّ قول ربّی تبٰارک و تعالیٰ وانّ الّذی اقول لمن اللہ عزّوجلّ انزلہ فیک ۔

ترجمہ:

ایک دن حضرت رسولخدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)گھوڑے پر سوار ہو کر گھر سے باہر نکلے اور حضرت علی ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے تو حضرت رسول خدا نے فرمایا اے ابا الحسن یا گھوڑے پر سوار ہو جاؤ یا واپس چلے جاؤ کیونکہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم گھوڑے پر سوار ہوجب میں سوار ہوں اور آپ پیدل چلیں اگر میں پیدل چلوں اور تم بیٹھوجب میں بیٹھا ہوں مگر یہ کہ خدا نے حدود بیان کی ہیں تو ضروری ہے کہ تمہارے لئے بھی قیام و قعود ہوخدانے مجھے کوئی کرامت نہیں دی مگر یہ کہ ویسی کرامت خدا نے تجھے بھی عطا کی ہے خدا نے مجھے نبی و رسول بنایا ہے اور تجھے میرا ولی بنایا ہے تو خدا کی حدود کو قائم کرے گا اور مشکلات کے وقت قیام کرے گا اور خدا کی قسم جس نے مجھ محمد کو حق کا نبی بنایا ہے کوئی شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جبکہ تیرا منکر ہے اور کوئی شخص میرا اقرار نہیں کرتا جبکہ تجھ سے انکار کرتا ہے اور کوئی شخص خدا پر ایمان نہیں رکھتا جبکہ تجھ سے کفر کر تا ہے۔

تیرا فضل میرے فضل سے ہے اور میرا فضل تیرے ساتھ خدا کے فضل سے ہے اور خداوند کا قول ہے

(کہ خدا کے فضل و رحمت سے ہے اور اسی لئے ان کوخوش ہونا چاہئے اور یہ بہتر ہے اس سے کہ جسکو جمع کرتے ہیں ) تمہارے نبی کی نبوت خدا کا فضل ہے اور خدا کی رحمت و ولایت حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)ہے اسی لئے رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایامیری نبوت اور علی کی ولایت کی وجہ سے شیعوں کو ہمیشہ خوش رہنا چاہئے اور یہی انکے لئے بہتر ہے اس سے جسکو وہ جمع کرتے ہیں یعنی شیعوں کے مخالف جسکو جمع کرتے ہیں اولاد و مال کو یعنی اپنی آل و اولاد کو اس دنیا میں اکھٹا کرتے ہیں خدا کی قسم اے علی تجھے سوائے اسکے خلق نہیں کیا گیا مگر خدا کی عبادت و پرستش کی جائے اور تمہارے وسیلے سے معالم دین پہنچائے جائیں تاکہ گمراہ راستے سے ھدایت کے راستے کی پہچان ہو سکے تحقیق گمراہ ہوا وہ جس نے تجھے گم کر دیا اور خدا کی طرف ھدا یت نہیں پا سکتا جو تیرے راستے کا انتخاب نہیں کرتا اور تیری ولایت کے دامن سے تمسک نہیں کرتا اور یہی ہے خداوند کا فرما ن کہ میں بخشنے والا ہوں اسکو جو توبہ کرتا ہے اور ایمان لے آتاہے عمل صالح کرتا ہے اور پھر ھدایت پاتا ہے یعنی اے علی تیری ولایت سے ھدایت پاتا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ وہ حق جو خدا نے میرے لئے مقرر کیا ہے وہی تیرے لئے مقرر کروں اور تیرا حق واجب ہے اس پر جو مجھ پر ایمان لاتا ہے اور اگر تو نہ ہوتا تو حذب خداپہچانا نہ جاتا اور تیرے وجود ذی جود سے دشمن خدا کی پہچا ن نہ ہوتی ہے اور جو تیری ولایت و محبت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے گا اس کے پاس کچھ نہیں اور خدا نے میری طرف نازل کیا یا ایّھا الرسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک یعنی اے علی تیری ولایت وان لم تفعل فما بلّغت رسالتہ اور اگرمیں نہ پہنچاؤں اسکو جو نازل کیا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے تیری ولایت کے بارے میں تو میرے تمام اعمال ضبط وبرباد ہو جائیں گے

اور جو بھی تیری ولایت و محبت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے گا اس کے سب اعمال ضایع و برباد ہو جائیں گے اور یہ وعدہ ہے جو میرے لئے معین کیا گیا ہے میں کچھ نہیں کہتا مگر وہی جو خدا کا فرمان ہے اور جو بھی تیرے بارے میں کہتا ہوں وہ خدا کا فرمان ہے اور میری طرف نازل کیا گیا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) (امالی شیخ صدوق مجلس۷۴ص۴۹۴ح۱۶)

گیارہویں حدیث

( ۱۱) قال امیر المومنین (علیہ السلام):نحن شجر ۃ النّبوّۃ ومحطُّ الرّسالۃومختلف الملائکۃ ومعادن العلم وینابیع الحکم ناصرنا و محبّناٰ ینتظر الرّحمۃ و عدُوُّناٰ و مبغضنا ینتظر السّطوۃ ۔

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ ہم شجرہ نبوت اور مقام رسالت اور ملائکہ کے نازل اور آنے جانے کا مرکز اور علم کے خزانے ہیں اور حکمت کے چشمے ہیں ہماری مدد کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا خدا کی رحمت کا منتظر رہے اور ہمارا دشمن اور ہمسے بغض رکھنے والا خدا کے قہر و عذاب کا منتظر رہے ۔(۱)

____________________

(۱) (سید رضی نہج البلا غہ قسمت اوّل ص ۱۶۳ خطبہ ۱۰۹)

بارویں حدیث

( ۱۲) حدّثنا محمّد بن موسیٰ المتوکّل عن الحسن بن علی الخزٰار قال: سمعت(علیہ السلام) یقول:انّ ممّن یتّخذُ مودّتناٰ اھل البیت لمن ھو اشدّ لعنتہ علیٰ شیعتناٰ من الدّجٰال فقلتُ لہ یابن رسول اللّہ بمٰاذا ؟ قال بمُوٰالاٰ ۃ اعدائنٰا ومعٰادٰاۃ اولیٰائنٰا انّہ کان کذٰ لک اختلط الحق بالبٰا طل واشتبہ الامر فلم یعرف مؤ من من منافقٍ۔

ترجمہ :

حسن بن خراز کہتا ہے کہ میں نے امام رضا ( علیہ السلام ) کو فرماتے ہوئے سناکہ جو ہم اھلبیت کی محبت کو شعار بناتا ہے اور اس کی خراب کاری ہمارے شیعوں کیلئے دجا ل سے زیادہ نقصان دہ ہے ، روای کہتاہے کہ میں نے عرض کی اے فرزند رسول خدا اس طرح کیوں ہے ؟ تو امام ( علیہ السلام ) نے فرمایا ہمارے دشمنوں سے محبت اور ہمارے محبوں سے دشمنی کرنے سے اور جو بھی اس طرح کرتا ہے حق و باطل آپس میں مخلوط ہو جاتے ہیں اور پھر معاملہ مشکل ہو جاتا ہے اور مؤ من کی منافق سے پہچان مشکل ہو جاتی ہے(۱)

____________________

(۱) (صفات شیعہ شیخ صدوق ص ۸ ح ۱۴)

تیرویں حدیث

( ۱۳) قال الرّسول ( صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)یا علیّ انت قسیم االجنّۃ والنّار ، تدخُل محبّیک الجنّۃ ومبغضک النّار

ترجمہ :

حضرت رسول گرامی اسلام نے فرمایا اے علی( علیہ السلام) تو جنت و جہنم کا تقسیم کرنے والا ہے اپنے محبوں کو جنت میں اور اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریگا ۔(۱)

____________________

(۱) ( احقاق الحق القندوزی الحنفی ینابیع المودّۃ ص۸۵)

چودہویں حدیث

( ۱۴) عن ابن عبّاس قال : قال رسول اللّہ( صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) من سرّہ ان یحیٰ حیٰاتی و یمُوت ممٰاتی و یسکن جنّۃ عدنٍ غرسھٰا ربّی فلیُوال علیّاً من بعدی و لیُوال ولیّہ و لیقتد بالائمّۃ من بعدی فانّھم عترتی خلقوا من طینتی و رزقوا فھماً و علماً ویل للمکذّبین بفضلھم من امّتی القاطعین فیھم صلتی لاٰ انٰا لھم اللّہ شفاعتی۔

ترجمہ:

عبد اللہ بن عبا س کہتا ہے کہ رسو ل خدا ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا جو چاہتا ہے کہ میری طرح زندہ رہے اور میری طرح سے اسے موت آئے اور جنت الفردوس میں اسکو جگہ ملے کہ جس میں باغات خدا نے لگائے ہیں تو اسے چاہئے کہ میرے بعد علی( علیہ السلام) سے محبت کرے اور علی( علیہ السلام) کے محبوں سے محبت کرے اور میرے بعد آنے والے آئمہ کی اقتداء کرے اور وہ میری عترت ہیں میری طینت سے خلق کئے گئے ہیں ان کا رزق علم و دانش ہے اور جہنم ہے ان کیلئے جو اھل بیت کی فضیلت کو جھٹلاتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور ان سے محبت قطع کرتا ہے خدا میری شفاعت انکو نہیں پہنچنے دیگا ۔(۱)

____________________

(۱) ( شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ج۹ ص ۱۷۰ خطبہ ۱۵۴)

پندرہویں حدیث

( ۱۵) قال علی(علیه السلام) لو ضربت خشیوم المؤمن بسیفی هٰذا علیٰ ان یبغضنی مٰا اابغضنی ولو صببت الدّنیا بجمّا تهٰا علی المنافق علیٰ ان یحبّنی مٰا احبّنی وذٰلک انّه قضی فانقضیٰ علیٰ لسان النبیّ الاُ مّی ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) انّه قال :

یا علیّ یبغضک مؤمن ولا یحبّک منافق

ترجمہ:

حضرت ( علیہ السلام) علی فرماتے ہیں کہ اگر میں مؤمن کی ناک پر تلواریں ماروں تاکہ وہ مجھ سے دشمنی کرے تو مجھ سے دشمنی نہیں کرے گا اور اگر منافق کو دنیا وما فیھا دے دوں تا کہ مجھ سے محبت کرے وہ میرا محب نہیں بنے گا کیونکہ خدا کا فیصلہ ہے اور نبی کی زبان سے جاری ہوا ہے کہ پیامبر نے فرمای

اے علی(علیہ السلام) تجھ سے مومن کبھی بغض نہیں رکھے گا اور منافق کبھی محبت نہیں کرے گ(۱)

____________________

(۱) (عقائد الانسان ج۳ ص۲۹۹ح۶)

سولہویں حدیث

(۱۶ ) حدّثنٰا الحسین بن ابراهیم قال حدّثنٰا علیُ بن ابراهیم عن جعفر بن سلمه الاصبهٰا نی عن ابراهیم بن محمّدٍ قال حدّثنٰا القتاد قال حدّثنٰا علیُّ بن هاٰ شم بن البرید عن ابیه قال سُئل زید بن علی(علیه السلام) عن قول رسول اللّه ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) من کنت مولاٰه فعلیّ مولاٰه قال نصبه علماً لیعلم به حزب اللّه عند الفرقة

ترجمہ:

امام زین العابدین (علیہ السلام) سے پوچھا گیا رسول خدا کے اس فرمان کے بارے ،،من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ،، تو امام نے فرمایا حضرت رسول نے اس کو ھدایت کا علم قرار دیا تاکہ اختلا ف کے وقت حزب خدا کو پہچانا جائے ۔(۱)

____________________

(۱) (امالی شیخ صدوق مجلس نمبر ۲۶ ص۱۲۳ ج۳)

ستارہویں حدیث

(۱۷ ) محمّد بن یحیٰ عن احمد بن محمّد ، عن ابن محبوبٍ ، عن ابن رئاٰبٍ، عن بکیر بن اعین قال :کان ابو جعفر(علیه السلام) یقول:انّ اللّه اخذ میثاق شیعتنٰا بالولاٰ یة لنا وهم ذرّ، یوم اخذ المیثاق علیٰ الذّ ر، بالاقرار له بالرّبوبیّة ولمحمدٍ ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) بالنبوّة وعرض اللّه جلّ وعزّعلیٰ محمد ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) امّته فی الطّین وهم أظلّه وخلقهم من الطّینة الّتی خُلق منها آدم وخلق اللّه أرواح شیعتنٰا قبل ابدٰانهم بأ لفی عٰامٍ وعرضهم علیه وعرّفهم رسو ل اللّه ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) وعرّفهم علیّاً ونحن نعرفهم فی لحن القول

ترجمہ :

امام محمد باقر (علیہ السلام ) نے فرمایا کہ خدانے عالم ذر میں ہمارے شیعوں سے میثاق و عہد لیا ہماری ولایت کے بارے میں جب عالم ذر میں اپنی ربوبیت اور رسول کی رسالت کے بارے عہد وپیمان لے رہاتھا خدا نے رسول کی امت کو حضرت رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے پیش کیا جبکہ وہ مٹی و طین میں سایہ کی طرح تھے اور خدا نے انکو طینت سے خلق کیا جس طینت سے خدا نے حضرت آدم کو خلق فرمایا تھا اور خدا نے ہمارے شیعوں کی ارواح کو ان کے بدنوں کے خلق کرنے سے دہ ہزار سال قبل خلق فرمایا اور رسول کے سامنے ان کو پیش کیا اور خدا نے رسول کو ان کی پہچان کرائی اور علی(علیہ السلام) نے بھی اپنے شیعوں کو پہچانا اور ہم ان کو ان کی گفتار سے پہچانتے ہیں کہ ہماری محبت کی باتیں کرتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی ج۲ کتاب الحجہ ص۳۲۱ح۹)

آٹھارہویں حدیث

(۱۸ ) قال الرّسول( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) اللّه: من صافح محباً لعلی غفر الله له الذنوب، واَدخله الجنّة بغیر حساب

ترجمہ:

پیامبر اسلام نے فرمایا کہ جو علی(علیہ السلام ) کے محبوں سے مصافحہ کرتا ہے خدا اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل کریگا ۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق ،اخطب خوارزمی درمناقب خوارزمی ص ۲۲۱)

انیسویں حدیث

(۱۹ ) عن ابن عبّاس قال: قال رسول اللّه( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)یا علیّ انا مدینة الحکمة و انت بابُهٰا ولن تؤتی المدینة الاّمن قِبل البٰاب وکذب من زعم انّه یحبّنی وهویبغضک لأنّک منّی وانا منک لحمک من لحمی ودُمک من دمی وروحک من روحی وسریرتک من سریرتی وعلاٰنیتک من علاٰنیتی وانت امام امّتی وخلیفتی علیهٰا بعدی سُعد من اطاعک وشقی من عصٰاک وربح من تولاّک وخسر من عاداک وفاز من لزمک وهلک من فٰارقک، مثلک ومثل الائمّةمن ولدک بعدی مثل سفینةنوحٍ من رکب فیهٰا نجٰا ومن تخلّف عنهٰا غرق ومثلکم مثل النّجوم کلّمٰا غٰاب نجم طلع نجم الیٰ یوم القیامة

ترجمہ :

عبد اللہ بن عبا س کہتا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ اے علی(علیہ السلام) میں حکمت کا شہر ہوں اور آپ اسکا دروازہ ہیں جو بھی شہر میں آنا چاہے دروازے سے آئے اورجھوٹا ہے وہ شخص جو کہے میں رسول سے محبت کرتا ہوں جبکہ تجھ سے دشمنی رکھتا ہو، کیونکہ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں ، تیرا گوشت میرا گوشت ہے تیرا خون میرا خون ہے ، تیری روح میری روح ہے ، تیرا باطن (یعنی اسرار دل) میرا باطن ہے ، تیرا ظاہر میرا ظاہر ہے ۔تو میری امت کا امام ہے میرے بعد میری امت میں میرا خلیفہ ہے اور جس نے تیری اطاعت کی وہ خوشبخت ہے اور جس نے تجھے ٹھکرا دیا و شقی وبدبخت ہے ، فائدہ اٹھا یا اس نے جس نے تجھ سے محبت کی اور نقصان اٹھایا اس نے جس نے تجھ سے دشمنی کی اور کامیاب ہو ا جس نے تجھے پکڑ لیا یعنی دامن کو پکڑا اور جو تم سے جد اہوا وہ ھلاک ہوا تیری مثال اور تیرے بعد آئمہ کی مثال سفینہ نوح کی مثال ہے ، جو سوار ہوا نجات پا گیا اور جس نے تخلف کیا وہ غرق ہوا اور تمہاری مثال ستاروں کی طرح ہے جب ایک ستارہ غروب کرتا ہے تو دوسرا طلوع کرتا ہے اور قیامت کے دن تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔(۱)

____________________

(۱) (عقا ئدالانسان ج۳ ص ۱۲۳ ح۲۳)

بیسویں حدیث

(۲۰ ) عدّة من أصحٰابنٰا، عن أحمد بن محمدبن خٰالدٍ، عن محمّد بن الحسن بن شمّون ،عن عبد اللّه بن عمروبن الاشعث، عن عبد اللّه بن حمّادالانصٰاری، عن عمروبن أبی المقدٰام ، عن أبیه عن أبی جعفر (علیه السلام) قال: قال امیرالمؤمنین(علیه السلام):شیعتناالمتبٰاذلون فی ولایتنٰا، المتحابّون فی مودّ تنٰا ، المتزٰاورون فی اِحیٰاء امرنٰا الّذین ان غضبوا لم یظلموا وان رضوا لم یسرفوا برکة علیٰ من جٰاوروا، سلم لمن خٰالطوا

ترجمہ:

حضرت علی (علیہ السلام ) نے فرمایاہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہماری ولایت و محبت کی وجہ سے ایک دوسرے سے درگزر کرتے ہیں ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں ہماری محبت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ہمارے امر کو زندہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کی زیارت کو جاتے ہیں ، اگر کسی پر ناراض ہوتے ہیں تو ظلم نہیں کرتے اور اگر راضی ہوں تو اسراف نہیں کرتے اور اپنے پڑوسیوں کیلئے برکت کا باعث ہوتے ہیں اور معاشرے میں سلامتی اور سلوک سے رہتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی ج۳ کتاب الایمان والکفر ص۳۳۳ ح۲۴)

اکیسویں حدیث

(۲۱ ) قال النبیُّ (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): من سرّه ان یجوز علی الصراط کالرّیح العاصف و یلج الجنّة بغیر حساب فلیتولّ ولّی ووصیّ وصٰاحبی وخلیفتی علیٰ أهلی علیّ

ترجمہ:

حضرت رسول گرامی اسلام فرماتے ہیں جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ تیز ہوا کی طرح پل صراط سے گزر جائے گا اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہو گا اسے چاہئے کہ میرے ولی و وصی و خلیفہ اورمیرے بھائی علی بن ابی طالب ( علیہ السلام) سے محبت کرے ۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق الحسکانی شواھد التنزیل ج۱ص۵۸)

بائیسویں حدیث

(۲۲ ) عن علیّ بن ابیطالب ( علیه السلام) قال: قال رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)لولاٰک مٰا عُرف المؤمنون من بعدی

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) نے مجھ سے فرمایااے علی اگر تو نہ ہوتا تو میرے بعد مومن پہچانے نہ جاتے ۔(۱)

____________________

(۱) ( عقدئد الانسان ص۱۶۷ج۲،ابن المغازلی مناقب میں ص۷۰ح۱۰۱)

تیئسویں حدیث

(۲۳ ) عن ابی ذرّ قال : قال النبیّ(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) : علیّ بابُ علمی و مبیّن لاُمّتی ما ارسلت به من بعدی حبّه ایمٰان و بغضه نفاق والنظر الیه رأفة ومودّته عبادة

ترجمہ:

ابو ذر حضرت پیامبر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا یا علی میرے علم کا دروازہ ہے اور میرے بعد میری امت کیلئے اسکو بیان کریگا جو خدا کی طرف سے میں لایا ہوں ۔

علی (علیہ السلام)سے محبت ایمان اور علی(علیہ السلام) سے دشمنی نفاق ومنافقت ہے علی( علیہ السلام) کی طرف دیکھنا مہر ومحبت ہے اور علی ( علیہ السلام) سے دوستی عبادت ہے(۱)

____________________

(۱) (بوستان معرفت ص۳۳۷کشفی ترمذی درمناقب مرتضوی باب دوّم ص۹۳)

چوبیسویں حدیث

(۲۴ ) قال النبیّ(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) :لا یقبلُ اللّه ایمان عبدٍ الاّ بولاٰیة علیّ والبرء اة من اعدائه

ترجمہ:

حضرت رسول اسلام نے فرمایا خدا کسی بندے کے ایمان کو قبول نہیں کریگا مگر حضرت علی (علیہ السلام) کی محبت اور انکے دشمنوں سے بیزاری ونفرت کا اظہار کرنے سے۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق خطب خوارزمی در مناقب خوارزمی ص۲)

پچیسویں حدیث

(۲۵ ) حدّثنا محمد بن الحسن بن الولید عن محمد بن الحسن الصّفار عن محمد بن عیسیٰ بن عبیدٍ عن ابن فضٰال قال سمعتُ الرّضٰا ( علیه السلام) یقول :من وٰاصل لنا قاطعاً او قطع لنا وٰاصلاً او مدح لنا عایباً او اکرم لنا مخٰالفاًفلیس منّٰا ولسنٰا منه

ترجمہ:

ابن فضال کہتا ہے کہ میں نے حضرت رضا ( علیہ السلام ) سے سنا فرما رہے تھے ہمارے نزدیک ہو وہ جو ہم سے دور ہوچکا ہے یا قطع تعلقی کرتا ہے اس سے جو ہم سے محبت کرتا ہے یا مدح و ستائش کرتا ہے اسکی جو ہماری عیب جوئی کرتا ہے یا اکرام و بخشش کرتاہے اسکو جو ہمارا مخالف ہے وہ ہم سے نہیں اور نہ ہم اس سے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) (صفات شیعہ ص۷ ح۱۰)

چھبیسویں حدیث

(۲۶ ) الحسین بن محمد عن معلّی بن محمد عن محمد بن جمهور قال: حدّثنٰا یُونس عن حمّاد بن عثّمٰان عن الفضیل بن یسٰار عن أبی جعفر ( علیه السلام) قال انّ اللّه عزّوجلّ نصب علیا( علیه السلام ) علماً بینه و بین خلقه فمن عرفه کاٰن مؤمناً ومن انکره کاٰن کافراً و من جهله کاٰن ضٰالاً ومن نصب معه شیئاً کا ن مشرکاً و من جٰآء بولاٰ یته دخل الجنّة

ترجمہ:

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان عَلَم اور علامت قرار دیا ہے جو بھی اس کی معرفت حاصل کریگا وہ مومن ہے اور جو انکار کرے گا وہ کافر ہے اور جو معرفت حاصل نہیں کرے گا وہ گمراہ ہے اور جو کسی دوسرے کو اس کیساتھ ملائے گا وہ مشرک ہے اور جو بھی قیامت کے دن حضر ت ( علیہ السلام) کی ولایت و محبت سے محشرکے میدان میں وارد ہوگا جنت میں داخل ہوجائے گا ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی کتاب حجہ ج۲ص۳۲۰ ح۷)

ستائیسویں حدیث

(۲۷ ) عن سید الاوصیٰاء علی ابن ابی طالب( علیه السلام)قال:قال رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) :ستُدفن بضعةمنّی بارض خرٰاسٰان مٰا زٰارهٰا مکروب الاّ نفّس اللّه کربته و لاٰ مذنب الاّ غفر اللّه ذنوبه

ترجمہ:

سید الاوصیاء حضرت علی بن ابی طالب ( علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا کہ خراسان کی سر زمین پر میرے بدن کا ٹکڑا دفن کیا جائے گا جو بھی پریشان حال اسکی زیار ت کریگا خدا اس کی پریشانی کو دور فرمائے گا ، اور جو بھی گنہگار اسکی زیارت کرے گا خدا اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا ۔(۱)

____________________

(۱) ( عقائد الانسان ص۲۲۱ج۲)

آٹھائیسویں حدیث

(۲۸ ) قال النبی(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ّ : لو انّ عبداً عبدُاللّه الف عٰامٍ بعد الفَ عٰام بین الرّکن والمقام ثمّ لقی اللّه مبغضاً لعلیّ( علیه السلام) لاکبه اللّه یوم القیامة علیٰ مَنخَریه فی نٰار جهنّم

ترجمہ :

پیامبر گرامی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اسلام نے فرمایا اگر کوئی شخص ہزار سال کے بعد ہزار سال کعبہ اور مقام ابراھیم کے درمیان خدا کی عبادت کرے اور اسی حالت میں مر جائے اور اس کے دل میں علی(علیہ السلام) سے بغض ہوتو خداقیامت کے دن منہ کے بل اسے جہنم میں داخل کریگا۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق اخطب خوارزمی در مناقب خوارزمی ص۵۲)

چھٹی حدیث

( ۶) عن علی بن ابی طالب ( علیه السلام) قال:قال لی رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)یوم فتحتُ خَیبرَیاعلیّ لولاان تقول فیک طوائف من اُمّتی ما قالت النّصاریٰ فی عیسیٰ بن مریم لقلتُ فیک الیوم مقٰالاً لاٰ تمرُّ بملاءٍ من المسلمین الاّ و أخذُوا تُراب نَعلَیک و فضلَ طهورک یستشفون به ولٰکن حسبُک اَن تکون منّی واَنا منک ترثنی واَرثک وانت منّی بمنزلة هٰارون من موسیٰ الاّ اَنّه لانبیّ بعدی واَنت تُؤَدّی دینی وتقٰاتل علیٰ سنّتی واَنت فی الاخرة اقرب النّاس منّی وانّک غداً علی الحوض خلیفتی تذوذ عنه المنافقین

وانّک اوّل مَن یردُ علیَّ الحوض وانّک اوّل داخلٍ یدخلُ الجنّة من امّتی وانّ شیعتک علیٰ منٰابر من نور رواء مرویّین مبیضّة وجوههم حولی اشفعُ لهم فیکونون غداً فی الجنّة جیرانی وانّ عدوّک غداًظماءً مظمَئین مسودّةً وجوههم مقمحین

یا علیّ حربک حربی و سلمک سلمی وعلانیتک علانیتی وسریرة صدرک کسریرة صدری وانت باب علمی وانّ ولدک ولدی ولحمک لحمی ودمُک دمی وانّ الحقّ معک والحقّ علیٰ لسانک مانطقت فهو الحقّ وفی قلبک وبین عینیک والایمان مخٰالط لحمک ودمک کمٰا خٰالط لحمی و دمی

وانّ اللّه عزّوجلّ امرنی ان اُبشّرک :اَنت و عترتک ومحبیک فی الجنّة وانّ عدوّک فی النّار یا علیّ لاٰ یردُ الحوض مبغض لک ولاٰ یغیب عنه محبّ لک قال: قال علیّ (علیه السلام)فخررت ساجداًللّه سبحانه وتعٰالیٰ و حمدته علیٰ ما انعم به علیّ من الاسلام والقران وحبّبنی الی خاتم النبیّین وسیّد المرسلین( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ جب میں نے خیبر فتح کیا تو اس دن رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) نے فرمایا اے علی( علیہ السلام ) اگرمجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تیرے بارے میں امت میں سے بعض وہی کہیں گے جو نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کہا تھا توآج میں آپ کے بارے میں کہتااور تو مسلمانوں کے کسی گروہ کے پاس سے نہ گزرتا مگر یہ کہ تیرے قدمو ں کی خاک اور تیرے وضو کے بچے ہوئے پانی کو اٹھا تے اوراسے اپنے لئے شفا سمجھتے لیکن تیرے لئے یہی کافی ہے کہ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں تو مجھ سے ارث لے گا اور میں تجھ سے ارث لونگا اور تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا تو میرے دین و قرض کو ادا کریگا ۔ اور میری سنت پر جہاد کریگا اور آخرت میں تو سب سے زیاد ہ نزدیک تر ہوگا مجھ سے اور حوض کو ثر پر میرا جانشین ہو گا اور منافقوں کو حوض کوثر سے دور کرے گا اور تو سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا ۔

اور تو سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا تو سب سے پہلے میری امت میں بہشت میں داخل ہو گا اور تیرے شیعہ قیامت کے دن نورکے ممبروں پر سیراب ا ورحشاش وبشاش نورانی چہرے کے ساتھ میرے گرد ہونگے میں ان کی شفاعت کرونگا اور جنت میں میرے پڑوسی ہونگے ۔ اور تیرے دشمن قیامت کے دن بھوکے وپیاسے اور تھکے ہوئے سیاہ چہرے کے ساتھ سر جھکائے ہوئے اور گردن میں طوق و زنجیر پہنے ہوئے ہونگے ۔ اے علی (علیہ السلام ) تیرے ساتھ جنگ کر نا میرے ساتھ جنگ کرنا ہے تیرے ساتھ صلح کرنا میرے ساتھ صلح کرنا ہے تیرا ظاہر میرا ظاہر ہے تیرا باطن میرا باطن ہے تو میرے علم کا باب ہے تیرے بیٹے میرے بیٹے ہیں تیرا گوشت میرا گوشت ہے تیرا خون میرا خون ہے حق تیرے ساتھ ہے اور جو بھی تو کہے گا حق ہوگا تیرے د ل میں حق ہے تیری دونوں آنکھوں کے درمیان میں حق ہے اور تیرے گوشت میں ایمان مخلوط ہو چکا ہے تیرے خون میں حق مخلوط ہو چکا ہے جس طرح میرے گوشت و خون میں ایمان مخلوط ہو چکا ہے خدا فرماتا ہے میں تمہیں خوشخبری دوں تو اور تیری رعیت اور تیرے شیعہ جنت میں ہونگے اور تیرے دشمن جہنم میں ہونگے اے علی (علیہ السلام ) جو بھی تجھ سے دشمنی کرتا ہے حوض کوثر پر حاضر ووارد نہیں ہو سکتا اور تیرا محب حوض کوثر سے غایب نہیں ہو سکتا حضرت علی (علیہ السلام ) نے خدا کا شکر کرتے ہوئے سجدہ کیا اور خدا کی حمد بجالائے کیونکہ خداوند عالم نے حضرت علی(علیہ السلام ) پر اسلام اور قرآن سے بہت زیادہ انعامات فرمائے اور مجھے حضرت خاتم النبین اور سیدالمرسلین سے محبت کرنے والا بنایا ہے(۱)

____________________

(۱) (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۹ ص۱۶۸خطبہ ۱۵۴)

ساتھویں حدیث

( ۷) قال النبی( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ّ : لواجتمع النّا س علیٰ حبّ علیّ لمٰا خلق اللّه النّار

ترجمہ:حضرت رسول گرامی اسلام نے فرمایا اگر تمام لوگ علی (علیہ السلام ) کی محبت پر جمع ہو جاتے تو خداوند عالم جہنم کو خلق نہ فرماتا ۔(۱)

____________________

(۱) ( احقا الحق سیوطی در ذیل اللئالی ص۶۲ )

آٹھویں حدیث

( ۸) حدّ ثنامحمد بن علیّ مٰا جیلویه ، قال حدّ ثنی عمی عن المعلیٰ بن خنیس قال سمعت ابٰا عبد اللّه (علیه السلام ) یقول: لیس النّاصب من نصب لنا اهل البیت لاَنّک لاٰ تجد احداً یقول انا ابغض محمداً وآل محمدٍ ولٰکن النّاصب من نصب لکم وهو یعلم اَنّکم تتوالونا وتتبرّوءُ ن من اعدائنا و قال (علیه السلام)من اَشبع عدوّاً لنا فقد قتل ولیّاً لنٰا

ترجمہ:

معلی بن خنیس کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر الصادق ( علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اس کو ناصبی نہیں کہتے کیونکہ کوئی شخص اپنے آپ کو محمد ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) وآل بیت محمد کا دشمن نہیں کہتا لیکن ناصبی وہ ہے کہ جو تم شیعوں سے دشمنی رکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ تم (شیعہ )ہم اھل بیت سے محبت کرتے ہوئے اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہو،پھر حضرت نے فرمایا جو بھی کسی ہمارے دشمن کو کھانا کھلائے گا گو یا ہمارے کسی شیعہ کو اس نے قتل کیا ۔(۱)

____________________

(۱) ( صفات شیخ صدوق ص۹ ج۱۷) ترجمہ:

نویں حدیث

( ۹) عدّة من اصحٰابنا ، عن سهل بن زیٰاد ، عن محمّد بن الحسن بن شمّون عن عبد اللّه بن عبد الرّحمٰن ، عن عبد اللّه بن قاسم عن عمرو بن ابی المقدام ، عن ابی عبد اللّه ( علیه السلام) مثله وزٰاد فیه ألاٰ وانّ لکلّ شیءٍ جوهراً و جوهرُ ولدآدم محمد(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ونحن و شیعتنا بعدنٰا ، حبّذا شیعتنٰا مٰا أقربهم من عرش اللّه عزّوجلّ وأحسن صنع اللّه الیهم یوم القیامة واللّه لولاٰ ان یتعٰاظم النّاس ذٰلک او یدخلهم زهو لسلّمت علیهم الملآئکة قبلاً واللّه مٰا من عبدٍ من شیعتنا یتلو القرآن فی صلاٰ ته الاّ وله بکلّ حرفٍ ماءة حسنة ولا قرأ فی صلاته جٰالساً قائماً الاّ وله بکلّ حرفٍ خمسون حسنة ولاٰ فی غیر صلٰاة الاّ وله بکلّ حرفٍ عشر حسنٰات وانّ للصّامت من شیعتنا لأجر من قرأ القرآن ممّن خٰالفه ، أنتم واللّه علیٰ فرشکم نیٰام ،لکم اجر المجٰاهدین

وانتم واللّه فی صلاٰ تکم لکم اجر الصّافین فی سبیله ، انتم واللّه الّذین قال اللّه عزّوجلّ،

،، ونزعنٰا مٰافی صدورهم من غلٍّ اخواناً علی سُرُرٍمتقٰابلین ،، انّمٰا شیعتنا أصحاب الاربعة الاَعین عینان فی الرّاس و عینان فی القلب اَلاٰ والخلٰائق کلّهم کذٰلک الاّ اأنَّ اللّه عزّوجلّ فتح ابصارکم واعمیٰ أبصٰارهم

ترجمہ:

عمر بن ابی المقداد امام صادق ( علیہ السلام ) سے روایت کرتا ہے کہ امام جعفر صادق( علیہ السلام) نے فرمایا جان کو ہر چیز کیلئے جوھر ہوتا ہے اور حضرت آدم کی اولاد کاگوہر حضرت محمد ہیں اور ان کے بعدہم اھل بیت اور ہمارے شیعہ ہیں اور خوش خبری ہو شیعوں کیلئے کہ کتنا خدا کے عرش کے نزدیک ہیں اور قیامت کے دن خدا ان سے بہت اچھا سلوک کریگا اور اگر ہمارے شیعہ کو تکبّر و فخر اورخود پسندی لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو خدا کی قسم اللہ کے پاک ملائکہ اس دنیا میں ان کے سامنے آکر سلام کرتے خدا کی قسم جب بھی ہمارے شیعوں میں سے کوئی بھی نماز کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو خدا ہر حرف کے بدلے اسے ایک سو نیکی عطا فر ماتا ہے اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو ہر حرف کے بدلے پچاس نیکیا عطا کرتا ہے اور جو بھی نماز کے علاوہ باقی حالات میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو خدا ہر حرف کے بدلے اسے دس نیکیاں عطا کرتا ہے اور اگر کوئی خاموش رہتا ہے تو بھی خدا اسے ہمارے مخالف کے قرآن پڑھنے کے برابر نیکیاں و اجر عطا کرتا ہے ، اور خدا کی قسم ہمارے شیعہ اپنے بستر پر سو رہے ہوتے ہیں خدا انکو مجاھدین فی سبیل اللہ کے برابر اجر عطا کرتا ہے۔

اور نماز کی صفوں میں تمہیں راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کہ صفوں کے برابر ثواب عطا کرتا ہے تم لوگ خدا کی قسم وہ لوگ ہو کہ خدا تمہارے بارے میں فرماتا ہے

(ہم نے ان کے دلوں سے کینہ و نفرت کو نکا ل لیا ہے اور بھائیوں کی طرح تخت پر ایک دوسرے کے برابر بیٹھے ہیں )(۱)

خداکی قسم ہمارے شیعوں کی چار آنکھیں ہیں دو ظاہر ی آنکھیں ہیں اور دو دل کی آنکھیں ہیں اور جان لو ہمارے شیعہ سب کے سب ایسے ہیں اور خدا نے تمہاری آنکھوں کو دیکھنے والا او ر حق کو قبول کرنے والا بنایا ہے لیکن تمہارے دشمنوں کی آنکھوں کو اندھا کر دیا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہیں ۔(۲)

____________________

(۱)حجر آیت ۴۷

(۲) الروضہ من الکافی ج۲ ص ج ۲۶

دسویں حدیث

( ۱۰) عن ابی جعفر محمّد بن علیّ البٰاقر (علیہ السلام)عن ابیہ عن جدّہ (علیھم السلام) قال خرج رسول اللّہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ذات یوم وھو راکب و خرج علیّ ( علیہ السلام) وھو یمشی فقٰال لہ یٰا ابا الحسن امّاان ترکب واما ان تنصرف، فانّ اللہ عزّوجلّ امرنی اَن ترکب اذٰا رکبت و تمشی اذٰا مشیت و تجلس اذٰا جلست الاّ اَن یکون حد من حدود اللّہ لابدّ لک من القیام والقعود فیہ ومٰا اکرمنی اللّہ بکٰرامۃ الاّ وقد اکرمک بمثلھا و خصّنی بالنّبوّۃ والرّسالۃ و جعلک ولیّ فی ذٰلک تقوم فی حدودہ و فی صعب اأمورہ والّذی بعث محمّداً بالحقّ نبیّاً مٰا آمن بی من انکرک ولاٰ أقرّبی من جحدک ولاٰ آمن باللّہ من کفر بک

وانّ فضلک لمن فضلی وان فضلی لک للفضل اللّہ وھو قول ربّی عزّوجلّ قل بفضل اللّہ وبرحمتہ فبذٰلک فلیفرحوا ھو خیر ممّٰایجمعون ففضل اللّہ نبوّۃنبیّکم ورحمتہ ولایۃ علی بن ابیطالب (علیہ السلام ) فبذٰلک قال بالنّبوّۃِ والولاٰیۃ فلیفرحوا یعنی الشیعۃ ھو خیر ممّٰا یجمعون یعنی مُخٰالفیھم من الا ھل والمٰال ولوالد فی دٰار دنیا واللّہ یا علیّ مٰا خُلقت الاّٰ لیعبد ( لتعبد) ربّک ولیعرف بک معٰالم الدّین ویصلح بک دارس السّبیل ولقد ضلّ من ضلّ عنک ولن یھدی الی اللّہ عزّوجلّ من لم یھتد الیک والیٰ ولاٰیتک وھو قول ربّی عزّوجلّ وانّی لغفّار لمن تاب وآمن وعمل صٰالحاً ثمّ اھتدیٰ یعنی الی ولاٰ یتک ولقد أمرنی ربّی تبٰارک وتعٰالیٰ أن افترض من حقّک مٰا افترضہ من حقّی وانّ حقّک لمفروض علیٰ من آمن و لولاٰک لم یعرف حزب اللّہ وبک یعرف عدوّ اللّہ ومن لم یلقہ بولاٰیتک لم یلقہ بشیءٍ ولقد أنزل اللّہ عزّوجلّ الیّ یا ایّھا الرّسول بلّغ مٰا انزل الیک من ربّک یعنی فی ولاٰیتک یا علیّ و ان لم تفعل فمٰابلّغت رسٰالتہ ولو لم ابلغ مٰا امرت بہ من ولاٰیتک لحبط عملی

ومن لقی اللّہ عزّ وجلّ بغیر ولاٰیتک فقد حبط عملہ وعد ینجز لی ومٰا أقول الاّ قول ربّی تبٰارک و تعالیٰ وانّ الّذی اقول لمن اللہ عزّوجلّ انزلہ فیک ۔

ترجمہ:

ایک دن حضرت رسولخدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)گھوڑے پر سوار ہو کر گھر سے باہر نکلے اور حضرت علی ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے تو حضرت رسول خدا نے فرمایا اے ابا الحسن یا گھوڑے پر سوار ہو جاؤ یا واپس چلے جاؤ کیونکہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم گھوڑے پر سوار ہوجب میں سوار ہوں اور آپ پیدل چلیں اگر میں پیدل چلوں اور تم بیٹھوجب میں بیٹھا ہوں مگر یہ کہ خدا نے حدود بیان کی ہیں تو ضروری ہے کہ تمہارے لئے بھی قیام و قعود ہوخدانے مجھے کوئی کرامت نہیں دی مگر یہ کہ ویسی کرامت خدا نے تجھے بھی عطا کی ہے خدا نے مجھے نبی و رسول بنایا ہے اور تجھے میرا ولی بنایا ہے تو خدا کی حدود کو قائم کرے گا اور مشکلات کے وقت قیام کرے گا اور خدا کی قسم جس نے مجھ محمد کو حق کا نبی بنایا ہے کوئی شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جبکہ تیرا منکر ہے اور کوئی شخص میرا اقرار نہیں کرتا جبکہ تجھ سے انکار کرتا ہے اور کوئی شخص خدا پر ایمان نہیں رکھتا جبکہ تجھ سے کفر کر تا ہے۔

تیرا فضل میرے فضل سے ہے اور میرا فضل تیرے ساتھ خدا کے فضل سے ہے اور خداوند کا قول ہے

(کہ خدا کے فضل و رحمت سے ہے اور اسی لئے ان کوخوش ہونا چاہئے اور یہ بہتر ہے اس سے کہ جسکو جمع کرتے ہیں ) تمہارے نبی کی نبوت خدا کا فضل ہے اور خدا کی رحمت و ولایت حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)ہے اسی لئے رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایامیری نبوت اور علی کی ولایت کی وجہ سے شیعوں کو ہمیشہ خوش رہنا چاہئے اور یہی انکے لئے بہتر ہے اس سے جسکو وہ جمع کرتے ہیں یعنی شیعوں کے مخالف جسکو جمع کرتے ہیں اولاد و مال کو یعنی اپنی آل و اولاد کو اس دنیا میں اکھٹا کرتے ہیں خدا کی قسم اے علی تجھے سوائے اسکے خلق نہیں کیا گیا مگر خدا کی عبادت و پرستش کی جائے اور تمہارے وسیلے سے معالم دین پہنچائے جائیں تاکہ گمراہ راستے سے ھدایت کے راستے کی پہچان ہو سکے تحقیق گمراہ ہوا وہ جس نے تجھے گم کر دیا اور خدا کی طرف ھدا یت نہیں پا سکتا جو تیرے راستے کا انتخاب نہیں کرتا اور تیری ولایت کے دامن سے تمسک نہیں کرتا اور یہی ہے خداوند کا فرما ن کہ میں بخشنے والا ہوں اسکو جو توبہ کرتا ہے اور ایمان لے آتاہے عمل صالح کرتا ہے اور پھر ھدایت پاتا ہے یعنی اے علی تیری ولایت سے ھدایت پاتا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ وہ حق جو خدا نے میرے لئے مقرر کیا ہے وہی تیرے لئے مقرر کروں اور تیرا حق واجب ہے اس پر جو مجھ پر ایمان لاتا ہے اور اگر تو نہ ہوتا تو حذب خداپہچانا نہ جاتا اور تیرے وجود ذی جود سے دشمن خدا کی پہچا ن نہ ہوتی ہے اور جو تیری ولایت و محبت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے گا اس کے پاس کچھ نہیں اور خدا نے میری طرف نازل کیا یا ایّھا الرسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک یعنی اے علی تیری ولایت وان لم تفعل فما بلّغت رسالتہ اور اگرمیں نہ پہنچاؤں اسکو جو نازل کیا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے تیری ولایت کے بارے میں تو میرے تمام اعمال ضبط وبرباد ہو جائیں گے

اور جو بھی تیری ولایت و محبت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے گا اس کے سب اعمال ضایع و برباد ہو جائیں گے اور یہ وعدہ ہے جو میرے لئے معین کیا گیا ہے میں کچھ نہیں کہتا مگر وہی جو خدا کا فرمان ہے اور جو بھی تیرے بارے میں کہتا ہوں وہ خدا کا فرمان ہے اور میری طرف نازل کیا گیا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) (امالی شیخ صدوق مجلس۷۴ص۴۹۴ح۱۶)

گیارہویں حدیث

( ۱۱) قال امیر المومنین (علیہ السلام):نحن شجر ۃ النّبوّۃ ومحطُّ الرّسالۃومختلف الملائکۃ ومعادن العلم وینابیع الحکم ناصرنا و محبّناٰ ینتظر الرّحمۃ و عدُوُّناٰ و مبغضنا ینتظر السّطوۃ ۔

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ ہم شجرہ نبوت اور مقام رسالت اور ملائکہ کے نازل اور آنے جانے کا مرکز اور علم کے خزانے ہیں اور حکمت کے چشمے ہیں ہماری مدد کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا خدا کی رحمت کا منتظر رہے اور ہمارا دشمن اور ہمسے بغض رکھنے والا خدا کے قہر و عذاب کا منتظر رہے ۔(۱)

____________________

(۱) (سید رضی نہج البلا غہ قسمت اوّل ص ۱۶۳ خطبہ ۱۰۹)

بارویں حدیث

( ۱۲) حدّثنا محمّد بن موسیٰ المتوکّل عن الحسن بن علی الخزٰار قال: سمعت(علیہ السلام) یقول:انّ ممّن یتّخذُ مودّتناٰ اھل البیت لمن ھو اشدّ لعنتہ علیٰ شیعتناٰ من الدّجٰال فقلتُ لہ یابن رسول اللّہ بمٰاذا ؟ قال بمُوٰالاٰ ۃ اعدائنٰا ومعٰادٰاۃ اولیٰائنٰا انّہ کان کذٰ لک اختلط الحق بالبٰا طل واشتبہ الامر فلم یعرف مؤ من من منافقٍ۔

ترجمہ :

حسن بن خراز کہتا ہے کہ میں نے امام رضا ( علیہ السلام ) کو فرماتے ہوئے سناکہ جو ہم اھلبیت کی محبت کو شعار بناتا ہے اور اس کی خراب کاری ہمارے شیعوں کیلئے دجا ل سے زیادہ نقصان دہ ہے ، روای کہتاہے کہ میں نے عرض کی اے فرزند رسول خدا اس طرح کیوں ہے ؟ تو امام ( علیہ السلام ) نے فرمایا ہمارے دشمنوں سے محبت اور ہمارے محبوں سے دشمنی کرنے سے اور جو بھی اس طرح کرتا ہے حق و باطل آپس میں مخلوط ہو جاتے ہیں اور پھر معاملہ مشکل ہو جاتا ہے اور مؤ من کی منافق سے پہچان مشکل ہو جاتی ہے(۱)

____________________

(۱) (صفات شیعہ شیخ صدوق ص ۸ ح ۱۴)

تیرویں حدیث

( ۱۳) قال الرّسول ( صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)یا علیّ انت قسیم االجنّۃ والنّار ، تدخُل محبّیک الجنّۃ ومبغضک النّار

ترجمہ :

حضرت رسول گرامی اسلام نے فرمایا اے علی( علیہ السلام) تو جنت و جہنم کا تقسیم کرنے والا ہے اپنے محبوں کو جنت میں اور اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریگا ۔(۱)

____________________

(۱) ( احقاق الحق القندوزی الحنفی ینابیع المودّۃ ص۸۵)

چودہویں حدیث

( ۱۴) عن ابن عبّاس قال : قال رسول اللّہ( صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) من سرّہ ان یحیٰ حیٰاتی و یمُوت ممٰاتی و یسکن جنّۃ عدنٍ غرسھٰا ربّی فلیُوال علیّاً من بعدی و لیُوال ولیّہ و لیقتد بالائمّۃ من بعدی فانّھم عترتی خلقوا من طینتی و رزقوا فھماً و علماً ویل للمکذّبین بفضلھم من امّتی القاطعین فیھم صلتی لاٰ انٰا لھم اللّہ شفاعتی۔

ترجمہ:

عبد اللہ بن عبا س کہتا ہے کہ رسو ل خدا ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا جو چاہتا ہے کہ میری طرح زندہ رہے اور میری طرح سے اسے موت آئے اور جنت الفردوس میں اسکو جگہ ملے کہ جس میں باغات خدا نے لگائے ہیں تو اسے چاہئے کہ میرے بعد علی( علیہ السلام) سے محبت کرے اور علی( علیہ السلام) کے محبوں سے محبت کرے اور میرے بعد آنے والے آئمہ کی اقتداء کرے اور وہ میری عترت ہیں میری طینت سے خلق کئے گئے ہیں ان کا رزق علم و دانش ہے اور جہنم ہے ان کیلئے جو اھل بیت کی فضیلت کو جھٹلاتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور ان سے محبت قطع کرتا ہے خدا میری شفاعت انکو نہیں پہنچنے دیگا ۔(۱)

____________________

(۱) ( شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ج۹ ص ۱۷۰ خطبہ ۱۵۴)

پندرہویں حدیث

( ۱۵) قال علی(علیه السلام) لو ضربت خشیوم المؤمن بسیفی هٰذا علیٰ ان یبغضنی مٰا اابغضنی ولو صببت الدّنیا بجمّا تهٰا علی المنافق علیٰ ان یحبّنی مٰا احبّنی وذٰلک انّه قضی فانقضیٰ علیٰ لسان النبیّ الاُ مّی ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) انّه قال :

یا علیّ یبغضک مؤمن ولا یحبّک منافق

ترجمہ:

حضرت ( علیہ السلام) علی فرماتے ہیں کہ اگر میں مؤمن کی ناک پر تلواریں ماروں تاکہ وہ مجھ سے دشمنی کرے تو مجھ سے دشمنی نہیں کرے گا اور اگر منافق کو دنیا وما فیھا دے دوں تا کہ مجھ سے محبت کرے وہ میرا محب نہیں بنے گا کیونکہ خدا کا فیصلہ ہے اور نبی کی زبان سے جاری ہوا ہے کہ پیامبر نے فرمای

اے علی(علیہ السلام) تجھ سے مومن کبھی بغض نہیں رکھے گا اور منافق کبھی محبت نہیں کرے گ(۱)

____________________

(۱) (عقائد الانسان ج۳ ص۲۹۹ح۶)

سولہویں حدیث

(۱۶ ) حدّثنٰا الحسین بن ابراهیم قال حدّثنٰا علیُ بن ابراهیم عن جعفر بن سلمه الاصبهٰا نی عن ابراهیم بن محمّدٍ قال حدّثنٰا القتاد قال حدّثنٰا علیُّ بن هاٰ شم بن البرید عن ابیه قال سُئل زید بن علی(علیه السلام) عن قول رسول اللّه ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) من کنت مولاٰه فعلیّ مولاٰه قال نصبه علماً لیعلم به حزب اللّه عند الفرقة

ترجمہ:

امام زین العابدین (علیہ السلام) سے پوچھا گیا رسول خدا کے اس فرمان کے بارے ،،من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ،، تو امام نے فرمایا حضرت رسول نے اس کو ھدایت کا علم قرار دیا تاکہ اختلا ف کے وقت حزب خدا کو پہچانا جائے ۔(۱)

____________________

(۱) (امالی شیخ صدوق مجلس نمبر ۲۶ ص۱۲۳ ج۳)

ستارہویں حدیث

(۱۷ ) محمّد بن یحیٰ عن احمد بن محمّد ، عن ابن محبوبٍ ، عن ابن رئاٰبٍ، عن بکیر بن اعین قال :کان ابو جعفر(علیه السلام) یقول:انّ اللّه اخذ میثاق شیعتنٰا بالولاٰ یة لنا وهم ذرّ، یوم اخذ المیثاق علیٰ الذّ ر، بالاقرار له بالرّبوبیّة ولمحمدٍ ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) بالنبوّة وعرض اللّه جلّ وعزّعلیٰ محمد ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) امّته فی الطّین وهم أظلّه وخلقهم من الطّینة الّتی خُلق منها آدم وخلق اللّه أرواح شیعتنٰا قبل ابدٰانهم بأ لفی عٰامٍ وعرضهم علیه وعرّفهم رسو ل اللّه ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) وعرّفهم علیّاً ونحن نعرفهم فی لحن القول

ترجمہ :

امام محمد باقر (علیہ السلام ) نے فرمایا کہ خدانے عالم ذر میں ہمارے شیعوں سے میثاق و عہد لیا ہماری ولایت کے بارے میں جب عالم ذر میں اپنی ربوبیت اور رسول کی رسالت کے بارے عہد وپیمان لے رہاتھا خدا نے رسول کی امت کو حضرت رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے پیش کیا جبکہ وہ مٹی و طین میں سایہ کی طرح تھے اور خدا نے انکو طینت سے خلق کیا جس طینت سے خدا نے حضرت آدم کو خلق فرمایا تھا اور خدا نے ہمارے شیعوں کی ارواح کو ان کے بدنوں کے خلق کرنے سے دہ ہزار سال قبل خلق فرمایا اور رسول کے سامنے ان کو پیش کیا اور خدا نے رسول کو ان کی پہچان کرائی اور علی(علیہ السلام) نے بھی اپنے شیعوں کو پہچانا اور ہم ان کو ان کی گفتار سے پہچانتے ہیں کہ ہماری محبت کی باتیں کرتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی ج۲ کتاب الحجہ ص۳۲۱ح۹)

آٹھارہویں حدیث

(۱۸ ) قال الرّسول( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) اللّه: من صافح محباً لعلی غفر الله له الذنوب، واَدخله الجنّة بغیر حساب

ترجمہ:

پیامبر اسلام نے فرمایا کہ جو علی(علیہ السلام ) کے محبوں سے مصافحہ کرتا ہے خدا اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل کریگا ۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق ،اخطب خوارزمی درمناقب خوارزمی ص ۲۲۱)

انیسویں حدیث

(۱۹ ) عن ابن عبّاس قال: قال رسول اللّه( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)یا علیّ انا مدینة الحکمة و انت بابُهٰا ولن تؤتی المدینة الاّمن قِبل البٰاب وکذب من زعم انّه یحبّنی وهویبغضک لأنّک منّی وانا منک لحمک من لحمی ودُمک من دمی وروحک من روحی وسریرتک من سریرتی وعلاٰنیتک من علاٰنیتی وانت امام امّتی وخلیفتی علیهٰا بعدی سُعد من اطاعک وشقی من عصٰاک وربح من تولاّک وخسر من عاداک وفاز من لزمک وهلک من فٰارقک، مثلک ومثل الائمّةمن ولدک بعدی مثل سفینةنوحٍ من رکب فیهٰا نجٰا ومن تخلّف عنهٰا غرق ومثلکم مثل النّجوم کلّمٰا غٰاب نجم طلع نجم الیٰ یوم القیامة

ترجمہ :

عبد اللہ بن عبا س کہتا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ اے علی(علیہ السلام) میں حکمت کا شہر ہوں اور آپ اسکا دروازہ ہیں جو بھی شہر میں آنا چاہے دروازے سے آئے اورجھوٹا ہے وہ شخص جو کہے میں رسول سے محبت کرتا ہوں جبکہ تجھ سے دشمنی رکھتا ہو، کیونکہ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں ، تیرا گوشت میرا گوشت ہے تیرا خون میرا خون ہے ، تیری روح میری روح ہے ، تیرا باطن (یعنی اسرار دل) میرا باطن ہے ، تیرا ظاہر میرا ظاہر ہے ۔تو میری امت کا امام ہے میرے بعد میری امت میں میرا خلیفہ ہے اور جس نے تیری اطاعت کی وہ خوشبخت ہے اور جس نے تجھے ٹھکرا دیا و شقی وبدبخت ہے ، فائدہ اٹھا یا اس نے جس نے تجھ سے محبت کی اور نقصان اٹھایا اس نے جس نے تجھ سے دشمنی کی اور کامیاب ہو ا جس نے تجھے پکڑ لیا یعنی دامن کو پکڑا اور جو تم سے جد اہوا وہ ھلاک ہوا تیری مثال اور تیرے بعد آئمہ کی مثال سفینہ نوح کی مثال ہے ، جو سوار ہوا نجات پا گیا اور جس نے تخلف کیا وہ غرق ہوا اور تمہاری مثال ستاروں کی طرح ہے جب ایک ستارہ غروب کرتا ہے تو دوسرا طلوع کرتا ہے اور قیامت کے دن تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔(۱)

____________________

(۱) (عقا ئدالانسان ج۳ ص ۱۲۳ ح۲۳)

بیسویں حدیث

(۲۰ ) عدّة من أصحٰابنٰا، عن أحمد بن محمدبن خٰالدٍ، عن محمّد بن الحسن بن شمّون ،عن عبد اللّه بن عمروبن الاشعث، عن عبد اللّه بن حمّادالانصٰاری، عن عمروبن أبی المقدٰام ، عن أبیه عن أبی جعفر (علیه السلام) قال: قال امیرالمؤمنین(علیه السلام):شیعتناالمتبٰاذلون فی ولایتنٰا، المتحابّون فی مودّ تنٰا ، المتزٰاورون فی اِحیٰاء امرنٰا الّذین ان غضبوا لم یظلموا وان رضوا لم یسرفوا برکة علیٰ من جٰاوروا، سلم لمن خٰالطوا

ترجمہ:

حضرت علی (علیہ السلام ) نے فرمایاہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہماری ولایت و محبت کی وجہ سے ایک دوسرے سے درگزر کرتے ہیں ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں ہماری محبت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ہمارے امر کو زندہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کی زیارت کو جاتے ہیں ، اگر کسی پر ناراض ہوتے ہیں تو ظلم نہیں کرتے اور اگر راضی ہوں تو اسراف نہیں کرتے اور اپنے پڑوسیوں کیلئے برکت کا باعث ہوتے ہیں اور معاشرے میں سلامتی اور سلوک سے رہتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی ج۳ کتاب الایمان والکفر ص۳۳۳ ح۲۴)

اکیسویں حدیث

(۲۱ ) قال النبیُّ (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): من سرّه ان یجوز علی الصراط کالرّیح العاصف و یلج الجنّة بغیر حساب فلیتولّ ولّی ووصیّ وصٰاحبی وخلیفتی علیٰ أهلی علیّ

ترجمہ:

حضرت رسول گرامی اسلام فرماتے ہیں جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ تیز ہوا کی طرح پل صراط سے گزر جائے گا اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہو گا اسے چاہئے کہ میرے ولی و وصی و خلیفہ اورمیرے بھائی علی بن ابی طالب ( علیہ السلام) سے محبت کرے ۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق الحسکانی شواھد التنزیل ج۱ص۵۸)

بائیسویں حدیث

(۲۲ ) عن علیّ بن ابیطالب ( علیه السلام) قال: قال رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)لولاٰک مٰا عُرف المؤمنون من بعدی

ترجمہ:

حضرت علی ( علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) نے مجھ سے فرمایااے علی اگر تو نہ ہوتا تو میرے بعد مومن پہچانے نہ جاتے ۔(۱)

____________________

(۱) ( عقدئد الانسان ص۱۶۷ج۲،ابن المغازلی مناقب میں ص۷۰ح۱۰۱)

تیئسویں حدیث

(۲۳ ) عن ابی ذرّ قال : قال النبیّ(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) : علیّ بابُ علمی و مبیّن لاُمّتی ما ارسلت به من بعدی حبّه ایمٰان و بغضه نفاق والنظر الیه رأفة ومودّته عبادة

ترجمہ:

ابو ذر حضرت پیامبر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا یا علی میرے علم کا دروازہ ہے اور میرے بعد میری امت کیلئے اسکو بیان کریگا جو خدا کی طرف سے میں لایا ہوں ۔

علی (علیہ السلام)سے محبت ایمان اور علی(علیہ السلام) سے دشمنی نفاق ومنافقت ہے علی( علیہ السلام) کی طرف دیکھنا مہر ومحبت ہے اور علی ( علیہ السلام) سے دوستی عبادت ہے(۱)

____________________

(۱) (بوستان معرفت ص۳۳۷کشفی ترمذی درمناقب مرتضوی باب دوّم ص۹۳)

چوبیسویں حدیث

(۲۴ ) قال النبیّ(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) :لا یقبلُ اللّه ایمان عبدٍ الاّ بولاٰیة علیّ والبرء اة من اعدائه

ترجمہ:

حضرت رسول اسلام نے فرمایا خدا کسی بندے کے ایمان کو قبول نہیں کریگا مگر حضرت علی (علیہ السلام) کی محبت اور انکے دشمنوں سے بیزاری ونفرت کا اظہار کرنے سے۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق خطب خوارزمی در مناقب خوارزمی ص۲)

پچیسویں حدیث

(۲۵ ) حدّثنا محمد بن الحسن بن الولید عن محمد بن الحسن الصّفار عن محمد بن عیسیٰ بن عبیدٍ عن ابن فضٰال قال سمعتُ الرّضٰا ( علیه السلام) یقول :من وٰاصل لنا قاطعاً او قطع لنا وٰاصلاً او مدح لنا عایباً او اکرم لنا مخٰالفاًفلیس منّٰا ولسنٰا منه

ترجمہ:

ابن فضال کہتا ہے کہ میں نے حضرت رضا ( علیہ السلام ) سے سنا فرما رہے تھے ہمارے نزدیک ہو وہ جو ہم سے دور ہوچکا ہے یا قطع تعلقی کرتا ہے اس سے جو ہم سے محبت کرتا ہے یا مدح و ستائش کرتا ہے اسکی جو ہماری عیب جوئی کرتا ہے یا اکرام و بخشش کرتاہے اسکو جو ہمارا مخالف ہے وہ ہم سے نہیں اور نہ ہم اس سے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) (صفات شیعہ ص۷ ح۱۰)

چھبیسویں حدیث

(۲۶ ) الحسین بن محمد عن معلّی بن محمد عن محمد بن جمهور قال: حدّثنٰا یُونس عن حمّاد بن عثّمٰان عن الفضیل بن یسٰار عن أبی جعفر ( علیه السلام) قال انّ اللّه عزّوجلّ نصب علیا( علیه السلام ) علماً بینه و بین خلقه فمن عرفه کاٰن مؤمناً ومن انکره کاٰن کافراً و من جهله کاٰن ضٰالاً ومن نصب معه شیئاً کا ن مشرکاً و من جٰآء بولاٰ یته دخل الجنّة

ترجمہ:

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان عَلَم اور علامت قرار دیا ہے جو بھی اس کی معرفت حاصل کریگا وہ مومن ہے اور جو انکار کرے گا وہ کافر ہے اور جو معرفت حاصل نہیں کرے گا وہ گمراہ ہے اور جو کسی دوسرے کو اس کیساتھ ملائے گا وہ مشرک ہے اور جو بھی قیامت کے دن حضر ت ( علیہ السلام) کی ولایت و محبت سے محشرکے میدان میں وارد ہوگا جنت میں داخل ہوجائے گا ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی کتاب حجہ ج۲ص۳۲۰ ح۷)

ستائیسویں حدیث

(۲۷ ) عن سید الاوصیٰاء علی ابن ابی طالب( علیه السلام)قال:قال رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) :ستُدفن بضعةمنّی بارض خرٰاسٰان مٰا زٰارهٰا مکروب الاّ نفّس اللّه کربته و لاٰ مذنب الاّ غفر اللّه ذنوبه

ترجمہ:

سید الاوصیاء حضرت علی بن ابی طالب ( علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا کہ خراسان کی سر زمین پر میرے بدن کا ٹکڑا دفن کیا جائے گا جو بھی پریشان حال اسکی زیار ت کریگا خدا اس کی پریشانی کو دور فرمائے گا ، اور جو بھی گنہگار اسکی زیارت کرے گا خدا اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا ۔(۱)

____________________

(۱) ( عقائد الانسان ص۲۲۱ج۲)

آٹھائیسویں حدیث

(۲۸ ) قال النبی(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ّ : لو انّ عبداً عبدُاللّه الف عٰامٍ بعد الفَ عٰام بین الرّکن والمقام ثمّ لقی اللّه مبغضاً لعلیّ( علیه السلام) لاکبه اللّه یوم القیامة علیٰ مَنخَریه فی نٰار جهنّم

ترجمہ :

پیامبر گرامی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اسلام نے فرمایا اگر کوئی شخص ہزار سال کے بعد ہزار سال کعبہ اور مقام ابراھیم کے درمیان خدا کی عبادت کرے اور اسی حالت میں مر جائے اور اس کے دل میں علی(علیہ السلام) سے بغض ہوتو خداقیامت کے دن منہ کے بل اسے جہنم میں داخل کریگا۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق اخطب خوارزمی در مناقب خوارزمی ص۵۲)


17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38