نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 145067
ڈاؤنلوڈ: 2580

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145067 / ڈاؤنلوڈ: 2580
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

وہ احادیث جووحی کواذان واقامت کے نقطہ آغازقراردیتی ہیں:

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:لما اسری برسول الله صلی الله علیه وآله وسلم الی السماء فبلغ البیت المعموروحضرت الصلاة فاذّن جبرئیل علیه السلام واقام فتقدم صلی الله علیه وآله وسلم وصف الملائکة والنبیون خلف محمدصلی الله علیه وآله وسلم ۔(۱)

حضرت امام باقرفرماتے ہیں:جب شب معراج پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کو آسمان کی سیرکرائی گئی اوربیت المعمورمیں پہنچے ،جب وہاں نمازکاوقت پہنچاتوالله کی طرف سے جبرئیل امین (علیه السلام)نازل ہوئے اوراذان واقامت کہی ،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازجماعت کے لئے آگے کھڑے ہوئے اورانبیاء وملائکہ نے حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کے پیچھے صف میں کھڑ ے ہوکرجماعت سے نمازپڑھی ۔

زرارہ اورفضیل ابن یسارنے امام محمدباقر سے روایت کی ہے جسمیں آپ فرماتے ہیں: جب شب معراج نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کو آسمان کی سیرکرائی گئی اوربیت المعمورمیں پہنچے اورنمازکاوقت پہنچاتوالله کی طرف سے جبرئیل امین (علیه السلام)نازل ہوئے اوراذان واقامت کہی ،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازجماعت کے لئے آگے کھڑے ہوئے اورانبیاء وملائکہ نے آنحضرتکے پیچھے جماعت سے نمازپڑھی ،ہم نے امام باقر سے پوچھا:جبرئیل نے کس طرح اذان واقامت کہی؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا:اس طرح سے:الله اکبر،الله اکبر،ا شٔهدان لااله الّاالله ،ا شٔهدان لااله الّاالله ، اشهدانّ محمدارسول الله ، اشهدانّ محمدارسول الله ،حیّ علی الصلاح، حیّ علی الصلاح،حیّ علی الفلاح،حیّ علی الفلاح،حیّ علی خیرالعمل ،حیّ علی خیرالعمل ، الله اکبر،الله اکبر،لااله الّاالله،لااله الّاالله ۔

اوراقامت بھی اذان کی طرح کہی بس ات نے فرق کے ساتھ کہ“حیّ علی خیرالعمل ” اور“الله اکبر”کے درمیان “قدقامت الصلاة ،قدقامت الصلاة ” کہا۔ امام صادق فرماتے ہیں کہ:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے بلال / کو اذان کی تعلیم دی اور پیغمبرکے زمانہ میں اسی طرح اذان ہوتی رہی یہاں تک کہ آنحضرت اس دنیاسے ) رخصت ہوگئے ۔(۲)

____________________

۱) کافی (باب بدء الاذان والاقامة)۔ من لایحضرہ الفقیہ(باب الاذان الاقامة) (استبصار/ج ١(عدد فصول الاذان والاقامة)/ص ٣٠۵ ۔ تہذیب /ج ١(باب عددفصول الاذان والاقامة)/ص ۶٠

۲) استبصار/ج ١/ص ٣٠۵ ۔ تہذیب /ج ١/ص ۶٠

۱۴۱

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:لماهبط جبرئیل علیه السلام بالاذان علیٰ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کان راسه فی حجرعلی علیه السلام فاذن جبرئیل واقام فلما انبته رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال:یاعلی سمعت ؟قال:نعم ،قال حفظت ؟قال:نعم ،قال:ادع لی بلالاًنعلمه فدعاعلی علیه السلام بلالاًفعلمه ۔(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:جس وقت جبرئیل اذان لے کر نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پرنازل ہوئے تواس وقت آنحضرت (کعبہ کے سایہ میں)امام علی (علیه السلام)کے زانوئے اقدس پرسر پررکھے ہوئے آرام کررہے تھے ،جبرئیلنے اذان واقامت کہی ،جیسے رسول الله (صلی الله علیه و آله)بیدارہوئے اورکہا:یاعلی(علیه السلام)!جبرئیل نے جوکچھ مجھ سے کہاکیاوہ سب کچھ تم نے بھی سناہے؟حضرت علینے جواب دیا:جی ہاں،آنحضرت نے کہا:کیااسے حفظ کیا؟ فرمایا:جی ہاں،اس کے بعدآنحضرت نے کہا:اے علی (علیه السلام)!بلال کوبلاؤاورانھیں اس کی تعلیم دو،امام علی نے بلال کوبلایااورانھیں اذان کی تعلیم دی۔ وہ اذان واقامت جوجبرئیل نے شب معراج کہی تھی خودنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے لئے کہی تھی لیکن جب دوسری مرتبہ اذان واقامت لے کرنازل ہوئے تووہ لوگوں تک پہچانے اوراسے شرعی قراردینے کے لئے لے کرنازل ہوئے ۔

احادیث اہل سنت

علمائے اہل سنت والجماعت کی کتابوں میں ایسی احادیث موجودہیں جواس بات کوبیان کرتی ہیں کہ اذان واقامت کاآغازوحی پروردگارکے ذریعہ ہواہے اورحدیث رؤیاکوباطل اوربے بنیادقراردیتی ہیں شہاب الدین ابن حجرعسقلانی “فتح الباری ”میں لکھتے ہیں:انّ الاذان شرع بمکة قبل الهجرة

ہجرت سے پہلے مکہ میں اذان کا شرعی طورسے حکم نازل ہوچکاتھاکیونکہ طبرانی نے سالم ابن عبدالله ابن عمرنے اپنے والدسے یہ روایت نقل کی ہے:لما اسری بالنبی صلی الله علیه وسلم اوحی الله الیه الاذان فنزل به فعلمه بلالا .

جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے تو خداوندعالم نے ان پروحی کے ) ذریعہ اذان نازل کی اورآنحضرت (زمین پر)اذان لے کرنازل ہوئے اوراس کی بلال کوتعلیم دی ۔(۲) عن انس :انّ جبرئیل اَمَرَالنّبی صلّی الله علیه وسلم بِالاذانِ حین فُرِضَتْ الصّلاةُ .(۳) انس سے مروی ہے:جب نمازواجب ہوئی توجبرئیل نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کواذان کاحکم دیا۔

____________________

١)کافی (باب بدء الاذان والاقامة)ج ٣/ص ٣٠٢ ۔من لایحضرہ الفقیہ(باب الاذان والاقامة)/ج ١/ص ٢٨١

. ۲)فتح الباری شرح بخاری /ج ٢//ص ۶٢

. ۳)فتح الباری شرح بخاری /ج ٢//ص ۶٢ )

۱۴۲

عن عائشة:لما اُسری بی اذّن جبرئیل فظنّت الملائکة انّه یصلّی بهم فقدّمَنِی فَصَلّیْتُ .(۱)

عائشہ سے روایت ہے کہ:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایاہے :جب مجھے معراج پرلے جایاگیاتووہاں جبرئیل (علیه السلام)نے نمازکے لئے اذان کہی توملائکہ نے گمان کیاکہ پیغمبر ہمارے ساتھ نمازپڑھناچاہتے ہیں لیکن انھوں نے مجھے آگے کیا،پھرمیں نے نمازپڑھی ۔

بزازنے علی سے روایت کی ہے:جب خداوندعالم نے اپنے رسول کواذان کی تعلیم دینے کاارادہ کیاتوجبرئیل نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے لئے ایک براق نامی سواری لے کرآئے اور آنحضرت اس پرسوارہوئے اورجیسے ہی اس حجاب تک پہنچے کہ جوخدائے رحمن سے ملاہواتھا،ایک فرشتہ اس پردہ سے باہرآیااوراس نے “الله اکبر،الله اکبر”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی:میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں ہی سب سے بڑاہوں ، میں ہی سب سے بڑاہوں اس کے بعدملک نے “اشہدان لاالہ الاالله”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی:میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں ہی معبودبرحق ہوں اورمیرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اس کے بعدملک نے“اشہدان محمدارسول الله ”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی:میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں نے محمد کورسول بناکربھیجاہے اس کے بعدملک نے “حی الصلاح ، حی علی الفلاح ، قدقامت الصلاة” کہااوراس کے بعد“الله اکبر،الله اکبر”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی: میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں ہی سب سے بڑاہوں ، میں ہی سب سے بڑاہوں،اس کے بعدملک نے “ لاالہ الاالله”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی:میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں ہی معبودبرحق ہوں اورمیرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے۔

اس کے بعداس فرشتے نے آنحضرت کاہاتھ پکڑا اور آگے بڑھایااورتمام اہل آسمان نے کہ ) جن میں ادم ونوح بھی تھے آپ کی امامت میں نمازجماعت اداکی ۔(۲)

____________________

۱)فتح الباری ابن حجرعسقلانی/ج ٢//ص ۶٢ ۔درّ منثور(جلال الدین سوطی)/ج ۴/ص ١۵۴

.۲)ینابیع المودة /ج ١/ص ۶۶ ۔درمنثور/ج ۴/ص ١۵۴

۱۴۳

سفیان اللیل سے مروی ہے کہ:جب امام حسن (اورمعاویہ کے درمیان صلح)کاواقعہ رونماہوا، میں اسی موقع مدینہ میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوا،اس وقت آپ کے اصحاب بھی بیٹھے ہوئے تھے ، کافی دیرتک آپ(علیه السلام) سے باتیں ہوتی رہیں، راوی کہتاہے :ہم نے ان کے حضورمیں اذان کے بارے میں گفتگوچھیڑدی توہم سے میں سے بعض لوگوں نے کہا:اذان کاآغاز عبدالله ابن زیدابن عاصم کے خواب کے ذریعہ ہواہے تو حسن ابن علی (علیه السلام)نے ان سے فرمایا:

اذان کامرتبہ اس سے کہیں زیادہ بلندبرترہے ،جبرئیل (علیه السلام)نے (شب معراج)آسمان میں دومرتبہ اذان کہی اوراسے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کوتعلیم دی ) اورایک مرتبہ اقامت کہی اوراسکی بھی رسول خدا (صلی الله علیه و آله)کو تعلیم دی ۔(۱)

”درمنثور”اور“کنزالعمال ”میں حضرت علی سے یہ روایت نقل کی گئی ہے

انّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم عُلّم الاذان لیلة اُسْرِیَ بِهِ وَفُرِضَتْ علیه الصّلاةُ .

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کومعراج کی شب اذان کی تعلیم دی گئی اورآپ پرنمازواجب کی گئی۔(۲)

ابوالعلاء سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں نے محمدابن حنفیہ سے کہا:ہم لوگ کہتے ہیں کہ اذان کاآغازایک انصاری کے خواب کے ذریعہ ہواہے یہ بات سنتے ہی محمدابن حنفیہ نے ایک شدیدچیخ مارکرکہا: کیاتم لوگوں نے شریعت اسلام کے اصولوں میں ایک اصل اوراپنے دین کی علامتوں میں سے ایک علامت کوہدف قراردیاہے اوریہ گمان کرتے ہوکہ یہ ایک انصاری کے خواب سے ہواہے جواس نے اپنی نیندمیں دیکھاہے جبکہ خواب میں سچ اورجھوٹ دونوں کاامکان پایاجاتاہے ،کبھی باطل خیالات بھی ہوسکتے ہیں،میں نے محمدابن حنفیہ سے کہا:یہ حدیث تولوگوں کے درمیان عام اورمشہورہے ،انھوں نے جواب دیا:خداکی قسم یہ عقیدہ بالکل باطل ہے ) ۔(۳)

ا ہل سنت کی ان مذکورہ احادیث اس بات کوثابت کرتی ہیں کہ دین اسلام میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی ہجرت سے کئی سال پہلے مکہ میں شب معراج وحی کے ذریعہ اذان کاآغاز ہوچکا تھا اور عبدالله ابن زیدکے خواب کاواقعہ جونقل کیاجاتاہے وہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے مدینہ ہجرت کرنے کے کافی عرصہ بعدکاواقعہ ہے ۔

____________________

. ١)المستدرک (حاکم نیشاپوری)/ج ٣/ص ١٧١

. ۲)کنزالعمال/ج ١٢ /ص ٣۵٠ /ح ٣۵٣۵۴ ۔درمنثور/ج ۴/ص ١۵۴

.۳) السیرة الحلبیہ /ج ٢/ص ٣٠٠ ،منقول ازکتاب الاعتصام /ص ٢٩

۱۴۴

حدیث رؤیا

اکثرعلمائے اہل سنت کہتے ہیں کہ اذان واقاامت کاآغازعالم رؤیامیں ہواہے اوراذان واقامت کے متعلق الله کی طرف سے کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ اذان اقامت کاآغازعبدالله ابن زیدکے خواب سے ہواہے جسے حدیث رو یٔاکانام دیاگیاہے اورعمرابن خطاب نے اس کے خواب کی تائیدکی ہے اوروہ حدیث رؤیایہ ہے:

عبدالله ابن زیدسے روایت ہے کہ جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ناقوس بنانے کاحکم دیاتاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کونمازکے لئے جمع کیاجائے ،میں اس وقت سورہاتھاتومیں نے خواب میں دیکھاکہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے میرے گردگھوم رہاہے ،میں نے اس سے کہا:اے الله کے بندے! کیایہ ناقوس بیچناپسندکروگے؟اس نے کہا:تم اس کا کیاکروگے ؟میں نے کہا:اس کے ذریعہ لوگوں کونمازکے لئے بلاؤں گا،اس نے کہا:کیاتم نہیں چاہتے ہوکہ میں تمھیں ناقوس سے بہترچیزکی راہنمائی کروں؟ میں نے کہا:ہاں!اس نے کہا:لوگوں کونمازکے لئے جمع کرنے کے لئے اس طرح کہو الله اکبر،الله اکبر،الله اکبر،الله اکبر،اشہدان لاالہ الاالله،اشہدان محمدارسول الله،حی علی الصلاح ،حی علی الصلاح ،حی علی الفلاح ،حی علی الفلاح ، الله اکبر،الله اکبر،لاالہ الاالله۔ عبدالله ابن زیدکا کہناہے کہ جب وہ شخص میرے پاس سے جانے لگاتوکچھ دورچل کربولا: اورجب تم نمازکے لئے کھڑے ہوجاؤ تواس طرح اقامت کہو: الله اکبرالله اکبر،اشہدان لاالہ الاالله،اشہدان محمدارسول الله،حی علی الصلاح حی علی الفلاح ،قدقامت الصلاة قدقامت الصلاة ،الله اکبرالله اکبر،لاالہ الاالله عبدالله ابن زیدکہتاہے کہ میں صبح ہوتے ہی نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں پہنچااورجوکچھ خواب میں دیکھاتھا آنحضرت کے حضورمیں بیان کردیا۔ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:انشاء الله تعالیٰ تیرایہ خواب سچاہے لہٰذابلال کے ساتھ کھڑے ہوجاؤاورجوکچھ خواب میں دیکھاہے وہ سب بلال کویادکراؤتاکہ وہ اسی طرح اذان کہاکریں کیونکہ بلال کی آوازتم سے بہت اچھی ہے لہٰذامیں بلال کے ساتھ کھڑاہوااورانھیں اذان کی تعلیم دی اوربلال نے اذان شروع کی۔ عبدالله ابن زیدکہتاہے کہ:جب بلال نے اس طرح اذان کہی اورعمرابن خطاب جواس وقت اپنے گھرمیں تھے اذان کی آوازسنی توفوراًگھرسے باہرنکلے اورحالت یہ تھی کہ عباء مین پرگھسٹ رہی تھی ،تیزی کے ساتھ دوڈے ہوئے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس آئے اوربولے :یارسول الله!قسم اس ذات کی جس نے آپ کوپیغمبری پرمبعوث کیاہے میں نے بھی اسی کی طرح خواب دیکھاہے جیسے اس نے دیکھاہے ۔(۱)

____________________

. ١)سنن ابی داؤد،کتاب الصلاة،باب کیف الاذان،رقم ۴٩٩ /ص ١٢٠

۱۴۵

حدیث رؤیاکے بارے میں شیعوں کانظریہ

جیساکہ پہلے ذکرکرچکے ہیں تمام علمائے شیعہ کااس بات پراتفاق ہے کہ اذان واقامت کاآغازوحی پروردگارکے ذریعہ ہے ،پس وحی کے علاوہ کسی چیزکے ذریعہ اذان واقامت کانقطہ آغازقراردیناباطل اوربے بنیادہے ،اس بارے میں چندنکات ذکرہیں:

١۔غوروفکرکی بات ہے کہ جب الله تبارک وتعالی نے اپنے حبیب کونماز،روزہ ،حج ،زکات اوران کے احکامات کی تعلیم دی ہے ،توکیااس نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کولوگوں کونمازکی طرف دینے اوراس کے وقت پہنچنے کی اطلاع دینے کے لئے جبرئیل امین کسی چیزکوبیان نہیں کیاہوگاکہ اس طرح سے لوگوں کووقت نمازپہنچنے کی اطلاع دیاکرو۔

٢۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)دومرتبہ اذان واقامت ک تعلیم دی گئی تھی ایک مرتبہ اس وقت کہ جب آپ معراج پرگئے تووہاں جبرئیل نے اذان اقامت کہی اورملائکہ وانبیائے الٰہی نے آپ کے پیچھے نمازاداکی اوردوسری مرتبہ اس وقت زمین پرلے کر نازل ہوئے جب آنحضرت مولائے کائنات کے زانوئے وبارک سررکھے ہوئے آرام کررہے تھے توجبرئیل وحی لے کرنازل ہوئے اورفرمایاکہ نمازسے پہلے اس طرح اذان واقامت کہاکرپس عبدالله ابن زیدکے خواب کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

٣۔اگراذان واقامت کی اہمیت اوراس کے فضائل وفوائد کے بارے ہم نے جوروایتیں نقل کی ہیں ان سب چیزوں یہ واضح ہوتاہے کہ اذان کوالله تبارک تعالیٰ کی جانب سے مشروعیت دیاگیاہے ورنہ اسکی دین اسلام میں ات نی زیادہ اہمیت نہ ہوتی ۔

۴ ۔ابن عقیل نے اجماع نے دعوی کیاہے:اجتمعت الشیعة علی ان الصادق علیه السلام لعن قومارعموا،انّ النبی صلی الله علیه وآله اخذالاذان من عبدالله بن زید فقال(علیه السلام:ینزل الوحی علی نبیکم ، فتزعمون انه اخذالااذان من عبدالله ابن زید

دین اسلام میں وحی الٰہی کونقطہ آغاز اذان قراردیناضروریات مذہب شیعہ ہے اورعلمائے شیعہ کااجماع ہے کہ امام صادق نے اس جماعت پرلعنت کی ہے کہ جویہ گمان کرتے ہیں کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اذان کوعبدالله ابن زیدکے خواب سے اخذکیاہے اوریہ رسول پرایک تہمت وبہتان ہے بلکہ اذان کووحی پروردگارسے اخذکیاگیاہے جیساکہ امام صادق فرماتے ہیں:

۵ ۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کہ جنھوں نے جودین اسلام کی بنیادرکھی اورلوگوں نمازوحکمت کی تعلیم دی ،کیاآپ نے دین اسلام میں کسی چیزکووحی پروردگارکے علاوہ رائج کیاہے

۱۴۶

۶ ۔جولوگ عبدالله ابن زیدکے خواب کواذان کی ابتداقرادیتے ہیں اس کی بنیادی وہ یہ ہے کیونکہ ایک صاحب نے اس کے خواب تائید کی تھی اس لئے تاکہ دین اسلام میں پیغمبرکے ساتھ ان کانام بھی روشن رہے اس لئے ایک حدیث کوجعل کرلیاگیا۔

٧۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جوشخص معیارآدمیت ہو،ذمہ دارشریعت ہو،افضل المرسلین ہو، وحی کے بغیرکوئی کلام ہی نہ کرتاہواورالله تبارک وتعالیٰ کامحبوترین بندہ ہواس پراذان واقامت کے متعلق الله کی طرف سے وحی نازل نہ ہواورحتی خواب میں بھی نہ دکھے اوران کے بعض صحابہ اذان کے کلمات کوخواب حاصل کرلیں اورانھیں یادرہیں کہ ہم نے خواب میں یہ اوریہ کلمات دیکھے ہیں؟

حدیث رؤیاکے بارے میں بعض اہل سنت کانظریہ

اہل سنت کی کتابوں سے وہ احادیث جوہم نے “اذان واقامت کے نقطہ آغاز”کے عنوان میں ذکرکی ہیں ان میں بعض احادیث میں عبدالله ابن زیدکے خواب کوغلط قرادیاگیاہے حدیث رؤیاکے بارے میں سرخی اپنی کتاب“المبسوط”میں لکھتے ہیں: ابوحفص عالم خواب میں اذان کے آغازہونے سے انکارکرتے تھے اورکہتے تھے کہ:تم لوگوں نے معالم اورشعائراسلامی میں سے ایک پراعتمادکرتے ہواورکہتے ہوکہ وہ رؤیاکے ذریعہ ثابت ہواہے لیکن ایساہرگزنہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کومعراج ہوئی اورآپ کو مسجدالاقصیٰ لے جایاگیااورانبیاء کوجمع کیاگیاتوایک فرشتہ نے اذان واقامت کہی اورپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان کے ساتھ اداکی اورکہاجاتاہے کہ جبرئیل اذان لے کرنازل ہوئے تھے ۔(۱)

حدیث رویامیں جن راویوں کے ذکرکئے گئے ہیں ان کے بارے میں کتب اہل سنت سے ایک مختصرساجائزہ ذکرہے:

حدیث رو یٔاکے راویوں میں محمدابن اسحاق کاذکرکیاگیاہے ،جس کی سندکے بارے میں دارقطنی کہتے ہیں:

اختلف الآئمة ولیس بحجة انمایعتبربه ” آئمہ کے درمیان اس کے بارے میں اختلاف ) پایاجاتاہے اوروہ حجت نہیں ہے ،بساس پرتھوڑاسااعتبارکیاگیاہے ۔(۲)

قال ابوداو دٔ:سمعت احمدذکرمحمد بن اسحاق فقال:کان رجلا یشتهی الحدیث ،فیا خٔذکتب الناس فیضعهافی کتبه ۔(۳)

ابوداؤدکہتے ہیں:میں نے محمدابن اسحاق کے بارے میں احمدابن حنبل سے سنا،وہ کہتے ہیں کہ: اسے حدیثیں نقل کرنے کی بہت زیادہ ہوس رہتی تھی لہٰذاوہ لوگوں کی کتابیں لے کرانھیں اپنی کتابوں میں قراردیاکرتا تھا۔

____________________

.۱) المبسوط/ج ١/ص ١٢٨

. ۲) تہذیب الکمال/ج ٢۴ /ص ۴٢١

۳)تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٨ )

۱۴۷

قال المروذی قال احمدبن حنبل:کان اسحاق یدلس وقال ابوعبدالله:قدم ابن اسحاق بغداد،فکان لایبالی عمن یحکی ،عن الکلبی وغیره.(۱)

مروذی کہتاہے:احمدابن حنبل نے محمدابن اسحاق کے بارے کہاہے کہ وہ تدلیس کرتاتھااورحقیقت کوچھپادیاکرتاتھا پس جب وہ بغدادآیاتوکسی بات کی پرواہ کئے بغیرہرایک سے(جسسے دل چاہے) کلبی وغیرہ سے حدیث نقل کرتاتھا۔

قال حنبل بن اسحاق :سمعت اباعبدالله یقول:ابن اسحاق لیسبحجة .(۲)

حنبل ابن اسحاق کہتے ہیں:میں نے ابوعبدلله کویہ کہتے سناہے کہ ابن اسحاق حجت نہیں ہے۔

قال عبدالله بن احمدمارا یٔت ا بٔی اتقن حدیثه قط،وکان یتتبّعه بالعلووالنزول،قیل له :یحتج به؟قال:لم یکن یحتج به فی السنن .(۳)

عبدالله ابن احمد کہتے ہیں:میں نے کبھی نہیں دیکھاکہ میرے باپ نے اس کی حدیث پریقین کیاہواوراسے معتبرقراردیاہوبلکہ اس کی نقل کی ہوئی حدیث کے بارے میں تحقیق کرتے تھے جب ان سے پوچھاگیاکہ کیامحمدابن اسحاق کی احادیث کودلیل کے طورپرپیش کیاجاسکتاہے ؟انھوں نے جواب دیا: سنن میں ان سے احتجاج نہیں کیاجاسکتاہے ۔

قال ایوب بن اسحاق سامری: سئلت احمد بن حنبل :اذاانفرد ابن اسحاق بحدیث تقبله ؟قال :لا،والله انّی را یٔته یحدث عن جماعة بالحدیث الواحدولایفضل کلام ذامن کلام ذا ۔(۴)

ایوب ابن اسحاق ابن سافری کہتے ہیں:میں نے احمدابن حنبل سے پوچھا:اگرکسی حدیث کوفقط ابن اسحاق سے نقل کیاجائے توکیاآپ اسے قبول کریں گے؟جواب دیا:ہرگزنہیں،خداکی قسم میں نے دیکھاہے کہ وہ ایک جماعت سے حدیث کونقل کرتاہے بغیراسکے کہ وہ ایک کی بات کودوسرے کی بات سے الگ کرے۔

____________________

.۱)تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج۹/ ٣٨

٢) تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٨/.٩

. ٣ )تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ۹/٣٨

۴) تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ۹/٣٨.

۱۴۸

نسائی اس کے بارے میں کہتے ہیں:

لیسبالقوی

وہ راوی قوی نہیں ہے۔(۱)

حدیث رؤیامیں محمد ابن ابراہیم ابن حارث جیسے راوی کاذکربھی ہے ، اس راوی کے بارے میں عقیلی نے عبدالله ابن احمدسے اورانھوں نے اپنے والد(حنبل)سے نقل کیاہے جس میں امام حنبل کہتے ہیں:

فی حدیثه شئ یروی احادیث ا حٔادیث مناکیرا ؤمنکرة ۔(۲)

اس راوی کی حدیث کے بارے یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ مجہول اورناپسندروایتیں نقل کرتاہے۔

حدیث رؤیامیں عبدالله ابن زیدکانام ہے کہ جسنے اذان کے بارے میں یہ خواب دیکھاتھا، اس کے بارے میں بعض کتب اہل سنت میں ترمذی کے حوالے سے بخاری کایہ قول نقل کیاگیاہے:

لانعرف له الّاحدیث الاذان “ ہم عبدالله ابن زیدکی اس حدیث اذان کے علاوہ کسی دوسری روایت کونہیں جانتے ) ہیں۔(۳)

حاکم نیشاپوری “المستدرک ”میں عبدالله ابن زیدکے بارے میں لکھتے ہیں:عبدلله بن زید هوالذی اریٰ الاذان ،الّذی تداوله فقهاء الاسلام بالقبول ولم یخرج فی الصحیحین لاختلاف الناقلین فی اسانیده .(۴)

عبدالله ابن زیدوہ شخص ہے جسنے اذان کوخواب میں دیکھااورعلمائے اسلام نے اسے رسمیت دی ہے لیکن اس حدیث سندکی کے بارے میں ناقلین کے درمیان اختلاف پائے جانے کی وجہ سے مسلم اوربخاری دونوں نے اپنی صحیح میں اس حدیث کوبالکل ذکرنہیں کیاہے ۔

____________________

١)تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٩ ( .۵/

. ٢)تہذیب التہذیب(ابن حجر) /ج ٩/ص ۶.

٣)تہذیب الکمال/ج ١۴ /ص ۵۴١ ۔تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ١٩٧

۴)المستدرک (حاکم نیشاپوری)/ج ٣/ص ٣٣۶

۱۴۹

حاکم نیشاپوری کایہ دعویٰ اس چیزکی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان کی نظرمیں عبدالله ابن زیدکے خواب کے ذریعہ اذان واقامت کاآغازہونا باطل اوربے بنیادہے اورحاکم نیشاپوری کے علاوہ متعددعلمائے اہل سنت نے بھی اذان کی ابتد اء کوعبدالله ابن زیدکے خواب ذریعہ ہونے سے انکارکیاہے اوروحی الہٰی کے ذریعہ اذان کے آغاز ہونے کوقبول کیاہے۔ اذان واقامت میں حضرت علی کی امامت کی گواہی دینے کاراز اذان واقامت میں“اشهدان محمدا رسول الله ”کے بعد حضرت علی کی امامت وولایت کی دومرتبہ گواہی دینایعنی “اشهدان علی ولی الله ”کہنا

علماوفقہاکہتے ہیں:“اشهدان علی ولی الله ”اذان واقامت کاجزء نہیں ہے مگرپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)رسالت کی گواہی کومکمل کرتاہے اورآج کے زمانہ میں شیعوں پہچان ہونے شمارہوتاہے پس “اشہدانّ محمد رسول الله”کے بعدقربت اورتبرک کی نیت سے “اشهدان علی ولی الله ” بہترہے

جس طرح نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی نبوت ورسالت میں کوئی شک نہیں ہے اسی طرح حضرت علی خداکے ولی اورمومنین کے مولاوامیربرحق ہونے بھی کوئی شک نہیں ہے ،روایت معراج میں لکھاہے کہ عرش معلی پررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ مولائے کائنات بھی لکھاہواہے ، جنت کے دروازے بھی آپ کانام لکھاہے دوسرے الفاظ میں یوں کہاجائے کہ جس پربھی پروردگارنے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کانام لکھ رکھاہے اسی کے ساتھ امام علیٰ کانام بھی لکھاہواہے لیکن کچھ لوگوں ان روایتوں سے آپ کے نام کوختم کردیاہے اوراپنے بزرگوں کانام لکھ دیاہے اسی لئے ہم شیعہ حضرات اذان واقامت میں“اشہدانّ محمد رسول الله”کے بعد “اشہدان علی ولی الله”کہہ کراس بات کااعلان کرتے ہیں کہ عرش معلی پرنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ علی ابن ابی طالب کانام درج ہے نہ ان کاکہ جنھیں لوگوں نے حدیث معراج میں داخل کردیاہے ۔

پس اذان واقامت میں امام علی کی شہادت کی گواہی دینے سے اذان واقامت باطل نہیں ہوسکتی ہے ،اورنہ اسے بدعت کہاجاسکتاہے کیونکہ ہم اسے اذان اقامت کاحصہ نہیں سمجھتے ہیں اوراسے بقصدقربت کہتے ہیں،اہل سنت کی کتابوں میں بھی علی کے ذکرکوعبادت قرادیاگیاہے اوریہ روایت نقل کی گئی ہے: ”ذکرعلی عبادة.”علی کاذکرعبادت ہے۔

جب علی کاذکرعبادت ہے تواذان واقامت میں ان ذکرکرنے سے کیسے اذان واقامت باطل ہوسکتی ہے اوران کاذکرکیسے بدعت ہوسکتاہے۔

____________________

. کنزالعمال/ج ١١ /ص ۶٠١ ۔البدایة والنہایة/ج ٧/ص ٣٩۴ ۔ینابیع المودة /ج ٢/ص ٢٢٩

۱۵۰

اول وقت

مستحب ہے کہ ہرمسلمان اپنی نمازوں کواول وقت اداکرے ، دین اسلام میں نمازکواول وقت اداکرنے اوراوقات نمازکی محافظت کرنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے اورآیات وروایات میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے

اکثرعلمائے کرام نے محافظت نمازسے نمازکااول وقت مرادلیاہے اورمعصومین بھی یہی اشارہ دیاہے وہ آیات کریمہ اوراحاد یث کہ جنھیں ہم نے ابھی “نمازکواس کے وقت میں اداکرنا ”کے عنوان میں ذکرکی ہیں ان میں محافظت نمازسے نمازکااول وقت مرادہے کتب احادیث میں اول وقت کی اہمیت وفضلیت کے بارے میں معصومین سے کثیرتعدادمیں روایتیں نقل ہوئی ہیں:

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مولائے کائنات سے وصیت کرتے ہیں:

لاتو خٔرها فانّ فی تاخیرهامن غیرعلة غضب الله عزوجل (۱)

اے علی! نمازکوتاخیرمیں نہ ڈالنا،جوشخص نمازکوبغیرکسی مجبوری کے تاخیرمیں ڈالتاہے اس سے خداوندمتعال ناراض ہوجاتاہے ۔

قال علی علیه السلام :اوصیکم بالصلاة وحفظهافانهاخیرالعمل وهی عمود دینکم ۔(۲)

مولائے کائنات حضرت علیفرماتے ہیں:میں تمھیں وصیت کرتاہوں کہ اوقات نمازکی حفاظت کرتے رہنااورہرنمازکواول وقت اداکرتے رہنا،کیونکہ نمازسب سے بہترین عمل ہے اوروہی تمھارے دین کاستون ہے۔

عن محمدبن مسلم قال:سمعت اباعبدالله علیه السلام یقول:اذادخل وقت صلاة فتحت ابواب السماء لصعودالاعمال،فمااحب ان یصعدعمل اول من عملی، ولایکتب فی الصحیفة احداوّل منی (۳)

امام صادق فرماتے ہیں:جیسے نمازکاوقت شروع ہوتاہے تواوپرتک اعمال کے پہونچنے کے لئے آسمان تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں،میری تمنایہ ہوتی ہے میراعمل سب سے پہلے صعودکرے لورمجھ سے پہلے صحیفہ میں کسی کانام نہ لکھاجائے ۔

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:ایمامومن حافظ علی الصلاة الفریضة فصلاهالوقتهافلیس هومن الغافلین ۔(۴)

حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں : ہر وہ مومن جو واجب نمازوں کا پابند رہتا ہے اور انھیں اوّل وقت بجالا تا ہے اس کو گروہ غافلین میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

____________________

۱)خصال (شیخ صدوق) /ص ۵۴٣.٧٩/

٢)بحارالانوار/ج ٢٠٩ ) ١

۳) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ۴١

.۴)وسائل الشیعہ/ج ٢/ص ۶۵۶

۱۵۱

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ فضل الوقت الاول علی الاخیرکفضل الآخرة علی الدنیا .(۱)

امام صادق فرماتے ہیں: نماز کا اوّل وقت آخروقت پر اسی طرح فضیلت رکھتا ہے جس طرح آخرت دنیا پر فضیلت رکھتی ہے ۔

قال ابوعبدالله علیه السلام :امتحنواشیعت ناعندمواقیت الصلاة کیف محافظتهم علیها ۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں :ہمارے شیعوں کواوقات نماز کے ذریعہ پہچانو!اوردیکھوکہ وہ اوقات نمازکی کس طرح حفاظت کرتے ہیں۔عبدالله ابن سنان سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:

لکلّ صلاة وقتان واول الوقت افضله ولیس لاحدٍا نٔ یجعل آخرالوقتین وقتا الّافی عذرمن غیرعلة (۳)

ہرنمازکے دووقت ہوتے ہیں (اول وقت اورآخروقت)اوراول وقت (آخروقت)سے افضل ہوتاہے اورکسی کے لئے جائزنہیں ہے کہ بغیرکسی عذرومجبوری کے آخری وقت کواپنی نمازکاوقت قراردے اورآخری وقت میں نمازاداکرے ۔

حکیم لقمان نے اپنے فرزند کو وصیت کرتے ہوئے کہا : اے بیٹا ! مرغ کو اپنے آپ سے زیادہ ہو شیارنہ ہونے دینا ، کیونکہ مرغ نماز کا وقت شروع ہو تے ہی اپنی آواز بلند کردیتاہے اور ) نماز کا وقت پہنچنے کا اعلان کرتا ہے ، پساے بیٹا ! مرغ کے بولنے سے پہلے بیدار ہو اکرو ۔(۴)

قال علیه السلام :ان العبداذاصلی الصلاة فی وقتهاوحافظ علیهاارتفعت بیضاء نقیة ،تقول حفظت نی حفظک الله واذالم یصلهالوقتهاولم یحافظ علیهاارتفعت سوداء مظلمة تقول ضیعت نی ضیعک الله .(۵)

امام صادق فرماتے ہیں :جب کوئی بندہ نمازکواس کے اول وقت میں اداکرتاہے اوراوقات نمازکی حفاظت کرتاہے تو وہ نمازپاک وسفیدہوکرآسمان کی طرف جاتی ہے اورصاحب کے لئے کہتی ہے :جس طرح تونے میری حفاظت کی ہے خداوندعالم تیری بھی اسی حفاظت کرے لیکن جوبندہ نمازکواس کے وقت میں ادانہیں کرتاہے اوراوقات نمازکی حفاظت نہیں کرتاہے تووہ نمازسیاہ چہرہ کے ساتھ آسمان کی طرف روانہ ہوتی ہے اورصاحب نمازکے کہتی ہے:جس طرح تونے مجھے ضائع وبربادکیاہے خداتجھے بھی اسی طرح ضائع وبربادکرے۔

____________________

. ١)کافی/ج ٣/ص ٢٧۴

. ٢)سفینة البحار/ج ٢/ص ۴۴

.. ۳)کافی/ج ٣/ص ٢٧۴

۴)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٩٧٨ /ص ٣٠١ )

.۵)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠٩

۱۵۲

عن ابی عبدا لله علیه السلام قال:من صلی الصلوات المفروضات فی اول وقتهاواقام حدودهارفعهاالی السماء بیضاء نقیة وهی تهتف به تقول حفظک الله کماحفظت نی واستودعک الله ملکاکریما،ومن صلهابعدوقتهامن غیرعلة ولم یقم حدودهارفعهاالملک سوداء مظلمة وهی تهتف به ضیعت نی ضیعک الله کماضیعت نی .

امام صادق فرماتے ہیں :جب کوئی بندہ نمازکواس کے اول وقت میں اداکرتاہے اورحدود نمازکی حفاظت کرتاہے توایک فرشتہ اس نمازکوپاک وسفیدشکل کے ساتھ آسمان کی طرف لے جاتا ہے اوروہ نمازاس نمازی سے یہ صاحب کے لئے کہتی ہے :جس طرح تونے میری حفاظت کی ہے خداوندعالم تیری بھی اسی طرح حفاظت کرے،تونے مجھے ایک عظیم وکریم ملک کے سپردکیاہے لیکن جوبندہ نمازکوبغیرکسی مجبوری کے نمازکوتاخیرمیںڈالتاہے اوراس کے حدودکی حفاظت نہیں کرتاہے توایک ملک اس نمازکوسیاہ وتاریک بناکر آسمان کی طرف روانہ ہوتا ہے اوروہ اس صاحب نمازسے بلندآوازمیں کہتی ہے:تونے مجھے ضائع کیاخداتجھے اسی طرح ضائع وبربادکرے جس طرح تونے مجھے ضائع وبربادکےاہے۔(۱)

قال رسول الله صلی علیه وآله :مامن صلاة یحضروقتهاالّانادیٰ ملک بین یدی الناس:ایهاالناس !قومواالیٰ نیرانکم الّتی ا ؤقدتموهاعلیٰ ظهورکم فاطفو هٔابصلاتکم ۔(۲) پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فر ما تے ہیں :ہر نما ز کا وقت شروع ہو تے ہی ایک فر شتہ ندائے عمو می بلند کر تا ہے: اے لو گو ! اٹھو اور وہ آگ جوخود تم نے گنا ہوں کو انجا م دے کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے پیچھے لگا ئی ہے اسے نما ز کے ذریعہ خا موش کر دو۔ اسی روایت کو بعض راویوں نے اس طرح نقل کیاہے:

ان ملک الموت علیه السلام یحضرفی کلّ یوم خمس مرات فی بیوت الناس فی اوقات الصلوات الخمس وینادی علیٰ احدمن الاحادوینادی بهذه ایهاالناس! قومواالیٰ نیرانکم التی اوقدتموها ۔(۳)

بیشک ملک الموت روزانہ پانچ مرتبہ پنجگانہ نماز کے وقتوں میں لوگوں کے گھروں میں حاضرہوتاہے اورہرایک شخص کوآوازدیتاہے اور اس طرح دیتاآوازہے :اے لوگو! اٹھو اور وہ آگ جوخود تم نے گنا ہوں کو انجا م دے کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے پیچھے لگا ئی ہے اسے نما ز کے ذریعہ خا موش کر دو۔

____________________

۱). امالی (شیخ صدوق) ۴/ص ٣٢٨

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠٨

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠٨ )

۱۵۳

اول اوقات نمازکی محافظت وفضیلت کے بارے میں چندمندرجہ ذیل واقعات ذکرہیں:

امام علی ابن ابی طالبکی تاریخ حیات میں لکھا ہے کہ آپ جنگ صفین میں دشمنان اسلام سے جنگ کررہے تھے کہ آپ اچانک سورج کی طرف دیکھنے لگے ،ابن عباس نے کہا:یاامیرالمومنین ! یہ آپ کیاکررہے ہیں ؟حضرت علینے جواب دیا:اَنْظُرُاِلَی الزَّوَالِ حتّی نُصَلِّی .

میں دیکھ رہاہوں کہ ابھی زوال کاوقت ہواہے یانہیں تاکہ(اول وقت)نمازاداکروں،ابن عباس نے تعجب سے کہا:کیایہ نمازکاوقت ہے؟اس وقت ہم دین اسلام کے دشموں سے جنگ کرنے میں مشغول ہیں لہٰذااس وقت جنگ کونمازپرترجیح دیناچاہئے،اگرہم نے ایسے خطرناک موقع جنگ سے ہاتھوں کوروک لیاتودشمن ہم پرغالب آجائیں گے ،مولائے کائنات نے جواب دیا:علیٰ مانقاتلهم ؟انّمانقاتلهم علی الصلاة

ہماری ان سے کس بنیادپرجنگ ہورہی ہے ؟بے شک اسی نمازہی کی وجہ سے ان ) دشمنوں سے جنگ ہورہی ہے ۔(۱)

روایت میں ملتاہے کہ مولائے کائنات نے کبھی نمازکوتاخیرمیں نہیں ڈالافقط دو موقع ایسے پیشآئے ہیں کہ امام علی کو نمازپڑھنے میں ات نی دیرہوگئی کہ آپ کے نماز قضاہوگئی اورسورج کوپلٹایاگیااورامام(علیه السلام) نے نمازکواس کے وقت میں ادا کیا اوروہ دوموقع یہ ہیں: ١۔محمدابن عمیرحنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق کی محضرمبارک میں عرض کیا:جب اما م علی پرنمازظہروعصرجمع کرنالازم تھاتوپھرکس علت وسبب کی بناپرمولائے کائنات نے نمازعصرکوتاخیرمیں ڈالااوراسے ترک کیا؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا:

جب امیرالمومنین نمازظہرسے فارغ ہوئے توایک مردے کی کھوپڑی نظرآئی ، امام (علیه السلام) نے اس سے معلوم کیا:توکون ہے ؟

____________________

. ۱)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ١٧٩

۱۵۴

اس نے جواب دیا:میں فلان سر زمین کے فلان بادشاہ کافرزندہوں،امیرالمومنین نے فرمایا:تومجھے اپنی داستان زندگی کوبیان کر اوراپنے زمانے میں اچھے اوربرے رونماہوئے واقعات کوبیان کر،اس جمجمہ نے اپنے داستان زندگی بیان کرناشروع کیاوراپنے زمانے میں گذرہوئے واقعات کوبیان کرنے لگااورامام(علیه السلام) اس کی داستان زندگی سننے میں سرگرم ہوگئے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا،اس کے بعدجب امام (علیه السلام) اس جمجمہ سے باتیں سن چکے توسورج کوپلٹنے کاحکم دیا،سورج نے کہا:اب میںغروب ہوچکاہوں لہٰذااس وقت کیسے پلٹ سکتاہوں،امیرالمومنیننے خدائے عزوجل سے سورج کوپلٹادینے درخواست کی پس خداوندعلام نے سترہزارفرشتوں کوسترہزارزنجیروں کے ساتھ سورج کی طرف روانہ کیا،ان فرشتوں نے زنجیروں کوسورج کی گردن میںڈالااورکھینچناشروع کیایہاں تک کہ سورج اوپرآگیااوردوبارہ اس کی روشنی سب جگہ پھیل گئی اورسورج صاف طرح نظرآنے لگااورامیرالمومنیننے اپنی نمازکوعصرکواس کے وقت میں ادادکیااورپھرسورج دوبارہ اپنی جگہ پرپہنچ گیا،اس کے بعدامام صادق نے فرمایا:یہ تھی امیرالمومنینکی تاخیرسے نمازکی پڑھنے وجہ۔(۱)

٢۔محمدابن جعفرکی دوبیٹیاں“ام جعفر”یا“ام محمد”نے اپنی جدّہ محترمہ “اسمابنت عمیس سے روایت کی ہے ،ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کابیان ہے کہ :میں اپنی جدّہ محترمہ اسمابنت عمیس اوراپنے چچاعبدالله ابن جعفرکے ہمراہ گھرسے باہرگئی ہوئی تھی ،جب “صہبا”کے قریب پہنچے تواسمابنت عمیسنے مجھ سے فرمایا: اے میرے بیٹی !ایک دن ہم رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ہمراہ اسی جگہ پرموجودتھے کہ آنحضرت نے نمازظہرپڑھی اوراس کے بعد علی (علیه السلام) کو اپنی خدمت میں طلب کیااورامام (علیه السلام) سے اپنی ضرورتوں میں مددچاہی یہاں تک کہ عصرکاوقت پہنچ گیااورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نمازپڑھی ،اس کے بعدعلی (علیه السلام)آنحضرت کی خدمت میں پہنچے اورپیغمبرکے پہلومیں بیٹھ گئے، الله تبارک وتعالیٰ نے وحی نازل کی اورآنحضرت نے اپنے سرمبارک کوامیرالمومنین کے دامن اقدسرکھ کرآرام کرتے رہے یہاں تک سورج غروب ہوگیا،جب آنحضرت نے آنکھیں کھولیں توعلی (علیه السلام)سے معلوم کیا:

اے علی (علیه السلام)!کیاتم نمازپڑھ لی تھی،حضرت علی (علیه السلام)نے عرض کیا:نہیں یارسول الله (صلی الله علیه و آله)کیونکہ آپ کاسرمبارک میرے دامن پررکھااورآپ آرام کررہے تھے اورمیں نے آپ کوبیدارنہیں کرناچاہالہٰذاسی طرح بیٹھارہایہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے دعاکے ہاتھ بلندکئے اوربارگاہ خداوندی میں عرض کی:

____________________

. ۱)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۵١

۱۵۵

اللّهمّ ان هذاعلیّ عبداحتبس نفسه علی نبیک فردّعلیه الشرقها . بارالٰہا!یہ علی (علیه السلام) تیرابندہ ہے کہ جس نے تیرے نبی کی خاطراپنے آپ نمازپڑھنے سے روکے رکھااوراپنے آپ کومحبوس رکھاپس تواس کے لئے سورج پلٹادے تاکہ وہ نمازکواداکرسکے ابھی نبی دعامیں مشغول تھے کہ سورج طلوع ہوا اور تمام زمین وپہاڑپراس کی روشنی پھیل گئی اورعلی (علیه السلام) نے بلند ہو کر وضو کیا اورنمازعصرپڑھی ،اس کے بعدسورج دوبارہ غروب ہوگیا۔(۱)

روایت میں ایاہے کہ ایک روزمامون نے اپنے دربارمیں امام علی رضا کودعوت دی جب امام(علیه السلام) اس کے دربارمیں پہنچے اوروہاں پرعمران صابی(گروہ صائبین کے رہنما ) سے بحث ومناظرہ شروع ہوا،بحث و گفتگو یہاں اس حدتک پہنچی کہ عمران کے دل میں آہستہ آہستہ قبول اسلام کی حالت پیدا ہورہی تھی کہ اسی دوران اذان کی آواز بلندہوئی ،جیسے امام (علیه السلام) نے اذان کی آوازکوسناتوبحث ومناظرہ کواسی جگہ پرختم کردیااور عمران سے فرمایا:نمازکا وقت ہو گیا ہے ، عمران نے کہا :اے میرے آقا!اس وقت میرادل کچھ نرم ہوتاجارہاتھا اگر آپ اور کچھ دیرتک مناظرہ کو جاری رکھتے تو شاید میں مسلمان ہو جاتا، امام نے فرمایا : پہلے نماز پڑھیں اس کے منا ظرہ کو ادامہ دیں گے ، امام (علیه السلام) نے نماز سے فارغ ہو نے کے بعد دوبارہ بحث ومناظرہ شروع کیا اور عمران صابی نے مذہب اسلام قبول کرلیایہ واقعہ بہت طولانی ہے مگراصل چیزکوبیان مقصودہے اوروہ یہ ہے کہ امام (علیه السلام) نے اول وقت کوترجیح دی اورمناظرہ کوروکناپسندکیا،اس واقعہ کوشیخ صدوقنے اپنی کتاب توحیدمیں تفصیل کے ساتھ ذکرکیاہے۔

ابراہیم ابن موسی القزار سے روایت ہے کہ امام رضا بعض آل ابوطالب کے استقبال کے لئے شہرسے باہرگئے ہوئے تھے اورہم آنحضرت کے ہمراہ تھے ،جب نمازکاوقت پہنچاتوامام اپنے صحابیوں کے ساتھ اسی جگہ پرقریب میں گئے اورایک بڑے سے پتھرکے پاس کھڑے ہوکرمجھ سے فرمایا:اے ابراہیم !نمازکاوقت ہوچکاہے لہٰذاتم اذان کہو،میں نے عرض کیا:اے ہمارے آقا!ہم اس وقت اپنے آنے والے صحابیوں کے انتظارمیں کھڑے ہوئے ہیں،امام (علیه السلام)نے فرمایا:خداتمھارے گناہوں کومعاف کرے، بغیرکسی عذرکے نمازکوتاخیرمیں نہ ڈالو،پس تم آؤاورہمارے ساتھ اول وقت نماز پڑھو، راوی کہتاہے ہے کہ میں نے اذان کہی اورامام (علیه ) السلام)کے ساتھ نمازاداکی ۔(۲)

____________________

. ۱)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۵٢

. ۲)منتہی الاعمال/ج ٢/ص ٨٨١ (

۱۵۶

حضرت امام حسن عسکری کی عادت یہ تھی کہ جیسے نمازکاوقت پہنچتا تھا تو فوراًاپنے ہاتھوں کوہراس کام جس میں مشغول ہوتے تھے پیچھے کھینچ لیاکرتے تھے اور کسی بھی کام کو نماز پر تر جیح نہیں دیتے تھے بلکہ نماز کوہرکام پر مقدم رکھتے تھے ابوہاشم جعفری سے مزوی ہے کہ : میں ایک روزجب حضرت امام حسن عسکریکی خدمت میں مشرف ہوا تودیکھاکہ امام (علیه السلام) اس وقت کسی چیز کے لکھنے میں مشغول ہیں مگرجیسے ہی نماز کا وقت پہنچا تو امام (علیه السلام) نے لکھنا بند کردیا اور فوراً نماز وعبادت میں مشغول ہوگئے

محمد شاکری سے مروی ہے کہ: امام حسن عسکری رات پھر نمازعبا دت میں مشغول رہتے تھے اوررکوع و سجود کرتے رہتے تھے اور میں سوجاتاتھا، جب نیند سے بیدار ہوتاتھاتو امام(علیه السلام) کو سجدے کی حالت میں پا تا تھا

امام حسن عسکری کی سونح حیات میں کہ:آپ زندان بھی میں دنوں میں روزہ رکھتے اور راتوں کو بیدار رہ کر عبادت کرتے تھے اور عبادت کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتے تھے اور کسی سے کوئی گفتگو بھی نہیں کرتے تھے، امام (علیه السلام) کی عبادت اورزہد وتقویٰ کا اثریہ تھا کہ جن لو گو ں کو امام کو آزارواذیت پہنچا نے کے لئے زندان میں بھیجا جاتاتھا ، وہ آپ کو عبادت و مناجات کی حالت میں دیکھ کر بہت زیادہ متا ثٔر ہو تے تھے ، عباسیوں (کہ جن کے حکم سے امام حسن عسکری کو زندان کیا گیا تھا)نے صالح بن وصیف سے کہا : کہ وہ امام (علیه السلام) پر بہت زیادہ فشار ڈالے اورہر گز ان پر رحم نہ کرے ، صالح نے کہا : میں نے دو بد تر ین جلاّ د کو ان کے سر پہ چھوڑر کھا ہے ، لیکن ان دونوں کے دلوں پر امام کی عبادت و نماز ) روزے کا اثر یہ ہو اکہ وہ دونوں عبادت کے بلند مرتبہ پر فائز گئے ۔(۱)

حضرت امام جعفر صادق اپنے ایک شاگرد“مفضل ابن عمر”کوتوحید باری تعالیٰ کے بارے میں ہفتہ میں چاردن ،صبح سے زوال تک ایک خصوصی درس دیاکرتے تھے اورروزانہ نمازظہر ) کاوقت شروع ہوتے ہی درس کوختم کردیاکرتے تھے.(۲)

____________________

۱) امام حسن عسکری/ص ۴١ ۔ ۴٢

. ٢)بحارالانوار/ج ٣/ص ٨٩

۱۵۷

حضرت عیسیٰ بن مریم کے زمانے میں ایک عورت بہت ہی زیادہ نیک و عبادت گزار تھی، جب بھی نماز کا وقت ہوجاتاتھا اورجس کام میں بھی مشغول رہتی تھی فوراً اس کام کواسی حالت پر چھوڑ دیا کر تی تھی اور نمازو اطاعت خداوندی میں مشغول ہوجاتی تھی ،ایک دن جب یہ عورت ت نورمیں روٹیاں بنانے میں مشغول تھی تومو ذٔن کی صدائے اذان بلند ہوئی تو اس کام کو درمیان میں ہی چھوڑ کر نماز کے لئے کھڑی ہو گئی اور عبادت الہٰی میں مشغول ہو گئی ، وہ نمازپڑھ رہی تھی تو شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ پیدا کیا کہ جب تک تو نماز سے فراغت پائے گی توت نور میں لگی ہو ئی روٹیاں جل کر راکھ ہو جا ئیں گی ، مو منہ نے دل میں جواب دیا : اگرمیری تمام روٹیاں بھی جل جا ئیں تو یہ روز قیامت میرے بدن کے آتش جہنم میں جلنے سے بہتر ہے ، ابھی یہ عورت نمازمیں ہی مشغول تھی کہ اس کا بچہ ت نورمیں گر گیا ، شیطان نے کہا :

اے عورت ! تو نماز پڑ ھ رہی ہے اور تیرا بچہ ت نورمیں جل رہاہے ، اس عابدہ نے جواب دیا : اگر الله تبارک و تعالیٰ کی یہی مرضی ہے کہ میں نمازپڑھوں اور میرا بیٹاآگ میں جل جائے تو میں خدا کے اس حکم پر راضی ہوں اور مجھے مکمل یقین ہے کہ جب تک میں نماز میں مشغول ہو ں میراپروردگارمیرے فرزند کو آگ میں جلنے سے محفوظ رکھے گا ، ابھی یہ عورت نمازمیں مشغول تھی کہ اس کا شوہر گھر میں داخل ہو ا تواس نے دیکھا کہ زوجہ نماز میں مشغول ہے اور ت نور میں روٹیاں صحیح وسالم موجو د ہیں اور بچہ بھی سکون کے ساتھ ت نو ر میں بیٹھا ہو ا آگ سے کھیل رہا ہے اور اس کے بدن پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہے ، خدا ئے مہربان کی قدرت سے وہ آگ گلز ار بن گئی،جب وہ عورت نماز سے فارغ ہو گئی تو شوہرنے زوجہ کاہاتھ پکڑااوراسے ت نورکے پاس لایا ، عورت نے جیسے ہی ت نور میں نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ بچہ اور روٹیاں دونوں صحیح وسالم ہیں:آگ نے نہ بچہ کے بدن پرکوئی اثرکیاہے اورنہ روٹیاں جلی ہیں ، یہ ماجرادیکھ کر دونوں تعجب میں رہ گئے، مرد نے باری تعالیٰ کا شکر اداکیا اور عورت نے سجدہ شٔکراداکیا ،شوہر نے بچہ کو ت نور سے باہر نکالا اور حضرت عیسٰی کی خدمت میں لے کر آیا اورآپ سے پورا واقعہ بیان کیا ،حضرت عیسیٰ نے کہا : جاؤ اور اس بچہ کی ماں سے معلوم کرو اس نے خدا کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے اور اس کے پاس خدا کا کیا راز ہے ؟ اگریہ کرامت کسی مرد کے پاس ہوتی تو جبرئیل خدا کی طرف اس پر وحی لے کر نازل ہوتے وہ مردبچہ کولے کراپنے گھر واپس آیا اور زوجہ سے معلوم کیا : تم خدا سے کت نی زیادہ قریب ہو کہ یہ معجزہ رونما ہوا ہے ؟ بیوی نے جواب دیا : میں کارآخرت کو دنیا کے کاموں پر ترجیح دیتی ہوں ، نماز وعبادت کو ہر کام پر مقدم رکھتی ہوں اور جب سے ہوش سنبھا لاہے

۱۵۸

ان چند روز کے علاوہ جو ہر ماہ میں عورتوں سے مخصوص ہیں بغیر طہارت (وضو)کے نہیں رہتی ہوں اُن ایّام کے علاوہ بقیہ دوسرے دنوں میں خواہ میرے پلس ہز ار کام ہی کیوں نہ ہوں جیسے ہی اذان کی آوازسنتی ہوں فوراًکام سے ہاتھ پیچھے ہٹالیتی ہوں اور نماز وعبادت پرور دگار میں مشغول ہو جاتی ہوں ،اگر کوئی مجھ پر ظلم وجفا کرتا ہے یا مجھ کو گالیاں دیتی ہے ، ان تمام کینہ و عداوت کو دل سے نکال دیتی ہوں اور اس کے عوض میں کوئی جواب نہیں دیتی ہوں ،میں خدا وند متعال کی قضاء وقدر پر راضی ہوں ، فرمان خدا کی تعظیم کرتی ہوں ، اس کی مخلوق پر رحم کرتی ہو ں،اپنے گھرسے کسی بھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتی ہوں اورنماز شب وصبح ہر گز ترک نہیں کرتی ہوں ، جب حضرت عیسٰیاس عورت کی یہ تمام خصوصیا ) ت سنی توفرمایا:اگریہ عورت مرد ہوتی تو ضرور پیغمبر خدا ہو تی۔(۱)

حضرت امام خمینی اپنے زمانے میں ایک نمونہ شخصیت تھے کہ جنھوں نے نماز پڑھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی ہے اور لوگوں کو نماز کی حقیقت ومعارف سے آگاہ کیا ہے ، آپ نے کبھی بھی زندگی کے مشکل تریں حالات یا اوج کا میابی کے وقت ، صحیح وسالم ہوں یا بیمار ہوں ،سفر میں ہوں یا حضرمیں ،اپنے ملک میں ہوں یا جلاو طنی میں نمازاول وقت اداکرتے تھے اورکسی بھی کام کونمازپرترجیح نہیں دیتے تھے بلکہ نماز کو ہر کام پر مقدم رکھتے تھے، حضرت امام خمینی کی تاریخ زندگی میں لکھاہے:

جس وقت آپ فرانس میں جلاوطنی کی زند گی گذاررہے تھے ، وہ حضرا ت جو آپ کے ہمراہ تھے ان میں سے بعض کا بیان ہے کہ جس وقت آپ فرانس میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے معلوم کیاکہ قبلہ کسی طرف ہے ، آپ پیرس میں رات میں بھی تین بجے نیندسے بیدارہوتے اور خدا کی عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے.

حجت الاسلام جناب سیداحمدخمینی بیان کرتے ہیں : جس وقت ایران سے شاہ نے فراراختیار کی ، ہم اس وقت پیرس میں تھے ، فرانس کی پولیس نے تمام سڑ کیں اور شاہر اہ بندکردئے تھے ، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے صحافی اور خبرنگار وہا ں پر موجود تھے ، افریقہ ، ایشا، پورپ وامریکہ وغیرہ کے اخباری نمائندے بھی موجود تھے اور تقریباً ایکسوپچاس ملکوں کے ویڈیوکیمر ے فیلم بنارہے تھے اور امام خمینی کی تقریر کوبراہ راست پخش کررہے تھے ، آپ یقین کیجئے ات نی تعداد میں خبرنگار حاضر تھے ، کیونکہ اس سال کی یہ سب سے بڑا حادثہ اور خبرتھی، سب کی نظریں اس طرف جمی ہوئی تھی کہ ایران سے شاہ فرارکرگیا ہے ،پس اس کے بعداب امام خمینی کیا تصیم گیری کرتے ہیں ، امام سڑک کے کنارے کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ، تمام کیمروں کے رخ آپ ہی کی طرف تھے،امام نے چندمنٹ تقریر کی اور حالات و مسائل کو بیان کیا ، میں آپ کے برابر میں کھڑا ہوا تھا ،

____________________

١)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ۴٢٩ /ص ١٣۵

۱۵۹

ایک دفعہ امام میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا : احمدبیٹا! کیا نمازظہر کا وقت ہوگیا ہے ؟ میں نے کہا : جی باباجان ! اب ظہر کا وقت ہے ،جیسے ہی امام خمینی کووقت نمازسے آگاہ ہوئے فوراً :“ السلام علیکم ورحمتہ ا لله وبرکا تہ”کہااوراسی موقع پر اپنی تقریر کو ختم کرکے نماز کے لئے آمادہ ہوگئے کیونکہ نماز ظہر کا اول وقت تھا ، آپ فکرکریں ایسی جگہ پر کہ جہاں پر آپ کو پوری دنیا میں اور بی بی سی لندن کے ٹیلیویزن سے دیکھ رہے ہیں CNN لاکھو ں ، کروڑوں انسان خصو صاً اور امام اپنی تقریر کواول وقت نماز کی وجہ سے ختم کردیں اور نماز ظہرکواول وقت ادا کر نے کے لئے تقریرکوختم کردیں اورجب آپ رات میں پیرس سے تہران کے لئے روانہ ہوئے توجہاز کے اندر سب حضرات ) سورہے تھے، صرف آپ ہی ت نہا بیدار تھے اور نماز شب پڑھ رہے تھے۔(۱)

نمازکوضائع کرنے کاعذاب

بغیرکسی مجبوری کے نمازکوتاخیرمیں ڈالنے اوراول وقت اداکرنے میںغفلت اورسستی کرنے کو دوسری عبارت میں نمازکوضائع کرناکہاجاتاہے،جس طرح قرآن وروایات میں اول وقت نمازاداکرنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے اوراول وقت اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہیں اسی طرح ان لوگوں کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے جواپنی نمازوں میں سہل انگاری کرتے ہیں،اوراول وقت نمازکے اداکرنے میں غفلت وسستی استعمال کرتے ہیں۔ خداوندعالم نے قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے لئے ایک عذاب معین کاوعدہ دیاکہ جس کانام ویل ہے :

( فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْنَ الَّذِ یْنَ هُمْ عَن صَلاَ تِهِمْ سٰاهُونَ ) (۲) ویل اورتباہی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں ۔(۲)

امام صادق اس قول خداوندی کے بارے میں فرماتے ہیں: “ساہون ”سے مرادیہ ہے:تاخیرالصلاة عن اول وقتهالغیرغذر. بغیرکسی مجبوری کے نمازکواس کے اول وقت سے تاخیرمیںڈالنے کوسہل انگاری کہاجاتاہے

اورخداوندعالم سورہ مٔریم ارشادفرماتاہے:( فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌاَضَاعُواالصَّلَاةَوَاتَّبَعُوالشَّهَوٰاتَ فَسَوْفَ یَلْقُوْنَ غَیا ) (۳)

____________________

. ١)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢٩٠ /ص ٩۴

۲)سورہ ماعون/آیت ۴۔ ۵

. ۳) سورہ مریم /آیت ۵٨ ۔ ۵٩

۱۶۰