نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 144997
ڈاؤنلوڈ: 2578

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144997 / ڈاؤنلوڈ: 2578
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

الرحمن الرحیم

”رحمٰن”الله کی ایک صفت عام ہے جودنیامیں مومن اورکافردونوں کے شامل حال ہوتی ہے اورتمام بندوں پراس کی رحمت نازل ہوتی ہے ،وہ دنیامیں ہرانسان مومن ،منافق،عالم ،جاہل ،سخی ، ظالم ،حاکم کورزق عطاکرتاہے ،اورکسی بندے کواپنے دروازہ رٔحمت سے خالی نہیں لوٹاتاہے

” رحمٰن” وہ ذات ہے جواپنے تمام بندوں(مومن ،منافق کافر)کی روزی کے بارے میں شدیدطورسے متمائل رہتاہے اوران کی روزی کوقطع نہیں کرتاہے چاہے وہ کت ناہی گناہ کریں،چاہے کت نی ہی اس کی نافرمانی کریں،وہ اپنی وسیع رحمت کے ذریعہ اپنے تمام بندوں کو روزی عطا کرتا ہے اور کسی کا رزق قطع نہیں کرتا ہے اب چاہے اس بندہ کامسلمان ہویاکافر،مومن ہویامنافق ،اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہوں یا نافرمانی ،لیکن یہ یادرہے کہ خداوندعالم زمین پر مومنین کے وجودکی خاطردوسروں پررحم کرتاہے اگردنیاسے مومینن کاوجودختم ہوجائے تویہ دنیاتباہ وبربادہوجائے ،اسبارے میں ہم پہلے حدیث کو ذکرکرچکے ہیں۔ ” رحیم”خداکی ایک خاص صفت ہے کہ جوآخرت میں فقط مومنین سے مخصوص ہے امام صادق رحمن ورحیم کے معنی اس طرح بیان کرتے :الله تبارک تعالیٰ ہرشئے پرقدرت رکھتاہے ،وہ (دنیامیں)اپنی تمام مخلوق پررحم کرتاہے اور(روزقیامت )فقط مومنین پررحم کرے گا۔(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:رحمن ایک اسم خاص ہے جوفقط الله تبارک تعالیٰ سے مخصوص ہے اورصفت عام ہے یعنی الله تبارک وتعالیٰ اپنے تمام بندوں پررحم کرتاہے اوررحیم اسم عام لیکن صفت خاص ہے یعنی روزقیامت فقط ایک مخصوص گروہ پررحم کیاجائے گا۔(۲)

حضرت علی فرماتے ہیں : خدا وند عالم اپنے تمام بندوں پررحم کرتاہے اور یہ خداکی رحمت ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے ١٠٠ /رحمت پیدا کی ہیں اور ان میں سے ایک رحمت کو اپنے بندوں کے درمیان قرار دیا ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں،والداپنے اپنے فرزندپررحم کرتاہے اورحیوانات مائیں اپنے بچوں پررحم کرتی ہیں،جب قیاوت کادن آئے گاتواس ایک رحمت کی ٩٩ /قسم ہوں گی کہ جس کے ذریعہ امت محمدی پرحم کیاجائے گا۔(۳)

____________________

۱). کافی /ج ١/ص ١١۴

۲). تفسیرمجمع البیان /ج ١/ص ۵۴

۳). تفسیرامام حسن عسکری/ص ٣٧

۲۰۱

خداکی رحمت اس درجہ عام اوروسیع ہے کہ اس کی رحمت سے ناامیدہوناگناہ کبیرہ ہے کیونکہ وہ خودقرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( لَاتَقْنَطُوامِنْ رَحْمَةِ اللهِ،اِنَّ اللهَیَغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِیْعاًاِنّهُ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) (۱) الله کی رحمت سے مایوس نہ ہوناالله تمام گناہوں کامعاف کرنے والاہے اوروہ بہت زیادہ بخشنے والااورمہربان ہے۔

مالک یوم الدین

ایک دن وہ بھی آئے گاجب تمام لوگوں کوان کی قبروں سے بلندکیاجائے اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ وعدالت میں کھڑاکیاجائے گا،وہاں کسی کی نہ اولاد کام آئے گی ،نہ کسی کواس کامال کام آئے گا،لوگوں کے تمام ذریعے ،وسیلے اورامیدیں ختم ہوجائیں گی اوراس روزنہ فرعون کی حکومت ہوگی ،نہ نمرودکی ،نہ ہامان کی ،نہ شدادکی ،نہ اورکسی دوسرے شیطان صفت انسان کی بلکہ صرف خداکاکی حکومت ہوگی اوراسی کاحکم نافذہوگا، سورہ أنفطارمیں ارشادباری تعالیٰ ہے:

( وَالامرُ یومَئِذٍلِلّٰهِ ) اس دن تمام امورخداکے ہاتھ میں ہونگے۔ اس روزتمام لوگوں سے یہ سوال ہوگا:( لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم ) آج حکومت کس کی ہے؟ جواب دیں گے( لِلّٰه الْوَاحِدِالْقَهّار ) اس خداکی جواکیلا ہے اورقہاربھی ہے،جسدن لوگوں یہ سوال کیاجائے گااس روزکوقیامت کہتے ہیں۔(۲)

اس روزصرف انسان کے وہ نیک اعمال کام آئیں گے جواس نے دنیامیں آل محمدکی محبت وولایت کے زیرسایہ انجام دئے ہونگے

امیرالمومنین علی ابی طالب آیہ مٔبارکہ( مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) کے بارے میں فرماتے ہیں : حقیقت یہ ہے کہ خدا وند عالم قیامت کے دن تمام مخلوق کی تقدیر کا مالک ہو گا اور جس نے دنیا میں خدا کے بارے میں شک کیاہوگا ،اس کے حکم کی نافرمانی کی ہوگی اورطغیانی وسر کشی کی ہوگی وہ ان سب کو واصل جہنم کرے گا اورجن لوگوں نے اس کی اطاعت کی ہوگی اوران میں تواضع وانکسا ری پائی جاتی ہو گی ان کو خلد بریں میں جگہ عنایت کر گا۔(۳)

____________________

۱) سورہ زٔمر/آیت ۵٣ (

۲). سورہ أنفطار/آیت ١٩

۳) ” ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز”/ش ٧٧۵ /ص ٢۴٢

۲۰۲

ایاک نعبدوایاک نستعین

یہاں تک بندہ نے سورہ حٔمدکی آیتیں قرائت کی ہیں ان میں الله تبارک وتعالیٰ کی رحمت اوراس کی کرامت کااقرارکرتاہے اوراس کے مالک وخالق دونوں ہونے کی شہادت دیتاہے لیکن اب یہاں سے اس آیہ کریمہ کے ذریعہ اظہاربندگی کرتاہے اورکہتاہے :میری عبادت فقط تیرے لئے ہے ،تیرے علاوہ کسی دوسرے کوعبادت میں شریک قرارنہیں دیتاہوں یعنی میں اقرارکرتاہوں کہ میرامعبودفقط ایک ہے ۔

جوبندہ حقیقت میں الله تبارک تعالی کے رحیم وکریم اورمالک دوجہاں ہونے کااقرارکرتاہے ،اوراپنی عبادت کواسی سے مخصوص کرتاہے وہ کسی بھی مخلوق کے آگے سرنہیں جھکاتا ہے،اپنے آپ کوذات پروردگارکے علاوہ کسی دوسرے محتاج نہیں سمجھتاہے ،اب وہ لوگ جوالله تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے ہیں اوردوسروں کے آگے سربھی جھکاتے ہیں اوردوسروں کے سامنے اپنی حاجتوں کوبیان کرتے ہیں وہ لوگ فقط زبان سے خداکوایک مانتے ہیں ،اوریقین کامل کے ساتھ اسے اپنامعبودنہیں مانتے ہیں ،اس پرمکمل بھروسہ نہیں رکھتے ہیں البتہ کسی ایسی بابرکت ذات گرامی کوجوالله تبارک سے بہت زیادہ قریب ہواسے وسیلہ قراردینے کوشرک نہیں کہاجاتاہے اوروسیلہ کے بغیرکسی جگہ کوئی رسائی ممکن نہیں ہے ،وسیلہ کے بارے میں ذکرہوچکاہے لہٰذایہاں پربحث طولانی اورتکرارہوجائے گی ۔

جمع کی لفظ استعمال کئے جانے کاراز

اس آیہ مبارکہ کے بارے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ متکلم ایک شخص ہے اور وہ خدا سے کہہ رہا ہے : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں جب قرائت کرنے والا ایک شخص ہے پھروہ اپنے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کرتا ہے ؟ مندرجہ ذیل امورمیں سے کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے ١۔دین اسلام میں نمازجماعت کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے کیونکہ الله تبارک وتعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

۲۰۳

( وَارْکَعُوا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ) (١) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ نمازجماعت کی اہمیت وفضیلت کے بارے میں روایتوں کوذکرکرچکے ہیں،جماعت میں موجودتمام بندے رکوع وسجودکرتے ہیں اس لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہے اورنمازمیں موجودہربندہ یہ کہتاہے: بارالٰہا!میں اکیلانہیں ہوں بلکہ اس پوری جماعت کے ساتھ ہوں اورسب کی جانب سے کہتاہوں ہم تیری عبادت کرتے ہیں اورتجھ ہی سے مددطلب کرتے ہیں،جمع کی لفظ استعمال کرنے سے ایک طرح کی گواہی بھی دی جاتی ہے میرے یہ بندہ بھی تیری عبادت میں مشغول ہیں۔

شہیدمطہری فرماتے ہیں:سورہ حٔمد نماز کا قطعی جزء ہے ،ہم اس سورے میں خداسے کہتے ہیں :“ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَاِ یَّاکَ نَسْتَعِیْنُ” (بارالٰہا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددچاہتے ہیں) یعنی خدا یا ! میں ت نہانہیں ہوں ، بلکہ میں تمام مسلمانوں کے ساتھ ہوں ،میں اس جماعت کے ساتھ ہوں اسی لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہوں۔(۲)

اگرکوئی یہ اعتراض کرے ،جومومن فرادیٰ نمازپڑھتاہے تووہ جمع کاصیغہ کیوں استعمال کرتاہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ اگرمومن ت نہائی میں بھی نمازپڑھتاہے اس لئے وہ جماعت کاحکم رکھتاہے اور جمع کاصیغہ استعمال کرتاہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:

المومن وحدہ جماعة مومن بندے کی ت نہائی میں پڑھی جانے والی نمازبھی جماعت میں شمارہوتی ہے ۔(۳)

٢۔انبیاء وآئمہ اطہار کے علاوہ کوئی بھی شخص دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتاہے کہ میرارب مجھ سے راضی ہے اورمیں نے جواس کی عبادت کی ہے وہ سچے دل سے کی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ مکمل معرفت کے ساتھ الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اوران کی عبادت برگاہ رب العزت میں قبول بھی ہوتی ہے اوروہ اپنے ان نورانی بندوں کی مددبھی کرتاہے،مگرہم تمام بندے خاک کے پتلے ہیں ،گناہوں میں الودہ ہیں،الله تبارک تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے ہیں اوراس کی عبادت ،اطاعت اوربندگی میں ناقص ہیں اورہم اپنی حاجتوں کوالله کے علاوہ دوسروں کے آگے بھی بیان کرتے ہیں ،شایدہماری یہ عبادت بارگاہ خداوندی میں مقبولیت کادرجہ نہ رکھتی ہولہٰذاہم اپنی عبادتوں کے ساتھ انبیاء ورسل اورآئمہ اطہار کی عبادتوں کو بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں

____________________

۱)سورہ بٔقرہ/آیت/ ۴٣

. ٢)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٩۶۶ /ص ٢٩٨.

.۳) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۶۵

۲۰۴

تاکہ خداوندعالم ان کی عبادت کے وسیلے سے ہماری عبادت کوبھی قبول کرلے اوران کے وسیلے سے ہماری بھی مددکردے کیونکہ ہمیں اس بات کایقین ہے کہ وہ انبیاء ورسل اورآئمہ اطہار کی عبادتوں کوضرورقبول کرتاہے لہٰذاہم اپنی معیوب عبادتوں کوان صلحاء کے ساتھ بارگاخداوندی میں پیش کرتےہیں جس سے خداہماری ان معیوب عبادتوں کوقبول کرسکتاہے اورہماری مددکرسکتاہے۔

اگریہ سوال کرے کہ اگرہم اس مذکورقصدسے جمع کی لفظ استعمال کرتے ہیں توپھرخودانبیاء وآئمہ جمع کی لفظ کیوں استعمال کرتے تھے ؟

اس کاجواب یہ ہوسکتاہے کہ انبیاء وآئمہ اپنے محبوں کوہمیشہ یادرکھتے ہیں اوران ترقی وکامیابی کی دعاکرتے ہیں لہٰذابارگاہ خداوندی میں کہتے ہیں:بارالٰہا!توہماری عبادتوں کے ساتھ ہمارے محبوں کی بھی عبادت کوقبول کراورجس طرح توہماری مددکرتاہے ان بھی مددکراورروزقیامت بھی اپنے محبوں کاخاص خیال رکھیں اورانھیں اپنی شفاعت کے ذریعہ بہشت میں جگہ دلائیں گے ۔

٣۔ نمازمیں انسان کی فقط زبان ہی تسبیح وتقدیس پروردگانہیں کرتی ہے بلکہ اس کے تمام اعضاء وجوارح ،ہاتھ ،پیر،آنکھ، ناک، کان، دل اوردماغ شریک عبادت رہتے ہیں ،انسان نمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھتاہے،خضوع خشوع رکھتاہے لہٰذاوہ اکیلانہیں ہے اس لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہے ۔

۴ ۔ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلّالِیَعْبُدُوْنِِ ) (۱) میں نے جن وانس کونہیں پیداکیامگریہ کہ وہ میری عبادت کریں

جب خدانے تمام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے، نمازگزارنمازمیں جمع کی لفظ سے یہ بتاناچاہتاہے چونکہ الله نے تمام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے اورسب اس کی حمدوثناء کرتے ہیں اورمیں بھی انھیں میں سے ہوں لہٰذاہم سب تیری ہی توعبادت کرتے ہیں۔

____________________

.۱)سورہ ذٔاریات/آیت ۶۵

۲۰۵

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.

تفسیرفاتحة الکتاب میں لکھاہے : ہم نمازمیں اس آیہ مٔبارکہ کو زبان پر جاری کرتے ہو ئے پروردگار سے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے پروردگار ! تو ہمیں توفیق عطاکر کہ جس طرح ہم تیری پہلے سے عبا دت کرتے آرہے ہیں آئندہ بھی تیرے مطیع وفرما نبردار بندے بنے رہیں(۱)

امیرالمومنین حضرت علی سے پوچھا گیا : پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)اور تمام مسلمان نماز میں دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں:“( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ) ” پروردگارا! تو ہم کو راہ راست کی ہدایت فرما جبکہ وہ سب ہدایت یافتہ ہیں؟ امام(علیه السلام) نے جواب دیا “اِھْدَنا”سے مرادیہ ہے کہ خدایا! توہم کو راہ راست پر ثابت قدم رکھ۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:“( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ) ”یعنی پروردگارا! توہمیں ایسے راستے کی ہدایت کرتارہ جو تیری محبت ودوستی پر منتہی ہوتاہواوروہ سیدھاجنت کوپہنچتاہو اورتو ہمیں خواہشات نفسکی پیروی ( اورجہنم کے راستہ )سے دوررکھ ۔(۳)

امام صادقفرماتے ہیں:علی ابن ابی طالب صراط المستقیم هیں عن السجادعلیه السلام قال:نحن ابواب الله ونحن صراط المستقیم . حضرت امام سجاد فرماتے ہیں : ہم آئمہ طا ہرین الله کے دروازہ ہیں اورہم ہی صراط مستقیم ہیں(۴)

( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)آیہ مبارکہ “( اهدناالصراط المستقیم ) ”کے بارے میں فرماتے ہیں:صرط مستقیم سے مرادوہ دین خداہے کہ جس کوخدانے جبرئیل کے ذریعہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)پرناز ل کیااوراس آیہ مٔبارکہ “( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) ”کے بارے میں فرماتے ہیں: اس آیت میںصراط سے مراد حضرت علی کے وہ شیعہ ہیں کہ جن پرخداوندعالم نے ولایت علی ابن ابی طالب +کے ذریعہ اپنی نعمتیں نازل کی ہیں،نہ ان پرکبھی اپناغضب نازل کرے گااورنہ وہ کبھی گمراہ ہوں گے۔(۵)

____________________

۱) تفسیرفاتحة الکتاب/ص ۴۵

۲). ہزارویگ نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٧١٣ /ص ٢٢۵

۳)تفسیرالمیزان/ج ١/ص ٣٨

۴)معانی الاخبار/ص ٣۵ ۔

.۵) تفسیرنورالثقلین/ج ١ج/ص ٢٣

۲۰۶

امام صادق فرماتے ہیں:“( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ) ”سے حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) اوران کی ذریت مرادہے۔(۱)

امیرالمومنین حضرت علی - فرماتے ہیں:الله تبارک وتعالیٰ کاانکارکرنے والے “مغضوب علیہم ”اور“ضالین”میں شمارہوتے ہیں۔(۲)

امام صادق “( غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) ”کے بارے میںفرماتے ہیں: “مغضوب علیہم ”سے ناصبی مرادہیں اور“ضالین ” سے وہ لوگ مرادہیں جوامام کے بارے میں شک کرتے ہیں اوران کی معرفت نہیں رکھتے ہیں۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:“( المغضوب علیهم ) ”سے یہودی اور“ضالین ”سے نصاری مرادہیں(۴)

حسین دیلمی “ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز”میں لکھتے ہیں: قرآن کریم نے فرعون وقارون اور ابولہب کواورقوم عادوثموداورقوم بنی اسرائیل کوان میں شمارکیاہے جن پر خداوند عالم کا قہروغضب نازل ہو ا ہے(۵) اسی لئے ہم لوگ نماز میں روزانہ کہتے ہیں( غَیْرِالْمَفْضُوب عَلَیِْمْ وَلِاالضّٰالّیِْن ) بارالہا ! تو ہم کو ان لوگو ں میں سے قرار نہ دے جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ، اور جو لوگ گمراہ ہو گئے پروردگارا! تو ہم کو اعتقاد واخلاق وعمل میں فرعون ،قارون وابو لہب اور قوم عادوثمو دو بنی اسرائیل کے مانند قرار نہ دے اور ہمارے قدموں کوان کے راستے کہ طر ف اٹھنے سے باز رکھ۔(۶)

____________________

.۱) تفسیرنورالثقلین/ج ١ج/ص ٢٣

. ۲)بحارلانوار/ج ٩٢ /ص ٣۵۶

.۳) تفسیرقمی /ج ١/ص ٢٩

۴). بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢١

۵)اعراف /آیت ٨۵ ۔ ٩٢ ۔بقرہ /آیت ۶١ کی طرف اشارہ ہے.

۶)ہزارویک نکتہ دربارہ نماز/ش ٨٨٠ /ص ٢٧٣ (

۲۰۷

سورہ تٔوحیدکی مختصرتفسیر

سورہ توحیدکوتوحیدکہے جانے اوراس کے نزول کی وجہ اس سورہ کوتوحیدکہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پورے سورہ میں پہلی آیت سے آخری آیت تک توحیدباری تعالیٰ کاذکرہے اوراس سورہ کواخلاص بھی کہتے ہیں کیونکہ انسان اس سورہ کی معرفت اوراس پرایمان واعتقاد رکھنے سے شرک جیسی نجاست سے پاک وخالص ہوجاتاہے بعض کہتے ہیں:اگرکوئی اس سورہ کوتعظیم خداکوذہن میں رکھ کرقرائت کرتاہے توخداوندعالم اسے آتشجہنم سے نجات دے دیتاہے۔ کتب تفاسیرمیں اس سورہ کی شان نزول کی حدیث کے ضمن میں چندوجہ بیان کی گئی ہیں:

١۔ابی ابن کعب اورجابرسے مروی ہے کہ مشرکین نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)سے کہا:آپ ہمارے لئے اپنے خداکی معرفت بیان کریں توآنحضرت پریہ سورہ نازل ہوا۔ ٢۔ابن عباس سے مروی ہے :عامربن طفیل اوراردبن ربیعہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں آئے ،عامرنے کہا: اے محمد!تم ہمیں کس کی طرف دعوت دیتے ہو؟آنحضرت نے کہا: خداکی طرف،اس نے کہا:تم اپنے اس خداکی صفت بیان کرو،وہ سونے سے بناہے یاچاندی سے ،لوہے سے بناہے یالکڑی سے؟پسخداوندعالم نے یہ سورہ نازل کیا۔ ٣۔محمدابن مسلم نے حضرت امام صادق سے روایت کی ہے ،امام فرماتے ہیں کہ: یہودیوں نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے سوال کیااورکہا :اے محمد!تم اپنے پروردگارکی معرفت بیان کرواوراس کانسب بتاؤ(کہ وہ خدا کون ہے ، اس کا باپ کون ہے ، اس کافرزند کون ہے شایدہم ایمان لے آئیں ) آنحضرت نے تین دن ان کی بات کاجواب نہ دیااورغور وفکر کرتے رہے کیونکہ وحی پروردگا ر کے منتظر تھے ، الله کی مرضی کے بغیر کوئی بھی جملہ اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے تھے لہٰذاخدا کی طرف سے سورئہ “( قُلْ هُوَاللهُ اَحَدْ ) ” نازل ہوا۔(۱)

مرحوم کلینی نے کافی معراج النبی سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ جسوقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازکاوقت پہنچاتوخدانے آپ کووضوکرنے کاحکم دیا ،آپ نے وضوکیااورنمازکے کھڑے ہوئے ،انبیاء ملائکہ نے آپ کے پیچھے نمازجماعت کے کھڑے ہوئے ہیں خداوندعالم نے وحی نازل کی:

____________________

.۱) تفسیرمجمع البیان/ج ١٠ /ص ۴٨۵

۲۰۸

اے محمد! “( بسم الله الرحمن الرحیم ) ”کہواورسورہ حٔمدپڑھو ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ایسا ہی کیااور“( ولاالضالین ) ”کہنے کے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہا(آمین نہیں کہا لہٰذاسنت رسول یہ ہے کہ سورہ حمدکے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہاجائے ) خدانے کہا: اے محمد!(ص)سورہ حمدکے بعداپنے پروردگارکاشناسنامہ اورنسبت کوپڑھواوراے رسول !ان مشرکین سے کہدو( قُلْ هُوَاللهُ اَحَدٌ، اَلله الصَّمَدُ،لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْ،وَلَمْ یَکُنْ لَّهُ کُفُوًااَحَدْ ) وہ الله ایک ہے،اللھبرحق اوربے نیازہے ،اس کاکوئی عدیل ونظیرنہیں ہے کہ جواس کے مثل ہو،پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نماز کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورہ تٔوحید کی قرائت کی اورجب دوسری رکعت میں سورہ حٔمدپڑھاتوپروردگارطرف سے وحی نازل ہوئی: اے محمد!(ص)دوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد( اِنّااَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْر ) ... کی قرائت کروکیونکہ یہ سورئہ روزقیامت تک تمھارااورتمھارے اہلبیت سے منسوب ہے یہ سورہ تمھارااورتمھارے اہلبیت کاشناسنامہ ہے جسمیں تمھاراشجرہ موجودہے ۔(۱)

اَحَدْکہے جانے کی وجہ

سوال یہ ہے کہ خداوندعالم نے “احد”کیوں کہا“واحد”کیوں نہیں کہا؟مختصرجواب یہ کہ احداورواحددونوں میں فرق پایاجاتاہے “احد”یعنی وہ اکیلاعددکہ جس میں کسی طرح کی دوئی ،ترکیب اورتجزیہ کاامکان نہیں ہے اوروہ اپنی ذات میں تجزیہ وتقسیم کی صلاحیت نہیں رکھتاہے اوراس کے لئے ثانی اوردوئی کاوجودنہیں پایاجاتاہے لیکن “واحد”ایساعددہے جس میں تجزیہ وترکیب اورتقسیم بندی کاامکان پایاجاتاہے اوراسکاثانی موجودہوتاہے۔ امیرا لمو منین حضرت علی سے سورئہ توحید کی تفسیربیان کرنے کی فرمائش کی گئی تو آپ نے فرمایا :“قل ھوالله احد” یعنی خدا ایسااکیلاہے کہ جس کی ذات وصفات میں تعددنہیں پایاجاتاہے (اور کوئی اس کا شریک نہیں ہے )“الله الصمد”یعنی خدا کی ذات ایسی ہے کہ جس کے کوئی اعضاء واجزاء نہیں ہیں اور ہر چیز سے بے نیاز ہے(یعنی خداجسم نہیں رکھتاہے )”( لَمْ یَلدِْ ) ”یعنی اس کے کوئی فرزند بھی نہیں ہے تاکہ وہ فرزند اس کی حکومت کا وارث بن سکے کیونکہ جوصاحب فرزندہوتاہے وہ جسم بھی ضرور رکھتاہے اور جو جسم رکھتا ہے اس کے فنابھی ہے اور جو مر جاتاہے اس کی حکومت وباد شاہت کسی دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ہے (لیکن خدا نہ جسم رکھتا ہے نہ کوئی فرزند اور نہ اس کو موت آ ئے گی ، وہ ہمشیہ سے ہے اور ہمشیہ رہے گا)”( وَلَم لوُلَدْ ) ”یعنی اس کوکسی نے پیدا نہیں کیا ہے ،اگراس کے کوئی باپ ہوتاتووہ بادشاہت اورخدائی کے لئے زیادہ لائق ومستحق ہوتا اورکم ازکم وہ باپ اپنے بیٹے کا شریک ضرورہوتا۔(۲)

____________________

۱). کافی/ج ٣/ص ۴٨۵

.۲) تفسیرمجمع البیان/ج ١٠ /ص ۴٨٩

۲۰۹

رازتسبیحات اربعہ

تین اورچاررکعتی نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں نمازی کواختیارہے چاہے ایک مرتبہ سورہ حٔمدپرھے یاتین مرتبہ تسبیحات اربعہ یعنی “سبحان الله والحمدللهولااله الّاالله والله اکبر ”کہے اورایسابھی کرسکتاہے کہ تیسری رکعت میں حمداورچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ پڑھے

اس کی کیاوجہ ہے کہ تین وچاررکعتی نمازوں کی تیسری وچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کاپڑھنازیادہ ثواب رکھتاہے اورسورہ حٔمدبھی پڑھ سکتے ہیں لیکن پہلی ودوسری رکعت میں حمدکاپڑھناواجب ہے تسبیحات اربعہ نہیں پڑھ سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ پنجگانہ نمازوں میں سے ہرنمازدورکعت تھی کیونکہ جب شب معراج الله تعالیٰ نے امت رسول پرنمازکوواجب قراردیاتوہرنمازکودورکعتی واجب قراردیاتھالیکن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)نے ظہرکی نمازمیں دورکعت ،عصرکی نمازمیں دورکعت، مغرب کی نمازمیں ایک رکعت اورعشاکی نمازمیں دورکعت کوزیادہ کیا۔ پہلی دونوں رکعتوں میں قرائت اورتیسری وچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کے ذریعہ فرق کئے کی وجہ امام علی رضا نے اس طرح بیان کی ہے:

شروع کی دونوں رکعتوں میں قرائت اورآخرکی دونوں رکعتوں میں تسبیحات اربعہ کواس لئے معین کیاگیاہے تاکہ الله کی طرف سے واجب کی گئی دونوں رکعتوں اورپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی طرف سے واجب کی گئی آخری دونوں رکعتوں کے درمیان فرق ہوجائے (الله تعالیٰ نے دونوں رکعتوں میں قرائت کوواجب قراردیاہے اگرپیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)بھی اپنی طرف سے واجب کی گئی نمازمیں حمدکی قرائت کوواجب قراردے دیتے توالله تعالیٰ سے واجب کی گئی رکعتوں اوررسول اسلام کی طرف واجب کی گئی رکعتوں میں کوئی فرق نہ رہتا)۔(۱)

محمدابن عمران نے حضرت امام صادق سے پوچھا:اس کی کیاوجہ ہے کہ نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کاپڑھناقرائت کرنے سے زیادہ افضل ہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورآپ آخری دورکعتوں میں مشغول تھے کہ عظمت پرودگارکامشاہدہ کیاتوحیرت ذرہ ہوگئے اورکہا:“سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّاالله ، والله اکبر ”اسی وجہ سے تسبیح کو قرائت سے افضل قراردیاگیاہے۔(۲)

____________________

. ۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠٨

۲) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠٨

۲۱۰

اس کی کیاوجہ ہے کہ تسبیح فقط چارہیں اسسے کم وزیادہ کیوں نہیں ہیں؟ روایت میں آیاہے کہ امام صادق سے کسی نے پوچھا:کعبہ کوکعبہ کس لئے کہاجاتاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس کے چارگوشہ ہیں،پوچھا:اس کے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ وہ بیت المعمورکے مقابلہ میں ہے اوراس کے چارگوشہ ہیں (لہٰذاکعبہ کے چارگوشہ ہیں)راوی نے پوچھا:بیت المعمورکے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ وہ عرش کے مقابلہ میں ہے اورعرش کے چارگوشہ ہیں اسی لئے بیت المعمورے کے بھی چارگوشہ ہیں،راوی نے پوچھا:عرش کے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام نے فرمایا:کیونکہ وہ کلمات کہ جن پردین اسلام کی بنیادرکھی گئی ہے چارہیں اوروہ کلمات یہ ہیں:

سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّاالله ، والله اکبر(۱)

رکوع کے راز

کسی کی تعظیم وادب کی خاطراس کے آگے اپنے سراورکمرکوخم کردینے کورکوع کہتے ہیں،رکوع ایک ایسی عبادت ہے جونمازگزارکی حالت تذلل کودوبالاکردیتی ہے اورانسان رکوع کی حالت میں اپنے آپ کوخدائے قیوم کے سامنے ذلیل وحقیرشمارکرتاہے جس سے اس کاایمان اورزیادہ پختہ ہوجاتاہے،بارگارہ خداوندی میں خضوع خشوع کے ساتھ اس کی تعظیم کے لئے سروگردن کے خم کردینے کورکوع کہاجاتاہے ،قرآن کریم اوراحادیث میں اس کی بہت زیادہ اہمیت اورفضیلت بیان کی گئی ہے۔

( وَاَقِیْمُوْالصَّلٰوة وَآتُوْالزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْامَعَ الرّٰاکِعِیْنَ ) نمازقائم کرو،زکات اداکرواوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو(۳)

( یٰامَرْیَمُ اقْنُتی لِرَبِّکِ وَاسْجُدی وَارْکَعی مَعَ الرّٰاکِعیْنَ ) اے مریم تم اپنے پروردگارکی اطاعت کرواورسجدہ اوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(۴)

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُواارْکَعُواوَاسْجُدُواوَاعْبُدُوارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) اے ایمان والو!رکوع کرو،سجدہ کرواوراپنے پروردگارکی عبادت کرواورکارخیرانجام دوکہ شایداسی طرح کامیاب ہوجاؤاورنجات حاصل کرلو۔

____________________

. ۱)علل الشرایع/ج ٢/ص ٣٩٨

۲) سورہ حٔج/آیت ٧٧

۳) سورہ بٔقرہ/آیت ۴٣

۴) سورہ آٔل عمران/آیت ۴٣

۲۱۱

مرحوم طبرسی تفسیرمجمع البیان میں لکھتے ہیں کہ جب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدیہ پہنچے تونوی ہجری میں اہل مدینہ گروہ درگروہ آنحضرتکے پاس رہے آتے رہے اوراللھورسول اوراس کی نازل کی ہوئی کتاب پرایمان لاتے رہے اورمسلمان ہوتے گئے اوردین اسلام کے ہرقانون کوقبول کرتے گئے ،ایک دن طائفہ ثقیف سے ایک جماعت جب آنحضرت کی خدمت میں پہنچی اورآپ نے انھیں بتوں کے بجائے الله تبارک تعالیٰ کے سامنے جھکنے اورنمازپڑھنے کاحکم دیاتواس جماعت نے جواب دیا:ہم ہرگزخم نہیں ہوں گے کیونکہ یہ کام ہمارے لئے ننگ وعارہے ، پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا: لاخیرفی دینٍ لیسفیہ رکوع ولاسجود

جس مذہب میں رکوع وسجود نہ ہواس میں کوئی خیر وکا میا بی نہیں پائی جاتی ہے ،خداوندعالم نے ان کے اس خیال کوباطل قراردینے کے لئے اس آیہ مبارکہ کونازل کیا: )( وَاِذَاقِیْلَ لَهُمْ ارْکَعُوالَایَرْکَعُْونَ ) (۱)

اورجب ان سے رکوع کرنے کے لئے کہاجاتاہے تورکوع نہیں کرتے ہیں۔(۲)

عن ابی جعفرعلیه السلام انّه قال:لاتعادالصلاة الّامن خمسة : الطهور ، والوقت ، والقبلة ، والرکوع ، والسجود (۳)

امام صادق فرماتے ہیں:پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر نمازباطل ہے اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں :وضو وقت قبلہ رکوع سجود۔

قال ابوجعفرعلیه السلام:من اتمّ رکوعه لم یدخله وحشة القبر ۔

امام محمد باقر فرماتے ہیں:جسکارکوع مکمل ہوتاہے وہ وحشت قبرسے محفوظ رہے گا۔(۴)

____________________

.۱)سورہ مٔرسلات/آیت ۴٨

. ٢)مجمع البیان /ج ١٠ /ص ٢٣۶

.۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٣٩

۴)بحارالانوار/ج ۶/ص ٢۴۴

۲۱۲

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لاصلاة لمن لم یتم رکوعها وسجودها ۔

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کارکوع وسجودکامل نہ ہواس کی نمازباطل ہے ۔(۱)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:انّ اسرق السراق مَن سرق مِن صلاته قیل:یارسول الله:کیف یسرق صلاته ؟قال:لایتم رکوعها ولاسجودها ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:وہ شخص سب سے بڑاچورہے جواپنی نمازکی چوری کرتاہے توآنحضرت سے پوچھاگیا:نمازکی چوری کسی طرح کی جاتی ہے؟فرمایا:رکوع وسجودکوکامل طورسے انجام نہ دینا۔(۲)

رکوع میں تسبیح کے قراردئے جانے کاراز

واجب ہے کہ ہرنمازگزاراپنی نمازکی پہلی رکعت میں حمدوسورہ کی قرائت کے بعداوردوسری رکعت میں حمدوسورہ کی قرائت وقنوت کے بعداورتیسری وچوتھی رکعت میں سورہ حمدیاتسبیحات اربعہ پڑھنے کے بعدتکبیرکہے اوررکوع میں جانے کے بعد اطمینان کے ساتھ تین مرتبہ “سبحان الله”یاایک مرتبہ “سبحان ربی العظیم وبحمدہ”کہے یاتحمید(الحمدللّٰہ)یاتہلیل(لاالہ الاالله)یاتکبیر(الله اکبر)کہے یاان کے علاوہ کوئی بھی دوسراذکرکرے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ذکرتین مرتبہ “سبحان الله”کہنے کے برابرہو،اگرکوئی شخص رکوع بطورکلی تسبیح کو ترک کردے تواس کی نمازباطل ہے ۔ رکوع وسجودمیں تسبیح ہی کوقراردیاگیاہے ،اورقرائت وغیرہ میں کیوں نہیں ہے اس میں کیارازہے؟

فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:رکوع وسجودمیں تسبیح کے قراردئے جانے کی چندوجہ ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ بندہ مٔومن کے لئے ضروری ہے کہ خضوع خشوع،تعبدوتقوا،سکون واطمینان،تواضع وتذلل اورقصدقربت کے علاوہ اپنے رب کی تسبیح وتقدیس ،تعظیم وتمجیداورشکرخالق ورازق بھی کرے ،جس طرح تکبیر(الله اکبر) اورتہلیل (لاالٰہ الّا الله) کہتاہے اسی طرح تسبیح وتحمید(سبحان ربی العظیم وبحمده )بھی کہے اوراپنے دل ودماغ کوذکرخدامیں مشغول کرے تاکہ نمازی کی فکروامیداسے غیرخداکی طرف متوجہ ومبذول نہ کرسکے ۔(۳)

____________________

.۱) بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣

.۲) مستدرک الوسائل /ج ١٨ /ص ١۵٠

۳). علل الشرایع /ج ١/ص ٢۶١

۲۱۳

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مجھے رکوع وسجودکی حالت میں قرائت (قران)سے منع کیاگیاہے، رکوع میں خداوندعالم کی تعظیم کرنی چاہئے اورسجدہ میں دعازیادہ کرنی چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ سجدہ کی حالت میں کی جانے والی تمھاری دعا(بارگاہ رب العزت میں )قبول ہوجائے۔(۱) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رکوع وسجودمیں قرائت نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان دونوں میں خدائے عزوجل کی حمدثناکی جاتی ہے۔(۲)

رکوع وسجودکی تسبیح فرق رکھنے کی وجہ

ذکررکوع وسجودکی تسبیح میں فرق پایاجاتاہے یعنی رکوع میں “سبحان ربی العظیم وبحمده ” اورسجدہ میں“سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”کہاجاتاہے اس کارازکیاہے کہ رکوع میں “ربی العظیم”اورسجدہ میں“ ربی الاعلیٰ”کہاجاتاہے؟ عقبہ ابن عامرجہنی سے مروی ہے: جب آیہ مٔبارکہ( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ) نازل ہوئی تورسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ہمیں حکم دیاکہ اسے اپنی نمازکے رکوع میں قراردواورجب آیہ مٔبارکہ( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْاَعْلی ) نازل ہوئی توآنحضرت نے ہمیں حکم دیاکہ اسے اپنی نمازکے سجدہ میں میں قراردو۔(۳) حسین بن ابراہیم نے محمدبن زیادسے روایت کی ہے کہ: ہشام بن حکم نے امام موسیٰ کاظم سے پوچھا:اس کی وجہ کیاہے کہ رکوع میں“ سبحان ربی العظیم وبحمدہ ” اورسجدہ میں “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ”کہاجاتاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: اے ہشام !جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازپڑھناشروع کی جب قرائت سے فارغ ہوئے توآنحضرت کے ذہن میں سات حجاب آسمانی کوعبورکرنایادآیاتوعظمت پروردگارکی خاطرگردن کی رگوں میں لرزش پیداہوگئی لہٰذااپنے دونوں ہاتھوں کوزانوں پررکھااور اس طرح تسبیح پروردگارکرنے لگے“سبحان ربی العظیم وبحمده ”( میرا پرور دگا ر جو کہ با عظمت ہے ہر عیب ونقص سے پاک ومنزّہ ہے اور میں اس کی حمد میں مشغول ہوں ) جب رکوع سے بلندہونے لگے توآپ کی نظروں نے اس سے بھی زیادہ بلندی دیکھی جوآپ دیکھ چکے تھے لہٰذافوراًزمین پرگرپڑے اورپیشانی مبارک کو زمین رکھنے کے بعدکہا:“سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”(میرا پر ور دگا رجو کہ سب سے بلندوبرتر ہے ہر عیب ونقص سے پاک ومنزّہ ہے اور میں اس کی حمد میں مشغول ہوں)جب آپ نے سات مرتبہ ان جملوں کی تکرارکی توآپ کے جسم سے رعب برطرف ہوااوریہ سنت قرارپایا۔(۴)

____________________

۱)معانی الاخبار/ص ٢٧٩

.۲) قرب الاسناد/ص ١۴٢

۳). تہذب الاحکام/ج ٢/ص ٣١٣

۴)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٣٢

۲۱۴

رکوع کوسجدوں سے پہلے رکھنے کی وجہ

نماز میں پہلے رکوع ہے اس کے بعد دوسجدے ہیں اگربندہ رکوع کو حقیقت کے ساتھ بجالاتا ہے تو سجدے کرنے کی لیاقت رکھتا ہے ، رکوع میں بندگی کا ادب واحترام پایاجاتاہے اور سجدے میں معبود سے قربت حاصل کی جاتی ہے اب اگر کوئی نماز گزار حقیقت میں خدا کا ادب واحترام نہیں کرتا ہے اور معرفت خدا کے ساتھ رکوع نہیں کرتا ہے وہ سجدے میں جاکر خدا سے قربت حاصل نہیں کرسکتا ہے اور رکوع کو وہی شخص عمدہ طریقہ سے انجام دے سکتا ہے جس کے دل میں خضوع وخشوع پایاجاتاہو اور وہ اپنے آپ کو خداکے سامنے ذلیل وحقیر اور محتاج سمجھتا ہو اور خوف خدا میں اپنے اعضاء وسرو گردن کو جھکا ئے رکھتا ہو ۔(۱)

گردن کوسیدھی رکھنے کاراز

مردکے لئے مستحب ہے کہ رکوع کی حالت میں زانوں کواندرکی طرف اور کمر کو ہموار اور گردن کمرکے برابرسیدھی اورکھینچ کررکھے معصومین کے بارے میں روایتوں میں ملتاہے کہ رکوع کی حکالت میں اپنی اس طرح سیدھی اورصاف رکھتے تھے کہ اگرپانی کاکوئی قطرہ آپ کی ڈالاجاتاتووہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتاتھا۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)جب رکوع کرتے تھے تواپنی کمرکواس طرح ہمواررکھتے تھے کہ اگران کی کمرپرپانی ڈال دیاجاتاتووہ بھی اپنی جگہ پرثابت رہتا۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازمیں رکوع وسجود کی حالت میں اپنی کمرکوہمواراورسیدھی نہ رکھے اس نمازہی نہیں ہوتی ہے(۳)

زرارہ سے روایت ہے :امام محمدباقر فرماتے ہیں: جب تم رکوع کروتواپنے رکوع میں دونوں قدموں کے درمیان ایک بالشت کافصلہ دواوراپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں کوزانوں پررکھواورپہلے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیںزانوں پررکھواس کے بعدبائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں زانوں پررکھواورہاتھ کی انگلیوں کوزانوں کے اطراف میں رکھواورانگلیوں کوآپس میں نہ ملاؤ،اگرتمھاری انگلیاںزانوں کے اطراف تک پہنچ رہی ہوں توکافی ہے اورمیں یہ دوست رکھتاہوں کہ ہتھیلیوں کوزانوں پررکھواورانگلیوں کوکھول کررکھونہ انھیں اپس میں نہ ملاؤاوراپنی کمرکوسیدھی رکھو،گردن کوکھینچ کررکھواوراپنے دونوں پیروں کے درمیان نگاہ کرو۔(۴)

____________________

. ۱)رسائل الشہیدالثانی /ص ١٣١

. ۲)معانی الاخبار/ص ٢٨٠

. ۳)معانی الاخبار/ص ٢٨٠

۴) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٨٣

۲۱۵

ایک شخص امام علیکی خدمت میں ایااورکہا:اے خداکی محبوب ترین مخلوق کے چچازادبھائی!رکوع میں گردن کوسیدھے رکھنے کے کیامعنی ہیں؟ آپ نے فرمایا: رکوع میں گردن کو سیدھا رکھنے کارازاورفلسفہ یہ ہے یعنی بارالٰہا!میں تجھ پرایمان رکھتاہوں،تیرے حکم کامطیع ہوں اورتیرے سامنے میری یہ گردن حاضرہے اگرچاہے توقطع کردے۔(۱)

رازطول رکوع

رکوع کوذکرودعاکے ساتھ طول دینامستحب ہے ، خصوصاً امام جماعت کے لئے اگرکوئی شخص نمازجماعت میں شامل ہوناچاہتاہے اورامام کومحسوس ہوجائے کہ کوئی شخص نمازمیں شریک ہوناچاہتاہے تورکوع کودوبرابرطول دےنامستحب ہے تاکہ وہ شخص نمازجماعت میں شریک ہوجائے ۔

ابواسامہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:میں تمھیںطول کوع وسجودکی وصیت کرتاہوں کیونکہ تم میں سے جب بھی کوئی شخص رکوع وسجودکوطول دیتاہے توشیطان اس کے پیچھے فریادبلندکرتاہے اورکہتاہے :انھوں نے خداکی اطاعت کی اوراس حکم سے کے خلاف سرکشی کی اورگناہ کیا،انھوں نے سجدہ کیااورمیں نے سجدہ کرنے سے خودداری کی۔(۲)

بریدعجلی سے مروی ہے :میں نے امام صادقسے پوچھا:نمازمیں قرآن کی زیادہ تلاوت کرنازیادہ ثواب رکھتاہے یارکوع وسجودکوطول دینا؟امام (علیه السلام)نے جواب دیا:رکوع وسجودکوطول دینازیادہ ثواب رکھتاہے ،کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے جس میں وہ فرماتاہے:

( فَاقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنْهُ ، وَاَقِیْمُواالصَّلاةَ ) (۳) جت ناتم سے میسرہوسکے قرآن کی تلاوت کرواورنمازکوقائم کرو،آیہ مٔبارکہ میں ) نمازقائم کرنے سے مرادیہ ہے کہ رکوع وسجودکوطول دینا۔

ہم باب رکوع میں کے آخرمیں ایک حدیث نقل کررہے ہیں کہ جس میں معصوم (علیه السلام) نے رکوع کے آداب ومستحبات کوذکرکیاہے اوروہ حدیث یہ ہے: زرارہ سے مروی ہے امام باقر فرماتے ہیں:جب تم رکوع کرنے کاارادہ کرو تو(قرائت کے بعد)سیدھے کھڑے ہوئے “الله اکبر”کہواورجاؤاسکے بعدرکوع کی حالت میں یہ کہو :

____________________

.۱) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١١

.۲) کافی /ج ٢/ص ٧٧

۳)سورہ مٔزمل/آیت ٢٠ )

۴)السرائر(ابن ادریسحلی)/ج ٣/ص ۵٩٨ )

۲۱۶

اللّهم لک رکعتُ ولکَ اسلمتُ وعلیکَ توکلتُ وانتَ ربّی خشعَ لکَ قلبی وسمعی وبصری وشعری وبشری ولحمی ودمی ومُخّی وعصبی وعظامی ومااقّلَّتْهُ قدمائی غیرمنکرٍولامستکبرٍولامستحسرٍ سبحان ربی العظیم وبحمده “ اوراس ذکرکی تین مرتبہ آرام وسکون کے ساتھ تکرارکرواوررکوع میں اپنے پیروں کو اس طرح مرتب قراردوکہ دونوں پاؤں کے درمیان ایک بالشت کافاصلہ رہے اوردونوں زانوں پرہتھیلی کواس طرح رکھو کہ پہلے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیں زانوپرقراردواس کے بعدبائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں زانوں پررکھو، انگلیوں کوزانوں کے اطراف میں رکھو ،جب ہاتھوں کوزانوں پررکھوتو انگلیوں کوآپس میں نہ ملاؤبلکہ انھیں کھلارکھو،کمراورگردن کوسیدھی رکھو اوردونوں پاؤں کے درمیان نگاہ کرواور(ذکررکوع سے فارغ ہونے کے بعد)رکوع سے سربلندکرو اورسیدھے کھڑے ہوکر“سمع الله لمن حمدہ” کہواس کے بعد“الحمدلله رب العالمین اهل الجبروت والکبریاء والعظمة لله رب العالمین ”اسکے بعددونوں ہاتھوں کوبلندکرکے تکبیرکہو اورسجدہ میں جاؤ۔(۱)

رازسجدہ

سجدہ لغت میں خضوع میں استعمال ہوتاہے لیکن شرع میں خداوندعالم کی تعظیم کے لئے خضوع وخشوع کے ساتھ زمین پرپیشانی رکھ دینے کے بعداس کی تسبیح وتقدیس کرنے کوسجدہ کہاجاتاہے ۔

سجدہ ایک انتہائی خضوع ہے جس سے بڑھ کرکوئی خضوع وتواضع نہیں ہے اسی کے ذریعہ بندگی کااظہارہوتاہے، اسی لئے نمازپڑھنے کی جگہ کو مسجد کہا جاتا ہے۔ سجدہ فقط خداکے لئے ہوتاہے اوراس کے علاوہ کسی دوسرے کوسجدہ کرناجائزنہیں ہے، قرآن کریم کی متعددآیات(۲) میں خداوندعالم کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاہے اورروایات میں بھی اس کی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے

م( ُحَمَّدٌرَسُولُ اللهِ وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِرُحْمٰاءُ بَیْنَهُمْ تَرٰیهُمْ رُکَّعاًسُجَّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاًمِنَ اللهِوَرِضْوَاناًسِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ ) محمدالله کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفارکے لئے سخت ترین اورآپس میں رحمدل ہیں،تم انھیں دیکھوگے کہ وہ بارگااحدیت میں سرتسلیم خم کئے ہوئے سجدہ ریزہیں اوراپنے پروردگارسے فضل وکرم اوراس کی خوشنودی کے طلب گارہیں ،کثرت سجودکی بناپران کے پیروں پرسجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیں۔(۳)

____________________

۱). کافی /ج ٣/ص ٣١٩

۲)فصلت/آیت ٣٧ ۔ سورہ نٔجم/آیت ۶٢ ۔سورۂ حجر/آیت ٩٨ ۔سورہ عٔلق/آیت ١٩ ۔حج ٧٧

۳). سورہ فٔتح/آیت ٢٩

۲۱۷

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَآمَنُواارْکَعُواوَاسْجُدُواوَاعْبُدُوارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) اے ایمان والو!رکوع کرو،سجدہ کرواوراپنے پروردگارکی عبادت کرواورکارخیرانجام دوکہ شایداسی طرح کامیاب ہوجاؤاورنجات حاصل کرلو۔(۱)

قال الصادق علیه السلام : اقرب مایکون العبد الی الله عزّوجل وهوساجدٌ ۔

وہ چیزجوبندہ کوخدائے عزوجل سے بہت زیادہ قریب کردیتی ہے وہ سجدہ کی حالت ہے۔(۲)

روایت میں آیا ہے :روز قیامت خدا وند متعا ل آ تشجہنم سے کہے گا:

یانارُانضجی، یانارُاِحرقی وامّاموضع السجودفلاتقربی ۔

اے جہنم کی آگ! توجس کو جلانا چاہتی ہے جلا دے لیکن اعضاء سجدہ کے ہر گز قریب نہ جا نا ۔(۳)

سجدہ اسی وقت مفیدہے جبکہ اسے خداوندعالم کی حقیقی معرفت کے ساتھ انجام دیاجائے ،اگرسجدہ کورب دوجہاں کی معرفت کے ساتھ انجام نہ دیاجائے تووہ سجدہ بیکارہے قال الصادق علیہ السلام:ماخسروَاللھمَن اتی بحقیقة السجود ولوکان فی العمرمرة واحدة۔

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں : خدا کی قسم اگر کوئی شخص حقیقی سجد ہ کرے اسے زندگی میں کوئی مشکل نہیں آسکتی ہے اورنہ کو ئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے خواہ پوری زندگی میں ایک ہی مر تبہ ایسا سجدہ کرے ۔(۴)

العلوی علیہ السلام :سجدابلیسسجدة واحدة اربعة الٰاف عام لم یردبہازخرف الدنیا. حضرت علی فرماتے ہیں: شیطان چارہزارسال تک ایک ہی سجدے میں پڑارہااوراس کا مقصد دنیااور زینت دنیا کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔(۵)

شیطان ہرسجدہ کودشمن نہیں رکھتاہے بلکہ اسی سجدہ کودشمن کورکھتاہے جوحقیقت میں سجدہ ہوتاہے، شیطان کو امیرشام ،ولید،مروان ابن حکم ،مامون ،ہارون وغیرہ کے سجدوں سے کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ ان کاسجدہ حقیقی سجدہ نہیں تھا،شیطان اگرخوف ہراساں ہوتاہے توانبیاء وآئمہ اطہار اوران کے چاہئے والوں کے سجدوں سے خوف کھاتاہے کیونکہ یہ خداوندعالم کوحقیقت میں سجدہ کرتے ہیں شیطان کے ایک چیلے نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی پشت مبارک پرسجدہ کی حالت اونٹ کی اوجھڑی رکھی،امام علی (علیه السلام)کے سرمبارک پرمسجدمیں حالت سجدہ میں ضربت لگائی ،امام حسین کاسرمبارک شمرملعون نے سجدہ کی حالت میں تن سے جداکیااورآج بھی اسی شیطان کے چیلے روحانی پیشواؤں پرنمازکی حالت میں گولیاں چلاکرفرارہوجاتے ہیں،محرابوں میں بم دھماکہ کرادیتے ہیں

____________________

.۱) سورہ حٔج/آیت ٧٧---۲). ثواب الاعمال/ص ٣۴---. ۳)منہج الصادقین،ج ٨،ص ٣٩٧

.۴) مصباح الشریعہ /ص ٩٠

۵). مستدرک سفینة البحار/ج ۴/ص ۴۶٧

۲۱۸

آیت الله مکارم شیرازی تفسیرنمونہ میں لکھتے ہیں: ابو جہل اپنے ساتھیوں سے کہتاتھا :اگر میں نے رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)کوسجدہ کی حالت میں دیکھ لیا تو اپنے پیروں کے ذریعہ ان کی گردن کوتوڑ کر رکھ دوں گا، ایک دن جب رسول خدا (صلی الله علیه و آله)نماز میں مشغول تھے توابوجہل اپنے اس نا پاک ارادہ کو انجام دینے کے لئے مسجد میں داخل ہوا لیکن جیسے ہی نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے قریب پہنچا تو سب نے دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں کواس طرح چلارہاہے جیسے کوئی چیزاس کی طرف حملہ کررہی ہے اوروہ اپنے آپ کواس سے بچارہاہے اوراپنے ہاتھوں سے دفاع کرتے ہوئے پیچھے کی طرف ہٹ رہا ہے،اس سے پوچھاگیا:تواس طرح کیاکرہاہے اوراپنے ہاتھوں سے کس چیز کو دور کررہاہے ؟ اس نے کہا : میں اپنے اور پیغمبر کے درمیان ایک نشیب دیکھ رہا ہوں جس میں آگ روشن ہے جومجھے جلادینے کاارادہ رکھتی ہے اورمیں ایک خوفناک منظر دیکھ رہا تھا مجھے کچھ بال وپر نظر آرہے تھے ،اسی مو قع پر رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے فرمایا: قسم اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر ابوجہل ذرہ برابر بھی نز دیک ہو جاتا تو الله کے فر شتے اس کو قطعہ قطعہ کر دیتے اور اس کے جسم کے ٹکڑ ے اٹھا کر لے جا تے ۔(۱)

آدم(علیھ السلام) کواوریوسف کے سامنے سجدہ کرنے کی وجہ

سوال یہ ہے کہ جب خداکے علاوہ کسی ذات کوسجدہ کرناجائزنہیں ہے توپھرخداوندعالم نے شیطان سے آدم کوسجدہ کرنے کاحکم کیوں دیا؟اورارشادفرمایا:( قُلْنَالِلْمَلائِکَةِ اسْجُدُوالآدَمَ فَسَجُدُوااِلّااِبْلِیْسَ ) (۲) (ہم نے ملائکہ سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو توابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا)اورجب حضرت یعقوب(علیه السلام) اوران کے فرزنددربار یوسف (علیه السلام)میں مصرپہنچے توانھوں نے اپنے والدین(۳) کوتخت پرجگہ دی( وَخَرُّوالَهُ سُجَّداً ) (۴) اورسب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گرپڑے ،حضرت یعقوب جوکہ الله کے نبی تھے انھوں نے اوران کے دوسرے فرزندوں نے غیرخداکو سجدہ کیوں کیا؟

____________________

.۱) تفسیرنمونہ/ج ٢٧ /ص ١۶۵

۲)سورہ بٔقرہ/آیت ٣۴ ۔اعراف/ ١١ ۔اسراء / ۶١ ۔کہف/ ۵٠ ۔طٰہٰ/ ١١۶ ( /آیت ١٠٠

۳)بعض کاخیال ہے کہ ابوین سے مرادباپ اورخالہ ہیں اوربعض نے یہ بھی کہاہے کہ خداوندعالم نے ماں کودوبارہ زندہ کیاتاکہ اپنے لال کاعروج دیکھ سکیں،ترجمہ وتفسیرعلامہ جوادی۔

۴)سورہ یٔوسف )

۲۱۹

ملائکہ نے حضرت آدم کومعبودکے عنوان سے سجدہ نہیں کیاتھابلکہ آدم (علیه السلام)بعنوان قبلہ قابل تعظیم وتکریم قراردئے گئے تھے ،پس یہ سجدہ آدم (علیه السلام)کے لئے نہیں تھابلکہ درحقیقت حضرت آدم کے طرف رخ کرکے تعظیم وتکریم پروردگارکوسجدہ کیاگیاتھاجیساکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: فرشتوں کاسجدہ آدم(علیه السلام) کے لئے نہیں تھابلکہ آدم(علیه السلام) ان کے لئے قبلہ بنائے گئے تھے کہ جن کی طرف رخ کرکے انھوں نے خداوندعالم کوسجدہ کیااوراس سجدہ کی بناپرآدم(علیه السلام) معظم ومکرم ثابت ہوئے ،اورکسی کے لئے سزاوارنہیں ہے کہ وہ خداکے علاوہ کسی دوسرے کوسجدہ کرے اوراس کے لئے اس طرح خضوع کرے جس طرح خداکے لئے خضوع کیاجاتاہے اورسجدہ کے ذریعہ اس کی اس طرح تعظیم وتکریم کرے جیسے خداکی تعظیم وتکریم کی جاتی ہے ،اگرکسی ایک کوتعظیم وتکریم کی خاطرغیرخداکوسجدہ کرنے دیاجاتاتوحتماًہمارے ضعفائے شیعہ اورہمارے شیعوں میں سے دیگرمکلفین کویہ حکم دیاکہ وہ اپنے اس علم کے واسطہ سے علی ابن ابی طالب وصی پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوسجدہ کریں ۔(۱)

زندیق نے امام جعفر صادق سے غیرخداکے لئے سجدہ کرنے کے بارے میں پوچھا :کیا خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو سجدہ کرناجائز ہے ؟آپ نے فرمایا :ہرگز نہیں،زندیق نے امام (علیه السلام)سے دوبارہ پوچھا :جب غیرخداکے لئے سجدہ جائزنہیں ہے توپھر خداوند متعال نے فرشتوں کو آدم (علیه السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا؟آپ نے جواب دیا:

خدا کے فرمان کے مطابق کسی کے آگے سر جھکا دینے کو اس کے لئے سجدہ شمار نہیں ہو تا ہے بلکہ وہ سجدہ خدا کے لئے ہو تا ہے ۔(۲)

ملائکہ کاآدم (علیه السلام)کوسجدہ کرنے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضرت آدم کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے محمدوآل محمد کے نورکوخلق کیامگرجب آدم (علیه السلام) کوپیداکیاگیاتوالله تبارک تعالیٰ نے ان انوارمقدسہ کوصلب آدم (علیه السلام) میں قراردیالہٰذافرشتوں کوحکم دیاکہ آدم (علیه السلام) کے سامنے سجدہ کرو،ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا،درحقیقت یہ سجدہ آدم (علیه السلام) کونہیں تھابلکہ ان انوارمقدسہ کی تعظیم کاحکم تھاکہ جن کے صدقہ میں یہ پوری کائنات خلق کی گئی ہے اوروہ اس وقت صلب آدم (علیه السلام)میں موجودتھے اس لئے ملائکہ کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتھا،

____________________

.۱) تفسیرامام عسکری /ص ٣٨۶

۲). وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٩۵٨

۲۲۰