نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار10%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173944 / ڈاؤنلوڈ: 4521
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

روایت میں آیاہے:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے کسی نے پوچھا:یارسول الله !وہ کونسی شئے ہے جس کے ذریعہ روزقیامت نجات پائی جائے گی ؟آنحضرت نے فرمایا:نجات اس چیزمیں ہے کہ آپ (دنیامیں)خداکودھوکانہ دیں،ورنہ وہ کل روزقیامت تمھیں دھوکادے گاکیونکہ جوخداکومکروفریب دیتاہے خدابھی اسے مکروفریب دے گااوراس کے دل سے ایمان کوسلب کرلے گا،اگرانسان غورفکرکرے تووہ خداکونہیں بلکہ خودکودہوکادے رہاہے

اس نے پوچھا:انسان خدا کو کیسے دھوکادے سکتاہے ؟آپ نے فرمایا: خدا کو دھوکادینایہ ہے کہ انسان اس کام کوجس کاالله نے حکم دیاہے انجام دے لیکن اس کوانجام دینے میں کسی دوسرے کاقصدکرے.میں تمھیں وصیت کرتاہوں کہ ریاکاری کرنے میں خداسے ڈرو،کیونکہ ریاکاری شرک ہے، روزقیامت ریاکارشخص کو چارنام سے پکاراجائے گا:اے کافر!،اے فاسق!،اے خائن!،اے تباہ کار!تیرے تمام اعمال حبط ہوگئے اورثواب باطل ہوگیاہے ،آج تیری رہائی ونجات کاکوئی سامان نہیں ہے ،اپنے کئے ہوئے اعمال کااجروثواب اسی سے طلب کرجس کے لئے تونے انجام دئے ہیں۔(۱)

اگرکوئی شخص لوگوں کے درمیان ترویج دین اسلام کی خاطر نمازکو اچھے اندازمیں اداکرتاہے تواسے ریاکاری نہیں کہتے ہیں،اس بارے میں عبدالله ابن بکیرنے عبیدسے رویات کی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے میں نے امام صادق سے پوچھا:اس شخص کے بارے میں کیاحکم ہے جواپنی نمازکولوگوں کے درمیان اس قصدسے انجام دیتاہے تاکہ لوگ اسے نمازپڑھتے ہوئے دیکھیں اوراس کے دین کی طرف تمایل پیداکریں اوراس کے طرفدارہوجائیں ؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا:اسے ریاکاری میں شمارنہیں کیاجاتاہے۔(۲)

____________________

.۱) امالی /ص ۶٧٧ ۔ ثواب الاعمال/ص ٧۵۵ ۔معانی الاخبار/ص ٣۴١

۲). وسائل الشیعہ /ج ١/ص ۵۶

۱۸۱

راز تکبیرة الاحرام

تکبیرکے ذریعہ نمازکاآغازکئے جانے کی وجہ

واجب ہے کہ انسان جیسے ہی نمازکی نیت کرے تواس کے فوراًبعدبغیرکسی فاصلے کےتکبیرة الاحرام یعنی “الله اکبر”کہے اوراس کے ذریعہ اپنی نمازکاآغاز کرے ۔ اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ آغازنمازکے لئے تکبیرکوکیوں معین کیاگیاہے ،کیانمازکوتکبیرکے علاوہ خداوندمتعال کے کسی دوسرے نام سے ابتدا نہیں کیاجاسکتاہے ؟ روایت میں ایاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں مشرف ہوئی ان کے عالم نے آنحضرتسے چندسوال کئے جن میں ایک یہ بھی تھاکہ نمازکوتکبیرکے ذریعہ شروع کیوں جاتاہے؟نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا: ”الله اکبر”فهی کلمة اعلی الکلمات واحبهاالی الله عزوجل یعنی لیس شی أکبرمنه، ولایفتح الصلاة الّابهالکرامته علی اللهوهواسم الاکرم ۔

”الله اکبر”کلموں میں سب سے افضل وبرترکلمہ ہے اوراس کلمہ کوخداوندعالم بہت زیادہ عزیزرکھتاہے یعنی الله کے نزدیک اس کلمہ سے بڑھ کرکوئی چیزنہیں ہے اوراس کلمہ کے علاوہ کسی دوسرے کلمہ سے نمازکی ابتداء کرناصحیح نہیں ہے کیونکہ خداصاحب کرامت ہے اوریہ کلمہ اسم اکرم ہے ۔(۱)

ناک ایک ایسی چیزہے کہ جس کی وجہ سے انسان کے چہرے کی خوبصورتی معلوم ہوتی ہے ،لیکن اگرکسی کے چہرے پرناک ہی موجودنہ تواسے لوگ کیاکہیں گے اورکیانام دیں ،نمازمیں تکبیرة الاحرام کوناک کادرجہ دیاگیاہے کہ جس کے بغیرنمازادھوری ہے جیساکہ ایک حدیث میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:

ہرشے کٔے ایک چہرہ ہوتاہے اورتمھارے دین کاچہرہ نمازہے لہٰذاتمھیں چاہئے کہ اپنے کے دین چہرہ نہ بگاڑیں اورہرچیزکی ایک ناک ہوتی ہے اورنمازکی ناک تکبیرہے (ناک سے چہرے کی خوبصورتی معلوم ہوتی ہے اگرکسی شخص کے چہرہ سے ناک کوختم کردیاجائے تووہ برامعلوم ہوتاہے اسی طرح اگرنمازسے تکبیرکونکال دیاجائے تواس کی خوبصورتی ختم ہوجائے گی)۔(۲)

____________________

. ۱)علل الشرایع /ج ١/ص ٢۵١

. ۲) کافی/ج ٣/ص ٢٧٠

۱۸۲

اس تکبیرکوتکبیرة الاحرام کہے جانے کی وجہ

اس تکبیرکوتکبیرة الاحرام کہتے ہیں،اوراستکبیرکوتکبیرة الاحرام کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعہ محرم ہوجاتاہے اورکچھ چیزیں( جونمازگزارکے لئے غیرنمازکی حالت میں حلال ہوتی ہیں مثلاکسی چیزکاکھاناپینا،قبلہ سے منحرف ہونا،کسی سے کلام کرناچاہے ایک ہی حرف ہو)نمازگزارپرحرام ہوجاتی ہیں،اس بارے میں روایت میں آیاہے:قال رسول الله صلی الله علیه واله:افتتاح الصلاة الوضوء وتحریمها التکبیر وتحلیلهاالتسلیم ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: نمازکی ابتداء وضوکے ذریعہ ہوتی ہے اورتکبیراس کی تحریم ہے اورسلام اس کی تحلیل ہے(۱)

سات تکبیرکہنے کاراز

تکبیرة الاحرام کے علاوہ جوکہ واجب ہے تکبیرة الاحرام سے پہلے یابعدمیں چھ تکبیرکہنامستحب ہے یہ مجموعاسات تکبیرہوجاتی ہیں لیکن پانچ یاتین تکبیرپربھی اکتفاء کرسکتے ہیں، ان تکبیروں کوافتتاحی تکبیرکہتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ نمازکی ابتداء ہوتی ہے لیکن حقیقت میں تکبیرة الاحرام کوافتتاحی تکبیرکہاجاتاہے۔ احادیث معصومین میں نمازکے شروع میں سات افتتاحی تکبیرکہے جانے کے بارے میں چندوجہ بیان اس طرح بیان کی گئی ہیں:

١۔نمازکے شروع میں سات تکبیریں کہنے کارازیہ ہے کہ نبی اکرم نے بھی نمازکومومن کے لئے بارگارہ ملکوتی میں پروازکرنے کاایک بہترین ذریعہ قراردیاہے اورپروازکے لئے سات آسمان کے پردوں کوعبورکرناضروری ہے ،جب مومن تکبیرکہتاہے تو آسمان کاایک پردہ کھل جاتاہے لہٰذاساتوں حجاب عبورہونے کے لئے سات تکبیرکہناچاہئے تاکہ بارگاہ ملکوتی میں پروازکرسکے ۔

ہشام ابن حکم سے روایت ہے کہ امام موسیٰ بن جعفر +نے سات افتتاحی تکبیرکے یہ بیان کی ہے:

انّ النبی صلی الله علیه وآله لما اسری به الی السماء قطع سبعة حُجُبٍ، فکبّرعندکلّ حجابٍ تکبیرة فاوصله الله عزوجل بذلک الیٰ منتهی الکرامة جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے آسمانوں کی سیرکی توسات پردوں سے گزرے توہرحجاب کے نزدیک ایک تکبیرکہی اوران تکبیروں کے وسیلے سے الله تبارک وتعالیٰ نے آنحضرت کو انتہائے کرامت و بلندی پرپہنچایا۔(۲)

____________________

.۱) وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧١۵

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۵

۱۸۳

٢۔ان سات تکبیروں کارازیہ ہے کہ ان کے ذریعہ خداکے صفات ثبوتیہ اورسلبیہ کی تصدیق کی جاتی ہے۔

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ میں مولاامیرالمومنین علی ابن ابی طالب +کی خدمت میں موجودتھا،آپ نے ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے دیکھا،جب وہ نمازسے فارغ ہواتومولانے اس سے پوچھا:اے مرد!کیاتم نمازکی تاویل وتعبیرسے آشنائی رکھتے ہو؟اس نے جواب دیا:میں عبادت کے علاوہ نمازکی کوئی تاویل نہیں جانتاہوں،بس اتناجانتاہوں کہ نمازایک عبادت ہے ،امام (علیه السلام)نے اس سے فرمایا:

قسم اس خدا کی جس نے محمد (صلی الله علیه و آله)کونبوت عطاکی ،خداعالم نے جت نے بھی کام نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کوبجالانے کاحکم دیاہے اس میں کوئی رازاورتعبیرضرورپائی جاتی ہے اوروہ سب کام بندگی واطاعت کی نشانی ہیں ،اس مردنے کہا:اے میرے مولا!آپ انھیں مجھے ضروربتائے وہ کیاہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: نمازکے شروع میں سا ت تکبیرکہناچاہئے ان سات تکبیرکارازیہ ہے کہ جب تم پہلی “الله اکبر” کہوتواپنے ذہن میں یہ خیال کرو کہ خداوندعالم قیام وقعودکی صفت سے پاک ومنزہ ہے ،وہ نہ کھڑاہوتاہے اورنہ بیٹھتاہے ،اورجب دوسری مرتبہ “الله اکبر” توخیال کروکہ خدانہ چلتاہے اورنہ بیٹھتاہے اورتیسری تکبیرسے یہ ارادہ کروکہ خداجسم نہیں رکھتاہے اوراسے ذہن میں تصورنہیں کیاجاسکتاہے ،چوتھی تکبیرکہنے کارازیہ ہے کہ اس میں کوئی بھی عرض حلول نہیں کرسکتاہے اوراسے کوئی مرض نہیں لگ سکتاہے اورپانچوی تکبیرکہنے کارازیہ ہے وہ جوہروعرض جیسی صفت سے منزہ ہے اورچھٹی تکبیرکہنے سے اس چیزکاارادہ کروکہ وہ نہ کسی چیزمیں حلول کرسکتاہے اورنہ کوئی چیزاس میں حلول کرسکتی ہے اورچھٹی تکبیرکہنے سے یہ خیال کروکہ خداونداعالم نہ کبھی نابودہوسکتاہے اورنہ اس میں کسی طرح کی تبدیلی آسکتی ہے وہ تغیروتبدل سے مبراء ہے اورساتوی تکبیرکہنے سے یہ خیال کروکہ اس میں کبھی بھی حواس خمسہ حلول نہیں کرسکتے ہیں۔(۱)

٣۔سات تکبیروں کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے جسے ہم معصوم کی ایک دوحدیث کے ضمن میں ذکرکررہے ہیں جسے “تہذیب الاحکام ”اور“من لایحضرہ الفقیہ”میں ذکرکیاگیاہے:حضرت امام صادق سے روایت ہے کہ :ایک دن جب پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نمازکے لئے کھڑے ہوئے توامام حسین آنحضرتکے پاس کھڑے ہوئے تھے، آنحضرت نے تکبیرکہی مگرامام حسیننے تکبیرنہ کہی ،پیغمبرنے دوبارہ تکبیرکہی پھرامام حسین (علیه السلام) نے تکبیرنہ کہی ،آنحضرتاسی طرح پیوستہ تکبیرکہتے رہے اورمنتظرتھے کہ حسین (علیه السلام)کب تکبیرکہتے ہیں یہاں تک کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے سات مرتبہ تکبیرکہی،جیسے ہی ساتوی تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے تکبیرکاجواب دیا،امام صادق فرماتے ہیں :اسی لئے نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنامستحب قرارپائی ہیں ۔

____________________

. .۱) بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣

۲) تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ۶٧

۱۸۴

امام محمدباقر فرماتے ہیں کہ:امام حسیننے کچھ دیرمیں بولناشروع کیایہاں تک کہ امام حسین -نے بولنے میں انتی دیرکی کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوامام حسینکے کی زبان اقدس میں قوت گویائی نہ رکھنے کاخوف پیداہوا، آنحضرت جب نمازکے لئے مسجدمیں ائے توامام حسین - کوبھی اپنے ہمراہ لے کر آئے اورنمازپڑھتے وقت امام حسین کواپنے دائیں جانب کھڑاکیااورنمازپڑھناشروع کی ،لوگوں نے بھی آنحضرت کے پیچھے صف میں کھڑے ہوکرشروع کی ،آنحضرت نے جیسے ہی تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے بھی تکبیرکہی ،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے دوبارہ تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے دوبارہ تکبیرکہی،یہاں تک کہ پیغمبرنے سات مرتبہ تکبیرکہی اورحسین (علیه السلام)نے آپ کی اتباع میں سات مرتبہ تکبیرکہی ،اسی لئے نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنامستحب قرارپائی ہیں۔(۱)

۴ ۔روایت میں سات افتتاحی تکبیرکی ایک اوروجہ اس طرح بیان کی گئی ہے: فضل بن شاذان سے مروی ہے کہ امام علی رضا ان سات تکبیروں کی مشروعیت کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ نمازکے شروع میں سات تکبیروں کوکیوں مشروع کیاگیاہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ ان سات تکبیروں میں ایک تکبیرواجب ہے اوربقیہ مستحب ہیں اوران استحبابی تکبیرکی وجہ یہ ہے کہ اصل میں نمازدورکعت ہے(۲) اوردورکعت نمازمیں مجموعاًسات تکبیرپائی جاتی ہیں:

١۔تکبیراستفتاح یعنی تکبیرة الاحرام ٢۔پہلی رکعت کے رکوع میں جانے کی تکبیر ٣۔ ۴ ۔ پہلی رکعت کے دونوں سجدوں میں جانے کی تکبیر ۵ ۔دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیر ۶ ۔ ٧ دوسر ی رکعت کے دونوں سجدوں کی تکبیر

نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنے رازیہ ہے کہ اگرنمازی ان مذکورہ سات تکبیروں میں کوئی تکبیربھول ہوجائے یاکلی طورسے ان سے غافل ہوتوشروع میں کہی جانے والی تکبیریں ) اس کاتدارک کرسکتی ہیں اورنمازمیں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔(۳)

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣٠۵١

۲)اوربعدمیں ظہروعصراورعشاکی نمازمیں دودورکعت کاضمیمہ کیاہے اورمغرب میں ایک ( رکعت اورنمازصبح میں کوئی اضافہ نہیں کیاہے اسے ہم پہلے حدیث کے ضمن میں“واجب نمازوں کی رکعتوں کی تعدادکت نی ہے”کے عنوان میں ذکرکرچکے ہیں۔

.۳)علل الشرایع/ج ١/ص ٢۶١

۱۸۵

تکبیرکہتے وقت دونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرنے کاراز تکبیرة الاحرام اوراس کے علاوہ نمازکی دیگرتمام تکبیرکہتے وقت دونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرنامستحب ہے،اوردونوں ہاتھوں کوکانوں تک اس طرح بلندکریں کہ ہتھیلیاں قبلہ کی سمت قرارپائیں۔

عن علی علیه السلام فی قوله تعالیٰ ( فصلّ لربک وانحر ) انّ معناه ارفع یدیک الی النحرفی الصلاة ۔

حضرت علی اس آیہ مٔبارکہ( فصلّ لربک وانحر ) کے بارے میں فرماتے ہیں: اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نمازمیں (تکبیرکہتے وقت)ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرو۔(۱)

تفسیرمجمع البیان میں آیہ کٔریمہ( فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ) کی تفسیر کے ذیل میں حضرت علیسے یہ روایت نقل کی ہے:

حضرت علی فرماتے ہیں :جب یہ آیہ مٔبارکہ نازل ہوئی تونبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے جبرئیل امین سے پوچھا:یہ نحیرہ کیاچیزہے جس کامجھے حکم دیاگیاہے؟کہا: جبرئیل امین نے جواب دیا:نحیرہ سے مرادکچھ نہیں ہے مگریہ کہ پرودگارکاحکم ہے :جب تم نماز کیلئے قیام کرو توتکبیرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلندکرواوراسی طرح رکوع میں جانے سے پہلے اوررکوع میں جانے کے بعداورسجدے میں جاتے وقت اور سجدے سے سربلندکرتے ہوئے تکبیرکہواوردونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلند کروکیونکہ ہماری نمازاورساتوں اسمان میں ملائکہ کی نمازکایہی طریقہ ہے(کہ وہ تکبیرکہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرتے ہیں)کیونکہ ہرچیزکیلئے ایک زینت ہوتی ہے اورنمازکی زینت یہ ہے کہ ہر تکبیرمیں ہاتھوں کوبلندکیاجائے۔(۲)

ایک شخص امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں آیااور عرض کیا:اے خدا کی بہترین مخلوق (حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)) کے چچازادبھائی میں آپ پرقربان جاو ںٔ،تکبیرةالاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرنے کے کیامعنی اوراس کارازکیاہے ؟ امام نے فرمایا:

الله اکبرالواحدالاحدالذی لیسکمثله شی لٔایلمسبالاخماس ولایدرک بالحواس ۔

”الله اکبر”یعنی وہ ایک اوراکیلاہے ،اس کاکوئی مثل نہیں ہے ،وہ “ وحدہ لاشریک ”ہے اوراسے حواسپنجگانہ کے ذریعہ درک ومحسوسنہیں کیا جاسکتا ہے۔(۳)

____________________

۱)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧٢٨

.۲) تفسیرمجمع البیان/ج ٢٠ /ص ٣٧١

.۳) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۶

۱۸۶

نبی اکرمفرماتے ہیں: تکبیرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں بلند کرنا قیامت میں نامۂ اعمال لینے کے لئے ہاتھ بڑھانے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے :

( اِقْرَء کِتٰا بَکَ کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَومَ عَلَیْکَ حَسِیْباً ) (۱)

اب اپنی کتاب کو پڑھ لوآج تمھارے حساب کے لئے یہی کتاب کافی ہے۔(۲)

فضل بن شاذان سے مروی ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ تکبیرکہتے وقت دونوں کوکانوں تک بلندکرنے کارازکیاہے توا سے یہ جواب دوکہ دونوں ہاتھوں کوبلندکرنا ایک نوع تضرع وزاری ہے اورغیرخداسے دوری کرناہے لہٰذاخداوندعالم دوست رکھتاہے کہ نمازی عبادت میں خضوع ،التماس اورتضرع کی کیفیت پیداکرے اوردوسری وجہ یہ ) ہے کہ ہاتھوں کوبلند کرنے سے نیت میں استمدادپایاجاتاہے اورحضورقلب پیداہوتاہے۔(۳)

عرفان اسلامی میں لکھاہے ،بعض علمائے دین کہتے ہیں : نماز کی نیت کرنے کے بعد تکیبرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلندکرنے کے معنی ہیں:بارالٰہا! میں گناہوں میں غرق ہوں ،تو میر ے ان دونوں ہاتھوں کو پکڑلے اورمجھے نجات دیدے

(۴)

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١١١

٢)اسرارالصلاة (عبدالحسین تہرانی)/ص ۴١

. ۳)علل الشرایع/ج ١/ص ٢۴۶

۴) عرفان اسلامی /ج ۵/ص ٢٠٣

۱۸۷

رازقیام

جب نمازکے لئے کھڑے ہوجائیں تو نہایت اخلاص وحضورقلب کے ساتھ تکبیرة الاحرام کہیں اوربغیرکسی حرکت کے سیدھے کھڑے رہیں،بدن کوحرکت نہ دیں ،نہ ذرہ برابرکسی طرف جھکیں اورنہ کسی چیزپرٹیک لگائیں بلکہ سیدھے کھڑے ہوکرسکون وآرام کے ساتھ تکبیرة الاحرام کہیں ۔

تکبیرة الاحرام کہتے وقت قیام کرنااوررکوع میں جانے سے پہلے قیام کرناجسے قیام متصل بہ رکوع کہتے ہیں یہ دونوں قیام رکن نمازہیں اگران دونوں میں سے کوئی قیام عمداًیاسہواًترک ہوجائے تونمازکادوبارہ پڑھناواجب ہے لیکن حمدوسورہ پڑھتے وقت اورراسی طرح رکوع کے بعدبھی قیام کرناواجب ہے مگر یہ ایساقیام ہے کہ جس کے عمداًًترک کرنے سے نمازباطل ہے اورسہواًترک ہوجانے سے نمازباطل نہیں ہوتی ہے ۔مستحب ہے کہ نمازگزارقیام کی حالت میں اپنے دونوں کاندھوں کونیچے کی طرف جھکائے رکھے، دونوں ہاتھوں کو نیچے لٹکائے رکھے،دونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کواپنی ران پررکھے،پیرکے انگوٹھوں کوقبلہ کی سمت رکھے،دونوں پیروں کے درمیان حداقل تین انگلیوں کے برابر اورحداکثرایک بالشت کے برابرفاصلہ رکھے،بدن کاوزن ایک ساتھ دونوں پاو ںٔ پررکھے اورالله کی بارگاہ میں خضوع وخشوع کے ساتھ قیام کریں۔

رازوجوب قیام

نمازمیں قیام کواس لئے واجب قراردیاگیاہے تاکہ نمازگزاراس کے ذریعہ اس قیام کویادکرے جب اسے قبرسے بلندکیاجائے گااورپروردگارکے سامنے حاضرکیاجائے گا، پس نمازگزار قیام نمازکے ذریعہ روزقیامت قبروں سے بلندہوکربارگاہ خداوندی میں قیام کرنے کویادکرتاہے اورقیام نمازروزقیامت کے قیام کی یادتازہ کراتی ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:( یَومَ یَقُومُ النّٰاسُ لِرَبِّ الْعٰالَمِیْن ) (١) یادکرواس دن کوکہ جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہو نگے۔

حضرت آیت الله جوادملکی تبریزی “اسرارالصلاة”میں لکھتے ہیں :نمازکی حالت میں قیام کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ انسان با رگا ہ باری تعا لیٰ میں کھڑے ہو کر اس کی بند گی کا حق اداکر ے اور الله کی نعمت و برکتوں بہرہ مند ہو اور اپنے دل میں یہ خیال پیداکرے کہ کل مجھے قیامت میں بھی اس کی بارگاہ میں قیام کرنا ہے ،قیام میں قیام کواسی لئے واجب قرادیاگیاہے تاکہ نمازگزاراس قیام کے ذریعہ روزقیامت کے قیام کویادکرے ۔(۲)

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١١١

. ۲)اسرارالصلاة /ص ٢٠۴

۱۸۸

تفسیر“کشف الاسرار” میں لکھاہے:نمازمیں کی حالت میں نماز گزارکی چار شکل وہیئت پائی جاتی ہیں قیام، رکوع،سجود قعود، اس کی حکمت و فلسفہ یہ ہے کہ مخلوقات عالم کی بھی چار صورت ہیں بعض موجودات ایسے ہیں جو ہمیشہ سیدھے کھڑا رہتے ہیں وہ درخت وغیرہ ہیں (جوالله کی حمدوثنا کرتے رہتے ہیں )اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع کی مانندخمیدہ حالت میں رہتے ہیں جیسے چوپائے، اونٹ، گائے ،بھیڑ ،بکریاں وغیرہ اوربعض ایسے بھی جو ہمیشہ زمیں پرسجدہ کے مانندپڑے رہتے ہیں وہ حشرات اورکیڑے وغیرہ ہیں اور بعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ زمین پر بیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش و نبا تات وگل وگیا ہ وغیرہ ہیں اوریہ سب الله کی تسبیح کرتے ہیں

خدا وند عالم اپنی عبادت کے لئے انسان پرنمازمیں موجودات جہان کی ان چاروں صورتوں کوواجب قراردیاہے تاکہ انسان قیام ورکوع وسجود وقعو د کے ذریعہ ان تمام موجودات کی تسبیح کاثواب حاصل کرسکے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اس لئے خدانے انسان کوعبادت میں بھی ان سے افضل قراردینے کے لئے نمازمیں قیام وقعود،رکوع وسجودکوواجب قراردیاہے ۔(۱)

نمازمیں قیام ورکوع وسجوداورقعودکے واجب قراردئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے : دنیاکی ہرشئے الله کی عبادت وبندگی کرتی ہے ،کچھ موجودات ایسے ہیں جوزندگی بھرسیدھے کھڑے رہتے ہیں وہ درخت وغیرہ ہیں اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع کی طرح خمیدہ حالت میں رہتے ہیں وہ چوپائے (اونٹ گائے،بھیڑ،بکری ،گھوڑے)وغیرہ ہیں اورکچھ ایسے ہیں جومنہ کے بل زمین پر پڑے رہتے ہیں وہ حشرات وغیرہ ہیں اورکچھ ایسے بھی ہیں جوزمین پربیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش ونباتات وغیرہ ہیں اوریہ سب موجودات الله کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ،اس کی حمدونثاکرتے رہتے ہیں لہٰذاخدوندعالم نے اشرف المخلوقات کواپنی عبادت کے لئے ان سب موجودات کے طرزعبادت کویکجاجمع کردیاہے جس کے مجموعہ کونمازکہاجاتاہے تاکہ انسان موجودات عالم کی تسبیح کوانجام دے سکے ۔

____________________

.۱) تفسیرکشف الاسرار/ج ٢/ص ٣٧۶ ۔ ٣٧٧

۱۸۹

رازقرائت

نمازمیت کے علاوہ تمام دورکعتی (واجب اورمستحبی )نمازوں کی دونوں رکعتوں میں اوردورکعتی نمازوں کے علاوہ تین رکعتی (نمازمغرب)اورچاررکعتی (ظہروعصر وعشاء)نمازوں کی پہلی دونوں رکعتوں میں تکبیرة الاحرام کے فوراًبعدسورہ حٔمداورکسی ایک اورسورے کی قرائت کرناواجب ہے۔حمدکے بجائے کسی دوسرے کی قرائت کرناصحیح نہیں ہے اورکوئی شخص حمدکے بجائے کسی دوسرے سورہ کی قرئت کرے تواسکی نمازباطل ہے ۔ ابن ابی جمہوراحسائی نے اپنی کتاب“ عوالی اللئالی ”میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)سے یہ روایت کی ہے:قال صلی الله علیه وآله وسلم:لاصلاة الّابفاتحة الکتاب .

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :سورہ حٔمدکے بغیرنمازی ہی نہیں ہوتی ہے ۔(۱)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:لاصلاة لمن لم یقرا بٔامّ الکتاب فصائداً ۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جو شخص نماز میں سور ئہ حمداوراس کے علاوہ دوسرے کی قرا ئت نہیں کرتا ہے اسکی نماز صحیح نہیں ہے ۔(۲)

سورہ حٔمدکے بعدکسی ایک مکمل سورہ کی قرائت کرناواجب ہے ،اگرکوئی شخص دونوں سوروں سے ایک سورے کے ترک کرنے پرمجبورہوجائے میں تواس صورت میں حمدکاترک کرناجائزنہیں ہے، ایسانہیں ہوسکتاہے کہ حمدکوچھوڑکردوسرے سورہ کی قرائت پراکتفاء کرے خواہ واجبی نمازہویا مستحبی جیساکہ حدیث میں آیاہے:

عن محمدبن مسلم عن ابی عبدجعفرعلیه السلام قال : سئلته عن الذی لایقرء بفاتحة الکتاب فی صلاته ؟ قال: لاصلاة الّاا نٔ یقرء بهافی جهرا ؤاخفات، قلت:ایمااحبّ الیک اذاکان خائفاا ؤمستعجلایقرء سورة ا ؤفاتحة ؟فقال:فاتحة الکتاب .

محمدابن مسلم سے مروی ہے ،میں نے امام باقر سے پوچھا:اس شخص کی نمازکے بارے میں کیاحکم ہے جواپنی نمازمیں سورہ حٔمدکی قرائت نہیں کرتاہے ؟امام(علیه السلام) نے جواب دیا:سورہ حٔمدکے بغیرنماز(قبول)نہیں ہوتی ہے ،چاہے جہری نمازپڑھ رہاہویااخفاتی ،میں نے کہا:اگروہ شخص حالت خوف میں ہے یاکسی ضروری کام کے لئے جلدی ہے(اوراس کے پاس صرف اتناوقت ہے کہ وہ فقط ایک سورہ کی قرائت کرسکتاہے) آپ کس چیزکودوست رکھتے ہیں وہ اس صورت میں سورہ کوپڑھے یاحمدکو؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:سورۂ حمدکوپڑھے۔

____________________

۱). عوالی اللئالی/ج ١/ص ١٩۶--.۲) مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٨

. ۳)الکافی/ج ٣/ص ٣١٧

۱۹۰

قرائت کے واجب قراردئے جانے کی وجہ

بعض لوگ ایسے ہیں جواصلاً قرآن کی تلاوت نہیں کرتے ہیں یاکسی روزکرتے ہیں اورکسی روزنہیں کرتے ہیں ،نمازمیں اس لئے تلاوت کوواجب قراردیاگیاہے تاکہ قرآ ن نہ پڑھنے والے لوگ کم ازکم روزانہ پانچ مرتبہ نمازکے واسطہ سے قرآن کی تلاوت کرسکے اوراس کے ثواب سے محروم نہ رہے ۔

فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے منقول نمازمیں قرائت کے واجب قرادئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی ہے:

امرالناس بالقرائة فی الصلاة لنلایکون القرآن مهجوراًمضیعاً، ولیکن محفوظا مدرسا فلایضمحل ولایجهل.

نمازمیں قرائت قرآن کریم کواس لئے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ قرآن مجیدلوگوں کے درمیان مہجورومتروک واقع نہ ہونے پائے بلکہ (گروآلود اورضایع ہونے سے )محفوظ رہے بلکہ حفظ ومطالعہ کے دامن میں قراررہے اورتاکہ لوگ اسے نہ بھول پائیں۔(۱)

قال صلی الله علیه وآله:قراء ة القرآن فی الصلاة افضلٌ من قراء ة القرآن فی غیرالصلاة

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: نماز میں قرآن کی قرائت کرنا غیرنماز میں تلاوت کرنے سے افضل ہے۔(۲)

حضرت امام محمدباقر فرماتے ہیں:جوشخص کھڑے ہوکرنمازپڑھتاہے اوروہ نمازمیں قیام کی حالت میں قرآن کریم کی قرائت کرتاہے تو جت نے بھی حرفوں کی قرائت کرتاہے ،ہرحرف کے بدلہ اس کے نامہ اعمال میں سونیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اگر بیٹھ کر نمازپڑھتاہے تو ہر حرف پر پچاس نیکیاں لکھی جاتی ہیں،لیکن اگرکوئی شخص غیرنمازکی حالت میں قرآن کی قرائت کرتاہے توخداوندعالم اس کے نامہ أعمال میں ہرحرف کے عوض دس نیکیاں درج کرتاہے ۔(۳)

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١٠

۲). تحف العقول/ص ۴٣

.۳) ثواب الاعمال/ص ١٠١

۱۹۱

رازاستعاذہ

سورہ حٔمدکی قرائت شروع کرنے سے پہلے مستحب ہے کہ الله تبارک وتعالی سے شیطان رجیم کے بارے میں پناہ مانگی جائے کیونکہ نمازمیں واجب ہے کہ انسان اپنی نیت کوآخرصحیح وسالم رکھے،اورنمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھے،خداکے علاوہ کسی دوسری چیزکواپنے ذہن میں نہ لائے اورانسان کاعمل جت نازیادہ مہم ہوتاہے شیطان بھی اپنی پوری قدرت کے ساتھ اس پرحملہ کرنے کوشش کرتاہے اورشیطان نمازوعبادت خداوندی کوبہت زیادہ دشمن رکھتاہے کیونکہ وہ یہ جانتاہے ہے کہ نمازوعبادت انسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے لہٰذابندہ مٔومن جب نمازکے لئے قیام ہے توشیطان اس کے دل میں وسوسہ پیداکرنا چاہتا ہے اوراسے نمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھنے سے منحرف کرنے اور ریاکاری کی چنگاری پیداکرنے کی کوشش کرتاہے ،اورہروقت بندوں کوراہ عبادت سے چھوڑدےنے اور گناہ ومنکرات میں ملوث ہونے کی دعوت دینے کے لئے حاضرہوتاہے ۔

وسوسہ شیطانی سے بچنے اورنمازمیں اخلاص وحضورقلب پیداکرنے لئے مستحب ہے کہ نمازگزارجب نمازکے لئے قیام کرے توسورہ حٔمدسے پہلے الله سے شیطان رجیم کی پناہ مانگے اور“أعوذباللهمن الشیطان الرجیم ”کہے ۔

نمازکے شروع میں استعاذہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے اللھسے شیطان رجیم کی پناہ مانگنامسحتب ہے لہٰذانمازمیں قرآن کی قرائت کرنے سے شیطان رجیم سے پناہ مانگنامستحب ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:

( فَاِذَاقَرَا تِٔ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْبِاللهِ مِنَ الشَّیْطَاْنِ الرَّجِیْمِ،اِنّهُ لَیْسَ لَهُ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَلیٰ رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ )

جب آپ قرآن پڑھیں توشیطان رجیم کے مقابلہ کے لئے الله سے پناہ طلب کریں،شیطان ہرگزان لوگوں پرغلبہ نہیں پاسکتاہے جوصاحبان ایمان ہیں اورجواللھپرتوکل واعتمادرکھتے ہیں۔(۱)

____________________

۱). سورہ نٔحل/آیت ٩٨ ۔ ٩٩

۱۹۲

ہرسورہ کے شروع میں“بسم الله”ہونے کی وجہ

”بسم ا لله” سورہ کاجزء ہے اس لئے سورہ کی ابتداء اسی کے ذریعہ ہونی چاہئے ،کیونکہ ہرکام کی ابتداء “ بسم ا لله الرحمن الرحیم ” کے ذریعہ ہونی چاہئے ،اگرکسی نیک کی کام ابتدا الله تبارک تعالیٰ کے نام سے ہونی چاہئے ،اگرکسی کام کی ابتدا الله کے نام سے نہ کی جائے تواس میں شیطان کے دخل ہونے کاامکان پایاجاتاہے اوراس کام کے نامکمل ہونے کابھی امکان رہتاہے اس لئے ہرنیک کی ابتداء الله کے نام کی جائے اسی لئے ہرسورہ کی ابتداء “بسم ا لله ” کے ذریعہ ہونی چاہئے اسبارے میں حدیث میں آیاہے: عن النبی صلی الله علیہ وسلم انہ قال:کلّ امرٍذی بالٍ لم یذکرفیہ باسم الله فَہوابتر. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہروہ کام جو“بسم الله ”سے شروع نہیں ہوتاہے وہ پایہ تٔکمیل کونہیں پہنچتاہے۔(۱)

راز قرائت حمد

نمازمیت کے علاوہ تمام دورکعتی (واجب اورمستحبی )نمازوں کی دونوں رکعتوں میں اوردورکعتی نمازوں کے علاوہ تین رکعتی (نمازمغرب)اورچاررکعتی (ظہروعصر وعشاء)نمازوں کی پہلی دونوں رکعتوں میں تکبیرة الاحرام کے فوراًبعدسورہ حٔمدکی قرائت کرناواجب ہے اورحمدکے بجائے کسی دوسرے کی قرائت کرناصحیح نہیں ہے اورکوئی شخص حمدکے بجائے کسی دوسرے سورہ کی قرئت کرے تواس کی نمازباطل ہے ۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:لاصلاة لمن لم یقرا بٔامّ الکتاب فصاعداً ۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جو شخص نماز میں سور ئہ حمداوراس کے علاوہ دوسرے کی قرا ئت نہیں کرتا ہے اسکی نماز صحیح نہیں ہے ۔(۲) سورہ حٔمدکے ذریعہ قرائت کے آغازکئے جانے ک وجہ روایتوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے:

فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے منقول نمازمیں قرائت کے واجب قرادئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی ہے:

انمابدء بالحمددون سائر السورلانّه لیس شی مٔن القرآن والکلام جمع فیه من جوامع الخیروالحکمة ماجمع فی سورة الحمد.

قران کریم میں کوئی سورہ یاکوئی کلام ایسانہیں ہے کہ جس میں سورہ حٔمدکے برابرخیروحکمت موجودہوں اورقول“الحمدلله”ادائے شکرالٰہی ہے کہ جسے خداوندعالم نے واجب قراردیاہے ان نعمتوں کے بدلہ میں جواسنے اپنے بندوں پرنازل کی ہیں۔(۳)

____________________

۱). المیزان /ج ١/ص ١۴ ۔بحارالانوار/ج ٩٢ /ص ٢۴٢

۲). مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٨

۳) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١٠

۱۹۳

حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورآپ کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ نمازکے لئے کھڑے ہوئے اورتکبیرکہہ نمازشروع کی تووحی پروردگارنازل ہوئی :میرانام لو!تونبی راکرم (صلی الله علیه و آله)نے “بسم الله ”اوراس طرح “بسم الله”کوہرسورہ کے شروع میں رکھاگیااوراسے سورہ کاجزء قراردیاگیااس کے بعدوحی نازل ہوئی:اے رسول !میری حمدکرو،آنحضرت نے سورہ حٔمدکی قرائت کی ۔(۱)

روایت میں آیاہے ،امام صادق سے کسی نے اس آیہ مٔبارکہ( وَلَقَدْآتَیْنَاکَ سَبْعً مِنَ الْمَثَانِی وَالْقُرآنِ الْعَظِیْمِ ) (۲) کے بارے میں پوچھاتو امام (علیه السلام)نے فرمایا:سورہ حٔمدکو سبع مثانی کہاجاتاہے کیونکہ سورہ حٔمدایساسورہ ہے جس میں سات آیتیں ہیں اوران میں سے ایک( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) بھی ہے اسی لئے سبع کہاجاتاہے اورمثانی اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ سورہ نمازکی پہلی دورکعتوں میں پڑھا جاتا ہے ۔

پہلی رکعت میں سورہ قٔدراوردوسری میں توحیدکے مستحب ہونے کی وجہ فقہاء کے درمیان مشہوریہ ہے کہ واجب نمازوں کی پہلی اوردوسری رکعت میں سورہ حمدکے بعدایک مکمل سورہ کی قرائت کرناواجب ہے لیکن مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ حٔمدبعدسورہ قدراوردوسری رکعت میں سورہ تٔوحیدکی قرائت مستحب ہے ہمارے تمام آئمہ اطہار کی یہی سیرت رہی ہے وہ اپنی نمازوں کی پہلی رکعت میں سورہ حمدکے بعدسورہ قدراوردوسری رکعت میں سورہ تٔوحیدکی قرائت کرتے تھے ۔ رویات میں آیاہے کہ امام علی ابن موسی الرّضا واجب نماز وں کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورئہ قدراِنَّا اَنْزَ لْنَاهُ اور دوسری رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورئہ توحیدقُلْ هُوَاللهُ اَحَدْ کی قرائت کرتے تھے ۔(۳)

ایک اورروایت میں آیاہے:ایک شیعہ اثنا عشری شخص نے حضرت مہدی (عجل الله تعالیٰ فرجہ شریف) کی خدمت میں خط تحریرکیااور امام (علیه السلام) سے پوچھا:اے میرے مولا!آپ پرمیری جان قربان ہو!میں آپ سے ایک چیزمعلوم کرناچاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ نماز کی پہلی اوردوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعدکس سورہ کی قرائت کرنازیادہ فضیلت رکھتاہے ؟امام (علیه السلام)نے جواب میں تحریرفرمایا:

___________________

۱). الکافی/ج ٣/ص ۴٨۵

.۲) مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٧

۳). وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧۶٠

۱۹۴

پہلی رکعت میں سورئہ( اِنَّااَنْرَ لْنَاهُ فی لَیْلَةاِلْقَدْر ) اور دوسری رکعت میں سورئہ( قُلْ هُوَ الله احَدْ ) اور امام (علیه السلام)نے فرمایا:تعجب ہے کہ لوگ نمازوں میں سورئہ قدر کی قرائت نہیں کرتے ہیں، کسطرح ان کی نمازیں بارگاہ ربّ العزّت میں قبول ہوتی ہیں ۔(۱)

لیکن روایت میں یہ بھی ملتاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پہلی رکعت میں حمدکے سورہ توحیداوردوسری رکعت میں سورہ قدرکی قرائت کرتے تھے اورشب معراج بھی آپ کوپروردگارنے پہلی رکعت میں حمدکے سورہ تٔوحیدپڑھنے کاحکم دیا: اے محمد!(ص)سورہ حمدکے بعداپنے پروردگارکاشناسنامہ اورنسبت کوپڑھوقُلْ ہُوَاللهُ اَحَدٌ،اَلله الصَّمَدُ،لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْ،وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًااَحَدْ

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نماز کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعدسورہ تٔوحید کی قرائت کی اورجب دوسری رکعت میں سورہ حٔمدپڑھاتوپروردگارکی طرف سے وحی نازل ہوئی:

اے محمد!(ص)دوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد( اِنّااَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْر ) ... کی قرائت کروکیونکہ یہ سورہ روزقیامت تک تمھارااورتمھارے اہلبیت سے منسوب ہے ،یہ سورہ تمھارااورتمھارے اہلبیت کی پہچان نامہ ہے جسمیں تمھاراشجرہ موجودہے ۔(۲)

سوال یہ ہے جب سنت رسول یہ ہے کہ پہلی رکعت میں توحیداوردوسری رکعت میں قدرکی قرائت کی جائے توپھرپہلی رکعت سورہ قٔدرکی قرائت کرنازیادہ ثواب کیوں رکھتاہے؟ اس کی وجہ اوررازکیاہے؟

اس کاجواب خودحدیث معراج سے واضح ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی ذات وہ ہے کہ جوالله تبارک وتعالیٰ سے اس درجہ قریب تھے کہ قاب وقوسین کی منزل تک پہنچ گئے تھے اورالله ورسول کے درمیان کوئی واسطہ نہیں تھااسی الله نے اپنے حبیب کوحکم دیا:سورہ حٔمدکے بعدتوحیدکی قرائت کرواوردوسری رکعت میں سورہ قدرپڑھوکیونکہ سورۂ توحید میراشجرہ نامہ ہے اوراس میں میری نسبت ذکر ہے اورسورہ قٔدر تمھارے اہلبیت اطہار سے ایک خاص نسبت رکھتاہے اوراس میں تمھارے اہبیت کاشجرہ نامہ ذکرہے

وہ لوگ جوالله سے قربت حاصل کرناچاہتے ہیں انھیں چاہئے کہ ان عظیم القدرذات کاسہارالے کر جوالله سے بہت زیادہ قریب ہوں اس کی بارگامیں قدم رکھیں تاکہ وہ ان کی عبادت کوان ذوات مقدسہ کے طفیل سے قبول کرلے

____________________

۱). وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧۶١

.۲) کافی/ج ٣/ص ۴٨۵

۱۹۵

اہلبیت اطہار وہ ذوات مقدسہ ہیں جواللھسے بہت زیادہ قریب ہیں اسی لئے مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں اہلبیت سے منسوب سورہ قدرکی قرائت کی جائے اوردوسری رکعت میں خداوندعالم سے منسوب سورہ کی قرائت کی جائے لیکن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کوخدانے شب معراج پہلی رکعت میں سورہ توحید اوردوسری رکعت میں سورہ قٔدرکی قرائت کرنے حکم دیااس کی وجہ یہ ہے:

آنحضرت حبیب خداہیں اورخداورسول کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ خداوندعالم براہ راست وحی کے ذریعہ اپنے حبیب سے گفتگوکرتاہے اسلئے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کوخدانے پہلی رکعت میں اپنی ذات سے منسوب سورہ کی قرائت کاحکم دیا۔ روایت میں آیاہے :مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد “( انّا انزلناه ) ” اوردوسری رکعت میں “( قل هوالله ) ”کی قرائت کی جائے کیونکہ سورہ قٔدرنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کے اہلبیت اطہار کاسورہ ہے لہٰذاہمیں چاہئے کہ اپنی نمازوں میں ان ذوات مقدسہ کو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ قراردیں کیونکہ انھیں کے وسیلہ سے خداکی معرفت حاصل ہوتی ہے۔(۱)

سورعزائم کے قرائت نہ کرنے کی وجہ

اگرکوئی نمازی عمداًاپنی واجب نمازوں میں ان میں کسی ایک سورہ کی قرائت میں مشغول ہوجائے اورابھی سجدہ والی آیت کی قرائت نہیں کی ہے توواجب ہے کہ کسی دوسرے سورہ کی طرف منتقل ہوجائے اوراگرسجدہ ؤاجب والی آیت قرائت کرچکاہے تونمازباطل ہے کیونکہ اس آیت کی قرائت کرنے سے سجدہ کرناواجب ہے اوراس سجدہ کے کرنے سے نمازمیں ایک سجدہ کی زیادتی ہوجائے گی جوکہ نمازکے باطل ہوجانے کاسبب ہے لہٰذااس صورت میں واجب ہے کہ بیٹھ جائے اورسجدہ کرے اس کے بعدکھڑے ہوکردوبارہ نمازپڑھے ۔ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:واجب نمازوں میں قرآن کریم کے چار عزائم سوروں میں سے کسی ایک بھی سورہ کی قرائت نہ کرواوروہ چارسورے یہ ہیں سورۂ سجدہ لٔقمان ، حم سجدہ،نجم،علق،اگرکوئی شخص ان چارسورں میں سے کسی ایک سورہ کی قرائت کرے تواس پرواجب ہے کہ سجدہ کرے اوریہ دعاپڑھے:”الٰهی آمنابماکفرواوعرفناماانکروا ، واجبناک الیٰ مادعوا ، الٰهی فالعفو العفو “ اس کے بعدسجدہ سے سربلندکرے اورتکبیرکہے (اوردوبارہ نمازپڑھے)۔(۲) زرارہ نے امام باقریاامام صادق سے روایت کی ہے ،امام (علیه السلام)فرماتے ہیں:اپنی واجب نمازوں میں سجدہ والے سوروں کوقرائت نہ کروکیونکہ ان پڑھنے سے نمازمیں ایک سجدہ زیادہ ہوجائے گااور زیادتی کی وجہ سے نمازباطل ہوجائے گی ۔(۳)

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١۵

.۲) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۶

۳). تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٩۶

۱۹۶

رازجہراوخفات

مردوں پرواجب ہے کہ صبح اورمغرب وعشا کی نمازمیں حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھیں لیکن عوتیں بلنداورآہستہ آوازمیں پڑھ سکتی ہیں جبکہ کوئی نامحرم ان کی آوازنہ سن رہاہو،اگرکوئی نامحرم عورت کی آوازسن رہاہے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ آہستہ پڑھے اورنمازظہروعصرکی نمازمیں مردوعورت دونوں پرواجب ہے کہ حمدوسورہ کوآہستہ پڑھیں لیکن مردوں کے لئے مستحب ہے ان نمازوں میں “( بسم الله الرحمٰن الرحیم ) ” کوبلندآوازسے کہیں۔ حداخفات یہ ہے کہ نمازی خوداپنی قرائت کوسن سکتاہواورحدجہریہ ہے کہ امام جہری نمازوں میں قرائت کوات نی بلندآوازسے پڑھے کہ مامومین تک اس کی آوازپہنچ سکے اورمعمول سے زیادہ آوازبلندنہ کرے یعنی اسے چیخ نہ کہاجائے ،اگرچیخ کرپڑھے تونمازباطل ہے بلکہ معتدل طریقہ اختیارکرے یعنی آوازنہ ات نی زیادہ ہوکہ اسے چیخ کہاجائے اورنہ ات نی کم ہوکہ خودکوبھی آوازنہ آئے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( لَاتَجْهَرْبِصَلَاتِکَ وَلَاتُخَافِت بِهَا )

اے رسول!اپنی نمازمیں میانہ روی اختیارکرو،نہ زیادہ بلندآوازسے اورنہ زیادہ آہستہ سے پڑھو۔(۱)

ظہروعصرکی نمازمیں قرائت حمدوسورہ کے آہستہ پڑھنے اورنمازصبح ومغربین میں بلندآوازسے پڑھنے کاحکم کیوں دیاگیاہے ،تمام نمازوں میں حمدوسورہ کوبلندیاآہستہ پڑھنے میں کیاحرج ہے ؟

فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امام(علیه السلام) نے اس چیزکی وجہ بیان کی ہے کہ بعض نمازوں کوبلندآوازسے اوربعض کوآہستہ کیوں پڑھناچاہئے؟

امام علی رضا فرماتے ہیں:بعض نمازوں کوبلندآوازسے پڑھنے کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ نمازیں اندھرے اوقات میں پڑھی جاتی ہیں لہٰذاواحب ہے کہ انھیں بلندآوازسے پڑھاجائے تاکہ راستہ گزرنے والاشخص سمجھ جائے کہ یہاں نمازجماعت ہورہی ہے اگروہ نمازپڑھناچاہتاہے توپڑھ لے کیونکہ اگروہ نمازجماعت کونہیں دیکھ سکتاہے تونمازکی آوازسن کرسمجھ سکتاہے نمازجماعت ہورہی ہے (لہٰذانمازصبح ومغربین کوبلندآوزسے پڑھناواجب قراردیاگیاہے)اوروہ دونمازیں جنھیں آہستہ پڑھنے کاحکم دیاگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں نمازیں دن کے اجالہ میں پڑھی جاتی ہیں اوروہاں سے گزرنے والوں کونظرآتاہے کہ نمازقائم ہے لہٰذااس میں سننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اسی لئے ان دونماز(ظہرین)کوآہستہ پڑھنے کاحکم دیاگیاہے۔(۲)

____________________

.۱) سورہ أسراء /آیت ١١٠

۲). علل الشرایع/ج ١/ص ٢۶٣

۱۹۷

محمدابن حمزہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا: کیاوجہ ہے کہ نمازجمعہ اورنمازمغرب وعشاء اورنمازصبح کوبلندآوازسے پڑھاجاتاہے اور نماز ظہر و عصر کو بلندآوازسے نہیں پڑھاجاتا ہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:

جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے توجمعہ کادن تھااورالله کی طرف واجب کی گئی پہلی نمازظہرکاوقت تھا(جب آنحضرت نے نمازجمعہ پڑھناشروع کی)خداوندعالم نے ملائکہ کوحکم دیاکہ وہ پیغمبر اسلام کے پیچھے جماعت سے نمازپڑھیں اورپیغمبرکوحکم دیاکہ حمدوسورہ کوبلندآوازسے قرائت کریں تاکہ انھیں اس کی فضیلت معلوم ہوجائے اس کے بعدالله نے نمازعصرکوواجب قراردیااور(جوفرشتے نمازظہرمیں حاضرتھے ان کے علاوہ) کسی فرشتہ کونمازجماعت میں اضافہ نہیں کیااورپیغمبراسلام کوحکم دیاکہ نمازعصرکوبلندآوازسے نہ پڑھیں بلکہ آہستہ پڑھیں کیونکہ اس نمازمیں آنحضرت کے پیچھے کوئی (نیافرشتہ )نہیں تھا

نمازظہروعصرکے بعدالله تعالیٰ نے نمازمغرب کوواجب قراردیااورجیسے ہی مغرب کاوقت پہنچاتوآنحضرت نمازمغرب کے لئے کھڑے ہوئے توآپ کے پیچھے نمازمغرب پڑھنے کے لئے ملائکہ حاضرہوئے ،الله نے اپنے حبیب کوحکم دیاکہ اس نمازمیں حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھوتاکہ وہ سب قرائت کوسن سکیں اوراسی طرح جب نمازعشاء کے کھڑے ہوئے توملائکہ نمازمیں حاضرہوئے توخدانے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوحکم دیاکہ اس نمازمیں بھی حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھو،اس کے بعدجب طلوع فجرکاوقت پہنچاتوالله نے نمازصبح کوواجب قراردیااوراپنے حبیب کوحکم دیاکہ اس نمازکوبھی بلندآوازسے پڑھوتاکہ جس ملائکہ پراس نمازکی فضلیت واضح کی گئی اسی طرح لوگوں کوبھی اس کی فضیلت معلوم ہوجائے۔(۱) یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس آئی اورانھوں نے آنحضرت سے سات سوال کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھاکہ تین نمازوں کوبلندآوازسے پڑھنے کاحکم کیوں دیاگیاہے ؟آنحضرت نے فرمایا:

اس کی وجہ یہ ہے انسان جت نی بلندآوازسے قرائت کرے گااورجس مقدارمیں اس کی آوازبلندہوگی اسی مقدارمیں جہنم کی آگ سے دوررہے گااورآسانی کے ساتھ پل صراط سے گزرجائے گااوروہ خوش وخرم رہے گایہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔(۲)

____________________

۱). علل الشرایع/ج ٢/ص ٣٢٢

۲). خصال(شیخ صدوق)/ص ٣۵۵

۱۹۸

روایت میں ایاہے کہ حضرت امام علی بن محمد سے قاضی یحییٰ ابن اکثم نے چندسوال کئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ نمازصبح میں قرائت کے بلندآوازسے پڑھنے کی کیاوجہ ہے ؟

امام (علیه السلام) نے فرمایا:نمازصبح اگرچہ دن کی نمازوں میں شمارہوتی ہے لیکن اس کی قرائت کورات کی نمازوں (مغرب وعشا)کی طرح بلندوآوازسے پڑھناجاتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اس نمازکی قرائت کوبلندآوازسے پڑھتے تھے اوراس لئے بلندآوازسے پڑھتے تھے کیونکہ یہ نمازشب سے قریب ہے۔(۱)

حمد کے بعدآمین کہناکیوں حرام ہے

سورہ حمدکی قرائت کے بعدآمین کہناجائزنہیں ہے بلکہ “( الحمدلله رب العالمین ) ”کہنامستحب ہے کیونکہ سنت رسول یہی ہے کہ قرائت حمدکے بعد “( الحمدلله رب العالمین ) ” کہاجائے۔حدیث معراج میں آیاہے :جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورخداوندعالم نے آپ کونمازپڑھنے کاحکم دیااوروحی نازل کی:

اے محمد!( بسم الله الرحمن الرحیم ) کہواورسورہ حٔمدپڑھو ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ایسا ہی کیااور“ولاالضالین ”کہنے کے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہا(آمین نہیں کہا لہٰذاسنت رسول یہ ہے کہ سورہ حمدکے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہاجائے )۔(۲)

جمیل ابن دراج سے مروی ہے امام صادق فرماتے ہیں:جب تم جماعت سے نمازپڑھو اورامام جماعت سورہ حٔمدکی قرائت سے فارغ ہوجائے توتم“( الحمدلله رب العالمین ) ” کہواورآمین ہرگزنہ کہو۔(۳) معاویہ ابن وہب سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :میں نے امام صادقسے کہا:میں امام جماعت کے “( غیرالمغضوب علیهم ولاالضالین ) ”کہنے کے بعدآمین کہتاہوں توامام (علیه السلام)نے فرمایا:وہ لوگ یہودی اورمسیحی ہیں جوامام جماعت کے “( غیرالمغضوب علیهم ولاالضالین ) ” کے کہنے بعدآمین کہتے ہیں۔اس کے بعد امام(علیه السلام) نے کوئی جملہ نہیں کہااورامام(علیه السلام) کااس سائل کے سوال کاجواب دینے سے منہ پھیرلینااس بات کی دلیل کے ہے کہ امام(علیه السلام) قرائت کے بعد اس جملہ کہنے کوپسندنہیں کرتے تھے ۔(۴)

____________________

۱). علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٢٣

.۲) کافی/ج ٣/ص ۴٨۵

.۳) الکافی/ج ٣/ص ٣١٣

۴). تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٧۵

۱۹۹

سورہ حمدکی مختصرتفسیر

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

کچھ لوگ امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں موجودتھے کاایک شخص نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا:اے میرے مولاآقاآپ پرہماری جان قربان ہو،ہمیں( بِسْمِ الله الرَّحمٰنِ الرّحِیْمِ ) کے معنی سے آگاہ کریں، امام (علیه السلام)نے فرمایا:سچ یہ ہے کہ جب تم لفظ “الله” کو اپنی زبان پر جاری کرتے ہوتوتم خداکے افضل ترین ناموں میں سے ایک نام کا ذکرکرتے ہو ،یہ ایسانام ہے جس کے ذریعہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو اس نام سے یاد نہیں کیا جاسکتا ہے اور خداکے علاوہ کسی بھی مخلوق کواس نام سے نہیں پکارا جاسکتاہے ،دوسر ے شخص نے پوچھا: “الله”کی تفسیر کیا ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا: ”الله” وہ ذات ہے کہ دنیاکی ہر مخلوق ہرطرح کے رنج وغم ، مشکلات ،حاجتمندی اورنیاز مندی کے وقت اسی سے لولگا تی ہے،اور تم بھی اپنے ہر چھوٹے بڑے کام کو شروع کرتے وقت “بسم الله الرحمن الرحیم ”کہتے ہوپس تم درحقیقت یہ کہتے ہو: ہم اپنے اس کام میں اس خدا سے مدد طلب کرتے ہیں جس کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرناجائز نہیں ہے اور اس خدا سے جو رحمن ہے یعنی رزق وروزی کو وسعت کے ساتھ ہم پر نازل کرتا ہے اور وہ خدا جو رحیم ہے اوردونوں جہاں میں یعنی دنیاوآخرت میں ہم پررحم کرتاہے ۔(۱)

الحمدلله رب العالمین

ایک شخص امیرالمومنین علی بن ابی طلب +کی خدمت میں ایااورعرض کیا : یاامیرالمومنین !آپ میرے لئے “ اَلْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن”کی تفسیر بیان کیجئے ،امام علینے فرمایا : “الحمدلِلّہ”کی تفسیریہ ہے کہ خداوندعالم نے اپنی بعض نعمتوں کو اجمالی طور سے اپنے بندوں کے سامنے ان کی معرفی کی ہے اورواضح طورسے ان کی معرفی نہیں کی ہے کیونکہ بندے تمام نعمتوں کوکامل طورسے شناخت کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں اس لئے کہ خداکی عطاکی ہوئی نعمتیں ات نی زیادہ ہیں کہ انسان انھیں شمار کرنے اوران کی معرفت حاصل کرنے سے قاصرہے لہٰذا “الحمدلله”کے معنی یہ ہیں کہ تمام حمدوثناء خداسے مخصوص ہے ان نعمتو ں کی وجہ سے جو اس نے ہمیں عطا کی ہیں اورامام (علیه السلام) نے فرمایا:“ربّ العالمین”یعنی خداوند عالم دونوں جہاں( دنیاوآخرت )کاپیداکرنے والاہے ،اوردونوں جہاں کا مالک وصاحب اختیار ہے یعنی حیوانات وجمادات ونباتات ،آگ،ہوا،پانی ،زمین ،آسمان ،دریا کا مالک ہے۔(۲)

____________________

۱). بحارالانوار/ج ٢٩ /ص ٢٣٢

۲). بحارالانوار/ ٢٩ /ص ٢۴۵

۲۰۰

الرحمن الرحیم

”رحمٰن”الله کی ایک صفت عام ہے جودنیامیں مومن اورکافردونوں کے شامل حال ہوتی ہے اورتمام بندوں پراس کی رحمت نازل ہوتی ہے ،وہ دنیامیں ہرانسان مومن ،منافق،عالم ،جاہل ،سخی ، ظالم ،حاکم کورزق عطاکرتاہے ،اورکسی بندے کواپنے دروازہ رٔحمت سے خالی نہیں لوٹاتاہے

” رحمٰن” وہ ذات ہے جواپنے تمام بندوں(مومن ،منافق کافر)کی روزی کے بارے میں شدیدطورسے متمائل رہتاہے اوران کی روزی کوقطع نہیں کرتاہے چاہے وہ کت ناہی گناہ کریں،چاہے کت نی ہی اس کی نافرمانی کریں،وہ اپنی وسیع رحمت کے ذریعہ اپنے تمام بندوں کو روزی عطا کرتا ہے اور کسی کا رزق قطع نہیں کرتا ہے اب چاہے اس بندہ کامسلمان ہویاکافر،مومن ہویامنافق ،اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہوں یا نافرمانی ،لیکن یہ یادرہے کہ خداوندعالم زمین پر مومنین کے وجودکی خاطردوسروں پررحم کرتاہے اگردنیاسے مومینن کاوجودختم ہوجائے تویہ دنیاتباہ وبربادہوجائے ،اسبارے میں ہم پہلے حدیث کو ذکرکرچکے ہیں۔ ” رحیم”خداکی ایک خاص صفت ہے کہ جوآخرت میں فقط مومنین سے مخصوص ہے امام صادق رحمن ورحیم کے معنی اس طرح بیان کرتے :الله تبارک تعالیٰ ہرشئے پرقدرت رکھتاہے ،وہ (دنیامیں)اپنی تمام مخلوق پررحم کرتاہے اور(روزقیامت )فقط مومنین پررحم کرے گا۔(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:رحمن ایک اسم خاص ہے جوفقط الله تبارک تعالیٰ سے مخصوص ہے اورصفت عام ہے یعنی الله تبارک وتعالیٰ اپنے تمام بندوں پررحم کرتاہے اوررحیم اسم عام لیکن صفت خاص ہے یعنی روزقیامت فقط ایک مخصوص گروہ پررحم کیاجائے گا۔(۲)

حضرت علی فرماتے ہیں : خدا وند عالم اپنے تمام بندوں پررحم کرتاہے اور یہ خداکی رحمت ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے ١٠٠ /رحمت پیدا کی ہیں اور ان میں سے ایک رحمت کو اپنے بندوں کے درمیان قرار دیا ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں،والداپنے اپنے فرزندپررحم کرتاہے اورحیوانات مائیں اپنے بچوں پررحم کرتی ہیں،جب قیاوت کادن آئے گاتواس ایک رحمت کی ٩٩ /قسم ہوں گی کہ جس کے ذریعہ امت محمدی پرحم کیاجائے گا۔(۳)

____________________

۱). کافی /ج ١/ص ١١۴

۲). تفسیرمجمع البیان /ج ١/ص ۵۴

۳). تفسیرامام حسن عسکری/ص ٣٧

۲۰۱

خداکی رحمت اس درجہ عام اوروسیع ہے کہ اس کی رحمت سے ناامیدہوناگناہ کبیرہ ہے کیونکہ وہ خودقرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( لَاتَقْنَطُوامِنْ رَحْمَةِ اللهِ،اِنَّ اللهَیَغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِیْعاًاِنّهُ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) (۱) الله کی رحمت سے مایوس نہ ہوناالله تمام گناہوں کامعاف کرنے والاہے اوروہ بہت زیادہ بخشنے والااورمہربان ہے۔

مالک یوم الدین

ایک دن وہ بھی آئے گاجب تمام لوگوں کوان کی قبروں سے بلندکیاجائے اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ وعدالت میں کھڑاکیاجائے گا،وہاں کسی کی نہ اولاد کام آئے گی ،نہ کسی کواس کامال کام آئے گا،لوگوں کے تمام ذریعے ،وسیلے اورامیدیں ختم ہوجائیں گی اوراس روزنہ فرعون کی حکومت ہوگی ،نہ نمرودکی ،نہ ہامان کی ،نہ شدادکی ،نہ اورکسی دوسرے شیطان صفت انسان کی بلکہ صرف خداکاکی حکومت ہوگی اوراسی کاحکم نافذہوگا، سورہ أنفطارمیں ارشادباری تعالیٰ ہے:

( وَالامرُ یومَئِذٍلِلّٰهِ ) اس دن تمام امورخداکے ہاتھ میں ہونگے۔ اس روزتمام لوگوں سے یہ سوال ہوگا:( لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم ) آج حکومت کس کی ہے؟ جواب دیں گے( لِلّٰه الْوَاحِدِالْقَهّار ) اس خداکی جواکیلا ہے اورقہاربھی ہے،جسدن لوگوں یہ سوال کیاجائے گااس روزکوقیامت کہتے ہیں۔(۲)

اس روزصرف انسان کے وہ نیک اعمال کام آئیں گے جواس نے دنیامیں آل محمدکی محبت وولایت کے زیرسایہ انجام دئے ہونگے

امیرالمومنین علی ابی طالب آیہ مٔبارکہ( مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) کے بارے میں فرماتے ہیں : حقیقت یہ ہے کہ خدا وند عالم قیامت کے دن تمام مخلوق کی تقدیر کا مالک ہو گا اور جس نے دنیا میں خدا کے بارے میں شک کیاہوگا ،اس کے حکم کی نافرمانی کی ہوگی اورطغیانی وسر کشی کی ہوگی وہ ان سب کو واصل جہنم کرے گا اورجن لوگوں نے اس کی اطاعت کی ہوگی اوران میں تواضع وانکسا ری پائی جاتی ہو گی ان کو خلد بریں میں جگہ عنایت کر گا۔(۳)

____________________

۱) سورہ زٔمر/آیت ۵٣ (

۲). سورہ أنفطار/آیت ١٩

۳) ” ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز”/ش ٧٧۵ /ص ٢۴٢

۲۰۲

ایاک نعبدوایاک نستعین

یہاں تک بندہ نے سورہ حٔمدکی آیتیں قرائت کی ہیں ان میں الله تبارک وتعالیٰ کی رحمت اوراس کی کرامت کااقرارکرتاہے اوراس کے مالک وخالق دونوں ہونے کی شہادت دیتاہے لیکن اب یہاں سے اس آیہ کریمہ کے ذریعہ اظہاربندگی کرتاہے اورکہتاہے :میری عبادت فقط تیرے لئے ہے ،تیرے علاوہ کسی دوسرے کوعبادت میں شریک قرارنہیں دیتاہوں یعنی میں اقرارکرتاہوں کہ میرامعبودفقط ایک ہے ۔

جوبندہ حقیقت میں الله تبارک تعالی کے رحیم وکریم اورمالک دوجہاں ہونے کااقرارکرتاہے ،اوراپنی عبادت کواسی سے مخصوص کرتاہے وہ کسی بھی مخلوق کے آگے سرنہیں جھکاتا ہے،اپنے آپ کوذات پروردگارکے علاوہ کسی دوسرے محتاج نہیں سمجھتاہے ،اب وہ لوگ جوالله تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے ہیں اوردوسروں کے آگے سربھی جھکاتے ہیں اوردوسروں کے سامنے اپنی حاجتوں کوبیان کرتے ہیں وہ لوگ فقط زبان سے خداکوایک مانتے ہیں ،اوریقین کامل کے ساتھ اسے اپنامعبودنہیں مانتے ہیں ،اس پرمکمل بھروسہ نہیں رکھتے ہیں البتہ کسی ایسی بابرکت ذات گرامی کوجوالله تبارک سے بہت زیادہ قریب ہواسے وسیلہ قراردینے کوشرک نہیں کہاجاتاہے اوروسیلہ کے بغیرکسی جگہ کوئی رسائی ممکن نہیں ہے ،وسیلہ کے بارے میں ذکرہوچکاہے لہٰذایہاں پربحث طولانی اورتکرارہوجائے گی ۔

جمع کی لفظ استعمال کئے جانے کاراز

اس آیہ مبارکہ کے بارے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ متکلم ایک شخص ہے اور وہ خدا سے کہہ رہا ہے : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں جب قرائت کرنے والا ایک شخص ہے پھروہ اپنے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کرتا ہے ؟ مندرجہ ذیل امورمیں سے کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے ١۔دین اسلام میں نمازجماعت کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے کیونکہ الله تبارک وتعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

۲۰۳

( وَارْکَعُوا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ) (١) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ نمازجماعت کی اہمیت وفضیلت کے بارے میں روایتوں کوذکرکرچکے ہیں،جماعت میں موجودتمام بندے رکوع وسجودکرتے ہیں اس لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہے اورنمازمیں موجودہربندہ یہ کہتاہے: بارالٰہا!میں اکیلانہیں ہوں بلکہ اس پوری جماعت کے ساتھ ہوں اورسب کی جانب سے کہتاہوں ہم تیری عبادت کرتے ہیں اورتجھ ہی سے مددطلب کرتے ہیں،جمع کی لفظ استعمال کرنے سے ایک طرح کی گواہی بھی دی جاتی ہے میرے یہ بندہ بھی تیری عبادت میں مشغول ہیں۔

شہیدمطہری فرماتے ہیں:سورہ حٔمد نماز کا قطعی جزء ہے ،ہم اس سورے میں خداسے کہتے ہیں :“ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَاِ یَّاکَ نَسْتَعِیْنُ” (بارالٰہا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددچاہتے ہیں) یعنی خدا یا ! میں ت نہانہیں ہوں ، بلکہ میں تمام مسلمانوں کے ساتھ ہوں ،میں اس جماعت کے ساتھ ہوں اسی لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہوں۔(۲)

اگرکوئی یہ اعتراض کرے ،جومومن فرادیٰ نمازپڑھتاہے تووہ جمع کاصیغہ کیوں استعمال کرتاہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ اگرمومن ت نہائی میں بھی نمازپڑھتاہے اس لئے وہ جماعت کاحکم رکھتاہے اور جمع کاصیغہ استعمال کرتاہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:

المومن وحدہ جماعة مومن بندے کی ت نہائی میں پڑھی جانے والی نمازبھی جماعت میں شمارہوتی ہے ۔(۳)

٢۔انبیاء وآئمہ اطہار کے علاوہ کوئی بھی شخص دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتاہے کہ میرارب مجھ سے راضی ہے اورمیں نے جواس کی عبادت کی ہے وہ سچے دل سے کی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ مکمل معرفت کے ساتھ الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اوران کی عبادت برگاہ رب العزت میں قبول بھی ہوتی ہے اوروہ اپنے ان نورانی بندوں کی مددبھی کرتاہے،مگرہم تمام بندے خاک کے پتلے ہیں ،گناہوں میں الودہ ہیں،الله تبارک تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے ہیں اوراس کی عبادت ،اطاعت اوربندگی میں ناقص ہیں اورہم اپنی حاجتوں کوالله کے علاوہ دوسروں کے آگے بھی بیان کرتے ہیں ،شایدہماری یہ عبادت بارگاہ خداوندی میں مقبولیت کادرجہ نہ رکھتی ہولہٰذاہم اپنی عبادتوں کے ساتھ انبیاء ورسل اورآئمہ اطہار کی عبادتوں کو بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں

____________________

۱)سورہ بٔقرہ/آیت/ ۴٣

. ٢)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٩۶۶ /ص ٢٩٨.

.۳) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۶۵

۲۰۴

تاکہ خداوندعالم ان کی عبادت کے وسیلے سے ہماری عبادت کوبھی قبول کرلے اوران کے وسیلے سے ہماری بھی مددکردے کیونکہ ہمیں اس بات کایقین ہے کہ وہ انبیاء ورسل اورآئمہ اطہار کی عبادتوں کوضرورقبول کرتاہے لہٰذاہم اپنی معیوب عبادتوں کوان صلحاء کے ساتھ بارگاخداوندی میں پیش کرتےہیں جس سے خداہماری ان معیوب عبادتوں کوقبول کرسکتاہے اورہماری مددکرسکتاہے۔

اگریہ سوال کرے کہ اگرہم اس مذکورقصدسے جمع کی لفظ استعمال کرتے ہیں توپھرخودانبیاء وآئمہ جمع کی لفظ کیوں استعمال کرتے تھے ؟

اس کاجواب یہ ہوسکتاہے کہ انبیاء وآئمہ اپنے محبوں کوہمیشہ یادرکھتے ہیں اوران ترقی وکامیابی کی دعاکرتے ہیں لہٰذابارگاہ خداوندی میں کہتے ہیں:بارالٰہا!توہماری عبادتوں کے ساتھ ہمارے محبوں کی بھی عبادت کوقبول کراورجس طرح توہماری مددکرتاہے ان بھی مددکراورروزقیامت بھی اپنے محبوں کاخاص خیال رکھیں اورانھیں اپنی شفاعت کے ذریعہ بہشت میں جگہ دلائیں گے ۔

٣۔ نمازمیں انسان کی فقط زبان ہی تسبیح وتقدیس پروردگانہیں کرتی ہے بلکہ اس کے تمام اعضاء وجوارح ،ہاتھ ،پیر،آنکھ، ناک، کان، دل اوردماغ شریک عبادت رہتے ہیں ،انسان نمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھتاہے،خضوع خشوع رکھتاہے لہٰذاوہ اکیلانہیں ہے اس لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہے ۔

۴ ۔ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلّالِیَعْبُدُوْنِِ ) (۱) میں نے جن وانس کونہیں پیداکیامگریہ کہ وہ میری عبادت کریں

جب خدانے تمام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے، نمازگزارنمازمیں جمع کی لفظ سے یہ بتاناچاہتاہے چونکہ الله نے تمام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے اورسب اس کی حمدوثناء کرتے ہیں اورمیں بھی انھیں میں سے ہوں لہٰذاہم سب تیری ہی توعبادت کرتے ہیں۔

____________________

.۱)سورہ ذٔاریات/آیت ۶۵

۲۰۵

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.

تفسیرفاتحة الکتاب میں لکھاہے : ہم نمازمیں اس آیہ مٔبارکہ کو زبان پر جاری کرتے ہو ئے پروردگار سے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے پروردگار ! تو ہمیں توفیق عطاکر کہ جس طرح ہم تیری پہلے سے عبا دت کرتے آرہے ہیں آئندہ بھی تیرے مطیع وفرما نبردار بندے بنے رہیں(۱)

امیرالمومنین حضرت علی سے پوچھا گیا : پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)اور تمام مسلمان نماز میں دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں:“( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ) ” پروردگارا! تو ہم کو راہ راست کی ہدایت فرما جبکہ وہ سب ہدایت یافتہ ہیں؟ امام(علیه السلام) نے جواب دیا “اِھْدَنا”سے مرادیہ ہے کہ خدایا! توہم کو راہ راست پر ثابت قدم رکھ۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:“( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ) ”یعنی پروردگارا! توہمیں ایسے راستے کی ہدایت کرتارہ جو تیری محبت ودوستی پر منتہی ہوتاہواوروہ سیدھاجنت کوپہنچتاہو اورتو ہمیں خواہشات نفسکی پیروی ( اورجہنم کے راستہ )سے دوررکھ ۔(۳)

امام صادقفرماتے ہیں:علی ابن ابی طالب صراط المستقیم هیں عن السجادعلیه السلام قال:نحن ابواب الله ونحن صراط المستقیم . حضرت امام سجاد فرماتے ہیں : ہم آئمہ طا ہرین الله کے دروازہ ہیں اورہم ہی صراط مستقیم ہیں(۴)

( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)آیہ مبارکہ “( اهدناالصراط المستقیم ) ”کے بارے میں فرماتے ہیں:صرط مستقیم سے مرادوہ دین خداہے کہ جس کوخدانے جبرئیل کے ذریعہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)پرناز ل کیااوراس آیہ مٔبارکہ “( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) ”کے بارے میں فرماتے ہیں: اس آیت میںصراط سے مراد حضرت علی کے وہ شیعہ ہیں کہ جن پرخداوندعالم نے ولایت علی ابن ابی طالب +کے ذریعہ اپنی نعمتیں نازل کی ہیں،نہ ان پرکبھی اپناغضب نازل کرے گااورنہ وہ کبھی گمراہ ہوں گے۔(۵)

____________________

۱) تفسیرفاتحة الکتاب/ص ۴۵

۲). ہزارویگ نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٧١٣ /ص ٢٢۵

۳)تفسیرالمیزان/ج ١/ص ٣٨

۴)معانی الاخبار/ص ٣۵ ۔

.۵) تفسیرنورالثقلین/ج ١ج/ص ٢٣

۲۰۶

امام صادق فرماتے ہیں:“( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ) ”سے حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) اوران کی ذریت مرادہے۔(۱)

امیرالمومنین حضرت علی - فرماتے ہیں:الله تبارک وتعالیٰ کاانکارکرنے والے “مغضوب علیہم ”اور“ضالین”میں شمارہوتے ہیں۔(۲)

امام صادق “( غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) ”کے بارے میںفرماتے ہیں: “مغضوب علیہم ”سے ناصبی مرادہیں اور“ضالین ” سے وہ لوگ مرادہیں جوامام کے بارے میں شک کرتے ہیں اوران کی معرفت نہیں رکھتے ہیں۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:“( المغضوب علیهم ) ”سے یہودی اور“ضالین ”سے نصاری مرادہیں(۴)

حسین دیلمی “ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز”میں لکھتے ہیں: قرآن کریم نے فرعون وقارون اور ابولہب کواورقوم عادوثموداورقوم بنی اسرائیل کوان میں شمارکیاہے جن پر خداوند عالم کا قہروغضب نازل ہو ا ہے(۵) اسی لئے ہم لوگ نماز میں روزانہ کہتے ہیں( غَیْرِالْمَفْضُوب عَلَیِْمْ وَلِاالضّٰالّیِْن ) بارالہا ! تو ہم کو ان لوگو ں میں سے قرار نہ دے جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ، اور جو لوگ گمراہ ہو گئے پروردگارا! تو ہم کو اعتقاد واخلاق وعمل میں فرعون ،قارون وابو لہب اور قوم عادوثمو دو بنی اسرائیل کے مانند قرار نہ دے اور ہمارے قدموں کوان کے راستے کہ طر ف اٹھنے سے باز رکھ۔(۶)

____________________

.۱) تفسیرنورالثقلین/ج ١ج/ص ٢٣

. ۲)بحارلانوار/ج ٩٢ /ص ٣۵۶

.۳) تفسیرقمی /ج ١/ص ٢٩

۴). بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢١

۵)اعراف /آیت ٨۵ ۔ ٩٢ ۔بقرہ /آیت ۶١ کی طرف اشارہ ہے.

۶)ہزارویک نکتہ دربارہ نماز/ش ٨٨٠ /ص ٢٧٣ (

۲۰۷

سورہ تٔوحیدکی مختصرتفسیر

سورہ توحیدکوتوحیدکہے جانے اوراس کے نزول کی وجہ اس سورہ کوتوحیدکہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پورے سورہ میں پہلی آیت سے آخری آیت تک توحیدباری تعالیٰ کاذکرہے اوراس سورہ کواخلاص بھی کہتے ہیں کیونکہ انسان اس سورہ کی معرفت اوراس پرایمان واعتقاد رکھنے سے شرک جیسی نجاست سے پاک وخالص ہوجاتاہے بعض کہتے ہیں:اگرکوئی اس سورہ کوتعظیم خداکوذہن میں رکھ کرقرائت کرتاہے توخداوندعالم اسے آتشجہنم سے نجات دے دیتاہے۔ کتب تفاسیرمیں اس سورہ کی شان نزول کی حدیث کے ضمن میں چندوجہ بیان کی گئی ہیں:

١۔ابی ابن کعب اورجابرسے مروی ہے کہ مشرکین نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)سے کہا:آپ ہمارے لئے اپنے خداکی معرفت بیان کریں توآنحضرت پریہ سورہ نازل ہوا۔ ٢۔ابن عباس سے مروی ہے :عامربن طفیل اوراردبن ربیعہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں آئے ،عامرنے کہا: اے محمد!تم ہمیں کس کی طرف دعوت دیتے ہو؟آنحضرت نے کہا: خداکی طرف،اس نے کہا:تم اپنے اس خداکی صفت بیان کرو،وہ سونے سے بناہے یاچاندی سے ،لوہے سے بناہے یالکڑی سے؟پسخداوندعالم نے یہ سورہ نازل کیا۔ ٣۔محمدابن مسلم نے حضرت امام صادق سے روایت کی ہے ،امام فرماتے ہیں کہ: یہودیوں نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے سوال کیااورکہا :اے محمد!تم اپنے پروردگارکی معرفت بیان کرواوراس کانسب بتاؤ(کہ وہ خدا کون ہے ، اس کا باپ کون ہے ، اس کافرزند کون ہے شایدہم ایمان لے آئیں ) آنحضرت نے تین دن ان کی بات کاجواب نہ دیااورغور وفکر کرتے رہے کیونکہ وحی پروردگا ر کے منتظر تھے ، الله کی مرضی کے بغیر کوئی بھی جملہ اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے تھے لہٰذاخدا کی طرف سے سورئہ “( قُلْ هُوَاللهُ اَحَدْ ) ” نازل ہوا۔(۱)

مرحوم کلینی نے کافی معراج النبی سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ جسوقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازکاوقت پہنچاتوخدانے آپ کووضوکرنے کاحکم دیا ،آپ نے وضوکیااورنمازکے کھڑے ہوئے ،انبیاء ملائکہ نے آپ کے پیچھے نمازجماعت کے کھڑے ہوئے ہیں خداوندعالم نے وحی نازل کی:

____________________

.۱) تفسیرمجمع البیان/ج ١٠ /ص ۴٨۵

۲۰۸

اے محمد! “( بسم الله الرحمن الرحیم ) ”کہواورسورہ حٔمدپڑھو ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ایسا ہی کیااور“( ولاالضالین ) ”کہنے کے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہا(آمین نہیں کہا لہٰذاسنت رسول یہ ہے کہ سورہ حمدکے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہاجائے ) خدانے کہا: اے محمد!(ص)سورہ حمدکے بعداپنے پروردگارکاشناسنامہ اورنسبت کوپڑھواوراے رسول !ان مشرکین سے کہدو( قُلْ هُوَاللهُ اَحَدٌ، اَلله الصَّمَدُ،لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْ،وَلَمْ یَکُنْ لَّهُ کُفُوًااَحَدْ ) وہ الله ایک ہے،اللھبرحق اوربے نیازہے ،اس کاکوئی عدیل ونظیرنہیں ہے کہ جواس کے مثل ہو،پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نماز کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورہ تٔوحید کی قرائت کی اورجب دوسری رکعت میں سورہ حٔمدپڑھاتوپروردگارطرف سے وحی نازل ہوئی: اے محمد!(ص)دوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد( اِنّااَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْر ) ... کی قرائت کروکیونکہ یہ سورئہ روزقیامت تک تمھارااورتمھارے اہلبیت سے منسوب ہے یہ سورہ تمھارااورتمھارے اہلبیت کاشناسنامہ ہے جسمیں تمھاراشجرہ موجودہے ۔(۱)

اَحَدْکہے جانے کی وجہ

سوال یہ ہے کہ خداوندعالم نے “احد”کیوں کہا“واحد”کیوں نہیں کہا؟مختصرجواب یہ کہ احداورواحددونوں میں فرق پایاجاتاہے “احد”یعنی وہ اکیلاعددکہ جس میں کسی طرح کی دوئی ،ترکیب اورتجزیہ کاامکان نہیں ہے اوروہ اپنی ذات میں تجزیہ وتقسیم کی صلاحیت نہیں رکھتاہے اوراس کے لئے ثانی اوردوئی کاوجودنہیں پایاجاتاہے لیکن “واحد”ایساعددہے جس میں تجزیہ وترکیب اورتقسیم بندی کاامکان پایاجاتاہے اوراسکاثانی موجودہوتاہے۔ امیرا لمو منین حضرت علی سے سورئہ توحید کی تفسیربیان کرنے کی فرمائش کی گئی تو آپ نے فرمایا :“قل ھوالله احد” یعنی خدا ایسااکیلاہے کہ جس کی ذات وصفات میں تعددنہیں پایاجاتاہے (اور کوئی اس کا شریک نہیں ہے )“الله الصمد”یعنی خدا کی ذات ایسی ہے کہ جس کے کوئی اعضاء واجزاء نہیں ہیں اور ہر چیز سے بے نیاز ہے(یعنی خداجسم نہیں رکھتاہے )”( لَمْ یَلدِْ ) ”یعنی اس کے کوئی فرزند بھی نہیں ہے تاکہ وہ فرزند اس کی حکومت کا وارث بن سکے کیونکہ جوصاحب فرزندہوتاہے وہ جسم بھی ضرور رکھتاہے اور جو جسم رکھتا ہے اس کے فنابھی ہے اور جو مر جاتاہے اس کی حکومت وباد شاہت کسی دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ہے (لیکن خدا نہ جسم رکھتا ہے نہ کوئی فرزند اور نہ اس کو موت آ ئے گی ، وہ ہمشیہ سے ہے اور ہمشیہ رہے گا)”( وَلَم لوُلَدْ ) ”یعنی اس کوکسی نے پیدا نہیں کیا ہے ،اگراس کے کوئی باپ ہوتاتووہ بادشاہت اورخدائی کے لئے زیادہ لائق ومستحق ہوتا اورکم ازکم وہ باپ اپنے بیٹے کا شریک ضرورہوتا۔(۲)

____________________

۱). کافی/ج ٣/ص ۴٨۵

.۲) تفسیرمجمع البیان/ج ١٠ /ص ۴٨٩

۲۰۹

رازتسبیحات اربعہ

تین اورچاررکعتی نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں نمازی کواختیارہے چاہے ایک مرتبہ سورہ حٔمدپرھے یاتین مرتبہ تسبیحات اربعہ یعنی “سبحان الله والحمدللهولااله الّاالله والله اکبر ”کہے اورایسابھی کرسکتاہے کہ تیسری رکعت میں حمداورچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ پڑھے

اس کی کیاوجہ ہے کہ تین وچاررکعتی نمازوں کی تیسری وچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کاپڑھنازیادہ ثواب رکھتاہے اورسورہ حٔمدبھی پڑھ سکتے ہیں لیکن پہلی ودوسری رکعت میں حمدکاپڑھناواجب ہے تسبیحات اربعہ نہیں پڑھ سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ پنجگانہ نمازوں میں سے ہرنمازدورکعت تھی کیونکہ جب شب معراج الله تعالیٰ نے امت رسول پرنمازکوواجب قراردیاتوہرنمازکودورکعتی واجب قراردیاتھالیکن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)نے ظہرکی نمازمیں دورکعت ،عصرکی نمازمیں دورکعت، مغرب کی نمازمیں ایک رکعت اورعشاکی نمازمیں دورکعت کوزیادہ کیا۔ پہلی دونوں رکعتوں میں قرائت اورتیسری وچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کے ذریعہ فرق کئے کی وجہ امام علی رضا نے اس طرح بیان کی ہے:

شروع کی دونوں رکعتوں میں قرائت اورآخرکی دونوں رکعتوں میں تسبیحات اربعہ کواس لئے معین کیاگیاہے تاکہ الله کی طرف سے واجب کی گئی دونوں رکعتوں اورپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی طرف سے واجب کی گئی آخری دونوں رکعتوں کے درمیان فرق ہوجائے (الله تعالیٰ نے دونوں رکعتوں میں قرائت کوواجب قراردیاہے اگرپیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)بھی اپنی طرف سے واجب کی گئی نمازمیں حمدکی قرائت کوواجب قراردے دیتے توالله تعالیٰ سے واجب کی گئی رکعتوں اوررسول اسلام کی طرف واجب کی گئی رکعتوں میں کوئی فرق نہ رہتا)۔(۱)

محمدابن عمران نے حضرت امام صادق سے پوچھا:اس کی کیاوجہ ہے کہ نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کاپڑھناقرائت کرنے سے زیادہ افضل ہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورآپ آخری دورکعتوں میں مشغول تھے کہ عظمت پرودگارکامشاہدہ کیاتوحیرت ذرہ ہوگئے اورکہا:“سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّاالله ، والله اکبر ”اسی وجہ سے تسبیح کو قرائت سے افضل قراردیاگیاہے۔(۲)

____________________

. ۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠٨

۲) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠٨

۲۱۰

اس کی کیاوجہ ہے کہ تسبیح فقط چارہیں اسسے کم وزیادہ کیوں نہیں ہیں؟ روایت میں آیاہے کہ امام صادق سے کسی نے پوچھا:کعبہ کوکعبہ کس لئے کہاجاتاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس کے چارگوشہ ہیں،پوچھا:اس کے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ وہ بیت المعمورکے مقابلہ میں ہے اوراس کے چارگوشہ ہیں (لہٰذاکعبہ کے چارگوشہ ہیں)راوی نے پوچھا:بیت المعمورکے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ وہ عرش کے مقابلہ میں ہے اورعرش کے چارگوشہ ہیں اسی لئے بیت المعمورے کے بھی چارگوشہ ہیں،راوی نے پوچھا:عرش کے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام نے فرمایا:کیونکہ وہ کلمات کہ جن پردین اسلام کی بنیادرکھی گئی ہے چارہیں اوروہ کلمات یہ ہیں:

سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّاالله ، والله اکبر(۱)

رکوع کے راز

کسی کی تعظیم وادب کی خاطراس کے آگے اپنے سراورکمرکوخم کردینے کورکوع کہتے ہیں،رکوع ایک ایسی عبادت ہے جونمازگزارکی حالت تذلل کودوبالاکردیتی ہے اورانسان رکوع کی حالت میں اپنے آپ کوخدائے قیوم کے سامنے ذلیل وحقیرشمارکرتاہے جس سے اس کاایمان اورزیادہ پختہ ہوجاتاہے،بارگارہ خداوندی میں خضوع خشوع کے ساتھ اس کی تعظیم کے لئے سروگردن کے خم کردینے کورکوع کہاجاتاہے ،قرآن کریم اوراحادیث میں اس کی بہت زیادہ اہمیت اورفضیلت بیان کی گئی ہے۔

( وَاَقِیْمُوْالصَّلٰوة وَآتُوْالزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْامَعَ الرّٰاکِعِیْنَ ) نمازقائم کرو،زکات اداکرواوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو(۳)

( یٰامَرْیَمُ اقْنُتی لِرَبِّکِ وَاسْجُدی وَارْکَعی مَعَ الرّٰاکِعیْنَ ) اے مریم تم اپنے پروردگارکی اطاعت کرواورسجدہ اوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(۴)

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُواارْکَعُواوَاسْجُدُواوَاعْبُدُوارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) اے ایمان والو!رکوع کرو،سجدہ کرواوراپنے پروردگارکی عبادت کرواورکارخیرانجام دوکہ شایداسی طرح کامیاب ہوجاؤاورنجات حاصل کرلو۔

____________________

. ۱)علل الشرایع/ج ٢/ص ٣٩٨

۲) سورہ حٔج/آیت ٧٧

۳) سورہ بٔقرہ/آیت ۴٣

۴) سورہ آٔل عمران/آیت ۴٣

۲۱۱

مرحوم طبرسی تفسیرمجمع البیان میں لکھتے ہیں کہ جب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدیہ پہنچے تونوی ہجری میں اہل مدینہ گروہ درگروہ آنحضرتکے پاس رہے آتے رہے اوراللھورسول اوراس کی نازل کی ہوئی کتاب پرایمان لاتے رہے اورمسلمان ہوتے گئے اوردین اسلام کے ہرقانون کوقبول کرتے گئے ،ایک دن طائفہ ثقیف سے ایک جماعت جب آنحضرت کی خدمت میں پہنچی اورآپ نے انھیں بتوں کے بجائے الله تبارک تعالیٰ کے سامنے جھکنے اورنمازپڑھنے کاحکم دیاتواس جماعت نے جواب دیا:ہم ہرگزخم نہیں ہوں گے کیونکہ یہ کام ہمارے لئے ننگ وعارہے ، پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا: لاخیرفی دینٍ لیسفیہ رکوع ولاسجود

جس مذہب میں رکوع وسجود نہ ہواس میں کوئی خیر وکا میا بی نہیں پائی جاتی ہے ،خداوندعالم نے ان کے اس خیال کوباطل قراردینے کے لئے اس آیہ مبارکہ کونازل کیا: )( وَاِذَاقِیْلَ لَهُمْ ارْکَعُوالَایَرْکَعُْونَ ) (۱)

اورجب ان سے رکوع کرنے کے لئے کہاجاتاہے تورکوع نہیں کرتے ہیں۔(۲)

عن ابی جعفرعلیه السلام انّه قال:لاتعادالصلاة الّامن خمسة : الطهور ، والوقت ، والقبلة ، والرکوع ، والسجود (۳)

امام صادق فرماتے ہیں:پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر نمازباطل ہے اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں :وضو وقت قبلہ رکوع سجود۔

قال ابوجعفرعلیه السلام:من اتمّ رکوعه لم یدخله وحشة القبر ۔

امام محمد باقر فرماتے ہیں:جسکارکوع مکمل ہوتاہے وہ وحشت قبرسے محفوظ رہے گا۔(۴)

____________________

.۱)سورہ مٔرسلات/آیت ۴٨

. ٢)مجمع البیان /ج ١٠ /ص ٢٣۶

.۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٣٩

۴)بحارالانوار/ج ۶/ص ٢۴۴

۲۱۲

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لاصلاة لمن لم یتم رکوعها وسجودها ۔

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کارکوع وسجودکامل نہ ہواس کی نمازباطل ہے ۔(۱)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:انّ اسرق السراق مَن سرق مِن صلاته قیل:یارسول الله:کیف یسرق صلاته ؟قال:لایتم رکوعها ولاسجودها ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:وہ شخص سب سے بڑاچورہے جواپنی نمازکی چوری کرتاہے توآنحضرت سے پوچھاگیا:نمازکی چوری کسی طرح کی جاتی ہے؟فرمایا:رکوع وسجودکوکامل طورسے انجام نہ دینا۔(۲)

رکوع میں تسبیح کے قراردئے جانے کاراز

واجب ہے کہ ہرنمازگزاراپنی نمازکی پہلی رکعت میں حمدوسورہ کی قرائت کے بعداوردوسری رکعت میں حمدوسورہ کی قرائت وقنوت کے بعداورتیسری وچوتھی رکعت میں سورہ حمدیاتسبیحات اربعہ پڑھنے کے بعدتکبیرکہے اوررکوع میں جانے کے بعد اطمینان کے ساتھ تین مرتبہ “سبحان الله”یاایک مرتبہ “سبحان ربی العظیم وبحمدہ”کہے یاتحمید(الحمدللّٰہ)یاتہلیل(لاالہ الاالله)یاتکبیر(الله اکبر)کہے یاان کے علاوہ کوئی بھی دوسراذکرکرے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ذکرتین مرتبہ “سبحان الله”کہنے کے برابرہو،اگرکوئی شخص رکوع بطورکلی تسبیح کو ترک کردے تواس کی نمازباطل ہے ۔ رکوع وسجودمیں تسبیح ہی کوقراردیاگیاہے ،اورقرائت وغیرہ میں کیوں نہیں ہے اس میں کیارازہے؟

فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:رکوع وسجودمیں تسبیح کے قراردئے جانے کی چندوجہ ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ بندہ مٔومن کے لئے ضروری ہے کہ خضوع خشوع،تعبدوتقوا،سکون واطمینان،تواضع وتذلل اورقصدقربت کے علاوہ اپنے رب کی تسبیح وتقدیس ،تعظیم وتمجیداورشکرخالق ورازق بھی کرے ،جس طرح تکبیر(الله اکبر) اورتہلیل (لاالٰہ الّا الله) کہتاہے اسی طرح تسبیح وتحمید(سبحان ربی العظیم وبحمده )بھی کہے اوراپنے دل ودماغ کوذکرخدامیں مشغول کرے تاکہ نمازی کی فکروامیداسے غیرخداکی طرف متوجہ ومبذول نہ کرسکے ۔(۳)

____________________

.۱) بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣

.۲) مستدرک الوسائل /ج ١٨ /ص ١۵٠

۳). علل الشرایع /ج ١/ص ٢۶١

۲۱۳

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مجھے رکوع وسجودکی حالت میں قرائت (قران)سے منع کیاگیاہے، رکوع میں خداوندعالم کی تعظیم کرنی چاہئے اورسجدہ میں دعازیادہ کرنی چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ سجدہ کی حالت میں کی جانے والی تمھاری دعا(بارگاہ رب العزت میں )قبول ہوجائے۔(۱) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رکوع وسجودمیں قرائت نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان دونوں میں خدائے عزوجل کی حمدثناکی جاتی ہے۔(۲)

رکوع وسجودکی تسبیح فرق رکھنے کی وجہ

ذکررکوع وسجودکی تسبیح میں فرق پایاجاتاہے یعنی رکوع میں “سبحان ربی العظیم وبحمده ” اورسجدہ میں“سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”کہاجاتاہے اس کارازکیاہے کہ رکوع میں “ربی العظیم”اورسجدہ میں“ ربی الاعلیٰ”کہاجاتاہے؟ عقبہ ابن عامرجہنی سے مروی ہے: جب آیہ مٔبارکہ( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ) نازل ہوئی تورسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ہمیں حکم دیاکہ اسے اپنی نمازکے رکوع میں قراردواورجب آیہ مٔبارکہ( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْاَعْلی ) نازل ہوئی توآنحضرت نے ہمیں حکم دیاکہ اسے اپنی نمازکے سجدہ میں میں قراردو۔(۳) حسین بن ابراہیم نے محمدبن زیادسے روایت کی ہے کہ: ہشام بن حکم نے امام موسیٰ کاظم سے پوچھا:اس کی وجہ کیاہے کہ رکوع میں“ سبحان ربی العظیم وبحمدہ ” اورسجدہ میں “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ”کہاجاتاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: اے ہشام !جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازپڑھناشروع کی جب قرائت سے فارغ ہوئے توآنحضرت کے ذہن میں سات حجاب آسمانی کوعبورکرنایادآیاتوعظمت پروردگارکی خاطرگردن کی رگوں میں لرزش پیداہوگئی لہٰذااپنے دونوں ہاتھوں کوزانوں پررکھااور اس طرح تسبیح پروردگارکرنے لگے“سبحان ربی العظیم وبحمده ”( میرا پرور دگا ر جو کہ با عظمت ہے ہر عیب ونقص سے پاک ومنزّہ ہے اور میں اس کی حمد میں مشغول ہوں ) جب رکوع سے بلندہونے لگے توآپ کی نظروں نے اس سے بھی زیادہ بلندی دیکھی جوآپ دیکھ چکے تھے لہٰذافوراًزمین پرگرپڑے اورپیشانی مبارک کو زمین رکھنے کے بعدکہا:“سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”(میرا پر ور دگا رجو کہ سب سے بلندوبرتر ہے ہر عیب ونقص سے پاک ومنزّہ ہے اور میں اس کی حمد میں مشغول ہوں)جب آپ نے سات مرتبہ ان جملوں کی تکرارکی توآپ کے جسم سے رعب برطرف ہوااوریہ سنت قرارپایا۔(۴)

____________________

۱)معانی الاخبار/ص ٢٧٩

.۲) قرب الاسناد/ص ١۴٢

۳). تہذب الاحکام/ج ٢/ص ٣١٣

۴)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٣٢

۲۱۴

رکوع کوسجدوں سے پہلے رکھنے کی وجہ

نماز میں پہلے رکوع ہے اس کے بعد دوسجدے ہیں اگربندہ رکوع کو حقیقت کے ساتھ بجالاتا ہے تو سجدے کرنے کی لیاقت رکھتا ہے ، رکوع میں بندگی کا ادب واحترام پایاجاتاہے اور سجدے میں معبود سے قربت حاصل کی جاتی ہے اب اگر کوئی نماز گزار حقیقت میں خدا کا ادب واحترام نہیں کرتا ہے اور معرفت خدا کے ساتھ رکوع نہیں کرتا ہے وہ سجدے میں جاکر خدا سے قربت حاصل نہیں کرسکتا ہے اور رکوع کو وہی شخص عمدہ طریقہ سے انجام دے سکتا ہے جس کے دل میں خضوع وخشوع پایاجاتاہو اور وہ اپنے آپ کو خداکے سامنے ذلیل وحقیر اور محتاج سمجھتا ہو اور خوف خدا میں اپنے اعضاء وسرو گردن کو جھکا ئے رکھتا ہو ۔(۱)

گردن کوسیدھی رکھنے کاراز

مردکے لئے مستحب ہے کہ رکوع کی حالت میں زانوں کواندرکی طرف اور کمر کو ہموار اور گردن کمرکے برابرسیدھی اورکھینچ کررکھے معصومین کے بارے میں روایتوں میں ملتاہے کہ رکوع کی حکالت میں اپنی اس طرح سیدھی اورصاف رکھتے تھے کہ اگرپانی کاکوئی قطرہ آپ کی ڈالاجاتاتووہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتاتھا۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)جب رکوع کرتے تھے تواپنی کمرکواس طرح ہمواررکھتے تھے کہ اگران کی کمرپرپانی ڈال دیاجاتاتووہ بھی اپنی جگہ پرثابت رہتا۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازمیں رکوع وسجود کی حالت میں اپنی کمرکوہمواراورسیدھی نہ رکھے اس نمازہی نہیں ہوتی ہے(۳)

زرارہ سے روایت ہے :امام محمدباقر فرماتے ہیں: جب تم رکوع کروتواپنے رکوع میں دونوں قدموں کے درمیان ایک بالشت کافصلہ دواوراپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں کوزانوں پررکھواورپہلے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیںزانوں پررکھواس کے بعدبائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں زانوں پررکھواورہاتھ کی انگلیوں کوزانوں کے اطراف میں رکھواورانگلیوں کوآپس میں نہ ملاؤ،اگرتمھاری انگلیاںزانوں کے اطراف تک پہنچ رہی ہوں توکافی ہے اورمیں یہ دوست رکھتاہوں کہ ہتھیلیوں کوزانوں پررکھواورانگلیوں کوکھول کررکھونہ انھیں اپس میں نہ ملاؤاوراپنی کمرکوسیدھی رکھو،گردن کوکھینچ کررکھواوراپنے دونوں پیروں کے درمیان نگاہ کرو۔(۴)

____________________

. ۱)رسائل الشہیدالثانی /ص ١٣١

. ۲)معانی الاخبار/ص ٢٨٠

. ۳)معانی الاخبار/ص ٢٨٠

۴) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٨٣

۲۱۵

ایک شخص امام علیکی خدمت میں ایااورکہا:اے خداکی محبوب ترین مخلوق کے چچازادبھائی!رکوع میں گردن کوسیدھے رکھنے کے کیامعنی ہیں؟ آپ نے فرمایا: رکوع میں گردن کو سیدھا رکھنے کارازاورفلسفہ یہ ہے یعنی بارالٰہا!میں تجھ پرایمان رکھتاہوں،تیرے حکم کامطیع ہوں اورتیرے سامنے میری یہ گردن حاضرہے اگرچاہے توقطع کردے۔(۱)

رازطول رکوع

رکوع کوذکرودعاکے ساتھ طول دینامستحب ہے ، خصوصاً امام جماعت کے لئے اگرکوئی شخص نمازجماعت میں شامل ہوناچاہتاہے اورامام کومحسوس ہوجائے کہ کوئی شخص نمازمیں شریک ہوناچاہتاہے تورکوع کودوبرابرطول دےنامستحب ہے تاکہ وہ شخص نمازجماعت میں شریک ہوجائے ۔

ابواسامہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:میں تمھیںطول کوع وسجودکی وصیت کرتاہوں کیونکہ تم میں سے جب بھی کوئی شخص رکوع وسجودکوطول دیتاہے توشیطان اس کے پیچھے فریادبلندکرتاہے اورکہتاہے :انھوں نے خداکی اطاعت کی اوراس حکم سے کے خلاف سرکشی کی اورگناہ کیا،انھوں نے سجدہ کیااورمیں نے سجدہ کرنے سے خودداری کی۔(۲)

بریدعجلی سے مروی ہے :میں نے امام صادقسے پوچھا:نمازمیں قرآن کی زیادہ تلاوت کرنازیادہ ثواب رکھتاہے یارکوع وسجودکوطول دینا؟امام (علیه السلام)نے جواب دیا:رکوع وسجودکوطول دینازیادہ ثواب رکھتاہے ،کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے جس میں وہ فرماتاہے:

( فَاقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنْهُ ، وَاَقِیْمُواالصَّلاةَ ) (۳) جت ناتم سے میسرہوسکے قرآن کی تلاوت کرواورنمازکوقائم کرو،آیہ مٔبارکہ میں ) نمازقائم کرنے سے مرادیہ ہے کہ رکوع وسجودکوطول دینا۔

ہم باب رکوع میں کے آخرمیں ایک حدیث نقل کررہے ہیں کہ جس میں معصوم (علیه السلام) نے رکوع کے آداب ومستحبات کوذکرکیاہے اوروہ حدیث یہ ہے: زرارہ سے مروی ہے امام باقر فرماتے ہیں:جب تم رکوع کرنے کاارادہ کرو تو(قرائت کے بعد)سیدھے کھڑے ہوئے “الله اکبر”کہواورجاؤاسکے بعدرکوع کی حالت میں یہ کہو :

____________________

.۱) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١١

.۲) کافی /ج ٢/ص ٧٧

۳)سورہ مٔزمل/آیت ٢٠ )

۴)السرائر(ابن ادریسحلی)/ج ٣/ص ۵٩٨ )

۲۱۶

اللّهم لک رکعتُ ولکَ اسلمتُ وعلیکَ توکلتُ وانتَ ربّی خشعَ لکَ قلبی وسمعی وبصری وشعری وبشری ولحمی ودمی ومُخّی وعصبی وعظامی ومااقّلَّتْهُ قدمائی غیرمنکرٍولامستکبرٍولامستحسرٍ سبحان ربی العظیم وبحمده “ اوراس ذکرکی تین مرتبہ آرام وسکون کے ساتھ تکرارکرواوررکوع میں اپنے پیروں کو اس طرح مرتب قراردوکہ دونوں پاؤں کے درمیان ایک بالشت کافاصلہ رہے اوردونوں زانوں پرہتھیلی کواس طرح رکھو کہ پہلے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیں زانوپرقراردواس کے بعدبائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں زانوں پررکھو، انگلیوں کوزانوں کے اطراف میں رکھو ،جب ہاتھوں کوزانوں پررکھوتو انگلیوں کوآپس میں نہ ملاؤبلکہ انھیں کھلارکھو،کمراورگردن کوسیدھی رکھو اوردونوں پاؤں کے درمیان نگاہ کرواور(ذکررکوع سے فارغ ہونے کے بعد)رکوع سے سربلندکرو اورسیدھے کھڑے ہوکر“سمع الله لمن حمدہ” کہواس کے بعد“الحمدلله رب العالمین اهل الجبروت والکبریاء والعظمة لله رب العالمین ”اسکے بعددونوں ہاتھوں کوبلندکرکے تکبیرکہو اورسجدہ میں جاؤ۔(۱)

رازسجدہ

سجدہ لغت میں خضوع میں استعمال ہوتاہے لیکن شرع میں خداوندعالم کی تعظیم کے لئے خضوع وخشوع کے ساتھ زمین پرپیشانی رکھ دینے کے بعداس کی تسبیح وتقدیس کرنے کوسجدہ کہاجاتاہے ۔

سجدہ ایک انتہائی خضوع ہے جس سے بڑھ کرکوئی خضوع وتواضع نہیں ہے اسی کے ذریعہ بندگی کااظہارہوتاہے، اسی لئے نمازپڑھنے کی جگہ کو مسجد کہا جاتا ہے۔ سجدہ فقط خداکے لئے ہوتاہے اوراس کے علاوہ کسی دوسرے کوسجدہ کرناجائزنہیں ہے، قرآن کریم کی متعددآیات(۲) میں خداوندعالم کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاہے اورروایات میں بھی اس کی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے

م( ُحَمَّدٌرَسُولُ اللهِ وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِرُحْمٰاءُ بَیْنَهُمْ تَرٰیهُمْ رُکَّعاًسُجَّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاًمِنَ اللهِوَرِضْوَاناًسِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ ) محمدالله کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفارکے لئے سخت ترین اورآپس میں رحمدل ہیں،تم انھیں دیکھوگے کہ وہ بارگااحدیت میں سرتسلیم خم کئے ہوئے سجدہ ریزہیں اوراپنے پروردگارسے فضل وکرم اوراس کی خوشنودی کے طلب گارہیں ،کثرت سجودکی بناپران کے پیروں پرسجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیں۔(۳)

____________________

۱). کافی /ج ٣/ص ٣١٩

۲)فصلت/آیت ٣٧ ۔ سورہ نٔجم/آیت ۶٢ ۔سورۂ حجر/آیت ٩٨ ۔سورہ عٔلق/آیت ١٩ ۔حج ٧٧

۳). سورہ فٔتح/آیت ٢٩

۲۱۷

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَآمَنُواارْکَعُواوَاسْجُدُواوَاعْبُدُوارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) اے ایمان والو!رکوع کرو،سجدہ کرواوراپنے پروردگارکی عبادت کرواورکارخیرانجام دوکہ شایداسی طرح کامیاب ہوجاؤاورنجات حاصل کرلو۔(۱)

قال الصادق علیه السلام : اقرب مایکون العبد الی الله عزّوجل وهوساجدٌ ۔

وہ چیزجوبندہ کوخدائے عزوجل سے بہت زیادہ قریب کردیتی ہے وہ سجدہ کی حالت ہے۔(۲)

روایت میں آیا ہے :روز قیامت خدا وند متعا ل آ تشجہنم سے کہے گا:

یانارُانضجی، یانارُاِحرقی وامّاموضع السجودفلاتقربی ۔

اے جہنم کی آگ! توجس کو جلانا چاہتی ہے جلا دے لیکن اعضاء سجدہ کے ہر گز قریب نہ جا نا ۔(۳)

سجدہ اسی وقت مفیدہے جبکہ اسے خداوندعالم کی حقیقی معرفت کے ساتھ انجام دیاجائے ،اگرسجدہ کورب دوجہاں کی معرفت کے ساتھ انجام نہ دیاجائے تووہ سجدہ بیکارہے قال الصادق علیہ السلام:ماخسروَاللھمَن اتی بحقیقة السجود ولوکان فی العمرمرة واحدة۔

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں : خدا کی قسم اگر کوئی شخص حقیقی سجد ہ کرے اسے زندگی میں کوئی مشکل نہیں آسکتی ہے اورنہ کو ئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے خواہ پوری زندگی میں ایک ہی مر تبہ ایسا سجدہ کرے ۔(۴)

العلوی علیہ السلام :سجدابلیسسجدة واحدة اربعة الٰاف عام لم یردبہازخرف الدنیا. حضرت علی فرماتے ہیں: شیطان چارہزارسال تک ایک ہی سجدے میں پڑارہااوراس کا مقصد دنیااور زینت دنیا کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔(۵)

شیطان ہرسجدہ کودشمن نہیں رکھتاہے بلکہ اسی سجدہ کودشمن کورکھتاہے جوحقیقت میں سجدہ ہوتاہے، شیطان کو امیرشام ،ولید،مروان ابن حکم ،مامون ،ہارون وغیرہ کے سجدوں سے کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ ان کاسجدہ حقیقی سجدہ نہیں تھا،شیطان اگرخوف ہراساں ہوتاہے توانبیاء وآئمہ اطہار اوران کے چاہئے والوں کے سجدوں سے خوف کھاتاہے کیونکہ یہ خداوندعالم کوحقیقت میں سجدہ کرتے ہیں شیطان کے ایک چیلے نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی پشت مبارک پرسجدہ کی حالت اونٹ کی اوجھڑی رکھی،امام علی (علیه السلام)کے سرمبارک پرمسجدمیں حالت سجدہ میں ضربت لگائی ،امام حسین کاسرمبارک شمرملعون نے سجدہ کی حالت میں تن سے جداکیااورآج بھی اسی شیطان کے چیلے روحانی پیشواؤں پرنمازکی حالت میں گولیاں چلاکرفرارہوجاتے ہیں،محرابوں میں بم دھماکہ کرادیتے ہیں

____________________

.۱) سورہ حٔج/آیت ٧٧---۲). ثواب الاعمال/ص ٣۴---. ۳)منہج الصادقین،ج ٨،ص ٣٩٧

.۴) مصباح الشریعہ /ص ٩٠

۵). مستدرک سفینة البحار/ج ۴/ص ۴۶٧

۲۱۸

آیت الله مکارم شیرازی تفسیرنمونہ میں لکھتے ہیں: ابو جہل اپنے ساتھیوں سے کہتاتھا :اگر میں نے رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)کوسجدہ کی حالت میں دیکھ لیا تو اپنے پیروں کے ذریعہ ان کی گردن کوتوڑ کر رکھ دوں گا، ایک دن جب رسول خدا (صلی الله علیه و آله)نماز میں مشغول تھے توابوجہل اپنے اس نا پاک ارادہ کو انجام دینے کے لئے مسجد میں داخل ہوا لیکن جیسے ہی نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے قریب پہنچا تو سب نے دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں کواس طرح چلارہاہے جیسے کوئی چیزاس کی طرف حملہ کررہی ہے اوروہ اپنے آپ کواس سے بچارہاہے اوراپنے ہاتھوں سے دفاع کرتے ہوئے پیچھے کی طرف ہٹ رہا ہے،اس سے پوچھاگیا:تواس طرح کیاکرہاہے اوراپنے ہاتھوں سے کس چیز کو دور کررہاہے ؟ اس نے کہا : میں اپنے اور پیغمبر کے درمیان ایک نشیب دیکھ رہا ہوں جس میں آگ روشن ہے جومجھے جلادینے کاارادہ رکھتی ہے اورمیں ایک خوفناک منظر دیکھ رہا تھا مجھے کچھ بال وپر نظر آرہے تھے ،اسی مو قع پر رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے فرمایا: قسم اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر ابوجہل ذرہ برابر بھی نز دیک ہو جاتا تو الله کے فر شتے اس کو قطعہ قطعہ کر دیتے اور اس کے جسم کے ٹکڑ ے اٹھا کر لے جا تے ۔(۱)

آدم(علیھ السلام) کواوریوسف کے سامنے سجدہ کرنے کی وجہ

سوال یہ ہے کہ جب خداکے علاوہ کسی ذات کوسجدہ کرناجائزنہیں ہے توپھرخداوندعالم نے شیطان سے آدم کوسجدہ کرنے کاحکم کیوں دیا؟اورارشادفرمایا:( قُلْنَالِلْمَلائِکَةِ اسْجُدُوالآدَمَ فَسَجُدُوااِلّااِبْلِیْسَ ) (۲) (ہم نے ملائکہ سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو توابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا)اورجب حضرت یعقوب(علیه السلام) اوران کے فرزنددربار یوسف (علیه السلام)میں مصرپہنچے توانھوں نے اپنے والدین(۳) کوتخت پرجگہ دی( وَخَرُّوالَهُ سُجَّداً ) (۴) اورسب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گرپڑے ،حضرت یعقوب جوکہ الله کے نبی تھے انھوں نے اوران کے دوسرے فرزندوں نے غیرخداکو سجدہ کیوں کیا؟

____________________

.۱) تفسیرنمونہ/ج ٢٧ /ص ١۶۵

۲)سورہ بٔقرہ/آیت ٣۴ ۔اعراف/ ١١ ۔اسراء / ۶١ ۔کہف/ ۵٠ ۔طٰہٰ/ ١١۶ ( /آیت ١٠٠

۳)بعض کاخیال ہے کہ ابوین سے مرادباپ اورخالہ ہیں اوربعض نے یہ بھی کہاہے کہ خداوندعالم نے ماں کودوبارہ زندہ کیاتاکہ اپنے لال کاعروج دیکھ سکیں،ترجمہ وتفسیرعلامہ جوادی۔

۴)سورہ یٔوسف )

۲۱۹

ملائکہ نے حضرت آدم کومعبودکے عنوان سے سجدہ نہیں کیاتھابلکہ آدم (علیه السلام)بعنوان قبلہ قابل تعظیم وتکریم قراردئے گئے تھے ،پس یہ سجدہ آدم (علیه السلام)کے لئے نہیں تھابلکہ درحقیقت حضرت آدم کے طرف رخ کرکے تعظیم وتکریم پروردگارکوسجدہ کیاگیاتھاجیساکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: فرشتوں کاسجدہ آدم(علیه السلام) کے لئے نہیں تھابلکہ آدم(علیه السلام) ان کے لئے قبلہ بنائے گئے تھے کہ جن کی طرف رخ کرکے انھوں نے خداوندعالم کوسجدہ کیااوراس سجدہ کی بناپرآدم(علیه السلام) معظم ومکرم ثابت ہوئے ،اورکسی کے لئے سزاوارنہیں ہے کہ وہ خداکے علاوہ کسی دوسرے کوسجدہ کرے اوراس کے لئے اس طرح خضوع کرے جس طرح خداکے لئے خضوع کیاجاتاہے اورسجدہ کے ذریعہ اس کی اس طرح تعظیم وتکریم کرے جیسے خداکی تعظیم وتکریم کی جاتی ہے ،اگرکسی ایک کوتعظیم وتکریم کی خاطرغیرخداکوسجدہ کرنے دیاجاتاتوحتماًہمارے ضعفائے شیعہ اورہمارے شیعوں میں سے دیگرمکلفین کویہ حکم دیاکہ وہ اپنے اس علم کے واسطہ سے علی ابن ابی طالب وصی پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوسجدہ کریں ۔(۱)

زندیق نے امام جعفر صادق سے غیرخداکے لئے سجدہ کرنے کے بارے میں پوچھا :کیا خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو سجدہ کرناجائز ہے ؟آپ نے فرمایا :ہرگز نہیں،زندیق نے امام (علیه السلام)سے دوبارہ پوچھا :جب غیرخداکے لئے سجدہ جائزنہیں ہے توپھر خداوند متعال نے فرشتوں کو آدم (علیه السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا؟آپ نے جواب دیا:

خدا کے فرمان کے مطابق کسی کے آگے سر جھکا دینے کو اس کے لئے سجدہ شمار نہیں ہو تا ہے بلکہ وہ سجدہ خدا کے لئے ہو تا ہے ۔(۲)

ملائکہ کاآدم (علیه السلام)کوسجدہ کرنے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضرت آدم کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے محمدوآل محمد کے نورکوخلق کیامگرجب آدم (علیه السلام) کوپیداکیاگیاتوالله تبارک تعالیٰ نے ان انوارمقدسہ کوصلب آدم (علیه السلام) میں قراردیالہٰذافرشتوں کوحکم دیاکہ آدم (علیه السلام) کے سامنے سجدہ کرو،ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا،درحقیقت یہ سجدہ آدم (علیه السلام) کونہیں تھابلکہ ان انوارمقدسہ کی تعظیم کاحکم تھاکہ جن کے صدقہ میں یہ پوری کائنات خلق کی گئی ہے اوروہ اس وقت صلب آدم (علیه السلام)میں موجودتھے اس لئے ملائکہ کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتھا،

____________________

.۱) تفسیرامام عسکری /ص ٣٨۶

۲). وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٩۵٨

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370