نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار0%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار

مؤلف: رجب علی حیدری
زمرہ جات:

صفحے: 370
مشاہدے: 145054
ڈاؤنلوڈ: 2579

تبصرے:

نمازکے آداب واسرار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 145054 / ڈاؤنلوڈ: 2579
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

اسی حقیقت کے بارے میں خودنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)ارشادفرماتے ہیں: الله تبارک وتعالیٰ نے آدم(علیه السلام) کوخلق کیااورہمیں ان کی صلب میں قراردیااورفرشتوں کوحکم دیاکہ وہ ہماری تعظیم واکرام کے لئے آدم کے سامنے سجدہ کریں(ابلیس کے علاوہ تمام ملائکہ نے سجدہ کیا)جن کایہ سجدہ الله کی اطاعت اوراکرام آدم کے لئے تھاکیونکہ ہم ان کی صلب میں تھے۔(۱)

یوسف (علیه السلام)کے سامنے جناب یعقوب اوران بھائیوں کاسجدہ صرف رب العالمین کاسجدہ شٔکرتھااور یوسف فقط ایک قبلہ کی حیثیت رکھتے تھے جس کے ذریعہ ان کے احترام کااظہارکیاجارہاتھا،اسبارے میں علی ابن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیرمیں یہ روایت نقل کی ہے :

موسیٰ ابن احمدنے حضرت ابوالحسن امام علی نقیکی خدمت میں چندسوال مطرح کئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھا : اے میرے مولاوآقا!مجھے اس قول الٰہی( وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوالَهُ سُجَّداً ) (۲) کے بارے میں آگاہ کیجئے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام)اوران کے فرزندوں نے حضرت یوسف (علیه السلام)کے سامنے کس لئے سجدہ کیاتھاجبکہ وہ الله کے نبی تھے ؟امام علی نقینے جواب دیا:

امّاسجودیعقوب وولده فانّه لم یکن لیوسف انماکان ذلک منهم طاعة للّٰه وتحیة لیوسف کماکان السجودمن الملائکة لآدم ولم یکن لآدم انماکان ذلک منهم طاعة للّٰه وتحیةلآدم وسجدیوسف معهم شکرالله ۔

حضرت یعقوب اوران کے فرزندوں کاحضرت یوسف کے آگے سجدہ کرنا،ان کو سجدہ کرنامقصودنہیں تھابلکہ وہ سجدہ الله کی اطاعت اوراحترام یوسف (علیه السلام) کی خاطرتھاجس طرح ملائکہ کاسجدہ آدم(علیه السلام) کے لئے نہیں تھابلکہ الله کی اطاعت اوراکرام آدم(علیه السلام) کی خاطرتھااورحضرت یوسف (علیه السلام) نے بھی ان کے ساتھ ) سجدہ شٔکراداکیا(۳)

منہج الصادقین میں لکھاہے :جب حضرت نوح کشتی میں سوارہوئے توشیطان بھی اس میں سوارہوا،حضرت نوح (علیه السلام)نے شیطان سے کہا:اے ابلیس !تونے تکبرکی وجہ سے اپنے آپ کوبھی اوردوسرے لوگوں کوبھی ہلاک کردیاہے ،شیطان نے کہا:میں اب کیاکروں؟نبی الله نے کہا:توبہ کرلے ،کہا:کیامیری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ حضرت نوح نے بارگاہ خدا وند ی میں عرض کیا : پروردگا ر ا! اگر ابلیس توبہ کرے ، کیا تواس کی توبہ قبول کر لے گا ؟ خطاب ہوا : اگر ابلیس اب بھی قبرآدم (علیه السلام) کو سجدہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کر لوں گا ، حضرت نوح(علیه السلام) نے جب یہ شیطان سے کہاتو ابلیسنے وہی اپنے بڑے مغرورکے ساتھ جواب دیا: جسوقت آدم زندہ تھے ، میں نے انھیں اس وقت سجدہ نہیں کیا، اب جبکہ مردہ ہوچکے ہیں کیسے سجدہ کرسکتاہوں؟(۴)

____________________

.۱) مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ۴٧٩----۲)سورہ یٔوسف /آیت ١٠٠

. ۳)تفسیرقمی /ج ١/ص ٣۶۵ ) .----۴). تفسیرمنہج الصادقین /ج ١/ص ١٧٢

۲۲۱

ہررکعت میں دوسجدے قراردئے جانے کی وجہ

ہررکعت میں ایک رکوع ہے اوردوسجدہ ہیں سوال یہ ہے کہ جس طرح ایک رکعت میں دوسجدہ ہیں تو دورکوع کیوں نہیں ہیں یاپھریہ کہ جب ہررکعت میں ایک رکوع ہے توسجدہ بھی ایک کیوں نہیں ہے ،ہررکعت میں یادورکوع ہوتے یاپھر سجدہ بھی ایک ہوتا،دونوں میں مطابقت کیوں نہیں ہے؟

رکوع وسجوددونوں میں مطابقت پائی جاتی ہے کیونکہ نمازوہ حصہ جوبیٹھ کرانجام دیاجاتاہے نمازکے اس حصہ کاآدھاہوتاہے جو حصہ قیام کی حالت میں انجام دیاجاتاہے ،رکوع قیام کی حالت میں شمارہوتاہے اورسجدہ قعودمیں شمارہوتاہے یعنی ایک سجدہ آدھے رکوع کے برابرہوتاہے اسی لئے ایک رکعت دوسجدہ رکھے گئے ہیں تاکہ رکوع سجودمیں مطابقت رہے ،اس بارے میں روایت میں ایاہے:

عیون اخبارالرضا(علیه السلام)میں امام علی رضا فرماتے ہیں :اگرکوئی تم سے یہ سوال کرے کہ ہررکعت میں دوسجدہ کیوں ہیں تواس کاجواب یہ ہے:انّماجعلت الصلاة رکعة وسجدتین لانّ الرکوع من فعل القیام والسجودمن فعل القعودوصلاة القاعدعلی النصف من صلاة القائم فضوعفت السجودلیستوی بالرکوع فلایکون بینهماتفاوت لانّ الصلاة انّماهی رکوع وسجود ۔

نمازکی ہرایک رکعت میں ایک رکوع اوردوسجدہ قراردئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ رکوع کھڑے ہوکر انجام دیاجاتاہے اورسجودکوبیٹھ کر،وہ نمازکہ جوبیٹھ کرپڑھی جاتی ہے کھڑے ہوکرپڑھی جانے والی نمازکی آدھی ہوتی ہے اس لئے نمازمیں ایک سجدہ کورکوع کے دوبرابرقراردیاگیاہے تاکہ دونوں میں کوئی فرق نہ رہے کیونکہ رکوع وسجودہی اصل نماز ہیں۔(۱)

حدیث معراج میں نمازمیں دوسجدہ کے واجب قراردئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے:

جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازپڑھنے کاحکم ہوا،جب نمازمیں مشغول ہوئے اوررکوع سے سربلندکیااورپروردگارکی عظمت کامشاہدہ کیاتوالله کی طرف سے وحی نازل ہوئی:اے محمد!اپنے پروردگارکے لئے سجدہ کرو،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے زمین پرسجدہ میں گرگئے ،خدائے عزوجل کی طرف سے وحی نازل ہوئی:اے رسول !کہو“ سبحان ربی الاعلیٰ ” پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس ذکرکو تین مرتبہ زبان پرجاری کیا،اس کے بعدسجدہ سے سربلندکرکے بیٹھ گئے تودوبارہ عظمت پروردگارکامشاہدہ کیالہٰذاپھردوبارہ سجدہ میں گرگئے اورپہلے سجدہ کی طرح دوسراسجدہ کیا(اوراس طرح ہرنمازکی ہررکعت میں دوسجدہ واجب قرارپائے۔(۲)

_____________________

۱). عیون اخبارالرضا(علیه السلام) /ج ١/ص ١١۵

. ۲)الکافی/ج ٣/ص ۴٨۶

۲۲۲

اسی حدیث کے مانندایک اورحدیث میں ایاہے: ابوبصیرنے امام صادق سے پوچھادورکعت نمازمیں چارسجدے کیوں قراردئے ہیں(یعنی ہررکعت میں ایک رکوع اوردوسجدہ کیوں ہیں؟) امام (علیه السلام)نے فرمایا:کھڑے ہوکرپڑھی جانے والی ایک رکعت نماز،بیٹھ کرپڑھی جانے والی دورکعت کے برابرہے (اورسجدہ بیٹھ کرکیاجاتاہے اس لئے دورکعت میں چارسجدے ہیں)اوریہ کہ رکوع میں“سبحان ربی العظیم وبحمده ” اورسجدہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”میں کیوں کہاجاتاہے اس دلیل یہ ہے کہ جب خداوندعالم نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)آیہ مٔبارکہ “( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ) ” نازل کی توآنحضرت نے لوگوں کوحکم دیاکہ تم اسے اپنی نمازکے رکوع میں قراردواورجب آیۂ مبارکہ“( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْاَعْلی ) ” نازل ہوئی توآنحضرت نے حکم دیاکہ تم اسے اپنی نمازکے سجدہ میں میں قراردو۔(۱)

ایک شخص امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں ایااورکہا:اے خداکی بہترین مخلوق(حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله))کے چچازادبھائی !میں اپ سے معلوم کرناچاہتاہوں کہ پہلے سجدہ کے کیامعنی ہیں اوراس کاکیارازہے ؟ آپ نے فرمایا : سجدہ کارازیہ ہے کہ جب نمازی (ہررکعت میں)پہلے سجدے کے لئے زمین پر سر رکھتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :بارالٰہا!تونے مجھے اسی خاک سے پیدا کیاہے اورجب سجدہ أول سے سربلندکرتاہے تواس کامقصدیہ ہوتا ہے :بارالٰہا!،تونے مجھے اسی خاک سے نکالاہے اورجب دوسرے سجدے کے لئے زمین پر دوبارہ سر رکھتاہے تواس بات کی گواہی دیتاہے :ہمیں مرنے کے بعد اسی زمین میں دفن ہونا ہے اور جب سجدہ دٔوم سے سربلندکرتاہے تووہ معادکی گواہی دہتے ہوئے کہتاہے : روزمحشر ہمیں دوبارہ خاک سے بلند جائے گاجیسا کہ خداوندمتعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے :( مِنْهَا خَلَقْنَا کُمْ وَفِیْهٰا نُعِیْدُ کُمْ وَمِنْهٰا نُخرِ جُکُمْ تَارَةً اُخُریٰ ) (۲) اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے اور اسی میں پلٹا کر لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اُس سے نکا ) لیں گے )۔(۳)

____________________

۱) من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣١۴

۲)سورہ طٰٔہٰ/آیت ۵۵

.۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣١۴ )

۲۲۳

رازاعضائے سجدہ

سجدہ کی حالت میں بدن کے سات اعضاء کوزمین پرٹیکناواجب ہے،جنھیں اعضاء سجدہ کانام دیاگیاہے اوروہ یہ ہیں:پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھے اورناک کے سرے کومحل سجدہ پرٹیکناسنت پیغمبر ہے ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:سجدہ میں بدن کے سات اعضاء کوزمین پررکھناچاہئے : پیشانی، دونوں ہاتھ کی ہتھیلی ،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھے اورناک کوبھی زمین پررکھیں لیکن ان میں سے سات اعضاء کازمین پرٹیکناواجب ہے اورناک کازمین پررکھناسنت پیغمبرہے ۔(۱)

روایت میں آیا ہے :روز قیامت خدا وند متعا ل آ تش جہنم سے کہے گا:

یانارُانضجی، یانارُاِحرقی وامّاموضع السجودفلاتقربی ۔

اے جہنم کی آگ! توجس کو جلانا چاہتی ہے جلا دے لیکن اعضاء سجدہ کے ہر گز قریب نہ جا نا ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سجدہ کی حالت میں ان سات اعضاء کوزمین پررکھنے کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

خلقتم من سبع ورزقتم من سبع فاسجدوالِلّٰهِ علی سبع ۔ خداوندعالم نے تمھیں سات چیزوں سے خلق کیاہے اورسات سے چیزوں سے رزق دیتاہے لہٰذاسات چیزوں پرخداکوسجدہ کرو۔(۳)

سجدے کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کوزمین پرقراردینے کی وجہ حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے:

قال امیرالمومنین علیه السلام:اذاسجداحدکم فلیباشربکفیه الارض لعل اللهیصرف عنه الغل یوم القیامة.

حضرت علی فرماتے ہیں:جب بھی تم میں کوئی شخص سجدہ کرے تواپنے دونوں ہاتھوں کوزمین رکھے شاید خداوندعالم روزقیامت تشنگی کے سوزش کواسسے برطرف کردے۔(۴)

____________________

۱). استبصار/ج ١/ص ٣٢٧

. ۲)منہج الصادقین،ج ٨،ص ٣٩٧

.۳) مستدک الوسائل /ج ۴/ص ۴۵۵

۴). ثواب الاعمال/ص ٣۴

۲۲۴

چورکی ہتھلیوں کوقطع نہ کئے جانے کی وجہ

شیعہ اثناعشری مذہب کے نزدیک اسلامی قانو ن یہ ہے کہ اگرکوئی شخص پہلی مرتبہ چوری کرے تواس کے دونوں ہاتھ کی چاروں انگلیاں قطع کردی جائیں اوردونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں وانگوٹھوں کوباقی رکھاجائے تاکہ چوربھی عبادت الٰہی کواس کے حق کے ساتھ اداکرسکے اورفریضہ الٰہی کواداکرنے میں کوئی دشواری نہ ہو روایت میں آیاہے کہ معصتم نے حضرت امام محمدتقی سے سوال کیاچورکے ہاتھوں کوکہاں تک واجب ہے ؟امام (علیه السلام)نے جواب دیا:اس کی چاروں انگلیوں کوقطع کیاجائے اورہتھیلی کوباقی رہنے دیاجائے ،معتصم نے سوال کیا:آپ کے پاس اس کی کوئی دلیل موجودہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایاہے کہ سجدہ میں سات اعضائے بدن: پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلی،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھوں کازمین پرٹیکناواجب ہے اگرچورکے ہاتھوں کوگٹے یاکہنی سے قطع کیاجائے تواس کے ہاتھ ہی باقی نہیں رہے گاجسے وہ سجدہ میں زمین ٹیک سکے اورخداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:

( وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّهِ فَلَاتَدْعُوْامَعَ الله احَدًا ) (۱)

بیشک مساجدسب الله کے لئے ہیں لہٰذااس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔ اس کے بعدامام (علیه السلام) نے فرمایا:اس قول خداوندی میں “مساجد”سے وہی سات اعضاء مرادہیں کہ جن کازمین پرٹیکناواجب ہے اور“( فَلَاتَدْعُوْامَعَ الله احَدًا ) ” سے مرادیہ ہے کہ اس کے ہاتھوں کوقطع نہ کیاجائے (بلکہ فقط اس کی انگلیوں قطع کیاجائے تاکہ وہ عبادت ) الٰہی کواس کے حق کے ساتھ اداکرسکے)(۲)

____________________

.۱)سورہ جٔن /آیت ١٨

. ٢)تفسیرالمیزان /ج ۵/ص ٣٣۵ )

۲۲۵

راز ذکرسجدہ

سجدہ میں بھی رکوع کے مانندذکرخداواجب ہے ،سجدہ کاکوئی ذکرمخصوص نہیں ہے بلکہ جوذکربھی کیاجائے کافی اورصحیح ہے ،چاہے “الحمدلله ”کہے یا“لااله الّاالله ” کہے یاتکبیر“الله اکبر ”کہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ذکرتین مرتبہ“سبحان الله ”اورایک مرتبہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”کی مقدارسے کم نہ ہوالبتہ تسبیح کرنااحتیاط کے مطابق ہے یعنی بہترہے کہ تین مرتبہ “سبحان الله ”یاایک مرتبہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ” کہاجائے اور مستحب ہے کہ “سبحان ربی الاعلیٰ و بحمده ” کو اختیارکرے اورمستحب ہے کہ اس ذکرکوتین مرتبہ کہاجائے ذکرسجدہ اوراس کے اسرارکوذکررکوع کے ساتھ ذکرکرچکے ہیں لہٰذاتکرارکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اشیائے ماکول وملبوس پرسجدہ کیوں جائزنہیں ہے واجب ہے کہ نمازگزارزمین یاوہ چیزیں جوزمین سے اگتی ہیں اورانسان کی پوشاک یاخوراک کے کام میں نہیں آتی ہیں جیسے لکڑی اوردرختوں کے پتے پرسجدہ کرے لیکن وہ چیزیں جو انسان کی خوراک وپوشاک میں استعمال ہوتی ہیں ان پرسجدہ کرناجائزنہیں ہے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مجھے پانچ ایسی چیزعطاکی گئی ہیں جومجھ سے پہلے کسی کونہیں دی گئی :زمین کومیرے لئے سجدہ گاہ اورپاک کرنے والی قراردیاگیاہے،میرے چہرے پردشمن کے لئے رعب وحشت عطاکرکے میری مددکی گئی ہے،مال غنیمت کومیرے لئے حلال قراردیاگیاہے،جوامع الکلام مجھے دی گئی ہیں اورمجھے شفاعت بھی عطاکی گئی ہے۔(۱)

ہشام ابن حکم سے مروی ہے میں نے امام صادق کی محضرمبارک میں عرض کیا:میں اپ پرقربان جاؤں مجھے ان چیزوں کے بارے میں مجھے مطلع کیجئے کہ کن چیزوں پرسجدہ کرناصحیح ہے اورکن پرصحیح نہیں ہے؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا: زمین پراوروہ چیزیں جوزمین سے اگتی ہیں سجدہ کرناجائز ہے لیکن زمین سے اگنے والی وہ چیزیں جوکھانے یاپہننے کے کام میں اتی ہیں ان پرسجدہ کرناجائزنہیں ہے،ہشام نے کہا:میری جان آپ پرقربان جائے اس کارازہے اورکیادلیل ہے؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا:کیونکہ سجدہ خداکے لئے ایک خضوع وتواضع کاحکم رکھتاہے لہٰذا کھانے اورپہننے کی چیزوں پرسجدہ کرناسزوارنہیں ہے کیونکہ دنیاکے لوگ کھانے ،پینے اورپہننے والی اشیاء کے معبودہیں گویاان کی پوچاکرتے ہیں لیکن سجدہ کرنے والاشخص خداکی عبادت کرتاہے لہٰذااسے چاہئے کہ دنیاکے فرزندوں کے معبودپرسجدہ کے لئے اپنی پیشانی کونہ رکھے جنھوں نے اس کادھوکاکھایاہے ،اس کے بعد امام (علیه السلام)نے فرمایا:زمین پرسجدہ کرناافضل ہے کیونکہ زمین پرسررکھنے سے انسان کے دل میں خداکے لئے اورزیادہ خضوع خشوع پیداہوجاتاہے ۔(۲)

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢۴١

۲) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٧٢

۲۲۶

رازطول سجدہ

سجدہ کوطول دینامستحب ہے ،سجدہ کوجت نازیادہ طولانی کیاجائے تواس کے لئے اتناہی زیادہ فضیلت کاباعث ہوتاہے اورشیطان کی ناراضگی اورمایوسی کاسبب واقع ہوتاہے لہٰذامستحب ہے کہ سجدہ کوطول دیاجائے تاکہ شیطان کی کمرٹوٹ جائے اوروہ نمازی کے پاس بھی نہ آسکے ۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب کوئی بندہ سجدہ کرتا ہے اور اس کو طول دیتا ہے تو شیطان بہت ہی حسرت سے فریاد کرتے ہوئے کہتا ہے : وائے ہومجھ پر ! الله کے بندوں نے اس کے فرمان کی اطاعت کی اور میں نے اس کے حکم کی خلاف ورزی کی، انھوں نے خداکی بارگاہ میں سجدہ کیااور میں نے اس سے خودداری کی ۔ وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ٢ ۶

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:اپنے سجدوں کوطولانی کروکیونکہ شیطان کے لئے اس سے زیادہ سخت اورپریشان کردینے والاعمل کوئی نہیں ہے کہ وہ اولادآدم(علیه السلام) کوسجدہ کی حالت میں دیکھے کیونکہ شیطان کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتواس نے نافرمانی کی (اورہمیشہ کے لئے لعنت کاطوق اس کے گلےمیں پڑگیا)اورانسان کوسجدہ کرنے کاحکم ملاتواسنے خداکے اس امرکی اطاعت کی (اورکامیاب ہوگیا)۔(۱) روایت میں آیاہے کہ ایک جماعت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس آئی اورکہا:یارسول الله!آپ ہمارے لئے اپنے پروردگارسے جنت کی ضمانت کرائیں توآنحضرت نے فرمایا:تم اس کام میں طولانی سجدوں کے ذریعہ میری مددکرو(تاکہ میں تمھارے لئے جنت کی ضمانت کروں)۔(۲)

حضرت علیسے روایت ہے ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں ایااورعرض کیا:یارسول الله!مجھے کسی ایسے کام کی تعلیم دیجئے کہ جس کے واسطہ سے خدامجھے اپنادوست بنالے اوراس کی مخلوق بھی مجھے دوست رکھے ،خدامیرے مال کوزیادہ کرے ،میرے جسم میں سلامتی دے ،میری عمرکوطولانی کرے اورمجھے آپ کے ساتھ محشورکرے ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:یہ چھ صفتیں چھ عمل کی محتاج ہیں اگرتو یہ چاہتاہے کہ خداتجھے دوست رکھے تواپنے دل میں خوف پیداکراورتقوااختیارکر،اوراگرتو یہ چاہتاہے کہ بندے بھی تجھے دوست رکھیں توان کے حق میں نیکی کراوروہ چیزجومخلوق کے ہاتھوں میں ہے اس سے پرہیزکر،اوراگرتو یہ چاہتاہے کہ خداتیرے مال کوزیادہ کردے توزکات اداکر،اوراگرتواپنے جسم کی ت ندرستی وسلامتی چاہتاہے توزیادہ صدقہ دیاکر،اوراگرتواپنے طول عمرکی تمناکرتاہے توصلہ رحم کرتارہ ،اورتویہ چاہتاہے کہ خداتجھے میرے ساتھ محشورکرے توبارگاہ خداوندی میں جواکیلاہے اورقہاربھی ہے اپنے سجدہ کوطول دیاکر۔(۳)

____________________

۱). علل الشرایع/ج ٢/ص ٣۴٠

۲). مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ۴٧١

.۳) مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ۴٧٢

۲۲۷

فضل بن شاذان سے مروی ہے : ایک مرتبہ جب میں عراق پہنچا تودیکھا کہ ایک شخص اپنے ایک دوست کوملامت کررہا ہے اوراس سے کہہ رہاہے : اے بھائی ! توصاحب اہل وعیال ہے ،تجھے اپنے بچوں کی معیشت کے لئے کسب وکار کی ضرورت ہے اور مجھے خوف ہے کہ اگر تو ہمارے ساتھ تجارت کے لئے سفرنہیں کرے گاتوان سجدوں کی وجہ سے تیری آنکھوں کا نور ختم ہوجا ئے گااس نے جواب دیا : وائے ہو تجھ پر، تو !مجھے سجدہ کرنے کی وجہ سے ات نی زیادہ ملامت کررہاہے ،اگر ان سجدوں کی وجہ سے کسی کی آنکھوں کا نور چلاجاتاہے توپھرمحمدابن ابی عمیرکی آنکھوں کا نور ختم ہوجانا چاہئے تھا،مجھے بتاکہ تیرا ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جس نے نماز صبح کے بعد سجدہ شٔکرمیں سررکھاہواورظہرکے وقت تک بلند کیا ہو

فضل بن شاذان کہتے ہیں :میں اس شخص کی یہ بات سن کر محمدابن ابی عمیرکی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ سرسجدے میں ہے، بہت دیرکے بعد سجدے سے سراٹھایا ،میں نے ان سے طول سجدہ کے بارے میں پوچھاتوانھوں نے سجدے کو طول دینے کی فضیلت بیان کرنا شروع کی اور کہا:

اے فضل ! اگر تم جمیل ا بن درّاج کو دیکھیں گے تو کیاکہیں گے ؟ فضل کہتے ہیں کہ میں جمیل ابن درّاج کے پاس پہنچاتو انھیں بھی سجدے کی حالت میں پایا، اورواقعاًانھوں نے سجدے کو بہت زیادہ طول دیا ، جب سجدے سے بلند ہوئے تو میں نے کہا : محمد ابن ابی عمیر صحیح کہتے ہیں کہ آپ سجدے کو بہت زیادہ طول دیتے ہیں ، جمیل نے کہا : اگر تم “معروف خربوز ”کو دیکھیں گے توکیاکہیں گے ؟

دوسری حدیث میں آیاہے کہ ایک شخص نے جمیل ابن درّاج سے کہا : تعجب ہے کہ آپ سجدے میں کت نازیادہ تو قّف کرتے ہیں اور بہت طولانی سجد ہ کرتے ہیں؟ جواب دیا :اگر تم نے حضرت امام جعفر صادق کو دیکھاہوتا تو تمھیں معلوم ہوجاتا کہ ہمارے یہ سجدے ان کے مقابلہ میں کچھ بھی طولانی نہیں ہیں۔(۱)

____________________

۱). ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢٨٩ /ص ٩٢

۲۲۸

سجدہ گاہ کی رسم کاآغاز

کسی پتھریاخاک کوسخت کرکے سجدہ گاہ قراردیناقدیمی رسم ہے اوراسے مذہب تشیع کی اختراع وایجادقراردینابالکل غلط ہے کیونکہ جب دین اسلام میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ اورآپ کی اتباع کرنے والے نمازمیں زمین پرسجدہ کرتے تھے لیکن جب الله ورسول اوراس کی نازل کی گئی کتاب پرایمان لانے والوں کی میں اضافہ ہوتاگیااوردین اسلام رونق افروزہوتاگیااوررسول اسلام (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرے مدینہ پہنچے توآپ نے زمین کے ایک ٹکڑے کومحل عبادت ومسجدکے عنوان سے معین کیااورزمین پرعلامت لگادی گئی کہ یہ جگہ محل عبادت ہے اورتمام مسلمان اس جگہ نمازاداکریں گے ،اس وقت اس کی کوئی چہاردیواری نہیں تھی اوراس زمین پرچھت وغیرہ بنائی گئی تھی اورنہ کسی سایہ کاانتظام کیاگیاتھا،جب یہ دیکھاگیااس زمین محل عبادت میں کوئی نجس جانوربھی چلاآتاہے تواس کی چہاردیواری کردی گئی مگراس وقت اس زمیں پرکسی چھت یاسایہ کاانتظام نہیں گیااورت نہ ہونے کی وجہ سے دوپہرکی جلتی دھوپ میں نمازپڑھنابہت مشکل کام تھااسی سردی کی ٹھنڈک میں نمازپڑھنانہایت مشکل تھالہٰذاآنحضرت سے لوگوں نے کہا:اے الله کے پیارے نبی !اس تپتی زمین پرپیشانی رکھنابہت مشکل ہے اورہماری پیشانی جلی جاتی ہیں (کیاہم زمین کے علاوہ اپنے ساتھ میں موجودکسی کپڑے پر سجدہ کرسکتے ہیں؟) پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان کی بات کونہ سنااور اسی طرح زمین پرسجدہ کرنے کاحکم دیااورتمام مسلمان زمین پرسجدہ رہے ۔ بیہقی نے اپنی کتاب “سنن کبری”میں خباب ابن ارث سے روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ:ہم نے زمین سجدہ کرنے بارے میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے گرمی کی شدت کی شکایت کی اورکہا:یانبی الله!نمازکی حالت میں گرم پتھریوں پرسجدہ کرنے سے ہماری پیشانی اورہتھیلیاں منفعل ہوجاتی ہیں(پس ہم کیاکریں؟)رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)ان بات پرشکایت کوئی دھیان نہیں دیااورنہ ہی کسی نئی چیزکااظہارکیابلکہ اسی طرح سجدہ کرنے کاحکم دیااورہم زمین پرسجدہ کرتے رہے۔(۱)

____________________

.۱) سنن کبروی/ج ٢/ص ١٠۵

۲۲۹

اسی زمانہ میں ایک صحابی نے نمازجواعت شروع ہونے سے قبل زمین سے ایک پتھری اٹھائی اوراسے ٹھنڈاکرلیااورنمازمیں اسی پرسجدہ کیا،اس کایہ عمل رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کرپسندآیااور آنحضرت نے اس کی تائیدکردی اس روزکے بعدلوگوں نے یہ کام شروع کردیااورنمازشروع ہونے سے قبل پتھری اٹھانے لگے اوراسی پرسجدہ کرنے لگے اوربعث اسلام ہی سے کسی ایک چیزکوسجدہ گاہ قرادینا مشروعیت ہوگیا۔ بیہقی نے اپنی کتاب “سنن کبری”میں یہ رویات نقل کی ہے: ابوولیدسے مروی ہے کہ میں نے فرزندعمرسے سوال کیا:وہ کون شخص ہے جو مسجدمیں سب سے پہلے سنگریزہ لایا؟جواب دیا:مجھے اچھی طرح یادہے کہ بارش کی رات تھی اورمیں نمازصبح کے لئے گھرسے باہرآیاتودیکھاکہ ایک مردریگ پرٹہل رہاہے ،اس نے ایک مناسب پتھری اٹھائی اوراسے اپنے کپڑے میں رکھااوراس پرسجدہ کیاجب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اسے اس کام کوکرتے دیکھاتوبہت خرسندی اورخوشحالی کے ساتھ عرض کیا:یہ تونے کت نااچھاکام کیاہے ،پس یہ پہلاشخص ہے کہ جس نے اس چیزکی ابتداء کی ہے۔(۱)

اسی واقعہ سے یہ ثابت ہے کہ کسی چیزکو سجدہ گاہ کاعنوان قراردیناصحیح ہے یہی وہ شخص ہے کہ پہلی مرتبہ کسی چیزکوبعنوان سجدہ گاہ مسجدمیں اپنی جانمازپرقراردیاہے۔ جب مسجدمیں کسی چیزکوسجدہ گاہ کے طورپرلاناصحیح قرارپاگیاتواس کے اصحاب نے شدیدگرمی کی شکایت کی اورکہا:یانبی الله!ہم پیشانی اورہتھیلیوں کے جلنے سے محفوظ ہوگئے ہیں،ہرشخص ایک پتھری کوبطورسجدہ پہلے ہی اٹھالیتاہے اوراسے ٹھنڈی کرلیتاہے مگراس جسم کے جلنے کابھی کوئی علاج کیاجائے کیونکہ دھوپ میں کھڑے ہوکرنمازپڑھنابہت ہی مشکل کام ہے پس رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)ن حکم دیاکہ مسجدکے ایک حصہ میں چھت بنادی جائے تاکہ لوگ گرمی اور سردی سے محفوظ رہ سکیں ،فرمان رسول کے مطابق مسجدکے ایک حصہ میں چھت بنادی گئی اورمسلمان سایہ میں نمازپڑھنے لگے کچھ قرائن وشواہدسے معلوم ہوتاہے کہ خلفائے راشدین کے زمانہ تک مسجد میں کسی فرش اورچٹائی وغیرہ کاکوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا بلکہ لوگ زمین ہی پر سجدہ کرتے تھے ،خلیفہ دوم نے اپنے زمانہ حکومت میں حکم دیاکہ مسجدمیں پتھریاںڈادی جائیں تاکہ نمازی لوگ اس پرسجدہ کر تے رہیں،خلفائے راشدین کے بعدصحابہ اورتابعیں کے زمانہ میں بھی یہی معمول تھا اورلوگ پتھریوں پرسجدہ کرتے تھے یاکسی چھوٹے سے پتھرکویاتھوڑی سی خاک اٹھاکرجانمازپربطورسجدہ گاہ رکھ لیاکرتے تھے اوراس پرسجدہ کرتے تھے یہاں تک کہ خاک کوپانی ذریعہ گیلی کرکے سخت کرلیاکرتے اوراسے سجدہ قراردئے کرتھے اوریہ روش آج تک شیعوں کے درمیان قائم ورائج ہے پس شیعوں کاکسی پتھرکویاخاک کوسخت کرکے سجدہ گاہ قراردیناکوئی نئی ایجادنہیں ہے بلکہ یہ روش توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے زمانہ سے شروع ہے

____________________

. ١)سنن کبروی/ج ٢/ص ۴۴٠ (

۲۳۰

خلیفہ دوم کے مسجدمیں سنگریزے ڈلوانے اوراس پرسجدہ کر نے کے بارے میں ابن سعد اپنی کتاب “الطبقات”میں یہ رویات نقل کی ہے: عبدالله ابن ابراہیم سے مروی ہے :عمرابن خطاب وہ شخص ہیں کہ جنھوں نے سب سے پہلے مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں پتھریاںڈلوائیں لیکن ان کے اس کام کی وجہ یہ تھی کہ جب لوگ نمازڑھتے تھے اورسجدہ سے سربلندکرتے تھے تواپنے ہاتھوں کوجھاڑتے تھے جوکہ گردآلوہوجاتے تھے یاپھونک مارتے تھے تاکہ گردجھڑجائے لہٰذاحضرت عمرنے حکم دیاکہ وادی عقیق سے پتھریاں اٹھاکرمسجدمیں بچھادی جائیں ۔ المصنف /ج ٨/ص ٣ ۴۵ ۔کنزالعمال/ج ١٢ /ص ۵۶ ٣ ۔الطبقات الکبری/ج ٣/ص ٢٨ ۴ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے تابعین میں سے ایک شخص جن کانام مسروق بن اجدع تھاانھوں نے خاک مدینہ سے بعنوان سجدہ گاہ ایک چھوٹی سی خشت (یعنی اینٹ)بنارکھی تھی اوروہ جب بھی کہیں سفرکرتے تھے تواسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اوراس پرسجدہ کرتے تھےاس بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب “المصنف ”میں ابن سیرین سے اس طرح روایت نقل کی ہے:

ابن سیرین سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: میں باخبراورآگاہ ہواہوں کہ مسروق ابن اجدع نے خاک مدینہ سے ایک اینٹ کوبنارکھی تھی ،جب بھی وہ کشتی میں سفرکرتے تھے تواسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اوراسی پرسجدہ کرتے تھے ۔(۱)

ابن ابی عینیہ سے مروی کہ میں نے ابن عباس کے ایک غلام “رزین”کویہ کہتے سناہے :وہ کہتے ہیں کہ علی ابن عبدالله ابن عباس نے میرے پاس ایک خط لکھااوراس میں مجھ سے فرمائش کی کہ میرے لئے “مروہ ” سے ایک صاف ستھراپتھرروانہ کردوتاکہ میں اس پرسجدہ کروں۔(۲)

ان روایتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کسی چیزکوسجدہ گاہ قراردیناشیعوں سے مخصوص کرناغلط ہے بلکہ یہ توآغازاسلام ہی سے دین اسلام میں مشروعیت رکھتاہے جیساکہ پہلے ایک روایت میں و ذکرکرچک ہیں کہ ایک شخص نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے زمانہ میں نمازشروع ہونے سے پہلے ایک چھوٹاساپتھراٹھایااوراسے ٹھنڈاکرلیااورپھراس پرنمازمیں سجدہ کیااورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کے اس کام کی صحیح ہونے کی تائیدبھی کی،کیااس شخص نے اس پتھرکوسجدہ گاہ قرارنہیں دیاتھا؟کیامسروق ابن اجدع خاک مدینہ سے سجدہ گاہ نہیں بنارکھی تھی ؟اورکیاعلی ابن عبدالله ابن عباس نے رزین کے پاس خط لکھ کرمروہ سے ایک پتھرکوبعنوان سجدہ گاہ طلب نہیں کیاتھا؟۔

____________________

۱). المصنف /ج ٢/ص ١٧٢

۲). تاریخ مدینہ دمشق/ج ۴٣ /ص ۵٠ ۔المصنف /ج ١/ص ٣٠٨

۲۳۱

خاک شفاپرسجدہ کرنے کاراز

ہم اوپریہ ثابت کرچکے ہیں کہ سجدعہ گاہ بناناکوئی ایجادواختراع نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے اوائل سے ہی سے رائج ہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کی تائیدکی ہے لیکن اب ہمیں یہ ثابت کرناہے کہ بعض جگہ کی خاک بہت ہی زیادہ صاحب تکریم وتفضیل ہوتی ہے اورقابل احترام ہوتی ہے

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے چچاجناب حمزہ جنگ احدمیں شہیدہوئے اورکفارومشرکین ان کے لاشہ کے ساتھ یہ سلوک کیاکہ ابوسفیان کی بیوی (مادرمعاویہ )نے جگرچاک کیااوراسے اپنے ناپاک دانتوں سے چبایا

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے حضرت حمزہ کو“سیدالشہداء ” کالقب دیا اورعملی طورسے دین اسلام کی اتباع کرنے والوں کواس خاک کے متبرک ہونے کو سمجھانے کے لئے حضرت حمزہ کی قبرسے تھوڑی سی خاک اٹھائی اوراسے اپنے ساتھ لے گئے ،صدیقہ کٔبریٰ حضرت فاطمہ زہرا نے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کی ابتاع کی اورآپ نے بھی حضرت حمزہ کے حرم سے خاک اٹھائی اوراس سے ایک تسبیح تیارکی

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے نواسہ حضرت امام حسیناورجوانان بنی ہاشم کو ان کے اصحاب وانصارکے ساتھ سرزمین کرب وبلاپرنہایت ظلم وبے رحمی کے ساتھ شہیدکیاتوسیدالشہداء کالقب حضرت حمزہ سے حضرت امام حسین کی طرف منتقل ہوگیااورآپ کے حرم مطہرکی خاک خاک شفاقرارپائی ،امام زین العابدیننے عملی طورسے قرآن وعترت کی اتباع کرنے والوں کواس خاک کی عظمت وبرکت کوسمجھانے کے لئے امام حسین کے مرقدمطہرسے بعنوان تبرک کچھ خاک اٹھائی اوراس سے سجدہ گاہ بنائی اوراس کے بعدجب بھی نمازپڑھتے تھے تواسی تربت پاک پرسجدہ کرتے تھے اورآپ کے شیعہ بھی اسی خاک پاک پرسجدہ کرنے لگے

امام زین العابدین کے بعددیگرآئمہ اطہار نے بھی اسی سیرت پرعمل کیااوراسے جاری رکھااوریہی سیرت آج تک ان کی اتباع کرنے والوں درمیان رائج وقائم ہے تربت کربلاکی اہمیت اوراس پرسجدہ کرنے کی فضیلت کے بارے میں چندروایت مندرجہ ذیل ذکرہیں:

۲۳۲

امام صادق فرماتے ہیں:رسول خدا (صلی الله علیه و آله)ام سلمہ کے گھر موجود تھے اوران سے کہہ رہے تھے :مجھے اس وقت یہاں پرت نہائی کی ضرورت ہے (پس تم کمرے سے باہرچلی جاؤ) اوردیکھو!کوئی میرے پاس آنے نہ پائے ،اتقاقاًامام حسین آگئے، لیکن چونکہ امام حسیناس وقت بہت ہی کمسن تھے لہٰذاام سلمہ انھیں کمسنی کی وجہ سے نہ روک سکیں،جسبہانہ سے سے بھی روکناچاہاکامیاب نہ ہوسکیں اورامام حسین رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس پہنچ گئے چند لحظہ بعدام سلمہ امام حسین کے پیچھے آئیں تودیکھاکہ حسین (علیه السلام) پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے سینہ مٔبارک پہ بیٹھے ہوئے ہیں اورآنحضرتاپنے ہاتھوں میں ایک چیزلئے ہوئے ہیں جسے گھماپھراکردیکھ رہے ہیں اورگریہ کررہے ہیں(میں نے پوچھا؟ یانبی الله! یہ آپ کے ہاتھ میں کیاہے ؟تو) آنحضرت نے فرمایا: اے ام سلمہ !ابھی میرے جبرئیل آئے تھے اورانھوں نے مجھے خبردی ہے کہ تمھارایہ بچہ (حسین (علیه السلام))قتل کردیاجائے گااوریہ چیزکہ جسے میں اپنے ہاتھوں میں گھماکردیکھ رہاہوں اسی سرزمین کی خاک ہے کہ جسپریہ میرانواسہ قتل کردیاجائے گا اے ام سلمہ! (جب میرایہ نواسہ قتل کیاجائے گااس وقت میں زندہ نہ ہوں گا مگر تم اس وقت زندہ ہونگی)پس میں اس خاک کو تمھارے سپردکرتاہوں تم اس خاک کو ایک شیشی میں رکھدواوراس کی حفاظت کرتے رہنا اوریادرکھناجب یہ خاک خون ہوجائے توسمجھ لیناکہ میرایہ عزیز شہیدکردیاگیاہے

ام سلمہ نے کہا:یارسول الله!خداسے کہوکہ وہ اس عظیم مصیبت کواس بچہ سے دورکردے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:میں نے خداوندعالم سے اس مصیبت کے دفع ہوجانے کوکہا توخدانے مجھ پروحی نازل کی:یہ شہادت اس بچہ کے لئے ایک بلندمقام ہے جواس بچہ سے پہلے کسی بھی مخلوق کوعطانہیں کیاگیاہے اورخداوندعالم نے مجھ سے وحی کے ذریعہ بتایاکہ اس بچہ کی پیروی کرنے والے لوگ قابل شفاعت قرارپائیں گے اورخودبھی دوسروں کی شفاعت کریں گے

بیشک مہدی صاحب الزمان (عج ) اسی حسین (علیه السلام)کے فرزندوں میں سے ہیں،خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جوان کودوست رکھتاہوگااوربیشک روزقیامت ان ہی کے شیعہ کامیاب وسربلندہونگے ۔(۱)

____________________

۱). امالی(شیخ صدوق)/ص ٢٠٣

۲۳۳

قال الصادق علیه السلام:السجودعلی طین قبرالحسین (عینورالیٰ الارضین السبعة ،ومن کانت معه سبحة من طین قبرالحسین (عکتب مسبح اوان لم یسبح بها ۔ امام صادق فرماتے ہیں:امام حسینکی خاک قبرپرسجدہ کرناساتوں زمینوں کومنور کردیتاہے اورجوشخص تربت امام حسینکی تسبیح اپنے ہمراہ رکھتاہوچاہے اس کے دانوں پرکوئی ذکربھی نہ پڑھے پھربھی تسبیح کرنے والوں میں شمارہوگا۔(۱)

عن معاویه بن عمارقال:کان لابی عبدالله علیه السلام خریطة دیباج صفراء فیهاتربة ابی عبدالله علیه السلام فکان اذاحضرته الصلاة صبّه علی سجادته وسجدعلیه ثمّ قال(ع:انّ السجودعلی تربة ابی عبدالله الحسین علیه السلام یخرق الحجب السبع ۔ معاویہ ابن عمارسے روایت ہے کہ:امام صادق کے پاس ایک پیلے رنگ کی تھیلی تھی جس میں امام (علیه السلام)خاک شفا رکھتے تھے ،جیسے ہی نمازکاوقت پہنچتاتھا تو اس تربت کوسجادہ پرڈالتے اوراس پرسجدہ کرتے تھے ،اگرکوئی آپ سے اس بارے میں سوال کرتاتھاتوفرماتے تھے :تربت امام حسین پرسجدہ کرناسات (آسمانی )پردوں کوپارہ کردیتاہے ۔(۲)

کان الصادق علیه السلام لایسجدالّاعلیٰ تربة الحسین علیه السلام تذللا لله واستکانة الیه ۔

روایت میں آیاہے کہ امام صادق تربت امام حسینکے علاووہ کسی دوسری پرخاک سجدہ نہیں کرتے تھے اوریہ کام(یعنی خاک کربلاپرسجدہ کرنا)خضوع وخشوع خداوندمتعال میں زیادتی کے لئے انجام دیاکرتے تھے۔(۳)

___________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢ ۶ ٨

.۲) بحارالانوار/ج ٩٨ /ص ١٣ ۵

۳). وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۶ ٠٨

۲۳۴

رازتشہد

تشہدمیں چارچیزواجب ہیں: ١۔بیٹھنا ٢۔طمانینہ ٣۔شہادتین ۴ ۔محمدوآل محمد پردرودبھیجنا۔

ہردورکعتی نمازمیں ایک مرتبہ اورتین یاچاررکعتی نمازمیں دومرتبہ تشہد پڑھنا واجب ہے ۔ ہرنمازی پرواجب ہے کہ تمام دورکعتی نمازکی دوسری رکعت کے دونوں سجدے بجالانے کے بعداوراسی طرح چاررکعتی نماز(ظہروعصروعشاء)کی دوسری وچوتھی رکعت کے بعداورتین رکعتی نماز(مغرب)کی دوسری وتیسری رکعت کے دونوں سجدے بجالانے کے بعد خضوع وخشوع کے ساتھ زمین پربیٹھے اورجب بدن ساکن ہوجائے توالله کی وحدانیت اورپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی رسالت کی گواہی دے اورمحمدوآل محمدپرصلوات بھیج کران کی ولایت واطاعت کاثبوت دے اورتشہدمیں صرف اتناکہناکافی ہے:

اَشْهَدُاَنْ لَااِلٰهَ اِلّاالله وَحْدَه لَاشَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُه وَرَسُولُه ، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّدٍ ۔

امام صادق فرماتے ہیں:پہلی دورکعتوں(کے سجدہ کرنے کے بعدبیٹھ جائیں )اوراس طرح تشہدپڑھیں:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، اَشْهَدُاَنْ لَااِلٰهَ اِلّاالله وَحْدَه لَاشَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُه وَرَسُولُه ، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّد، وَتَقبَّلْ شَفَاعَتَه فِیْ اُمَّتِه وَارْفَعْ دَرَجَتَه ۔(۱)

حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سات آسمانی حجاب کو عبورکرتے ہوئے “قاب قوسین اوادنیٰ ”کے مقام تک پہنچے توپروردگارنے آپ کو نماز پڑھنے کاحکم دیاجب دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ سے سر بلندکیاتوخداندعالم نے کہا:اے محمد!بیٹھ جاؤ، پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرمان الٰہی کے مطابق بیٹھ گئے ،وحی نازل ہوئی :اے محمد!میں نے تم پرجونعمتیں نازل کی ہیں اس کے بدلہ میں میرانام اپنی زبان پرجاری کرواورالہام کیاگیاکہ یہ کہو:

بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَااِلٰهَ اِلّاالله وَالْاَسْمَاءِ الْحُسْنیٰ کُلّهَا ۔ اس کے بعدوحی الٰہی نازل ہوئی کہ اے محمد!اپنے آپ پراوراپنے اہلبیت پردرودبھیجو،توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے کہا:صَلّی اللهُ عَلَیَّ وَعَلیٰ اَهْلِ بَیْتِیْ ۔(۲)

____________________

۱) تہذیب الاحکام / ٢/ص ٩٢

۲). الکافی/ج ٣/ص ۴٨۶

۲۳۵

حقیقت یہ ہے کہ ہرنمازی تشہدکے ذریعہ الله کی وحدانیت اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رسالت کااقرارکرتاہے ،ان دونوں گواہی کوشہادتین کانام دیاجاتاہے اور توحیدونبوت کااقرارکرنااصول دین کی مہم اصل ہیں،انسان ان دونوں کلموں کوزبان پرجاری کرنے سے دین اسلام سے مشرف ہوجاتاہے ،یہ دونوں گواہی اسلام میں داخل ہونے اورکفروشرک جیسی باطنی پلیدگی اورجسمانی نجاست سے پاک ہونے کی کنجی ہیں ۔ نمازمیں شہادتین کوتجدیدبیعت کے عنوان سے واجب قراردیاگیاہے ،ہرنمازی روزانہ ٩مرتبہ اپنی واجب نمازوں میں ان دونوں کلموں کوزبان پرجاری کرکے الله اوراس کے رسول حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی تجدیدبیعت کرتاہے اورہرروزان کلموں کی تکرارکرناانسان کے ایمان وعقیدہ کومضبوط بناتاہے ،بے نمازی لوگوں کاایمان وعقیدہ ضعیف وکمزورہوتاہے اورشیطان اسپرغالب رہتاہے ۔

فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں: اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ دوسری رکعت کے بعدتشہدپڑھناکیوں واجب قراردیاگیاہے ؟ اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ جس طرح رکوع وسجودسے پہلے اذان،دعااورقرائت کولایاگیاہے اسی طرح ان دونوں کے بعد تشہد، تحمید اور دعا کو قرار دیا گیا ہے۔(۱)

راز تورک

مردکے لئے مستحب ہے کہ سجدہ سے سربلندکرنے بعداس طرح بیٹھے کہ بدن کا زوربائیں ران پررہے اوردائیں ران تھوڑاسابائیں ران کے اوپرقرارپائے اوردائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھے اسی طرح دونوں سجدونوں کے درمیان بیٹھنامستحب ہے، اس حالت سے بیٹھنے کو تورّک کہاجاتاہے لیکن عورت کے لئے مستحب ہے کہ اپنی رانوں کوآپس میں ملائے رکھے ۔

دائیں جانب کوحق اوربائیں جانب کوباطل کہاجاتاہے لہٰذانمازمیں تشہدپڑھتے وقت دائیں ران کواٹھاکرتھوڑاسابائیں پراوردائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھناباطل کونابوداورمٹادینے کی طرف اشارہ ہوتاہے اسی لئے تورّک کوتشہدمیں مستحب قراردیاگیاہے اسی مطلب کے بارے میں امام معصوم(علیه السلام) سے “من لایحضرہ الفقیہ” ایک حدیث نقل کی گئی ہے:

روایت میں آیاہے کہ ایک شخص نے امام علی ابن ابی طالب سے پوچھا:اے خداکی محبوب ترین مخلوق(حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)) کے چچازادبھائی!تشہدمیں دائیں ران کوبلندرکھنااوربائیں ران کونیچے رکھناکارازوفلسفہ کیاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:یعنی

____________________

.۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٢۶٢

۲۳۶

اللّٰهمّ اَمِتِ البَاطل وَاَقِمِ الْحَق ۔

بارالٰہا!باطل کونابودکردے اورحق کوسربلندوقائم رکھ،(کیونکہ داہناعضو حق اور سچائی کامظہرہوتاہے اوربایاں باطل وجھوٹ کاکنایہ ہوتاہے ،اسی لئے تشہدمیں دائیں ران اورقدم کوبائیں ران اورقدم کے اوپررکھنے کومستحب قرار دیاگیاہے تاکہ کفروباطل دب کرمرجائے ،نابودہوجائے اورحق بلندہوجائے )

اس شخص نے دوبارہ سوال کیااورکہا:امام جماعت کاسلام میں “السلام علیکم ”کہنے کاکیامقصدہوتاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:انّ الامام یترجم عن الله عزوجل ویقول فی ترجمته لاهل الجماعة ا مٔان لکم من عذاب الله یوم القیامة ۔

بیشک امام جماعت خداوندمتعال کی جانب سے اس کے بندوں کے لئے ترجمانی کرتاہے جواپنے ترجمہ میں اہل جماعت سے خداکی طرف کہتاہے مومنین سے کہتاہے :تمھیں روزقیامت کے عذاب الٰہی سے امان ونجات مل گئی ہے ۔(۱)

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ میں مولاامیرالمومنین علی ابن ابی طالب کی خدمت میں موجودتھا،آپ نے ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے دیکھاجب وہ نمازسے فارغ ہواتومولانے اس سے پوچھا:اے مرد!کیاتم نمازکی تاویل وتعبیرسے آشنائی رکھتے ہو؟اس نے جواب دیا:میں عبادت کے علاوہ نمازکی کوئی تاویل وتعبیرنہیں جانتاہوں،میں فقط اتناجانتاہوں کہ نمازایک عبادت ہے ،امام (علیه السلام)نے اسسے فرمایا: قسم اس خدا کی جس نے محمد (صلی الله علیه و آله)کونبوت عطاکی، خداوند عالم نے جت نے بھی کام نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کوبجالانے کاحکم دیاہے اس میں کوئی رازاورتعبیرضرورپائی جاتی ہے اوروہ سب کام بندگی واطاعت کی نشانی ہیں ،اس مردنے کہا:اے میرے مولا!آپ مجھے ان سے ضرورآگاہ کیجئے اوربتائے کہ وہ کیاچیزیں ہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:تشہدپڑھتے وقت بائیں ران پربیٹھنااوردائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھنااوردائیں ران کوتھوڑاسابلندکرکے بائیں ران رکھناتاکہ وہ تھوڑی سی دب جائے (اس طرزسے بیٹھنے کو تورّک کہاجاتاہے)کامطلب یہ ہے نمازی اپنے دل میں یہ ارادہ کرے:بارالٰہا!میں نے حق کواداکیااورباطل کودفنادیاہے ہے ،تشہدیعنی تجدیدایمان اوراسلام کی طرف بازگشت اورمرنے کے بعددوبارہ زندہ ہونے کااقرارکرنااورتشہدکے یہ بھی معنی ہیں:میں الله کوان سب باتوں سے بزرگ وبرترمانتاہوں جوکفارومشرکین اس کی توصیف کرتے ہیں۔(۲)

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢٠

۲). بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣

۲۳۷

رازصلوات

تشہدنمازمیں صلوات کے واجب قراردئے جانے کارازیہ ہے: نمازگزارکے لئے ضروری ہے کہ اپنے دل میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے علاوہ ان کی آل اطہارکی بھی محبت رکھتاہواوران کے دشمن سے بیزاری بھی کرتاہو،نمازگزارکے لئے ضروری ہے کہ وہ تابع امامت وولایت ہونے کاثبوت دے ،اورصاحب محبت ومودت محمدآل محمدہونے کاثبوت دے اسی لئے نمازمیںصلوات واجب قراردیاگیاہے کیونکہ صلوات کے ذریعہ ولایت کاثبوت دیاجاتاہے کہ جس کے بغیرنمازہرگزقبول نہیں ہوتی ہے ،بارگاہ خداوندی میں صرف انھیں لوگوں کی نمازقبول ہوتی ہے جوآ ل محمدکی محبت ومودت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں اوراپنے دلوں میں ال رسول کی محبت کاچراغ روشن رکھتے ہیں لیکن اگران کی محبت کاچراغ دل میں روشن نہیں ہے تووہ عبادت بے کارہے اورالله کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی ہے،نمازو عبادت اسی وقت فائدہ مندواقع ہوسکتی ہے جب نمازکواہلبیت کی محبت و معرفت اوران کی اطاعت وولایت کے زیرسایہ انجام دیاجائے ،اہلبیت کی محبت وولایت کے بغیرسب نمازیں بےکارہیں۔

قال رسول الله صلی الله علیه آله وسلم : من صلی صلاة ولم یصل علیّ فیهاوعلیٰ اهل بیتی لم تقبل منه ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : جو شخص نماز پڑھے اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہے۔

نمازمیں صلوات کواس لئے واجب قراردیاگیاہے کیونکہ تاکہ اس کے ذریعہ اہلبیت اطہار کی ولایت ومحبت کااقرارکیاجاتاہے اورنمازمیں محمدوآل محمدعلیہم الصلاة والسلام پردرودبھیجنانمازکے صحیح وکامل اورمقبول ہونے کاثبوت ہے لہٰذااگرکوئی شخص صلوات کوترک کردے تواس کی نمازباطل ہے

عن ابی یصیروزرارة قالا: قال ابو عبدالله علیه السلام :من تمام الصوم اعطاء الزکاة (یعنی الفطرة کماان الصلاة علی النبی صلی الله علیه وآله من تمام الصلاة ومن صام ولم یو دٔهافلاصوم له ان ترکهامتعمداً ، ومن صلی ولم یصل علی النبی صلی الله علیه وآله وترک متعمدافلاصلاة له . ابوبصیراورزرارہ سے مروی ہے :امام صادق فرماتے ہیں:روزہ زکات فطرہ کے ذریعہ مکمل(اورقبول) ہوتاہے جس طرح نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پرسلام کے مکمل اورقبول ہوتی ہے ، پس اگرکوئی شخص روزہ رکھے اورعمداًزکات فطرہ دیناترک کردے تواس کاروزہ قبول نہیں ہوتاہے اورجوشخص نمازپڑھے اورعمداًمحمدوآل محمد علیہم الصلاة والسلام پردرودنہ بھیجے تواس نمازقبول ہوتی ہے۔

____________________

۱). الغدیر(علامہ امینی)/ج ٢/ص ٣٠۴

۲۳۸

رازسلام

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نمازکومومن کی معراج قراردیاہے اور جو شخص بارگاہ ملکوتی کی طرف پروازکرتاہے تومعنوی طورسے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجاتاہے لہٰذاجیسے ہی مومن سفرالٰہی اورمعراج سے واپس آتاہے تواسے چاہئے کہ سب پہلے الله کی محبوب ترین وعظیم الشان مخلوق حضرت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پرسلام بھیجے اس کے بعدتمام انبیاء وصلحاء کوسلام کرے اسکے بعدتمام مومنین کوسلام کرے ۔ نمازی سلام کے ذریعہ نمازسے فارغ ہوجاتاہے اوروہ چیزیں جوتکبیرة الاحرام کہنے کے ساتھ حرام ہوجاتی ہیں مثلاکسی چیزکاکھانا ،سونا،قبلہ سے منحرف ہوناوغیرہ یہ سب سلام کے ذریعہ حلال ہوجاتی ہیں۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:مفتاح الصلاة الطهور وَتحریمِهاالتکبیر وتحلیلهاالسّلام ولایقبل الله صلاةً بغیرالطهور.

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:طہارت نمازکی کنجی ہے اورتکبیر“الله اکبر”اس کی تحریم ہے اورسلام نمازاس کی تحلیل ہے(یعنی جوچیزیں نمازکے منافی ہیں وہ تکبیرکے ذریعہ حرام ہوجاتی ہیں اورسلام کے بعدحلال ہوجاتی ہیں)اورخداوندعالم بے طہارت لوگوں کی نمازقبول نہیں کرتاہے.(۱)

رازسلام کے بارے میں حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) معراج پرتشریف لے گئے اورآپ کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ نے نمازپڑھناشروع کی اورتشہدوصلوات کوانجام دینے کے بعدملائکہ وانبیائے کرام کونمازمیں حاضردیکھا،حکم پروردگارہوا :اے محمد!ان سب کوسلام کرو،پس آنحضرت نے کہا: ”السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

پروردگاکی طرف سے وحی نازل ہوئی:

ان السلام والتحیة والرحمة والبرکات انت وانت وذریتک تم پراورتمھاری آل پرخداوندعالم کی رحمت ،برکت اورسلامت نازل ہو،اس کے بعدوحی نازل ہوئی :اے پیغمبر!اب اپنے دائیں جانب متوجہ ہوجاؤ۔(۲)

____________________

.۱) بحارالانوار/ج ٧٧ /ص ٢١۴

۲). کافی/ج ٣/ص ۴٨۶

۲۳۹

فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں :نمازمیں تکبیریاتسبیح یا کسی اوردوسری چیزکوتحلیل نمازنہیں قراردیاگیاہے بلکہ سلام کوتحلیل نماز قراردیا گیاہے اورسلام کوتحلیل نمازقراردئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ (تکبیرة الاحرام کے ذریعہ) نمازمیں داخل ہوتے ہی بندوں سے کلام وباتیں کرناحرام ہوجاتاہے اورپوری توجہ خالق کی معطوف ہوجاتی ہے ،جب انسان نمازتمام کرے اورحالت نمازسے فارغ ہونے لگے تومخلوق سے کلام کرناحلال ہوجاتاہے اورمخلوق سے باتوں کی ابتداء سلام کے ذریعہ ہونی چاہئے اسی لئے سلام کوتحلیل نمازقراردیاگیاہے۔(۱)

محمدابن سنان نے مفضل ابن عمرسے ایک طولانی روایت نقل کی ہے ،مفضل کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق سے پوچھا:نمازمیں سلام کے واجب قراردئے جانے کی کیاوجہ ہے ؟

امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ سلام تحلیل نمازہے میں نے عرض کیا:اس کی کیاوجہ ہے کہ نماز گزار کو سلام پڑھتے وقت اپنی دائیں جانب نگاہ کرناچاہئے اوربائیں جانب سلام نہیں دیناچاہئے ؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا : کیونکہ وہ مو کٔل فرشتہ جو انسان کی نیکیوں کو لکھتا ہے وہ دا ئیں جانب رہتا ہے اور وہ فرشتہ جوبرائیوں کو درج کرتاہے وہ بائیں جانب رہتا ہے اور(صحیح ومکمل )نمازمیں نیکیاں ہی نیکیاں پائی جاتی ہیں اوربرائی کاکوئی وجودہی نہیں ہوتاہے اس لئے مستحب ہے کہ نماز گزار سلام پڑھتے وقت اپنی دائیں جانب نگاہ کرے نہ بائیں جانب میں نے پوچھا:جب دائیں جانب ایک فرشتہ مو کٔل ہے توسلام میں واحدکاصیغہ استعمال کیوں نہیں کرتے ہیں یعنی “السلام علیک ”(سلام ہوتجھ پر)کیوں نہیں کہتے ہیں بلکہ جمع کی لفظ استعمال کرتے ہیں اس کی کیاوجہ ہے کہ سلام “ السلام علیکم ” کہتے ہیں؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا: “السلام علیکم”اس لئے کہاجاتاہے تاکہ دائیں وبائیں جانب کے دونوںفرشتوں کوسلام کیاجاسکے لیکن دائیں جانب کے فرشتہ کی فضیلت دائیں طرف اشارہ کرنے سے ثابت ہوجاتی ہے ورنہ حقیقت میں دونوںفرشتوں کوسلام کیاجاتاہے ،میں نے کہا:ماموم کوتین سلام کیوں کہنے چاہئے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا: پہلاسلام امام جماعت کے سلام کا جواب اورامام جماعت کواورامام جماعت کے دونوںفرشتوں کو سلام کرنامقصودہوتاہے

دوسراسلام ان مومنین کے لئے ہوتاہے جواس کے دائیں جانب ہوتے ہیں اوران فرشتوں کوسلام کیاجاتاہے جو مومنین اورخود پرمو کٔل ہیں

____________________

۱). عیون اخبارالرضا(علیه السلام)/ج ١/ص ١١۵

۲۴۰