نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار15%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173990 / ڈاؤنلوڈ: 4523
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سترہواں سبق

عزاداری

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد منانے کو عزاداری کہا جاتا ہے۔

عزاداری کا سلسلہ ہمارے ائمہ معصومینؐ نے شروع کیا ہے اس میں مجلس ۔ ماتم ۔ جلوس جیسی تمام غم کی رسمیں شامل ہیں۔ شام میں سب سے پہلی مجلس جناب زینبؐ نے قید سے رہا ہونے کے بعد کی تھی اس کے بعد یہ سلسلہ ہر ملک ہر قوم اور ہر مذہب میں پھیل گیا۔

آج ہندوستان میں بہت سے غیر مسلم ایسے ہیں جو امام حسینؐ کا غم مناتے ہیں۔

محرم کا زمانہ عزاداری کا مخصوص زمانہ ہے اس لئے کہ اسی مہینے کی دسویں تاریخ کو امام حسینؐ شہید ہوئے تھے۔

عزاداری کا سلسلہ ہمارے ملک میں ۸/ زیع الاول تک قائم رہتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ عزاداری کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا ہے ؟

۳ ۔ عزاداری کا سلسلہ کب تک رہتا ہے ؟

۲۱

آٹھارہواں سبق

مذہب کے حکم پانچ ہیں

پروردگار عالم نے جو احکام اپنے بندوں کے لئے مقرر کئے ہیں ان کی پانچ قسمیں ہیں۔

واجب ۔ وہ کام جس کے کرنے میں ثواب ہو اور نہ کرنے میں عذاب ہو۔

حرام ۔ وہ کام جس کے کرنے میں عذاب ہو اور نہ کرنے میں ثواب ہو۔

مکروہ ۔ وہ کام جس کا نہ کرنا بہتر ہو اور کرنے میں کوئی عذاب نہ ہو۔

مستحب ۔ وہ کام جس کا کرنا بہتر ہو اور نہ کرنے میں کوئی عذاب نہ ہو۔

مباح ۔ وہ کام جس کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو اور اس میں کوئی عذاب و ثواب نہ ہو

سوالات :

۱ ۔ واجب کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ مستحب کسے کہتے ہیں ؟

۳ ۔ حرام اور مکروہ کا فرق بتاو۔

۲۲

انیسواں سبق

تقلید

انسان جس چیز سے نا واقف ہوتا ہے اس میں باخبر افراد پر بھروسہ کرتا ہے۔ مکان بنوانے میں معمار کو بلایا جاتا ہے اور کرسی بناوانے میں بڑھئی کو۔ اسی طرح ہم دین کے احکام معلوم کرنے میں علما پر بھروسہ کرتے ہیں۔ عالم سے مذہب کے احکام معلوم کر کے ان پر عمل کرنے کا نام تقلید ہے۔ تقلید مجتہد کی کی جاتی ہے۔ مجتہد وہ ہوتا ہے جو قرآن اور حدیث سے مذہب کے احکام معلوم کرتا ہے۔

تقلید میں مجتہد کا نام اور پتہ جاننا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ تقلید کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ مجتہد کون ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کیا تقلید میں صرف مجتہد کا نام جاننا کافی ہے ؟

۲۳

بیسواں سبق

طہارت و نجاست

کچھ چیزیں پاک ہیں۔ جیسے پانی ۔ مٹٰی ۔ زمین وغیٰرہ ۔ کچھ چیزیں نجس ہیں ۔ جیسے پیشاب ۔ پاخانہ ۔ خون ۔ مردار ۔ شراب ۔ کتا ۔ سور وغیرہ پاک چیزوں کی دو قسمیں ہیں۔

۱ ۔ کچھ چیزیں خود پاک ہیں مگر دوسروں کو پاک نہیں کر سکتی ہیں جیسے عرق گلاب عرق کیوڑہ ۔ دودھ عرق ۔ رس وغیرہ۔

۲ ۔کچھ چیزیں خود بھی پاک ہیں اور دوسری چیزوں کو بھی پاک کر سکتی ہیں۔ جیسے پانی ۔ مٹی وغیرہ ۔

اسی طرح نجس چیزوں کی بھی دو قسمیں ہیں ۔

۱ ۔ کچھ چیزیں ایسی نجس ہیں جو پاک ہو سکتی ہیں مثلاً نجس کپڑا نجس برتن وغیرہ

۲ ۔ کچھ چیزیں ایسی نجس ہوتی ہیں جو پاک نہیں ہو سکتی ہیں جیسے کتا ۔ سور وغیرہ

سولات :

۱ ۔ پانچ پاک چیزیں بتاو ۔

۲ ۔ جو چیزیں دوسری چیزوں کو بھی پاک کر سکتی ہیں ان کی مثال دو۔

۳ ۔ کو سی چیزیں کبھی پاک نہیں ہو سکتیں

۲۴

اکیسواں سبق

حدث اور خبث

طہارت کی دو قسمیں ہیں ۔

۱ ۔ ایک طہارت وہ ہے جس میں نیت ضروری ہوتی ہے جیسے وضو ۔ غسل ۔ لہذا اگر بغیر وضو کی نیت کے ہاتھ یا منہ دھو لیا جائے یا بغیر غسل کی نیت کے کوئی نہا لے تو نہ وضو ہوگا اور نہ غسل ۔

۲ ۔ دوسری طہارت وہ ہے جس میں نیت کی ضرورت نہٰ ہوتی ہے جیسے کپڑا پاک کرنا۔ بدن پاک کرنا وغیرہ ۔ لہذا اگر کوئی شخص دریا میں گر پڑے یا کوئی برتن حوض میں گر جائے اور اس میں لگی ہوئی نجاست دور ہو جائے تو وہ پاک ہو جائے گا۔ اسے پاک کرنے کی ضرورت نہ ہو گی۔

جن چیزوں کے بعد نیت والی طہارت کرنا ہوتی ہے ان کو حدث کہا جاتا ہے جیسے سونے کے بعد نماز پڑھنے کے لئے وضو کرنا ہوتا ہے۔

جن چیزوں کے بعد بغیر نیت والی طہارت کافی ہوتی ہے ان کو خبث کہتے ہیں ۔ جیسے کپڑے میں خون لگ جائے۔

جس حدث کے بعد وضو نا ہوتا ہے اسے حدث اصغر کہتے ہیں اور جس حدث کے بعد غسل کرنا ہوتا ہے اسے حدث اکبر کہتے ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ وضو کون سی طہارت ہے ؟

۲ ۔ بغیر نیت کے نہانے سے غسل ہو جائے گا یا نہیں ؟

۳ ۔ حدث اکبر کسے کہتے ہیں ؟

۲۵

بائیسواں سبق

حلال اور حرام

دین و شریعت نے جن چیزوں کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ انھیں حلال کہا جاتا ہے اور جن چیزوں کے استعمال سے روک دیا ہے انھیں حرام کہا جاتا ہے۔

حلال و حرام کا پہچاننا اور حرام سے پرہیز کرنا بےحد ضروری ہے۔ ہر نجس چیز کا کھانا پینا حرام ہے۔ جیسے پیشاب پاخانہ ، خون ، شراب وغیرہ نجس ہیں۔ لہذا ان کا کھانا پینا حرام ہے۔ لیکن ہر پاک چیز کا کھانا پینا ضروری نہیں کہ حلال ہو جیسے مٹی پاک ہے لیکن اسے کھانا جائز نہیں۔

البتہ صرف ضرورت کے وقت بیماری سے شفا حاصل کرنے کے لئے امام حسینؐ کی قبر کی تھوڑی سی مٹی کھانا جائز ہے۔

سوالات:

۱ ۔ حلال و حرام کا فرق بتاو۔

۲ ۔ مٹی کا کھانا کیسا ہے ؟

۳ ۔ نجس چیزوں کا کھانا پینا کیسا ہے ؟

۲۶

تیئیسواں سبق

پانی

پانی کی دو قسمیں ہیں :

۱ ۔ مطلق پانی :۔ جسے صرف پانی کہا جاتا ہے۔

۲ ۔ مضاف پانی :۔ جسے خالص پانی نہ کہا جائے۔ جیسے شربت گنے کا رس وغیرہ۔

مطلق پانی دوسری چیزوں کو بھی پاک کر سکتا ہے ۔ مضاف پانی خود تو پاک ہوتا ہے مگر دوسری چیزوں کو پاک نہیں کر سکتا۔

مطلق پانی چند طرح کا ہوتا ہے۔ بارش کا پانی ۔ چشمہ کا پانی ۔ دریا کا اور حوض کا پانی۔ کنویں کا پانی ۔ نل کا پانی۔

مطلق پانی سے ہر چیز پاک ہو سکتی ہے۔ مطلق پانی سے ہی وضو اور غسل کیا جاتا ہے۔ مضاف پانی مثلا گلاب۔ کیوڑہ وغیرہ سےنہ وضو ہو سکتا ہے اور نہ غسل اور نہ اس سے کوئی چیز پاک ہو سکتی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ مضاف پانی کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ وضو اور غسل کون سے پانی سے ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کونسا پانی وضو غسل اور طہارت کے کام نہیں آتا ؟

۲۷

چوبیسواں سبق

پیشاب پاخانہ کے آداب

پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھنا حرام ہے۔ پیشاب کے بعد پانی سے طہارت کرنا واجب ہے پانی کے بغیر پیشاب کی طہارت نہیں ہو سکتی۔ پیشاب کے بعد کا غذ کپڑے یا ڈھیلے سے پونچھ ڈالنا کافی نہیں ہے بلکہ پانی سے پاک کرنا ضروری ہے۔

پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت ایسی جگہ نہیں بھیٹنا چاہئیے جہاں کوئی دیکھنے والا موجود ہو۔

کھڑے ہو کر پیشاب کرنا بہت بری بات ہے۔ ہمارے اماموں نے اس کی سخت ممانعت کی ہے۔

آبدست بائیں ہاتھ سے کرنا چاہئیے۔ داہنا ہاتھ اللہ نے کھانا کھانے کے لئے بنایا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ پیشاب پاخانہ کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ؟

۲ ۔ پیشاب کس طرح ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا کیسا ہے ؟

۲۸

پچیسواں سبق

وضو

انسان جب بھی نماز کے لئے تیار ہوتو وضو کرنا ضروری ہے وضو کے بغیر نماز پڑھنا حرام ہے۔

وضو کرنے کی ترکیب یہ ہے کہ پہلے نیت کرے کہ وضو کرتا ہوں " قربۃٌ الی اللہ" اس نیت کا دل میں رہنا بہت ضروری ہے۔ نیت کے بعد دونوں ہاتھوں کو گٹے تک دو مرتبہ دھوئے اس کے بعد تین مرتبہ کلی کرے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے۔ یہ تینوں کام سنت ہیں واجب نہیں ہیں۔

ناک میں پانی ڈالنے کے بعد چہرے کو بالوں کے اگنے کی جگہ سے تھوڑی تک دھوئے۔ چوڑائی میں کانوں تک پانی پہونچا دینا زیادہ اچھا ہے۔

چہرہ دھونے کے بعد داہنے ہاتھ کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھوئے پھر بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھوئے۔

دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد جو تری ہتھیلی میں بچ گئی ہے اس میں دوسرا پانی ملائے بغیر داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے سر کے اگلے حصہ کا مسح کرے۔ اس کے بعد داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے داہنے پیر مسح کرے اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کی ہھتیلی سے بائیں پیر کا مسح کرے۔ مسح پیر کی انگلیوں سے گٹے تک ہوتا ہے۔

سر اور پیر کے مسح میں ایک ایک انگلی سے مسح کرنا بھی کافی ہے مگر سر کا مسح تین انگلیوں سے اور پیر کا مسح پورے ہاتھ سے کرنا بہتر ہے۔

سوالات :

۱ ۔ وضو کی نیت بتاو ۔

۲ ۔ وضو میں چہرہ کہاں سے کہاں تک دھوتے ہیں ؟

۳ ۔ مسح کس چیز سے کیا جاتا ہے ؟

۲۹

چھوبیسواں سبق

غسل

غسل دو طرح کے ہوتے ہیں :

۱ ۔ بعض غسل واجب ہوتے ہیں جیسے میت کو غسل دینا یا میت کو چھونے کے بعد غسل کرنا واجب ہے ۔

۲ ۔ بعض غسل سنت ہوتے ہیں جیسے جمعہ کے دن کا غسل زیارت کا غسل وغیرہ

غسل کرنے کے دو طریقے ہیں:

۱ ۔ غسل ترتیبی :۔ اس میں پہلے نیت کی جاتی ہے کہ غسل کرتا ہوں۔ "قربۃ الیٰ اللہ " اس کے بعد سر اور گردن کو دھویا جاتا ہے سر و گردن کے بعد جسم کے داہنے حصہ کو گردن سے پیروں تک دھویا جاتا ہے۔ اور پھر بائیں حصہ کو اسی طرح دھویا جاتا ہے۔

۲ ۔ غسل ارتماسی ۔ اس میں نیت کر کے پانی میں ایک دم سے غوطہ لگایا جاتا ہے۔

اگر جمعہ کا دن بھی ہو اور زیارت بھی کرنا ہو تو سب کے لئے ایک غسل کافی ہے۔ الگ الگ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ غسل ترتیبی کس طرح کیا جاتا ہے ؟

۳۰

ستائیسواں سبق

تیمم

وضو یا غسل کرنے والے کو اگر پانی نہ ملے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے پانی کا استعمال کرنا نقصان دہ ہو یا نماز کے لئے وضو یا غسل کرنے کی وجہ سے قضا ہو جانے کا خطرہ ہو تو وضو یا غسل کرنے کے بجائے تیمم کرنا چاہئیے۔

تیمم صرف مٹی یا پتھر پر ہو سکتا ہے۔ اگر یہ چیزیں نہ ملیں٘ تو گرد و غبار پر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔

تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نیت کرے کہ " تیمم کرتا ہوں وضو یا غسل کے بدلے " قربۃً الی اللہ : نیت کے ساتھ دونوں ہاتھوں کو ملا کر خاک پر مارا پھر ہاتھوں کو جھاڑ کر پہلے دونوں ہتھیلیوں کو پوری پیشانی پر اوپر سے نیچے کی طرف پھیرے پھر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو داہنے ہاتھ کی پشت پر گٹے سے انگلیوں تک پھیرے پھر اسی طرح داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرے پھر دو بارہ ہاتھ مارے اور صرف دونوں ہاتھوں کا مسح کرے۔

اگر ہاتھ میں چھلا یا انگوٹھی وغیرہ ہو تو اسے تیمم کرتے وقت اتار دینا چاہئیے نماز کا وقت نکل جانے کے بعد اگر پانی مل جائے تو تیمم سے پڑھی ہوئی نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ تیمم کب کرنا چاہئیے ؟

۲ ۔ تیمم کس چیز پر ہوگا ؟

۳ ۔ اپنے کو تیمم کر کے دکھائو ۔

۳۱

آٹھائیسواں سبق

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے آفتاب نکلنے تک ہے۔

طہر و عصر کا وقت دوپہر کے وقت آفتاب ڈھلنے سے آفتاب ڈوبنے تک ہے لیکن پہلے نماز ظہر پڑھی جائے گی اس کے بعد نماز عصر۔

مغرب و عشا کا وقت آفتاب ڈوبنے کے بعد آسمان پر سیاہی پھیل جانے سے آدھی رات تک ہے لیکن اس وقت میں پہلے نماز مغرب پڑھے اس کے بعد نماز عشا۔ نماز جمعہ کا وقت آفتاب ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک ہر چیز کا سایہ اس کے برابر نہ ہو جائے۔

نماز عید کا وقت آفتاب نکلنے سے زوال تک ہے۔

ہر نماز کو وقت کے اندر پڑھنا ضروری ہے۔ جان بوجھ کر نماز کا قضا کرنا حرام ہے

سوالات :

۱ ۔ صبح کی نماز کب قضا ہو جاتی ہے ؟

۲ ۔ نماز کو اس وقت کے اندر نہ پڑھنا کیسا ہے ؟

۳ ۔ نماز عیدین کا وقت کیا ہے ؟

۳۲

انتیسواں سبق

سجدہ گاہ

سجدہ صرف زمین پر یا زمین سے اگنے والی ایسی چیز پر ہونا چاہئیے جو کھائی یا پہنی نہیں جاتی ہو۔

مٹی ۔ پتھر ۔ لکڑی ۔ چٹائی ۔ کاغذ ۔ وغیرہ پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ اور کھائے جانے والے پھلوں ۔ پتوں اور کپڑے پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔

سجدہ صرف پاک چیز پر ہونا چاہئیے، نجس چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔

قبر حسینؐ کی مٹی پر سجدہ کرنے میں زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے شیعہ حضرات اس مٹی کی سجدہ گاہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اسی پر سجدہ کرتے ہیں اس میں ثواب بھی زیادہ ہے اور یہ یقین بھی ہے کہ یہ مٹی پاک ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کیلے کے پتے اور پان پر سجدہ جائز ہے یا نہیں ؟

۲ ۔ لکڑی یا چٹائی پر سجدہ کیوں جائز ہے ؟

۳ ۔ کربلا کی سجدہ گاہ پر سجدہ کیوں کیا جاتا ہے ؟

۳۳

تیسواں سبق

ترکیب نماز

نماز پڑھنے والے کو چاہئیے کہ پاک کپڑے پہن کر وضو کر کے قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو اور نیت کرے کہ صبح کی دو رکعت نماز پڑھتا ہوں قربۃً الی الل نیت کے بعد فوراً اللہ اکبر کہے اور پھر سورہ الحمد اور کوئی دوسرا سورہ پڑھ کر رکوع میں جائے۔ رکوع میں پہنچ کر کم سے کم ایک مرتبہ "سبحان ربی العِظِیمِ وَ بِحَمدِه " کہ کر کھڑا ہو جائے کھڑے ہو کر "سَمِعَ اللهُ لِمَن حَمِدَه ۔الله اکبر " کہ کر سجدہ میں جائے اور خاک پر پیشانی رکھ کر کم سے کم ایک مرتبہ "سُبحَانَ رَبِّی الاَعلیٰ وَ بِحَمدِه " کہے اور پھر اٹھ کر بیٹھ جائے اورالله اکبر اَستَغفِرُ الله رَبِّی وَ اَتُوبُ اِلَیه ۔الل اکبر " کہ کر دوسرے سجدہ میں جائے اور "سُبحَانَ رَبِی الاَعلیٰ وَ بِحَمدِه " کہے پھر بیٹھ کر اللہ اکبر کہے اور پھربِحَولِ اللهِ وَ قُوَّتِهِ اَقُومُ اَقعُد " کہتا ہوا کھڑا ہو جائے اور حمد و سورہ کے بعد قنوت پڑھے۔ قنوت میں چہرے کے سامنے دونوں ہاتھ بلند کر کے دعائے قنوت پڑھنا چاہئیے اور کوئی دعا یا دنہ ہو تو کم سے کم صلوٰت پڑھنے دعا کے بعد رکوع میں جائے اور پہلی رکعت کی طعح رکوع و سجدہ تمام کرے۔اس کے بعد بیٹھ کر اس طرح تشہد پڑھے۔اَشهدُ اَن لاَّ اِلهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولُهُ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّدٍ۰

تشہد کے بعد اس طرح سلام پڑھ کر نماز کو تمام کرےاَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّهَا النِّبیُ وَ رَحمَة اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ ۔اَلسِّلَامُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینَ ۔اَلسَّلامُ عَلَیکُم وَ رَحمَة اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ ۔

اگر نماز تین یا چار رکعتی ہے تو تشہد کے بعد سلام نہ پڑھے بلکہ کھڑا ہو جائے اور ایک ہا دو رکعت اور پڑھے تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ الحمد یا تین بارسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ للهِ وَلاَ اِلٰهَ الاللهُ هوَ اللهُ اَکبَر پڑھنا چاہئیے۔ دوسرے سورہ کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے بعد رکوع ۔ سجدہ ۔ تشہد ۔ سلام پہلے کی طرح پڑھ کر نماز تمام کرے۔

سوالات :

۱ ۔ نماز سناو ؟

۲ ۔ نماز پڑھ کر دکھاو ؟

۳ ۔ دعائے قنوت ۔ تشہد اور سلام سناو ؟

۳۴

اکتیسواں سبق

آداب نماز

نماز پڑھنے والے کو چاہئیے کہ نماز میں اس طرح باادب کھڑا ہو جیسے خدا کے سامنے کھڑا ہونا چاہئیے۔ نماز میں داہنے بائیں ديکھانا جائز نہیں ہے۔

نماز کی حالت میں ہنسنا اور رونا بھی جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر خدا کے خوف سے آنسو نکل آئیں تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔

نماز میں بات کرنا بھی حرام ہے، نماز کی حالت میں صرف نماز کے امور ہی انجام دینا چاہئیے۔ ہاں اگر کوئی نماز کی حالت سلام کرے تو اس کاجواب دینا ضرور دینا چاہے۔ نماز کی حالت میںسَلاَمُ عَلَیکُم کا جوابو عَلَیکُم السَّلام نہیں کہنا چاہئیے۔

نماز کی حالت میں آداب عرض ہے۔ وغیرہ کا جواب نہیں دیا جائےگا۔

سوالات :

۱ ۔ نماز پڑھتے وقت ہنسنے سے نماز صحیح رہےگی یا نہیں ؟

۲ ۔ نماز کی حالت میں سلام کا جواب کیسے دیں ؟

۳۵

بتیسواں سبق

روزہ

ماہ رمضان کا چاند دیکھتے ہی ہر مسلمان مرد عورت پر روزہ واجب ہو جاتا ہے روزہ صبح کی اذان سے شروع ہو کر مغرب کی اذان تک رہتا ہے۔

جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنے والے کو بعد میں قضا بھی کرنا پڑے گی۔ اور ایک ایک روزہ کے بدلے میں ساٹھ ساٹھ روزے رکھنا پڑیں گے۔ یا ساٹھ غریبوں کو کھانا کھلانا پڑےگا۔

نابالغ بچوں پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن انھیں بھی روزہ ضرور رکھنا چاہئیے اس میں ان کے لئے فائدہ ہے اور ان کے ماں باپ کے لئے ثواب ۔

بیمار اور مسافر پر روزہ واجب نہیں ہے۔ لیکن بعد میں رکھنا ہوگا۔ روزہ کی حالت میں کھانا پینا اور پانی میں سر ٖڈبونا وغیرہ حرام ہے۔ روزہ کی نیت ہے

روزہ رکھتا ہوں ماہ رمضان کا قربہ الی اللہ۔

سوالات :

۱ ۔ روزہ کب سے کب تک رہتا ہے ؟

۲ ۔ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے والے کو کیا کرنا پڑےگا ؟

۳ ۔ روزہ کی نیت کیا ہے ؟

۳۶

تیتیسواں سبق

حج

حج صرف ان لوگوں پر واجب ہوتا ہے جو بالغ ۔ عاقل اور آزاد ہوں اور حج کا خرچ بھی رکھتے ہوں۔ نابالغ ۔ دیوانہ ۔ غلام اور غریب آدمی پر حج واجب نہیں ہوتا۔ حج عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ واجب ہوتا ہے۔ واجب حج کرنے کے بعد کوئی حج واجب نہیں رہ جاتا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس شخص پر حج واجب ہو اور وہ حج کے بغیر مر جائے تو وہ مسلمان نہیں مرتا ہے بلکہ یہودی یا عیسائی مرتا ہے۔ مرنے والے سے سچی محبت یہی ہے۔ کہ اگر اس پر حج واجب ہو تو اس کی طرف سے حج کرا دیا جائے۔

سوالات :

۱ ۔ حج کے بغیر مرنے والے کی موت کیسی ہوتی ہے ؟

۲ ۔ دیوانہ پر حج واجب ہے یا نہیں ؟

۳ ۔ حج عمر بھر میں کتنی مرتبہ واجب ہے ؟

۳۷

چوتیسواں سبق

زکوٰۃ

زکوٰۃ نو چیزوں میں واجب ہوتی ہے۔ گیہوں ۔ جو ۔ خرما ۔ کشمش سونے چاندی کے سکے ۔ اونٹ ۔ گائے ۔ بکری ۔ ان کے علاوہ زیور ۔ نوٹ ۔ چنا ۔ چاول ۔ دال وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مال اتنی مقدار میں ہو جتنی مقدار پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ۔ گیہوں یا جو یا خرما یا کشمش ۸۴۷ کیلو ہو تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔

سونے چاندی کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہے۔ گیہوں ۔ جو وغیرہ کی زکوٰۃ پیدا وار ہے اگر پیداوار سینچائی کے بغیر ہوتی ہے۔ تو مال کا دسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا ہوگا۔ اور اگر سینچائی کرنا پڑی ہے تو مال کا بیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا ہوگا۔

سوالات :

۱ ۔ چالیسواں حصہ کس چیز کی زکوٰۃ ہے ؟

۲ ۔ گیہوں ۔ جو کتنا ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو ؟

۳ ۔ جو یا گیہوں پر کتنی زکوٰۃ دینا ہوگی ؟

۳۸

پینتیسواں سبق

خمسُ

خمس٘ سات چیزوں پر واجب ہوتا ہے :

؀۱ سالانہ بچت ؀۲ خزانہ ؀۳ کان ؀۴ مال حلال جس میں مال حرام مل جائے اور مال حرام کی مقدار نہیں معلوم ہو ؀۵ جواہرات وغیرہ جنھیں غوطہ لگا کر نکالا جائے ؀۶ جہاد کا مال غنیمت ؀۷ ذمی کافر کی زمین جو اس نے مسلمان سے خریدی ہو۔

سال بھر میں نوکری ۔ کھیتی ۔ تجارت ۔ محنت ۔ مزدوری ۔ تحفہ وغیرہ کسی ذریعہ سے جو مال ملے سال کے آخری دن اس مال کی بچت کا پانچواں حصہ خمس کے طور پر نکالنا واجب ہے خمس کے دو حصہ ہوتے ہیں ایک حصہ امام علیہ السلام کا ہے جو مجتہد کو دیا جاتا ہے اور ایک حصہ سادات کا حق ہے جو صرف ان سیدوں کو دیا جائے گا جو غریب ہوں اور کھلم کھلا گناہ نہ کرتے ہوں۔ اگر کسی کی ماں سیدانی ہو اور باپ سید نہ ہو تو اسے خمس نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اگر کسی کی ماں سیدانی نہ ہو مگر باپ سید ہو تو اسے خمس دیا جا سکتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خمس کن چیزوں پر واجب ہوتا ہے ؟

۲ ۔ کس دن کا حساب کرنا چاہئیے ؟

۳ ۔ مجتہد کو خمس کا کونسا حق دیا جاتا ہے؟

۳۹

چھتیسواں سبق

نذر و فاتحہ

نبیؐ اور امامؐ کی خدمت میں کسی چیز کے پیش کرنے کا نام نذر ہے۔ نذر اگر نبیؐ ۔ امامؐ تک پہونچ سکتی ہے تو نذر کی چیز ان کی خدمت میں پیش کی جائے گی ورنہ غریبوں کو دے کر اس کا ثواب ان کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔ نذر زندہ امام ۔ نبی کی بھی ہو سکتی ہے۔

فاتحہ صرف مرنے والے کو ثواب پہونچانے کا نام ہے۔ نذر کا طریقہ یہ ہے کہ صلوات پڑھنے کے بعد سورہ حمد اور قل ھو اللہ وغیرہ کی تلاوت کر کے پھر صلوات پڑھے اور خدا کی بارگاہ میں عرض کرے کہ " میں نے ان سوروں کا ثواب چہادہ معصومینؐ کو نذر کیا "۔

اور اگر کسی مردہ کا فاتحہ دینا ہے تو یہ بھی کہے کہ " اس کے عوض میں جو ثواب حاصل ہو اسے فلاں شخص کی روح کو بخش دیا۔

سوالات :

۱ ۔ نذر کس چیز کا نام ہے ؟

۲ ۔ نذر کا طریقہ کیا ہے ؟

۳ ۔ فاتحہ کیوں کر دیتے ہیں ؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ابوبصیرسے مروی ہے کہ میں نے امام باقریاامام صادق +میں کسی ایک امام (علیه السلام)سے معلوم کہا: کیاخداوندعالم بیت المقدس کی سمت رخ کرکے نمازپڑھنے کاحکم دیاتھا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:ہاں،کیاتم نے یہ آیہ مبارکہ نہیں پڑھی ہے

( وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَاَلّتِی کُنْتَ عَلَیْهَااِلّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتِبِعِ الرّسُول مِمّنْ یّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلّاعَلَی الَّذِیْنَ هُدَی اللهُ وَمَاکَانَ اللهُ لِیُضِیعَ اِیْمَانَکُمْ ) (۱)(۲)

اور ہم نے پہلے قبلہ (بیت المقدس) کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول! کا اتباع کرتا ہے اور پچھلے پاؤں جاتاہے گرچہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی الله نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضایع نہیں کرناچاہتا تھا ، وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کعبہ کوبہت زیادہ دوست رکھتے تھے اورمدینہ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب بیت المقدس کی سمت نمازپڑھتے تھے توکعبہ کواپنے اوربیت المقدس کے درمیان کرتے تھے

حمادحلبی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:کیانبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بیت المقدس کی سمت نمازپڑھتے تھے ؟فرمایا:ہاں، میں نے کہا:کیا اس وقت خانہ کٔعبہ آنحضرت کی کمرکے پیچھے رہتاتھا؟فرمایا:جسوقت آپ مکہ میں رہتے تھے توکعبہ کوکمرکے پیچھے قرارنہیں دیاکرتے تھے لیکن مدینہ ہجرت کرنے کے بعدکعبہ کی طرف قبلہ تحویل ہونے تک کعبہ کواپنی پشت میں قراردیتے تھے ۔(۳)

____________________

. ١)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴٣

. ٢)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ٢١۶

۳). کافی /ج ٣/ص ٢٨۶

۱۲۱

رازتحویل قبلہ

تحویل قبلہ کے بارے میں چار اہم سوال پیداہوتے ہیں: قبلہ بیت المقدس سے کعبہ طرف کب اورکیوں تحویل ہواہے اورخداوندعالم نے روزاول ہی سے کعبہ کی سمت نمازپڑھنے کاحکم کیوں نہیں دیا؟اوربیت المقدس کی سمت پڑھی گئی کی تکرارواجب ہے یانہیں ؟ پہلے سوال کے جواب میں تفسیرمنہج الصادقین میں لکھاہے کہ: جس دن الله کی طرف سے تغییرقبلہ کاحکم نازل ہوااس دن نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجدنبی سلمہ میں تشریف رکھتے تھے اور مسلمان مردوعورتوں کے ہمراہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ظہر پڑھنے میں مشغول تھے اور دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ جبرئیل امین نے آنحضرت کے دونوں بازو پکڑ کر آپ کا چہرہ کعبہ کی سمت کردیااورجومردوعورت آپ کے پیچھے نمازپڑھ رہے تھے ان سب کے چہروں کوبھی کعبہ کی سمت کردیا اورمردعورتوں کی جگہ اورعورتیں ) مردوں کی جگہ پرکھڑے ہوگئے ۔(۱)

اس مسجدکو“ذوالقبلتین”دوقبلہ والی مسجدکہاجاتاہے کیونکہ یہی وہ مسجدہے کہ جس میں الله کے آخری نبی حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) نمازظہر اداکررہے تھے کہ جبرئیل نے آنحضرت کے چہرہ کارخ دونوں شانے پکڑکربیت المقدس سے کعبہ کی طرف کردیا ،پیغمبرکی یہ آخری نمازتھی جوبیت المقدس کی طرف پڑھی گئی اوریہ پہلی نمازتھی جوکعبہ کی سمت پڑھی گئی تھی ،آنحضرت نے اس نمازکودوقبلہ کی طرف انجام دیاپہلی دورکعت بیت المقدس کی طرف اوردوسری دورکعت نمازکعبہ کی سمت اداکی لہٰذایہ وہ مسجدہے کہ جس میں ایک ہی نمازکودوقبلہ کی طرف رخ کرکے پڑھاگیاہے اسی لئے اس مسجدکو “ذوالقبلتین” کہاجاتاہے ۔

قبلہ کے تحویل کرنے کی چندوجہیں بیان کی گئی ہیں :

پہلی وجہ

کتب تفاسیر میں لکھاہے: کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے درجہ نبوت پرفائز ہونے کے بعد ١٣ /سال تک مکہ مکرمہ میں قیام مدت کے درمیان بیت المقدس کی سمت نماز پڑھتے رہے اور مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی سترہ مہینہ تک اسی طرف نماز یں پڑھتے رہے جوروزاول سے یہودیوں کاقبلہ تھااوریہودی اسے اپنے قبلہ مانتے تھے لہٰذا وہ لوگ رسول خدا (صلی الله علیه و آله)وان کی پیروی کرنے والوں کو طعنہ دیا کرتے تھے اورکہتے تھے کہ : تم مسلمان تو ہمارے قبلہ کی رخ کرکے نماز ھتے ہیں اور ہماری پیروی کرتے ہیں، اور کہتے تھے کہ: جب تم ہمارے قبلہ کو قبول رکھتے ہو اور اسی کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھتے ہوتو پھرہمارے مذہب کو کیوں قبول نہیں کرلیتے ہو؟۔

____________________

. ۱)تفسیرمنہج الصادقین /ج ١/ص ٣۴١

۱۲۲

ہجرت کرنے کے بعدبھی پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)گرچہ بیت المقدس کی سمت شوق سے نماز یں پڑھتے تھے اور دل وجان سے حکم خداپرعمل کرتے تھے مگر دشمنوں کی طعنہ زنی سے رنج بھی اٹھا تے تھے اور غمگین رہتے تھے پس جب دین اسلام قدرے مستحکم ہوگیاتوایک دن آپ نے جبرئیل سے کہا :میری یہ خواہشہے کہ الله تبارک تعالیٰ ہم مسلمانوں کو قبلہ یٔہودکی طرف کھڑے ہوکرنماز پرھنے سے منع کرے اورہمارے لئے ایک مستقل قبلہ کی معرفی کرے ،جبرئیل نے عرض کیا : میں بھی آپ کی طرح ایک بندئہ خدا ہوں مگر آپ خداوندعالم کے نزدیک اولوالعزم پیغمبر ہیں لہٰذا آپ خوددعا کریں اور اپنی آرزوکو پروردگار سے بیان کریں

لیکن رسول اکرام (صلی الله علیه و آله) اپنی طرف سے کوئی تقاضا نہیں کرنا چاہتے تھے، فقط جس کام کا خدا آپ کو حکم دیتا تھا وہی انجام دیتے تھے اور جس بارے میں فرمان خدا ابلاغ نہیں ہو تا تھا اس کے انتظار میں رہتے تھے ، تبدیل قبلہ کے بارے میں بھی وحی الہٰی کے منتظر تھے، لہٰذاایک دن نمازظہرکے درمیان جبرئیل امین وحی لے کرنازل ہوئے:

( وَقَدْ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فیِ السَّمَآءِ فَلَنُوَ لِّیَنَکَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الحَرَامِ وَحَیْثُ مَاکُنْمُ فَوَلُّوْاوَجُوهَکُمْ شَطْرَهُ ) (۱)

ترجمہ:اے رسول! ہم آپ کا آسمان کی طرف متوجہ ہونے کودیکھ رہے ہیں ،ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جسے آپ پسندکرتے ہیں لہٰذا اپنا رخ مسجد الحرام کی جہت کی طرف موڑدیجئے اور جہان بھی رہئے اسی طرف رخ کیجئے ۔

دوسری وجہ

تبدیل قبلہ کے بارے میں جواسراربیان کئے جاتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ خداوندعالم تبدیل کی وجہ سے پہچان کراناچاہتاتھا کہ کون لوگ حقیقت میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی پیروی کرتے ہیں اور کون حکم خدا ورسول کی خلاف ورزی کرتے ہیں جیساکہ خدا وند معتال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَاَلّتِی کُنْتَ عَلَیْهَااِلّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتِبِعِ الرّسُول مِمّنْ یّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلّاعَلَی الَّذِیْنَ هُدَی اللهُ وَمَاکَانَ اللهُ لِیُضِیعَ اِیْمَانَکُمْ )

اور ہم نے پہلے قبلہ (بیت المقدس) کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول! کا اتباع کرتا ہے اور پچھلے پاؤں جاتاہے گرچہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی الله نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضایع نہیں کرناچاہتا تھا ، وہ ) بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے ۔(۲)

____________________

. ١)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴۴

. ۲)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴٣

۱۲۳

امام جعفرصادق فرماتے ہیں:هذابیت استعبد الله تعالی به خلقه لیختبربه طاعتهم فی اتیانه فحثهم علی تعظیمه وزیارته وجعله محل انبیائه وقبلة للمصلین له.

یہ گھراتنابلند ہے کہ الله تبارک وتعالی نے اپنے بندوں سے مطالبہ کیاہے وہ اس کے واسطے سے میری عبادت کریں تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کاامتحان لے سکوں اوریہ پتہ چل جائے کہ کون اس کی عبادت کرتے ہیں اورکون عبادت کوترک کرتے ہیں اسی لئے میں نے کعبہ کی تعظیم وزیارت کاحکم دیاہے اوراسے انبیاء کرام کامحل اورنمازگزاروں کاقبلہ قراردیاہے ۔(۱)

اس آیہ مٔبارکہ اورحدیث شریفہ سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)کے زمانے میں دوطرح کے مسلمان تھے ، کچھ ایسے لوگ تھے جو آسانی سے فرمان خداکو نہیں مانتے تھے اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے قول وفعل پراعتراض اورچون وچراکرتے تھے ،وہ لوگ نبی کی ہربات کونہیں مانتے تھے اور خانہ کعبہ کو قبلہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے ۔

کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یقین سے الله ورسول اور قرآن پرایمان رکھتے تھے اوراس چیزپراعتقادرکھتے تھے کہ رسول اسلام اپنی مرضی سے نہ کچھ کہتے ہیں اور نہ کرتے ہیں بلکہ وہی کرتے اور کہتے ہیں جسکا م کا خدا آپ کو حکم دیتا ہے اور وہ لوگ دل و جان سے حکم الہٰی کو اجرا کرتے تھے جیسے ہی ان لوگوں تک تبدیل قبلہ کی خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے رخ کعبہ کی طرف کرلئے لیکن جومنافق تھے انھوں نے اعتراض شروع کردئے ۔

تیسری وجہ

علامہ ذیشان حیدرجوادی ترجمہ وتفسیر قرآن کریم میں لکھتے ہیں:تحویل قبلہ کاایک رازیہ بھی ہے کہ اس طرح یہودیوں کاوہ استدلال ختم گیاکہ مسلمان ہمارے قبلہ کی اتباع کررہے ہیں،اوریہ دلیل ہے کہ ہمارامذہب برحق ہے اوراس کے علاوہ کوئی مذہب خدائی نہیں ہے ،قرآن کریم واضح کردیاکہ بیشک بیت المقدس ایک قبلہ ہے لیکن جس خدانے اسے قبلہ بنایاہے اسے تبدیل کرنے کاحق بھی رکھتاہے ،اگریہودیوں کاایمان خداپرہے توجس طرح پہلے حکم خداکوتسلیم کیاتھااسی طرح دوسرے حکم کوبھی تسلیم کرلیں۔

روزاول ہی کعبہ کوقبلہ کیوں قرارنہیں دیا؟

اگرکوئی یہ سوال کرے :کیاوجہ ہے کہ خدا وند عالم نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی اتباع کرنے والوں کو پہلے بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اس کے بعد خانہ کعبہ کی طرف نماز اداکرنے کا حکم جاری کیا اور بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے سے منع کردیا؟

____________________

.۱) من لایحضرہ الفقیہ /ج ٢/ص ٢۵٠

۱۲۴

جس وقت پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نے اپنی رسالت کا اعلان کیا تو مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی اور مسلمان کے پاس کوئی طاقت وغیرہ نہیں تھی لیکن یہودومسیح کی تعداد بہت زیادہ تھی اور طاقت بھی انہی لوگوں کے پاس تھی اگرخداوندعالم اسی وقت کعبہ کی طرف نمازپڑھنے کاحکم جاری کردیتااور مسلمان ان کے قبلہ کی مخالفت کردیتے اور بیت المقدس کی طرف نماز نہ پڑھتے توان کے اندر غصّہ کی آگ بھڑک جاتی اور اسی وقت مسلمانوں کی قلیل جماعت کو ختم کرکے اسلام کونابودکردیتے اسی لئے خدا نے مسلمانوں کو پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا تاکہ قوم یہود ومسیح (جو بیت المقدس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ) مسلمانوں کو بغض وکینہ کی نگاہوں سے نہ دیکھیں اورانھیں اپنا دشمن شمار نہ کریں اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ بھی نہ بنائیں لیکن جب روز بر وزقرآن واسلام کی پیروی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاگیا اور مسلمان طاقتور ہوتے گئے اور رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رہبری میں ایک مستقل حکومت کے قابل ہو گئے تواس وقت خداوندعالم نے قبلہ بدلنے کا حکم جاری کیا اور کہا کہ آج کے بعدتمام مسلمان مستقل ہیں اور ان کا قبلہ بھی مستقل ہو گا، قبلہ تبدیل ہونے کے بعد اگر دشمن مخالفت بھی کرتے تھے تو مسلمانوں پر کوئی اثرنہیں ہو تا تھا ۔

قبلہ اول کی سمت پڑھی گئی نمازوں کاحکم کیاہے ؟

جب حکم خداسے قبلہ تبدیل ہوگیا تومسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہواکہ ہم نے اب تک جت نی بھی نمازیں بیت المقدس کی سمت رخ کر کے پڑھی ہیں ان کا کیا حکم ہے ،ہماری وہ نماز یں صحیح ہیں یا باطل ہیں اوران کادوبارہ پڑھناواجب ہے ؟ لہٰذاکچھ لوگوں نے اس مسئلہ کو پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی خدمت میں مطرح کیا اور آنحضرت سے پوچھا :یانبی الله!ہم نے وہ تمام نمازیں جوبیت المقدس کی طرف رخ کرکے انجام دی ہیں کیاوہ سب قبول ہیں یاان کااعادہ کرناضروری ہے ؟جبرئیل امین وحی لے کرنازل ہوئے اورفرمایا: )( وَمَا کاَنَ الله لُِیُضْیعَ اِیْمَا نَکُمْ اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَحْیمٌ ) (۱) جان لیجئے کہ وہ نمازیں جوتم نے قبلہ اوّل (بیت المقدس) کی طرف انجام دیں ہیں وہ سب صحیح ہیں خدا تمھارے ایمان (نماز) کو ضایع نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے۔حضرت امام جعفرصادق فرماتے ہیں : اس آیہ مٔبارکہ مٔیں نماز کو ایمان کا لقب دیا گیا ہے۔(۲)

____________________

١)سورہ بقرہ /آیت ١٣٨

. ٢)نورالثقلین/ج ١/ص ١٣٧ )

۱۲۵

اذان واقامت

وہ چیزکہ جس کے ذریعہ لوگوں کونمازکاوقت پہنچنے کی اطلاع دی جاتی ہے اور الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنے ونمازپڑھنے کی طرف دعوت دی جاتی ہے اسے اذان کہاجاتاہے ۔ لغت قاموس میں“اذّن ،اُذان،اَذِّن ”کے معنی اعلان،دعوت اوربلانابیان کئے گئے ہیں اور “مصباح المنیر”میں اس طرح لکھاہے:“آذَنتُهُ اِیذَاناًوَتَا ذّٔنْتُ (اَعلَمتُوَا ذّٔن الموذّنُ بالصلاةا عٔلم بِها ” میں نے اعلان کیااورمو ذٔن نے اذان دی یعنی لوگوں کونمازکی طرف دعوت دی اورقرآن کریم میں بھی لفظ “اذّن واذان ”اعلان کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے

( وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ ) .اورلوگوں کے درمیان حج کااعلان کرو۔(۱) ( وَاَذَانٌ مِنَ اللهِوَرَسُوْلِهِ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرْ ) (۲)

اوراللھ ورسول کی طرف سے حج اکبرکے دن انسانوں کے لئے اعلان عام ہے

اذان واقامت کی اہمیت

مستحب ہے کہ بلکہ سنت مو کٔدہ ہے کہ نمازگزاراپنے اپنی روزانہ کی پانچوں واجب نمازوں کواذان واقامت کے ساتھ پڑھے خواہ انسان ان نمازوں کوان کے وقت میں اداکررہاہو یاان کی قضابجالارہاہو البتہ اگرنمازجماعت ہورہی ہے توجماعت کی اذان واقامت پراکتفاء کرناصحیح ہے،خواہ اس نے نمازجماعت کی اذان واقامت کوسناہویانہ سناہو،اذان واقامت کے وقت مسجدمیں حاضرہویانہ ہو۔نمازجمعہ سے پہلے بھی اذان واقامت کہناسنت مو کٔدہ ہے اور عیدالفطر و عیدالاضحی کی نمازکے لئے تین مرتبہ “الصلاة ” کہاجائے ۔ خداوندعالم قرآن کریم میں اذان کامسخرہ کرنے والوں کوغیرمعقول انسان قراردیتے ہوئے ارشادفرماتا ہے:

( وَاِذَا نَا دَیْتُم اِلیٰ الصَّلوٰةِ اتَّخذوهٰا هُزُواً وَلَعِباً ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قُومٌ لَاَ یَْقْلُوِْنَ ) اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کا مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ با لکل بے عقل قوم ہیں۔(۳)

____________________

۱)سورہ حٔج آیت ٢٧

. ٢)سورہ تٔوبہ آیت ٣

. ۳)سورہ مٔائد ہ آیت ۵٨

۱۲۶

امام صادق فرماتے ہیں:مریض کوبھی چاہئے کہ جب نمازپڑھنے کاارادہ کرے تو اذان واقامت کہہ کرنمازپڑھے خواہ آہستہ اوراپنے لئے ہی کہے ،(اگراپنے بھی اذان واقامت کے کلمات کوزبان سے اداکرنے کی قدرت نہ رکھتاہوتودل سے اذان اقامت کہے)کسی نے پوچھااگرانسان بہت زیادہ مریض ہوتو کیاپھربھی اسے اذان واقامت کہناچاہئے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:ہرحال میں اذان اقامت کہناچاہئے کیونکہ اذان واقامت کے بغیرنمازہی نہیں ہے ۔(۱)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : من ولدله مولودفلیو ذٔن فی اذنه الیمنی باذان الصلاة والیقم فی اذنه الیسری فانّهاعصمه من الشیطان الرجیم ۔(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:کسی بھی گھرمیں جب کوئی بچہ دنیامیں آئے تو اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے کیونکہ اس کے ذریعہ وہ بچہ شیطان رجیم کے شرسے محفوظ رہتاہے ۔

علی ابن مہزیارنے محمدابن راشدروایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام ابن ابراہیم اپنے بارے میں بتایاہے کہ میں امام علی رضا کی خدمت میں مشرف ہوئے اوراپنے مریض و بے اولادہونے کے بارے میں شکایت کی توامام(علیه السلام) نے مجھے حکم دیاکہ اے ہشام!تم اپنے گھرمیں بلندآوازسے اذان کہاکرو

ہشام کا بیان ہے کہ :میں نے امام (علیه السلام)کے فرمان کے مطابق عمل کیااورخداوندعالم نے اس عمل کی برکت سے مجھے اس بیماری سے شفابخشی اور کثیراولادعطا کی.

محمدابن راشدنے کہتے ہیں کہ :میں اورمیرے اہل خانہ اکثربیماررہتے تھے ،جیسے ہی میں نے ہشام سے امام (علیه السلام) کی یہ بات سنی تومیں نے بھی اس پرعمل کیاتوخداوندعالم نے مجھ اورمیرے عیال سے مریضی دورکردیا۔(۳)

امام علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں :جوشخص اذان واقامت کے ساتھ نمازپڑھتاہے ملائکہ کی دو صف اس کے پیچھے نمازپڑھتی ہیں کہ جن کے دونوں کنارے نظرنہیں آتے ہیں اورجوشخص فقط اقامت کے ساتھ نمازپڑھتاہے توایک فرشتہ اسکے پیچھے نمازپڑھتاہے ۔(۴)

____________________

.۱)استبصار/ج ١/ص ٣٠٠

. ٢)کافی /ج ۶/ص ٢۴

.۳) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ۵٩

.۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٨٧

۱۲۷

مفضل ابن عمرسے مروی ہے حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص واجب نمازوں کو اذان واقامت کے ساتھ انجام دیتا ہے ، ملا ئکہ کی دوصفیں اس کی افتداء کرتی ہیں اورجوشخص فقط اقامت کہہ کرنمازپڑھتاہے تو ملائکہ کی ایک صف اس کے پیچھے نماز پڑھتی ہے، میں نے پوچھا:اس کی مقدارکت نی ہے ؟ امام (علیه السلام) نے جواب دیا:اس مقدارحداقل مشرق ومغرب کے درمیان کی زمین ہے اورحداکثرزمین وآسمان کے درمیان ہے ۔(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی مسجدکی دیوارآدمی کے برابرتھی ،رسولخدابلال سے کہتے تھے :اے بلال!دیوارکے اوپرجاؤاورکھڑے ہوکر بلندآوازسے اذان کہوکیونکہ خداوندعالم نے ایک ہواکومعین کرکھاہے جواذان کی آوازکوآسمان تک پہنچاتی ہے اورجب ملائکہ اہل زمین سے اذان کی آوازسنتے ہیں توکہتے ہیں :یہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی امت کی آوازہے جوالله کی وحدانیت کانعرہ لگارہی ہے اوروہ فرشتے اللھسے امت محمدی کے لئے اس وقت تک استغفارکرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی نمازسے فارغ ہوتے ہیں۔(۲)

مو ذٔن کے فضائل

روایت میں ایاہے کہ شام سے شخص ایک امام حضرت امام صادق کی خدمت میں مشرف ہوا،آپ نے اس مرد شامی سے فرمایا : انّ اوّل من سبق الیٰ الجنة بلالٌ،قال:ولِمَ؟قال:لانّہ اوّل من اذّنَ۔ حضرت بلا ل وہ شخص ہیں جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہونگے اس نے پوچھا ! کسلئے ؟ آپ نے فرمایا : کیونکہ بلال وہ شخصہیں جنھوں نے سب سے پہلے اذان کہی ہے۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: مو ذٔن اذان واقامت کے درمیان اس شہیدکاحکم رکھتاہے جوراہ خدامیں اپنے خون میں غلطاں ہوتاہے پس حضرت علی سے آنحضرتسے عرض کیا:آپ نے اذان کہنے کی ات نی بڑی فضلیت بیان کردی ہے کہ مجھے خوف ہے کہ آ پ کی امت کے لوگ اس کام کے لئے ایک دوسرے پر شمشیر چلائیں گے (اور مو ذٔن بننے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہائیں گے)، آنحضرت نے فرمایا :وہ اس کام کوضعیفوں کے کاندھوں پررکھ دیں گے (اذان کہنا اتنا زیادہ ثواب و فضیلت رکھنے کے با وجود ضعیف لو گو ں کے علاوہ دوسرے حضرات اذان کہنے کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے)اورمو ذٔن کاگوشت وہ ہے کہ جسپر جہنم کی آگ حرام ہے جواسے ہرگزنہیں جلاسکتی ہے۔(۴)

____________________

۱). ثواب الاعمال/ص ٣٣

. ۲)کافی/ج ٣/ص ٣٠٧

۳)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢٨۴

. ۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/باب الاذان والاقامة/ص ٢٨٣

۱۲۸

جابرابن عبدالله سے مروی ہے کہ:رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے مو ذٔن کے لئے تین باردعاکی : بارالٰہا!مو ذٔن لوگوں کوبخش دے،جابرکہتے ہیں میں نے کہا:یارسول الله!اگرمو ذٔن کایہ مقام ہے توایسالگتاہے کہ اذان کہنے کے لئے لوگوں کے درمیان تلواریں چلاکریں گی ؟آنحضرت نے فرمایا:

اے جابر!ایک وقت ایسابھی آئے گا کہ اذان کاکام بوڑھوں کے کاندھوں پرڈال دیاجائے گا (اورجوان لوگ اذان کہنااپنے لئے عیب شمارکریں گے)اورسنو!کچھ گوشت ایسے ہیں جن پرآتش جہنم حرام ہے اوروہ مو ذٔن لوگوں کاگوشت ہے۔(۱)

قال علی علیه السلام:یحشرالمو ذٔنون یوم القیامة طوال الاعناق ۔ حضرت علی فرماتے ہیں:مو ذٔن لو گ روزقیامت سرافرازاورسربلندمحشورہونگے۔(۲)

ایک یہودی نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے مو ذٔن کی فضیلت کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:میری امت کے مو ذٔن روزقیامت کے دن انبیاء وصادقین اورشہداء کے ساتھ محشورہونگے۔(۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : خدا وندمتعال کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیرکسی حساب کے داخل بہشت کیا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص ٨٠ / ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا اور وہ تین شخص یہ ہیں:

١۔ مو ذّٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ جوشخص اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے۔(۴)

قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:من اذان فی مصرمن امصارالمسلمین وجبت لہ الجنة. رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص (اپنے )مسلمان بھائیوں کے کسی شہرمیں اذان کہے تواس پرجنت واجب ہے۔(۵)

____________________

. ۱)مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ٢٢

۲)بحارالانوار/ج ٨٣ /ص ١۴٩

.۳) الخصال/ص ٣۵۵

۴) مستدرک الوسائل/ج ١/ص ۴٨٨

۵). ثواب الاعمال/ص ٣١

۱۲۹

اذان واقامت کے راز

فضل بن شاذان نے اذان کی حکمت کے متعلق امام علی رضا سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے کہ جس میں امام (علیه السلام) فرماتے ہیں: خداوندتبارک وتعالیٰ کی جانب سے لوگوں کواذان کاحکم دئے جانے کے بارے میں بہت زیادہ علت وحکمت پائی جاتی ہیں،جن میں چندحکمت اس طرح سے ہیں :

١۔اذان، بھول جانے والوں کے لئے یاددہانی اورغافلوں کے لئے بیداری ہے ،وہ لوگ جونمازکا وقت پہنچنے سے بے خبررہتے ہیں اوروہ نہیں جانتے ہیں کہ نمازکاوقت پہنچ گیاہے یاکسی کام میں مشغول رہتے ہیں تووہ اذان کی آوازسن کروقت نمازسے آگاہ ہوجاتے ہیں،مو ذٔن اپنی اذان کے ذریعہ لوگوں کوپروردگاریکتاکی عبادت کی دعوت دیتاہے اوران میں عبادت خداکی ترغیب وتشویق پیداکرتاہے، توحیدباری تعالی کے اقرارکرنے سے اپنے مومن ومسلمان ہونے کااظہارکرتاہے ،غافل لوگوں کووقت نمازپہنچنے کی خبردیتاہے ۔

٢۔مو ذٔن کومو ذٔن اس لئے کہاجاتاہے کہ وہ اپنی اذان کے ذریعہ نمازکااعلان کرناہے

٣۔تکبیرکے ذریعہ اذان کاآغازکیاجاتاہے اس کے بعدتسبیح وتہلیل وتحمیدہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے پہلے تکبیرکوواجب کیاہے کیونکہ اس میں پہلے لفظ “الله” آیاہے اورخداوندعالم دوست رکھتاہے کہ اس کے نام ابتدا کی جائے اوراس کایہ مقصدتسبیح (سبحان الله)اورتحمید(الحمدلله)اورتہلیل (لاالہ الاالله)میں پورانہیں ہوتاہے ان کلمات کے شروع لفظ “الله”نہیں ہے بلکہ آخرمیں میں ہے ۔

۴ ۔اذان کے ہرکلمہ کودودومرتبہ کہاجاتاہے ،اس کی وجہ یہ ہے تاکہ سننے والوں کے کانوں میں اس کی تکرارہوجائے اورعمل میں تاکیدہوجائے تاکہ اگرپہلی مرتبہ سننے میںغفلت کرجائیں تودوسری مرتبہ میں غفلت نہ کرسکیں اوردوسری وجہ یہ ہے کیونکہ دودورکعتی لہذااذان کے کلمات بھی دودوقراردئے گئے ہیں۔

۵ ۔اذان کے شروع میں تکبیرکوچارمرتبہ قرادیاگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان بطورناگہانی شروع ہوتی ہے ،اس سے پہلے کوئی کلام نہیں ہوتاہے کہ جوسننے والوں کوآگاہ ومت نبہ کرسکے ،پس شروع میں پہلی دوتکبیرسامعین کومت نبہ وآگاہ کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں تاکہ سامعین بعدوالے کلمات کوسننے کے لئے آمادہ ہوجائیں

۱۳۰

۶ ۔تکبیرکے بعد“شہادتین”کومعین کئے جانے کی وجہ یہ ہے :کیونکہ ایمان دوچیزوں کے ذریعہ کامل ہوتاہے:

١۔ توحیداورخداوندعالم کی وحدانیت کااقرارکرنا۔

٢۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رسالت کی گواہی دیناکیونکہ خداورسول کی اطاعت اورمعرفت شناخت ایک دوسرے سے مقرون ہیں یعنی خداکی وحدانیت کی گواہی کے ساتھ اس کے رسول کی رسالت کی گواہی دیناضروری ہے کیونکہ شہادت اورگواہی اصل وحقیقت ایمان ہے اسی لئے دونوں کی شہاد ت دوشہادت قراردیاگیاہے یعنی خداکی واحدانیت کااقرابھی دومرتبہ ہوناچاہئے اوراس کے رسول کی رسالت کااقراربھی دومرتبہ ہوناچاہئے جس طرح بقیہ حقوق میں دوشاہدکے ضروری ہونے کو نظرمیں رکھاجاتاہے ،پس جیسے ہی بندہ خداوندعالم کی وحدانیت اوراس کے نبی کی رسالت کااعتراف کرتاہے توپورے ایمان کااقرارکرلیتاہے کیونکہ خدااوراس کے رسول کااقرارکرنااصل وحقیقت ایمان ہے ۔

٧۔پہلے خداورسول کا اقرارکیاجاتاہے اس کے بعدلوگوں نمازکی طرف دعوت دی جاتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے:حقیقت میں اذان کونمازکے لئے جعل وتشریع کیاگیاہے کیونکہ اذان کے معنی یہ ہیں کہ مخلوق کونمازکی طرف دعوت دینا،اسی لئے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کواذان کے درمیان میں قرار دیاگیاہے یعنی چارکلمے اس سے پہلے ہیں اورچارکلمے اس کے بعدہیں،دعوت نمازسے پہلے کے چارکلمے یہ ہیں: دوتکبیراوردوشہادت واقرار،اوردعو ت نمازکے بعدکے چارکلمے یہ ہیں:لوگوں کوفلاح وکامیابی کی طرف دعوت دینااوراس کے بعد بہترین عمل کی طرف دعوت دیناتاکہ لوگوں میں نمازپڑھنے کی رغبت پیداہو،اس کے بعدمو ذٔن ندائے تکبیربلندکرتاہے اوراس کے بعدندائے تہلیل(لاالہ الاالله)کرتاہے،پس جس طرح دعوت نماز( حیّ علی الصلاة)سے پہلے چارکلمے کہے جاتے ہیں اسی طرح اس کے بعدبھی چارکلمے ہیں اورجس طرح مو ذٔن ذکروحمدباری تعالیٰ سے اذان کاآغازکرتاہے اسی طرح حمدوذکرباری پرختم کرتاہے ۔

٨۔اگرکوئی یہ کہے کہ :اذان کے آخرمیں تہلیل(لاالہ الاالله) کوکیوں قرادیاگیاہے اورجس طرح اذان کے شروع میں تکبیرکورکھاگیاتھاتوآخرمیں کیوں نہیں رکھاگیاہے ؟ اذان کے آخرمیں تہلیل (لاالہ الالله) کوقراردیاگیاتکبیرکونہیں اورشروع میں تکبیرکورکھاگیاہے تہلیل کونہیں،اس کی وجہ ہے کہ: خداوندعالم یہ چاہتاہے کہ آغازاورانجام اس کے نام وذکر سے ہوناچاہئے، تکبیرکے شروع میں لفظ “الله”ہے اورتہلیل کے آخرمیں بھی لفظ “الله ”ہے پس اذان کاپہلالفظ بھی “الله”ہے اورآخری لفظ بھی اسی لئے اذان کے شروع میں تکبیرکواورآخرمیں تہلیل کوقراردیاگیاہے ۔(۱)

____________________

.۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٢۵٨

۱۳۱

حضرت امام حسین فرماتے ہیں کہ: ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مسجدکی مینارسے مو ذٔن کی آوازبلندہوئی اوراس نے “ الله اَکبَر،اَللهُ اَ کبَر” کہا تو امیرالمو منین علی ابن ابی طالب اذان کی آواز سنتے ہی گریہ کرنے لگے ، انھیں روتے ہوئے دیکھ کر ہماری بھی آنکھوں میں آنسوں اگئے ،جیسے ہی مو ذٔن نے اذان تمام کی توامام (علیه السلام) ہمارے جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا :کیا تم جانتے ہو کہ مو ذٔن اذان میں کیاکہتا ہے اوراس کاہرکلمہ سے کیارازاورمقصدہوتاہے؟ ہم نے عرض کیا : الله اور اس کے رسول اوروصی پیغمبر ہم سے بہتر جانتے ہیں،پسآپ(علیه السلام) نے فرمایا :

لوتعلمون مایقول:لضحکتم قلیلاوَلِبَکَیْتم کثراً ۔ اگر تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ مو ذٔن اذان میں کیا کہتا ہے توپھر زندگی بھر کم ہنسیں گے اور زیادہ روئیں گے ، اس کے بعد مولا ئے کا ئنات اذان کی تفسیراوراس کے رازواسراربیا ن کرنے میں مشغول ہوگئے اورفرمایا:

”اَللّٰہُ اَکْبَر“

اس کے معنی بہت زیادہ ہوتے ہیں جن میں چندمعنی یہ بھی ہیں کہ جب مو ذٔن “الله اکبر” کہتاہے تووہ خداوندمتعا ل کے قدیم ، موجودازلی وابدی ، عالم ،قوی ، قادر،حلیم وکریم، صاحب جودوعطا اورکبریا ہونے کی خبردیتاہے لہٰذاجب مو ذٔن پہلی مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں:

خداوہ ہے کہ جوامروخلق کامالک ہے ،تمام امروخلق اس کے اختیارمیں ہیں ہرچیزاس کی مرضی وارادہ سے وجودمیں اتی ہے اوراسی کی طرف بازگشت کرتی ہے، خداوہ ہے کہ جوہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا،جوہرچیزے سے پہلے بھی تھااورہرچیزکے فناہوجانے کے بعدبھی رہے گا،اس کے علاوہ دنیاکی تمام چیزوں کے لئے فناہے وہ ہرچیزسے پہلے بھی تھااورہرچیزکے بعد بھی رہے گا، وہ ایساظاہرہے کہ جوہرشے پٔرفوقیت رکھتاہے اورکوئی اسے درک نہیں کرسکتاہے ،وہ باطن ہرشے ہے کہ جونہیں رکھتاہے پس وہ باقی ہے اوراس کے علاوہ ہرشئ کے لئے فناہے ۔

جب موذن دوسری مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواسکے یہ معنی ہوتے ہیں: العلیم الخبیر ، علم بماکان ویکون قبل ان یکون یعنی خداوندعالم ہرچیزکاعلم وآگاہی رکھتاہے ،وہ ہراس چیزکاجوپہلے ہوچکی ہے اورجوکام پہلے ہوچکاہےپہلے سے علم رکھتاتھااورجوکچھ آئندہ ہونے والاہے یاوجودمیں انے والاہے اس کابھی پہلے ہی علم رکھتاہے ۔

۱۳۲

جب تیسری مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواسکے یہ معنی ہیں: القادرعلی کل شئیقدرعلی مایشاء ،القوی لقدرتہ،المقتدرعلی خلقہ، القوی لذاتہ، قدرتہ قائمة علی اشیاء کلّہا،( اِذَاقَضٰی ا مْٔرًافَاِنَّمَایَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ ) ۔ خداوہ ہے کہ جوہرشے پٔراختیاروقدرت رکھتاہے ،وہ اپنی قدرتے بل بوتے پرسب سے قوی ہے ، وہ اپنے مخلوق پرصاحب قدرت ہے ،وہ بذات خودقوی ہے اوریہ قدرت اسے کسی عطانہیں ہے ،اس قدرت تمام پرمحکم وقائم ہے ،وہ جب چاہے کسی امرکاحکم دے سکتاہے اورجیسے ہی وہ کسی امرکافیصلہ کرتاہے اوراس کے ہونے ارادہ کرتاہے تووہ صرف “کُن ”یعنی ہوجاکہتاہے اوروہ چیزہوجاتی ہے۔

جب چوتھی مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے توگویاوہ یہ کہتاہے: خداوندعالم حلیم وبردبارہے اوربڑا کرامت والاہے ،وہ ایسااس طرح مددوہمراہی کرتاہے کہ انسان کواس کی جبربھی نہیں ہوتی ہے اورنہ وہ دکھائی دیتاہے ،وہ عیوب اس طرح چھپاتاہے کہ انسان اپنے آپ کوبے گناہ محسوس کرتاہے ،وہ اپنے حلم وکرم اورصفاحت کی بناپرجلدی سے عذاب بھی نازل نہیں کرتاہے۔ ” الله اکبر”کے ایک معنی بھی ہیں کہ خداوندعالم مہربان ہے ،عطاوبخشش کرنے والاہے اورنہایت کریم ہے ۔

” الله اکبر”کے ایک معنی بھی ہیں کہ خداوندعالم جلیل ہے اور جن صفات کامالک ہے صفت بیان کرنے والے بھی اس موصوف کامل صفت بیان نہیں کرسکتے ہیں اوراس کی عظمت وجلالت کی قدرکوبھی بیان نہیں کرسکتے ہیں،خداوندعالم علووکبیرہے ،صفت بیان کرنے صفات کے بیان کرنے بھی اسے درک نہیں کرسکتے ہیں پس مو ذٔن “الله اکبر”کے ذریعہ یہ بیان کرتاہے :

الله اعلیٰ وجل ، وھوالغنی عن عبادہ ، لاحاجة بہ الی اعمال خلقہ خداوندعالم اعلیٰ واجلّ ہے،سب سے بلندوبرترہے ، وہ اپنے بندوں سے بے نیازہے ،وہ بندوں کی عبادت سے بے نیاز ہے ( وہ اس چیزکامحتاج نہیں ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں ،کوئی اس کی عبادت کرے وہ جب بھی خداہے اورکوئی اس کی نہ کرے وہ تب بھی خداہے ،ہماری عبادتوں سے اس کی خدائی میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی ہے اورعبادت نہ کرنے سے اس کی خدائی میں کوئی کمی نہیں آسکتی ہے )۔

۱۳۳

”اشھدان لا ا لٰہ اٰلاّالله“

جب پہلی مرتبہ اس کلمہ شہادت کوزبان پرجاری کرتاہے تواس چیزکااعلان کرتاہے کہ پر وردگا ر کے یکتا ویگا نہ ہونے کی گواہی دل سے معرفت وشناخت کے ساتھ ہونی چا ہئے دوسرے الفاظ میں یہ کہاجائے کہ مو ذٔن یہ کہتاہے کہ: میں یہ جانتاہوں کہ خدا ئے عزوجل کے علاوہ کوئی بھی ذات لائق عبادت نہیں ہے اور الله تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی بھی چیزکومعبودومسجودکے درجہ دیناحرام اورباطل ہے اورمیں اپنی اس زبان سے اقرارکرتاہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اوراس چیزکی گواہی دیتاہوں کہ الله کے علاوہ میری کوئی پناگاہ نہیں ہے اورالله کے علاوہ کوئی بھی ذات ہمیں شریرکے شرسے اورفت نہ گرکے فت نہ سے نجات دینے والانہیں ہے ۔

جب دوسری مرتبہ “اشھدان لاالٰہ الاّالله”کہتاہے تواس کی معنی اورمرادیہ ہوتے ہیں : میں گواہی دیتاہوں کہ خدا کے علاوہ کو ئی ہدا یت کر نے والا موجود نہیں ہے اوراس کے کوئی راہنمانہیں ہے ،میں الله کوشاہدقراردیتاہوں کہ اس کے علاوہ میراکوئی معبودنہیں ہے ،میں گواہی دیتاہوں کہ تمام زمین وآسمان اورجت نے بھی ان انس وملک ان میں رہتے ہیں اوران میں تمام پہاڑ، درخت ،چوپایہ ،جانور،درندے ،اورتمام خشک وترچیزیں ان سب کاالله کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے ،اورالله کے علاوہ نہ کوئی رازق ہے اورنہ کوئی معبود،نہ کوئی نفع پہنچانے والاہے اورنہ نقصان پہنچانے والا،نہ کوئی قابض ہے نہ کوئی باسط،نہ کوئی معطی ہے اورنہ کوئی مانع ،نہ کوئی دافع ہے اورنہ کوئی ناصح ،نہ کوئی کافی ہے اورنہ کوئی شافی ،نہ کوئی مقدم ہے اورنہ کوئی مو خٔر،بس پروردگارہی صاحب امروخلق ہے اورتمام چیزوں کی بھلائی الله تبارک وتعالیٰ کے اختیارمیں ہے جودونوں جہاں کارب ہے ۔

” اشھدان محمدًا رسول الله“

جب مو ذٔن پہلی مرتبہ اس کلمہ کوزبان پرجاری کرتاہے تواس چیزکااعلان کرتاہے کہ :میں الله کوشاہدقراردیتاہوں گواہی دیتاہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اورحضرت محمد (صلی الله علیه و آله) اس کے بندے اور اس کے رسول وپیامبر ہیں اورصفی ونجیب خداہیں،کہ جنھیں الله تبارک وتعالیٰ نے تمام لوگوں کی ہدایت کے دنیامیں بھیجاہے ،انھیں دین حق دیاہے تاکہ اسے تمام ادیان پرآشکارکریں خواہ مشرکین اس دین کوپسندنہ کریں ،اورمیں زمین وآسمان میں تمام انبیاء ومرسلین ا ورتمام انس وملک کوشاہدقراردیتاہوں کہ میں یہ گواہی دے رہاہوں کہ حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)سیدالاولین والآخرین ہیں۔

۱۳۴

جب مو ذٔن دوسری مرتبہ کلمہ“ اشھدان محمدًا رسول الله ” کوزبان جاری کرتاہے تووہ یہ کہتاہے کہ کسی کوکسی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سب کوالله کی ضرورت ہے، وہ خداکہ جوواحدو قہارہے اوراپنے کسی بندے بلکہ پوری مخلوق میں کسی کامحتاج نہیں ہے ،خداوہ ہے کہ جس نے لوگوں کے درمیان ان کی ہدایت اور تبلیغ وترویج دین اسلام کے لئے حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)بشیرونذیراورروشن چراغ بنا کر بھیجا ہے، اب تم میں جو شخص بھی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اوران کی نبوت ورسالت کاانکا ر کرے اور آنحضرتپرنازل کتاب (قرآن مجید) پر ایمان نہ لائے توخدا ئے عزّوجل اسے ہمیشہ کے لئے واصل جہنم کردے گا اور وہ ہرگزناراپنے آپ کونارجہنم سے نجات دلاسکے

”حیّ علیْ الصلا ة“

جب پہلی مرتبہ اس کلمہ کوزبان کہتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :اے لوگو! اٹھو اور بہتر ین عمل (نماز) کی طرف دوڈو اور اپنے پرور دگا ر کی دعوت کو قبول کرو اور اپنی نجش کی خاطراپنے رب کی بارگاہ میں جلدی پہنچو،اے لوگو! اٹھواور وہ آگ جوتم نے گناہوں کو انجام دینے کی وجہ سے اپنے پیچھے لگائی ہے اسے نماز کے ذریعہ خاموش کرو،اوراپنے آپ کوگناہوں سے جلدی آزادکراؤ، صرف خداوندعالم تمھیں برائیوں سے پاک کر سکتاہے ،وہی تمھارے گناہوں کومعاف کرسکتاہے ،وہی تمھاری برائیوں کونیکیوں سے بدل سکتاہے کیونکہ وہ بادشاہ کریم ہے ،صاحب فضل وعظیم ہے ۔

جب دوسری مرتبہ “ حیّ علیْ الصلا ة ” کہتاہے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں:اے لوگو!اپنے رب سے مناجات کے لئے اٹھواوراپنی حاجتوں کواپنے رب کی بارگاہ میں بیان کرو،اپنی باتوں کواس تک پہنچاؤاوراس سے شفاعت طلب کرو،اس کاکثرت سے ذکرکرو،دعائیں مانگواورخضوع وخشوع کے ساتھ رکوع وسجودکرو۔

۱۳۵

”حیّ علیْ الفلاح“

جب مو ذٔن پہلی مرتبہ اس کلمہ کوکہتاہے تووہ لوگوں سے یہ کہتا ہے : اے الله کے بندو !راہ بقا کی طرف آجاؤ کیونکہ اس راستے میں فنانہیں ہے اوراے لوگو!راہ نجات کی طرف آجاؤ کیونکہ اس راہ میں کوئی ہلا کت وگمرا ہی نہیں ہے ،اے لوگو!راہ زندگانی کی طرف آنے میں جلدی کروکیونکہ اس راہ میں کوئی موت نہیں ہے، اے لوگو! صاحب نعمت کے پاس آجاؤکیونکہ اس کی نعمت ختم ہونے والی نہیں ہے ،اس بادشاہ کے پاس آجاؤکہ جس کی حکومت ابدی ہے جوکبھی ختم نہیں ہوسکتی ہے ،خوشحالی کی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی رنج وغم نہیں ہے ،نورکی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی تاریکی نہیں ہے ،بے نیازکی طرف آؤکہ جس کے ساتھ فقرنہیں ہے ،صحت کی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی مریضی نہیں ہے ،قوت کے پاس آؤکہ جس کے ساتھ کوئی ضعف نہیں ہے اوردنیاوآخرت کی خوشحالی کی طرف قدم بڑھاؤاورنجات آخرت کاسامان کرو۔

جب دوسری “حیّ علیْ الفلاح ”کہتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :اے لوگو!آؤاوراپنے آپ کو خدا سے قریب کرو اورجس چیزکی تمھیں دعوت دی گئی ہے اس کی طرف چلنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو اور فلاح ورستگاری کے ساتھ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)(اورائمہ اطہار )کے قرب وجوارجگہ حاصل کرو ۔

”الله اکبر“

جب مو ذٔن اذان کے آخرمیں پہلی مرتبہ “ الله اکبر ” کہتاہے تووہ یہ جملہ کہہ کر اس بات کا اعلا ن کرتا ہے کہ ذا ت پروردگار اس سے کہیںزیادہبلند وبرتر ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی یہ جانے اس کے پاس اپنے اس بندے کے لئے کیاکیانعمت وکرامتیں ہیں جو اس کی دعوت پرلبیک کہتاہے ،اس کی پیروی کرتاہے،اس کے ہرامرکی اطاعت کرتاہے ،اس کی معرفت پیداکرتاہے ،اس کی بندگی کرتاہے ،اس کا ذکرکرتاہے ،اس سے انس ومحبت کرتاہے ،اسے اپنی پناگاہ قراردیتاہے ،اس پراطمینان کامل رکھتاہے ،اپنے دل میں اس کاخوف پیداکرتاہے اوراس کی مرضی پرراضی رہتاہے تو خدا ومتعال اس پراپنا رحم وکرم نازل کرتا ہے۔ جب مو ذٔن اذان کے آخرمیں دوسری مرتبہ “ الله اکبر ” کہتاہے تووہ اس کلمہ کے ذریعہ اس بات کااعلان کرتا ہے کہ ذا ت پروردگار اس سے کہیںزیادہ بلند وبرتر ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی یہ جانے اس کے پاس اپنے اپنے اولیاء اوردوستوں کے لئے کس مقدارمیں کرامتیں موجودہیں اور اپنے دشمنوں کے لئے اس کے پاس کت ناعذاب وعقوبت ہے ،جواس کی اس کے رسول کی دعوت پرلبیک کہتاہے اورحکم خداورسول کی اطاعت کرتاہے ان کے لئے اس کی عفووبخشش کت نی ہے اورکت نی نعمتیں ہیں اورشخص اس کے اوراس کے رسول کے حکم کوماننے سے انکارکرتاہے اس کے لئے کت نابڑاعذاب ہے ۔

۱۳۶

” لَااِلٰہ اِلّاالله“

جب مو ذٔن “لَااِلٰه اِلّاالله ” کہتاہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں:خدا وند عالم لوگو ں کے لئے رسول ورسالت اوردعوت وبیان کے ذریعہ ایک دلیل قاطع ہے کیونکہ اسنے لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول ورسالت کابہترین انتظام کیاہے ،پس جواس کی دعوت پرلبیک کہتاہے اس کے لئے نوروکرامت ہے اورجوانکارکرتاہے چونکہ خداوندعالم دوجہاں سے بے نیازہے لہٰذااس کاحساب کرنے میں بہت جلدی کرتاہے ۔

”قدقامت الصلاة“

جب بندہ نمازکے لئے اقامت کہتاہے اوراس میں “ قدقامت الصلاة ”کہتاہے تواس کے یہ معنی ہیں:

حان وقت الزیارة والمناجاة ، وقضاء الحوائج ، ودرک المنی والوصول الی الله عزوجل والی کرامة وغفرانه وعفوه ورضوانه

یعنی پروردگارسے مناجاتاوراس سے ملاقات کرنے ،حاجتوں کے پوراہونے ،آرزو ںٔ کے پہنچنے ،بخشش،کرامت ،خوشنودی حاصل کرنے کاوقت پہنچ گیاہے ۔ شیخ صدوق اس روایت کے بعدلکھتے ہیں: اس حدیث کے راوی نے تقیہّ میں رہنے کی وجہ سے جملہ “حیّ علیٰ خیرالعمل ” کا ذکر نہیں کیا ہے کہ حضرت علینے اس جملہ کیاتفسیرکی ہے لیکن اس جملہ کے بارے میں دوسری حدیثوں میں آیاہے:

روی فی خبرآخر:انّ الصادق علیه االسلام عن “حی علی خیرالعمل” فقال:خیرالعمل الولایة، وفی خبرآخرخیرالعمل بر فاطمة وولدها علیهم السلام.

روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام صادق سے“حیّ علیٰ خیرالعمل”کے بارے میں سوال کیا گیا ، حضرت نے فرمایا : “حیّ علیٰ خیرالعمل”یعنی ولایت اہل بیت ۔ اور دوسری روایت میں لکھا ہے :“حیّ علیٰ خیرالعمل”یعنی حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے فرزندں کی نیکیوںطرف آؤ۔(۱)

____________________

۱). نوحید(شیخ صدوق)/ ص ٢٣٨ .۔معانی لاخبار /ص ۴١ ۔بحارالانوار/. ٨١ /ص ١٣١

۱۳۷

عن محمدبن مروان عن ابی جعفرعلیه السلام قال:ا تٔدری ماتفسیر“حی علی خیرالعمل” قال:قلت لا، قال:دعاک الی البر، ا تٔدری برّمن؟قلت لا، قال:دعاک الی برّفاطمة وولدها علیهم السلام.

محمدابن مروان سے مروی ہے کہ امام محمدباقر نے مجھ سے فرمایا:کیاتم جانتے ہوکہ “حی علی خیرالعمل ”کے کیامعنی ہیں؟میں نے عرض کیا:نہیں اے فرزندرسول خدا،آپ نے فرمایا: مو ذٔن تمھیں خیرونیکی کی طرف دعوت دیتاہے ،کیاتم جانتے ہووہ خیرنیکی کیاہے؟میں نے عرض کیا: نہیں اے فرزندرسول خدا ، توامام (علیه السلام) نے فرمایا:وہ تمھیں حضرت فاطمہ زہرا اوران کی اولاداطہار کے ساتھ خیرونیکی کاحکم دیتاہے۔(۱)

بلال کومو ذٔن قراردینے کی وجہ

اذان واقامت میں شرط یہ ہے کہ مو ذٔن وقت شناس ہواورنمازکاوقت شروع ہونے کے بعداذان واقامت کہے ،وقت داخل ہونے سے پہلے کہی جانے والی اذان واقامت کافی نہیں ہے، اگروقت سے پہلے کہہ بھی دی جائے تووقت پہنچنے کے بعددوبارہ کہاجائے ،بلال وقت شناس تھے ،اورکبھی وقت سے پہلے اذان نہیں کہتے تھے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بلال کی اذان وآوازکودوست رکھے اسی لئے بلال کوحکم دیاکرتے تھے اورکہتے تھے: اے بلال!جیسے نمازکاوقت شروع ہوجائے تو مسجدکی دیوارپرجاؤاوربلندآوازسے اذان کہو۔

ایک اورروایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس دومو ذٔن تھے ایک بلال اوردوسرے ابن ام مکتوم ،ابن ام مکتوم نابیناتھے جوصبح ہونے سے پہلے ہی اذان کہہ دیاکرتے تھے اورحضرت بلال طلوع فجرکے وقت اذان کہاکرتے تھے ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:

ان ابن مکتوم یو ذٔن بلیل، اذاسمعتم اذانه فکلواواشربواحتی تسمعوااذان بلال

. ابن مکتوم رات میں اذان کہتے ہیں لہٰذاجب تم ان کی اذان سنو تو کھانا پینا کیا کرو یہاں تک کہ تمھیں بلال کی اذان کی آوازآئے (لیکن اہل سنت نے پیغمبر کی اس حدیث کوپلٹ دیاہے اورکہتے ہیں کہ بلال رات میں اذان دیاکرتے تھے،اورکہتے ہیں:نبی نے فرمایاہے کہ: جب بلال کی اذان سنوتوکھاناپیناکرو)(۲)

____________________

۱). علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۶٨

۲)من لایجضرہ الفقیہ/ج ١/ص/ ٢٩٧

۱۳۸

مو ذٔن کے مرد،مسلمان اورعاقل ہونے کی وجہ

اذان واقامت کہنے والے کامردہوناچاہئے اورکسی عورت کااذان واقامت کہناصحیح نہیں ہے کیونکہ مردوں کاعورت کی اذان واقامت پراکتفاکرناصحیح نہیں ہے لیکن عورت کاعورتوں کی جماعت کے لئے اذان واقامت ذان جماعت کہناصحیح اورکافی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اذان واقامت کہنے والی عورت آوازات نی بلندرہے کہ اس کی آوازمردوں کے کانوں تک نہ پہنچے کیونکہ عورتوں کواپنی آوازکوبھی پرودہ میں رکھناچاہئے اسی لئے عورت عورت کوچاہئے کہ جہری نمازوں اگرنامحرم آوازکوسن رہاہوتوآہستہ پڑھے جیساکہ ہم رازجہرواخفات میں ذکرکریں گے۔

زاراہ سے مروی ہے کہ میں نے امام باقر سے پوچھا:کیاعورتوں کوبھی اذان کہناچاہئے ) ؟امام(علیه السلام) (علیه السلام)نے فرمایا:ان کے لئے شہادتین کہناہی کافی ہے ۔(۱)

قال الصادق علیه السلام:لیسعلی النساء ا ذٔان ولااقامة ولاجمعة ولاجماعة. امام صادق فرماتے ہیں:عورتوں کے لئے نہ اذان ہے نہ اقامت ،اورنہ جمعہ ہے نہ جماعت۔(۲)

مو ذٔن کے لئے ضروری ہے کہ عاقل وباایمان ہواگرکوئی مجنون یاغیرمومن اذان یااقامت کہے تووہ قبول نہیں ہے کیونکہ قلم تکلیف اٹھالیاگیاہے البتہ مو ذٔن کابالغ ہوناشرط نہیں ہے بلکہ نابالغ بچہ کی اذان واقامت صحیح ہے جبکہ وہ بچہ ممیزہو۔

اذان کے کلمات کی تکرارکرنے کومستحب قراردئے جانے کی وجہ

جولوگ اذان کی آوازکوسن رہے ہیں ان کے لئے مستحب ہے کہ جب مو ذٔن اذان کہہ رہاہوتو اس وقت خاموش رہیں اور اذان کے کلمات کوغورسے سنیں اورمو ذٔن کی زبان سے اداہونے والے کلموں کی تکرارکریں،یہاں تک اگرانسان بیت الخلامیں بھی اذان کی آوازسنے تواس کی تکرارکرے

قال ابوعبدالله علیه السلام :ان سمعت الاذان وانت علی الخلاء فقل مثل مایقول المو ذٔن ولاتدع ذکراالله عزوجل فی تلک الحال .

امام صادق فرماتے ہیں:اگرتم بیت الخلامیں ہواوراذان کی آوازسنوتومو ذٔن کے کلمات کی تکرارکرواوراس حال میں ذکرخداسے غفلت نہ کرو۔(۳)

____________________

۱)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ۵٨

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٩٨

۳). علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨۴

۱۳۹

سلیمان ابن مقبل مدائنی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام موسی کاظمسے پوچھا: حدیث میں آیاہے :مستحب ہے کہ جب مو ذٔن اذان کہے تو اذان سننے والا اذان کے کلموں کی تکرارکرے خواہ اذان کوسننے والابیت الخلامیں ہی کیوں نہ بیٹھاہو ،اس کے مستحب ہونے کی کیاوجہ ہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:

انّ ذلک یزیدفی الرزق

کیونکہ اذان کے کلموں کی حکایت اورتکرارکرنے سے رزق وروزی میں اضافہ ہوتاہے ۔(۱)

ایک شخص حضرت امام جعفرصادق کی خدمت میں آیاکہا:اے میرے مولامیں بہت ہی غریب ہوں اپ مجھے کوئی ایساچیز بتائیں کہ جس سے میری یہ فقیری ختم ہوجائے ،امام (علیه السلام)نے اس فرمایا :

ا ذِّٔنْ کُلّماسمعت الاذان کمایو ذّٔن المو ذّٔن ۔

جب بھی تم اذان کی آوازسنوتو اسے مو ذٔن کی طرح تکرارکرو(۲)

اذان واقامت کانقطہ آٔغاز

اذان واقامت کہ جس کی اہمیت اوراس کے فضائل وفوائد اوراس کے احکام کے متعلق آپ نے ات نی زیادہ نے ملاحظہ فرمائیں ان چیزوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس نقطہ آٔغازوحی الٰہی ہے ،تمام علماء وفقہائے شیعہ اثناعشری کااس بات اتفاق وعقیدہ ہے کہ دین اسلام میں اذان واقامت کاآغازوحی الٰہی کے ذریعہ ہواہے کیونکہ ہمارے پاس کے بارے میں معتبرروایتیں موجودہیں جواس چیزکوبیان کرتی ہیں کہ اذان اقامت کاآغازاورمشروعیت وحی کے ذریعہ ہوئی ہے لیکن علمائے اہل سنت اکثریت اس بات پرعقیدہ رکھتی ہے کہ اذان واقامت کاعبدالله ابن زیدکے خواب کے ذریعہ ہواہے جسے حدیث رو یٔاکانام دیاگیاہے اورکہتے ہیں کہ اذان واقامت کے متعلق الله کی طرف کوئی نازل نہیں ہوئی ہے۔

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣/باب الاذان والاقامة. بحارالانوار/ج ٨۴ /ص ١٧۴

.۲) مکارم الاخلاق /ص ٣۴٨

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370