نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 145026
ڈاؤنلوڈ: 2578

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145026 / ڈاؤنلوڈ: 2578
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

ابوبصیرسے مروی ہے کہ میں نے امام باقریاامام صادق +میں کسی ایک امام (علیه السلام)سے معلوم کہا: کیاخداوندعالم بیت المقدس کی سمت رخ کرکے نمازپڑھنے کاحکم دیاتھا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:ہاں،کیاتم نے یہ آیہ مبارکہ نہیں پڑھی ہے

( وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَاَلّتِی کُنْتَ عَلَیْهَااِلّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتِبِعِ الرّسُول مِمّنْ یّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلّاعَلَی الَّذِیْنَ هُدَی اللهُ وَمَاکَانَ اللهُ لِیُضِیعَ اِیْمَانَکُمْ ) (۱)(۲)

اور ہم نے پہلے قبلہ (بیت المقدس) کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول! کا اتباع کرتا ہے اور پچھلے پاؤں جاتاہے گرچہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی الله نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضایع نہیں کرناچاہتا تھا ، وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کعبہ کوبہت زیادہ دوست رکھتے تھے اورمدینہ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب بیت المقدس کی سمت نمازپڑھتے تھے توکعبہ کواپنے اوربیت المقدس کے درمیان کرتے تھے

حمادحلبی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:کیانبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بیت المقدس کی سمت نمازپڑھتے تھے ؟فرمایا:ہاں، میں نے کہا:کیا اس وقت خانہ کٔعبہ آنحضرت کی کمرکے پیچھے رہتاتھا؟فرمایا:جسوقت آپ مکہ میں رہتے تھے توکعبہ کوکمرکے پیچھے قرارنہیں دیاکرتے تھے لیکن مدینہ ہجرت کرنے کے بعدکعبہ کی طرف قبلہ تحویل ہونے تک کعبہ کواپنی پشت میں قراردیتے تھے ۔(۳)

____________________

. ١)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴٣

. ٢)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ٢١۶

۳). کافی /ج ٣/ص ٢٨۶

۱۲۱

رازتحویل قبلہ

تحویل قبلہ کے بارے میں چار اہم سوال پیداہوتے ہیں: قبلہ بیت المقدس سے کعبہ طرف کب اورکیوں تحویل ہواہے اورخداوندعالم نے روزاول ہی سے کعبہ کی سمت نمازپڑھنے کاحکم کیوں نہیں دیا؟اوربیت المقدس کی سمت پڑھی گئی کی تکرارواجب ہے یانہیں ؟ پہلے سوال کے جواب میں تفسیرمنہج الصادقین میں لکھاہے کہ: جس دن الله کی طرف سے تغییرقبلہ کاحکم نازل ہوااس دن نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجدنبی سلمہ میں تشریف رکھتے تھے اور مسلمان مردوعورتوں کے ہمراہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ظہر پڑھنے میں مشغول تھے اور دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ جبرئیل امین نے آنحضرت کے دونوں بازو پکڑ کر آپ کا چہرہ کعبہ کی سمت کردیااورجومردوعورت آپ کے پیچھے نمازپڑھ رہے تھے ان سب کے چہروں کوبھی کعبہ کی سمت کردیا اورمردعورتوں کی جگہ اورعورتیں ) مردوں کی جگہ پرکھڑے ہوگئے ۔(۱)

اس مسجدکو“ذوالقبلتین”دوقبلہ والی مسجدکہاجاتاہے کیونکہ یہی وہ مسجدہے کہ جس میں الله کے آخری نبی حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) نمازظہر اداکررہے تھے کہ جبرئیل نے آنحضرت کے چہرہ کارخ دونوں شانے پکڑکربیت المقدس سے کعبہ کی طرف کردیا ،پیغمبرکی یہ آخری نمازتھی جوبیت المقدس کی طرف پڑھی گئی اوریہ پہلی نمازتھی جوکعبہ کی سمت پڑھی گئی تھی ،آنحضرت نے اس نمازکودوقبلہ کی طرف انجام دیاپہلی دورکعت بیت المقدس کی طرف اوردوسری دورکعت نمازکعبہ کی سمت اداکی لہٰذایہ وہ مسجدہے کہ جس میں ایک ہی نمازکودوقبلہ کی طرف رخ کرکے پڑھاگیاہے اسی لئے اس مسجدکو “ذوالقبلتین” کہاجاتاہے ۔

قبلہ کے تحویل کرنے کی چندوجہیں بیان کی گئی ہیں :

پہلی وجہ

کتب تفاسیر میں لکھاہے: کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے درجہ نبوت پرفائز ہونے کے بعد ١٣ /سال تک مکہ مکرمہ میں قیام مدت کے درمیان بیت المقدس کی سمت نماز پڑھتے رہے اور مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی سترہ مہینہ تک اسی طرف نماز یں پڑھتے رہے جوروزاول سے یہودیوں کاقبلہ تھااوریہودی اسے اپنے قبلہ مانتے تھے لہٰذا وہ لوگ رسول خدا (صلی الله علیه و آله)وان کی پیروی کرنے والوں کو طعنہ دیا کرتے تھے اورکہتے تھے کہ : تم مسلمان تو ہمارے قبلہ کی رخ کرکے نماز ھتے ہیں اور ہماری پیروی کرتے ہیں، اور کہتے تھے کہ: جب تم ہمارے قبلہ کو قبول رکھتے ہو اور اسی کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھتے ہوتو پھرہمارے مذہب کو کیوں قبول نہیں کرلیتے ہو؟۔

____________________

. ۱)تفسیرمنہج الصادقین /ج ١/ص ٣۴١

۱۲۲

ہجرت کرنے کے بعدبھی پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)گرچہ بیت المقدس کی سمت شوق سے نماز یں پڑھتے تھے اور دل وجان سے حکم خداپرعمل کرتے تھے مگر دشمنوں کی طعنہ زنی سے رنج بھی اٹھا تے تھے اور غمگین رہتے تھے پس جب دین اسلام قدرے مستحکم ہوگیاتوایک دن آپ نے جبرئیل سے کہا :میری یہ خواہشہے کہ الله تبارک تعالیٰ ہم مسلمانوں کو قبلہ یٔہودکی طرف کھڑے ہوکرنماز پرھنے سے منع کرے اورہمارے لئے ایک مستقل قبلہ کی معرفی کرے ،جبرئیل نے عرض کیا : میں بھی آپ کی طرح ایک بندئہ خدا ہوں مگر آپ خداوندعالم کے نزدیک اولوالعزم پیغمبر ہیں لہٰذا آپ خوددعا کریں اور اپنی آرزوکو پروردگار سے بیان کریں

لیکن رسول اکرام (صلی الله علیه و آله) اپنی طرف سے کوئی تقاضا نہیں کرنا چاہتے تھے، فقط جس کام کا خدا آپ کو حکم دیتا تھا وہی انجام دیتے تھے اور جس بارے میں فرمان خدا ابلاغ نہیں ہو تا تھا اس کے انتظار میں رہتے تھے ، تبدیل قبلہ کے بارے میں بھی وحی الہٰی کے منتظر تھے، لہٰذاایک دن نمازظہرکے درمیان جبرئیل امین وحی لے کرنازل ہوئے:

( وَقَدْ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فیِ السَّمَآءِ فَلَنُوَ لِّیَنَکَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الحَرَامِ وَحَیْثُ مَاکُنْمُ فَوَلُّوْاوَجُوهَکُمْ شَطْرَهُ ) (۱)

ترجمہ:اے رسول! ہم آپ کا آسمان کی طرف متوجہ ہونے کودیکھ رہے ہیں ،ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جسے آپ پسندکرتے ہیں لہٰذا اپنا رخ مسجد الحرام کی جہت کی طرف موڑدیجئے اور جہان بھی رہئے اسی طرف رخ کیجئے ۔

دوسری وجہ

تبدیل قبلہ کے بارے میں جواسراربیان کئے جاتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ خداوندعالم تبدیل کی وجہ سے پہچان کراناچاہتاتھا کہ کون لوگ حقیقت میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی پیروی کرتے ہیں اور کون حکم خدا ورسول کی خلاف ورزی کرتے ہیں جیساکہ خدا وند معتال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَاَلّتِی کُنْتَ عَلَیْهَااِلّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتِبِعِ الرّسُول مِمّنْ یّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلّاعَلَی الَّذِیْنَ هُدَی اللهُ وَمَاکَانَ اللهُ لِیُضِیعَ اِیْمَانَکُمْ )

اور ہم نے پہلے قبلہ (بیت المقدس) کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول! کا اتباع کرتا ہے اور پچھلے پاؤں جاتاہے گرچہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی الله نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضایع نہیں کرناچاہتا تھا ، وہ ) بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے ۔(۲)

____________________

. ١)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴۴

. ۲)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴٣

۱۲۳

امام جعفرصادق فرماتے ہیں:هذابیت استعبد الله تعالی به خلقه لیختبربه طاعتهم فی اتیانه فحثهم علی تعظیمه وزیارته وجعله محل انبیائه وقبلة للمصلین له.

یہ گھراتنابلند ہے کہ الله تبارک وتعالی نے اپنے بندوں سے مطالبہ کیاہے وہ اس کے واسطے سے میری عبادت کریں تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کاامتحان لے سکوں اوریہ پتہ چل جائے کہ کون اس کی عبادت کرتے ہیں اورکون عبادت کوترک کرتے ہیں اسی لئے میں نے کعبہ کی تعظیم وزیارت کاحکم دیاہے اوراسے انبیاء کرام کامحل اورنمازگزاروں کاقبلہ قراردیاہے ۔(۱)

اس آیہ مٔبارکہ اورحدیث شریفہ سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)کے زمانے میں دوطرح کے مسلمان تھے ، کچھ ایسے لوگ تھے جو آسانی سے فرمان خداکو نہیں مانتے تھے اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے قول وفعل پراعتراض اورچون وچراکرتے تھے ،وہ لوگ نبی کی ہربات کونہیں مانتے تھے اور خانہ کعبہ کو قبلہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے ۔

کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یقین سے الله ورسول اور قرآن پرایمان رکھتے تھے اوراس چیزپراعتقادرکھتے تھے کہ رسول اسلام اپنی مرضی سے نہ کچھ کہتے ہیں اور نہ کرتے ہیں بلکہ وہی کرتے اور کہتے ہیں جسکا م کا خدا آپ کو حکم دیتا ہے اور وہ لوگ دل و جان سے حکم الہٰی کو اجرا کرتے تھے جیسے ہی ان لوگوں تک تبدیل قبلہ کی خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے رخ کعبہ کی طرف کرلئے لیکن جومنافق تھے انھوں نے اعتراض شروع کردئے ۔

تیسری وجہ

علامہ ذیشان حیدرجوادی ترجمہ وتفسیر قرآن کریم میں لکھتے ہیں:تحویل قبلہ کاایک رازیہ بھی ہے کہ اس طرح یہودیوں کاوہ استدلال ختم گیاکہ مسلمان ہمارے قبلہ کی اتباع کررہے ہیں،اوریہ دلیل ہے کہ ہمارامذہب برحق ہے اوراس کے علاوہ کوئی مذہب خدائی نہیں ہے ،قرآن کریم واضح کردیاکہ بیشک بیت المقدس ایک قبلہ ہے لیکن جس خدانے اسے قبلہ بنایاہے اسے تبدیل کرنے کاحق بھی رکھتاہے ،اگریہودیوں کاایمان خداپرہے توجس طرح پہلے حکم خداکوتسلیم کیاتھااسی طرح دوسرے حکم کوبھی تسلیم کرلیں۔

روزاول ہی کعبہ کوقبلہ کیوں قرارنہیں دیا؟

اگرکوئی یہ سوال کرے :کیاوجہ ہے کہ خدا وند عالم نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی اتباع کرنے والوں کو پہلے بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اس کے بعد خانہ کعبہ کی طرف نماز اداکرنے کا حکم جاری کیا اور بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے سے منع کردیا؟

____________________

.۱) من لایحضرہ الفقیہ /ج ٢/ص ٢۵٠

۱۲۴

جس وقت پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نے اپنی رسالت کا اعلان کیا تو مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی اور مسلمان کے پاس کوئی طاقت وغیرہ نہیں تھی لیکن یہودومسیح کی تعداد بہت زیادہ تھی اور طاقت بھی انہی لوگوں کے پاس تھی اگرخداوندعالم اسی وقت کعبہ کی طرف نمازپڑھنے کاحکم جاری کردیتااور مسلمان ان کے قبلہ کی مخالفت کردیتے اور بیت المقدس کی طرف نماز نہ پڑھتے توان کے اندر غصّہ کی آگ بھڑک جاتی اور اسی وقت مسلمانوں کی قلیل جماعت کو ختم کرکے اسلام کونابودکردیتے اسی لئے خدا نے مسلمانوں کو پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا تاکہ قوم یہود ومسیح (جو بیت المقدس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ) مسلمانوں کو بغض وکینہ کی نگاہوں سے نہ دیکھیں اورانھیں اپنا دشمن شمار نہ کریں اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ بھی نہ بنائیں لیکن جب روز بر وزقرآن واسلام کی پیروی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاگیا اور مسلمان طاقتور ہوتے گئے اور رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رہبری میں ایک مستقل حکومت کے قابل ہو گئے تواس وقت خداوندعالم نے قبلہ بدلنے کا حکم جاری کیا اور کہا کہ آج کے بعدتمام مسلمان مستقل ہیں اور ان کا قبلہ بھی مستقل ہو گا، قبلہ تبدیل ہونے کے بعد اگر دشمن مخالفت بھی کرتے تھے تو مسلمانوں پر کوئی اثرنہیں ہو تا تھا ۔

قبلہ اول کی سمت پڑھی گئی نمازوں کاحکم کیاہے ؟

جب حکم خداسے قبلہ تبدیل ہوگیا تومسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہواکہ ہم نے اب تک جت نی بھی نمازیں بیت المقدس کی سمت رخ کر کے پڑھی ہیں ان کا کیا حکم ہے ،ہماری وہ نماز یں صحیح ہیں یا باطل ہیں اوران کادوبارہ پڑھناواجب ہے ؟ لہٰذاکچھ لوگوں نے اس مسئلہ کو پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی خدمت میں مطرح کیا اور آنحضرت سے پوچھا :یانبی الله!ہم نے وہ تمام نمازیں جوبیت المقدس کی طرف رخ کرکے انجام دی ہیں کیاوہ سب قبول ہیں یاان کااعادہ کرناضروری ہے ؟جبرئیل امین وحی لے کرنازل ہوئے اورفرمایا: )( وَمَا کاَنَ الله لُِیُضْیعَ اِیْمَا نَکُمْ اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَحْیمٌ ) (۱) جان لیجئے کہ وہ نمازیں جوتم نے قبلہ اوّل (بیت المقدس) کی طرف انجام دیں ہیں وہ سب صحیح ہیں خدا تمھارے ایمان (نماز) کو ضایع نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے۔حضرت امام جعفرصادق فرماتے ہیں : اس آیہ مٔبارکہ مٔیں نماز کو ایمان کا لقب دیا گیا ہے۔(۲)

____________________

١)سورہ بقرہ /آیت ١٣٨

. ٢)نورالثقلین/ج ١/ص ١٣٧ )

۱۲۵

اذان واقامت

وہ چیزکہ جس کے ذریعہ لوگوں کونمازکاوقت پہنچنے کی اطلاع دی جاتی ہے اور الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنے ونمازپڑھنے کی طرف دعوت دی جاتی ہے اسے اذان کہاجاتاہے ۔ لغت قاموس میں“اذّن ،اُذان،اَذِّن ”کے معنی اعلان،دعوت اوربلانابیان کئے گئے ہیں اور “مصباح المنیر”میں اس طرح لکھاہے:“آذَنتُهُ اِیذَاناًوَتَا ذّٔنْتُ (اَعلَمتُوَا ذّٔن الموذّنُ بالصلاةا عٔلم بِها ” میں نے اعلان کیااورمو ذٔن نے اذان دی یعنی لوگوں کونمازکی طرف دعوت دی اورقرآن کریم میں بھی لفظ “اذّن واذان ”اعلان کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے

( وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ ) .اورلوگوں کے درمیان حج کااعلان کرو۔(۱) ( وَاَذَانٌ مِنَ اللهِوَرَسُوْلِهِ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرْ ) (۲)

اوراللھ ورسول کی طرف سے حج اکبرکے دن انسانوں کے لئے اعلان عام ہے

اذان واقامت کی اہمیت

مستحب ہے کہ بلکہ سنت مو کٔدہ ہے کہ نمازگزاراپنے اپنی روزانہ کی پانچوں واجب نمازوں کواذان واقامت کے ساتھ پڑھے خواہ انسان ان نمازوں کوان کے وقت میں اداکررہاہو یاان کی قضابجالارہاہو البتہ اگرنمازجماعت ہورہی ہے توجماعت کی اذان واقامت پراکتفاء کرناصحیح ہے،خواہ اس نے نمازجماعت کی اذان واقامت کوسناہویانہ سناہو،اذان واقامت کے وقت مسجدمیں حاضرہویانہ ہو۔نمازجمعہ سے پہلے بھی اذان واقامت کہناسنت مو کٔدہ ہے اور عیدالفطر و عیدالاضحی کی نمازکے لئے تین مرتبہ “الصلاة ” کہاجائے ۔ خداوندعالم قرآن کریم میں اذان کامسخرہ کرنے والوں کوغیرمعقول انسان قراردیتے ہوئے ارشادفرماتا ہے:

( وَاِذَا نَا دَیْتُم اِلیٰ الصَّلوٰةِ اتَّخذوهٰا هُزُواً وَلَعِباً ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قُومٌ لَاَ یَْقْلُوِْنَ ) اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کا مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ با لکل بے عقل قوم ہیں۔(۳)

____________________

۱)سورہ حٔج آیت ٢٧

. ٢)سورہ تٔوبہ آیت ٣

. ۳)سورہ مٔائد ہ آیت ۵٨

۱۲۶

امام صادق فرماتے ہیں:مریض کوبھی چاہئے کہ جب نمازپڑھنے کاارادہ کرے تو اذان واقامت کہہ کرنمازپڑھے خواہ آہستہ اوراپنے لئے ہی کہے ،(اگراپنے بھی اذان واقامت کے کلمات کوزبان سے اداکرنے کی قدرت نہ رکھتاہوتودل سے اذان اقامت کہے)کسی نے پوچھااگرانسان بہت زیادہ مریض ہوتو کیاپھربھی اسے اذان واقامت کہناچاہئے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:ہرحال میں اذان اقامت کہناچاہئے کیونکہ اذان واقامت کے بغیرنمازہی نہیں ہے ۔(۱)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : من ولدله مولودفلیو ذٔن فی اذنه الیمنی باذان الصلاة والیقم فی اذنه الیسری فانّهاعصمه من الشیطان الرجیم ۔(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:کسی بھی گھرمیں جب کوئی بچہ دنیامیں آئے تو اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے کیونکہ اس کے ذریعہ وہ بچہ شیطان رجیم کے شرسے محفوظ رہتاہے ۔

علی ابن مہزیارنے محمدابن راشدروایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام ابن ابراہیم اپنے بارے میں بتایاہے کہ میں امام علی رضا کی خدمت میں مشرف ہوئے اوراپنے مریض و بے اولادہونے کے بارے میں شکایت کی توامام(علیه السلام) نے مجھے حکم دیاکہ اے ہشام!تم اپنے گھرمیں بلندآوازسے اذان کہاکرو

ہشام کا بیان ہے کہ :میں نے امام (علیه السلام)کے فرمان کے مطابق عمل کیااورخداوندعالم نے اس عمل کی برکت سے مجھے اس بیماری سے شفابخشی اور کثیراولادعطا کی.

محمدابن راشدنے کہتے ہیں کہ :میں اورمیرے اہل خانہ اکثربیماررہتے تھے ،جیسے ہی میں نے ہشام سے امام (علیه السلام) کی یہ بات سنی تومیں نے بھی اس پرعمل کیاتوخداوندعالم نے مجھ اورمیرے عیال سے مریضی دورکردیا۔(۳)

امام علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں :جوشخص اذان واقامت کے ساتھ نمازپڑھتاہے ملائکہ کی دو صف اس کے پیچھے نمازپڑھتی ہیں کہ جن کے دونوں کنارے نظرنہیں آتے ہیں اورجوشخص فقط اقامت کے ساتھ نمازپڑھتاہے توایک فرشتہ اسکے پیچھے نمازپڑھتاہے ۔(۴)

____________________

.۱)استبصار/ج ١/ص ٣٠٠

. ٢)کافی /ج ۶/ص ٢۴

.۳) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ۵٩

.۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٨٧

۱۲۷

مفضل ابن عمرسے مروی ہے حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص واجب نمازوں کو اذان واقامت کے ساتھ انجام دیتا ہے ، ملا ئکہ کی دوصفیں اس کی افتداء کرتی ہیں اورجوشخص فقط اقامت کہہ کرنمازپڑھتاہے تو ملائکہ کی ایک صف اس کے پیچھے نماز پڑھتی ہے، میں نے پوچھا:اس کی مقدارکت نی ہے ؟ امام (علیه السلام) نے جواب دیا:اس مقدارحداقل مشرق ومغرب کے درمیان کی زمین ہے اورحداکثرزمین وآسمان کے درمیان ہے ۔(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی مسجدکی دیوارآدمی کے برابرتھی ،رسولخدابلال سے کہتے تھے :اے بلال!دیوارکے اوپرجاؤاورکھڑے ہوکر بلندآوازسے اذان کہوکیونکہ خداوندعالم نے ایک ہواکومعین کرکھاہے جواذان کی آوازکوآسمان تک پہنچاتی ہے اورجب ملائکہ اہل زمین سے اذان کی آوازسنتے ہیں توکہتے ہیں :یہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی امت کی آوازہے جوالله کی وحدانیت کانعرہ لگارہی ہے اوروہ فرشتے اللھسے امت محمدی کے لئے اس وقت تک استغفارکرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی نمازسے فارغ ہوتے ہیں۔(۲)

مو ذٔن کے فضائل

روایت میں ایاہے کہ شام سے شخص ایک امام حضرت امام صادق کی خدمت میں مشرف ہوا،آپ نے اس مرد شامی سے فرمایا : انّ اوّل من سبق الیٰ الجنة بلالٌ،قال:ولِمَ؟قال:لانّہ اوّل من اذّنَ۔ حضرت بلا ل وہ شخص ہیں جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہونگے اس نے پوچھا ! کسلئے ؟ آپ نے فرمایا : کیونکہ بلال وہ شخصہیں جنھوں نے سب سے پہلے اذان کہی ہے۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: مو ذٔن اذان واقامت کے درمیان اس شہیدکاحکم رکھتاہے جوراہ خدامیں اپنے خون میں غلطاں ہوتاہے پس حضرت علی سے آنحضرتسے عرض کیا:آپ نے اذان کہنے کی ات نی بڑی فضلیت بیان کردی ہے کہ مجھے خوف ہے کہ آ پ کی امت کے لوگ اس کام کے لئے ایک دوسرے پر شمشیر چلائیں گے (اور مو ذٔن بننے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہائیں گے)، آنحضرت نے فرمایا :وہ اس کام کوضعیفوں کے کاندھوں پررکھ دیں گے (اذان کہنا اتنا زیادہ ثواب و فضیلت رکھنے کے با وجود ضعیف لو گو ں کے علاوہ دوسرے حضرات اذان کہنے کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے)اورمو ذٔن کاگوشت وہ ہے کہ جسپر جہنم کی آگ حرام ہے جواسے ہرگزنہیں جلاسکتی ہے۔(۴)

____________________

۱). ثواب الاعمال/ص ٣٣

. ۲)کافی/ج ٣/ص ٣٠٧

۳)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢٨۴

. ۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/باب الاذان والاقامة/ص ٢٨٣

۱۲۸

جابرابن عبدالله سے مروی ہے کہ:رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے مو ذٔن کے لئے تین باردعاکی : بارالٰہا!مو ذٔن لوگوں کوبخش دے،جابرکہتے ہیں میں نے کہا:یارسول الله!اگرمو ذٔن کایہ مقام ہے توایسالگتاہے کہ اذان کہنے کے لئے لوگوں کے درمیان تلواریں چلاکریں گی ؟آنحضرت نے فرمایا:

اے جابر!ایک وقت ایسابھی آئے گا کہ اذان کاکام بوڑھوں کے کاندھوں پرڈال دیاجائے گا (اورجوان لوگ اذان کہنااپنے لئے عیب شمارکریں گے)اورسنو!کچھ گوشت ایسے ہیں جن پرآتش جہنم حرام ہے اوروہ مو ذٔن لوگوں کاگوشت ہے۔(۱)

قال علی علیه السلام:یحشرالمو ذٔنون یوم القیامة طوال الاعناق ۔ حضرت علی فرماتے ہیں:مو ذٔن لو گ روزقیامت سرافرازاورسربلندمحشورہونگے۔(۲)

ایک یہودی نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے مو ذٔن کی فضیلت کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:میری امت کے مو ذٔن روزقیامت کے دن انبیاء وصادقین اورشہداء کے ساتھ محشورہونگے۔(۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : خدا وندمتعال کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیرکسی حساب کے داخل بہشت کیا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص ٨٠ / ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا اور وہ تین شخص یہ ہیں:

١۔ مو ذّٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ جوشخص اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے۔(۴)

قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:من اذان فی مصرمن امصارالمسلمین وجبت لہ الجنة. رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص (اپنے )مسلمان بھائیوں کے کسی شہرمیں اذان کہے تواس پرجنت واجب ہے۔(۵)

____________________

. ۱)مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ٢٢

۲)بحارالانوار/ج ٨٣ /ص ١۴٩

.۳) الخصال/ص ٣۵۵

۴) مستدرک الوسائل/ج ١/ص ۴٨٨

۵). ثواب الاعمال/ص ٣١

۱۲۹

اذان واقامت کے راز

فضل بن شاذان نے اذان کی حکمت کے متعلق امام علی رضا سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے کہ جس میں امام (علیه السلام) فرماتے ہیں: خداوندتبارک وتعالیٰ کی جانب سے لوگوں کواذان کاحکم دئے جانے کے بارے میں بہت زیادہ علت وحکمت پائی جاتی ہیں،جن میں چندحکمت اس طرح سے ہیں :

١۔اذان، بھول جانے والوں کے لئے یاددہانی اورغافلوں کے لئے بیداری ہے ،وہ لوگ جونمازکا وقت پہنچنے سے بے خبررہتے ہیں اوروہ نہیں جانتے ہیں کہ نمازکاوقت پہنچ گیاہے یاکسی کام میں مشغول رہتے ہیں تووہ اذان کی آوازسن کروقت نمازسے آگاہ ہوجاتے ہیں،مو ذٔن اپنی اذان کے ذریعہ لوگوں کوپروردگاریکتاکی عبادت کی دعوت دیتاہے اوران میں عبادت خداکی ترغیب وتشویق پیداکرتاہے، توحیدباری تعالی کے اقرارکرنے سے اپنے مومن ومسلمان ہونے کااظہارکرتاہے ،غافل لوگوں کووقت نمازپہنچنے کی خبردیتاہے ۔

٢۔مو ذٔن کومو ذٔن اس لئے کہاجاتاہے کہ وہ اپنی اذان کے ذریعہ نمازکااعلان کرناہے

٣۔تکبیرکے ذریعہ اذان کاآغازکیاجاتاہے اس کے بعدتسبیح وتہلیل وتحمیدہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے پہلے تکبیرکوواجب کیاہے کیونکہ اس میں پہلے لفظ “الله” آیاہے اورخداوندعالم دوست رکھتاہے کہ اس کے نام ابتدا کی جائے اوراس کایہ مقصدتسبیح (سبحان الله)اورتحمید(الحمدلله)اورتہلیل (لاالہ الاالله)میں پورانہیں ہوتاہے ان کلمات کے شروع لفظ “الله”نہیں ہے بلکہ آخرمیں میں ہے ۔

۴ ۔اذان کے ہرکلمہ کودودومرتبہ کہاجاتاہے ،اس کی وجہ یہ ہے تاکہ سننے والوں کے کانوں میں اس کی تکرارہوجائے اورعمل میں تاکیدہوجائے تاکہ اگرپہلی مرتبہ سننے میںغفلت کرجائیں تودوسری مرتبہ میں غفلت نہ کرسکیں اوردوسری وجہ یہ ہے کیونکہ دودورکعتی لہذااذان کے کلمات بھی دودوقراردئے گئے ہیں۔

۵ ۔اذان کے شروع میں تکبیرکوچارمرتبہ قرادیاگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان بطورناگہانی شروع ہوتی ہے ،اس سے پہلے کوئی کلام نہیں ہوتاہے کہ جوسننے والوں کوآگاہ ومت نبہ کرسکے ،پس شروع میں پہلی دوتکبیرسامعین کومت نبہ وآگاہ کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں تاکہ سامعین بعدوالے کلمات کوسننے کے لئے آمادہ ہوجائیں

۱۳۰

۶ ۔تکبیرکے بعد“شہادتین”کومعین کئے جانے کی وجہ یہ ہے :کیونکہ ایمان دوچیزوں کے ذریعہ کامل ہوتاہے:

١۔ توحیداورخداوندعالم کی وحدانیت کااقرارکرنا۔

٢۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رسالت کی گواہی دیناکیونکہ خداورسول کی اطاعت اورمعرفت شناخت ایک دوسرے سے مقرون ہیں یعنی خداکی وحدانیت کی گواہی کے ساتھ اس کے رسول کی رسالت کی گواہی دیناضروری ہے کیونکہ شہادت اورگواہی اصل وحقیقت ایمان ہے اسی لئے دونوں کی شہاد ت دوشہادت قراردیاگیاہے یعنی خداکی واحدانیت کااقرابھی دومرتبہ ہوناچاہئے اوراس کے رسول کی رسالت کااقراربھی دومرتبہ ہوناچاہئے جس طرح بقیہ حقوق میں دوشاہدکے ضروری ہونے کو نظرمیں رکھاجاتاہے ،پس جیسے ہی بندہ خداوندعالم کی وحدانیت اوراس کے نبی کی رسالت کااعتراف کرتاہے توپورے ایمان کااقرارکرلیتاہے کیونکہ خدااوراس کے رسول کااقرارکرنااصل وحقیقت ایمان ہے ۔

٧۔پہلے خداورسول کا اقرارکیاجاتاہے اس کے بعدلوگوں نمازکی طرف دعوت دی جاتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے:حقیقت میں اذان کونمازکے لئے جعل وتشریع کیاگیاہے کیونکہ اذان کے معنی یہ ہیں کہ مخلوق کونمازکی طرف دعوت دینا،اسی لئے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کواذان کے درمیان میں قرار دیاگیاہے یعنی چارکلمے اس سے پہلے ہیں اورچارکلمے اس کے بعدہیں،دعوت نمازسے پہلے کے چارکلمے یہ ہیں: دوتکبیراوردوشہادت واقرار،اوردعو ت نمازکے بعدکے چارکلمے یہ ہیں:لوگوں کوفلاح وکامیابی کی طرف دعوت دینااوراس کے بعد بہترین عمل کی طرف دعوت دیناتاکہ لوگوں میں نمازپڑھنے کی رغبت پیداہو،اس کے بعدمو ذٔن ندائے تکبیربلندکرتاہے اوراس کے بعدندائے تہلیل(لاالہ الاالله)کرتاہے،پس جس طرح دعوت نماز( حیّ علی الصلاة)سے پہلے چارکلمے کہے جاتے ہیں اسی طرح اس کے بعدبھی چارکلمے ہیں اورجس طرح مو ذٔن ذکروحمدباری تعالیٰ سے اذان کاآغازکرتاہے اسی طرح حمدوذکرباری پرختم کرتاہے ۔

٨۔اگرکوئی یہ کہے کہ :اذان کے آخرمیں تہلیل(لاالہ الاالله) کوکیوں قرادیاگیاہے اورجس طرح اذان کے شروع میں تکبیرکورکھاگیاتھاتوآخرمیں کیوں نہیں رکھاگیاہے ؟ اذان کے آخرمیں تہلیل (لاالہ الالله) کوقراردیاگیاتکبیرکونہیں اورشروع میں تکبیرکورکھاگیاہے تہلیل کونہیں،اس کی وجہ ہے کہ: خداوندعالم یہ چاہتاہے کہ آغازاورانجام اس کے نام وذکر سے ہوناچاہئے، تکبیرکے شروع میں لفظ “الله”ہے اورتہلیل کے آخرمیں بھی لفظ “الله ”ہے پس اذان کاپہلالفظ بھی “الله”ہے اورآخری لفظ بھی اسی لئے اذان کے شروع میں تکبیرکواورآخرمیں تہلیل کوقراردیاگیاہے ۔(۱)

____________________

.۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٢۵٨

۱۳۱

حضرت امام حسین فرماتے ہیں کہ: ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مسجدکی مینارسے مو ذٔن کی آوازبلندہوئی اوراس نے “ الله اَکبَر،اَللهُ اَ کبَر” کہا تو امیرالمو منین علی ابن ابی طالب اذان کی آواز سنتے ہی گریہ کرنے لگے ، انھیں روتے ہوئے دیکھ کر ہماری بھی آنکھوں میں آنسوں اگئے ،جیسے ہی مو ذٔن نے اذان تمام کی توامام (علیه السلام) ہمارے جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا :کیا تم جانتے ہو کہ مو ذٔن اذان میں کیاکہتا ہے اوراس کاہرکلمہ سے کیارازاورمقصدہوتاہے؟ ہم نے عرض کیا : الله اور اس کے رسول اوروصی پیغمبر ہم سے بہتر جانتے ہیں،پسآپ(علیه السلام) نے فرمایا :

لوتعلمون مایقول:لضحکتم قلیلاوَلِبَکَیْتم کثراً ۔ اگر تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ مو ذٔن اذان میں کیا کہتا ہے توپھر زندگی بھر کم ہنسیں گے اور زیادہ روئیں گے ، اس کے بعد مولا ئے کا ئنات اذان کی تفسیراوراس کے رازواسراربیا ن کرنے میں مشغول ہوگئے اورفرمایا:

”اَللّٰہُ اَکْبَر“

اس کے معنی بہت زیادہ ہوتے ہیں جن میں چندمعنی یہ بھی ہیں کہ جب مو ذٔن “الله اکبر” کہتاہے تووہ خداوندمتعا ل کے قدیم ، موجودازلی وابدی ، عالم ،قوی ، قادر،حلیم وکریم، صاحب جودوعطا اورکبریا ہونے کی خبردیتاہے لہٰذاجب مو ذٔن پہلی مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں:

خداوہ ہے کہ جوامروخلق کامالک ہے ،تمام امروخلق اس کے اختیارمیں ہیں ہرچیزاس کی مرضی وارادہ سے وجودمیں اتی ہے اوراسی کی طرف بازگشت کرتی ہے، خداوہ ہے کہ جوہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا،جوہرچیزے سے پہلے بھی تھااورہرچیزکے فناہوجانے کے بعدبھی رہے گا،اس کے علاوہ دنیاکی تمام چیزوں کے لئے فناہے وہ ہرچیزسے پہلے بھی تھااورہرچیزکے بعد بھی رہے گا، وہ ایساظاہرہے کہ جوہرشے پٔرفوقیت رکھتاہے اورکوئی اسے درک نہیں کرسکتاہے ،وہ باطن ہرشے ہے کہ جونہیں رکھتاہے پس وہ باقی ہے اوراس کے علاوہ ہرشئ کے لئے فناہے ۔

جب موذن دوسری مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواسکے یہ معنی ہوتے ہیں: العلیم الخبیر ، علم بماکان ویکون قبل ان یکون یعنی خداوندعالم ہرچیزکاعلم وآگاہی رکھتاہے ،وہ ہراس چیزکاجوپہلے ہوچکی ہے اورجوکام پہلے ہوچکاہےپہلے سے علم رکھتاتھااورجوکچھ آئندہ ہونے والاہے یاوجودمیں انے والاہے اس کابھی پہلے ہی علم رکھتاہے ۔

۱۳۲

جب تیسری مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواسکے یہ معنی ہیں: القادرعلی کل شئیقدرعلی مایشاء ،القوی لقدرتہ،المقتدرعلی خلقہ، القوی لذاتہ، قدرتہ قائمة علی اشیاء کلّہا،( اِذَاقَضٰی ا مْٔرًافَاِنَّمَایَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ ) ۔ خداوہ ہے کہ جوہرشے پٔراختیاروقدرت رکھتاہے ،وہ اپنی قدرتے بل بوتے پرسب سے قوی ہے ، وہ اپنے مخلوق پرصاحب قدرت ہے ،وہ بذات خودقوی ہے اوریہ قدرت اسے کسی عطانہیں ہے ،اس قدرت تمام پرمحکم وقائم ہے ،وہ جب چاہے کسی امرکاحکم دے سکتاہے اورجیسے ہی وہ کسی امرکافیصلہ کرتاہے اوراس کے ہونے ارادہ کرتاہے تووہ صرف “کُن ”یعنی ہوجاکہتاہے اوروہ چیزہوجاتی ہے۔

جب چوتھی مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے توگویاوہ یہ کہتاہے: خداوندعالم حلیم وبردبارہے اوربڑا کرامت والاہے ،وہ ایسااس طرح مددوہمراہی کرتاہے کہ انسان کواس کی جبربھی نہیں ہوتی ہے اورنہ وہ دکھائی دیتاہے ،وہ عیوب اس طرح چھپاتاہے کہ انسان اپنے آپ کوبے گناہ محسوس کرتاہے ،وہ اپنے حلم وکرم اورصفاحت کی بناپرجلدی سے عذاب بھی نازل نہیں کرتاہے۔ ” الله اکبر”کے ایک معنی بھی ہیں کہ خداوندعالم مہربان ہے ،عطاوبخشش کرنے والاہے اورنہایت کریم ہے ۔

” الله اکبر”کے ایک معنی بھی ہیں کہ خداوندعالم جلیل ہے اور جن صفات کامالک ہے صفت بیان کرنے والے بھی اس موصوف کامل صفت بیان نہیں کرسکتے ہیں اوراس کی عظمت وجلالت کی قدرکوبھی بیان نہیں کرسکتے ہیں،خداوندعالم علووکبیرہے ،صفت بیان کرنے صفات کے بیان کرنے بھی اسے درک نہیں کرسکتے ہیں پس مو ذٔن “الله اکبر”کے ذریعہ یہ بیان کرتاہے :

الله اعلیٰ وجل ، وھوالغنی عن عبادہ ، لاحاجة بہ الی اعمال خلقہ خداوندعالم اعلیٰ واجلّ ہے،سب سے بلندوبرترہے ، وہ اپنے بندوں سے بے نیازہے ،وہ بندوں کی عبادت سے بے نیاز ہے ( وہ اس چیزکامحتاج نہیں ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں ،کوئی اس کی عبادت کرے وہ جب بھی خداہے اورکوئی اس کی نہ کرے وہ تب بھی خداہے ،ہماری عبادتوں سے اس کی خدائی میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی ہے اورعبادت نہ کرنے سے اس کی خدائی میں کوئی کمی نہیں آسکتی ہے )۔

۱۳۳

”اشھدان لا ا لٰہ اٰلاّالله“

جب پہلی مرتبہ اس کلمہ شہادت کوزبان پرجاری کرتاہے تواس چیزکااعلان کرتاہے کہ پر وردگا ر کے یکتا ویگا نہ ہونے کی گواہی دل سے معرفت وشناخت کے ساتھ ہونی چا ہئے دوسرے الفاظ میں یہ کہاجائے کہ مو ذٔن یہ کہتاہے کہ: میں یہ جانتاہوں کہ خدا ئے عزوجل کے علاوہ کوئی بھی ذات لائق عبادت نہیں ہے اور الله تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی بھی چیزکومعبودومسجودکے درجہ دیناحرام اورباطل ہے اورمیں اپنی اس زبان سے اقرارکرتاہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اوراس چیزکی گواہی دیتاہوں کہ الله کے علاوہ میری کوئی پناگاہ نہیں ہے اورالله کے علاوہ کوئی بھی ذات ہمیں شریرکے شرسے اورفت نہ گرکے فت نہ سے نجات دینے والانہیں ہے ۔

جب دوسری مرتبہ “اشھدان لاالٰہ الاّالله”کہتاہے تواس کی معنی اورمرادیہ ہوتے ہیں : میں گواہی دیتاہوں کہ خدا کے علاوہ کو ئی ہدا یت کر نے والا موجود نہیں ہے اوراس کے کوئی راہنمانہیں ہے ،میں الله کوشاہدقراردیتاہوں کہ اس کے علاوہ میراکوئی معبودنہیں ہے ،میں گواہی دیتاہوں کہ تمام زمین وآسمان اورجت نے بھی ان انس وملک ان میں رہتے ہیں اوران میں تمام پہاڑ، درخت ،چوپایہ ،جانور،درندے ،اورتمام خشک وترچیزیں ان سب کاالله کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے ،اورالله کے علاوہ نہ کوئی رازق ہے اورنہ کوئی معبود،نہ کوئی نفع پہنچانے والاہے اورنہ نقصان پہنچانے والا،نہ کوئی قابض ہے نہ کوئی باسط،نہ کوئی معطی ہے اورنہ کوئی مانع ،نہ کوئی دافع ہے اورنہ کوئی ناصح ،نہ کوئی کافی ہے اورنہ کوئی شافی ،نہ کوئی مقدم ہے اورنہ کوئی مو خٔر،بس پروردگارہی صاحب امروخلق ہے اورتمام چیزوں کی بھلائی الله تبارک وتعالیٰ کے اختیارمیں ہے جودونوں جہاں کارب ہے ۔

” اشھدان محمدًا رسول الله“

جب مو ذٔن پہلی مرتبہ اس کلمہ کوزبان پرجاری کرتاہے تواس چیزکااعلان کرتاہے کہ :میں الله کوشاہدقراردیتاہوں گواہی دیتاہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اورحضرت محمد (صلی الله علیه و آله) اس کے بندے اور اس کے رسول وپیامبر ہیں اورصفی ونجیب خداہیں،کہ جنھیں الله تبارک وتعالیٰ نے تمام لوگوں کی ہدایت کے دنیامیں بھیجاہے ،انھیں دین حق دیاہے تاکہ اسے تمام ادیان پرآشکارکریں خواہ مشرکین اس دین کوپسندنہ کریں ،اورمیں زمین وآسمان میں تمام انبیاء ومرسلین ا ورتمام انس وملک کوشاہدقراردیتاہوں کہ میں یہ گواہی دے رہاہوں کہ حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)سیدالاولین والآخرین ہیں۔

۱۳۴

جب مو ذٔن دوسری مرتبہ کلمہ“ اشھدان محمدًا رسول الله ” کوزبان جاری کرتاہے تووہ یہ کہتاہے کہ کسی کوکسی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سب کوالله کی ضرورت ہے، وہ خداکہ جوواحدو قہارہے اوراپنے کسی بندے بلکہ پوری مخلوق میں کسی کامحتاج نہیں ہے ،خداوہ ہے کہ جس نے لوگوں کے درمیان ان کی ہدایت اور تبلیغ وترویج دین اسلام کے لئے حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)بشیرونذیراورروشن چراغ بنا کر بھیجا ہے، اب تم میں جو شخص بھی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اوران کی نبوت ورسالت کاانکا ر کرے اور آنحضرتپرنازل کتاب (قرآن مجید) پر ایمان نہ لائے توخدا ئے عزّوجل اسے ہمیشہ کے لئے واصل جہنم کردے گا اور وہ ہرگزناراپنے آپ کونارجہنم سے نجات دلاسکے

”حیّ علیْ الصلا ة“

جب پہلی مرتبہ اس کلمہ کوزبان کہتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :اے لوگو! اٹھو اور بہتر ین عمل (نماز) کی طرف دوڈو اور اپنے پرور دگا ر کی دعوت کو قبول کرو اور اپنی نجش کی خاطراپنے رب کی بارگاہ میں جلدی پہنچو،اے لوگو! اٹھواور وہ آگ جوتم نے گناہوں کو انجام دینے کی وجہ سے اپنے پیچھے لگائی ہے اسے نماز کے ذریعہ خاموش کرو،اوراپنے آپ کوگناہوں سے جلدی آزادکراؤ، صرف خداوندعالم تمھیں برائیوں سے پاک کر سکتاہے ،وہی تمھارے گناہوں کومعاف کرسکتاہے ،وہی تمھاری برائیوں کونیکیوں سے بدل سکتاہے کیونکہ وہ بادشاہ کریم ہے ،صاحب فضل وعظیم ہے ۔

جب دوسری مرتبہ “ حیّ علیْ الصلا ة ” کہتاہے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں:اے لوگو!اپنے رب سے مناجات کے لئے اٹھواوراپنی حاجتوں کواپنے رب کی بارگاہ میں بیان کرو،اپنی باتوں کواس تک پہنچاؤاوراس سے شفاعت طلب کرو،اس کاکثرت سے ذکرکرو،دعائیں مانگواورخضوع وخشوع کے ساتھ رکوع وسجودکرو۔

۱۳۵

”حیّ علیْ الفلاح“

جب مو ذٔن پہلی مرتبہ اس کلمہ کوکہتاہے تووہ لوگوں سے یہ کہتا ہے : اے الله کے بندو !راہ بقا کی طرف آجاؤ کیونکہ اس راستے میں فنانہیں ہے اوراے لوگو!راہ نجات کی طرف آجاؤ کیونکہ اس راہ میں کوئی ہلا کت وگمرا ہی نہیں ہے ،اے لوگو!راہ زندگانی کی طرف آنے میں جلدی کروکیونکہ اس راہ میں کوئی موت نہیں ہے، اے لوگو! صاحب نعمت کے پاس آجاؤکیونکہ اس کی نعمت ختم ہونے والی نہیں ہے ،اس بادشاہ کے پاس آجاؤکہ جس کی حکومت ابدی ہے جوکبھی ختم نہیں ہوسکتی ہے ،خوشحالی کی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی رنج وغم نہیں ہے ،نورکی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی تاریکی نہیں ہے ،بے نیازکی طرف آؤکہ جس کے ساتھ فقرنہیں ہے ،صحت کی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی مریضی نہیں ہے ،قوت کے پاس آؤکہ جس کے ساتھ کوئی ضعف نہیں ہے اوردنیاوآخرت کی خوشحالی کی طرف قدم بڑھاؤاورنجات آخرت کاسامان کرو۔

جب دوسری “حیّ علیْ الفلاح ”کہتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :اے لوگو!آؤاوراپنے آپ کو خدا سے قریب کرو اورجس چیزکی تمھیں دعوت دی گئی ہے اس کی طرف چلنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو اور فلاح ورستگاری کے ساتھ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)(اورائمہ اطہار )کے قرب وجوارجگہ حاصل کرو ۔

”الله اکبر“

جب مو ذٔن اذان کے آخرمیں پہلی مرتبہ “ الله اکبر ” کہتاہے تووہ یہ جملہ کہہ کر اس بات کا اعلا ن کرتا ہے کہ ذا ت پروردگار اس سے کہیںزیادہبلند وبرتر ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی یہ جانے اس کے پاس اپنے اس بندے کے لئے کیاکیانعمت وکرامتیں ہیں جو اس کی دعوت پرلبیک کہتاہے ،اس کی پیروی کرتاہے،اس کے ہرامرکی اطاعت کرتاہے ،اس کی معرفت پیداکرتاہے ،اس کی بندگی کرتاہے ،اس کا ذکرکرتاہے ،اس سے انس ومحبت کرتاہے ،اسے اپنی پناگاہ قراردیتاہے ،اس پراطمینان کامل رکھتاہے ،اپنے دل میں اس کاخوف پیداکرتاہے اوراس کی مرضی پرراضی رہتاہے تو خدا ومتعال اس پراپنا رحم وکرم نازل کرتا ہے۔ جب مو ذٔن اذان کے آخرمیں دوسری مرتبہ “ الله اکبر ” کہتاہے تووہ اس کلمہ کے ذریعہ اس بات کااعلان کرتا ہے کہ ذا ت پروردگار اس سے کہیںزیادہ بلند وبرتر ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی یہ جانے اس کے پاس اپنے اپنے اولیاء اوردوستوں کے لئے کس مقدارمیں کرامتیں موجودہیں اور اپنے دشمنوں کے لئے اس کے پاس کت ناعذاب وعقوبت ہے ،جواس کی اس کے رسول کی دعوت پرلبیک کہتاہے اورحکم خداورسول کی اطاعت کرتاہے ان کے لئے اس کی عفووبخشش کت نی ہے اورکت نی نعمتیں ہیں اورشخص اس کے اوراس کے رسول کے حکم کوماننے سے انکارکرتاہے اس کے لئے کت نابڑاعذاب ہے ۔

۱۳۶

” لَااِلٰہ اِلّاالله“

جب مو ذٔن “لَااِلٰه اِلّاالله ” کہتاہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں:خدا وند عالم لوگو ں کے لئے رسول ورسالت اوردعوت وبیان کے ذریعہ ایک دلیل قاطع ہے کیونکہ اسنے لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول ورسالت کابہترین انتظام کیاہے ،پس جواس کی دعوت پرلبیک کہتاہے اس کے لئے نوروکرامت ہے اورجوانکارکرتاہے چونکہ خداوندعالم دوجہاں سے بے نیازہے لہٰذااس کاحساب کرنے میں بہت جلدی کرتاہے ۔

”قدقامت الصلاة“

جب بندہ نمازکے لئے اقامت کہتاہے اوراس میں “ قدقامت الصلاة ”کہتاہے تواس کے یہ معنی ہیں:

حان وقت الزیارة والمناجاة ، وقضاء الحوائج ، ودرک المنی والوصول الی الله عزوجل والی کرامة وغفرانه وعفوه ورضوانه

یعنی پروردگارسے مناجاتاوراس سے ملاقات کرنے ،حاجتوں کے پوراہونے ،آرزو ںٔ کے پہنچنے ،بخشش،کرامت ،خوشنودی حاصل کرنے کاوقت پہنچ گیاہے ۔ شیخ صدوق اس روایت کے بعدلکھتے ہیں: اس حدیث کے راوی نے تقیہّ میں رہنے کی وجہ سے جملہ “حیّ علیٰ خیرالعمل ” کا ذکر نہیں کیا ہے کہ حضرت علینے اس جملہ کیاتفسیرکی ہے لیکن اس جملہ کے بارے میں دوسری حدیثوں میں آیاہے:

روی فی خبرآخر:انّ الصادق علیه االسلام عن “حی علی خیرالعمل” فقال:خیرالعمل الولایة، وفی خبرآخرخیرالعمل بر فاطمة وولدها علیهم السلام.

روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام صادق سے“حیّ علیٰ خیرالعمل”کے بارے میں سوال کیا گیا ، حضرت نے فرمایا : “حیّ علیٰ خیرالعمل”یعنی ولایت اہل بیت ۔ اور دوسری روایت میں لکھا ہے :“حیّ علیٰ خیرالعمل”یعنی حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے فرزندں کی نیکیوںطرف آؤ۔(۱)

____________________

۱). نوحید(شیخ صدوق)/ ص ٢٣٨ .۔معانی لاخبار /ص ۴١ ۔بحارالانوار/. ٨١ /ص ١٣١

۱۳۷

عن محمدبن مروان عن ابی جعفرعلیه السلام قال:ا تٔدری ماتفسیر“حی علی خیرالعمل” قال:قلت لا، قال:دعاک الی البر، ا تٔدری برّمن؟قلت لا، قال:دعاک الی برّفاطمة وولدها علیهم السلام.

محمدابن مروان سے مروی ہے کہ امام محمدباقر نے مجھ سے فرمایا:کیاتم جانتے ہوکہ “حی علی خیرالعمل ”کے کیامعنی ہیں؟میں نے عرض کیا:نہیں اے فرزندرسول خدا،آپ نے فرمایا: مو ذٔن تمھیں خیرونیکی کی طرف دعوت دیتاہے ،کیاتم جانتے ہووہ خیرنیکی کیاہے؟میں نے عرض کیا: نہیں اے فرزندرسول خدا ، توامام (علیه السلام) نے فرمایا:وہ تمھیں حضرت فاطمہ زہرا اوران کی اولاداطہار کے ساتھ خیرونیکی کاحکم دیتاہے۔(۱)

بلال کومو ذٔن قراردینے کی وجہ

اذان واقامت میں شرط یہ ہے کہ مو ذٔن وقت شناس ہواورنمازکاوقت شروع ہونے کے بعداذان واقامت کہے ،وقت داخل ہونے سے پہلے کہی جانے والی اذان واقامت کافی نہیں ہے، اگروقت سے پہلے کہہ بھی دی جائے تووقت پہنچنے کے بعددوبارہ کہاجائے ،بلال وقت شناس تھے ،اورکبھی وقت سے پہلے اذان نہیں کہتے تھے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بلال کی اذان وآوازکودوست رکھے اسی لئے بلال کوحکم دیاکرتے تھے اورکہتے تھے: اے بلال!جیسے نمازکاوقت شروع ہوجائے تو مسجدکی دیوارپرجاؤاوربلندآوازسے اذان کہو۔

ایک اورروایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس دومو ذٔن تھے ایک بلال اوردوسرے ابن ام مکتوم ،ابن ام مکتوم نابیناتھے جوصبح ہونے سے پہلے ہی اذان کہہ دیاکرتے تھے اورحضرت بلال طلوع فجرکے وقت اذان کہاکرتے تھے ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:

ان ابن مکتوم یو ذٔن بلیل، اذاسمعتم اذانه فکلواواشربواحتی تسمعوااذان بلال

. ابن مکتوم رات میں اذان کہتے ہیں لہٰذاجب تم ان کی اذان سنو تو کھانا پینا کیا کرو یہاں تک کہ تمھیں بلال کی اذان کی آوازآئے (لیکن اہل سنت نے پیغمبر کی اس حدیث کوپلٹ دیاہے اورکہتے ہیں کہ بلال رات میں اذان دیاکرتے تھے،اورکہتے ہیں:نبی نے فرمایاہے کہ: جب بلال کی اذان سنوتوکھاناپیناکرو)(۲)

____________________

۱). علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۶٨

۲)من لایجضرہ الفقیہ/ج ١/ص/ ٢٩٧

۱۳۸

مو ذٔن کے مرد،مسلمان اورعاقل ہونے کی وجہ

اذان واقامت کہنے والے کامردہوناچاہئے اورکسی عورت کااذان واقامت کہناصحیح نہیں ہے کیونکہ مردوں کاعورت کی اذان واقامت پراکتفاکرناصحیح نہیں ہے لیکن عورت کاعورتوں کی جماعت کے لئے اذان واقامت ذان جماعت کہناصحیح اورکافی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اذان واقامت کہنے والی عورت آوازات نی بلندرہے کہ اس کی آوازمردوں کے کانوں تک نہ پہنچے کیونکہ عورتوں کواپنی آوازکوبھی پرودہ میں رکھناچاہئے اسی لئے عورت عورت کوچاہئے کہ جہری نمازوں اگرنامحرم آوازکوسن رہاہوتوآہستہ پڑھے جیساکہ ہم رازجہرواخفات میں ذکرکریں گے۔

زاراہ سے مروی ہے کہ میں نے امام باقر سے پوچھا:کیاعورتوں کوبھی اذان کہناچاہئے ) ؟امام(علیه السلام) (علیه السلام)نے فرمایا:ان کے لئے شہادتین کہناہی کافی ہے ۔(۱)

قال الصادق علیه السلام:لیسعلی النساء ا ذٔان ولااقامة ولاجمعة ولاجماعة. امام صادق فرماتے ہیں:عورتوں کے لئے نہ اذان ہے نہ اقامت ،اورنہ جمعہ ہے نہ جماعت۔(۲)

مو ذٔن کے لئے ضروری ہے کہ عاقل وباایمان ہواگرکوئی مجنون یاغیرمومن اذان یااقامت کہے تووہ قبول نہیں ہے کیونکہ قلم تکلیف اٹھالیاگیاہے البتہ مو ذٔن کابالغ ہوناشرط نہیں ہے بلکہ نابالغ بچہ کی اذان واقامت صحیح ہے جبکہ وہ بچہ ممیزہو۔

اذان کے کلمات کی تکرارکرنے کومستحب قراردئے جانے کی وجہ

جولوگ اذان کی آوازکوسن رہے ہیں ان کے لئے مستحب ہے کہ جب مو ذٔن اذان کہہ رہاہوتو اس وقت خاموش رہیں اور اذان کے کلمات کوغورسے سنیں اورمو ذٔن کی زبان سے اداہونے والے کلموں کی تکرارکریں،یہاں تک اگرانسان بیت الخلامیں بھی اذان کی آوازسنے تواس کی تکرارکرے

قال ابوعبدالله علیه السلام :ان سمعت الاذان وانت علی الخلاء فقل مثل مایقول المو ذٔن ولاتدع ذکراالله عزوجل فی تلک الحال .

امام صادق فرماتے ہیں:اگرتم بیت الخلامیں ہواوراذان کی آوازسنوتومو ذٔن کے کلمات کی تکرارکرواوراس حال میں ذکرخداسے غفلت نہ کرو۔(۳)

____________________

۱)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ۵٨

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٩٨

۳). علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨۴

۱۳۹

سلیمان ابن مقبل مدائنی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام موسی کاظمسے پوچھا: حدیث میں آیاہے :مستحب ہے کہ جب مو ذٔن اذان کہے تو اذان سننے والا اذان کے کلموں کی تکرارکرے خواہ اذان کوسننے والابیت الخلامیں ہی کیوں نہ بیٹھاہو ،اس کے مستحب ہونے کی کیاوجہ ہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:

انّ ذلک یزیدفی الرزق

کیونکہ اذان کے کلموں کی حکایت اورتکرارکرنے سے رزق وروزی میں اضافہ ہوتاہے ۔(۱)

ایک شخص حضرت امام جعفرصادق کی خدمت میں آیاکہا:اے میرے مولامیں بہت ہی غریب ہوں اپ مجھے کوئی ایساچیز بتائیں کہ جس سے میری یہ فقیری ختم ہوجائے ،امام (علیه السلام)نے اس فرمایا :

ا ذِّٔنْ کُلّماسمعت الاذان کمایو ذّٔن المو ذّٔن ۔

جب بھی تم اذان کی آوازسنوتو اسے مو ذٔن کی طرح تکرارکرو(۲)

اذان واقامت کانقطہ آٔغاز

اذان واقامت کہ جس کی اہمیت اوراس کے فضائل وفوائد اوراس کے احکام کے متعلق آپ نے ات نی زیادہ نے ملاحظہ فرمائیں ان چیزوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس نقطہ آٔغازوحی الٰہی ہے ،تمام علماء وفقہائے شیعہ اثناعشری کااس بات اتفاق وعقیدہ ہے کہ دین اسلام میں اذان واقامت کاآغازوحی الٰہی کے ذریعہ ہواہے کیونکہ ہمارے پاس کے بارے میں معتبرروایتیں موجودہیں جواس چیزکوبیان کرتی ہیں کہ اذان اقامت کاآغازاورمشروعیت وحی کے ذریعہ ہوئی ہے لیکن علمائے اہل سنت اکثریت اس بات پرعقیدہ رکھتی ہے کہ اذان واقامت کاعبدالله ابن زیدکے خواب کے ذریعہ ہواہے جسے حدیث رو یٔاکانام دیاگیاہے اورکہتے ہیں کہ اذان واقامت کے متعلق الله کی طرف کوئی نازل نہیں ہوئی ہے۔

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣/باب الاذان والاقامة. بحارالانوار/ج ٨۴ /ص ١٧۴

.۲) مکارم الاخلاق /ص ٣۴٨

۱۴۰